اگست 2017 - Page 2 of 2 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

مذہبی سیاسی اسلامی منشور ایک ایسی تحریک کی بنیاد بن سکتا ہے…..

siyasi-mazhabi-jamat-ka-manshoor-maulana-fazlur-rahman-imam-abu-hanifa-imam-malik-imam-shafai-imam-hanbal-halala-teen-talaq-triple-talaq-syed-atiq-ur-rehman-gailani

مذہبی سیاسی اسلامی منشور ایک ایسی تحریک کی بنیاد بن سکتا ہے جس کی تاثیر سے بنگلے والے اور جھونپڑی والے برابر برابر اپنے معاشرتی اور معاشی مسائل قرآن و سنت کے عین مطابق حل کریں جو آنے والے الیکشن میں نئے چہروں کے ساتھ نہ صرف پاکستان اور اسلامی دنیا بلکہ مشرق، مغرب، شمال، جنوب تک ایسی تبدیلی کا پیش خیمہ ہو جس سے اہل آسمان و زمین خوش ہوں۔

جسٹس کھوسہ نے ٹھیک کہا کہ قانون گدھا ہوتاہے مگر جج گدھا نہ بنے، بشیر نور

justice-khosa-remarks-supreme-court-aitzaz-ahsan-kulsoom-nawaz-panama-leaks-case-hawa-kharij-hona-election-commission-of-pakistan

جسٹس کھوسہ کے اس فیصلے پر ن لیگ نے مٹھائیاں بھی بانٹیں تھیں۔ جن چینلوں اور صحافیوں نے نوازشریف کی وکالت کا ٹھیکہ اٹھا رکھاہے ان کی ساری محنت کا محور روزی روٹی حلال کرنے کے گرد گھومتی ہے۔ عورت ایک ماں، بہن، بیوی، بیٹی اور تمام رشتوں کے علاوہ کوئی رشتہ نہ بھی ہو تو بہت ہی قابلِ احترام ہوتی ہے۔ وہ جس کنڈیشن میں بھی ہو مرد کیلئے اس کو نگاہِ بد سے دیکھنے کا کوئی واز نہیں ہے اور اس کو خود بھی اپنے ناگفتہ بہ لباس کے باوجود یہ حق پہنچتاہے کہ کوئی نظر گاڑھ کر دیکھے تو اس کو برا لگے مگر جب دعوتِ گناہ اس کا پیشہ بن جائے تووہ عزت کھو دیتی ہے، وکالت کا پیشہ ہی ایسا ہے کہ سلمان راجہ اور اعتزاز احسن جیسے قابلِ احترام شخصیات بھی نواز شریف کے کیس میں90 کے زوایے سے گھوم جاتے ہیں، سیاست میں پارٹی بدلنے پر بھی ایسا ہوتاہے جن کا صحافی لطف اٹھاتے ہیں مگر صحافیوں کا پیشہ بالکل جداہے۔ انہیں یہ اجازت نہیں کہ جانبداری کریں۔ گدھے کو جعلی ڈگری مل سکتی ہے ، پیسوں کے زور پر گدھا منتخب ہوسکتا ہے۔وزیراعظم بن کر گدھا عدالت سے کہے کہ مجھے تم نااہل نہیں کر سکتے تو یہ ڈھینچو ڈھینچو سے ججوں کو ڈرانا ہوگا۔ عدالت نااہل قرار دے اور وہ زور دار ہوا خارج کرکے کہے کہ میرے ساتھ زیادتی ہے تو گدھا آخر گدھا ہی ہوتا ہے، قرآن نے کس کی مثال گدھے سے دی جس نے کتابیں لاد رکھی ہوں۔ الیکشن کے فارم میں نواز شریف نے تین زیرکفالت افراد کا ذکر کیا۔ کلثوم ، مریم،وہ خود۔ کیاالیکشن کمیشن میں پوچھنے کی اہلیت نہیں کہ کوئی اپنے زیرکفالت کیسے ؟۔ مریم کنواری نہیں بال بچے دار تھی۔ بچی کی شادی بھی وہیں ہوئی ۔ بھٹوسے لیکر گیلانی تک ہر وزیراعظم کی نااہلی پر بنگڑے ڈالنے والا شرم وحیاء رکھتا تو یہ نہ کہتا کہ پہلے نظریاتی نہ تھاجب جونیجو کا ساتھ نہ دیا اور جنرل ضیاء کی برسیوں پربھٹو کو انگریز کے کتے نہلانے کا کہتا۔
پنجاب کا بھنگی طالبان کی حالت دیکھنے کابل گیا۔ دیکھا دیکھی نماز پڑھنے مسجد پہنچا۔ رکوع میں زور دار ہوا خارج کردی۔ لوگ ہنس ہنس کر مسجد سے بھاگے۔ بھنگی نے امام سے پوچھا کہ وضو ٹوٹ گیا؟ امام نے کہا کہ ہاں!۔ اس نے کہا کہ ہوا بہت کم نکلی ہے۔ امام نے کہا کہ جاؤبابا وضو تمہارا ٹوٹ گیا ، اس نے بار بار اصرار کیا کہ کیا وضو ٹوٹ گیا ہے حالانکہ نہیں ٹوٹنا چاہیے۔ کچھ ٹی وی چینل، کچھ صحافی، کچھ وکیل اور کچھ مولانا بھی فنی نکات تلاش کررہے تھے کہ کسی طرح امام صاحب اپنی رائے بدلے، بے وضو نماز کے صحیح ہونے کا فتویٰ دے مگرامام اقرارجرم اور دھماکے کی آوازکوکیسے نظراندازکرتا؟۔
جیومیں حامد میر رجل رشید نکلا، جس نے اعتراف کیا کہ عدالت عظمیٰ نے پہلی مرتبہ خلاف توقع ٹھیک فیصلہ دیا ۔ اگر عدالت کو ڈرانے سے ججوں کو اکسانے کا کام نوازشریف نہ کرتاتو روایت برقرار رہنے کا خطرہ بدستور موجود تھا۔ محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن نے نوازشریف کو نااہل کروایا مگر جیو کا کردار بھی کم نہ تھا۔پانامہ نے پاجامہ اتارا، دو ججوں نے نااہل کرکے چڈا اتارا۔ پھر جی آئی ٹی نے پیمپر اتارا لیکن جیو مسلسل چیخ رہا تھا کہ سبحان اللہ مشک وعنبر اور گلاب و چنبیلی کی خوشیو سے سارا وطن معطر ہورہاہے۔خلق خدا کو تعفن و بدبو کا سامناتھا۔ جج اپنے منہ پر کالک ملتے یا نواز شریف کے منہ پر ۔ جے آئی ٹی کے ارکان پر ن لیگ نے اتناغصہ اتار دیا کہ ججوں کواتفاقِ رائے سے وزیراعظم کے منہ پر ہی کالک ملنی پڑی۔ کس منہ سے نظر ثانی کی اپیل میں جارہے ہیں؟ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔ وسعت اللہ خان نے فیصلہ آنے سے پہلے اچھا لطیفہ سنادیاکہ میراثی جاگیردار کے پاس گیاتومہمان میراثی اپنی اوقات سمجھ کر نیچے زمین پر بیٹھ گیا، جاگیردار نے اوپر بیٹھا دیا ۔میراثی نے کچھ پیسے کمالئے تھے، بیٹے کو بھی تعلیم دلائی تھی، جاگیردار نے کہا کہ کیسے آنا ہوا؟۔ میراثی نے کہا کہ زمانہ بدل گیا، رشتوں کا معیار بھی بدلا ہے، میرا بیٹا لکھا پڑاہے اگر اپنی بیٹی کا رشتہ دیدو۔ جاگیردار نے اپنے آدمیوں سے اس بات پر خوب پٹھائی لگوادی۔ پھر میراثی اپنی پگڑی اور دھوتی شوتی سنبھال کر جب گھر سے باہر نکلا تو واپس آکر کہنے لگا کہ کیا میں رشتے کا انکار سمجھ لوں؟۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ وزیراعظم کو کوئی نکال نہیں سکتا، اب کہا جاتا ہے کہ کوئی روک نہیں سکتا۔ بادی النظر میں ن لیگی رہنما بہت خوش ہیں۔ 90کی دہائی سے 25سال ہوگئے ہیں کہ لندن کے عالیشان فلیٹوں کا حساب مانگا جارہاہے مگراصلی کاغذات تک نہیں دکھا رہے ہیں، میڈیا پر تسلسل کیساتھ متضاد جھوٹ بولا گیا، پارلیمنٹ میں جھوٹ کا پلندہ تحریری شکل میں نوازشریف نے سنانا شروع کردیا تواس دوران خواجہ سعد رفیق بہت غصہ دکھائی دے رہا تھا، حالانکہ خوش ہونا چاہیے تھا کہ ثبوت دیا جارہاہے مگرخواجہ صاحب کو پتہ تھا کہ یہ ثبوت نہیں بھوت ہے۔ حقائق کے منافی تقریر کادفاع میڈیا میں بڑا مشکل ہوگا، عدالت میں ناممکن ہوگا۔ جے آئی ٹی کے ارکان کو اسلئے قصائی کہا جارہاتھا کہ قربانی کا چھرا صاف دکھائی دے رہاتھا۔ فوج کے سربراہ بھی دھیمے مزاج کے انتہائی شریف النفس جنرل قمر باجوہ، آئی ایس آئی کا چیف بھی شکوک وشبہات سے بالکل مبرا، سپریم کورٹ کاچیف جسٹس بھی کسی سازش کا حصہ نہیں ہوسکتے۔ اپنی اکثریت والی حکومت، عالمی قوتوں سے بھی اچھے مراسم، احتجاجی تحریک کا بھی گلوبٹوں سے مقابلہ مشکل نہ تھا، میڈیا چینل بھی بھرپور ساتھی اورمشہور اینکر پرسن بھی اپنی شہرت کی بلندیاں اپنی جان نچاور کررہے تھے مگر ایسا لگتا تھا کہ جیسے کامران، مجیب الرحمن شامی، شاہ زیب خانزادہ کتے بلے بن کر مری ہوئی بھینس کے تھنوں سے لگے چوس چوس کر عوام کو دھوکہ دیتے ہوں کہ ماشاء اللہ کیا دودھ کی نہریں ہیں، حالانکہ صحافی کا کام وکالت کرنا نہیں ہوتا ۔ جیو کے محمد جنید کے پروگرام میں عدالت کے متفقہ فیصلے پر جواب میں حامد میر نے کہا کہ حکومت کو پہلے سے پتہ تھا کہ اس کو نااہل ہونا ہے مگر سیاسی بیانات دے رہی تھی کہ ہم نااہل نہیں ہونگے، تو جنید نے ہاتھ کو اس انداز سے دکھایا کہ جیسے حامد میرنے جیو کا سار گیم خراب کردیا ہو۔ مولانا فضل الرحمن کی دلیل مثالی ہوا کرتی تھی مگر اب یہ کہنے سے بھی نہیں شرمایا کہ ’’ نوازشریف نے بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ نہیں لی اسلئے نااہل قرار دیا، اگر تنخواہ لے لیتے تو نااہل نہ ہوتے‘‘۔ حالانکہ عدالت نے کہا ’’کہ مقدمہ یہ تھا کہ خاندان کے اثاثے مشترکہ ہیںیہ ثبوت ہے باپ بیٹے کا ملازم نہیں، تنخواہ کا حساب کتاب نہیں، جو ڈھونڈرہے تھے وہ سراغ مل گیا‘‘۔ لندن فلیٹ کیا رحمن ملک کی عزت افزائی اور نیب کو سچا ثابت کرنے کیلئے 2006ء میں خرید لئے؟۔اصغر خان کیس 1990ء میں آئی ایس آئی سے پیسے لئے۔ پھر حکومت بناکر کرپشن کی ، کرپشن کی وجہ سے حکومت کا خاتمہ ہوا۔ شکرہے کہ یہ نہ کہاکہ کون شریف؟، کون حسن ، کون حسین، کون مریم، کون کلثوم؟… عدالت نے وہی کیا جو نوازشریف کو پرویز مشرف نے سعودیہ بھیجاتھااسلئے ن لیگ خوش اور شرمندہ ہے، عدالتی کاروائی نے بہتوں کی صلاحیت اور ضمیر سے پردہ اٹھا دیاہے۔ بشیر نور :سعودی عرب

مذہبی سیاسی جماعت کے منشور کا یہ عارضی خاکہ دیکھ لیں! مشاورت سے ترتیب وتدوین ہوگی۔

zina-bil-jabr-in-islam-gustakh-e-rasool-ki-saza-hatake-izzat-sangsar-karna-maulana-muhammad-khan-sherani
1: آزاد منش کہتے ہیں کہ مذہبی طبقہ خواتین کو گھروں میں محصور کرنے کے درپے ہے حالانکہ اسلام کے بنیادی مرکز خانہ کعبہ اور مدینہ منورہ میں دنیا بھر کی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ حج اور عمرے کا فریضہ انجام دیتی ہیں۔ دنیا کے کسی دوسرے مذہب کی خواتین ہی نہیں خود آزاد منش خواتین میں یہ ہمت نہیں کہ حجر اسود کو چومنے کیلئے ایسی بھیڑ میں نامحرم مردوں کیساتھ ہڈی پسلی ایک کرنے کی ہمت کریں جہاں کمزور اعصاب کے مرد جانے کی ہمت نہیں رکھتے وہاں یہ اعزاز حاصل کرلیں، جو فرض ہے نہ واجب بلکہ جان لیوا بھیڑ ہو توسنت بھی نہیں اور غیرمحرموں کے دبوچنے کے اس ماحول میں مستحب و مستحسن بھی کجا بلکہ شریعت وفطرت اور انسانیت کے بھی منافی ہے لیکن مجال ہے کہ مذہبی طبقہ اپنی خواتین کو اس شوق سے روکیں یا مذہبی قیادت کچھ منہ کھولے۔ اگر مخلص نمازی ہوں تو بیت اللہ کی طرح ہر مسجد کا ماحول مشترکہ فیملی مرکز بن سکتاہے، جس میں پانچوں اوقات میں محلہ کے مرد، لڑکے، بچے ،خواتین، لڑکیاں اور بچیاں شرکت کا اہتمام کرکے ایک نئی دنیا میں ایسے داخل ہوسکتے ہیں کہ نماز اجتماعی ماحول کو فحاشی و منکرات سے بچانے کا ذریعہ بھی بنے گا۔ فقہ کی کتابوں میں صف بندی کے لحاظ سے امام کے پیچھے مردوں، لڑکوں، بچوں ، بچیوں، لڑکیوں اور آخر میں خواتین کی ترتیب کا ذکر ہے۔ 1400 سال پہلے ام المؤمنین حضرت عائشہؓ نے لشکر کی قیادت کی تھی اور حضرت زینبؓ نے کربلاء کے واقعہ پر شہداء کی تحریک کو زندہ رکھا تھا۔ غزوات میں صحابیاتؓ نے زخمیوں کی مرہم پٹی کی خدمت اور پانی لانے کا فریضہ انجام دیا تھا۔ اسلام نے روشن خیالی میں دنیا کو بہت پہلے بہت پیچھے چھوڑ دیا مگر امیرالمؤمنین یزید سے لیکر امیرالمؤمنین نواز شریف تک جب حکمرانوں نے اسلام کو اقتدار کیلئے استعمال کیا تو ہر آنے والا دن پہلے سے زیادہ تاریک تر بنتا چلا گیا۔ اس میں اسلام کا قصور نہیں بلکہ اسلام کو غلط استعمال کرنے والے حکمرانوں اور ان کے حواریوں کے سیاہ کرتوت کا کرشمہ ہے۔ اب طالبان شریف اور طالبان خان کے علاوہ پاکستان میں اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگانے والوں اور انکے چیلے چپاٹوں کا کرداربھی سامنے ہے۔
2: پنچایت نے ریپ کے بدلے ریپ اور ریپ کے بدلے شادی کے فیصلوں سے ہیجان پیدا کردیا ۔ طالبان نے تشدد کا راستہ اختیار کیاتو قوم کی حمایت سے وہ محروم ہوگئے۔ جرگہ و پنچایت کا نظام اسلئے رائج ہورہاہے کہ تھانہ و پولیس ، سیاست وقیادت، پاکستان کی شرعی اور عام عدالتوں کا انصاف وہ بازو ہیں جو سب نے آزمائے ہوئے ہیں۔ ملزم طاقتور ہو اور مظلوم کے پاس کوئی ثبوت نہ ہو تو وہ عدالت کی فیس، لوئر کورٹ ، سیشن کورٹ، ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ جانے تک اچھا خاصہ پیسہ اور وقت ضائع کرکے بھی کچھ انصاف نہیں پاتا بلکہ ہرجانہ اور ہتک عزت کے دعوے پر جرمانہ بھرنا پڑتا ہے، یا معافی مانگنی پڑتی ہے۔ شرعی عدالتوں میں زنابالجبر پر بھی چار گواہ پیش نہ کرنے پر قید اور کوڑوں کی سزا دی جاتی ہے۔ تو پنچایت کے ذریعے غریب معاشرے نے اپنا راستہ نکال لیا ہے۔
اسلام کی تلاش میں ملک خداداد بنایا گیا لیکن کیا پاکستان خواتین ، غریب و بے بس، مظلوم ولاچار اور مجبور ومعذور معاشرے کو انصاف دینے کی صلاحیت بھی رکھتاہے یا نہیں؟، بس اس کا کام یہ ہے مذہبی سیاسی جماعتوں کو ووٹ دو اوروہ ایوانوں میں پہنچ کر اپنا اُلو سید ھا کریں؟۔ خالص مذہبی جماعتوں میں جان، مال اور وقت لگاکر اپنے کام سے کام رکھو اور مدارس ومساجد کو چندے دو، جب طلاق کا مسئلہ آئے تو قرآن وسنت کو بھی توڑ مروڑ کر پیش کریں اور تفریق و حلالے کا فتویٰ دے کر جان عذاب میں ڈالیں۔ پنچایت پر تو کوئی آواز اٹھانے کی جرأت کرلیتاہے، معاشرہ قہر الٰہی سے ڈرتا ہے ، چیف جسٹس نوٹس لیتاہے ، تھانہ بھی حرکت میں آتاہے ،وزیراعلیٰ شہبازشریف بھی سرپر ہاتھ پھیرنے کی برکات سے نوازتا ہے اور میڈیا بھی زبردست کوریج دیتا ہے لیکن حلالہ پر عزت بھی لٹ جاتی ہے، ملامت اور لعنت کی برسات بھی ہوتی ہے اور زندگی بھر اس گناہِ بے لذت کی لذت کا سرٹیفکیٹ مل جاتاہے۔ یہ طبقہ اقتدار میں آیا تو پھر معاشرے کا کیا حشر نشر ہوگا؟۔ عوامی شکایات درست ہیں اور ایک ایک طاقتور کو لگام دینے میں مشکل نہیں ہوگی۔ بنی امیہ کے یزید نے خاندانی قبضہ کرکے اسلام کا حق ادا نہیں بلکہ بنی امیہ، بنی عباس اور خلافت عثمانیہ کے خاندانوں نے سلطنت مغلیہ اور حکمرانوں کے حواری نواب، خان ، ملا اور پیروں کے خانوادوں نے بھی اسلام کو اپنے اپنے مفادات کیلئے استعمال کیا جیسے موجودہ دور کی پارٹیاں کررہی ہیں۔ مسجد، مدرسہ، خانقاہ، درگاہ اور مذہبی وسیاسی جماعتوں کو عوام کے چندوں اور طاقت سے بنایا جاتاہے اور پھر اس پر مافیاز قبضہ کرلیتی ہیں۔ مسجد کی کمیٹیاں بھی حق کی آواز کیلئے نہیں حق دبانے کیلئے استعمال کی جاتی ہیں جو خردبرد میں بھی ملوث ہوتی ہیں۔ موجودہ دور میں یہ ممکن ہوگیا ہے کہ کسی بھی ٹرسٹ پر خاندانی قبضہ ختم کیا جائے۔ مالیاتی نظام کی تفصیل انٹرنیٹ کے ذریعے کھلے عام رکھی جائے جس کی تفتیش اور چیک اینڈ بیلنس کیلئے ایک نظام بھی تشکیل دیا جائے۔ غریبوں کے نام پر غریبوں کا حق صدقات، خیرات، زکوٰۃ، فطرہ اور عطیات سے لوگ امیر سے امیر بنتے جارہے ہیں۔باکردار لوگوں کے اٹھنے سے تمام فلاحی اور مذہبی اداروں کو عوام کی فلاح وبہبود کیلئے متحرک اور باوقاربنایا جاسکتاہے۔
حضرت عمرؓ نے حلالہ پر حد جاری کرنے کی بات فرمائی۔ رسول ﷺنے محرم عورت ماں، بہن، بیٹی وغیرہ سے نکاح کرنے پر قتل کا حکم دیا۔ علماء نے محرم سے نکاح پر شبہ سے حد کو رفع کرنے کا راستہ رکھا اور دوسری طرف قتل کی بات رکھی تاکہ کسی غریب کو محرم کے نکاح کے جھوٹے الزام میں قتل کیا جائے تو بھی اس پر باز پرس نہ ہو اور طاقتور کیلئے محرم سے نکاح پر سزا سے بچنے کا راستہ ہو۔ مولانا فضل الرحمن کو پوچھا جائے ، فتاویٰ عالمگیریہ پانچ سو معتبر علماء نے مرتب کیا جن میں حضرت شاہ ولی اللہؒ کے والد بھی تھے، جس میں بادشاہ کیلئے قتل، چوری، زنا، ڈاکہ پر کوئی سزا نہیں ہوسکتی ہے
3 : اللہ تعالیٰ نے خواتین کو جنسی ہراساں کرنے کے حوالہ سے مؤمنات خواتین کو حکم دیا کہ ایسا لباس وپوشاک زیبِ تن کریں تاکہ پہچانی جائیں کہ وہ فالتو نہیں اور ضرر سے بچ جائیں۔ یہ لوگ مدینہ میں نہ رہیں گے مگر کم عرصہ۔ پہلے بھی اللہ کی سنت رہی ہے کہ حق کا غلبہ ہونے کے بعد اینما ثقفوا فقتلوا تقتیلاً ’’جہاں پائے گئے ان کا تعاقب کرکے قتل کیا گیا‘‘۔ زنا بالجبر اور جنسی ہراساں کرنے کو اللہ نے فسادفی الارض قرار دیا ۔ جماعت اسلامی اور علماء کے بے غیرت رہنما اس آیت کی کھلی وضاحت کے باوجود خواتین سے جبری زنا کو بھی فساد فی الارض میں شامل کرنے کے بجائے رسالت مآب ﷺ کو اذیت دینے پر اس آیت کو فٹ کرتے ہیں۔ حالانکہ رسول ﷺ کو اذیت دینے کا اس سے پہلے والے رکوع میں ذکر ہے اور اس آیت کااس اذیت سے تعلق نہیں ۔ طاقتور طبقے ہی خواتین کو اذیت دینے اور زنابالجبر میں ملوث ہوتے ہیں اور مذہبی طبقے طاقتور وں کے زرخرید غلام ہوتے ہیں۔ غریب کی بجائے طاقتوروں کے ذریعہ اقتدار تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ جماعت اسلامی بھی غریب کارکنوں کو اپنے لئے بوجھ اور مالداروں کواپنا اثاثہ سمجھتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک خاتون شکایت لیکر آئی کہ اسکے ساتھ جبری زنا ہوا ہے۔ نبیﷺ نے فوراً مجرم کو پکڑنے اور سنگسار کرنے کا حکم دیا۔ وہ پکڑا گیا اور سنگساری کے حکم پر عمل بھی ہوا۔ مولوی کہتے ہیں کہ نبیﷺ کوئی قانون دان نہیں تھے، عورت کیساتھ جبری زنا ہو تب بھی چارمرد عادل گواہ لازم ہیں۔ آج کل ڈی این اے سے سو فیصد مجرم کے جرم کا یقین بھی ہوجاتا ہے مگر اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین مولانامحمد خان شیرانی نے کونسل کی سفارش میڈیا کو بتائی کہ’’ ڈی این اے کو بطورِ شہادت استعمال نہیں کیا جاسکتامگر معاون قرار دیا جاسکتا ہے‘‘۔ حالانکہ قرآن وسنت کی زنا بالجبر میں بغیر گواہی قتل کی سزا ہے اور ڈی این اے اس کی توثیق ہے۔
جب غیرت، انسانیت، فطرت اورقرآن وسنت کیمطابق زنا بالجبر کیلئے قتل اور جنسی ہراساں کرنے کی سخت سے سخت سزا دی جائے گی تو دنیا میں خواتین اسلام کی چھتری کے نیچے آجائیں گی اور غیرتمند مرد بھی اسی کی حمایت کریں گے۔ ابلیس کی مجلس شوریٰ کے عنوان سے علامہ اقبال ؒ نے کہا تھا کہ دنیا میں شیطانی نظام کو خطرہ مزدوکیت، جمہوریت اور بادشاہت سے نہیں بلکہ اسلام سے ہے جس کا آئین آشکار ہوجائے کہ حافظِ ناموسِ زن ہے اور مرد آزما مرد آفریں ہے تو پھر مکڑی کے جالے سے انسانیت کی آنکھوں کو دھوکہ نہیں دیا جا سکے گا۔ علماء اور جماعتِ اسلامی اپنی صلاحیتوں کو ضائع کرنے کے بجائے بروئے کار لائیں اور اسلام کے ٹھیکدار بن کر نہیں خادم بن کر نبیﷺ کے دین کو عوم تک پہنچانے کا بھرپور حق ادا کریں توچند دنوں میں انقلاب آسکتاہے۔
4: عدالتوں میں ہتک عزت کا دعویٰ ہوتاہے تو پہلے ہزاروں، لاکھوں اور کروڑوں کی قیمت میں ہوتا تھا۔ اب اربوں میں بھی ہورہاہے۔اسلام میں مال ودولت، رتبہ ومقام اور بڑی وچھوٹی حیثیت کی بنیاد پر ہتک عزت کی قیمت نہیں لگتی، بلکہ سب کی عزت برابرہے اور عورت پر بہتان کی سزا80کوڑے ہیں۔ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ پر بہتان لگایا گیا تو بہتان لگانے والوں کو80،80کوڑے لگائے گئے۔ ایک غریب عورت پر بھی کوئی بہتان لگائے تو اس کی سزا 80 کوڑے ہیں۔ انسانی عزتوں میں رتبہ ومقام کے لحاظ سے بہت فرق ہوتاہے لیکن جرم کے لحاظ سے غریب کی عزت کو بالکل بھی کم تصور نہیں کیا گیا اور اللہ کو انسانی رحجانات اور مفادات کا پتہ تھا کہ غریب اور لاچارکو دنیا میں انصاف نہیں مل سکے گا ،اسلئے بہتان و زنا کی سزا میں برابری کا قانون جاری کیا۔ مگرآج بھی مرد وں کیلئے الگ معیار ہے اور خواتین کیلئے الگ معیار ہے۔ غریبوں کیلئے الگ معیار ہے اور امیروں کیلئے الگ معیار ہے۔ عورت شادی شدہ ، غیرشادی شدہ ہو، ماں ہو، بہن ہو، بیٹی ہو یا بیوی ہو اس کو غیرت کے نام پر قتل کیا جاتاہے۔ مرد شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ، بھائی ہو، باپ ہو، بیٹا ہو یا شوہر مگر کوئی قتل نہیں کرتا۔ یہ ددہرا معیار اللہ اور رسولﷺ کیلئے قبول نہیں اور نہ انسانیت اور دنیا کیلئے۔ بیوی کو رنگے ہاتھوں کسی غیر کیساتھ دیکھنے کے بعد بھی اس کو قتل کرنے کی اجازت نہیں ۔ سیکولر اور ملحد بھی اس غیرت پر سمجھوتہ نہیں کرتالیکن اسلام نے 1400 سال پہلے جو لعان کا قانون نافذ کیا تھا ، اس کی نظیر دینے سے آج بھی دنیا قاصر ہے۔قرآن نے عورت کو کھلی فحاشی پر گھر سے نکلنے اور نکالنے کی اجازت دی مگر تشدد اور قتل کی نہیں۔ سورۂ طلاق میں بھی اس کی وضاحت ہے۔امام ابوحنیفہؒ نے زنا کی سزا کیلئے مرد و عورت کا چارمرتبہ اقرارِجرم برابر قرار دیا ، باقی تین امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ نے مرد کیلئے چار مرتبہ اقرارِ جرم لازم مگر عورت کیلئے ایک مرتبہ اقرار جرم کافی قرار دیا۔ صحابہؓ اپنے اوپر اقرارِ جرم سے حد نافذ کرکے دنیا کو ایمان کی صداقت کا یقین دلاتے تھے اور اب خود کش کے ذریعے دوسروں کو نقصان پہنچاکر اسلام کو دہشت گرد ی کا منبع قرار دیا جاتا ہے۔ تبلیغی جماعت، دعوتِ اسلامی ، جماعتِ اسلامی، جمعیت علماء اسلام ، مدارس کے علماء اور خانقاہی نظام والوں نے اسلام کے نام پر قربانیوں سے زیادہ مفادات حاصل کئے اگر پاکستان شریعت کورٹ میں کچھ لوگوں کو خود پر شرعی سزاؤں کیلئے پیش کردیا جائے تو دنیا میں مذہبی طبقے کا نام روشن ہوجائیگااور بدکردار لوگ لبادے کاتحفظ اوڑھ کر بھی درونِ خانہ ذلت کا احسا س رکھیں گے۔ مذہب کو کاروبار کی بجائے فرض کا درجہ حاصل ہونا چاہیے۔
5: زنابالجبر، خواتین کوہراساں کرنے اور بچوں کیساتھ زیادتی کرنے پر مذہبی طبقے کا رویہ اور فقہ کی کتابوں میں لکھے ہوئے مسائل اس قابل نہیں کہ ان پر قانون سازی کیلئے کام کیا جائے۔ جو قرآن وسنت کے واضح احکام کے بالکل منافی ہیں ۔ مرد اور عورت کیلئے قرآن میں زنا کی سزا 100 کوڑے ہیں۔ جبکہ دو مرد کیلئے برائی پر اذیت دینے کا حکم ہے اور توبہ کرنے پر معافی ہے۔ اذیت کیلئے اس پردیوار گرانے،اس کو پہاڑ سے گرانے اور جلانے کے حوالہ سے بہت باتیں ہیں۔ اذیت کی سزا کا مقصد قرآن میں قتل کرنا نہیں بلکہ جرم روکنا ہے۔ جو قومِ لوط ؑ کے عمل کے رسیا ہوں ، درست علاج بھی ان کو اذیت دینے کے برابر ہے۔ طالبان رہنما نیٹو کی آمد کے بعد دنیا بھر سے میڈیا پر ظاہر ہوئے ،اگر اپنے چندا فراد کو علاج کیلئے بھی مغربی ممالک بھیج دیتے تو دنیا پر زبردست اثرات مرتب ہوتے، شوکت خانم کی طرح ایک اعلیٰ معیار کا ہسپتال ان لوگوں کے علاج کیلئے بنتا۔ زناکی سزا 100 کوڑوں کیلئے اقرارِ جرم یا چار گواہوں کی گواہی ضروری ہے۔ قرآن میں سنگسار کرنے کا حکم نہیں۔ ایک طرف محفوظ قرآن ہے اور دوسری طرف تحریف شدہ توراۃ ہے۔ قرآن کی آیت میں شادی شدہ اور غیرشادی شدہ کی سزا میں کوئی فرق نہیں ۔ توراۃ میں بھی صرف اور صرف بوڑھے مرد اور بوڑھی عورت کے بارے میں ہے جس میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کی کوئی تفریق نہیں ۔ الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فرجموھما ۔۔۔ ’’ بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت جب زنا کریں تو دونوں کو رجم کرو‘‘۔جب تک سورۂ نور کی آیات نازل نہیں ہوئی تو پہلے اہل کتاب کے احکام کے مطابق عمل کیا جاتاتھا اور سورۂ نور کی آیات نازل ہوئیں تو کسی کو سنگسار نہیں کیاگیا۔ حضرت عمرؓ اللہ کے احکام میں سب سے زیادہ سخت تھے۔ اپنے بیٹے کو شرعی گواہ نہ ہونے کے باوجود زنا کا پتہ چلنے پر کوڑوں سے اتنا سخت مارا کہ وہ قتل ہوا۔ حضرت مغیرہ ابن شعبہؓ پر چار گواہوں نے گواہی دی تو اس کو سنگساری سے بچانے کیلئے پوری کوشش کی، ایک کی گواہی ناکافی قرار دیکر باقی تین افراد کو80،80کوڑے لگانا گوارا کیا مگر سنگساری کی غیر فطری سزا سے بچانے میں کردار ادا کیا ۔ یوں حضرت عمرؓ کے ہاتھوں سے سنگساری کی وہ سزا دفن ہوئی جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہ تھا۔ حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ ’’اگر میرے پاس دنیا کااقتدارہو تو سارے مذاہب والوں کو ان ہی کی کتابوں کے مطابق سزا دوں گا۔ اگر مسلمان پر گواہی کا معاملہ آتا تو حضرت علیؓ نے سنگسار کرنے کے بجائے گواہی اور اقرار پر قرآن کے مطابق 100کوڑوں کی سزا نافذ کرنی تھی۔ اگر یہودی رعایا پر زنا کی حد جاری کرنے کی ضرورت پڑتی تو بوڑھے بوڑھی پر سنگساری کا حکم جاری ہوتا اور دنیا میں یہ سمجھا جاتا کہ مسلمان سب سے زیادہ عادل حکمران ہیں۔ خلفاء راشدینؓ کی نیک نیتی پر کوئی بھی شبہ نہ کرتا لیکن وحی کی رہنمائی سے وہ محروم تھے اسلئے حضرت علیؓ اپنے تئیں عدل قائم بھی کرلیتے تو سنگساری کی سزا انسانیت پر کسی نہ کسی شکل میں باقی رہتی ۔ حضرت علیؓ کو مستحکم اقتدار کا موقع نہیں مل سکا اور اللہ تعالیٰ نے حکمتِ بالغہ سے انسانیت کی حفاظت فرمائی۔
اگر حضرت عمرؓ کے دل ودماغ میں حضرت مغیرہ ابن شعبہؓ کیلئے قرآن کے مطابق 100 کوڑوں کی سزا ہوتی تو ان کو بچانے کیلئے باقی تین افراد کو 80،80کوڑے نہ لگائے جاتے۔ اس کاروائی نے حدود کے نفاذ کا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دروازہ بند کردیا۔جس طرح شیطان کیلئے رجیم کا لفظ لعنت کے معنیٰ میں استعمال ہواہے۔ اسی طرح بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت کوڑوں کی سزا سے قتل بھی ہوسکتے تھے تو ان پر خالی لعنت ملامت کے الفاظ کافی قرار دئیے گئے ہیں، جس طرح لعان میں بھی قرآن کے الفاظ میں لعنت ہی ہوتی ہے۔ سزا سے بچاؤ کی قائم مقام لعن طعن ہوسکتی ہے۔ حضرت عمرؓ کے بیٹے کو شدید ضربوں سے قتل کرنے کے بعد شرعی حدود کی یقیناًمعاشرے میں نفاذ کی حوصلہ افزائی نہیں حوصلہ شکنی ہوئی ہوگی۔ پرویزمشرف نے زنابالجبر کو شرعی حد سے نکال کرتعزیر میں شامل کرنے کی کوشش اسلئے کی کہ مجرموں کو تحفظ ملتا تھا، جس پر مفتی تقی عثمانی نے انتہائی غلط قلم اٹھایا۔
قرآن میں شادی شدہ لونڈی کی سزا عام خواتین کے مقابلہ میں آدھی ہے اور اس میں بھی یہ فرمایا گیاہے کہ مشکل میں پڑنے سے ڈرنے کا خوف نہ ہو تو معاف کرنا بہتر ہے۔ لونڈی کمزور ہوتی ہے تو اس کی سزا میں آدھی تخفیف کے بعد مزید عفوودرگزر سے کام لینے کا حکم دیا گیاہے اور اسلام کا کمزور کو انصاف فراہم کرنے کے علاوہ یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ شادی شدہ کیلئے سنگساری کی سزا نہیں ہے، کیونکہ وہ آدھی نہیں ہوسکتی ہے۔ کنواری لونڈی کی بات نہیں شادی شدہ کی وضاحت ہے۔ 100 کوڑے کے مقابلہ میں 50کوڑے آدھی سزا ہے۔ قرآن میں امہات المؤمنینؓ سے زیادہ محترم کون ہوسکتی ہیں؟۔ اللہ نے فرمایا کہ اگر وہ کسی کھلی فحاشی کا ارتکاب کریں تو دوھری سزا کا حکم ہے۔ 100 کے مقابلہ میں200 دوھری سزا ہے لیکن سنگساری میں دوھری سزانہیں ہوسکتی۔
6:جب جرم کی سزا فطرت کے مطابق ہوگی تو بہت سے لوگ اپنے جرائم کو چھپانے کی غلطی پر اصرار کرنے کے بجائے اقرار کرکے آخرت میں سرخرو ہونا چاہیں گے۔زنا پر گواہی قائم ہوجائے تو اللہ نے فرمایا کہ ’’اس پر دل میں رحم مت کھاؤ، مؤمنوں کے ایک گروہ کی موجودگی میں اس پر100 کوڑے کی حد جاری کردو‘‘۔ یہ سزا مردوں اور خواتین کیلئے یکساں ہے۔ یہ سزا معاشرے میں جرم کو ختم کردے گی۔ اللہ تعالیٰ نے لونڈی کی سزا کے حوالے سے فرمایاہے کہ گزشتہ قوموں میں بھی یہی تھی۔ پھر اللہ نے یہ بھی وضاحت فرمائی کہ ان کو اپنی جانوں کے قتل اور جلاوطنی کی سزا بھی اللہ نے نہیں دی تھی، یہ ان کے خود ساختہ قوانین تھے۔ شادی شدہ کو قتل سے روکنے کیلئے لعان کا قانون کتنا عظیم ہے؟۔ جو بے غیرت قرآن کی آیت پر عمل کرنے میں لعان کی لعن طعن کو بے غیرتی سمجھتے تھے ان کو حلالہ کی بدترین لعنت میں بے غیرتی پر عمل کرنے میں کوئی مسئلہ نظر نہیں آتا۔ نبیﷺ خواتین سے بیعت لیتے وقت بدکاری نہ کرنے اور بہتان نہ لگانے وغیرہ کا عہد لیتے تھے۔ عورت بہتان لگاتی ہے تو مرد سے زیادہ خود اس کو نقصان پہنچتاہے۔ہتک عزت کی سزا خاتون پر بہتان لگانے کی ہے۔ مرد پر بھی بہتان لگانا بہت براہے لیکن قرآن میں پاکدامن خواتین پربہتان کی سزاواضح ہے اور اس پر عمل درآمد ہو، غریب و امیر، رتبہ ومقام والی اور نچلے درجہ سے تعلق رکھنے والی سب کیلئے یہ ایک ہی سزا80 کوڑے ہوں تو معاشرے میں عدل ومساوات کی زبردست فضاء قائم ہوگی۔
7: بہت سی شرعی اصطلاحات جس میں خلع، طلاق، عورت پر گھریلو تشدد، حلالہ ، عورت کیلئے معاشی میدان میں شانہ بشانہ چلنے کی اجازت وغیرہ کی قرآن وسنت کے واضح ہدایات سے ہمارے چودہ طبق کی تاریکیاں دور ہوسکتی ہیں۔ سورۂ النساء آیت19 میں پہلے عورت کو خلع کا حق دیا گیاہے اورآیت20میں مرد کو طلاق کا حق دیا گیاہے۔ مالی حقوق میں خواتین کی رعایت بالکل واضح ہے۔ شوہر پر حق مہر اورگھر کے خرچہ کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے اور اسی وجہ سے فضیلت بھی حاصل ہے لیکن یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ عورت کے کمانے پر کوئی پابندی ہے۔ حضرت خدیجہؓ کی معاشی اور تجارتی سرگرمی سے شروع ہونے والی اسلامی تحریک میں خواتین کی کمائی پر کیسے پابندی لگ سکتی ہے؟۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے صحابہؓ کے دور میں حضرت ابوبکرؓ نے خلیفہ بننے کے بعد بھی تجارت کرنا چاہی تو مسلمانوں نے ایک معقول وظیفہ مقرر کردیا۔ زوجہ محترمہؓ نے تھوڑا تھوڑا بچاکر میٹھابنانے کا اہتمام کیا تو حضرت ابوبکرؓ نے وہ لیکر غرباء میں تقسیم کردیا اور بیت المال سے اتنا وظیفہ کم کردیا۔ اگر حضرت ابوبکرؓ کی زوجہؓ خود سلائی وغیرہ کرکے یہ کام کرتیں تو حضرت ابوبکرؓ بھی پیش کرنے پر خوشی سے کھاتے، حضرت فاطمہؓ نے ہاتھ سے کمایا تو حضرت علیؓ نے ان کی اجازت سے وہ کھانا بھکاری کو دیا تھا۔

مذہبی سیاسی جماعت کے منشور کی ضرورت کیوں ہے؟ پہلے ایک مختصر سا جائزہ لینا مناسب ہے ۔

siyasi-mazhabi-jamat-ka-manshoor-maulana-fazlur-rahman-imam-abu-hanifa-imam-malik-imam-shafai-imam-hanbal-halala-teen-talaq-triple-talaq
پاکستان میں مذہبی و سیاسی جماعتیں ایک ہی طرح کے ملتے جلتے منشور صرف رجسٹریشن کیلئے بناتی ہیں، عوام تو بہت دور کی بات ہے جماعتوں کے قائدین اور بڑے رہنما بھی اس سے واقف نہیں ہوتے۔ برسرا قتدار آنے کے بعد منشور زیرِ بحث نہیں آتا۔ ایسے منشور کا خاکہ تیار کرنا ضروری ہے کہ اقتدار سے پہلے بھی عوام اور پسے ہوئے طبقات تک اس کا فائدہ پہنچے اور اقتدار میں آنے کے بعد اس پر عمل نہ ہو تو عوام کے اندر شعور بیدار ہوکہ یہ جماعت امین ہے نہ صادق بلکہ منافق ،اسلئے دوبارہ وہ عوام کی طرف سے ووٹ لینے کا رخ کرنے پر زندہ وتابندہ نہیں بلکہ شرمندہ رہے۔
قرآن کی آیات یا اس کا ترجمہ حوالہ جات کیساتھ ایک نصاب کی طرح پوری قوم کو سمجھانے کی ضرورت ہے ۔محرم رشتوں کی وضاحت ہے کہ ’’ ان کیساتھ نکاح مت کرو جنکے ساتھ تمہارے آباء نے نکاح کیا ہے مگر جو پہلے گزر چکا۔ تم پر تمہاری مائیں حرام ہیں اور بیٹی، بہن، بھائی وبہن کی بیٹی، خالہ، پھوپی، دودھ پلانے والی ماں،وہ سوتیلی بیٹی جو تمہارے گھر میں پلی بڑھی جس کی ماں میں تم نے ڈالا ہے ، اگر اسکی ماں میں نہیں ڈالاہے تو تمہارے لئے جائز ہے۔ تمہارے بیٹے کی بیوی اور یہ کہ دوبہنوں کو جمع کرو اور عورتوں میں سے محصنات مگر جن کے معاہدے کے تم مالک بن جاؤ‘‘۔
چوتھے پارے کا آخر میں پانچویں پارے کے ابتدائی جملے تک محرمات ایک فہرست ہے ،ان کا سمجھنا سمجھانا ہرمسلمان مرد عورت پر فرض ہے۔ محرمات کا معلوم نہ ہونا بڑی جہالت ہے۔ عام طور پر ان پڑھ لوگ بھی محرمات جانتے ہیں۔ یہ دورِ جاہلیت کی بات تھی کہ باپ کی لونڈی اور سوتیلی ماں سے بھی نکاح کیا جاتا تھا ،بڑی بات تھی کہ اللہ نے پہلے کے معاملے سے درگزر کی وضاحت کردی۔ حقیقی بیٹے کی بیوی کو بھی محرم قرار دیا۔ منہ بولے بیٹے کی سورۂ احزاب میں بھرپور وضاحت ہے کہ وہ حقیقی بیٹے کی طرح نہیں ہوسکتے۔ اتنی وضاحتوں کے باوجود مولانا آزاد جمیل نے سماء ٹی وی پر 15 رمضان المبارک کو افطار کے پروگرام میں کہا کہ ’’ بہو کی سسر سے شادی ہوسکتی ہے۔ تفصیل سے اس پربات بھی ہوئی‘‘۔ پروگرام سحری کے نشرِ مقرر میں بھی چلا۔ مولانا آزادجمیل آخری سحری تک’’ بول ٹی وی ‘‘ پر جلوہ افروز رہے۔ تعجب صرف مولانا آزاد جمیل کی جہالت پر نہیں تھا بلکہ سید بلال قطب اور ساتھ میں بیٹھے ہوئے شیعہ علامہ پر بھی تھا کہ انہوں نے بھی فوری طور سے لقمہ نہیں دیا کہ قرآن وسنت، فطرت وانسانیت اور عقل وفہم کیخلاف کیا بکواس کررہے ہو؟۔ اسلامی اسکالروں اور علامہ کہلانے والوں کی جہالت کا یہ عالم ہو تو عام تعلیم یافتہ اور ان پڑھوں میں کتنی جہالت ہوگی؟۔
یااہل الکتاب لا تغلوا فی دینکم ’’ اے اہل کتاب ! اپنے دین میں غلو مت کرو‘‘۔اللہ کا یہ حکم مان لیتے اور دین میں ہم اہل کتاب کی طرح غلو افراط وتفریط میں مبتلاء نہ ہوتے تو یہ دن دیکھنے نہ پڑتے۔ میں جب جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کا طالب علم تھا تو ترجمہ پڑھانے والے استاذ مفتی محمدولی خانؒ نے بتایا کہ ’’ خواتین فتویٰ پوچھنے آتی ہیں کہ داماد سے ناجائز تعلق کے بعد بیٹی کا داماد سے رشتہ قائم رہتاہے؟‘‘۔حنفی مسلک میں جائز وناجائز دونوں صورتوں میں حرمت مصاہرت قائم ہوجاتی ہے۔ ناجائز تعلق توبہت دور کی بات غفلت، نیند اور وہم وگمان میں بھی نہ ہو تب بھی اگر شہوت سے ہاتھ لگ گیا تو رشتہ ختم ہوجاتاہے، نصاب میں پڑھایا جاتاہے کہ ساس کی شرمگاہ اگر شہوت سے باہر سے دیکھ لی تو عذر ہوگا لیکن اس کی شرمگاہ کو اندسے شہوت کیساتھ دیکھا تو حرمت قائم ہوجائے گی۔ بیوی کیساتھ مباشرت اور ایک بچہ پیدا ہونے کے بعد اصولی طور سے میاں بیوی میں بھی اولاد کے ناطے رشتہ ازدواج کا تعلق ناجائز بن جاتاہے لیکن ضرورت کی وجہ سے جائز قرار دیا گیاہے۔ یہ انواع واقسام کی بکواس اصولِ فقہ کی کتابوں میں پڑھائی جاتی ہے۔ ٹانک شہر کے بہت بڑے عالم مولانافتح خانؒ کے پاس اس مسئلہ پر بات کرنے کیلئے ملک مظفر شاہ کانیگرم کی جانی پہچانی شخصیت کو بٹھایا تو مولانافتح خانؒ نے فرمایا کہ’’ پیر صاحب زورآور آدمی ہے، میں کیا کہہ سکتا ہوں‘‘۔ ملک مظفر شاہ کو یہ مغالطہ ملا کہ حقیقت کے خلاف شاید میں اپنی من مانی کررہا ہوں۔
فقہ حنفی میں اس قدر غلو کہاں سے آئی؟۔ حقیقت ومجاز کے اصول میں ہے کہ نکاح کا لفظ میل میلاپ کے معنی میں حقیقی ہے، مباشرت جائز ہو یازناہو حقیقی نکاح ہے۔اور شرعی عقدمیں نکاح کا لفظ مجازی ہے۔ حقیقت کی موجودگی میں مجازی معنی مراد نہیں لیا جاسکتاہے۔ حقیقی ومجازی معنی میں یہ فرق ہے کہ حقیقت کی نفی نہیں ہوسکتی ہے، مجازی کی نفی ہوسکتی ہے۔ شیر حقیقت میں جانور ہے تو نہیں کہا جاسکتاہے کہ شیر شیر نہیں ہے۔ بہادر آدمی کو شیر مجازی طور پر کہا جاتاہے تو نفی ہوسکتی ہے کہ بہادر آدمی شیر ہے کہ بہادر ہے اور شیر نہیں ہے کہ جنگلی نہیں۔ فقہ حنفی کو مزید تقویت دینے کی میرے اندر اللہ کے فضل سے صلاحیت ہے ۔ قرآن کہتاہے کہ جو سوتیلی بیٹیاں تمہارے گھر میں پلی بڑھی ہیں ، ان کی ماؤں میں اگر تم نے ڈالا ہے تو تم پر حرام ہیں اوراگر ان میں نہیں ڈالا ہے تو جائز ہیں۔ کہا جاسکتاہے کہ مجازی معنیٰ نکاح سے زیادہ حقیقی معنی میں حرمت کی صلاحیت ہے،اسلئے کہ مجازی معنیٰ عقد سے حرمت کی نفی اور حقیقی معنیٰ داخل کرنے سے حرمت کا ثبوت قرآن میں موجود ہے۔ جبکہ امام شافعیؒ کے نزدیک ناجائز تعلق سے حرمت مصاہرت زنا سے بھی ثابت نہیں ہوتی۔
فقہ میں آسمان زمین کا فرق اور اصولِ فقہ میں سمجھنے کا فقدان بہت بڑا مسئلہ ہے۔کیا شریعت میں ایسی تفریق ہوسکتی ہے کہ عورت فتویٰ لیکر آئے کہ داماد پر ناجائز نیند، غفلت یا نشہ میں ہاتھ لگ گیا تو بیٹی کارشتہ حرام ہوگیا۔ اور دوسرے مسلک والا کہے کہ نہیں ناجائز مباشرت سے بھی رشتے پر اثر نہیں پڑتا ہے؟۔ علماء کرام اور مفتیان عظام اپنی ضد اور ہٹ دھرمی چھوڑ کر نصاب کو درست کریں۔ قرآن میں عفوو درگزر ہے ، جائز وناجائز کی حقیقت بھی ہے اور اخلاقیات کا درس بھی ہے۔ جب صحابہ کرامؓ کو آبا کی منکوحہ سے پہلے کے نکاح کا درگزر فرمایاتو نصاب کی غلطی پر بھی درگزر فرمائے گا۔ یہ تمہاری بہت بڑی کم عقلی ہے کہ تم یہ پڑھاؤ کے آبا کی موجودگی میں دادا کی منکوحہ مراد نہیں لی جاسکتی ہے تو ہم اس کو قرآن کی آیت سے نہیں اجماع سے ثابت کرتے ہیں۔ باپ دادا میں کوئی فرق نہیں اور تمہارا عقدنکاح کو مجازی اور مباشرت کو حقیقی نکاح قرار دینا بھی انتہائی جہالت ہے۔ لغت کا تعلق معاشرتی زباں سے ہوتا ہے۔ حضرت آدم ؑ و حواءؑ ، ہابیل قابیل سے لیکر ہردور میں نکاح و زنا کا الگ الگ تصور ہرمعاشرے میں موجود ہے۔مباشرت کو حقیقی اور عقدِ نکاح کو مجازی کہنے کا نصاب تلف کرنا پڑے گا۔ ہاتھ لگانے سے کے نکاح و طلاق اور ہاتھ لگانے کے بعد کے نکاح و طلاق میں فرق قرآن نے خود واضح کیا ہے۔ ابنۃ الجونؓ کا واقعہ بخاری میں ہے مگر جس حدیث میں رسول اللہﷺ نے حضرت یوسف علیہ السلام سے بھی زیادہ ایک خاتون کیساتھ حسنِ سلوک اور خواتین کی آزادی کیلئے انتہا درجہ کی عملی قربانی دینے کی مثال قائم فرمائی اس پر جس طرح انتہاء درجہ کی غلط تشریح کو وفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خانؒ اور علامہ غلام رسول سعیدیؒ نے اپنی معتبر شرح میں نقل کیا ہے جو علامہ ابن حجرؒ کے حوالہ سے ہے تو اس نے مرزا غلام احمد قادیانی کے محمدی بیگم کاقصہ بھی پیچھے چھوڑ دیاہے۔ عائشہ گلالئی نے جو عمران خان پر جنسی ہراساں کرنے کا الزام لگایاہے جس پر پارلیمنٹ کی کمیٹی بن گئی ہے تو احادیث صحیحہ کی غلط تشریحات کا آئینہ بھی عوام کو دکھایا جائے جس کا اثر نہ صرف پاکستان کے ملحد طبقے پر پڑے گا بلکہ دنیا میں اسلام کا مذاق اڑانے والے بھی سیدھی راہ پر آجائیں گے۔جب تک ہمارے دینی مدارس کے نصاب کی اصلاح نہ ہوگی کوئی مسئلہ حل نہ ہوگا۔
وہ ایک سجدہ جسے تُو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
بیہودہ اور انتہائی فحش قسم کے اشتہارات میں گزر بسر کرنے والی قوم کہے گی کہ قرآن کی زباں میں محرمات کی آیات کو نصاب میں کیسے شامل کیا جاسکتاہے؟۔ سوتیلے بچوں کی ماں میں ڈالنے والی بات اخلاقی قدروں کی معیار پرپورا نہیں اُترسکتی ہے۔ جن بچوں میں پرندوں، جانوروں ،انسانوں اور ٹی وی فلموں ڈراموں کے جنسی رحجانات اور حقائق کا شعور ہوتاہے ،ان کیلئے بچیوں کی سوتیلی ماں کی کھلی وضاحت اخلاقی اقدار کے مثبت رحجانات کا ذریعہ بنے گا۔ اللہ نے کھلے لفظوں کا استعمال کرتے ہوئے زنا کے قریب نہ جانے کا حکم دیا ۔چونکہ ایک مؤمن ومسلمان کیلئے انتہائی بداخلاقی کی کیفیت ہے کہ اس نے کسی بیوہ یا طلاق شدہ سے شادی کی ہو اور اس کی چھوٹی بچیاں بھی ہوں جو اس کے گھر میں پل کر جوان ہوئی ہوں۔اور پھر اس کا ارادہ خراب ہوجائے کہ وہ اس کی اپنی بیٹیاں تو نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے غلیظ خیالات کے دماغ پر زور دار ضرب لگانے کیلئے فرمایا کہ’’ جن کی ماؤں سے نکاح کرنے کے بعد ان میں ڈالا ہے اور اگر نہیں ڈالا ہے تو جائز ہیں‘‘۔ ممکن نہیں ہے کہ کوئی شخص کسی بیوہ یا طلاق شدہ سے نکاح کرے اور اس کی بیٹیاں جوان ہونے تک اس کیساتھ ازدواجی تعلقات قائم نہ کرے۔ یہ صرف اخلاقی طور سے چوٹ مارنے والی بات ہے، مگر فقہاء نے یہ مسئلہ نکال دیا کہ ماں سے نکاح کرنے کے بعد اگر ہاتھ نہیں لگایا ہو تو اس کو چھوڑ کر بیٹی سے نکاح کیا جاسکتاہے اور بیٹی سے نکاح کے بعد ہاتھ لگانے سے پہلے چھوڑ دیا جائے تب بھی اس کیساتھ نکاح جائز نہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہوتاہے کہ بیٹی سے نکاح کے بعد بیٹی کو چھوڑ کر اس کی ماں سے نکاح کیا جائے۔ قرآن کے پاس الفاظ کی کمی نہیں تھی لیکن مذمت کیلئے اللہ نے دخول کے الفاظ کو استعمال کیا ہے ورنہ دوسری جگہ اللہ نے مشرک جوڑے کے بارے میں کس قدر اچھے الفاظ میں میاں بیوی کے تعلق کا نقشہ کھینچا ہے۔ فرمایا:’’جب اس نے اس کو ڈھانپ لیا تو اس کو حمل ہوا خفیف سا حمل،پھر جب وہ بھاری ہوگئی تو دونوں میاں بیوی نے دعا کی کہ ہمارے رب ہمیں تندرست بچہ عطا فرما، جب اللہ نے تندرست بچہ دیا تو وہ اللہ کیساتھ شریک ٹھہرانے لگے‘‘۔
قرآن وسنت سے فقہی مسائل کے اختلافات کا متفقہ حل نکالنے میں بالکل دیر نہیں لگے گی مگر نیت اور عملی کردار کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ مدارس کو چاہیے تھا کہ یہ اخبار طلبہ کو خریدکر دیتے اور سب کو اپنی اپنی مطلب کی چیز اور علم کا خزانہ سمجھاتے۔ مغرب کی یونیورسٹیوں کی طرح مجھے درس کیلئے بلاتے ، تاکہ دماغی کاوش کی صلاحیتیں ان میں منتقل کرنے میں کوئی دیر نہ لگتی ۔ جب تک اپنے فریضہ کیلئے اپنی جدوجہد نہ کرلوں تو قبر کی مٹی میں نہ علمی جواہرات میرے کام کی ہیں نہ کسی اور کی۔ طلبہ کرام!، میں نے تمہاری طرح مدرسہ میں تعلیم حاصل کی ہے۔ نصاب کو سمجھنے کیلئے شروحات کے سہارے لئے ، اساتذۂ کرام سے سوال وجواب کئے، نصاب پر تنقید کرنے کے حوالہ سے حوصلہ شکنی کا کبھی سامنا نہیں کرنا پڑا۔ مدارس کی محبت میرے دل اور میری روح میں بسی ہوئی ہے۔ مجھ پران مادر علمیہ کا احسان نہ ہوتا تو میں اسلام کی خدمت کرنے کا تصور نہیں کرسکتا تھا۔ اللہ نے فرمایا: انمایخشی اللہ من عبادہ العلماء ’’ بیشک اللہ سے اسکے بندوں میں سے علماء ڈرتے ہیں‘‘۔ اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ علماء کا خوف معتبر ہے۔ جو جاہل اللہ سے ڈرتا ہو لیکن حلال کی جگہ حرام اور حرام کی جگہ حلال سمجھ کر عمل وکردار ادا کررہا ہو تو اس کا خوف اللہ کے نزدیک معتبر نہیں ہے۔ سمت درست نہ ہو توحج پر جانیوالا مکہ مکرمہ خانہ کعبہ کے بجائے ایران کے جعلی کعبہ پہنچ جائیگا جو ابھی نقلی طور پر بنایا گیاہے اور پھر اس کی پوزیشن جاہل عوام میں بالکل تبدیل بھی ہوسکتی ہے اسلئے کہ جہاں شبیہ کو تقدس کا درجہ حاصل ہووہاں بڑی مشابہت کا معاملہ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ پچھلے محرم میں یہ تقریر سامنے آئی تھی کہ یہ جھوٹ ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الا اللہ۔ بلکہ پاکستان ذوالجناح نے بنایا تھا۔ قائداعظم کے داد ا نے ذوالجناح کی منت مانگی تھی ، جس کو ذوالجناح نے بیٹا دیا،اسلئے اس کا نام پونجا جناح رکھ دیا۔ بعض کراچی والے جس طرح کراچی کو کرانچی کہتے ہیں ،اس طرح پوجا کو پونجا کردیا گیا تھا۔ ہم نے پچھلے محرم میں تبصرہ لکھ دیا تھا کہ پاکستان بھارت کے 22 صوبوں میں کسی ایک صوبے کے برابر بھی نہیں اور کشمیر کی آازدی بھی ادھوری ہے۔تو بھارت کے ہندو بھی کہہ سکتے ہیں کہ ذوالجناح کے مقابلے میں ہماری گاؤ ماتا نے بڑا بھارت دیدیا ہے اور کل ایران کا جاہل طبقہ نہیں بلکہ پاکستان کے مقبول ذاکر بھی کہیں گے کہ ایران کعبے کی شبیہ کیلئے وجود میں آیاتھا ، وجہ اس کی یہ بھی ہوسکتی ہے کہ امریکہ سعودیہ کیساتھ ہے اسلئے امام مہدی غائب کے ظہور کیلئے ایک ایسا کعبہ ضروری تھا جس میں خروج کیلئے کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
قرآن وسنت حقائق کے ادراک کیلئے بہت بڑا معیار ہیں۔ حرمت مصاہرت پر فقہی اختلاف کا یکسر خاتمہ ہوسکتاہے۔ اصول سے غلط نتائج نکالنے کے بجائے درست مسائل کا استنباط کیا جائے جس کا خلاصہ عوام کے سامنے رکھا جائے تو معاشرے پر اسکے بہت مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ نکاح کا معاہدہ جب تک نتیجہ خیز حد تک پہنچ کر ازدواجی تعلقات قائم کرنے کی حد تک نہیں پہنچے تو وہ ادھورا ہی رہے گا۔ اس کامقرر کردہ حق مہر نصف ہوگا اور عورت پر عدت نہیں ۔ عدت نہ ہو تو اس پر نکاح کی تکمیل پر پہنچنے کا اطلاق بھی نہیں ہوتا۔ عربی میں بعل اس شوہر کو ہی کہتے ہیں کہ جس نے بیوی سے ازداوجی تعلق بھی قائم کرلیا ہو، صرف نکاح والے کو بعل نہیں کہتے۔ ہماری اصطلاح میں جس کو منگنی کہا جاتاہے ،وہی درحقیقت شرعی اور زبانی نکاح ہے ۔رخصتی کے بعد ازدواجی تعلق کے قیام پر ہی ہاتھ لگانے کا اطلاق ہوتاہے۔ ازدواجی تعلق کے بعد پورے حق مہر اور عدت گزارنے کا معاملہ بھی آتاہے۔ حضرت ابنۃ الجونؓ سے رسول اللہﷺ نے نکاح ، حق مہر اور معاملات طے کیے، خلوت صحیحہ کے بعد ہاتھ لگائے بغیر رخصت فرمایا تو حضرت عمرؓ کو پتہ چلا کہ اس نے دوسری شادی کی ہے تو بہت ناراض ہوکر پہنچے۔ ابنۃ الجونؓ نے کہا کہ مجھ پر اُمّ المؤمنین کا اطلاق نہیں ہوتا اور نہ میں رسول ﷺ کے حرم میں داخل ہوئی ہوں۔ جس پر حضرت عمرؓ نے چھوڑ دیا۔ قرآن و سنت کا آئینہ مسلکی اختلافات کو ختم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ حرمت مصاہرت کیلئے نکاح اور دخول کا مجموعہ بنیاد بنے تو کسی مسلک کا اختلاف بھی نہیں رہے گا اور غیر فطری مسائل سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔ جب قرآن میں نکاح کیساتھ دخول کا مسئلہ بھی واضح ہے تو اس سے زیادہ وضاحت نہیں ہوسکتی ہے۔ فقہی مسائل کو معاشرہ سمجھ کر عمل کرے توبہت مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ بیوی شوہر سے لڑ پڑے اور کہہ دے کہ میرا ہاتھ غلطی سے شیر خوار بچے کیساتھ شہوت سے لگ گیا تو میاں بیوی کا نکاح نہ رہے گا۔اسی طرح بیٹا باپ سے لڑ ے اور کہے کہ میں نے شہوت کیساتھ بہن یا ماں کو ہاتھ لگادیا تو ماں باپ کا نکاح نہیں رہے گا۔ مجھے خوشی ہے کہ ایک مدرسہ کے مفتی نے مجھ سے کہا : ’’حرمت مصاہرت کے مسائل پر بڑے علماء میں تشویش ہے ، وہ اس مشکل سے نکلنے کی راہ دیکھ رہے ہیں‘‘۔ وہ مفتی صاحب خودکو مفتی تقی عثمانی کا ہم پلہ اسلئے سمجھتے ہیں کہ دارالافتاء کے رئیس ہیں۔درسِ نظامی اور فتاویٰ کی کتابوں کا ترجمہ موجودہے، کوئی بھی معمولی تعلیم والا کہیں سے عبارت تلاش کرلے گا۔
اصل مسئلہ صلاحیت کا ہوتاہے، اگر کوئی اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرکے موجودہ سودی نظام کو جواز بخشے گا تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پہلے بھی یہ مختلف ادوار میں اسلام کا چہرہ مسخ کرنے کیلئے ہوتا رہاہے۔اصل بات یہ ہے کہ کوئی اجنبیت کے سیاہ ترین بادلوں کے باوجود نصاب پر توجہ دے اور اسلام کا روشن چہرہ دنیا کے سامنے پیش کردے۔ پہلے کوئی محنت کرتا تھا تو کاتب کے ذریعے حق کا پیغام نہیں پہنچ پاتا تھا۔ پریس اور موجودہ میڈیا کا دور بعد کی پیداوار ہے۔ شاہی درباروں میں حق اور اہل حق کی جگہ نہیں ہوتی تھی بلکہ وہ پابند سلاسل رہتے ۔ آج کمپیوٹر کی کتابت ، پریس اور سوشل میڈیا کا دور ہے ۔ ورنہ ہمارے لئے بھی کلمۂ حق بلند کرنا آسان نہ تھا۔ مہدی، نبوت اور خدائی کے دعویدار بناکر مار دئیے جاتے اور قبر پر تختی لگادی جاتی کہ مہدی اور نبوت کا دعویٰ کرنیوالا اپنے انجام کو پہنچ گیا ہے۔ تبلیغی جماعت کا پروپیگنڈہ سیل متحرک ہوکر گلی کوچوں اور کونے کونے میں پیغام پہنچادیتا کہ ہماے ا ایک برگشتہ جادوگر ، ستمگر، گمراہ اور انتہائی دھوکہ باز فراڈی انسان حاجی عثمان نے پیری کے لبادے میں لوگوں سے فراڈ کیا اور یہ عتیق الرحمن اسی کا چیلہ تھا ۔اہل حق کا دشمن، علماء کرام کا گستاخ، اکابرین کی عظمتوں کا منکر اور نئے دین کا مدعی انتہائی خطرناک بدمعاش تھا۔ اپنی ساری صلاحیت شیطانی قوتوں میں خراب کردی، داڑھی اور دینی لبادے سے بھی آخر محروم ہوگیا تھا۔
بعض لوگ سمجھتے ہونگے کہ یہ عتیق گیلانی ہے تو بہت اچھا انسان ، اسکے ایسے جانثار ساتھی ہیں جو بہادری اور جوانمردی میں ایک تاریخ رقم کررہے ہیں۔ جان ہتھیلی پر رکھ کر مشکل اوقات میں جو قربانیاں دے رہے ہیں اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ لیکن یہ ملامتی صوفی کی علامات ہے جس میں ہروقت کوئی نہ کوئی ایسی بات، ایسا جملہ اور ایسے معاملات اٹھائے جاتے ہیں کہ لوگ ملامت کی گردان ہی جاری رکھتے ہیں۔ میں ان لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ ملامتی صوفی کو چھوڑئیے ،حقائق کی طرف دیکھئے۔ ایک انسان کی جان بچانا انسانیت کو زندہ کرنا ہے۔ حلالہ کی لعنت سے ایک خاتون کی عزت بچانا ساری دنیا کی عزت بچانا ہے ۔ قرآنی آیات کے احیاء سے مردہ قوم کے جسم میں پھر زندگی کی روح دوڑنا شروع ہوجائے گی ۔ ہمارا ہدف پاکستان اور اسلامی دنیاہی نہیں بلکہ ہم دنیا بھر میں اس خلافت علی طرزِ نبوت کی طرف پیش قدمی کررہے ہیں جس سے آسمان اور زمیں والے دونوں کے دونوں خوش ہونگے۔تقریباً 27سال کا عرصہ ہوا، نقشِ انقلاب شائع کرتے کرتے۔ اور اب یوٹیوب پرپہلی تقریر دی ہے ،جو اوکاڑہ کی مختصر تقریب میں کی ہے۔اس میں میرا ٹھنڈا اور دھیمہ لہجہ مت دیکھو بلکہ قرآن وسنت کی ترویج اور فرقہ واریت کے خاتمہ کا انداز دیکھ لو۔
زمانہ جاہلیت میں ایک طرف باپ کی منکوحہ سے نکاح کرلیتے تو دوسری طرف منہ بولے بیٹے کی بیوہ سے نکاح ناجائز سمجھتے۔ یہ قصے نہیں قرآنی آیات ہیں جن کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ کی کئی ریاستوں میں کم عمر لڑکیوں کے نکاح پرپابندیوں کے باوجود مسئلہ حل نہ ہوسکا۔ جہاں جنسی آزادی ہو، 12، 13سال کی لڑکیاں ماں بننے کامعمول ہو وہاں 16،18اور20سال کی عمر تک شادی پر پابندی دورِ جاہلیت سے بڑی جہالت ہے۔ اسلامی جمہوری اتحاد کا صدر غلام مصطفی جتوئی الیکشن ہارگیا اورسینئر نائب صدر کی بنیاد پر مولانا سمیع الحق وزیراعظم بننے کے حقدارتھے مگر پھر صوبائی رہنما نوازشریف وزیر اعظم بن گئے۔ مولانا سمیع الحق پر میڈم طاہرہ کا سکینڈل بنا۔ اصغر خان کیس کے حقائق کو سامنے لایا جائے تاکہ نوجوں نسل نظریاتی بن جائے۔ پھانسی کے بعد ذو الفقار علی بھٹو کے ختنہ کی بھی تلاشی لی اور اگر شریف النفس سرائیکی جنرل باجوہ اور نواز شریف کے ہمدرد چیف جسٹس ثاقب نثار کی موجودگی میں لاہوری وزیر اعظم کی تلاشی نہ لی گئی تو لاہور ی سپوت اور جیو کے حامد میر یہ کہنے میں حق بجانب ہونگے کہ پاکستان تخت لاہور ہے۔ مذہبی وسیاسی مسائل نے قوم کو گھیرے میں لیا ہے۔ اس منشور کی ضرورت ہے جو درست راہ پر لگادے۔ منشورکی قرآنی آیات کی تلاوت مساجد میں خوش الحان قاریوں سے کروائی جائے۔ جید علماء سلیس ترجمہ کریں۔ سحر بیان خطیب عوام کو سمجھائیں۔ دانشوراس کی حکمتوں کو عوام میں منتقل کریں۔ مدارس علماء اور طلبہ کو بھیج دیا کریں، تبلیغی جماعت ، دعوت اسلامی ، جمعیت علماء اسلام، جماعت اسلامی، جمعیت علماء پاکستان اور دیگر چھوٹی بڑی تنظیمیں اپنی اپنی خدمات موثر طریقہ سے انجام دیں۔

مشرف کیساتھ ڈیل کی طرح نواز شریف عدالتی فیصلے پر خوش اور شرمندہ ہیں، اشرف میمن

panama-leaks-pakistan-pervez-musharraf-hudaibiya-paper-mill-hazrat-umar-hazrat-abubakar-syed-atiq-ur-rehman-gilani

نوشتۂ دیوار کے پبلشراشرف میمن نے کہا کہ جمہوری نظام شخصیت پرستی نہیں مشاورت سے امور طے کرنے کا نام ہے۔ نوازشریف کے جو مالی سکینڈل میڈیا پرآئے۔کچھ اخلاقی قدریں ہوتیں تو شریف فیملی کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہ تھی، اقامہ کی ملازمت ہم جیسا بھی وقار کیخلاف سمجھے ۔بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ لینے کی بات بھی بے شرمی ہے۔ مغربی جمہوریت سے بڑھ کر ہمارا اسلامی نظام ہے۔ شکست میں صحابہؓ کے پیر اکھڑ گئے، فرمایا: ومامحمد الا رسول قد خلت من قبلہ رسل فان مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم ’’اورمحمد کیا ہیں؟۔مگرایک رسول ، آپ سے پہلے بھی رسول گزر چکے ، اگر آپ فوت ہوں یا قتل کیا جائے تو کیا تم الٹے پاؤں پھروگے‘‘۔ حضرت عمرؓ نے تلوار اٹھائی جوکہے کہ آپﷺ کا وصال ہوا تو اسکی گردن اڑادوں گا، حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ جو محمد ﷺ کی عبادت کرتا تھا تو آپﷺ فوت ہوچکے، جو اللہ کو پوجتا ہے تو وہ زندہ اورپر موت طاری نہیں ہوتی۔ صحابہؓ کی حددرجہ عقیدت اور نظریاتی پختگی نے دنیا میں عرو ج پر پہنچادیا۔ کوئی نااہل وزیراعظم سے پوچھتا، پارلیمنٹ میں کہاکہ سعودیہ کی فیکٹری بیچ کرلندن فلیٹ خریدلئے جسکے تمام ثبوت موجود ہیں۔ اگر عدالت میں پیش نہ کرسکے تو کارکنوں کو بتادو۔ بیٹے سے تنخواہ نہ لینا ثبوت ہے کہ باپ بیٹے میں مالی تفریق نہیں۔ اقامہ نہ کاروبار بلکہ کالا دھن سفید کرنیکا دھندہ تھا۔ ٹرائل میں تیرا کیا بنے گا؟، کالیا!۔ میڈیا اپنے پیسے سے تجھے ماردیگی ۔
بقیہ نمبر1 : نوازشریف کا کردار: اشرف میمندانیال ، طلال ، گلوبٹ، مولانا فضل الرحمن، میر شکیل الرحمن کو نوازشریف سے کیا عقیدت ہے؟۔ روزروزپارٹی ،موقف اورقبلے بدلنے والوں سے توقعات وابستہ رکھی جاسکتی ہیں؟۔
جمہوریت کیلئے مغرب کی طرف نہ دیکھو۔ اسلام جمہوری عمل کا بڑابنیادی ڈھانچہ ہے۔ نبیﷺ چچازاد و داماد حضرت علیؓ کو اپنا جانشین مقرر کرنا چاہتے تھے۔ خفیہ نہیں کھلم کھلا اعلان کردیا :من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ ’’جس کا میں مولا ہوں یہ علی اسکا مولیٰ ہے‘‘۔
شیعہ سمجھتے ہیں کہ رسول ﷺ پر یہ وحی تھی ۔ وماینطق عن الھوی الا وحی یوحیٰ ’’آپ اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کرتے مگر جو وحی کی جاتی ہے‘‘۔ شیعہ نے مغالطہ کھایا ہے۔ اللہ کاحکم تھا کہ وشاور ھم فی الامر ’’ان سے خاص امر میں مشاورت کریں‘‘۔
علیؓ کامولیٰ ہونا وحی نہیں ۔ آپﷺ کی یہ خواہش ضرور تھی جس کا برملا اعلان کردیا۔ پھر نبیﷺ نے قلم اور کاغذ منگواکر فرمایا کہ ’’ میں ایسی وصیت لکھ دیتا ہوں کہ میرے بعد گمراہ نہ ہوگے‘‘۔ حضرت عمرؓ نے کہاکہ ’’ ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے‘‘۔ علاوہ ازیں نبیﷺ نے فرمایا: میں تمہارے اندر دو بھاری چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں جب تک ان کو مضبوطی سے تھاموگے کبھی گمراہ نہ ہوگے، ایک قرآن اور دوسرے میرے اہلبیت‘‘(مسلم، ترمذی)
رسول اللہﷺ کے وصال پر قریب تھا کہ انصار وقریش میں خلافت پر جھگڑا ہوجاتا۔ حضرت ابوبکرؓ ہنگامی بنیاد پر منتخب ہوئے۔ آپؓ نے حضرت عمرؓ کواپنے بعد نامزد کردیا۔ شوریٰ نے حضرت عثمانؓ کو نامزد کردیاتھا اور حضرت علیؓ کے وقت حالت بہت بگڑچکی تھی۔ حضرت حسنؓ دستبرداراور حضرت حسینؓ نے کربلا میں شہادت پائی۔ حضرت علیؓ کی سخت اپوزیشن اُمّ المؤمنین حضرت عائشہؓ نے کی۔ حضرت امام حسنؓ نے خود مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کو اکٹھا کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ یہ اسلامی جمہوری معاشرے کی بنیاد تھی کہ عوام کا دل رسول اللہﷺ کی عقیدت سے لبریزتھا مگر خلافت راشدہ کااقتدار متفرق شخصیات اور مختلف قبائل سے تعلق رکھنے والے حضرات کے ہاتھ میں رہا۔ جوں جوں اسلام کی روح اُمت کی اجتماعیت سے نکلتی چلی گئی توں توں آمر کے خانوادے بنو امیہ، بنو عباس اور عثمانی خلافت کی شکل میں آگئے۔ علماء ومشائخ نے بھی اسلام سے دور ہوکر نالائق نا خلف اولاد کو اپنا جانشین بنانا شروع کردیا۔نبیﷺ نے علم کی میراث چھوڑی، مدینہ العلم کا باب بہترین قاضی کاخانوادہ بھی مسند سے محروم رہاتھا۔
مسجد،مدرسہ، خانقاہ ،مذہبی، سیاسی اور سماجی تنظیمیں اور جماعتیں شخصی ملکیت نہیں خاندانی تسلط کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ سید ابوالاعلی مودودیؒ نے جماعت اسلامی کو موروثی رنگ نہیں دیا۔ دارالعلوم دیوبند میں بھی موروثی نظام نہیں۔ قاری طیبؒ نے بیٹے مولانا سالم قاسمی کو مہتمم نامزدکیا تومزاحمت ہوئی پھردارالعلوم دیوبند بٹ گیا۔ تبلیغی جماعت مولانا الیاسؒ کے بعد مولانا یوسفؒ نہیں مولانا احتشام الحسنؒ ؒ کوامیر بنادیتی تو تبلیغی جماعت انقلاب لاچکی ہوتی۔ اب حاجی عبد الوہاب کا مولانا الیاسؒ کے پوتے یا پڑپوتے سے جھگڑابھی چل رہاہے۔
مذہبی وسیاسی جماعتوں ، مدارس، مساجد، خانقاہوں ، سماجی تنظیموں میں خلافتِ راشدہ کے طرز پر تبدیلی آجائے تو بہتری آسکتی ہے۔ رسول ﷺکے اہلبیت سے بہتر خانوادہ تھا؟، مگر حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کا تعلق بنی ہاشم سے نہیں تھااور مشکل صورتحال میں حضرت علیؓ ، حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ نے کردار ادا کیا۔پاکستان میں مذہبی وسیاسی جماعتوں اور اداروں کا رول ماڈل اسلام ہو۔
شریف خاندان کو مشکل کا سامنا تھا تو جاوید ہاشمی نے قربانی دی۔ نواز شریف نظریاتی ہے تو سیدیوسف رضا گیلانی کیخلاف کیوں گیا تھا ؟ اب کیا اسٹیبلشمنٹ کی خواہش پر شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم بنایا گیا یا یہ بھائیوں کا جھگڑا ہے۔ فوج کے ترجمان آئی ایس پی آر کو باقاعدہ وضاحت کرنا چاہیے کہ سیاست ن لیگ یا ش لیگ کا داخلی معاملہ ہے۔مشہور ہے کہ خوشحال خٹک سے اسکی ماں نے کہا تھا کہ بیٹا تیری زبردست شخصیت ہے لیکن اگر قد تھوڑا سا لمبا ہوتا۔ خوشحال نے اس کا یہ جواب دیا کہ ماں جی! میرا قد بالشت بھر مزید چھوٹا ہوتا لیکن کسی خٹک سے مجھے نہ جنا ہوتا۔کیا خواجہ آصف بھی کہے گا کہ’’ جتنی بھی پاک فوج کی مخالفت میں سر پھوڑی کروں مگر بات نہیں بنتی اسلئے کہ ماں نے اس باپ سے جننا، جو جنرل ضیاء کے شوریٰ کا چیئرمین تھا۔ میراقائد نوازشریف ہے جس کی ہڈیوں کا گودا بھی مارشل لائی ہے ، چوہدری نثار کا دوست شہبازشریف مسلط کردیا ۔ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔ جیو اور چاپلوس صحافی ہمیں کتنا دھکیل دیں، عاصمہ جہانگیر کم بخت مرتی بھی نہیں، انوشہ اور تہمینہ کی چوڑیاں نواز اور شہباز کو پہنادو مگر سچ نہ بولیں گے ۔ معاہدہ کرکے سعودیہ جانے پر خوش اور شرمندہ تھے تو اب بھی وہی تاریخ دہرائی جارہی ہے‘‘۔
خواجہ آصف منہ پھٹ قائد کو کھری کھری سنائے تو تاریخ بدل سکتی ہے۔ ایمان ،اسلام ، پاکستان اور سیاستدان کا یہی تقاضہ ہے۔

ترجمان اسلام میں سیٹھو سے رقم لیکر حلالہ کرنیوالے مولویوں کے نام شائع ہوئے. قاری گل رحمان

qari-gul-rahman-maulana-ghulam-ghaus-bakhsh-hazarvi-molana-diesel-jamiat-ulema-e-islam-tarjuman-e-islam
کراچی (عبد الکریم ، محمد منیر) قاری گل رحمان ، سابق ایم این اے متحدہ مجلس عمل نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ آپ کا رسالہ ’’تین طلاق سے رجوع کا خوشگوار حل‘‘ اور اخبار نوشتۂ دیوار پڑھ کر دل صاف ہوتا ہے اور دماغ خوشگوار ہوتا ہے۔ میں کوئی عالم تو نہیں ہوں مگر علماء کی خدمت میں رہا ہوں۔ علماء بڑے لوگوں کیلئے اسپیڈ بریکر ہیں جسے چاہتے ہیں ٹھوکر مار دیتے ہیں۔ علامہ غلام غوث ہزاروی صاحبؒ فرمایا کرتے تھے اور کراچی کے بڑے بڑے مولویوں کے نام بتایا کرتے تھے کہ وہ بڑے سیٹھوں سے رقم وصول کرکے ان کی بیویوں سے خود حلالہ کرتے تھے۔
اور دو دو تین تین دن اپنے پاس رکھ کر اچھی خاصی رقم بٹورتے تھے۔ ہفت روزہ ’’ترجمان اسلام‘‘ کے پرانے رسالوں میں ان مولوی حضرات کے نام بھی انہوں نے شائع کئے ہیں جو کہ جمعیت علماء اسلام کا رسالہ ہے۔ حلالے کی رقم وصول کرنا مولویوں کا ایک زبرست ٹوٹکا ہے۔ شاہ صاحب اور آپ لوگ میدان میں آئے ہیں جس سے دل بہت خوش ہوتا ہے۔ آج کل کے مولوی مہینے کے مہینے تنخواہ لیتے ہیں ان کو پڑھنے پڑھانے سے کوئی غرض نہیں اور جو مولوی پڑھاتے ہیں وہ کسی حد تک علم سیکھنے سمجھنے کے قابل ہوتے ہیں۔ حلالہ پیسے والے لوگ اور پیسے والے مولویوں کا کھیل ہے۔ درمیانہ اور غریب طبقے کا آدمی حلالہ کرانے پر کبھی راضی نہیں ہوتا۔ آپ کے اخبار جو کہ ماہوار ہیں اسے ہفت روزہ ہونا چاہیے۔ جس میں زیادہ لمبی چوڑی تفصیلات لکھنے سے گریز کرتے ہوئے مختصر اور جامع طریقے سے بات سمجھانے کی کوشش ہو تو بہتر ہوگا۔ میں نے آپ کے اخبار اور رسالے کے ذریعے سے کافی گھروں کو طلاق کی صورت میں جدا ہونے سے بچایا ہے۔

طلاق سے رجوع کیسے ہوسکتاہے؟،مفتی صاحب!

mufti-taqi-ruju-fatwa-hazrat-umer-hazrat-ali-imam-abu-hanifa-halala-teen-talaq-triple-talaq-quran-syed-atiq-ur-rehman-gailani
اس بات کی وضاحت کردیتا ہوں کہ شوہر نے اگر اکٹھی تین طلاق دیں تو میرا یہی فتویٰ ہوگا کہ طلاق واقع ہوچکی اور شوہر کو یکطرفہ رجوع کا حق نہیں، اسکے برعکس فتویٰ دینا بالکل 100فیصدغلط ہوگا کہ شوہر رجوع کرسکتا ہے اسلئے کہ قرآن وسنت ، خلفاء راشدینؓ، صحابہ کرامؓ، ائمہ مجتہدینؒ اورعلماءِ حق کا یہ متفقہ فیصلہ بھی ہے اور فتویٰ بھی ہے کہ شوہریکطرفہ رجوع کا حق کھودیتاہے۔
مگر کیا ایک ساتھ تین طلاق کے بعد حلالہ کی شرط پر رجوع ہوسکتا ہے؟۔ اگر قرآن وسنت اور خلفاء رشدینؓ، صحابہؓ و ائمہ مجتہدینؒ کی طرف سے کوئی ہلکا سااشارہ بھی کوئی بتادے تو میں اس کاقائل ہوجاؤں گا۔کسی آیت میں نہیں کہ ایک ساتھ تین طلاقیں دیدیں تو عدت تک انتظار کرنا پڑے گا اور پھر حلالہ کی خدمات کیلئے فتویٰ اور اس لعنت میں منہ کالا کرنے کی ضرورت پڑے گی۔
بلکہ اسکے بالکل برعکس اللہ تعالیٰ نے ڈھیر ساری آیات میں وضاحت کردی ہے کہ عدت میں باہمی صلح کی شرط اور معروف طریقے سے رجوع ہے۔ ایک طرف قرآن میں بار بار وضاحت ہو کہ صلح کی شرط پر عدت میں رجوع ہوسکتا ہے ، عدت کی تکمیل پر معروف طریقے سے رجوع ہوسکتا ہے، معروف طریقے سے رجوع کرو، معروف طریقے سے رجوع کرسکتے ہو اور معروف طریقے سے رجوع کرسکتے ہو لیکن دوسری طرف قرآن کی ڈھیر ساری آیات کے واضح مطلب کو چھوڑ کر کسی کی منکوحہ کو مفتی اپنے فتویٰ کے ذریعے شکار کرنا چاہتا ہو۔ حنفی مسلک کے اندر عدت میں نکاح باقی رہتاہے لیکن حنفی مسلک کے مفاد پرست علماء ومفتیان قرآن کے برعکس فتویٰ دیں کہ صلح اور معروف طریقے سے بھی رجوع نہیں ہوسکتاہے تو یہ قرآن سے بہت بڑی اور کھلی بغاوت ہے ۔
جہاں تک احادیث صحیحہ کا تعلق ہے تو احادیث کے ذخیرے میں کوئی ایک بھی ایسی حدیث نہیں کہ جس میں یہ فتویٰ دیا گیا ہو کہ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد حلالہ کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا۔ کوئی حدیث قرآن کیخلاف کیوں ہوتی؟ اور اگر بالفرض ہوتو بھی قرآن کے مقابلہ میں ناقابلِ عمل ۔ یہی تو درسِ نظامی کی تعلیم ہے۔ جب ذخیرۂ احادیث میں ایسی حدیث نہیں کہ جس میں ایک ساتھ کی تین طلاق کو ناقابلِ رجوع قرار دیا گیا ہو یا حلالہ کے ذریعے رجوع کا حکم ہو تو پھر کتنا بڑا ظلم ہے کہ اسکے برعکس فتویٰ دیاجائے کہ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد حدیث کی رو سے حلالہ کرنا لازم ہے؟۔
اصولِ فقہ کی تعلیم کا بنیادی تقاضہ ہے کہ فتویٰ قرآن وحدیث کے مطابق دیا جائے۔ صحابہؓ نے قرآن وسنت کو اپنی پہلی ترجیح بنالیا تواللہ نے چند سوسال تک مسلمانوں کو دنیا کے اقتدار کے قابل بنادیا۔ بنی امیہ و بنی عباس کے بعد خلافت عثمانیہ بڑے عرصہ تک چلی۔1924ء میں خلافت کا خاتمہ کرکے کمال اتاترک نے نئی ریاست کی بنیاد رکھ دی۔بنی امیہ، بنی عباس اور خلافت عثمانیہ کے علاوہ مغلیہ سلطنت ، عرب بادشاہت اور جمہوری ادوار میں کبھی کوئی عالم ومفتی حکمران نہ بن سکا ، اس کی بنیادی وجہ مُلاؤں کی قرآن وسنت کے احکام سے روگردانی ہے۔علماء درباری بن کر قرآن وسنت کا حلیہ نہ بگاڑتے تو مسلم اُمہ کبھی زوال کا ایسا شکار نہ بنتی۔ دوبارہ عالمی خلافت قائم ہوگی ۔قرآن وسنت کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ اگر علماء ومفتیان جانے بوجھے بھی قرآن وسنت کیخلاف فتوے دینگے اور لوگوں کی عزتوں سے کھیلیں گے تو خود بھی ذلت سے دوچار ہونگے اور امت مسلمہ کو بھی دوچار کردیں گے۔ اللہ نے استدراج کا ذکر بھی فرمایا، اپنی ظاہری ترقی کو انعام نہ سمجھیں۔ مفتی تقی عثمانی کے گھر کی خواتین کو بھی سکون نہیں ملا ہے۔وممن خلقنا اُمۃ یھدون بالحق وبہ یعدلونOوالذین کذبوا باٰ ےٰتنا سنستدرجھم من حیث لایعلمونOواُملی لھم ان کیدی متینOاولم یتفکروا مابصاحبہم من جِنۃ ان ھو الا نذیر مبینO اولم ینظروا فی ملکوت السمٰوٰت والارض وماخلق اللہ من شئی وان عسٰی ان یکون قد اقترب اجلھم فبای حدیث بعد یؤمنونOمن یضلل اللہ فلا ھادی لہ ویذرھم فی طغانھم یعمھونO ’’اورجن کو ہم نے پیدا کیا ،ان میں ایک جماعت حق سے ہدایت لیتے ہیں اور اسی سے فیصلہ کرتے ہیں اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا، ہم بتدریج لے جائیں گے کہ ان کو خبر بھی نہیں ہوگی۔ اور میں ان کو ڈھیل دوں گا اور میرا داؤ مضبوط ہے۔ کیا وہ غور نہیں کرتے کہ ان کے صاحب (ﷺ) کو کچھ جنون نہیں مگر وہ کھلا ڈرانے والاہے۔کیا وہ نہیں دیکھتے کہ زمیں و آسمان کی بادشاہی اور جو اللہ نے پیدا کیا ہے اس میں کوئی چیز؟۔ اور شاید قریب آگیا ہے ان کے وعدے کاو قت۔ پھر اس کے بعد وہ کس حدیث(بات) پر ایمان لائیں گے؟۔ جس کو اللہ گمراہ کردے، تو اس کیلئے ہدایت دینے والا کوئی نہیں ہے۔ اللہ نے چھوڑ رکھا ہے، کہ وہ اپنی سرکشی کے اندھے پن میں ہچکولے کھائیں‘‘۔
جب مشرکینِ مکہ نے اپنی جہالت کا تسلسل کیساتھ مظاہرہ کیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈھیل کا وقت ختم ہوگیا اور فتح مکہ کے بعد خلافت راشدہؓ اور اسکے بعد آج تک انکا نام ونشان بھی مٹ گیا۔ صحابہ کرامؓ اور خلفاء راشدینؓ نے حق اور ہدایت کی رہنمائی سے دنیا کو فتح کرلیا۔ اسلام سے پہلے عورت غلامی سے بھی بدتر زندگی گزارتی تھی۔ قرآن وسنت میں بیوی کو خلع کا حق دیا گیا، طلاق کے بعد بھی صلح کی شرط پر معروف رجوع کا حق دیا گیا۔ حضرت عمر فاروق اعظمؓ جب مسندِ خلافت پر جلوہ افروز تھے تو اس سے پہلے یہ معمول تھا کہ تین طلاق کا تعلق عدت کے تین مراحل طہرو حیض سے ہوتا تھا۔ جس کی قرآن وسنت میں وضاحت تھی۔ کوئی ایک ساتھ تین طلاق دیتا تب بھی ایک ہی طلاق شمار ہوتی تھی۔ قرآن وسنت کے مطابق یہ معمول تھا کہ عدت تک عورت انتظار کرنے کی پابند تھی اور باہمی رضامندی سے رجوع کا دروازہ کھلا رہتا تھا۔
جب میاں بیوی آپس میں باہمی رضامندی سے صلح کریں یا رشتہ دار ان کو صلح پر آمادہ کرلیں تو خوش اسلوبی اور معروف طریقے سے رجوع کرنے پر کوئی کس طرح سے اعتراض کرسکتا تھا۔ ایک خاتون نے تین طہرو حیض کے آخری حیض میں شوہر کا گھر چھوڑ دیا تو اعتراض ہوا کہ اس نے غلطی کی ہے۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ ’’ اس نے ٹھیک کیا ہے ، انتظار کے تین قروء سے مراد اطہار یعنی پاکی کے ایام کی تین مدتیں مراد ہیں‘‘۔ طلاق سے رجوع کیلئے فتویٰ فروش نہیں بیٹھے تھے جن سے رہنمائی طلب کی جاتی بلکہ قرآن وسنت صحابہ کرامؓ کے ماحول ہی کا اہم حصہ تھا۔زندگی کا محور قرآن وسنت کا منشور تھا۔
جب میاں بیوی کے درمیان علیحدگی طلاق کا مسئلہ چل رہا ہو تو سب سے زیادہ اہمیت میاں بیوی کی اپنی رائے، چاہت اور لائحہ عمل کی ہوتی ہے لیکن جب معاشرے کو یہ احساس ہوجائے کہ ان دونوں کے درمیان تفریق کا خطرہ ہو تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ ایک فیصل شوہر کے خاندان سے اور ایک فیصل بیوی کے خاندان سے تشکیل دو، اگر ان دونوں کا ارادہ اصلاح کرنے کا ہو تو اللہ ان دونوں میں موافقت پیدا کر دے گا۔ جب تک معاملہ صلح اور اصلاح کی حد تک رہتا ہے تو اس کا تعلق معاشرتی معاملات سے ہوتا ہے۔ میاں بیوی صلح کریں یا معاشرہ اس میں کردار ادا کرے تو بات حکومت تک نہیں پہنچتی ہے۔
اسلام دینِ فطرت ہے ، قرآن وسنت نے صحابہ کرامؓ کو اس فطری دین کی بدولت تاریخ ساز عروج عطا فرمایا جس کی بازگشت ابھی تک دنیاکے اندر موجود ہے۔ قرآن وسنت اور مسلمانوں کی بدولت عورت کے معاملے میں دنیا بدل گئی اور’’ میاں بیوی راضی تو کیا کریگا قاضی‘‘ کی کہاوت نے حقیقت اور قانون کا روپ دھارلیا۔ جب حضرت عمرؓ کے دربار میں ایک شخص نے فریاد کی کہ اس نے تین طلاق ایک ساتھ دئیے ہیں ، اپنی بیوی کو واپس لوٹانا چاہتاہے تو سب سے واضح بات یہ ہے کہ اگر میاں بیوی آپس میں راضی ہوتے تو پھر وہ حضرت عمرؓ کے پاس کیوں آتا؟۔ ظاہر بات ہے کہ عورت صلح کیلئے راضی نہ تھی اور تمام حربے آزمانے کے بعد بات حکومتِ وقت سے مدد لینے تک پہنچی تھی۔
حضرت عمرؓ نے قرآن وسنت اور عقل وفطرت کے خلاف فیصلہ نہیں دینا تھا اور آج بھی دنیا کی ہر عدالت وہی فیصلہ دے گی جو قرآن وسنت اور حضرت عمرؓ نے دیا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ وبعولتھن احق بردھن فی ذلک ان ارادوا اصلاحا ’’ اور انکے شوہر ہی اس مدت میں ان کو لوٹانے کا حق رکھتے ہیں بشرط یہ کہ اصلاح کرنا چاہتے ہوں‘‘۔ جب تنازعہ چل رہا ہو تو اصلاح کی کیا بات ہوسکتی ہے۔ جب قرآن تنازع کی صورت میں رجوع کا حق شوہر کو نہیں دیتاہے تو حضرت عمرؓ نے کیسے دینا تھا؟۔ حضرت عمرؓ نے نہ صرف قرآن کی بات پر عمل کرکے شوہر کو رجوع کا حق نہیں دیا بلکہ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد جو رنجیدہ صورتحال پیدا ہوئی تھی اس پر بھی فرمایا کہ آئندہ کوئی ایک ساتھ تین طلاق دے گا تو اس کو سخت سزابھی دی جائے گی۔
جب حضرت عمرؓ نے یہ فیصلہ کردیا تو حضرت علیؓ نے اس کی تائید فرمادی کہ حضرت عمرؓ کا فیصلہ درست ہے، کوئی شخص ایک ساتھ تین طلاق دیتاہے تو وہ اپنا حق کھو دیتاہے، پھر عورت رجوع پر راضی نہیں ہو تو وہ رجوع نہیں کرسکتاہے۔ اور ساتھ میں یہ وضاحت بھی کردی کہ ’’ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد باہمی صلح سے رجوع کا دروازہ بند نہیں ہوتا بلکہ قرآن کے مطابق رجوع کرسکتے ہیں‘‘۔ افسوس کہ کم عقل علماء ومفتیان اور حلالہ کی ہوس میں مبتلاء رہبروں نے سمجھا تھا کہ حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کے درمیان کوئی تضاد پایا جاتاہے بلکہ حضرت علیؓ کے اپنے مؤقف میں بھی کھلا تضاد سمجھتے تھے، حالانکہ حقیقت میں تضاد نہ تھا۔
دنیا کی کسی قوم کیلئے بھی قرآن وسنت اور خلفاء راشدینؓ کا یہ قانون بہت زبردست ہے کہ طلاق کے بعد عدت میں باہمی رضا اور صلح کے بغیر رجوع کا دروازہ بند ہو۔ البتہ جن معاملات کی وجہ سے بگاڑ پیدا ہورہاہو، جو علیحدگی کے باعث ہوں، شکایات کے ازالے اور اصلاح کی شرط پر رجوع کی گنجائش ہو۔
اللہ نے اہل کتاب کو مخاطب کیا کہ ’’دین میں غلو نہ کرو‘‘۔ علامہ تراب الحق قادریؒ نے رمضان میں تقریر کی تھی ’’ روزے میں جب لیٹرین کیا جائے تو مقعد کے اندر کا حصہ نکلتاہے جو پھول کی طرح ہوتاہے، وہ پھول دھویا جائے تو کپڑے سے خشک کیا جائے ، خشک کئے بغیر اگر وہ پھول اندر داخل ہوا تو روزہ ٹوٹ جائیگا‘‘۔ ہم نے یہ خبر اپنے اخبار میں لگائی تھی، دعوتِ اسلامی کے مبلغ کی ویڈیو دستیاب ہے کہ ’’ روزے میں استنجاء کرتے ہوئے کھل کر نہ بیٹھو اور سانس زورسے نہیں آہستہ لو، ورنہ پانی اندر داخل ہوگا، روزہ ٹوٹ جائیگا‘‘۔
الم ےأن للذین اٰمنوا ان تخشع قلوبھم لذکر اللہ وماانزل من الحق ولا یکونوا کالذین اوتواالکتٰب من قبل فطال علیھم الامد فقست قلوبھم وکثیر منہم فٰسقونO اعلمواان اللہ یحی الارض بعدموتھا قد بیّیّنا لکم الاٰےٰت لعلم تعقلونO ان المصدقین والصدقٰت واقرضوا اللہ قرضاًحسناً یضٰعف لہم و لھم اجر کریمOوالذین اٰمنواباللہ و رسلہ اولئک ھم الصدیقون الشہداء عند ربھم لھم اجرھم ونورھم والذین کفروا و کذبوا باٰےٰتنا اولئک اصحاب الجحیمO ۔۔۔ ۔۔۔
’’ کیا وہ وقت نہیں آیا کہ ایمان والوں کے دل اللہ کی یاد میں گڑ گڑائیں؟۔ اور جو اللہ نے حق نازل کیا ( اس کی طرف متوجہ ہوکر اس کو قبول کرلیں)؟۔ اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوں جن کو کتاب میں ملی تھی پہلے۔ پھر ان پر بڑی عمر گزر گئی ،تو سخت ہوگئے ان کے دل ، اور ان میں اکثر فاسق تھے۔ جان رکھو کہ بیشک اللہ زندہ کرتا ہے زمین کو اسکے مرجانے کے بعد۔ ہم تمہارے لئے کھول کرواضح کرتے ہیں آیات تاکہ تم عقل سے کام لو۔ بیشک قربانی دینے والے مردوں اور خواتین اور جو اللہ کو قرضِ حسنہ دیتے ہیں اللہ تعالیٰ اس کو ضرب دیکر بڑھاتا ہے اور ان کیلئے عزت کا بدلہ ہے۔ جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں ، یہی لوگ صدیقین اور شہداء ہیں اللہ کے نزدیک۔ ان کیلئے ان کا اجر بھی ہے اور ان کا نور بھی ہے۔ اور جولوگ کفر کریں اور ہماری آیتوں کو جھٹلا دیں تو وہ لوگ جہنم والے۔ جان رکھو کہ بیشک دنیا کی زندگی کھیل ، لہو ، زینت اور آپس میں ایکدوسرے پر تفاخر اور اموال واولاد میں بہتات کی باتیں ہیں، اس کی مثال بارش کی ہے جو اچھی لگتی ہے کفار کو، اس کا سبزہ ہے، پھر زور پکڑتاہے، پھر آپ دیکھتے ہو کہ زرد ہوگیا اور پھر ہوجاتا ہے روندا ہوا گھاس۔ اور آخرت میں سخت عذاب ہے اوراللہ کی طرف سے مغفرت اور رضامندی۔ اور دنیا کی زندگی کیا ہے مگر غرور کی گزر بسر۔ دوڑو، اپنے رب کی معافی کی طرف اور جنت کی طرف جس کا عرض آسمان وزمین کے عرض کی طرح ہے۔ جو تیار کی گئی ہے ،ان لوگوں کیلئے جو اللہ اور اسکے رسولوں پر ایمان لائے۔ یہ اللہ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے ،دیدیتاہے اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے۔ کوئی مصیبت نہیں پڑتی زمین میں اور نہ تمہاری جانوں میں مگر پہلے سے کتاب میں ہے جس کو ہم صورتحال میں پیدا کردیتے ہیں۔ اور یہ اللہ پر آسان ہے۔ یہ اسلئے تاکہ تم افسوس نہ کرو کہ جس کو تم کھو چکے ہواورتاکہ فخر نہ کرو جو اللہ نے دیا ہے۔اور اللہ پسند نہیں کرتا ہے ہر فخر کرکے اترانے والے کو ۔جو خود بھی بخل کرتے ہیں اور لوگوں کو بھی بخل کرنے کا حکم دیتے ہیں‘‘۔(سورہ الحدید)
ان آیات میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی نشاندہی ہے۔ جس وقت تمام مسلمان اللہ کے احکام کی طرف متوجہ ہوئے اور دنیاوی زندگی کی لہوولعب، زینت اور آپس کے تفاخر کو چھوڑ کر اللہ کی طرف متوجہ ہوئے۔ اہل کتاب کی روش کو چھوڑ دیا تو مسلمانوں کی دواقسام ہوں گی۔ ایک قسم وہ ہوگی جن کے ذریعے اللہ نے اپنے دین کو زندہ کیا ہو اور دوسرے وہ ہوں گے جنہوں نے بعد میں اس مشن کو اپنایا ہو۔ دونوں میں سے سبقت لے جانے والوں کو بھی اپنے کردار پر فخر کی ضرورت اسلئے نہیں کہ اس میں ان کا کوئی ذاتی کمال نہیں، محض اللہ کی عطا ہے، جس کا فیصلہ پہلے سے تقدیرالٰہی میں ہوچکا تھا۔ اور جن لوگوں نے پہلے کردار ادا نہیں کیا وہ بھی اس پر افسوس نہ کریں جو وہ کھوچکے ہیں۔ دونوں طبقات میں کوئی چیز قابلِ فخر اور اترانے کی نہیں ہے۔ رائٹر نے جو اسکرپ لکھ دی تھی اس کو اللہ نے منصہ شہود پر لانا تھا۔ مخالفین کی طرف سے مخالفت کا حق ادا نہ کیا ہوتا اور حق کا علمبردار طبقہ اپنے مؤقف پر ڈٹا نہ رہتا تو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کیلئے دنیا میں حالات کبھی نہ بنتے۔ یہ اللہ کی اپنی حکمتِ عملی تھی جس کا ظہور ہوگیا۔مگر جولوگ فخر سے اتراتے ہیں اور خود بھی بخل سے کام لیتے ہیں اور دوسروں کو بھی بخل کا حکم دیتے ہیں۔ یہ لوگ ناپسندیدہ اور اسلام کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے سورۂ واقعہ میں بھی اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی خبر دی۔ لوگوں کی تین اقسام کا ذکر فرمایا ہے، دائیں جانب والے،بائیں جانب والے اور سبقت لے جانے والے۔سبقت لے جانوں والے پہلوں میں بہت اور نشاۃ ثانیہ میں کم ہونگے۔ دائیں جانب والے پہلے میں بھی بڑی جماعت ہوگی اور آخر والوں میں بھی بڑی جماعت ہوگی۔ تینوں کی تفصیلات بھی بیان کی گئی ہیں۔ سورۂ الحدید میں پہلے وضاحت فرمائی ہے کہ لایستوی منکم من انفق من القبل الفتح وقٰتل اولئک اعظم درجۃ من الذین انفقوا من بعد وقٰقلوا وکل وعداللہ الحسنٰی واللہ بماتعلون خبیرO ’’ برابر نہیں جنہوں نے فتح سے قبل خرچ کیا اور لڑائی لڑی ، ان لوگوں کا بڑا درجہ ہے ان لوگوں سے جنہوں نے فتح کے بعد خرچ کیا اور لڑے اور ہر ایک کے ساتھ اللہ نے اچھا وعدہ کیا ہے اور جو تم کرتے ہو اللہ اس کو جانتاہے‘‘۔ پھر دعوت دیتے دیتے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی طرف متوجہ کیا ہے۔ کاش فتوحات کے دروازے کھلنے سے پہلے جوق در جوق مسلمان اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی طرف آجائیں اور اجر پالیں۔
پھر سورہ حدید کے آخرمیں فرمایا: لقد ارسلنا رسلنا بالبینٰت وانزلنا معھم الکتٰب والمیزان لیقوم الناس بالقسط وانزلنا الحدید فیہ بأس شدید ومنافع للناس ولیعلم اللہ من ینصرہ و رسلہ بالغیب ان اللہ لقوی عزیزO ولقد ارسلنا نوحاً وابراھیم وجعلنا فی ذریتھما النبوۃ والکتٰب فمنھم مھتد وکثیرمنھم فٰسقونO
’’ ہم نے اپنے رسولوں کو نشانیوں کیساتھ بھیجا، ہم نے انکے ساتھ کتاب نازل کی اور میزان ، تاکہ لوگ انصاف کیساتھ کھڑے ہوں،ہم نے لوہا اتارا، اس میں سخت معاملہ ہے اور لوگوں کیلئے منافع۔ تاکہ اللہ جان لے کہ کون اسکی مدد کرتاہے اوراسکے رسولوں کی، غیب پر ایمان رکھ کر۔ بیشک اللہ زبردست طاقتور ہے۔ بیشک ہم نے نوح کو بھیجا اور ابراہیم کواور ان کی اولاد میں نبوت رکھ دی۔ ان میں سے ہدایت والے بھی ہیں اور اکثر ان میں فاسق ہیں‘‘۔
ہدایت کیلئے دوباتوں کا ہونا ضروری ہے۔ اللہ کی نازل کردہ کتاب اور اس کی دی ہوئی میزان، جو انسانی فطرت میں ودیعت ہوتی ہے۔ جب انسان کا توازن بگڑ جائے تو وہ مرفوع القلم ہوتاہے۔ فہم وفراست کیلئے انسانی ذہن اور دل کی ساخت بھی قدرت کی عظیم عطاء ہے ۔والسماء رفعھا ووضع المیزانO الا تطعوا فی المیزان O واقیموا الوزن بالقسط و لاتخسرواالمیزانO نظام کائنات کے بارے میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ اگر بہت ہی معمولی قسم کا توازن بگڑ جائے تو ایک خوفناک تصادم سے سب کچھ ختم ہوجائے۔ ناپ تول کے ہر پیمانے سے معاشی نظام چل رہاہے۔ پیٹرول بجلی ، گیس، ٹیکسی کے میٹر، موبائل کے بیلنس، ادویات کی اجزاء ، روڈ و بلڈنگ میں ناقص کارکردگی سب کچھ میزان میں خسارہ ہے اور جس قوم کا معاشی سسٹم درست ہوتو اس کا معاشرتی اور عدالتی نظام پر بھی اثر پڑتا ہے ، معاشرتی اور عدالتی نظام میں بھی فطری تقاضا میزان ہی ہے۔ درسِ نظامی کے نصاب کی اصلاح شدت سے محسوس کی جارہی ہے، حکمرانوں کی کرپشن سے پہلے اسلام کی درست تصویر عوام کے سامنے لائی جائے۔ علماء حق کا احسان ہے کہ قرآن وسنت کی زبردست حفاظت کی مگراب سب کو اس پر عمل بھی کرنا پڑے گا۔
دنیا میں کرنسی کی قیمت میں بھی توازن ضروری ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اپنی کرنسی کو متوازن رکھنا ضروری سمجھتے ہیں۔ امپورٹ و ایکسپورٹ کے کاروبار کا دارومدار کرنسی کی مقامی قیمت پر ہوتاہے۔ پاکستان میں عرصہ سے ماہرین کی رائے میں پاکستانی روپیہ کی قیمت جبری طور پر اپنی اوقات سے زیادہ رکھی گئی ہے۔ نوازشریف کے خلاف فیصلہ آنے سے دس دن پہلے آئی ایم ایف نے کہا کہ ’’ پاکستان اپنی کرنسی کی قیمت کم کردے‘‘۔ کرنسی کی مصنوعی قیمت بڑھانے سے ایکسپورٹ کا کاروبار ٹھپ ہوگیاہے، ملکوں کی ترقی میں ایکسپورٹ زیادہ اہم کردار ادا کرتاہے، اسلئے دوسرے ممالک اپنی کرنسی کی قیمت مصنوعی طور پر بڑھانے سے پرہیز کرتے ہیں۔ روپے کی قیمت کم کردی جائے تو مہنگائی بڑھ جائے گی لیکن ملکوں کو دھوکے اور فراڈ سے چلانے کا خمیازہ بھگتنا پڑتاہے۔ اس وجہ سے حکمران کا دھوکہ باز اور فراڈیہ ہونا خطرناک اور فطری بات ہے۔
نااہل وزیراعظم کی موجودہ حکومت سے پہلے پاکستان کا مجموعی قرضہ 30 ارب ڈالر تھا اور اب 48ارب ڈالر تک پہنچ چکا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا دامن صاف تھا،گرچہ بھائیوں کو غلے میں پیسے لوٹادئیے ۔ زلیخانے جھوٹا الزام لگایا، حضرت یوسفؑ نے کہا کہ ’’میں اپنے نفس کوبری نہیں سمجھتااللہ نے بچایا‘‘ حضرت موسیٰ علیہ اسلام پر الزام لگا کہ خصیہ نہیں اسلئے چھپ کر نہاتاہے، پتھر نے کپڑے اٹھائے اور لوگوں نے موسیٰ علیہ السلام کو ننگا دیکھ کر الزام واپس لیا، الزام ختم ہونے کی جوقیمت چکائی جائے تو سودا سستا ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ سے قتل بھی ہوا تھا لیکن اس کا مقدمہ نہیں چلا۔ ضمیر مطمئن نہیں تھا جبھی تو معجزات کے باوجود جانے سے ڈر لگ رہا تھا۔ اگر نوازشریف کو پاکدامنی کا دعویٰ ہے تو ٹرائل کورٹ کو اپنی بے عزتی نہ سمجھے اور اگر عزت کا خیال ہے تو اپنے تمام اثاثہ جات ظاہر کرکے قوم کو لوٹادے، زرداری بھی یہ کریگا، سول وملٹری بیوروکریسی بھی اپنی ساری دولت پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے پیش کردیں۔ عتیق گیلانی

رجوع کا تعلق عدت سے : کے ٹھوس دلائل. اداریہ نوشتہ دیوار

ruju-fatwa-hazrat-umer-hazrat-ali-imam-abu-hanifa-halala-teen-talaq-triple-talaq-quran-syed-atiq-ur-rehman-gailani

1: للذین یؤلون من نساءھن تربص اربعۃ اشہر فان فاؤا فان اللہ غفور رحیمOوان عزموا الطلاق فان اللہ سمیع علیمO
’’اورجو لوگ اپنی عورتوں سے نہ ملنے کی قسم کھالیں، ان کیلئے چارماہ کا انتظار ہے، اگر آپس میں مل گئے تو اللہ مغفرت والا رحم کرنے والا ہے ۔ اور اگر ان کا عزم طلاق کا تھا تو اللہ سننے اور جاننے والا ہے‘‘۔ البقرہ: 226،227
اس آیت سے پہلے اللہ نے وضاحت کی کہ اللہ تمہیں لغو قسم سے نہیں پکڑتا۔ مگر جو تمہارے دلوں نے گناہ کمایا ہے۔ دلوں کا گناہ یہ ہے کہ طلاق کا عزم تھا تو اس کا اظہار کیوں نہیں کیا؟۔ اسلئے کہ طلاق کے عزم کا اظہار کرنے پر عدت تین ماہ ہے اور عزم کا اظہار نہ کرنے کی وجہ سے ایک ماہ مدت بڑھ گئی۔
2: المطلقٰت یتربصن بانانفسھن ثلاثۃ قروء ۔۔۔ وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحا’’طلاق والی 3مرحلے تک انتظار کریں۔ (3طہروحیض یا3ماہ تک) اور ان کے شوہروں کو اس مدت میں ان کو صلح و اصلاح کی شرط پر لوٹانے کی اجازت ہے‘‘۔ البقرہ: 228
مندرجہ بالا آیات میں طلاق کی زیادہ سے زیادہ انتظار کی عدت 4ماہ اورکم ازکم 3ماہ واضح کی گئی ہے اور عدت سے رجوع کا تعلق بھی جوڑ دیا گیاہے۔ کیا کوئی اس سے منکر ہوگا کہ اللہ نے رجوع کا تعلق عدت سے نہیں جوڑا؟۔
خلفاء راشدینؓ فیصلہ اور فتویٰ سب سے پہلے قرآن سے دیتے تھے۔ جب حضرت عمرؓ کے دربار میں ایک ساتھ تین طلاق کا تنازعہ پہنچاتو عورت رجوع پر آمادہ نہیں تھی اور شوہر رجوع کرنا چاہتا تھا، حضرت عمرؓ نے قرآن اور سنت سے فیصلہ دینا تھا، یہی فطرت کا تقاضہ بھی تھا کہ عورت کی رضا کے بغیر رجوع نہیں کرسکتا، دنیا کی ہر عدالت یہی فیصلہ دیتی ہے۔ حضرت علیؓ کا بھی تنازع میں یہ فتویٰ تھا لیکن حضرت علیؓ نے یہ وضاحت بھی فرمادی کہ باہمی رضامندی سے ایک ساتھ تین طلاق کے باوجود بھی رجوع ہوسکتاہے۔ عورت پر یہ بڑا احسان تھا کہ اس دور میں اس کی مرضی کا فیصلہ دیا گیا، مردوں کی جہالت اس قدر تھی کہ بس چلتا تو اپنی بیوی کا حلالہ کرواکر بھی اپنی جاگیر سے نہ نکلنے دیتے۔ اب بھی یہ معاملہ چل رہاہے لیکن حضرت عمرؓ نے حلالہ کروانے پر بھی سنگسار کرنے کا حکم دیا تھا۔ عورت راضی نہ ہو تو رجوع کا فتویٰ دینا بہت بڑی زیادتی ہے مگر عورت راضی ہو اور قرآن میں اجازت ہو تو حلالہ کا فتویٰ دینا بے غیرتی ہے۔
3: الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف او تسریح باحسان
’’طلاق دو مرتبہ ہے پھر معروف طریقہ سے روک لینا ہے یا احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے‘‘۔ البقرہ:229۔ یہ آیت اس سے پہلے والی آیت کے تناظر میں ہے کہ عدت کے طہرو حیض کی صورت میں تین مراحل ہیں۔ پہلے دو مرتبہ کی طلاق کا تعلق عدت کے پہلے دو مرحلوں سے ہے۔ نبیﷺ نے حضرت عمرؓ کے عرض کرنے پر عبداللہ ابن عمرؓ کو غضبناک ہوکر یہی مسئلہ سمجھایا تھا۔ بخاری کی احادیث ہیں۔ معروف رجوع کا معنی بھی باہمی رضا صلح و اصلاح کی شرط ہے اور اس سے رجوع کی وہ منکر صورتیں مراد نہیں جو فقہ کی کتابوں میں شافعی اور حنفی مسلکوں میں اختلافات کے حوالہ سے درج ہیں ایک کے نزدیک نیت نہ ہو تو مباشرت سے رجوع نہ ہوگا اور دوسرے کے نزدیک نیند میں شہوت سے ہاتھ لگ جائے تو بھی رجوع ہوگا، عورت اور مرد کسی کی بھی شہوت معتبر ہوگی ۔
4: ولایحل لکم ان تأخذوا مما اتیتموھن شئی الا ان یخافا الا یقیما حدود اللہ و ان ختم الا یقیما حدوداللہ فلا جناح علیھما فیماافتدت بہ تلک حدود اللہ فلا تعتدوھا ومن یتعد حدوداللہ فأولئک ھم الظلمونOفان طلقہافلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ ’’اور تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے ،اس میں سے کچھ بھی واپس لو ۔ الا یہ کہ دونوں کو خوف ہو کہ اسکے بغیر اللہ کی حدود پر دونوں قائم نہ رہ سکیں گے۔ اور اگر (اے جدائی کا فیصلہ کرنے والو) تم یہ خوف رکھو کہ وہ اس چیز کو واپس کئے بغیر دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو عورت کی طرف سے وہ چیز فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں۔ یہ اللہ کے حدود ہیں ان سے تجاوز نہ کرو، جو ان سے تجاوزکرے تو وہی لوگ ظالم ہیں اور اگر اس نے طلاق دیدی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی اور سے نکاح کرلے‘‘۔ البقرہ:229،230۔ آیات کے ربط اور ترتیب کی بڑی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرتا، سوائے غلام احمد پرویز کے، وہ اپنی ڈگڈگی بجاتا ہے۔ آیت229کا پہلا حصہ آیت 228کی وضاحت ہے۔ تیسرے مرحلہ کی عدت میں رجوع کا ارادہ ہوتو معروف رجوع کیا جاسکتاہے، اور چھوڑنے کا پروگرام ہو تو تسریح باحسان ہی تیسرے مرحلہ میں تیسری طلاق ہے۔ لیکن تیسرے مرحلے میں تیسری طلاق دی تو بھی عدت میں رجوع سے اسلئے نہیں روکا جاسکتا ہے کہ قرآن میں تضاد نہیں اور عدت میں باہمی رضامندی سے ہی رجوع کو اللہ نے واضح کردیاہے۔ چونکہ ایک تو مرد عورت کو طلاق کے بعد بھی دوسری جگہ مرضی سے شادی نہیں کرنے دیتاتھا اور دوسرا یہ کہ علماء نے حلالہ کی لعنت کو امت پر مسلط کرنا تھا تو اللہ نے اس کا تدارک کرنے کیلئے ایک بیانیہ و مقدمہ بھی وضاحت کیساتھ بیان کردیا۔ جو حلال نہ ہونے سے پہلے بالکل ہی متصل ہے، فقہ حنفی کی اصولِ فقہ میں اس طلاق کو اسی فدیہ کے مقدمہ سے جوڑا گیاہے، علامہ ابن قیمؓ نے بھی حضرت ابن عباسؓ کی یہی تفسیر نقل کی ہے۔
5: اذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف او سرحوھن بمعروف ’’جب تم عورتوں کو طلاق دو،اور وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو معروف طرح سے رجوع کرلو یا معروف طرح سے روک لو‘‘،231
6:و اذا طللتم النساء فبلغن اجلھن فلاتعضلوھن ان ینکحن اذا تراضوا بیھم بالمعروف ’’اور جب عورتوں کو طلاق دو،اور وہ عدت کو پہنچ جائیں تو ان کو مت روکو کہ اپنے شوہروں سے ازدواجی تعلق قائم کریں، جب وہ آپس میں معروف طرح سے راضی ہوں۔ البقرہ :232
7:اذا طلقتم النساء فطلقوھن لعدتھن…… لاتخرجوھن من بیوتھن والایخرجن الا ان تأیین باحشۃ مبینۃ لعل یحدث بعد ذلک امراOواذاطلقتم النساء فبلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف او فارقوھن بمعروف واشھدوا ذی عدل منکم (سورۂ طلاق ، آیات 1اور2)۔ کیا کوئی حدیث قرآن کی آیات کے منافی ہوگی؟۔

قانون سے کوئی بالاتر نہیں. عاصمہ جہانگیر کا بیان اور تبصرہ

asma-jahangir-gulu-bat-shahbaz-sharif-model-town-case-army-chief-javed-qamar-bajwa-syed-atiq-ur-rehman-gailani

عاصمہ جہانگیر کی بات 100%درست ہے کہ اگر فوج کی طرف سے تحفظ کا یقین نہیں ہوتا تو ججوں نے نوازشریف کی نااہلی کا فیصلہ نہیں دینا تھا۔ واقعی نہیں دے سکتے تھے اگر عدلیہ کی پشت پر ریاست کی قوت نہ ہو تو بوڑھے ججوں کے اندر مولا جٹوں ، گلوبٹوں اور موٹے گینگ نکٹوں سے کشتی کرنے کی صلاحیت تو نہیں !۔ ضعیف العمری و ییرانہ سالی میں محترمہ سٹیا گئیں یا مُلا کی طرح معاوضے کی آذان دے رہی ہیں؟۔ نوازشریف، شہبازشریف اور تمام ن لیگی رہنما عدالت کیخلاف سینہ سپر تھے۔ آرمی چیف کی وضاحت درست تھی کہ عدالت کا جو بھی فیصلہ آیاتو قابلِ عمل ہونا چاہیے۔ کیا آرمی چیف اور نوازشریف کے رشتہ دار آئی ایس آئی چیف یہ کہتے کہ نوازشریف ہمارا لاڈلہ بچہ ہے ، بگڑا ہوا ہے تو کیا ہوا؟۔ ماڈل ٹاؤن کی پولیس کے ہمراہ گلو بٹ نے کیمرے کی آنکھ کے سامنے ڈنڈا برسایا اور گاڑیوں کے شیشے توڑ دئیے ، گولی کا نشانہ بننے والے خواتین و حضرات بڑی تعداد میں زخمی، معذور اور 14شہید ہوگئے۔ کیایہی نوازشریف کو ملنے والے فوجی بٹ مین بھی ادا کرتے تو اچھا ہوتا؟۔
آپ چاہتی کیا ہیں؟۔ کرپشن پر پہلی مرتبہ ہی ہاتھ پڑنے والا ہے تو پیٹ میں درد شروع ہوا، اپنا دوپٹہ نواز شریف کو پہنادیں، شہباز شریف کی ہیٹ پہن کر شاہد خاقان عباسی کی جگہ پر خود وزیر اعظم بن جائیں۔ پھر ججوں کو اٹھا کر جہاں پھینکنا چاہیں وہاں پھینک دیں۔
دوججوں نے پہلے ہی نااہل قرار دیا تھا جس پر مٹھایاں تقسیم کی گئیں۔ سلمان اکرم راجہ اپنی وکالت سے پہلے کہہ رہاتھا کہ پارلیمنٹ اور قطری خط کے تضاد پر جج وزیراعظم کو نااہل کرسکتے ہیں، یہ ان کا صوبدید ہے کہ نااہل کریں یا چھوڑدیں۔ 62،63کے اطلاق میں فرق ہے۔ ایک شخص اپنے طورپر دن بھر بدبودار پھوسیاں مارتا رہے مگر جب وہ نماز پڑھے گا تو وضو کے ٹوٹنے پر مقدس مسجد سے جانا پڑے گا۔ پھر جب نماز کی امامت کررہا ہو اور پھر زوردار ہوا کی آواز بھی گونج اُٹھے تو خود ہی نماز چھوڑ کر کسی کو نائب مقرر کرنا چاہیے۔ یہ نہیں کہ عوام اضطرابی کیفیت سے دوچار ہوں اور جب تک کوئی کان سے پکڑ کر نکال باہر نہ کرے وہ ڈٹا رہے۔ محترمہ ذرا سوچئے!
عاصمہ جہانگیرومولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ ہم سمجھتے تھے کہ بہت مال نکلے گامگر اقامہ نکل آیا۔ مال کے چارجزلگانا ٹرائل کورٹ کا کام ہے جس میں اپیل کا بھی حق ہوگا۔