جنوری 2018 - Page 2 of 3 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

سینٹ انتخابات کے بعد نااہل نواز شریف کو اسمبلیوں سے اہل قرار دیا جائیگا. اجمل ملک

sanet-intikhabat-ke-baad-na-ehal-nawaz-sharif-ko-assembly-se-ehal-qarar-dia-jae-ga-ajmal-malik

نوشتۂ دیوار کے ایڈیٹر اجمل ملک نے اپنا تجزیہ پیش کیا کہ ملک میں اسٹیبلشمنٹ کی لڑائی کون لڑ رہا ہے ؟ ۔ جیو رپورٹ کارڈ میں صحافی امتیاز عالم نے کہا کہ ’’شہباز شریف کو ن لیگ نے وزیر اعظم بنا کر غلطی کی ، یہ اب ٹوڈی بن گئی ‘‘۔ مظہر عباس نے کہا کہ ’’مسلم لیگ میں وہ جینز نہیں جسکی آپ توقع رکھ رہے ہیں‘‘۔
جب حدیبیہ مل کافیصلہ ہوا اور عمران خان کو اہل، جہانگیر ترین کو نااہل قرار دیا گیا اور چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا : ہم بابے ہیں ،ہمیں بُرا نہ کہو، ہم پر دباؤ ہوتا توپھر حدیبیہ مل کا فیصلہ تمہارے حق میں نہ کرتے۔ دوسرے جج نے اپنے ریمارکس میں یہ لکھا کہ ’’نواز شریف و عمران خان کے کیس میں فرق تھا‘‘۔ نوازشریف نے کہا کہ وہی ہوا،جس کی شکایت ہم کررہے تھے کہ صرف نوازشریف کو ہٹانے کے ون پوائنٹ ایجنڈے پر کام ہورہا ہے۔ مریم نواز نے کہا کہ ججوں کواپنی صفائیاں پیش کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ تجزیہ نگار مزاحمت کی سیاست کی توقع کررہے تھے لیکن شہبازشریف کو وزیراعظم نامزد کرنے ، سینٹ سے الیکشن کیلئے بل پاس اور آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی طرف سے جمہوریت کی حمایت پر فضاء بہت بدلنے پر اتفاق رائے نظر آرہی تھی لیکن ابھی بڑا کھیل باقی ہے۔ عمران خان کی سیاسی بصیرت اور تجربہ زیرو ہے۔ پہلے کہتا رہا کہ این آر او نہیں کرنے دینگے لیکن حدیبیہ پیپر ملز کا سپریم کورٹ میں کھل جانا ہی NRO تھا۔وہ بیوقوف خوشی منارہاتھا کہ اب شہباز شریف بھی جائیگا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے بہت اچھا کیا کہ نیب سے کہا کہ رجسٹرار نے غلطی سے مجھے اس بینچ میں شامل کیا، میں فیصلہ دے چکا ہوں۔ سپریم کورٹ کیس کھولتا توبھی یہ این آر اوتھا کیونکہ پانچ ججوں نے فیصلہ دیاتھا کہ نیب یہ کیس دوبارہ کھول دے۔ نیب لاہورہائیکورٹ و سپریم کورٹ کے چکر لگاگر توہین عدالت کررہاتھا۔ نیب میں اتنی تپڑ ہوتی تو یہ کریمنل کیس سپریم کورٹ میں سننے کی ضرورت ہی نہ ہوتی۔ ن لیگ کی قیادت چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ نیب کو مردہ لاش قرار دینے والی سپریم کورٹ اب اسی کو تحقیقات کا حکم دے رہی ہے، لاش کیا تحقیق کرے گی؟۔ سپریم کورٹ کے بینچ نے سماعت شروع کی تو عدالت نے حیران کن پابندی لگائی کہ ’’میڈیا میں یہ کیس زیرِ بحث نہ لایا جائے‘‘ پھر نیب سے کہا کہ مدت گزرگئی یہ کیس نہیں کھولا جاسکتاہے۔ اور اسکا قصہ ختم ہے، بار بار عدالتوں میں گھسیٹنا شریف برادران کیساتھ زیادتی ہے۔ شہازشریف نے اس کو ویلکم کیا اور عدل و انصاف کی جیت قرار دی۔ نوازشریف کومائنس ون ہی لگا۔ عمران خان نے کہا کہ اچھا ہوا،میرا مقابلہ وزیراعظم کے ایک مضبوط امیدوار شہبازشریف سے ہوگا مجھے کمزور کپتان کیساتھ کھیلنے میں مزا نہیںآتا۔ NROقبول نہ کرنیوالے عمران خان کو NRO میں مزہ آنے لگا ۔ دوسری طرف لگتایہ ہے کہ میاں نوازشریف کو باور کرایا گیا کہ ساری زندگی آپ نے اسٹیبلشمنٹ کیساتھ مل کر گزاری، عدلیہ پر پریشر برقرار رکھو۔ فوج کے سپہ سالار اچھے آدمی ہیں۔ فوج کو برا بھلامت کہو، مارچ میں سینٹ کے انتخابات ہونگے تو سینٹ میں اکثریت ہوگی۔ پھر بل پاس کردینگے کہ عدالت کا نااہل پارٹی صدارت کی طرح قومی و صوبائی اسمبلی کے ممبرز اور وزیراعظم ، وزراء اور وزیراعلیٰ کیلئے نااہل نہیں۔ بھارتی پھولن دیوی نے ڈکیٹی کی تاریخ رقم کر کے جیل سے الیکشن جیتا۔ آمروں نے اپنی بے ایمانی کو چھپانے کیلئے سیاستدانوں پر صادق وامین کی شرط لاگو کی اور عدالتوں سے جس کو چاہا نااہل اوراہل قرار دینے کی سازش کی راہ کھولی۔
جہانگیرترین اہل ہوگاتو عمران خان کوبے انتہا خوشی ہوگی کہ چمک والے لوگ آئے تو میرے ستاروں میں روشنی آ گئی۔ یہ لوگ عدالت سے نااہل ہونگے تو مکھیاں بھی نہ مار سکوں گا۔ پیپلزپارٹی اورباقی سیاسی جماعتیں ترمیم کیخلاف نہ جائیں گی ۔ چیف جسٹس ثاقب نثار افتخار چوہدری نہیں کہ خود کو بے نقاب کرکے کسی کھیل کا حصہ بنے۔ اسکے بعد جمہوریت کے خلاف سازش ہوئی تو تمام سیاسی کارکن جمہوریت کیلئے کھڑے ہونگے چیف جسٹس ثاقب نثار نے اشارہ دیا کہ پارلیمنٹ اصلاحات کرے تو عدلیہ سیاست کے چکر میں نہیں پھنسے گی۔
کھیل یہ ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کی قیادت میں شہباز شریف اور مرکزی حکومت کو گرانے کی کوشش کی جائے۔ ماڈل ٹاؤن لاہور میں 14افراد کی ہلاکت کا مسئلہ اور ختم نبوت کا معاملہ اہم اہداف ہیں۔ زرداری نے ڈاکٹر طاہر القادری سے ایک ایسے وقت میں ملاتات کی تھی جب ن لیگ کو ہٹانے کیلئے یہ اہم ذریعہ سمجھا جارہاتھا۔ زرداری کا یہ کہنا بڑا معنی خیز تھا کہ ’’پہلے تو ہماری کوشش ہوگی کہ یہ لوگ الیکشن کی مدت ختم ہونے سے پہلے ہار مان جائیں‘‘۔ جسکا یہی مقصد ہوسکتا تھا کہ جو قوتیں ن لیگ کی حکومت کو گرانا چاہتی ہیں اب زرداری ان کیساتھ مل گئے ہیں۔ زرداری نے ڈاکٹر طاہر القادری سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے کہا کہ ’’اب حکومت کو میں گرا کر دکھاتا ہوں۔ کیسے گراتا ہوں ، یہ مجھ پر چھوڑ دو‘‘۔ سیاست نام دورنگی کا ہے۔ زرداری نے سوچا ہوگا کہ جو قوتیں ن لیگ کو گرانا چاہتی ہیں اگر انہوں نے گرانے کا فیصلہ کرلیا تو ن لیگ کی حکومت کو گرانے کاکریڈٹ اسی کو جائیگا، اوراگر حکومت کو گرانے کا پلان نہ رہا تو زرداری نے اپنے بیان کو سیاسی دغا بازی قرار دیتے ہوئے کہنا ہے کہ میری سیاست کو سمجھنے کیلئے PHDکی ضرورت ہے۔ حکومت کی طرف سے ختم نبوت کے مسئلہ پر دھرنے والوں سے جو معاہدہ کیا گیا،اس میں سازش کرنیوالوں بے نقاب کرنے کا وعدہ تھا جس کی مدت پوری ہوگئی۔ اسلام آبادہائیکورٹ کے جسٹس شوکت صدیقی نے ایک طرف دھرنے کا الزام فوج پر لگادیاتو دوسری طرف یہ ریمارکس دئیے کہ انوشہ رحمان کو بچاکر وزیر قانون زاہد حامد کو قربانی کا بکرا بنایا گیا۔ حکومت کی طرف سے ن لیگ کی تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ راجہ ظفر الحق نے کہاکہ ’’بہت ہوشیاری سے سازش کی گئی جس کو پکڑلیاگیا، اور یہ رپوٹ سابق وزیراعظم نوازشریف کو سپرد کردی گئی‘‘۔ حکومت میں شامل مولانا فضل الرحمن نے میڈیا پر بتایاکہ ’’ ہم نے اس سازش کو ناکام بنایا، امریکہ کو سازش کرنے والوں نے اس کی کامیابی کی اطلاع بھی دی تھی‘‘۔ اس کیس کے اہم کردار سینٹرحافظ حمداللہ نے کہا کہ ’’ ہم خود کو بری الذمہ اسلئے نہیں سمجھتے کہ حکومت کا حصہ ہیں مگرحکومت کیساتھ اپوزیشن نے بھی آواز اٹھانے پر ختم نبوت کے مسئلہ پر میرا ساتھ نہیں دیا، راجہ ظفر الحق کے کہنے پر زاہد حامد ختم نبوت کے مسئلہ پر مجھ سے متفق ہوگئے‘‘ حکومت اور اپوزیشن نے جان بوجھ کر یا غفلت کا ارتکاب کیا؟، قومی اسمبلی میں شیخ رشید نے ختم نبوت کیلئے آواز اٹھائی جو تحریکِ انصاف اور پیپلزپارٹی کیلئے بالکل بھی توجہ کے قابل نہ تھی۔ جماعت اسلامی کے طارق اللہ نے ساتھ دیا۔ جمعیت علماء اسلام ف حکومت کا حصہ تھی اسلئے ترمیم کے حق میں ووٹ دیا۔ اگر مذہبی سیاسی جماعتوں کو گھاس ڈالی گئی تو تحریک کا حصہ بنیں گی اور کہیں گی کہ تحریک نظام مصطفی میں قادیانی اصغر خان سے مل کر بابائے جمہوریت ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت کو چلتا کردیا تو بابائے اسٹیبلشمنٹ نوازشریف کی حکومت کو چلتا کرنے میں کیا حرج ہے؟۔ مہروں کے علاوہ اور یہ کچھ کرنہیں سکتے ہیں۔

آزاد قبائل گلگت اٹک میانوالی کو پختونخواہ میں شامل کیا جائے. فاروق شیخ

azad-qabail-gilgit-atak-mianwali-ko-pakhtunkhwa-me-shamil-kia-jae-farooq-shaikh

نوشتۂ دیوار کے نمائندہ خصوصی فاروق شیخ نے کہا کہ ہمارے لئے خوشی کا مقام ہے ،اب عوام تک گیلانی صاحب کا پیغام سوشل میڈیا کے ذریعے براہِ راست پہنچے گا۔ نوازشریف کیلئے محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن بیربل اور ملادوپیازہ کا کردار ادا کرنے سے گریز کریں۔پنجاب کی بہت بڑی آبادی اور علاقے کے باوجود صرف 25سینٹروں کا حق اور پختونخواہ کے چھوٹے سے علاقہ اور معمولی تعداد کے لوگوں کیلئے بھی 25سینٹروں کا کوٹہ غلط بات ہے۔ قبائلی علاقوں کے علاوہ گلگت بلتستان، اٹک ، میانوالی اور بھکر تک کا علاقہ بھی خیبر پختونخواہ کا حصہ بنایا جائے۔ شمالی علاقہ جات کو الگ صوبہ بنایا گیا تو گلگت بلتستان کے لوگ ٹیکسوں پر احتجاج کررہے ہیں، پختونخواہ کا حصہ بنتے تو ٹھیک ہوتا۔ ہمارا یہ المیہ ہے کہ کرپشن میں مبتلا ء افراد صوبوں کے نام پر کھانچوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ آزاد قبائل پہلے سے تقریباً پختونخواہ کا حصہ ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں، کوہاٹ،پشاور اور سیٹل علاقوں میں کمشنری نظام کے تحت مرج ہیں۔ پولیٹیکل انتظامیہ کا تعلق کمشنر اور صوبائی گورنر سے ہوتاہے۔ پاکستان کی آزادی کیلئے آزاد قبائل نے افغانستان کیلئے قربانیاں نہیں دی تھیں۔ پیرسوہاگہ اسلام آباد سے تھوڑی دور آگے پختونخواہ ہی شروع ہوتاہے۔ گلگت بلتستان بھی چترال کی طرح پختونخواہ ہی کا حصہ ہیں۔ اٹک ، میانوالی کو بھی پنجاب میں غلط طریقے سے شامل کیا گیاہے، یہ سارے علاقے انتظامی طور پر پختونخواہ ہی کا حصہ بنائے جائیں۔ جب کالاباغ ڈیم پختونخواہ کا حصہ بن جائیگا تو کم لوگ اسکے بنانے پر اعتراض کرنا بھی بند کردینگے۔
انتظامی اعتبار سے پنجاب کا حجم کم ہونے سے پنجاب پر کوئی فرق نہیں پڑے گا بلکہ فائدہ ہی پہنچے گا۔ پاکستان کیخلاف سازش کرنے والوں کو پتہ چل جائیگا کہ قبائلی علاقوں میں شورش برپا کرنے کے ذریعے سے علیحدگی کے جو خواب دکھائے گئے وہ بالکل ملیامیٹ ہوگئے تو 100سال پہلے سازشی سوچ رکھنے والوں کو بھی سازش کرنے سے ہاتھ اٹھانے پڑیں گے۔ ہمارا یہ خطہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا مرکز ہے۔ پاکستان ایک ہی ملک ہے اور اس میں صوبائی، لسانی اور فرقہ وارانہ تعصبات کے علاوہ جن سیاسی منافرتوں کی داغ بیل ڈالی جارہی ہے ان کا کوئی جواز نہ تھا اور نہ ہی ہم اس کے متحمل ہوسکتے ہیں۔ ڈیموں کی تعمیر سے سستی بجلی کے علاوہ صاف شفاف پینے کا پانی اور ٹیوب ویلوں کے بغیر زرعی زمینوں کا پانی بھی میسر آئیگا۔ زیرزمین پانی کے ذخائر میں بھی بے حد اضافہ ہوگا۔ کراچی کو نہروں کے ذریعے سے پانی سے مالا مال کیا جاسکتاہے۔غریب آبادی کیا ڈیفینس میں بھی پانی نہیں ہے۔ وقتی مفادات کے بجائے قوم وملک اور ملت کے وسیع تر مفاد میں پاکستان کو عالم اسلام و عالم انسانیت کیلئے عظیم تر بنانا ہوگا۔ برمی بنگالیوں کو فوری طور سے پاکستان کی شہریت دی جائے اور افغانستان کے حالات کو بہتر بنانے میں مدد کریں تاکہ افغانی زبردستی سے بد دل ہوکر نہیں اپنی خوشی سے اپنے ملک میں آباد ہوجائیں ۔ پاکستان کے تمام شہروں کو ازسرِ نوتعمیر کرنے کے جدید نقشے بنائیں جائیں، جس میں وسیع روڈ، گلیاں اور جدید سے جدید تر تمام انتظامات ہوسکیں۔ایک شخص ملک ریاض نے اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں بحریہ ٹاؤن کی نئی نئی دنیا آباد کر رکھی ہے تو ہماری ریاست اور حکومت میں اتنی طاقت کیوں نہیں؟۔ بس قیادت اور خلوص کا فقدان ہے۔

سندھ حکومت سے گزارش از محمد حنیف عباسی

riasat-awam-ki-maa-hoti-hei-riasat-k-moot-se-hum-preshan-hein-Haneef-Abbasi

ریاست عوام کی ماں ہوتی ہے اور ماں کا احترام بہت ضروری ہے، آج کل کراچی کی سڑکوں پر جگہ جگہ گٹر ابل رہے ہیں جس سے عوام کو بڑی اذیت ہے۔
محترم وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ صاحب! آپ کی خدمات کا اعتراف ہے ، کراچی کی سڑکوں پر آپکی وجہ سے بہت تیزی کے ساتھ تعمیراتی کام ہوئے ہیں۔ جو قابل ستائش ہیں۔ وزیرستان کے ایک محسود عالمگیر خان نے گٹر کے ڈھکنوں پر سابق وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کی تصاویر بنا کر بہت توہین آمیز سلوک کیا تھا۔ میں اس کا قائل ہرگز نہیں ہوں مگرعوام کہہ رہی ہے کہ ریاست کی مُوت (پیشاب) سے ہم پریشان ہیں۔ خدارا مہربانی کرکے بلدیاتی اداروں کو فعال بنائیں تاکہ ریاست کی بے ادبی سے عوام کی زبانیں محفوظ رہیں۔ گستاخی معاف اور توجہ کرنے کا شکریہ۔

مولانا مفتی ابوبکر سعیدالرحمن رئیس دارالافتاء جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کاتین مرتبہ طلاق سے متعلق سوال 

molana-mufti-abubakar-saeed-ur-rehman-raees-darulifta-jamia-binori-town-karachi-ka-3-times-talaq-se-mutalliq-sawal

مسلمان مرد عورت نکاح کرلیتے ہیں۔پھر کسی وجہ سے شوہر ایک طلاق دیتاہے اور پھر کسی اور موقع پر طلاق دیتاہے۔ پھر کسی اور موقع پر طلاق دیتا ہے۔ دومرتبہ کی طلاق کے بعد رجوع کرلیتا ہے اور تیسری مرتبہ پھر طلاق دیتا ہے تو کیا عدت کے بعد عورت حرام ہوگئی یا نہیں؟۔اگر حرام ہوگئی تو رجوع کیلئے کیا طریقہ ہوسکتاہے؟۔
الجواب بالصدق الثواب بضل اللہ تعالیٰ ہذا فصل الخطاب
شیخ الہندؒ نے قرآن کی طرف متوجہ کرنے کی بات فرمائی تھی۔ مسلک حنفی کی بنیاد ہی یہ ہے کہ قرآن ہی کو اولیت دی جائے،جب احادیث صحیحہ کے مقابلے میں آیت کوترجیح حاصل ہو توکسی کا کوئی اجتہاد قرآن وسنت کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتا ہے؟۔ اکابرینؒ کے خلوص میں شک نہیں لیکن قرآن کی طرف متوجہ نہ ہونا ایک المیہ رہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اللہ کی بارگاہ میں قیامت کے دن یہی شکایت کرنی ہے وقال الرسول یا رب ان قومی اتخذوا ہذا القرآن مھجورا ’’میرے ربّ بیشک میری قوم نے اس قرآن کوچھوڑ رکھا تھا‘‘۔(القرآن)۔
ایک تاریخی غلطی یہ ہوئی کہ قرآن کی طرف توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے آج اسلام اجنبیت کا شکار ہوا ہے۔ نبیﷺ نے یہ خبر دی تھی کہ اسلام کا آغاز اجنبیت کی حالت میں ہوا ، عنقریب یہ پھر اجنبیت کی طرف لوٹ جائیگا، خوشخبری ہے اجبنیوں کیلئے‘‘۔اور یہ بھی فرمایا تھا کہ ’’وہ اجنبی میرے سامنے حاضر کیا گیا، میں نے دائیں جانب سے التفات کیا اور پھر بائیں جانب سے التفات کیا وہ نہیں دکھتا تھا مگر اجنبی، اسکے سامنے قرآن اپنی پوری عظمت کیساتھ روشن ہو گیا،اسکے ہزارہاہزار گناہ معاف ہوئے اور ہزارہا ہزار نیکیاں مل گئیں، وہ مرا تو شہید (گواہ)کی منزل تک پہنچا‘‘۔
طلاق سے رجوع کیلئے قرآن میں تین اقسام کی آیات ہیں۔ ایک یہ کہ عدت کے اندر اصلاح سے مشروط رجوع ہوسکتا ہے، البقرہ :228 اورالطلاق:1۔ دوسری یہ کہ عدت کی تکمیل پر رجوع ہوسکتا ہے۔ البقرہ:231، الطلاق:2۔ تیسری قسم کی آیات ایسی ہیں کہ عدت کی تکمیل کے بعد ہمیشہ کیلئے رجوع کا دروازہ اللہ نے کھلا رکھا ہے۔ البقرہ:232، الطلاق:2۔یہ قرآنی آیات کند ذہن لوگوں کا دماغ بھی کھولنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ان میں مقدم اور جوہری بات آپس کی اصلاح ہے۔ جس کی آیات میں بھرپور طریقے سے وضاحت کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں قرآن نے ایک اور طرح سے بھی طلاق کے مسئلے پر واضح روشنی ڈالی ہے۔ میاں بیوی کے درمیان طلاق کی زیادہ سے زیادہ صورتیں یہ تین ہی ہوسکتی ہیں۔
1: میاں بیوی نے جدائی کا فیصلہ کیا ہواور معاشرے کے افراد بھی اس بات پر متفق ہوں کہ دونوں کیلئے آئندہ کوئی ایسی چیز بھی درمیان میں نہ چھوڑیں جس کی وجہ سے میل ملاپ ہو اور پھر دونوں اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکیں۔ یہ وہ صورت ہے کہ جس میں رجوع کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا بلکہ ایک اور معاشرتی برائی سامنے آتی ہے کہ شوہر اس طلاق کی صورت میں عورت کو اس کی مرضی کے مطابق کسی اور شوہر سے نکاح نہیں کرنے دیتا ہے اسلئے اللہ نے وضاحت کردی کہ اس کیلئے حلال نہیں یہانتک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرلے۔اسکا ذکر البقرہ آیت:230 میں ہے۔
2: طلاق کی دوسری صورت یہ ہے کہ شوہر نے طلاق دی ہے لیکن عورت طلاق نہیں چاہتی ہو۔ اس صورت میں طلاق کی عدت مکمل ہونے پر بھی شوہر کو رجوع کا اختیار واضح طور سے دیا گیا ہے۔ یہ صورت البقرہ:231 اورالطلاق:2میں ہے۔
3: طلاق کی تیسری صورت یہ ہے کہ عورت ضد کرکے طلاق لے اور عدت کے بعد وہ دوبارہ اپنے شوہر سے ازدواجی تعلق بحال کرنا چاہتی ہو تو رجوع کی اجازت ہے جب معروف طریقے سے آپس میں راضی ہوں۔ البقرہ:232اور الطلاق:2
ان واضح آیات کے مقابلے میں کوئی ایک بھی ایسی حدیث نہیں جس میں عدت کے اندر، عدت کی تکمیل پر اور عدت کے عرصہ بعد رسول اللہﷺ نے یہ حکم دیا ہو کہ حلالہ کروائے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا۔ بلکہ نبیﷺ نے حلالہ کو دورِ جاہلیت کی لعنت قرار دیا ہے۔ یہ بہت گھناؤنی خام خیالی ہے کہ تین طلاق کو سزا تصور کیا جائے۔ چور،چورنی،زانی ، زانیہ اور بہتان تراشی وغیرہ جرائم پر سزا ایک فطری بات ہے لیکن مرد کے الفاظ کی سزا عورت ، خاندان اور معاشرے کو دیدینا اسلام اور انسانی فطرت کے منافی ہے۔ جو لوگ حلالہ کی لعنت اور حرامکاری کے رسیا ہیں ان پر جب تک حدِ زنا کی حد جاری نہ کی جائے یہ عادی مجرم لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔
صحابہ کرامؓ کے دور میں حلالہ کی لعنت کا مسئلہ نہیں تھا۔ صحیح اور ضعیف روایات کی تحقیق سے معاملہ روزِ روشن کی طرح واضح ہے۔ ائمہ مجتہدینؒ کا اجماع درست تھامگر بعد کے لوگوں نے معاملات بگاڑ دئیے ۔ اسلامی شریعت میںیہ طے ہے کہ تنازعہ کا پہلا حل قرآن میں ڈھونڈا جائیگا، قرآن میں موجود نہ ہو تو سنت رسولﷺ میں تلاش کیا جائیگا اور احادیث میں نہ ہو تو اجتہاد کی نوبت آئے گی اور یہی درست راہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: والمطلقٰت یتربصن بانفسھن ثلاثۃ قروء و لا یحل لھن ان یکتمن ماخلق اللہ فی ارحامھن ان ےؤمن باللہ والیوم آخر وبعولتھن احق بردھن فی ذلک ان ارادو ااصلاحاً ’’اور مطلقہ 3 ادوار(طہرو حیض کے مرحلے یا3ماہ) تک خود کو انتظار میں رکھیں۔ اور ان کیلئے حلال نہیں کہ چھپائیں جو کچھ بھی انکے رحموں میں اللہ نے پیدا کیاہے اگر وہ اللہ وآخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہیں، اس مدت میں انکے شوہر ان کو لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں اگر وہ اصلاح کا ارادہ رکھتے ہوں‘‘۔ (البقرہ:228)
اس آیت میں کھلا فتویٰ موجود ہے کہ اگر کوئی شخص عدت کے دوران تسبیح لیکر بھی طلاق طلاق طلاق کی رٹ شروع کردے تو عدت کے دوران آخری وقت تک وہی رجوع کااصلاح کی شرط پر زیادہ حق دار ہے۔ تین مرتبہ نہیں تیس مرتبہ بلکہ تین لاکھ مرتبہ بھی عدت کے دوران طلاق طلاق کی رٹ لگائی ہو ، عدت حمل کی صورت میں ہوگی تو بچے کی پیدائش تک اللہ تعالیٰ نے اصلاح کی شرط پر رجوع کا دروازہ کھلا رکھا ہے بلکہ عورت کو بھی دوسری جگہ نکاح نہ کرنے کا پابند بنایا ہے۔اور عدت طہرو حیض کی صورت میں ہو تو بھی عدت کے آخر تک رجوع کا دروازہ کھلا ہے۔قرآن کی اس آیت سے کوئی دوسری آیت متصادم ثابت کی جائے تو اللہ تعالیٰ کا یہ دعویٰ ہی باطل ثابت ہوگا کہ افلایتدبرون القرآن ولو کان من عندغیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافاً کثیراً ’’ وہ قرآن پر تدبر کیوں نہیں کرتے؟، اگر اللہ کے علاوہ کسی کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سارا اختلاف (تضادات) وہ پاتے‘‘۔(القرآن)
پہلی ترجیح میاں بیوی کے درمیان صلح کی یہی ہے کہ آپس میں معاملہ حل کریں، دوسری ترجیح یہ ہے کہ جب وہ معاملہ حل کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوں توایک ایک رشتہ دار دونوں خاندانوں سے حکم مقرر کیا جائے۔ وان خفتم شقاق بینھما فابعثوا حکماً من اہلہ وحکماً من اہلہا وان یریدا اصلاحاً یوفق اللہ بینھما ’’اور اگر تمہیں خوف ہو کہ دونوں کے درمیان جدائی ہوگی تو ایک حکم شوہر کے خاندان سے اورایک حکم عورت کے خاندان سے تشکیل دو، اگر دونوں اصلاح کا چاہتے ہوں تو اللہ دونوں میں موافقت پیدا کردے گا۔ (النساء :135)
جب میاں بیوی خود بھی معاملہ حل نہ کرنا چاہتے ہوں، رشتہ داروں کے بس میں بھی معاملے کا حل نہ ہو تو معاملہ حکمران کے پاس جاتا ہے۔ حضرت عمرؓ اپنے دور کے حکمران تھے۔ ایک شخص نے ایک ساتھ تین طلاقیں دیں۔ میاں بیوی بھی آپس میں صلح کرتے یارشتہ دار صلح کروالیتے تو معاملہ حل ہوجاتا لیکن معاملہ انکے بس میں نہیں تھا اسلئے شوہر نے حضرت عمرؓ کے دربار میں استدعا کی۔ اسکے ذہن میں یہی ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں دو الگ الگ مرتبہ بھی طلاق سے رجوع کو جائز قرار دیا ہے تو یہ میرا حق ہے کہ رجوع کرلوں۔ حضرت عمرؓ نے تنازعہ کا حل قرآن کی آیات سے ہی ترجیحاً دینا تھا اور آپؓ کو قرآن کھول کردیکھنے کی ضرورت نہیں تھی اسلئے فیصلہ کردیا کہ ’’ ایک ساتھ تین طلاق کی جہالت کا شوہر نے غلط ارتکاب کیا ہے، اور حکم نافذ کردیا کہ آئندہ بھی کوئی اس قسم کا کیس آئیگا تو یہی فیصلہ نافذ کردیا جائیگا، اللہ کی رعایت کے عدت کے تین مراحل میں مرحلہ وار طلاق دی جائے اور مرحلہ وار طلاق میں رجوع کی اجازت ہے اس رعایت کا تم غلط فائدہ اٹھارہے ہو‘‘۔
حضرت عمرؓ کا یہ فیصلہ قرآن کے عین مطابق تھا اسلئے کہ اللہ تعالیٰ نے رجوع کے حق کو صلح اور اصلاح کیساتھ مشروط کردیا تھا۔ جب عورت صلح نہیں چاہتی تھی تو شوہر کو عدت میں بھی اللہ تعالیٰ نے رجوع کا حق نہیں دیا ہے۔ آج دنیا کی تمام عدالتیں بھی قرآن کریم کی آیت اور حضرت عمرؓ کے اس فیصلے کے مطابق یہی فیصلہ دیتی ہیں کہ اگر عورت صلح کیلئے راضی نہ ہو تو علیحدگی کا فیصلہ جاری کردیتی ہیں۔ نبی کریم ﷺ کی حدیث میں سچائی ہے کہ واشدھم فی امر اللہ عمر ’’صحابہؓ کے اندر سب سے زیادہ اللہ کے حکم میں عمر سخت ہیں‘‘۔واقضی ٰھم علی’’اور ان میں سب سے زیادہ اچھے علی ہیں‘‘۔ حضرت عمرؓ نے قرآن کی روح کے مطابق فیصلہ نافذ کردیا اور خواتین کے حقوق کیلئے یہ قرآن وسنت اور فطرت کے عین مطابق تھا۔ حضرت علیؓ کو اس فیصلے سے کوئی اختلاف نہیں تھا مگر آپؓ اس بات کو سمجھتے تھے کہ لوگ اس سے غلط فائدہ اٹھالیں گے اسلئے یہ وضاحت کردی کہ’’ ایک ساتھ تین طلاق کے باوجود بھی باہمی رضامندی سے رجوع ہوسکتا ہے‘‘۔ تاہم جب تنازعہ کی صورت ہوتی تھی تو یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حضرت علیؓ یہی فتویٰ دیتے تھے کہ ایک ساتھ تین طلاق واقع ہوگئی ہے، اب تمہارے لئے رجوع کرنا حرام ہے، یہاں تک کہ وہ عورت دوسرے شوہر سے نکاح کرلے۔ اس سے بھی بڑھ کر کوئی بیوی سے کہہ دیتا کہ تم مجھ پر حرام ہو توبھی حضرت علیؓ کا فتویٰ تنازعہ کی صورت میں یہی ہوتا تھا کہ تین طلاق واقع ہوچکی ہیں،اب رجوع کی گنجائش نہیں ہے یہانتک کہ عورت کسی اور سے نکاح کرلے۔
ایک طرف باہمی رضامندی سے صلح واصلاح کا معاملہ تھا تو اس پر قرآن نے پابندی نہیں لگائی ہے تو حکمران بھی نہیں لگا سکتا تھا۔ دوسری طرف طاقتور شوہر سے عورت کو چھٹکارادلانے کا مسئلہ تھا تو اللہ نے قرآن میں صلح کی شرط رکھ کر شوہر کو اپنی حدود سے باہر نکلنے کا راستہ نہیں دیا۔ علماء کرام اور مفتیانِ عظام اس بات کو سمجھیں کہ نکاح وطلاق کا مسئلہ معاشرتی ہے، اس میں ریاضی کی طرح حساب کتاب نہیں لیکن مصیبت یہ ہے کہ علماء کرام ریاضی کو سمجھتے ہیں اور نہ ہی معاشرتی اقدار کو سمجھتے ہیں اور اصولِ فقہ کو بھی نہیں سمجھتے ، فقہ کے لکھے لکھائے مسائل اور فتاویٰ کو شریعت کا معیارسمجھ لیا ہے۔ قرآن نے انتہائی بلاغت کیساتھ جہاں طلاق سے رجوع کیلئے صلح کی شرط کو ضروری قرار دیا ہے وہاں ہر بار معروف رجوع کو واضح کردیا ہے، معروف رجوع کا مطلب ہی باہمی صلح اور اصلاح کی شرط پر رجوع ہے جبکہ حنفی مسلک میں رجوع کی عجیب وغریب منکر صورتیں ہیں اور شافعی مسلک میں اس سے متضاد منکر صورتیں ہیں جو مستند قرار دی جانے والی کتابوں میں بہت ہی شرمناک انداز میں موجود ہیں۔اگر اتنی سی بات قرآن کی واضح آیات کی روشنی میں عوام کو بتادی جاتی کہ قرآن معاشرتی اصلاح کی بہترین کتاب ہے، اللہ نے عدت میں رجوع کا دروازہ باہمی اصلاح کی بنیاد پر کھلا رکھاہے۔ اگر عدت کی مدت مکمل ہوجائے تو بھی رجوع کاراستہ نہیں روکا ہے اسلئے کہ بار بار عدت کی تکمیل پر رجوع یاچھوڑنے کی وضاحت ہے۔ پھر فقہ کی کتابوں میں فضول قسم کی باتیں نہیں لکھی جاتیں کہ’’ آدھے سے زیادہ بچہ ماں کے پیٹ سے نکل گیاتو رجوع نہیں ہوسکتا اور کم نکلا ہے تو رجوع ہوسکتا ہے‘‘۔
اگر علماء کرام اور مفتیان شرع متین اس بات کو سمجھ لیتے کہ جس اللہ نے طلاق کا مقدمہ اس آیت سے شروع کیا کہ لاتجعل اللہ عرضۃ لایمانکم ان تبروا وتتقوا وتصلح بین الناس ’’ اللہ کو نیکی ،تقویٰ اور لوگوں کے درمیان مصالحت نہ کرنے کیلئے ڈھال مت بناؤ‘‘۔(البقرہ:224)تو فتوؤں کی آڑ میں اللہ پاک کا نام لیکر تفریق کے بجائے مصالحت کی راہ ہموار کرتے۔البتہ جہاں طاقتور مردوں کا مسئلہ آتا ہے کہ عورت چھوڑنے کی ضد کرتی ہوں اور شوہر چھوڑنا نہیں چاہتاہو تو اللہ نے مصالحت کے بغیر شوہر کو رجوع کیلئے کوئی گنجائش نہیں دی ۔ حضرت عمرؓ نے خیر کی بنیاد رکھ دی۔ قرآن کے مطابق تنازعہ کا فیصلہ دیدیا کہ اکٹھی تین طلاق سے رجوع نہیں ہوسکتا، لیکن افسوس کہ حضرت عمرؓ کے فیصلے کو قرآن کے مطابق درست جانچنے کے بجائے اس کی سراسرغلط اور بے بنیاد توجیہات بیان کی گئیں ہیں اور اسکے نتیجے میں امت مسلمہ قرآن سے دور ہوگئی۔ ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ حضرت عمرؓ نے درست فیصلہ فرمایا کہ مصالحت کے بغیر تین نہیں ایک طلاق پر بھی رجوع کا دروازہ بند ہوجاتا ہے تو قرآن اور اسلام سے ہم دور نہ ہو جاتے۔ خواتین کی مصلحت کیلئے اللہ تعالیٰ نے تنازعہ کی صورت میں اصلاح کی شرط رکھ دی تھی۔ جس پر حضرت عمرؓ نے کماحقہ عمل کیا۔طاقتور مردوں سے کمزور خواتین کی جان چھڑانے کیلئے 3طلاق ہی نہیں بلکہ حرام اور دیگر بہت سے الفاظ صریح و کنایہ میں بھی علماء وفقہاء نے فتوے مرتب کئے کہ اس لفظ سے تین طلاق واقع ہوجاتی ہیں اور شوہر کیلئے رجوع کرنا حرام ہوجاتا ہے،یہاں تک کہ عورت دوسرے شوہر سے شادی کرلے۔ یہ بھی قرآن سے اس بنیاد پر مناسبت رکھتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مرد کی طاقت کو قرآن کی روح سے لگام دی ہے کہ جب وہ صلح نہیں کرنا چاہتی ہو تو اس کیلئے حلال نہیں کہ وہ دوسری جگہ نکاح نہ کرنے دے، مرد کی طاقت کو لگام دینے کیلئے صرف مرحلہ یا اکٹھی تین طلاق نہیں بلکہ کوئی بھی ایسالفظ جس سے عورت مصالحت پر راضی نہ ہو اور وہ مجبور کرتا ہو ، یہ فتویٰ دینا درست ہے کہ اس پر حرام ہوگئی ہے۔ یہ شوہر کی بلاوجہ خود کو عورت کا زبردستی سے مالک بن جانے کے خلاف زبردست اور درست راستہ تھا۔
بہت کم تعداد میں ایسے لوگ بھی تھے جن کا فتویٰ یہ تھا کہ ایک ساتھ تین طلاق کے باوجود عورت راضی نہ بھی ہو تو شوہر کو رجوع کا حق حاصل ہے۔ امام ابوحنیفہؒ کے استاذ فقیہ امام حمادؒ کا بھی یہی مسلک تھا لیکن یہ قرآن وسنت اور صحابہ کرامؓ کے مقابلہ میں ایک اقلیت کی رائے تھی۔ علامہ ابن تیمیہؒ اور ابن قیمؒ بھی بعد میں شریک ہوگئے، چاروں امام حضرت امام ابوحنیفہؒ ، حضرت امام مالکؒ ، حضرت امام شافعیؒ اورحضرت امام احمد بن حنبلؒ کا اتفاقِ رائے سے یہی مسلک تھا کہ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد شوہر کو رجوع کا حق حاصل نہیں ۔اگر اسکے برعکس فتویٰ دیاجاتا تو یہ خواتین کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی تھی اور قرآن وسنت اور صحابہ کرامؓ و ائمہ مجتہدین ؒ سے بدترین انحراف تھا۔ پھرنالائق درباری علماء نے حیلے کرکے خواتین کی حق تلفی کاا رتکاب کیا۔
حضرت امام ابوحنیفہؒ سے بادشاہ نے کہا کہ میری بیوی دوسری شادی نہیں کرنے دیتی ہے ، آپ بتائیں کہ اسلام میں اس کی اجازت ہے یا نہیں؟۔ امام ابوحنیفہؒ نے آیت پڑھی جس میں دودو، تین تین اور چار چار کی اجازت ہے لیکن عدل نہ کرسکو تو پھر ایک کی بات ہے۔ ملکہ خوش ہوگئی اور بادشاہ ناراض ہوا تو اس کو بعض لوگوں نے امام ابوحنیفہؒ کی قید کا سبب قرار دیا ہے۔ بادشاہ نے بیوی سے کہا کہ اگر صبح کی آذان تک زبان سے کوئی بات نہیں کہی تو تجھے تین طلاق۔ عورت نے اس کو جان چھڑانے کیلئے غنیمت سمجھا اور ہرطرح کی منت سماجت اور تشدد سے نہ مانی اور دھمکی کو خاطر میں نہیں لائی ۔ تو بادشاہ نے رات گئے درباری مُلاامام مسجد سے مدد مانگ لی۔ امام نے کہا کہ بے فکر رہو، تمہارامسئلہ حل کردیتا ہوں۔ تھوڑی دیر بعد آذان کی آواز آئی تو عورت پھٹ پڑی کہ میں کب سے جان چھڑانے کی فکر میں تھی، اب اللہ نے موقع دیدیا تواپنی زندگی راحت سے گزاروں گی وغیرہ اور گھر سے نکل کر چلی گئی۔ بادشاہ کو خیال آیا کہ امام صاحب نے میرے لئے کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا اور جھوٹی تسلی بھی دی اسلئے اسکی خبر لینے پہنچ گیا، بادشاہ کو غصہ میں دیکھ کر امام نے کہا اس نے بات کی تو بادشاہ نے کہا کہ بات بھی کی اور گھر سے نکل کر چلی بھی گئی ،آپ نے دھوکہ دیاہے امام صاحب نے کہا کہ طلاق نہیں ہوئی ہے، میں نے فجر نہیں تہجد کی آذان دی ہے۔ بادشاہ نے خوش ہوکر انعام واکرام سے امام صاحب کو نوازا۔ اور بیوی کو دوبارہ اپنے نکاح کی قید کا پابند کردیا۔ (یہ اور اس طرح کے دوسرے واقعات امام ابوحنیفہؒ کے نہیں تھے بلکہ درباری شاگردوں کے واقعات کو امام ابوحنیفہؒ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ مفتی محمد اکمل صاحب ٹی وی پر مسائل بیان کرتا ہے ،اس کی ایک ویڈیو کلپ ہے کہ’’ حلالہ کو غلط کہنا جہالت ہے، اس کا انکار قرآن اور اللہ کے حکم کا انکار ہے، امام ابوحنیفہؒ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ خاندان بسانے کی نیت سے حلالہ کرنے والوں کو ثواب بھی ملے گا‘‘۔موصوف ٹی وی پر بھرپور میک اپ اور سنگار کرنے سے لگتاہے کہ حلالہ کی شباشی اور کارِ لعنت کو ثواب سمجھ کر ہمہ وقت تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ حلالہ کے جواز کے بھی امام ابوحنیفہؒ قائل نہیں تھے ، موزے پر مسح کے جواز کیلئے امام ابوحنیفہؒ نے اس وقت تک فتویٰ نہیں دیا جب تک 70مستند احادیث نہیں ملیں،جبکہ حلالہ کے جواز تو بہت دور کی بات ہے ،نبی ﷺ نے حلالہ کی لعنت کا راستہ روکاہے )
اصول فقہ اور فقہ کی کتابوں میں جو مسائل امام ابوحنیفہؒ کی طرف منسوب ہوئے ہیں، وہ امام صاحب کامسلک نہیں بلکہ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی نے کہا ہے کہ 15% امام ابوحنیفہؒ اور85%انکے شاگردوں کے مذہب کے مطابق مسلک حنفی کی فقہ تیار کی گئی ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ جن مسائل کو امام ابوحنیفہؒ اور آپ کے شاگردوں کی طرف منسوب کیا گیا ہے وہ بھی امام ابوحنیفہؒ اور ان کے شاگردوں کے نہیں بلکہ ان کی طرف اصول مرتب کرکے بہت بعد میں نکالے گئے۔ فقہاء کے 7درجات میں اصحاب اصول اور اصحاب تخریج کے اندر اونچ نیچ کا تصور ہے۔امام ابوحنیفہؒ اور انکے شاگردوں کو پتہ بھی نہ ہوگا کہ ان کے پیچھے ان کے نام پر لوگ کیا کیا گل کھلائیں گے۔ اصول فقہ کی کتاب ’’نورالانوار‘‘ میں امام ابوحنیفہؒ اور شاگردوں کی طرف ’’ف‘‘ تعقیب بلامہلت کیلئے جس اختلاف کو منسوب کیا گیا ہے ،ان کے فرشتے بھی نہیں جانتے تھے کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق کا معاملہ ہو ،تب ہی ان دخلت داراًفانت طالق ( اگر تو گھر میں داخل ہوگئی تو تجھے طلاق)کے جملے میں کس کس کے نزدیک کس طرح پہلی اور تیسری طلاق واقع ہوگی اور دوسری واقع نہ ہوگی یا دوسری طلاق واقع ہوگی اور پہلی و تیسری طلاق واقع نہیں ہوگی؟۔ جو اصول اماموں کی طرف منسوب کئے گئے ہیں وہ بھی خود ساختہ ہیں اور بعد میں آنے والوں نے جن مسائل کا استخراج کیا ہے وہ بھی خود ساختہ ہیں۔
مدارس کے اندھوں میں کانا راجہ اور اسلامی بینکاری کے خود ساختہ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے لکھا تھا کہ ’’ صاحبِ ہدایہ نے اپنی کتاب تجنیس میں لکھاہے کہ سورۂ فاتحہ کو علاج کیلئے پیشاب سے اس شرط پر لکھنا جائز ہے کہ علاج کا یقین ہو۔ مگر مجھے امام ابویوسف کی کتابوں میں تلاش کے باوجود یقین کی شرط کہیں نہیں ملی‘‘۔ تکملہ فتح الملھم ، فقہی مقالات جلد چہارم۔ اس عبارت میں صاحبِ ہدایہ کو اصحاب تخریج قرار دیا گیا ہے جو مسائل کی تخریج کرتے ہیں اور امام ابویوسف کو صاحب اصول قرار دیا گیا ہے۔ جس کا واضح مطلب یہ تھا کہ سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کے جواز کیلئے اصول کے اعتبار سے امام ابویوسف کی بات درست تھی اور صاحبِ ہدایہ سے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کیلئے صاحب ہدایہ کی طرف سے جو یقین کی شرط رکھی ہے اس کا اصول سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یعنی علاج کے یقین کی شرط کے بغیر بھی سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے۔ جس سے مفتی تقی عثمانی نے خود کو صاحبِ ہدایہ سے بھی بڑا اصحابِ تخریج ثابت کیا ہے اور اسی وجہ سے سودی بینکاری کے جواز کیلئے بھی معاوضہ لیکر بڑے بڑوں کو شکست دی ہے۔
جامعہ بنوری ٹاؤن میں اندھوں کا راج ہے ، مولانا انور بدخشانی نے طلاق کے حوالہ سے ہمارے ساتھی ڈاکٹر احمد جمال سے کہا کہ دارالعلوم کراچی والوں کے پاس علم ہے ، طلاق کے حوالہ سے جو کتابیں تحریر کیں ہیں وہ دارالعلوم کراچی والوں کے سامنے پیش کردو۔ دارالعلوم کراچی والوں نے کتاب وصول کرکے فتویٰ کیلئے وقت بھی دیا لیکن پھر اپنی رائے دینے سے صاف انکار کردیا تھا جس کا ذکر بھی اپنے اخبار میں ہم نے کیا ہے۔ سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے پر بنوری ٹاون سے فتویٰ ملا تھاکہ یہ بے دینی ہے لیکن فتوؤں کی کتاب میں کوئی عبارت نہیں ملی اور فتاوی عالمگیریہ سے عبارت نقل کی کہ ’’ایام نوروز میں غیروں کی مشابہت کی وجہ سے دروازوں پر تعویذ لٹکانا جائز نہیں ہے‘‘۔ حالانکہ اسی عبارت کی ساتویں سطر میں لکھا ہے کہ ’’خون سے تعویذ لکھنا جائز ہے‘‘۔ نکسیر بھی پیشاب کی طرح ناپاک ہی ہوتی ہے۔ مولانا یوسف لدھیانوی شہیدؒ کی کتاب ’’عصر حاضرحدیث نبویﷺ کے آئینہ میں‘‘ میں مدارس کے مفتیوں کا عکس دیکھا جاسکتاہے اور ہماری تحریک کا سراغ بھی مل سکتاہے۔
مجھے فخر ہے کہ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور دیگر اسلامی مدارس میں ان ساتذہ کرام سے تعلیم حاصل کی ہے جن کا تعلق حنفی مسلک سے تھا۔ جن کا بنیادی نکتۂ نظر یہی تھا کہ قرآن کی آیات کو احادیث صحیحہ پر بھی ترجیح حاصل ہے۔ اصولِ فقہ کی پہلی کتاب ’’ اصولِ الشاشی ‘‘تیسرے سال اور دوسری کتاب’’ نورالانوار‘‘ چوتھے سال میں ہمیں حضرت مولانا بدیع الزمان نوراللہ مرقدہ نے پڑھائی تھیں۔ اصول الشاشی کا پہلا سبق یہ ہے کہ آیت میں حتی تنکح زوجا غیرہ کے مقابلہ میں خبر واحد کی حدیث صحیحہ ہے کہ جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اسکا نکاح باطل ہے، باطل ہے، باطل ہے۔ آیت میں عورت کی طرف نکاح کی نسبت ہے، یعنی وہ خود نکاح کرنے میں آزاد قرار دی گئی ہے اور اس حدیث میں عورت کو ولی کی اجازت کا پابند بنایا گیاہے۔اس تضاد کی وجہ سے ہم قرآن پر عمل کرینگے اور اس سے متضاد خبر واحد کی حدیث صحیحہ کو چھوڑ دینگے۔ فقہ حنفی کی تعلیم جمہور کے مقابلہ منفرد حیثیت کی حامل ہے کیونکہ باقی مسالک اس حدیث پر ایمان رکھتے ہیں اور ہم حدیث کو قرآن سے متصادم قرار دیکر آیت کے مقابلہ میں اس کو نہیں مانتے ہیں۔
درس کے دوران مولانا بدیع الزمانؒ سے میں نے یہ عرض کیا تھا کہ مسلک حنفی کی پہلی ترجیح قرآن و حدیث کی تطبیق ہے تو حدیث کو رد کرنے کے بجائے تطبیق ہونی چاہیے تھی؟۔ حدیث کو کنواری لڑکیوں کیساتھ خاص کیا جاتا اور قرآن کی آیت میں طلاق شدہ کا ذکر ہے اور دونوں کے شرعی احکام بھی مختلف ہیں؟۔
مولانا بدیع الزمانؒ نے تبسم سے جواب دیا کہ آپ کی بات میں وزن ہے اور جب آئندہ کتابیں پڑھ لوگے تو جواب تلاش کرلوگے!۔ مولانا بدیع الزمانؒ روزانہ قرآن کاایک رکوع متن کیساتھ پڑھنے کی تلقین کرتے تھے۔ لیکن میرا ولولہ ایک ہی تھا کہ فقہ، قرآن کی آیات اور درسِ نظامی میں کوئی مناسبت دکھائی نہیں دیتی تھی۔یہ یقین تھا کہ فقہ حنفی کی تعلیمات ہی درست ہوں گی کیونکہ عقیدت کا تعلق دلائل سے نہیں اعتماد سے ہوتا ہے۔ قرآن کی آیات اور احادیث صحیحہ پر دسترس حاصل نہ ہوتو گمراہانہ سوچ پیدا ہوسکتی ہے۔ طلاق کے مسئلہ پر تمام قرآنی آیات، احادیث صحیحہ، مختلف مکاتبِ فکر کے جید علماء کرام کی تحقیقات اور اختلافی نکتۂ نگاہ سے واقفیت ملی تو اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ قرآن میں سارے مسائل کا حل ہے۔ احادیث صحیحہ میں کوئی حدیث بھی غلط اور ٹکرانے کے لائق نہیں۔ فقہ حنفی کے مطابق سب احادیث کی بھی تطبیق ہوسکتی ہے ۔ علماء کرام مجھے حکم دیں تو میں حاضر خدمت ہوکر تشفی بخش جوابات دے سکتا ہوں۔ اسلام اجنبیت سے نکل کر پھر معروف بن سکتا ہے۔
قرونِ اولی کے ادوار میں حلالہ کی لعنت کا کوئی تصور نہ تھا،مدینہ کے سات فقہاء پہلی صدی ہجری میں تھے۔ جن میں حضرت ابوبکرؓ کے پوتے قاسم بن محمد اور نواسے عروہ بن زبیرؓ شامل تھے۔ دوسری صدی ہجری میں امام ابوحنیفہؒ ، امام مالک ؒ اور امام شافعیؒ تھے۔ تیسری صدی ہجری میں ائمہ حدیث امام بخاریؒ ، ابن ماجہؒ ،ترمذی، مسلمؒ وغیرہ تھے۔ان حضرات کے ہاں حلالہ کے جواز وعدمِ جواز کی کوئی بحث نہیں تھی، وہ ایک ساتھ تین طلاق کے جواز وعدم جواز اور منعقد ہونے اور نہ ہونے کو موضوع بنایا کرتے تھے۔پھر شافعی مسلک نے ایک ساتھ تین طلاق کو سنت اور حنفی مسلک نے بدعت قرار دیا۔ محدثین ؒ نے احادیث کے اسناد کو ترجیح دی مگر وہ اچھے فقیہ نہیں تھے۔ امام بخاریؒ نے امام ابوحنیفہؒ کے مسلک کو ہی زیادہ تر ہدف بنایا۔ شافعی مسلک سے محبت کرتے ہوئے ایک باب کا عنوان’’ من اجاز طلاق ثلاثہ‘‘ رکھا۔ اس میں رفاعۃ القرظیؓ کی بیوی کا واقعہ بھی ہے ، حالانکہ بخاری کی کتاب الادب میں واضح ہے کہ رفاعۃ القرظیؓ نے الگ الگ مراحل میں تین طلاقیں دی تھیں۔
وفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خانؒ نے بخاری کی شرح میں لکھ دیا ہے کہ ’’ رفاعۃ القرظیؓ کی بیوی کا واقعہ خبر واحد ہے۔ اس کی بنیاد پر حنفی قرآن پر یہ اضافہ نہیں کرتے کہ نکاح کے علاوہ مباشرت بھی ضروری ہے بلکہ حنفی مسلک کی دلیل یہ ہے کہ نکاح مباشرت کو ہی کہتے ہیں‘‘۔ (کشف الباری: مولانا سلیم اللہ خانؒ )۔ اس روایت میں الگ الگ مراحل میں طلاق کے علاوہ طلاق منقطع ہونے کے بعد عبدالرحمن بن زبیر القرظیؓ سے نکاح اور بے حجاب ہونے کا بھی ذکر ہے۔جس سے یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ نبیﷺ نے حلالہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ مرحلہ وار طلاق کے بعد دوسرے سے نکاح کیا تھا اور اگر عبدالرحمن بن زبیرؓ کو چھوڑ دیتی تو ضروری نہیں تھا کہ رفاعۃ القرظیؓ دوبارہ اپنے نکاح میں قبول کرنے کیلئے تیار بھی ہوتے۔ حنفی مسلک کے مطابق خلوت صحیحہ کے بعد پورا حق مہر بھی واجب تھا تو عبدالرحمن بن زبیرؓ کیلئے مباشرت کا بھرپور حق بھی ہونا چاہیے تھا۔ اس خبر واحد کے ذریعے سے قرآن کی دیگر ڈھیر ساری آیات کو مسترد کرنا بھی حنفی مسلک کے بنیادی تقاضے کے مطابق درست نہیں ہے جن میں بار بار باہمی صلح اور معروف طریقے سے رجوع کی اجازت ہے۔
حدیث کے واقعے کا ستیاناس کرکے ایک ساتھ تین طلاق پر قرآن کے واضح احکام کے خلاف حلالہ کا حکم دینا بالکل بھی انصاف کے منافی ہے۔ نورالانوار میں بھی حنفی مسلک کے حوالہ سے یہ وضاحت ہے کہ اس طلاق کا تعلق اپنے متصل فدیہ کی صورتحال سے ہے۔ حضرت ابن عباسؓ سے بھی علامہ ابن قیمؒ نے یہ قول نقل کیا ہے اور تفسیر کے امام علامہ جاراللہ زمحشریؒ نے بھی اس طلاق سے پہلے دوالگ الگ مرتبہ طلاق کو درست تقاضہ قرار دیا۔ علامہ تمنا عمادی نے بھی کتاب ’’الطلاق مرتان‘‘ میں خلع کی صورت کیساتھ اس طلاق کو مشروط قرار دیا ہے۔ غلام احمد پرویز اس کو فقہ حنفی کے مطابق طلاق احسن کی صورت سے ہی مشروط قرار دیتا ہے لیکن درسِ نظامی کی بنیاد پر یہ شرف مجھے مل گیا ہے کہ قرآن کریم اور احادیث صحیحہ کی روشنی سے کوئی بھی ایسی صورت نہیں جس میں اللہ نے میاں بیوی کے درمیان رکاوٹ ڈالی ہو۔
سورۂ بقرہ کی آیات 224سے 232تک اور سورۂ طلاق کی پہلی دو آیات اس پر شاہد عدل ہیں۔احادیث صحیحہ پر من گھڑت احادیث کے ذخیرے کو طشت ازبام کرنا بھی کوئی مشکل کام نہیں۔جب احادیث صحیحہ میں ہو کہ حضرت فاطمہ بنت قیسؓ کو الگ الگ تین طلاق دی گئیں تومن گھڑت روایات کو پہچاننے میں مشکل نہیں کہ کس طرح حضرت فاطمہ بنت قیسؓ کو یکدم طلاق بدعی دینے کی روایات گھڑی گئیں ہیں۔ ایک ایک واقعہ سے حقائق کی درست نشاندہی ہوتی ہے۔ قرون ثلاثہ میں تین طلاق کیلئے ایک ساتھ واقع ہونے کا تصور خواتین کے حقوق کی حفاظت کیلئے تھا۔ جو احادیث صحیحہ اور حضرت عمرؓ کے فیصلے کا تقاضہ بھی تھا ،جس قرآن کے مطابق عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد باہمی رضامندی سے رجوع پر پابندی کا بھی کوئی تصور نہیں تھا۔ پھر بعد میں اسلام اجنبی بنتا چلاگیا اور حلالے کا تصور اور سازشی نکاح کی باتیں سامنے آگئیں۔ علامہ بدر الدین عینی اور علامہ ابن ہمام نوسوسال بعد کے دور میں تھے ، انہوں نے حیلوں کی انتہاء کرتے ہوئے پہلی مرتبہ حلالہ کی لعنت کو بھی باعث اجر وثواب قرار دیا۔ ان کے بعد شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانیؒ نے قرآن وسنت کی طرف توجہ دلائی مگر اسلام کواجنبیت سے نہیں نکال سکے۔
حضرت شاہ ولی اللہؒ نے فقہاء کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔ انکے پوتے شاہ اسمٰعیل شہید ؒ نے کتاب لکھ ڈالی کہ تقلید چوتھی صدی ہجری کی پیداوار اور خیرالقرون سے باہر ہے اور اس کو بدعت عملی قرار دیا۔علماء دیوبند نے حمایت کی۔ مولانا احمدرضا خان بریلویؒ نے ’’حسام الحرمین ‘‘سے انکو پیچھے دھکیلا۔ مولانا یوسف بنوریؒ کے والد مولانا زکریا بنوریؒ نے کہا کہ ’’ برصغیر پاک وہندمیں مسلک حنفی کی حفاظت کا کریڈٹ مولانا احمد رضا خان بریلویؒ کو جاتاہے۔ علامہ سید محمد یوسف بنوریؒ نے شاہ اسماعیل شہید کی کتاب’’ بدعت کی حقیقت‘‘ پر تقریظ بھی لکھ دی ۔ جس میں تقلید ہی کو بدعت قرار دیا گیاہے۔ مولانا احمدرضا خان بریلویؒ نے لکھ دیا کہ ’’ سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کا کوئی جواز نہیں ، فقہ حنفی میں علاج کیلئے یقین کی شرط قرار دیا گیا اور وحی کے بغیر یقین نہیں ہوسکتا، جبکہ وحی کا سلسلہ بند ہوچکاہے۔ مفتی تقی عثمانی کی طرف سے کتابوں سے عبارات نکالنے کے اعلان کے بعد بھی دیوبندی مکتبۂ فکر کے مفتی محمد سعید خان خلیفۂ مجاز مولانا ابولحسن علی ندویؒ اور مولانا خان محمد ؒ کندیاں نے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کا اپنی کتاب ’’ ریزہ الماس‘‘ میں دفاع کیا ۔جو2007میں شائع ہوئی۔
ایک طرف بھارت کی پارلیمنٹ نے ایک ساتھ تین طلاق پر حلالہ کی لعنت کے خلاف قانون سازی کی ہے تو دوسری طرف امریکہ پاکستان کو دھمکیاں دے رہاہے اور اگر ٹی وی اینکروں نے کسی سے رقم لیکر قرآن وسنت کا احیاء اور علماء کی مخالفت شروع کردی تو عوام مدارس میں گھس کر ان کو قتل کریں گے۔ ہمارے دلوں میں علماء کے خلوص پر شبہ نہیں اور ان کی قدر ومنزلت دل میں رکھ حقائق بتارہے ہیں۔ میری اللہ سے دعا ہے کہ مدارس عوام کیلئے گمراہی کے قلعوں کے بجائے ہدایت کے قلعوں میں بدل جائیں ۔ جس دن علماء کرام اور مفتیانِ عظام نے حقائق کو قبول کرلیا تو ہمارا معاشرتی نظام ، اقتصادی نظام اور پورا ریاستی نظام اسلامی بن جائیگا ۔ عتیق گیلانی

مفتی طارق مسعود کے بیان پر حیرت ہوئی: مولانا ابو الاسعد محمد حجازی، فاضل جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی

mufti-tariq-masood-ke-bayan-per-hairat-hoi-molana-abul-asaad-hijazi-jamia-binori-town-karachi

کراچی (صدیق، عزیز) مولانا ابو اسعد محمد حجازی خطیب و امام جامع مسجد ریکسر کراچی ، فاضل جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی نے کہا کہ فحاشی منکرات کو کھلی چھٹی اور دین پر عمل کرنا بہت اور مشکل حق بات کہنا مشکل ہوتا جارہا ہے شیخ سعدی ایک بستی میں گئے کتے بھونکنے لگے آپ نے زمین سے پتھر اٹھانے کی کوشش کی تاکہ کتوں کو بھگادیا جائے لیکن پتھر زمین میں جمے ہوئے تھے شیخ سعدی فرمانے لگے عجیب لوگ ہیں کتے کھلے چھوڑے ہوئے ہیں اور پتھر باندھے ہوئے ہیں یہ حال ہے باطل کو کھلی چھٹی ہے اور حق والوں پر روز بروز پابندیاں لگائی جارہی ہیں ابھی بھی وقت ہے مسلم قرآن اور سنت کو اپنا ئے تو ہمارے سارے مسائل حل ہوجائیں گے چاہے وہ شادی بیاہ ہو یا طلاق و حلالے کے مسائل ہوں قرآن و حدیث میں موجود ہے۔ بین الاقوامی حالات دیکھیں ہر طرف مسلمانوں پر زوال آیا ہے۔ مفتی طارق مسعود کا بیان پڑھ کربڑی حیرت ہوئی یہ تو کاروبار سمجھ لیا ہے اللہ سے توبہ کریں اور لوگوں کو بتائیں بغیر حلالے کے باہمی رضامندی سے رجوع ہوسکتا ہے۔ قرآن میں اللہ نے بار بار فرمایا ہے۔ جب شوہر اور خاتون راضی ہوں تو باہمی رضامندی سے اللہ نے رجوع کو آسان کردیا، اگر کوئی اس کو مشکل بناتا ہے تو یہ اللہ کی کتاب کو چیلنج کررہا ہے معاذ اللہ۔ اللہ تعالیٰ علماء کرام کو دین کی سمجھ عطا فرمائیں۔ نفسانیت اور مفاد پرستی جیسی بیماریوں سے ہمیں بچائے اور حق بات کہنے اور اس پر استقامت کی دعا کرتے ہیں۔

مفت خور مفتی حضرات طلاق ثلاثہ کو لیکر قوم کی عزت کا بیڑا غرق کرتے رہے ہیں. مولانا محمد حسین منطقی فاضل جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی

muft-khor-mufti-hazrat-talaq-e-salasa-ko-lekr-qoum-ki-izzat-ka-beda-gark-krte-rahe-hein-Molana-Hussain-Mantaqi-jamia-binori-town-karachi

کراچی (محمد طارق مدنی + قاری سلیم اللہ ) محمد حسین منطقی، فاضل جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی، اوردوسری بار فاضلمدرسہ عربیہ قاسم العلوم فقیر والی بہاولنگر پنجاب (علی گوٹھ کورنگی نمبر 6، کراچی قاضی و نکاح خواں جو سید عتیق الرحمن گیلانی کی کتابوں ’’ابر رحمت‘‘ اور ’’تین طلاق کی درست تعبیر‘‘ کی حمایت میں بھی متعدد بار بیانات دے چکے ہیں اور دار العلوم کراچی کے علماء سے بات بھی کی ہے) نے اپنے ایک بیان میں کہا عرصہ درازسے شاہ صاحب اتحادامت کیلئے زور لگاتے رہے ہر نام نہاد علماء پیٹ پجاری ٹولا اورمفت خورحضرات فرقہ پرستی وگروہی اختلافات کو ہوادیکرامت مسلمہ کو پارہ پارہ کرتے رہے ۔ آج وہی حضرات اپنی دال گلتی نہیں دیکھ رہے ہیں، ان کو اپنا وجودخطرے میں نظر آرہاہے ، اب تمام وہ حضرات بھی اتحادامت پر زوردے رہے ہیں اچھا ہے کہ دیرآمددرست آمد۔ اللہ تعالیٰ تمام فرقوں اور گروہوں کو صحیح سمت اورراہ راست پرآنیکی ہمت دے ۔ مسلمانوں کے تمام مسائل کا حل صرف اورصرف اتحادواتفاق امت مسلمہ سے ہی ممکن ہے ، جبتک اتحادواتفاق نہیں کچھ بھی نہیں کرسکتے ۔ ہماری قوم سیدھی سادی ہے اب تک ان لوگوں کی باتوں پر یقین کرتے ہیں جوہمارے لیڈروں میں بلااستثنیٰ مکمل مفادپرست ہیں اپنے اپنے مفادکیلئے لوگ ملک اورقوم ملت کو تباہ وبربادکرنے میں آسرانہیں کرتے خواہ وہ سیاستدان مولوی ہوں یاغیرمولوی ۔ افسوس کہ ہماری مملکت خداداد پاکستان کوابتک ملک وقوم کا خیرخواہ لیڈرنہیں ملا۔اورغیرمولوی توغیرمولوی مولوی صاحب سبحان اللہ اپنے معمولی مفاد کی خاطرقوم اورمسلمانوں کی غیرت سے کھیل جاتے ہیں ۔ ہمارے مفت خورنام نہاد مفتی حضرات طلاق ثلاثہ کو لیکر قوم کی عزت وغیرت کا بیڑہ غرق کرتے رہے ہیں ، ذرا بھی شرم نہیں کرتے جب کے طلاق کے معاملات کا واضح اور کھلم کھلابیان اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایاہے اسکے باوجودیہ گروہ اپنے تجویز کردہ فیصلہ دے دیتے ہیں اورسیدھے سادے مسلمانوں کو غلط تجویزکو ماننے پر مجبورکرتے ہیں اب جبکہ شاہ صاحب کی تحقیقات کا ابررحمت سے لیکرمتواترچندکتابیں میدان میں آگئیں توان مفت خوروں کواپنے مفت کا کھاناخطرے میں نظرآرہا ہے توکچھ لوگ خاموش ہوگئے اورکچھ کے حواس کھوگئے ہیں ۔ اس وقت شاہ صاحب کی صورت میں اللہ نے قوم ملک وملت اورمسلمانوں کوایک عظیم مسیحالیڈرعطافرمایاہے جو قوم اورملک کی رہنمائی کررہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ شاہ صاحب کو حیات دے اورہمت دے تاکہ قوم وملت کی رہنمائی کرسکیں ۔ افسوس کیا کرسکتے ہیں سوائے دعاکہ اس ملک کا کیابنے گا جہاں کا حکمران ، عدلیہ اورفوج بے حس ہوں توملک کا کیاحشرہوگا۔ ہماری دعاؤں کا اثربھی تونہیں ہے ۔ دعاؤں کا اثرکیسے ہماری معیشت سودپرمبنی ہے سودکھانیوالوں کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ ہمارے کچھ مفتی حضرات ہی ہیں جو سودکانام تبدیل کرکے حلال کرنے کیلئے کوشاں ہیں اللہ ان مفتیوں کو ہدایت دے۔اب حلالہ کے نام پر غریبوں کی
عزتیں لوٹنے کا کوئی جواز نہیں رہاہے
دل جل کرخاک ہو آنکھوں سے رویانہ گیا
زخم کچھ ایسا لگا کہ پھولوں پہ سویانہ گیا

قرآن و حدیث کو متصادم قرار دیکر علماء نے حلالہ اور کورٹ میرج کا راستہ ہموار کیا. عتیق گیلانی

quran-o-hadees-ko-mutasadim-qarar-de-kr-ulama-ne-halalah-aur-court-marriage-ka-rasta-hamwar-kia-Ateeq-Gilani

عتیق گیلانی نے اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کورٹ میرج و خفیہ نکاح سے شادی دوخاندانوں میں دوستی کے بجائے دشمنی میں بدل جاتی ہے۔ اسکے پیچھے مدارس کا غلط تعلیمی نصاب کارفرماہے۔ قرآن و حدیث میں کوئی ٹکراؤ نہیں۔ حدیث قرآن کیمطابق ہے، حدیث کوقرآن کیخلاف نا قابلِ عمل قرار دیکر سازش کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ قرآن کی آیت کا واضح مقصد حلالہ نہیں بلکہ جب شوہر عورت کو بسانا نہیں چاہتا ہوتووہ دوسرے شوہر سے نکاح کرنے پر بھی پابندی لگاتاہے۔ اللہ نے اس کو اس باطل طرزِ عمل سے روکاہے ۔ حدیث میں نکاح کیلئے دوعادل گواہ کی بات ہے، فقہ میں ہے کہ دوفاسق گواہ بھی ہیں۔یہ بات انسانی فطرت کا حصہ ہے کہ بھاگی ہوئی لڑکی کے نکاح پر گواہی کیلئے کوئی شریف آدمی تیار نہ ہونگے۔ مولوی نے آخری حدتک راہ ہموارکی ،نبی ﷺ نے فرمایا: ’’دف بجاکر نکاح کیلئے اعلان کرو‘‘۔ فقہ میں ہے کہ ’’دو فاسق گواہوں کی خفیہ گواہی اعلان ہے‘‘اس مجرمانہ فعل کی آخری حد تک احادیث کیخلاف نصاب کے ذریعہ پشت پناہی کا مرتکب مولوی ہے۔ جس لڑکی کو پتہ ہو کہ اسکا نکاح باطل ہے توکبھی اتنا بڑا قدم نہیں اٹھائے گی۔ حرامکاری اور اولاد الزنا کیلئے بغاوت کا ارتکاب کبھی نہیں ہوسکتا۔ نبی ﷺ نے فرمایاکہ باپ بیٹی کی مرضی کے بغیر اسکا نکاح کردے تو اسکا نکاح بھی نہیں ہوا۔ عوام کو علماء نے شریعت سے آگاہ نہیں کیا ورنہ کوئی باپ کسی قیمت پر بھی اپنی بیٹی کی شادی اس کی مرضی کے بغیر نہ کرتا۔ جب باپ بیٹی کی مرضی کے بغیر اسکا نکاح نہ کرتا تو کوئی لڑکی بھاگ کرنکاح نہ کرتی اور نہ چھپ کر نکاح کرتی۔کوئی حق مہر کی لالچ میں لڑکی کا نکاح اپنی مرضی سے کراتا ہے، کوئی خاندانی یا دنیاوی وجاہت کا خیال رکھ کرلڑکی کی شادی اسکی چاہت کے باجود نہیں کرنے دیتا۔ایک باپ کو پتہ ہو کہ اس کی لڑکی کا نکاح اس طرح نہ ہوگا تو وہ کسی قیمت اور کسی خاندانی وجاہت اور دنیاداری کی لالچ پر اپنی لڑکی کی مرضی کے بغیر نکاح نہیں کرائے گا۔احادیث قرآن کے بالکل مطابق ہیں۔ سورۂ نور کی آیت میں ہے کہ اپنی طلاق شدہ وبیوہ خواتین کا نکاح کراؤ،اور اپنے نیک غلام ولونڈیوں کا وانکحوالایامیٰ منکم والصالحین من عبادکم و امائکم اور پھر اگلی آیات میں کنواری لڑکیوں کے نکاح کا ذکر ہے : ولاتکرھوا فتےٰتکم علی البغاء ان اردن تحصناً لتبتغوا عرض الحیاۃ الدنیا ومن یکرھھن فان اللہ من بعد اکراھھن لغفور رحیم ’’ اوراپنی لڑکیوں کو مجبور نہ کرو، بغاوت(بدکاری) پر جب وہ شادی کرنا چاہتے ہوں اس لئے تمام اپنی دنیاوی شان وشوکت سے تلاش کرو،اور اگر ان کو مجبور کیا گیا تواللہ ان کی مجبوری کے بعد غفور رحیم ہے‘‘۔ (النور)
اگر ہم قرآن و احادیث کو آپس میں ٹکرانے کے بجائے غور کریں گے تو معاشرے کی تمام خربیاں دور ہونگی۔ آئے روز پاکستان میں تماشا لگا رہتا ہے کہ لڑکی نے بھاگ کر شادی کی اور اس کی وجہ سے فتنہ فساد، قتل وغارت اور خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ اگر ہم نے قرآن وسنت کے ذریعے مثالی معاشرہ قائم کیا تو دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کا بول بالا ہوگا۔

quran-o-hadees-ko-mutasadim-qarar-de-kr-ulama-ne-halalah-aur-court-marriage-ka-rasta-hamwar-kia-Ateeq-Gilani-image

عتیق گیلانی نے مدلل انداز میں علماء کرام اور عوام الناس سے مثبت انداز کی بنیاد پر انسانیت کی خدمت، مذہبی منافرت کے خاتمے پر زور دیا ہے اور آخر میں سوالات کے جوابات بھی دیے ہیں۔ ضرب حق ڈاٹ کام نیٹ ورک کے بعد ضرب حق ڈاٹ ٹی وی بھی میدان میں آگیاہے جس میں سوشل میڈیا سے بیانات کو دیکھ سکتے ہیں اور پسند آئیں تو پھیلا بھی سکتے ہیں اور مفید مشورے بھی دینے پر ہمیں بہت خوشی ہوگی۔ ازطرف انتظامیہ نوشتۂ دیوار

شاہ ولی اللہ و دیگر علماء نے مبشرات لکھی ہیں. ارشاد نقوی

shah-waliullah-aur-digar-ulama-ne-mobasherat-likhi-hein-Irshad-Naqvi

نوشتۂ دیوار کے مدیر خصوصی سید ارشاد علی نقوی نے اپنے بیان میں کہاہے کہ مولانا نور البشر برمی فاضل دارالعلوم کراچی ،مدیر اعلیٰ مھد عثمان بن عفان 36Bلانڈھی اور مولانا عدنان نقشبندی نے مسجدالٰہیہ سوکواٹر کے ناجائز قبضہ گروپ کی دعوت پر وہاں 25دسمبر کے پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حاجی عثمانؒ نے دیوار پرجو بشارت لکھوائی تھی وہ غلط تھی جس کو آپ نے مٹادیا ہے اور یہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ بھینس دودھ دیتی ہے تو اسکی مالیش بھی کی جاتی ہے، انسان کو جس مقصد کیلئے پیدا کیا گیا،وہ پورا ہونا چاہیے۔ مولانا نور البشر اور مولانا عدنان نقشبندی کو معلوم نہیں ہے کہ جوبشارت دیوار پر لکھ دی گئی تھی ،وہ حاجی عثمانؒ نے خود ہی اپنے وقت میں اسی وقت مٹادی تھی، جب آپؒ کے مریدوں نے بغاوت کی تھی۔ اسطرح کی بشارتوں پر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ’’ الدر الثمین فی مبشرات النبی الامینﷺ ‘‘ ہے۔جس میں چالیس مبشرات کا ذکر ہے۔ ایک میں حضرت شاہ ولی اللہؒ نے لکھاہے کہ ’’ عصر کی نماز کے بعد میں ذکر کے مراقبہ میں بیٹھا تھا اور اس دوران نبیﷺ تشریف لائے ، مجھے ایک چادر اوڑھادی جس سے مجھ پر علوم کی باریکیاں کھل گئیں‘‘۔ (الدر الثمین)
شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ نے ایک کتاب ’’اخبار الاخیار‘‘ لکھی ہے جس کا ترجمہ دارالعلوم کراچی کے شیخ الحدیث مولانا سبحان محمود صاحب نے کیا تھا ۔ جس میں لکھاہے کہ ’’ جب شیخ عبدالقادر جیلانیؒ تقریر کرتے تھے، تو سارے انبیاء کرامؑ اور اولیاء عظامؒ اس میں موجود ہوتے تھے۔ نبیﷺ بھی آپ کی حوصلہ افزائی کیلئے جلوہ افروز ہوتے تھے‘‘۔( اخبارالاخیار)
شیخ الحدیث مولانا زکریاؒ کے خلیفہ نے مکاشفات پر مبنی کتاب لکھی ہے جس میں یہ بھی ہے کہ ’’ شیخ الحدیث بیمار تھے ، نماز باجماعت کیلئے مدینہ میں مسجد نبوی ؐ نہیں جاسکے تو نبیﷺ تشریف لائے اور آپﷺ نے حجرے میں ظہر کی نماز شیخ الحدیث کو باجماعت پڑھائی۔ (بھجۃ القلوب: صوفی اقبال)
مولانا بدر عالم مہاجر مدنیؒ نے لکھ دیا ہے کہ ’’ تصوف کے شیخ فرماتے تھے کہ اگرمیں لمحہ بھر بھی نبیﷺ کو نہ دیکھوں تو خود کو زمرہ مسلمین میں شمار نہ کروں‘‘۔( ترجمان السنۃ)
مولانا نورالبشر اور مولانا عدنان نقشبندی میں تھوڑی سی بھی ایمانی غیرت ، دینی حمیت ہوتی تو ان کابرین کے نام پر چندے بٹورنے کے بجائے جنکے مشاہدات ان کو گمراہی اور کفر لگتے ہیں ، مسعود الدین عثمانی کیساتھ کھل کر مل جاتے۔ ان کو یہ پتہ نہیں کہ جس وقت حاجی عثمانؒ نے یہ بشارت لکھوائی تو کراچی کے سارے مدارس کے علماء ومفتیان حاجی عثمانؒ سے عقیدت ومحبت کا اظہار کرتے تھے۔ مفتی محمدتقی عثمانی کے استاذ مولانا عبدالحق فاضل دارالعلوم دیوبند بھی حاجی عثمانؒ کے خلیفہ اور مرید تھے۔ مشاہدات کی حیثیت خوابوں کی طرح ہوتی ہے لیکن اس کی کیفیت جیتے جاگتے کی صورت میں ہوتی ہے۔ اگر یہ کفر وگمراہی اور شرک وجہالت ہے تو تمام اکابرین پر بھی فتویٰ لگانا پڑیگا جن کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ رسول اللہﷺ نے مسجد اقصیٰ میں تمام انبیاء کرامؑ کی امامت کی تھی، ابوجہلوں نے آپﷺ پر فتوے لگائے تھے، اب علماء ومفتیان خود کوحق پرست ثابت نہ کرسکیں تو ان کو انبیاء کرام کا جانشین کہلانے کا کوئی حق نہیں ۔جامعہ فاروقیہ کے شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خانؒ خود تھے اور مولانا نور البشر نے خود کووہاں کا جعلی شیخ الحدیث مشہور کررکھا ہے۔ اگر اتنی بڑی خدمت مل گئی تھی جو اپنے منہ میاں مٹھو کو نصیب نہیں تھی تو چھوڑ کیوں دی؟۔
مولانا نورالبشر کو چاہیے کہ ہر چند دنوں کے بعد کسی برمی کا مسئلہ آتا ہے جو حلالہ سے متعلق ہوتا ہے کہ طلاق کے حوالہ سے غیرت کا مظاہرہ کرکے اپنی جاہل عوام کی عزتوں کو تحفظ فراہم کر دے۔ اکابرینؒ کی بشارتوں کا معاملہ اور حقائق کتابوں میں لکھنا جائز تھے تو دیوار پر بھی کوئی قباحت نہیں تھی۔ مولانا عبدالحقؒ نے دارالعلوم کراچی کے طالبعلم مولانا زین العابدین سے اس وقت کہا تھا جب عتیق گیلانی طالب علم تھے کہ’’ حاجی عثمانؒ سب سے زیادہ اسی کو چاہتے ہیں لیکن ہمیں راز کا پتہ نہیں‘‘ ۔

بیت المقدس کو یہود و نصاریٰ اور مسلمانوں کا مشترکہ مرکز بنایا جائے. فیروز چھیپا

baitul-muqaddas-ko-yahoodi-o-nasara-aur-muslims-ka-mushtarka-markaz-banaya-jae-Feroz-chhipa

نوشتۂ دیوار کے مالیاتی امور کے منتظم اعلیٰ محمد فیروز چھیپا نے اپنے بیان میں کہاہے کہ یہ موقع ہے کہ عالم اسلام اور عالم انسانیت اپنے اندر امن وسلامتی کی فضاء قائم کرے، امریکہ نے ایک طرف اسرائیل کی حمایت میں دنیا کا امن خطرے میں ڈالاہے تو دوسری طرف وہ افغانستان میں منشیات اور دہشتگردی کی فضاء قائم کرکے پاکستان ، ایران اور بھارت کو تباہ کرنے کے درپے ہے،اسلام کا نام لینے والا جہادی طبقہ افغانستان یا وزیرستان سے بیت المقدس تک امن مارچ کا علان کرے۔ مسجدِ اقصیٰ کو گرانے و ہیکل سلیمانی کی تعمیر سے دنیا کا امن تباہ ہوگا۔ عتیق گیلانی کی تقایر ویڈیو کے ذریعے عام ہونگی تو دنیا کا نقشہ بدلے گا۔ جمعہ کو مسلمان،ہفتہ کو یہودی اور اتوار کو عیسائی ہی بیت المقدس میں عبادت کریں تو سب سازش ناکام ہوگی۔ فلسطین کی حمایت کرنیوالا طبقہ بیت المقدس میں اپنے سفارت خانے کھول دے اور مسلمانوں کے امن مارچ کا حصہ بن جائے تو امن بحال ہوجائیگاجامع مسجد نور جوبلی میں بریلوی مکتبۂ فکر کے مولانا شفیع اکاڑوی ؒ خطیب وامام ہوتے تھے۔ حاجی محمد عثمانؒ کے بیان کی وجہ سے وہاں دیوبندی بریلوی اتحاد کی فضا تھی۔ پھر دونوں میں پھڈہ شروع ہوا، حکومت کی مداخلت سے اب دیوبندی جمعہ کی نماز پڑھاتے ہیں اور بریلوی جمعہ کے بعد صلواۃ وسلام پڑھتے ہیں۔ مولانا اکاڑوی گلزارِ حبیب سولجزبازار منتقل ہوگئے تھے جو دعوتِ اسلامی کا پہلا مرکز تھا، پھر فیضانِ مدینہ کے نام سے مرکز پرانی سبزی منڈی کراچی منتقل ہوا۔ پاکستان میں ایسی فضاء کی ضرورت ہے کہ عبادتگاہوں پر قبضے کرنے کی مہم جوئی ختم ہو، اور دنیا بھر میں بھی عبادتگاہوں کا تصور تجارتگاہوں و سیاسی مقاصد کیلئے نہ ہو۔ مساجد کو دوسرے مکاتبِ فکر والے رونق بخشنے کیلئے آزاد ہوں۔ قرآن وسنت اور شریعت وطریقت کے سلسلے آباد رہیں۔ سیاسی جماعتوں کو بھی امریکہ کی طرح ایک اسٹیج سے عوام کو دعوتِ خطاب دینے کا اہتمام کیا جائے تو سیاست نکھر ے گی اور دین کو بھی تفرقوں سے پاک کرنے کی راہ ڈھونڈی جائے۔
مذہب اور جہاد کاروبار بن جائے تو دنیا میں کبھی امن نہیں آسکتاہے۔ بیت المقدس تمام انسانیت کیلئے ایک مقدس مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔ مسلمان، یہود اور نصاریٰ اس میں عبادت کا آغاز کرینگے اور دنیا بھر سے لوگ زیارت کیلئے آئیں تومذہبی ہم آہنگی پیدا ہوگی۔پھر دنیا بھر میں ریاستوں پر بیٹھے قصائی نما ظالم اور جابر حکمرانوں کے ہاتھوں سے بھی کھیل خود بخود نکلے گا۔ یہ کونسی بات ہے کہ اسرائیل نے اپنا پارلیمنٹ تل ابیب میں نہیں بیت المقدس میں بنایا ہے، امریکہ نے وہاں اپنا سفارت خانہ منتقل کردیا ہے تو ایک دن ترکی بھی اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے وہاں منتقل کردیگا۔ ترکی کو امریکہ سے پہلے اپنا سفارت خانہ وہاں اسلئے منتقل کرنا چاہیے تھا کہ فلسطینیوں کی مدد ہوسکتی تھی،وہ اسرائیل کو تسلیم کرچکا ہے تو فلسطین کی مددکیا صرف قراردادوں سے ہوسکتی ہے؟۔ جب ہم عیسائیوں کو اپنے ساتھ شریک کرینگے تو فلسطین کا مسئلہ حل ہوجائیگا۔ یورپ یونین، برطانیہ اور عیسائی دنیا کے پاس طاقت ہونے کے باوجود اپنے مرکز بیت المقدس کیلئے وہ سیاسی حکمت عملی کے طور پر مسلمانوں کو استعمال کررہے ہیں مگر مسلمانوں کے پاس حکمت عملی نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔

امریکہ و اسرائیل کیخلاف بھارت کی حمایت اور کلبھوشن کی فیملی سے ملاقات زبردست اقدام ہے. اشرف میمن

america-israel-ke-khilaf-india-ki-himayat-aur-kalbhoshan-ki-family-se-mulaqat-zabardast-iqdaam-hei-Ashraf-Memon

پبلشرنوشتۂ دیوار اشرف میمن نے کہاہے کہ ایک طرف بھارت نے امریکہ واسرائیل کی مخالفت کرتے ہوئے کمال کردیا کہ ہماری قرارداد کی اقوام متحدہ میں حمایت کی تو دوسری طرف پاکستان نے جاسوس دہشتگرد کلبھوشن کی ماں اور بیوی سے انسانی ہمدردی کے تحت ملاقات کرواکر مثالی کردار ادا کیا، ٹاؤٹ قسم کی میڈیا نے ان قدامات کووقعت نہیں دی بلکہ بے وقعت بنانے کی کوشش کی جو افسوفسناک ہے۔ انسانیت کی خیر خواہی، عالمی امن سے جڑی ہوئی ہے، علاقائی امن بھی بنیادی بات ہے۔ پاک بھارت تناؤ کم کرنے اور دشمنی کو دوستی میں بدلنے کیلئے ہمیں حدیبیہ پیپرملزنہیں صلح حدیبیہ جیسے معاہدوں کی ضرورت ہے۔ سیدعتیق گیلانی کے بیانات ویڈیو کے ذریعے سے تمام اسٹیک ہولڈر دیکھ سکتے ہیں جس میں قائدانہ صلاحیتوں سے پاکستان کو امامت کے مقام پر فائز کرنے کی بھیفکر اجاگر ہوتی ہے۔ سازشوں میں گرفتار سیاسی قائدین کاقومی بیانیہ ہی درست نہیں ۔ ریاست پاکستان اور حکومت نے اچھا کیا کہ انسانی بنیاد پر کلبھوشن کووالدہ اور بیگم سے ملاقات کا موقع دیا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ ریاستوں کے اصولوں کے خلاف ہو، دنیا میں کہیں ایسانہ ہوتا ہو،اس کو اے آروائی کے سمیع ابراہیم و دیگر صحافی سازش کا نام دیں۔ کلبھوشن کو برطانیہ کی خفیہ ایجنسی و امریکی ایجنسی ایم آئی 6اور سی آئی اے ودیگر ممالک کے ایجنٹ کا نام دیں اور ملاقات کو دباؤ قبول کرنے کا نتیجہ قرار دیں لیکن پاکستان کو ایک دو نہیں100قدم آگے بڑھ کر اسلام کاروشن چہرہ دنیا کو دکھانا ہوگا۔ اقوام متحدہ میں عالمی ضمیر کی نمائندگی سے پاکستان کو عالم انسانیت کی امامت کا شرف مل گیا ہے۔ دنیانے اس کی حمایت کی ہے، بھارت بھی اس میں شامل ہے۔ جس کو سب سے زیادہ اہمیت دینے کی ضرورت تھی لیکن ہماری میڈیا نے اس کو اجاگر کرنے کا حق ادا نہیں کیا، یہ ہمارے قومی بیانیہ کا حصہ تھا مگر ہم چوک گئے۔ عتیق گیلانی نے کہا کہ بھارت کے اس اقدام کو دنیا بھر میں اجاگر کرنے کیلئے ضرورت تھی کہ اسکے بدلے میں کلبھوشن کو رہا کردیا جائے۔ یہ وہی عتیق گیلانی ہے کہ جس نے لکھاتھا کہ ’’کلبھوشن کو مارنے کی ہمت نہیں تو بھارت کے بارڈر پر باندھ دو،تاکہ روز روز سرحدات کی خلاف ورزی کرنے والے بھارت کا اپنا گولہ اسی کو لگ جائے۔
کلبھوشن ایک دہشت گردہے لیکن اگر ایک ہفتہ تک اس کی ملاقات کیلئے اسکی بیگم ،ماں اور بچوں کو پاکستان بلایا جائے تو اس سے پاکستان کا امیج دنیا بھر میں امامت کے قابل بن جائیگا اور دنیا میں بڑھتی ہوئی دہشتگردی، ریاستوں میں تناؤ اور کھچاؤ کی کیفیت کا خاتمہ ہوگا۔ بھارت میں کلبھوشن کا پورا خاندان بھی پاکستان کی بہترین سفارت کاری کریگا۔ پھر کلبھوشن کو پاکستان میں آزادانہ نقل وحمل کی اجازت دی جائے ، جلسے جلوس میں وہ پاکستان کی تعریف اور بھارت کی مذمت پر بھی مجبور نہ کیا جائے اور پھر اس کو ایران ، عرب امارات اور برطانیہ کا آزادانہ دورہ بھی کرایا جائے۔ پھر عالمی عدالت انصاف میں وہ اپنے جرم کا اعتراف کرے اور پاکستان اس کو معاف کردے۔ دنیا کوپیغام دیا جائے کہ دہشتگرد جاسوس کیساتھ بھی اسلام اچھے رویے کی اجازت دیتا ہے۔ دہشت گرد کے انسانی حقوق کو اسلام نے یہ تحفظ دیا ہے، دہشت گرد کی بیوی کے حقوق بھی بحال کرنا ایک اچھا اقدام ہے، دہشت گرد کی ماں اور بچوں سے اچھا سلوک روا رکھنے میں کوئی عیب نہیں بلکہ شرفِ انسانیت ہے۔ دنیا بھر کے دہشت گردوں،قیدیوں اور جرائم پیشہ افراد کو اچھے سلوک کی بنیادپر راہِ راست پر لانا بہت آسان ہے۔ کلبھوشن سے یہ رویّہ اختیار کیا گیا تو دنیا بھر پر اسکے بہترین اثرات مرتب ہوں گے، اور پاکستان کی سلامتی کے علاوہ پورے خطے اور عالم انسانیت پر اسکے اچھے اثرات سے اسلام کا روشن چہرہ دنیا کے سامنے آئیگا۔ انسانی حقوق کیلئے کام کرنیوالے پاکستان کے شانہ بشانہ ہونگے اور دہشتگردوں کو ذہنی شکست کا زبردست سامنا کرنا پڑے گا۔