مئی 2018 - Page 2 of 3 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

نوشتۂ دیوار کی طرف سے جوابی بیانیہ

ye-jo-dehshat-gardi-he-is-ky-piche-wardi-he-40-fcr-mehsood-slogan-waziristan-allama-iqbal-nato-mujahideen-iblees-russia

ڈبل مائنڈ یادوہری ذہنیت سے جو منافقانہ کردار پاک فوج نے ادا کیاوہی حالت محسوداور پختون کی تھی۔ ورنہ اتنی ذلت، خواری، مصیبت اور مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ منظور پاشتین اپنی قوم کو استعمال ہونے کے حوالہ سے جو رعایت دیتا ہے وہی رعایت وہ فوج کو بھی دے۔ یہ کسی بے ضمیر سیاستدان اور جعلی ادا کار کی بات نہیں کہ ’’ایسا نہیں چلے گا‘‘ بلکہ حق کیلئے ہر قسم کی قربانیوں کی تاریخ کرنیوالوں کا مدعا ہے۔ ہم منظور پاشتین کی بہادری، صلاحیت اورجوانمردی کو تہہ دل سے سلام پیش کرتے ہیں، انکے اردگرد لوگ مخلص اور قوم کا درد رکھتے ہیں۔ ایک ایسی قیادت کی پختون بلکہ پاکستان، مسلمانوں اورانسانیت کو ضرورت ہے جو حق اور انسانیت کیلئے ہر ظالم ، جابر، ڈکٹیٹر اور وحشی جانوروں کیخلاف آواز اٹھائے۔ ہمارا معاشرہ جانوروں سے بدتر ہوچکا ہے ۔ بچیوں سے زیادتی کرکے انتہائی بے دردی کیساتھ ماردیا جائے تو مشرکین مکہ کی جاہلیت ہم پر لعنت بھیجتی ہوگی ۔ کیا اسکے پیچھے بھی کوئی وردی ہے؟۔ ایک وقت تھا کہ کہا جاتا تھا کہ ’’سمندر میں دومچھلی بھی لڑ پڑیں تو امریکہ اس میں ملوث ہوگا‘‘۔ مذہب کے نام پر تعصبات پھیلانے میں اس سے صرفِ نظر کرنا ممکن نہ تھا مگر لسانیت ، قومیت اور وطن کے نام پر تعصبات کے پیچھے روس اور کمیونزم کا ہاتھ ہوتا تھا۔ شیطان نے دیکھ لیا کہ مذہب کے نام پر ہتھیار وں کا سکہ اب چلنے والا نہیں تو قوم پرستی کا بیانیہ شروع کردیاہے ۔ علامہ اقبالؒ نے ابلیس کی مجلس شوریٰ کے عنوان پر ان حقائق کو لکھا تھا کہ ’’الحذر آئین پیغمبر سے سوبار الحذر ۔ حافظ ناموس زن، مرد آزما ، مرد آفرین ‘‘ابلیس نے کہا : ’’ مزدوکیت فتنہ فردا نہیں اسلام ہے‘‘۔ وہ اسلام نہیں جو امریکہ نے جہاد کے نام پر روس کیخلاف استعمال کیا اور جو’’سودی نظام کو مشرف بہ اسلام کیا جارہاہے‘‘ وہ اسلام بھی نہیں جو نیٹو کی آغوش میں مجاہدین ہیں۔پاک فوج نے اگران کو آج کھلی چھوٹ دی تو منظور پاشتین ریلے سمیت یونیورسٹیوں کے ہاسٹلوں میں چھپتے پھرینگے۔ جنونی تو افغانستان میں امریکہ کی حکمت عملی سے بیٹھے ہیں۔ سرغنہ گلبدین حکمتیار امریکہ کی گود میں بیٹھ گیا ۔ جس کی بہادری پر حلف اٹھایا جاتا تھا۔ الزام اورتہمت کا بازار ختم کرکے سنجیدہ کوشش سے پختون پوری دنیا کو امن دے سکتی ہے۔ پاک فوج کی طرح محسودقوم نے بھی بڑا مغالطہ کھایا اور آزمائش کی چکی میں پس کر صلح حدیبیہ کے شرائط ماننے کیلئے آمادہ ہوگئے ۔ یہ پتہ نہیں کہ منظور پاشتین فوج کیخلاف ہے یا اسکے پیچھے بھی وردی ہے؟۔ کیونکہ فوج سے لڑنیوالے طالبان کے پیچھے وردی تھی تو آواز اٹھانے والے پر بھروسہ کرنا مشکل ہے،البتہ یہ حقیقت ہے کہ منظورپشتین نے فوج کی خامی پر ایسے وقت میں آواز اٹھائی جب سب نے مظلوم عوام کو نظر انداز کیاتھا۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ عمران خان جنکے خلاف بات کرتا ہے انکے خلاف ہجڑہ بولنے کی جرأت رکھتا ہے۔ اگر خدانخواستہ ریاست پر مشکل گھڑی آگئی تو یہ ہتھیار ڈالنے والوں کا ساتھی ہوگا۔ پرویز خٹک نے نشہ کرکے پنجاب کی پولیس کا رات بھر سامنا کیا اور عمران خان نے نشہ کرکے بھی بنی گالہ کے گھر سے نیچے اترنے کی جرأت نہیں کی ۔ حالانکہ شیخ رشید نے بڑی دھائی دی مگر مسلم لیگی کی گیدڑ بھبکی سے عمران خان ڈر گیا ۔ منظور پاشتین کا مطالبہ ہے کہ پاکستان کے دستور کے عین مطابق ہمیں انصاف دیا جائے۔ دلیل سے زمینی حقائق کو سمجھ کر بات کرنی ہوگی۔
پاکستان کے سیٹل ایریا میں عدالتی قوانین انگریز نے زبردستی سے عوام اور اداروں پر مسلط کئے تھے۔ گرمیوں میں کورٹ کی بچوں کی طرح چھٹیاں بڑی مثال ہیں جبکہ آزاد قبائل نے 40FCR اپنی مرضی سے قبول کیا تھا۔قبائلی قانون کے تحت عتیق گیلانی نے 1991ء میں جیل کاٹی تھی ۔ پھر عتیق گیلانی کے گھر پر حملہ ہوا تو طالبان نے کانیگرم جنوبی وزیرستان کے جرگہ میں کہا کہ ’’13 افراد ہم نے شہید کئے ہیں، 2 افراد ہمارے مارے گئے ۔11افراد کا حساب رہتا ہے تو 11افراد ہم چن کر دینگے تم ان کوبدلہ میں ماردینا‘‘۔محسود طالبان پشتو اور اسلامی قانون دونوں کی بنیاد پر یہ عدالت لگائے بیٹھے تھے۔
جب جنگ ہوتی ہے تو میدانِ جنگ میں عدالت نہیں لگائی جاتی ہے البتہ جنگ بندی کے بعد فیصلے ہوتے ہیں۔ قرآن میں ایک قانون یہ ہے کہ مجرم کو سزا دی جائیگی اور مجرم کے بدلے میں کسی اور کو قتل نہ کیا جائیگا۔ دوسرا یہ ہے کہ آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام ، مرد کے بدلے مرد، عورت کے بدلے عورت کو قتل کیا جائیگا۔ قبائل میں قرآن کا دوسرا قانون نافذ تھا اور اگر یہ قانون نہ ہوتا تو لوگ بیکار افراد سے دوسروں کے اچھے قتل کرواتے اور بدلہ کیلئے اس کو حاضر کردیتے۔ قبائل میں اسی لئے امن بھی قائم تھااور بھول کر بھی حتی الامکان قتل سے پرہیز کیا جاتا تھا۔ ٹانک اورمیرانشاہ وغیرہ میں تبلیغی اجتماع ہوتا تھا تو طالبان جنگ بندی کا اعلان کردیتے اور پھر سرکاری عمارات، بازاروں ، گھروں اور مساجد ومدارس کو خودکش دھماکوں سے نشانہ بناتے تھے۔ بچے ، خواتین، بزرگوں اور کسی بھی طبقے کا کوئی لحاظ نہ کرتے۔ ایسے ہتھیار ابھی ایجاد نہیں ہوئے کہ مجرم نشانہ بن جائے اور بے گناہ افراد کو بچایا جاسکے۔جب بہادر فوجیں میدان میں اتر کر لڑاکرتی تھیں تو اس وقت عوام کو بچانا ممکن ہوتا تھا۔ جب گھروں میں گھسے ہوئے دہشتگرد عوام کو نشانہ بناکر چھپ جائیں تو فوجی کاروائیوں پر عدالتیں نہیں لگا کرتی ہیں۔

منظور پاشتین کا فوج کے خلاف بیانیہ

ye-jo-dehshat-gardi-he-is-ky-piche-wardi-he-40-fcr-mehsood-slogan-waziristan-allama-iqbal

منظور پاشتین کی تقاریر ، سوشل میڈیا پر پختون تحفظ موومٹ کا پروگرام اور پرنٹ والیکٹرانک میڈیا پر گہماگہمی مچی ہے۔ کراچی سے سوات اور کوئٹہ سے لاہور تک ایک بھونچال ہے۔اسلام آباد سے اٹھنے والا نعرہ ’’یہ جو دہشت گردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے‘‘دنیا میں سنا جارہا ہے۔ منظور پاشتین کے ساتھیوں کے دل ودماغ میں صرف فوج نہیں بلکہ یہ نعرہ بھی ہے کہ ’’یہ جو دہشت گردی ہے اسکے پیچھے ملا گردی ہے‘‘۔ لیکن اتنا حوصلہ نہیں کہ کھل کر اسکا اظہار کریں۔ امریکہ نے وردی اور وردی نے مجاہدین ور طالبان کو استعمال کیا ۔امریکہ نے یوٹرن لیا توپاک فوج کو بھی مجبوراً اپنا رخ بدلنا پڑا۔ فوج کا ذہن تقسیم ہوا۔ اس منتشر ذہنیت سے بڑا نقصان اٹھایا۔ طالبان کو مارتے تو قوم ناراض ہوتی اور پالتے تو امریکہ ناراض ہوتا۔ منافقانہ ذہنیت نے فوج کرپٹ بنادیا، جنرل اشفاق کیانی کے بھائی کی وسیع جائیداد سے سپاہیوں کاکھلے عام ڈیزل وپیٹرول بیچنے کاتماشہ دنیا نے دیکھ لیا۔ جنرل راحیل شریف نے کرپشن کیخلاف اقدامات اٹھائے، دہشتگردی کادونوں ہاتھوں سے کھیلے جانے والے کھیل کاخاتمہ کردیا۔ جنرل قمر باجوہ نے رہی سہی کسر بھی نکالی، حالات معمول پر آگئے ،شریف الطبع بہادر آرمی چیف جنرل باجوہ نے دہشت گردوں کے دور دراز کے ٹھکانوں کابھی خاتمہ کیا تو منظور پاشتین نے فوج کو ٹارگٹ کرنا شروع کردیا۔ اس میں شک نہیں کہ فوج کا دماغ سیاسی نہیں ہوتا اور جب وہ سیاست میں حصہ لیتی ہے تو سیاست کا بیڑہ غرق کردیتی ہے۔ جنرل ایوب خان نے ذوالفقار علی بھٹو کو جنم دیا تو بھٹو نے قائدِ عوام بن کر بدترین ڈکٹیٹرشپ کی انتہا کردی تھی۔ جماعت اسلامی کے جان محمد عباسی کو لاڑکانہ میں الیکشن کیلئے کاغذات جمع کرنے پر بھی گرفتار کیا تھا اور بلوچستان کی جمہوری حکومت کا خاتمہ کرکے ساری سیاسی قیادت ہی باغی قرار دیکر جیل میں قید کرلیا۔ بھٹو لیڈر نہیں سیاسی مہرہ تھا۔ فوج نے خودلایا تھا ، خودہی قوم کی جان چھڑائی، کیفر کردار تک پہنچادیا۔ فوج نے پھرایک مہرہ محمد خان جونیجوکی شکل میں تلاش کیا اور پھر اسکی بساط لپیٹ دی ۔اتفاق اسٹیل میں نوازشریف کے آہنی اعصاب تیار ہوئے، جو لمبے عرصہ تک چلے، زنگ آلود نہ ہوسکے۔ اسلامی جمہوری اتحاد میں یہ مہرہ کام آیا ، پھر تمام سیاسی قائدین کو اسمبلی سے باہر کرکے دوتہائی اکثریت مل گئی اور پھر سعودی عرب کی جلاوطنی کے دوران بھی اس لوہے کے چنے کو زنگ نہ لگا اور واپسی پر پیپلزپارٹی کے خلاف استعمال ہوا۔ پھر اس کو انتخابات کی آڑ میں حکومت دلائی گئی لیکن جس فوج نے اپنے کرپٹ لوگوں پر ہاتھ اٹھایا تو اس کیلئے وہ کیسے سہارا بن سکتی تھی؟۔ نوازشریف کو دکھ ہے کہ مہرہ تبدیل کرکے عمران خان کو کیوں لایا جارہاہے۔ شہبازشریف بہتر خدمت کرسکتا ہے۔ مریم نواز سدھی ہوئی نہ تھی اسلئے پارٹی صدارت کیلئے انتخاب نہ کیا۔فوج کو امریکہ واسرائیل اور یورپی ممالک نے استعمال کرکے پھینکا۔ اپنے پالتو سیاسی مہروں اور مجاہدین کی طرف سے مشکل کا سامنا ہے تو منظور پاشتین نے پشتون قوم کا نعرہ بلند کرکے ٹارگٹ کرنا شروع کردیا ہے۔ مشکل گھڑی میں ایک طرف امریکہ کے بجائے روس سے دوستی کے متمنی فوج کو یہ توقع نہ تھی کہ قوم پرست اور کمیونسٹ عناصر اسکے خلاف کھڑے ہونگے بلکہ وہ منظور پاشتین اور انکے دوستوں سے اچھی توقعات رکھتے لیکن قسمت کا کھیل ہے کہ مذہبی طبقے اور سیاسی مہروں سے فوج کا تعلق ختم ہوگیا تو اسرائیل و امریکہ بھارت کیساتھ کھڑے ہیں اور کمیونسٹ بھی مخالف ہیں، مذہبی جنون IJI کے نام پر نواز شریف کو استعمال کیاگیاجواپنی حیثیت کھوبیٹھا اور اب عمران خان نئے مہرے کا کردار ادا کررہاہے۔ فوج کو پتہ چل رہا کہ ہرشاخ پر اُلو بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہوگا؟۔ منظور پاشتین نے ایسے وقت پر آواز اٹھائی ہے جب ہر طرف سے فوج کو مشکلات کا سامنا ہے ۔ عمران خان اپنی بیگمات سے وفا نہ کرسکا تو اس پر کون بھروسہ کریگا؟۔ منظور پاشتین کیخلاف گلی کے جانے پہچانے کتوں نے بھونکنا شروع کیا مگر ان کی سنتا کوئی نہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بڑی دلیری سے مشکلات کھڑی کی گئی ہیں۔ گولی لاٹھی کی سرکار کے نتائج خطرناک ہوسکتے ہیں۔ یہ کرائے کے لوگ نہیں بلکہ ضمیر کی آواز پر اپنا ہدف سوفیصد نشانہ پر لے رہے ہیں۔ مشکل گھڑی میں حق کی وکالت کرنا بہت دشوار ہے مگر ضروری ہے۔ منظور پشتین نے پاکستان کی بہت طاقتور فوج کیخلاف آواز اٹھائی ہے تو یہ بہادری ہے۔ فوج کو اس کی غلطی پر غریب عوام کیلئے متنبہ کرنا ایسا نہیں جیساکہ اب نوازشریف اپنے مفادات کیلئے ’’ مجھے کیوں نکالا‘‘ کی رٹ اپنے مفاد کیلئے لگارہاہے۔ قوم کو تکلیف ہو تو فوج کو اس تنبیہ پر احسان مند ہونا چاہیے اور ضرور ہوگی مگر!

منظور پشتین پر علی محمد خان کے بیانیہ کا سب ہی کیلئے قابلِ قبول جوابی بیانیہ

malala-yousuf-manzoor-pashteen-asma-jahangir-imran-khan-taliban-army

منظور پشتین نے پوری ریاست اور اسکی لے پالکوں کو جتنا بڑا ٹف ٹائم دیاہے وہ میرے لئے بہت باعثِ حیرت ہے۔ ڈاکٹر شاہددانش کا اپنا مزاج ہے۔ 24چینل کے پروگرام میں ایک انوار الحق کاکڑ اورایک ریٹائرڈ برگیڈ ئیر کی باتیں بہت معقول تھیں۔ جنگوں کی حالت میں انسانی حقوق کے پیمانے بالکل ہی عام حالات سے مختلف ہوتے ہیں اور کور کمانڈر منظور پشتین سے مذاکرات کیلئے ٹیم تشکیل دے چکے ہیں اور سیاسی حکومت عدالتوں میں کرپشن کی پیشیاں بھگتنے میں مصروف ہیں جن کا کام مذاکرات تھالیکن تحریک انصاف کے رہنما علی محمد خان کی باتیں سن کر سمجھ نہیں پاتا تھا کہ آدمی ہنسے یا روئے؟۔ علی محمد خان منظور پشتین کے پرامن ساتھیوں سے گولی کھاکر شہید ہونے اور پاکستان کے جھنڈے میں دفن ہونے کی وصیت کرکے کہہ رہا تھا کہ مجھے فخر ہے کہ میرا بے غیرت ماموں بھی بنگلہ دیش میں ہتھیار ڈال گر انڈیا کی جیل کاٹ کر آیا تھا اور آج میں فخر محسوس کرتا ہوں کہ جنرل نیازی کی طرح ہتھیار ڈالنے کیلئے ہر وقت دستہ بستہ عمران خان نیازی کی لیڈرشپ میں کام کررہا ہوں۔ یہ اچھے رشتے ہیں لیکن بھارت کی جیل کاٹنے میں فخر کی کونسی بات ہے؟۔ مشرقی پاکستان نہیں بچایا تو بقیہ بچانے کیلئے یہ کہنا چاہیے تھا کہ مجھے شرم آتی ہے کہ یہ غلطی ہوگئی اور اب مجھے منظور پشتین کیا امریکن فوج بھی آئے تو میں گولی کھالوں گا مگر سرنڈر ہونے کی غلطی نہیں کروں گا۔
منظور پشتین کے دادا نے کشمیر کے جہاد میں1948ء میں حصہ لیا تھا اور سری نگر تک فتح کے جھنڈے گاڑھ دئیے تھے ۔مگر نوابزادہ لیاقت علی خان کی بیگم راعنا لیاقت علی خان کو فوج کے جرنیل کا عہدہ دیا گیا تھا اور اس کی سازش سے مقبوضہ کشمیر کوپھر بھارت کے حوالے کیا گیا۔ پاک فوج کو ان بے غیرت سیاسی رہنماؤں سے ہوشیار ہونے کی ضرورت ہے کہ جب طالبان کا مقابلہ پشتو ن قیادت قاضی حسین احمد، مولانا فضل الرحمن اور اسفندیار ولی خان، بشیربلور شہید، میاں افتخار حسین ، محمود خان اچکزئی ، ملالہ یوسف زئی اور افضل خان لالہ مرحوم کررہے تھے تو ن لیگ اور تحریک انصاف کے بے غیرت رہنما ان پر امریکی ایجنٹ کا الزام لگاتے تھے۔ فوج ضرب عضب کے مقدس مشن میں مگن تھی اور عمران خان دھرنوں بلکہ مجروں سے خطاب کے دوران پنجاب پولیس کو طالبان کے حوالے کرنے کی دھمکیاں دیتے تھے۔ جب فوج کی لاشیں چھپ چھپاکر دفن کی جارہی تھیں تو آصف زرادی نے شہید کہنے کی جرأت کرلی۔
فوج ان بے غیرتوں کی غلط بیانی سے مغالطہ کھا جاتی ہے اور بسا اوقات مکڑے کے جال میں مکھی کی طرح پھنس جاتی ہے۔ خوشامد بھی تو ایک بڑا کارآمد ہتھیار ہے۔ فوج نے جس طرح ایک وقت تک بے غیرت سیاستدانوں کی فوج ظفر موج کو پالا تھا ،ایک بے غیرت کی جگہ دوسرا زیادہ بے غیرت لے لے تو یہ بہت بڑا المیہ ہوگا۔ منظور پشتین غیرتمند باپ اور غیرتمند دادا کی غیرتمند اولاد ہے وہ کسی کٹھ پتلی کا کردار ادا نہیں کرسکتا ہے۔ اس بات کا عوام کو اطمینان ہوجائے کہ منظور پشتین کے پیچھے فوج کا ہاتھ نہیں تو عوام کا ٹھاٹھے مارتا ہواسمندر سیاسی بڈھے ہجڑوں کو شکست دیگا۔ جس طرح ہجڑے جواں ہوں تب بھی ان میں جنسی خواہش نہیں ہوتی ہے لیکن کشش ہوتی ہے اور اپنی حرکتوں سے لوگوں کو مغالطہ دیتے ہیں کہ ان میں بھی خواہشات ہیں۔ اسی طرح سیاسی قائدین اور بیشتر رہنماؤں میں عوام کاکوئی درد نہ ہوتا تھا مگر عوام کو دھوکا دینے میں کامیاب ہوجاتے تھے۔ اب تو ان سیاسی قائدین اور رہنماؤں کی حالت بڈھے ہجڑوں کی طرح ہے جو صرف انسانی بنیادوں پر قابلِ رحم نظر آتے ہیں۔
پاکستان اسلام کے نام پر بناہے اور قرآن پاک میں جہاں نبی پاک پیغمبرآخر زمانﷺ اور مقدس صحابہ کرامؓ کی اصلاح کا مثالی کارنامہ انجام دیا گیا ہے ۔ نبیﷺ کو عبداللہ بن مکتوم ایک نابینا صحابیؓ کے آنے پر عبس وتولیٰ ان جاء ہ الاعمیٰ نازل ہوئی۔ آیات کا مقصد یہی تھا کہ آنیوالے وقت میں جو خود کو مقدس گائے قرار دیکر اصلاح کی کوشش کو ناقابلِ برداشت کہے تو اس بے غیرت اور بے ایمان خوشامدی کا بھی پتہ چلے۔
پاک فوج نے منظور پشتین کی تحریک کا شروع میں خیرمقدم کیا تھا اور چیک پوسٹوں پر معاملات بھی درست کردئیے تھے۔ اور یہ فوج کے مفاد ہی میں تھا۔ لوگوں نے طالبان کے کردار کی وجہ سے دھوکہ کھایا ہے اور ان کے ذہنوں میں سازش کا خدشہ تھا اسلئے منظور پشتین سے زیادہ تر دور دور ہی رہے لیکن اب معلوم ہوگیا ہے کہ واقعی یہ انکے دل کی آواز اور عوام کی ہمدردی ہے جو زبردست مقبولیت کا ذریعہ بنے گی۔ فوج کی طرف سے تھوڑی بہت مخالفت سے عوام میں غلط فہمیاں دور ہوگئی ہیں۔ عوام ایک سیاسی قیادت کی ضرورت ہے اور پشتون نہیں بلکہ بلوچ، سندھی اور مہاجروں کے علاوہ سب سے زیادہ مظلوم پنجابی ہیں۔ یہ ہم جانتے ہیں کہ پنجاب کے غریب اور مظلوم عوام منظور پشتین کی قیادت کیلئے ترس رہے ہیں۔ غریبوں کی عزتیں لٹ رہی ہیں مگر پُر تکلف کھانوں، ہیلی کاپٹروں اور پروٹول کے شوقین لیڈر وزیراعظم کا خواب دیکھنے کیلئے مررہاہے۔منظور پشتین کی غلط باتوں اور بیانیہ کا جواب الزامات لگانے سے عوام کو نہیں مل سکتا ہے بلکہ معقول طریقے سے بات کا جواب بات سے دینا پڑیگا۔
منظور پشتین کہتا ہے کہ’’ مجھ سے کہا گیا کہ طالبان کیخلاف بیانات دینا شروع کردو تو پوری قوم تمہاری قیادت ماننے کیلئے تیار ہے۔ میں نے جواب دیا کہ ملالہ یوسف زئی نے طالبان کے خلاف بیانات دئیے، طالبان نے گولی ماردی ، تم نے اس کی آمد پر بھی بلیک ڈے منایا ۔ تمہیں پشتونوں سے دشمنی ہے۔ تم نے ہمیشہ دوسروں کی جنگ صرف پیسوں کی لڑی ہے اور ہم پر بھی یہی گمان رکھتے ہو کہ کسی کی جنگ پیسوں کیلئے لڑ رہا ہوگا ۔ میں تمہارے دل ودماغ کی سوچ کو معذور سمجھتا ہوں۔ تمہاری اس سے زیادہ سوچ نہیں ہے اور نہ میں سمجھا سکتا ہوں‘‘۔
کھڈوں کیلئے الزام تراشی کے سوا دوسری کی بات سوجھتی ہی نہیں ہے۔ منظور پشتین کو ہم بتانا چاہتے ہیں کہ پشتون قوم سے تیری محبت ایمان کی علامت اور سلیم الفطرت ہونیکی نشانی ہے، یہ تجھ پر اللہ کا فضل ہے کہ اپنی قوم کیلئے آواز اٹھادی ہے ورنہ ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں تھا۔ عمران خان نے گلشا عالم برکی کیلئے بھی نہ پوچھا جس نے مشکل وقت میں عمران خان کو یہودیت کے طعنے برداشت کئے۔ ہاں قوم کی محبت اور تعصب میں بہت بڑا فرق ہے۔ تعصب بے ایمانی کی نشانی ہے۔ جن لوگوں نے ملالہ کو تنقید کا نشانہ بنایا وہ پختون وپنجابی کا مسئلہ نہیں تھا، یہ رنگ دینا تعصب ہے۔ عاصمہ جہانگیر پنجابی تھیں ان کو بھی تنقید سے پنجابی ہونے کی وجہ سے چھٹکارا نہیں مل سکا۔ عاصمہ جہانگیر نے جس بہادری سے ہرقوم وزبان اور طبقے کیلئے آواز اٹھائی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ تعصبات کا پیمانہ لامحدود ہے اور عدل کا دامن پھر ہاتھ سے نہ صرف نکلتا ہے بلکہ بڑے دلدل میں پھنس جاتا ہے۔ مہاجروں اور بلوچوں کی قوم پرستی اور تعصبات سے سبق سیکھنا چاہیے حضرت ابوبکرؓ نے تعصبات سے نجات حاصل کی تھی تو قریش کے کمزور قبیلے سے تعلق کے باجودخلیفہ اول بن گئے تھے اور حضرت سعد بن عبادہؓ انصار کے سردار تھے مگر تنہائی کا شکار ہوگئے۔ سابقین الاولین سے ہمیں سبق سیکھنا ہوگا۔
پاکستان اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا مرکز ہے۔ نوازشریف ومریم نواز سارا دن عدلیہ اور فوج کے خلاف بک بک کرتے ہیں اور سارے ٹی وی چینلوں بشمول پی ٹی وی کوریج بھی ملتی ہے لیکن سب جانتے ہیں کہ نوازشریف نے فوج کو کینگرو سمجھ رکھا ہے۔ ایک عمر تک تو فوج نے اپنے بچے کو بوڑھے ہونے کے باوجود بھی اٹھائے اٹھائے گھمایا اور اب عمران خان کی چاہت ہے کہ فوج کینگرو بن کر اس بڈھے ہجڑے کو بھی اٹھائے گھومے۔
منظور پشتین نے اپنے دلیر، بہادر اور جوانمرد ساتھیوں کے ذریعے سے مظلوم پشتونوں کے دل کی آواز وہاں تک پہنچائی، جہاں سے داد رسی بھی ہوئی ہے۔ میرانشاہ اور میرعلی کے تاجر اپنا حق مانگنے سے بھی ڈرتے تھے۔ یہ سب کھدڑی لیڈر شپ ہی کا کمال تھا کہ عوام بزدل بن گئے تھے۔ اب منظور پشتین نے ہی قیادت کرنی ہے اگر وہ شہید کردئیے گئے تو علی وزیر زیادہ خطرہ ثابت ہوگا اور ان کو شہید کیا گیا تو خان زمان کاکڑ جیسے جوانوں کو میدان میں اتارا جائیگا۔ فوج بیچاری تو حکموں پر چلتی ہے مگر اصل مسئلہ سیاسی لیڈر شپ کا ہے۔ لے پالکوں اور دُم چھلوں سے جان چھوٹ جائے گی تو فوج سے عوام کی محبت بڑھے گی۔
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر

علامہ علی شیر رحمانی صاحب مناظر اسلام، مرکزی رہنما جماعت اہل سنت پاکستان کے مطالبہ پر ایک وضاحت

wifaq-ul-madaris-teen-talaq-rujoo-allama-ali-sher-rahmani-khairpur-mirs

گذشتہ شمارے میں خیر پور میرس کے مولانا واحد بخش فاضل دار العلوم وفاق المدارس نے طلاق کے حوالے سے ہماری تائید کی تھی اور کہا تھا کہ خیر پور میرس کی مشہور بہت بڑی علمی شخصیت مناظر اسلام جماعت اہل سنت کے مرکزی رہنما علامہ مولانا علی شیر رحمانی صاحب کو بھی آپ کا اخبار پسند آیا اور فرمایا کہ گیلانی صاحب ابن عمرؓ کی روایت کو اور زیادہ واضح کرکے تحریر کریں۔
حدثنا قتیبۃ حدثنا اللیث عن نافع ان ابن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنھا طلق امراۃ لہ وھی حائض تطلیقۃ واحدۃ فامرہ رسول اللہ ﷺ ان یراجعھا ثم یمسکھا حتیٰ تطہر ثم تحیض عندہ حیضۃ اخریٰ ثم یمھلھا حتیٰ تطہر من حیضھا فان ارادہ ان یطلقھا فلیطلقھا حین تطہر من قبل ان یجامعھا فتلک العدۃ التی امر اللہ ان تطلق لھا النسایٗ و کان عبد اللہ اذا سئل عن ذٰلک قال لاحدھم ان کنت طلقتھا ثلاثاً فقد حرمت علیک حتیٰ تنکح زوجاً غیرک و زاد فیہ غیرہ عن اللیث حدثنی نافع قال ابن عمر لو طلقت مرۃ او مرتین ان النبی ﷺ امرنی بھذا (کتاب العدت: 5332) ترجمہ و تشریح: حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ کے اس واقعہ کو صحیح بخاری میں متعدد اور مختلف مقامات پر مختلف الفاظ سے نقل کیا ہے۔ علاوہ ازیں صحیح مسلم، سنن نسائی، سنن ابوداؤد، مسند احمد اور موطا امام مالک وغیرہ نے بھی مختلف الفاظ کے ساتھ نقل کیا گیا ہے۔ ان تمام روایات کا پہلا اہم نکتہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ سمجھایا کہ قرآن کریم میں عدت اور طلاق کا طریقہ کار کیا ہے؟۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ وضاحت فرمائی ہے کہ طلاق کا تعلق عدت سے مرحلہ وار ہے، قرآن میں طہر (پاکی کے ایام) و حیض کے 3مراحل میں 3مرتبہ طلاق کی وضاحت ہے۔ پہلے طہر میں پہلی مرتبہ طلاق کا تعلق اس وقت ہے جب عورت کو ہاتھ نہ لگایا ہو۔ اسی طرح دوسرے طہر و حیض اور تیسرے طہر و حیض کے مراحل میں بھی ہاتھ لگائے بغیر طلاق دی جائے تو اسی طرح سے قرآن میں طلاق اور عدت کی وضاحت ہے۔ قرآن کی یہ وضاحت سورۂ بقرہ اور سورۂ طلاق میں بھی بالکل واضح ہے، علماء و مفتیان اور مذہبی طبقات میں سے بھی کسی کا اس وضاحت پر کوئی اور کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے۔ یہ نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قرآن کے متعلق کوئی ایسی وضاحت فرمائی ہے جو عام لوگوں اور علماء و مفتیان کے ذہنوں میں نہیں آتی ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ قرآن و سنت کی واضح اور بھرپور وضاحتوں کے باوجود مذہبی طبقات نے روایات میں الفاظ کا سہارا لیکر خود کو بھی الجھادیا ہے اور پوری ملت اسلامیہ کو بھی الجھادیا ہے۔ جب قرآن میں بار بار عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل پر طلاق سے رجوع کی گنجائش اور بھرپور وضاحت ہے تو صحابہ کرامؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اس سلسلے میں کوئی مزید وضاحت کی ضرورت بھی نہیں سمجھی۔ تین طلاق سے رجوع نہ ہونے کی سب سے بڑی اور مستند روایت یہ ہے جس کی شکل بگاڑ کر مختلف انداز سے نقل کیا گیا ہے۔ پہلی اہم بات یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے کسی بھی مستند حدیث میں کوئی ایسی روایت نہیں جس میں رسول اللہ ﷺ نے رجوع نہ کرسکنے کی کوئی وضاحت فرمائی ہو، رسول اللہ ﷺ نے صرف 3طہر و حیض میں 3مرتبہ قرآن کے مطابق عدت اور طلاق کا طریقۂ کار بتایا ہے اور بس۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ یہ فتویٰ اور قول حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی طرف منسوب ہے کہ ’’تین طلاق کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا ، یہاں تک کہ عورت کسی دوسرے سے نکاح کرلے‘‘اور یہ بھی حضرت ابن عمرؓ سے منسوب ہے کہ ’’جب ایک مرتبہ یا دو مرتبہ طلاق دی جائے تو رسول اللہ ﷺ نے رجوع کا حکم فرمایا ہے اور اگر تیسری مرتبہ طلاق دیتا تو رسول اللہ ﷺ یہ حکم نہ دیتے‘‘۔
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے بالکل ٹھیک فرمایا کہ اگر وہ قرآن کے مطابق پہلے طہر و حیض میں پہلی مرتبہ طلاق دیتے، دوسرے طہر و حیض میں دوسری مرتبہ طلاق دیتے اور پھر تیسرے طہر و حیض میں تیسری مرتبہ طلاق دیتے تو رسول اللہ ﷺ رجوع کا حکم نہ دیتے۔ یہ بات سمجھنے کیلئے کسی ایسی ٹیکنالوجی کی ضرورت نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سورج کی تسخیر کا قرآن میں ذکر کیا ہے تو سولر سے شمسی توانائی کس طرح سے حاصل ہورہی ہے؟۔ سیدھی سادی بات ہے کہ جو شخص قرآن کے مطابق 3طہر و حیض کے مراحل میں 3مرتبہ طلاق دے گا تو اس بات کی ترغیب کی ضرورت نہیں رہے گی کہ کوئی طلاق دینے سے روکے۔ البتہ جب جاہلیت کا ایسا دور دورہ تھا کہ خوشی اور مرضی سے مرحلہ وار 3طلاق دینے کے باوجود اس صورت میں بھی عورت کو اپنی مرضی سے اڑوس پڑوس اور آس پاس کے رشتے داروں میں دوسرے سے نکاح کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی اور مطلق العنان حکمران کی طرح شوہر بیوی کی مرضی کے بغیر بھی رجوع کرلیتا تھا تو جھگڑے کی صورت میں عورت کو تحفظ دینا فطرت کا تقاضہ تھا۔ قرآن نے بھی وضاحت کی ہے کہ باہمی اصلاح کی شرط پر شوہر کو رجوع کا حق حاصل ہے مگر مطلق العنان حکمران شوہروں کو لگام دینے کیلئے حضرت عمرؓ فاروق اعظم جیسی شخصیت کی ضرورت تھی۔اگر میاں بیوی آپس میں راضی ہوں تو اللہ تعالیٰ نے عدت کے اندر اصلاح کی شرط پر رجوع کو واضح کیا ہے۔ اگر راضی نہ ہوں تو قرآن کا بھی یہی فرمان ہے کہ رجوع نہیں ہوسکتا اور حضرت عمرؓ نے بھی ایسا ہی فیصلہ کیا تھا اور دنیا کی ہر عدالت ، قوم اور حکومت بھی یہی فیصلہ کرے گی۔ عبد اللہ ابن عمرؓ نے نیک نیتی کے ساتھ خواتین کے حقوق کو تحفظ دینے کیلئے یہی فتویٰ دیا ہوگا تاکہ تنازع میں کوئی شخص اپنی بیوی کو رجوع پر مجبور نہ کرے۔ علاوہ ازیں ابن عمرؓ اہل کتاب سے نکاح کو ناجائز قرار دیتے تھے حالانکہ قرآن میں ہے کہ ان سے نکاح حلال ہے مگر ابن عمرؓ نے فتویٰ دیا کہ اہل کتاب سے زیادہ مشرک کون ہیں جو تثلیث کے قائل ہیں؟ ۔ وزن ہونے کے باوجود کسی نے ان کا قول قبول نہیں کیا۔ اہل علم کیلئے یہ کافی ہے کہ جو طلاق ابن عمرؓ نے حیض کی حالت میں دی اس کو رسول اللہ ﷺ نے کسی شمار و قطار میں نہیں رکھا۔ حنفی اُصول فقہ کا یہ تقاضہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی بات کو بھی آیت کیخلاف پاتے تو رد کردیتے۔ عتیق گیلانی

بدر الدین عینی کی نبی ﷺ کی ازواج مطہرات پر بڑی بکواس نقل: کفر کفر نہ باشد

nabi-ki-azwaj-waives-nikah-mutaa-allama-ghulam-rasool-saeedi-ulma-muftyan- madrasa-jamia-naeemia-karachi- mufti-muneeb-ur-rehman
بریلوی مکتبہ فکر کے مشہور عالم دین علامہ غلام رسول سعیدی شیخ الحدیث دار العلوم نعیمیہ کراچی نمبر 38، نے اپنی تفسیر میں لکھ دیا ہے جس کو بہت ناگوار ہونے کے باوجود نقل کیا جارہا ہے۔
نبی ﷺ کی ازواج کی تفصیل
ان آیتوں میں نبی ﷺ کی ازواج مطہراتؓ کا ذکر ہے۔ آپ کی ازواج کی تین قسمیں ہیں، بعض ازواج سے آپ کا عقد نکاح بھی ہوا اور ان کی رخصتی بھی ہوئی اور بعض ازواج کے ساتھ عقد نکاح ہوا اور رخصتی کے بعد آپ نے ان کو طلاق دے دی۔ اور بعض ازواج کے ساتھ صرف عقد نکاح ہوا اور رخصتی نہیں ہوئی۔ اور بعض خواتین کو آپﷺ نے صرف نکاح کا پیغام دیا اور ان کی رخصتی نہیں ہوئی ۔ اس کی تفصیل علامہ بدر الدین محمود بن احمد عینی حنفی نے لکھی ہے۔ وہ فرماتے ہیں :
(1)سب سے پہلے نبی ﷺ نے حضرت خدیجہؓ بنت خویلد سے نکاح کیا (2)پھر حضرت سودہؓ بنت زمعہ سے نکاح کیا (3)پھر حضرت عائشہؓ بنت ابی بکرؓ سے نکاح کیا (4)پھر حضرت حفصہؓ بنت عمر بن خطابؓ سے نکاح کیا (5) پھر حضرت اُم سلمہ ہندؓ بنت ابی اُمیہ سے نکاح کیا (6)پھر حضرت جویریہؓ بنت الحارث سے نکاح کیا۔ یہ غزوۃ المریسیع میں قید ہوکر آئی تھیں(7)پھر حضرت زینبؓ بن جحش سے نکاح کیا (8)پھر حضرت زینبؓ بنت خزیمہ سے نکاح کیا (9)پھر حضرت ریحانہؓ بنت زید سے نکاح کیا یہ بنو قریظہ سے تھیں اور ایک قول یہ ہے کہ بنو نضیر سے تھیں نبی ﷺ نے ان کو قید کیا پھر آزاد کرکے 6ہجری میں ان سے نکاح کیا (10)پھر حضرت اُم حبیبہ رملہؓ بنت ابی سفیان سے نکاح کیا ، صحابیات میں ان کے سوا کسی اور کا نام رملہ نہیں ہے (11)پھر حضرت صفیہؓ بنت حیی بن اخطب سے نکاح کیا یہ حضرت ہارونؑ کی اولاد سے تھیں، سات ہجری میں غزوہ خیبر میں گرفتار ہوئی تھیں نبی ﷺ نے ان کو اپنے لئے منتخب کرلیا اور ان کو آزاد کرکے ان سے نکاح کرلیا (12)پھر ذو القعدہ سات ہجری میں عمرۃ القضاء کے موقع پر مکہ سے دس میل کے فاصلے پر مقام سرف میں حضرت میمونہؓ بنت الحارث سے نکاح کیا (13)حضرت فاطمہؓ بنت الضحاک سے بھی نکاح کیا (14)حضرت اسماءؓ بنت النعمان سے بھی نکاح کیا آپ کی ازواج کی تعداد اور ان کی ترتیب میں اختلاف ہے مشہور ہے کہ وفات کے وقت آپ کی 9ازواج تھیں، کل 11ازواج تھیں اور 2باندیاں تھیں۔
باقی وہ ازواج جن سے آپ نے نکاح کیا اور ان کی رخصتی بھی ہوئی یا جن سے صرف نکاح ہوا ان کی تعداد 28ہے۔
(1)حضرت ریحانہؓ بنت زید ان کا ذکر ہوچکا ہے (2) حضرت الکلابیہ ان کے نام میں اختلاف ہے ، ایک قول ہے کہ ان کا نام عمرہ بنت زید ہے، دوسرا قول ہے ان کا نام العالیہ بنت ظبیان ہے۔ زہری نے کہا ک نبی ﷺ نے العالیہ بنت ظبیان سے نکاح کیا اور رخصتی بھی ہوئی پھر آپ نے ان کو طلاق دے دی اور ایک قول یہ ہے کہ رخصتی نہیں ہوئی اور آپ ﷺ نے ان کو طلاق دے دی، ایک قول یہ ہے کہ یہی فاطمہ بنت الضحاک ہیں،زہری نے کہا کہ نبی ﷺ نے ان سے نکاح کیا رخصتی کے بعد انہوں نے آپ ﷺ سے پناہ طلب کی تو آپ نے ان کو طلاق دیدی (3)حضرت اسماء بنت النعمان، ان سے نبی ﷺ نے نکاح کیا اور ان کو بلایا تو انہوں نے کہا کہ آپ خود آئیں تو آپ نے ان کو طلاق دے دی۔ ایک قول یہ ہے کہ انہوں نے آپ ﷺ سے پناہ طلب کی تھی، ایک قول یہ ہے کہ یہ بنت قیس ہیں جو الاشعت بنت قیس کی بہن ہیں، ان کے بھائی نے ان کا آپ سے نکاح کیا تھا پھر وہ حضر موت چلے گئے اور ان کو بھی ساتھ لے گئے اور وہاں ان کو نبی ﷺ کی وفات کی خبر پہنچی تو انہوں نے اپنی بہن کو ان کے شہر واپس بھیج دیا اور خود اسلام سے مرتد ہوگئے اور ان کی بہن بھی مرتد ہوگئیں (4)ملیکہ بنت کعب اللیثی ، ایک قول یہ ہے کہ انہوں نے ہی آپ سے پناہ طلب کی تھی ، ایک قول یہ ہے کہ آپ نے ان سے عمل تزویج کیا تھا پھر یہ آپ کے پاس ہی فوت ہوگئیں لیکن پہلا قول صحیح ہے۔ (5)حضرت اسماء بنت الصلت السلمیہ ، ایک قول یہ ہے کہ ان کا نام سبا ہے نبی ﷺ نے ان سے نکاح کیا تھا اور یہ رخصتی سے پہلے فوت ہوگئی تھیں۔ (6)حضرت ام شریک ازدیہ ، ان کا نام عزبہ ہے نبی ﷺ نے دخول سے پہلے ان کو طلاق دیدی اور یہی وہ ہیں جنہوں نے اپنا نفس نبی ﷺ کو ہبہ کیا تھا یہ نیک خاتون تھیں (7)خولہ بنت ھذیل، ان سے نبی ﷺ نے نکاح کیا پھر آپ کے پہنچنے سے پہلے ان کی وفات ہوگئی (8)شراف بنت خالد وحیہ کلبی کی بہن ہیں نبی ﷺ نے ان سے نکاح کیا اور رخصتی سے پہلے انکی وفات ہوگئی (9)لیلیٰ بنت الحطیم، رسول اللہ ﷺ نے ان سے نکاح کیا یہ غیرت والی تھیں انہوں نے مطالبہ کیا کہ آپ نکاح فسخ کردیں سو آپ نے نکاح فسخ کردیا (10)حضرت عمرہ بنت معاویہ الکندیہ اس سے پہلے کہ یہ آپ تک پہنچیں نبی ﷺ کی وفات ہوگئی (11) حضرت الجندعیہ بنت جندب نبی ﷺ نے ان سے نکاح کیا اور عمل تزویج نہیں کیا ایک قول یہ ہے کہ ان کے ساتھ عقد نکاح نہیں ہوا تھا (12)حضرت الغفاریہ ، ایک قول یہ ہے کہ یہی السنا ہیں نبی ﷺ نے ان سے نکاح کیا پھر انکے پہلو میں داغ دیکھا تو آپ نے فرمایا کہ تم اپنے گھر چلی جاؤ (13)حضرت ہند بنت یزید ان سے بھی آپ نے دخول نہیں کیا (14) حضرت صفیہ بنت بشامہ آپ نے ان کو قید کیا تھا پھر رسول اللہ ﷺ نے ان کو اختیار دیا آپ نے فرمایا کہ اگر تم چاہو تو میں تم سے نکاح کرلوں ، انہوں نے اجازت دیدی آپ نے ان سے نکاح کرلیا (15)حضرت اُم ہانی، ان کا نام فاختہ بنت ابی طالب ہے حضرت علیؓ بنت ابی طالب کی بہن ہیں نبی ﷺ نے ان کو نکاح کا پیغام دیا انہوں نے کہا کہ میں بچوں والی عورت ہوں اور عذر پیش کیا ، نبی ﷺ نے ان کا عذر قبول کرلیا (16) حضرت ضباعہ بنت عامر ، نبی ﷺ نے نکاح کا پیغام دیا پھر آپ کو یہ خبر پہنچی کہ یہ بوڑھی ہیں تو آپ نے ارادہ ترک کردیا (17)حمزہ بنت عون المزنی ، نبی ﷺ نے ان کو نکاح کا پیغام دیا ان کے والد نے کہا کہ ان میں کوئی عیب ہے حالانکہ ان میں کوئی عیب نہ تھا پھر جب انکے والد انکے پاس گئے تو ان کو برص ہوگیا تھا (18)حضرت سودہ قریشہ ، رسول اللہ ﷺ نے ان کو نکاح کا پیغام دیا یہ بھی بچوں والی تھیں آپ نے ان کو ترک کردیا (19)حضرت امامہ بنت حمزہ بن عبد المطلب ان کو نبی ﷺ پر پیش کیا گیا آپ نے فرمایا یہ میری رضاعی بھتیجی ہے (20) حضرت عزہ بنت ابی سفیان ، ان کو ان کی بہن حضرت اُم حبیبہ نے نبی ﷺ پیش کیا آپ نے فرمایا کہ چونکہ انکی بہن ام حبیبہ میرے نکاح میں اسلئے یہ مجھ پر حلال نہیں ہیں (21)حضرت کلبیہ، ان کے نام کا ذکر نہیں کیا گیا رسول اللہ ﷺ نے ان کے پاس حضرت عائشہؓ کو بھیجا ، حضرت عائشہؓ نے فرمایا میں نے اتنی لمبی عورت کوئی نہیں دیکھی تو آپ نے ان کو چھوڑ دیا (22) عرب کی ایک عورت تھی جس کا نام ذکر نہیں کیا گیا آپ نے ان کو نکاح کا پیغام دیا پھر ترک کردیا (23) حضرت درہ بنت ابی سلمہ، ان کو آپ پھر پیش کیا گیا آپ نے فرمایا یہ میری رضاعی بھتیجی ہے۔ (24)حضرت امیمہ بنت شراحیل، انکا ذکر صحیح بخاری میں ہے (25)حضرت حبیبہ بنت سہیل الانصاریہ، نبی ﷺ نے ان سے نکاح کا ارادہ کیا تھا پھر ترک کردیا (26) حضرت فاطمہ بنت شریح ، ابوعبید نے ان کا آپ کی ازواج میں ذکر کیا ہے (27)العالیہ بنت ظبیان ، رسول اللہ ﷺ نے ان سے نکاح کیا یہ آپ کے پاس کچھ عرصہ رہیں پھر آپ نے ان کو طلاق دے دی۔ (عمدۃ القاری، جلد3، صفحہ321-320)
علامہ بدر الدین عینی نے 28ازواج کے ذکر کرنے کا کہا تھا لیکن انہوں نے جو ذکر کی ہیں وہ 27ہیں ۔ (تبیان القرآن : جلد 9، علامہ غلام رسول سعیدی ، صفحہ 417تا419)
علامہ بدر الدین عینی نے اس فہرست میں بعض خواتین کا نام دوسری مرتبہ بھی ذکر کیا ہے اور یہ کتنی بڑی جسارت ہے کہ جن کو رسول اللہ ﷺ نے رضاعی بھتیجی قرار دیا ان کا نام بھی اس فہرست میں ذکر کیا گیا ؟۔ نبی کریم ﷺ نے حلالہ کو لعنت قرار دیا اور علامہ بدر الدین عینی نے اس کو کار ثواب قرار دیا۔ ہمارے علماء و مفتیان ، شیخ الحدیث اور شیخ التفسیر اتنے عقل کے اندھے ہیں کہ کوئی چیز نقل کرنے میں عقل سے بالکل کام نہیں لیتے۔ کوئی غیر مسلم ازواج کی یہ فہرست دیکھ کر کیا سوچے گا؟۔ بخاری میں ابنت الجونؓ کے حوالے سے ابن حجر نے لکھاہے کہ ’’سوال پیدا ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نکاح نہیں کیا تھا تو خلوت میں دعوت کیسے دی؟۔ جواب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا کسی عورت کو طلب کرنا نکاح کیلئے کافی ہے چاہے وہ عورت راضی نہ ہو اور اس کا ولی بھی راضی نہ ہو‘‘۔ یہ علامہ غلام رسول سعیدی نے شرح صحیح بخاری نعم الباری اور مولانا سلیم اللہ خان نے شرح صحیح بخاری کشف الباری میں بھی نقل کیا ہے۔ کئی مرتبہ تحریرات کے ذریعے سے توجہ دلانے کے باوجود کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا ۔ اُم ہانیؓ کو نبی ﷺ نے نکاح کی دعوت دی اور انہوں نے قبول کرنے سے انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ وہ چچا زاد و خالہ زاد آپ کیلئے حلال ہیں جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے۔ جب اس آیت سے حضرت اُم ہانیؓ کا حلال نہ ہونا ثابت ہے تو ان کو نبی ﷺ کی ازواج میں شامل کرنا بڑا ظلم عظیم ہے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے بعد نبی ﷺ سے فرمایا ہے کہ’’ اسکے بعد کسی خاتون سے آپ کیلئے نکاح کرنا حلال نہیں۔ چاہے کوئی کتنی ہی اچھی کیوں نہ لگے مگر جسے اللہ آپ کے دائیں ہاتھ لگائے‘‘۔ جسطرح سے بعض خواتین کے آپ ﷺ پر پیش ہونے کا ذکر کیا گیا ہے یا جسکے بارے میں لکھا گیا کہ حضرت عمرہ بنت معاویہ الکندیہ اس سے پہلے کہ آپ ﷺ تک پہنچیں تو نبی ﷺ کا انتقال ہوگیا۔ یہ الفاظ قرآنی آیت کے منافی ہیں۔
جب اللہ تعالیٰ نے نکاح سے منع کیا تھا تو لونڈی یا متعہ کی صورت میں ایسے واقعات کا احتمال تھا، قرآن و سنت کی درست تعبیر کیلئے ضروری ہے کہ حقائق کو مسخ کرنے سے گریز کیا جائے اور قرآن کو بدلنے کے بجائے خود کو بدلا جائے۔ اقبال نے کہا :
ہوئے کس درجے فقیہان حرم بے توفیق
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں

دہشت گردی کی اصل کہانی: ایک وزیرستانی کی زبانی

manzoor-pashteen-ghq-shahid-khakan-black-water-shahid-masood-ratan-bai-ptm-shabbir-ahmed-usmani
میں سید عتیق الرحمن گیلانی سکنہ کانیگرم تحصیل لدھاجنوبی وزیرستان ایجنسی، و جٹہ قلعہ گومل تحصیل وضلع ٹانک ڈیرہ اسماعیل خان پختونخواہ کویہ اعزاز حاصل ہے کہ پختون تحفظ موومنٹ اسلام آباد کے دھرنے میں پہلی مرتبہ یہ برملا نعرہ لگایا کہ ’’یہ جو دہشت گردی ہے،اسکے پیچھے وردی ہے‘‘۔پھر اخبار کی شہہ سرخی کی ذیلی بھی لگادی۔فوج کی پشت پناہی کے بغیر پاکستان میں انسان تو دور کی بات ہے چیونٹی کے لشکر میں اپنی قوم کا ہمدردیہ نعرہ نہیں لگاسکتا جو حضرت سلیمان ؑ کے دور میں چیونٹی نے کہا : ’’ بچو! کہیں سلمان کا لشکر تمہیں روند نہ ڈالے‘‘۔
منظور پاشتین کی پہلی تقریر نقیب اللہ محسود کیلئے وزیرستان کے ایک جرگہ کے دوران موجود ہے جس میں ایک معمر شخص کہتا ہے کہ’’ پولیٹیکل ایجنٹ کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ چلیں فوج کے افسروں سے بات کرتے ہیں‘‘۔ منظور پاشتین اچانک عوام کی طرف سے نمودار ہوتا ہے اور اپنی تقریر میں کہتا ہے کہ ’’ کراچی میں اب ایک کتنا پیارا جوان ماردیا گیا ، میں نے چھ سات طلبہ ساتھیوں کیساتھ آواز اُٹھائی ہے تاکہ یہاں سے بارودی سرنگین صاف کی جائیں۔ دہشتگردی کا واقعہ ہوتا ہے تو پورے علاقے کی عوام کو سزا دی جاتی ہے۔مجھے پہلے بھی روکا گیا کہ آپ نہیں آیا کریں مگر میری بے بسی ہے ،بس آجاتا ہوں۔ مجھے پہلے فوج گرفتار کرکے لے گئی اور اپنے ساتھیوں کے احتجاج پر مجھے چھوڑ دیا گیا۔ ہم اپنے احتجاج کا سلسلہ جاری رکھیں گے، ٹانک ، ڈیرہ اسماعیل خان، پشاور، اسلام آباد اور GHQ کے سامنے تک یہ سلسلہ لیکر جائیں گے۔ ہمارے لوگ قانون سے واقف نہیں ہیں۔ پاکستان کا یہ قانون ہے کہ کسی بھی شہری کو گرفتار کرنے کے بعد 24گھنٹوں میں اس کو عدالت کے سامنے پیش کیا جائیگا۔چاہے وہ گناہگار ہو یا بے گناہ ہو۔ بہت بے گناہ لوگ لاپتہ ہیں جن کا کچھ پتہ نہیں چلتا کہ زندہ ہیں یا ماردئیے گئے ہیں۔ پولیس ، فوج اور خفیہ ادارے سب قانون کے پابند ہیں۔ ہم آئین کے مطابق ہی اپنے حقوق کیلئے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے‘‘۔ منظور پاشتین کی اس تقریر سے پتہ چلتا ہے کہ قبائلی عمائدین پہلے بھی اس باغی جواں کی طرف سے چیونٹی کیطرح قوم کی ہمدردی کیلئے آواز اٹھانے سے بیزار تھے اور خوف وہراس کا شکار تھے۔
نقیب اللہ محسود کیلئے کراچی میں جو دھرنا دیا گیا تھا وہ حکومت کے دباؤ پر ختم کیا گیا لیکن اسلام آباد دھرنے کے اصل محرک منظور پاشتین اور اسکے ساتھی تھے۔ یہ جھوٹ بولا گیا کہ کراچی کا دھرنا اسلئے ختم کیا گیا کہ اسلام آباد دھرنے میں شریک ہوں گے۔ اسلام آباد دھرنے کے اسٹیج پر جوان طبقے کا قبضہ تھا لیکن عوام سب کے سب بہت جذبات میں تھے۔ پاکستان کے حق میں کوئی ہمدردی والی بات کرنے کا ہلکا سا اشارہ دیتا تو مخالفت میں آوازیں اٹھنا شروع ہوجاتی تھیں۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ملاقات میں کہا کہ ’’ہم خود بھی فوج سے تنگ ہیں۔ منتخب وزیراعظم سے طاقتور کون ہوگا؟ ، پہلے بھی نوازشریف کے برسراقتدار خاندان کی جس طرح سے توہین کی گئی۔ کود کر گرفتار کرلیا، ہتھکڑی پہناکر گھسیٹاگیا ، جلاوطنی پر مجبور کیا گیا۔ اب دوبارہ نوازشریف کو نااہل کیا گیا، یہ سب فوج ہے‘‘۔ عمائدین کیلئے وزیراعظم کی زیارت ، فوج کے ڈراؤنے چہرے کی نقاب کشائی بہت تھی جو سب کو راتوں رات احتجاج ختم کرنے پر مجبور کر گیا لیکن منظور پاشتین اور بہت ہی کم ساتھیوں نے شامِ غریباں میں بھی اپنا دیا جلائے رکھا۔ جب میں نے دیکھا کہ عوام پر مایوسی اور خوف کی کیفیت طاری ہے تو ان کو حوصلہ دینے کیلئے نعرہ لگوایا کہ ’’ یہ جو دہشت گردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے‘‘۔ جس سے اسٹیج کے منظم افراد میں مارے خوف کے بھگڈر سی مچ گئی۔ میری تقریر کا ایک ایک لمحہ منتظم افراد کے اوپر پہاڑ سے زیادہ بھاری گزر رہا تھا۔ میں نے واضح کیا کہ میں حقائق بتاؤں گا، ڈرو نہیں ،میں تمہیں لڑاؤں گا نہیں۔ میں نے تقریر کا آغاز علامہ اقبال کے اس شعرسے کیا۔
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یابندہ صحرائی یا مرد کوہستانی
اور اس کا اختتام اس بات سے کیا کہ قبائل ریاست کی نرینہ اولاد ہیں۔بیٹے مار بھی کھاتے ہیں، بے عزتی بھی برداشت کرتے ہیں لیکن والدین کے سامنے اُف نہیں کرتے۔ قرآن میں اللہ کا حکم ہے کہ والدین کے سامنے اُف نہیں کرنا۔ قبائل نے اتنی مشکلات برداشت کیں مگر اُف نہیں کی اور آج بھی یہ اُف کرنے نہیں آئے ہیں۔ یہ وہ نہیں جو کہتے ہیں کہ ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘۔ ریاست نے جن کو اقتدار دیا ہے وہ ریاست کی زنانہ اولاد ہیں، ان کی حیثیت ان بیٹیوں کی طرح ہے جن کو والدین ناز سے پالتے ہیں اور پھر وہ بھاگ کر کورٹ میرج کرلیتی ہیں اور یہ بیٹیاں بھٹو، نوازشریف اور عمران خان ہیں۔ بیٹوں پر سختی کی جاتی ہے تو اس نے اپنے باپ کا منصب اور ذمہ داریاں اٹھانی ہوتی ہیں۔ مجھے موقع نہیں دیا گیا ورنہ بہت تفصیل سے ایک روڈ میپ دیتا کہ انقلاب کیسے آتا ہے۔
جو فقر ہوا تلخئ دوراں کا گلہ مند
اس فقر میں باقی ہے ابھی بوئے گدائی
جب پورے ملک میں بلیک واٹر کے کارندوں اور طالبان کو آزادی ہو ، لیکن شریف لوگوں کیلئے جینا حرام ہو۔ اسلام آباد کی سول بیوروکریسی کے افسر جعلی نمبر پلیٹ اپنے سرکاری گاڑیوں پر لگانے میں مجبور ہوں اور وزیراعظم یوسف گیلانی و گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے بیٹے بھری محفل میں ملتان اور لاہور سے اغواء ہوکر افغانستان پہنچ جائیں تو پاک فوج کی پاکی اور صلاحیت کو سلام کیا جائے یا پھر اس دہشت گردی کے پیچھے وردی کو ملوث قرار دیا جائے؟۔ پنجاب کے کھدڑے اس حقیقت کو کھلے الفاظ میں بیان نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ وہ غلامانہ ذہنیت پر مجبور ہیں لیکن آزاد قبائل کی آواز کو برطانیہ بھی نہ دبا سکا تھا جسکے اقتدار پر سورج غروب نہ ہوتا تھا۔ جب امریکہ نے پاک فوج پر حقانی نیٹ ورک کا الزام لگایا تو پاک فوج کی کور کمانڈرز کانفرنس میں باقاعدہ یہ جواب دیا گیا کہ ’’ہم اس میں اکیلے نہ تھے یعنی تمہاری وردی والے امریکی سی آئی اے بھی اس میں شریک تھی‘‘یعنی دونوں نے مل کر یہ گیم کھیلا ہے۔
جب پہلی مرتبہ وزیرستان کے مجاہدکیمپ پر بمباری ہوئی تو گورنر اورکزئی نے جنوبی وزیرستان کے قبائلی عمائدین کو پشاور میں بلالیا۔ جنرل اورکزئی نے بہت تفصیل کیساتھ بتایا کہ وزیر علاقہ سے محسود علاقہ میں ازبک کس طرح کہاں کہاں اور کس کس کے پاس رُکے اور کیا کیا ہوا۔ مولانا عصام الدین محسود نے یہ رام کہانی کی داستان سن کر کہا کہ گورنر صاحب! میں معافی چاہتاہوں جو معلومات آپ کے پاس ہیں ، یہ ہمارے پاس بھی نہیں۔ ازبک کی ساری کہانی آپ نے بتادی۔ جب قبائل کے قریب ازبکوں کا کیمپ بھی تھا تو آپ نے ان کو کیوں نشانہ نہیں بنایا۔ قبائل کے بجائے ازبک کے کیمپ پر بمباری کرنی تھی؟۔ جس پر گورنر جنرل اورکزئی نے ناراضگی سے کہا کہ ’’ اگر ہم نشانہ نہ بناتے تو امریکہ بناتا‘‘۔ یہ جرگہ ختم ہونے کے بعد وہاں کہا گیا کہ ’’مجلس امانت ہوتی ہے ،اس مجلس کی بات کو باہر نہیں کرنا ہے لیکن کچھ غیرتمند لوگوں نے کہا کہ قوم کیساتھ غداری کی امانت کو ہم نہیں مانتے اور حقائق باہر بتادئیے۔ ہم نے اخبار ماہنامہ ضرب حق کے اہم اداریوں میں ان حقائق کو کھول دیا تھا۔ جس کی سزا بھی ہم نے بھگت لی ہے۔
سینٹر مولانا صالح شاہ نے بتایا کہ ’’شکئی وانا میں ایک مولوی دین سلام کو ازبک کو پناہ دینے پر فوج اٹھاکر لے گئی اور وہ مسجد میں ازبک کو گالیاں دے رہا تھا، جنہوں نے اس کے پاس رہائش اختیار کی تھی۔ پہلے تو وہ ازبک کا انکار کرتا تھا اور جب ویڈیوز دیکھ لیں تو پھر اس نے ازبک کے ترجمان کو بھی پہچان لیا جو وہی فوجی تھا جس نے پہلے لمبی داڑھی رکھ لی تھی اور پھر مونڈلی تھی ‘‘۔ ازبک رہنما طاہر یلدوشیف کو امریکہ نے غلطی سے گرفتار کرکے پھر چھوڑ دیا تھا۔ ڈاکٹر شاہد مسعود نے اپنی کتاب میں ایک طرف یہ لکھ دیاتھا کہ ’’ امریکہ کو غاروں میں اسامہ حرکت کرنے پر بھی نظر آسکتا تھااسلئے کہ جدید ترین آلات سے تلاش جاری تھی اور اس نے دوسری طرف یہ بھی لکھ دیا کہ ’’ امریکہ کے فوجی کیمپ کے پاس قبائل کا بڑا لشکر پہنچ گیا جو امریکی فوج کا کباڑا کرنے والا تھا‘‘۔ یعنی یہ بڑا لشکر امریکہ کی نظروں سے پوشیدہ رہا اور غاروں میں اسامہ حرکت کرنے پر نظر آسکتا تھا۔ تضادات کے اس بانی صحافی ڈاکٹر شاہد مسعود کو جن شرمناک الفاظ میں معروف صحافی عطاء الحق قاسمی نے بڑا خراج عقیدت پیش کیا تھا وہ ڈاکٹر شاہد مسعود اپنے لئے قابلِ فخر سمجھ رہا تھا۔ زرد صحافت کے کرتے دھرتے آج دونوں زیر عتاب مگر شرمندہ نہیں۔میڈیا پر حقائق سامنے لائے جائیں۔
بھائی پیر امیرالدین سابق کمشنر بنوں نے کسی بات پر کہا کہ ’’چیونٹی کو بھی کموڈ میں بہانے سے وہ ڈرتے ہیں ‘‘ کسی اور موقع پر کہا کہ ’’ اگر ریاست اپنا مفاد سمجھ کر اپنے لوگوں کو بھی قتل کرے تو بڑے مفاد کیلئے چھوٹا مفاد جائز ہے‘‘۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر فوج نے ملک بچانے کیلئے امریکہ کی تمام پالیسیوں کو مان کر ہمارا کباڑہ کردیا ہو تو ہزاروں نہیں لاکھوں خون بھی معاف ہیں اور اگر وہ ضمیر، غیرت اور ایمان سے پاک ہو اور پیسوں کی خاطر ملک تباہ کیا ہو تو بھی ایسوں سے گلہ کرنا اپنی ذات کی توہین ہے۔ بے ضمیر فوج اور بے ضمیر طالبان کے سامنے حق کی آواز اُٹھاؤ لیکن بے غیرت بن کر عورتوں کی طرح غم کا بین مت بجاؤ۔ اگر مجھے محسود قوم سے دشمنی ہوتی اور اپنا انتقام لینا چاہتا تو بھی محسود قوم کی اتنی بے عزتی نہ کرتا کہ ان سے کہتا کہ نقیب کی تصویر اٹھاؤ اوریہ مرثیہ گاؤ کہ یہ کیسی آزادی ہے؟۔ مجھ میں بھی محسود خون دوڑتا ہے۔ میری نانی محسود تھی،جس دن پیدا ہوئی تو انگریز نے بمباری کرکے گھر کے اکثر افراد شہید کئے تھے۔
پہلی مرتبہ وانا میں کانیگرم کے تحصیلدار اور ایک ملازئی کے تحصیلدار کو انتہائی بے دردی سے شہید کرکے مسخ کیا گیا اور لاشوں کو کنویں میں پھینک دیا گیا، مشہور یہی ہوا کہ ازبک اور مقامی دہشتگردوں نے فوجی کرنل کو چھوڑ دیا اور انکو ماردیا۔مطیع اللہ خان کا تعلق کانیگرم جنوبی وزیرستان سے تھا ۔ پوری فیملی بہت ہی شریف ہے اور مطیع اللہ شہیدؒ کی شرافت مثالی تھی۔ اسکے چچاڈاکٹر عبدالوہاب سے جیو ٹی وی نے انٹرویو لیا کہ’’ آپ کے نزدیک یہ کون ہیں؟‘‘ اس نے یہ جواب دیا کہ ’’ بھارت کے ہندو یہ نہیں کرسکتے ، کیونکہ بنگال میں قید ہونے والے فوجیوں میں سے کسی کیساتھ ایسا نہیں کیا گیا۔ امریکہ بھی یہ نہیں کرسکتا گوانتا ناموبے کے قیدی یہاں موجود ہیں ۔ مسلمان بھی ایسا نہیں کرسکتے۔ پھر کیا کہہ سکتا ہوں کہ ایسا کس نے کیا ہے؟‘‘۔ جیوٹی وی چینل اگر امریکہ کا پٹھو نہ تھا تو اس کو ڈاکٹر عبدالوہاب کا یہ انٹرویو بار بار اپنے چینل پر اسی وقت دینا تھا۔ جب کوئٹہ میں غیرملکیوں کو اپنے خوف سے چوکی پر مارا گیا تو میڈیا نے آسمان سر پر ہی اٹھالیا تھا ۔ حالانکہ اپنا تجزیہ دے سکتے تھے کہ مقامی لوگوں میں بھی وہاں گھومنے کی ہمت نہیں ہے تو غیرملکی کس باغ کی مولی تھے اور کیا کرنے آئے تھے؟۔
جب کسی قوم کی سینٹرل کمان صحیح ہوتی ہے تو اس طرح بے تکے اندازمیں اپنی قوم اور ریاست کا کباڑا نہیں کیا جاتا ۔ کراچی دہشتگردوں کے ہاتھوں یرغمال تھا ۔ کراچی رینجرز کے سپاہی کے ہاتھوں سے غلطی سے گولی چل گئی اور وہ لٹیرا ماراگیا جو خواتین کو جعلی پستول سے خوفزدہ کرکے پرس چھین لیتا تھا۔ اس قتل خطاء پر پھانسی کی سزادی گئی اور پھر جھوٹی خبر چلائی گئی کہ صدرمملکت نے معاف کردیا۔ جس کی پھر تردید بھی آگئی۔ ایم پی اے مجید اچکزئی نے جس طرح پولیس والے کو کھلے عام شہید کرکے راہِ فرار اختیار کی اور پھر رہائی پر پھول برسائے گئے ایک پختون کی حیثیت سے مجھے بھی شرم آتی ہے اور جب نااہل نوازشریف کے قافلے نے ایک بچے کو روند ڈالا، جسکا پرچہ بھی بہت معمولی ہے اور قبل از گرفتاری ضمانت بھی ہوجاتی ہے لیکن ابھی تک اس صاحب کا کوئی سراغ بھی نہ لگ سکاہے۔
منظور پاشتین پر افغانی کا الزام غلط ہے ۔ وزیرستان اس وقت بھی آزادی کی جنگ لڑرہا تھا ،جب افغانستان آزاد تھا اور ہندوستان پنجاب اور پختونخواہ کے سیٹل ایریا تک غلامی میں بندھا تھا۔ ہمارے ریاستی ادارے فوج، عدلیہ اور بیوروکریسی انگریز کے وفادار غلام تھے۔ منظور پاشتین وزیرستان کی وہ ٹیٹھ زبان بولتا ہے کہ دوسرے پختون اس کو سیکھ بھی نہیں سکتے ہیں۔ منظور پاشتین پر افغانی کا الزام لگانے والے نہیں جانتے کہ منظورپاشتین کا قبیلہ، خاندان اور شاخ در شاخ ایک قوم کا حصہ ہیں۔ البتہ قائداعظم محمد علی جناح کے بارے میں جھوٹے شجرہ نسب کی شہرت ہے۔ ٹھٹھہ کے قریب جھرک کو قائداعظم کا گاؤں کہاجاتا تھا لیکن نیٹ پر بھی یہ معلومات دستیاب نہیں۔ سندھی، اردو اور ہندی کوئی زبان قائداعظم کو نہیں آتی تھی۔ تحریک انصاف کے نومولودرہنما جسے عمران خان نے عدت میں شادی کے بعد جنم دیا ہے۔ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے شہباز شریف کی قائداعظم کی انگریز ہیٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’ قائداعظم کے کپڑے بھی استری کیلئے برطانیہ جاتے تھے، تمہاری کیا حیثیت ہے ان سے ملنے کی‘‘۔ پھر وہ بول ٹی وی سے نکال دئیے گئے تو اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ ’’بول نے مجھ سے لوگوں کی بے عزتی کروائی ہے، میں ان سے معذرت چاہتا ہوں، وہ میری نہیں بول کی پالیسی تھی‘‘۔ یہ بتایا جائے کہ برطانیہ کپڑے استری کیلئے بھیجنے کی بات بھی قائداعظم کی تعریف میں آتی ہے یا یہ قائداعظم کے خلاف بھی سازش ہے؟۔ اسکی تائید اور تردید میں دلائل کی بہت ضرورت ہے۔ یہ بڑی سازش ہے جس سے بڑی دل آزاری ہوئی ۔
پاک فوج کے رہن سہن پر تنقید کرنے والے قائداعظم کے تکلفات کے بعد کس طرح تنقید کرینگے؟۔ سیاسی رہنماؤں کو بیرون ملک علاج پر تنقید والے استری کیلئے کپڑے لیجانے کے بعد کیا تنقید کرسکیں گے؟۔ قائداعظم کی اہلیہ اس کی کزن رتن بائی پارسی تھی۔ اسلام بھی قبول نہ کیا تھا۔ پارسی عورت کا نکاح پارسی مذہب کے مطابق مسلمان سمیت کسی اہل کتاب سے نہیں ہوسکتا ہے۔ جب اس کی وفات ہوئی تو قائداعظم اس کی میت لیکر آغا خانی جماعت خانے میں گئے ۔ جماعت خانے کے ذمہ دار نے کہا کہ ’’رتن بائی نے اسلام قبول نہیں کیا تھا اس کی نمازہ جنازہ یہاں نہیں ہوسکتی ہے‘‘۔ قائداعظم نے سر آغا خان سے کہا تو اس نے اپنے مذہبی رہنما کی تائید کردی۔ اس وقت قائداعظم کو بریلوی مکتبۂ فکر کے امام احمد رضاخانؒ بھی مسلمان نہیں مانتے تھے۔ دیوبندسے مسلم لیگ کی حمایت کرنے والے تھانوی گروپ نے قائداعظم کو سپورٹ کیا۔ اسلئے علامہ شبیرا حمد عثمانی نے قائداعظم کا جنازہ پڑھایا ۔ ’’تحریک کشمیر سے تحریک ختم نبوت تک‘‘ کتاب میں پنجاب کے چوہدری غلام نبی نے زبردست داستان لکھ ڈالی ۔ جس میں لیگی قائدین اور علماء کے پول بھی کھول دئیے ہیں۔
جب ریاستِ پاکستان قادیانیوں کی حامی تھی تو پاکستان میں ختم نبوت زندہ باد کانعرہ لگانا بھی جرم تھا اور جس طرح جنرل نیازی نے بنگال میں ہتھیار ڈالے تھے اس سے زیادہ مولانا عبدالستار خان نیازی نے ختم نبوت تحریک میں شامل ہونے کی وجہ سے ڈارھی مونڈی تھی۔ عمران خان بلاوجہ نیازی کے بجائے کانیگرم کے برکی قبائل سے اپنا رشتہ نہیں جوڑ رہا ہے۔ حالانکہ اسکے ماموں بھارت کے جالندھر ی برکی ہیں۔یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ریاست پاکستان کی پالیسیوں نے ملک وقوم کو آزاد ہونے کے بعد بھی غلامی سے دوچارکرکے رکھا ہے۔ گورے انگریز جانے اور کالے انگریز کے مسلط ہونے پر کوئی اختلاف نہیں ۔ منظور پاشتین کے اندر محسود قوم کا درد تھا لیکن محسودوں نے اس کو قبول نہ کیا ، پھر پختون تحفظ موومنٹ کے نام سے اپنی تنظیم کو وسیع کردیا۔ اب اگلی منزل اس کی مظلوم تحفظ موومنٹ لگتی ہے۔ پنجاب سے دوسرے صوبے اور قوموں کو بڑی شکایت ہے ۔ پختون، سندھی، بلوچ اور مہاجر کے علاوہ سرائیکی بھی نالاں ہے۔ گلے شکوے علاج نہیں بلکہ مفلوج ہونے کی راہیں ہیں۔ بلوچ قوم نے بڑی قربانیاں دیں مگر خود کو مزید غلام بنادیا ہے۔بلوچ، مہاجر، سندھی اور اے این پی سے تعلق رکھنے والے پختونوں کی خوشامد دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے۔PTMنے دوسری قوموں کی بات بھی شروع کردی۔
پاکستان کی ریاست اس بات سے ہرگز خوفزدہ نہ ہو کہ پختون قوم افغانستان سے ملے گی۔ افغانستان کے لوگ خود کو امریکہ کی نیٹو اور دہشت گردوں کی نیٹو سے نہیں بچاسکتے ہیں تو ہمیں کیا تحفظ دیں گے؟۔ البتہ مولانا محمد خان شیرانی امیر جمعیت علماء اسلام بلوچستان و سابق چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان نے ایک تقریر میں کہا تھا کہ افغانستان کو ظاہر شاہ کے حوالے کیا جائیگا اور محسود ایریا کو عالمی دہشت گردوں کے حوالے کیا جائیگا۔ اگر پوری منصوبہ بندی کیساتھ ازبک کے ذریعے محسود ایریا میں شریف لوگوں کی نسل کشی کی گئی ہے اور منظور پشتین کو ریاست نے منصوبہ بندی اور سازش سے کھڑا کیا ہو تاکہ پاک فوج خود اس علاقہ کو دہشت گردوں کے سپرد کردے تو کچھ بھی بعید از قیاس نہیں ۔قائداعظم محمد علی جناح کو مارنے، لیاقت علی خان کو شہید کرنے اور فاطمہ جناح سے مناقشہ کرنے کے نام سے لیکر ذوالفقار علی بھٹو ، زرداری اور نوازشریف تک سب کو فوج کے نامہ اعمال میں ڈالا جاتا ہے۔ جنرل ضیاء سے پرویز مشرف تک ایم کیوایم کے کارناموں کو فوج کے کھاتہ میں ڈالا جاتا ہے۔جہادی تنظیموں اور فرقہ وارانہ دہشت گردی سب ہی کچھ پاک فوج کے سیاہ کرتوت بتائے جاتے ہیں۔ تمام ادارے پاکستان کے ہیں مگر صرف فوج ہی کو پاک کہہ دیا جاتا ہے لیکن کس کس الزام سے فوج پاک ہے ؟۔ اس کی وضاحت آج تک کوئی نہیں کرسکا ہے ۔
منظور پشتین پہلے تو افغانی نہیں اور یقیناًنہیں ہے لیکن بالفرض افغانی ہو بھی تو اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ نبیﷺ مکہ کے تھے اور ہجرت کرکے مدینے چلے گئے، جو اسلام کے نام نہاد علمبردار بنتے ہیں وہ اس بات کو جانتے ہیں کہ افغانستان اور وزیرستان کا فاصلہ حرمین شریفین مکہ مدینہ سے بہت کم ہے۔ پہلے جن لوگوں نے اسلام کے نام پراپنے مفادات کیلئے ملک تقسیم کرکے حقیقی آزادی کیلئے کچھ نہیں کیا بس صرف ہندؤں سے نفرت کرنا سیکھ لی۔ اب افغانستان سے کیوں نفرت ہے؟۔ تمہاری کوئی دونمبر عورت بھی حادثے میں مرجائے تو شہید اور افغانستان میں جمعہ کے دن نمازی بھی شہید کردئیے جائیں تو ہمارا میڈیا اس کو شہید لکھنے کی جرأت نہیں کرتا جاں بحق نہیں ہلاک کہتا ہے۔ یہ بھی شکر ہے کہ انکے لئے آنجہانی نہیں کہا جاتا، یہ نفرت کے بیج کبھی ختم بھی ہونگے یا اپنے دال روٹی کیلئے نفرتوں کے بیج کا سلسلہ جاری رہے گا؟۔
انسان میں کچھ خوبیاں اور کچھ خامیاں ہوتی ہیں۔ اپنی خامی اور دوسرے کی خوبی کو یاد کرکے زندگی میں توازن پیدا ہوتا ہے۔ تحریک انصاف کا رہنما علی محمد خان کہتا ہے کہ مجھے فخر ہے کہ میرے ماموں نے بنگال میں ہتھیار ڈال کر پاکستان کیلئے بھارت میں قید کاٹی تھی حالانکہ جان کی بازی لگاکر ہتھیار نہ ڈالتے تو فخر کی بات ہوتی۔ عمران خان جنرل نیازی کی وجہ سے اپنے ساتھ نیازی نہیں لکھتا۔ کل کو بریلوی مکتبۂ فکر والے اُٹھ کر کہیں گے کہ مولانا عبدالستار خان نیازی نے ختم نبوت کیلئے داڑھی صاف کرنے کی قربانی دی تھی۔ انسانوں کو نسلی عصبیت سے روکنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے زمین کا خلیفہ بنانے سے پہلے نافرمانی کرائی تھی اور ہمارے نبی آخر زمان رحمت للعالمین ﷺ کائنات کی بنیاد تھے ۔ قریش اپنے کردار کے سبب سب سے شریف تھے جس میں نبیﷺ کی بعثت ہوئی مگر بخاری شریف میں حضرت حاجرہؓ کی طرف اشارہ کرکے کہا گیا ہے کہ قریش آسمان کی اولاد ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ سے بڑی ہستی کس کی ہوسکتی ہے جن کی طرف یہود، نصاریٰ اور مشرکین اپنی نسبت کرتے تھے؟ اور اہل کتاب بنی اسماعیل ؑ کو اپنے سے کمتر سمجھتے تھے کہ لونڈی کی اولاد تھے۔ حالانکہ حضرت یوسف ؑ کے بھائیوں کا کردار کس سے پوشیدہ ہے ؟۔ جنکے باپ، دادا اور پردادا سب انبیاء تھے۔حضرت ابراہیم ؑ پر جھگڑا شروع ہوجائے تو ایک بیوی کو اہل کتاب لونڈی کہہ دیں گے اور دوسری کی بھی توہین ہوگی کہ اگر کہا جائے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے بدکار اور ظالم بادشاہ کے حوالے کیا تھا۔ بس اللہ نے عزت بھی بچائی اور تحفہ میں ایک شہزادی حضرت حاجرہ ؑ بھی ملی۔بادشاہ کی عادت یہ تھی کہ بہن اور بیٹی کو زیادتی کا نشانہ نہیں بناتا تھا۔ اسلئے حضرت ابراہیم ؑ نے بیوی کاکہاتھا کہ ’’یہ میری بہن ہے‘‘ حضرت حاجرہؓ بھی شہزادی تھی اسلئے ان کی عزت بھی محفوظ تھی۔ جب حضرت یوسف ؑ سے عزیز مصر کی بیوی نے بدکاری چاہی تو اس کی عزت پر ہاتھ نہیں ڈالا۔سوال یہ ہے کہ ظالم بادشاہ بیوی کی عزت کو کیوں خراب کرنا چاہتا تھا؟۔
ایک مفتی صاحب سے ملاقات ہوئی جو تبلیغی جماعت میں چلے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’اسلام میں حلالے کا کوئی تصور نہیں تھا۔ علماء خان، نواب ، بادشاہ اور چوہدری وڈیرے کا سامنا نہیں کرسکتے تھے۔ جب کسی بہانے سے مولوی کہتا کہ تمہارے بیوی تم پر حرام ہوگئی اور اسکا حلالہ کردیتا تو وہ بادشاہ ، خان ، نواب اور وڈیرہ اس مولوی کے سامنے آنکھ اٹھانے کے قابل نہیں رہتا تھا‘‘۔ بادشاہ بھی اسلئے بہنوں اور بیٹیوں کے بجائے بیگمات سے بدکاری کرکے مخالف کو سرنگوں کرنا چاہتا ہوگا۔ مولوی حضرات نے حضرت یوسف ؑ کی بجائے اس ظالم بادشاہ کی روحانی اولاد بن کر غلط دھندہ شروع کیا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے مکہ فتح کرنے کے بعد فرمایا کہ ’’ تم آزاد ہو۔ آج تم پر کوئی ملامت نہیں ‘‘۔ اگر اس وقت زبردستی ابوسفیان کی بیگم کو لونڈی بناکر عزت لوٹنے کی اجازت دی جاتی تو کربلا کے بعد اہل بیت کی خواتین بھی اپنی عزتوں کو محفوظ نہیں رکھ سکتی تھیں۔ تاریخ کا ایک ایک واقعہ سبق آموز ہے اور قرآن واحادیث کے قصوں میں بہت بڑا سبق ہے۔ ایک دوسروں کے طعن وتشنیع کا نشانہ بنانے کے بجائے اپنی کمی کوتاہی پر نگاہ رکھ کر چلیں گے تو اپنے لوگوں اور انسانیت کا بیڑہ پار ہوجائیگا۔ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین جیسے سیاستدان اور صحافیوں پر کون اعتماد کریگا؟۔ بول چینل پر الزام لگایا اور پھر وہاں بیٹھ گیا۔ عمران خان سے متعلق کہا کہ عدت میں نکاح کیا ہے، قرآن کی روح سے یہ ناجائز اور حرامکاری ہے۔ پھر دوہفتے بعد اس کی پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔ یہ ایک ڈاکٹر عامر لیاقت نہیں بلکہ لنڈے بازار میں ایسے نام نہادصحافیوں، سیاستدانوں اور علماء کی کوئی کمی نہیں ہے۔میڈیا چینلوں پر انکی بھرمار رہتی ہے۔
منظور پشتین پر الزامات کی بوچھاڑ نے منظور پشتین کی اچھی شہرت کو چار چاند لگادئیے کیونکہ عوام کو معلوم ہوگیا کہ گلی کے معروف کتوں کا انکے پیچھے پڑ جانا اچھائی کی علامت ہے ۔ علی محمدخان ، عمران خان، ڈاکٹر عامر لیاقت ، سمیع ابراہیم، شیخ رشید کی طرح بہت سے لوگ وہ ہیں جن سے کہا جائے کہ تمام قومی اسمبلی اور ارکان سینٹ نے مغالطہ سے ختم نبوت کیخلاف سازش کی ہے مگر مارشل لاء لگ چکا ہے اور تمہیں چھوڑ کر سارے صحافی اور سیاستدانوں کو پھانسی دینے کا فیصلہ ہوا ہے تو یہ لوگ کھدڑوں کے کپڑوں میں ناچ گانے کی محفلیں بھی سجائیں گے ،خوشی کی شادیانے بجائیں گے کہ رسول اللہﷺ کی ختم نبوت پر ہماری جان بھی قربان ہے لیکن اگر ان سے یہ کہہ دیا جائے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا والد کٹر قادیانی تھا اور فوج نے سلامی دینے کا فیصلہ کیا ہے تو یہ بے غیرت کہیں گے کہ ’’ اب قبر پر کھڑے ہوکر ہم سلام بھی پیش کرینگے۔ اسکے قبر کی مٹی خاکِ شفاء ہے جس نے ایک آرمی چیف کو جنم دیا ہے‘‘۔ عمران خان کی بیگم جمائماخان کی طرح کوئی خاتون اسلام قبول کرکے اسلام چھوڑ دیتی یا غیرمسلم آشناؤں سے آشنائیاں کرتی تو بہت سے ٹی وی چینل غیرت اور اسلام کا جذبہ ابھارنے میں عوام کو مشتعل کرتے۔ نوازشریف کی بھی خواہش تھی کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے بعد جب اسکے ختنے کی تصویر نکالی گئی تو ختنہ نہ ہوتا تاکہ اس کوہندو ثابت کیا جاتا۔ انگریزوں کے کتے نہلانے کی الزام تراشی تو نوازشریف نے کی ہے۔
نوازشریف بھی بڑا ڈھیٹ انسان ہے۔ 70سال کی عمر میں نظریاتی بھی ایسا بن گیا ہے کہ پارٹی صدارت کیلئے مریم نوازکے بجائے ایک مہرے شہبازشریف کا انتخاب کیا ہے اور ماروی میمن کو جاتے جاتے بھی وزارت تھمادی، مشاہد حسین کو آتے ہی سینٹر بنادیا گیا اور چوہدری نثار سے ناراض ہوکر بھی اس کی سب باتیں مان لیں۔ پرویز مشرف کو طعنہ دیا گیا کہ بیماری کے بہانے عدالت میں نہیں آتا لیکن اپنے بچوں اور اسحاق ڈار کو باہر رکھا ہوا ہے۔ جب نوازشریف اور شہباز شریف کی گرفتاری کا وقت آئے تو اپنی ماں کو اسٹینڈ بائی رکھا ہوا ہے۔ پھر حسن اور حسین نواز کی طرح دونوں نواز اور شہباز اپنی ماں کی تیمارداری کا فریضہ انجام دیں گے۔ پاکستان بھی کیا خوب ملک ہے ، قانون بنانے اور قانوں کے محافظ ہی قانون شکنی کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ باقی پر بھی کوئی افتاد نہیں پڑی ہے۔ چیف جسٹس کی جائے پاخانہ کو بھی کوئی کاٹ ڈالے تو بیس سال تک اس کو سزا نہیں ہوسکتی ہے اور بیس سال بعد شواہد ڈھیلے ہوجاتے ہیں اور شک کا فائدہ ملزم کو جاتا ہے اور باعزت بری ہوجاتا ہے۔پھر عدلیہ معذرت خواہ ہوتی ہے۔
منظور پشتین کے بارے میں بتایا گیا کہ جانوروں کے ڈاکٹر کی تعلیمی ڈگری اسکے پاس ہے۔ اگر چہ ہمارے معاشرے میں جانوروں ہی کی پوزیشن ہے بلکہ جانوروں سے بھی بدتر ہیں ۔ اللہ نے فرمایا کہ ھم کالانعام بل ھم اضل ’’ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ زیادہ بدتر ہیں‘‘۔بچیوں کیساتھ زیادتی کے بعد قتل کا معاملہ اور بے گناہوں کیساتھ بہت بڑی زیادتیاں ، ریاست اور دہشتگردوں کی کاروائیوں کے علاوہ معاشرتی برائیاں ظلم وستم کی انتہاء ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس جابرانہ نظام سے ایک بہترین انقلاب کے ذریعے سب عوام کی جان چھڑائے۔ معاشرتی اصلاحات کا بڑا کارنامہ اس قوم میں انقلاب کا ذریعہ بنے گا۔ منظور پشتین کے پاس وکالت کی ڈگری ہوتی یا کسی وکیل ساتھی سے مشورہ کرتے تو پاکستان کے قانونی پہلو زیادہ بہتر سمجھ سکتے تھے۔ ویسے یہ جنگ قانون کی جنگ نہیں اخلاقیات کا بھی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ جب کسی قوم کا اخلاقی معیار گر جاتا ہے تو قانون کی حیثیت نہیں رہتی۔
کانیگرم جنوبی وزیرستان میں ڈیڑھ سوسال پہلے ہزارہ برادری والوں کو ماردیا گیا تھا۔ انکے خاندان کے باقیات ایک دو بچے ماؤں کے پیٹ میں زندہ بچ سکے تھے۔ کوئٹہ کی ہزارہ برداری سے تعلق رکھنے والے آج اپنا رونا رورہے ہیں۔ 150 سال قبل کو نسی طالبان گردی اور فوجی وردی تھی؟۔ ہزار سال قبل یعقوب بن اسحاق کندی معروف سائنسدان گزرے ہیں۔ جو ہارون الرشید اور مامون الرشید کے زمانے میں تھے۔ طب میں دواؤں کی مقدار کا تعین انہی کا مرہون منت ہے۔ دنیا ان کو بڑا مسلم سائنسدان مانتی ہے اور انکی کتابوں سے تراجم کئے گئے ۔ ایک بدخشانی نے اس کو بے دین سمجھ کر قتل کرنا چاہا اور ان کو پتہ چل گیا ۔ چاہتا تو خود قتل یا گرفتار کرادیتا لیکن اپنے پاس بلایا اور حقائق سمجھائے کہ سائنس اسلام کے خلاف نہیں ۔ پھر بدخشانی نے یعقوب کندی سے سائنس کے میدان میں استفادہ کیا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حضرت عمرؓ کو دہشت گرد نے شہید کیا اور حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ بھی دہشت گردوں کے ہاتھوں ہی شہید ہوئے تھے۔ ہر بات کو فوجی وردی کے کھاتے میں ڈالنا کہاں کا انصاف ہے؟۔ کانیگرم جنوبی وزیرستان میں بارودی بم رکھ کر بے گناہ لوگوں کو بہت پہلے معذور کیا گیا۔ شہر کے پانی کے ٹینک میں زہر ڈالا گیا تھا۔ مکین شہر میں کوئی آواز لگاتا تھا کہ 2ہزار روپے کے بدلے مجھ سے کوئی قتل کروائے۔ طالبان کی آمد سے پہلے بھی بد امنی ، شرانگیزی اور دہشت گردی ہوتی تھی اور اس کی تمام ذمہ داری ہمارے معاشرتی نظام پر تھی۔
سام سرائے کانیگرم سے ایک پک اپ اغوا ہوئی، غریب علاؤ الدین نے اغوا کاروں کی مزاحمت کرنا چاہی کہ یہ ہماری بے عزتی ہے کہ وزیر قبائل کی پک اپ ہمارے سرائے سے کوئی لے جائے۔ پھرکئی افراد کے ساتھ اپنی پک اپ میں رپورٹ درج کرنے لدھا گیا۔ رات 11بجے سام سرائے میں گاڑی کھڑی کی ۔ پھر کانیگرم کے قبائلی عمائدین نے چوری وارداتوں پر قسم اٹھانے کیلئے اس واقعہ میں ملوث ہونے کا علاؤ الدین پر الزام لگایا۔ ڈکیت وزیر کی پک اپ کو مخالف جانب لے گئے ۔ دعویٰ یہ کیا گیا کہ ڈکیتوں کیساتھ کالے کلر کی پک اپ والے کی سرِ راہ ملاقات ہوگئی اور علاؤ الدین کی پک اپ کا رنگ بھی کالا ہے۔ علاؤ الدین نے کہا کہ میرے چالیس گواہ ہیں ، اغوا کار مخالف جانب گئے اور میں دوسری جانب رپوٹ کے کیلئے گیا۔ میرے بھائی پیر نثار نے کہا کہ اس کو قسم پر مجبور کرنا غلط ہے اس کے پاس گواہ بھی ہیں ۔ عمائدین نے کہا کہ دوسروں کیلئے راہ کو ہموار کرنا ہے۔ پھر جن کیلئے راہ ہموار کرنی تھی انہوں نے قسم بھی نہیں اٹھائی۔ پھر علاؤ الدین کے بھائی عبد الرشید نے چور رات کی تاریکی میں پکڑ لیا اور مسجد کی لاؤڈ اسپیکر پر اقرار کروایا ۔ مگر چور کا کچھ نہیں بگاڑا گیا۔ علاؤ الدین اور رشید کے گھر وں کو مسمار کیا گیا اور انکے سامان کو قومی لشکر نے لوٹ لیا۔ ان مظالم کو سامنے رکھا جائے اور پھر غریب طبقے کی طرف سے طالبان کی شکل میں انتقامی کاروائی پر غور کیا جائے ۔ وردی والوں پر کوئی بات ڈالنے سے پہلے اپنے گریبانوں میں جھانکا جائے۔
جب وزیرستان ، ٹانک اور ملک بھر میں طالبان کاروائیاں کررہے تھے تو ہم میزبانی کرتے تھے لیکن جب طالبان نے ہم پر حملہ کرکے 13افراد شہید کردئیے تو ہمیں طالبان برے لگے۔ میرا بس چلے تو اپنی قوم ، ریاست، ملک کی عوام اور دنیا سے کہہ دوں کہ جو ہمارے ساتھ ہوا ، اگر اس پر معاف کردو تو یہ تمہاری مہربانی ہے۔ اگر پھر بھی ہمارا جرم معاف نہیں ہوتا تو جو سزا دینا چاہو ہم حاضر ہیں۔ اگر معافی مل جائے تو ہم ان سب کو معاف کردیں جو اس واقعہ میں ملوث تھے۔ پھر قوم سے بھی اپیل کریں کہ معافی تلافی کریں اور جو معاف نہیں کرنا چاہتا تو وہ نشاندہی کرے ، میں اسکی قیادت کرونگا۔ قوم کو مصیبت سے چھٹکارا دلانے کا یہ واحد راستہ ہے۔ماتمی جلوس کوئی حل نہیں۔

پھر بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لیجانے کی ایک ترکیب

imam-abu-hanifa-ghazali-mufti-abdul-rauf-sakharvi-sir-agha-khan-sood-interest-mark-up-intercourse-fatawa-e-aalamgiriya
امام ابوحنیفہؒ پر نیکوکار علماء دین ، صوفیاء اور محدثین نے اصحاب الرائے کے امام اور گمراہی کا فتویٰ لگایا لیکن آپؒ نے جس بات کو ٹھیک سمجھا اس پر قائم رہے۔ احادیث صحیحہ کو قرآن کے خلاف سمجھا تو تردید سے دریغ نہ کیا اور اعلان کردیا کہ ’’حدیث صحیح ثابت ہو تو وہی میرا مذہب ہے‘‘۔ افسوس کہ ’’زاغوں کے تصرف میں ہے شاہیں کا نشیمن‘‘۔ حضرت عمرؓ نے حدیث قر طاس پر قرآن کو ترجیح دی ۔ شیعہ اپنے امام کی غیبتِ کبریٰ کے ہزار سال بعد اجتہادی قوت سے محروم ہیں۔ قرآن میں اولی الامر سے اختلاف کا جواز ہے ،صحابہ کرامؓ نے نبیﷺ سے بھی اولی الامر کی حیثیت سے اختلاف کیا۔ رئیس المنافقین کا جنازہ، بدری قیدیوں پر فدیہ اور صلح حدیبیہ میں رسول اللہ کا لفظ کاٹنے پر اختلاف نمایاں مثالیں ہیں۔ شیعہ امامیہ امام سے اختلاف کو جائز نہیں سمجھتے اور تین،ساڑھے تین سو سال بعد امام اوجھل ہوا تو اجتہاد کی گنجائش پیدا ہوئی حالانکہ اجتہاداولی الامر کے امور ہیں ، حضرت سلیمان ؑ نے حضرت داؤد ؑ سے اختلاف کیا۔ جس کو قرآن و حدیث میں واضح طور پر بیان کیا گیا اور اس اختلاف گمراہی نہیں بلکہ بڑی ہدایت قرار دیا۔
ابوحنیفہؒ نے قرآن کیمطابق نکاح سے زیادہ مباشرت کو حرمت مصاہرت قرار دیا ودخلتم بھن وان لم تکونوا دخلتم بھن’’اور اگر تم نے نکاح کے بعد انکی ماؤں میں ڈالا، اگر نہ ڈالا توتمہارے لئے ربائب جائز ہیں‘‘۔ امام ابوحنیفہؒ نے اس قرآنی آیت اور انسانی فطرت کے مطابق صرف عقدِ نکاح نہیں بلکہ متعہ والی ،لونڈی اور ہر طرح کی مباشرت والی کو ناجائز قرار دیا تھا۔ اصولِ فقہ میں کم عقل طبقے جو منطق وریاضی سے نابلد تھے نے نکاح اور ہاتھ لگانے کی غلط تشریح کرکے بات کو کہاں سے کہاں پہنچادیا ؟، اس پر اہل علم بہت پریشان ہیں اور فقہ واصول فقہ سے نکالنا چاہتے ہیں۔جبکہ امام غزالیؒ نے عبداللہ بن مبارکؒ کے معتبر حوالہ سے لکھا کہ ’’ امام ابویوسف نے بادشاہ سے معاوضہ لیکر اس کیلئے باپ کی وہ لونڈی جائز قرار دینے کا حیلہ تراش لیاجسکے ساتھ اسکے باپ نے مباشرت کی تھی‘‘۔ یہ پہلاباقاعدہ شیخ الاسلام تھا جسکا یہ کردار تھا۔ سرکاری مرغوں نے ہر دور میں اس طرح کے حیلے تراشے ہیں۔ فتاوی عالمگیر یہ میں ہے کہ بادشاہ قتل ، چوری ، زنا اور جس طرح کے حدود پامال کرے اس پر حد کو جاری نہیں کیا جاسکتا، اسلئے کہ’’ وہ ٹینشن لیتا نہیں دیتا ہے‘‘۔ زیادہ دور جانے کی بات نہیں جامعہ دارالعلوم کراچی کورنگی کے شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے شادی بیاہ کی رسم لفافہ لینے دینے کی رقم کو سود قرار دیا ، اس کا بہنوئی مفتی عبدالرؤف سکھروی اپنی تقریروں اور تحریروں میں اس رسم کونہ صرف سود کہتا ہے بلکہ 72 گناہوں میں سب سے کم تر گناہ اپنی سے زنا کے برابر قرار دیتا ہے۔ دوسری طرف پورے پاکستان میں یہ واحد دیوبندی طبقہ ہے جو اسلاف و اخلاف سے منحرف ہوکر سود کا کاروبار حیلہ سے اسلامی قرار دیتا ہے۔ عوام کے وہ لفافے جو جزاء الاحسان الا احسان کے زمرے میں آتے ہیں۔جن میں سود کا شائبہ نہیں اور نبیﷺ کا وہ عمل جس میں سود کا شائبہ تک نہ تھا ۔ فلاتمنن فتکثر ’’ اور اسلئے احسان نہ فرما کہ زیادہ اچھا بدلہ ملے گا‘‘۔ کو سود قرار دینا بھی بڑا افسوسناک ہے۔ چونکہ بھلائی کرنے پر اچھے ثمرات مرتب ہونے کی امید ہوتی ہے لیکن نبیﷺ کو ہجرت تک کرنے کی ضرورت پڑگئی ، اللہ نے فرمایا کہ ’’ہم تمہیں آزمائیں گے۔ کچھ خوف سے،کچھ اموال اور جانوں کی کمی سے اور کچھ ثمرات کی کمی سے‘‘ مال میں میوے بھی شامل ہیں ۔ ثمرات سے مراد نتائج ہیں۔ ایک طرف حرمتِ مصاہرت کے وہ عجیب مسائل جن کو دیکھ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے اور دوسری طرف باپ کی لونڈی کو معاوضہ لیکر جائز قرار دینے کی مہم، ایک طرف نبیﷺ اور عوام پر بلاوجہ سود کمانے کے فتوے اور دوسری طرف سودی بینکاری کے جواز کے فتوے؟۔
ایک طرف قرآن وسنت میں ایگریمنٹ یا متعہ کے جواز کے دلائل کو تسلیم نہ کرنا اور دوسری طرف زنا بالجبر کیلئے گواہی کی شرط پر اصرار۔ علامہ اقبالؒ نے اپنا کہا تھا کہ ’’مجموعہ اضداد ہے اقبال نہیں ہے‘‘ لیکن مجموعہ اضداد قرآن وسنت کے خلاف سازش اور حیلے کی بھرمار کرنے والے تیس مار خان ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر نبیﷺ ابوسفیان کی بیگم ہندؓ کو لونڈی بنانے کا حکم دیتے تو درست تھا لیکن غلط تھا کہ ’’نبیﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر متعہ یا زنا کی اجازت دیدی‘‘۔ اسلئے کہ خیبر کے موقع پر متعہ اور پالتو گدھے کی حرمت نازل ہوچکی تھی۔ مفتی محمدتقی عثمانی نے کراچی اور حیدر آباد کے کوؤں کوجائز قرار دیا، سودی رقم کوزکوٰۃ کی کٹوتی کے نام پر جائز قرار دیا اور سودی بینکاری کو اسلامی قرار دیا۔ نبیﷺ پر سود ی خواہش کی تہمت لگادی اور عوام کو ماں سے زنا کے گناہ کا مرتکب قرار دیا ہے۔
حضرت عمرؓ نے عورت کے حق اور جان خلاصی کیلئے فیصلہ دیا کہ ’’ایک ساتھ تین طلاق پر بھی شوہر رجوع نہیں کرسکتا ہے‘‘۔ قرآن میں واضح ہے کہ اصلاح کی شرط پرہی شوہر عدت میں رجوع کرسکتا ہے۔ تنازعہ کی حالت میں حضرت عمرؓ نے درست فیصلہ کیا تھا۔ حضرت علیؓ نے بھی اپنی رائے اور فتویٰ کو واضح کیا تھا ۔ قرآن کی آیات میں بھی کوئی ابہام نہیں تھا۔ بعد میں مسئلہ پیدا ہوا کہ عورت کو اکٹھی تین طلاقیں دی جائیں تو تین شمار ہوں گی یا ایک؟۔ حالانکہ اصل معاملہ یہ تھا کہ شوہر نے رجوع کرلیا تو رجوع معتبر ہوگا یا نہیں؟۔ اگر قرآن کے مطابق جواب دیا جاتا کہ اصلاح سے رجوع ہوسکتا ہے ورنہ نہیں تو بات ختم ہوتی لیکن بات سے بھتنگڑ بنانے کے شوق میں مسائل درمسائل اور اختلافات در اختلافات بنائے گئے۔
حضرت عمرؓ کے دور میں ایسے واقعات ہوئے کہ کسی نے متعہ کرلیا اور بچے کی پیدائش کے بعد نسب سے انکار کردیا۔ بچیوں سے زیادتی کرلی اور اس کو متعہ کے نام سے جواز بخش دیا، اسلئے حضرت عمرؓ نے اس پرسختی سے پابندی لگادی۔حضرت عمرؓ کے اقدام کی ولالت اور مخالفت کرنے والوں نے مبالغہ آرائی سے کام لیا تھا اور آج پوری اُمت قرآن وسنت سے دوری کے نتائج بھگت رہی ہے۔ سعودیہ کی حکومت نے پہلے مسیار کے نام پر متعہ کو جواز بخشا اور اب یورپ کی آزادی سے بھی استفادہ کرنے کی بھرپور طریقے سے ٹھان لی ہے۔ افراط وتفریط کا شکار طبقہ قرآن وسنت کو پہنچانے میں ڈنڈی مارتا ہے تو اسکے یہی نتائج نکلنے تھے۔
علماء وارث الانبیاء ہیں۔ انبیاء درہم دینار نہیں علم کی وراثت چھوڑتے ہیں۔ علماء چندہ کے وقف کو وراثت بناتے ہیں۔دارالعلوم کراچی وقف ہے ، مفتی اعظم مفتی شفیعؒ نے محنت مزدوری یا باپ دادا کی وراثت سے حاصل نہیں کیا۔ وقف ٹرسٹ کی ملکیت ہے۔ خلافت راشدہ میں خاندانی بنیاد پر قبضے کا تصور نہ تھا۔ یزید کا بیٹا معاویہ تخت چھوڑ گیا۔سر آغا خان خود کو آغا خانیوں کا روحانی باپ سمجھ کر کہے کہ مریدنی بیٹی ہے نکاح نہیں ہوسکتا،حالانکہ نبیﷺ نے نکاح کیاتوام المؤمنینؓؓ کا درجہ مل گیا۔ آغاخان ہسپتال ، یونیورسٹی وغیرہ ٹرسٹ کی ملکیت ہیں سرآغا خان کی نہیں البتہ جماعت خانے ذاتی ملکیت ہیں۔ ہم نے مدارس اور اداروں کوبھی جماعت خانوں کی طرح ذاتی ملکیت بنادیا۔انا للہ واناالیہ راجعون۔ عتیق گیلانی

انفرادی ،اجتماعی اور ذہنی غلامی کا خاتمہ اور بڑی آزادی

mental-slavery-freedom-saudi-ulma-scholars-tripple-talaq-taqi-usmani-aasan-tarjuma-e-quran-taqleed-ki-shari-haisiyat-mna-qazi-fazl-ullah-londi-nikah-mutah

قرآن وسنت کی تعلیم عربی میں ہے۔ سعودی علماء نے ہٹ دھرمی یا سمجھ بوجھ سے عاری ہوکر حقائق پر توجہ نہ دی۔ تین طلاق پر رجوع کی گنجائش ختم ہونے کیلئے حنفی مکتبۂ فکر سے مدد لی، حالانکہ حنفی مسلک میں اولین ترجیح قرآن ہے ۔ جہاں بار بار باہمی صلح سے عدت میں اور عدت کی تکمیل پر رجوع کی گنجائش ہے۔ قرآن کی طرف رجوع کئے بغیر خود ساختہ منطق نے امت کا بیڑہ غرق کیاہے۔
قرآن وسنت نہ ہوتو اجتہادہے۔ اجتہادنئی شریعت نہیں قاضی یا جج کا فیصلہ ہے۔ مفتی محمدتقی عثمانی نے اپنی کتاب ’’ تقلید کی شرعی حیثیت ‘‘میں جن آیات و احادیث کی غلط تشریح کرکے حوالہ دیا تھا ، اپنے’’ آسان ترجمہ قرآن‘‘ میں اس کی نفی کردی۔ ہوسکتا ہے کہ فقہی مقالات کا تو صفحہ تبدیل کردیا اور اب مارکیٹ سے اس کتاب کو بھی غائب کردیں۔انکے جھوٹ اور منافقت کے ہمارے پاس دلائل اور ثبوت ہیں۔ ہمارا مقصد ذاتی تحقیر وتذلیل ہر گز نہیں ،بس ایک گونگے شیطان کو بولنے پر مجبور کرنا ہے، جس کا طوطی بولتا ہے۔اس کا ناطقہ بند کردیا ہے۔
جمعیت علماء اسلام کے سابق MNA قاضی فضل اللہ چھوٹا لاہور صوابی امریکہ میں ہیں، وہ کہتا ہے کہ ’’ جانور وں کے معاشرہ سے انسانوں میں آگیا ‘‘۔ مغرب و مشرق میں انسانوں اور جانوروں کا فرق کیوں ہے؟۔ ہمارے ہاں جو بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بناکر قتل کیا جارہاہے ،یہ تو جانور بھی نہیں کرتے ہیں۔ اللہ نے قرآن میں ایسے انسانی معاشرے کو جانور وں سے بھی بدتر قرار دیا ہے۔ ھم کالانعام بل ھم اضل ’’ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ وہ زیادہ بدتر ہیں ‘‘۔
قرآن وسنت میں لونڈی و آزاد عورت کیلئے نکاح و متعہ کا تصور ہے اور متعہ کیلئے متعوھن اورماملکت ایمانکم کے الفاظ ہیں۔ لونڈی سے نکاح نہ ہو تو یہ متعہ یا ملکت ایمانکم ایگریمنٹ ہے اور آزاد سے متعہ یا ایگریمنٹ ہو تو بھی اس پر ملکت ایمانکم کا اطلاق ہوتا ہے۔قرآن نے لونڈیوں و غلاموں کو ایگریمنٹ کا درجہ دیکر غلامی کا وہ تصور ختم کیا جو دورِ جاہلیت میں آل فرعون نے بنی اسرائیل کے خلاف بنایا تھا۔ شخصی غلامی کے علاوہ ملکوں اور قوموں کی غلامی کا تصور بھی موجود تھا۔ آل فرعون نے بنی اسرائیل کو من حیث القوم غلام بنایا تھا۔
مسلمانوں نے مکہ سے حبشہ اور پھر مدینہ ہجرت کی تھی۔ نبیﷺ نے حدیبیہ کا معاہدہ قریشِ مکہ سے 10 سال تک کیلئے تھا اور اس میں فریقین کی رضامندی سے توسیع کی مزید گنجائش تھی۔ اگر معاہدہ مشرک نہ توڑتے تو نبیﷺ کی حیات، ابوبکرؓ اور عمرؓ کے دور تک جاری رہتا۔ مزید توسیع کی گنجائش تھی ۔ حلیف بنوخزاعہ کیخلاف قریشِ مکہ نے بنوبکر کی حمایت سے معاہدہ کی ایک شق توڑ دی تو نبیﷺ نے اسکا بدلہ فتح مکہ کی صورت میں اتاردیا۔ تاہم کسی کو غلام یا لونڈی نہیں بنایا۔ البتہ تین دن تک متعہ کی اجازت دیدی۔ لونڈی بنانے پر دورِ جاہلیت میں عورت سے اپنا اختیار ختم ہوجاتا تھا، وہ آقا کی امۃ بن جاتی تھی اور مرد عبد بن جاتا تھا۔
دو صحابیؓ نے ایک عورت سے متعہ کی پیشکش کی۔ ایک کی چادر اور دوسرے کا چہرہ اچھا تھا۔ عورت نے خوشنماچہرے کا انتخاب کیا، تین دن تک یعنی جب تک مکہ میں رہے ، معاہدے پر کاربندرہے اور اس سے زیادہ قیام نہیں تھا اور کم کا جواز نہیں تھا۔ فتح مکہ کے بعد تو مسلمانوں نے تین دن میں جانا تھا اور پھر جس سے متعہ کیا جاتا اور وہ عورت اس کی پابند رہتی تو ایگریمنٹ کا فائدہ نہ تھا، اگر تین دن سے کم متعہ ہوتا تو وہ بے دین مشرک عورت مختلف مردوں سے متعہ کرسکتی تھی، اسلام اس کی اجازت نہ دیتا۔ ایک مرد زیادہ خواتین کیساتھ ایگریمنٹ کرے تو اس کی قرآن نے اجازت دی ہے فانکحوا ماطاب لکم من النساء مثنی و ثلاثہ و رباع وان خفتم الا تعدلوا فواحدۃ او ماملکت ایمانکم ’’پس نکاح کرو، عورتوں میں سے دودو، تین تین ، چار چار کیساتھ اور اگر تم ڈرو کہ عدل نہیں کرسکوگے تو پھر ایک یا جو تمہاری ایگریمنٹ والی ہوں‘‘۔ مگرایک عورت ایک طہروحیض میں ایک سے زیادہ مردوں کیساتھ متعہ نہیں کرسکتی ہے ورنہ تو اس کی اولاد کا بھی پتہ نہ چلے گا اور اس سے لاتعداد بیماریاں پھیلنے کا اندیشہ ہے۔
نبیﷺ نے مکہ کے مشرکین کو غلام و لونڈی نہ بنایا۔ حبشہ کیلئے یہ وصیت کی کہ ’’ جب تک وہ تعارض نہ کریں تم بھی نہ کرنا‘‘۔ کوئی اُلو کاپٹا کہے کہ نبیﷺ نے آخری خطبے میں یہ وصیت کرکے قرآن کو نہ سمجھا ۔ روئے زمین پر غلبۂ دین کیلئے مبعوث تھے ۔سب اسلام قبول کریں یا جزیہ دیں ورنہ غلام ولونڈی بنانے کا حکم ہے تو ایسے علماء ومفتیان اور مجاہدین کو اپنے مؤقف پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں جس بچی ، بچے اور خاتون کیساتھ جبری جنسی تشدد ہو تو سب کہتے ہیں کہ یہ انسان نہیں جانور سے بھی بدتر ہیں۔ ہماری ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کیلئے لونڈی کا تصور رکھا جائے تو ہمارے کیا تأثرات ہونگے؟۔ نبی ﷺ کو آخری پیغمبر اور رحمۃ للعالمین کا تصور اسلئے دیا کہ اسلام زحمت نہیں۔ مذہبی طبقے کی خود ساختہ منطق نے آج پوری دنیاکو لرزہ براندام کردیا کہ اگر وحشی درندوں سے بدتر جنت کے حوروں کی لالچ اور مغرب ومشرق ،شمال وجنوب کی ساری ماؤں ، بہنوں، بیٹیوں اور بیویوں کو لونڈیاں بنانے کے جذبے سے آگے بڑھے تو دنیا کو خوفناک اور بدترین صورتحال کا سامنا ہو گا۔ حالانکہ اسلام نے اس خلافت علی منہاج النبوۃ کا تصور دیا، جس سے آسمان اورزمین والے خوش ہونگے۔
قرآن وسنت کے عظیم احکام کو پسِ پشت ڈالنے کا نتیجہ ہے کہ دنیا ہماری بے سروسامانی، پستی کی اتاہ گہرائی اور دستِ نگر ہونیکی سوچ دل ودماغ سے نکال کر ہمیں خطرناک ترین سمجھ رہی ہے۔ روس و امریکہ براہِ راست نہیں لڑتے بلکہ مسلمانوں کو کیمیائی ہتھیاروں کا نشانہ بناکر موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں۔ افغانستان، عراق، لیبیا کے بعد اب شام میں سرد جنگ نے لے لی ۔ہم کیمیائی ہتھیاروں سے مرجانے کو خوش آئند قرار دینے سے نہیں شرماتے۔ جن بچیوں کیساتھ زیادتی کے بعد ماردیا جاتا ہے تو یہ کیمیائی ہتھیاروں سے بڑا عذاب ہے جو ہم پر مسلط ہے،یہ لونڈی بنانے سے بھی زیادہ سخت عذاب ہے اور اسکے تدارک کیلئے ہمیں معاشرتی بنیادوں پر اُٹھ کھڑا ہوناہوگا۔اسلام نے جو نظام دیا ہے وہ مسلمانوں کی کھوپڑیوں میں نہیں بلکہ قرآن وسنت میں محفوظ ہے۔ حنفی مکتبۂ فکر کا مسلک بہترین ہے مگر حنفی مکتب والے اپنا مسلک کو بھول گئے۔
قرآن وسنت نے لونڈی بنانے کا تصور ختم کیا ۔ ابوالعلاء معریٰ ہزار سال قبل لکھ دیا کہ ’’اسلام نے لونڈی بنانے کا تصور ختم کیا تھا مگر عرب فاتحین نے یورپ کی سرخ وسفید عورتوں کو دیکھا تو انہوں نے دوبارہ یہ نظام رائج کردیا‘‘۔ نکاح میں خواتین کے تمام حقوق سلب کرکے قرآن وسنت کی توہین کی جاتی ہے ۔ ابولعلاء معریٰ نے نظام سے بغاوت کرکے شادی بھی نہ کی۔ اپنی قبر کے کتبہ پر لکھوایاکہ ’’ یہ میرے باپ کا گناہ تھا، میں نے یہ گناہ نہیں کیا ‘‘۔ حقوقِ نسواں کے متعلق تمام اسلامی احکام کو قرآن میں واضح ہیں مگرمذہبی طبقہ نے انسانی حقوق کو مسخ کرکے اسلام کے تمام امورکو بالکل غیرفطری اور دنیا کیلئے ناقابلِ عمل بنایا۔

اسلام کو اجنبیت سے نکالنے کیلئے درست راہ کا انتخاب 

islam-and-strangeness-unfamiliarity-right-way-to-be-out-reform-yousuf-ludhyanvi-asar-e-hazir-book

بدء الاسلام غریبا فسیعود غریبا فطوبیٰ للغربیٰ (الحدیث)
نبیﷺ نے فرمایا: اسلام کا آغاز اجنبیت کی حالت میں ہوا، عنقریب یہ پھر اجنبی بن جائیگا، پس خوشخبری اجنبیوں کیلئے۔ قرآن نے بار بار اس بات کو دھرایا ہے کہ’’ اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کرو‘‘۔ ایک جگہ اللہ نے اولی الامر کی بھی اطاعت کا حکم دیا ہے مگر ساتھ میں یہ واضح کردیا ہے کہ’’ اگر کسی بات میں تمہارا تنازع ہوجائے تو اس کو اللہ اور اسکے رسول کی طرف لوٹادو‘‘۔ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنی کتاب’’ تقلید کی شرعی حیثیت‘‘ میں قرآنی آیات اور احادیث کا جس طرح سے حشر کیا ہے ، بقول مولانا محمدیوسف لدھیانوی شہیدؒ کے اس کی تحریف اور حقائق کو مسخ کرنے کا انداز دیکھ کر وحوش وطیور بھی الامان والحفیظ سے صدائے احتجاج بلند کررہے ہوں، مولانا یوسف لدھیانویؒ کی کتاب ’’ عصر حاضر حدیث نبوی ﷺ کے آئینہ میں‘‘ کا مقدمہ اور احادیث کی تشریحات سے مفتی تقی عثمانی کی کتاب میں انہی احادیث کا اندراج دیکھ کر موازنہ کرکے دیکھا جائے۔
امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھیؒ کی فکر قدرے بہتر تھی لیکن ایک طرف یہ کہنا کہ نبیﷺ نے عرب وعجم اور حبشی وایرانی کی تفریق ختم کردی تھی اور دوسری طرف یہ کہنا کہ قرآن میں مسئلہ قومیت کی بنیاد یہ ہے کہ جہاں ایک قوم کے افراد بستے ہوں وہاں دوسرے قوموں کی حیثیت غلاموں اور لونڈیوں کی ہے۔ بڑاغلط اور گمراہ کن ہے۔ فکر شاہ ولی اللہ تنظیم نے تاریخی اعتبار سے جس ذہنیت کی بنیاد پر اسلام کی تشریح کی ہے اس میں بڑی غلط فہمیوں کو حل کرنے کی کوشش ضرور ہے لیکن حقائق سے بہت انحراف بھی ہے۔ بارہ خلفاء سے یزید کی شخصیت کو آٹے سے بال کی طرح نکالنے کی باریک بینی ان کو بھی قبول نہ ہوگی جو دوسرے دن کے چاند کو دور بین سے بھی دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں۔ اس فکر کی خوش فہمی میں رہنے کے بجائے قرآن وسنت کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
رسول اللہﷺ نے اولی الامر کی حیثیت سے جمہوریت کی بنیاد رکھ دی تھی۔ حضرت عمرؓ نے حدیث قرطاس کی مخالفت کرتے ہوئے عرض کیا کہ ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے تو رسول اللہ ﷺ نے اپنی وصیت مسلط نہیں فرمائی تھی۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کا وصال ہوا تو خلافت کے مسئلہ پر ہنگامہ وفساد کا خطرہ تھا لیکن حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ نے انصارؓ کی جمع ہونے والی جماعت سے مذاکرہ کیا اور ہنگامی بنیاد پر حضرت ابوبکرؓ خلیفہ بن گئے۔ انصار کے سردار سعد بن عبادہؓ اتنے ناراض ہوئے کہ خلفاء راشدینؓ کے پیچھے نماز تک نہ پڑھتے۔یہ پہلا دور تھا جس سے نبیﷺ کے بعد اجنبیت کی منزل شروع ہوگئی۔ جن علاقوں میں بعض لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تھا ،ان سے قتال پر شروع میں حضرت عمرؓ بھی متفق نہ تھے لیکن پھر خلافت کو منظم کرنے کی غرض سے مجبور ہوگئے۔ مالک بن نویرہؓ نے زکوٰۃ کی فرضیت کا انکار نہ کیا بلکہ قرآن میں نبیﷺ کیلئے فرمایا کہ ’’ ان سے صدقات لو، یہ ان کیلئے تسکین کا ذریعہ ہے‘‘۔ جسکے بعد نبیﷺ نے عزیز و اقارب پر زکوٰہ کو حرام کردیا۔ مالک بن نویرہؓ اور اسکے ساتھیوں نے کہا تھا کہ ’’ ہم حجۃ الوداع میں یہ سن کر آئے ہیں کہ من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ (میں جسکا مولا ہوں یہ علی اس کا مولا ہے)۔ اگر حضرت علیؓ کی طرف سے کوئی نمائندہ آئیگا تو ہم اس کو زکوٰۃ دینگے ‘‘۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے اسے قتل کردیا اور اسکی بیوی سے زبردستی عدت کا انتظار کئے بغیر شادی رچالی۔ حضرت عمرؓ نے تجویز پیش کی کہ خالد بن ولیدؓ کو جرم کی پاداش میں سنگسار کردیتے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ کی طرف سے تنبیہ کو کافی قرار دیکر کہا گیا کہ ابھی ہمیں خالدؓ کی ضرورت ہے۔
یہ وہی خالد بن ولیدؓ تھے جنہوں نے رسول اللہﷺ کے دور میں بھی بعضوں کو بے گناہ اور بے دریغ قتل کیا تو نبیﷺ نے بدلے میں قتل نہیں کیا بلکہ فرمایا کہ ’’ اے اللہ ! گواہ رہنا ، میں خالد کے فعل سے بری ہوں ‘‘۔ فوجی مہمات کے دور میں فوجیوں سے ایسی غلطیاں سرزد ہوتی ہیں ، اگر غلطی پر سخت سزا دی گئی تو آئندہ ان میں لڑنے کی کوئی صلاحیت باقی نہیں رہے گی‘‘۔ پاک افوج تو اس دور کی پیداوار ہیں جسکا معاشرتی ، اقتصادی، مذہبی اور سیاسی نظام تباہ حال ہے۔
رسول اللہ ﷺ حضرت عمرؓ کے کہنے پرحدیثِ قرطاس سے رُکے لیکن جب حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ کیلئے مشاورت کی اور لوگوں نے کہا کہ آپ خدا کو کیا جواب دینگے کہ کتنے سخت انسان کو ہم پر مسلط کردیا ؟ مگر ابوبکرؓ نے اپنی صوابدید پر عمرؓ کو نامزد کردیا۔ اولی الامر کے تقرری پر اسلام کی اجنبیت کایہ دوسرا موڑ آیاتھا۔ حضرت عمرؓ نے متعہ، ایک ساتھ تین طلاق، حجِ تمتع اور دوسرے معاملات پر جن اقدامات کی بنیاد رکھی وہ بھی مستند کتب کا حصہ ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ حضرت عمرؓ کے زخمی ہونے کے بعد تیسرے خلیفہ سے متعلق مشاورت ہوئی تو شوریٰ کے جن ارکان کا انتخاب کیا گیا ،انہوں نے اس بات کا لحاظ رکھا کہ عثمانؓ نے ابوبکرؓ و عمرؓ کے اقدامات کو جوں کے توں عملی جامہ پہنانا تھاجبکہ علیؓ کی چاہت تھی کہ اللہ اور نبیﷺ کی پیروی کرینگے۔ اسلئے حضرت عثمانؓ تیسرے خلیفہ بن گئے۔ بخاری میں عثمانؓ اور علیؓ کا حج تمتع پر اختلاف کا ذکرہے۔اصل اختلاف کو چھوڑ کر دوسروں کے سر غلطیاں ڈالنا دانشمندی نہیں، عثمانؓ اور علیؓ کی شہادت کے علاوہ اسلام کا نظامِ حکومت جمہوریت سے خاندانی وراثت بننا کوئی کم المیہ نہیں تھا اور یہی وجہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے اسلام کے اجنبی بن جانے کی خبر سنائی تھی۔
لیپا پوتی کے ذریعے اسلام کی اجنبیت کو دور نہیں کیا جاسکتا ۔ نبیﷺ نے علیؓ کو اپنا ولی قرار دیا مگرحضرت عمرؓنے حدیث قرطاس میں یہ وصیت نہیں مانی تھی۔ وشاور ھم فی الامر؛ وامرھم شوریٰ بینھم کے تقاضے بھی عیاں تھے۔ اللہ نے صاحبزادگی کا فتنہ ختم کرنے کیلئے نبیﷺ کو مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں بنایا۔ داماد اور چچازاد کو بھی فتنہ بننے سے روک دیا۔ اموال واولاد کو اللہ نے فتنہ قرار دیا تو صدر اسلام میں اس کا راستہ بھی روک دیا۔ کھلے حقائق سے قادیانی و آغا خانی اور امامیہ شیعہ کی آنکھیں کھل سکتی ہیں۔ سیاسی ومذہبی جماعتوں، مساجد، مدارس اور خانقاہوں میں بھی نالائق جانشینوں کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ ایران کا نظام بھی حدیث قرطاس ہی کی بدولت قائم ہے۔ چوہدری نثار ن لیگ میں ناپسندیدہ بن گئے مگر اس کی مزاحمت نے مریم نواز کو جانشین بننے سے روک دیا۔ یہ تمغہ کسی نظریاتی کارکن اور رہنما کی قسمت میں ہوتا تو خلافت ونیابت راشدہ بن جاتی۔
علیؓ کا راستہ روکنا قرآن وسنت اور فطرت کے مطابق تھا۔المیہ تھاکہ ولایت کا مفہوم بگاڑا۔ اللہ نے اہل کتاب خواتین سے نکاح کی اجازت دی ابن عمرؓ نے تثلیث کے عقیدے پر مشرک قرار دیکر نکاح ناجائز قرار دیا۔ یہ منطق تعصب نہ تھا۔اللہ نے اہل کتاب کو فیصلے کا اختیار سونپ دینے سے منع کیا مگر اسکا غلط ترجمہ ہوا کہ ’’ انکو اپنا دوست نہ بناؤ‘‘۔ بیوی سے بڑھ کر دوستی کیا ؟۔ متحدہ مجلس عمل علمی انقلاب کی کوشش کرے تو ووٹ،نوٹ، دنیا اورآخرت کی سرخروئی ملے۔ رمضان میں تراویح و جہری نمازوں میں سورتوں سے قبل جہری بسم اللہ سے آغاز کریں۔

شاہ ولی اللہؒ :شاہ اسماعیل شہیدؒ :مولانا عبیداللہ سندھیؒ 

shah-waliullah-shah-ismael-shaheed-maulana-ubaid-ullah-sindhi-maulana-yousuf-binuri-mansab-e-imamat-bidat-ki-haqiqat-ahmad-raza-khan-barelvi-syed-abdul-qadir-jilani-albayyinat-haroon-rasheed-

خیر القرون قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم (الحدیث)
نبی ﷺ نے فرمایا: بہترین دور میرا ہے، پھر ساتھ والوں کا، پھر انکے ساتھ والوں کا۔ صحابہؓ، تابعینؒ اور تبع تابعین ؒ مرادلئے جاتے ہیں مگرشاہ ولی اللہؒ نے لکھا کہ ’’ نبیﷺ کے بعد ابوبکرؓ و عمرؓ کا دور تھا اورپھر حضرت عثمانؓ کا دور تھا جبکہ علیؓ کے دور پر خیر کا اطلاق نہیں ہوتا ‘‘۔یہ فکر کتابوں میں ہے۔ پھر شاہ ولی اللہؒ کے پوتے شاہ اسماعیل شہیدؒ نے لکھا کہ ’’ نبیﷺ نے تین ادوار کو خیر کہا ۔ تیسری صدی ہجری تک تقلید نہ تھا۔چوتھی صدی ہجری میں تقلید کی بدعت ایجاد ہوئی اسلئے تقلید سے امت کو چھٹکارا دلانا فرض ہے‘‘۔ مولانا یوسف بنوریؒ نے ان کی اس کتاب ’’بدعت کی حقیقت ‘‘ کے اردو ترجمہ پرتقریظ لکھ دی اور ان کی ایک اور کتاب ’’منصبِ امامت ‘‘ کی بڑی تعریف کی ۔ علماء دیوبند نے مولانا احمد رضا خان بریلویؒ کی کتاب ’’حسام الحرمین ‘‘ سے گھبراکر شاہ اسماعیل شہیدؒ کا بیانیہ مسترد کیاتھا اور مولانا یوسف بنوریؒ کے والد مولانا زکریا بنوریؒ نے کہا تھا کہ’’ ہند میں حنفی مسلک کی حفاظت کاکریڈٹ مولانا احمد رضا خان بریلویؒ کو جاتا ہے‘‘۔
شاہ ولی اللہؒ نے لکھاکہ ’’نبیﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ شیعہ عقیدۂ امامت کی وجہ سے گمراہ ہیں۔جسکا میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ انکے عقیدۂ امامت کی وجہ سے ختم نبوت کا انکار لازم آتا ہے‘‘۔ شاہ عبدالعزیزؒ نے جو کتاب ’’تحفہ اثناعشریہ‘‘ کے عنوان سے لکھ دی تھی اس سے شیعہ کیخلاف کفر کے فتوے کی راہ ہموار ہوئی ۔ سپاہ صحابہ کے قائد مولانا حق نوازجھنگوی شہیدؒ کی تقریر شائع ہوئی کہ ’’ہمارا اختلاف شیعہ سے قرآن پر نہیں ، صحابہ پر نہیں بلکہ اصل اختلاف عقیدۂ امامت پر ہے‘‘۔ شیعہ خود سمجھتے ہیں کہ عقیدۂ امامت کی وجہ سے سنی گمراہ ہیں۔ شاہ ولی اللہؒ بڑے عالم تھے، مشاہدہ کی بنیاد پرفتویٰ سے گریز کرنا چاہیے۔ صوفیاء نے مشاہدات کی بنیاد پر پتہ نہیں کس کس کو گمراہ قرار دیاتھا۔حضرت سید عبدالقادر جیلانیؒ بھی امام ابوحنیفہؒ کو گمراہ سمجھتے تھے۔ گمراہ اور کافر میں فرق ہے۔ نبیﷺ نے عقیدۂ امامت کی بنیاد پر شیعہ کو گمراہ کہا تو کفر کا فتویٰ لگانا بھی درست نہ تھا۔ یہی نتیجہ نکالتے کہ صحابہؓ اور اجماع امت سے شیعہ بدظن ہوکر گمراہ ہوگئے۔علاوہ ازیں اہلسنت کہتے ہیں کہ امام کا تقرر امت پر فرض ہے اور شیعہ کہتے ہیں کہ امام اللہ کی جانب سے ہوتا ہے۔ اگر اس میں کفر اور ختم نبوت کا مسئلہ ہے تو شاہ اسماعیل شہیدؒ نے اپنی کتاب ’’منصبِ امامت ‘‘ میں شیعہ بیانیہ کو تسلیم کیا ہے اور لگتا یہ ہے مرزا غلام احمد قادیانی بھی اسی وجہ سے ختم نبوت کا منکر بن گیااور اس میں مشاہدات کا بھی دخل تھا۔ متحدہ مجلس عمل کا سیاسی اتحاد اس وقت کامیاب ہوگا جب وہ جہالتوں کا بھی خاتمہ کرنے میں ایک اعلامیہ جاری کریگا۔ ورنہ یہ مکڑی کا جالا ثابت ہوگا۔
جب عقیدۂ امامت میں شاہ اسماعیل شہیدؒ اور شیعہ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں اور دونوں اس نتیجے پر نہیں پہنچے کہ اس کی وجہ سے ختم نبوت کا انکار کریں تو ایک علمی محفل میں سنجیدہ علماء کرام اور مفتیانِ عظام کو اکٹھا کرکے اعلامیہ بھی جاری کردیں۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کی کتاب ’’البینات کا خصوصی شیعہ نمبر‘‘ موجود ہو، جس میں سینکڑوں مدارس اور علماء کرام نے شیعہ پر تین وجوہات کی بنیاد پر کفر کا فتویٰ لگایا کہ ’’صحابہ کرامؓ کو نہیں مانتے۔قرآن کو نہیں مانتے اور عقیدۂ امامت کیوجہ سے ختم نبوت کے منکر، قادیانیوں سے بدتر کافر ہیں کیونکہ قادیانیوں صرف ختم نبوت کی آیت میں تأویل کرتے ہیں باقی ان کی نماز، زکوٰۃ اور اکابر سب کے سب ہمارے ساتھ مشترکہ ہیں‘‘۔ جب تک حقائق کا انکشاف نہ کیا جائے تب تک امت میں اتحاد واتفاق اور وحدت کی راہ ہموار نہیں ہوگی۔
شاہ ولی اللہؒ سے لیکر شاہ اسماعیل شہیدؒ اور مولانا عبیداللہ سندھیؒ تک کے نام پر کام کرنیوالوں میں اتنی صلاحیت نہیں کہ ان تضادات کو ختم کریں لیکن اہل حق کے سلسلے کا تسلسل رکھنے کے دعویدار ہیں۔ مولانا سندھیؒ نے لکھا کہ ’’ حضرت عمرؓ کے دور میں فرقِ مراتب کے لحاظ سے وظائف مقرر ہوئے،جو سرمایہ دارانہ نظام کی ابتداء تھی اور حضرت عثمانؓ کے دور میں سرمایہ دارانہ نظام نے رائج ہوگیا جس سے حضرت ابوذر غفاریؓ نے نبیﷺ سے انحراف قرار دیا اور علیحدہ ہوگئے‘‘۔ مولانا عبیداللہ سندھی ؒ کی تفسیر ’’الہام الرحمن کے مقدمہ میں ناشر نے لکھا ہے کہ ’’پہلی منزل: پہلا دور نبیﷺ وابوبکرؓ کا دور تھا جن میں حبشہ و ایران اور عرب وعجم میں امتیاز نہ تھا۔ دوسرا دور حضرت عمرؓ سے شروع ہوا، جس میں عرب قومیت کو کسی درجہ فوقیت حاصل ہوئی۔ تیسرا دور حضرت عثمانؓ سے شروع ہوا۔جس کا ابتدائی حصہ فاروقی دور کی طرح تھا مگر آخری دور قدرے اترا ہوا تھا۔ جس میں نیم عربی قومیت کا رنگ آگیا، جسے امیرشام حضرت معاویہؓ نے قانونی شکل میں منظم کردیا۔اسلام کی پہلی منزل حضرت ابوبکرؓ سے تحکیم کے فیصلے تک خلافت راشدہ کا دور ختم ہوا۔دوسری منزل: الغرض السابقین الاولین کی مثالی حکومت اور عربی قومیت (جس کی بنیاد امیر شام نے رکھی، حضرت علیؓ حضرات شیخین کے دور کے متمنی تھے۔ ۔۔۔ حضرت عمرؓ کی شہادت سے عجمیوں پر عربوں کا اعتماد اُٹھ چکا تھا اور اسلام کے اصل دشمن بدطینت یہودی اپنی تخریب کاریوں کا آغاز حضرت عثمانؓ کے آخری دور سے کرچکے تھے اسلئے حضرت امیرمعاویہؓ نے عربوں کا قومی مسئلہ بناکر اسلام کی اجتماعیت کو مستحکم کردیا۔ جبکہ حضرت علیؓ اولی العزمی کیساتھ آخری وقت تک ڈٹے رہے۔ آل علی کا بھی بعد میں یہی رحجان رہا۔ اسلئے ان کو عربوں کے بجائے ہمیشہ غیر عرب مدد گار ملے۔ آخر میں جب ایرانیوں میں قومی شعور بیدار ہو ا ،اور اسلام کو بھی انہوں نے قومی رنگ دیدیا تو اسلام کی ایسی تعبیر کی جس میں عربیت کا اثر کم سے کم تھا بلکہ ایک حد تک عربوں سے متنفر کا جذبہ موجود تھا۔ شیعیت اسلام کی ایرانی تعبیر ہے۔ حضرت معاویہؓ نے جس قومی حکومت کی بنیاد ڈالی ،اس کا انتہائی عروج ولید بن عبدالملک کی سلطنت میں تھا اور خلیفہ ہارون الرشید پر عربوں کی سیادت کا دور ختم ہوتاہے ۔یہاں اسلام کی بین الاقوامی دوسری منزل ختم ہوتی ہے۔تیسری منزل: ہارون الرشید کی خلافت کے بعد زوالِ بغداد تک عجمی قومیں عباسی خلافت کے زیر سایہ برسر اقتدار آتی ہیں۔ یہ بنی عباس کا دور ہے جس کی بنیاد حضرت علیؓ نے ڈالی تھی۔ یہاں اسلام کے تیسرے بین الاقوامی انقلاب کی منزل ختم ہوتی ہے۔ گویا ہارون الرشید تک بارہ خلفا ختم ہوتے ہیں۔ابوبکرؓ ، عمرؓ، عثمانؓ، علیؓکی خلافت راشدہ اور معاویہؓ، عبدالملک، ولید، سلیمان ،ہشام، منصور، مہدی، ہارون الرشید 8خلفا کی حکومت بین الاقوامی نہیں قومی تھی مگر اپنا تفوق جتانے کے باوجودماتحت قوموں کو راضی رکھا اور بغاوت نہ ہوئی۔ زوال بغداد پر عربی قومیت کے دورکا خاتمہ ہوا،خلافت عثمانیہ سے عجمی قومیت کی چوتھی منزل کا آغاز ہوا۔ مصطفی کمال اتاترک کے انقلاب کے بعد خلافت عثمانیہ کا بھی ہوا‘‘۔
بارہ خلفاء قریش کا ذکر ہے جن پر امت کا اجماع ہوگا۔ شیعہ سمجھتے ہیں کہ بارہ خلفاء میں ایک باقی ہیں جبکہ سنی شیعہ کا اتفاق ہوگا کہ یہ بارہ خلفاء آئندہ آئیں ۔