طلاق اور حلالہ Archives - Page 3 of 12 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

طلاق کی تعداد میں شک ہو تو کیا حکم ہے؟۔حلالہ کی لعنت پر زور کیلئے کیسے حدیں پار کردیں؟

طلاق کی تعداد میں شک ہو تو کیا حکم ہے؟۔حلالہ کی لعنت پر زور کیلئے کیسے حدیں پار کردیں؟

سوال:قریباً ساڑھے4سال میں (محمود شوکت ) میری بیوی اور بیٹی عمر6ماہ کے ہمراہ اپنے سسرال میں قیام پذیر تھا۔ میرا اپنا گھر پنجاب میں ہے، یہاں کراچی میں رہنے کی وجہ سے مجھے گیس ٹربل کی تکلیف تھی ۔ایک روز شدید تکلیف کا دورہ ہوا ، چھوٹی سالی سے تکرار کر بیٹھا، اس کی باتوں کو اپنی توہین سمجھتے ہوئے بیوی سے الجھا، اس سے پیشتر بیوی سے تعلقات اچھے تھے، کوئی جھگڑا نہ تھا، لیکن اس وقت شدید غصے میں اور مرض کی تکلیف میں مبتلا ہوتے ہوئے نادانی میں تحریراً طلاق لکھ دی، یہ عمل صرف سسرال پر دباؤ ڈالنے کیلئے تھا، اسلئے مجھے طلاق کی تعداد کا کامل یقین نہیں کہ کتنی دفعہ دی ۔ دوسرے روز اپنی حرکت پر اس قدر پریشان ہوا اور اپنے سسر سے اپنی پشیمانی کا ذکر کیا،بیوی سے معافی مانگی، اس کو اپنے ہمراہ پنجاب چلنے پر آمادہ کیا ، میرے بار بار اصرار پر میری بیوی نے مجھے معاف کردیا، چونکہ اپنی بیوی سے تعلقات ختم کرنے پر آمادہ نہیں تھا اسلئے بیوی و بیٹی کو لیکر اپنے بھائی کے گھر چلا گیا اور لیٹر بھی (طلاق نامہ) پھاڑ دیا، اس واقعے کے چوتھے روز میں خود مفتی محمد شفیع مرحوم کی قیام گاہ پہنچا ،انہوں نے تعداد کے یقین کے بارے میں پوچھا لیکن میں خود بھی تعداد کے بارے میں یقین نہیں رکھتا تھا اور اسی دن اپنی بیوی اور بچی کو لیکر پنجاب چلا گیا۔
آج واقعے کو گزرے تقریباً ساڑھے4سا ل گزر چکے لیکن سسر صاحب مطمئن نہیں ہوئے، انہوں نے مجھ سے اور اپنی بیٹی سے تعلقات منقطع کرلئے۔ یہ حالات ہمارے خاندان کی رسوائی کا موجب ہیں، ہمارے حالات اور میری نیت کو دیکھتے ہوئے شرعی فیصلہ دیں تاکہ ہم آئندہ زندگی سکون سے گزار سکیں ۔ نہ ہی میری بیوی کو تعداد کا یقین ہے کہ کتنی مرتبہ لکھی ہیں ، دو دفعہ یا تین دفعہ ۔
جواب:۔ صورت مسئولہ میں محمود شوکت اور فرحت دونوں کو پوری احتیاط اور غور وفکر کیساتھ یاد کرنا چاہیے کہ کتنی بار طلاقیں لکھی تھیں؟ جو دوسرے لوگ موجود تھے یا انہوں نے تحریر پڑھی تھی تو ان سے بھی تحقیق کرنی چاہیے، اگر خود یاد آجائے یا پڑھنے والے کے بیان سے گمان غالب ہو کہ تین طلاقیں دی تھیں تو فرحت شوہر پر حرام ہوگئی ، تین طلاقیں واقع ہوگئیں اور حلالہ کے بغیر دونوں کے درمیان دوسرا نکاح نہیں ہوسکتا، دونوں پر فرض ہے کہ فوراً ایکدوسرے سے علیحدگی اختیار کرلیں اور جتنا عرصہ طلاق کے بعد ساتھ گزرا ،اس پر توبہ واستغفار کریں، لیکن اگر غور وفکر اور تحقیق کے بعدیاد نہ آئے کہ کتنی طلاقیں لکھی تھیں اور نہ کسی طرف گمان غالب ہو تو صورت مسئولہ کا حکم یہ ہے کہ محمود شوکت کی بیوی پر دو طلاق رجعی واقع ہوگئی ہیں اور چونکہ محمود شوکت نے عملاًاس سے رجوع کرلیا ۔ اسلئے فرحت بدستور اسکی بیوی ہے ، البتہ اب محمود شوکت کو صرف1طلاق کا اختیار باقی ہے۔ یعنی اب وہ اگر ایک طلاق بھی دے گاخواہ غصہ میں دے یا مذاق میں دے تو اس کی بیوی اس پر حرام ہوجائے گی اور حلالہ کے بغیر حلال نہیں ہوگی۔
مذکورہ صورت میں اگرچہ محمود شوکت کو اپنی بیوی کو رکھنے کا اختیار ہے لیکن چونکہ حلال وحرام کامعاملہ نازک ہے اور اس کو تردد پیدا ہوگیا ہے اور بعض فقہاء ایسی صورت میں بھی تین طلاقوں کے وقوع کا فتویٰ دیتے ہیں۔لہٰذا احتیاط اسی میں ہے کہ وہ بہر صورت بیوی سے علیحدگی اختیار کرلے اور اس کی عدت گزار کر بیوی کسی اور جگہ نکاح کرلے، پھر اگر کسی وجہ سے شوہر خود طلاق دیدے تو اس کی عدت کے بعد محمود شوکت بھی اس سے نکاح کرسکے گا۔
والدلیل علی کل ذٰلک ما یأتی1:قال اللہ تعالیٰ ” فان طلقہا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ ”۔ (سورة البقرہ آےة٢٣٠)2:عن علی قال : سمع النبی ۖ رجلًا طلق البتة فغضب وقال : تتخذون اٰیات اللہ ھزوًا أو لعبًا من طلقھا البتة الزمانہ ثلاثًا فلاتحل لہ حتی تنکح زوجًا غیرہ ….وفی حدیث ابن عمر قال : قلت یا رسول اللہ ! ارأیت لو طلتھا ثلاثًا ، قال : اذًا عصیت ربک وبانت منک امرأتک (المغنی لابن قدامة ج ٧ ص ١٠٣) وقد اخرج البیھقی قصة طلاق حسن بن علی امرأتہ ثلاثا وفی حدیث مرفوع الی النبی ۖ3:قال ابن نجیم: شک انہ طلق واحدة أو اکثربنی علی الاقل کما ذکرہ الاستیجابی الا ان یستیقن بالاکثر او یکون اکبر ظنہ علی خلافہ وان قال الزوج عزمت علی انہ ثلاثًا یترکھا…….
آخر میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ مفتی کو علم غیب نہیں ہوتا، اسکے سامنے جیسا سوال کیا جا ئے گا وہ اس کے مطابق جواب دے گا، سوال کی صحت کی ذمہ داری سائل پر ہے اور چونکہ معاملہ حلال وحرام کا ہے اور ہر شخص کو آخرت میں اپنی جوابدہی کرنی ہے لہٰذا بہت احتیاط اور غور وفکر کے ساتھ یہ متعین کیا جائے کہ کتنی طلاقیں دی تھیں؟ اگر ذرا بھی گمان غالب تین طلاقوں کا ہو تو دونوں کا ساتھ رہنا جائز نہیں ہے ۔ واللہ سبحانہ اعلم (فتاویٰ عثمانی جلد دوم صفحہ346تا248)
کہاں قرآن کی واضح آیات میں بار بار بلا شبہ رجوع کی اجازت اور کہاں اس طرح گھیر گھار کر اس غریب کی بیگم کو حلالہ کا شکار بنانا؟۔ پہلے لکھا کہ دو طلاق ہوئی ہیں اب ایک باقی ہے اور سمجھایا یہی ہوگا کہ جب حلالہ کرو گے تو نئے سرے سے تین طلاق کے مالک بن جاؤ گے اور پھر صبر نہیں آیا شک پر تین کا فتویٰ دیا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

عجمیوں کے درمیان نسب میں کفاء ت کا اعتبار نہیں:مفتی تقی عثمانی و مفتی شفیع کی جہالت!

عجمیوں کے درمیان نسب میں کفاء ت کا اعتبار نہیں:مفتی تقی عثمانی و مفتی شفیع کی جہالت!

سوال:۔ ایک آدمی نے عاقلہ بالغہ لڑکی کو اغواء کیااور اسے ڈرا دھمکاکر نکاح کرلیا، لڑکی کے والدین اس پر ناراض ہیں، کیونکہ لڑکی آرائیں قوم سے ہے اور لڑکے کا تعلق شیخ قوم سے ہے۔ (شیخ سے مراد کھوجہ قوم ہے) اور دونوں قوموں کی شرافت میں فرق ہے۔ آرائیں معزز سمجھے جاتے ہیں اور شیخ ذلیل، تو کیا اس صورت میں نکاح ہوسکتا ہے؟۔
جواب :۔ آرائیں اور کھوجہ دونوں عجمی نسلیں ہیں اور عجمیوں کے درمیان کفاء ت میں نسل کا اعتبار نہیں ہے اور مذکورہ نکاح چونکہ عاقلہ بالغہ نے اپنی اجازت ورضامندی سے کیا ہے اسلئے نکاح شرعاً منعقد ہوگیا، اب اگر لڑکی یا اس کے رشتہ دار نکاح ختم کرنا چاہتے ہیں تو سوائے اس کے کوئی راستہ نہیں ہے کہ وہ لڑکے سے طلاق حاصل کریں ۔ قال فی الدر المختار واما فی العجم فتعتبر حرےة واسلاما (شامی ج ٢، ص ٣١٩) واللہ سبحانہ اعلم
احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ الجواب صحیح بند ہ محمد شفیع عفااللہ عنہ
فتاوی عثمانی جلد دوم صفحہ ٢٨٠
درج بالا سوال میں واضح ہے کہ لڑکی کو اغواء کیا گیا اور ڈرا دھمکا کر نکاح پر مجبور کیا گیا۔ جواب میں بک دیا گیا کہ آرائیں اور شیخ عجمی نسلیں ہیں اور ان میں کفاء ت کا اعتبار نہیں ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر لڑکی عربی نسل عثمانی ہوتی تو والداور اولیاء کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوا۔ مولانا عبداللہ درخواستی کی قوم آرائیں ہے۔درخواستی حضرات کواسلام اور حق کیلئے کھڑے ہونا چاہیے۔
دوسری جگہ تقی عثمانی اسکے بالکل برعکس ایک اور طرح کا رباب بجاتا ہے۔
تنقیح:1:احمد کی لڑکی نے جس مرد سے نکاح کیاہے، وہ قومی اور خاندانی اعتبارسے احمدکا کفو ہے یا نہیں؟۔ یعنی دونوں خاندان میں اتنا فرق ہے کہ ایک خاندان دوسرے خاندان میں شادی بیاہ کو عرفاً عار اور عجیب سمجھتا ہو؟۔ یا اتنا فرق نہیں ہے اور دونوں خاندانوں میں بغیر کسی عار کے شادی بیاہ ہوتے ہیں۔
( اس میں سائل نے کچھ معاوضہ دیا ہوگا اسلئے عرف کا اعتبار کرلیا، دوسرے فتوے میں شیخ کھوجہ نے کچھ دیا ہوگا اسلئے معاملہ اسکے برعکس لکھا ۔عتیق گیلانی)
2:کیا دینداری کے اعتبار سے احمد کے گھرانے اور اس مرد کے گھرانے میں کوئی فرق ہے؟۔ ان دو سوالوں کا جواب لکھ کر بھیجئے ۔ محمد تقی عثمانی
جواب تنقیح: وہ مرد اور اس کے گھرانے میں اتنا فرق دینداری کے اعتبار سے ہے کہ احمد اور احمد کے گھرانے موحد ہیںاور جس مرد سے احمد کی لڑکی کا نکاح کیا گیا وہ مرداور اس کے گھرانے بدعتی ہیں، اور ان میں مشرکانہ صفتیں بھی ہیں۔ چند صفتیں یہ ہیں : حضور ۖ کو حاضر وناظر سمجھتاہے، مشکلات میں پیر کو پکارتا ہے، مرنے کے بعد عہدنامہ قبر میں دفن کرتا ہے ، نماز جنازہ پڑھ کر دائرہ بناکر اسقاط کرتا ہے، احمد ان باتوں کے خلاف ہے۔
جواب:۔ صورت مسئولہ میں احمد کی لڑکی کا نکاح جس شخص سے کیا گیا وہ احمد کا کفو نہیں ہے، فانھم قالوا لایکون الفاسق کفو لبت الصالحین (شامی ج ٢،ص ٣٢٠ باب الاکفائ)اور فسق اعتقادی فسق عملی سے اشد ہے ۔ لہٰذا مذکورہ صورت میں احمد کی رضامندی کے بغیر جو نکاح کیا گیا ہے وہ باطل ہے۔ احمد کی بیٹی کو چاہیے کہ وہ فوراً اس شخص سے الگ ہوجائے۔ ولہ اذاکان عصبة الاعتراض فی غیر الکفو ما لم تلد منہ ….. شامی ج ٢ ص ٢٩٧)
جب حاجی عثمان کے معتقد کے بارے میں پہلا فتویٰ مفتی عبدالرحیم نے دیا تھا تو یہی حوالہ تھا۔جس میں ایک تو لڑکی کا باپ نکاح پر راضی تھا اسلئے کفو کا مسئلہ نہیں تھا ، دوسرا یہ کہ لڑکی والے زیادہ صالحین تھے۔ شامی میںبچے کی پیدائش سے پہلے کا ذکر ہے ، جس میں اولاد لزنا کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔ اور یہ کہ ایک طرف عرفاً کفو کا اعتبار ہے اور دوسری طرف عجم نسل میں کفو کا انکار ہے؟۔ کیا فسق اعتقادی میں کفوء کا مسئلہ اسلئے ہے کہ اگر ولی راضی ہو تو پھر نکاح جائز ہے؟۔یہ قادیانیوں کو رشتہ دینے کیلئے راستہ ہموار کیا گیا ہے یا کچھ اور ہے؟۔
حضرت عائشہ کے بارے میں کتابیں ہیں کہ ان کی عمر نکاح کے وقت16سال اور رخصتی کے وقت19سال تھی او ر جو9سال کا کہتے ہیںتو وہ ان کی اس عمر میں بلوغت کو ثابت کرتے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی کا ایک اورفتویٰ دیکھ لیں۔
سوال :۔ زید بعمر5سال کا، سعیدہ بعمر2سال سے نکاح ہوا۔ بالغ ہونے پر سعیدہ نے نکاح کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا، زید نے نوٹس کے ذریعے سعیدہ کی رخصتی کا مطالبہ کیا، تو سعیدہ نے نوٹس کے جواب میں زید کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیااور عدالت عالیہ سے درخواست کی کہ اسکے اس حق کو تسلیم کیا جائے اور نکاح کو منسوخ قرار دیا جائے، سات سال کی مقدمہ بازی کے بعد عدالت نے اس حق کو تسلیم کرلیا اور اس بات کی تصدیق کردی کہ نکاح منسوخ ہوگیا ہے ، اس کیخلاف اپیل کی جو مسترد ہوگئی ، اب فرمائیں نکاح شرعاً منسوخ ہوگیا یا نہیں؟۔
جواب: صورت مسئولہ میں اگر سعیدہ کا نکاح خود اسکے باپ نے کیا تھا تو اب بالغ ہونے کے بعد سعیدہ کو اسکے فسخ کرنے کا اختیار نہیں ہے ،تاوقت یہ کہ وہ سوئے اختیار کو ثابت نہ کرے اور اگر سعیدہ کا نکاح کرنے والا خوداس کا باپ نہیں تھا، خواہ باپ کا وکیل ہی کیوں نہ ہو تو لڑکی کو نکاح فسخ کرنے کا اختیار ہے۔ اس صورت میں عدالت کا منسلکہ فیصلہ شریعت کے مطابق ہوگا۔ ولزم النکاح ولوبغبن فاش…. اوبغیر کفوء ان کان والولی ………واللہ تعالیٰ اعلم
احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ الجواب صحیح بندہ محمد شفیع عفااللہ عنہ
سینیٹر مشاہداللہ خان نے کہا تھا کہ ”یہ قوالی سن کر مسلمان ہوئے ہیں ،اسلام میں حلالہ نہیں ”۔ مفتی تقی عثمانی کی شکل اور دانت بھی قوال کی طرح ہیں۔سودی نظام کو جواز دینے تک بتدریج پہنچا ہے۔ پہلے فتوے بیچتا تھا، پھر زکوٰة کا فتویٰ بیچ دیا اور پھر الائنس موٹرز کیلئے فتویٰ فروشی کا منصب سنبھال لیا۔ علم پر دنیا کو ترجیح دی تو بعلم بن باعوراء کودرجہ بہ درجہ استدراج کے ذریعے کتے کے درجہ تک پہنچادیا۔
یہ مولانا اشرف علی تھانوی کانام بدنام کرتے ہیں۔صفحہ ہٰذا کے نچلے نصف پر انتہائی گھناؤنے اٹکل پچو کا فتویٰ دیکھ لیں جس میں مولانا اشرف علی تھانوی کا فتویٰ بھی چھوڑ دیا ہے۔ حکومت وریاست کو چاہیے کہ مدرسہ ان لوگوں سے چھین کر اچھے علماء حق کے سپرد کردیں۔ یہ اب بینکوں کے موروثی ملازم اورغلام ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

3 طلاق اور اس سے رجوع پر فقہی اختلافات اور احادیث صحیحہ گدھوں کو سمجھانے کا نیا انداز

3 طلاق اور اس سے رجوع پر فقہی اختلافات اور احادیث صحیحہ گدھوں کو سمجھانے کا نیا انداز

اگرقرآن وسنت میں واضح ہے کہ تین طلاق کا تعلق عدت کے تین مراحل سے ہے پھراحادیث ، حضرت عمر اور ائمہ مجتہدین کے ہاں اکٹھی3طلاق واقع ہونے کا کیا مطلب ہے؟

اہل تشیع اور اہلحدیث حضرت عمر کے فیصلے کو کیوں نہیں مانتے؟۔ ٹھیک کرتے ہیں یا غلط ؟۔ حنفی ومالکی کے ہاں اکٹھی تین طلاق بدعت و گناہ اور شافعی کے نزدیک سنت ومباح کیوں ہے؟

اللہ نے فرمایا:” طلاق والی عورتیں3مراحل تک انتظار کریں اور انکے شوہر اس عدت میں ان کو اصلاح پر لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں”۔البقرہ:228
اللہ نے فرمایا:” طلاق دو مرتبہ ہے ۔ پھر معروف طریقہ سے رجوع کرنا ہے یا احسان کیساتھ چھوڑ نا ہے”۔ البقرہ:آیت:229۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ” قرآن میں تیسری طلاق احسان کیساتھ چھوڑنااسی آیت میں ہے”۔ جس کو مولانا سلیم اللہ خان اور علامہ غلام رسول سعیدی نے اپنی شرح بخاری میں بھی نقل کیا ہے۔ جب قرآن وسنت سے یہ ثابت ہے کہ تین طلاق کا تعلق عدت کے تین مراحل سے ہے تو پھر اختلاف کیا ہے؟۔جب حضرت عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دی تو رسول اللہ ۖکو حضرت عمر نے اس کی خبردی۔ رسول اللہ ۖ اس پر بہت غضبناک ہوگئے۔اور عبداللہ سے فرمایا کہ اس عورت کو اپنے پاس پاکی کے دنوں میں رکھو یہاں تک کہ حیض آجائے اور پاکی کے دنوں میں اپنے پاس رکھو یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر پاکی کے ایام میں طلاق دینا چاہتے ہو تو اس کو ہاتھ لگائے بغیر چھوڑ دواور یہی وہ عدت ہے کہ جس میں اللہ نے اس طرح طلاق کا حکم دیا ۔ (بخاری کتاب التفسیر سورہ طلاق) یہ حدیث بخاری کتاب الاحکام ، کتاب الطلاق اور کتاب العدت میں بھی ہے۔
قرآن وسنت میں یہ بالکل واضح ہے کہ تین مرتبہ طلاق ایک عدت کا عمل ہے جس کے تین مراحل ہیں اور اس سے آگے پیچھے معاملہ نہیں ہوسکتا ہے۔
پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عمر نے حنفی ، شافعی، مالکی اور حنبلی فقہاء کیلئے اکٹھی 3 طلاق کی بدعت یا سنت کیسے اس اُمت میں جاری کردی ہے؟۔
ہماری سب سے بڑی بنیادی غلطی یہ ہے کہ حفظ مراتب کا خیال رکھے بغیر حضرت عمر کے اس فیصلے کو قرآن پر پیش کرنے کی جگہ احادیث میںڈھونڈتے ہیں۔ جب احادیث میں ڈھونڈتے ہیں تو پھر حنفی ومالکی اس کو بدعت وگناہ قرار دیتے ہیں۔ شافعی اس کو سنت ومباح قرار دیتے ہیں اور حنبلی کا قول مختلف ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ سنت ومباح ہے اور دوسرا یہ ہے کہ بدعت وگناہ ہے۔
جس بات پر فقہاء آپس میں متفق نہ ہوسکتے ہوں تو اس بات پر امت مسلمہ کو کیسے متفق کیا جاسکتا ہے؟۔اگر پہلے قرآن کی طرف رجوع کرتے اور پھر اس کا حل احادیث میں تلاش کرتے تو اختلافات کا بالکل خاتمہ ہوسکتا تھا۔ دیوبندی مکتبہ فکر کے شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے کافی عرصہ درسِ نظامی کا نصاب پڑھایا اور جب مالٹا میں سوچ وبچارکا موقع مل گیا تو امت کے زوال کے دو اسباب کی وضاحت کردی ۔ایک قرآن سے دوری اور دوسرا فرقہ واریت ۔ علامہ انور شاہ کشمیری نے آخری دور میں فرمایا کہ مسلکوں کی وکالت میں اپنی ساری زندگی ضائع کردی۔ قرآن وسنت کی کوئی خدمت نہیں کی ہے۔
میں نے اپنی جوانی اور صلاحیتیں الحمد للہ بہت زیادہ تو نہیں لیکن کچھ نہ کچھ قرآن وسنت اور دینی تعلیم میں خرچ کی ہیں اور فرقہ واریت کو ختم کرنے میں اپنا زبردست کردار ادا کیا ہے۔ میرا ماحول اور اساتذہ کرام کی تعلیم و تربیت دیوبندی مکتب والی تھی ، ہے اور رہے گی لیکن فرقہ بندی اور مسلک پرستی کو کبھی اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا۔ ہمارے مرشد حاجی محمد عثمان کا تعلق بھی تبلیغی جماعت اور دیوبندی مکتبہ فکر سے تھا لیکن اتحاد امت کے بہت بڑے علمبردار تھے۔
میرے اساتذہ کرام جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی،جامعہ یوسفیہ شاہو ہنگو کوہاٹ، مدرسہ عربیہ فیوچر کالونی کراچی، دارالعلوم الاسلامیہ واٹر پمپFBایریا کراچی،انوار القرآن آدم ٹاؤن نیوکراچی، جامعہ فاروق اعظم بفر زون اور توحید آباد صادق آباد رحیم یار خان پنجاب نے میری زبردست رہنمائی وحوصلہ افزائی کی ہے۔ اللہ نے ذہن اور صلاحیت دی ہے تو اس کو بروئے کا ر لایا ہے۔
جب حضرت عمر نے ایک ساتھ تین طلاق پر میاں بیوی کے درمیان جدائی کا فیصلہ دیا تھا تو اس کی تاریخی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اہل حدیث نے یہ فیصلہ اسلئے مسترد کردیا کہ حدیث میں ہے کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا: رسول اللہ ۖ ، ابوبکر اور عمر کے ابتدائی تین سال تک اکٹھی تین طلاق کو ایک شمار کیا جاتا تھا پھر حضرت عمر نے ایک ساتھ3طلاق کو نافذ کردیا ۔( صحیح مسلم)
اہلحدیث سمجھتے ہیں کہ جب رسول اللہ ۖ اور بعد کے ادوار میں اکٹھی تین کو ایک طلاق شمار کرتے تھے تو حضرت عمر نے یہ فیصلہ اجتہادی اور غلط کیا تھا۔
حالانکہ ذخیرہ احادیث میں ایک ساتھ تین طلاق کا ذکر بھی موجود ہے لیکن اہلحدیث نے ان روایات کو چھوڑ کر تعامل کی سنت کو قابل ترجیح قرار دیا ہے۔
اہل تشیع نے حضرت عمر کے فیصلے کو قرآن وسنت ، فقہ وحکمت کے منافی قرار دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ طلاق کاواحد طریقہ یہ ہے کہ عدت کے پہلے مرحلہ میں پہلی طلاق مکمل شرعی صیغوں کیساتھ اور اس پر دوعادل گواہ کا مقرر کرنا لازمی ہے۔ اس طرح تین مرحلے میں تین مرتبہ کی طلاق ہے اور بغیر جانے بوجھے اس طرح طلاق کا واقع کرنا شریعت کیساتھ مذاق ہے ۔ اس سے معاشرہ تباہ ہوگا۔
اہل تشیع اپنے اس مسئلے کو اپنی فہم وفراست اور اہل بیت عظام کا بہت بڑا کمال اور دوسرے مذاہب کا بہت بڑا زوال سمجھنے میں حق بجانب بھی ہیں۔ لیکن جب شیعہ اپنے فقہ ومسلک کے مطابق اس طرح سے طلاق دیتے ہیں توپھر صلح و رجوع کا دروازہ بالکل بند سمجھتے ہیں یہاں تک کہ کوئی مستقل نکاح کرلے اور پھر اتفاق سے اس کی طلاق ہوجائے اور پھر پہلے سے دوبارہ نکاح ہوجائے۔
حالانکہ شیعہ کا یہ فقہ قرآن کے مطابق نہیں بلکہ سنی مکاتب فکر کے مقابلے میں ہے۔ قرآن کی سورۂ طلاق میں عدت کے تین مراحل اور اس کی تکمیل کے بعد بھی معروف طریقے سے رجوع کی اجازت ہے۔ اور جب اس کو معروف طریقے سے الگ کرنے کا فیصلہ کیا جائے تو پھر اس پر دو عادل گواہ مقرر کرنے کا حکم ہے اور اسکے بعد بھی سورۂ طلاق میں رجوع کا دروازہ بند نہیں کیا گیاہے۔
پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عمر نے جو فیصلہ کیا تھا وہ قرآن وسنت کے مطابق تھا؟۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بالکل قرآن وسنت کے مطابق تھا۔
قرآن کے مطابق اسلئے تھا کہ اللہ نے عدت میں رجوع کی اجازت دی ہے اور عدت کی تکمیل کے بعد رجوع کی اجازت دی ہے لیکن صلح واصلاح اور باہمی رضامندی کی شرط پر۔ اگر عورت رجوع کیلئے راضی نہ ہوتو شوہر کو رجوع کا حق حاصل نہیں ہے۔ تین طلاق تو بہت بڑی واضح بات ہے بلکہ ایک طلاق کے بعد شوہر کو بیوی کی رضامندی کے بغیر رجوع کا حق حاصل نہیں ہے۔ حضرت عمر نے قرآن کے عین مطابق فیصلہ دیا لیکن یہ فتویٰ نہیں تھا اسلئے کہ حکمران فیصلے کرتا ہے اور مفتی فتویٰ دیتا ہے۔ فیصلہ دو افراد کے درمیان ہوتا ہے۔ جب کوئی تنازع میاں بیوی آپس میں حل کرنے میں ناکام ہوں تو پھر معاملہ وقت کا حکمران حل کرتا ہے۔ جب شوہر نے ایک ساتھ تین طلاقیں دے دیں اور بیوی رجوع پر راضی نہیں تھی تو معاملہ حضرت عمر کے دربار تک پہنچا۔ حضرت عمر نے قرآن کے عین مطابق فیصلہ دیا کہ ” شوہر کو رجوع کا حق حاصل نہیں ہے اور فرمایا کہ آئندہ بھی کوئی ایک ساتھ تین طلاق دے گا تو اس پر یہی فیصلہ جاری کروں گا اور اس کو کوڑے مارنے کی سزا بھی دوں گا”۔ حضرت عمر نے قرآن کی پاسداری کرنے کا ریکارڈ قائم کردیا۔ اگر صلح نہ کرنے کے باوجود بیوی کو لوٹادیتے تو قرآن وسنت کے بالکل منافی ہوتا۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ اکٹھی تین طلاق ایک طلاق رجعی ہے اور شوہر کو لوٹانے کا اختیار ہے تو اس سے قرآن وسنت اور فقہ کا کباڑہ کرتے ہیں اور ان کی یہ شریعت انسانی فطرت کے بھی بالکل منافی ہے اور شیعہ واہلحدیث دونوں کا فقہی مسلک اس کی زد میں سراسر غلط ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ قرآنی آیات کے مطابق محض طلاق کے بعد صلح واصلاح کے بغیر یعنی بیوی کی مکمل رضامندی کے بغیررجوع کی اجازت نہیں ہے اور یہ قرآن میں بالکل واضح ہے۔ سورہ البقرہ آیت228میں اس کی بھرپور وضاحت ہے۔
جب قرآن میں یہ واضح ہے کہ الگ الگ تین مراحل میں تین مرتبہ طلاق کے بعد بھی عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد بھی باہمی رضامندی اور معروف طریقے سے رجوع کا دروازہ اللہ تعالیٰ نے بند نہیں کیا ہے۔ حضرت عمر نے اسلئے تین طلاق کا فیصلہ کیا تھا کہ بیوی صلح کیلئے راضی نہیں تھی تو پھر یہ بات بتادی جائے کہ حضرت محمود بن لبید سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول ۖ کو خبر دی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دے دی ہیں ، جس پر رسول اللہ ۖ غضبناک ہوکر کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں اور تم اللہ کی کتاب سے کھیل رہے ہو؟۔ ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اس کو قتل نہ کردوں؟۔ اس حدیث کا پھر کیا جواب اور پس منظربنتا ہے؟۔
یہ وہی حدیث ہے جس کو صحیح بخاری میں ابن عمر کے واقعہ میں نقل کیا گیا ہے لیکن یہاں افراد کے نام مخفی رکھے گئے ہیں اور روایات میں یہ وضاحت بھی ہے کہ جس شخص نے تین طلاق دی تھیں وہ عبداللہ بن عمر تھے اور جس نے پیشکش کی تھی اسکو قتل کرنے کی ،وہ حضرت عمر ہی تھے۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے ایک ساتھ تین طلاقیں دی تھیں جس سے رجوع کا نبی ۖ نے حکم فرمایا تھا۔ صحیح مسلم کی وہ روایت حضرت محمود بن لبید کی روایت سے زیادہ مستند ہے۔ اس بات میں کوئی ابہام نہیں ہے کہ رسول اللہ ۖ ابن عمر پربہت غضبناک ہوئے مگر رجوع کرنے کا حکم بھی دیاتھا اور پھر طلاق اور عدت کو ایک دوسرے کیساتھ لازم وملزوم بھی قرار دیا تھا جس میں ابہام پہلے بھی نہیں تھا لیکن قرآن کی وضاحت کو نبی ۖ نے کم عقلوں کیلئے بھی مزید واضح کردیا تھا۔
اب یہ ابہام ہے کہ پھر مجتہدین اور جمہور کا اجماع اس پر کیسے ہوگیا کہ اکٹھی تین طلاق واقع ہوجاتی ہیں؟۔حالانکہ امت کا اجماع گمراہی پر نہیں ہوسکتا؟۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اکٹھی تین طلاق کا واقع ہونا الگ بات ہے اور اس کی وجہ سے باہمی اصلاح کے باوجود رجوع کا دروازہ بند کرنا الگ بات ہے۔ جب قرآن نے باہمی اصلاح کی شرط پر اللہ نے رجوع کا دروازہ کھلا رکھا ہے تو اس پر پابندی لگانے کا کوئی جواز نہیں بنتا ہے۔ ائمہ اہل بیت کا اصل معاملہ تو اس حد تک تھا کہ اکٹھی تین طلاق واقع نہیں ہوسکتی ہیں تاکہ رجوع کا دروازہ بند نہ ہو اورحلالہ کی لعنت سے امت مسلمہ کو بچایا جائے۔ لیکن بعدکا رنگ پھرشیعہ فقہاء نے خود ہی چڑھادیا ہے۔حنفی فقہاء جب طلاق سنت کی بات کرتے ہیں تو ان کا بھی مؤقف اہل تشیع کے موقف کے عین مطابق ہوتا ہے۔
البتہ احناف بالکل حق بجانب ہیں کہ ایک ساتھ تین طلاق دینا مصلحت اور قرآن وسنت کے خلاف ہے۔ اسلئے کہ سورۂ طلاق میں اللہ تعالیٰ نے مرحلہ وار عدت میں چھوڑنے یا طلاق دینے کا حکم دیا ہے اور سورہ بقرہ میں بھی الگ الگ مراحل میں تین مرتبہ طلاق واضح ہے اور نبی ۖ نے بھی اس کے برعکس عمل پر سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے۔ کوئی بلاوجہ اکٹھی تین طلاق دیکر فارغ کرنے کا فیصلہ کرے تو طلاق وعلیحدگی ہوجائے گی لیکن یہ ناپسندیدہ عمل ہے۔ البتہ فحاشی و لعان کی صورت میں اکٹھی تین طلاق اور فارغ کرنے میں حرج نہیں ہے۔
حضرت عویمر عجلانی کی طرف سے لعان کے بعد اکٹھی تین طلاق دینے کا واقعہ صحیح حدیث میں ہے اور اس کی بنیاد پر امام شافعی کے ہاں اکٹھی تین طلاق کا فیصلہ سنت ومباح ہے۔ احناف کے نزدیک دونوں الگ الگ صورتحال ہیں۔
بڑا سوال یہ ہے کہ نبی ۖ نے رفاعہ القرظی کی بیوی کو ذائقہ چکھ لینے کے بغیر رجوع کیوں نہیں کرنے دیا؟۔جواب یہ ہے کہ وہ کسی اور کی بیگم تھی۔ بخاری کی احادیث میں تفصیلات ہیں کہ رفاعہ نے الگ الگ مراحل میں تین طلاق دیکر فارغ کیا تھا، عدت کی تکمیل کے بعد اس کی دوسرے قرظی سے نکاح ہوا جس نے بہت مارپیٹ کی تھی۔ اس خاتون نے زخموںکے نشان حضرت عائشہ کو دکھائے تھے۔ دوسرے شوہر نے انکار کیا تھا کہ وہ نامرد ہے۔ اگربخاری کی تمام روایات کو نقل کیا جائے تو تین طلاق پر حلالہ کا تصور بھی ختم ہوگا اور اس حدیث سے حلالے کا باطل استدلال بھی کوئی نہیں لے گا۔ ایک نامرد کاکیسے حکم دیا گیا کہ اس کا ذائقہ چکھ لو جیسے پہلے شوہر کا چکھا ہے؟۔ مولانا فضل الرحمن کو چاہیے کہ مجھے اور مفتی تقی عثمانی کو اکٹھے بٹھادے تاکہ دودھ کا دودھ پانی کاپانی ہوجائے۔
مولانا سلیم اللہ خان نے کشف الباری شرح صحیح البخاری میں لکھ دیا ہے کہ اس حدیث کی وجہ سے احناف حلالے کا حکم نہیں دیتے بلکہ قرآن حتی تنکح یعنی نکاح سے ہم جماع مراد لیتے ہیں۔ صفحہ نمبر2میں قرآنی آیات اور اس آےة کی تفصیل لکھ دی ہے۔ اس طلاق سے مراد تیسری طلاق نہیں کیونکہ تیسری طلاق تو آیت229میں ہے بلکہ یہ وہ طلاق ہے کہ جس سے پہلے نہ صرف مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق کا فیصلہ کیا گیا ہو بلکہ آئندہ دونوں کے درمیان دونوں خود بھی رابطے کا کوئی ذریعہ نہ چھوڑیں اور فیصلہ کرنے والے بھی ،یہاں تک کہ عورت شوہر کی طرف سے دی ہوئی وہ چیز بھی فدیہ کردے جس کا فدیہ کرنے کو عام حالات میں قرآن نے ناجائز قرار دیا ہے۔ جب یہ کنفرم ہو کہ ان دونوں نے صلح نہیں کرنی ہے تو پھرایک غلط رسم عورت کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے کہ اس طلاق کے باوجود بھی شوہر کی طرف سے پابندی کا شکار نہ ہوجائے۔ اللہ نے اس غلط رسم کو توڑنے کیلئے زبردست تدبیر کرکے یہ حکم نازل کیا مگر اس کا غلط مطلب لیا گیا اسلئے کہ سیاق وسباق اور آگے پیچھے کی آیات چھوڑ کر فتویٰ سازی کی گئی۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اسلام کے جعلی فتوؤں کے نام پر معصوم بچیوں سے نکاح کے نام پر بدترین کھلواڑکب تک؟

اسلام کے جعلی فتوؤں کے نام پر معصوم بچیوں سے نکاح کے نام پر بدترین کھلواڑکب تک؟

عجمیوںکی کوئی نسل ،خاص طور پر برمی بنگالی عورتوں اور بچیوں کو دلالی کے نام سے فروخت کیا جاتا تھا ، جس میں بالغ لڑکیوںاور نابالغ بچیوں کا دلال کے ذریعے نام نہاد نکاح بھی شامل تھا

دارالعلوم کراچی کے ” فتاوی عثمانی جلد دوم ، طبع جدید ستمبر2022 عیسوی” برمی کالونی کورنگی میں باقاعدہ عورتوں کی منڈی لگتی تھی ۔ ڈارک ویب اور جنسی تسکین کا دھندہ فتوؤں کی آڑ میں ہوتا تھا۔

عوام الناس کی زبان میں سادہ الفاظ کے اندر پیچیدہ معاملے کو سمجھنانے کی سخت ضرورت ہے۔پچھلے شمارے میں کچھ حوالہ جات دئیے اور اب مزید تفصیل کیساتھ کچھ دیگر معاملے کو بھی علماء حق اور عوام الناس کے سامنے لاتے ہیں۔
دنیا بھر میں معصوم بچیوں کیساتھ جنسی درندگی کا مکروہ دھندہ ہوتا ہے اور کوئی مہذب قوم ، ملک اور قانون اس کی اجازت نہیں دے سکتا ہے۔ پاکستان میں یہ دھندہ کراچی کے اندر مظلوم برمی اور بنگالی عورتوں کے ساتھ جاری رہتا تھا۔ اور اس میں مولوی طبقہ دلال بن کر پیسے بٹورنے میں مصروف رہتا تھا۔
پاکستان میں16اور18سال سے کم عمر بچی کیساتھ نکاح قانوناً منع اور مجرمانہ فعل ہے جس میں پولیس کی مداخلت سے ایسے جرم میں ملوث افراد کو قانون کے مطابق سزا دی جاسکتی ہے۔ ریاستِ پاکستان نے اس پر پابندی لگائی ہے۔ تاہم14اور15سال کی عمر میں بھی بچیاں جوان اور شادی کے قابل ہوتی ہیں، جس پر حکومت کی طرف سے نظر انداز کرنے کی بات سامنے آسکتی ہے۔
اسلام نے چودہ سو سال پہلے جن قوانین کا اجراء کیا تھا وہ معاشرے میں بڑا اچھا کردار ادا کرنے کے قابل تھے ، تب ہی دنیا کی دونوں سپر طاقتیں فارس اور روم خلافت راشدہ کے سامنے سرنگوں ہوگئیں۔ عرب زیادہ طاقتور نہیں تھے بلکہ اسلام کے فطری قوانین میں یہ صلاحیت تھی کہ دنیا نے ان کو اپنے لئے بہترین سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگائی اور یہی وجہ تھی کہ1924عیسوی تک کسی شکل میں خلافت کا نظام قائم تھا۔ اگرچہ بہت ساری خوبیاں دوسروں نے اپنالی تھیں اور خامیاں ہم نے اپنی بنالی تھیں اسلئے تو علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ” یورپ میں مسلمان نہیں ہے لیکن اسلام ہے اور یہاں مسلمان ہیں لیکن اسلام نہیں ہے”۔
آج بھی مسلمانوں سے دنیا میںزیادہ آبادی عیسائیوں کی ہے اور عیسائی مذہب میں اسلام کی آمد کے وقت طلاق کا کوئی تصور نہیں تھا۔چند سوسال سے بادشاہ نے ایک ترقی پسند فرقہ بناکر طلاق کو جواز بخش دیا اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ عیسائیوں نے معاشرتی مسائل نکاح ، طلاق ، عورت کے حقوق اور شوہر کے حقوق کیلئے جمہوری بنیادوں پر پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کرنا شروع کردی اور آج انہوں نے مذہبی طبقات کو عبادت گاہوں تک محدود کردیا ہے۔
اسلام ایک عظیم دین ہے اور قرآن وسنت میں اپنی اصلی حالت میں محفوظ بھی ہے۔ قرآن میں لڑکے کیلئے نکاح کی خاص عمر کا معاملہ بالکل واضح ہے۔ یتیم لڑکوں کو اس وقت ان کا مال سپرد کرنے کا حکم ہے کہ جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں۔ حتی اذا بلغوا النکاح ( یہاں تک کہ وہ نکاح تک پہنچ جائیں)۔
لڑکی کے ساتھ کم عمری میں نکاح بہت بڑی زیادتی ہے۔ دورِ جاہلیت میں بھی بچپن کے اندر اگر کہیں رشتہ پکا کیا جاتا تھا تو رخصتی بلوغت اور نکاح کے عمر تک پہنچنے کے بعد ہی ہوتی تھی اور آج بھی یہ رسم ورواج معاشرے میںکہیں نہ کہیں موجود ہے جس میں دوستوں یا رشتہ داروں کا اچھا تعلق کارفرماہوتا ہے۔
پاکستان کے شہر کراچی اور خاص طور پر کورنگیKایریا وغیرہ میں برمی و بنگالی غریب الوطن افراد کی ایک اچھی خاصی تعداد ہے۔ پہلے دارالعلوم کراچی میں بھی غربت کا سماں ہوتا تھا۔ مفتی محمد تقی عثمانی اس کو بھی بڑی سعادت سمجھتا تھا کہ کوئی امیر اس کو اپنے فوت شدہ باپ کے بدلے حج بدل کی مزدوری پر بھیج دے۔ ان لوگوں کا ایک دھندہ غریب لوگوں کو پھانس کر فتویٰ فروشی بھی ہوا کرتا تھا۔
برمی و بنگالی بچیوں و خواتین کو جب دلال دوسری قوموں کے پاس بیچ دیتے تھے تو پاکستان کے قانون کے تحت انسانی سمگلنگ کی اجازت نہیں ہوتی تھی اس کیلئے ان کو شرعی فتوے کی ضرورت ہوتی تھی۔
دارالعلوم کراچی نے یہ فتوی عام دیا تھا کہ
نابالغ بچیوں کا نکاح باپ دادا کرے تو یہ شریعت کے عین مطابق ہے۔
اور اگر نابالغ بچیوں کا نکاح دلال کرے تو بھی شریعت کے مطابق ہے۔
بالغ لڑکی کو اغواء کرکے یا خرید کر اس کو نکاح پر مجبور کرے تو بھی یہ نکاح لڑکی کی اجازت اوررضامندی کہلائے گا اور شریعت میں منعقد ہوجائے گا۔
لڑکی کا خاندان عرف میں کمتر ہو تو پھر اس میں ولی کی اجازت ضروری نہیں ہے۔ لڑکی اپنی مرضی سے نکاح کرے، دلال کے ذریعے کرے یا اس کو اغواء اور زبردستی سے نکاح پر مجبور کیا جائے ، یہ سب رضامندی ہے اور شرعاً جائز ہے۔
ملک کے طول وعرض میں کتنی برمی اور بنگالی عورتوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا گیا ہے؟۔ اس کے اعداد وشمار کو اکٹھا کرنا بہت مشکل ہے۔ چھوٹی بچیوں کے سیکس کو کاروبار بنانے والے اور اس کے خریداروں پر پروگرام لوگوں نے ریکارڈ کئے ہیں۔ ڈارک ویب میں بھی ایسی مظلوم خواتین کو مظالم کے لئے استعمال کرنے کے کرتوت کو خارج ازامکان نہیں قرار دیا جاسکتا ہے۔ بلکہ انہیں بے سہاراخواتین کے ذریعے ایسی خوفناک ویڈیوز کا رواج عمل میں آسکتا ہے۔
ٹانک شہر میں ایک برمی یا بنگالی پاگل عورت تھی ، جس کیساتھ کسی نے زیادتی کی تھی اور پھر اس کو حمل ہوا تھا اور جب اس نے بچے کو جن لیا تھا تو کسی نے بچہ اس سے چوری کیا تھا۔ ٹانک شہر پر دہشت گردی کا عذاب بھی اس انسانی المیہ کی وجہ سے آسکتا تھا۔ فتاوی عثمانی جلد دوم کے کچھ فتاویٰ جات کا مطالعہ کرنے کے بعد پتہ چلا ہے کہ نابالغ بچیوں اور بالغ لڑکیوں کو اسلام کے نام پر کس طرح سے انسانی حقوق کو پامال کرتے ہوئے ” شرعی نکاح منعقد ہوگیا ” کے فتوے ملوث کئے گئے ہیں؟۔ مفتی محمد شفیع تک کا اسلام یہ تھا کہ ” بیوی بیمار ہوجائے تو اس کا علاج کرنا شوہر کے ذمہ نہیں ہے”۔ مفتی تقی عثمانی نے پھر بھی اس فتوے کو بدلنے کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ جب برمی یا بنگالی عورت ٹانک شہر میں پاگل ہوگئی تھی اور اس کا علاج شوہر کے ذمہ نہیں تھا تو اس نے چھوڑ ہی دینا تھا اور جب دلال کے ذریعے عورت خرید لی جاتی ہے تو اس کا والدین کے پاس واپس جانے کا بھی کوئی خاص امکان نہیں ہوتا ہے اسلئے کہ یہ دلال کا دھندہ ہوتا ہے۔ برمی اور بنگالی قوم کو چاہیے کہ ان غلط فتوؤں کے خلاف حکومت کے سامنے پرامن احتجاج کریں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیلئے رونا بالکل بجا ہے اسلئے کہ قوم کی بیٹی ہے لیکن ہماری مسلمان برمی وبنگالی بہنیں، بیٹیاں اورمائیں بھی خنزیرکی اولاد نہیں ہیں کہ ان کیساتھ جو کچھ بھی غیرانسانی سلوک ہو تو اس کو جواز بخشا جائے۔
برمی بنگالی بچیاں اور خواتین تو عرفاً دوسری قوموں کی برابری بھی نہیں رکھتے اور مفتی تقی عثمانی نے عرف کو بھی واضح کردیا ہے لیکن دوسری قوموںکو بھی فکر مند ہونے کی بہت سخت ضرورت ہے اسلئے کہ پختون، بلوچ، سندھی، ہندی، پنجابی اور افغانی سب کے سب عجمیوں کیلئے بھی شیخ الاسلام ومفتی اعظم پاکستان مفتی تقی عثمانی کے فتوؤں میں کوئی خیر کی خبر نہیں ہے۔ جب ان پر ظالم وجابر کا تسلط ہوگا اور ان کی بہنوں اور بیٹیوں کو اغیار اٹھاکر لے جائیں۔ ڈرادھماکر ان سے نکاح کرلیں تو پھر شرعی نکاح منعقد ہوگا اوروہ ان کی بیویاں ہوں گی۔ پھر عدالتوں سے بھی انصاف نہیں لے سکیں گے۔
ایک طرف عالمی سودی نظام کو اسلامی قرار دیا گیا ہے اور دوسری طرف اس طرح نابالغ بچیوں اور بالغ لڑکیوں اور عورتوں کے حوالے سے بھی بدترین انداز کی غلامی کا پورا پورا پروگرام موجود ہے۔ مجھے100فیصد معلوم ہے کہ ہمارے بڑے بڑے مدارس کے بڑے بڑے علماء ومفتیان کو بھی ان غلاظت سے بھرپور فتوؤں کا علم نہیں ہے اور مولانا فضل الرحمن اور ان کے بھائیوں کو تو اس کی بھنک بھی نہیں پڑی ہے۔ جب عالمی دہشت گردوں نے مظالم کے پہاڑ گرائے تھے تو مولانا فضل الرحمن نے ان پر خراسان کے دجال کی حدیث فٹ کردی تھی۔
سوات میں لڑکیوں اور خواتین کیساتھ زبردستی سے نکاح کا معاملہ میڈیا پر سامنے آیا تھا اور انہوں نے مفتی تقی عثمانی کے فتاویٰ سے اپنے لئے جبری نکاح کا معاملہ اخذ کیا ہوگا۔ فتاوی عثمانی جلد دوم کی پہلی اشاعت جولائی2007کو ہوئی تھی۔ سوات میں طالبان کی کاروائیاں2008کے بعد شروع ہوئی تھیں اور فتاوی عثمانی جلد دوم سے جبری نکاح کے شرعی مسائل اخذ کئے ہوں گے۔
سب سے پہلے کسی چیز کے جواز اور عدم جواز پر بحث ہوتی ہے اور پھر اس کو عملی جامہ پہنایا جاتا ہے۔2008سے2013تک پانچ اضلاع کی حالت ایسی خراب تھی کہ لوگوں نے اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو بیچنا شروع کردیا تھا۔ ایک قرارداد خیبر پختونخواہ کی حکومت میں متفقہ طور پر منظور ہوئی تھی کہ ان پانچ اضلاع سے خواتین اور لڑکیوں کو نکاح کے نام پر بیچنے کا کاروبار بند کیا جائے اور قرار داد جمعیت علماء اسلام کے رہنما مفتی کفایت اللہ صاحب رکن صوبائی اسمبلی نے پیش کی تھی۔ مولانا فضل الرحمن کو چاہیے کہ جن لوگوں کے خطرناک دانت ہم نے توڑ دئیے، ہمیں طلب کریں اور ہم صورتحال کو سمجھادیں گے۔ اگر قومی اسمبلی و سینٹ میں غلط فقہی مسائل کے خلاف بل اتفاق رائے سے منظور ہوں گے تو الیکشن میں ملک کی سطح پر جمعیت علماء اسلام و جمعیت علماء پاکستان جیت سکیں گے۔
مذہبی طبقات کو یہ گلہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن اور مولانا اویس نورانی نے اسلام کی تعلیمات چھوڑ کر مسلم لیگ ن کا دوپٹہ پکڑلیا ہے۔لیکن جب ان کو یہ پتہ چل جائے گا کہ خرابی مدارس کے ان فتوؤں میں ہے جن کو پان کی طرح چبایا اور چیونگم کی طرح گھمایا جاتا ہے اور اپنی مرضی سے جس ڈسٹ بن میں ڈالا جائے تو کوئی بات نہیں ہوتی ہے لیکن حقائق اس کے بالکل برعکس ہوتے ہیں۔
برصغیر پاک وہند میں عورت اور بچیوں کا تحفظ ایک بنیادی مسئلہ ہے اور اس میں باطل فتوؤں کی بہتا ت نے معاملے کو مزید مشکلات میں دھکیل دیا ہے۔
افغان طالبان کے ہاں بھی فقہ کے بنیادی مسائل رکھ دئیے جائیں جو حنفی اصولِ فقہ کے منافی معاملات ہیں ان کو بھی سدھاردیا جائے تو اسلام دنیا کی سطح پر سب سے زیادہ محبوب اور قابل قبول دین بھی بن جائیگا۔ حضرت عائشہ صدیقہ کی عمر نکاح کے وقت16سال اور جب رخصتی ہورہی تھی تو19سال تھی۔ جس پر متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ان میں ایک حکیم نیاز احمدفاضل دارالعلوم دیوبند کی کتاب کشف الغمہ عن عمر عائشہ ہے ۔دیگر کتابیں بھی ہیں۔ بہت موٹی موٹی یہ ہیں کہ طبقات ابن سعد اور صحابہ کرام پر تاریخ کی مستند کتابوں میں موجود ہے کہ حضرت ابوبکر کی ام رومان سے دو بیٹے اور دو بیٹیاں بعثت نبی ۖ سے پہلے تھے۔ جن میں حضرت عائشہ اور اسماء بنت ابوبکربیٹیاں تھیں۔ حضرت اسماء عمر میں10سال حضرت عائشہ سے بڑی تھیں۔ نبی ۖ نے بعثت کے بعد پہلے5سال دارارقم میں گزارے اور ان میں یہ دونوں بہنیں بھی موجود ہوتی تھیں۔
اگر یہ مان لیا جائے کہ11نبوی کو حضرت عائشہ سے نکاح ہوا اور اس وقت ان کی عمر6سال تھی تو پھر ماننا پڑے گا کہ بعثت کے5سال بعد حضرت عائشہ پیدا ہوئیں۔ پھر مشرکین مکہ کیساتھ اتنے سخت خراب حالات کے باوجود اس عمر کے بعد ایسے دشمن سے رشتہ کیسے ہوا؟۔ حضرت عائشہ کی بہن16سالہ حضرت اسماء موجود تھیں تو خاتون نے6سالہ بچی کی پیشکش کیسے کی تھی؟۔ البتہ حضرت عائشہ کی عمر16سال اور حضرت اسماء کی عمر26سال ہو تو پھر یہ معقول بات تھی۔اللہ تعالیٰ نے مشرک کے نکاح کی اذیت سے بھی بروقت چھڑادی تھی اور جب رخصتی ہوگئی تو نبی ۖ نے فرمایا کہ ” اللہ نے مجھے خواب میںاس کی تصویر دکھائی تھی،میں نے سوچا کہ اگر خواب شیطان کی طرف سے ہوگا تو پورا نہیں ہوگا اور اللہ کی طرف سے ہوگا تو پورا ہوگا”۔ ( صحیح بخاری)۔ مرزا غلام احمد قادیانی کا محمدی بیگم کو تنگ کرنا کس قدر بے غیرتی تھی؟۔ جھوٹے نبی اور سچے دجال نے یہ بھی نہیں سوچا کہ شیطان کی طرف سے ہوسکتا ہے اور جعلی وحی کی عربی بھی غلط لکھ ڈالی۔اللہ نے قرآن میں فرمایا کہ ” ہم نے کسی رسول کو نہیں بھیجا مگر اس کی قوم کی زباں سے”۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا تو وحی پنجابی میں نازل کروانی تھی؟۔ اس نے کہا کہ ” جو میری نبوت پر ایمان نہیں لاتا ہے تو وہ رنڈی کی اولاد ہے”۔ حالانکہ باپ کا کیا قصور تھا؟۔ پھر تو جو بعد میں قادیانی بن گئے تو ان کے آباء واجداد پر بھی رنڈی کی اولاد کا فتویٰ لگے گا۔
مفتی عبدالرحیم اورمفتی تقی عثمانی نے حاجی عثمان کے معتقد کیساتھ نکاح کو عمر بھر کی حرام کاری اور اولاد الزنا قرار دیا۔ اس فتوے کا شکار مفتی منیراحمد اخون مفتی اعظم امریکہ سے لیکر کتنے لوگ بنیں گے؟۔مسجد الٰہیہ کا امام وہ بنے جو مفتی تقی عثمانی اور مفتی عبدالرحیم کے اس فتوے سے برأت کا اعلان کرے ۔ورنہ اس کی ذات کیلئے بھی یہ بہت بڑی بے غیرتی ہے۔؟۔اگرچہ یہ غیرت نہیں رکھتے۔
اسلام کے نام پر بڑا دھبہ یہ ہے کہ بچیوں کا نکاح باپ دادا کے ذریعے اور دلال کے ذریعے معتبر قرار دیا اور بالغ لڑکی کے اغواء اور ڈرادھمکا کر نکاح کو بھی اجازت ورضامندی قرار دیا ۔
نکاح منعقد ہونے کیلئے سب سے بنیادی شرط عورت کی رضامندی ہے ۔ لیکن مفتی تقی عثمانی اور کم عقل فقہاء نے عورت کا یہ حق اس سے چھین لیا ہے۔ نکاح کو برقرار رکھنے کیلئے سب سے بنیادی شرط بھی عورت کی رضامندی ہے۔ عورت خلع چاہتی ہو تو عورت کو نکاح میں رکھنے پر کوئی مجبور نہیں کرسکتا ہے۔ نکاح سے نکلنے کیلئے عدت ہے لیکن کم عقلوں نے عدت کاتصور ختم کردیا ہے۔ قرآن میں پہلی عدت 4ماہ کی ہے جس میں شوہر نے طلاق کا اظہار نہ کیا ہو۔ قرآن گنجلک ،بے بنیاد، غلط فقہی مسائل وتضادات سے نکلنے کا بڑاراستہ ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

عورت اور بچی کے ساتھ اسلام کے نام پر جو مظالم ہیں وہ قرآن اور حدیث کی وجہ سے نہیں بلکہ غلط فقہی فتوؤں کی وجہ سے ہیں

عورت اور بچی کے ساتھ اسلام کے نام پر جو مظالم ہیں وہ قرآن اور حدیث کی وجہ سے نہیں بلکہ غلط فقہی فتوؤں کی وجہ سے ہیں

پٹھان، بلوچ، پنجابی ، سندھی، مہاجر ،برمی، بنگالی ہر عجمی نسل لڑکی کا اغواء اور ڈرادھمکاکر نکاح جائز !

علماء حق بالکل بھی فکر نہ کریں ، جس طرح مردہ زمین کو زندگی ملتی ہے اسی طرح اسلام کے آفاقی نظام کی نشاة ثانیہ کے ذریعے سے علماء حق اور مسلمانوں کو نئی زندگی ملے گی

___مفتی تقی عثمانی کی بالکل اچھوت والی غلط شریعت___
” جس لڑکی نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اسکا نکاح باطل ہے، باطل ہے ، باطل ہے”۔ یہ حدیث صحیح مگر قرآن حتی تنکح زوجاً غیرہ (یہاں تک کہ وہ نکاح کرے ) سے متصادم ہے”۔
حالانکہ صرف طلاق شدہ اور بیوہ کوقرآن نے خود مختار کہاہے۔فقہ حنفی میں قرآن وحدیث میں تطبیق ہو تو دونوں پر عمل ہونا چاہیے۔ حدیث میں کنواری لڑکی مراد ہے اور قرآن میں طلاق شدہ اور بیوہ کا ذکر ہے ۔
ایک طرف بلاوجہ نبی ۖ کی حدیث کو قرآن کے منافی قرار دیکر مسترد کیا ہے اور دوسری طرف اچھوت ذہنیت کے علماء وفقہاء نے خود کو جعلی عربی نسل بناکر اپنے لئے الگ معیار بنایا ہے اور عوام بیچاروں کیلئے انتہائی غیرفطری شریعت بناڈالی ہے۔ اس ظالمانہ فتوے کو دنیا کا کوئی غیرتمند انسان قبول نہیں کرے گا۔
سوال:ایک آدمی نے عاقلہ بالغہ لڑکی کو اغواء اور ڈرا دھمکا کر نکاح کرلیا۔ لڑکی آرائیں اور لڑکا شیخ ہے۔ دونوں قوم کی شرافت میں فرق ہے۔ آرائیں معزز اور شیخ کھوجہ ذلیل سمجھے جاتے ہیں تو نکاح ہوسکتا ہے؟۔
الجواب : آرائیں اور شیخ دونوں عجمی نسلیں ہیں اور عجمیوں کے درمیان کفاء ت کا اعتبار نہیں ۔ مذکورہ نکاح چونکہ عاقلہ بالغہ نے اپنی اجازت ورضامندی سے کیا۔ اگر لڑکی یا اسکے رشتہ دار نکاح کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو اسکا واحد راستہ یہی ہے کہ لڑکے سے طلاق حاصل کریں۔ مفتی محمد تقی عثمانی (فتاویٰ عثمانی جلددوم صفحہ280)
اگر عثمانی لڑکی بغیر اجازتِ ولی عجمی نسل سے نکاح کرے تو شرعاً معتبر نہیں ۔کیا یہ بے غیرتی دنیا کو قبول ہے؟۔اگر لڑکا سید، صدیقی ، فاروقی ، عثمانی ہو تو بنت صالحین کاکفوء نہیں۔ صالح ہو تو مسلک وعقیدہ اور عرف میں کفوء نہیں۔ حدیث کا انکار اوراچھوت کا اعتبار؟۔ اچھوت مفتی کے فتوؤں کابڑاپوسٹ مارٹم حاضر ہے۔
٭٭

___انگریز عدالت کا فیصلہ بھی بھونڈے فتویٰ سے اچھا ___
صفحہ نمبر2پر مفتی تقی عثمانی کے ” فتاوی عثمانی” کے فتوے اور تضادات کو واضح کردیا ہے۔ پہلے یہ انفرادی فتویٰ فروشی کے دھندے میں ملوث تھے۔ اب یہ عالمی سودی نظام کے جواز پر معاوضے میں ملوث ہیں۔
یہ واضح تھا کہ عاقلہ بالغہ لڑکی کو اغواء کیا اور اس سے ڈرا دھمکاکر نکاح کرلیا مگر جواب دیا گیاہے کہ لڑکی کا یہ نکاح اپنی اجازت اور رضامندی ہے۔ یعنی اگر زبردستی سے مجبور کیا جائے اور اس کو اغواء کیا گیا ہو تب بھی نکاح منعقد ہوگیا ۔ اب اس سے خلاصی کیلئے کسی عدالت سے مدد نہیں لی جاسکتی ہے اور جب تک لڑکا اپنی مرضی سے طلاق نہیں دے گا تو لڑکی اسکے نکاح میں رہے گی۔ کچے کے ڈاکو اس فتویٰ کا فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔
جمعیت علماء اسلام اور پاکستان، جماعت اسلامی، تحریک لبیک ، اہل سنت والجماعت (سپاہ صحابہ) و دیگر مذہبی جماعتیں پہلے مل بیٹھ کر اس جعلی شریعت کا علاج کریں جو موجودہ عدالتی نظام سے بھی بہت بدتر ہے۔
عدالت میں کیس جائیگا تواس شریعت کے مقابلے میں کھربوں گنا بہتر ہے اسلئے کہ اگر لڑکی گواہی دے کہ زبردستی سے اغواء اور نکاح کیااور جنسی زیادتی کی تو اس پر اغواء اور جبری جنسی زیادتی کے دفعات لگیں گے۔ دہشت گردی کی دفعہ بھی لگ سکتی ہے اور معاونت کرنے والوں اورسہولت کاروں کو سزامل سکتی ہے۔
قارئین ! مفتی کی اس شریعت سے انگریزی عدالت کا فیصلہ بہت اچھا ہے۔ جمہوری نظام اچھوتوں کی جعلی شریعت سے جان چھڑانے کیلئے ٹوٹی ہوئی ہڈی کو جوڑنے کی پٹی ہے۔ پاکستان نے وفاقی شرعی عدالت کو زیردست رکھاہے اسلئے کہ یہ اچھوت کی شریعت ہے جس میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ حضرت محمد عربی خاتم الانبیاء ۖ کی شریعت کے خلاف قادیانی اور ان علماء ومفتیان نے سازشیں کی ہیں۔
٭٭

___اصلی اسلامی شریعت کا فیصلہ سب کیلئے قابلِ قبول___
اگر قرآن وسنت کا نظام نافذ ہوگا تو والدین کو اجازت نہ ہوگی کہ بیٹیوں کے نکاح پر فیصلہ مسلط کریں۔ کسی مسلم و غیر مسلم لڑکی کو گھر سے بھاگ کر نکاح کی ضرورت نہ ہو گی ۔ ریاست ذمہ دار ہوگی کہ کسی عورت کو نکاح پر مجبور نہ کیا جائے۔ لڑکیاں والدین کے ناجائز اور غیرفطری روئیے سے گھر بار چھوڑ کر فرار ہوتی ہیں ۔ قرآن نے حکم دیا کہ تمہاری لڑکیاں جب نکاح کرنا چاہتی ہوں تو ان کو بغاوت اور بدکاری پر مجبور مت کرو۔ جبکہ حدیث واضح ہے کہ اگر لڑکی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو اس کا نکاح باطل ہے۔ اسلام نے چودہ سوسال پہلے متوازن معاشرتی نظام کی بنیاد رکھ دی جس کا اچھوت علماء نے کباڑہ کرکے رکھ دیا ۔
اسلام میںجبری جنسی زیادتی پر سرِ عام سنگساراور اسکے معاونین کو فساد فی الارض میں سولی پر لٹکانے ، ہاتھ اور پیر کو مخالف جانب کاٹنے اور قید کی سزا قرآن میں ہے۔ گوانتانا موبے میں مظالم کی انتہاکی گئی ہے ۔ اقبال نے ابلیس کی زباں سے لکھ دیا کہ: جانتاہوں میں یہ اُ مت حاملِ قرآں نہیں…ہے وہی سرمایہ داری بندۂ مومن کا دیں…جانتا ہوں کہ مشرق کی اندھیری رات میں… بے یدِ بیضاء ہے پیران حرم کی آستیں… عصرِ حاضر کے تقاضوں سے ہے لیکن یہ خوف…ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبر کہیں…الحذر آئینِ پیغمبر سے سو بار الحذر…حافظِ ناموسِ زن مرد آزما مرد آفریں… موت کا پیغام ہر نوعِ غلامی کیلئے …نے کوئی فغفور و خاقاں،نے فقیرِ رہ نشیں…کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک…منعموں کو مال ودولت کا بناتا ہے امیں…اس سے بڑھ کر کیا فکر و عمل کا انقلاب؟… پادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ زمیں…چشم عالم سے پوشیدہ رہے یہ آئین تو خوب…یہ غنیمت ہے کہ خود مؤمن ہے محرومِ یقیں ( ابلیس کی مجلس شوریٰ )

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

قرآن وحدیث میں طلاق و رجوع کا مسئلہ حل کردیا اوریہ قادیانی وشیعہ کی اصلاح بھی ہے!

قرآن وحدیث میں طلاق و رجوع کا مسئلہ حل کردیا اوریہ قادیانی وشیعہ کی اصلاح بھی ہے!

مرزاغلام احمد قادیانی ملعون کذاب دجال نے نبوت کا دعویٰ کیا لیکن اس کی سب سے بڑی دجالیت یہ ہے کہ ایک طرف نبوت ومہدویت کا دعویٰ ہے تو دوسری طرف اسلام کا دامن بھی عام مسلمانوں کی طرح پکڑ رکھا ہے۔ قرآن اور سنت کے علاوہ حنفی مذہب کی فقہ بھی تھام رکھی ہے۔ جب علماء ومفتیان نے شیعہ پر کفر کا فتویٰ لگایا تھا تو اس میں لکھ دیا تھا کہ ”شیعہ قادیانی سے بدتر کافر ہیں اسلئے کہ قادیانی ختم نبوت کی آیت میں تاویل کرتے ہیں، باقی قرآن وسنت اور صحابہ و فقہاء اور امت مسلمہ کا سارا سلسلہ مانتے ہیں جبکہ شیعہ کا قرآن وسنت ، فقہ اور نماز وغیرہ سب مسلمانوں سے جدا ہے اور صحابہ کرام کی بھی تکفیر کرتے ہیں”۔
جب اصل فقہ حنفی کے اصولوں کے مطابق قرآن وسنت سے طلاق و رجوع کا مسئلہ واضح ہوجائے گا تو قادیانی دجال کی دجالیت سے مرزائیت توبہ کرے گی اسلئے کہ جس شخص کو قرآن وسنت کے اتنے موٹے احکام بھی سمجھ میں نہیں آئے تو مہدی ونبی تو بڑی دور کی بات ہے ایک اچھا عالم دین وفقیہ بھی نہیں ہوسکتا ہے۔ اسی طرح شیعہ واہلحدیث ، غلام احمد پرویز، جاوید غامدی، ڈاکٹر ذاکر نائیک اور انجینئرمحمد علی مرزا کے پیروکاروں کی بھی قرآن کے ذریعے اصلاح ہوجائے گی۔ اس کا سارا کریڈٹ حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری اور حضرت حاجی محمد عثمان کی شخصیات کو جائے گا جنہوں نے اہل حق کا سلسلہ باطل کے مقابلے میں قائم رکھا اور دنیا پرستی اور دین فروشی کے فتنوں سے اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت کی۔
فتاویٰ عثمانی میں بہت سارے دنیا پرستی اور دین فروشی کے نمونے ہیںمثلاً زکوٰة کے پیسوں سے ان کتب فروشوں سے کتابیں خرید کر غرباء میں تقسیم کردو تو یہ جائز ہے لیکن اگر تبلیغ دین کیلئے مسائل کی کتابیں زکوٰة کے مال سے چھاپ لیں تو یہ جائز نہیں ہے۔ انکے فتوے اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے ہوتے ہیں۔
قرآن میں دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ طلاق کا تصور بھی آیة229البقرہ میں ہے۔ایک صحابی نے پوچھ لیا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے؟۔ نبی ۖ نے فرمایا:” الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف او تسریح باحسان (دو مرتبہ طلاق کے بعد پھر معروف طریقہ سے رجوع ہے یا احسان کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔آیت229) قرآن میں تیسری طلاق احسان کے ساتھ چھوڑ دینا ہے”۔ وفاق المدارس پاکستان کے صدر مفتی تقی عثمانی کے استاذ سابق وفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خان نے” کشف الباری شرح البخاری ” اور تنظیم المدارس پاکستان کے صدر مفتی منیب الرحمن کے استاذ علامہ غلام رسول سعیدی نے ” نعم الباری شرح البخاری” میں اس حدیث کو لکھ دیا ہے۔
اصول فقہ کی کتاب ”نورلانوار: ملاجیون” میںہے کہ” فان طلقہا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ (پھراگر اس نے طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیںیہاں تک وہ کسی اور سے نکاح کرلے”۔میں مذکور طلاق کا تعلق الطلاق مرتٰن ( طلاق دو مرتبہ ہے)سے حنفی مسلک کے مطابق نہیں ہے اسلئے کہ ف تعقیب بلامہلت کیلئے آتا ہے۔ اس کا تعلق آیت229البقرہ کے آخر فلا جناح علیھما فیماافتدت بہ ( پھر ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں جو عورت کی طرف سے فدیہ کیا جائے)کیساتھ ہے۔ جس پر حنفی مسلک کے مشہور عالم، شاعر وادیب علامہ تمنا عمادی نے کتاب لکھ ڈالی کہ ” حنفی مسلک کا مؤقف یہ ہے کہ اس طلاق کا تعلق صرف خلع کی صورت سے ہے۔ خلع میں غلطی عورت کی ہوتی ہے اور سزا بھی عورت کو ملتی ہے”۔ علامہ تمنا عمادی نے غیرضروری طور پر احادیث صحیحہ کا انکار کردیا اور قرآن وحنفی مؤقف کو پیش کردیا۔ حالانکہ قرآن و حدیث اور حنفی مؤقف کا تقاضا یہ ہے کہ ” تیسری بار طلاق کو ف تعقیب بلامہلت کی وجہ سے تسریح باحسان کیساتھ ہی منسلک کیا جائے”۔جس سے آیت کا مطلب بھی واضح ہوگا، احادیث صحیحہ کا انکار بھی نہیں کرنا پڑے گا اور حنفی مؤقف کو بھی درست ماننا پڑے گا۔ مفتی تقی عثمانی نے لکھ دیا ہے کہ ” آیت229کا مفہوم بالکل مبہم اور غیر واضح ہے اور اس کو سمجھنے کیلئے مولانا اشرف علی تھانوی کی تفسیر میں حل تلاش کرنا ہوگا”۔ حالانکہ مولانا تھانوی کی تفسیر زیادہ مبہم اور غیر واضح ہے ۔ پشتو میںکہا جاتا ہے کہ ” بارش سے میں بھاگا اور پرنالے کے نیچے رات ہوگی”۔
جب عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو حیض میںطلاق دی تو رسول اللہ ۖ کو حضرت عمر نے خبر کردی ۔ نبی ۖ غضبناک ہوگئے۔ پھر رجوع کا حکم دیا ، فرمایا: طہر کی حالت میں اپنے پاس رکھو ،یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر طہر کی حالت میں اپنے پاس رکھو یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر طہرمیں چاہو تو رجوع کرلو اور چاہو توہاتھ لگائے بغیر چھوڑ دو۔ یہ وہ عدت ہے جس میں اللہ نے قرآن میں امر فرمایا ہے۔ (بخاری کتاب التفسیر سورہ ٔ طلاق )۔ کتاب الطلاق، کتاب الاحکام اور کتاب العدت میں یہ حدیث لفظی سے اختلاف سے نقل کی گئی ہے۔
جس سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ تین مرتبہ طلاق کا تعلق عدت کے تین مراحل سے قرآن وحدیث میں ثابت ہے۔ جہاں تک اس طلاق کا تعلق ہے جو آیت230میں ذکر کی گئی ہے جس کے بعد جب تک عورت کسی اور شوہر سے نکاح وجماع نہ کرلے تو پہلے شوہر کیلئے حلال نہیں ہے۔ تو اس کا تعلق آےة229کے اس آخری حصہ سے ہے جس میں تین مرحلہ وار طلاقوں کے بعد صلح نہ کرنے کی بھرپور وضاحت ہے۔ حضرت ابن عباس نے بھی اس طلاق کو دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ طلاق کیساتھ فدیہ دینے کی صورت سے سیاق وسباق کے مطابق خاص کیا ہے۔ دیکھئے ابن قیم کی کتاب ”زادالمعاد:ج ٤باب الخلع”۔
صرف علماء ومفتیان اور عوام الناس اس واضح آیت پر اتنا غور کریں کہ اس میں خلع مراد نہیں ہوسکتا ہے اسلئے کہ دو تین مرتبہ طلاق کے بعد خلع کا تصور کہاں سے درست ہوگا؟۔ یہاں وہ صورت ہے کہ جس میں واضح ہے کہ میاں بیوی اور ان کے درمیان فیصلہ کرنے والے اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ نہ صرف دونوں کی جدائی ہو بلکہ آپس میں رابطے کا کوئی ذریعہ بھی نہ چھوڑا جائے جس سے دونوں کو ناجائزجنسی تعلقات میں مبتلاء ہوکر اللہ کے حدود کو قائم نہ رکھ سکنے کا خوف ہو۔
مولانا سیدابولاعلیٰ مودودی اور جاوید غامدی نے بھی یہ غلطی کردی کہ جہاں آیت میں اللہ تعالیٰ نے طلاق کے بعد عورت کے حقوق کی حفاظت کو واضح کردیا ہے تووہاں خلع کے نام پر عورت کی مالی بلیک میلنگ کا راستہ کھول دیا ہے۔ علماء و مفتیان کیلئے میری ذات باعثِ فخر واطمینان ہے کہ مدارس اور درسِ نظامی سے ایک بندہ اللہ نے ایسا بھی پیدا کیا ہے جس نے علمائِ حق کا پرچم بلند کردیا ہے۔
دیوبند ی بریلوی جس درسِ نظامی کو اپنے مدارس میں پڑھاتے ہیں اسکے حنفی مسلک کے اصول کی جیت قرآن وسنت کی طرف رجوع اور اسلام کی نشاة ثانیہ کا ذریعہ ثابت ہوگا۔ مساجد کے منبر ومحراب سے علمائِ حق عوام کو قرآنی ترجمہ وتفسیر پڑھائیںگے تو پوری دنیا کے انسان قرآن و مسلک حنفی کی طرف توجہ کریں گے۔ آیت230البقرہ سے پہلے آیات میں عدت میں صلح و معروف کی شرط پر طلاق کے بعدرجوع کی اجازت ہے اور بعد کی آیات میں عدت کے بعد بھی صلح ومعروف کی شرط پر رجوع کی اجازت ہے۔ جس کا خلاصہ سورہ ٔ طلاق میں موجود ہے۔ البتہ تمام آیات میں باہمی صلح واصلاح اور معروف کی شرط کے بغیر طلاق کے بعدرجوع کی اجازت نہیں ہے۔ قرآن و سنت سے عوام کا بھلا ہوتا ہے لیکن مفتی تقی عثمانی جیسے علماء سوء کی مذہبی اجارہ داری اورتجارت ختم ہوجاتی ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مفتی رشیداحمد لدھیانوی کا حلالہ کوایک لعنت قرار دینا مگر مفتی تقی عثمانی کا لعنت سے انکار

مفتی رشیداحمد لدھیانوی کا حلالہ کوایک لعنت قرار دینا مگر مفتی تقی عثمانی کا لعنت سے انکار

مفتی رشید احمد لدھیانوی مروجہ حلالہ کو حدیث کی وجہ سے لعنت قرار دیتے تھے اور اس وجہ سے دوسرے مفتی صاحبان کے مقابلے میں بہت سارے لوگ بھی ان کو پسند کرتے تھے۔ جبکہ دارالعلوم کراچی حلالے کا سینٹر تھا۔ مفتی محمد شفیع نے دارالعلوم کراچی کی وقف زمین اپنے بیٹوں مفتی تقی عثمانی ومفتی رفیع عثمانی کیلئے گھر خریدلئے تو بھی مفتی رشید احمد لدھیانوی نے ان کے خلاف دو وجہ سے فتویٰ دیا تھا کہ یہ حرام ہے۔ ایک اسلئے کہ وقف مال کی خرید وفروخت جائز نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ ایک شخص بیچنے اور خریدنے والا نہیں ہوسکتا ہے۔
حکومت بھی بغیر ٹینڈر کے ٹھیکہ دے تو یہ خلافَ قانون اور ناجائز ہے جس پر گرفت کی جاسکتی ہے۔ ایک تو وقف مال کی خرید وفروخت بالکل حرام اور ناجائز ہے اور دوسرا یہ کہ کوئی خود بیچے اور خریدے تو یہ ڈبل جرم ہے۔ عدالت میں جب توشہ خانہ کیس چل سکتے ہیں۔ جیو ٹی وی چینل کے صحافی حامد میر اور انصار عباسی جمعیت علماء اسلام کے علامہ راشد سومرو کے سامنے میڈیا پرمولانا فضل الرحمن کی زبردست تذلیل کرسکتے ہیں کہGHQنے ان کو زمینیں دی ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے بھی مفتی تقی عثمانی کو دارالعلوم کراچی کیلئے نقدی اور پلاٹ دئیے تھے اور اس کا ذکر کرنے سے انصار عباسی کا حیض ٹپکنے کا خطرہ ہوسکتا ہے لیکن حامد میر بھی اپنے پروگرام میں اس بات کی وضاحت کیوں طلب نہیں کرتا ہے کہ ” دارالعلوم کی وقف زمین کیسے ذاتی مکانات کیلئے خریدی جاسکتی ہے؟”۔ میڈیا مالکان اور علماء ومفتیان اگر خود چوری میں ملوث نہیں ہیں تو ان کو ضرور مسئلہ اٹھانا چاہیے۔
حلالہ کی نیت سے کئے گئے نکاح کی شرعی حیثیت اور اسے موردِ لعنت قرار دینے کا حکم
سوال : اگر حلالہ کرنے والے مرد اور عورت کو ایک دوسرے کی نیت کا علم ہے مگر عقد میں اس کی تصریح نہیں کرتے تو کیا یہ نکاح بھی ناجائز اور موردِ لعنت ہے؟” احسن الفتاویٰ ” ج :٥ ص: ١٥٥ میں ہے:
ایسے نکاح کی حرمت اور موردِ الزام لعنت ہونے کے لئے شرطِ تحلیل کی تصریح ضروری نہیں بلکہ ایک دوسرے کی نیت کا علم بھی بقاعدہ ”المعروف کالمشروط ” اسی میں داخل ہے۔وھو مفہوم قولہ اذا اضمر لایکرہ ۔
حضرت والا کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟۔
(مولانا) محمد عامر (استاذ جامعة الرشید کراچی)
جواب : احوط تو بیشک وہی ہے جو حضرت نے ” احسن الفتاویٰ” میں لکھا ہے لیکن اس کو موردِ لعنت قرار دینا محلِ نظر ہے۔ فقہاء کے کلام سے اس کی تائید نہیں ہوتی ، علم ہونے اور ”معروف کالمشروط” میں بظاہر فرق ہے۔ معروف اس وقت کہیںگے جب کسی عرف کی بناء پر کوئی بات بغیر صراحت کے بھی مشروط سمجھی جاتی ہو،محض متعاقدین کے علم سے یہ بات حاصل نہیں ہوتی ۔ تمام حیلِ مباحثہ میں متعاقدین کو علم ہوتا ہے مگر اسے مشروط نہیں سمجھاجاتا۔ واللہ اعلم
فتاویٰ عثمانی جلد دوم صفحہ278۔ مفتی تقی عثمانی نے یہ ثابت کرنا چاہاہے کہ مفتی رشیداحمد لدھیانوی نے حدیث سے جس مروجہ حلالہ کو ” اللہ کی لعنت پڑنے کا ذریعہ ” قرار دیا ہے اسلئے کہ اگر زبان سے وہ نیت نہ بھی کریں تو یہ نکاح حلالہ کی لعنت ہے۔ یہ درست نہیں اسلئے کہ فقہاء نے اس کی تائید نہیں کی ہے۔ علامہ بدرالدین عینی اور علامہ ابن ہمام نے لکھ دیا ہے کہ ” اگر حلالہ کی نیت ہو لیکن نیت کا زبان سے اظہار نہ کیا جائے تو پھر نیت کا کچھ اعتبار نہیں ہوگا اور جب تک زبان سے نیت نہ کی جائے تو دل کی نیت لعنت کا ذریعہ نہیں بن سکتا ہے”۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کے برعکس یہ بھی واضح کردیا ہے کہ ” ہمارے بعض نامعلوم بزرگوں نے کہا ہے کہ اگر دو خاندانوں کو ملانے کی نیت سے حلالہ کیا جائے تو یہ باعثِ ثواب بھی ہے”۔ یعنی حلالہ کی لعنت سے بچنے کیلئے نیت کا اعتبار نہ ہوگا مگر حلالہ سے ثواب سمیٹنے کیلئے نیت کا اعتبار ہوگا”۔مفتی تقی عثمانی نے یہ واضح کیا ہے کہ تمام حیلوں میں علم کے باوجود ہم ملوث ہوتے ہیں۔
بریلوی مکتبہ فکر کے مفتی عطاء اللہ نعیمی نے اپنی کتاب ” تین طلاق اور حلالہ کی شرعی حیثیت” میں فقہاء کی ان عبارات کو نقل کیا ہے۔ مفتی نعیمی سمجھ نہیں رکھتا اسلئے اس کی گمراہی عیسائیوں کی طرح ہے اور مفتی تقی عثمانی جان بوجھ کر حق سے منحرف ہیں اسلئے اس پر یہود کی طرح اللہ کا غضب ہے۔ مولانا عبیداللہ سندھی کی تعلیمات میں دونوں طبقات کا یہودونصاریٰ کے نقش قدم پر چلنا واضح ہے۔
جامعہ بنوری ٹاؤن سے حلالہ کیلئے مفتی عبدالسلام چاٹگامی نے فتویٰ دیا تھا تو لکھا تھا کہ” اس شرط پر نکاح کرے کہ طلاق کا اختیار بیوی کے پاس ہوگا”۔ لیکن دارالعلوم کراچی والے تین طلاق واقع ہونے کیلئے تو ہرطرح کے حیل وحجت کرتے ہیں لیکن حلالہ کی لعنت سے بچنے کیلئے اس کو علم کے باوجود بھی لعنت کا سبب نہیں قرار دیتے ہیں۔ اب دوسرے مدارس نے بھی مفتی محمد شفیع ، مفتی تقی عثمانی ، مفتی عبدالرؤف سکھروی وغیرہ کا راستہ اختیار کرنا شروع کیا ہے اسلئے کہ حلالہ کی لعنت نہ صرف لذت اٹھانے کا ذریعہ ہے بلکہ کاروبار بھی ہے۔
مفتی تقی عثمانی اور مفتی عبدالرؤف سکھروی نے کراچی کے لوگوں پر شادی کی رسم میں لفافے کی لین دین پر بھی سود کا فتویٰ لگادیا تھا اور اس کے کم ازکم گناہ کو اپنی ماں سے زنا کے برابر قرار دیا تھا لیکن پھر سودی نظام سے معاوضہ لے کر بینکاری کے سودی نظام کو بھی اسلامی قرار دے دیا۔ پاکستان بھر کے علماء ومفتیان ایک طرف تھے لیکن مفتی تقی عثمانی نے بینکاری کے سودی نظام کو پھر بھی اسلامی قرار دے دیا۔ اب ایک مدرسہ کے بورڈ وفاق المدارس پاکستان کے صدر مفتی تقی عثمانی اور دوسرے بورڈ کے صدر مفتی عبدالرحیم ہیں۔
کورکمانڈرز کانفرنس میں نکاح وطلاق اور سودی معیشت کے حوالے سے علماء حق اور علماء سوء کو دعوت دی جائے اور مجھے بھی طلب کیا جائے۔ اگر سب کی طرف سے تائید نہ ملے تو جو چور کی سزا وہ میری سزا۔مگر جب سب قرآن وسنت پر متفق ہوجائیں اور ایک انتہائی گھمبیر مسئلہ طلاق اور گھناؤنے مسئلہ حلالہ کی لعنت سے اُمت مسلمہ کی جان چھوٹ جائے تو ہمارا معاشرتی نظام بھی درست ہوگا اور معاشی وسیاسی مسائل سے بھی انشاء اللہ بہت جلد جان چھوٹے گی ۔ انشاء اللہ

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مفتی تقی عثمانی کے ”فتاویٰ عثمانی’ ‘ کا قرآن وسنت سے انحراف اورزبردست آپریشن کا آغاز

مفتی تقی عثمانی کے ”فتاویٰ عثمانی’ ‘ کا قرآن وسنت سے انحراف اورزبردست آپریشن کا آغاز

ہم مفتی تقی عثمانی کے اس فتوے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ پتہ نہیں کتنی خواتین کو اپنے شوہروں پر حلالہ کی لعنت کیلئے انہوں نے ناجائز حرام کردیا ہے،اللہ نے ہمیں قبول کرلیا ہے!

جس طرح نسوار، سگریٹ، حقہ، بھنگ،شراب، چرس، افیم، کوکین ، شیشہ اور ہیروئن کے نشے کی علت لگتی ہے اسی طرح سے ان علماء ومفتیان کوحلال نکاح کو حرام کرنے کی بھی علت لگی ہے

ہمارا مقصد اپنا دفاع یا انتقام نہیں بلکہ ان علماء ومفتیان کے ہاتھوں جس طرح قرآن اور امت مسلمہ کی خواتین کی بے حرمتی ہورہی ہے اس کو روکنا اصل مقصد ہے۔علمائِ حق ہمارا ساتھ دیں!

مولانا فقیر محمد پر گریہ طاری رہتا لیکن حاجی عثمان کی محفل میں وہ وجد میں آکر گھومنا شروع ہوجاتے۔ حاجی عثمان نے کئی بزرگوں سے اکتساب فیض کیا۔ سیدعالم چشتی اور قادری سلسلہ سے خلافت تھی۔ مولانا سید محمد میاں جامعہ مدنیہ کریم پارک لاہور نے ” علماء ہند کا شاندار ماضی ”میں لکھا : ” شیح احمد سرہندی مجدد الف ثانیسب سلسلوں میں مقبول تھے اور سبھی خلافت وبیعت کی نسبت دینے کی کوشش کررہے تھے ، پھر رسول اللہ ۖ نے فیصلہ فرمایاکہ سب سلسلے کی طرف سے اجازت دی جائے لیکن نقشبندی سلسلہ کی خدمت کریں گے”۔
مولانا فقیر محمد نے کسی کے مشورہ پر حاجی عثمان سے خلافت واپس لی ۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے مہتمم مفتی احمدالرحمن اور مفتی ولی حسن نے کہا کہ آپ نے حاجی محمد عثمان کو ورود سے خلافت دی تو مشورے پر شرعاً خلافت واپس نہیں لے سکتے جب تک کہ دوبارہ ورود نہ ہو۔ مولانا فقیر محمد نے جامعة العلوم اسلامیة بنوری ٹاؤن کراچی کے لیٹر پیڈ پر لکھ دیا کہ ” میں نے حاجی محمد عثمان کو ورود کی نسبت سے خلافت دی تھی جو تاحال قائم اور دائم ہے”۔
اس پر مفتی احمد الرحمن، مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن رئیس دارالافتاء جامعہ بنوری ٹاؤن اور مفتی جمیل خان روزنامہ جنگ کراچی کے دستخط ہیں۔
مفتی احمد الرحمن و مفتی ولی حسن غریبوںکو حاجی عثمان کے خلفاء نے گاڑیوں کا مالک بنادیا تھا۔ پھر جب سرمایہ دار مرید مفتی تقی عثمانی کی سازش سے مخالف بن گئے اور دارالعلوم کراچی نے” الاستفتاء ” کے نام سے سوالات اور جوابات کو خود مرتب کیا تو مفتی رشیداحمدلدھیانوی نے حاجی عثمان کو دھمکی دی کہ اگر نہیں آئے تو یکطرفہ فتویٰ دیںگے۔ حاجی عثمان آپریشن کیلئے داخل تھے۔ پیشاب کی تھیلی ہاتھ میں لئے پہنچے تو علماء ومفتیان کی طوطا چشمی دیکھ کر حیران ہوگئے۔
مولانا فقیر محمد نے جن علماء ومفتیان کا شرعی فتویٰ مان کر لکھا تھا کہ مشورے سے ورود کی دی ہوئی خلافت واپس نہیں لی جاسکتی ۔ انہوں نے ہی مولانا فقیر محمد کو مشورہ دیا کہ خلافت واپس لو۔حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ گمراہ پیر کی خلافت پر مولانا فقیر کی پیری تحفظات کا شکار بن جاتی مگر حاجی عثمان کے خلفاء جگر کے ٹکڑے تھے اور مولانا فقیر محمد ورود کی نسبت خلافت دینے کے باوجود معتبر تھے ؟ ۔ اگرحاجی عثمان پیری کے قابل نہیں تھے تو یہی فتویٰ پھر مولانا فقیرمحمد پر لگتا تھا؟۔
مولانا فقیر محمد شیخ و مرشد نہیں تھے بلکہ حاجی عثمان کے بارے میں لکھ دیا کہ ”مولانا اشرف علی تھانوی کے مرشد حاجی امداداللہ مہاجر مکیسے بہت مشابہت رکھتے ہیں اور ان کا بہت شکریہ کہ27رمضان المبارک کی رات مسجد نبوی ۖ مدینہ منورہ میںورود کی خلافت کوقبول فرمالیا ہے”۔اس میں بڑے راز کی بات تھی کہ ورود کی خلافت ،TJابراہیم سے الائنس موٹرز کی کہانی، علماء ومفتیان کے شرمناک فتوے اور اس پر معافی مانگنے سے لیکر دوبارہ انتہائی جہالت اور کمینہ پن سے فتویٰ بازی اور بدمعاشی کے معاملات تک بہت حقائق سامنے آگئے ۔
حاجی امداداللہ مہاجر مکی کے مرید وخلفاء میں اکابر دیوبند تھے اور بریلوی مکتبہ فکر میں بھی حاجی امداداللہ مہاجر مکی کا احترام ہے اور” فیصلہ ہفت مسئلہ” میں بریلوی دیوبندی اختلافات کو حاجی امداداللہ مہاجر مکی نے ختم کیا۔ علماء دیوبند کااس کتاب سے اختلاف تھا بلکہ جلا دیا تھا لیکن مولانا اشرف علی تھانوی نے اس کو شائع کیا تھا۔جب فتویٰ کے بعدمیرا خانقاہ میں قیام تھا تو میں نے خواب دیکھا کہ ” حاجی امداداللہ مہاجر مکی خانقاہ کے مشرقی دروازے سے داخل ہوئے اور کہا کہ میں عتیق کو دیکھنے آیا ہوں۔ میں کمرے میں آرام کررہا تھا ۔پھر کمرے کے دروازے پر آئے تو تھوڑی سی شرمندگی کا احساس ہوا اور دروازہ کھول دیا”۔ حاجی محمد عثمان مجھے حضرت عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر لے گئے لیکن میں نے ایسی کیفیت کی مزاحمت کی کہ مکاشفہ ہوجائے۔ پھر ایک دفعہ خواب دیکھا تھا کہ ”پہاڑ پر چڑھتے ہوئے جس سڑک پر چل رہے ہیں۔ وہ ساری کٹی ہوئی تھی۔ گاڑی کا یہ کمال ہوتا ہے کہ سڑک کی بھرائی بھی کرتی ہے اور مرمت بھی کرتی ہے اور اس پر کارپٹ بھی خود بخود بچھاتی ہے۔ اس میںتقریباً70،80افرادتھے”۔ حاجی محمد عثمان سے خواب کا ذکر کیا تو انہوں نے پوچھ لیا کہ میں بھی اس میں ہوتا ہوں؟۔ میں عرض کرتا ہوں کہ آپ نہیں ہوتے۔ فرمایا کہ ” آپ کیلئے70،80بھی کافی ہیں”۔ یہ بھی فرمایا تھا کہ ” آپ سے اللہ نے دین کا بہت بڑا کام لینا ہے اور آپ کے ذریعے اللہ صدیقین کی جماعت پیدا کرے گا”۔قرآن میں کافروں کا ذکر ہے اور مکذّبین کا ذکر ہے جو جھٹلانے والے ہوتے ہیں۔ایمان والوں کا ذکر ہے اور متصدقین کا ذکر ہے جس کا معنی تکذیب کے مقابلے میں تصدیق کرنے والے ہیں لیکن علماء نے ان سے صدقہ دینے والے مراد لئے۔
ہمارے کئی ساتھی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ باقی ہم اس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ امت کی بھلائی کیلئے ایک بڑا انقلاب برپا ہوجائے ۔
اللہ نے قرآن میںفرمایا: منھم من قضٰی نحبہ ومنھم من ینتظر ۔ ایک وہ جنہوں نے اپناہدف پورا کردیا اور دوسرے وہ جو انتظار میں بیٹھے ہیں۔
مولانا فقیر محمد سادہ تھے۔ حاجی عثمان کی خلافت قدرت کی ایک چال تھی۔ اللہ نے فرمایا : ومکروا ومکر اللہ واللہ خیر الماکرین ”اور یہ اپنا جال بچھاتے ہیں اور اللہ اپنا جال بچھاتا ہے اور اللہ بہتر جال بچھانے والا ہے”۔
علامہ یوسف بنوری اور دوسرے اکابر علماء جب حج پر مستورات کے ساتھ جاتے تو مستورات کو حاجی محمد عثمان کے ذمہ لگاتے۔ علامہ سید محمد یوسف بنوری نے اپنے صاحبزادے مولاناسید محمدبنوری سے فرمایا تھا کہ ” حاجی محمد عثمان سے خوف رکھو، ان کے ہاتھ میں چھڑی ہے”۔ مولانا سیدمحمد بنوری فتویٰ لگنے کے بعد بھی حاجی عثمان کے پاس آتے تھے اور علماء کرام کو بھی ساتھ لاتے تھے۔ ایک مرتبہ مولانا سید عبدالمجید ندیم کو بھی ساتھ لائے تھے۔ ندیم صاحب نے کہا تھا کہ ” عثمان نام ہے تو مظلومیت کا انداز بھی وہی ہے اسلئے کہ نام کا اثر ہوتا ہے اور جنہوں نے فتویٰ لگایا ہے کہ یہ گند اور بدبو کے ڈھیر ہیں”۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ ” یہ سن70کا فتویٰ لگتا ہے۔ علماء ومفتیان نے سرمایہ داروں سے خوب مال کھایا ہوگااور یہ پیر کوئی اچھے آدمی ہوں گے”۔
حاجی عثمان کی بیعت سے پہلے مولانا اللہ یار خان کے مریدوں نے پیشکش کی تھی کہ مولانا اللہ یار خان نے کہا کہ مجھ سے بیعت نہ ہوں بلکہ رسول اللہ ۖ کے ہاتھ میں براہِ راست بیعت ہوگی لیکن میں نے اس پیشکش سے معذرت کرلی تھی اسلئے کہ انکے مریدوں نے کہا تھا کہ ”آپ بیعت ہوجائیں تو دنیا کی ساری ضروریات پوری کردیںگے”۔ مجھے ان کی یہ بات اچھی نہیں لگی تھی۔ مولانا اللہ یار خان کے خلیفہ مولانا اکرم اعوان انقلابی تھے اور بہت سارے فوجی افسران ان سے بیعت تھے اور حاجی محمد عثمان سے بھی فوجی افسران بیعت تھے۔ وہ بھی انقلاب چاہتے تھے لیکن مرید فوجیوں اور علماء نے کوئی ساتھ نہیں دیاتھا ۔
مولانا عبدالقدوس خطیب جامع مسجد یارک ڈیرہ اسماعیل خان نے بتایا کہ ”مولانا اللہ یار خان نے وزیرستان کا سفر کیا تھا اور کہا تھا کہ میں ایک موتی تلاش کرنے آیا ہوں،اگر اللہ نے دیا۔ مجھے لگتا ہے کہ آپ کی تلاش میں گئے تھے”۔
وزیرستان جلسہ عام میں مولانا نورمحمدMNA،مولانا اکرم اعوان اور میں ساتھ تھے ۔مولانا اکرم اعوان خلیفہ مولانا اللہ یار خان نے کہا تھاکہ ”میں کسان ہوں۔ کسان فصل اٹھاتا ہے تو باقی گندم اخراجات رکھتا ہے اور بہترین گندم کوبیج کیلئے محفوظ رکھتا ہے۔ اللہ نے وزیرستان کی عوام کو بیج کیلئے محفوظ رکھا ہوا ہے”۔
مفتی عبدالرحیم نے شیخ سید عبدالقار جیلانی، شاہ ولی اللہ، علامہ سیدیوسف بنوری اور شیخ الحدیث مولانا زکریا کے معتقدات پر بھی کفروگمراہی، الحاد وزندقہ، قادیانیت اور دیگر فتوے لگادئیے تھے۔ مفتی رشیداحمد لدھیانوی نے اس خوف سے اتنی پھوسیاں ماری ہوں گی کہ دارالافتاء والارشاد کو بدبوسے بھر دیا ہوگا لیکن جب ہم نے رعایت کی تو پھر انہوں نے الائنس موٹرز کی نمک حلالی کیلئے اپنا وہی کام شروع کردیا۔ ہمیں بہت خوشی ہے کہ فتوؤں کا کواڑ بالکل کھلا رکھا گیاہے۔
مولانا فضل محمد یوسف زئی استاذ حدیث جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی نے کہا تھا کہ ” مفتی رشید احمد لدھیانوی نے علامہ سید محمد یوسف بنوری سے اذیت ناک سلوک روا رکھا تھا اسلئے اللہ نے تیرے ہاتھوں اس کو عذاب کا مزا چکھادیا ”۔
تصوف وسلوک کے میدان میںعلماء ومفتیان کی نالائقی اپنی جگہ تھی لیکن جب درسِ نظامی کے نصاب کو دیکھا جائے اور اس سے باصلاحیت علماء ومفتیان کی جگہ کوڑھ دماغ شخصیات جنم لینے کا قضیہ دیکھا جائے تو معاملہ بڑا بگڑتا ہے۔ جب دیوبندی ، بریلوی، اہلحدیث اور شیعہ ہماری وجہ سے اس پر متفق ہوجائیں کہ قرآنی آیات کی تفسیر اور احادیث کی تشریح پر اختلاف نہیں رہے بلکہ سب کیلئے قابلِ قبول ہو ۔ حضرت عمر اور حضرت علی کا اختلاف نہیں رہے بلکہ سب کیلئے قابل قبول ہو۔ تمام مذہبی وسیاسی قیادت ایک جگہ جمع ہوکر اسلام کے حقیقی معاشرتی نظام کا نقشہ پاکستان اور پوری دنیا کے سامنے پیش کریں۔ہمارا مشن دیوبندی ، بریلوی، اہلحدیث اور شیعہ کیلئے قابل قبول ہے اور مذہبی طبقہ اس وجہ سے اقتدار کی دہلیز تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ جان لو کہ مولانا فضل الرحمن و مریم نواز کیساتھ عمران خان اور آصف زرداری بھی اس مقدس مشن کا ساتھ دیں گے۔
شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے ” بدعت کی حقیقت ” میں تقلید کو عملی بدعت قرار دیا۔ علامہ یوسف بنوری نے اسکے ترجمہ پر تقریظ لکھی ہے اور تقریظ میں دوسری کتاب ”منصبِ امامت” کی بھی بہت تعریف لکھ دی ہے۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی نے شاہ اسماعیل شہید کی کتاب ”بدعت کی حقیقت” کی وجہ سے اکابردیوبند پر اسلاف سے انحراف کا فتویٰ لگادیا تھا لیکن علماء دیوبند نے پھر تقلید کا دامن تھامنے پرکتاب لکھ دی۔ علامہ سیدیوسف بنوری کے والد مولانا زکریا بنوری نے لکھا کہ ” ہندوستان میں مذہب حنفی کی بقاء کا سہرا مولانا احمد رضا خان بریلوی کے سر جاتا ہے”۔ اہلحدیث کے مولانا اسحاق نے کہا کہ ”ایک نواب کی تعریف میں مولانا احمدرضا خان بریلوی سے اشعار کا تقاضہ کیا گیا کہ پھر نواب ماہانہ وظیفہ مقرر کردے گا تو مولانا احمد رضا بریلوی نے صاف انکار کردیا کہ” میں نبیۖ کی تعریف میں نعمت پڑھ سکتا ہوں۔ کسی نواب کیلئے قصیدہ گوئی کی توقع مجھ سے مت رکھو”۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ حق کی راہ کے متلاشی افراد کیلئے قرآن وسنت اور اجماع وقیاس کا وہ راستہ کھول دیں جو سب کیلئے قابل قبول ہو۔ فرقہ واریت نے امت کی اکثریت کو مذہبی طبقے سے بہت متنفر کردیا ہے۔ ہم علماء ومشائخ کی عزت کو بحال کرنا چاہتے ہیں۔
نکاح وطلاق کے مسائل کی وجہ سے علماء ومفتیان نے اچھی تعلیم یافتہ اور سمجھدار قوم کو ذہنی مریض بنادیا ہے۔ ”فتاویٰ عثمانی” کے واقعات کاا ندراج کیا جائے تو دنیا دنگ رہ جائے گی کہ گیدڑ سنگھی کے بچے مفتی تقی عثمانی نے اسلام کا تماشہ بنادیا۔ انشاء اللہ دنیا میں اسلام کا نام و کام روشن ہوگا۔ مولانا فضل الرحمن اپنے گھر میں میرے ساتھ مفتی تقی عثمانی کو بٹھادیں تو مولانا کا دماغ کھلے گا۔
میں نے دارالعلوم کراچی میں داخلہ لیا تھا تو اپنے طعام کیلئے نوکری ڈھونڈ لی تھی، جب طلبہ نے اسرار کیا کہ مفت کی سہولت موجود ہے تو مشقت اٹھانے کی کیا ضرورت ہے؟۔ میں نے کہا کہ ”میں سید ہوں اور زکوٰة میرے لئے جائز نہیں ”۔ انہوں نے کہا: ‘ ‘اکابرسادات نے مدارس میں پڑھا اور یہ نہیں کہا”۔ میں نے کہا: ”پھر کیامیرے لئے زکوٰة جائز ہوجائے گی؟ اور انشاء اللہ میں مسجد کی امامت، آذان اور قرآن کا درس دوں گا مگر تنخواہ نہیں لوں گا”۔جب یہ رپورٹ مدرسہ کے انتظامیہ کو دی گئی تو مجھے دفترمیں بلایا اور کہا: ” آپ کا داخلہ نہیں ہوسکا ہے”۔ لیکن اس کے برعکس جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں پہلی تقریر یہ سن لی کہ اگر دنیا کا ارادہ ہے تو دنیا کو دنیا کے طریقے سے کمانا چاہیے اور مدرسہ چھوڑدو۔ پھر وہ وقت آیا کہ میں نے مسجد الٰہیہ میں بغیر تنخواہ کے خدمات انجام دیں تو حاجی محمد عثمان نے فرمایا کہ ”ہماری مسجد کو مسجد نبویۖ کے پہلے دور سے مشابہت مل گئی جس میں امام بغیر تنخواہ کے امامت کرتا تھا”۔
ہم سے اللہ تعالیٰ نے طلاق و حلالہ، عورت کے حقوق، قرآنی آیات کی تفسیر اور احادیث صحیحہ کے علاوہ فقہ واصول فقہ کے حوالے سے دین، علم اور ایمان کی جو زبردست خدمات لی ہے وہ حضرت حاجی محمد عثمان کی شخصیت کو سمجھنے کیلئے کافی ہیں۔ اس داستان میں میرے طالب علمی کے زمانے سے دین کو سمجھ اور اساتذہ کرام کی زبردست حوصلہ افزائی کا بھی بڑا عمل بلکہ بنیادی اور اصلی کمال ہے لیکن اگر یہ حادثہ نہ ہوتا تو شاید ہم سے اللہ تعالیٰ اتنا عظیم کا م بھی نہ لیتا۔سید عتیق گیلانی

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

کفار ، اہل کتاب اور گمراہ فرقوں سے نکاح کا بیان

کفار ، اہل کتاب اور گمراہ فرقوں سے نکاح کا بیان
فصل فی المناکحة بالکفار واھل الکتاب والفرق الضالة

درج بالا عنوان کے تحت7ذیلی عنوان ہیں۔
1:عیسائی عورت سے نکاح کا حکم : عیسائی عورت سے مسلمان کا نکاح منعقد ہوجاتا ہے ۔شرط یہ ہے کہ عورت واقعی عیسائی ہو، دہریہ نہ ہو۔ دوسری شرط یہ کہ نکاح شرعی طریقے پر دوگواہوں کے سامنے ہوا ہو۔
2:لامذہب اور شیعہ سے نکاح کا حکم : صورت مسئولہ میں لڑکا صراحةً سنی ہونے کا انکار کررہاہے اور اسکے والدین واضح شیعہ ہیں تو اب شیعہ ہونے سے انکار کا مطلب یا تو یہ ہوسکتا ہے کہ وہ تقیہ کررہاہے اور حقیقت میں شیعہ ہے۔ یا پھر وہ کوئی مذہب ہی نہیں رکھتا ، لامذہب ہے۔ اور دونوں صورتوں میں اس کا نکاح صحیح العقیدہ سنی لڑکی سے کرنا جائز نہیں۔ اگرچہ لڑکا کہہ رہا ہو کہ وہ شیعہ نہیں ہے۔
3:قادیانی سے نکاح کا حکم اور کیا مسلمان ہونے کیلئے سرٹیفکیٹ ضروری ہے؟: ایک نوسر باز جعل سازقادیانی کے متعلق جواب میں لکھا ہے کہ اگر سوال میں ذکر کردہ واقعات درست ہیں تو مسماة نفیس فاطمہ کا نکاح مذکورہ شخص سے نہیں ہوا ۔ نکاح نامہ کے سادہ فارم پر صرف دستخط کردینے سے شرعاً نکاح منعقد نہیں ہوتا بلکہ اس کیلئے کم ازکم دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول ضروری ہے۔ علاوہ ازیں اگر مذکورہ شخص اب بھی قادیانی ہے اور مسلمان ہونے کا سر ٹیفکیٹ جھوٹا ہے تو قادیانی مرد سے مسلمان عورت کا نکاح نہیں ہوسکتا، خواہ دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح ہواہو۔ دوسرا یہ کہ قادیانی سے مسلمان ہونا درحقیقت قلبی عقائد کی تبدیلی اور ان کے اعلان پر موقوف ہے۔ اگر کوئی شخص قادیانی عقائد سے واقعةً تائب ہوجائے، زبان سے اس کا اعلان کردے تو وہ مسلمان ہوسکتا ہے خواہ اس کے پاس سرٹیفکیٹ نہ ہو۔ اگر دل سے تائب نہ ہوتو جھوٹا سر ٹیفکیٹ بنوانے سے مسلمان نہیں ہوسکتا۔
4:شیعہ سے نکاح کا حکم : ”ان سے نکاح تو ہوجاتا ہے مگر مناسب نہیں”۔ شیعہ کے بارے یہ کھلے متضاد فتوے دئیے گئے ۔
5:حاجی عثمان کے معتقد سے رشتہ جائز نہیں۔ نکاح کا انجام عمر بھر کی حرامکاری اور اولادالزنا۔
عنوانات6:اور7:کافر کی بیوی مسلمان ہوجائے توقاضی جب تک نکاح فسخ کا فیصلہ نہیں کرتا تو کافر سے نکاح برقرار رہتا ہے۔ومالم یفرق القاضی فھو زوجتہ ( شامی ج : ٢ص:٣٨٩)۔
قادیانی کی بیوی مسلمان ہوجائے توعدالتی فیصلے کے بغیر چھٹکارا نہیں مل سکتا۔ قادیانی نوسر باز مرد کیلئے لکھ دیا کہ” نکاح درست نہیں” ۔یہ نہیں لکھا کہ قادیانی عورت کا مسلمان مرد سے نکاح نہیں ہوسکتا۔ کیا جنرل ضیاء کے بیٹے ڈاکٹر انوار الحق کا قادیانی عورت اور جنرل قمر جاوید باجوہ کا نکاح بچانا تھا؟۔
اللہ نے مشرک اور مشرکہ سے نکاح کا منع کیا ۔ عیسائی عورت تثلیث کی وجہ سے مشرکہ ہوتی ہے لیکن اس سے نکاح کا جواز ہے ۔ نبیۖ نے صلح حدیبیہ کے بعد مسلمان ہونے والی عورتوں کو پناہ دی اور اللہ نے فرمایا کہ ” وہ اپنے شوہر کیلئے حلال نہیں اور نہ شوہر ان کیلئے ہیں” ۔جج سے تنسیخ نکاح کا فیصلہ قرآن کے خلاف ہے۔ البتہ ام ہانی نے مشرک شوہر سے ہجرت نہ کی تو اس پر حرامکاری کا فتویٰ نہیں لگایا گیا۔ مولانا مودودی نے جسم جڑی ہوئی دو بہنوں کو بیک وقت ایک شخص کے نکاح میں جمع کرنا جائز قراردیا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

احادیث صحیحہ اور صحابہ کرام اور ائمہ مجتہدین کے اقوال کی درست تعبیر اور طلاق کابڑا مسئلہ حل

احادیث صحیحہ اور صحابہ کرام اور ائمہ مجتہدین کے اقوال کی درست تعبیر اور طلاق کابڑا مسئلہ حل

امام ابوحنیفہ کے مسلک کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کو پہلا نمبر حاصل ہے۔پھر احادیث صحیحہ کو دوسرا نمبر حاصل ہے۔ پھر تیسرا نمبر اجماع اور چوتھا قیاس ہے۔
طلاق کے مسئلے کو قرآنی آیات کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس کا خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ ” طلاق کے بعد رجوع کیلئے بنیادی شرط اصلاح، صلح ، معروف طریقے سے رجوع ہے،جب بیوی راضی نہ ہو تو کسی صورت میں رجوع نہیں ہوسکتا”۔
حضرت عمر نے یقینی طور پر قرآن کی اس عام فہم اور بنیادی اصول کو سامنے رکھ کر اس وقت ایک ساتھ تین طلاق پر شوہر کو رجوع سے محروم کردیا کہ جب اس کی بیوی راضی نہیں تھی۔ یہ قرآن کے عین مطابق تھا۔ اس پر تین طرح کے لوگ سامنے آئے۔ ایک وہ تھے جنہوں نے حضرت عمر کی زبردست تائید کردی تھی۔ دوسرے وہ تھے جو حضرت عمر کے اس فیصلے کو قرآن کے منافی قرار دیتے تھے۔ تیسرے وہ تھے جنہوں نے حضرت عمر کے اس فیصلے کو اجتہادی غلطی قرار دیا تھا۔
جنہوں نے حضرت عمر کے اس فیصلے کو قرآن کے عین مطابق قرار دیا تھا وہ صحابہ کرام، تابعین اور ائمہ مجتہدین تھے۔ ائمہ مجتہدین میں پھر دو طبقے بن گئے۔ ایک حنفی ومالکی اور دوسرے شافعی۔ جبکہ حنبلی دونوں طرف موجود تھے۔مالکی اور حنفی مسلک یہ بن گیا کہ ” ایک ساتھ تین طلاق دینا بدعت اور گناہ ہے”۔ شافعی مسلک نے کہا کہ ” ایک ساتھ تین طلاق دینا سنت اور مباح ہے”۔ احادیث کی کتب کے پورے ذخیرے میں صرف ایک حدیث حنفی ومالکی مسلک کی دلیل تھی کہ ”محمود بن لبید نے کہا کہ ایک شخص کے متعلق نبی ۖ کو خبر دی کہ فلاں نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دی ہیں۔ جس پر نبی ۖ غضبناک ہوئے اور کھڑے ہوکر فرمایا کہ میں تمہارے اندر موجود ہوں اور تم اللہ کی کتاب سے کھیل رہے ہو۔ ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اس کو قتل نہ کردوں”۔ جبکہ شافعی مسلک کی دلیل یہ حدیث ہے کہ ”جب عویمر عجلانی نے اپنے بیوی کیساتھ لعان کیا تو ایک ساتھ تین طلاق دے دیئے”۔ دونوں احادیث سے دلیل جمہور نے یہ لی ہے کہ ”ایک ساتھ تین طلاق دینے سے تین واقع ہوجاتی ہیںاور اگر نہیں ہوتیں تو پھر نبیۖ کیوں غضبناک ہوتے یا عویمرعجلانی کی تردید کیوں نہیں فرمائی ؟۔
اہل تشیع کے نزدیک جب تک دو گواہ کی موجودگی میں طلاق نہ دی جائے تو طلاق نہیں ہوتی ہے اور حضرت عمر کا یہ فعل قرآن وسنت کے منافی ہے۔جبکہ اہل حدیث کے نزدیک حضرت عمر کی یہ اجتہادی غلطی ہے ۔ اکٹھی تین طلاق ایک ہی شمار ہوتی ہے اور حضرت ابن عباس کی روایت سے یہ بالکل واضح ہے۔
اگر ہم یہ مان لیتے ہیں کہ ایک ساتھ تین طلاق ایک طلاق رجعی ہے تو اس سے نکلنے والے مسائل قرآن وسنت کے بالکل منافی ہوںگے اسلئے کہ شوہر ایک ساتھ تین طلاق دے گا اور بیوی راضی نہیں ہوگی لیکن پھر بھی شوہر کو رجوع کا حق حاصل ہوگا۔ تین طلاق تو بڑی بات ہے ،اگر ایک طلاق دینے کے بعد بھی بیوی رجوع پر راضی نہیں ہے تو شوہر رجوع نہیں کرسکتا ہے۔ یہ قرآن وسنت کا واضح حکم ہے۔ بیوی کی رضامندی ، اصلاح، صلح اور معروف کی شرط کو نکال کر ہم نے دین کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔ اگر بیوی کی رضامندی کے بغیر شوہر کو رجوع کا حق دیا جائے تو شوہر طلاق دے گا اور عدت کے آخر میں رجوع کرلے گا اور دوبارہ طلاق دے گا اور عدت کے آخر میں رجوع کرلے گا۔ سہ بارہ طلاق دے گا تو عورت کو ایک نہیں تین عدتیں گزارنے پر مجبور کیا جاسکے گا؟۔ شوہر کہے گا کہ میں نے طلاق دی ہے اور پھر کہے گا کہ میں نے مذاق کیا تھا۔ اگر مذاق تسلیم نہ ہو تو پھر اس کو طلاق رجعی قرار دیا جائے گا؟۔ ایک اور تین طلاق کی بحث ہی فضول ہے۔ ایک دی ہو یا تین طلاق لیکن اصل مسئلہ باہمی اصلاح سے رجوع کا ہے۔ عورت راضی نہ ہو تو پھر ایک طلاق سے بھی رجوع نہیں ہوسکتا اور تین طلاق سے بھی رجوع نہیں ہوسکتا ہے اور عورت راضی ہو تو ایک طلاق پر بھی رجوع ہے اور تین طلاق پر بھی رجوع ہے۔ حضرت عمر نے قرآن کے مطابق فیصلہ دیا تھا۔
علامہ ابن تیمیہ کے شاگرد علامہ ابن قیم کی کتاب ” زادالمعاد ” میں بیوی کو حرام کہنے کے لفظ پر20الگ الگ اجتہادی مسائل ہیں۔ صحیح بخاری میں ہے کہ ”امام حسن بصری نے کہااگر بیوی کو حرام کہہ دیا تو بعض علماء کے نزدیک یہ تیسری طلاق ہے۔ جس کے بعد جب تک عورت دوسری جگہ نکاح نہیں کرے گی تو اس کو پہلے کیلئے حرام قرار دیا جائے گا”۔ ایک روایت چھوڑ کر اگلی روایت میں ہے کہ ابن عباس نے فرمایا کہ ” بیوی کو حرام قرار دینے سے کچھ بھی نہیں ہوتا ہے اور یہ سیرت رسول ۖ کا تقاضہ ہے کہ اس میں نہ طلاق ہے اور نہ کفارہ ہے”۔
خلفاء راشدین کے اجتہادات کی کتاب میں لکھا ہے کہ ” بیوی کو حرام کہنا حضرت عمر کے نزدیک ایک طلاق ہے اور حضرت علی کے نزدیک تین طلاق اور حضرت عثمان کے نزدیک ظہار ہے”۔ یہ سعودی عرب سے عربی میں چھپی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت علی کی طرف حرام سے تیسری طلاق یا تین طلاق کی نسبت کیوں کی گئی ہے؟ جواب یہ ہے کہ حضرت علی نے معلوم کیا ہوگا اور جب پتہ چلا ہوگا کہ بیوی راضی نہیں ہے تو فتویٰ دیا ہوگا کہ رجوع نہیں ہوسکتا ہے اور اس کو کسی نے تین طلاق اور کسی نے تیسری طلاق قرار دے دیا ہوگا۔
حضرت عمر سے پوچھا گیا کہ حرام کے لفظ کے بعد رجوع کی اجازت ہے تو معلوم کیا کہ بیوی راضی ہے؟ تو رجوع کا فتویٰ دیا ہوگا اور اس کو ایک طلاق سے تعبیر کیا ہوگا۔ قرآن کی سورۂ تحریم میںہے کہ نبی ۖ نے اپنے اوپر ماریہ قبطیہ کو حرام کیا تھا لیکن کیا صحابہ کرام نے اتنی بڑی سورت کی طرف توجہ نہیں دی؟۔
جب یہ صحابہ کرام کی طرف منسوب ہے کہ حرام کے لفظ سے تین طلاق بھی واقع ہوتی ہیں اور ایک بھی تو پھر یہ بحث فضول بن جاتی ہے کہ ایک اور تین طلاق پر امت مسلمہ کے اندر فضول قسم کے نصاب اور مسائل پڑھائے جائیں۔ مجھے اتنا عرصہ ہوگیا کہ یہ مسائل بیان کررہا ہوں۔ دیوبندی ، بریلوی ، اہلحدیث اور اہل تشیع نے کھلے دل سے میری حمایت کی ہے لیکن مدارس کے وڈیروں نے اس پر چپ کی سادھ لی ہے اور امت مسلمہ کو گرداب سے نکالنا ان کے مفادات کے خلاف ہے یا نہیںمگر ان کو اپنی اجارہ داری کے جانے کا خوف دامن گیر ہے۔
جس شخص کے بارے میں نبیۖ کو خبر دی گئی کہ اس نے ایک ساتھ تین طلاقیں دی ہیں تو وہ حضرت عبداللہ بن عمر تھے۔ جس نے قتل کی پیشکش کی تھی تو وہ حضرت عمر تھے۔ محمود بن لبید کی روایت سے زیادہ مضبوط روایت صحیح مسلم کی ہے جس میں یہ واضح ہے کہ ابن عمر نے ایک ساتھ تین طلاقیں دی تھیں اور اس سے زیادہ مضبوط صحیح بخاری کی ہے جس میں نبیۖ نے غضبناک ہونے کے باوجود حضرت ابن عمر سے رجوع کا ارشاد فرمایا اور عدت و طلاق کا طریقہ بھی سکھادیا تھا۔ عدت کے تین ادوار اور تین مرتبہ طلاق ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے ہیں لیکن کم عقل مذہبی طبقات نے جس طرح طلاق کے انتہائی احمقانہ مسائل کتابوں میں درج کئے ہیں ، اگر عوام کی نظروں میں آگئے تو علماء ومفتیان کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی اور دریائے مردار میں غرق ہونا پڑے گا۔
میں صالحین علماء ومشائخ کی بات نہیں کرتا جیسے موجودہ دور میں تقی عثمانی کی موجودگی میں علماء حق اور صالحین دبا دئیے گئے یہ ہردور میں چلتا آیا ہے اور اب خدا کرے کہ یہ شیخ الاسلام اس حیلہ ساز اور اسلام دشمن علماء سوء کی آخری کڑی ہو اور امت مسلمہ ان حیلہ سازوں اور قرآن وسنت کے مجرموں سے بچ جائے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv