zarbehaq, Author at ضربِ حق - Page 2 of 99

پوسٹ تلاش کریں

بینظیر بھٹو صاحبہ سے کہا عرب افغان عورتوں کو لونڈی بنانا چاہتے ہیں۔ خان عبد الولی خان

بینظیر بھٹو صاحبہ سے کہا عرب افغان عورتوں کو لونڈی بنانا چاہتے ہیں۔ خان عبد الولی خان

عبدالولی خان قائدANPکی تقریر نیٹ پر ہے جس میں قومی قائدین، منٹو صاحب اور محمودخان اچکزئی وغیرہ سے خطاب کیا کہ جنرل ضیاء الحق سے میں نے کہا کہ ” تم لوگوں کی اس ملک سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ اپنے باپ دادا کے ملک کو چھوڑ آئے ہو اور باہر جائیدادیں بنائی ہیں، جب تم پر مشکل پڑے گی ، بات نہیں بنے گی تو آپ اس ملک کو چھوڑ کر چلے جائیں گے۔مرنا اور جینا توہم نے ہے ، ہمارے بچوں نے یہاں پررہنا ہے اسلئے جن کا ملک ہے ،انہوں نے اس کا سوچنا ہے۔میں نے وزیراعظم صاحبہ (بینظیر بھٹو) سے پو چھا کہ ہمارے ملک کے اتنے مسائل ہیں۔ روٹی نہیں،کپڑا نہیں، تعلیم نہیں ، صحت نہیں۔ میں نے کہا کہ پینے کا پانی نہیں ہے۔اسلام آباد شہر میں لوگ قمقموں کے نیچے اور غاروں میں زندگی گزارتے ہیں۔ شرم آنی چاہیے ہم کو اپنے مسائل کی فکر نہیں ہے اور ا.فغانستان کی فکر پڑگئی ہے۔ میں نے ادب سے پوچھا کہ حضور ! کیا افغانستا.ن ہمارا پانچواں صوبہ ہے؟۔ایک خود مختار حکومت ہے۔ تو کہنے لگے کہ ہم تو اس میں انوال نہیں ۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ میں نے کہا: اس دن میں اسلام آباد گیا تو پتہ لگا کہ اسلام آباد میں دو پارلیمنٹیرین بیٹھے ہوئے تھے ۔ تومیں نے پوچھا کہ میں کونسی پارلیمنٹ میں کھڑا ہوں ۔ دوسرا پارلیمنٹ کہاں ہے؟۔ تو کہنے لگے کہ جی بھول جائیے،وہ تو کابل کا پارلیمنٹ بیٹھا ہے اسلام آباد میں۔ کبھی ایسی چیز دیکھی کہ کابل کا پارلیمنٹ اسلام آباد میں بیٹھے؟۔ اگر یہ بات آپ چلائیںاس کیلئے جواز ڈھونڈیں تو کل اگر کابل میں پاکستان کا پارلیمنٹ بیٹھے۔ اگرکل آپ کا پارلیمنٹ ایران میں بیٹھے اور سب سے خطرناک بات ہے کہ کل آپ کا پارلیمنٹ دلی میں بیٹھے تو آپ کی کیا حالت ہوگی؟۔
اس نے کہا کہ آپ یہ کیا کررہے ہیں؟۔ میں نے کہا کہ ان باتوں کا آپ کو سنجیدگی سے نوٹس لینا پڑے گا۔یہ جو ہم نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں پارلیمنٹ میں میں نے کہاکہ ہمارے پشتو میں کہتے ہیں کہ جب گدھے کا سامنا شیر سے ہوتا ہے تو گدھا اپنی آنکھیں بند کرلیتا ہے اور سمجھتاہے کہ اگر گدھا شیر کو نہیں دیکھتا تو شیر بھی اس کو نہیں دیکھتا ہے لیکن اس کا نتیجہ جو ہوگا وہ ظاہر ہے۔
آج اس ملک میں دو واضح مسلک قوم کے سامنے آئے ہیں۔آپ نے بھی فیصلہ کرنا ہے کہ کونسا راستہ اختیار کرنا ہے۔ ضیاء الحق نے اسلام آئیزیشن کے سلسلے میں اور امریکہ کے کہنے پر اپنی خارجہ پالیسی کو صرف اور صرف انقلاب روس اور انقلاب ا.فغانستان کے خلاف یعنی انقلاب روس اور انقلاب افغانستا.ن کے خلاف ایک ہی اسلحہ ہے انکے پاس اور وہ اسلام کا اسلحہ ہے اوریہ اسلامی نہیں ہے کیونکہ میں نے پہلے پوچھا تھا ۔جنرل ضیاء نے مجھ سے کہا کہ میں سچا پکا متقی پرہیزگار مؤمن ہوں۔ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بناکر روس کا خاتمہ کروں گا۔ میں نے کہا کہ حضور ! آپ روس کے خلاف ہیں یا اس کے نظرئیے کے؟۔ اس نے کہا کہ میں اس کے نظرئیے کا مخالف ہوں۔ میں نے کہا کہ پھر چین کا نظریہ بھی وہی ہے لیکن چین کے اعلیٰ وفد آتے ہیں تو تم انکے سامنے دخترانِ اسلام کو نچواتے ہو؟۔تمہیں امریکہ نے جو حکم دینا ہے اسی پر عمل کرنا ہے۔ اب توروس بھی افغا.نستان سے گیا اور چین وروس کی دوستی ہورہی ہے اب تمہارا کیا بنے گا؟ اور روس کے خلاف کیا لڑوگے ، بھارت سے پہلے پنجہ آزماچکے ہو۔ دس ہزارکے سامنے ایک لاکھ فوجیوں نے ہتھیار ڈال دئیے اور تمہاری پتلونیں وہیں رہ گئیں، اب قوم واضح لکیر میں تقسیم ہے ۔ ایک وہ ہیں دلی کے لال قلعے پرجھنڈا لہرانے کی بات کرتے ہیں اور دوسر ے جو ہندوستان سے صلح کی بات کررہے ہیں۔ قاضی حسین احمد نے کہا کہ” ولی خان کو غلط فہمی ہوئی ہے، ہم ا.فغانستان کے جہا.د نہیں اسلام کے جہاد کی بات کررہے ہیں اور تاشقند بھی فتح کریںگے”۔ یہ جو فاتح کا جشن منارہے ہیں، ان سے اب کمانڈرز نہیں سنبھل رہے ہیں۔اسلئے کہ امریکہ اب براہ راست کمانڈروں کو اسلحہ دے رہاہے۔ اب یہ لوگ جہاد بھی نہیں کریںگے اسلئے کہ مال ملنا بند ہوگیا تو جہاد کو کیا کرنا ہے؟۔ عالمی سامراجی قوتیں کسی پر بکتی نہیں ہیں بلکہ اپنے مفاد کیلئے استعمال کرتی ہیں۔ جنرل ضیاء الحق اور اس کے ساتھیوں کو استعمال کیا اور جب ضرورت نہیں رہی تو ان کو ساتھیوں سمیت راستے سے ہٹادیا۔ استعمال ہونے والوں کیساتھ جو سلوک ہوتا ہے وہ تاریخ کے ہر دور میں عبرت کا نشان بنتے ہیں۔پاکستان کو اسلئے نہیں بنایا گیا کہ انگریز کو اسلام اور مسلمانوں سے ہمدردی تھی بلکہ سوشلزم کے نظرئیے کا راستہ روکنے کیلئے بنایا گیاہے۔
ایک معتبر اخبار دی مسلم (انگریزی) میں یہ خبر چھپی ہے کہ ا.فغانستان میں آئے ہوئے عربوںنے فتویٰ دیا ہے کہ ا.فغانستان کے جو لوگ جہاد نہیں کرتے وہ کا.فر ہیں ،ان کی جائیداد مال غنیمت ہے ۔ ان کی خواتین بھی مالِ غنیمت ہیں۔ ہماری وزارت خارجہ نے اس خبر کی تصدیق بھی کی ہے۔ وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو سے میں نے کہا کہ ”آپ خود بھی ایک خاتون ہیں۔ ہماری بہو بیٹیوں کیلئے جس قسم کے منصوبے بن رہے ہیں آپ ان کو کیوں سپورٹ کررہی ہیں؟”۔
مجھے کسی نے کہاکہ ”یہ عرب اسرائیل میں کیوں نہیں لڑتے؟”۔ میں نے کہا کہ ” یہ ہم پشتونوں کومسلمان بنانے آئے ہیں۔ ان کی شلواریں اسرائیل میں رہ گئی ہیں اور ازاربند اپنے سروں پر باندھ کر ہمیں مشرف بہ اسلام کرنے کیلئے آئے ہیں۔ چلے جاؤ پہلے اپنی شلواروں کا پتہ کرو ، پھر ازار بند سروں پر باندھ کر ہمارے پاس آجاؤ”۔ہم پشتونوں سے زیادہ اچھے مسلمان کون ہوسکتے ہیں؟۔
قاضی حسین احمد اور اس طرح کے لوگ تاشقند اور دلی فتح کرنے کی باتیں کررہے ہیں ۔ اپنے بچے بھوک سے مررہے ہیں۔ بجلی جن لوگوں کو دی ہوئی تھی ان کو بھی پوری نہیں ہورہی ہے۔ بجلی پیدا کرنے کی فکر نہیں اور دئیے جارہے ہیں۔ داخلی اور خارجہ امور دونوں کا پتہ نہیں ہے۔ ملک وقوم کو کس طرف لے جارہے ہیں؟۔ ہندوستان سے جنگ کی بات صرف اسلئے ہورہی ہے کہ فوج کو زیادہ سے زیادہ اسلحہ ملے گا ۔ مراعات ملیں گی اور وہ خوشحال ہوںگے لیکن قوم کا کیا بنے گا ؟۔ اس کی کوئی فکر نہیں ہے۔ ایکF16طیارے کی قیمت پرپورے بلوچستان میں زرعی انقلاب آسکتا ہے جس سے بلوچستان کے عوام کی غربت ختم ہوجائے گی۔ ترقی پسند پارٹیوں کے متحد ہونے کا وقت آگیا ہے ،اسلئے کہ ملک وقوم کی بربادی کیلئے بیرونی قوتوں نے یلغار شروع کردی ہے اور بروقت قوم کو بیدار کرنا ہوگا۔ پشتون قوم آپس میں لڑتے جھگڑتے ہیں جب بیرون سے خطرات کا سامنا ہوتا ہے تو وہ اپنی چھوٹی موٹی لڑائی پر پتھر رکھ دیتے ہیں۔ یہ اپنے اختلافات پر پتھر رکھنے کا وقت آگیا ہے۔ اگر ہم بادشاہ خان کے سچے پیروکار ہیں تو پھر امن کیلئے کام کرنا پڑے گا۔ امن کے ایوارڈ کیلئے روس کے صدر گورباچوف کا انتخاب ایک اچھا اقدام ہے۔ میں مبارکباد پیش کرتا ہوں اپنی ضلعی انتظامیہ کو کہ ملکی وقومی سطح پر ایک بہترین کانفرنس کا اہتمام کردیا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

خلافت کی اب معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ

خلافت کی اب معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ

ہم نے جہادکے نام پر بہت بڑے طبقے کو انتہا پسند بنادیا، انہیں اسلحہ اورسیاسی طاقت دیکر مضبوط کیا،انہیں ہم ایسے نہیں چھوڑ سکتے، ہم نے 40سال میں جو بویااب کاٹ رہے ہیں

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

جنرل قمر جاوید باجوہ کو انتہاپسندی کیخلاف جنگ لڑنے پر دنیا میں اعزازی تمغوں سے نوازا جارہاہے۔ پیپلزپارٹی، ن لیگ اور تحریک انصاف،عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علماء اسلام ، جماعت اسلامی انتہاپسندی کے خاتمے میں برابر کی شریک ہیں۔APSپشاور واقعہ کے بعد ریاست، حکومت اور سیاسی جماعتوں نے مل کر قومی ایکشن پلان بنایا۔ جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر جاویدباجوہ نے دہشتگردانہ ماحول کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا لیکن خلافت کی روک تھام پر جنرل باجوہ کو بیان دینا اسکے اپنے دائرہ کار سے باہر ہے۔ ایک فوجی کی تعلیم و تربیت کا مخصوص ماحول ہوتا ہے وہ اپنے ماحول کے مطابق بات کرنے میں مخلص ہے لیکن جہالت قوم کی کشتی کو ڈبوسکتی ہے۔40سال تک امریکہ کے کہنے پر دہشت گردی کی فصل تیار کرنا غلط تھا اور 40سال تک اسکے کہنے پر فصل کاٹنا بھی غلط ہے۔ آزادی ہند کی تقدیر کا فیصلہ خدا نے کیا اور تدبیر کا فیصلہ سیاسی قائدین نے۔ فوج کا اس میں کوئی کردار نہ تھا۔ وزیرستان کے لوگ کہتے ہیں کہ بھیک مانگنے والا ملنگ کہتا ہے کہ ” تمہاری خیرات سے ہماری توبہ ہے لیکن اپنے کتوں کو روک لو”۔ جنرل باجوہ اپنے پالے ہوئے دہشتگردوں کو روک لے جو ان کیساتھ مل کر بھتہ خوری اور فکری آزادی کو دبانے پر لگے ہیں۔ یہ پالیسی بہت ہی خطرناک ہے عوام اور سیاستدانوں کیلئے ہر گز قابلِ قبول نہیں۔
پشاور سے مشہور صحافی وادیب خالد خان کا ویڈیو بیان سوشل میڈیا پر آیا کہ اسکے پاس میجررستم بٹ کے نام پرایک کروڑ روپیہ بھتہ کیلئے فون آیا اور اس نے اس کو جوک سمجھا۔ پھر ٹھیک ٹائم پر کالی گاڑی میں لوگ آئے۔ جس میں ایک وہی میجر اور دوسرا ایک پٹھان تھا۔ جس کا مخصوص حلیہ تھا۔ اسکے پاس30بور کی پسٹل تھی اور مجھے تھپڑ مارے کہ اگر یہ رقم نہیں دی تو بال بچوں سمیت مار دیں گے۔ میں نے کہا کہ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ میرے پاس اتنی رقم کہاں سے آئے گی؟۔ ایک قلم کار ہوں اور مشکل سے گزارہ ہوتاہے۔ میرے ساتھ پولیس اور ملٹری انٹیلی جینس نے بہت خوش اسلوبی کیساتھ تعاون کیا اور یہ پیشکش بھی ہوئی کہ حفاظت کیلئے پولیس دیدیتے ہیں۔ یہ تلقین بھی ہوئی کہ اپنے گھر کی چاردیواری بلند کرکے اس پر خار دار تار لگادو۔ مگر میں اپنی حفاظت کیلئے اتنے خرچے نہیں کرسکتا اور ایک شریف آدمی ہوں ،اسلئے اپنے ساتھ گارڈز بھی نہیں گھماسکتا ہوں۔ اور نہ ا نکے کھانے پینے کے خرچے اٹھاسکتا ہوں۔ مجھے معلوم ہوا کہ آفتاب خان شیرپاؤ اور شیخ الحدیث مولاناادریس کو بھی بھتے کی دھمکیاں ملی ہیں۔ مجھے دشمن کا پتہ نہیں بتایا گیا ہے ، حالانکہ ٹیلی فون نمبر اور گاڑی کی تصاویر بھیCCTVکیمروں کی مدد سے پکڑنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ خالد خان کا کہنا ہے کہ مجھے اپنے دشمن نہیں بتائے گئے جو بہت افسوسناک بات ہے۔
جب عمران ریاض خان کہتا ہے کہ ” میری ماہانہ آمدن کروڑوں میں ہے تو پھر بھتہ خور صحافیوں کا تعاقب کریں گے”۔ جب مولویوں نے زکوٰة خیرات کے علاوہ سودی بینکاری سے بھی کمانا شروع کردیا ہے تو بھتہ خور بھی اپنا حصہ وصول کریں گے۔ بھتہ خور کس کس سے بھتہ وصول کریںگے؟۔ اور وہ کن کن طاقتور لوگوں کے مرہون منت ہوں گے ؟۔ یہ بھی ایک مشترکہ کاروبار ہوسکتا ہے؟۔ اگر ان کو40سال تک اپنا پٹھو بناکر ہتھیار اور طاقت سے نوازا گیا اور اب ان کو40سال تک کسی دوسرے دھندے پر لگاکر بدنام کیا گیا کہ بھتہ خور معاشرے میں اخلاقی طاقت کھو بیٹھیں تو یہ ان کو تنہا نہ چھوڑنے اور اپنے انجام تک پہنچانے کا اہم ذریعہ ہوسکتا ہے اور یہ وسائل پر قبضہ کرنے کی اچھی حکمت عملی بھی ہوسکتی ہے مگرکیا قوم یہ بوجھ برداشت کرسکتی ہے؟۔ یہ بھی ایک سوال ہے ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بھتہ خوروں کو کھلم کھلی آزادی ملنے اور شکایت لگانے کی جگہ عوام ٹھکانے بھی لگانا شروع کردیں۔ جب ایک مرتبہ قومی سطح پر لوگ اُٹھ جائیں تو مشکلات کے پہاڑ کھڑے ہوسکتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت بھی بالکل صلاحیت سے محروم ہے۔ قومی ایکشن پلان میں مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے اتنا تعمیری کام بھی نہیں کیا جتنا پشتون تحفظ موومنٹ کے نام سے چندنوجوانوں نے قیام امن کا جذبہ پیدا کرنے کیلئے کیا۔ لیکن اس کا کوئی زیادہ فائدہ اسلئے نہیں ہوا کہ تعصبات کے رنگ میں نعرے لگائے گئے۔ پشتون قوم پرست اور مذہب پرست کے نام سے آج آمنے سامنے ہیںاگر پھر ان میں قتل وغارتگری کا سلسلہ جاری ہوا جس کے شدید خطرات ہیں تو بھی قوم وملک کا نقصان ہے اوراگر متحد ہوکر ریاست کے خلاف کھڑے ہوگئے تو بھی ملک وقوم کا نقصان ہے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ پہلے آرمی چیف ہیں جس کو آئین کے تحت توسیع مل گئی اور پونے دو سال تک مزید توسیع کی بھی گنجائش ہے۔ ملک جس سیاسی دہرائے پر کھڑا ہے ،اس کو کٹھ پتلی سیاستدانوں کے رحم وکرم پر بھی نہیں چھوڑا جاسکتا ہے اور کسی نئے نظام کا نیا تجربہ بھاری پڑنے کا اندیشہ ہے۔ پرانے نظام کو چلانا بھی ممکن نہیں رہاہے۔ ایسے میں پارلیمنٹ حکومت واپوزیشن جنرل قمر باجوہ کو ایک مزیدتوسیع دینے کا فیصلہ کریں تو بھی برا نہیں۔ اوریا مقبول جان نے یہ خواب بیان کیا تھا کہ پہلے نبیۖ کی طرف سے تحفہ ملتا ہے تو جنرل قمر باجوہ اس کو بائیں ہاتھ سے لیتا ہے اور پھر حضرت عمر کے سمجھانے پر دائیں ہاتھ سے لیتے ہیں۔ اسلام کے بنیادی احکام کو معاشرے تک پہنچایا جائے تو ہمارے ملک وقوم کا بھلا ہوسکتاہے۔خلافت کی تشریح جنرل باجوہ اور دہشتگردوں کو سمجھ میں آئے تو دنیا میں خلافت کے نفاذ کا راستہ بھی ہموار کرینگے اور لوگ بھی خوش ہونگے۔

www.zarbehaq.comا
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tvCaliphate has no place in society anymore. General Qamar Javed Bajwa

خلافت یا امامت

خلافت یا امامت

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

سنی شیعہ شدید اختلاف کو کم کرنیکی ادنیٰ کوشش علامہ اقبال نے ان الفاظ میں کی۔ اے کہ نشناسی خفی را ازجلی ہشیار باش اے گرفتار ابوبکر وعلی ہوشیار!

مملکت خدادادپاکستان اگرواقعی اغیار کی سازش تھی تب بھی یہ اللہ کا منصوبہ ہی تھا۔ انہم یکیدون کیدًا واکید کیدًا”وہ اپنا جال بچھاتے ہیں اور میں اپناجال بچھاتا ہوں”۔فرقوں اور مفاد پرستی سے بالاتر ہوکر اسلام کی بنیاد پر انسانیت کی خدمت کرنا ہوگی!

فرقہ پرستی سے بالاتر اسلام کا آئینہ دکھائیں جس سے دنیا پرہمارا غلبہ تھا۔ سنی کے نزدیک خلیفہ کاا نتخاب عوام پر فرض ہے، شیعہ کے نزدیک امام کو اللہ منتخب کرتا ہے۔ سنی کے نزدیک ابوبکر، عمر، عثمان ، علی اور حسن کو عوام نے منتخب کیا۔30سال خلافت راشدہ رہی۔ شیعہ کے ہاں پہلا امام نبیۖ کا خلیفہ بلا فصل علی، دوسرا حسن، تیسرا حسین ، چوتھا زین العابدین اور…… بارواں مہدی ٔغائب محمد بن حسن عسکریموجودہ دور تک امامت کا سلسلہ جاری ہے۔ سنیوں کے ہاں خلافت راشدہ کے بعد بنوامیہ و بنوعباس کی امارت اور سلطنت عثمانیہ کی باشاہت تک خلافت کا سلسلہ جاری رہا۔1924میں سقوطِ.خلافت کے بعد مسلمانوں نے تحریک سے خلافت کا احیاء کرنا چاہا لیکن اس میں ناکام رہے۔ پاکستان تحریک.خلافت کا تسلسل ہے۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا :” آسانی پیدا کرو، تنگی نہ کرو، خوشخبریاں سناؤ، آپس میں نفرت پیدا مت کرو”۔ (صحیح بخاری) پاکستان کو مملکتِ خداداد کہنا ٹھیک ہے یا یہ کفر وگمراہی ہے؟۔ پاکستان کی نعمت پاکستان کے مسلمانوں کو مل گئی لیکن اس نعمت کا شکر ہم نے ادا کیاہے یا نہیں؟۔
75سالہ سرکاری تقریب میں قوم کی بچیوں کو بیہودہ ڈانس سے وزیراعظم اور حکومت کے وزیرومشیر محظوظ ہوئے تو کچھ نے خاصا اعتراض کیا اور صفِ ماتم بچھادیا۔ مریم نواز اور مولانا طارق جمیل جن شادیوں میں شرکت کرتے ہیں تو ان میں کیا یہ سب کچھ نہیں ہوتا؟۔ گزارش ہے کہ دوسرے کی بچیوں کو نچوانے کی جگہ اپنی بیگمات ، بہو اور بیٹیوں کیساتھ ہی شرکت کرتے۔ غم اور خوشی منانے کا جب ایک کلچر کسی معاشرے میں انسانی جبلت کا حصہ بن جاتا ہے تو پھر وہ اپنی عادت سے مجبور ہوجاتا ہے۔ تیسری جنس خواجہ سراؤں کو جب تالی بجانے کی عادت پڑتی ہے تو حج میں ٹھوکر لگنے پر بھی تالی بجادیتے ہیں۔
اگر مہدی غائب کی حکومت ہواور عاشورہ کے جلوس سے منع کریں تو خطرہ ہے کہ شیعہ امامت سے انکار کردیںگے۔اسلئے کہ امام کی بات ماننے سے زیادہ اب ان بیچاروں کو عاشورہ ماتم منانا دین کی پہلی حداور آخری سرحد لگتی ہے۔
جن صحافیوں اور علماء ومفتیان میں تقویٰ نہیں بلکہ تقوے کا حیض ہے وہ بھی سرکاری تقریب میں ناچ گانے پراسلئے ناپسندیگی کا اظہارنہیں کرتے کہ وہ متقی و پرہیزگارہیں، ورنہ خانہ کعبہ کے طواف میں حجر اسود پر جس طرح جنونی مرد اور غیر محرم عورتیںآپس میں رگڑ کھاتے ہیں وہ سرکاری تقریب میں ناچ گانے سے کئی درجے زیادہ بدتر ہے جس پر انہوں نے کبھی بھی آواز نہیں اٹھائی ہے اور سود کو اسلام کے نام پر جواز بخشنا زیادہ خطرناک اور تقویٰ کے انتہائی منافی ہے۔
جب پبلک سروس کمیشن کا امتحان ہوتا ہے تو پاکستان میں بہت سے غریب اور بے سہارا ملازمین کو قابلیت کی بنیاد پر منتخب کیا جاتا ہے۔ کوئی بچپن ، لڑکپن اور جوانی میں تعلیمی جدوجہد کا حق ادا کرتاہے تو پاکستان کی سطح پر منتخب ہوکر اعلیٰ سے اعلیٰ عہدوں تک پہنچتا ہے اور بعض لوگ اعلیٰ عہدوں پر منتخب ہونے کے بعد اپنی نااہلی اور خود غرضی کی وجہ سے معزول کردئیے جاتے ہیں۔ دنیا کے نظام سے یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں بھی انتخاب کیلئے جدوجہد کا حق ادا کرنا پڑتا ہے اور پھر نااہلی کے سبب لوگ اپنے منصب سے معزول ہوتے ہیں۔
اللہ نے فرمایا: وجاہدوا فی اللہ حق جہادہ ھو اجتبٰکم وما جعل علیکم فی الدین من حرج ملت ابیکم ابراہیم ھو سمٰکم المسلمین من قبل وفی ھٰذا لیکون الرسول شہیدًا علیکم وتکونوا شہداء علی الناس ” اور اللہ کے احکام میں جدوجہد کا حق ادا کرو، اس نے تمہیں منتخب کرلیا اور تمہارے لئے دین میں کوئی مشکل نہیں رکھی۔تم اپنے باپ ابراہیم کی ملت ہو، اس نے پہلے بھی تمہارا نام مسلمان رکھا اور اس میں بھی۔ تاکہ تمہارے اوپر رسول خدا گواہ ہوں اور تم لوگوں پر گواہ بن جاؤ”۔
صحابہ کرام نے رسول اللہ ۖ کی قیادت میں جدوجہد کا حق ادا کردیا۔ اپنے وطن سے ہجرت کی۔ کلمة الحق بلند کرنے میں قربانیاں دیں۔ مالی اور جانی قربانیوں کے علاوہ کوئی ایسی قربانی نہیں تھی جن کا ان کو سامنا نہ کرنا پڑا ہو اور انہوں نے اس قربانی سے دریغ کیا ہو۔ اسلئے کہ اللہ تعالیٰ ان کو مسلسل ہر چیز میں مکمل رہنمائی وحی کے ذریعے سے فراہم کررہا تھا۔
فرمایا: قل ان کان اٰبآء کم وابناء کم واخوانکم و ازواجکم وعشیرتکم واموالکم اقترفتموھا وتجارة تخشونہ کسادہا ومساکن ترضونھا احب الیکم من اللہ ورسولہ وجہاد فی سبیلہ فتربصوا حتی یأتی اللہ بامرہ ان اللہ لا یھدالقوم الفاسقین ”فرمادیجئے کہ اگر تمہارے باپ ، تمہارے بیٹے ، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں اور تمہارا خاندان ، تمہاراوہ مال جو تم نے اکٹھا کررکھا ہے، تمہاری وہ تجارت جس کے خسارے سے تم ڈرتے ہو اور وہ ٹھکانے جن میں رہنا تم پسند کرتے ہو۔ تمہارے لئے زیادہ پسندیدہ ہیں اللہ اور اسکے رسول اور اس کی راہ میں جدوجہد کرنے سے تو پھر تم انتظار کرو ،یہاں تک کہ اللہ اپنے حکم کے ساتھ آجائے اور بیشک اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا ہے”۔ (القرآن)۔
صحابہ معیار پر پورا اترے تو لوگوں کے دلوں میں کھٹک پیدا ہوئی کہ ساری دنیا کے لوگ ان کو عزت کے اعلیٰ درجے پر فائز کرینگے۔ اس خوف سے ان کے خلاف افواہیں پھیلا نے اور ہرطرح کی مزاحمت کا سلسلہ جاری رکھا تا کہ یہ لوگ زمین میں کمزور پڑجائیں لیکن اللہ نے ان کو منصب امامت کے عہدے پر فائز کیا اور دشمن کی خواہش اور مزاحمت کی تمام کوششیں بالکل رائیگاں گئیں۔
ونرید ان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض و نجلھم الائمہ ونجلعلھم الوارثین ”ہمارا ارادہ ہے کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنایاجارہا ہے کہ ان کو امام بنائیں اور انہیں زمین کا مالک بنائیں”۔ (القرآن) صحابہ کرام، تابعین ، تبع تابعیناور مسلمان پوری دنیا میں سپر طاقتوں کو شکست دیکرصدیوں منصبِ امامت اور زمین کی وراثت کے مالک رہے ہیں۔
حجاز کے باسی یہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ ایسے خطوں پر ہماری حکمرانی ہوگی کہ جہاں دنیا میں جنت کے وعدے پورے ہونگے۔عربی میں جنت باغ کی جمع جنات ہے اور ایسے باغات جنکے نیچے نہریں بہہ رہی تھیںاسکا وعدہ اللہ نے دنیا کی دوسپر طاقتوں کو شکست دیکر پورا کیا تھا۔
شاہ اسماعیل شہید نے اپنی کتاب”منصبِ امامت ” میں امام کیلئے اللہ کے انتخاب کی وضاحت کی۔ جب پاکستان بن رہا تھا تو باطن میں اولیاء کرام کے دو گروہوں میں کشمکش دیکھنے والے مولانا حسین احمدمدنی نے فرمایا کہ ” حامی گروپ غالب آگیا اسلئے پاکستان بنے گا لیکن میری بصیرت ہے کہ تقسیم ہند پر خون ریزی اور عزت دریوں کی مخالفت جاری رکھی جائے”۔ اگر پاکستان کا مخالف طبقہ پاکستان کو اولیاء کرام کی تائید قرار دیتا ہے تو یہ بہت بڑی بات ہے لیکن اگر ہم یہ سمجھ لیں کہ شیاطین الانس والجن نے یہ منصوبہ تیار کیا تھا تو بھی اس کو مملکتِ خداداد کہنے میں کوئی حرج اسلئے نہیں کہ اللہ نے فرمایا : انھم یکیدون کیدًا واکید کیدًا ”بیشک وہ اپنی چال چلتے ہیں اور میں اپنی چال چلتا ہوں”۔ (القرآن) شاہ اسماعیل شہید نے” منصب امامت” میں قرآنی آیت کے حوالے سے ملاء اعلیٰ کے فرشتوں میں جھگڑے کی بات لکھ دی کہ ”اللہ کبھی ایک گروہ کے حق میں فیصلہ کرتا ہے اور کبھی دوسرے گروہ کے حق میں”۔
رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ” وہ امت کیسے ہلاک ہوسکتی ہے جس کے اول میں مَیں ، درمیان میں مہدی اور آخر میں عیسیٰ ہیں”۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ میرا اہل بیت ظلم وجور سے بھری دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دے گا۔ حضرت محمد بن عبداللہ ۖکے بعددرمیانے زمانے کا مہدی پہلا شخص ہوگا جو نبیۖ کے بعد پہلی مرتبہ طرز نبوت کی خلافت قائم کریگا جس سے زمین وآسمان والے دونوں خوش ہوں گے۔ یواطئی اسمہ اسمی واسم ابیہ اسم ابی ”اس کا نام میرے نام کیساتھ اور اسکے باپ کا نام میرے باپ کے نام کیساتھ جڑے گا”۔ اور مطلب یہ نہیں کہ اس کا نام محمد بن عبداللہ ہوگا۔دنیا میں پہلے نمبر پر نبیۖ کا نام ہوگا اور جب وہ عدل وانصاف قائم کریگا تو دنیا میں دوسرانام اسکا نام ہوگا۔
اگر مرزاغلام احمد قادیانی دجال نبوت کا دعویٰ نہ کرتا تو علماء دیوبند اس کا پیچھا کرنے کی جگہ فقہی مسائل اور تصوف کی اصلاح کرتے۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے ماموں کا قصہ لکھا کہ وہ کہتا تھا کہ میں ننگا ہوکر مجمع عام میں ایک ہاتھ سے اپنا آلہ تناسل پکڑ لوں گا اور دوسرے ہاتھ کی انگلی اپنے مقعد میں ڈالوں گا اور تم لوگ مجھے بھڑوے بھڑوے کہہ پکارو۔ یہ نیٹ پر بھی مل جائے گا لیکن اس کی زیادہ ضرورت اسلئے نہیں ہے کہ حیلہ ناجزہ میں عورت کو جس طرح حرامکاری پر مجبور ہونے کا فتویٰ جاری کیا گیا وہ اس بھڑوے سے ہزار گنازیادہ بدتر ہے۔
مولانا احمد رضا خان بریلوی اگر علماء دیوبند کو اپنے فتوے ” حسام الحرمین” سے نہ ڈراتے تو اکابر دیوبند نے فقہ چھوڑ کر قرآن وسنت کی طرف متوجہ ہونا تھا۔ مولانا مودودی اسلئے فتنہ تھا کہ فقہی احکام کو سدھارنے کی جگہ قرآن وسنت کے گمراہانہ مفہوم سے پڑھے لکھے طبقے کو متاثر کردیا۔ ڈاڑھی منڈھے صحافی نے داڑھی رکھ کر مولویوں کو اپنے پیچھے لگایا اور غلط گمراہانہ اسلام کو سلیس انداز دیا۔یہ ایک حقیقت ہے کہ اس گمراہانہ اسلام سے متحدہ ہندوستان کا سیکولر نظام بہتر تھا تو جمعیت علماء ہند کے اکابر نے اس کو سپورٹ کیا اور قائداعظم کا اسلام بہتر تھا ،اس وجہ سے جمعیت علماء اسلام کے علامہ شبیراحمد عثمانی نے اس کو سپورٹ کیا۔ علامہ انور شاہ کشمیری نے کہاکہ” اپنی ساری زندگی فقہ کی وکالت سے ضائع کردی”۔ جب دارالعلوم کا شیخ الحدیث اور مفتی محمد شفیع ، مولانا سید یوسف بنوری ، مولانا عبدالحقا کوڑہ خٹک اور مفتی محمود کے استاذ مولانا انورشاہ کشمیری نے زندگی ضائع کرنے کی بات کردی تو پھر شاگردوں نے اسی تعلیم وتعلم سے طلبہ کی زندگی کیوں تباہ وبرباد کردی؟۔ ظاہر ہے کہ مدرسہ دین کی خدمت سے زیادہ روزگار کا مسئلہ تھا۔ اس میں شک نہیں کہ مولانا یوسف بنوری نے تقویٰ پر مدرسے کی بنیاد رکھی اور ختم نبوت کا مسئلہ جب ریاست پاکستان نے حل کرنا چاہا تو علامہ بنوری کی قیادت میں حل بھی ہوگیا لیکن جس سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے ختم نبوت پر اپنا سب کچھ قربان کیا وہ ان سے زیادہ اہلیت اور قربانی کا جذبہ رکھتاتھا۔جنگ کے مالک میر شکیل الرحمن کا یونیورسٹی میں ایک قادیانی لڑکی سے معاشقہ ہوا تو اس نے مفتی ولی حسن ٹونکی سے فتویٰ مانگا کہ قادیانی لڑکی سے مسلمان کا نکاح ہوسکتا ہے؟۔ مفتی ولی حسن نے کہا کہ قطعی طور پر نہیں۔ اگر مفتی محمدتقی عثمانی ہوتا تو جنرل ضیاء الحق کے بیٹے ڈاکٹر انوارالحق سے قادیانی مبلغ جنرل رحیم الدین کی بیٹی کا نکاح پڑھانے کی طرح میرشکیل الرحمن کا نکاح پڑھانے سے دریغ نہ کرتا۔
میر شکیل الرحمن کی عاشقہ ومعشوقہ قادیانی لڑکی مرزا غلام قادیانی کے خلیفہ حکیم نورالدین کی نسل سے تھی اور اس نے کہا کہ مجھے قائل کرو، میں قادیانیت چھوڑ نے کوتیار ہوں۔ مولانا یوسف بنوری، مفتی ولی حسن ٹونکی ، مولانا عبدالرشید نعمانی تینوں نے بہت زور لگایا لیکن ایک قادیانی لڑکی کو قائل نہ کرسکے اور پھر ملتان سے مناظر ختم نبوت مولانا لعل حسین اختر کو بلوایا اور اس نے منٹوں میں قائل کردیا۔پھر وہ قادیانیت چھوڑ کر مسلمان ہوگئی۔ قادیانی ایک تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت کے قائل ہیں اور دوسرے ان کے باپ کے بھی قائل ہیں۔ قادیانیوں کا سخت مخالف طبقہ غلام احمد پرویز اور اسکے پیروکار بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں۔ جنگ اخبار میں مولانا محمد یوسف لدھیانوی کا جواب چھپ گیا کہ ” عیسیٰ علیہ السلام کے چچا نہیں تھے لیکن دو پھوپھیاں تھیں”۔ جس پر بڑا شور مچ گیا تو مولانا یوسف لدھیانوی نے لکھاکہ ” یہ میں نے نہیں لکھاہے”۔
لوگ قادیانی اسلئے بن رہے ہیں کہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ مفتی محمد شفیع نے لکھا کہ ” حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا باپ نہ تھا، مزرا غلام احمد قادیانی کا باپ تھا۔ حضرت عیسیٰ کی ماں کا نام مریم اور قادیانی کی ماں فلانہ تھی” اور پھر قادیانی کہتے ہیں کہ ہم جب عیسیٰ علیہ السلام کی طبعی موت کے قائل ہیں تو کیسے عیسیٰ علیہ السلام کا خود دعویٰ کرسکتے ہیں؟۔ یہاں مسلمان متزلزل ہوتے ہیں۔ پھر جب بڑے معتبر ناموں کو دیکھتے کہ ابن خلدون اور جمال الدین افغانی ، مولانا ابوالکلام آزاد اور دیگر حیات عیسیٰ کے قائل نہ تھے ۔ احادیث کی کتابوں میں اسرائیلیات سے یہ روایات آئی ہیں تو ان کو بڑا جھٹکا لگتا ہے۔ پھر جب قادیانی کہتے ہیں کہ تم بھی عیسیٰ کی آمد کے قائل ہواور ہم بھی ہیں۔ لیکن ہم قرآنی آیات پر یقین رکھتے ہیں کہ جب عیسیٰ سے خدا پوچھے گا کہ کیا آپ نے اپنے پیروکاروں کو گمراہ کیا تھا کہ آپ کو اور آپ کی ماں کو دومعبود بنالیں؟۔ تو عیسیٰ جواب دیں گے کہ جب تک میں انکے درمیان رہا تو میں نے یہ نہیں کہا اور جب آپ نے مجھے وفات دی تو میں نگران نہیں تھا۔ قادیانی جب قرآن میں حضرت عیسیٰ کے اٹھالینے کو موت سے تعبیر کرتے ہیں تو بھی اس میں وہ اکیلے نہیں ۔ بڑے بڑے لوگوں نے یہ باتیں لکھ دی ہیں اور جب نظر آتا ہے کہ ختم نبوت کے مفہوم پر اتفاق رائے موجود ہے لیکن ایک عیسیٰ کی ذات سے دوبارہ آنے کی امید رکھتے ہیں اور دوسرے یہ عقیدہ بتاتے ہیں کہ جس طرح کہا جاتا ہے کہ ہر فرعون کیلئے موسی ہوتا ہے تو اس کا معنی یہ نہیں ہوتا کہ دوبارہ فرعون اور حضرت موسیٰ کی آمد متوقع ہے بلکہ یہ عام محاورے کی زبان ہے تو لوگ قائل ہوجاتے ہیں اور قادیانیوں کی طرف سے ان کو مراعات ملتی ہیں تو مولوی بھی اپنی مراعات کو دیکھ کرچلتا ہے۔
جس دن قرآن وسنت کے مقابلے میں فقہ کے گمراہانہ مسائل کا خاتمہ ہوا تو قادیانی بالکل ملیامیٹ ہوجائیںگے اسلئے کہ وہ حضرت عیسیٰ کے بارے میں دوسروں کی تحقیقات کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور یہودی اسی وجہ سے ان کو سپورٹ بھی کرتے ہیں۔ بنوری ٹاؤن سے چھپنے والی کتاب میں شیعہ کو قادیانیوں سے تین وجوہات کی بنیاد پر بدتر کا.فر قرار دیا گیا تھا۔ قرآن میں تحریف، صحابہ کی تکفیر اور عقیدۂ امامت۔ لیکن پھر شیعہ کیساتھ متحدہ مجلس عمل اور اتحاد تنظیمات المدارس کی سطح پر سیاسی اور مذہبی بنیادوں پر اکٹھے بیٹھ گئے۔
مولانا حق نواز جھنگوی نے کہا تھا کہ شیعوں سے ہمارا اختلاف قرآن اور صحابہ پر نہیں بلکہ عقیدۂ امامت پر ہے۔ ماموں کے جس تصوف کی مولانا اشرف علی تھانوی نے بات کی ہے اور جس طرح کے فقہی مسائل لکھ دئیے ہیں وہ قرآن وسنت اور صحابہ کے بالکل منافی ہیں۔ دیوبند کے مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ نے سنت نمازوں کے بعد اجتماعی دعا کو بدعت قرار دیا تھا لیکن افغانستان، پختونخواہ ، بلوچستان اور اندرون سندھ کے دیوبندی مراکز نے یہ فتویٰ قبول نہیں کیا تھا۔ علماء دیوبند، بریلوی، اہلحدیث اور اہل تشیع نہ صرف ایک دوسرے سے بلکہ آپس میں بھی بدترین فرقہ واریت کے شکار ہیں۔ سب اپنی اصلاح، اسلام کی حقیقت اور ہدایت کی طرف آجائیں۔ عورت کے حقوق ہونگے تو جمعیت علماء اسلام، جماعت اسلامی، تحریک لبیک، جمعیت علماء پاکستان مذہبی جماعتوں کو ووٹ ملیں گے لیکن جب اپنے چوتڑ پر پوٹی کی پپڑیاں جمی ہوں اور دوسروں کے ریح خارج ہونے پر اعتراض کریںتو امت کی اصلاح نہیں ہوسکے گی۔
عمران خان نے کہا کہ ”جب ایک سردار نے ایک غلام کو تھپڑ مارا تو نبیۖ نے بدلہ لینے کا حکم دیا”۔ مفتی سعید خان نے عمران خان کے نئے استاذ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ حضرت عمر کے دور کا واقعہ ہے۔ جب وہ سردار مرتد ہوگیا تو حضرت عمر نے افسوس کا اظہار کیا کہ اس کو بدلے میں تھپڑ نہ مارتے اور جب حسان بن ثابت نے کہا کہ اچھا ہوا کہ اس کو تھپڑ مارا ہے تو حضرت عمر نے حضرت حسان ہی کو درہ مارا ”۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھا کہ حضرت عمر کے دور میں امت طبقاتی تقسیم کا شکار کی گئی۔ نبیۖ سے صحابی نے کہا تھا کہ مجھے آپ سے انتقام لینا ہے اور پھر مہر نبوت کو چوم لیا تھا۔ نبیۖ کے بعد خلافت راشدہ میں بھی جبری ماحول مسلط ہوگیا تھا۔ اگر آزاد عدلیہ ہوتی تو حضرت عمر کو بھی حضرت حسان کے بدلے میں درہ مارا جاتا۔ صحابہ کرام کے مجموعی تقدس کے عقیدے کو معمولی معمولی واقعات کی وجہ سے پامال نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن ایک رسول ۖ کی ذات ایسی تھی کہ درہ مارنا تو بہت دور کی بات تھی جب عبداللہ ابن مکتوم کی آمد پر پیشانی پر ناگوار ی کے اثرات مرتب ہوئے تو اللہ نے سورہ عبس نازل فرمائی۔ حضرت ابوبکر وعمر اور حضرت عثمان وعلی پر وحی بھی نازل نہیں ہوسکتی تھی اور ان کی شخصیتوں کو نبیۖ سے بالاتر بھی نہیں قرار دیا جاسکتا ہے۔
شیخ الہند نے مالٹا سے رہائی کے بعد قرآن کی طرف توجہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن زندگی نے وفا نہیں کی۔ امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی نے اپنے استاذ کی بات مان کر قرآن کی طرف توجہ کی لیکن اپنے علماء نے ان کا ساتھ نہیں دیا تھا اور اب قرآن کی عام فہم آیات اور پڑھے لکھے دور سے انقلاب آسکتا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

شیعہ سنی، بریلوی دیوبندی، حنفی اہلحدیث، پاکستانی، افغانی، ایرانی قرآن کی طرف توجہ کریں توانقلاب آئے گا۔

شیعہ سنی، بریلوی دیوبندی، حنفی اہلحدیث، پاکستانی، افغانی، ایرانی قرآن کی طرف توجہ کریں توانقلاب آئے گا۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

قرآن میں اللہ نے طلاق کے مقدمہ میں خواتین کے حقوق کی وضاحت کو ترجیحات میں شامل کرکے جاہلیت کی تمام رسوم کو ملیامیٹ کردیا ہے لیکن جہاں سے چلے تھے آج پھر وہیں کھڑے ہیں ۔ جتھے دی کھوتی اوتھے آن کھلوتی۔
آیت222البقرہ میں دو چیزیں واضح ہیں۔ اذیت اور گند۔ حیض عورت کیلئے اذیت ہے اور گند بھی۔ اللہ نے اذیت سے توبہ اور گند سے پرہیز والوں کو پسندیدہ قرار دیا۔ آیت222سے228تک قرآن کا ایک رکوع ہے اور پھر آیت229سے231تک دوسرا رکوع ہے ، پھر232سے تیسرا رکوع شروع ہوتا ہے۔ آیت222میں اذیت کا ذکر ہے جس کا تسلسل بھی سورۂ بقرہ کے تینوں رکوع میں جاری ہے۔ آیت نمبر232میں اللہ نے فرمایا کہ ” طلاق شدہ عورتوں سے رجوع میں تمہارے لئے زیادہ تزکیہ اور زیادہ طہارت ہے”۔ اذیت سے دور ی معاشرے کیلئے تزکیہ اور گند سے دوری طہارت ہے۔
اذیت سے توبہ کی بات سمجھ میں آتی تو عمل آسان ہوتا ۔ اللہ نے سچ فرمایا: وماجعل علیکم فی الدین من حرج ”اور تمہارے لئے دین پر چلنے میں کوئی مشکل نہیں رکھی ہے” ۔ ملاؤں کی نا سمجھی نے دین پر عمل مشکل ترین بنادیا۔
کسی عربی چینل میں شیعہ عالم نے سنیوں کے اعتراض کا جواب دیا کہ ”شیعہ عورت کیساتھ پیچھے کی طرف سے مباشرت کو مکروہ سمجھتے ہیں تو یہ تمہاری احادیث کی کتب میں ہے کہ عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ بیوی سے پیچھے کی طرف سے مباشرت کے جواز کیلئے آیت223نازل ہوئی کہ جہاں سے چاہو آگے پیچھے سے مباشرت کرسکتے ہو،جس کا ذکرصحیح بخاری میں ہے اور فقہ کی کتابوں میں امام مالک کی طرف بھی اس کی نسبت ہے جو مکروہ بھی نہیں سمجھتے تھے”۔
شیعہ ایرانی نژاد امریکن خاتون نے کتاب لکھی جس میں یہ ثابت کیا ہے کہ اسلام میں عورت کے کوئی حقوق نہیں ۔ لونڈی ہو تو نکاح کی ضرورت نہیں۔ نکاح میں ہو تو اس کی جسم پر مرضی نہیں۔ شوہر چاہے تو اس کی مرضی کے بغیر پیچھے سے مباشرت کرے۔ متعہ میں استعمال ہونے والی عورتوں کی حیثیت بدکار عورتوں کی ہے۔ یہ واقعہ بھی لکھا ہے کہ ایک شخص نے 40ہزار تمن میں ایک عورت سے نکاح کیا تھا۔ اس کو پیچھے سے جماع کی علت تھی اور اس کی بیوی کی جنسی تسکین کا حق ادا نہیں کرتا تھا۔ بیوی نے خلع کا مطالبہ کیا اور وہ خلع دینے کیلئے تیار نہیں تھا۔ پھر بیوی نے 50ہزار تمن دینے کی پیشکش کردی تو اس نے طلاق دے دی ۔
نکاح سے عورت بلیک میل ہو تو کتنا براہوگا؟۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے فقہی مسئلہ لکھا اورحنفی مدارس آج فتویٰ دیتے ہیں کہ ” اگر شوہر نے بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دی اور اس کا کوئی گواہ نہیں تھا تو بیوی اس پر حرام ہوگی اوربیوی کو جان چھڑانے کیلئے دو گواہ پیش کرنے ہونگے۔ اگر دو گواہ نہ تھے اور اگر شوہر قسم کھائے تو عورت حرام ہوگی لیکن بیوی رہے گی اور عورت پر فرض ہوگا کہ وہ ہر قیمت پر خلع لے اور اگر شوہر خلع پر راضی نہ ہو تو عورت حرامکاری پر مجبور ہوگی۔ جب شوہر اسکے ساتھ مباشرت کرے تو وہ لذت نہ اٹھائے ورنہ گناہگار ہو گی”۔ یہ بکواس، یہ اذیت اور گند مولوی نے خود گھڑا ہے، اسلام سے اس کا تعلق نہیں۔
عربی ، اردو اور انگلش میں اثاثہ کے دو معانی ہیں۔ ایک مال، مویشی، کھیتی اور دوسرا زندگی کا نچوڑ اور انسان سے جدا نہ ہونے والا رشتہ۔ اللہ نے فرمایاکہ ”تمہاری بیویاں تمہارے لئے اثاثہ ہیں”۔ مولوی نے اس کا ترجمہ کھیتی کردیا۔ جب عورت کے گدھی کی طرح حقوق بھی نہ ہوں تو مولوی نے اس کا ترجمہ کھیتی کرکے درست کیا ۔ کھیتی پاؤں تلے روند ی جائے تو یہ عربی میں وطی کہلاتا ہے۔ قرآن وسنت اور عربی میں عورت سے مباشرت کیلئے کہیں بھی وطی کا لفظ نہیں مگر فقاء نے مباشرت کو وطی قرار دیا۔ جب عورت کھیتی ہو تو اس میں وطی پر اختلاف بھی ہوگا کہ حل کہاں چلایا جائے اور کہاںنہیں ۔ فقہ میں یہی اختلاف ہے۔
اگر آیت222البقرہ میں اذیت اور اس سے توبہ کی درست تفسیر ہو تو پھر آیت223البقرہ میں پیچھے کی مباشرت پر اختلاف اور بکواس بھی نہ ہوتی۔ اس اختلاف کو قرآن نے بغےًا بینھم آپس کی بہت فحش غلطی کا نام دیا ہے ۔
آیت224میں اللہ نے جوہری بات طلاق کے مقدمے میں فرمائی کہ ”اللہ کو اپنے عہدکیلئے ڈھال نہ بناؤ کہ تم نیکی کرو، تقویٰ اختیار کرواور لوگوں کے درمیان صلح کراؤ”۔ آیت میں یمین سے مراد قسم نہیں بلکہ طلاق کے جملہ الفاظ صریح وکنایہ مراد ہیں اسلئے کہ یہ آیت طلاق کامقدمہ ہے ۔ یمین عربی میں عہد وپیمان کو کہتے ہیں۔ بیگم کو چھوڑنا بھی یمین ہے۔ فتاویٰ قاضی خان میں ہے کہ ”اگر شوہر نے بیوی سے کہا کہ اگر میری شرمگاہ تیری شرمگاہ سے خوبصورت نہ ہو تو تجھے طلاق اور بیوی نے کہا کہ اگر میری شرمگاہ تیری شرمگاہ سے خوبصورت نہ ہو تو میری لونڈی آزاد۔ اگر دونوں بیٹھے ہوں تو لونڈی آزاد اور دونوں کھڑے ہوں تو عورت کو طلاق ہوگی کیونکہ کھڑے ہونے کی صورت میں عورت کی شرمگاہ خوبصورت اور بیٹھنے کی صورت میں مرد کی شرمگاہ خوبصورت ہے۔ اور اگر مرد کھڑا ہو اور عورت بیٹھی ہو تومجھے پتہ نہیں لیکن امام ابوبکرالفضل نے کہا ہے کہ مناسب ہے کہ دونوں کے یمین نافذ ہوں اسلئے کہ اس صورت میں دونوں کے حسن کی زیادتی ثابت نہیں ہوگی”۔فتاویٰ تاتار خانیہ۔اشاعت کوئٹہ بلوچستان
یہ عبارت اللہ کے احکام کامذاق اور فقہاء کاخبث باطن بغےًا بینھم ہے اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ یمین سے طلاق کے الفاظ مراد ہیں۔ اللہ نے مذہبی بنیاد پر عورت کو طلاق دینے کے الفاظ اور آپس کی صلح میں رکاوٹ کا تیاپانچہ کردیا ۔اور جب اللہ نے خود صلح کیلئے اللہ کو اپنے یمین کو ڈھال نہ بنانے کا حکم دیا ہے تو اس سے بڑی بات کیا ہوسکتی ہے؟۔ اگر علماء ومفتیان قرآن کو چھوڑنے کے بجائے اس کی طرف رجوع کرتے تو تمام گھمبیر مسائل سے ان کی جان چھوٹ جاتی۔
آیت225البقرہ میںجاہلیت کی رسم کا خاتمہ کردیا کہ اللہ طلاق میں الفاظ کے عہدوپیمان پر نہیں پکڑتا بلکہ دل کے گناہ پر پکڑتا ہے۔ یہ طلاق صریح وکنایہ کے جملے الفاظ اور گنتی کا توڑ ہے کہ اللہ نے صلح پر کوئی پابندی نہیں لگائی کہ جب میاں بیوی راضی ہوتو الفاظ سے صلح کا راستہ نہیں رُک سکتاہے۔
سوال ہے کہ پھر نبی ۖ نے کیوں فرمایا کہ طلاق ، رجوع اور لونڈی وغلام کی آزادی میں سنجیدگی اور مذاق دونوں معتبر ہیں؟۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ان تینوں کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔ جب شوہر طلاق دے اور عورت اپنے حق کے حصول کیلئے اس پر ڈٹ جائے تو مذاق کی طلاق بھی طلاق ہے اسلئے کہ طلاق میں شوہر کو منقولہ وغیر منقولہ دی ہوئی جائیداد سے محروم ہونا پڑتاہے اور خلع میں عورت کی غیرمنقولہ دی ہوئی جائیداد گھر ، دکان اور باغ وغیرہ واپس کرنا پڑتا ہے۔ جب عورت طلاق کا دعویٰ کرے تو اس کو دو گواہ لانے پڑیں گے اگر دو گواہ نہیں لاسکے تو شوہر کو قسم اٹھانا پڑے گی اور جب شوہر قسم اٹھالے گا تو پھر جج کو فیصلہ کرنا پڑے گا کہ یہ خلع ہے اور عورت کو خلع کے حقوق ملیںگے۔ اسلام اندھا نہیں بلکہ اندھے فقہاء نے اس کو سمجھا نہیں اسلئے گمراہی پھیلا ئی ہے۔ اگر اسلام کی سمجھ ہوتی تو عورت کو حرامکاری پر مجبور کرنے کی گمراہی نہ پھیلتی۔قرآن نے ایک ایک رسم جاہلیت کی اصلاح کردی بلکہ گمراہی اور اسلام کو اجنبیت کی طرف دھکیلنے کا کوئی موقع بھی نہیں چھوڑا تھا۔ سب سے زیادہ سخت ترین طلاق یہ تھی کہ جب کوئی شوہر اپنی بیوی کی پیٹھ کو اپنی ماں کی پیٹھ سے تشبیہ دیتا تھا۔ سورۂ مجادلہ اور سورۂ احزاب میں اس کی نزاکت کو دیکھا اور سمجھا جاسکتا ہے۔ یہاں تک کہ اللہ نے فرمایا: ” ان کی مائیں نہیں ہیں مگر وہی جنہوں نے ان کو جنا ہے”۔ اس کا مطلب یہ نہ تھا کہ سوتیلی ماں جس نے اس کو جنا نہیں، ماں نہیں ۔ باپ کی منکوحہ کو جائز سمجھا جاتا تھا تو اللہ نے محرمات کی فہرست میں کہا : ولاتنکحوا مانکح آباء کم من النساء الاماقد سلف ”اور نکاح نہ کرو،جن عورتوںکیساتھ تمہارے آباء نے نکاح کیا مگر جو گزر چکا ”۔ غیبت کو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا قرار دیا گیا اور اس کو زنا سے بدترقرار دیا گیا ہے لیکن غیبت کی سزا نہیں اور بہتان کی سزا80کوڑے اور زنا کی سزا 100کوڑے قرآن میںہے تو ظاہر بات ہے کہ زنا حقیقت میں غیبت سے کہیںزیادہ بڑا جرم ہے۔
جاہلیت کی ایک رسم یہ تھی کہ عورت کو طلاق کے بغیر زندگی بھر رکھا جاتا تھا۔ اللہ نے اس کی عدت چار ماہ رکھ دی اور اگر اسکا طلاق کا عزم تھا تو پھر اس کا دل گناہگار ہے اسلئے کہ عدت میں ایک ماہ کا اضافہ کردیا اور اگر طلاق کا اظہار کرتا تو عدت تین ماہ ہوتی۔ سورۂ بقرہ کی آیات 225، 226 اور 227میں دل کے گناہ کا مطلب واضح ہے اور یہ بھی کہ ناراضگی میں عورت چار ماہ تک کی عدت کی پابند ہے اسکے بعد وہ دوسری جگہ شادی کرسکتی ہے اور اس کو طلاق کے مالی حقوق ملیںگے کیونکہ ناراضگی مرد کی طرف سے ہے۔ ناراضگی کے بعد عدت میں اور عدت ختم ہونے کے بعد باہمی رضامندی سے رجوع کرسکتے ہیں۔ فقہاء نے تو ان آیات کے واضح مفہوم میں بگاڑ ، اختلاف اور تضاد پیدا کرکے فطری اسلام کا بیڑہ غرق کردیا۔ احناف کے نزدیک چار ماہ کی مدت گزر جائے تو عورت کو طلاق ہوگی اور جمہور فقہاء کے نزدیک زندگی بھر بھی عورت کو طلاق نہیں ہوگی۔ یہ تضاد قرآن کے طالب علم کے ذہنوں کو قتل کرکے مفلوج کرکے رکھ دیتا ہے۔
عورت خلع لے تو صحیح حدیث کے مطابق اس کی عدت ایک حیض ہے اور اس پر سعودی عرب میں عمل ہے۔ شوہر کی ناراضگی کو عربی میں ایلاء کہتے ہیں۔ نبیۖ نے ایک ماہ ایلاء کے بعد رجوع کرلیا تو اللہ نے فرمایا کہ ” ان کو طلاق کا اختیار دیدو”۔ شرعی مسائل قرآن وسنت میں واضح ہیں۔ اگر ایلاء کے بعد عدت میں اور عدت کے بعد عورت کو اختیار دیا جاتا تو تضادات پیدا نہ ہوتے ۔ اللہ نے عورت کو اذیت سے بچانے کیلئے یہ احکام بیان کئے لیکن فقہاء نے عورتوں کا سارا حق سلب کرکے رکھ دیا۔ جس طرح آیت228میں انتظار سے مراد عدت ہے ، اسی طرح آیت226البقرہ میں بھی انتظار سے مراد عدت ہے۔ سورہ بقرہ آیات225، 226، 227 میں عورت کو تحفظ تھا ۔ فقہاء نے عورت کے حقوق کو نظر انداز کردیا۔ جسکے نتیجہ میں عجیب و غریب تضادات کا شکار ہوگئے۔ کوئی کہتا تھا کہ چار ماہ بعد طلاق ہوگئی اور کوئی کہتا تھا کہ چارماہ بعد بھی طلاق نہیں ہوئی۔
آیت228میں جاہلیت کی دو اہم رسم کا خاتمہ ہے۔ اکٹھی تین طلاق پر حلالہ کی لعنت تھی اور شوہر جتنی مرتبہ چاہتا تو عورت کی رضا کے بغیر رجوع کرتا۔ اللہ نے واضح کیا کہ ” طلاق سے رجوع کا تعلق عدت سے ہے عدد سے نہیں۔ باہمی اصلاح سے ہے ،شوہر کے اختیار سے نہیں”۔ حضرت عمر نے اکٹھی تین طلاق کے نفاذ کا فیصلہ اسلئے کیا کہ عورت رجوع کیلئے راضی نہ تھی اور یہی فیصلہ ایک طلاق کے بعد عورت کے رجوع کیلئے راضی نہ ہونے کی صورت میں ہوتا۔ قرآن نے باہمی رضاسے رجوع کی وضاحتوں کو سورہ بقرہ اور سورۂ طلاق میں عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد بہت اچھے انداز میں واضح فرمایا ۔
آیت229میں یہ واضح کیا کہ تین مرتبہ طلاق کا تعلق اس عدت سے ہے جسکے تین مراحل ہیں اور تیسری مرتبہ طلاق کے بعد شوہر نے جو کچھ بھی دیا بیوی سے کچھ واپس لینا جائز نہیں۔ جاہلیت کی یہ رسم تھی کہ عورت سے خلع کیلئے مال کا مطالبہ کیا جاتا اور طلاق میں عورت کو دئیے ہوئے اشیاء سے محروم کردیا جاتا تھا۔ سورۂ النساء آیت :19 میں خلع کی صورت میں عورت کو مالی تحفظ دیا گیا ہے اور آیات:21، 22 میں طلاق کی صورت میں عورت کو مالی تحفظ دیا گیا ہے۔
جاویداحمد غامدی نے آیت229البقرہ کا انتہائی گمراہ کن ترجمہ کیا۔ ایک طرف طلاق کے بعد عورت سے شوہر کے دئیے مال میں سے کچھ بھی واپس لینے کو ناجائز قرار دیاگیا اور دوسری طرف اسی آیت سے خلع بھی مراد لیا ہے جس میں عورت کو حق دینے کے بجائے الٹا بلیک میل کرنے کاحق شوہر کو دینا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے عورت کے جتنے حقوق بیان کئے ہیں وہ سب فقہاء ومفسرین نے اپنی طرف سے غصب کئے ہیں۔ اللہ نے ایک ،دواور تین مرتبہ طلاق کے بعد معروف ، اصلاح کی شرط اور باہمی رضامندی سے رجوع کی بار بار وضاحت کردی ہے لیکن شافعی وحنفی فقہاء اس بات پر تضادات کا شکار ہیں کہ طلاق سے رجوع کیلئے نیت شرط ہے یا نہیں؟۔ شافعیوں کے نزدیک نیت نہ ہوتو مباشرت سے رجوع نہیں ہوگا اور حنفیوں کے نزدیک غلطی سے شہوت کی نظر پڑجائے تو بلانیت رجوع ہے۔ معروف کی جگہ فقہ میں منکر رجوع نے لے لی۔ عورت کے حق کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے اسلام کو اجنبیت کا شکار کیا گیاہے۔
اللہ نے آیت 229میںواضح کیا کہ 3مرتبہ طلاق کے بعد دی ہوئی چیزوں میں سے کچھ واپس لینا جائز نہیں مگر جب دونوں اور فیصلہ کرنیوالے بھی متفق ہوں کہ اگر کوئی خاص چیز واپس نہیں کی گئی تو دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو پھر اس خاص دی ہوئی چیز کو عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں حرج نہیں یہی وہ صورتحال ہے کہ میاں بیوی اور فیصلہ کرنیوالے نہ صرف جدائی پر متفق ہوں بلکہ رابطے کیلئے بھی کوئی چیز درمیان میںنہ چھوڑ یں۔ اس صورتحال کی وضاحت کے بعد سوال یہ پیدا نہیں ہوتا کہ رجوع کرلیا جائے تو ہوجائیگا بلکہ ایک دوسری معاشرتی برائی کی اصلاح اللہ نے فرمائی کہ طلاق کے بعد عورت کو اس کی مرضی سے نکاح کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔ اس جاہلیت کا خاتمہ کرنے کیلئے فرمایا کہ ” اگر اس نے طلاق دے دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ عورت اپنی مرضی سے کسی اور سے نکاح کرلے”۔ اس کا تعلق تین مرتبہ طلاق سے نہیں ہے بلکہ عورت کو اپنی رضامندی سے دوسرے شوہر سے نکاح کا حق دلانا ہے اور یہ رسم آج بھی معاشرے میں موجود ہے۔ لیڈی ڈیانا کو بھی اسلئے قتل کیا گیا۔
اگر اللہ نے باہمی رضا ، اصلاح اور معروف طریقے سے رجوع کا راستہ روکنا ہوتا تو پھر آیات231، 232میں عدت کی تکمیل کے فوری بعد اور عدت کی تکمیل کے عرصہ بعدباہمی رضامندی سے رجوع کی وضاحت کیوں کرتا؟۔ سورۂ طلاق میں بھی عدت میں ، تکمیل عدت کے بعداور تکمیل عدت کے کافی عرصہ بعد اللہ نے رجوع کا دروازہ باہمی صلح سے کھلا چھوڑ نے کی وضاحت فرمائی۔ اس مسئلے پراحادیث صحیحہ کا قرآن سے کوئی ذرا بھی تصادم نہیں ہے ۔
مغرب کو بڑا خطرہ خلافت سے یہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنی عورتوں کو انکے اسلامی حقوق نہیں دئیے تو اگر ان کی خواتین کو لونڈیاں بنایا گیا پھرکیا ہوگا؟۔ خلافت عثمانیہ کے سلطان عبدالحمید نے ساڑھے چار ہزار لونڈیا ں ہر رنگ ونسل کی رکھی تھیں۔ حالانکہ غلام و لونڈی پیدا کرنے کا ادارہ جاگیرداری نظام تھا جس کو نبی ۖ اور فقہ کے چاروں ائمہ نے سُود قرار دیا تھا۔ آج بھی مزارعین میں غلامی کی روح ویسے کی ویسی ہے۔ فقہاء نے حیلہ کرکے مزارعت کو حلال کردیا۔
قرآن نے جس طرح آزاد عورت کیساتھ نکاح کا تصور دیا ہے اسی طرح سے لونڈی سے بھی نکاح کا حکم دیا ہے۔ جس طرح آزاد عورت اور مرد میں ایک معاہدہ یا ایگریمنٹ ہوسکتا ہے جس کو ایرانی متعہ اور سعودیہ ومصر والے مسیار کے نام سے جواز بخشتے ہیں۔ نکاح میں عورت کی ذمہ داری اٹھانی پڑتی ہے ۔ دوسری صورت میں عورت کی پوری ذمہ داری مرد کے ذمہ نہیں ہوتی۔ اسلئے نکاح محدود عورتوں کیساتھ اس شرط پر ہوسکتا ہے کہ جب ان کو عدل فراہم کیا جاسکے ، نہیں تو پھر ایک ہی پر اکتفاء کرنے کا حکم ہے۔ جبکہ لونڈیاں لاتعداد ہونے کی وضاحت قرآن میں قطعی طور پر بھی نہیں ہے بلکہ اس سے مراد ایگریمنٹ والیاں ہیں اور مغرب نے اس تصور کو کچھ زیادہ ہی فحاشی وآزادی کیساتھ رائج کردیا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

نا اہل حکومت و ریاست

influencer social media, government of pakistan, government of pakistan, government of pakistan, qamar javed bajwa, sindh government, pakistan army, pakistan army, pakistan army

نا اہل حکومت و ریاست

بہت سے لوگوں کے انفرادی اور اجتماعی sindh governmentکردار میں انتہائی خوبیاں بھی ہیں اور خامیاں بھی ہیں جن پرفرداً فرداً سوشل میڈیا میں تجزئیے بھی ہیں

عدلیہ ، سولand و ملٹری بیوروکریسیsindh government اور سیاسی قیادت جیسے عام influencer social media لوگوں کو انصاف دینے اور ظلم و ستم سے بچانے میں ناکام ہیں مشکل وقت میں بہت سی جانیں بچ سکتی تھیںمگر نااہلی چھاگئی

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

اللہ نےand فرمایا : ”جس نے ایک جان کو بغیر کسی جان یا فساد کےinfluencer social media قتل کیا تو گویا اس نے Qamar javed bajwaتمام لوگوں کو قتل کیا اور جس نےsindh government ایک کوزندہ کیا تو گویا اس نے تمام لوگوں Qamar javed bajwaکو زندہ کردیا”۔ حکمران کیلئے موقع تھا کہ Pakistani Politiciansمشینری کو متحرک کرکے غریبوںand کی جانوں کو .بچانےPakistani Politicians میں بھرپور کردار ادا کرتےpakistan army تو گناہوں کا کفارہ بھی ادا ہوجاتا۔


حکمرانوں کی شہ خرچیاں قرضوں pakistan armyپر چلتیand ہیں ۔ قرضوںso Qamar javed bajwaکا سود عوام پر مہنگائی کی شکل میں پڑتا ہے۔ جب عوامPakistani Politicians کو ضرورتinfluencer social media ہوتو ان کو بے. حسی soکا دورہ پڑجاتا ہے۔ نظام کو بدلنےsindh government کی جتنیso ضرورت اب ہے اس سے پہلے اتنی sindh governmentشدت soسےPakistani Politicians عوام میں کبھی احساسQamar javed bajwa پیدا نہ .ہوا تھا۔ جو سیاسی andقیادت شکایتand کرتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹso ان کی sindh governmentراہ میں رکاوٹ ہےso تو یہ بھی معلوم influencer social mediaہے sindh governmentکہ یہ سیاسیPakistani Politiciansso قیادتand اسٹیبلشمنٹand ہی Qamar javed bajwaکی پیداوار ہے۔ ان کا آپس soمیں تعلق مرغی اور انڈےPakistani Politicians کا ہے۔

government of pakistan

جو قائد sindh governmentاسٹیبلشمنٹ pakistan armyکے سانچے Pakistani Politiciansمیںso بن کر یا ڈھل Qamar javed bajwaکر نکلا ہواور پھر اسٹیبلشمنٹ پر اجارہPakistani Politicians داری قائم Qamar javed bajwaکرنے کی. کوشش کرتا ہوsindh government اس کی Pakistani Politiciansمثال مرغی کے بالغ چوزے کیPakistani Politicians ہے andجو اپنی. ماں کا خیال نہ Pakistani Politicians رکھے۔ پیپلز پارٹی، ن soلیگsindh government اورPTIسب andآزمائی ہوئیso وہ مرغیاں ہیں جن میں انقلابinfluencer social media Qamar javed bajwa اور آذان soسحر کیPakistani Politicians صلاحیت نہیں۔ بارش سے پہلے اطلاعات sindh governmentملتی ہیں ، سیلابیso sindh government ریلہ جب آتا ہے تو پہلے پتہ چلتا ہے اور ٹرانسپورٹ کے ذریعے Pakistani Politiciansمتاثرین کو .بروقت منتقل کیاand جاسکتا ہے۔

TEST

بے حسی کا یہ عالم ہے توinfluencer social media بیرونی دنیا کی طرف سے so اچانک حملوں کا دفاعinfluencer social media کیسےsindh government کیا جائیگا؟۔حکمرانوں Qamar javed bajwa کو. شرمand سے ڈوب soمرنا چاہیے۔مالی گوشوارےinfluencer social media چیک کرکے. اشرافیہ سے Pakistani Politiciansلوٹی ہوئی دولت چھینQamar javed bajwa کر متاثرین. کیPakistani Politicians بحالی کا کام .ہوسکتا ہے۔ متاثرینinfluencer social media کے اکاونٹsindh government کھول کر براہِ راست ان کوامدادیsindh government رقوم منتقل کی جائیں۔ اشرافیہ .کا پیٹ soبھرنے andکا نام نہیں لیتا ہے۔.

TEST

بے حسی کا یہ عالم ہے توinfluencer social media بیرونی دنیا کیsindh government طرف سے. soاچانک حملوں andکا دفاع کیسےsindh government کیا جائیگا؟۔حکمرانوں Qamar javed bajwa کو. شرم .سے ڈوبso مرنا چاہیے۔مالیand گوشوارےinfluencer social media چیک کرکے اشرافیہ سے Pakistani Politiciansلوٹی andہوئی دولت چھینQamar javed bajwa کر متاثرین .کیPakistani Politicians بحالی influencer social mediaکا کام ہوسکتا ہے۔ andمتاثرین کے اکاونٹ کھولsindh government کر براہِ راستso ان کوامدادیsindh government رقوم منتقل کی جائیں۔ اشرافیہ کاinfluencer social media پیٹ بھرنے کا نام نہیں لیتا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

zarbehaq.com/blogs

بیداری کسی عنوان کے بغیر اور شیطان پر ایک حملہ

یقضة بلا عنوان وھجمة علی شیطان
من اتخذاِلٰہ وحید الھوائِ
ھزَّ جمجمة رَصِید الرَمَائِ
کل قرض ینفع ھوالربا
لوباسم الاسلام جدید الکرائ
اعطی الربح صُورَة السودائِ
ذمّ العُلمائُ قَصِید الِاجرَاء
حلّل ارباح و اکل الزکوٰة
ارمل القوم فقید الغذائ
فاز ابوحنیفہ اسیر فی سجن
ثرثر ابویوسف وطید الخرسائ
جاز الفاتحة بالبول کتابًا
تداول بینھم تھدید الاستنجائ
قھقر المفتی تقی من ضربتی
فیدغمہ شدید العصائ
درّسوا کلام اللہ لیس مکتوبًا
فکتب بالقذرحفید النَھدائ
وُلِدَ الخبیث دبرًا بدبر
جرو الکلب تخلید البغائ
فمثلہ کمثل کلب یلھث
ھو بَعلَم ولید باعورائ
ان شاء لرفعہ اللہ لکن
اخلد الی الارض عمید الجلائ
قسا قلبہ رشاطلبہ فاترک جلبہ
فھداےة اللہ بعیدالاشقیائ
فضیحة الشیخ ما فضیلة الشیخ
اجیرالبَنوکِ عبید الشَرَائ
صنع العَظمَة الکَاذِبَة
حاشیة الملوک تفنید العلمائ
فتن المؤمنین ثم لم یتب
فلہ عذاب جہنم غرید الاعدائ
ما رفع العلم الا بقبض العلمائ
اتخذوا رئیساً نشید الجہلائ
الاسلام عادی فصار الغریب
فطوبٰی بشارة عدید الغربائ
لایبقی من القراٰن الارسمہ
فالتحلیل باقٍ سعید الافتائ؟
من طَلَّقَ زوجتہ ثلاث
فطَلبُہا غلط رید الکَحلَائ
کَفَی الرِسَالةُ الخَطَیِّة
تمحص عنہا قعید الخفائ
یتعد الظٰلمون حدود اللہ
ماالحلالة الا عقید الزنائ
اَدخَلَ علیھا ذَاقَت الزَلَاء
فلیقطعوا ورید النسائ
المدارس فی عصرنا مصانع
کم حُلَّلت زِید الحَسَنَائ
عَلَی التِیسِ المُستَعَارِ لَعنَة
اتخذوااربابًا تقلید الفُضَلَائ
اَشرَقَتِ الَارضُ بنورربھا
اَلخَفَاشُ ندید الطِرمِسَائ
اَلرُجعَةُ بلا اعداد والحساب
اُتلو اٰےَاتِ اکلید الطُلَقَائِ
فِتنَتان للناس فی القراٰن
اولٰی رُؤےَاالنبی معید الِاسرَائ
والثانیة فیہ الشَّجَرَةُ المَلعُونَة ُ
یقیم بھا اللہ تمھید الخلفائ
قال لَا تَقرَبَا ھٰذہ الشَّجَرة
عصٰی آدم ربہ مستفید الحوائ
حب الشھوٰت من النساء
الرجال بھٰذا رشید الضعفائ
یجتنبوا کبائرالاثم والفواحش
الا اللمم اکید الاتقیائ
الذین قتلوا وزنوا ثم تابوا
بدل سیئة بحسنة فرید الجزائ
لایمکن القاء الشیطٰن فی وحی
لکن اَلقَی فی رد ید الأسوائ
ھواجتبٰکم وجاھدوافی اللہ
حق جہادہ علیکم شھید الشہدائ
سَلَام عَلَی اَسَاتِذَتِی جمیعًا
ورحمة اللہ تعالیٰ سدید النجبائ
بالاخص بجَامِعةِ بِنَورِی تَاؤن
اُسست بالتقوٰی مفید الطلبائ
الکنز لاتضیع والحق لاتبیع
الباطل لاتطیع مرید السفہائ
ان اللہ اشترٰی منا اموالنا
وانفسنابالجنة نرید الوفائ
الذین یکفّرون باٰیات اللہ
ترفرف لھم لدید اللوائ
البیعة للہ وخلقہ عیالہ
لسائر الناس تحدید البلائ
منع الحسین بیعة الجبروالخوف
فی کل مکان ھنا یزید الغوغائ
تناول الحسن عن الخلافة
تخلخل الامیة حصید السعدائ
ترک معاویہ ابن یزید امارتہ
عمر بنی مروان محید الاعتنائ
کمثل الحمار یحمل اسفارا
زفیر شھیق لھید ھٰؤلاء
العصر یبحث عن ابراھیمہ
اصنام انعام توحید العَلائ
علیکم بالعلم علیکم بالعتیق
ولاتفرقوا توکید الی اللقائ

"بیداری کسی عنوان کے بغیر اور شیطان پر ایک حملہ” جس نے بنالیا ہے اپنا معبوداکلوتے ہوا (خواہش)کو۔کھوپڑی ہل گئی ہے سود ی بیلنس سے۔
ہر وہ قرض جو نفع دے وہ سود ہے۔اگرچہ اسلام کے نام پر کرائے کا جدید( ترین حیلہ ) ہو۔ سود کو بہت بھونڈی شکل دی ۔علماء نے سرزنش کردی، کاروائی کرتے ہوئے میانہ روی سے۔اس نے حلال کردیا سود اور کھا گیا زکوٰة۔ قوم کا توشہ ختم ہوگیا غذا تک کے مفقود ہونے سے ۔ ابوحنیفہکامیاب ہوا جیل کی قید میں،ابویوسف نے جھک ماری بک بک والوں کو پختہ کرکے۔ جائز کہا سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا ، اس مسئلہ کو آپس میںپہنچایا ،استنجے کا خطرہ بھی پیدا ہوا ۔ مفتی تقی پیچھے لوٹا میری ضرب لگانے سے، تو اسکا بھیجہ (دماغ)نکا ل کررکھ دیا لاٹھی کی سختی نے۔ پڑھاتے ہیں کہ کلام اللہ لکھائی نہیںہے توگند سے لکھا ابھری پستانوںوالیوں کے پوتے نے پیدا ہوا ہے خبیث پچھواڑے سے پچھواڑا ملانے پر،کتے کا بچہ ہے ہمیشہ کی بدکاری سے۔تواس کی مثال کتے کی مثال ہے جو ہانپا ہے(قرآن میں)۔ وہ(عالم) بَعلَم بن باعوراء تھا ۔اگر وہ چاہتا تو اللہ اس کو بلند کردیتامگراس نے زمین میں ہمیشگی اختیار کی کھلی صدارت کیساتھ۔اسکا دل سخت ،اسکی طلب رشوت، اس کو کھینچ لانا چھوڑ و۔اللہ کی ہدایت بدبختوں سے دورہے۔ شیخ کی انتہائی رسوائی کوئی فضلیت نہیں ہے، بینکوں کا مزدورہے، سودی لین دین کا غلام ہے ۔اس نے جھوٹی عظمت بنانے کا ڈھونگ رچایا ہے۔درباری ہے، علماء کو جھٹلانے والاہے۔ مؤمنوں کو فتنے میں ڈالااور پھر توبہ نہ کی، اس کیلئے جہنم کا عذاب ہے، دشمنوں کاگانا گاتا ہے۔علم نہیں اُٹھتا ہے مگرعلماء کی فوتگی سے ۔اب بنالیا ہے لوگوں نے سربراہ جاہلوں کی آواز کو ۔ اسلام فطری ہے پس بن گیا ہے اجنبی۔ تو خوشخبری بشارت ہے گنے چنے منتخب اجنبیوں کیلئے۔ قرآن میں سے کچھ بھی باقی نہ رہے گا مگر اسکا رسم الخط،پھر حلالہ کرنے کی سعادت باقی ہے ؟۔جو بیگم کو 3طلاق دے تو غلط ہے اس (خاتون) کو بلانا سرمگین آنکھوں والیوں کی تلاش میں۔ تحریری استفتاء کافی ہے۔ غلط اس عورت سے تفتیش کرنافتویٰ کی طلب میں خفیہ ہم نشین بناکر۔ ظالموں نے اللہ کے حدود پامال کردئیے، حلالہ کچھ نہیںہے مگر معاہدے کرنے والے کا زنا۔ اس میں ڈالتا ہے تو ہلکے سرین والی مزا چکھ لیتی ہے تو پھرضرورعورتوں کی شہہ رگ کاٹ لیں۔ مدارس ہمارے زمانے میں فیکٹریاں ہیں۔ توکتنی حلال کرلی ہیں حسینہ سے زیادتی کرکے ۔ کرائے کے سانڈ پر لعنت ہو ،انہوں نے رب بنایاہے فارغ التحصیل علماء فضلاء کی تقلید کو۔ اللہ کی زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھی۔ چمگادڑ سخت تاریک رات کی نظیرو مثال ہے۔ رجعت کسی عدد اور حساب کے بغیر ہے، تلاوت کرو آیات کو چابیاں ہیں طلاق والوں کیلئے۔ لوگوں کیلئے دو آزمائش ہیں قرآن میں۔پہلی نبیۖ کاخواب ہے جومعاون ہے معراج کا۔اور دوسری اس (قرآن)میں شجرہ ملعونہ ہے۔اسکے ذریعے اللہ قائم کرے گا خلفاء کا مقدمہ۔ فرمایا:دونوں اس درخت کے قریب نہ جاؤ،آدم نے اپنے رب کا عصیان کیا حواء کا استفادہ۔ عورتوں کی شہوات سے محبت فطری ہے۔مرد حضرات اس کی وجہ سے ضعفاء کے باہوش ہیں۔اجتناب کرتے ہیں بڑے گناہ وفواحش سے مگرکچھ نہ کچھ۔یہ محکم وثابت ہے اتقیاء کی صفت۔ جو قتل وزنا کرتے ہیں پھر توبہ کرتے ہیں تو بدل دیتاہے( اللہ) گناہ نیکی میں، نرالی جزاء ہے۔ شیطان کاوحی میں القاء ممکن نہیں اوروہ ڈال دیتا ہے اپنا حیلہ بدشکلوں کے بُرے کرتوتوںمیں۔ اس نے تمہیں منتخب کیا اوراللہ کیلئے جہاد کرو، جہاد کا حق ادا کرو،تم پر گواہ ہیں شہداء کے شہیدۖ سلام ہو میرے تمام اساتذ ہ پر اور اللہ تعالیٰ کی رحمت ۔اصیل لوگوں میں معقول وپختہ تھے۔ خاص طور سے جامعہ بنوری ٹاؤن پر جس کی بنیاد تقویٰ پررکھی گئی ہے، فائدہ مندہے طلباء کیلئے خزانہ ضائع نہیں کیا جاتااور حق کو بیچا نہیں جاتا،باطل کی اتباع نہیں ہوتی بیوقوفوں کے مرید۔ بیشک اللہ نے خرید لئے ہم سے ہمارے اموال و جانیں جنت پر، ارادہ ہے کہ فرض پورا کریں جو اللہ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں (حلالہ کی لعنت سے) ان کیلئے لہرا رہا ہے جانی دشمنی کا جھنڈا۔ بیعت اللہ کیلئے ہے اوراللہ کی مخلوق اس کی عیال ہے۔یہ تمام انسانیت کیلئے بلا پر قابو پانا ہے۔ منع کردیا حسین نے زبردستی اورخوف کی بیعت کو۔ ہر جگہ یہاں پرشورو غل کا یزید موجود ہے۔دستبرداری اختیار کرلی حسن نے خلافت سے۔جھول ہے امیہ میں نیک بختوں کو کٹی فصل بنایا۔معاویہ بن یزید نے اپنی امارت ترک کی،عمر بنو مروان نے الگ راستہ اختیار کیا توجہ حاصل کی گدھے کی طرح کتابیں لادی ہیں ۔ڈھینچوکی ابتداء وانتہائ،بوجھ سے نڈھال یہی لوگ ہیں۔ یہ دور اپنے ابراہیم کی تلاش میں ہے۔بت ہیں،حیوان ہیں، توحید (لاالہ الا اللہ)بلند ہے۔تم پر علم کی اتباع اور عتیق کی اتباع لازم ہے اور تفرقے میں نہیں پڑو! تاکیدآئندہ ملاقات تک

یر رجوع کا حکم ہے مگر گدھے بالکل نہیں سمجھتے۔ سورۂ بنی اسرائیل :60دوآزمائش ہیں،ایک معراج النبیۖ کا خواب کہ دین غالب ہوگا۔ جس پر ایمان ہے لیکن غامدی کا یقین نہیں۔ دوسری آزمائش حلالہ کی لعنت ہے۔ قرآن پر غورہوگا۔ غیرت جاگ جائے گی۔نئی روح بیدار ہوگی ۔ خلافت راشدہ کیلئے راستہ ہموار ہوگا۔ قرآن میں شجرۂ نسب کی قربت سے منع کیا گیا،فرمایا کہ شیطان تمہیں ننگا نہ کرے، جیسے تمہارے والدین کو ننگا کرکے جنت سے نکلوادیاتھا۔ عورتوں سے شہوانی چاہت مردوں کی فطرت میں ودیعت ہے۔اگر مواقع ملنے پربچت ہو تو یہ مردوں کا کمزوری پر قابو پانے میں کمال ہے ۔ اچھوں کیلئے بھی فواحش سے بچنے کے باوجود خالی جگہ رکھی۔ اللہ نے فرمایا:فلا تزکوا انفسکم ”اپنے نفسوں کی پاکی کا دعویٰ مت کرو۔ بنی آدم کیلئے قرآن میں اتنا پیکج ہے کہ جب وہ توبہ کریں تو نہ صرف گناہوں کو معاف کیا جائیگا بلکہ گناہوں کے بدلے میںنیکیاںبھی ملیں گی آیت سورۂ حج میں انبیاء کی تمنا یہ تھی کہ حلالہ کی لعنت نہ ہو۔ بعد میں بدشکلوں ردی مال نے شیطان کی مداخلت سے انبیاء کی تمنا کا خون کیا۔ قرآن میں اللہ نے فرمایا: ” اللہ (کی کتاب )میں جہاد کا حق ادا کرو، اس نے تمہیں منتخب کرلیاتاکہ رسول ۖ تم پر اور تم لوگوں پر گواہ بنو”۔ پنجاب، پختونخواہ، بلوچستان، سندھ سے تعلق رکھنے والے تمام اساتذہ کو دل کی گہرائیوں سے سلام۔ بڑے اصلی اور نسلی اچھے لوگ تھے۔ علامہ سیدمحمدیوسف بنوری بہت عظیم تھے، ان کی قیادت میں ختم نبوت کا مشن پورا ہوا۔سود کیخلاف زبردست مزاحمت جامعہ نے کی ہے۔مفتی محمد شفیع نے مفتی تقی و رفیع کیلئے دارالعلوم میں ناجائز گھر خریدے۔ بیٹے سودکافتویٰ بیچتے ہیں ،داماد شادی بیاہ کے لفافوں کو سود کہتاہے ۔ اگر حلالہ ،سود کے جواز اور مدارس کے غلط نصاب کیخلاف آواز اٹھانے پر مالی جانی نقصان ہوتو اللہ نے ہمارے ساتھ جنت کا سودا کیاہے ۔ آیات کو جھٹلاکر حلالہ کے نام پرعزتوں سے کھلواڑ ہے،غیرتمند لوگوں کو پتہ چل رہاہے اور حلالہ کے مرتکبوں کے خلاف خون کھول رہاہے۔ مؤمن اللہ کیلئے خود کوبیچ چکا ۔ مخلوق اللہ کا کنبہ ہے ۔ ایک عزت بچانے کیلئے محمد بن قاسم نے سندھ کو فتح کیا ، مدارس کو کون فتح کرے گا؟۔ حسین نے زبردستی کی بیعت سے امان نہیں مانگی۔یہاں پر شور وغل کا یزید ہرجگہ ہے اور حسین کے کردار کی بہت زیادہ سخت ضرورت ہے۔ امام حسن نے امت کو متحد کیا۔ بنی امیہ نے معاملہ امارت میں بدل ڈالا۔ حجاج کہتا تھا کہ لوگو! سروں کی فصل پک چکی ،کٹائی کا موسم آگیا۔ یزید کا بیٹا معاویہ با ضمیر تھا ۔ عمربن عبدالعزیز نے خلافت راشدہ قائم کی ۔بنویزید وبنومروان میں اچھے تھے تو علماء کی اولاد میں بھی ہونگے۔ مولانا ابوالکلام آزاد وزیر تعلیم ہندوستان نے علماء کا بہت بڑا اجلاس بلاکر کہا تھاکہ مدارس کا نصاب علماء کو کوڑھ دماغ بنانے کیلئے کافی ہے۔ علماء کرام ومفتیان عظام نے اگر لاالہ اللہ کی حقیقی صدا بلند کرتے ہوئے مساجد سے حق کی تعلیم شروع کردی توجلد اسلامی انقلاب آجائیگا۔سنن داری سے عبداللہ بن مسعودکے قول کو مولانا یوسف لدھیانوی نے عصر حاضر میں نقل کیا، علم کی اتباع سے تفرقہ بازی ختم ہوجائے گی۔ نوشتہ دیوار کراچی۔ شمارہ اگست 2022۔

 

ایک عالم ہے ثنا خواں آپ ۖ کا۔ مغرب کے دانشوروں کا رحمہ للعالمین ۖ کو خراج عقیدت

ایک عالم ہے ثنا خواں آپ ۖ کا۔ مغرب کے دانشوروں کا رحمہ للعالمین ۖ کو خراج عقیدت

”ایک عالم ہے ثناخواں آپۖ کا”
مغرب کے دانشوروں نے رحمت للعالمین ۖ کے بارے میں ایک عرصے تک سخت معاندانہ رویہ اختیار کیے رکھا ، مگر بالآخر آج وہ اعترافِ حقیقت پر مجبور ہوگئے ہیں۔ان کی حقیقت بیانیوں کا نچوڑ پہلی مرتبہ پیش کیا جارہا ہے ۔
مرتب :ستارطاہر۔موسم اشاعت: نومبر1995ء تعداد: ایک ہزار
دوست پبلی کیشنز ۔8۔ اے ، خیابان سہروردی پوسٹ بکس نمبر2958 ۔

”آربیل”
محمد(ۖ) نے پوری زندگی میں کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ معجزہ کر دکھانے کی طاقت رکھتے ہیں۔آپۖ نے اس حوالے سے اپنی کوئی ”علامت” بھی قائم نہ کی۔ آپۖ ہمیشہ یہ فرماتے تھے کہ تمام علامتیں اور نشانیاں اللہ کی ہیںاور خدا کے کلام کا ان پر نزول سب سے بڑا معجزہ ہے۔

” جارج برناڈ شا”
از منہ وسطیٰ میں عیسائی راہبوں نے جہالت و تعصب کی وجہ سے اسلام کی نہایت بھیانک تصویر پیش کی۔ یہ سب راہب اور مصنف غلط کار تھے،کیونکہ محمد(ۖ)ایک عظیم ہستی اور صحیح معنوں میں انسانیت کے نجات دہندہ تھے۔
محمد(ۖ) کے مذہب کو میں نے ہمیشہ اسکی حیران کن قوت اور صداقت کی وجہ سے اعلیٰ ترین مقام دیا۔ میں نے اس کی حیران کن اور صداقت کی وجہ سے اعلیٰ مقام دیا ہے۔میرے خیال میں محمد (ۖ)کا مذہب دنیا کا واحد مذہب ہے جو ہردور کے بدلتے ہوئے تقاضوں کیلئے کشش رکھتا ہے۔میں نے اس حیران کن انسان (ۖ) کا بغور مطالعہ کیااور اس سے قطع نظر کہ انہیں ” مسیح کا دشمن” قرار دیا جاتا ہے۔محمد (ۖ) ہی انسانیت کے نجات دہندہ ہیں۔میرا ایمان ہے کہ اگر آپ (ۖ) جیسا شخص دنیا کا حکمران ہوتا تو ہماری دنیا کے سارے مسائل حل ہو چکے ہوتے اور یہ دنیا خوشیوں اور امن کا گہوارا بن جاتی۔محمد(ۖ) کے مذہب کے بارے میں میں یہ پیش گوئی کرتا ہوں کہ یہ کل کے یورپ کیلئے بھی اتنا ہی قابل قبول ہے جتنا آج کے یورپ کے لیے ۔۔۔جو اسے قبول کرنے کا آغاز کر چکا ہے۔میری خواہش ہے کہ اس صدی کے آخر تک برطانوی ایمپائر کو محمد(ۖ) کی تعلیمات مجموعی طور پر اپنا لینی چاہییں۔انسانی زندگی کے حوالے سے محمد (ۖ) کے افکار و نظریات سے احتراز ممکن نہیں۔

”آرلی روژ”
انسانی تاریخ کو سامنے رکھیے اور اس کا بغور مطالعہ کیجئے تو ایک زبردست حقیقت کا انکشاف ہوگا ۔ یہ محمد(ۖ) تھے جو پہلے سماجی بین الاقوامی انقلاب کے بانی تھے،جن کا حوالہ ہمیں تاریخ میں ملتا ہے۔ آپۖ سے پہلے کی تاریخ میں کوئی ایسا نہیں ملتا جو بین الاقوامی سماجی انقلاب کا بانی ہو۔
آپ نے ایسی ریاست قائم کی کہ جب تک پوری دنیا کی ریاستیں اور حکومتیں اس کی تقلید نہیں کرتی ہیں ،عالمی امن قائم نہیں ہوسکتا اور سماجی انصاف فراہم نہیں کیا جاسکتا۔ آپۖ نے انصاف اور جود وسخا کے جو قوانین مرتب اور نافذ کیے ،جب تک دنیا انہیں نہیں اپناتی ،یہ نہ تو خوشحال ہوسکتی ہے اور نہ پرسکون۔ آپۖ نے بین الاقوامی مساوات کا نظریہ دیااور دنیا کے سب انسانوں کو برابر ٹھہرایا۔ آپ ۖنے درس دیا کہ انسان کو انسان کی مدد کرنی چاہیے۔

”ای بلائیڈن”
محمد(ۖ) کے دین کا پورا سسٹم دو بنیادوں پر استوار ہے اور یہی قرآن کی روح ہے۔ جزا اور سزا کے ستون۔ ………اچھے کام کی جزا اور برے کام کی سزا….. امید اور خوف۔ امید کہ اچھائی باثمر ہوگی اور خوف کہ برائی کا ارتکاب ہوا تو سزا ملے گی۔ ایسا مکمل نظامِ حیات دنیا کے کسی مذہب نے پیش نہیں کیا۔
ولیم پین، پادری جارج وائٹ فیلڈ، صدر ایڈورڈز ،……. یہ سب لوگ کئی اہم کتابوں کے مصنف تھے اور ان کی شہرت عالمگیر ہے۔ مسیحی دینیات کی دنیا میں انہیں ممتاز مقام حاصل ہے۔ یہ سب کیسے انسان تھے؟ سب غلامی کے حامی تھے اور سینکڑوں غلام ان کی ملکیت تھے۔حبشی ان کے نزدیک انسان تھے ہی نہیں بلکہ وہ انہیں ”شیطان کی اولاد” سمجھتے ہوئے ان سے نفرت کرتے اور ان پر ہر ظلم روارکھنا جائز سمجھتے تھے۔ کتنی صدیوں نے ظلم کا بازار دیکھا ، صرف اسلئے کہ یہ دیندار، نیک طینت ،سفیدفام اس نظرئیے پر یقین رکھتے تھے کہ خدا نے انہیںیہ حق دیا ہے کہ وہ افریقہ کے حبشیوں کو اپنا غلام بناسکتے ہیں۔
ان عیسائی عالموں کا خدا محمد(ۖ) کے خدا سے کتنا مختلف ہے!
محمد(ۖ) نے انسانوں کو بتایا کہ حبشی اور کالے بھی انسان ہوتے ہیں۔ ان کی اپنی جانیں اور روحیں ہوتی ہیں۔
اس کے برعکس دینداروں اور کلیسا کے عہدیداروں نے حبشی غلاموں کو بتایا تھاکہ ” تمہیں جان لینا چاہیے کہ تمہارے جسم بھی تمہارے اپنے نہیں،بلکہ تمہاری جانوں اور روحوں کے مالک بھی وہی ہیں جنہیں خدا نے تمہارا آقا بنایا ہے”۔
اور پھر اسلام اور محمد(ۖ) پر گھٹیا باتیں کرنے والے بہت کچھ جان بوجھ کر بھلا دیتے ہیں…… ڈاکٹر میکلر ہمیں بتاتا ہے کہ پروشیا میں اسلاف کی توہم پرستی اس حد تک گہری ہوچکی تھی کہ ہر شخص کو تین شادیاں کرنے کا حق حاصل تھااور ان بیویوں کی حیثیت کنیزوں اور باندیوں سے زیادہ نہ تھی۔اور پھر جب ان کا خاوند مرجاتا تو اس کی بیواؤں سے یہ توقع رکھی جاتی تھی کہ وہ اسکے ساتھ جل مریں۔ اگر وہ یہ توقع پوری نہیں کرتی تھیں تو مرنے والے کے لواحقین قتل کردیتے تھے۔
محمد (ۖ) نے حکم دیا: جب تک تمہیں اپنی پہلی بیوی کی اجازت حاصل نہ ہو اور جب تک اس کی کوئی جائز شکایت نہ ہو اور جب تک دوسری بیوی کے ساتھ ساتھ پہلی بیوی کی کفالت نہ کرسکو اور دونوں میں انصاف کا توازن برقرار نہ رکھ سکو ،تمہیں دوسری شادی کی اجازت نہیں ۔
سچا اور اصلی اسلام ….. جو محمد (ۖ) لے کر آئے ۔اس نے طبقۂ اناث کو وہ حقوق عطا کیے جو اس سے پہلے اس طبقے کو انسانی تاریخ میں نصیب نہیں ہوئے تھے۔اس کے بعد …… اسلام نے انسانیت کو متحد کیا ۔ اسلام صرف عربوں تک محدود نہیں تھا ۔ محمد(ۖ) کا مشن پوری انسانیت کیلئے تھا۔
مسیح کے نام لیواؤں نے انسانیت کو جس قعر مذلت میں دھکیل دیا تھا، محمد (ۖ) نے اس انسانیت کو امن ومسرت اور مساوات کی فضا میں جینے کا برابر حق دیا ۔افریقہ میں اسلام اور محمد(ۖ) کے شیدائیوں نے جمہوری حکومتیں قائم کیں۔ مسلم فتوحات کی روشنی میں کالے خطے میں اسلام کی روشنی پھیلی اور تعلیمات محمدی ۖ نے انسانوں کو جینے اور سر اٹھانے کا حق بخشا۔ عیسائیت جہاں بھی گئی وہاں انسانوں کو غلام بنایا گیا اور طاقت اور جارحیت کے ذریعے ان پر حکمرانی کی گئی۔ محمد(ۖ) کا دین جہاں بھی پہنچا وہاں حقیقی جمہوری حکومتوں کا قیام معرض وجود میں آیا۔ محمد (ۖ) کے دین اور انۖ کی تعلیمات کو کن الفاظ میں سراہا جاسکتا ہے ۔………حقیقی انقلاب جو ذہن بدل دے، دل بدل دے، اس کی تعریف کیسے ممکن ہے؟۔شمالی افریقہ میں مسلمانوں کی فتوحات کے بعد ، جنوبی افریقہ میں اسلام ….. تلوار کے ذریعے نہیں بلکہ مدرسوں، کتابوں، مسجدوں باہمی شادیوں ، رشتہ داروں اور تجارت کے ذریعے پہنچا۔ محمد(ۖ) کی روحانی فتوحات کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔
محمد(ۖ) کے ساتھ ہی اس جمہوریت اور مساوات نے جنم لیا جو اس سے پہلے دنیا میں موجود نہیں تھی۔ اب دولت اور حسب نسب کے پیدائشی دعوؤں کی کوئی اہمیت نہ رہی۔ غلام …مسلمان ہوکر آزاد ہوجاتا۔ دشمن ….اسلام قبول کرکے خون کے رشتے دار سے زیادہ عزیز سمجھا جاتا۔ اور کافر …..اسلام قبول کرنے بعد دین کا مبلغ بن جاتا۔ محمد (ۖ) نے ایک حبشی بلال کو موذن بنادیا کیونکہ وہ اسلام لے آئے تھے۔ اور ان کے ہونٹوں سے خوبصورت کلمات سنائی دیے۔” نماز نیند سے بہتر ہے”۔محمد (ۖ) نے خوابیدہ انسان کو بیدار کردیا۔ انسانی بیداری کی یہ صدا آج بھی دنیا کے ہر ملک میں سنی جاتی ہے۔محمد(ۖ) نے دھتکارے ہوئے غلاموں کو آقا بنادیا۔

”ڈبلیو ڈبلیو کیش”
عیسائیوں کو یہ حقیقت قبول کرلینی چاہیے کہ اسلامی اخلاق مسیحی اخلاقیات سے بدرجہا بہتر اور قابلِ عمل ہیں۔ ………..
محمد(ۖ)! یہ آپ ۖ کا دَین ہے کہ اسلامی دنیا میں انسانوں کی راہ میں اوج کمال اور ترقی کے اعلیٰ ترین مناصب تک پہنچنے کیلئے حسب نسب حائل ہوتا ہے نہ رنگ، غربت، امارت، بلکہ اسلام نے تمام نسلوں کو مواقع فراہم کیے ہیں کہ وہ ایمان لائیں اور ایسی جمہوریت اور مساوات کا حصہ بن جائیں جس میں کسی قسم کی اونچ نیچ سرے سے موجود نہیں !۔ آج کے دور میں محمد(ۖ) کی تعلیمات ہی کا یہ اثر ہے کہ ایشیا و افریقہ میں ایسی بیداری کی لہر دکھائی دے رہی ہے جس سے مغرب کا خدا کو نہ ماننے والا لزراں وترساں ہے۔

”ای ڈرمنگھم”
عرب بنیادی طور پر انارکسٹ اور انتہا پسند تھے ۔ محمد(ۖ) نے زبردست معجزہ دکھایا کہ انہیں متحد کردکھایا۔ بلاشک وشبہ دنیا میں کوئی ایسا مذہبی رہنما نہیں گزرا جسے محمد (ۖ) جیسے سچے اور جانثار پیروکار ملے ہوں۔ اس سے کون انکار کرسکتا ہے کہ محمد(ۖ) نے عربوں کی زندگی بدل کر رکھ دی۔ اس سے پہلے طبقۂ اناث کو کبھی وہ احترام حاصل نہیں ہوا تھا جو محمد(ۖ) کی تعلیمات کے نتیجے میں ملا۔ جسم فروشی، عارضی شادیاںاور آزادانہ محبت ممنوع قرار دئیے گئے۔ لونڈیاں اور کنیزیں جنہیں اس سے پہلے محض اپنے آقاؤں کی دل بستگی کا سامان سمجھا جاتا تھا،وہ حقوق ومراعات سے نوازی گئیں۔ غلامی کا ادارہ بوجوہ اس دور میں باقی رہا لیکن غلام کو آزاد کرنے والے کو سب سے بڑے نیکوکار قرار دیا گیا۔ غلاموں کیساتھ برابری کا سلوک روا رکھا جانے لگااور غلاموں نے دین کی تعلیم سے فیضاب ہوکر اعلیٰ مناصب حاصل کیے۔ ……….

” کتاب کے مندرجات پر تبصرہ”
کتاب میں موجود تمام مغربی دانشوروں کے تبصرے اس قابل ہیں کہ ان کو تمام مسلمانوں تک پہنچایا جائے۔تاہم اس بات کو بھی ذہن نشین ہونا چاہیے کہ جس انسانیت کا مظاہرہ رسول اللہ ۖ اورصحابہ کرام کے بعد مسلمانوں نے کیا ہے،وہ غیر مسلموں کے ہاں بھی قابلِ قبول اور بہترین رویہ قراردیا گیا ہے۔ اور یہ بات پیشِ نظر رہے کہ سلطان عبدالحمید خلافت عثمانیہ کے بادشاہ نے اپنے حرم میںساڑھے چار ہزار کنیزیں رکھی تھیں اور محمد شاہ رنگیلا نے محل کے بالاخانہ تک سیڑھیوں پر ننگی لڑکیوں کا اہتمام کیا تھا جن کے سینوں کو پکڑ پکڑ کر وہ زینے چڑھتا تھا اور انفرادی وااجتماعی زیادتیوں اور قتل وغارتگری سے تاریخ بھری پڑی ہے۔
یہاں اسلام ، مسلمانوں اور نبی کریم ۖ کے دفاع کیلئے نہیں بلکہ پوشیدہ حقائق تک عالم انسانیت کی فکر ونظر اور اسکے دل ودماغ تک کچھ حقائق پہنچارہا ہوں۔ حضرت حسین کی زوجہ محترمہ شیربانو شاہ ایران کی صاحبزادی اور شہزادی کو کس طرح مالِ غنیمت میں تقسیم کرکے پیش کیا گیا؟۔ غلامی ولونڈی کا سسٹم کیوں بوجوہ باقی رکھا گیا؟۔ جب ایران کے ظالم بادشاہ کا تخت الٹ گیا تو اپنے لوگوں میں بھی اسکے خاندان کیلئے کوئی جگہ اور نرم گوشہ نہیں تھا۔ایرانی انقلاب کے بعد اگر ایران کی شہزادی کا ایسی معزز شخصیت سے رشتہ ہوتا تو لوگ اس کو معیوب بھی نہیں سمجھتے تھے۔ اصل بات یہ تھی کہ غلام ولونڈی بنانے کا ادارہ جاگیردارانہ نظام تھا۔ نبی ۖ نے مزارعت کو سود قرار دیکر عالم انسانیت سے غلام ولونڈی بنانے کی فیکٹریاں ختم کرنے کا اقدام فرمایا تھا لیکن مسلمانوں نے حیلہ کرکے جواز نکالا تھا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ قرآن میں ملکت ایمانکم سے کہیں لونڈی و غلام مراد ہیں اور کہیں ایگریمنٹ۔ جو خواتین خرچے کا بوجھ خود اٹھاسکتی ہوں تو ان کیلئے نکاح کی جگہ ایگریمنٹ کی اجازت بھی ہے۔ نکاح میں نان نفقہ ، گھربار سب کچھ شوہر کے ذمے ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ معاشرے میں شدت سے اس کی ضرورت ہو لیکن اس کی جگہ بدکاری نے لے لی ہے۔ لونڈی وغلام کی حیثیت بھی جانور کی طرح ملکیت اور عبدیت کی نہیں رہی بلکہ ایگریمنٹ کے مطابق جب بھی کوئی مطلوبہ رقم ادا کردے تو مالک اس کو اپنے ہاں رکھنے پر مجبور نہیں کرسکتا۔
تیسری اہم بات جس کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ ایک طرف دہشت گردی کی فضاء پیدا کرکے مسلمانوں کو انتہاپسند بنایا گیا اور دوسری طرف عالمی سطح پر سودکی منڈیوں میں پھنسی ہوئی دنیا کیلئے ایسے شیخ الاسلام پیدا کئے گئے ہیں کہ اب عالمی صہیونیت کے ظالمانہ معاشی نظام کے صف اول میں مسلمانوں کو بھی کھڑا کیا گیا ہے۔ جو اسلام جاگیردارانہ نظام کو ختم کررہاتھا وہ خاندانوں کو ہی نہیں پورے پورے ملک وخطے کو غلام اور بڑی بڑی قوموں کولونڈیاں بنار ہاہے تو اس سے بڑھ کر اسلام ، مسلمانوں اور خاتم الانبیاء ۖ کے خلاف کوئی سازش نہیں ہوسکتی ہے۔ ہمیں غرور کی جگہ اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینی ہوگی۔
چوتھی بات یہ ہے کہ فقہ اور مسلکوں کے نام سے قرآن وسنت کا جو حلیہ بگاڑا گیا ہے،جب تک ان کی طرف توجہ نہیں دی جائے مسلمانوں کا حال کسی طرح سے بھی دوسری قوموں کے مقابلے میںاچھا نہیں ہوسکتا اسلئے کہ انہوں نے اپنا مذہب چھوڑ کر جمہوریت کے ذریعے سے اپنے قوانین بنانے شروع کئے ہیں۔
پانچویں بات یہ ہے کہ کتاب میں بعض جگہ حضرت عیسیٰ کی ذات پر رکیک حملہ کئے گئے ہیں جن کا تعلق عیسائیت کی بگڑی ہوئی تحریف سے ہوسکتا ہے۔ ہم رسولوں میں تفریق کے قائل نہیں،البتہ اللہ نے انبیاء ورسل میں بھی بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس فضیلت کا اقرار غیر مسلموں کی زباں سے زیادہ اچھا تھا لیکن ہمیں اپنے اعمال اسلام کی حقیقی تعلیمات کے مطابق ٹھیک کرنے ہونگے اور پھر دنیا میں ہرکوئی نبیۖ کی تعریف کرتا پھرے گا اور اللہ نے قرآن میں جو مقام محمود کا ذکر کیا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ نبیۖ کی تعریف کی جائے۔
جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کے علاوہ اسلام کا معاشرتی نظام اہمیت کا حامل ہے اور اس کی طرف بالکل بھی توجہ نہیں دی گئی ہے۔ پاکستان، افغانستان کے طالبان اور ایران کے علاوہ سعودی عرب، مصر، عرب امارات، قطر، سوڈان، عراق،ملائشیا، انڈونیشیا، افریقہ ، برطانیہ، جرمنی، فرانس، اٹلی، کینیڈا، امریکہ اور آسٹریلیا،روس سمیت دنیا بھر میں اسلامی احکام کو پہنچانے میں ابھی دقت نہیں ۔

دعا زہرہ کیس کو اگر اسلامی تعلیم کے مطابق حل کیا گیا تو نہ صرف مسلمانوں بلکہ دنیا بھرکی خواتین کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔

دعا زہرہ کیس کو اگر اسلامی تعلیم کے مطابق حل کیا گیا تو نہ صرف مسلمانوں بلکہ دنیا بھرکی خواتین کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

ولاتکرھوھن علی البغاء ان اردن تحصنًا ” اور ان کوبدکاری (خفیہ تعلق رکھنے پر)یا بغاوت ( کھل کربھاگ کر نکاح )پر مجبور مت کرو،اگر وہ نکاح کرنا چاہتی ہوں”۔

حدیث میں ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کو باطل قرار دیا گیاہے۔ قرآن کی آیت میں مسلکی اختلافات اور بہت پیچیدہ صورتحال کا بہترین حل ہے لیکن قرآن کی طرف توجہ نہیں

ہمارے معاشرے میں ایک طرف والدین بچیوں اور بچوں کی شادی ان کی مرضی کے بغیر کردیتے تھے اور دوسری طرف بچے اور بچیاں بھی اپنے والدین کی مرضی کے بغیر رشتہ ازدواج میںخود کو جوڑ لیتے ہیں۔ اسکے نقصانات کیاہیں؟۔
مغرب اور ترقی یافتہ دنیا نے نکاح کے حقوق کو قانونی تحفظ دیا ۔طلاق وخلع میں مشترکہ جائیدادبرابر برابر تقسیم ہوتی ہے۔ جائیدا د کی تقسیم کے خوف سے گرل و بوائے فرینڈز کا کلچر بن گیاہے۔اور یہ بھی ہے کہ جب تک شناختی کارڈ نہیں بنتا تو قانونی نکاح نہیں ہوسکتا ہے اسلئے کہ کم عمری میں طلاق کے قوانین جائیداد کی تقسیم کا معاملہ سخت ہے لیکن اس عمرتک پہنچنے سے پہلے جنسی آزادی دی گئی ہے۔
ہمارے ہاں مشرقی مسائل ہیں لیکن قرآن سورۂ نور میں اللہ نے واضح کردیا کہ اسلام پر مشرق ومغرب کا ماحول اثر نہیں ہے۔ اس کی مثال طاق میں رکھے چراغ سے دی جو شیشہ میں بند ہو۔ مشرقی اور مغربی ہواؤں سے محفوظ ہو۔
عیسائیوں میں طلاق کا تصور نہیں تھا،پھر اجتہاد سے طلاق کی اجازت دی۔ ہندو بیو ہ عورت ستی کردی جاتی تھی۔ انگریز نے بیوہ کو زندہ جلانے پر قانوناًپابندی لگاکریہ رسم ختم کی۔ اسلام نے ساڑھے چودہ سو سال پہلے بیوہ کو نہ صرف کھل کر حق دئیے بلکہ انسانی معاشرے کو ترغیب دی کہ بیوہ وطلاق شدہ خواتین اورنیک غلاموں اور لونڈیوں کا نکاح کراؤ۔ عربی میں الایم(بیوہ وطلاق شدہ) کے مقابلے میں بکر (کنواری )آتا ہے۔ بخاری کی حدیث میں بھی اس کی وضاحت ہے کہ شوہر دیدہ طلاق شدہ وبیوہ سے زبانی وضاحت پوچھ کر اس کا نکاح کیا جائے اسلئے کہ وہ شرماتی نہیں اور کنواری کی اجازت خاموشی کافی ہے۔ کنواری کو عربی میں فتاة اور شوہر والی کو محصنة کہتے ہیں۔ قرآن اور عربی کی عام زبان میں فتاة لونڈی اور محصنة پاکدامن کو بھی کہتے ہیں۔نوکرانی کی ضرورت ہو تو ”لڑکی چاہیے” سے مراد نوکرانی ہے اور ” ہماری لڑکیاں ” سے مراد بیٹیاں ہیں۔ نکاح کیلئے لڑکی چاہیے تو اس سے مراد کسی اور کی لڑکی ہے اور جہاں لونڈیوں کا ماحول ہو تو وہاں لڑکیوں سے لونڈیاں بھی ماحول کے مطابق ہیں۔
ساڑھے چودہ سو سال پہلے بیوہ وطلاق یافتہ ، لونڈی ، غلام اور اپنی کنواری لڑکیوں کا جس طرح قرآن وسنت نے معاملہ حل کیا اگر اس پر عمل ہوتا تو پھر ہمارے معاشرے کو یہ دن دیکھنے کو نہیں ملتے کہ خود بھی پریشان ہیں اور دوسروں کو بھی پریشان کرتے ہیں۔ ہم تماشہ بن گئے اور دنیا ہمارا تماشہ دیکھ کر عبرت پکڑ رہی ہے۔ پہلے یورپ میںہمارا جیساہی ماحول تھا لیکن آج ان کی پوزیشن بالکل مختلف ہے اور ہم آج ان کیلئے قابلِ رشک بھی نہیں ہیں لیکن وہ بھی اپنے ماحول سے مطمئن نہیں ہوسکتے ہیں۔ قرآن وسنت نے ہمیں جو بالکل فطری اسلام دیا تھا وہ تمام مسائل کا دنیا بھر کیلئے زبردست، بہترین اور واحد حل ہے۔
ایک طرف نبیۖ نے فرمایا کہ ” زبردستی سے عورت کا نکاح کرانا بالکل جائز نہیں ”۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے لڑکیوں کانکاح زبردستی سے کردیا تو اس نکاح اور اسکے اولاد کی حیثیت کیا ہے۔ جائز یا ناجائز؟۔ اس کا جواب قرآن نے بہت عمدہ انداز میں دیاہے کہ عورت پر اس کی ذمہ داری نہیں ہوگی اور اس کی مجبوری کی وجہ سے یہ نکاح جائز اور اس کی اولاد درست ہے لیکن اس پر جبر والے معاشرے کی پکڑ ہوگی۔ اس کی زندگی اجیرن بنانے کے اثرات سے وہ دنیا وآخرت میں خلاصی نہ پاسکیں گے۔ ہمارے معاشرے کا بھیانک پہلو یہ ہے کہ آج تک یہ مجرمانہ فعل موجود ہے اور اس کا ذمہ دار طبقہ صرف دنیاداراشرافیہ اور جاہل طبقہ نہیں بلکہ مولوی بھی ا سکا حصہ ہے۔ مفتی محمد تقی عثمانی کی بیٹی کا واقعہ دارالعلوم کراچی سے فارغ التحصیل عالم نے بتایا تھا۔ مسئلہ بتانا نہیں ہوتا بلکہ اس پر عمل کرنا ہوتاہے، معاشرے میں بیماری عام ہو تو خواص حصہ ہوتے ہیں۔ مولانا یوسف بنوری کی صاحبزادی ڈاکٹر حبیب اللہ مختار پرنسپل جامعہ بنوری ٹاؤن کی بیوہ کا کسی رانگ نمبر پر رابطہ ہوا، پھر معاملہ ضد کرکے شادی تک پہنچ گیا۔ اقارب نے سمجھایا کہ نوسر باز ہوسکتا ہے اور مدرسہ والوں نے سب کچھ سے تحریری طور پر اس کو دستبردار کروانے کے بعد اجازت دی تو اس کو زیادتی کرکے قتل کیا گیا تھا۔
نبیۖ نے فرمایا کہ ” جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اسکا نکاح باطل ہے، باطل ہے ، باطل ہے”۔ اس حدیث کو حنفی مسلک والے قرآنی آیت سے متصادم قرار دیکر رد کرتے ہیں لیکن اس پر عمل کرتے ہیں اور اس کے خلاف عمل کو برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔جب علماء نے قرآن وسنت کو مسلک سے منسلک یا رد کرنے کو اپنا پیشہ بنالیا تو قرآن وسنت دل ودماغ سے نکل گئے اور ایک اچھے ماحول کی تشکیل کیلئے قرآن وسنت کورہنمائی کا ذریعہ نہیں بناسکے۔ میرے آباء واجدادمیں سید عبدالقادر جیلانی اور اوپر تک میں علماء ومشائخ آئے ہیں۔ ہمارا ماحول بھی عوام سے مختلف نہیں ہے۔ جب قرآن وسنت کے علوم کو پورے معاشرے میں رائج نہیں کیا جائے تو ایک گھر اور گھرانے میں اس کو رائج کرنے کا رواج ایک بہت مشکل کام ہے۔
اصل بات موضوع سے متعلق یہ ہے کہ ” جب ایک عورت یا کنواری لڑکی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرتی ہے تو اسکا قرآن وسنت میں کیا حکم ہے؟ اور دعا زہرہ کے نکاح پر کیا شرعی رہنمائی ہوسکتی ہے؟”۔ جب یہ بات مسلمہ ہے کہ لڑکی یا عورت پر زبردستی سے اپنی مرضی مسلط کرنے کا حق ولی کو نہیں ہے توپھر سب سے پہلے اس بات کو ثابت کرنا ہوگا کہ لڑکی پر زبردستی مسلط نہیں کی گئی ہے اور کھلی عدالت میں ججوں کے سامنے معروضی حقائق کی روشنی میںحق بات تک پہنچنا کوئی مشکل کام نہیں۔ اگرلڑکی کا دعویٰ ہو کہ زبردستی مسلط کی گئی تھی تو آزاد ماحول میں حقائق تک پہنچنا مشکل نہیں ہے۔ لڑکی کیلئے دور استے ہیں۔ ایک یہ کہ ولی اجازت نہیں دیتا ہو تو وہ نکاح کے بغیر خفیہ تعلق رکھے اور بدکاری کرے اور دوسرا یہ کہ وہ کھل کر بغاوت کردے اور نکاح کرلے۔ دعا زہرہ نے بغاوت کا راستہ اختیار کیا ہے ، اس پر حرامکاری کا فتویٰ نہ لگاؤ۔اسکا اچھا اثر ہمارے ملکی قوانین پر بھی پڑیگا۔ متأثرہ لڑکی اور اس کے تمام متعلقین پر بھی پڑے گا۔ بغاوت جائز اور ناجائز ہوسکتی ہے لیکن حرامکاری جائز اور ناجائز نہیں ہوسکتی ہے۔
جہاں تک شیعہ مسلک کا تعلق ہے اور قانون کا معاملہ ہے تو قانون میں کھل کر والد صاحب کی طرف سے دعا زہرہ کو اجازت مل سکتی ہے کہ وہ جہاں چاہے رہ سکتی ہے۔ والد کی اجازت نہ ہو تو قانونی عمر تک پہنچنے کا دارلامان میں انتظار کرنا پڑیگا۔شیعہ کے ہاں متعہ کی بھی اجازت ہے ۔ جب والدراضی ہوگا تو والد مذہبی اور قانونی طور پر دعا زہرہ کو ظہیر کیساتھ جانے کی اجازت دے سکتا ہے۔
سورہ نور کی آیت:32میں بیوہ وطلاق شدہ خواتین ، لونڈیوں اور غلاموں کا حکم بیان ہوا ہے اور پھر آیت33کے آخر میں جوان کنواری لڑکیوں کا بیان ہے ولا تکرھوا فتےٰتکم علی البغآء ان اردن تحصنًا لتبتغواعرض الحےٰوةالدنیاومن یکرھھُّن فان اللہ من بعد اکراھھن غفور رحیمO”اور اپنی لڑکیوں کو بدکاری یابغاوت پر مجبور مت کرو۔ اگر وہ خود نکاح کرنا چاہتی ہوں اسلئے کہ تم دنیا کی زندگی چاہو۔ اور ا گر کسی کو ان لڑکیوں میں سے مجبور کیا گیا تو اللہ ان کی مجبوری کے بعد غفور رحیم ہے۔ (سورہ نور آیت33)
آج اگر دعا زہرہ کے والد مہدی کاظمی نے اپنا ، سندھ حکومت اور شیعہ کی کمیونٹی کاپورازور استعمال کرتے ہوئے دعا زہرہ کی مرضی کے بغیر نکاح کردیا تویہ غلط اور قرآن کی خلاف ورزی ہوگی لیکن دعا زہرہ کیلئے اس میں گناہ نہیں ہوگا کیونکہ وہ مجبور کی گئی ہوگی۔ اگر دعا زہرہ شادی کرنا چاہتی تھی اور اس کو اجازت نہ ملتی تو پھر چھپ کر تعلق کرنا بدکاری تھا اور اس کا ذمہ دار ولی بھی ہوتا۔ دوسرا راستہ یہ تھا کہ دعا زہرہ نے کھل کر بغاوت سے نکاح کیا تو اس پر بدکاری کا نہیں بلکہ بغاوت کا اطلاق ہوتا ہے۔ البغاء لفظ کی تفسیر میں دونوں معانی اپنی اپنی جگہ پر مراد ہوسکتے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ مفسرین اور مترجمین نے اس آیت میں بہت بڑی معنوی تحریف کا ارتکاب کیا ہے۔ لکھا ہے کہ ” اس سے مراد یہ ہے کہ اپنی لونڈیوں کو زبردستی سے بدکاری پر مجبور نہ کرو”۔ جبکہ اس سے ایک آیت پہلے اللہ نے فرمایا کہ لونڈیوں کا نکاح کراؤ۔ اور اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ آزاد مشرک مرد اور عورت سے نکاح کیلئے مؤمن غلام اور لونڈی بہتر ہے۔ مہدی علی کاظمی کے دکھ ، درد اور مشکلات کو ہر انسان سمجھ سکتا ہے اور دعا زہرہ پوری قوم کی بیٹی ہے،اس کی عزت پوری انسانیت کی عزت ہے۔ بیٹی اور بہو دعا زہرہ پر شیعہ سنی علماء حرامکاری کے نہیں بغاوت کے فتوے لگائیں۔ جج کا کام قانون کا پاس کرنا ہوتا ہے اور شریعت کی رہنمائی کرنا علماء کرام کا کام ہے۔
اگر معاشرے میں اسلام رائج ہوتا۔ بیٹیوں کو نکاح کیلئے بغاوت یا چھپ کر معاملہ نہ کرنا پڑتا تو ہم قابل رشک ہوتے۔ ایک طرف حدیث میں ایسے نکاح کو باطل قرار دیا گیا جو ولی کی اجازت کے بغیر ہو اور دوسری طرف قرآن نے اس کو بغاوت قرار دیا ۔ بغاوت و باطل کے الفاظ میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ ایسے میں لڑکی اپنے خاندان کی بہت بڑی سپورٹ سے محروم ہوجاتی ہے۔ خاندانوں میں مشترکہ بچوں کی مٹھاس کا مزہ کر کرا ہوجاتا ہے۔ پوتے اور نواسے اپنے دادا،دادی، نانا،نانی، چچا،پھوپھی، ماموں، خالہ اور اپنے مشترکہ رشتہ داروں سے محروم ہوں تو اس سے بڑھ کر باطل اور بغاوت کیا ہوسکتی ہے؟۔ قرآن وسنت نے صرف بغاوت سے نہیں روکا بلکہ اسکے اسباب کو ختم کیا ہے۔ جب لڑکی اورعورت پرمرضی مسلط نہیں کی جائے گی تو بغاوت اور باطل نکاح کی نوبت نہیں آئے گی۔ فقہ کی کتابوں میں ہے کہ ” اگر لڑکی اپنے خاندان سے نیچے کے طبقے میں شادی کرے تو اس کا نکاح ولی کی اجازت پر موقوف ہوگا۔ اگر ولی مان گیا تو نکاح درست اور نہیں مانا تو نکاح نہیں ہوگا”۔ عدالت اس اونچ نیچ کو تسلیم نہیں کرتی۔ جن فقہاء نے ہمیشہ طاقتوروں کا ساتھ دیکر کمزوروں کے ہاتھ مزید باندھ دئیے ہیں ان کی اجتہادی صلاحیت بھی کسی کام کی نہیں ہوتی ہے۔ ان کے چیلے چپاٹے اور عقیدت مند ومرید بھی چمگادڑوں کی طرح اندھیر نگری میں رہنے کو پسند کرتے ہیں اور سورج کی روشنی کی طرح قرآن کے نور سے بھی ان کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔ مفتی محمد تقی عثمانی کے مدرسے میں اس کا بہنوئی مفتی عبدالروف سکھروی خلیفہ مفتی محمد شفیع مریدوں کو تعلیم دیتا ہے کہ کیمرے کی تصاویر پر احادیث کی یہ یہ وعیدیں ہیں جبکہ مفتی محمد تقی عثمانی نے تصاویر کیلئے اپنے دانت نکلوادئیے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی عالمی سودی بینکاری کو جواز فراہم کررہا تھاتو مفتی عبدالروف سکھروی شادی بیاہ میں لفافے کے لین کو سود قرار دیکر اسکے کم ازکم گناہ کو اپنی سگی ماں سے زنا کرنے کے برابر قرار دیتا تھا جس کی کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ اسلامی معاشرے کو ان کے ٹھیکے پر نہیں دیا جاسکتا ہے ورنہ مجھے قبر اور آخرت میں اپنے نانا جان رسول اللہ ۖ کا سامنا کرنے میں مشکل ہوگی جبکہ قرآن نے واضح کیا کہ آپ ۖ ہم پر اور ہم لوگوں پر گواہی دیں گے۔
جب راضی خوشی لڑکی کی شادی کرادی جاتی ہے تو بھی اسکا مستقبل غیرمحفوظ ہوتا ہے۔ اسلام نے نکاح کے بعد طلاق یا خلع کی صورت میں صنف نازک عورت کے مالی حقوق محفوظ بنائے مگر ملاؤں نے عورتوں کے تمام حقوق غصب کردئیے ہیں۔ شہید اسلام مولانا محمد یوسف لدھیانوی کی کتاب ” عصر حاضر حدیث نبوی ۖ کے آئینہ میں” بہت بہترین کتاب ہے جو مارکیٹ سے غائب کردی گئی ہے جس میں لکھا ہے کہ ” جب علماء اٹھ جائیں گے تو لوگ جاہلوں کو اپنا پیشوا بنالیں گے جو خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے”۔ مفتی تقی عثمانی نے اپنی کتاب ” تقلید کی شرعی حیثیت ” میں لکھ دیا ہے کہ ” اس حدیث کا اطلاق ائمہ مجتہدین کے بعد ہوتا ہے”۔ اسلئے تقلید کرنا ضروری ہے۔ امام ابوحنیفہ نے علم الکلام کی گمراہی سے توبہ کی تھی پھر کیوں اصول فقہ میں قرآن کے مصاحف کو اللہ کا کلام ماننے سے انکار پڑھایا جاتا ہے؟۔مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنی کتابوں ”فقہی مقالات جلد چہارم” اور” تکملہ فتح الملھم” سے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کے جوازکا مسئلہ نکال دیا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قاضی ابویوسف، صاحب الھدایہ، فتاویٰ قاضی خان، فتاویٰ شامیہ نے لکھا کیوں ہے؟ عمران خان کے نکاح خواں مفتی سعیدخان نے2008میں کتاب ”ریزہ الماس” شائع کی ہے تو اس میں بھی سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کا دفاع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ” ضرورت کے وقت سؤر کھانا بقدر ضرورت حلال ہے جو جسم کا حصہ بنتاہے تو سورہ فاتحہ پیشاب سے لکھنا جسم کا حصہ بھی نہیں بنتا”۔
امام ابوحنیفہ کی تقلید کرنے والوں کو ساری بکواسات سے توبہ کرنا چاہیے یہ بعد کی خرافات ہیں اور اب سودی بینکاری کے جواز تک بات پہنچادی گئی ہے۔
معاشرے میں زبردستی کی شادی کا رواج ختم ہوگا تو کوئی لڑکی گھر سے بھی نہیں بھاگے گی اور جب قرآن وسنت کے مطابق نکاح کے بعد عورت کو حقوق مل جائیںگے تو بیٹیوں کا رشتے دینے میںکسی قسم کے تحفظات نہیں ہوںگے اور عورت جب چاہے گی نہ صرف خلع لے سکتی ہے جس کی عدت صحیح حدیث کے مطابق ایک حیض یا ایک مہینہ ہے اور شوہر کی طرف سے دی ہوئی ہر لے جانے والی چیز بھی اس کی ہوگی البتہ غیرمنقولہ جائیداد گھر، فلیٹ، پلاٹ، باغ اور زمین وغیرہ سے دستبردار ہونا پڑے گا اور طلاق کی صورت میں شوہر کے اس گھر سمیت جس میں اس کو رہائش دی تھی تمام دی ہوئی جائیداد میں سے کچھ واپس نہ ہوگا۔

حلالہ کی لعنت اسلام کے غلبے میں رکاوٹ اور اس کے خاتمے کے دلائل

حلالہ کی لعنت اسلام کے غلبے میں رکاوٹ اور اس کے خاتمے کے دلائل

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

”حلالے کے خاتمے کیلئے پہلا مقدمہ”

”حلالہ کی غلط بنیاد قرآنی آیت اور بخاری کی حدیث سے”
فان طلقہا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ ” پھر اگر اس نے طلاق دیدی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے”۔ آیت230البقرہ
قرآن کی اس آیت میں واضح طور پر اس طلاق کے بعد جب تک دوسرے شوہر سے وہ عورت نکاح نہ کرلے تو پہلے کیلئے وہ حلال نہیں ہے۔ پھر جب وہ اس کو طلاق دے دے تو پھر پہلے شوہر سے وہ دوبارہ نکاح کرسکتی ہے۔
بخاری کی حدیث ہے کہ رفاعة القرظی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی تھیں ۔ پھر اس نے دوسرے شوہر سے نکاح کرلیا۔ پھر نبی ۖ کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ میرے شوہر کے پاس ایسا ہے اوراپنے دوپٹے کے پلو سے اشارہ کیا۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ” کیا آپ اپنے شوہر رفاعةکے پاس واپس جانا چاہتی ہو؟۔ آپ نہیں جاسکتی ہو ،یہاں تک کہ یہ دوسرا شوہر تمہارا مزہ نہ چکھ لے اور اس کا مزہ نہ چکھ لو”۔ بخاری کی اس حدیث کو علماء کرام اور مفتیان عظام حلالے کیلئے پیش کرتے ہیں۔
کوئی بھی عام انسان قرآن وحدیث کے ان واضح احکام سے یہ سمجھنے میں مغالطہ کھالیتا ہے کہ قرآن کی آیت بھی بہت واضح ہے اور حدیث میں بھی کوئی ابہام نہیں ہے تو پھر حلالے کا تصور کیوں نہ مان لیا جائے؟ ۔ پہلے میرا بھی یہی خیال تھا۔پھر فقہ کی کتابیں اور احادیث کی کتابوں کو کھنگالنے کی بھرپور کوشش کی لیکن مسئلے کا کوئی حل نکلنے کے بجائے معاملہ جوں کا توں تھا اور فقہ کی کتابوں سے بہت بدظن ہوااور احادیث کی کتب سے خود کو بالکل بے بس پایا اور اپنے ہتھیار ڈال دئیے۔
پھر سوچا کہ قرآن کی طرف توجہ کرکے فکر وتدبر سے کام لیا جائے اسلئے کہ اللہ نے قرآن میں تدبر کرنے کا گلہ کیا ہے؟۔ جب قرآن پڑھنا شروع کیا تو البقرہ228نے ذہن کھلنے میں پہلے مدد نہیں ملی اسلئے کہ تقلیدی ذہنیت نے تالے لگادئیے تھے۔ حالانکہ اس میں لکھا ہے کہ ” طلاق والیاں عدت کے تین ادوار تک اپنے آپ کو انتظار میں رکھیں ……..اور ان کے شوہر اس مدت میں ان کو لوٹانے کا حق رکھتے ہیں بشرط یہ کہ وہ اصلاح کا ارادہ رکھتے ہوں”۔ آیت228البقرہ۔ حنفی اصول فقہ کی تعلیمات میں آیت کے یہ جملے محکمات میں سے ہیں۔ اسکے مقابلے میں کوئی صحیح حدیث آئے تو بھی قابلِ عمل نہیں ہے۔لیکن ہماری بدقسمتی یہ تھی کہ اصول فقہ میں یہ پڑھایا گیا کہ ”پانچ سو آیات احکام سے متعلق ہیں” مگر یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ کون کونسی آیات محکمات میں سے ہیں۔ ایک چھوٹی سی فہرست بتادی جاتی تو طلبہ کیلئے قرآن کے محکمات کی فہرست کا پتہ چل جاتا ۔
مسئلے کے دو پہلو بن گئے۔ ایک پہلو یہ تھا کہ طلاق ہوئی کہ نہیں؟۔ دوسرا پہلو یہ تھا کہ رجوع ہوسکتا ہے کہ نہیں؟۔ جب دوسرے پہلو پر دھیان نہیں گیا تو آیت228البقرہ کے واضح حکم کی طرف توجہ نہیں گئی۔ اگر اس طرف توجہ جاتی تو پھر اس کا فتویٰ دینے میں دھڑلے سے بیباک ہوکر فتویٰ دیتا کہ عدت میں باہمی اصلاح کی بنیاد پر حلالہ کے بغیر رجوع ہوسکتا ہے اور اس میں طلاق کے عدد کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اب اگر کوئی حدیث بھی اس راستے میں حائل ہو تو قرآن کی محکم آیت کے مقابلے میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ پہلے تأویل کریںگے ،اگر تأویل نہ ہوسکے تو حدیث کو چھوڑ کر قرآن پر عمل کریں گے اور یہی مسلک حنفی کی بنیادی تعلیم ہے اور اس سے دوسرے فقہ والے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتے ہیں۔
جب پہلے پہلو پر دھیان تھا کہ طلاق ہوئی یا نہیں؟۔ تو آیت229میں اس بات پر نظر گئی کہ ” الطلاق مرتٰن: طلاق دو مرتبہ ہے”۔ جس سے میری آنکھوں میں چمک،دل میں روشنی اور دماغ میں خوشبو پھیل گئی کہ جب اللہ نے فرمایا ہے کہ طلاق دومرتبہ میں ہے تو پھر ہم ایک مرتبہ میں تین طلاق کا حکم کیسے جاری کرسکتے ہیں؟۔ جب دو طلاقیں ایک ساتھ واقع نہیں ہوسکتی ہیں تو تین طلاق ایک ساتھ کیسے واقع ہوں گی؟۔ پھر دوبارہ غور کیا تو پھر احساس ہوگیا کہ جب اللہ نے عدت کے تین مراحل رکھے ہیں اور ان تینوں مراحل میں باہمی اصلاح کی شرط پر رجوع ہوسکتا ہے تو احادیث صحیحہ کو بھی دیکھ لیا۔ پھر پتہ چلا کہ رفاعة القرظی نے الگ الگ مراحل میں تین طلاقیں دی تھیں اور عدت کے بعد دوسرے سے نکاح کرلیا تویہ واقعہ پیش آیا۔ پھر تو شرح صدر ہوا کہ قرآن وحدیث میں تضاد نہیں ۔ مولوی ظلم کرتے ہیں کہ اکٹھی تین طلاق پر رجوع نہ کرنے کا حکم جاری کرکے حلالے کا فتویٰ دیتے ہیں۔ قرآن میں رجوع کی گنجائش اصلاح و معروف کی شرط پر ہے۔ ماہنامہ ضرب حق میں شائع کیا ، یکم مئی2007اخبار بند کردیا گیا اور31مئی میرے گھر پر حملہ کرکے کئی افراد شہید کردئیے۔
ضرب حق اخبار کی بندش اور جان کو خطرات کے پیش نظر کئی سالوں تک بیرون ملک اور اندرون ملک روپوشی کی زندگی گزارنی پڑی اور پھر دوبارہ ضرب حق کے نام سے اخبار نکالنے کی اجازت نہیں ملی اور نوشة ٔ دیوار کے نام سے مل گئی۔ سالوں کی تحقیقات کے نتیجے میں چند کتابیں لکھیں جو بغیر حلالہ کے تین طلاق سے رجوع کے دلائل پر تھیں۔ جن کے نام یہ یہ ہیں۔1۔ابر رحمت۔ بہت مدلل کتاب ہے۔ شائع کرنے سے پہلے دارالعلوم کراچی ، جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور دیگر مدارس میں بھیجی۔ مفتی محمدحسام اللہ شریفی مدظلہ العالی نے تائید میں لکھا کہ” طلاق کے مسئلے میںاتنی عمدہ تحقیقات پر سید عتیق الرحمن گیلانی کو پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری عطا کی جائے”۔ شریفی صاحب اخبار جہاں جنگ کراچی میں آپ کے مسائل اور ان کا حل قرآن وسنت کی روشنی میں کئی عشروں سے لکھ رہے ہیں۔ اخبار جہاں میں بھی میری کتاب ” ابررحمت” کی طرف طلاق کے مسئلے پر رجوع کیلئے تبصرہ لکھا۔ اب دنیا بھر سے تشفی کیلئے تین طلاق پر مسئلے آتے ہیں تو شریفی صاحب کی تائید کے ساتھ بغیر حلالہ کے رجوع کیلئے جواب دیا جاتا ہے۔ شریفی صاحب شیخ الہند مولانا محمود الحسن کے شاگرد مولانا رسول خان ہزاروی کے دیوبند میں شاگرد تھے ۔جبکہ مولانا رسول خان قاری محمد طیب مہتمم دارالعلوم دیوبند،مولاناسید محمد یوسف بنوری، مفتی محمود، مفتی محمد شفیع، مولانا سیدمحمد میاں، مولانا عبدالحق اکوڑہ خٹک، مفتی محمود قائد جمعیت علماء اسلام کے بھی استاذ تھے۔
نمبر2۔”تین طلاق کی درست تعبیر”۔ نمبر3۔” تین طلاق سے رجوع کا خوشگوار حل ”۔4۔” عورت کے حقوق”۔

”قرآن کی آیت230البقرہ کا بالکل سادہ علمی جواب ”
آیت فان طلقھا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیر ”پھر اگر اس نے طلاق دیدی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ عورت کسی دوسرے شوہر سے نکاح کرلے”۔ (البقرہ 230) اس طلاق کا تعلق مسلک حنفی کے مطابق آیت229البقرہ کے آخری حصے سے ہے۔ فان خفتم الا یقیما حدود اللہ فلا جناح علیھما فیماافتدت بہ ” پس اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کے حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو دونوں پر کوئی گناہ نہیں عورت کی طرف سے اس چیز کو فدیہ کرنے میں”۔ ف تعقیب بلا مہلت کیلئے آتا ہے۔ اسلئے اس طلاق کا تعلق فدیہ کی صورت سے ہے اور یہ مسئلہ اصولِ فقہ کی کتاب ”نور الانوار :ملاجیون” چوتھے درجے میں درسِ نظامی کا حصہ ہے۔ اس وضاحت کے بعدمسئلہ روزِ روشن کی طرح واضح ہونا چاہیے تھا کہ حنفی مسلک والے حلالے کا حکم صرف اس صورت میں دیتے کہ جب اس طلاق کا تعلق فدیہ کی صورت سے ہوتا۔ برصغیر پاک وہند کے معروف عالم دین اور شاعر علامہ تمناعمادی نے اس بنیاد پر کتاب بھی لکھی ہے جس کا نام ”الطلاق مرتان” ہے۔ جس میں صرف خلع کی صورت تک حلالے کا حکم محدود ہے۔ خلع میں غلطی عورت کی ہوتی ہے اسلئے اس کی سزا بھی وہ بھگت لے۔ علامہ تمنا عمادی نے یہ تصور پیش کیا کہ قرآن نے تین طلاق کا تصور ختم کیا ہے اسلئے دو مرتبہ سے زیادہ طلاق نہیں ہوسکتی اور احادیث کو عجم کی سازش قرار دیا۔ اور یہ واضح کیا کہ اگر مرد کی طرف سے طلاق ہو تو حلالے کا کوئی تصور نہیں لیکن عورت کی طرف سے خلع ہو تو پھر حلالے کا حکم ہے۔ انکے افکار پربھی کسی کو تبصرے کی جرات نہیں ہوئی۔ لیکن قرآن واحادیث صحیحہ میں کوئی ٹکراؤ بھی نہیں ہے اور انشاء اللہ سب کیلئے قابلِ قبول دلائل بھی پیش کریں گے۔
امام شافعی کے مسلک سے تعلق رکھنے والے فرماتے ہیں کہ ” آیت:230کی طلاق کا تعلق آیت229کے پہلے حصہ سے ہے۔ الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف او تسریح باحسان ” طلاق دو مرتبہ ہے۔ پھر اس کو معروف طریقے سے روکنا ہے یا احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے”۔ (نورالانور: ملاجیون) ۔ اس صورت میں جب تک دو الگ الگ مرتبہ کی طلاق کے بعد تیسری طلاق نہ دی جائے تو اس پر حلالے کا اطلاق نہیں ہوگا۔ علامہ جاراللہ زمحشری اور دیگر معروف مفسرین کا بھی کہنا ہے کہ قرآن کی تفسیر کا یہی تقاضا ہے۔ اگر اپنے مسلک کے پیروکاروں کو حلالہ سے بچانے کا پروگرام ہوتا تو پھر ایک طرف حنفی علماء اس طلاق کو فدیہ یا خلع تک محدود کرتے اور دوسری طرف شافعی علماء اس کو الگ الگ تک محدود رکھتے۔
علامہ ابن تیمیہ کے شاگرد علامہ ابن قیم نے حضرت ابن عباس کے قول کو نقل کیا ہے کہ ” حلالے کا حکم سیاق وسباق سے ہٹ کر نہیں لگایا جاسکتا ہے۔ اسلئے جب اس طلاق سے پہلے دو الگ الگ مرتبہ طلاق ہو اور پھر اس سے پہلے فدیہ کی صورت بھی ہو تب اس پر حلالے کا حکم لگے گا”۔(زادالمعاد:جلد چہارم ۔ فصل فدیہ کے حوالے سے۔ علامہ ابن قیم )
اختلاف کا پہلا حل قرآن کی تفسیر قرآن ہے اور دوسرا حل قرآن کی تفسیر حدیث ہے۔ جب ہم اس آیت:230کے سیاق وسباق کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ آیات228اور229میں عدت کے اندر صلح واصلاح اور معروف کی شرط پراللہ تعالیٰ نے بہت کھل کر رجوع کی اجازت دی ہے اور آیات231اور232میں عدت کی تکمیل کے فوراًبعد اورکافی عرصہ بعد بھی باہمی اصلاح ورضامندی اور معروف طریقے سے رجوع کی اجازت دی ہے۔ سورۂ بقرہ کی ان آیات کا بہت ہی مختصر خلاصہ سورہ ٔ طلاق کی پہلی دو آیات میں بھی موجود ہے ۔ جس میں عدت کے اندر، عدت کی تکمیل کے فوراً بعد اور عدت کی تکمیل کے کافی عرصہ بعد بہت واضح الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے رجوع کا راستہ کھلا رکھا ہواہے۔ جہاں تک آیت230میں طلاق کا تعلق ہے تو یہ بالکل ایک خاص صورتحال تک محدود ہے جو تیسری طلاق ہر گز ہرگز بھی نہیں ہے۔
قرآن میں تیسری طلاق کا تعلق صرف اور صرف طہروحیض کی صورت میں پہلے دو مراحل میں دو مرتبہ طلاق کے بعد پھر تیسرے مرحلے میں تیسری طلاق سے ہے۔ صحابہنے رسول اللہ ۖ سے پوچھ لیا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے؟۔ رسول اللہ ۖ نے یہ جواب نہیں دیا کہ میری امت کے جاہلوں کو بھی پتہ ہوگا کہ سورۂ بقرہ کی آیت230کا تعلق تیسری طلاق سے ہو اور آپ لوگ عربی معاشرے کا حصہ ہوکر قرآن کی اتنی بڑی بات نہیں سمجھتے ہو؟۔بلکہ رسول اللہ ۖ نے اس کا یہ جواب عنایت فرمایا کہ ” آیت229البقرہ میں الطلاق مرتٰن کے بعدفامساک بمعروف او تسریح باحسان کے ساتھ ہے۔ احسان کیساتھ رخصت کرنا ہی تیسری طلاق ہے”۔ جب نبی کریم ۖ نے یہی واضح فرمایا کہ تیسری طلاق کا تعلق حلالہ کیساتھ جوڑنا انتہائی غلط اور فاش غلطی ہے تو پھر اس کے بعد اور کیا بات رہ جاتی ہے؟۔حنفی مسلک اور عربی زبان کے قاعدے کے مطابق بھی ف تعقیب بلامہلت کی وجہ سے تسریح باحسان ہی تیسری طلاق بنتی ہے۔
جب حضرت عبداللہ بن عمر نے صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق ایک ساتھ تین طلاقیں دیں اور بخاری کی روایت کے مطابق حیض کی حالت میں طلاق دی تو بخاری کتاب التفسیر سورۂ طلاق کے مطابق نبیۖ کو حضرت عمر نے اطلاع دی تو رسول اللہ ۖ بہت غضبناک ہوگئے اور پھر عبداللہ بن عمر سے فرمایا کہ رجوع کرلو۔ پھر طہر کی حالت تک اپنے پاس رکھ لو یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر طہر یعنی پاکی کے ایام میں آجائیں اور پھر حیض آجائے۔ اس کے بعد پھر پاکی کے دنوں میں چاہو تو رجوع کرلو اور اگر طلاق دینا چاہو تو ہاتھ لگائے بغیر طلاق دے دو۔یہ وہ عدت ہے جس میں اس طرح طلاق کا اللہ نے امر کیا ہے۔ یہ روایت الفاظ کے اختلاف کیساتھ بخاری کتاب الاحکام، کتاب ا لطلاق اور کتاب العدت میں بھی ہے۔
رسول اللہ ۖ کے غضبناک ہونے سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن میں عدت کے اندرمرحلہ وارتین طلاقوں کا مسئلہ بہت زیادہ عام فہم تھا۔ اس کو نہ سمجھنے پر حضرت ابن عمر کے فعل پر نبیۖ غضبناک ہوگئے۔ جب یہ تعین ہوگیا کہ عدت کے تین مراحل ہیں تو اس بات کا تعین کرنے میں بھی دقت نہیں ہونی چاہیے تھی کہ تین مرتبہ طلاق کاتعلق بھی عدت کے تین مراحل سے ہے۔جب نبی کریم ۖ نے اچھی طرح سے سمجھادیا تو پھر اس کے بعد ابہام پیدا نہیں ہونا چاہیے تھا۔

” آیت230البقرہ پر چبھتا ہواسوال اور مفصل جواب ”
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ”پھر آیت230میں کونسی طلاق ہے جس کے بعد بیوی کے حلالہ نہ ہونے کا واضح حکم ہے۔ اس سے بھی بڑا اہم سوال یہ ہے کہ اس آیت میں کیا حکمت تھی؟۔ جس کی وجہ سے اتنے لوگوں کی زندگیاں تباہ ہوگئیں؟”۔
اس کا پہلاجواب یہ ہے کہ حلالہ کروانے سے کم وقت میں قرآن کی طرف رجوع کرکے اپنی عزتیں بچائی جاسکتی تھیں۔ جب امت مسلمہ نے قرآن کو چھوڑ دیا تو اس کی ذمہ داری قرآن پر نہیں امت پر ہی عائد ہوتی ہے۔ قرآن میں ذکر ہے کہ وقال الرسول یارب انی قومی اتخذوا ھذالقرآن مھجوراً ”اور رسول کہیں گے کہ اے میرے ربّ میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا تھا”۔ اگر ہندوستان کے علماء اس آیت میں نبیۖ کی قوم کا ذکر دیکھ لیتے تو پھر ایک دوقومی نظریہ کی بنیاد پر مسلمانوں کو علماء کرام تقسیم نہ کرتے۔ حلالہ سے زیادہ واضح الفاظ میں قوم کا مسئلہ اس آیت میں واضح ہے لیکن قومی مسئلہ تو حل نہ ہوسکا اور حلالہ سے مسلمانوں کی عزتوں کو چھید کرکے جنازے نکلوادئیے ۔ ڈاکٹر اسرار احمد نے مولانا مودودی کا بتایا کہ ” پہلے مسلمان ایک قوم نہیں تھی مگر اب ایک قوم بن چکی ہے”۔ جہالتوں پر جہالتوں کے انبار لگے نظر آتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے سورة البقرہ آیات:222،223،224،225،226،227،228،229تک مختلف حدود بیان کئے ہیں اور عورتوں کوزبردست حقوق دئیے ہیں لیکن بدقسمتی سے حجة الوداع کے آخری خطبے میں خواتین کے حقوق کا خاص لحاظ رکھنے کی نصیحت کو بھی مفسرین اور فقہاء نے ان واضح قرآنی آیات میں بالکل نظر انداز کردیا تھا اسلئے کہ معاشرے سے عورت کو حقوق دینے کی طرف مسلم معاشرے نے کوئی خاص توجہ نہیں دی تھی۔ ترتیب وار حیض میں عورت کی اذیت وناپاکی کا لحاظ رکھنا، مباشرت میں درست راستے کا انتخاب، اللہ نے میاں بیوی سمیت کسی قسم کی صلح پر بھی پابندی نہیں لگائی، طلاق کے الفاظ پر اللہ نہیں پکڑتا مگر دل کے گناہ سے پکڑتا ہے۔ طلاق کے عزم کا اظہار کئے بغیر عورت کی عدت چار مہینے کا تعین اور عزم تھا تو یہ دل کا گناہ ہے اسلئے کہ طلاق کے اظہار کے بعد عدت تین ماہ ہوتی۔ ناراضگی اور طلاق کے اظہار کے بعد عورت جب تک راضی نہ ہو تو شوہر کو رجوع کا حق نہیں۔ تین طلاق کے فعل کا تعلق عدت کے تین مراحل سے ہے اور باہمی اصلاح سے عدت میں رجوع کا دروازہ کھلا ہے۔پھرجب مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق کے بعد ایسی صورت پیش آئے کہ شوہر اور بیوی دونوں آپس میں رابطے کا بھی کوئی ذریعہ نہ رکھیں اور اس کی وجہ سے شوہر کی طرف سے دی ہوئی چیز بھی واپس کی جائے توپھر یہ سوال پیدا نہیں ہوتا ہے کہ رجوع کرلیا جائے تو ہوجائے گا یا نہیں؟۔ کیونکہ رجوع کرنے کا تو سوال ہی ختم کردیا ہے کہ کوئی ذریعہ بھی رابطے کا نہیں چھوڑاہے۔ قرآن نے ان آیات میں بہت ساری جاہلیت کی رسمیں ختم کیں تو اس رسم کو ختم کرنے کی بھی تعلیم دی کہ جب شوہر رجوع نہیں کرنا چاہتا تب بھی عورت کو طلاق کے بعد کسی اور شخص سے نکاح نہیں کرنے دیتا تھا۔
آیت230کی روح اگلی پچھلی آیات میں بھرپور طریقے سے ان تمام آیات میں موجود ہے جن میں رجوع کیلئے شوہر نہیں عورت کی رضامندی بھی ضروری ہے۔ اگر عورت رجوع کیلئے راضی نہ ہو تو عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد یہ حکم لگے گاکہ ”جب تک کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرلے تو پہلے کیلئے بالکل حلال نہیںہے”۔ اس آیت شریفہ ومبارکہ کی برکت سے دوسری آیات کے مطالب اور مقاصد واضح ہونے میں بھی زبردست مدد ملی ہے۔ ایک ایک آیت اور ایک ایک حدیث کی فطری وضاحتیں موجود ہیں لیکن حلالہ کی لذت دماغ پر سوار ہوجائے تو پھر نشے میں حقائق دکھائی نہیں دیتے ہیں۔

” حلالہ ختم :دوسرا مقدمہ”

”سیدناعمر نے قرآن میں تحریف کی؟”
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضرت عمر نے قرآن کے احکام میں تحریف کر ڈالی کہ عدت میں رجوع ہوسکتا تھا اور طلاق مرحلہ وار دینے کا حکم تھا اور آپ نے اس کے بالکل برعکس ایک ساتھ تین طلاق دینے کی بدعت جاری کردی؟۔
حضرت عمر فاروق اعظم تھے اور ان کا یہ اقدام قیامت تک مسلمانوں کیلئے مشعلِ راہ ہے۔ شیعہ حضرت عمر کے کسی کردار کو مانیں یا نہیں مانیں لیکن اس کردار کو مانیںگے بلکہ اپنے ہاں اس کورائج کرنے میںذرا بھی دیر نہیں لگائیں گے۔
جب میاں بیوی میں جھگڑا ہو اور اس جھگڑے کو حکمران کے پاس نہیں لیکر جائیں تو قرآن کا تقاضہ یہی ہے کہ ایک مرتبہ طلاق دینے کے بعد جب تک کوئی عورت راضی نہ ہو تو اس کا شوہر رجوع نہیں کرسکتا ہے۔ اگر بیوی راضی ہو تو شوہر رجوع کرسکتا ہے۔ چاہے ایک طلاق دی یا ایک ساتھ تین طلاقیں دی ہوں ۔ یہی رائج بھی تھا جس کا حضرت ابن عباس کی روایت میں ذکر ہے۔
جب شوہر نے ایک ساتھ تین طلاق دیں اور اس کی بیوی رجوع کیلئے راضی نہیں تھی تو اسکے شوہر نے معاملہ حضرت عمر کے دربار میں پہنچادیا۔ حضرت عمر نے معاملے کی نزاکت کو دیکھ کر فیصلہ دیا کہ ” شوہر کو رجوع کا کوئی حق نہیں ہے۔ مزید یہ کہ آئندہ کوئی اکٹھی تین طلاقیں دے گا تو اس کو کوڑے بھی مارے جائیںگے ”۔
دنیا کی کوئی بھی عدالت ہو تو قرآن کی آیت اور حضرت عمر کے فیصلے پر اپنے اطمینان کا اظہار کرے گی کہ ” شوہر کو رجوع کا حق حاصل نہیں ہے”۔ حضرت عمر کے اس اقدام کو حقائق کی نظر سے دیکھنے کے بجائے اس پر بحث شروع ہوگی کہ ایک ساتھ تین طلاقیں واقع ہوسکتی ہیں یا نہیں؟۔ ایک ساتھ تین طلاق سنت ہے یا بدعت ہے؟۔ جو قرآن کا اصل مسئلہ تھا کہ باہمی رضامندی اور معروف طریقے سے رجوع ہوسکتا ہے اور عورت کی رضامندی کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ وہ بالکل ہی امت مسلمہ نے اپنی نظروں سے چھپالیا۔ جس کے خطرناک نتائج اُمة مسلمہ نے اس وجہ سے بھگت لئے کہ قرآن کی طرف رجوع کرنا چھوڑ دیا تھا۔
قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ ” اپنی زبانوں کو جھوٹ سے ملوث مت کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے”۔ کیا صحابہ کرام اپنی طرف سے حلال وحرام کے مسائل بناکر اس میں ملوث ہوسکتے تھے؟۔ حضرت عمر کے دور میں فتح مکہ کے بعد مسلمان ہونے والوں کے علاوہ فتوحات کی وجہ سے نئے نئے لوگ بڑی تعداد میں اسلام قبول کرچکے تھے۔ عیسائیوں کے ہاں اس وقت طلاق کا کوئی مذہبی تصور نہیں تھا۔ اسلام نے دینِ ابراہیمی کے دعویدارمشرکینِ مکہ، یہود اور نصاریٰ کے مسخ شدہ مسائل کے درمیان حق کا بالکل واضح راستہ بتادیا تھا۔ طلاق اور رجوع کے احکام کی سمجھ بہت واضح الفاظ میں عام تھی لیکن نبیۖ نے یہ خبر بھی دی تھی کہ
” اسلام کی ابتداء اجنبیت کی حالت میں ہوئی اور یہ عنقریب پھر اجنبیت کی طرف لوٹ جائے گا۔ پس خوشخبری ہے اجنبیوں کیلئے ”۔ پھر آہستہ آہستہ لوگوں کا رحجان قرآن کے اصل حکم سے ہٹتا گیا ،اب یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ مدارس حلالوں کے اڈے، سینٹر ، فیکٹریاں اور قلعے بن گئے ہیں۔

” عمر فاروق اعظم کااُ مت پر احسان ”
جب اللہ تعالیٰ نے محض ایک طلاق کے بعد بھی عورت کی رضامندی کے بغیر رجوع کا حق نہیں دیا ہے تو تین طلاق کے الفاظ سے استعمال کرنے اور عورت کی طرف سے صلح پر رضامند نہ ہونے کے باوجود شوہر کو رجوع کا حق کیسے دیا جاسکتا ہے؟ اوریہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حضرت عمر نے پوری امت مسلمہ پر بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد جب عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی تو قرآن کی روح کے مطابق شوہر سے رجوع کا حق چھین لیا۔ اسکے بعد فقہی بحث مطمعٔ نظر اس بات پر مرکوز ہونا چاہیے تھا کہ اگرطلاق کے بعد عورت رجوع پر راضی نہ ہو تو شوہر رجوع کرسکتاہے یا نہیں؟۔ قرآن کی طرف رجوع کیا جاتا تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ فقہاء اس بات پر متفق ہوتے کہ ایک طلاق کے بعد عورت کی رضامندی کے بغیر شوہر کو رجوع کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ اس سے دو مرتبہ طلاق رجعی کا باطل تصور ختم ہوجاتا۔ جس میں شوہر کو عورت پر ایک عدت نہیں تین عدتوں کا شرعی حق مل جاتا ہے اسلئے کہ اگر شوہر ایک طلاق دے اور پھر عدت کے آخر میں رجوع کرلے اور پھر دوسری طلاق دے اور عدت کے آخر میں پھر اس سے رجوع کرلے، دوعدتیں گزارنے کے بعد پھر شوہر تیسری طلاق دے تو تیسری عدت بھی گزارنی پڑیگی اور اس سے بڑھ کر اگر اس ہتھیار کو اس سے بھی زیادہ مدت کیلئے استعمال کرنا چاہے تو ایک ایک طلاق رجعی میں عورت کی پوری زندگی کو برباد کرنیکا شوہر کو حق مل جاتا ہے مگر یہ قرآن نہیں جہالت ہی جہالت ہے۔
حضرت عمر کے اقدام کی طرف درست توجہ دینے کے بجائے فقہاء نے یہ بحث شروع کردی کہ ایک ساتھ تین طلاق واقع ہوسکتی ہیں کہ نہیں؟حالانکہ اصل معاملہ یہ تھا کہ رجوع ہوسکتا ہے یا نہیں؟۔ اگر رجوع ہوسکتا ہے یا نہیں؟۔ تو پھر قرآن وسنت کی طرف توجہ جاتی۔ جب قرآن میں باہمی رضامندی کی صورت میں عدت کے اندر ، عدت کی تکمیل کے فوراًبعد اور عدت کی تکمیل کے عرصہ بعد رجوع کی گنجائش رکھی ہے اور باہمی رضامندی کے بغیر نہیں رکھی ہے تو فیصلہ باہمی اتفاق رائے سے ہوجاتا کہ اصل معاملہ عورت کی رضامندی پر منحصر ہے۔
حنفی اور مالکی مسلک والوں نے قرار دیا کہ ایک ساتھ تین طلاق بدعت اور گناہ ہے اور دلیل محمود بن لبید کی روایت کو بنایا کہ ” ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاق دیدی ، جب رسول اللہ ۖ کو خبر پہنچی تو آپ ۖ غضبناک ہوکر کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ میں تمہارے درمیان میں ہوں اور تم اللہ کی کتاب کیساتھ کھیل رہے ہو؟۔ اس پر ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اس کو قتل نہ کردوں؟”۔ اس روایت کی وجہ سے احناف اور مالکیہ کے نزدیک ایک ساتھ تین طلاق بدعت ہیں۔
اس روایت میں جس شخص نے کہا تھا کہ ” کیا میں اس کو قتل نہ کردوں؟” عمر تھے اور جس کے بارے میں خبر دی تھی وہ حضرت عبداللہ بن عمر تھے۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت حسن بصری نے کہا کہ مجھے ایک مستند شخص نے کہا کہ ” عبداللہ بن عمر نے اپنی بیگم کو ایک ساتھ تین طلاق دی تھیں اور پھر20سال تک کوئی دوسرا شخص نہیں ملا جو اس کی تردید کرتا۔20سال بعد ایک زیادہ مستند شخص نے کہا کہ ایک طلاق دی تھی”۔ اسی طرح یہ تصریح بھی موجود ہے کہ قتل کی پیشکش کرنے والے حضرت عمر تھے۔ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبیۖ نے جس طرح غضبناک ہونے کا مظاہرہ فرمایا اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ رجوع نہیں ہوسکتا ہے بلکہ یہ تھی کہ ایک ساتھ تین طلاق دیکر فارغ کرنے کی ضرورت کیا ہے؟۔ کیونکہ نبیۖ نے غضبناک ہونے کے باوجود صحیح روایت کے مطابق رجوع کا حکم دیا تھا۔ (صحیح بخاری کتاب التفسیر، سورہ ٔ طلاق )۔اس بات پراتفاق تھا کہ ابن عمر نے رجوع کیا تھا لیکن اس بات پر اختلاف تھا کہ تین طلاق دی تھی یا ایک؟۔ اس سلسلے میں ضعیف ومن گھڑت روایات کی بھرمار ہے مگر ایک صحیح روایت ہے کہ حضرت ابن عمر نے فرمایا کہ ” اگر میں تین مرتبہ طلاق دیتا تو نبیۖ مجھے رجوع کا حکم نہ دیتے؟”۔ اس سے مراد ایک ساتھ تین طلاقیں نہیں بلکہ جیسا نبیۖ نے تین مراحل میں تین مرتبہ طلاق کا حکم دیا تھا اور وضاحت دی تھی اس طرح ابن عمر تین مرتبہ طلاق دیتے تو نبیۖ رجوع کا حکم واقعتا نہ دیتے۔ حضرت عمر سے کہا گیا کہ عبداللہ کو جانشین نامزد کردیں تو حضرت عمر نے فرمایا کہ اس کو طلاق کا پتہ نہیں اور اسکو امت مسلمہ کی خلافت سونپ دوں؟ جس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ ہر دور میں چڑھتے سورج کے پجاری ہوتے ہیںجو بڑوں کو انکے بیٹے کیلئے جانشین بنانے کا مشورہ دیتے ہیں اور یہ بھی کہ حضرت عمر نے ایک قلندرانہ بات کردی کہ جس کو خلیفہ بنایا جائے تو اس میں مسئلہ طلاق کو سمجھنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ حیض میںطلاق ہوتی ہے یا نہیں؟۔ اس پربڑے بڑوں کا اختلاف ہے لیکن یہ معمولی اختلاف نہیں بلکہ جس طرح اس بات پر اختلاف ہو کہ رات کو روزہ رکھا جاسکتا ہے یا نہیں؟۔ ظاہر ہے کہ نہیں رکھا جاسکتا ہے۔ اسی طرح طلاق فعل بھی ہے اور قول بھی۔ فعل تو تین مرتبہ طلاق کا عدت کے تین مراحل میں دینا ہے۔ تین مرتبہ طلاق کا تعلق ہی عدت کے تین مراحل سے ہے اور یہ قرآن و صحیح بخاری کی مختلف کتابوں میں موجود عبداللہ بن عمر کے واقعہ سے ثابت ہے۔ شوہر کی طرف سے طلاق کے قول کے بعد عورت کا حق شروع ہوتا ہے۔اگر اس کا پروگرام رجوع نہ کرنے کا ہو تو ایک طلاق دی یا تین لیکن وہ رجوع نہیں کرسکتاہے اور اگرعورت رجوع کیلئے راضی ہو تو عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعدبھی باہمی رضامندی سے رجوع ہوسکتا ہے۔ یہ قرآن میں بالکل واضح ہے اور جہاں تک آیت230البقرہ کا تعلق ہے تو اس سے پہلے اس صورتحال کی وضاحت ہے کہ ” وہ دونوں اور فیصلہ کرنے والے نہ صرف جدائی پر متفق ہوں بلکہ آئندہ کیلئے بھی رابطے کی کوئی چیز نہ چھوڑیں۔ یہاں تک کہ دی ہوئی چیز واپس لینا جائز نہیں لیکن جب اس کی وجہ سے رابطے کایقین اور اللہ کے حدود پردونوں کے قائم نہ رہ سکنے کا خوف ہو تو وہ چیز واپس فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں ہے”۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر رفاعة القرظی نے جس خاتون کو طلاق دی تھی تو اس نے دوسرے شوہر سے طلاق اور رفاعة القرظی سے رجوع کی خواہش رکھی تھی لیکن نبی کریم ۖ نے فرمایا کہ ” جب تک تم ایکدوسرے کا ذائقہ نہ چکھ لو تو رفاعة کے پاس واپس نہیں لوٹ سکتی”۔ اس روایت میں نمایاں بات یہ ہے کہ دوسرے شوہر کے پاس دوپٹے کے پلو کی طرح چیز تھی تو اس سے وہ حلال نہیں ہوسکتی تھی تو نبیۖ کیسے یہ حکم دیتے؟۔ دوسری بات یہ ہے کہ بخاری کی دوسری روایت میں یہ تفصیل بھی ہے کہ اس کا دوسرا شوہر آیا اور ا س نے بتایا کہ میں نامرد نہیں ، اس کی چمڑی ادھیڑ کر رکھ دیتاہوں اپنی مردانی قوت سے اور یہ میرے بچے ہیں جوساتھ لایا ہوں۔ حضرت عائشہ نے بتایا کہ اس عورت کے جسم پر مارپیٹ کے نشان تھے جو اس نے دکھائے تھے۔ اس واقعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبیۖ نے دونوں میں صلح کروائی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ رفاعة القرظی نے مراحلہ وار تین مرتبہ طلاق کے عمل سے جدا کیا تھا اور جب وہ رجوع نہیں کرنا چاہتے تھے تو وہ عورت رجوع کی امید پر کیسے چھوڑی جاتی؟۔ اس میں کہیں دور تک شائبہ بھی نہیں کہ نبی ۖ نے اکٹھی تین طلاق پر حلالے کا حکم دیا ۔مولانا سلیم اللہ خان صدر وفاق المدارس نے لکھا کہ” یہ حدیث خبر واحدہے اور احناف نکاح کیساتھ مباشرت کا حکم اس کی وجہ سے نہیں دیتے بلکہ آیت میں نکاح کوجماع سمجھتے ہیں”۔ (کشف الباری) اگر نکاح سے جماع مراد لینے پر بات کی جائے تو ایک اور پنڈورا بکس کھلے گا۔
جو علماء ومفتیان حلالہ میں ملوث نہیں تو وہ کھل کر مساجد اورمدارس میں حلالہ کے خلاف قرآن واحادیث صحیحہ کے معاملات کو اپنے عقیدتمندوںاور عوام میں بتائیں تاکہ دین سے مایوس مسلم اُمہ میں اُمید کی ایک نئی روح زندہ ہوجائے۔

”حلالہ ختم: تیسرا بہت فیصلہ کن مقدمہ”

” رجوع عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد”
مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھاہے کہ ” اسلام کی نشاة ثانیہ عرب نہیں عجم سے ہوگی اور اس کیلئے مرکزی علاقہ سندھ ، پنجاب، بلوچستان ، فرنٹیئر(خیبر پختونخواہ) ، کشمیر اور افغانستان ہے۔ یہاں جس قدر قومیں بھی بستی ہیں یہ سب امامت کی حقدار ہیں۔ یہاں امام ابوحنیفہ کے مسلک پر قرآن کی طرف توجہ کرنے سے انقلاب آئیگا اسلئے کہ امام ابوحنیفہ کے مسلک کے علاوہ دوسرا کوئی مسلک یہاں کے لوگ قبول نہیں کریںگے۔ ایران کے شیعہ بھی ساتھ دیں گے اسلئے کہ امام ابوحنیفہ بہت سارے ائمہ اہلبیت کے شاگرد تھے۔احادیث میں اس علاقے کا ذکر ہے۔ کشمیر سے کراچی تک سندھ تھا جس کا مرکز ملتان تھا اور پنجاب کے پانچوں دریا سندھ کی شاخیں ہیں۔ ہند کے مقابلے میں سندھ ایک علیحدہ تشخص رکھتا تھا۔ اگر ہندو ساری دنیا بھی ہمارے مقابلے پر لے آئیں تو ہم اس علاقے سے دستبردار نہیں ہوسکتے ہیں”۔تفسیرسورة القدر:المقام المحمود
واذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف او سرحوھن بمعروف ولا تمسکوھن ضرارًا لتعتدوا ومن یفعل ذلک فقد ظلم نفسہ ولا تتخذوا اٰےٰت اللہ ھزوًا واذکروا نعمة اللہ علیکم وما انزل اللہ علیکم من الکتٰب والحکمة یعظکم بہ واتقوا اللہ و اعلموا ان اللہ بکل شی ئٍ علیمOواذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فلاتعضلوھن ان ینکحن ازواجھن اذا تراضوا بینھم بالمعروف ذٰلک یوعظ بہ من کان منکم یؤمن باللہ والیوم الاٰخر ذٰلکم ازکٰی لکم و اطھر واللہ یعلم وانتم لاتعلمونO”اور جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو اور انہوں نے عدت اپنی پوری کرلی تو معروف طریقے سے رجوع کرلو یا معروف طریقے سے ان کو چھوڑ دو۔ اور اس لئے ان کو مت روکو تاکہ ان کو تکلیف پہنچاؤ اور جس نے ایسا کیا تو اس نے بیشک اپنے نفس پر ظلم کیا۔ اور اللہ کی آیات کو مذاق مت بناؤ۔ اور اللہ کی نعمت کو یاد کرو جو اس نے تم پر کی ہے ۔اور جو اللہ نے (رجوع کے احکام ) نازل کئے ہیں کتاب میں سے اور حکمت ۔ جس سے وعظ کیا جاتا ہے۔اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ بیشک اللہ ہر چیز کو جانتا ہے۔ اور جب تم طلاق دے چکے عورتوں کو ،پھر وہ اپنی عدت پوری کرچکیں تو ان کو مت روکو کہ اپنے شوہروں سے نکاح کریں، جب وہ آپس میں معروف طریقے سے راضی ہوں۔ یہ وہ ہے جس کے ذریعے نصیحت کی جاتی ہے اس کیلئے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے۔ اس میں تمہارے لئے زیادہ تزکیہ اور زیادہ پاکیزگی ہے اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔( سور ہ البقرہ آیات 231اور232)۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ کی آیات228اور229میں عدت کے اندر بھی رجوع کو باہمی رضامندی کیساتھ جائز قرار دیا اور عدت کی تکمیل کے بعد بھی معروف طریقے سے باہمی رضامندی سے جائز قرار دیا اور یہ احکام سورۂ طلاق کی پہلی اور دوسری آیت میں بھی بعینہ ایسے ہیں تو پھر آیت230کے اس حکم کاکیا بنے گا کہ” اگر پھر اس نے طلاق دیدی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ کسی اور شوہر سے نکاح کرلے؟”۔ اسکا جواب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے طلاق کے حوالے سے بہت سی رسموں کا خاتمہ کردیا تھا جس کی تفصیل قرآن میں واضح ہے اور ایک غلط رسم یہ بھی تھی کہ جب شوہر بیوی کو طلاق دیتا اور پھر شوہر بھی رجوع نہیں کرنا چاہتا تھا اور بیوی بھی رجوع نہیں کرنا چاہتی توپھر بھی عورت کو کسی سے نکاح نہیں کرنے دیتا تھا۔یہ مرد کی غیرت کا مسئلہ تھا اور لوگ منگیتر تک کو چھوڑنے کے بعد کسی اور سے نکاح نہیں کرنے دیتے ہیں۔اس رسم کو بھی قرآن نے ملیامیٹ کرکے رکھ دیا تھا۔ قرآن نے تو یہ بھی واضح کردیا تھا کہ ناراضگی کے بعد شوہر عورت کو مجبور نہیں کرسکتا ہے اور عدت کے بعد دوسری جگہ شادی کرسکتی ہے، اسی طرح ایک طلاق کے بعد عورت رجوع پر راضی نہ ہوتوشوہر کیلئے عدت کے اندر اور عدت کے بعد زبردستی کرنا حلال نہیں ہے۔ جب تک230آیت میں حلالہ کی لالچ مولویوں کو نہیں دکھائی تو انہوں نے دوسری آیات میں عورت کے حق کی طرف دیکھا تک بھی نہیں ہے۔ آیت کے حکم کو سمجھنے کیلئے آگے پیچھے کی آیات اور معا ملات کو دیکھے بغیر مولوی سے حلالے کروائیںگے تواسی طرح عزتیں لٹتی رہیں گی۔
اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی
تواگرمیرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن
لوگ اپنی غیرت ، عزت اور عظمت بچانے کیلئے قرآن کی طرف توجہ دینگے تویہ معاملہ حل ہوجائیگا۔جتنی بھی احادیث صحیحہ اور ضعیفہ ہیںان کی تطبیق ہوسکتی ہے تو تطبیق کرنا ضروری ہے لیکن جو قرآن کے خلاف ہیں تو ان کے ناقابلِ قبول ہونے میں تردد کرنا ایمان کا بہت بڑا زوال ہے۔ مسلک حنفی کو سب سے بڑا کریڈٹ یہی جاتاہے۔
ضعیف حدیث یہ ہے کہ فاطمہ بنت قیس کے شوہر نے ایک ساتھ تین طلاقیں دی تھیں۔ حدیث صحیحہ یہ ہے کہ اس کو الگ الگ تین طلاقیں مرحلہ وار عدت کے مطابق دی تھیں۔ دونوں میں تطبیق یہ ہے کہ ایک ساتھ تین طلاقیں دیں لیکن شمار تین نہیں کی گئیں بلکہ ایک شمار کی گئی اور پھر باقاعدہ دوسری طلاقیں بھی دیں۔صحیح مسلم کی جس روایت میں ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق ایک شمار ہوتی تھی اور حضرت عمر نے ایک ساتھ تین کا فیصلہ کیا تو اس میں بھی یہ تطبیق ہے کہ جب عورت رجوع کرنے پر راضی ہو تو ایک شمار ہوتی ہے اور رجوع ہوسکتا ہے اور جب عورت رجوع پر راضی نہ ہو توتین شمارہوتی ہیں اور شوہر رجوع نہیں کرسکتاہے۔ اسی طرح ابن عباس کے قول وفعل اور شاگردوں میں بھی کوئی تضاد نہیں ہے بلکہ تطبیق ہی تطبیق ہے۔
حضرت عمر کی طرف منسوب ہے کہ حرام کے لفظ کو ایک طلاق سمجھتے تھے اور حضرت علی کی طرف منسوب ہے کہ حرام کے لفظ کو تین طلاق سمجھتے تھے۔ صحابہ کرام اپنی طرف سے قرآن کے واضح حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حلال وحرام پر اس طرح کے اختلافات کیسے کرسکتے تھے؟۔ جنہوں نے رجوع کو ایک طلاق کا استعارہ سمجھ لیا ،انہوں نے اس کو ایک طلاق قرار دیا اور جنہوں نے عدم رجوع کو تین طلاق کا استعارہ سمجھ لیا انہوں نے تین طلاق قرار دیا۔ دونوں واقعات میں تطبیق یہ ہے کہ حضرت عمر سے جس شخص نے حرام کے لفظ پر رہنمائی حاصل کرنا چاہی تھی تو اس کی بیوی رجوع کرنا چاہتی تھی اور جس کی بیگم رجوع کیلئے آمادہ نہیں تھی اس کو حضرت علی نے رجوع نہ کرنے کا فتویٰ دے دیا۔ دونوں کا مقصد قرآن پر عمل کرنا تھا۔

”القائے شیطانی اور حلالے کا بگڑا ہوا موجودہ تصور”
وماارسلنا من قبلک رسول ولانبی الا اذا تمنٰی القی الشیطان فی امنیتہ فینسخ اللہ مایلقی الشیطٰن ثم یحکم اللہ اٰیٰتہ واللہ علیم حکیمOلییجعل مایلقی الشیطٰن فتنةً للذین فی قلوبھم مرض والقاسیة قلوبھم ان الظٰلمین فی شقاقٍ بعیدٍOولیعلم الذین اوتواالعلم انہ الحق من ربک فیومنوا بہ فتخبت لہ قلوبھم وان اللہ لھاد الذین اٰمنوا الی صراط مستقیمOآیات:52،53سورہ الحج۔
ترجمہ ” اور ہم نے نہیں بھیجا آپ سے پہلے کوئی رسول اور نہ نبی مگر جب اس نے تمنا کی تو شیطان نے اس کی تمنا میں اپنی بات ڈال دی۔ پس اللہ مٹادیتا ہے جو شیطان نے ڈالا ہوتا ہے ۔ پھر اپنی آیات کو محکمات بنالیتا ہے اور بہت جاننے والا حکمت والا ہے۔تاکہ بنائے جو شیطان نے ڈالا ہے فتنہ ان لوگوں کیلئے جنکے دلوں میں مرض ہے اور جن کے دل سخت ہوچکے ہیں۔بیشک ظالم لوگ بہت دور کی بدبختی میں ہیں۔اور تاکہ جان لیں وہ لوگ جن کو علم دیا گیا ہے کہ یہ حق ہے تیرے رب کی طرف سے اور اس پر ایما ن لائیں اور اس کیلئے انکے دل پلٹ جائیںاور اللہ ہدایت دیتا ہے ایمان والو ںکو سیدھی راہ کی”۔
انبیاء کرام اور رسل عظام نے اپنی اپنی قوموں کو گمراہانہ تصورات سے نکالنے کی تمنائیں کی ہوتی ہیں لیکن پھر شیطان نے ان کی تمناؤں میں اپنی معنوی تحریف ڈال کرمعاملہ سبوتاژ کیا ہوتا ہے۔ پھر نئے نبی پر آیات نازل کرکے شیطان کے ڈالے ہوئے معاملے کو اللہ مٹادیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ شیطان وحی میں اپنی خواہش ڈالنے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ یہ مطلب واضح ہے کہ ” نبیۖ سے پہلے کوئی بھی رسول اور نبی آیا ہے تو ان کی تمناؤں کے برعکس بعد والوں میں شیطان اپنی بات ڈال دیتاہے اور جب دین کی تحریف کرکے مسخ کرکے رکھ دیتے تھے تو پھر دوسرے نبی و رسول پر وحی نازل کرکے اللہ کی آیات کو اللہ خود محکمات بنادیتا تھا”۔ پہلے جتنے بھی انبیاء کرام اور رسل عظام تشریف لائے ہیں تو شیطان بعد والوں کے دلوں میں اپنی تمنائیں ڈال کر احکام کو مسخ کردیتا تھا جیسے یہودو نصاریٰ کے علماء ومشائخ نے کیا تھا۔
دارالعلوم دیوبند کے مولانا انور شاہ کشمیری نے اپنی شرح بخاری ”فیض الباری ” میں لکھا ہے کہ ” قرآن میں معنوی تحریف تو بہت ہوئی ہے لیکن لفظی بھی کی گئی ہے یا توجان بوجھ کر یا پھر مغالطے سے”۔ احادیث کی کتب اور اصول فقہ کی کتابوں میں لفظی تحریف بھی پڑھائی جاتی ہے لیکن مسلک حنفی کا کمال ہے کہ روایات کو بے اہمیت کر دیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ” قرآن کو اللہ نے لفظی تحریف سے محفوظ رکھا ہے”۔ اسلئے کسی نبی اور کتاب کی ضرورت نہیں ہے لیکن معنوی تحریفات کا عوام کو اس وقت پتہ چلے گا کہ جب امام مہدی کا ظہور ہوگا اور دنیا میں فطری اسلامی انقلاب آجائیگا۔
جب سورہ حج کی ان آیات کی تفسیر علماء پر مشکل ہوگئی تو معروف مفسرین نے ابن عباس کی روایت ہی کا سہارا لیا کہ ”سورۂ النجم نازل ہوئی تو شیطان نے نبیۖ کی زبان پر لات ومنات اور عزیٰ کو اللہ کے ہاں شفاعت کے قابل کہا”۔ جس پر مشرکینِ مکہ نے نبی ۖ کے ساتھ سجدہ کیا لیکن پھر پتہ چلا کہ شیطان نے آیات کی شکل میں اپنی تمنا نبی ۖ کو القاء کردیا یا زبان سے کہلوایا۔ حالانکہ یہ مشرکینِ مکہ کابالکل ناجائز پروپیگنڈہ تھا۔ ہوا یہ تھا کہ پہلی مرتبہ سجدہ کی آیت سورہ نجم میں نازل ہوئی تو نبیۖ اچانک سجدے میں گئے۔ مشرکین نے بے ساختہ ناگہانی آفت کے خوف سے سجدہ کرلیا۔ پھر جب دیکھا کہ معاملہ بالکل معمول کے مطابق چل رہا تھا اور کوئی آفت نہیں آئی۔ نبی ۖ نماز میں مشغول تھے۔جس کی وجہ سے جن مشرکینِ مکہ نے اچانک سجدہ کیا تھا انہوں نے اپنی شرمندگی مٹانے کیلئے پروپیگنڈہ کیا کہ نبیۖ نے شیطانی آیات پڑھ لیں جس کی وجہ سے ہم نے سجدہ کیا۔ جب نبی ۖ ہمارے معبودوں کواہمیت نہیں دیتے تو ہم بھی نہیں مانتے۔ اس پروپیگنڈے کا اتنا اثر ہوا کہ حبشہ ہجرت کرنے والے مسلمان بھی اس کا شکار ہوگئے اور واپس آگئے۔ کچھ مکہ کے قریب سے دوبارہ حبشہ بھی چلے گئے۔ ابن عباس کے والد حضرت عباس نے بعد میں اسلام قبول کیا تھا۔ اسلئے مشرکین مکہ کے مسلمان ہونے کے بعد اس پروپیگنڈے کو سچ سمجھ کر ابن عباس نے شیطانی آیات کو نقل کیا۔ آپ کے علاوہ کسی صحابی نے یہ بات نقل نہیں کی۔ جن مفسرین نے حدیث سمجھ کر اعتبار کرلیا تو انہوں نے اپنی تفسیر میں نقل کردیا اور جن کو قرآن کی بنیادی تعلیمات کے خلاف بات لگی تو انہوں نے رد کردیا۔ سورہ نجم کا اپنا مضمون بھی شیطانی مداخلت کی سختی سے تردید کیلئے کافی ہے۔
رسول اللہ ۖ کی بعثت کا مقصد قرآن میں واضح ہے کہ ” تمام ادیان پر غلبہ ہوگا”۔ نصب العین کی تکمیل کیلئے معراج میں تمام انبیاء کرام کی امامت بھی فرمائی۔ نبیۖ کا یہ خواب دنیا میں کیسے پورا ہوسکتا ہے؟۔ یہ لوگوں کیلئے بہت بڑی آزمائش ہے ؟۔ نبیۖ کو حلالہ کی لعنت کے احوال کا آنے والا منظر بھی دکھایا گیا تھا اسلئے آپ ۖ نے حلالے کرنے اور کرانے والوں پر لعنت فرمائی۔ نبی کریم ۖ کی تمنا میں معنوی تحریف کرکے شیطان نے کیسے حلالے کو رائج کردیا ہے؟۔ جو اسلام کی سربلندی اور ترویج میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ لندن اور امریکہ میں حلالہ سینٹر دیکھ کر کون پاگل اس کو اپنے مذہب کے مقابلے میں بہتر قرار دے سکتا ہے؟۔ سورہ حج کی ان آیات کی واضح تفسیر یہ ہے کہ شیطان نے انبیاء کے ذریعے دین کی درست تبلیغ کے بعد آنے والوں میں حلالہ کی لعنت رائج کردی تھی۔ جس طرح سامری نے بچھڑے کے ذریعے ان کو شرک میں مبتلاء کیا ،اسی طرح انبیاء کے بعد شیاطین نے حلالہ کی لعنت کے ذریعے مذہبی بدشکل لوگوں سے شیطانی کھیل کے دھندے کھول دئیے۔شیطان نے نبیۖ کی تمنا حلالے کی لعنت میں اپنی تمنا ڈال کر اس کوعلامہ بدرالدین عینی اور علامہ ابن ھمام کے ذریعے کارثواب قرار دیا ہے۔البتہ اللہ تعالیٰ آیات محکمات کے ذریعے شیطانی جال کو مٹاتا ہے۔
قرآن وسنت میں حلالے کی لعنت کا جواز نہیں تھا، طلاق سے رجوع کیلئے کافی وضاحتیں قرآن میں ہیں ۔ایک طرف سورۂ حج کی ان آیات کے مطابق وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں مرض ہے اور ان کے دل سخت ہوچکے ہیں وہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔ جن میں سرفہرست مفتی محمد تقی عثمانی اور مفتی محمد رفیع عثمانی ہیں۔ دوسری طرف پشین کوئٹہ سے لاہور تک، تربت گوادر سے چترال تک اور کراچی سے سوات تک ایسے بہت علماء حق ہیں جن کا دیوبند، بریلوی، اہل حدیث ، اہل تشیع اور جماعت اسلامی سے تعلق ہے اور وہ حمایت کررہے ہیں۔ حضرت مفتی محمد حسام اللہ شریفی ، حضرت مولاناقاری اللہ داد صاحب، حضرت شیخ مفتی محمد انس مدنی کراچی،مولانا عبدالقدوس ڈیرہ اسماعیل خان اور گجرانوالہ کے حضرت مولانا مفتی خالد حسن قادری مجددی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ ہمارے استاذمفتی محمد نعیم صاحب نے بھی تائید کی تھی جن کو مفتی محمد تقی عثمانی نے ڈانٹ پلائی تھی۔ مفتی زر ولی خان سے بھی تائید کی امید تھی جنہوں نے میری کتاب” عورت کے حقوق” کے مسودے کی تعریف فرمائی تھی لیکن پھر ان کا انتقال ہوگیا تھا۔جس دن مدارس اور مساجد سے حق کا سیلاب اُٹھے گا تو آئندہ الیکشن بھی اسلام کے فطری نظام کی بنیاد پر بالکل نئے لوگ بہت بھاری اکثریت سے جیت جائیں گے ۔ انشاء اللہ
جب تک تقابلی جائزہ نہیں ہوتا تو علمی حقائق تک پہنچنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ سورۂ مجادلہ میں اللہ نے نبیۖ کی سیرت طیبہ کے ذریعے یہ تعلیم دی ہے کہ سیرت کا تقاضہ یہ نہیں کہ گدھے کی طرح کوئی اپنی ناحق بات پر بھی ڈٹ جائے کہ میں جو بول چکا ہوں وہی حق ہے۔ نبی ۖ نے ایک خاتون کو موقع دیا اور پھر وحی اسی کے حق میں اللہ نے نازل فرمائی ہے۔ اگر اکابر کسی غلط فہمی کا شکار تھے تو ان کی توقیر اور عزت واحترام میں کوئی فرق نہیں آتا ہے۔ جتنے بھی ایسے ملحد ہیں جو توہین آمیز رویہ اختیار کرتے ہیں ان میں اکثریت مولویوں کی ہی نظر آتی ہے۔ شدت پسندی کا رخ بدل جاتا ہے، باقی وہی ہوتا ہے۔
جب احادیث میں ایک ساتھ تین طلاق واقع ہونے کے دلائل جمہور کے نزدیک دیکھتے ہیں تو ڈھیر ساری احادیث کا بہت بڑا ذخیرہ نظر آتا ہے کہ یہ رفاعة القرظی نے بیوی کو طلاق دی تھی، فاطمہ بنت قیس کو اکٹھی تین طلاق دی گئی اور حضرت حسن نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دی۔ حضرت علی نے حرام کے لفظ کو تین طلاق قرار دیا۔ ابن عباس نے بھی ایک ساتھ تین طلاق پر فتویٰ دیا۔ ابن عمر نے بھی کہا کہ تین طلاق کے بعد رجوع کا حکم نہیں مل سکتا تھا۔ غرض بہت روایات اور فتوے موجود ہیں۔ کیونکہ جمہور کے مقابلے میں تقابلی جائزہ رکھنے والے کم بلکہ نہ ہونے کے برابر تھے۔
جب یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق سنت ومباح ہیں یا بدعت وگناہ؟۔ تو پھر احادیث کا ذخیرہ بھی پسِ منظر میں چلا جاتا ہے۔ امام شافعی کے نزدیک ایک روایت ہے کہ عویمر عجلانی نے لعان کے بعد اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دی۔ لیکن امام مالک وامام ابوحنیفہ کے نزدیک لعان کی وجہ سے اس میں ایک ساتھ تین طلاق دینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ محمود بن لبید کی روایت ان کی دلیل ہے جس میں نبیۖ نے فرمایا تھا کہ کیا میری موجودگی میں قرآن کیساتھ کھیل رہے ہو؟۔ یہ دو روایات بھی حلالہ کی توثیق نہیں کرتی ہیں اور نہ ہی ان سے قرآن کی آیات میں رجوع کے احکام سے روگردانی کا جواز بنتا ہے۔ ان سے صرف اتنی بات ثابت ہوتی ہے کہ بلاضرورت ایک ساتھ فارغ کرنا گنا ہ اور معقول وجہ ہو تو پھر کوئی مسئلہ نہیں۔سورة طلاق میں عدت اور عدت کے بعد رجوع کا خلاصہ بہترین الفاظ میں موجود ہے اور ابوداؤدشریف کی روایت میں ہے کہ نبیۖ نے ابو رکانہ سے فرمایا کہ ام رکانہ سے رجوع کیوں نہیں کرلیتے؟۔ انہوں نے عرض کیا کہ وہ تو تین طلاق دے چکا ہے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ مجھے معلوم ہے اور پھر سورۂ طلاق کی آیات پڑھ لیں۔ علماء حق سے اپیل ہے کہ اپنے اسلاف کی لاج رکھتے ہوئے حلالہ کیخلاف علمی وضاحتوں کا اعلان کرکے سرخرو ہوجائیں۔

میرے تین گھر ہیں کوئٹہ میں، پشاور میں اور لاہور میں لیکن کہیں حلالہ سینٹر کا نام نہیں سنا۔ سمیحہ راحیل قاضی

میرے تین گھر ہیں کوئٹہ میں، پشاور میں اور لاہور میں لیکن کہیں حلالہ سینٹر کا نام نہیں سنا۔ سمیحہ راحیل قاضی
نیٹ پر حلالہ کلک کرو تو پاکستان، لندن اور دنیا بھر میں حلالہ سینٹروں کی تفصیل ملے گی۔ محمد مالک ہم نیوز

پروگرام کا عنوان ”کیا حلالے کی کوئی شرعی و قانونی حیثیت ہے؟”
شرکائ: علامہ امین شہیدی، مفتی ضمیر احمد ساجد، عنبرین عجائب، ڈاکٹر خالد ظہیر
ہم نیوز پر معروف صحافی محمد مالک نے پچھلی مرتبہ حلالے پر پروگرام ایمرجنسی میں کیا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ21سالہ شوہر نے اپنی19سالہ بیگم کو اکھٹی3طلاقیں دیں ۔ جب لڑکی کو پتہ چلا کہ ایک رات کیلئے کسی سے ہمبستری کرکے حلالہ کرنا پڑے گا پھر وہ اپنے شوہر کے پاس واپس جاسکے گی۔ اس پر اس نے خودکشی کرلی۔ اب یہ دوسرا پروگرام حلالہ سینٹروں پر تھا۔ علامہ امین شہیدی اور ڈاکٹر خالد ظہیر نے کہا کہ اسلام میں کوئی حلالہ نہیں ہے۔ مفتی ضمیر احمد ساجد بھی حلالہ کی مخالفت کررہے تھے۔ عنبرین عجائب نے بھی اس کو کھلا استحصال قرار دیا مگر سمیحہ راحیل قاضی اس کو اچھالنے کے خلاف نظر آرہی تھیں۔ مریم نواز کے انتخابی جلسے کی وجہ سے دوسرا پروگرام ختم ہوگیا۔