zarbehaq, Author at ضربِ حق - Page 3 of 99

پوسٹ تلاش کریں

جمہوریت یا خلافت

جمہوریت یا خلافت
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
امریکیCIAہیروئن کی ا سمگلراورIMFسودکا دونمبرہے۔پاکستان اورافغا.نستان کو بلیک میل کرکے لڑائے گا اوربیش بہا خزانوں پر قبضہ کریگا؟
خلافت بیعت کے ذریعے جمہوریت ووٹ کے ذریعے آسکتی ہے۔خلیفہ ایک ہی ہوسکتا ہے اور جمہوری اقتدار مختلف لوگوں کے ذریعے مختلف ممالک اورصوبے میں ہوسکتا ہے!

پاکستان و افغا.نستان کے خزانوں سے لوگوں کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ پوری دنیا میں اس خطے کی قوم بہت عظیم ہے ۔ سندھی، بلوچ،پنجابی، پشتون، افغانی اور کشمیری دنیا کی امامت کے قابل لوگ ہیں۔ پشتونوں کی غیرت بہت مثالی ہے اور پشتون قوم میں بہت قبائل ہیں۔ محسود قوم نے بہت ہی تکالیف اُٹھائے ہیں۔ جنوبی وزیرستان میں محسود اور وزیر دونوں قبائل اپنی الگ الگ روایات اور اقدار کے حامل ہیں۔تحریک طا.لبان پاکستان میں بیت اللہ محسود سے مفتی نور ولی محسود تک طا.لبان لیڈر شپ کا نمایاں کردارتھا۔ اگرچہ نیک محمد وزیرسے مولوی نذیر یا موجودہ قیادت کا بھی نمایاں حصہ تھا۔ محسود طا.لبان نے ہمیشہ پاک فوج سے بھی ٹکرلی ہے اور وزیر طا.لبان کے تعلقات پاک فوج سے اچھے رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے جنوبی وزیرستان کے وزیر ایریا میں کبھی آپریشن کیلئے نقل مکانی کرنے کی ضرورت نہیں رہی ہے۔ محسود قوم نے طا.لبان اور پاک فوج دونوں کے ہاتھوں تاریخی مار کھائی ہے۔ بے عزتی برداشت کی ہے۔ تکالیف اٹھائی ہیں لیکن جنگ نے ان کو خالص سونا اور کندن بنادیا ہے۔حکومت نے بارہا پیش کش کی ہے کہ تم اسلحہ اُٹھاؤ اور اپنی حفاظت کرو مگرمحسود قوم نے اجتماعی طور پر اس کو مسترد کیاہے۔ انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہمیں بھلے ماردیا جائے لیکن ہم اپنے علاقے اور قوم کی فضاء میں جنگ کا ماحول نہیں بنائیں گے۔ اگر پاکستان اور افغا.نستان نے محسود قوم کی عظیم فطرت اوروسیع تجربات سے کچھ سیکھ لیا تو بیرونی قوتیں ہمیںلڑانے میں کامیاب نہیں ہوسکتی ہیں۔ نبی کریم ۖ نے ہجرت کرلی لیکن اپنی قوم سے مکہ میں لڑائی کی فضاء نہیں بنائی۔ حالانکہ امیر حمزہ، عمرفاروق اعظم، علی، ابوبکر اور ابوطالب ایک سے ایک بہادر طاقتور شخصیت وبنوہاشم کی قوت تھی۔

محسود قوم نے اپنے وسیع تجربے اور بہت نقصانات اٹھانے کے بعد فطرت کے تقاضوں سے جو کچھ سیکھا ہے وہ عرب کے ابتدائی مسلمانوں نے اللہ کی وحی اور پیغمبر اسلام ۖ کی حکمت سے شروع میں حاصل کرلیا تھا۔ اگر اسلام کی وجہ سے ابتدائی سالوں میں اہل مکہ آپس میں لڑمر کر کھپ جاتے تو پھر اسلام کا چراغ پوری دنیا کی سپر طاقتوں کو شکست سے دوچار کرنے کی صلاحیت نہیں رکھ سکتا تھا۔ جب حضرت بلال اسلام کی وجہ سے مصائب جھیل رہے تھے۔ حضرت سمیہ کو دواونٹوں سے باندھ کر مشرکینِ مکہ نے دو ٹکڑے کردئیے تھے ۔ صحابہ مشکلات کی وجہ سے پہلے بھی حبشہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔ وہاں بھی دشمن نے پیچھا نہیں چھوڑا تھا۔ حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس پہنچ کر شکایت کردی تھی۔ جب رسول اللہ ۖ کا اجتماعی سوشل بائیکاٹ کرکے شعب ابی طالب میں تین سالوں تک مسلمان سخت ترین مشکلات کا شکار بنائے گئے۔جب رسول اللہ ۖ کو ابوجہل نے برا بھلا کہا تو امیرحمزہ نے اس وقت اسلام قبول نہیں کیا تھا لیکن وہ سیدھا کعبے پہنچے اور ابوجہل کو کمان مار کر کہا کہ ” اے چوتڑ پر خوشبو لگانے والے! میدان میں آجاؤ، میں نے اسلام قبول کیا ہے اور دیکھتا ہوں کہ تمہارے اندر کیا ہمت ہے کہ اسلام قبول کرنے پر کسی کو کچھ بول سکو!”۔ یہ کاروائی کرکے نبیۖ کو بتایا تو آپۖ نے فرمایا کہ مجھے اس پر کوئی خوشی نہیں ہے۔ مجھے اس وقت خوشی ہوگی کہ جب تم اسلام قبول کرلو۔ پھر امیر حمزہ نے اسلام قبول کرلیا۔ دوسری طرف ابوجہل سے ساتھ والوں نے کہا کہ ” امیر حمزہ نے اتنی غلیظ گالی بکی اور تم نے جواب تک نہیں دیا”۔ ابوجہل (جو ابولحکم کہلاتا تھا) نے کہا کہ ” اس وقت وہ اسلام کی وجہ سے نہیں آیا تھا بلکہ میں نے اس کے بھتیجے کی سخت بے عزتی کی تھی وہ اپنے بھتیجے محمد(ۖ) کا بدلہ لینے آیا تھا، اگر میں بحث وتکرار میں لگتا تو پھر یہ لڑائی عقیدے کی نہیں قبائل کے درمیان بن جاتی اور محمد مضبوط ہوجاتا”۔

مشرکینِ مکہ دشمن تھے لیکن اہل مدینہ اور اعرابیوں کی طرح ان میں منافقت نہیں تھی۔ نبیۖ نے ان کیساتھ صلح حدیبیہ کا معاہدہ کیا۔ بنوبکر مشرکینِ مکہ کا حلیف قبیلہ تھااور بنوخزاع مسلمانوں کا حلیف قبیلہ تھا، بنوخزاع مسلمان نہیں تھا۔ معاہدے میں یہ طے تھا کہ حلیف قبائل کے درمیان جنگ ہوگی توان کی مدد نہیں کریںگے لیکن پھر مشرکینِ مکہ کے بعض لوگوں نے بنوخزاع کے خلاف بنو بکر کی مدد کی تھی،جس پر ان کو یہ توقع نہ تھی کہ مسلمان کا.فر حلیف قبیلے کی وجہ سے معاہدہ توڑ دیں گے۔ نبی ۖ نے کا.فر قبیلے بنوخزاع کیساتھ زیادتی پر بھی معاہدہ توڑ دیا تو مشرکین مکہ کے سردارابوسفیان نے مدینہ جاکر معاہدے کو قائم رکھنے کی بڑی منت سماجت کی۔ ابوبکر، عمر ، علی اور فاطمہسے بھی سفارش کی درخواست کی لیکن نبیۖ نے بات نہ مانی ۔ یہ بنوخزاع کا.فر کے حق کی خلاف ورزی کا معاملہ تھا۔

مضبوط اور اچھے اقدار معاشرے کے ماضی ،حال اور مستقبل کی عکاس ہوتی ہیں۔ نبیۖ کی بعثت سے پہلے اہل مکہ نے حلف الفضول میں غریبوں اور مظلوموں کی مدد کا معاہدہ کیا تھا اسلئے کہ جب حالات بگڑتے جا رہے تھے تو ان میں اپنے ماضی کے اقدار کو باقی رکھنے کا زبردست احساس پیدا ہوا تھا۔ جب اسلام کی شکل میں نئے دین نے کعبہ سے بھرے ہوئے بتوں کے خلاف آواز بلند کی تو مشرکینِ مکہ کو انتہائی ناگوار لگاتھا لیکن مضبوط اقدار کی وجہ سے مسلمانوں پر ایک دَم ہلہ بول دینے کی ہمت نہیں کرسکتے تھے۔ نبیۖ سے سخت نفرت ہوگئی تھی ۔اللہ نے فرمایا: قل لااسئلکم علیہ اجرًا الا مودة فی القربیٰ ”کہہ دیجئے! میں تم سے اپنے مشن کا معاوضہ نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت”۔یہ قرابتداری،ایک قوم، ایک زبان، ایک شہر اور آپس کی رشتہ داریوں کی محبت کے بارے میں تلقین تھی کہ اور کچھ نہیں مانگتا لیکن اس فطری محبت کا خیال رکھ لو۔ اگر مشرکینِ مکہ میں کچھ شرپسند عناصر نہ ہوتے تو نبیۖ مکہ سے ہجرت نہ کرتے۔ ان شرپسندوں اور دہشت گردوں نے نبیۖ کی ذات کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کرلی تھی۔ ہجرت کی رات جب علی نے نبیۖ کے بستر پر رات گزاری تو نبیۖ کو پتہ تھا کہ علی سے ان کی کوئی غرض نہیں ہے۔ جب فاروق اعظم نے ان بزدلوں کو چیلنج کیا کہ میں اعلانیہ ہجرت کررہاہوں، ہے کوئی جو اپنے بچوں کو یتیم اور بیگم کو بیوہ بنائے؟۔ ابوجہل جیسوں کے دروازوں تک پر دستک دی تھی۔

قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ وماقدروا اللہ حق قدرہ ” اورا نہوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جیسے اس کی قدر کا حق تھا”۔ بنی اسرائیل پر بیشمار نعمتیں اللہ کی طرف سے کی گئیں لیکن وہ ان نعمتوں کی قدر نہیں کرسکے۔ انبیاء کرام کی بعثت سے فرعونوں کے ظلم سے بچایا۔ معاشرے میں امن وامان کی نعمت سب سے بڑی دولت ہے۔ مشرکینِ مکہ میں جب اپنی فطری اقدار کا توازن بگڑ گیا تو سب سے پہلے حلف الفضول کے ذریعے ان کو بحال کرنے کی کوشش کی۔ پھر نبیۖ کے ذریعے پہلے آزمائش کا شکار کیا اور پھر خوف کے بعد امن کا تحفہ دے دیا تھا۔ اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ ظلم کی حکومت میں اللہ نے حضرت ابراہیم اور حضرت موسٰی کے ذریعے نمرود اور فرعون کا مقابلہ کیا۔اور حضرت یوسف کے ذریعے مصر کے بادشاہ اور عزیز مصر کی اصلاح فرمائی۔رسول اللہۖ کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہے اور قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے۔

ہماری ریاست پہلے بھی امریکہ کی بادل ناخواستہ حمایت اور دہشتگردی کے ماحول کا سامنا کرچکی ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے پرویزمشرف کی طرف سےIMFسے جان چھڑانے کے بعد پھر اس دلدل میں خود کو آہستہ آہستہ پھنسادیا۔ پرویزمشرف نے6ارب ڈالر کا سودی قرضہ لیا تھا۔ زرداری نے16ارب ڈالر تک پہنچادیا۔ نوازشریف نے چین کے سی پیک کی مد میں اتنا پیسہ لیا تھا کہ اگر وہ چاہتا توIMFکا قرضہ مزید بڑھنے نہیں دیتا لیکن چھوٹے میاں تو چھوٹے میاں بڑے میاں سبحان اللہ شہبازشریف اور میاں نوازشریف نے پنجاب حکومت اور پاکستان کی مرکزی حکومت کو سودی قرضوں میں غرق کردیا۔IMFکے قرضے کو بھی30ارب ڈالرتک پہنچایا۔ عمران خان نے کہا تھا کہ مرجاؤنگامگرIMFسے قرضہ نہیں لوں گا۔ پھر موت کے کنویں میںموٹر سائیکل پر چکر لگاکر ساڑھے تین سالوں میں قرضہ48ارب ڈالر تک پہنچادیا۔ اتنی بڑی دلدل میں پھنسنے کے بعدیہ کہنا کہ ”ہمیں غلامی قبول نہیں ہے” اس سے بڑی حماقت کیا ہوسکتی ہے؟۔
امریکہ نے افغا.نستان اُسامہ کی تلاش میں تباہ کیا تھا، پھر عراق پر جھوٹے الزامات لگاکر حملہ کیا اور عراق کی مقامی عدالت کے مقامی جج سے صدام حسین کو پھانسی کے پھندے پر چڑھا دیا۔ لیبیا پر بھی اٹیک کیا اور عراق ولیبیا کا تیل لوٹ کر لے گیا۔ خیبر پختونخواہ کی زمین میں بہت ذخائر ہیں۔ اگر پختونخواہ ہی میں ایسے مل لگ جائیں کہ چین خام مال منتقل نہیں کرنا پڑے تو پورا پاکستان اس کے ذریعے خوشحال ہوسکتا ہے اور خیبر پختونخواہ بھی جنت کی نظیر بن سکتا ہے۔ مولوی اور فوجی طبقہ جتنی زیادہ مشقت بھی اٹھاتا ہے لیکن ان کی قربانیاں ان کی کم عقلی اور مفاد پرستی کی وجہ سے ہی رائیگاں جاتی ہیں۔

افغا.نستان کے طا.لبان اور پاکستان کے حکمران مشترکہ طور پر ایک خلیفہ کی بیعت اور نامزدگی کا اعلان کردیں جو کھلے عام خلافت کا فریضہ اور شریعت کے نفاذ کیلئے لوگوں میں تبلیغ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اس سے معاشرے کی فضاء اسلامی حوالے سے بہت بہتر ہوجائے گی۔ اگر امریکہ ڈرون سے اس کو نشانہ بھی بنالے تو مسئلہ نہیں دوسرا نامزد کردیں۔ اس طرح بیس افراد کی قربانی ہوجائے تو اکیسواں فرد خلافت کے قیام اور فریضے میں کامیاب بھی ہوسکتا ہے۔ بیعت کیلئے بہت لوگ بھی تیار ہوجائیں گے۔ جب میدان جنگ میں سپہ سالار جھنڈے بھی گرنے نہیں دیتے تھے تو مسلمان خلیفہ کی نامزدگی کے فریضے کیلئے قربانی کیوں نہ دیںگے؟۔ خلیفہ اعلان کرے کہ ہم مکی دور میں ہیں، ہم نے مزاحمت نہیں کرنی ہے توامریکہ کتنے ڈرون مار کر کتنوں کو شہادت کے منصب پر سرفراز کرے گا؟۔
شہادت ہے مطلوب ومقصود مؤمن
اقتدار کی خرمستیاں اور نہ کشورکشائی

پاک فوج کے اعلیٰ افسران شہید ہوگئے لیکن قوم کو کچھ نہیں ہوا۔ غم میں برابر کی شرکت ضروری تھی،اگر مریم نواز کو حادثہ پیش آتا تو قوم میں بھونچال پیدا کیا جاتا؟۔ بینظیر بھٹو کی شہادت پر سندھ کھپے کا نعرہ لگانا واقعی بہت ضروری تھا۔ ہم تو کرایہ کے بھاڑے سے اب لیڈر شپ پیدا کرنے اور ختم کرنے کے چکر میں ہی رہتے ہیں، پنجاب میں میت پر بین بجانے کیلئے کرائے کی عورتیں دستیاب ہوا کرتی تھیں اور اب ہماری بعض سیاسی پارٹیوں نے بھاڑے کے صحافیوں کو کردار سونپ دیا ہے۔ بدمعاشی اور زبردستی مسلط ہونے کے جذبات الگ ہیں۔

خلیفہ کی بیعت کے بعد خلیفہ قوم میں حقیقی جمہوری اقدار کیلئے راستہ ہموار کرے۔ کوئی بھی مسجد کا امام یا کوئی اچھے لوگ اپنی بیٹھک سے ابتداء کریں اور کسی کے ہاتھ پر بیعت کریں کہ ہم جھوٹ نہیں بولیںگے۔ اقتدار کیلئے اپناعہدہ طلب نہیں کریںگے۔ طاقت اور مال کمانے کے چکر میں اس بیعت سے نہیں پھریںگے۔ کسی پر بہتان نہیں باندھیں گے۔ گالیاں نہیں دیں گے۔ حرام خوری نہیں کریںگے۔ اچھائی پر تعاون اور برائی سے عدم تعاون کے پابند ہوں گے۔ اسی کی باتوں پر بیعت لینے کے بعد کثرت رائے اور ووٹ سے کسی کو امیر مقرر کریں گے۔ پھر یہ سلسلہ یونین کونسل، ڈسٹرکٹ کونسل ، صوبائی اور قومی اسمبلی کی حدوں تک بڑھائیں اور عوام کے اندر سے قیادتوں کو ابھار کر مضبوط بنائیںگے تو حقیقی جمہوریت کا راستہ بھی ہموار ہوجائے گا اور اقتدار کے مروجہ طریقے پر بھی کوئی اثر نہیں آئے گا لیکن عوام کی حقیقی رائے سے نہ صرف اصل قیادت سامنے آئے گی بلکہ لیڈر شپ کی غلط وکالت اور اخلاق باختہ رویوں کا بھی خاتمہ ہوگا۔

آسمان سے اصلاح کیلئے فرشتہ نہیں آئے گا۔ قوم کے اچھے لوگوں نے ہی اس سیلاب کا راستہ روکنا ہے جسکے عوام وخواص ، غریب وامیر اور کمزوروطاقتور سبھی شکار ہورہے ہیں۔ ورنہCIAاورIMFخطے کو جنگ وجدل کا میدان پھر سے بنادیں گے اور اس مرتبہ پنجاب اور سندھ کے علاوہ ریاست اور حکمرانوں کا بھی پتہ صاف ہوجائے گا۔ حضرت یوسف نے انتہائی حکمت عملی کیساتھ مصر کی حکومت کو قحط سالی اور غریبوں کو ظلم سے بچانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ آج ہم ریاست اور امریکہ سے لڑے بغیر اس خطے کو معاشی مشکلات سے نکال لیں تو یہ بڑی کامیابی ہوگی۔ محسود جیسی عظیم قوم پوری دنیا میں کہیں بھی آج نہیں ہے اسکے اقدار کو طا.لبان اور ہماری ریاست نے تباہ کردیا لیکن اس میں ان کی اپنی غلطیوں کا بھی بڑا عمل دخل تھا۔ ان غلطیوں کو نہ دوہرانے کا عزم ہی انقلاب اور ہمارے معاشرے کی اصلاح کیلئے عظمت کی بہترین بنیادیں فراہم کرتا ہے۔

ایک طرف خلیفہ کی بیعت اور دوسری طرف دنیا کے جمہوری نظام سے وابستگی اور جمہوری طریقے سے اقتدار کا قیام امت مسلمہ کے ممکنہ مفادات میں سب سے بڑا مفاد نظر آتا ہے۔ شرعی خلیفہ کی تقرری کے بعد دہشت .گردی کی بنیاد پر انقلاب کا راستہ نہیں اپنایا جائے گااور جمہوریت سے مطلق العنان بادشاہت کا تصور ختم ہوگا۔ خلافت عثمانیہ بھی خاندانی لیڈر شپ تھی اور اس کے زیر سایہ مغلیہ سلطنت بھی خونی ڈکٹیٹر شپ تھی۔ اورنگزیب بادشاہ نے اپنے بھائیوں کو قتل اور باپ کو قید کیا اور فتاویٰ عالمگیری میں یہ دستور لکھوادیا تھاکہ ”بادشاہ پر قتل، چوری ، زنا وغیرہ کی حد نہیں لگے گی”۔جبری حکومتیں خلافت کیلئے مقدمہ ہیں ۔ خلافت راشدہ کے بعد امارت وبادشاہت کے ادوار تھے۔ جبابرہ عربی میں ہڈی جوڑنے کی پٹی کو کہتے ہیں۔ جمہوریت اور جبری حکومتوں میں بھی عدالت کے ذریعہ انصاف نہیں ملتا ہے لیکن مرہم پٹی کردی جاتی ہے۔ احادیث میں جبری حکومتوں کے آخر میں ایک خلیفہ کو جابر کے نام سے یاد کیا گیا ہے اور یہ اس کا لقب بھی ہوسکتا ہے اور اس لقب کی وجہ جبری طرز عمل کی جگہ مرہم پٹی کے کام والا لگتا ہے۔ جس کے بعد دوسرے کئی ناموں کا ذکر ہے۔ عربی میں ایک سوشل میڈیا کا چینل اسلام ایچ ڈی (ISLAM HD)کے نام سے ہے اس میں مہدی آخری امیر سے قبل کئی خلفاء اور ادوار اور درمیان میں مختلف فتنوں کا ذکر ہے۔

آخر میں محسود قوم کیلئے وزیرستان کی پشتو زبان میں کچھ اشعار ہدیہ ہیں۔
اوال خالقے ویل چے ماسید قوم ڈیر لابا غڑائی دائی
ویس ویائی چے نن ماسید قوم ڈیر بے غڑائی دائی
پہ ژواندی کشے دائی ژوان دائی او پہ مڑکشے دائی مڑائی دائی
پارین پہ دنیا کشے لاکا غاٹ مانگور او نن دائی پڑائی دائی
ڈیر ہشیور دی دے غیرت نہ ڈاک یونیم سرغنڑائی دائی
شہ خلق او عالمون یے مڑہ کڑل چہ بے غیریاتا چھنڑائی دائی
1: پہلے لوگ کہتے تھے کہ محسود قوم بہت جلد باز اور ایمرجنسی والی ہے۔
2: اب لوگ کہتے ہیں کہ محسود قوم کے اعصاب بہت ڈھیلے ہوگئے ہیں۔
3: زندوں میں اب یہ زندہ ہیں اور مردوں میں اب یہ مرے ہوئے ہیں۔
4: کل دنیا میں ان کی حیثیت بڑے سانپ کی اور آج یہ رسی بنے ہیں۔
5: بہت ہوشیار ہیں اور غیرت سے بھرپور لیکن ایک آدھ بے ننگ ہے۔
6: اچھے لوگوں کو اور علماء کو قتل کردیا یہ کیسے بے غیرت طا.لبان ہیں۔
امریکہ نے ایک نمبر القا.عدہ اور دو نمبر القا.عدہ ، گڈ طا.لبان اور بیڈ طا.لبان کے درمیان اپنی پالیسیاں چلائیں۔ پاکستان میں سرنڈر طا.لبان اور باغی طا.لبان کا بڑا کردار رہا۔ جب لوگوں کو دبانے کیلئے سرنڈر طا.لبان نے بھی اپنا کردار ادا کیا تو باغی طا.لبان کا ان پر کتنا خوف ہوگا؟۔ مٹہ سوات میں بھی طا.لبان کی رٹ قائم ہونے کی خبریں ہیں اوراب وزیرستان میں بھی مہمان طا.لبان کو ٹھہرانے کی اجازت ملنے کی اطلاعات ہیں۔طا.لبان کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جنہوںنے بہت خلوص کے ساتھ امریکہ کے خلاف جہا.د کرکے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ اور دوسرے وہ لوگ ہیں جنہوں نے طا.لبان کے لبادے میں جرائم پیشہ عناصر کا بڑا کردار ادا کیا ہے۔ عوام کو دونوں کے درمیان فرق و امتیاز کا کوئی پتہ نہیں ۔ اسلئے بہتر ہے کہ اچھے اور باکردار طا.لبان اپنے سے بیکار اور بدکردار طا.لبان کو الگ کردیں۔ جب خشک لکڑیوں کو آگ لگتی ہے تو گیلے درخت بھی اس کے ساتھ جل جاتے ہیں۔ موت تک اللہ تعالیٰ توبہ کا دروازہ بند نہیں کرتا۔ جو لوگ مظالم کے مرتکب رہ چکے ہیں وہ خود ہی اپنے جرموں کی سزا کیلئے قوم و ملک کے سامنے خود کو پیش کریں۔ پاکستانی قوم اور پاکستانی ریاست ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں اور دونوں ایک دوسرے سے جدا اور الگ تھلگ نہیں ہیں۔ جب اسلامی احکام کی اصلاحات قوم و ملک کے سامنے پیش ہوں گی تو نہ صرف پاکستان کی ریاست بلکہ پوری دنیا کے تمام ممالک اس کا استقبال کریں گے۔ شیطانی قوتوں کی سب سے بڑی چاہت یہ تھی کہ اس خطے میں رہنے والی تمام قوموں کو اس حال پر پہنچایا جائے کہ کسی میں سر اٹھاکر جینے کی ہمت نہ ہو اور اس کیلئے سب سے زیادہ جانے یا انجانے میں طا.لبان دہشت گرد استعمال ہوئے ہیں۔ آج لوگوں کو ان سے کئی طرح کی نفرتیں ہیں لیکن اچھے کردار سے یہ محبت میں تبدیل ہوسکتی ہیں۔

 

واقعہ کربلا کو سمجھنے کیلئے آج کے شیعہ کوفی اور یزیدی سنی کا ایک آئینہ

واقعہ کربلا کو سمجھنے کیلئے آج کے شیعہ کوفی اور یزیدی سنی کا ایک آئینہ

جب قرآن کی حفاظت اور سورۂ نور کی روشنی کیخلاف آج کی مجلس میں شیعہ سنی بھیگی بلیاں بن جائیں تو کربلا کا واقعہ بھی سمجھ سکتے ہیں!

پنجابی خطیبوں پر پیسے نچھاور کرتے ہیں، اسلئے محفل لوٹنے کی کہاوت ہے، اگر پنجاب ہوتا تو مجلس لوٹنے کا قرعہ میرے ہی نام نکل آتا

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
صحابہ کرام و اہل بیت عظام کے نام سے شیعہ سنی کے اختلافات مشہور ہیں، ان میں بنیادی اختلاف قرآن کے لفظی اور معنوی تحریف پرہے۔ دیوبندی مکتب کے قاضی عبدالکریم کلاچی نے اکوڑہ خٹک کے مفتی اعظم مفتی فرید کوخط لکھا کہ ”دارالعلوم دیوبند کے علامہ انور شاہ کشمیری کی ”فیض الباری شرح بخاری” میں ہے کہ” قرآن میں معنوی تحریف تو بہت ہوئی ہے مگر لفظی تحریف بھی ہوئی ہے یا تو جان بوجھ کر کی ہے یا مغالطے سے” ۔اس عبارت میں قرآن کی تحریف کی نسبت کفا.ر کی طرف نہیں ہوسکتی ۔ صحابہ کی طرف قرآن کی تحریف کی نسبت پر میرے پیروں سے زمین نکل گئی اور سر چکرا گیا ”۔ مفتی فرید نے جواب میں لکھا کہ ” فیض الباری علامہ انور شاہ کشمیری کی تقریر نقل کرنے والے نے لکھی ہے”۔

مفتی زر ولی خان نے مجھ سے بالمشافہہ ملاقات میں کہاتھا کہ علامہ انورشاہ کشمیری نے قرآن کی لفظی تحریف کی بات نہیں کہی۔ بیماری کی وجہ سے زیادہ بحث کرنامناسب نہیں تھااور آئندہ نشست کیلئے وقت مانگا تو فرمایا کہ ” چشم ما روشن دل ماشاد،علمی نکات پر بحث کیلئے جب چاہیں آئیں” ۔انکا چند دنوں بعد انتقال ہوا ۔ بریلوی علامہ غلام رسول سعیدی نے اپنی تفسیر ”تبیان القرآن” میں لکھا کہ ”دارالعلوم کراچی کورنگی سے شیخ انورشاہ کشمیری کا حوالہ دئیے بغیر فتویٰ لیا تو اس پر کفر. کا فتویٰ لگا دیا گیا ہے”۔ میں نے اپنی کتاب ”آتش فشاں” اور ” ابر رحمت ” وغیرہ کے علاوہ اپنے اخبار ضرب حق اور نوشتۂ دیوار میں اس موضوع پر بہت کچھ لکھاہے اور علماء کرام سے اپنی گزارشات کی ہیں۔ مولانا محمد خان شیرانی جب اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین تھے تو قصر ناز کراچی میں مولانا شیرانی، مولانا عطاء الرحمن اور قاری محمد عثمان سے بھی اس موضوع پر بات ہوئی تھی۔

شیعہ پر پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش کے بڑے مدارس نے کفر. کا فتویٰ لگایا ۔ مولانا محمد منظور نعمانی نے االاستفتاء میں تحریف قرآن کے عقیدے کا تفصیل سے ذکر کیا جس کا جواب جامعہ العلوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی نے دیا۔ جس پر بڑی تعداد میں مشہورمدارس کے تائیدی دستخط ہیں۔ سپاہ .صحابہ کے علماء اور جوانوں نے قربانیاں دیں۔ مولانا حق نواز جھنگوی شہید جمعیت علماء اسلام ف پنجاب کے نائب صوبائی امیر تھے۔جمعیت کے پلیٹ فارم سے شیعہ کا.فر کا نعرہ نہیں لگاتے تھے۔ متحدہ مجلس عمل کو شیعہ سنی اتحاد کی ضرورت پڑی تو جامعہ العلوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی سے اتحاد کا فتویٰ لکھنے والے مفتی شاہ فیصل برکی تھے جو ہمارے شہر کانیگرم شہر جنوبی وزیرستان کے ہیں۔ میں نے فتوے پراخبار میں تبصرہ کیا تھا اور اس پر مفتی شاہ فیصل برکی بات کرنے کیلئے میرے پاس کبیر پبلک اکیڈمی جٹہ قلعہ علاقہ گومل ضلع وتحصیل ٹانک ڈیرہ اسماعیل خان تشریف لائے تھے لیکن دو رنگی پر مجھے مطمئن کرنے کی کوشش میں وہ ناکام ہوئے تھے۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں ہمارا سپاہ .صحابہ سے پھڈا ہواتھا تو انکے پیچھے دیگر علماء اور جماعتوں کا کردار تھا۔ سپاہ صحابہ والے نے پوچھا کہ شیعہ کا.فر ہیں یا نہیں؟۔ میں نے پوچھا، کیوں؟۔ اس نے کہا کہ وہ تحریفِ قرآن کے قائل ہیں!۔ میں نے کہا کہ قرآن کی تحریف کا قائل سنی ہو تو وہ بھی کا.فر ہے۔ طے یہ ہوا کہ دیوبندی مکتب ڈیرہ اسماعیل خان و ٹانک کے اکابر علماء کی میٹنگ ہوگی ۔پھر ایسی فضاء بنادی گئی کہ حکومت نے مولانا عبدالرؤف امیر جمعیت علماء اسلام ضلع ٹانک اور سرپرست اعلیٰ مولانا فتح خان پر دوماہ تک ڈیرہ اسماعیل خان آمدپر پابندی لگادی اور16MPOکے تحت میری گرفتاری کا حکم جاری کردیا۔ یہ الگ داستان ہے اور پھر قاضی عبدالکریم کلاچی نے اپنے مولانا شیخ محمد شفیع کو خط لکھ دیا کہ ” جس شخص عتیق گیلانی کی آپ تحریری اور جلسۂ عام میں حمایت کرتے ہیں اسکے متعلق مہدی کی بات مسئلہ نہیں ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ امت کا اجماع ہے کہ شیعہ کا.فر ہیں اور اس اجماع کا یہ شخص قائل نہیں اور اجماع کا انکار گمراہی ہے۔ جمعیت علماء اسلام ف کے اکابر علماء اگر اس کی تائید کرتے ہیں تو یہ لوگ قادیانیوں کا بھی استقبال کریںگے۔ مجھے اپنے شاگرد ہونے کے ناطے آپ سے گلہ ہے۔ جس کے جواب میں شیخ مولانا محمدشفیع نے میری حمایت جاری رکھنے کا اعلان کیا لیکن جن پر قاد.یانیت کے استقبال کا فتویٰ لگایا وہ خط پر بھی فتوے کی طرح ”الجواب صحیح ” لکھ کر دستخط کرچکے تھے۔قاضی عبدالکریم کیخلاف میری حمایت میں مولانا عبدالرؤف نے لکھا کہ ” اپنی بھونڈی حرکتیں چھوڑ دو” اور پھر قاضی صاحب مولانا عبدالرؤف سے معافی مانگنے انکے پاس پہنچ گیاکہ ہمارایہ فتویٰ غلط تھا۔

میں نے جواب میں لکھ دیا تھا کہ ” آپ کے اپنے بھائی قاضی عبداللطیف ملی یکجہتی کونسل کے صوبائی امیر ہیں۔ جس کا شیعہ سے معاہدہ ہے کہ ایکدوسرے کی تکفیر نہیں کریںگے اسلئے پہلا نشانہ اپنا بھائی ہے اور حرم کے حدود میں کا.فر کا داخلہ ممنوع ہے اسلئے سعودی عرب کے حکمرانوں پر بھی یہ فتوی لگتاہے”۔

علامہ عابد حسین شاکری نے یہ وضاحت کی کہ ”ہم تحریف قرآن کے قائل نہیں اور جو تحریفِ قرآن کا قائل ہے وہ کا.فر ہے” ۔جب میں نے واضح کردیا کہ تم عام محفلوں میں کچھ مؤقف اور مدارس کے ماحول میں کچھ اور مؤقف پیش کرتے ہو۔مولانا سلیم اللہ خان کا حوالہ بھی دیااور درس نظامی میں اس سے زیادہ وضاحت کیساتھ قرآن کی تعریف میں تحریف کا عقیدہ پڑھایا جاتاہے جہاں ”المکتوب فی المصاحف سے مراد لکھی ہوئی کتاب نہیںبلکہ یہ نقش کلام ہے اور اس پر حلف بھی نہیں ہوتا المنقول عنہ نقلًا متواترًا سے غیر متواتر آیات نکل گئیں جن میں خبراحاد اور خبر مشہور کی آیات ہیں اور بلاشبة سے بسم اللہ نکل گئی اسلئے کہ درست بات یہی ہے کہ بسم اللہ قرآن کا جزء ہے لیکن اس میں شبہ ہے”۔

ابن ماجہ میں ہے کہ رجم اور رضاعت کبیر کی دس آیات رسول اللہۖ کے وصال کے وقت بکری کے کھا جانے سے ضائع ہوگئیں۔ بخاری میں ہے عبداللہ بن مسعود ناراض تھے کہ جمع قرآن میں ان کوکیوں شریک نہیں کیا گیا؟۔ حقائق کی روشنی میں جامع مسجد درویش صدر پشاور ، اہلحدیث ،قاری روح اللہ سابق صوبائی وزیر مذہبی اموراور مولانا نورالحق قادری سابق وفاقی وزیرمذہبی امور وغیرہ سب کو دعوت دیتا ہوں کہ تحریف قرآن کے مسئلے پر اکٹھے ہوجائیں اور مجھے بھی دعوت دیںاور قرآن کے واضح احکام کی طرف رجوع کے مسئلے پر نشست رکھیں اور احکامِ قرآن کے واضح مسائل اور عظمت قرآن سے لوگوں کومتفقہ آگاہ کریں۔

شیعہ سنی اس پر الجھتے ہیں کہ کس نے امام حسین کیساتھ دھوکہ کیا اور کس نے امام حسین کو شہید کیا لیکن اس نشست سے شیعہ سنی نے یہ ثابت کیا کہ قرآن کے حقائق کی روشنی میں طاغوت کے خلاف دونوں نے اکٹھا نہیں ہونا ہے بلکہ اپنے پیٹ اور اپنی جیب بھرنے سے ہی ان کا سروکار ہے اور بس!۔شیعہ سنی کے تمام شدت پسندوں کو یہ کھلا پیغام ہے کہ جذباتی پن کا نقصان دونوں طرف کے مخلص لوگوں اور بے گناہ عوام کو ہی پہنچتاہے۔ شیعہ اقلیت کی وجہ سے پاکستان کی سر زمین پر تقیہ اختیار کرتے ہیں اور سنی اکثریت کی وجہ سے بدمعاشی پر اترتے ہیں۔ بنوامیہ ، بنوعباس اور سلطنت عثمانیہ کے ادوار میں بھی یہ کھیل جاری رہاہے لیکن جب افہام وتفہیم سے مسائل حل ہوجائیںگے تو پاکستان کی سرزمین سے طرزِ نبوت کی خلافت کے قیام میں بالکل بھی کوئی دیر نہیں لگے گی۔ اور مجھے یقین ہے کہ شیعہ بھی دلائل کی بنیاد پر اپنے غلط عقائد سے دستبردار ہوں گے۔

اگر قرآن کانفرنس میں سنی شیعہ علماء میں تھوڑی سی بھی ایمانی غیرت ہوتی تو کھل کر میری حمایت کرتے لیکن جس طرح میڈیا میں میچ فکس ہوتے ہیں، اسی طرح علماء ومفتیان کی مجالس میں بھی میچ فکس ہوتے ہیں۔ قوم پرستوں پر قومی میڈیا میں غیر اعلانیہ پابندی ہے لیکن ان کوBBCاوروائس آف امریکہ پر بڑی کوریج ملتی ہے۔ ہم حقیقی اسلام اور انسانیت کے درست نظام کی بات کرتے ہیں اسلئے فیس بک بھی ہماری محنتوں پر پانی پھیرتا ہے ۔BBC، وائس آف امریکہ اور قومی میڈیا میں ہم پر غیراعلانیہ پابندی لگائی گئی ہے۔ یہی حال سبھی کا دِکھتاہے۔

شیعہ کوفی +یزیدی سنی
کوفے کا پشاور میں جب منظر دیکھا
کربلا کے آئینے میں تب شمر دیکھا
دربار میں حسین کا کٹا سر دیکھا
امام باڑے میں یزید کا خنجر دیکھا
ضربِ حق سے باطل کو کھنڈر دیکھا
رونق میں بھی فضا کو بنجر دیکھا
سورۂ نور سے شریروں کا ڈر دیکھا
خرقہ پوش ایک ایک گداگر دیکھا
بڑے بڑوں کو پسینے میں تر دیکھا
کھدڑوں کو اچھا نہ لگا کہ نر دیکھا
بھیڑ بھیڑئیے کا نکاح سرِمنبر دیکھا
لگڑ بھگوں میں دھاڑتا شیر ببر دیکھا
مردہ ضمیروں کا مندر دیکھا
سبطِ حسن کا بڑا جگر دیکھا
شیعہ سنی اکابر کا اللہ اکبر دیکھا
حسین سے عمرسعد کو معتبر دیکھا
قرآن اور راہِ حق سے مفر دیکھا
سنی شیعہ کو خلاف حق برابر دیکھا
قرآن سے کھلے عام ہجر دیکھا
پیٹ پوجا کا بس بڑا لنگر دیکھا
ایمان اسلام سے کھلا غدر دیکھا
فرقہ پرستوں کا پورا ٹبر دیکھا
رسول ۖ کو صادق مخبر دیکھا
آسماں تلے ائمہ مساجد کو بدتر دیکھا
فتنہ فروش خناس کا جبر دیکھا
مذہبی لباس میں زباں کا شر دیکھا
عوام کو حقائق سے بے خبر دیکھا
بھیس بدلے ابلیس کو مضطر دیکھا
ڈھینچو ڈھینچو کرتا ہوا خر دیکھا
دیوبند بریلی وہابی شیعہ لشکر دیکھا

اسلام کے نام پر مرغن کھانے اور لفافے وصول کرنے والے کچھ تو قربانی دے دیں۔

اسلام کے نام پر مرغن کھانے اور لفافے وصول کرنے والے کچھ تو قربانی دے دیں۔

جہادِ ہند کے خواہشمند قرآن کی واضح تعلیم کا ایک ائیرکنڈیشنل ہال میں ساتھ نہیں دے سکے تو کیا قتا.ل وجہا.د کیلئے اپنے آپ کو قربان کرنے کیلئے پیش کرنا اتنا آسان ہوگا؟۔ ذرا سوچئے تو سہی

اللہ تعالیٰ نے قرآن کو نازل کیا اور میزان کو بنایا۔ انسانیت میں میزان کی فطرت موجود ہے اور قرآن ومیزان کی باہمی مطابقت سے آج عالم انسانیت میں بہت بڑا اسلامی انقلاب برپا ہوسکتاہے!

پشاور کانفرنس میں شریک نہ ہوسکنے والے عالم دین پیر طریقت جے یوآئی کے رہنما نے شاہ وزیر کو بتایا کہ شاکری صاحب ایران کا پیسہ خود کھا جاتے ہیں اور ہمیںچند ہزار کا لفافہ تھماتے ہیں

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
سنی وشیعہ مکاتبِ فکر حقیقت ہیں۔ محترم قبلہ ایاز چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل، مولانا نورالحق قادری ، علامہ عابد حسین شاکری و دیگرحضرات کی جرأت وہمت کو سلام پیش کرتے ہیں۔ اس فورم پر شرکت شدت پسندی کے خلاف عدل واعتدال اور شرافت کی دلیل ہے ۔ یہ حضرات پشاوردارالخلافہ خیبرپختونخواہ کی مقدس زمین پر ہدایت کے ستارے ہیںاور انکے دَم سے امن وامان ہے لیکن
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں

حسنات الابرار سیئات المقربین ”نیک لوگوں کی اچھائیاں مقربین کی برائیاں ہوتی ہیں”۔ مقرب لوگوں کو مخالفین کیساتھ شریکِ جرم تصورکیاجاتا ہے۔ اس مارا ماری کا علاج یہ نہیں ہے کہ اپنے اورپرائے عقائدونظریات کے جرائم پر پردہ ڈالا جائے بلکہ سب سے پہلے اپنی کمزوریوں کا اعتراف کیا جائے اور دوسرے کو بھی اچھے انداز میں آئینہ دکھایا جائے۔ ان کمزوریوں کو اجاگر کرنے کے نتیجے میں نہ صرف اپنی اصلاح ہوگی بلکہ شدت پسندی کا خاتمہ بھی ہوسکے گا۔

میں نے اس کا نفرنس میں دو بنیادی نکات کو اٹھایا۔ ایک قرآن کی حفاظت اور دوسرا ہندو عورت کی گستاخی کے حوالے سے سورۂ نور کے ذریعے سے دنیا میں ازل سے ابد تک مساوات کا ایک اعلیٰ ترین اور سب کیلئے قابل قبول قانون۔ میں نے جو عرض کیا وہ اس شمارے میں وضاحت سے شامل ہے۔ میری تائید کی جگہ بھرپور مخالفت کی فضاء قائم کرنے کی کوشش کی گئی۔ مقصود سلفی کو چاہیے تھا کہ اعلان کرتا کہ قرآن کی حفاظت کیخلاف اگر احادیث ہیں تو سب سے پہلے ہم اہلحدیث انکے انکار کرنے کااعلان کرتے ہیں۔ ایک کمیٹی تشکیل دیتے ہیں تاکہ انکا پوسٹ مارٹم کیا جاتا۔منتظم احسان اللہ محسنی نے ہندو عورت کی مذمت کا اعلان کچھ اس انداز سے کیا کہ گویا میری وجہ سے یہ مجلس شریکِ جرم نہ بن جائے۔ دلیل کی بات کا جواب دلیل سے دینا چاہیے اور جب شیعہ پر اپنی مجالس میں غلط خوف قائم ہو تو وہ ائمہ اہل بیت پر کوئی درست مؤقف نہیں پیش کرسکتے ہیں۔ درویش مسجد کے مولانا نے قرآن کی حفاظت کے مسئلے کو کسی کی ذاتی تحقیق تک قابلِ گرفت نہیں سمجھا لیکن یہ ذاتی تحقیق کا مسئلہ نہیں۔ اس پر درسِ نظامی میں پڑھایا جانے والا قابلِ گرفت نصاب ہے۔ سورۂ نور کے ذریعے پہلے انقلاب آیا تھااور آج بھی طاغوتی نظام کا خاتمہ سورۂ نور کی مساوات کے نظام سے ہوگا لیکن اس کیلئے مردانہ جرأت وہمت اور پرزور انداز میں ابلاغِ عامہ ضروری ہے۔

اہل تشیع نے اپنے جامعہ شہید پشاور کی ویب سائٹ پر کانفرنس کی مجھ سمیت بہت سی تقاریر کو دینے میں عار محسوس کی۔ علامہ عابد حسین شاکری جرأت کا مظاہرہ کریں اور تمام تقاریر ویب سائٹ پر دیں۔ شیعہ سنی جراتمندانہ تقاریر یا تعصبات کا جائزہ لیںگے تو فرقہ واریت کی آکاس بیل سے اُمت مسلمہ کی جان چھوٹ جائے گی۔ کربلا کے واقعہ میں ویڈیو نہیں تھی لیکن آج ایک نعمت اللہ نے عطاء کی ہے اور اس کا فائدہ اٹھانے کیلئے ہم سب کو بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔

حضرت علی نے دارالخلافہ مدینہ سے کوفہ منتقل کیا۔ کوفہ میں شیعان علی تھے۔ امام حسین مدینہ میں تھے۔ کوفیوں نے خطوط لکھ کر بلایا تھا، جب حالات بدل گئے توانہوں نے آنکھیں پھیر لیں۔ حضرت سعد بن ابی وقاص کا بیٹا عمر سعد لشکرِیزید کا قائدتھا۔ امام حسین نے عمر سعد سے کہا تھا کہ انعام واکرام کے چکر میں شہید کردوگے تواپنی آخرت کیساتھ دنیا میں بھی انعام سے محروم ہوگے۔ جب حسین کو شہید کرکے یزید کے دربار میں امام حسین کے سر کو پیش کیا گیا تو یزید نے انعام کے بجائے ڈانٹا۔ حسین کے سرکویزید نے مخاطب کیا کہ ”اگر آپ میرے مقابل نہ نکلتے تو اس انجام کو نہ پہنچتے ”اور اپنی تلوار سے آپ کے دانت بھی کٹکٹائے۔

تاریخی واقعات پر اتفاق اور تضادات ہیں لیکن کوئی یہ بات سمجھنے کیلئے تیار نہیں کہ اس دور میں مسلمانوں نے اس طرح کھل کر حق کی مخالفت کیسے کی تھی؟۔ آج ایک طرف د.ہشتگردوں کے مظالم اور دوسری طرف شیعہ کی دعوت پر عظمتِ قرآن کانفرنس کے آئینے میں تاریخی حقائق سمجھنے کی ضرورت ہے۔شاعرنے کہا:

جراحات السنان لہا التیام ولایلتام ما جرح اللسان
” تلواروں کے زخم کیلئے مرہم ہوتا ہے مگرزبان کے زخم کا مرہم نہیں ہوتا”۔ اس کانفرنس میں سامعین سے داد وتحسین لے سکتا تھا لیکن نرم ونازک لوگوں کو مشکلات کی گھاٹیوں میں دھکیلنے کیلئے جان بوجھ کراس موضوع کا انتخاب کیا جس سے خرقہ پوشوں میںایمان کا بجھتا دیا جلے۔ انقلابی انسان کو بلبل کے ترانے اور کوئل کے راگ سے زیادہ دلچسپی قومی مفادسے ہوتی ہے جس سے اجتماعی زندگی کا گہرا تعلق ہے۔ عالمی طاقتیں شیعہ سنی کو لڑانے اور نابود کرنے کے چکر میں ہیں اور اس حال میں ہمارے لئے مشکل فیصلے کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں۔ قرآن مردہ ضمیرفرقہ فروشوں کی شجرہ خبیثہ پر اکاس بیل نہیں ڈالتاہے بلکہ دنیا میں شجرہ طیبہ کے پھلدار درخت کے ذریعے انسانوں کو حیاتِ نو فراہم کرتاہے۔

اسلام کو کفار نہیں مسلمانوں سے خطرہ ہے۔ قرآن کہتاہے کہ دوسروں کے خداؤں کو برا بھلا مت کہو،پھر وہ تمہارے الٰہ برحق کو برا بھلا کہیں گے۔ جب ایک مسلمان نے ایک ہندو عورت کے سامنے اسکے مذہب کی توہین کی تو اس نے جواب میں کہا کہ ” میرا منہ مت کھلواؤ۔6سال کی عمر میں نکاح اور9سال کی عمر میں شادی کی بات جانتی ہوں”۔ جب میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے توہین رسالت کا جذبہ ابھارا گیا تو بھارت میں مسلمانوں نے احتجاج شروع کردیا۔ اس عورت کو حکمران جماعت نے اپنی پارٹی سے نکال دیا، اس کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ عورت نے کہا کہ اگر اس بات کی سزا سرتن سے جدا ہو توپھر ڈاکٹر ذاکر نائیک نے بھی یہ بات کی اس کو بھی سزا دی جائے۔ مسلمانوں کا احتجاج جاری رہا تو حکومت نے ان کی سخت مار پیٹ کی۔ انکے گھر گرائے اور احتجاج پر قابو پالیا۔ مغرب اور دنیا بھر کے طاقتور ممالک مسلمانوں کے بارے میں تحفظات رکھتے ہیں اور اب حال ہی میں القاعدہ نے ہندوستان کے مختلف شہروں میں خود .کش. حملوں کا اعلان بھی کردیا ہے اور امریکہ نے اپنے ذرائع سے اس کو کنفرم کیا ہے۔

پتہ نہیں القا.عدہ نے یہ اعلان کیا بھی ہے یا امریکہ اس خطے میں اسلام سے د.ہشت پھیلانے اور اپنے مقاصد حاصل کرنے کے چکر میں ہے؟۔ اگر سورۂ نور کی آیات کے احکام کا پیغام دنیا میں عام کردیا جائے تو اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کی جگہ دنیا میں محبت کا دم بھرا جائے گا۔ یہود ونصاریٰ کی ایکدوسرے سے شدید نفرت تھی۔ اسلام آیا تو یہودی خواتین سے نکاح کی اجازت دی گئی جو عیسیٰ پر ولدالزنا اور مریم پر بدکاری کی تہمت لگاتے تھے۔ عیسائی خواتین سے بھی نکاح کی اجازت دی گئی جو حضرت عیسیٰ کو خداکا بیٹا اور حضرت مریم کو خدا کی بیوی اور تین خداؤں کے قائل تھے۔ اسلام کا دنیا سے شدت پسندی ختم کرنے میں بنیادی کردار رہاہے لیکن مذہبی طبقات اپنی دکانیں چمکانے میں مصروف ہیں۔

رسول اللہۖ کو طائف میں پتھر کھاکر لہولہان ہونے سے اتنی اذیت نہ پہنچی جتنی حضرت عائشہ صدیقہ پر بہتان عظیم لگانے سے پہنچی لیکن اسکے باوجود قرآن نے بہتان لگانے والوں پر80،80کوڑے لگانے کی سزا کا حکم نازل کیا۔ اگر کسی عام جھاڑو کش عورت پر بہتان لگایا جائے تو اس کیلئے یہی سزا کا حکم ہے۔ بہتان سے عورت کو اذیت ملتی ہے ۔80کوڑوں کی سزا علاج ہے۔ کوڑے امیر غریب کیلئے یکساں سزا ہے۔ ہتک عزت کے قانون میں کروڑوں، ا ربوں کے جرمانے لگانا معقول سزا نہیں ہے اسلئے کہ امیر کیلئے زیادہ رقم بڑی سزا نہیں ہے اور غریب کیلئے کم رقم بھی بڑی سزا ہے۔ اگر پاکستان میں آئین کی پاسداری کی جاتی اور امیر غریب کیلئے قرآن کے مطابق اس سزا کو نافذ کردیا جاتا تو طاغوت کا نظام اپنے انجام کو پہنچ جاتا لیکن ہمارے ہاں جب تک عوامی مقبولیت یا ریاستی بیانیہ کی پشت پناہی حاصل نہ ہو تو روایات کے خلاف چلنا غیرضروری سمجھا جاتا ہے۔ اس کانفرنس میں مجھے غلط روئیے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مجھے اس پر گلہ نہیں بلکہ خوشی ہے کہ تاریخی حقائق کو سمجھنا آسان ہوجائے گا۔

کچھ اشعار احادیث صحیحہ کے آئینے اور فرقہ واریت کے ناسور کو واضح کرنے کیلئے لکھ دئیے۔ شیعہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ امام حسین سے ہمارا اکابر طبقہ کیسے انحراف کرسکتا تھا؟۔ اس محفل میں شیعہ کے کردار سے ان کی مجبوری کو واضح کیا گیا ہے جو انکے اکابر سے بھی سرزد ہوئی تھی۔ جب کسی پر مشکل پڑتی ہے تو دوسرے کی مشکل کو سمجھنے میں دیر نہیں لگاتا۔ جبکہ سنی علماء کو بھی آئینہ دکھانا مقصد ہے کہ قرآن اور سورۂ نور کے احکام سے ان کی کتنی ہمدردیاں ہیں؟۔ ان کا ضمیر بتائے گا کہ کیا کرنا چاہیے تھا اور کیا انہوں نے کیا؟۔ مولانا نورالحق قادری نے تقریر شاید اس وجہ سے نہیں کی کہ اگر حق کا ساتھ نہیں دے سکتے تو مخالفین کی صفوں میں بھی شامل نہ ہوں، جن لوگوں نے تذکرہ کرنا مناسب نہیں سمجھا اور ان کی ہمدردی ہمارے ساتھ تھیں تو وہ بھی لائق تحسین ہیں۔ رسول اللہۖ نے دین کو سمجھ کر اس کی کھل کر ہاتھ، زبان اور دل سے حمایت کرنیوالوں کو السابقون میں شامل فرمایا ہے اور دوسرا درجہ ان لوگوں کا رکھا ہے جنہوں نے اللہ کے دین کو پہچانا اور اس کی زبان سے کھل کر حمایت بھی کی اور تیسرا درجہ ان لوگوں کا رکھا ہے جنہوں نے اللہ کے دین کو پہچانا اور کسی سے دین کی خاطر محبت رکھی اور کسی سے نفرت رکھی لیکن یہ سارے معاملات چھپائے رکھے۔ ان کیلئے بھی خوشخبری ہے۔ محفل میں اکثریت ان لوگوں کی ہی معلوم ہورہی تھی جن میں صدر مجلس علامہ عابد شاکری ،ڈاکٹر قبلہ ایاز ، مولاناسیدالعارفین، مولانامحمد طیب قریشی اور حفیظ الرحمن بھی شامل تھے لیکن دوسری طرف جل بھن کر بیان دینے والے حق کی مخالفت پر کمر بستہ نظر آتے تھے جن میں منتطم مجلس علامہ احسان اللہ محسنی ، درویش مسجد کے مولانا اور علامہ مقصود سلفی کے علاوہ سنا ہے کہ قاری روح اللہ مدنی بھی شامل تھے اور ان لوگوں کو دلیل کیساتھ سامنے آنا چاہیے۔ ہمارا اخبارنوشتۂ دیواران کیلئے حاضر ہے۔

بعض قارئین یہ سمجھتے تھے کہ اخبار میں درسِ نظامی کے حوالے سے بہت کچھ لکھا جارہاہے لیکن قرآن کے خلاف یہ درست کیسے ہوسکتاہے؟۔ مولوی اکثر اپنی کتابوں کو سمجھ کر علماء نہیں بنتے۔ ہمارے دور کے اساتذہ اللہ والے تھے جو ہماری حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ آج حالات بدل گئے۔ مدارس کے علماء وطلبہ کی ایک اچھی خاصی تعداد حقائق کو سمجھ چکی ہے۔ وہ وقت دور نہیں کہ مدارس و مساجد سے اسلامی انقلاب کا آغاز ہوگا۔ کالج و یونیورسٹیوں کے اساتذہ و طلبہ بھی شانہ بشانہ ہوں گے۔ ہماری ریاست کا موجودہ ڈھانچہ مکمل ناکام ہوچکا۔ تاہم افراتفری سے ریاست کا موجودہ پسماندہ ڈھانچہ بھی بہت بہتر ہے۔ تمام ریاستی اداروں میں مخلص لوگ موجود ہیں لیکن وہ اندھیرے میں کھڑے ہیں۔ جب اسلام کی درست روشنی پھیل جائے گی تو اندھیرا خود بخود ختم ہوجائے گا۔ کانفرنس کے دن مجھے تھکاوٹ کی وجہ سے جلدی جانا پڑا تھا۔ کانفرنس کے آخر میں اس موضوع پر مزید وضاحت اور غیرت دلائی جاسکتی تھی لیکن تحریر دیکھ کر بھی فضا بدل سکتی ہے۔

اصل معاملہ فرقوں کا نہیں اسلام کی سربلندی کا ہے اور اس کیلئے فرقہ پرستی کو قربان کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ فرقہ پرستی سے فرقہ پرستوں کو روزی روٹی مل جاتی ہے لیکن دنیا کا نظام نہیں بدل سکتا ہے۔ جب اسلام کے ذریعے دنیا کا نظام بدل جائے گا تو عزت والی روزی فرقہ پرستی کے بغیر ہی ملے گی۔

ISI چیف جنرل ظہیرالاسلام نے ریٹائرڈ ہوکر کہا کہ”75سالوں سے ہماری پریکٹس جاری تھی لیکن اچھے حکمران نہیں لاسکے۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے بعد ہم نے تیسری پارٹی کو آزمایا اورPTIسب میں بہتر ین ہے”۔

قومی اسمبلی میں میاں ریاض حسین پیرزادہ نے2020کے بجٹ اجلاس میں جو تاریخی خطاب کیا تھا وہ بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ انہوں نے شکایت کی کہ سیاستدانوں کو بدنام کیا جاتاہے کہ نوکریاں دی ہیں لیکن اگر ہم نوکریاں بھی نہیں دیںتو اور کیا کرینگے؟۔ دریاؤں کے بیچنے سے لیکر ملک وقوم کوخسارے میں ڈالنے والے فوجی جرنیل ہیں۔ میرے باپ کو گولی ماردی گئی مجھے بھی گولی ماردی جائے گی۔ زمینداروں کو بدنام کرکے ان کی سیاسی بساط لپیٹ دی گئی اور اب وہ جنرل ہیںجو فرنٹ لائن پر لڑکر ترقی کرگئے ہیں لیکن چولستان میں زمینوں اور اس کے پانی پر جنرلوں اور کرنلوں کا راج ہے۔ محافظ تھانیدار بن گئے اور زبردستی سے غریب لوگوں کے ٹریکٹر چھین رہے ہیں اور لوگوں کو ڈنڈے مارے جارہے ہیں، جس سے فوج عزت نہیں کمارہی ، ہمیں اپنے علاقے میں غلام بنا دیا گیا ۔ بجٹ عوام کو دھوکہ دینے کا ڈرامہ ہے۔ کاشتکاری تباہ ہو توملک ترقی نہیں کرسکتا ہے۔

;

قرآن کی تعلیم احادیث صحیحہ سے متصادم نہیں اور فقہ سمجھ کا نام ہے جو ہدایت دیتا ہے۔

قرآن کی تعلیم احادیث صحیحہ سے متصادم نہیں اور فقہ سمجھ کا نام ہے جو ہدایت دیتا ہے۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

فقہ حنفی میں قدوری کے مصنف کا درجہ فقہی حساب سے کنزالدقائق، ہدایہ اور درسِ نظامی میں فقہ کی دوسری کتابوں کے مصنفین سے بڑا ہے۔ قدوری میں فرض نماز وں کا ذکر ہے اور جن نمازوں کو سنت سمجھا جاتاہے ان کو قدوری میں نوافل لکھا گیا ہے۔ فرض نماز پڑھنا اللہ کا حکم ہے اور فرض نمازوں کی رکعتوں اور طریقہ کار کی ادائیگی کا نام سنت ہے۔ اگر نبیۖ کی سنت نہ ہوتی تو پھر فرض نماز کو عملی جامہ پہنانا ممکن نہیں تھا۔ اسلئے اللہ نے قرآن میں بار بار فرمایا ہے کہ اللہ کی اطاعت کرو اور اسکے رسول کی اطاعت کرو۔ اور یہ بھی فرمایا ہے کہ ” جس نے رسول کی اطاعت کی تو بیشک اس نے اللہ کی اطاعت کی”۔ اللہ کے احکام پر عمل کرنا سنت رسول ۖ ہے۔ نبیۖ نے نمازوں میں کبھی رفع یدین کیا ہوگا اور کبھی نہیں کیا ہوگا لیکن نمازوں کی رکعتوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

فقہ وسمجھ کے اعتبار سے صحابہ کرام میں بھی اختلاف تھا۔ تیمم سے نماز پڑھنے کے اختلاف کا ذکر صحیح بخاری میں حضرت ابن مسعود اور حضرت ابوموسیٰ اشعری کے حوالے سے موجود ہے۔رسول اللہ ۖ نے ایک سفر سے واپسی پر حضرت عمر سے فرمایا کہ ” غسل واجب ہوا تھااور نماز پڑھنا چھوڑ دی تو بہت اچھا کیا ”۔ اور حضرت عمار سے فرمایا کہ ” غسل میں تیمم کیلئے سارے جسم کو مٹی میں لوٹ پوٹ کرنے کے بجائے وضو کی طرح دو ضرب کافی تھے کہ صرف چہرے اور ہاتھوں پر مسح کرلیتے”۔ ابن مسعود نے حضرت عمر کے مؤقف کو ہی درست سمجھ رکھا تھا اور ابوموسیٰ اشعری نے حضرت عمار کی بات کو صحیح سمجھ رکھا تھا۔

مولانا مناظر احسن گیلانی نے ‘تدوین فقہ” میں شاہ ولی اللہ کے حوالے سے اس اشکال کا ذکر کیا کہ ” جب نبی کریم ۖ نے حضرت عمار سے فرمایا کہ تجھے وضو کی طرح تیمم کرکے نماز پڑھنا کافی تھا ‘تو پھر حضرت عمر نے کیوں اس بات کو تسلیم نہیں کیا بلکہ یہ واضح طور پر کہا کہ عمار کی حدیث اس کے منہ پر پڑے۔ یہ بات بہت قابلِ تعجب ہے کہ حضرت عمر نے حضرت عمار کی بات تسلیم کرنے سے کیوں انکار کیا؟۔ اور اس سے زیادہ تعجب اس بات پر ہے کہ نبیۖ نے حضرت عمارکی طرح حضرت عمر پر یہ معاملہ کیوں واضح نہیں فرمادیاتھا؟”۔

شاہ ولی اللہ نے برصغیرپاک وہند میں عوام وخواص کو فقہ کی جگہ قرآن وسنت کی طرف متوجہ کرتے ہوئے اہم کردار ادا کیا ہے اور فقہاء کے بارے میں لکھا ہے کہ ” بہت سارے بات کو سمجھنے کی کوشش کرنے کی جگہ پر ایک ایسے قول کو گدھوں کی طرح مضبوطی سے جبڑوں میں پکڑلیتے ہیں جس کی کوئی بھی اہمیت نہیں ہوتی ہے”۔ پھر دوسرے علماء ومفتیان کے کیا حالات ہوں گے؟۔

حالانکہ قرآن وسنت میں کوئی تضاد نہیں۔ اللہ نے قرآن میں فرمایا کہ ” نماز کے قریب مت جاؤ یہاں تک کہ تم سمجھوجو تم کہہ رہے ہو اور نہ جنابت کی حالت میں مگر جو مسافر ہو یہاں تک کہ نہالو”۔ اس آیت میں واضح ہے کہ جنابت میں نماز پڑھنامنع ہے مگر مسافر کو اجازت ہے یہاں تک کہ نہالیا جائے۔ اللہ نے نماز پڑھنے سے نہائے بغیر روکا ہے مگر مسافر کو نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے۔

حضرت عمر نے اپنی فطرت کے مطابق گنجائش کا فائدہ اٹھایا اور سفر میں نماز نہیں پڑھی اور حضرت عمار نے اپنی فطرت کے مطابق اس گنجائش کا فائدہ اٹھایا اور نماز پڑھ لی۔ آیت میں نماز پڑھنے کا حکم نہیں ہے بلکہ نماز پڑھنے کی مسافر کیلئے گنجائش رکھی گئی ہے۔ دونوں صحابہ کرام نے اپنے اپنے طبائع کے اختلاف سے اللہ کے حکم پر درست عمل کیا۔ نبیۖ نے بھی توثیق فرمائی۔ قرآن وسنت، صحابہ کرام کے عمل میں تضاد نہیں بلکہ تطبیق ہے۔ آج بھی بعض لوگ سفر کی حالت میں جنابت کی وجہ سے نماز نہ پڑھیں تو مسئلہ نہیں اور اگر کوئی تیمم کرکے پڑھ لیتے ہیں تو اس کی بھی گنجائش ہے۔ بعید نہیں کہ دعوت اسلامی و تبلیغی جماعت کے افراد حضرت عمارکی طرح نماز پڑھیں اور مذہبی سیاسی جماعتوں کے قائدین اور کارکن حضرت عمر کی طرح نماز نہ پڑھیں۔ شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے تقلید کو چوتھی صدی ہجری کی بدعت قرار دیا۔ جس پر دیوبندی بریلوی اکابرتقسیم ہوگئے۔ اگر پیٹ پوجا نہ ہوتو سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ یوٹیوب پر شیخ ابوحسان اسحاق سواتی صحابہ پر بھی انکار حدیث و قرآن کا فتویٰ نہ لگادیں۔ جاہلوں سے ایک طرف حضرت عمر وابن مسعود اور دوسری طرف حضرت عمار وابوموسیٰ اشعری پر منکر حدیث وقرآن کا فتویٰ لگانے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔

بریلوی مولانا نے ” بہارشریعت ” میں لکھ دیا کہ غسل اور وضو وغیرہ کے فرائض ظنی ہیں۔ دلیل کیساتھ ان کا انکار کرنا درست ہے لیکن دلیل کے بغیر ان سے انکار کرنا گمراہی ہے۔احناف کے نزدیک غسل کے 3 فرائض ہیں۔ منہ بھر کر کلی کرنا۔ ناک کی نرم ہڈی تک پانی پہنچانا اور ایک مرتبہ بدن پر پانی بہانا۔ شافعی مسلک میںپہلے 2فرائض سے اتفاق نہیں۔ انکے نزدیک وضو کی طرح غسل میں بھی کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا سنت ہے۔ امام مالک کے نزدیک جب تک مل مل کر جسم نہیں دھویا جائے تو پانی بہانے سے غسل ادا نہ ہوگا۔

کسی ایک فرض پر بھی اتفاق نہیں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جس آیت میں اللہ نے وضو کا حکم دیا ہے تو اسکے بعد فرمایا کہ وان کنتم جنباً فطھروا ” اور اگر تم جنابت کی حالت میں ہوتو خوب پاکی حاصل کرو”۔ قرآن میں اللہ نے واضح کیا تھا کہ جنابت سے غسل کرنا ہوگا اور وضو کے مقابلے میں نہانا اچھی طرح سے پاکی حاصل کرنا ہے۔ قرآن کے احکام میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ وضو اور غسل دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ وضو میں چند اعضاء دھوئے جاتے ہیں، سر پر مسح کرنا ہے اور غسل یا نہانا پورے جسم کا ہوتا ہے۔ یہ مبالغہ بہت ہے۔ صحابہ کرام دورِ جاہلیت میں نہانا جانتے تھے، تمام اقوام اور مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کیلئے نہانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ چرندے ، پرندے اور وحشی درندے بھی نہانا جانتے ہیں۔ حضرت عمر نے اسلام قبول کرنے سے پہلے قرآن کے اوراق مانگے تو آپ کی بہن نے نہانے کا کہہ دیا۔ حضرت عمر کیلئے نہانا کوئی نئی بات نہیں تھی۔

نبیۖ اور صحابہ نے غسل اور وضووغیرہ کے فرائض ایجاد نہیں کئے تھے۔ فرائض کی ایجاد وبدعت صحابہ ، تابعین، تبع تابعین کے بعد کی کہانی ہے۔ فقہ کے ائمہ کی طرف بعد والوں نے مسائل منسوب کئے۔ جب پچکاری لگانے کا مسئلہ آیاتو سوال پیدا ہوا کہ معدے تک پانی پہنچا تو روزہ ٹوٹے گا یا نہیں؟۔ پھر بگڑتے بگڑتے بات یہاں تک پہنچی کہ بریلوی علامہ شاہ تراب الحق قادری نے نماز جمعہ کی تقریر میں کہا کہ ” روزے میں پاخانہ کیا تو اسکے ساتھ ایک آنت کا سرا نکلتاہے جو پھول نما ہوتا ہے۔ پھول کو دھونے کے بعد کپڑے سے سکھایا جائے اور اگر کپڑے سے سکھائے بغیر یہ پھول اندر گیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔ پورا زور لگاکر اس کو مقعد کے اندر جانے سے روکا جائے۔ورنہ روزہ ٹوٹے گا”۔پھر بعد میںدعوت اسلامی کے مفتیوں نے سوشل میڈیا پر دھوم مچائی کہ” استنجا ء کرتے وقت سانس روکی جائے ورنہ پانی اندر جائے گا اور روزہ ٹوٹ جائیگا”۔

مولوی خوش ہوتے ہیں کہ کوئی انوکھی بات بتائیں لیکن پھر عوام کو عملی طورپر بھگتنا پڑتا ہے۔ علامہ شاہ تراب الحق قادری کے مرید نے پوچھا کہ پہلے روزوں کا کیاہوگا؟۔اور اس پر عمل بس سے باہر ہے اسلئے کہ آنت کو کنٹرول رکھنا ممکن نہیں۔ علامہ شاہ تراب الحق نے بھگادیا کہ میرا کام مسئلہ بتانا تھا باقی تم جانو اور تمہارا کام جانے۔ پھر ہم نے اپنے اخبار ضرب حق میں اس کا پوسٹ مارٹم کیا اور بریلوی مکتب کے علماء کرام نے بھی ہماری تائید اور اس مسئلے کی تردید کردی تھی۔ طلاق کے حوالے سے اس سے زیادہ عجیب وغریب مسائل گھڑے گئے ہیں۔

میرے استاذ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر پرنسپل جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری کراچی وصدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے ہماری تحریک کی تائید میں لکھا کہ” اس امت کی اصلاح اس چیز سے ہوگی جس سے اس امت کی پہلے دور میں اصلاح ہوئی تھی”۔اور امام مالک کے قول کا حوالہ دیا ۔ جب تک ہماری تعلیم کی اصلاح نہ ہوگی تو علماء ومفتیان ایک دوسرے سے لڑتے رہیں گے۔ سر کے مسح پر اختلاف ہے۔ مسلک حنفی میں سر کا ایک چوتھائی مسح وضو میں فرض ہے۔ مسلک شافعی میں ایک بال کے مسح سے فرض ادا ہوگا۔ مسلک مالکی میں ایک بال رہ جائے تب بھی فرض ادا نہیں ہوگا۔ اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ اللہ نے فرمایا : وامسحوا برء وسکم ” اور مسح کرو اپنے سروں کا”۔ حنفی مسلک کے نزدیک حرف ”باء ” الصاق کیلئے ہے۔ ہاتھ سر پر رکھ دیا تو مسح ہوجائیگا اور یہ ایک چوتھائی ہے۔شافعی مسلک میں باء سے مراد بعض ہے ۔ مالکی مسلک میں باء زایدہ ہے۔ عوام وخواص ان بکھیڑوں میں پڑنے کے بجائے تقلید کرنے لگے لیکن اگر ذرا غور کرتے تو تیمم میں یہی جملہ ہے لیکن اس میں سروں کی جگہ چہروںکا ذکر ہے۔ وامسحوا بوجوھکم باء کے حوالے سے اگر یہ خود ساختہ اختلافات درست ہوتے تو پھر تیمم میں چہروں پر مسح کرنے میںبھی فرائض کایہ اختلاف ہوتا؟۔

اگر اللہ چہرے کیساتھ ہاتھوں کو کہنیوں تک وضو میں دھونے کا حکم دیتے تب بھی سروں کا مسح کرنے کیلئے لوگوں کے ہاتھ خود بخود جاتے۔ علماء و فقہاء نے اپنی طرف سے فقہی مسائل کے بکھیڑے بناکر مسلمانوں کا بیڑا غرق کیا ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں تسخیر غسل، تسخیر وضو اور تسخیر استنجاء کا حکم نہیں دیا تھا۔ نبی ۖ اور صحابہ نے امت کو اس راہ پر نہیں لگایا تھا۔ خلفاء راشدین نے دنیا کی سپر طاقتوں کو مسخر کردیا اور ہم سردی گرمی میں استنجے کے ڈھیلوں کو آگے پیچھے سے گھمانے کی تعلیم دیکر عوام کو ذہنی مریض بنانے کی تسخیر پر لگ گئے حالانکہ قرآن کی کئی آیات میں تسخیر کائنات، تسخیر شمس وقمر، تسخیر بادل اور دیگر چیزوں کی تسخیر کی وضاحت ہے جس پر اغیار نے عمل کرکے دنیا کو اپنے سامنے مسلمانوں سمیت رام کرلیا ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ ” جو چیز لوگوں کو نفع دیتی ہے تو وہ زمین میں اپنا ٹھکانا بنالیتی ہے اور جو نفع بخش نہیں ہوتی تو جھاگ کی طرح خشک ہوکر اڑ جاتی ہے”۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ ” بہترین لوگ وہ ہیں جو دوسرے لوگوں کو نفع پہنچائیں”۔ فقہ میں فرائض اور واجبات کی بدعات ایجاد کی گئی ہیں لیکن وہ جھاگ کی طرح ناپید ہیں اور اغیار نے سائنسی ایجادات کرکے ہمیں بھی سہولیات پہنچائی ہیں۔ علماء منبر ومحراب سے اپنارویہ بدلیں۔ زکوٰة و خیرات ،ہدیات سے حالات کا بدلنا معراج نہیں استدراج ہے۔ اسلام عالم انسانیت کے مسائل حل کرنے کا پہلا اور آخری آپشن ہے۔

قرآن ہدی للمتقین ”پرہیزگاروں کیلئے ہدایت ہے”۔ ہدی للناس ”عوام کیلئے ہدایت ہے”۔فرقوں کے خواص کی مخصوص تراش خراش ہے اور ایک دوسرے کیلئے گمراہ اور ناقابل قبول ہیں جو بالکل درست ہے اسلئے کہ ان میں آج تک قرآن کی رہنمائی سے امام ہدایت پیدا نہ ہوسکا۔ جبکہ قرآن عوام و خواص کیلئے ہدایت ہے۔ جو قرآن کی واضح آیات سے انقلاب لائے وہی امام ہدایت ہے۔ قرون اولیٰ میں خلفاء راشدین قرآن کی وجہ سے سب کے سب امام ہدایت تھے۔ جب یہ اُمت قرآن کو چھوڑ کر روایات اور خرافات میں کھوگئی ہے تو نماز کی ہر رکعت میں صراط مستقیم کی ہدایت کیلئے دعا مانگتے ہوئے بھی اُمت مسلمہ کے عوام و خواص نشے کے بغیر بھی نشے کی حالت میں ہوتے ہیں۔ اسلئے وہ کسی امام مہدی کا انتظار کررہے ہیں۔ کوئی ان کو اس نشے کی حالت سے نکالنے میں کامیاب ہوجائے تو پوری اُمت صاحب ہدایت و مہدی بن سکتی ہے۔ اللہ کرے کچھ تو سمجھے کوئی۔

حنفی مسلک کی کتب میں حرمت مصاہرت کے عجیب و غریب مسائل ہیں۔ درسِ نظامی میں مُلا جیون کی کتاب”نور الانوار” میں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ اگر اپنے بچوں یا ساس کو نیند میں یا غلطی سے شہوت کا ہاتھ لگ گیا تو بیوی بیٹی کی طرح حرام ہوجائے گی۔ اگر ساس کی شرمگاہ کو اوپر سے دیکھا تو شہوت میں عذر ہے لیکن اندر سے دیکھا تو بیوی حرام ہوگی۔حنفی اصولِ فقہ میں یہاں تک ہے کہ اپنی بیوی سے ایک اولاد پیدا ہوجائے تو اصولی طور پر وہ بیوی بھی شوہر پر اسکے بعض کا جزء ہونے کے سبب سے حرام ہوجاتی ہے لیکن ضرورت کے تحت حلال قرار دیا گیا ہے۔

ایک طرف عجیب و غریب قسم کے شرمناک اور بھیانک حرمت مصاہرت کے مسائل لکھے تو دوسری طرف وفاق المدارس پاکستان کے سابق صدر مولانا سلیم اللہ خان نے بخاری کی اپنی شرح ”کشف الباری” میں لکھا ہے کہ ”ایک شخص نے حضرت علی سے کہا کہ میری بیوی فوت ہوگئی اور شادی کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت علی نے کہا کہ مرحومہ بیوی کی بیٹی ہے؟۔ اس نے کہا کہ ہاں! ۔ علی نے پوچھا کہ وہ بیٹی آپ سے ہے یا کسی اور شوہر سے؟۔ اس نے کہا کہ کسی اور سے!۔ علی نے کہا کہ وہ آپ کے حجرے میں پلی ہے یا دوسری جگہ ؟۔ اس نے کہا کہ دوسری جگہ!۔ حضرت علی نے کہا کہ پھر اسی سے شادی کرلو۔ کیونکہ قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ جو تمہارے حجروں میں پلی ہوں ۔ مصنف عبد الرزاق۔ مولانا سلیم اللہ خان نے علامہ ابن حجر کے حوالے سے لکھا کہ اس میں اتنا وزن ہے کہ اگر دوسرا مسلک معروف نہ ہوتا تو اسی پر فتویٰ دیتے۔ جس میں بڑا وزن ہے”۔ قرآن کی آیات کی من گھڑت تفسیری روایات اور اُصول فقہ سے انکے تضادات کا تجزیہ اگر پیش کیا جائے تو مولوی صاحبان میں ذرا بھی شرم ہو تو بیہوش ہوجائیں گے۔

نبیۖ نے فرمایاکہ ” بنی قریظہ میں عصر کی نماز پڑھ لو” صحابہ دیرسے پہنچے تو کسی نے وقت پر نماز پڑھی ،کسی نے قضاء کرلی”۔ بے نمازی کیلئے سزا نہ تھی، پھر بعد میں قتل اور زد وکوب کی سزائیں گھڑی گئیں۔طا.لبان آج پریشان حال ہیں۔
پڑھیں ہم نے نمازیں بہت
مگرہم میں روح محمدی نہ رہی

 

آئی ایم ایف سے قرضہ لیتے جاؤ لیتے جاؤ اور ملک و قوم کو ڈبوتے جاؤ ڈبوتے جاؤ!

آئی ایم ایف (IMF) سے قرضہ لیتے جاؤ لیتے جاؤ اور ملک و قوم کو ڈبوتے جاؤ ڈبوتے جاؤ!

سعودیہ و عرب امارات میں دریا نہیں، سمندر کے پانی کو میٹھا اور جدید سائنسی طریقے استعمال کرکے بڑے پیمانے پر ہریالی اور گندم اگائی گئی ،اپنی ڈفر ریاست نے تباہی مچادی!

ایک روپیہ پٹرول بڑھتاہے تو نوازشریف کے دل میں درد اٹھتاہے۔ مریم نواز۔ جب شہباز شریف نے پٹرول84روپے بڑھایا تو نواز شریف کو2014کے جنرل کا دورہ پڑا

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

ہماری معیشت پر سودی نظام کے ذریعے قبضہ کیا گیا ۔1989میں پہلی باربینظیر بھٹو دور میںIMFسے قرضہ لیا گیا۔ پھر نام نہاداسلامی جمہوری اتحاد کے نوازشریف نے مزید قرضہ لیا۔ باری باری دونوں جماعتوں نےIMFسے نہ صرف قرضے لئے بلکہ کرپشن میں ایک دوسرے سے آگے نکل گئے۔ مشرف کی حکومت آئی تو2004سے2007تکIMFسے جان چھڑائی گئی۔ مگر پھر2008میں جنرل مشرف نے6ارب ڈالر کا قرضہ لیا۔ زرداری نے اس کو16ارب ڈالر تک پہنچایا اور نوازشریف نے30ارب ڈالر تک پہنچایا۔ عمران خان نے48ارب ڈالر تک پہنچادیا۔ اب مفتاح اسماعیل سب کے ریکارڈ توڑنا چاہتا ہے۔ عوام پرمہنگائی کا بوجھ اسلئے پڑ رہاہے کہ سودکی مد میں دی جانے والی رقم اب دفاعی بجٹ سے دگنی ہوچکی ہے۔ عوام دفاعی بجٹ کا رونا روتے تھے اور سودی رقم دفاعی بجٹ کے دگنی سے بھی بڑھ جائے تو ہمارا دفاع کن کے ہاتھ میں ہوگا؟۔ جب قومی اثاثے گروی رکھے جائیں گے تو ایسٹ انڈین کمپنی کی طرح ایک دن ہماری قوم، ملک اور سلطنت پھر اغیار کے ہاتھوں میں ہوگی۔

اب 20سال بعد پھر شریعت کورٹ نے سودی بینکاری کو اسلامی بینکاری میں بدلنے کا جو فراڈ فیصلہ کیا ہے وہ بھی بڑا مضحکہ خیز ہے۔ وفاق المدارس عربیہ پاکستان کے سابق صدرشیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان استاذ مفتی محمد تقی عثمانی اورسابق صدر ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے بہت کھل کر اسلامی بینکاری کے نام پر خالص سودی نظام کی شدید الفاظ میں مذمت اور دلائل سے تردید کی ہے لیکن یہ ستم ظریفی ہے کہ پورے پاکستان کے تمام مدارس کے علماء کرام و مفتیانِ عظام نے سودی بینکاری کو اسلام کے نام پر جواز بخشنے کی مخالفت کی تھی لیکن دارالعلوم کراچی اور جامعة الرشید کراچی نے سودی نظام کو حیلے کے ذریعے اسلام کے نام پر جواز بخشا تھا اور اب وفاق المدارس پاکستان سے الگ بورڈ بھی بن گیا ہے تو ایک کا سربراہ مفتی محمد تقی عثمانی اور دوسرے کی سربراہی جامعة الرشید والے کر رہے ہیں ۔ گویا چت بھی حیلہ بازوں کی اور پٹ بھی حیلہ سازوں کی۔اسلامی سودی بینکاری کے ساز باز میں اب شریعت کورٹ بھی شامل ہوگئی ہے۔

سعودیہ اور عرب امارات میں کوئی دریا، نہر،ندی اور نالہ نہیں لیکن وہاں پر سمندر سے کھارا پانی اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے کھیتوں کو آباد اور بڑی مقدار میں گندم اگائی گئی ہے۔ہمارے ہاںقدرت کے عظیم نظام سے دریاؤں اور نالوں کا سلسلہ موجود ہے ۔ انگریز دور سے نہروں کا بھی سلسلہ ہے لیکن بہت طریقے سے جنگلات کو کاٹا گیا ہے۔ وزیرستان کے صحافی شفت علی محسود نے جنگلات کی بے دریغ کٹائی پر آواز اٹھائی لیکن ہماری ڈفر ریاست اور حکمران طبقے نے کوئی نوٹس نہیں لیا جس کی وجہ سے ایسا حال ہوگیا کہ کانیگرم بدر کی ندی تک میں پانی ناپید ہوگیا تھا جس کے خشک ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ہم نے تصاویر شائع کی تھیں کہ کس طرح لکڑیاں جلانے کیلئے بٹے بنائے گئے ہیں جس کا کوئلہ بناکر ا.فغا.نستان کے راستے روس سے نوآزاد ممالک میں سمگلنگ کیا جارہاہے؟۔

حال میں تخت سلیمان پختونخواہ سے بلوچستان تک بڑے پیمانے پر جنگل کو آگ لگنا ،بونیر، سوات اور کشمیر کے جنگلات میں آگ لگنا اسی ہوس پرستی کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے۔ اب ہمارے مقتدر طبقات کوئلے کی اسمگلنگ کرکے چلغوزے اور دیگر جنگلات پر اپنی ذاتی جیبیں بھرنے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ جب اس ملک سے ہریالی و جنگلات کا خاتمہ ہوگا تو قدرتی خشک سالی کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس سازش میں کوئی اور نہیں ملک کے محافظ حکمران طبقات کی ہوس اور نااہلی کی قیمت ہماری نسلیں چکائیں گی۔ جب جنرل ظہیرالاسلام سابقDGISIریٹائرڈ ہوگئے ہیں تو مریم نواز کا پاپا میاں نوازشریف کہتا ہے کہ مجھے2014کے دھرنے میں آدھی رات کو اس نے فون کیا تھا کہ اقتدار چھوڑ کر استعفیٰ دیدو۔ میں نوازشریف کسی کی غلامی نہیں مان سکتا۔ حالانکہ جب وزیراعظم بن کر تمہارا یہ حال تھا تو کیا غلام نیلے پیلے رنگ رنگیلے انڈے دیدتے ہیں؟۔ یہ سیاسی مرغیاں ہمیشہ کڑک رہتی ہیں جب بھی ان کو انڈوں پر بٹھاؤ تو خوش رہتی ہیں لیکن ان کو قومی مفادات سے کوئی غرض نہیں ہوتی ہے۔ چین نے پاکستان کو اہم کانفرنس میں اسلئے نہیں بلایا کہ زرداری اور مولانا فضل الرحمن نے سی پیک کے مغربی روڈ کا افتتاح کیا تھا اور پھر کوئٹہ وپشاور کے مختصر راستے کو چھوڑ کر تحتِ لاہور کو نوازنے کیلئے سی پیک سے شیطان کی آنت بناڈالی۔19ارب ڈالر کی پہلی قسط میں10ارب ڈالربندر بانٹ کی نذر ہوئے اور9ارب ڈالر لگے تھے۔ سی پیک سے ہمIMFسے بھی جان چھڑاسکتے تھے۔ اب اگر دریاؤں میں جگہ جگہ بند بناکر پانی کو ذخیرہ کرنے کا کام کیا جائے اور پھر کالاباغ اور دیگر ڈیم بنائے جائیں جس کے فائدے متعلقہ و متاثرہ عوام کو دئیے جائیں اور اسلامی مزارعت شروع کی جائے تو بعید نہیں ہے کہ سستی بجلی اور سستی اناج سے ملک وقوم کی غربت ختم ہوجائے۔

ہمارا مذہبی اور ریاستی نظام کوئی تیتر ہے اور نہ بٹیر بلکہ سراسر ہے اس میں ہیر پھیر العیاذ باللہ۔

ہمارا مذہبی اور ریاستی نظام کوئی تیتر ہے اور نہ بٹیر بلکہ سراسر ہے اس میں ہیر پھیر العیاذ باللہ۔

پشاور عظمت قرآن کانفرنس میں اہل تشیع کے علامہ عابد حسین شاکری کی دعوت پر آئے ہوئے دیوبندی ، بریلوی،اہلحدیث،جماعت المسلمین کے نمائندے ایک بار پھر آئیں!

قرآن کی عظمت اور اس کے تحفظ اور احکام پر چند نشستوں میں بات کریں،ہمارے ہاں ہر برائی کو ا.مریکہ اور خفیہ ا.یجنسیوں کی ٹوپی پہنائی جاتی ہے مگر مسئلہ ہمارے اندرہی ہے!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

مذہب ایسی بلا ہے جس کی وجہ سے قا.دیانی، یہود.ی، عیسائی،ہندو، بدھ مت،دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث، شیعہ، جماعت المسلمین، پرویزی اور اسلام کے مقابلے میں انواع واقسام کے مذاہب، فرقے ،مسالک، مکاتبِ فکر اور مذہبی شخصیات کے گرد تقلیدی افراد پیدا ہوئے جن میں مولانا مودودی ، ڈاکٹرا سرار،ڈاکٹر ذاکر نائیک، جاویداحمد غامدی، علی مرزا جہلمی، فرحت ہاشمی وغیرہ لاتعدادشامل ہیں۔فرقہ پرستی اور شخصیت پرستی کے بت نظر آئیں گے۔

جس طرح اسلام کے مقابلے میں مستقل ادیان یہودیت، نصرانیت اور ہندو مت ہیں اسی طرح اسلام کے اندر مستقل فرقوں اور مسالک نے مذاہب کی شکل اختیار کرلی ہے۔ سنی اور شیعہ فرقوں میں بڑی تعداد کے اندر ایسے لوگ ہیں جو دوسروں سے زیادہ آپس میں ایک دوسرے سے نفرت رکھتے ہیںاور پھراغیار اور دشمنانِ اسلام اس نفرت کا بھرپور فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔ اگر دُشمن ہمیں نہیں لڑائے تب بھی ہمارے اندر کے تضادات اور گمراہانہ عقائد وماحولیات لڑانے کیلئے کافی ہیں اس سے نکلنے کیلئے اُمت مسلمہ امام مہدی کا انتظار کررہی ہے۔ دوسری طرف مسلم ممالک کاسیاسی و انتظامی ڈھانچہ خدشات کے سیلاب کے سامنے ریت کی دیوار سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا ہے۔ ا.فغا.نستان، عراق، لیبیا،شام اور یمن کی تباہ حالی کے بعد پاکستان ایک نازک موڑ پر کھڑانظر آرہاہے۔ ایک مضبوط فوج اور ایٹمی قوت نے امریکہ ونیٹو کی افواج کے مقابلے میں افغا.ن طا.لبان کی طرح مقابلے کرنے کے بجائے سرنڈر بننے کو ترجیح دیتے ہوئے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگادیا۔ امریکہ کے ڈھائی ہزار فوجی و سول لوگ اس جنگ میں لقمۂ اجل بن گئے ۔1لاکھ سے زائد پاکستانی فوج اورعوام کو قربانی دینی پڑی۔ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کیلئے شرائط بھی ہمارے منہ پر کالک ملنے کیلئے کافی ہیں لیکن ہم کریڈٹ لیتے ہوئے بھی ہرگز نہیں شرماتے۔

ہمارے مذہبی ، ریاستی ، سیاسی ،صحافتی اور سماجی حالات بہت خراب ہیں لیکن ہم نے ڈھیٹ پن کو اپنی پیشہ ورانہ خدمات کا نام دے رکھا ہے۔ اسلام کے نام پر پاکستان کو ہندوستان سے جدا ہوا، پھر دولخت ہوگیا۔ بنگلہ دیش نے آزادی حاصل کرنے کے بعد اپنی حالت بہتر بنادی۔ بلوچستان وسندھ، کراچی کے مہاجر اور پشتون قوم بھی باغیانہ روش پر قائم ہیں۔ آج الطاف حسین پر پابندی ہٹ جائے تو کراچی ، حیدرآباد اور سندھ کے شہری علاقوں سے بڑی تعداد میں اتنے لوگ امنڈ آئیںگے کہ ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا انقلاب نظر آئیگا۔ کینیڈا سے لائی گئی ایک بلوچ خاتون کی لاش سے بھی ہماری ریاست خوفزدہ تھی، میڈیا پر تشہیر نہ ہونے کے باوجود بھی جگہ جگہ استقبال کرنے والوں سے منہ چھپائے اس کو دفن کیا گیا۔ بھٹو اور اکبر بگٹی کی لاش سے خطرات تھے۔ علی وزیر کی رہائی سے خوف ہے ۔ خڑ کمر کے واقعہ میں جتنے مجرم ریاستی اہلکار تھے اتنے ہی مجرم موقع سے فرار ہونے والے محسن داوڑ اور علی وزیر تھے جن کی پارٹیاں اب الگ الگ ہیں۔PTMنے قوم پرستوں سے انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا تھا تو الیکشن لڑتے ہی علی وزیر اور محسن داوڑ کو خلاف ورزی پر الگ کرنا تھا۔

تحریک لبیک اور طا.لبان سے ماورائے آئین بات ہو تو قوم پرستوں کا گلہ بنتا ہے۔MQM،TTPاور لیاری امن کمیٹی کو ختم کرنے کیلئے جو ہتھکنڈے استعمال ہوئے وہ ریاست کا نہتے یرغمال عوام پر احسان تھا لیکن شاعرکہتاہے کہ

گھر کی اک دیوار سے مجھ کو خطرہ ہے
اندر کے کردار سے مجھ کو خطرہ ہے
گھر محفوظ ہے لیکن میں محفوط نہیں
گھر کے پہریدار سے مجھ کو خطرہ ہے
میں ٹیپو سلطان ہوں عہدِ حاضر کا
اپنے ہی سالار سے مجھ کو خطرہ ہے
سوچ کو آنکھیں دینے کا میں مجرم ہوں
ایک اندھی سرکار سے مجھ کو خطرہ ہے
دل کی بات کہوں تو سب مجھ کو سمجھاتے ہیں
میرے ان افکار سے مجھ کو خطرہ ہے

سورہ نور سے طاغوتی نظام کا خاتمہ ہوگا۔ عتیق گیلانی کا ”عظمت قرآن کانفرنس” جامعہ شہید پشاور سے خطاب۔

سورہ نور سے طاغوتی نظام کا خاتمہ ہوگا۔ عتیق گیلانی کا ”عظمت قرآن کانفرنس” جامعہ شہید پشاور سے خطاب۔

جب حضرت اماںعائشہ پر بہتان عظیم لگا تو مسلمانوں کا وہ ردِ عمل نہیں تھا جو آج عمر پر عالم اسلام میں اٹھایا جارہاہے۔بہتان زیادہ بڑا مسئلہ تھا

ام المؤمنین اور عام جھاڑو کش عورت پر بہتان کی سزا ایک تھی جس کی وجہ سے پہلے بھی طبقاتی طاغوتی نظام کا خاتمہ ہواتھااور آج بھی ہوسکتاہے

سید عتیق الرحمن گیلانی نے عظمت قرآن و حج کانفرنس ، مدرسہ جامعہ الشہید سید عارف حسین الحسینی پشاور میں خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ جو مین مسائل ہیں ان کی طرف ہمارے جو بڑے اکابر بیٹھے ہیں ان کی توجہ مبذول کراؤں کہ ہمارے مسائل کیا ہیں؟۔ علامہ عابد حسین شاکری نے تحریف قرآن کے حوالے سے گفتگو فرمائی ہے عام طور پر لوگ اس کو بہت ہلکا لیتے ہیں۔ جب عوام کا اجتماع ہوتا ہے تو عوام کے اندر کہتے ہیں کہ زیر زبر اور پیش کی بھی تحریف نہیں ہوئی۔ لیکن جب مدارس کے اندر پڑھاتے ہیں۔ میں اپنے مکتبہ فکر کی بات کروں گا۔ اگرچہ میرا کوئی خاص مکتب نہیں۔ وفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خان محدث العصر کہلاتے تھے۔ اپنے وقت کے بہت بڑے عالم تھے ان کی بخاری کی شرح ہے کشف الباری ۔جسکے اندر بخاری کی ایک روایت ہے حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ حضرت علی نے فرمایا کہ رسول اللہ ۖ نے دو گتوں کے درمیان دو جلدوں کے درمیان ہمارے پاس جو قرآن چھوڑا ہے اس کے علاوہ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں چھوڑا ہے۔ اب یہ بخاری کی حدیث ہے اور مولانا سلیم اللہ خان صاحب نے کشف الباری کے اندر نقل کی ہے۔ اور اس کی وضاحت اور تشریح میں یہ لکھا ہے کہ امام بخاری نے یہ روایت کیوں نقل کی ہے؟۔ یہ اسلئے نقل کی ہے کہ چونکہ اہل تشیع تحریف قرآن کے قائل ہیں۔ تاکہ اس روایت سے ثابت کیا جاسکے کہ علی بھی تحریف قرآن کے قائل نہیں تھے۔ ابن عباس بھی نہیں تھے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ حضرت عثمان جب قرآن جمع کررہے تھے تو حضرت عبد اللہ ابن مسعود ناراض تھے کہ مجھے جمع قرآن میں شریک نہیں کیا۔ وہ عبد اللہ ابن مسعود جس کے بارے میں رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ اگر قرآن سیکھنا ہو تو عبد اللہ ابن مسعود سے سیکھو۔ ہمارے جو بڑے بڑے مفسرین ہیں مولانا مودودی ، علامہ شبیر احمد عثمانی ، علامہ غلام رسول سعیدی، انہوں نے اپنی اپنی تفاسیر کے اندر معوذتین کے بارے میں لکھا ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن مسعود معوذتین کی قرآنیت کے قائل نہیں تھے نماز میں بھی پڑھنا جائز نہیں سمجھتے تھے۔ پھر دلیل دی ہے کہ چونکہ اس وقت اجماع نہیں تھا اسلئے وہ کا.فر بھی نہیں تھے۔ آج اجماع ہوچکا ہے اگر آج کوئی انکار کرے گا تو وہ کافر ہوجائے گا۔ تو اس کا مطلب کیا ہے کہ اجماع کو ہم نے قرآن کے اوپر مقدم کردیا ہے۔ یہ جو میں بات کررہا ہوں یہ ایسے ہی نہیں کررہا۔ اس کیلئے میں نے بڑی تحریک چلائی ہے ماشاء اللہ بڑا کام کیا ہے اس کیلئے۔ اور بڑے بڑے لوگوں کیساتھ اس کو ڈسکس کیا ہے لیکن وہ اندرون خانہ اس کو غائب کردیتے ہیں۔

آج ایک مسئلہ ہے ایک ہندو خاتون نے کسی ٹاک شو کے اندر غصے ہوکر کہا کہ میرا منہ نہ کھلواؤ۔6سال کی عمر میں نکاح اور9سال کی عمر میں رخصتی۔ جس پر عالم اسلام میں ایک کہرام برپاہے۔ لیکن کیا یہ کوئی ایسی راز کی بات ہے کہ جس سے ہندو عورت نے پردہ اٹھادیا ہے؟۔ یہ مسلمانوں کے اندر عام بات ہے اور اگرچہ بات بھی بالکل غلط ہے اسلئے کہ حضرت عائشہ کا نکاح16سال کی عمر میں اور رخصتی19سال کی عمر میں ہوئی ۔ بعثت سے5سال قبل پیدا ہوئیں،5سال دارارقم کی خفیہ تبلیغ میں موجود تھیں۔11نبوی میں آپ کی عمر16سال تھی۔ اگر ہم یہ مان لیں کہ11نبوی میں آپ کی عمرچھ سال تھی تو5نبوی سے11نبوی تک آپ کی عمر چھ سال بنتی ہے اور اس دوران یہ کیسے ممکن تھا کہ حضرت ابوبکر صدیق نے اپنی بیٹی ایک مشرک دشمن کو دی تھی؟۔ حالانکہ حضرت ابوبکر صف اول میں نبیۖ کے رائٹ ہینڈ تھے۔ اس کٹھن مرحلے میں دشمن کس طرح اتنی چھوٹی عمر میں حضرت ابوبکر کی بیٹی سے رشتہ کرسکتا تھا؟۔اگر ہم یہ مان لیں کہ اس وقت کے دستور کے مطابق باہمی رضامندی سے نکاح کا معاملہ اس عمر میں ہوا تھا تو پھر بھی اس بات پر کہرام مچانا زیادہ مناسب ہے جو سب کو معلوم ہے لیکن جب حضرت عائشہ صدیقہ پر بہتان عظیم لگایا گیا تو اس وقت اتنا کہرام مچایا گیا تھا ، جو مچایا جارہاہے؟۔ میں یہ پوچھتا ہوں کہ نکاح زیادہ بڑی بات ہے یا حضرت عائشہ پر بہتان عظیم کا مسئلہ بڑا تھا؟۔

اس بات کو سمجھنا ہوگاکہ اسلام سے پہلے آزادی اور غلامی کا تصور تھا۔ اللہ نے طبقاتی نظام کو ختم کرکے حضرت عائشہ پر بہتان لگانے والوں کیلئے وہی سزا دینے کا حکم نازل کیا جو کسی عام جھاڑو کش عورت پر بہتان لگانے کا ہو۔ مساوات کے نظام سے دنیامتاثر ہوئی تومسلمانوں نے خلافت راشدہ ، بنوامیہ و بنوعباس کے ادوار امارت اور سلطنت عثمانیہ کی بادشاہت کے دور میں فتوحات حاصل کیں۔ دنیا میں اسلامی سلطنت کی توسیع کا معاملہ جاری رہاہے۔ پھر جب انگریز نے یہاں قبضہ کیا تو وہ پھر دورِ غلامی اور طبقاتی تقسیم کو رواج دے گئے۔ جرنیل، جج اور بیوروکریٹ کے بڑے عہدے انگریز کے پاس ہوتے تھے اور کلرک ،چوکیدار، چپڑاسی اور نچلے درجے کی ملازمت غلام عوام کے پاس ہوتی تھی۔ جج، جرنیل اور سول بیوروکریٹ افسروں کی عزت ہوتی ہے اور غلاموں کی کوئی عزت نہیں تھی۔ آج بھی انگریز کا طاغوتی نظام ہمارے ہاں موجود ہے اور اس طبقاتی تقسیم کو ختم کرنے کیلئے حضرت عائشہ پر بہتان عظیم کا واقعہ قرآن اور سنت میں موجود ہے اور سورۂ نور کی روشنی سے آج بھی ہم اس طبقاتی نظام کو ختم کرکے دنیاکو غلامی سے نجات دلاسکتے ہیں۔

علامہ عابد حسین شاکری نے کہا کہ زکوٰة کا منکر کافر اور زکوٰة نہ دینے والوں سے جہاد ہے لیکن میں وضاحت کرتا ہوں کہ لا اکراہ فی الدین (دین میں زبردستی نہیں ہے) ایک شخص سے نبیۖ نے دعا کی درخواست کی کہ اس کو مال ملے اور پھر اس کو بہت سارا مال مل گیا لیکن اس نے زکوٰة دینے سے انکار کردیا۔ نبیۖ نے اس کے خلاف قتا.ل نہیں کیا۔ نماز، حج اور روزہ وغیرہ کسی چیز میں زبردستی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے نبیۖ کی رہنمائی فرمائی۔ غزوہ بدر میں دشمنوں کو معاف کردیا تو اللہ نے فرمایا کہ” ان کا خون کیوں نہیں بہایا؟۔ تم دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے”۔ پھر جب غزوہ احد میں شدید زخم لگے تو انتقام کا پروگرام بن گیا۔ اللہ نے منع فرمایا کہ ” کسی قوم کے انتقام کا جذبہ اس حد تک نہ لے جائے کہ تم اعتدال سے ہٹ جاؤ”۔ جب ایک نابینا کی آمد پر پیشانی کے بل نمودار ہوئے تو اللہ نے فرمایا عبس وتولیٰ ان جاء ہ الاعمیٰ ” چیں بہ جبیں ہوا ایک شخص کہ اسکے پاس نابینا آیا”۔ قرآن نے لمحہ بہ لمحہ نبیۖ کی رہنمائی فرمائی تھی۔

قرآن کے ذریعے سورۂ نور کی ان آیات کے ذریعے ہم طاغوتی نظام سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ وآخر دعوٰنا ان الحمد للہ رب العالمین۔

تبصرہ نوشتۂ دیوار ہونا یہ چاہیے تھا کہ عظمت قرآن کے منتظم اور تمام مہمانان گرامی اس تقریر پر خوش آمدید کرتے اور سورۂ نور کی روشنی میں طاغوتی نظام کے خلاف راستہ ہموار کرنے کا عہد کرتے لیکن بعض لوگوں کے چہروں پر ہوائیاں اُڑتی دیکھی گئیں۔ درویش مسجد کے عالم دین نے کہا کہ ” تحریف قرآن کے حوالے کسی کی تحقیق کا ذکرکرنا مناسب نہیں تھا” لیکن یہ تحقیق کی بات نہیں ہے بلکہ اس بات کا کھلا اعتراف ہے کہ صحیح بخاری میں جو ایک ہی روایت قرآن کے محفوظ ہونے کے حوالے سے مل رہی ہے اس کا بھی انکار کرکے دوسرے کھاتے میں اس کو ڈالا جائے۔ یہ انفرادی مسئلہ بھی نہیں ہے بلکہ درسِ نظامی میں قرآن کی جس طرح کی تعریف پڑھائی جاتی ہے تو اس میں کھلم کھلا تحریف کا بھی عقیدہ پڑھایا جارہاہے۔ امام شافعی کے نزدیک قرآن کی کوئی ایسی آیت معتبر نہیں ہے جو خبر واحد یا مشہور ہو کیونکہ قرآن سے باہر کی آیت پر ایمان لانا کفر ہے۔ ان کے نزدیک بسم اللہ میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے۔ وہ جہری نمازوں میںجہری بسم اللہ بھی پڑھتے تھے ، جس کی وجہ سے ان پر رافضی ہونے کا فتویٰ بھی لگایا گیا تھا۔ امام شافعی کے دور میں حکمرانوں کا رویہ تبدیل ہوا تھا لیکن امام ابوحنیفہ قاضی القضاة (چیف جسٹس)کاعہدہ قبول نہ کرنے کی پاداش میں جیل میں بند کرکے شہید کئے گئے تھے۔ مسلک حنفی میں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ ”خبر واحد کی بھی آیت قرآن کے حکم میں ہے”۔ جب قرآن سے باہر کی آیات کو قرآن مانا جائے تو پھر قرآن کی حفاظت کا عقیدہ نہیں رہتا۔ جب بسم اللہ کو مشکوک کہا جائے تو ذٰلک الکتٰب لاریب فیہ ” یہ وہ کتا ب ہے کہ جس میں کوئی شبہ نہیں ”۔ کا عقیدہ نہیں رہتا ہے اسلئے قرآن کی غلط تعریف اصولِ فقہ میں پڑھانا چھوڑ دیا جائے۔ قرآن کی بہت ساری آیات سے المکتوب فی المصاحف سے لکھاہوا قرآن ثابت ہوتا ہے۔ پہلی وحی میں تعلیم بالقلم کا ذکر ہے۔ والقلم ومایسطرون ” قسم ہے قلم کی اور جو سطروں میں موجود ہے اس کی قسم ”سے بھی ثابت ہوتاہے کہ قلم سے سطروں میں لکھا ہواقرآن اللہ کا کلام ہے۔ اصولِ فقہ کے گمراہانہ عقائد مدارس والے پڑھتے اور پڑھاتے ہیں مگر سمجھتے اور سمجھاتے نہیں ہیں۔ ورنہ کب کی توبہ کرچکے ہوتے۔

ابن مسعود کے مصحف میں سورۂ فاتحہ اور آخری دو سورتوں کے صفحات پڑھنے پڑھانے کی وجہ سے پھٹ کرضائع ہوگئے اور جس نے کافی عرصہ بعد ابن مسعود کے مصحف کی زیارت کی تو اس نے بتایا کہ اس حالت میں مصحف کو دیکھا ہے اور اس پر کہانی گھڑنے والوں نے اپنا اپنا زوالِ علم وعرفاں دکھادیاتھا۔ صحیح بخاری وصحیح مسلم میں ابن مسعود سے متعہ کے حق میں ایک حدیث نقل ہے اور قرآن کی آیت پر اس حدیث کی وجہ سے اپنی تفسیر لکھ دی ہے ، جس طرح جلالین میں تفسیری نکات قرآن کے بین السطور میں درج ہیں لیکن بدقسمت لوگوں نے اس کو ابن مسعود کے مصحف کا حصہ بناڈالا۔ حالانکہ اگر متعہ کی آیات میں مقررہ وقت کا اضافہ ہوتا تو پھر احناف کو اپنے مسلک کے مطابق متعہ کا قائل ہونا چاہیے تھا۔ اسلئے کہ خبر واحد کی آیت بھی ان کے نزدیک قابلِ اعتبار بلکہ حدیث سے زیادہ معتبر ہے۔

بریگیڈیئر حامد سعید اختر نے ”میزان عمر عائشہ ” کتاب لکھ کر اُمت کے علماء کا کفارہ ادا کیا۔ مولانا قاضی یونس انور ۔ خطیب جامع مسجد شہداء مال روڈ لاہور۔

بریگیڈیئر حامد سعید اختر نے ”میزان عمر عائشہ ” کتاب لکھ کر اُمت کے علماء کا کفارہ ادا کیا۔ مولانا قاضی یونس انور ۔ خطیب جامع مسجد شہداء مال روڈ لاہور۔

بخاری کی روایت رسول اللہ ۖ کی ناموس، حضرت عائشہ ، حضرت ابوبکر کے گھرانے اور اسلام پر حملہ ہے،جو کھلے حقائق کے بھی منافی ہے

بخاری کی احادیث رفع یدین کو گائے کی دُم اور ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کو باطل قرار دینے کے منکرینِ حدیث کا منہ توڑ جواب بھی نوشتۂ دیوار کے تبصرے میں پیش کیا گیا

قاضی محمد یونس انور خطیب جامع مسجد شہداء مال روڈ لاہورنے ”سیدہ عائشہ کی نکاح کے وقت عمر”کے موضوع پر نماز جمعہ کے خطاب میں کہا کہ نبی کریم ۖ کی زوجیت میں حضرت عائشہ صدیقہ کتنی عمر میں آئیں ؟یہ ہے اصل سوال۔ ہمارے یہاں مشکل یہ ہے کہ جب کوئی بڑا آدمی غلطی کر بیٹھتا ہے یا اس کی طرف سے کوئی منسوب چیز آجاتی ہے تو ہم تقلیدی ذہنیت رکھتے ہوئے اتنا جمود اختیار کرلیتے ہیں کہ اس سے باہر نکل نہیں سکتے۔ بدقسمتی سے حضرت عائشہ صدیقہ کی6سال میں نکاح کرنے والی روایت بخاری اور مسلم میں آگئی اور یہ دونوں ہی درجہ اول کی کتابیں ہیں۔ پوری اُمت کا اس بات پر اجماع ہے کہ بخاری و مسلم دونوں کو صحیحین کہا جاتا ہے۔ بعض لوگوں کا تو یہ خیال ہے کہ اس میں ایک بات بھی کمزور نہیں لیکن بالکل غلط بات ہے۔ صحیحین کا معنی تغلیباً ہے کہ غالب اکثریت ان روایات کی صحیح ہے لیکن یہ کہ ہر ہر بات ان کی سو فیصد صحیح ہے قرآن کی طرح، بالکل غلط بات ہے یہ۔اللہ تعالیٰ علامہ جلال الدین سیوطی کی قبر پر اپنی رحمتوں کی بارش فرمائے انہوں نے کتاب ”تدریب الراوی” حدیث کے اصولوں پر لکھی ہے اس میں لکھا ہے کہ” مسلم شیعت سے بھری پڑی ہے”۔ بخاری میں تلسانی کتاب التوحید کے اندر ایک راوی ہے عباد بن یعقوب الرواجنی جو بڑے محدث ہیں۔ حدیث پڑھانے والے زیادہ جانتے ہیں لیکن میرے جیسا طالب علم بھی تھوڑی سی کوشش کرتا ہے تو کوئی نہ کوئی بات مل جاتی ہے۔ اسکے بارے میں حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں ”صدوق رافضی حدیث فی البخاری” وہ رافضی ہے بخاری میں اس کی روایت موجود ہے۔ فلے بن سلیمان ایک راوی ہے عبد الملک اس کا اصل نام ہے لیکن اس کی کنیت فلے بن سلیمان ہے۔ بخاری کے ہر دوسرے تیسرے صفحے پر موجود ہے نہایت کمزور راوی ہے۔ اس سے بھی قطع نظر پچھلے جمعے عرض کرچکا ہوں اس روایت کا راوی ہے ہشام۔ محدثین جانتے ہیں کہ شروع زمانے میں بڑا معتبر راوی تھا۔ وہ بات کررہا ہوں جو عام آدمی کے ذہن میں آسکے۔ سارے محدثین نے اس سے روایتیں لی ہیں۔ بدقسمتی سے آخیر زمانے میں ان کا حافظہ بہت خراب ہوگیا تھا۔ اور یہ روایت6اور9سال والی اسی زمانے کی ہے۔ ان سے نقل کرنے والے جتنے مدنی شاگرد ہیں کوئی ایک مدینے والا شاگرد اس روایت کو نقل نہیں کرتا۔ جتنے بھی شاگرد اس کو نقل کرنے والے ہیں وہ سب کے سب عراقی ہیں۔ جس آدمی نے اس پر ایک ایک چیز تحقیق کی چونکہ رسول اللہ ۖ کی آبرو، عائشہ صدیقہ کی ناموس کا مسئلہ تھا ۔ دنیائے کفر نے اس روایت کو لے کر بڑا طوفان بد تمیزی کیا ہے۔ مغرب میں جو خاکے شائع ہوئے وہ اسی روایت کی بناء پر ہوئے۔ مثال کے طور پر نقل کفر کفر نہ باشد یہ لفظ کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے کہ مسلمانوں کا پیغمبر اتنا ہوس پرست تھا معاذ اللہ معاذ اللہ کہ اپنے ایک مرید کو اقتدار کا لالچ دیکر اسکے ساتھ اقتدار کا وعدہ کرکے کہ میرے بعد آپ نے ہی اقتدار لینا ہے اس کی چھوٹی سی نابالغ6برس کی بچی کو نکاح میں لے لیا۔ میں اور آپ جتنی تاویلیں بھی کریں میرے دوستو! جتنا بھی بچائیں بخاری کی روایت کو ۔ یا بخاری کی روایت کو بچالیں یا رسول اللہ ۖ کی ناموس کو بچالیں۔ بخاری کی روایت کے مجروح ہونے سے ہمارا کفر لازم نہیں آتا۔ لیکن نبی ۖ کی ذات مجروح ہوجائے تو ہمارا ایمان باقی نہیں رہتا۔ یہ راوی کا بیان ہے رسول اللہ ۖ کافرمان نہیںہے۔ اس روایت کے ذریعے سے دشمن نے کئی شکار کئے ۔ نبی کی ذات پر بھی حملہ کیا عائشہ صدیقہ کی شخصیت کو مجروح کیا۔ ابوبکر صدیق کے گھرانے کو مجروح کیا بلکہ پورے اسلام کو مجروح کیا ہے۔ جبکہ حقائق اسکے برعکس ہیں۔ اس کا منفی اثر یہ نکلا کہ جتنے بھی خاکے رسول اللہ ۖ کے خلاف یورپ کے اندر مغربی دنیا میں شائع ہوئے ہیں ان روایات کا سہارہ لیکر انہوں نے رسول اللہ ۖ کی ذات پر کیچڑ اچھالا ہے۔ اس کے بعد پھر ہنگامے ہوئے مظاہرے ہوئے مردہ باد کہیں یا کچھ بھی کہیں لیکن دشمن کو جب ہم ہتھیار خود دیں گے تو اس ہتھیار کو وہ ہمارے خلاف استعمال کرے گا تو کیسے ہم اس کا توڑ کرسکتے ہیں؟۔ قرآن کی آیت کا انکار کرنا کفر ہے کسی راوی کی روایت کا انکار کرنا کفر نہیں ہے۔

اس روایت کو ایک طرف رکھئے اب میں کچھ حقائق آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ پچھلے جمعے میں عرض کرچکا ہوں طبری قدیم مورخ ہے۔ کتابیں میرے پاس ہیں اور اپنی آنکھوں سے دیکھ کر یہ بات کررہا ہوں۔ اس نے کہا کہ صدیق اکبر نے زمانہ جاہلیت میں یعنی اسلام آنے سے پہلے دو عورتوں کے ساتھ نکاح کیا تھا ایک کا نام قتیلہ، ایک کا اُم رومان تھا۔ قتیلہ سے صدیق اکبر کے دو بچے تھے، بیٹی کا نام اسمائ تھا۔ بیٹے کا نام عبد اللہ تھا۔ دوسری خاتون اُم رومان سے بھی دو بچے ہوئے۔ ایک کانام عبد الرحمن تھا اور بیٹی کا نام عائشہ تھا۔ یہ زمانہ جاہلیت میں پیدا ہوچکے تھے۔ یعنی ابھی اسلام آیا نہیں تھا اس سے پہلے حضرت عائشہ صدیقہ پیدا ہوچکی تھیں۔ اب اسلام جب آیا تو پیغمبر اسلام ۖ کی عمر کتنی تھی؟40سال۔ آپ ۖ نے مکہ معظمہ میں کتنے عرصے زندگی گزاری؟۔13سال۔ اس سے پہلے جو بچی پیدا ہوگئی ہے اس کو2سال کی3سال کی بھی تسلیم کرلیں تب بھی حضرت عائشہ صدیقہ14،15،16سال کی بوقت نکاح ہر صورت میں ثابت ہیں۔ دوسری بات، حضور ۖ نے جب نبوت کا اعلان فرمایا تو آپ پر ایمان لانے والے ابتدائی40آدمی ان میں عائشہ صدیقہ کا نام بھی ہے۔ آپ سیرت ابن ہشام پڑھ کر دیکھ لیں اسکے ترجمے میں لکھا ہوا ہے۔ یہ بات یاد رکھیں کہ کوئی بچہ جب ایمان لاتا ہے تو ایمانیات کے اصولوں کو سمجھنے کیلئے اس کا ہوش مند ہونا ضروری ہے کہ نہیں؟۔ اور1،2سال کے بچے کے ایمان کا کوئی اعتبار ہوتا ہے؟۔ کم از کم6،7سال کا بچہ ہو تب وہ بات کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تو عائشہ صدیقہ اس فہرست میں شامل ہیں جو ابتداء میں رسول اللہ ۖ پر ایمان لانے والے لوگ تھے۔ کم از کم5،6سال کی عائشہ صدیقہ کو تسلیم کریں تو تب ان کے ایمان کا اعتبار ہوتا ہے۔ اگر وہ5سال کو پہنچ چکی تھیں تو ایمان لائیں تو13سالہ مکی زندگی ہے پھر رخصتی کا زمانہ کتنا بنتا ہے؟ میں پچھلے جمعے ایک بات عرض کرچکا ہوں حساب کتاب کے ماہرین فوراً سمجھیں گے اس کو ان کی بڑی ہمشیرہ دوسری ماں سے جن کا نام حضرت اسمائ بنت ابی بکر ہے مشہور صحابیہ ہیں۔ان کا تذکرہ سب نے لکھا ہے۔ حتیٰ کہ صاحب مشکوٰة نے ، مشکوٰة ہماری احادیث کی کتابوں میں سب سے پہلے پڑھائی جاتی ہے اس کے آخر میں راویوں کی ایک لمبی فہرست ہے اس کا نام ہے ”الاکمال فی اسماء الرجال”۔ اس میں حضرت اسمائ کا تذکرہ ہے۔ اس میں لکھا ہے وہ100سال کی عمر میں فوت ہوئیں۔ کب فوت ہوئیں؟۔ سن73ہجری میں ۔ سب نے لکھا ہے یہ مسلمات میں سے ہیں اختلاف کسی کا نہیں۔ یہ اپنی چھوٹی بہن عائشہ سے10سال عمر میں بڑی تھیں۔ ان تینوں چیزوں کو سامنے رکھ کر ذرا حساب لگائیں۔ اس بات کو محدثین نے بھی لکھا ہے مورخین نے بھی لکھا ہے۔ اسماء بنت ابی بکر اپنی چھوٹی بہن سے کتنی بڑی تھیں؟10سال۔ فوت کب ہوئیں؟۔73ہجری میں۔ کتنی عمر میں فوت ہوئیں؟۔100سال کی عمر میں ۔ جو خاتون100سال کی تھیں73ہجری میں وہ یکم ہجری کو کتنے سال کی ہوںگی؟27سال کی۔ اور یکم ہجری کو27سال کی تھیں تو ان سے10سال عمر میں جو چھوٹی ہمشیرہ وہ یکم ہجری کو کتنے سال کی ہوئیں؟۔ کوئی بھی پہلو لے لیں یا کسی صورت کے اندر حضرت عائشہ صدیقہ6سال کی عمر کی نہیں تھیں بوقت نکاح۔ یہ تو میں نے سمپل دو چار باتیں کی ہیں۔ آپ کو دسیوں دلائل اور دئیے جاسکتے ہیں۔بخاری شریف کی پہلی حدیث کتاب الایمان میں نزول وحی والی۔ اس کا عنوان ”سب سے پہلے رسول اللہ ۖپر جو وحی نازل ہوئی اس کی کیفیت ”اس کی راوی حضرت عائشہ ہیں حضرت خدیجة الکبریٰ نہیں۔40کی عمر میں رسول اللہ ۖ پر وحی آئی تو وحی کی کیفیت کون بیان کر رہا ہے؟ ۔حضرت عائشہ بیان کررہی ہیں۔ دوسری زوجہ حتیٰ کہ حضرت خدیجہ بھی بیان نہیں فرمارہیں۔27ویں پارے میں ایک سورت ہے سورہ قمر یہ قرآنی ترتیب کے حساب سے54نمبر کی سورت ہے اورنزولی ترتیب سے37ویں نمبر کی ہے۔ اس کی46ویںنمبر کی آیت ہے والساعة ادھٰی و امر قیامت کا منظر پیش کیا گیا ہے قیامت بڑی خوفناک ہوگی بڑی تلخ حقیقت ہوگی۔ حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں جب یہ سورہ مبارک نازل ہوئی تو ہمارے گھروں کے اندر تلاوت ہوتی تھی اور مجھے اچھی طرح یاد ہے یہ سورہ مبارکہ سن4نبوی میں نازل ہوئی۔ نبوت کا چوتھا سال تھا۔ تو جو بچی یہ کہتی ہیں کہ میں بڑی ہوشیار تھی کھیلتی کودتی تھی اور یہ سورت نازل ہوئی اور اس کی آیت مجھے اچھی طرح یاد ہے تو کب پیدا ہوچکی تھیں؟۔ رسول اللہ ۖ کی ابتدائے نبوت سے پہلے پیدا ہوچکی تھیں۔ جو پہلو بھی لے لیا جائے میرے دوستو! سوائے بخاری اور مسلم کی ان دو روایتوں کو چھوڑ کر جتنے بھی حقائق ہیں وہ سب کے سب ثابت کررہے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ جب رسول اللہ ۖ کے نکاح میں آئیں تو وہ بالغ ہوچکی تھیں۔ یہاں ایک اور بات۔ جب صدیق اکبر کو یہ پیغام پہنچایا اس خاتون نے کہ رسول اللہ ۖ کے ساتھ اپنی بیٹی کا نکاح کردیں۔ اور انہوں نے یہ فرمایا کہ حضور تو میرے بھائی ہیں۔ جو اشکال ظاہر کیا وہ بھائی ہونے کاکیا۔ اگر عائشہ صدیقہ6سال کی ہوتیں تو یہ کہتے کہ یہ کیونکر ممکن ہے وہ تو بچی ہیں ابھی۔ اگر کسی چھوٹی سی بچی کے ساتھ نکاح کا پیغام دیں تو ہر ماں باپ کہتا ہے کہ وہ تو ابھی بچی ہے۔ صدیق اکبر نے اور حضرت اُم رومان نے یہ اشکال پیدا نہیں کیا کہ وہ ابھی بچی ہے بلکہ یہ کہا کہ حضور ۖ صدیق اکبر کو بھائی قرار دے چکے ہیں۔ اچھا کہا جاتا ہے کہ6سال کی عمر میں حضرت عائشہ صدیقہ کا نکاح حضور ۖ کیساتھ ہوگیا۔ مولویوں کی تاویلیں۔ عرب معاشرہ بڑا گرم تھا۔ گرم معاشرے میں لڑکیاں جلدی جوان ہوجاتی ہیں۔ ان خرافات کی بھی حد ہوگئی خدا کی قسم۔ بس اس گرم معاشرے میں ایک عائشہ صدیقہ جوان ہوئیں، ہزاروں لاکھوں انسانوں میں سے کوئی اور بچی جوان نہیں ہوئی؟۔ انہوں نے عقیدت میں یہ بات تو کہہ دی لیکن میں پوچھتا ہوں ان مولوی صاحبان سے جو اس روایت کو بچانے کیلئے ہاتھ پاؤں مارتے ہیں کہ تم اپنے کسی پیر و مرشد کو جو50سال کی عمر کو پہنچ چکے ہیں ، تمہارے پیر و مرشد تمہارے استادکو6سال کی بچی اسکے نکاح میں دے دو۔ تیار ہو؟۔ آپ دوستوں سے میں پوچھتا ہوں کہ آپ کا کوئی پیر ومرشد ہو جس کیساتھ آپ کو بے انتہا محبت ہے وہ اگر آپ کی6سال کی بچی کی پیشکش کرے کہ میرے نکاح میں دیدو تو آپ کو تعجب نہیں ہوگا کہ ہمارے حضرت صاحب اتنے نیک انسان ہیں اللہ کے ولی بزرگ ہیں کیسی باتیں کررہے ہیں؟۔ عقل مانتی ہے اس بات کو؟۔ میرے دوستو! اس روایت کو بچاتے بچاتے صرف اتنی تاویل کی جاسکتی ہے کہ راوی سے غلطی ہوگئی16سال کہنا تھا وہ6سال کہہ گیا19سال کہنا تھا وہ9سال کہہ گیا۔ بس اتنی سی بات ہے۔ بریگیڈئیر حامد سعید اختر اللہ انہیں سلامت رکھے انہوں نے ایک بڑا خوبصورت شعر اور ایک مضمون لکھا جو ایک کتاب کی شکل میں چھپ گیا ہے۔ کتاب کے آخر میں اس نے لکھا ہے دنیا میں احترام کے قابل ہیں جتنے لوگ بہت خوبصورت شعر کہا ہے شاعر بھی ہیں وہ انہوں نے مجھے وہ شاعرانہ کلام دکھایا جو انہوں نے لندن میں ہائڈ پارک کے کنارے پر بیٹھ کر لکھا تھا بڑا زبردست ہے ان کی کمال کی شاعری دلیل ہے۔ یہ دنیوی پڑھے لکھے لوگ سارے ڈفر نہیں ہوتے، بڑے سلیم الفطرت بھی ہوتے ہیں ۔ بریگیڈئیر حامد سعید کے گھر میں گیا ہوں ایک سے زائد مرتبہ بہت اچھے انسان ہیں ۔ ڈیفنس میں رہتے ہیں۔ اللہ انہیں سلامت رکھے اور ان کے جذبات کو قبول فرمائے۔ انہوں نے یہ کتاب کمال کی لکھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ پوری دنیا کے مسلمان علماء کا کفارہ ادا کیا انہوں نے۔ کہتے ہیں کہ دن رات6مہینے تک میں سویا نہیں۔ اس قدر تکلیف ہوئی مجھے ان خاکوں سے۔ اور پھر میں نے پورا تجسس کرنے کے بعد اس روایت کا پورا پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد وہ کتاب لکھی۔ بہت شاندار کتاب ہے ”میزان عمر عائشہ”۔ اور لکھا ہے کہ

دنیا میں احترام کے قابل ہیں جتنے لوگ
ان سب کو مانتا ہوں مگر مصطفی کے بعد

رسول اللہ ۖ کی ذات سب سے پہلے ہے۔ دنیا کی کوئی کتاب کوئی روایت جس سے رسول اللہ ۖ کی شخصیت مجروح ہوتی ہو ، آپ کی ذات مجروح ہوتی ہو، آپ کی بے ادبی نکلتی ہو آپ کا گھرانہ مجروح ہوتا ہو ۔ سب کو ہم دیوار پر دے ماریں گے نبی کی ذات کو نہیں چھوڑیں گے۔ آخر میں ایک بات کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں، قرآن کی تو روزانہ تلاوت کرتے ہوں گے نا آپ لوگ؟۔ کرتے ہیں نا؟ ۔ کمزور سر نہ ہلائیں مجھے سخت تکلیف ہوتی ہے۔ میں یہ بات اسلئے کررہا ہوں کہ اللہ پاک نے مجھے توفیق دی ہے کہ صبح کی اذان سے پہلے میں تلاوت کرچکا ہوتا ہوں۔ ہم عہد کریں کہ ہم قرآن کریم کی روزانہ تلاوت کرینگے۔ انشاء اللہ ، اللہ جزائے خیر عطا فرمائے۔ اور میں کوشش کررہا ہوں کہ جو قرآن کریم میں شائع کروں آپ کو ایک ایک نسخہ دوں اس شرط کے ساتھ کہ آپ تلاوت کریں۔ انشاء اللہ ۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ قرآن کریم سورہ نساء اس کے چھٹے نمبر کی آیت ہے توجہ کریں۔ وابتلو الیتامٰی حتیٰ اذا بلغو النکاح کہ کسی کی بچیاں بچہ یتیم رہ جائیں تو ان کے مال کی حفاظت کرو وہ مال تمہارا نہیں ان بچوں ہی کا ہے، ان کو وقتاً فوقتاً آزماتے رہو کہ وہ مال کا تحفظ کرسکیں گے کہ نہیں کرسکیں گے۔ یہاں تک کہ وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں۔ سب مفسرین میں نے دیکھا اذا بلغو حد البلوغ نکاح کا معنی کیا حد البلوغ بلوغت کو پہنچ جائیں۔ قرآن کریم میں اللہ کیلئے مشکل نہیں تھا کہ یوں فرماتا کہ حتیٰ اذا بلغو حد النکاح اس کے بجائے اللہ نے فرمایا حتیٰ اذا بلغو النکاح تو لفظ نکاح بول کر بلوغت مراد لی ہے۔ اس سے پتہ یہ چلا کہ منشائے الٰہی یہ ہے نکاح کی عمر وہی ہے جو بلوغت والی ہے۔ حتیٰ اذا بلغو النکاح ۔ اچھا یہ بتائیں گرمی پہلے تھی اب نہیں ہے؟۔ آپ کے لاہور پنجاب میں گرمی نہیں ہوتی؟۔ سبی اور جیکب آباد کا علاقہ سب سے زیادہ گرم ہے پاکستان میں۔ عرب ممالک میں گرمی ہوتی ہے آج سے14سو سال پہلے عرب ممالک کی گرمی اور اب گرمی میں کوئی فرق پڑا ہے؟۔ کوئی فرق نہیں پڑا۔ بلکہ اب کچھ زیادہ ہے۔ الیکٹرانک آلات زیادہ استعمال ہونے کی وجہ سے گرمی زیادہ ہے۔ اچھا یہ بتائیں کہ اس زمانے میں لوگوں کی معیشت والی حالت زیادہ اعلیٰ تھی یا اب اعلیٰ ہے؟۔ تو اب جو بچیاں وہاں رہتی ہیں وہ کھانے پینے کی اشیاء اعلیٰ سے اعلیٰ اس زمانے کے مقابلے میں استعمال نہیں کرتیں؟۔ کرتی ہیں۔ تو اس زمانے میں کتنی6سال کی بچیاں بالغ ہوتی ہیں جو نکاح ہوتے ہیں۔ عجیب تماشہ ہے خدا کی قسم کہ د.شمنان اسلام نے حملہ بھی کیاتو پیغمبر کی ذات پر۔ نبی کے گھرانے کو مجروح کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اس میں ہمارا کردار ہے ہم مولویوں کا کہ ہم نے سوچے سمجھے بغیر ان روایات کو سہارا دیا اور یہ نہ سمجھا کہ اس سے نبی کی ذات مجروح ہورہی ہے۔ بھئی اگر ترمذی ، ابن ماجہ، حدیث کی دوسری کتابوں کی بہت ساری روایات کو تم چھوڑ دیتے ہو ضعیف اور موضوع ہونے کی بناء پر اس کے باوجود بھی امام ترمذی کا ادب و احترام بدستور قائم ہے ابن ماجہ کا احترام موجود ہے دیگر محدثین کا، امام احمد کی مسند کا احترام موجود ہے، باوجود یہ کہ بے شمار روایتیں اس کے اندر کمزور ہیں۔ اگر بخاری و مسلم کی کسی ایک روایت کو کمزور کہہ دیا گیا تو اس سے امام بخاری کی نہ شخصیت مجروح ہوتی ہے نا ان کی توہین ہوتی ہے نا اسلام کا کوئی ستون گرتا ہے۔ البتہ یہ کہ ان روایتوں کے انکار کرنے کے سبب سے رسول اللہ ۖ کی ذات بچتی ہے عائشہ صدیقہ کی شخصیت بچتی ہے صدیق اکبر کا گھرانہ بچتا ہے۔ ہمارے لئے روایتوں کو بچانے کے بجائے نبی کا احترام اور اس کو قائم رکھا جائے زیادہ اہم ہے۔ ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ رسول اللہ ۖ کی ذات کا ادب و احترام یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے اگر نبی کی ذات مجروح ہوتی ہے اور ہم اس کوبرداشت کرلیتے ہیں تو ہمارے اندر ایمان باقی نہیں رہتا۔

تبصرۂ نوشتۂ دیوار اللہ نے حقائق کو چھپانے کی تعلیم نہیں دی۔ جب نبیۖ نے خواہش رکھی کہ ”اگر زیدنے کسی صورت بھی اپنی بیوی کو اپنے پاس نہیں رکھا تو اس کی دل جوئی کیلئے نبیۖ شادی کریں اور خوف تھا کہ لوگ کہیں گے کہ لے پالک بیٹے کی بیوی سے نکاح کا۔ وحی نازل ہوئی وتخشی الناس واللہ احق ان تخشٰہ ”اور آپ لوگوں سے ڈر رہے تھے اور اللہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس سے ڈرو”۔ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو حضرت عائشہ نے کہا کہ ” اگر نبیۖ کسی بات کو چھپانا چاہتے تو وحی کی ان آیات کو چھپاتے”۔ (صحیح بخاری)

یہ غیرمسلموں کیلئے قطعی طور پر قابل قبول نہیں کہ کسی بات کا انکار اسلئے ہو کہ اس سے نبیۖ کی ناموس پر اثر پڑتا ہے۔ البتہ یہ واضح حقیقت ہے کہ نکاح کے وقت حضرت عائشہ کی عمر16سال اور رخصتی کے وقت19سال تھی اور مسلمانوں کا فرض بنتاہے کہ لوگوں کے سامنے حقائق لائے جائیں۔ قرآن کی جس آیت میں ایسی عورتوں کا ذکر ہے جن کو حیض نہیں آتا ہے تو اس سے مراد عمر کی زیادتی، بیماری اور بانجھ ہونا ہے۔ بچیاں مراد نہیں ہیں۔ بچیوں پر نساء کا اطلاق نہیں ہوتا ہے۔ بچی کو حیض آتا ہے اور نہ اس کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ قرآن میں یتیم بچوں کیلئے نکاح کی عمر تک پہنچنے کی بات ہے اور اس سے جنسی بالغ ہونا مراد نہیں کیونکہ انسانوں میں صلاحیت مختلف ہوتی ہے جس عمر میں یتیم مال سنبھالنے کے قابل بن جائیں وہ عمر مراد ہے ۔ بسا اوقات بالغ ہونے کے باوجود کوئی کاروبار کے قابل بھی نہیں ہوتاہے بلکہ اس کو زیادہ عمر تک تجربہ درکار ہوتا ہے۔

صحیح بخاری میں ابنة الجون کے بارے میں مختصر ذکر ہے کہ نبی ۖ کے پاس لایا گیا۔ نبی ۖ نے اس کو دعوت دی کہ خود کو مجھے ہبہ کردو۔ اس نے کہا کہ کیا ملکہ خود کو بازارو کے حوالے کرسکتی ہے؟۔ نبیۖ نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تو اس نے کہا کہ اعوذباللہ منک میں تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں۔نبی ۖ نے فرمایا فقد عذت بمعاذ ”جس کی پناہ مانگی جاتی ہے اس کی آپ نے پناہ مانگ لی اور اس کو دوچادریں دیکر اسکے گھر پہنچانے کا حکم دے دیا۔(صحیح بخاری)

صحیح بخاری کی اس روایت کی تشریح میں علامہ غلام رسول سعیدی اور مولانا سلیم اللہ خان نے اپنی اپنی بخاری کی شرح میں علامہ ابن حجر کی وضاحت نقل کی ہے کہ ” سوال پیدا ہوتا ہے کہ نبیۖ کا اس سے نکاح نہیں ہواتھا تو اسے خلوت میں کیسے لیا؟، ہبہ ہونے کی دعوت دی؟ اور ہاتھ کیسے بڑھایا؟۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ نبیۖ کا صرف اس کو طلب کرنا نکاح کیلئے کافی تھا ،چاہے وہ خود راضی ہو یا نہیں ہو اور اس کا ولی راضی ہو یا نہیں ہو۔ نبیۖ نے محض تطیب خاطر کیلئے پوچھا ورنہ تو اس کی ضرورت نہیں تھی”۔(کشف الباری ، نعم الباری)

جس نبی ۖ نے فرمایا کہ جس عورت کا نکاح ولی اس کی اجازت کے بغیر کردے تو اس کا نکاح نہیں ہوا۔ جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اسکا نکاح باطل ہے باطل ہے باطل ہے۔ اس نبیۖ پر اتنا بڑا بہتان لگانا کتنا گھناؤنا جرم ہے؟۔ جب اس کی پوری تفصیل بھی موجود ہے کہ الجون نے نیا نیا اسلام قبول کیا تھا اور اپنی بیٹی کا عرض کیا کہ عرب کی خوبصورت ترین عورت سے آپ کا نکاح کردوں؟ اور نبیۖ نے حامی بھرلی۔ حق مہر طے ہوا۔ ازواج مطہرات نے بناؤ سنگھار کیا اور اس کو سمجھایا کہ اس طرح کا رویہ رکھو اور یہ جواب دو۔ ان کو معلوم تھا کہ نبیۖ پہلے حسب معمول پوچھتے ہیں تاکہ عورت کی رضامندی معلوم ہو جائے ۔ اس عورت ابنت الجون نے سادگی سے ازواج مطہرات کی باتیں مان لیں اور جب گھر لوٹ گئی تو گھر والوں نے کہا کہ آپ بدنصیب ہیں کہ اس شرف سے محروم ہوگئیں اور جب نبیۖ کو پتہ چلا تو فرمایا کہ ”سوکنوں نے سوکناہٹ کا معاملہ دکھا دیا”۔

اس واقعہ کی تمام تفصیلات سامنے آجائیں تو سورۂ یوسف کے احسن القصص سے بھی نبی ۖ کی اعلیٰ سیرت قابل اتباع بنتی ہے اور یہ ازل سے ابدتک معاشرتی مسائل کا بڑا حل ہے لیکن بخاری کی حدیث کی مختصر روایت پر کتنا بے تکا تبصرہ کیا گیاہے اور اس کو کتنی بے شرمی سے نقل کیا گیا ہے؟۔

بخاری کی کتنی احادیث میں نمازوں کے اندر رفع یدین کا ذکر ہے لیکن مولوی کہتے ہیں کہ ”یہ العیاذ باللہ گائے کی دُم کو ہلانے کی طرح ہے۔ حالانکہ عیدین میں تین تین بار ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں لیکن ان کو گائے کی دُم نہیں کہا جاتاہے۔ اور جب نبیۖ نے ولی کی اجازت کے بغیر عورت کے نکاح کو باطل قرار دیا تو کتنی ڈھٹائی کیساتھ اس حدیث کو رد کردیتے ہیں اور بہت سارے معاملات میں بخاری کے اندر تضادات موجود ہیںمگر ان تضادات کی طرف علماء میں متوجہ کرنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے۔ صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ بیوی کو حرام کہنے سے تیسری طلاق واقع ہوجاتی ہے اور ایک روایت چھوڑ کر اگلی روایت میں ہے کہ حرام کہنے سے کچھ بھی واقع نہیں ہوتا کیونکہ یہ نبی ۖ کی ا سوہ ٔ حسنہ (سورہ تحریم) سے ثابت ہے۔

مفتی منیر شاکر نے بھی پشتو زبان میں اپنی تقریر میں یہ کہا کہ لوگ ہندو عورت کے پیچھے پڑگئے لیکن6سال اور9سال والی روایت تو بخاری میں ہے جو مدارس میں پڑھائی جاتی ہے تو اسکا کچھ کرو”۔ اس پر پشتو میں شیخ ابو حسان اسحق السواتی نے کہا کہ” اس حدیث کا انکار قرآن کا انکار ہے اسلئے کہ اللہ نے حکم دیا ہے کہ رسول ۖ کی اطاعت کرو۔ مفتی منیر شاکر قرآن کی بات کرتا ہے ،وہ اس حدیث کا انکار کرکے قرآن کا منکر ہے”۔

حکیم نیاز احمد فاضل دیوبند نے ایک بڑی ضخیم کتاب کشف الغمة عن عمر ام الامة یعنی تحقیق عمر عائشہ صدیقہبہت پہلے لکھی ہے اور اس موضوع پر کئی دوسری کتابیں بھی آچکی ہیں۔ فن حدیث ،مختلف روایتوںاور راویوںکوتحقیقی انداز میں پیش کیا ہے۔ اہل علم کو چاہیے کہ تحقیقی انداز کو اپنائیں اور اپنی عاقبت خراب ہونے سے بچاہیں۔ فقہ حنفی میں بہت ساری احادیث کو قرآن سے متصادم قرار دیا جاتا ہیں۔ نبیۖ نے فرمایا کہ جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اسکا نکاح باطل ہے باطل ہے باطل ہے۔ لیکن حنفی فقہ اس کی مخالف ہے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ نکاح کیلئے دوصالح گواہ ضروری ہیں۔ حنفی کہتے ہیں کہ دو فاسق بھی کافی ہیں۔ اور نبی ۖ نے فرمایا کہ دف بجاکر نکاح کا عام اعلان کرو، مگر حنفی کہتے ہیں کہ دوفاسق گواہ کا خفیہ نکاح اعلان ہے۔اگر حدیث کا انکار قرآن کا انکار ہے تو پھر شیعہ ٹھیک کہتے ہیں کہ حضرت عمر نے حدیث قرطاس کا انکار کیا تو قرآن کا بھی انکار کردیا؟۔ علماء ومفتیان سے گزارش ہے کہ تعصبات کی جگہ علم سیکھ اور سمجھ کر قرآن واحادیث کی درست خدمت کریں۔حنفی مسلک کا کمال ہے کہ قرآن کے مقابلے میں احادیث کو رد کیا لیکن قرآن میں پہلے شوہر سے آزادی دلانے کیلئے طلاق کے بعد عورت کونکاح ثانی کا حکم ہے۔ حدیث میں ولی کی اجازت سے مراد کنواری ہے اور قرآن نے بیوہ کو بھی عدت کے بعد آزاد قرار دیا۔ لیکن جمہور حدیث کے خلاف آیت کی تصریح بھی نہیں مانتے ہیں۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں مولانا عبدالواحد قریشی نے کہا کہ ”قرآن کا ترجمہ پڑھنے سے لوگ گمراہ ہوتے ہیں اسلئے علماء کی نگرانی میں قرآن کا ترجمہ پڑھنا چاہیے”۔ جواب میں مولانا سراج الدین نے ناراضگی کا اظہار کیا کہ ” شاہ ولی اللہ اور انکے بیٹوں نے قرآن کا ترجمہ عوام کو گمراہ کرنے کیلئے کیا؟۔دیوبند کے اکابر شیخ الہند محمود الحسن، مولانا اشرف علی تھانوی، علامہ شبیر احمد عثمانی اور دیگر اکابر نے کیا عوام کو گمراہ کرنے کیلئے قرآن کا ترجمہ کیا تھا؟۔ یہ کیسی جہالت کی باتیں ہورہی ہیں”۔

ان دونوں علماء کرام کا تعلق علماء دیوبند اور فقہ حنفی سے ہے اور اتنے بنیادی اختلاف میں بھی دونوں کی باتوں میں بڑا وزن ہے۔ میں نے مدارس کی خاک چھانی تھی اور ایک قابل طالب علم سمجھاجاتا تھا لیکن مدارس کی سرپرستی میں قرآن کا ترجمہ پڑھنے سے طلاق کا مسئلہ سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ پھر طلاق کا مسئلہ سمجھنے کیلئے قرآن کی طرف رجوع کیا تو میرے چودہ طبق روشن ہوگئے۔ آج کی دنیا میں صرف اسرا.ئیل کو چھوڑ کر کوئی ایسا ملک نہیں ہے کہ جہاں کی عوام نے حلالے کے خلاف ہم سے فتویٰ نہیں لیا ہو۔ اگر قریشی قرآن سے عوام کو منع کرتاہے تو اس میں وزن ہے اور مولانا سراج الدین کی بات میں بھی وزن ہے۔

بخاری میں ہے کہ رسول اللہ ۖ نے متعہ کے حوالے سے فرمایا لاتحرموا مااحل اللہ لکم من الطیبٰت ”جس چیز کو اللہ نے تمہارے لئے حلال کیا ہے اس کوحرام مت کرو”۔ اور بخاری میں ہے کہ غزوہ خیبر کے موقع پرنبیۖ نے متعہ اور گھریلو گدھوں کو حرام کیا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عرب میں گدھے کھانے کا رواج تھا؟۔ پہلے کھایا بھی جاتا تھا ؟۔ اس کا جواب نفی میں ہے اسلئے کہ اللہ تعالیٰ نے خیل یعنی گھوڑے، خچر اور گدھے کو زینت اور سواری کی چیز بتایا ہے اور اگر لوگ ان کو کھاتے تو سواری کی جگہ کھانے کا ذکر ہوتا۔ اگر نبی ۖ نے متعہ کو فتح خیبر کے موقع پر حرام کردیا تھا تو پھر فتح مکہ کے موقع پر دوبارہ کیسے حلال کردیتے؟۔ علماء ومفتیان کا فرض بنتا ہے کہ تحقیقات کرکے اسلام کا روشن چہرہ واضح کریں اور صرف کھانے پینے اور عیش اڑانے تک محدود نہ ہوں۔

ترقیاتی کام کیلئے پانی اور بجلی بنیادہے ۔ وجعلنا من الماء کل شیء حی

ترقیاتی کام کیلئے پانی اور بجلی بنیادہے ۔ وجعلنا من الماء کل شیء حی

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

ہر ملک وقوم کی کوئی نعمت ہوتی ہے اور پاکستان کی نعمت ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہاڑوں سے سمندر میں پانی کا بہاؤ ہے جس سے بہت سستی بجلی پیدا کرکے خوشحالی آسکتی ہے!
اللہ نے فرمایا: اللہ کے پاس خاص وقت( انقلاب) کا علم ہے،وہ بارش برساتاہے اور وہ جانتا ہے کہ رحموں میںکیا ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا کمائے گا اور کس زمین پر وہ مرے گا۔ (القرآن)
پاکستان کے پاس پانی کا بہاؤ ایک کنارے کے پہاڑوں سے لیکر دوسرے کنارے کے سمندر تک قدرت کا عظیم تحفہ ہے ، اگر زراعت اور سستی بجلی پیدا کرنے کا وسیلہ بنایا توانقلاب آجائیگا!

مشہور ہے کہ قرآن حجاز میں نازل ہوا۔ مصر والوں نے اس کو پڑھا اور ہند والوں نے اس کو سمجھا۔ علامہ اقبال نے بھی طلوع اسلام میں شکوہ ترکمانی، ذہن ہندی اور نطق اعرابی کی بات کی ہے۔ سعودی عرب کے مشہور عالم دین ڈاکٹر عائض قرنی کی کتابیں سعودی عرب، دوبئی اور دنیا کے ائیرپورٹ اور بک سٹالوں میں موجود ہیں۔ عربی میں کمال حاصل کرنے کیلئے ان کی کچھ کتابیں میں خرید ی تھیں ۔ جس میں ان کی تفسیر بھی شامل ہے۔ ڈاکٹر عائض قرنی امریکہ سمیت دنیا بھر میں گھومے ہیں اور ایک عالم دین،عربی ادیب کے علاوہ جہاندیدہ شخصیت بھی ہیں۔پہلے عربی کی تفاسیر میں لکھا تھا کہ ” اللہ ہی کو معلوم ہے کہ بارش کب ہوگی”۔ اب جب دنیا نے ترقی کرلی ہے اور ڈاکٹر عائض قرنی کو معلومات ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں بارش کب ہوگی ،اس کا پتہ چلتا ہے تو اس نے تفسیر میں تبدیلی کرلی اور لکھ دیا کہ ” اللہ ہی قدرتی بادلوں سے بارش برسا سکتا ہے”۔ لیکن جب دنیا کچھ مزید ترقی کرلے اور قدرتی بادلوں سے بارش برسانے اور بادلوں کو ہنکاکر بھگانے کی صلاحیت بھی پیدا کرلے تو پھر تفسیر بدلنی پڑے گی؟۔
رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ”دجال اکبر میں یہ صلاحیت ہوگی کہ جہاں بھی چاہے گا تو بارش برسے گی اور جہاں چاہے گا تو بارش نہیں برسے گی”۔ جس کا یہ مطلب ہے کہ قرآن کا مطلب ڈاکٹر عائض قرنی غلط لے رہے ہیں۔ حدیث میں دجال کے اندر ایسی صلاحیت کا ذکر ہے تو دوسرے لوگوں سے بھی صلاحیت کا انکار نہیں کیا جاسکتا ہے اور اس کو خدا کے ساتھ قرار دینا بھی قرآن کا مفہوم نہیں ہوسکتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ دنیا میں دوسرے لوگوں اور ممالک میں بھی بارش سے پانی نچوڑنے کی صلاحیت ہو لیکن دجال زیادہ طاقتور ہو اسلئے اس کا خاص طور پر نبی ۖ نے ذکرکیا ہو۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ سورج ، چاند ، ستاروں، بادل اور دنیا کی ہر چیز کیلئے فرمایا ہے کہ انسانوں کیلئے سب چیزیں مسخرات ہیں۔
قرآن کے الفاظ یہ ہیں کہ ” بیشک اللہ کے پاس الساعة کاعلم ہے۔ وہ بارش برساتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ رحموں میں کیا ہے اور کوئی نفس نہیں جانتا ہے کہ کل وہ کیا کمائے گا اور کس زمین پر مرے گا”۔ پہلی بات یہ ہے کہ الساعة سے مراد قیامت بھی ہے اور انقلاب کا وقت بھی ۔ قرآن نے دونوں کے لئے یہ الفاظ استعمال کئے ہیں۔ جب فتح مکہ کا انقلاب آیا تو مشرکین ِ مکہ اور یہود ومنافقین کے وہم وگمان میں بھی نہیںتھا کہ حجاز کے حالات اتنے جلد تبدیل ہوجائیں گے اور مسلمانوں کو اتنی بڑی فتح اور برتری حاصل ہوگی اور وہ پھر قیصرروم اور کسریٰ ایران کو بھی شکست دیں گے جو مشرق ومغرب کی دو سپر طاقتیں تھیں۔ مدینہ سے مکہ تک حجاز میں پانی کا کوئی چھوٹا نالہ بھی نہیں تھا لیکن پھر وہ شام وعراق ، اسپین و ہندوستان اور ترکی کے پانی وباغات کے دنیا میں مالک بن گئے۔ دنیا میں انکے ساتھ حور وقصور اور جنت کے باغات کے وعدے پورے ہوگئے تھے۔ قرآن کی آیات میں باغات سے مراد صرف جنت مراد نہیں ہے بلکہ دنیا کے باغات بھی مراد ہیں اور جہنم سے مراد صرف قیامت نہیں بلکہ دنیا میں جہنم کی زندگی بھی ہے۔
پاکستان میں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ جنہوں نے دنیا میں یتیموں، اسیروں اور غریبوں کی مدد اسلئے نہیںکی کہ پھر وہ ووٹ دیں گے یا انکے حق میں زندہ باد کے نعرے لگائیںگے۔ کورونا کی طویل بیماری میں رضاکاروں کی ٹیمیں گھر گھر تک پہنچ رہی تھیں اور بہت لوگوں نے کھل کر اور چھپ کر امداد کا سلسلہ جاری رکھا ۔ ادیب رضوی کی SIUT،انڈس ہسپتال ، ایدھی، چھیپا، امن اور سیلانی کے علاوہ چھوٹے بڑے لاتعداد اداروں نے غریبوں کی ایسی خدمت کی جو ریاست سے بھی زیادہ عوام کیلئے سکون واطمینان کا باعث بن گئے۔ سورۂ الدھر میں بسہولت پانی کی نہریں نکالنا اور اللہ کیلئے قوم کی خدمت کے علاوہ زبردست انقلاب کے بہترین تذکرے ہیں۔ جس کی سب سے بڑی مصداق پاکستانی قوم بن سکتی ہے اور پوری قوم کو اس کا درس دینے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی سخت ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے الساعة میں اس بڑے انقلاب کا بھی ذکر کیا ہے جو ہمارے سر پرتیار کھڑا ہے۔ پہلے حجاز کے لوگوں نے انقلاب کے مناظر دیکھے ۔خلافت راشدہ کے بعد بنوامیہ ، بنو عباس اور خلافت عثمانیہ تک ایک طویل دورانیہ تک مسلمانوں نے دنیا کے مزے اُڑائے ہیں۔ پھر پاکستان سے برپا ہونے والا دوسرا انقلاب دنیا کی تاریخ پھر بدلے گا۔ قرآن کی تفسیر کے نکات کبھی ختم ہونے نہیں ہیں اور اگر الساعة کی تفسیر کی جائے تو اس میں عام طور سے وقت کی بات ہے۔ دن رات سے زمین کا اپنے گرد چکر لگانا اور ماہ وسال سے زمین کا سورج کے گرد چکر لگانا ثابت ہے اور یہ بھی ایک علم ہے۔ پھر سورۂ معارج میں روح و ملائکہ کے چڑھنے کی ایک دن کو یہاں کے 50ہزار سال کے برابر قرار دیا گیاہے۔ جس کا مشاہدہ نبیۖ نے معراج میں کیا تھا اور البرٹ آئن سٹائن نے نظریہ اضافیت کوریاضی اور سائنس کی بنیاد پر بھی دنیا میں ثابت کردیا جس سے علوم کے دروازے کھلے ہیں۔ نبی ۖ نے ان پانچ چیزوں کو علم غیب کی چابیاں قرار دیا۔ آسمان جب سر کے اوپر ہو تو اس کانام آسمان ہے اور جب پیروں کے نیچے آجائے تو یہی زمین ہے۔ جب تک علم پردہ غیب میں ہو تو وہ غیب ہے مگر جب دسترس میں آجائے تو پھر وہ غیب نہیں رہتا ہے۔ پہلے معراج پر مسلمانوں کا ایمان بالغیب تھا اور جب وہ نظریہ اضافیت تک پہنچ جائیں تو پھر وہ غیب بھی نہیں رہتا ہے۔ نبیۖ نے بہت کچھ دیکھ کرپانچوں چیزوں کو غیب کی چابیاں قرار دیا تھا۔ قرآن میں اس بات کی نفی نہیں ہے کہ اللہ کے علاوہ کے کسی پاس ساعة کا علم نہیں ہے اور نہ بارش نازل کرنا ایسی بات ہے کہ جس میں کسی اور کی نفی ہو اسلئے مصنوعی بارش پر کسی کو تعجب نہیں ہوتا ہے۔ بارش میں بجلی کی چمک اور بجلی کی تسخیر غیب کی چابی ہے۔ جس کی وجہ سے کائنات کے بہت سے رازوں سے پردہ اٹھ گیا۔ افسوس کہ ہم نے سستی بجلی پیدا کرکے اپنی غریب عوام کو اتنی چھوٹی سی سہولت سے بھی محروم رکھا ہواہے اورپاکستان میں پانی کے بہاؤ سے سستی بجلی پیدا کرکے ایک انقلاب برپا کرسکتے ہیں لیکن ہمارا مفاد پرست حکمران طبقہ اور اشرافیہ اس کی طرف توجہ نہیں دیتا ہے۔ لوگوں کو سستی بجلی اور پانی کی سہولت مل جاتی تو وہ اپنا روزگار خود پیدا کرلیتے ۔
اللہ تعالیٰ نے تیسری چیز کا فرمایا ہے ” وہ جانتا ہے کہ رحموں میں کیا ہے”۔
ہمارا مذہبی طبقہ آنکھیں بند کرتا ہے کہ الٹراساؤنڈ میں بچے یا بچی کا پتہ چلنا قرآن وسنت کے خلاف ہے اور اس سے عقیدہ خراب ہوجاتا ہے۔ اگر عقیدے کا واقعی مسئلہ ہے تو عقیدہ تو خراب ہوہی گیا ہے۔ آنکھیں بند کرنے سے عقیدہ سلامت نہیں رہ سکتا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہی نہیں ہے کہ بچے بچی کا ماں کے پیٹ میں پتہ نہیں چلتا۔ اگر بدبخت ونیک بخت کی تفسیر ہوتی تو بھی بھلا ہوتا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے تو کسی دوسرے کے علم کی نفی نہیں فرمائی ہے۔ حدیث میں ٹھیک بات ہے کہ یہ غیب کی چابی ہے۔ رحم حیوانات میں ہیں، نباتا ت میں بھی ہیں اور جمادات میں بھی۔ فارمی گائے ، مرغیاں اور پرندوں نے حدیث کی تصدیق کردی ہے۔ فارمی پھل اور اناج نے نباتا ت کی تصدیق کردی ہے اور ایٹم کے ذرے ایٹمی توانائی اور الیکٹرانک کی دنیا نے جمادات کی بھی تصدیق کی ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ ” قرآن کی تفسیر زمانہ کرے گا”۔ زمانے کی طرف سے علم الساعة ، بارش برسنے اور علم ارحام کی تفسیر ہوگئی ہے۔ چوتھی چیز اللہ نے فرمایا کہ ” تم میں سے کوئی نہیں جانتا ہے کہ وہ کل کیا حاصل کرے گا”۔ تیز رفتار تبدیلیوں نے آنے والے کل کی ترقی سے یہ ثابت کردیا ہے کہ واقعی ہر آنے والا کل نت نئے انکشافات اور خبر نامہ لیکرآتا ہے اور یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ کون کس زمین پر مرے گا؟۔ آنے والے وقت میں ان کا غیب کی چابیاں ہونے کی بات بھی کسی نئے طرز پر آسکتی ہے اور فی الحال بھی آیت کی پوری تصدیق ہے۔
اگر مساجد ومدارس میں جمود کو توڑا جائے تو لوگ جوق درجوق اسلام سے محبت کا اظہار کریں گے۔ پس مردہ دلوں میں ایک ولولہ اٹھے گا اور زندگی کی نئی راہیں کھل جائیں گی، زمانہ کروٹ بدلے گا تو پاکستانیوں کے چودہ طبق روشن ہوجائیںگے۔ سیاسی قیادتوں کاتمسخر اور مقتدر طبقے کا مذاق اڑانے سے بہتر یہ ہے کہ قوم کا رُخ مثبت سر گرمیوں کی طرف پھیر دیا جائے۔
پورے دریائے سندھ کو ڈیم میں تبدیل کیا جاسکتا ہے جسکے دونوں طرف بڑی بڑی نہریں ہوں اور تمام شہروں کے گندے نالوں سے جنگلات آباد کرنے کا کام لیا جاسکتا ہے۔ گندے پانی کو صاف کرنے کے بہت سستے طریقے ہیں۔ اور صاف پانی کو محفوظ کرنے کے بھی بہت اچھے طریقے ہیں۔ ریاست کو اپنی ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے کیلئے بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ جب ہماری سیاسی لیڈر شپ نالائق اور موروثی طبقے سے تعلق رکھے تو وہ کیا کیا گل کھلائیں گے؟۔
آنے والے طوفانوں سے پہلے مختلف جگہوں پر پانی ذخیرہ کرنے کیلئے ڈیم بنائے جاسکتے ہیں۔ سندھ میں دادو ڈیم اور دوسرے ڈیموں کو بارشوں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے بجائے مصنوعی نہروں کے ذریعے پانی پہنچانے کا طریقہ بنایا جائے تاکہ جب پانی کاطوفان آجائے تو بہت سار ا ذخیرہ کیا جاسکے۔ لوگ قدرت کی نعمتوں سے فائدے اٹھاتے ہیں اور حکمرانوں نے نعمتوں کو ضائع کرنا تھوڑے سے مفاد کیلئے وطیرہ بنایا ہے۔ سیلاب زدگان کا پیسہ کھا جاتے ہیں۔
جب پاکستان میں پانی کے وافر مقدار میں ذخائر ہوںگے اور نہروں سے زراعت اور باغات کیلئے وافر مقدار میں آسانی سے پانی پہنچے گا تو افغانستان اور ملحقہ علاقوں کی طرف سمگلنگ کرنے سے اناج کو نہیں روکا جائیگا بلکہ تاجر سپلائی کرکے اچھی مقدار میں زرمبادلہ کمائیں گے۔ اگر پاکستان کے لوگوں کیلئے اناج اور پھل سستے ہوں گے اور پانی پر بجلی کے پلانٹ لگاکر سستی بجلی فراہم کریںگے تو پھر دنیا میں پاکستان سے بڑی جنت کوئی نہیں ہوگی۔ پھر لوگ آئیں گے اور سیر و تفریح کیلئے عرب ممالک کی جگہ ہمارے ہاں تشریف لائیں گے۔ یہاں امن و امان کا مسئلہ بے روز گاری کی وجہ سے ہے اور جب بھوک وافلاس کا راستہ رُک جائیگا تو امن وامان بھی قائم ہوجائے گا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv
اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ شمارہ جون 2022

اہم لوگ غیر ملکی ا یجنسی نے قتل کردئیے

اہم لوگ غیر ملکی ا یجنسی نے قتل کردئیے

اگر غیرملکی ایجنسی کے آلہ کار اہم شخصیات کو قتل کررہے ہیں تونوٹس کیوں نہیں لیا جاتا ہے؟
اگر حامد میر عمران خان کو ڈرانے کیلئے ڈرامہ کررہے ہیں تو اس جھوٹ کا نوٹس لیا جائے۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
حامد میر نے کہا تھا کہ جنرل رانی اور کس فوجی کی بیگم نے کسے گولی ماری ؟۔ باصلاحیت انسان قوم کا قیمتی اثاثہ ہے ۔ اختلاف رائے پر دشمنی ریاست کو زیب نہیں دیتی ۔ مخالفت سے حکومت وریاست کی قدر ومنزلت میں اضافہ ہوتا ہے۔ صحافی اگر ریاست وحکومت کی ڈھال بنے تو وہ کسی نکڑ پر فضول بھونکنے والا فالتو کتاہے جس پر کوئی توجہ نہیں دیتا مگر جب سخت ترین ناقدصحافی کرائسس میں عدل وانصاف کے تقاضوں کو رکھ کرساتھ دیتا ہے تو اس کا اعتماد قوم میں اعتبار دلاتا ہے۔ تنقید سے خامیاں بروقت نظر آتی ہیں اور ازالے کی کامیاب کوشش ہوسکتی ہے۔جبپانی سر سے گزر جائے تو پھرتنقید کا کوئی فائدہ بھی نہیں ۔
حامد میر نے کہا کہ” ان کو غیر ملکی ایجنسی نیٹ ورک کا شخص مارنا چاہتا تھا مسجد میں نماز پڑھتے وقت جوتے میں کیمیکل لگاکر۔ پتہ نہیں چلتا، بلڈ پریشر ہائی ہوتا ہے اور اٹیک سے بندہ مرجاتا ہے۔ طبی رپورٹ طبعی موت کی آتی ہے ۔ دوسال میں عدلیہ وغیرہ کی جتنی اہم شخصیات کی اچانک موت واقع ہوئی ہے، تفصیل بتانا خطرناک ہے ”۔سوال یہ ہے کہ اپنی ایجنسیاں قاتلوں کو کیوں نہیں پکڑتی ہیں؟۔ کیا اس میں نیشنل انٹرسٹ ہے؟۔ اور اگر حامد میر نے عمران خان کے شر سے بچنے کیلئے کسی کے کہنے پر افواہ چھوڑی تو وضاحت کریں اسلئے کہ ملک وقوم میں ویسے بھی اعتماد کا فقدان ہے۔ افواہ سازی کے ذرائع کم نہیں کہ اور اضافہ ہو۔ جیونیوز رپورٹ کارڈ میں ، وسعت اللہ خان ذرا ہٹ کے میں اور پارلیمنٹ میں بھی اس پر بحث ہونی چاہیے اور سینٹ میں بھی اور کور کمانڈر کانفرنس میں بھی۔
اتنی ساری اہم شخصیات کے اچانک بے گناہ قتل پر خاموشی بڑاالمیہ ہے۔ حامدمیر بتائیں کہ کس جرم میں قتل کرنا چاہتے تھے اور کس خوبی کی وجہ سے چھوڑ دیا؟۔ یہ بڑی دہشتگردی نہیں ؟۔ اسرائیل کے آلۂ کاروں کا کھیل ہوسکتاہے لیکن حامدمیر فلسطین گئے ۔اگراس دہشتگردی کے پیچھے غیرملکی گردی یا افواہ گردی ہے تو کھلی بات کی جائے۔ حامد میر اور میجرجنرل R شاہدعزیز چیئرمین نیب کی ویڈیو کلپ ہے کہ” امریکہ میں دودفعہ دورانِ ٹریننگ یہ پیشکش ہوئی کہ ہماری نوکری کرو، پاک فوج میں رہ کر فری میسن کیلئے کام کرو۔ برطانیہ وامریکہ میں فری میسن مضبوط ہے وہیں سے ڈیل کیا جاتاہے”۔ مولانا فضل الرحمن نے عمران خان اور انکے حامیوں پر یہود کے آلۂ کار اور عمران خان نے نوزشریف پر غیرملکی ایجنٹ کا الزام لگادیا۔ Xسروس فوجی افسران نے حاضر سروس پرلگادیا ۔قبائلی علاقوں میں کھل کر دہشتگردی کا کھیل جاری ہے ۔پاکستان میں اعتمادکی بحالی، کردار سازی اورایثاروقربانی کی سخت ضرورت ہے۔انسانیت کابڑا ولولہ ہمیں بچاسکتا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv
اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ شمارہ جون 2022