مئی 2022 - Page 2 of 2 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر عالمی سُودی نظام سے کیسے چھٹکارا مل سکتا ہے؟۔

پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر عالمی سُودی نظام سے کیسے چھٹکارا مل سکتا ہے؟۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

ہمارے ملک کا مین سٹریم میڈیا چنداشخاص کے گرد گھومتا ہے۔ نوازشریف، مریم نواز، شہبازشریف، حمزہ شہباز، آصف علی زرداری ، بلاول بھٹو، عمران خان اور مولانا فضل الرحمن ۔ مستونگ میں دو،ڈھائی سو بلوچ سراج رئیسانی کیساتھ مارے گئے لیکن میڈیا دکھا رہاتھا کہ نوازشریف اور مریم نواز لاہور ائرپورٹ پہنچ رہے ہیں اور شہبازشریف لاہور کی گلیوں میں جلوس گھمارہے ہیں لیکن اپنے اس ہدف تک نہیں پہنچ پارہے ہیں یا جان بوجھ کر ایک وزیراعلیٰ ہونے کے باوجود ایک ڈرامہ رچا رہے ہیں۔ پھر قوم نے انتخابات اور اسکے نتائج دیکھے اور عمران خان وزیراعظم بن گئے۔ پھرPDMبن گئی، پرویزالٰہی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ اور شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے کی بات سامنے آئی لیکن مریم نواز کیلئے قابل قبول نہیں تھا اسلئے اس نے کھل کر کہا کہ ” عمران خان کو ہم شہید نہیں ہونے دیں گے”۔ پھر اب عمران خان کو بھی شہید کردیا گیا ہے اور پرویز الٰہی کی ساکھ بھی ختم ہوگئی ہے اور حمزہ شہباز بھی بہت تذلیل کیساتھ وزیراعلیٰ کے منصب پر بیٹھ گئے ہیں۔ ان لوگوں کا ماٹو یہ ہے کہ عزت آنی جانی چیز ہے کوئی عہدہ ومنصب ملنا چاہیے۔ اب پیپلزپارٹی، ن لیگ، جمعیت علماء اسلام ، ایم کیوایم اور بلوچستان کی قوم پرست و باپ پارٹی میں وزارتیں تقسیم ہوگئی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کو اپنے بیٹے کیلئے جو وزارت چاہیے تھی اس پر اکرم خان درانی پہلے بھی اپنی کاروائی دکھا چکے ہیں اور اس میں لین دین ، کھانچوں ، مال کمانے اور مفادات اٹھانے کے سارے سربستہ حقائق معلوم ہیں۔ یہ سیاست اور مذہب نہیں بلکہ منافع بخش کاروبارہے۔اس سلسلے کو چلتا اسلئے رہنا چاہیے کہ اب یہ خانوادے اسکے بغیر جی نہیں سکتے ہیں۔

پرویزمشرف نےIMGسے6ارب ڈالر کا قرضہ لیا تھا۔ آصف زرداری نے16ارب ڈالر تک پہنچادیا۔ نوازشریف نے30ارب ڈالر تک پہنچادیا اور عمران خان48ارب ڈالر تک پہنچادیا۔ جس کا گردشی سود بھی قریب قریب اپنے ملک کے کل آمدنی ٹیکس کے برابر ہے۔ یہ سارے قرضے ملک کی اشرافیہ کے نذر ہوجاتے ہیں ۔ عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ اور ڈالر کی قیمت بڑھنے سے روپیہ کی قدر کم ہوجاتی ہے۔ سودی قرضوں پر سودی قرضے لینے کے نتائج عوام بھگت رہی ہے لیکن ہماری اشرافیہ اور مقتدر طبقہ ٹس سے مس نہیں ہورہاہے۔ دلّوں اور دلّالوں کو بدلتا ہے لیکن نظام کی تبدیلی کی طرف کوئی توجہ دینے کی کوشش نہیں کرتا ہے۔
پدو مارنے سے نظام کی تبدیلی ممکن ہوتی تو سب کو بے عزت ہوکر اقتدار سے نکلنا نہ پڑتا۔ جو بھی آئے گا اس کی خیر نہیں ہوگی۔ جب تک کہ نظام کو تبدیل نہیں کیا جاتا ہے۔ شہبازشریف آٹا سستا کرنے کیلئے اپنے کپڑے بیچنے کی بات کرکے جو ڈرامہ بازی کررہاہے تو اس سے اہل بصیرت کو اندازہ لگانا چاہیے۔
رسول اللہ ۖ نے سود کی حرمت والی آیات کے نازل ہونے کے بعد سب سے پہلے زمینوں کو کاشتکاروں کیلئے فری کردیا ۔ جس سے دنیا میں غلامی کا نظام دنیا میں قائم تھا۔ جنگ بدر میں70قیدی بنائے گئے مگر کسی ایک کوبھی غلام نہیں بنایا اور نہ غلام بنانے کا سوچا جاسکتا تھا اسلئے جنگی قیدی کو غلام بنانے کا مفروضہ قطعی طورپر غلط ہے۔جنگی قیدی کو قتل کیا جاسکتا ہے، رہاکیاجاسکتا ہے یاپھر قید میں رکھا جاسکتا ہے۔قرآن نے یہ اجازت دی کہ جنگی قیدی کو فدیہ لیکر یا بغیر فدیہ کے احسان کرکے آزاد کیاجاسکتا ہے۔ابھی نندن کو قرآن کے حکم کے مطابق ہی چھوڑ دیا گیا تھا۔ ہمارا کوئی قیدی ہوتا تو تبادلے کی گنجائش بھی موجود ہوتی۔
اسلام دنیا اور مسلمانوں کیلئے قابلِ قبول نظام ہے لیکن اس کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا گیا ہے۔ بیس سال بعد شریعت کورٹ نے سود کے خلاف فیصلہ دیا اور وہ بھی صرف انٹرسٹ (سود) کے لفظ کی جگہ کوئی اور لفظ لکھنے کیلئے۔ کیس لڑنے اور جیتنے والے جماعت اسلامی اور تنظیم اسلامی کو شرم بھی نہیں آتی ہے جو اسلامی بینکاری کے ایجنٹ بن کر کام کررہے ہیں۔ سود کے عملی کام سے زیادہ خطرناک اسکو جواز فراہم کرنا ہے۔ آج ہمارا عدالتی، ریاستی اور معاشرتی نظام تنزل وانحطاط کا شکار ہے اور سب سے عوام کا اعتبار اُٹھ گیا ہے۔ تحریک انصاف کے غلام سرور اور شہر یار آفریدی نے پارلیمنٹ پر خود کش حملے کی بات کردی تھی۔ شاری بلوچ نے خود کش حملہ کردیا۔ مین سٹریم میڈیا چنداشخاص اور مفادات کے گرد گھومتا ہے لیکن وائس آف امریکہ،BBCاور سوشل میڈیا کے ذریعے بڑی تعداد میں عوام کے ذہنوں کو بتدریج بالکل اُلٹ کر رکھ دیا گیا ہے۔ اگرچہ منظور پشتین جیسے لوگ بھی بیرونی میڈیا کی کوریج سے خوش ہوکر طلسماتی دنیا کے شکار ہوگئے ہیں اور عوام کا اصل اعتماد وہ کھوچکے ہیں۔ اگر بلوچستان اور دیگر سیاسی جماعتوں سے معاہدہ کیا تھا کہ الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے تو علی وزیر اور محسن داوڑ کو الیکشن میں حصہ لینے پر فارغ کردینا چاہیے تھا۔ محسن داوڑ اور علی وزیر کی راہیں بھی جدا کردی گئیں اور جب ارمان لونی کے جنازے سے واپسی پر وزیروں کا جلسہ ہوا تھا تو علی وزیر اور محسن داوڑ اس میں جاسکے تھے لیکن منظور پشتین کو اجازت نہیں ملی تھی۔
اسٹیبلشمنٹ کے حامی مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف باقی سب کو امریکہ کے ایجنٹ قرار دیتے تھے۔ANPکے بشیر بلور شہید سمیت کتنے رہنما و کارکن شہید کئے گئے۔آصف علی زرداری،MQM، محمود خان اچکزئی،PTM، مولانا فضل الرحمن ، بلوچ قوم پرست اور فوج کی سیاسی مداخلت پر غدار اور امریکہ اور بھارت کا ایجنٹ قرار دئیے جاتے تھے اور اب وہی صحافی عمران خان کو دوبارہ لانے کیلئے پاک فوج کو امریکہ ایجنٹ قرار دیتی ہے۔ کلاچی کے گنڈہ پوروں نے ایک لطیفہ بنایا تھا کہ ایک خاندان کے لوگ تھانیدار سے کسی بات پر نالاں تھے اور انہوں نے اس کی بے عزتی کا فیصلہ کیا۔ دوافراد تھانے میں گئے اور تھانیدار سے ایک نے کہا کہ اس نے میرا گدھا چوری کیا ہے۔ تھانیدار نے دوسرے سے پوچھا کہ سچ ۔ دوسرے نے کہا کہ یہ جھوٹ بول رہاہے۔ تھانیدار نے پہلے سے کہا کہ تمہارے گدھے کو کیسے چوری کیا ہے؟۔ اس نے کہا صاحب ! بطور مثال یہ سمجھو کہ آپ میرے گدھے ہو اور گند کی ڈھیر پر گوہ کھارہے تھے۔ اس نے تجھے کان سے یوںپکڑا اور چوتڑ پر لاتیں مارتے ہوئے تجھے ہنکاتا ہوا لے گیا۔ دوسرا شخص تھانیدار کے پیچھے کی طرف چلا گیا۔ تو پہلے نے کہا کہ اب تھانیدار کی ….. میں مت گھسو۔ دوسرے نے جواب دیا کہ تھانیدار کی ……میں میرا…… گھس رہا ہے۔ تھانیدار نے یہ دیکھ کر دونوں کو بھگادیا۔ امپورٹ حکومت اور کورٹڈاپوزیشن بھی سوچی سمجھے منصوبے کے تحت اسٹیبلشمنٹ کی بے عزتی میں لگے ہوئے ہیں۔
پرویزمشرف سے زیادہ ملک کو قرضوں اور مہنگائی کا شکار پیپلزپارٹی نے کردیا تھا اور پیپلزپارٹی کو چوکوں پرلٹکانے ، پیٹ چاک کرنے اور سڑکوں پر گھسیٹنے والی مسلم لیگ ن کی باری آگئی تو زرداری سے زیادہ سودی قرضے کے تحت ملک وقوم کو پھنسادیا اور پھر عمران خان کی حکومت آئی تو اس سے زیادہ قرضے لے لئے۔ عوام بیوقوف ہیں اور وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ہمارا معاشی نظام سود ی قرضوں پر چل رہا ہے تو بھلائی کے دن ہم کب دیکھ سکتے ہیں؟۔ جو حکومت سے باہر ہوتا ہے تو اس کو دانت نکال کر فوج کو گالیاں دینی پڑتی ہیں اور عوام سمجھتے ہیں کہ یہ انقلابی بن گیا ہے اور جو حکومت میں ہوتا ہے وہ فوج کے دفاع کو اپنا فرض سمجھتا ہے۔ جب عمران خان حکومت میں تھا تو نوازشریف اورPDMوالے فوج کو سب سے بڑی خطرناک بیماری کہہ کر جان چھڑانے کی بات کررہے تھے۔ لندن سے راشد مراد کا تعلق ن لیگ سے تھا اور کھریاں کھریاں کے نام سے فوج کی درگت بناتا تھا اور اب عمران خان والے دوسرے پیج پر آگئے ہیں۔ جب گھر میں تنگی ہوتی ہے تو بھائیوں میں بھی لڑائیاں ہوجاتی ہیں۔ جب تک ہمارے ملک کا اپنا معاشی نظام درست نہیں ہوگا تو یہ لڑائیاں، بدتمیزیاں اور بدتہذیباں چلتی رہیں گی۔کوئی بھی کسی اورکا خیر خواہ نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں اور فوج کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ اور بگاڑ پیدا ہوتا رہے گا لیکن اب معاملہ لگتا ہے کہ بہت خطرناک موڑ پر پہنچ گیا ہے اور بنے گی اور بگڑے گی دنیا یہی رہے گی کا کھیل ختم ہوا چاہتا ہے۔ دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان بھی افراتفری کا شکار ہوسکتا ہے۔
ریاست مدینہ نے سودکے خلاف آیات نازل ہونے کے بعد کاشتکاروں کو مفت میں زمینیں دیں تو محنت کش طبقہ خوش حال ہوگیا اور ان میں قوت خرید پیدا ہوگئی تو مدینے کا تاجر بھی خوشحال ہوگیا۔ مزارعین کی محنت کا صلہ دوگنا ہوگیا توپھر مزدور کی دیہاڑی بھی ڈبل ہوگئی۔ مدینہ عربی میں شہر کو کہتے ہیں ۔ یثرت تجارت کا مرکز بن گیا تو دنیا میں مدینہ کے نام سے مشہور ہوگیا اور اس ترقی کا سبب جب نبی کریم ۖ ہی تھے تو پیار سے لوگوں نے مدینة النبی کہنا شروع کردیا تھا۔ آج ہندوستان سے الگ ہوئے ہمیں75سال ہوگئے ہیں لیکن ان کے اور ہمارے نظام حکومت کے ڈھانچے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ پختونوں اور بلوچوں سے بڑا برا حال پنجاب اور سندھ کا ہے ، اب ابھی دادو میں زمین کے پانی کے مسئلے پر ایک گاؤں جلایا گیا ، جس میں بہت سارے بچے جھلس کر شہید ہوگئے۔ سندھ کی انقلابی خاتون ام رباب کے پاس باقاعدہ گاؤں کے افراد نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر شکایت کی کہ فلاں فلاں افراد نے پہلے دھمکی دی تھی اور پھر گاؤں کو جلا ڈالا ہے۔ جام عبدالکریم کے ہاتھوں ناظم جوکھیو کا بہیمانہ قتل اور مصطفی کانجو کے ہاتھوں ایک بیوہ کے اکلوتے بیٹے کا قصہ ایک مثال ہیں ورنہ سارے واقعات رپورٹ نہیں ہوتے ہیں اور یہی حال ہندوستان کے بہت سے علاقوں کا ہے۔
ہمارے ہاں لسانیت ، فرقہ واریت اور طبقاتی کشمکش نے سر اٹھالیا ہے اور ہماری قومی وحدت پارہ پارہ ہوگئی ہے۔ مہاجر، سندھی، بلوچ، پختون اور پنجابی کے علاوہ بریلوی، دیوبندی ، شیعہ اور اہلحدیث کے علاوہ پرویزی ، غامدی اور تبلیغی جماعت، سپاہ صحابہ، جمعیت علماء اسلام اور ایک ایک فرقے میں کئی کئی جماعتیں اور ایک ایک جماعت میں کئی کئی گروہ بندیوں کا تصور عام ہے۔ سیاسی جماعتوں کا حال بھی اچھا نہیں ہے۔ریاستی اداروں کا حال بھی ویساہی ہے۔
اس مرتبہ ایک منشور کے تحت آزاد ارکان الیکشن لڑیں اور اس منشور میں واضح معاشی اور اسلامی دفعات ہوں۔ جو آزاد ارکان بھی اس منشور پر منتخب ہوں تو وہ ایک آزاد حکومت بنائیں۔ اس منشور کے دفعات بطور مثال یہ ہوں۔
(1:) پورے پاکستان میں مزارعین کو کاشت کیلئے مفت میں زمینیں دی جائیں اور جہاں جہاں بھی فارغ زمین ہو ،اس پر کھیتی باڑی، باغات اور جنگلی درخت لگائے جائیں جس سے محنت کشوں کو معقول آمدنی ملے گی اورباہمت لوگوں کو بہت بڑا روز گار ملے گا اور کم ازکم اگر دنیا نے امداد روک دی تو لوگ بھوکے نہیں مریں گے۔ بدحال لوگ خوشحال ہوجائیں گے تو پاکستان بننا شروع ہوجائے گا۔
(2:) جہاں اختلاف کی گنجائش نہیں ہے وہاں ہمارا اتفاق نہیں ہورہاہے اور جس چیز میں اختلاف کی گنجائش ہے وہاں گنجائش کو ختم کرنے میں لگے ہیں۔ جب قرآن میں حضرت آدم سے لیکر خاتم الانبیاء ۖ تک انبیاء میں اختلاف کی گنجائش رکھی گئی ہے تو اولی الامر سے اختلاف کی گنجائش کیوں نہیں ہے؟۔ جب اللہ نے اپنی آیات سے سورہ مجادلہ میں ایک عورت اور نبیۖ کا مجادلہ ختم کردیا تو ان آیات سے امت مسلمہ کے مسالک کا اتفاق کیوں نہیں ہوسکتا ہے؟۔ فرقہ واریت اور سیاسی معاملات میں اتفاق رائے کی طرف لے جانے میں کوئی دقت نہیں ہے۔ سیاسی اختلافات بھی جلد ازجلد سمندر کی جھاگ کی طرح اُڑیں گے۔
(3:) قرآن میں کسی شادی شدہ عورت پربہتان لگانے کی سزا80کوڑے ہیں اور جب نبیۖ کی حرم ام المؤمنین پر بہتان لگایا گیا تو بہتان لگانے پر ان صحابہ کرام کو80،80کوڑے لگائے گئے جن میں نعت خواں حضرت حسان، حضرت مسطح اورحضرت حمنا بن جحش تھے۔ ہمارے ہاں کسی کی عزت کھربوں اور اربوں میں ہے اور کسی کی عزت کوڑیوں کے دام بھی نہیں ہے۔ اسٹیٹس کو توڑنے کیلئے ٹانگ اٹھاکر پدو مارنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ ہماری اشرافیہ کو قربانی بھی دینی پڑے گی ورنہ تو ایسا وقت آئے گا کہ وہ کہیں گے کہ کاش ہم اشرافیہ نہ ہوتے اور غریب لوگوں کی قسمت پر فخر کریں گے۔ محسود قوم اور وزیرستان کے لوگ بڑا خود پر فخر کرتے تھے اور طالبان کے مظالم نے ان کو مزید خراب کردیا تھا مگر جب آزمائش کے دروازے کھل گئے تو کہتے تھے کہ کاش ہم بھاگڑی ہوتے۔
(4:)نکاح وطلاق اور ایگریمنٹ کے مسائل میں اسلام کی تبلیغ اور اس پر عمل کریں گے۔ حلالے کی لعنت کا اسلام نے تصور بھی ختم کردیا تھا لیکن پھر جاہل طبقات کی بدولت یہ رسم رائج ہوگئی۔ ہماری تعلیم یافتہ قوم میں قرآن کے واضح مفاہیم کو سمجھنے کی بڑی صلاحیت ہے اور عورتوں کی عصمت دری کاقرآن نے حکم نہیں دیا ہے۔ اسلام کو غیر فطری بنانے اور سمجھنے والوں کا راستہ روکنا ہوگا۔
(5:) ماں باپ کی جدائی کے بعد بچوں کے مفاد میں قانونی اور معاشرتی بنیاد پر قرآن کے احکام پر عمل در آمد کرائیں گے۔ بچوں کی وجہ سے ماں باپ میں سے کسی کو بھی قرآن کے مطابق تکلیف پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
(6:)عدالت کے نظام کو ظالموں کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑیں گے اور عدالت کیلئے تاخیری حربوں کا استعمال بالکل ختم کردیں گے۔ آزاد عدلیہ کا اعلیٰ ترین تصور قائم کریں گے جس میں مداخلت کا کسی طرح سے بھی تصور نہیں رہے گا۔
(7:) پاک فوج کو سرحدات کی حفاظت اور جدید اسلحے کی ٹریننگ تک محدود کرنا ہوگا۔ شہروں میںپرتعیش ماحول میں رہنے والے جنگ کے قابل نہیں رہتے ہیں اور تجارتی مقاصد کیلئے فوج کی چھتری استعمال ہونے پر پابندی لگادیں گے۔ ٹول پلازے، روڈ کے ٹھیکے اور رہائشی کالونیاں اور پرائیویٹ کمپنیوں کے ملازم بن کران کو فائدے دلانے کے معاملات پر پابند ی لگادیں گے۔
(8:) کسی بھی مجرمانہ سرگرمی میں عدلیہ، فوج ، پولیس اور سول بیوروکریسی کا کوئی ملازم ملوث پایا جائے تو اس کو سرِ عام زیادہ سے زیادہ سخت سزا ملے گی۔
(9:) فوج کو پہلے مرحلے میں ڈسپلن قائم کرنے کیلئے ٹریفک پولیس سے لیکر سوشل میڈیا پر جھوٹی افواہیں پھیلانے والوں کیخلاف استعمال کیا جائے گااور علاقائی بدمعاشوں سے لیکر لینڈمافیا کے خاتمے تک سب معاملات درست کرنے کی کوشش ہوگی۔ ریاستی اداروں کی عزت و توقیر میں کارکردگی کو بنیاد بنایا جائیگا۔
(10:) مساجد کے ذریعے سے معاشرتی مسائل کے حل میں بنیادی کردار ادا کیا جائے گا۔ منشیات فروشی کے اڈوں اوران کے سرپرستوں کا خاتمہ کیا جائے گا۔ قوم ، ملک اور سلطنت کو زندہ باد پائندہ باد کی منزل مراد پر پہنچایا جائیگا۔
منشور کے نکات سوچ سمجھ کرباہمی مشاور ت سے طے کئے جائیں گے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

پاکستان میں انگریزی ڈھانچے کی جگہ اسلامی نظام کی روح کیسے پھونکی جاسکتی ہے؟۔

پاکستان میں انگریزی ڈھانچے کی جگہ اسلامی نظام کی روح کیسے پھونکی جاسکتی ہے؟۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

امریکہ نے پاکستان کے سفیر کو دھمکی دے کر اپنی سازش کی تکمیل کا کوئی منصوبہ تو نہیں بنایا؟۔ مذہبی اور لسانی انتہاء پسند و دہشت گرد تنظیموں کی کاروائیوں سے ملک و قوم کو اتنا نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہیں تھا جتنا ایک خط نے اپنا کرشمہ دکھایا ہے۔ اگر اس کی وجہ سے افرا تفری کی فضاء پھیل جاتی ہے اور ملک کا استحکام خطرے میں پڑ جاتا ہے تو یہ بڑی کامیاب سازش ہوگی۔ شہبا ز شریف اور عمران خان دونوں اسٹیبلشمنٹ کے سگے ہیں اور دوسروں کو سیکورٹی رسک کہنے والے اب خود سیکورٹی رسک بن چکے ہیں۔
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

سندھ کی معروف شخصیت نورالہدیٰ شاہ کی ٹوئٹ میں پاکستان کی زبردست عکاسی ہے جس میں فرح خان گوگی احتساب کے خوف سے بھاگی ہوئی ہے اور دوسری طرف خود کش بمبار شاری بلوچ نے وکٹری کانشان بنایا ہوا ہے۔
دوسری سائیڈ پر عیدالفطر کے دن کراچی میں بلوچ مسنگ پرسن کیلئے ایک بلوچ خاتون کی وائرل ویڈیو کی تصویر ہے جس میں وہ کہہ رہی ہیں کہ” بلاول بھٹو زرداری کیا جانتے ہیں کہ پرامن جدوجہد، مذمت اور مزاحمت کیا ہوتی ہے اور کوئٹہ سے کراچی اور کراچی سے اسلام آباد لانگ مارچ کیا ہوتا ہے؟۔ جب ماما قدیر اور فرزانہ مجید کیساتھ ہماری خواتین، مردوں اور بچوں نے پہلے کوئٹہ سے کراچی اور پھر کراچی سے اسلام آباد لانگ مارچ کیا تھا تو کن کن مشکلات سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ پرتعیش کنٹینر میں شراب پی کر بلاول بھٹو زرداری کراچی سے اسلام آباد مارچ کرتا ہے تو اس کو مذمت اور مزاحمت کا کیا پتہ چلتا ہے۔ پنجاب میں ہماری بیٹیوں ،ماماقدیر اور فرزانہ مجید پر ٹرک چڑھانے کی کوشش کی گئی تھی۔ بلاول بھٹو زرداری میں اگر بلوچ نسل اوپر سے کہیں ملتی ہے تو بلوچیت کا اظہار کرنے کیلئے ہمارے ساتھ یہاں سڑک پر بیٹھ جائیں”۔
جب اتنے بڑے لانگ مارچ کو بھی میڈیا میں کوئی اہمیت نہیں ملی کہ پہلے ماما قدیر کی قیادت میں کوئٹہ سے کراچی پیدل مارچ ہوا اور پھر جب ان کے مطالبے کو نہیں مانا گیا تو کراچی سے براستہ لاہور اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا گیا تھا لیکن نہ مطالبات مانے گئے اور نہ ہی میڈیا میں کوریج مل سکی تھی۔ شاری بلوچ کا تعلق پڑھے لکھے خاندان سے ہے اور وہ خود بھی ایک انتہائی پڑھی لکھی خاتون تھی اور ایک خوشحال گھرانے سے اس کا تعلق تھا اور تربت مکران میں سرداری نظام نہیں ہے۔ عوام کی توجہ لکھنے پڑھنے پر ہے۔ جہاں کا ہر لکھا پڑھا بندہ خود ہی سردار ہے۔ غوث بخش بزنجو، میرحاصل بزنجو اورڈاکٹر عبدالمالک کا تعلق بھی تربت سے ہے اور غوث بخش بزنجو کو بابائے جمہوریت کہا جاتا تھا۔ ڈاکٹر عبدالمالک نے بلوچ سٹودنٹ آرگنائزیشنBSOمیں اپنی جوانی گزاری۔ انقلابی سوچ کی آبیاری میں اپنا کردار ادا کیا اور پھر ڈھائی سال کیلئے وزیراعلیٰ بھی بن گئے لیکن انقلابی جوانوں میں اپنی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔ پنجاب وسندھ ،خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں یہ فرق ہے کہ بے نظیر بھٹو، زرداری، نوازشریف اور عمران خان جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو اسٹیبلیشمنٹ کیلئے بدترین کٹھ پتلی کا کردار ادا کرتے ہیں لیکن جونہی اقتدار سے باہر آتے ہیں تو انقلابی بن جاتے ہیں اور ان پر عوام کو بھی انقلابی ہونے کا یقین آجاتا ہے۔ بینظیر بھٹو نے بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان کی ایم آر ڈی میں مارشل لاء کے خلاف جدوجہد کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کے مقابلے میں جنرل ضیاء الحق کے دستِ راست غلام اسحاق خان کو اس وقت صدر بنایا تھا کہ جب صدر کے پاس حکومت کو ختم کرنے کے اختیارات تھے۔ نوازشریف نے اقتدار کیلئے چیف جسٹس آف پاکستان سید سجاد علی شاہ پر حملہ کرکے سپریم کورٹ کے پچھلے دروازے سے بھاگنے پر مجبور کیا تھا۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایکس ٹینشن دینے میں اپنا کردار ادا کرنے کے بعد جونہیPDMکے پلیٹ فارم سے موقع ملا تو آرمی چیف اور ڈی جیISIکو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ مسلم لیگ کے کارکنوں اور پنجاب کی عوام نے مان لیا کہ نوازشریف اب انقلابی بن گیا ہے۔ پھر عمران خان تسلسل کیساتھ فوج کیساتھ ایک پیج پر ہونے کا دعویٰ کرتا رہالیکن اب فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کے علاوہ ہر بات کی ذمہ داری فوج پر ڈال رہاہے اور فرح گوگی کی وکالت کررہا ہے تو پھر اس کی اپنی لیڈر شپ کہاں کھو گئی تھی؟۔ عمران خان نے اعتراف کیا کہ جنرل باجوہ اور فوج اگر نوازشریف کے خلاف عدالت کی مانیٹرنگ نہ کرتے تویہ سزا بھی نہیں ہوسکتی تھی جو اقامہ پر دی گئی ہے۔ جب پارلیمنٹ، میڈیا اور قطری خط کے علاوہ ناقابل تردید شواہد سے لندن کے ایون فیلڈ فلیٹ پر عدالت نے کوئی سزا دینے کے بجائے اقامہ پر سزا دی اور اس میں فوج کی پشت پناہی بھی تھی تو ایسے عدالتی نظام سے فرح گوگی کو کیا سزا مل سکتی ہے؟۔
عمران خان نے آخری بال تک مزاحمت کی جگہ آخر میں گورنر پنجاب کو ہٹادیا اور وزیراعلیٰ بزادر کو ہٹادیا اور اسد قیصر سے استعفیٰ دلواکر ایاز صادق کے ذریعے ووٹنگ کروائی۔ اب اس کے سوشل میڈیا کے جانثار عمران ریاض خان گوگی کہتا ہے کہ اب تک نام نہیں لیا نوازشریف تو نام بھی لیتا رہا لیکن جب ضرورت پڑی تو نام لیکر بھی بتائے گا کہ میرجعفر اور میر صادق سے مراد کون ہے ؟۔ اور وقار ملک بتارہاہے کہ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے ………..یہ سب کچھ کیاہے اور ان کو ڈیلیٹ کا بٹن دبا کر واپس اس پوزیشن پر جانا پڑے گا۔ حامد میر نے بھی جنرل رانی کے بزدل بچوں کی بات کی تھی ، مولانا فضل الرحمن نے بھی امریکہ کا حشر کرنے کی دھمکی دی تھی اور عمران خان بھی حقیقی آزادی کی بات کررہاہے۔
چہرے بدل رہے ہیں لیکن نظام نہیں بدل رہاہے۔ قرآن نے مردوں کیلئے الرجال قوامون علی النسائ” مرد عورتوں کے محافظ ہیں”کی بات فرمائی ہے۔ ایک دوسرے پر فضیلت کی وجہ تحفظ فراہم اور مال خرچ کرنا قرار دیا ہے۔ اس میں حکمرانی کی بات نہیں ہے۔ ملکہ سبا بلقیس اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے اپنے دور کی حکمران تھی جس نے حضرت سلیمان کے خوف سے اطاعت اسلئے قبول کی تھی کہ جب ملوک شہروں میں داخل ہوتے ہیں تو عزتدار لوگوں کی تذلیل کرتے ہیں۔ یہ امر واقع بیان کیا تھا۔ مرد وں کو اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے تحفظ اور مال خرچ کرنے کی جو ذمہ داری ڈالی ہے یہ امر واقع ہے۔ عورت کو بچے جننے ، دودھ پلانے اور پرورش کی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونا پڑتا ہے اور نازک اندام کی مالک ہوتی ہے اسلئے اس کی حفاظت کی ذمہ داری کی غیرت اللہ نے مردوں میں ودیعت فرمائی ہے۔ عورت فطری طور پر عاجز، صالحات اور اپنی عزتوں کی غیب میں بھی حفاظت کرنے والی ہوتی ہے اسلئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں حساس قسم کی فطرت رکھی ہوئی ہوتی ہے اور یہ بھی امر واقع ہے جو اللہ نے قرآن کی ایک ہی آیت میں بیان کی ہے۔ نظام کا بنیادی تعلق گھر کے ماحول اور قوانین سے چلتا ہے۔ میاں بیوی اور والدین اور بچوں میں ایک گھر کا ماحول ہوتا ہے تو نظام کیلئے اس سے ملک وقوم کا آئینہ دیکھا جاسکتا ہے۔ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے مگر جب ریاست ڈائن بن جائے تو لوگوں کو ڈراؤنے خواب کے علاوہ کیا دیکھنے کو مل سکتا ہے؟۔ حکمران کا کردار باپ کی طرح ہونے کے بجائے ڈائن کی زن مرید والا بن جائے تو قوم وملک کی اس میں کس طرح بھلائی ہوسکتی ہے؟۔
پاکستان دنیا کا وہ عظیم ملک ہے کہ جس سے پوری دنیا کو بدلنے میں دیر نہیں لگے گی لیکن ہمارا ماحول عمران خان کیساتھ سیتا وائٹ، جمائما، ریحام، پنکی پیرنی اور ان کے بچوں والا بن گیا ہے اور ڈاکٹر عامر لیاقت حسین اور اس کی بیگمات والا بھی سمجھا جائے تو ٹھیک ہے بلکہ مفتی عبدالقوی اور اسکے سیکنڈلز بنانے والیوں کا سمجھا جائے تو برا نہیں ہے اور یہی حال حمزہ شہباز اور عائشہ احد کے علاوہ تہمینہ اور شہبازشریف کا تھا۔ اس سے زیادہ کہو تو نعیم بخاری کی اہلیہ طاہرہ سید اور نواز شریف کو چھپاکر مولانا سمیع الحق اور میڈم طاہرہ کا جو سیکنڈل دکھایا گیا تھا۔
حال ہی میں افغان طالبان کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی کہ جس میں ایک مجاہد کہتا ہے کہ دنیا بھر سے کافروں کا خاتمہ ہمارا مشن ہے، جہاد جس سر زمین پر فرض ہوگا وہاں ہم پہنچیں گے اور جہاد کریں گے۔ ہم نے جہاد سے غیرملکی طاقتوں کو افغانستان سے مار بھگایا ہے لیکن پھر ویڈیو کی آواز میں خلل آگیا اور یہ اس وقت کی ویڈیو ہے کہ جب پاکستان سے افغانستان کو بہت بڑی تعداد میں اناج وغیرہ کا امدادی سامان پہنچایا گیا ۔ حال ہی میں امریکہ نے پاکستان کو افغانیوں کی مدد کیلئے بڑی رقم جاری کی تھی۔ افغانستان میں داعش کا وجود طالبان اورپاکستان کیلئے بہت بڑا خطرہ قرار دیا جاتا ہے لیکن افغان طالبان اور داعش کی سوچ یہی ہوسکتی ہے جو ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ ایک امیرالمؤمنین کو پوری دنیا کیلئے خود ہی نامزد کردیں۔ اگر عیسائیوں کا ایک پوپ ہوسکتا ہے تو مسلمانوں کا خلیفہ کیوں نہیں ہوسکتا ہے؟۔ صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے ادوار میں شیخ الاسلام اور مفتی اعظم نہیں ہوتا تھا لیکن اچھا یا برا کوئی نہ کوئی خلیفہ ہوتا تھا۔
جب پاکستان کی طرف سے دنیا کیلئے خلیفة المسلمین کا اعلان ہوجائے تویہ ایک اسلامی فریضہ کے طور پر پیش کیا جائے۔ افغانستان، ایران، سعودی عرب، ترکی اور تمام اسلامی ممالک کو جمہوری اور اسلامی بنیاد پر اس کو تسلیم کرنے کی بھی دعوت دی جائے۔ جو نامعلوم لوگ اپنی طرف سے کوئی خلیفہ مقرر کرکے دہشت مچائے ہوئے ہیں ان سے اس خطے اور مسلم دنیا کی اس فریضے سے جان چھوٹ جائے گی۔ جس طرح خلافت عثمانیہ کے دور میں ہندوستان کی مغلیہ سلطنت اور ایران ومصر اور حجازوغیرہ آزاد وخود مختار ریاستیں موجود تھیں اسی طرح سے پاکستان سے خلیفہ المسلمین کے تقرری کے بعد تمام ممالک کی خود مختاری کا وجود برقرار رہیگا۔ پھر جمہوری بنیادوں پر نہ صرف عالم اسلام بلکہ دنیا بھر کے سارے انسانوں کو جمہوری بنیادوں پر تابع فرمان بنانے کی کوشش کی جائے۔ مجھے یقین ہے کہ اسلام کے فطری نظام کو مسلمانوں سے پہلے مغرب کی حکومتیں قبول کرنے میں ہچکچاہٹ سے کام نہیں لیں گی۔ ہماری افواج، سیاسی اشرافیہ اور انقلابی اور باغی لوگوں میں ڈھیر ساری خوبیاں بھی ہیں اور کمزوریاں بھی ۔ جب خوبیاں ہم اجاگر کریں گے اور اپنی کمزوریوں پر قابو پالیں گے تو بہترین اور عزتدار انسان بن جائیں گے۔ ہم ایکدوسرے کی مخالفت اور دشمنی میں بہت کچھ کھو رہے ہیں لیکن تنزلی کی شکار قوم کو دلّوں اور دلّالوں سے عروج کی منزل پر نہیں پہنچاسکتے ہیں۔ اصحاب حل وعقد کو مل بیٹھ کر اسلام کے فطری نظام کے ذریعے سے قوم کی حالت بدلنے کی بھرپور کوشش کرنی ہوگی توتب ہی ہمیںکوئی چھٹکارا مل سکے گا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

اپنے کپڑے بیچ کر آٹا سستا کروں گا۔ وزیر اعظم شہباز شریف

اپنے کپڑے بیچ کر آٹا سستا کروں گا۔ وزیر اعظم شہباز شریف

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

مریم نوازشریف کو چاہیے کہ چچا کو کپڑے اتارکر بیچنے کے بعد اپنا دوپٹہ لپیٹ دے!

رسی جل گئی مگر بل نہیں گیا۔ شہبازشریف نے بہت اتار چڑھاؤ دیکھنے کے باوجود بھی اپنی شوبازیاں نہ چھوڑیں!

پنجاب میں اچھے لوگوں کی کوئی کمی نہیں لیکن جنرل جیلانی، جنرل ضیاء الحق ، جنرل حمید گل، جنرل پاشا…… کوشریف برداران اور عمران خان کے علاوہ کوئی نہیںمل سکا؟تاحال یہ سلسلہ جاری ہے اور آئندہ جلد انشاء اللہ بند ہوگا اور اچھے لوگ آئیںگے، آنے دئیے جائیں گے اور لائے جائیں گے۔ اسلئے کہ وقت کیساتھ ساتھ حالات بھی بدلتے ہیں اور شعور بھی بدلتا ہے۔نوازشریف اور شہباز شریف کا کردار کھلی کتاب کی طرح ہے۔ آصف علی زرداری نے مغربی کوری ڈور کا افتتاح کردیا تھا جسے کم خرچ اور کم مدت میں مکمل کرکے کوئٹہ اور پشاور کی تقدیر بدل سکتی تھی لیکن گوادر کے سی پیک کو بھی تختِ لاہور کیلئے شریف برادران نے چھین لیا۔ ایران کی سرحد تک گیس پائپ لائن بچھ چکی تھی لیکن اس پر عمل روکا گیااور قطر سے مہنگی گیس خریدی گئی۔ سی پیک سے ساہیوال میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کا پلانٹ لگایا گیا جوساہیوال کیلئے بھی ماحولیاتی آلودگی کا باعث تھا اور گوادر میں ایران سے بجلی سپلائی ہوتی ہے۔ سی پیک سے نہیں۔ کرک سے تیل کو چھین لینے کی بھرپور کوشش کی اور اس کا نام بھی اٹک رکھ دیا۔ سوات میں محمود خان اچکزئی کے بقول بہت سستی اور وافر مقدار میں اتنی بجلی پیدا ہوسکتی ہے کہ پورے پاکستان کو روشن کیا جاسکتا ہے لیکن وزیراعظم شہبازشریف پختون عوام کو بیوقوف سمجھ کر دھائی دے رہاہے کہ اگر پختونخواہ کی حکومت نے آٹا سستا نہیں کیا تومیں اپنے کپڑے بیچ کر تمہارے لئے آٹا سستا کروں گا۔ اگر مراد سعید، مولانا فضل الرحمن،ANPاور منظور پشتین نے قوم کو شعور دیا ہوتا اور ان میں غیرت اجاگر کی ہوتی تو عوام شہباز شریف کی شوبازی پر نعرے بازی کرنے کے بجائے احتجاج کرتے کہ ہمارے ہاں تمہیں کپڑے اتارنے کی ضرورت ہرگز نہیں ہے اور اگر پنجاب میں اتارکر بیچ دئیے تو مریم نوازشریف سے گزارش کریںگے کہ اپنے دوپٹے سے اپنے چچا چھوٹے میاں سبحان اللہ کو لپیٹ دینا۔ دوسری طرف عمران خان کا بھی وہی حال ہے۔ پشتوکہاوت ہے کہ گدھے کی سانس نہیں نکل رہی تھی اور کتے کی لالچ نہیں جارہی تھی تاکہ گدھا مرجائے اور اس کو کھا جائے۔ بڑے عرصہ سے شاہ محمود قریشی انتظار میں تھا کہ عمران خان کو نااہل قرار دیکر ہٹایاجائے اور وہ خود وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھ جائے۔ لیکن نہ رہی بھینس اور نہ بجی بانسری۔ عوام اور مقتدر طبقات کو چاہیے کہ ان دونوں کے بیچ میں فٹ بال نہ بنے اور ایک ایسا انقلاب برپا کردیں جو صحیح معنوں میں اس قوم اور ملک کی تقدیر بدل دے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

وزیر اعظم قوم کا باپ ہوتا ہے۔ عمران خان

وزیر اعظم قوم کا باپ ہوتا ہے۔ عمران خان

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

کیا عمران خان نے خودبھی کسی وزیراعظم کو اپنے باپ کا درجہ کبھی دیا ہے؟

دو انتہاؤں کے بیچ میںکھڑے عمران خان کو ایک طبقہ عالم اسلام کا واحد ہیرو اور دوسرا طبقہ یہودی ایجنٹ سمجھتا ہے

سوشل اور الیکٹرانک میڈیا میں سرگرم کرائے کے صحافیوں کیلئے واشروم کے ٹب میں چھپ کر ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ پاک فوج میں تعینات افسروں کی نوکری ، عزت اور زندگی کو خوامخواہ امتحان میں ڈال رہے ہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جب مدتِ ملازمت ختم ہورہی تھی تو آئین میں توسیع کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ تحریک انصاف کے عمران خان، مسلم لیگ ن کے نوازشریف اور پیپلزپارٹی کے آصف علی زرداری کے علاوہ ڈھیر سارے سیاسی قائدین اور رہنماؤں نے آئین میں تبدیلی کرکے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو یہ توسیع کیوں دی تھی؟۔ آرمی چیف کی قیادت میں جنرل فیض حمیدDGISIنے فیض آباد دھرنے کا اہتمام کیا تھا؟۔ کھل کر سیاسی مداخلت کی تھی ؟ اور نوازشریف کے کیسوں کو عدالت میں مداخلت کرکے سزا دلوائی تھی؟۔ عمران خان کو ملک وقوم پر مسلط کیا تھا؟۔ پاکستان کو سیاست اور اخلاقیات کے بدترین ادوار میں لاکھڑا کیا تھا؟۔ اس نالائق آرمی چیف کے دور میں تحریک لبیک،PTM، بلوچ دہشتگرد اور پتہ نہیں کیا کیا ہوا تھا ، جسٹس شوکت عزیز، جسٹس ملک، جسٹس فائز عیسیٰ اور بہت سارے معاملات میں فوج نے مداخلت کرکے ن لیگ کیساتھ برا کیا تھا؟۔ نوازشریف کو دباؤ ڈال کر باہر بھجوادیا تھااور عمران خان کے مشن کہ میںNROنہیں دوں گا، پر بھی پانی پھیر دیا تھا۔ امریکہ کو اڈے دینے سے انکار پر قوم کے سیاسی بھگوان عمران خان کو بہت پہلے سے پتہ چل چکا تھا کہ امریکہ کا یہ غلام اب امریکہ کے حکم پر الشیطان الرجیم چینج کرے گا۔ ایسے میں ہزاروں لعنتیں ایسی کہ ہر لعنت پر دَم نکلے کے مستحق آرمی چیف کو عمران خان نے برطرف کیوں نہیں کیا تھا؟۔ نوازشریف نے لندن میں بیٹھ کر توسیع دینے کی حمایت کیوں کی تھی؟۔
مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی وکالت کرنے والے بے شرم صحافیوں میں تھوڑی سی بھی حیاء ، غیرت، ضمیر ، اخلاقی قدر اور عزت ہوتی تو ان جماعتوں کی وکالت کبھی نہ کرتے۔ جب آرمی چیف کی مدت ملازمت ختم ہورہی تھی تو یہ لوگ اپنی دُم اٹھاکر توسیع کررہے تھے اور جب مدت ملازمت باقی ہے تو اس پر تنقید کے نشتر برسارہے ہیں۔ عمران خان نے کبھی اپوزیشن کو اپنا نہیں سمجھا لیکن جب رخصت ہوگئے تو وزیراعظم کو قوم کا باپ قرار دیدیا۔ پہلے یا بعد والوں کواپنا باپ یا اپوزیشن کو بچہ سمجھا ہو تو کوئی بات ہوتی۔سیتاوائٹ، جمائما، ریحام خان اور بشریٰ بی بی کیطرح اولاد بنناپی ٹی آئی کے کارکنوں کیلئے بھی قابل قبول نہ ہوگا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

14سالہ دعا زہرا کو نااہل ، بد فطرت اور بد نیت جج نے قرآن و سنت اور آئین پاکستان کے خلاف اغواء کار کے حوالے کردیا ہے۔

14سالہ دعا زہرا کو نااہل ، بد فطرت اور بد نیت جج نے قرآن و سنت اور آئین پاکستان کے خلاف اغواء کار کے حوالے کردیا ہے۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

دعا زہرا کے والدین نے اپنے نکاح نامہ اور دعا زہرا کے فارم ب اور پاسپورٹ میں درج عمر بھی میڈیا کے سامنے بتائی لیکن اندھے جج نے نادرا کا ریکارڈ چیک کرنے کی بھی زحمت نہیں کی۔

عام طور پر جب خاندان کی باہمی رضامندی سے بھی کم عمری میں شادی کرادی جاتی ہے تو پولیس دولہے دلہن اور انکے والدین کے علاوہ نکاح خواں کو بھی گرفتار کرلیتی ہے مگر یہاں ایسا کیوں نہیں؟

سوشل میڈیا پر مختلف چینلوں سے چرچے ہورہے ہیں کہ دعا زہرا کے اغوا کے پیچھے بچیوں کو ورغلانے میں ماہر ایک طاقتورگینگ ملوث ہے جس نے اندرون و بیرون ملک دھندا بنایا ہے۔

دعا زہرا جیسی بہت ساری دکھ بھری داستانیں ہیں۔BBCکو معلوم ہوا ہے کہ دس اور بارہ سال کی بچیوں کو بھی سیکس ٹریفکنگ میں استعمال کیا جارہا ہے اور اس مقصد کیلئے انہیں رومانیہ سے برطانیہ سمگل کیا جارہاہے ۔ برطانوی پولیس سیکس ٹریفکنگ روکنے میں کیوں کامیاب نہیںہوپارہی ہے۔تفصیل اس رپورٹ میں۔ شناخت چھپانے کی غرض سے رپورٹ میں شامل چند نام تبدیل کئے گئے ہیں۔ ویڈیو کا عنوان ہے:” بچوں کی سیکس ٹریفکنگ۔ مجھے روزانہ10،20مردوں کیساتھ سونا پڑتا ہے”۔ BBC, URDU:19 jan
لاہور، کراچی ، حیدر آباد اور اسلام آباد کے علاوہ چھوٹے بڑے شہروں میں دعا زہرا کی طرح کتنی داستانیں ہوں گی ؟۔ جب ہماری حکومت نے سندھ اور ملک بھر میں لڑکے اور لڑکی کی شادی کیلئے18سال کی عمر کیلئے شناختی کارڈ رکھ دیا ہے اور نکاح کیلئے بھی شناختی کارڈ شرط ہے تو پھر دعا زہرا کا نادرا میں ریکارڈ اور ب فارم چیک کرنا چاہیے تھا۔ پہلے بتایا گیا کہ لڑکے ظہیر کی عمر21سال ہے اور پھر سترہ، اٹھارہ سال بتائی جارہی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کو اس پر فوری ازخود نوٹس لینا چاہیے۔ سوشل میڈیا پر ظہیر کے چچوں اور بھائیوں کو بھی مجرمانہ فعل کا عادی مجرم بتایا گیا ہے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ” جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے، باطل ہے، باطل ہے”۔ تمام فقہی مسالک حنبلی، شافعی، مالکی، جعفری اور حنفی کے امام کہتے ہیں کہ اگر ہماری کوئی بات حدیث کے خلاف ہو تو اس کو دیوار پر دے مارو۔بقیہ صفحہ3نمبر2

بقیہ… دعا زہرا
جس طرح آج کل بعض حنفی مسلک والوں نے سودی بینکاری کو قرآن وسنت کے منافی جائز قرار دیا ،اسی طرح سے بعض کم عقل اور کم علم لوگوں نے صحیح حدیث کو قرآن سے ٹکرا دیا ہے۔ حالانکہ قرآن میں حتی تنکح زوجًا غیرہ ”یہاں تک کہ وہ نکاح کرے کسی اور شوہر سے”کا تعلق طلاق شدہ عورت سے ہے اور ولی کی اجازت کا تعلق کنواری سے ہے ۔ جمہور فقہاء ومحدثین نے حدیث کی وجہ سے طلاق شدہ اور بیوہ کو بھی ولی کی اجازت کا پابند بنایا ،حالانکہ قرآنی آیات میں طلاق شدہ اور بیوہ کی مکمل آزادی اور اختیار کی وضاحت ہے۔قرآن میں اللہ تعالیٰ نے جہاں یہ فرمایا کہ ”طلاق شدہ وبیوہ خواتین الایامی اور اپنے صالح غلاموں اور لونڈیوں کا نکاح کراؤ”۔ وہاں اس بات کی بھی وضاحت کردی ہے کہ ” اپنی جوان لڑکیوں کو بغاء پر مجبور مت کرو،اگر وہ نکاح کے بندھن میں جانا چاہتی ہوں”۔ عربی میں بغاء بغاوت اور بدکاری کو کہتے ہیں۔ جب والدین کے سامنے کوئی لڑکی کسی لڑکے سے نکاح کی ضد کرے تو اللہ نے اس معاشرتی برائی کا ذمہ دار والدین کو ہی ٹھہرایا ہے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ”اگر کوئی ولی زبردستی سے اپنی لڑکی کا نکاح کرائے تو اس کا نکاح نہیں ہوا”۔ فقہاء و محدثین نے مسالک کے چکر میں قرآن وسنت کے اصل،واضح اور کھلے مفہوم کو چھوڑ کر اپنے من مانے معانی نکالے ہیں جس کی وجہ سے قرآن وسنت کے مفہوم کو عوام میں بگاڑ کر رکھ دیا گیا ہے۔ جمہور اور حنفی مسلک کا اختلاف امت مسلمہ کیلئے اعتدال کا باعث ہے ۔ دونوں اپنے اپنے طور پر اعتدال سے ہٹ کر مخالف انتہاؤں پر پہنچے ہیں۔
ولی کی اجازت کا معاملہ نظر انداز کرنے سے نہ صرف صحیح حدیث کی خلاف ورزی ہوتی ہے بلکہ خاندانوں میں رشتہ داری کی بنیاد بھی دوستی کی جگہ دشمنی پر بنتی ہے۔ اغواء کار داماد بنے تو یہ کتنی بڑی عجیب بات ہوگی؟۔ قرآن کی آیت میں اس غلط رسم کا خاتمہ مقصود تھا کہ شوہر طلاق کے بعد بھی عورت کو اس کی اپنی مرضی سے نکاح کی اجازت نہیں دیتا تھا، جس ولی کی اجازت کا دور دور تک بھی کوئی اندیشہ نہیں ہے۔ جب ایک مسلک کے کم عقل فقہاء نے حدیث کو رد کردیا تو دوسرے مسلک کے کم عقل فقہاء نے اس سے زیادہ کم عقلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قرآن کو قرآن سے ٹکرادیا کہ وانکحوا الایامیٰ منکم …اور نکاح کراؤ اپنوں میں سے طلاق شدہ وبیوہ عورتوں کا۔ آیت میں زبردستی سے نکاح کرانے کا حکم نہیں بلکہ فطری ترغیب ہے۔
نبی ۖ نے فرمایا کہ ” نکاح پر دو صالح گواہ مقرر کردو”۔ ایک بھاگی ہوئی لڑکی کیلئے صالح گواہ کہاں سے لائے جائیں تو کم عقل احناف نے دو فاسق گواہوں کو بھی کافی قرار دے دیا۔ حدیث میں آتا ہے کہ دف بجاکر نکاح کا اعلان کردو۔ کم عقل فقہاء نے کہا کہ دو خفیہ گواہ بھی نکاح کا اعلان ہے۔ جب علماء نے معاشرے کو بگاڑنے کا راستہ دے دیا تو طاقتور طبقات نے ہمارے دین فطرت اسلام اورہمارے معاشرتی اقدار کیساتھ کھیلنا بھی شروع کردیا۔ججوں اور قانون کے رکھوالوں نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈال دیا۔ قانون ساز اداروں میں قبضہ مافیا نے ڈیرے ڈال دئیے ہیں۔ اقتدار اور دولت کے پجاریوں نے کبھی اسلام اور اچھے معاشرے کے قیام کی کوشش کی طرف توجہ نہیں دی۔ ایک دعا زہرا نہیں بہت ساری داستانیں ہیں۔
اسلام نے جب طلاق کا قانون دنیا کو بتایا تھا تو اس سے صدیوں بعد عیسائیوں نے طلاق کے قانون کو صرف اسلئے مان لیا کہ برطانیہ کے بادشاہ کو چند صدیوں پہلے طلاق کی ضرورت پڑی تھی تو اس نے کچھ حیلہ ساز پادریوں کو اپنے حق کیلئے کھڑا کیا تھا۔ آج مغرب نے عورت کو نکاح کے بعد آدھی جائیداد کا مالک بنادیا ہے ۔ کم عمری میں قانوناً نکاح پر پابندی لگادی تاکہ مالی نقصان بچوں کواٹھانا نہ پڑجائے۔ ہمارے ہاںعورت کو نکاح کے بعد وہ حقوق میسر نہیں ہیں جو اسلام نے دئیے ہیں۔ جب عورت کو استعمال کرکے پھینک دیا تو شوہر کی مرضی ہے اور شوہر پر کوئی مالی جرمانہ بھی نہیں بنتا ہے اور جب عورت خلع لے تو عدالت نے عورت کو خلع کا حق دیا ہے لیکن مولوی نے قرآن و سنت کے خلاف عورت کو خلع کے حق سے بھی محروم کیا ہے۔
ایک لڑکی بھاگ کر شادی کرتی ہے اور پھر ایک مافیا اس کو بدکاری میں استعمال کرنے کیلئے حقوقِ زوجیت سے محروم کردیتا ہے تو عورت خود بدکاری کا دھندہ کرنے کیلئے بھی راضی ہوجاتی ہے اور مذہبی طبقہ فتویٰ دے کہ اللہ نے بدکاری پر زبردستی سے مجبور کرنے سے منع کیا ہے لیکن اپنی رضامندی سے دھندہ کرتی ہو تو اس کی اجازت دی ہے۔ تو اس معاشرے کا کیا حال ہوگا؟ جس میں مذہب کو غلط استعمال کیا جاتا ہو؟۔ وہی جو پاکستان کا ہواہے کہ تما م ائیرپورٹ اور موٹرویز اسلامی بینکاری کے تحت اغیار کے ہاتھوں میں گروی کرکے رکھ دئیے گئے ہیں۔ جب عالمی قوتیں پاکستان کو سودی قرضوں کی وجہ سے قبضہ کرنے میں دلچسپی لینا شروع کریں تو ریاست مدینے والا اور مولوی طبقہ ایک ہی صف میں کھڑے ہوکر محمود وایاز بن جائیں گے۔
دعا زہرا ہماری اور پوری قوم کی بیٹی ہے اور روشن مستقبل اس کا اور اس کے والدین کا حق ہے۔ شریعت، معاشرتی اقدار اور قانون کا تقاضہ ہے کہ اس کو ٹیسٹ کیس کے طور پر پوری دنیا کیلئے ایک بہت بڑے انقلاب کا ذریعہ بنائیں۔ اگر مساجد میں واقعی اس کا اعلان کرنے سے اسلئے انکار کیا گیا کہ وہ ایک شیعہ ہے تو ان مساجد سے ائمہ اور ذمہ دار لوگوں کو فارغ کردیا جائے اور اگر یہ جھوٹا پروپیگنڈہ ہے تو جھوٹوں پر لعنت کی جائے اور اس کے پیچھے گینگ ہے تو گینگ کو پکڑا جائے اور اگر والدین کا غلط رویہ ہے تو اس کو درست کیا جائے۔ اس بدمزگی کا بہت خوشگوار حل اس وقت نکل سکتا ہے کہ جب قرآن وسنت کی صحیح وضاحت کی جائے۔ عدالت کے قانون میں کوئی غلطی ہے تو وہ بھی درست کردی جائے اور معاشرے میں خرابی ہے تو اس کا سدِ باب کیا جائے۔ سوشل میڈیا کی غلط کہانیاں ہیں تو اس پر بھی سخت پکڑ کی بہت ضرورت ہے۔
دعا زہرہ کی طرح جتنے بھی پاکستان بھر میں کیس ہیں تو ان کیلئے قرآن وسنت کی تشریحات اور باہمی افہام وتفہیم سے ایسا ماحول بنانے کی ضرورت ہے کہ کوئی بھی انسان دعا زہرہ اور اسکے والدین اور ظہیر اور اس کے خاندان والے کسی غلط روش کا شکار نہ ہوں اور سبھی خوشی کی زندگی گزارنے کے حقدار بنیں۔ ہمارے معاشرتی مسائل کیلئے قرآن وسنت اور اسلام مشعل راہ ہے۔ عورت خود بھی اپنے سے کم تر خاندان کی بیوی اور بہو بننا پسند نہیں کرتی ہے اسلئے فقہ کی کتابوں میں کفو کے مسئلے کا ذکر ہے لیکن جب اس کو خلاف شرع کسی ناپسندیدہ شخص سے شادی پر مجبور کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ انتہائی قدم بھی اٹھالیتی ہے۔ ایک ایسا ماحول بنانے کی ضرورت ہے کہ ایک طرف لڑکی اپنی اور اپنے خاندان کی عزت کی رکھوالی کرے اور دوسری جانب لڑکی کے جذبات کا بھی بھرپور لحاظ رکھا جائے۔ قرآن و سنت میں اسکا بہترین آئینہ پیش کیا گیا ہے۔ مگر اس سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ قرآنی آیات کی نہ صرف غلط تشریح کی گئی ہے بلکہ قرآنی آیات کو آپس میں بھی متضاد بنایا گیا ہے اور احادیث صحیحہ سے بھی متصادم قرار دیا گیا ہے۔ جب عوام کو قرآن وسنت کا درست مفہوم سمجھایاجائے تو تمام فرقوں کے علماء ومفتیان کے علاوہ دنیا بھر کے کافر بھی قرآن وسنت کے معاشرتی نظام کیلئے راضی ہوجائینگے۔ اب انکا ہٹ دھرم مذہبی طبقہ ختم ہوگیا ہے جن کو عوام نے اپناارباب بنالیا تھا اور جنہوں نے مذہب کی شکل بگاڑ کر رکھ دی تھی اور آج ہمارا یہ حال بن گیا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

کراچی یونیورسٹی میں چینی خواتین اساتذہ پر اعلیٰ تعلیم یافتہ شاری بلوچ کا خود کش حملہ

کراچی یونیورسٹی میں چینی خواتین اساتذہ پر اعلیٰ تعلیم یافتہ شاری بلوچ کا خود کش حملہ

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

پہلی مثبت با ت یہ ہے کہ افراتفری کی سیاست میں یہ الزام نہیں لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ کے ایماء پر پاک فوج نے خودکش بمبار شاری بلوچ کے ذریعے سے پاک چین دوستی کو نشانہ بنایا ہے!

دوسری مثبت بات یہ ہے کہ جہاں دنیا میں عورت کا کردار جنسی جذبات بھڑکانے کیلئے ایک آلہ کار کے طور پر استعمال ہورہا ہے وہاں شاری بلوچ نے اپنی زندگی کو ایک بڑے مقصد کیلئے قربان کیا!

تیسری مثبت بات یہ ہے کہ ہماری فوج اور اشرافیہ کی خواتین میں بھی شاری بلوچ کے جذبے سے اپنے ملک ، دین اور ایمان کیلئے مشکل وقت آنے پر خودکش بمبار بننے کا جذبہ پیدا ہوجائیگا

دہشت گردی ، انتہا پسندی اور خودکش حملوں کی اگر اسلام میں اجازت ہوتی تو رسول اللہ ۖ ، شیر خدا علی، اسد اللہ و اسد رسولہ سید الشہداء امیر حمزہ ، فاروق اعظم عمر اور تمام بہادر اور جلیل القدر صحابہ کرام مکہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرنے کے بجائے مشرکین مکہ پر دہشتگردانہ حملے کرتے۔ جان و مال اور عزت کے تحفظ سے زیادہ بڑی بات کچھ بھی نہیں ہوسکتی۔ بلوچستان اور وزیرستان کے حالات ملتے جلتے ہیں۔ وزیرستان کے کچھ لوگوں نے مذہبی دہشتگردی کا ارتکاب کیا تو لوگ اپنی عظیم روایات اور اقدار سے ہاتھ دھوبیٹھے۔ نوجوان خود کش بمبار سے متاثر ہوگئے تو گھروں ، بازاروں اور مساجد تک بے گناہ لوگوں کو اڑانے سے دریغ نہ کیا۔ جب فوج نے آپریشن کیے تو بھی زیادہ تر اسکے جیٹ طیاروں کی بمباری کا نشانہ عوام بنے۔پھر ریاست کیخلاف نفرت کی فضاء بن گئی۔ آج بھی افغانستان میں موجودTTPاور پاک فوج کی لڑائی میں عام لوگ زبردست خوف و ہراس کا شکار ہیں اور اسی صورتحال کا بلوچستان میں بلوچوں کو سامنا ہے ۔
شاری بلوچ پر الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے علاوہ بلوچستان اسمبلی میں بھی اچھی خاصی بحثیں ہوچکی ہیں اور اس اقدام سے انتہاء پسندوں اور دہشت گردوں میں نئی روح شاری بلوچ نے پھونک دی ہے ۔ عید سے پہلے جو خاتون غربت کی وجہ سے اپنے تین بچوں سمیت کراچی کے سمندر میں چھلانگ لگا کر خود کشی کررہی تھی جس کو بچالیا گیا مگر اس خبر کو اہمیت نہیں ملی لیکن شاری بلوچ نے مہمان بے گناہ چینی خواتین کی بھی جان لے کر پوری دنیا میں دھوم مچادی اسلئے اسکے پیچھے ایک قوم کی کہانی ہے۔
ہاجرہ یامین نے اپنی ویڈیو جاری کی ہے کہ کراچی کی بربادی کی وجہ بہت ہی خاندانی اور معصومانہ ہے، گھر میں بن بلائے مہمان آجاتے ہیں اور جانے کا نام نہیں لیتے تو آپ کیا کرتے ہیں؟۔خالہ آپ کے وزن پر کمنٹ کرتی ہیں تو آپ چپ رہتے ہیں۔ تو یہ ناانصافی کیخلاف چپ رہنے کا جو کلچر ہے وہ لائف اسٹائل بن گیا ہے ہمارا۔ سڑک ایک طرف سے ٹوٹ گئی چپ کرکے راستہ بدلو ، فون چھن گیا چپ کرکے نیا فون لے لو، پولیس والے نے رشوت مانگی چپ کرکے پیسے دیدو۔ چینی مہنگی ہوگئی چپ کرکے پھیکی چائے پی لو۔ اب کراچی والوں کا چپ رہنے کا جو رویہ ہے نا یہ دیکھ کر کسی عقلمند کو بہت شاندار آئیڈیا آیا۔ اس نے سوچا ایک ایسا علاقہ بناتے ہیں جس میں جتنے بھی امیر لوگ ہیں ان کو اکھٹا کرتے ہیں اور ان سے ان کا سب کچھ چھین لیتے ہیں یہ زیادہ سے زیادہ کیا کریں گے ؟ چپ رہیں گے۔ تو یہ ہاؤسنگ سوسائٹی کا جو آئیڈیا تھا یہ بہت سکسس فل رہا۔ لوگوں سے بجلی چھین لی تو انہوں نے جنریٹر لگوالئے، پانی بند کردیا تو انہوں نے ٹینکر ڈلوالئے، پانی بند کردیا لیکن پانی کا بل بھیج دیا تو انہوں نے بل ادا کردیا۔ چوری اور ڈکیتی بڑھ گئی تو لوگوں نے پرائیویٹ گارڈ ہائر کرلئے۔ تو ظلم کے خلاف کوئی کچھ نہ بولا اور سب لوگ ہنسی خوشی زندگی بسر کرتے رہے۔ مجھے نہیں پتہ کہ تم نے چپ رہنا کب سیکھا ؟۔ تب جب بچپن میں تمہیں سوال کرنے سے روکا گیا یا شاید تب جب تمہیں احساس ہوا کہ دیواروں پر پان کی پیکوں کے بیچ معصوم خون بھی ہے۔ یا شاید تب جب تمہارے سر پر کسی نے پستول رکھ دی
بقیہ صفحہ3نمبر2

بقیہ … شاری بلوچ خودکش بمبار
اورتمہاری جان اور مال کے بیچ میں سے ایک چننا پڑا۔ میں نہیں جانتی کہ آپ نے کب چپ رہنے کا فیصلہ کیا لیکن اتنا ضرور جانتی ہوں کہ اب وہ لمحہ ہے وہ موقع ہے جب آپ کو بولنے کا فیصلہ کرنا ہے۔ میں نہیں جانتی کہ آپ کے بولنے سے کتنا فرق پڑیگا؟ لیکن اتنا تو اب آپ بھی جانتے ہیں کہ ایک قطرے میں کتنی طاقت ہوتی ہے۔ قطرہ قطرہ ملا کر دریا بن ہی جاتا ہے۔
خود کش بمبارشاری بلوچ نے اپنے وطن اور اپنی قوم کے نام پر جو قربانی دی ہے ،اس کی مذمت تو اسکے شوہر کے خاندان نے بھی کردی ہے۔ اپنے خاندان نے بھی اس پر حیرت کا جس طرح اظہار کیا ہے اس کو ڈان نیوز نے شاری بلوچ کے پڑھے لکھے چچا سے انٹرویو لیکر قابلِ قبول نہیںقرار دیا ہے کیونکہ صحافی وسعت اللہ خان نے پوچھا کہ آج سے20سال پہلے ہم نے تربت میں آپ سے پوچھا تو آپ نے نشاندہی کی کہ ارباب اختیار جانتے بوجھتے ہوئے جذبوں کے تلاطم خیزموجوں سے آنکھ بند کئے ہوئے ہیں۔ کیا یہ اس کی ایک شکل نہیںہے ؟۔
بلوچ ہمارے بہت معزز بھائی ہیں اورخود کش بمبار شاری بلوچ ہماری بہن تھیں۔ مریم نواز نے کہا تھا کہ” اپنی والدہ کے انتقال سے زیادہ دُکھ بلوچ مسنگ پرسن کی تکلیف کو دیکھ کر پہنچا ہے”۔ میری ایک گھر والی تربت کی بلوچ ہے اورپہلے اس کو بھی شدت پسندوں سے دلی ہمدردی تھی۔ اس کے کئی رشتہ دار بھی مارے گئے اور جنہوں نے جہاز اغواء کیاتھا اور پھانسی لگی تھی۔ شبیراور شاہ سوار ۔ شبیر چاچی کا سگا بھائی تھا۔ پھر شدت پسندوں سے بہت سخت نفرت ہوگئی۔ بہت قریبی رشتہ داروں نے خوف سےBLAکو چھوڑ دیا۔ جبPCہوٹل گوادر پر حملہ کیا گیا تو اس کو سیکیورٹی اہلکاروں کی شہادت پر دُکھ تھا اسلئے کہ اپنی روٹی روزی اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کیلئے نوکری کررہے تھے اور شدت پسند تو گئے ہی مرنے کیلئے تھے۔ یہ اس کی ذہنیت تھی۔ گوادر میں دہشتگردوں سے اسلئے نفرت پھیل گئی کہ خودکش نے چینیوں کو اڑایا تو کئی بہنوںاور والدین کا اکلوتہ بھی شہید ہوا۔ایک انسان کے بے گناہ قتل کو قرآن نے پوری انسانیت کا قتل قراردیا۔ شاری بلوچ نے خود کش کردیا تو میری بلوچ گھر والی نے کہا کہ اس کو کسی طرح بلیک میل کیا ہوگا۔ ایک عورت اپنے بچوں کو چھوڑ کرایسا کیسے کرسکتی ہے؟۔ اور بے گناہ چینی خواتین اساتذہ کے قتل پر سخت غصہ بھی آگیا۔
جب میں نے یوٹیوب یا فیس بک سے مسنگ پرسن کیلئے آواز اٹھانے والی ایک لڑکی کی تقریر سنائی جو یہ کہہ رہی تھی کہ ہم گھروں سے اپنے پیاروں کی تلاش میں عرصہ سے نکلے ہیں اور لوگوں کی نظریں جب ہم پر پڑتی ہیں تو بہت چھبتی ہیں۔ پھر شاری بلوچ کی جاری کردہ بلوچی زبان میں ویڈیو دیکھ لی جس میں وہ کہہ رہی ہے کہ دشمن کو ہماری عزتوں پر ہاتھ ڈالنے کی بھی پرواہ نہیںہے اسلئے میں نے یہ قربانی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ پھر میری گھر والی نے سمجھ لیا کہ اس میں بلیک میل ہونے کا کوئی مسئلہ نہیں بلکہ مشن کیلئے اتنا بڑا قدم اٹھایا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ ایجنسی والے اب اس کو چھوڑیں گے نہیں،آخری حد تک سراغ لگاکر ایک ایک کردار کا بہت برا حشر کریںگے۔ پھر میں نے بتادیا کہBBCکی ویب سائٹ پر شاری کے شوہر کے گھر والوں نے اس کی سخت مذمت کردی ہے۔ یہ ڈرنے کی وجہ سے کی ہوگی۔ تو اس نے کہا کہ نہیں ، وہ اپنی ایک لڑکی کے اس طرح نمایاں ہونے پر شرمندگی محسوس کرتے ہیں اور غیرت کے خلاف لگتا ہے کہ ایک عورت اس طرح سے نمایاں ہو۔
سوشل اور الیکٹرانک میڈیا سے بڑے پیمانے پر آوازیں اُٹھ رہی ہیں کہ بلوچوں کیساتھ زیادتیاں ہورہی ہیں۔ ان کے مسنگ پرسن کو آزاد کیا جائے اور یہ سلسلہ بڑے عرصے سے چل رہاہے۔ قومی اسمبلی میں تین ماہ پہلے سرداراختر مینگل نے کہا تھا کہ پہلے ہمارے نوجوانوں کو اٹھایا جارہاتھا، پھر بوڑھوں کو بھی اٹھایا جانے لگا اور اب خواتین اور بچوں کو بھی اٹھایا جارہاہے۔ آپ نے ہمیں غدار قرار دیا۔ ہماری نسلوں کو ختم کردیا اورہماری خواتین کی عزتوں کو بھی نہیں چھوڑا لیکن ہم نے ہمیشہ تمیز کی حد میں رہ کر آواز بلند کی ہے اور کبھی گالی تک بھی نہیں دی ہے۔ کس کس کو غدار نہیں کہا؟۔ فاطمہ جناح، ولی خان، نوازشریف اور الطاف حسین سمیت جو بھی اپوزیشن کی بینچوں پر بیٹھا وہ غدار کہلایا اور کل تحریک انصاف والے اپوزیشن بینچ پر ہوںگے اور ہم اس طرف بیٹھے ہوں تو پھر وہ غدار کہلائیںگے۔ جب میں وزیراعلیٰ تھا تو چاغی میں ایٹمی دھماکوں پر مجھے اعتماد میں نہیں لیا گیا اور جب مجھے پتہ چلا تو احتجاج کرنے پر مجھے برطرف کردیا گیا تھا۔ جس کی غلطی کا اعتراف نوازشریف نے بھی کیا ہے۔
نوازشریف نے سوئی گیس سے بلوچستان کی محرومی کا ذکر بھی کیا تھا لیکن جب حکومت مل گئی توسی پیک کے مغربی روڈ کا رُخ کوئٹہ اور پشاور سے موڑ کر لاہور کی جانب کردیا تھا۔ جس کی وجہ سے بلوچوں کے گاؤں مسمار کردئیے گئے اور محرومیوں کا احساس مزید بڑھادیا گیا۔ خوشحال گھرانے سے تعلق رکھنے والی شاری بلوچ کے خود کش حملے کو جس طرح کی پذیرائی ملی ہے وہ خطرناک صورتحال تک معاملات کو پہنچاسکتی ہے۔ طالبان کی دہشت گردی کو اہمیت نہیں دی گئی لیکن پھرGHQپر قبضے سے لیکر ہماری ریاست ، حکومت، مذہبی طبقات او ر پوری اشرافیہ کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ بلوچ قوم کو عزت دینے کے نام پر رام کرنا بہت آسان ہے ، پٹھانوں کو غیرت کے نام سے رام کرنا آسان ہے اور سندھیوں کو محبت کے نام سے رام کرنا بہت آسان ہے اور پنجاب کو شعور کے نام سے رام کرنا بڑا آسان ہے۔ بھانڈوں ، جوکروں، مسخروں اور بدتمیزوں وبد تہذیبوں کے رحم وکرم پر پاکستان کو چھوڑدیا گیا ہے۔
منظور پشتین نے وزیرستان میں یہ بہت کام کی بات کہہ دی ہے کہ ” پختون غیرتمند قوم ہے۔اگر دشمنی ہو تو پھر چوک اور چوراہے پر للکارتے ہوئے اپنے دشمن کو ماردیتے ہیں ، کسی کی آڑ لیکر چھپ کر وارکرنا غیرت وحمیت کے خلاف ہے”۔
اگر وزیرستان میں فوجیوں کے قتل کیلئے بھی اسی غیرت ہی کا پیمانہ رکھا جائے اور عوام اور طالبان کیلئے بھی اسی غیرت کے ترازو سے کام لیا جائے تو امن وامان قائم ہونے میں دیر نہیں لگے گی لیکن اگر فوجیوں کا قتل اس بنیاد پر جاری رہے کہ پاک فوج جانے اور شہداء جانیں تو پھر یہ سلسلہ جاری رہے گا اور طاقت کے استعمال کے اس کھیل میں فساد اورقتل وغارتگری کا سلسلہ جاری رہے گا۔ بلوچ ہیومن رائٹ کے معروف رہنما وہاب بلوچ نے بتایا کہ ”بلوچوں سے سب سے زیادہ ہمدردیوں اور عملی تعاون کا مظاہرہ پنجابی کرتے ہیں”۔ سندھی قوم پرست جب منظور پشتین کے کسی بیان سے ناراض تھے تو وہاب بلوچ نے ان میں صلح صفائی کروائی تھی۔ وہاب بلوچ نے کہا کہ سب سے زیادہ مؤثر کردار مذہب کی بنیاد پر ادا ہوسکتا ہے لیکن مذہبی لوگوں نے اس کو غلط استعمال کرکے کارگر نہیں بنایا ہے۔
پاکستان میں جس طرح مذہبی لوگوں نے مذہب کے نام پر تباہی مچائی ہوئی تھی ۔ مولانا نورمحمدسابق ایم این اے اور معراج الدین ایم این اے کو بھی شہید کردیا گیا تھا۔مساجد میں خود کش حملوں سے لیکر بازاروں ، سکولوں ، گھروں اور سرکاری ، سیاسی اور مذہبی لوگوں پر اٹیک تک بہت کچھ کیا گیا۔ خاتون ڈاکٹر بھی اغواء برائے تاوان کیلئے لے گئے تھے۔ اگر ہماری اسٹیبلشمنٹ اور امریکہ دوغلی پالیسی کھیل کر اس حلیے اور لبادے میں اپنے اپنے طالبان اور دہشت گرد پالنے کی غلطی نہ کرتے تو عوام ہی نے ان کا قلع قمع کردینا تھا۔ اسماعیل ساگر نے بتایا تھا کہ اس وقت ہمارے اندر اتنی جرأت نہیں تھی کہ کھل کر آواز اٹھاتے مگر امریکہ کے بلیک واٹر نے اربوں روپے سے قبائل میں لوگ پیدا کئے تھے۔ راولپنڈی کے قریب روات میں ان کا ٹریننگ سینٹر تھا۔جہاں کورٹ مارشل اور جرائم پیشہ فوجی اہلکاروں اور پولیس کو بھاری رقوم دے کر بھرتی کیا جاتا تھا۔
خود کش حملہ آور کرائے پر ملتے تھے۔ بے نظیر بھٹو نے کہا تھا کہ”200ڈالر ماہانہ تنخواہ پر افراد بھرتی کئے جاتے ہیں”۔ ایسا کھیل کھیلا گیا کہ فیض احمد فیض اور احمد فراز کی شاعری زندہ کی گئی تھی۔ شریف ، شرافت اور اشرافیہ سب کا جنازہ نکل گیا تھا۔ جہاں غربت تہذیب کے آداب بدل دیتی تھی وہاں خود کش اور ٹارگٹ کلنگ کی دہشتگردی نے تہذیب کے آداب بدل ڈالے تھے۔ مونچھوں والا بدمعاش یونہی دلّا اور بے غیرت لگتا تھا اور چوتڑ تک بال رکھنے والے کی دہشت چھا گئی تھی۔
ریاست پاکستان ، مذہبی طبقات کے فتوؤں ، سیاسی قائد کے بیانات بالکل غیرمؤثر تھے۔ متحدہ مجلس عمل کی حکومت تھی اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخواہ اکرم خان درانی نے ہنگو میں شیعوں کے جلوس میں دھماکہ کرنے پر کہا تھا کہ ”یہ امریکہ کے ایجنٹ ہیں ”، تو ان کے قریبی لوگوں پر حملہ کرکے شہید کردیا گیا تھا اور پھر اکرم خان درانی کو یہ بیان دینا پڑا تھا کہ ” اگر کسی نے کہا کہ ہم پر طالبان نے حملہ کیا تو اس کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ کروں گا”۔ جب قائد جمعیت علماء اسلام مولانا فضل الرحمن نے جمعہ کی تقریر میں حضرت ابوبکر صدیق اکبر سے منقول ابن ماجہ کی حدیث کا حوالہ دیا کہ” طالبان خراسان کے دجال کا لشکر ہیں اوران میں حدیث میںموجود تمام نشانیاں پائی جاتی ہیں ” تو میڈیا نے مولانا فضل الرحمن کے بیان کو شائع نہیں کیا۔
قوم کا یہ حال تھا کہ مجھے لگتا تھا کہ وزیرستان کے غریب عوام کی عزتیں اس جنگ میں خراب اور پامال ہونگی ۔ کرائے کے لوگ اسلام کیلئے نہیں مفادات کیلئے لڑرہے ہیں اور جذباتی طبقہ اور عوام غلط استعمال ہورہے ہیں۔ تو ایک بھائی نے کہا تھا کہ ”مجھے ان کے خلاف اُٹھ کر جہاد کرنا چاہیے” ۔ جس پر میں نے عرض کیا تھا کہ ”پھر سب سے پہلے اپنے بھائیوں کے خلاف جہاد کرنا پڑے گا اسلئے کہ وہ دل سے اس جہاد کے حامی ہیں”۔ جس طرح آج عمران خان کیلئے لڑنا بعض لوگ امریکہ کے خلاف جہاد سمجھتے ہیں اسی طرح سے دہشتگرد بلیک واٹر کے ایجنٹوں کی دل سے ، ڈر سے اور ایمان کے جذبے سے لوگ تائید کرتے تھے۔ منصوبہ بندی کے تحت ہمارے ریاستی ادارے اور عوام پیسے اور جذبے میں استعمال ہورہے تھے۔
پھر ایک موقع آیا کہ ” پہلے طالبان نے میرے بھائی کا پیچھا کیا تھا اور پیسوں والے افراد کو لوٹنا اور دہشت گردی سے ڈرانا ان جرائم پیشہ افراد کا وطیرہ بن چکا تھا”۔ پھر مجھ پر حملے کا بہانہ مل گیا اور اس واردات میں اصل ہدف میں تھا اور گھر کے اسلحے اور مال وزیورات کو لوٹنا تھا تو13افراد شہید کردئیے گئے اور اپنے بھی کچھ مردے اٹھا کر لے گئے اور چوروں اور ڈاکوؤں کی طرح رات کی تاریکی میں دفن کردیا۔ حالانکہ نعرہ تکبیر لگاکر حملے کرنیوالے اپنے مردوں کو شہید سمجھ کر دھوم سے دفن کرتے تھے ، مردار جانوروں کی طرح چھپ کر نہیں دفناتے تھے۔
مجھ سے کہا گیا کہ اب موقع ہے کہ ان کے خلاف جہاد کا اعلان کیا جائے کیونکہ اب تو عوام میں بھی ان کے خلاف بڑی نفرت پھیل گئی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ علی کا پوتا ہوں، جس نے کافر دشمن کو لٹادیا تھا اور تلوار کے وار سے ختم کرنا تھا مگر جب اس نے علی کے چہرے پر تھوک دیا تو علی نے معاف کردیا ،اس نے کہا کہ غصہ زیادہ بڑھ جانا چاہیے تھا تو علی نے فرمایا کہ جب ذاتی رنجش اس میں شامل ہوگئی تو پھر یہ اللہ کی راہ میں جہاد نہیں رہاہے۔ اب ذاتی رنجش کے بعد جہاد کرنا اسلام نہیں ہے۔
پھر ایک وقت آیا کہ وزیرستان سے طالبان کااثر ورسوخ اتنا بڑھ گیا کہ سوات سے کراچی تک محسود قوم کے افراد بہت دندناتے گھوم رہے ہوتے تھے۔ کراچی میں بھی طالبان نے باقاعدہ فیصلے کرانے اور بھتے لینے شروع کئے تھے۔ مجھے بتایا گیا کہ وزیرستان سے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اگر کچھ پیسے مل جائیں تو حکیم اللہ محسود، قاری حسین وغیرہ کو ہم نشانہ بنالیں گے۔ میں نے کہا کہ پیسے ضرور دیں گے لیکن وہ ہمیں اپنے ہدف تک پہنچا دیں۔ میری سندھی گھر والی اور اپنے بچوں سے خود کش کرانے کا میں نے فیصلہ کرلیا اور مشاورت بھی ہوگئی اور میں نے طے کرلیا کہ اب مجرم کی تلاش کو چھوڑ کر محسود قوم کو پنجاب، سندھ ، کراچی ، کوئٹہ اور پختونخواہ میں گوریلا طرز پر نشانہ بنایا جائے۔ جب وہ محفوظ ہیں اور دہشت گرد بھائی ، بیٹوں اور رشتہ داروں کو محفوظ پناہ گاہیں دیتے ہیں اور رائیونڈ کا مرکز انکا سہولت کار ہے تو پھر قرآن نے من حیث القوم لڑنے کیلئے افراد کے مقابلے میں افراد کے قتل کی اجازت دی ہے جن میں آزادمرد اور عورت اور غلام سب شامل ہیں۔ ایم کیوایم ، شیعہ، بریلوی اور سب کو ان کے خلاف منظم کرنے کا فیصلہ کرلیا لیکن بھائیوں نے اس کی مخالفت کی کہ بے گناہوں کا خون بہہ جائے گا۔
اگر اس وقت راست اقدامات اٹھائے جاتے تو دہشت گردوں کا خاتمہ محسود قوم نے اپنے مفاد اور نقصان سے بچنے کیلئے بھی کرنا تھا لیکن جب فوج نے آپریشن کرکے ختم کرنے کا فیصلہ کیا تو بہت بے گناہ بھی مارے گئے اور ان کی عزتوں کی بھی تذلیل ہوگئی اورآج تک ان کا رونا نہیں جاتا ہے۔ جب آگ جلتی ہے تو خشک لکڑیوں کیساتھ گیلی بھی جل جاتی ہیں۔
شاری بلوچ اور عمران خان کے جذبات میں کیا فرق ہے اور دونوں ریاست کی غلامی سے جان چھڑانے کی بات کررہے ہیں ۔ عمران خان الفاظ کیساتھ کھیلتا ہے کہ میر جعفر اور میر صادق کون ہیں ؟۔ لیکن شاری بلوچ نے خود کش بمبار بن کر فیصلہ کیا کہ آزادی کی تحریک افغانستان کے طالبان کی طرح اس طرح سے چلائی جاسکتی ہے۔ جو فوجی اہلکار دل وجان سے عمران خان کی حمایت کررہے ہیں ،ان کیلئے شاری بلوچ شان و عظمت کی نشانی ہے۔ اگر جنرل حمیدگل کے بیٹے، بیٹیاں اور بیوی خود کش حملہ کرنے والوں میں شامل ہوتیں اور اسطرح ہمارے اشرافیہ کے تمام جرنیل، سیاستدان اور سول بیروکریسی اور علماء ومفتیان میں طالبان کے حامی اور انکی خواتین خود کش کی قربانیاں دیتیں تو جنگ بھی جلد جیت جاتے اور نقصان بھی نہیں اٹھانا پڑتا۔
بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے ایک عالم دین نے بتایا کہ جمعیت علماء اسلام مولانا فضل الرحمن میں شامل ہوگئے ہیں اور کسی کے حکم سے شامل ہوئے ہیں تو شاید مفتی محمد تقی عثمانی کو بھی دعوت ملی ہوگی کہ اب عمران خان کے خلاف جہاد کرنے کیلئے آپ بھی جمعیت علماء اسلام کا ساتھ دیں۔ شاید اسلئے اس نے مولانا مفتی محمود کی وفات کے بارے میں اپنا جھوٹا بیان بھی ریکارڈ کروادیا لیکن جب اسلام آباد میںجہاد کے عمل کی بات سامنے آئی ہوگی تو شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے کہا ہوگا کہ بھیا ! میں نے اپنے بدنمادانت اکھڑوا دئیے ہیں اسلئے مجھ پر قربانی نہیں ہوتی ہے، اسلئے پھر عید پرصلح صفائی کیلئے بیان بھی دیدیا۔
سلمان تاثیر کو ممتاز قادری سے قتل کروانے سے پہلے جنگ گروپ کے صحافی انصار الاسلام عباسی نے جسٹس خواجہ شریف کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی گھڑی تھی جس پر رؤف کلاسرا نے ایک کتاب ”وہ قتل جو ہو نہ سکا”لکھ دی تھی۔اب یہ سلسلہ چل رہاہے کہ نوازشریف نے ممتاز قادری کو پھانسی سے نہیں بچایا اور عمران خان نے آسیہ کو فرار کروایا۔ جنہوںنے سازش کے جال بن لئے تھے وہ خود اپنے دام میں پھنس رہے ہیںمگر وقت انکے انتظار میں ذلت کا ہار پہنانے کیلئے بے تاب کھڑا ہے ۔
جب1965ء میں لوگ ہندوستان کے ٹینکوں کے آگے اپنے جسم پربم باندھ کر لیٹ جاتے تھے تو وہ خود کش حملہ ہی ہوتا تھا۔ افغانستان میں نیٹو کے خلاف جہاد کیلئے خود کش کے بغیر کوئی چارہ نہیں تھا۔ کرائے کے خود کش نے جہاد کو بدنام کردیا ہے لیکن شاری بلوچ کو کرائے پر استعمال کرنے کا بھی کوئی نہیں سوچ سکتا ہے۔ اس کے پیچھے ریاست بھی نہیں ہوسکتی ہے اور اس کو جنت کے حور وقصور کی لالچ بھی نہیں دی جاسکتی تھی۔ اس میں ظالم ومظلوم اور اپنی قوم اور وطن سے محبت کے سوا کچھ نہیں تھا لیکن اس راستے سے بلوچ قوم پرست کی قیمتی جانیں ضائع ہوں گی اور اس کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں پرامن زندگی کی خواہش رکھنے والوں کی مشکلات بھی بڑھ سکتی ہیں۔ قربانی کے پیچھے تالی بجانے سے بات نہیں بنتی بلکہ اپنی خواتین کو بھی اس مقصد کیلئے قربان کرنے کا فیصلہ کرنا ہوگا اور جب اپنے لئے اس کو پسند نہ کیا جائے تو دوسروں کو اس کی تبلیغ اخلاقی طور پر کوئی اچھی بات نہیں ہوسکتی ہے۔ شاری بلوچ کے شوہر کو شاری کے خاندان کے سامنے جانے سے بھی ہچکچاہٹ ہوگی۔ عورت نے قربانی دی ہو اور شوہر زندہ ہو تو یہ ایک عار کی بات ہے۔ البتہ شاری بلوچ نے اپنے دل ودماغ سے جو فیصلہ کیا وہ دوسروں کیلئے مشعل راہ بھی بن سکتا ہے، حسن وحسین دونوں جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں اور جنت میں کوئی بوڑھا ہوگا بھی نہیں اور حسن و حسین کے درمیان فرق اسلئے تھا کہ حسن کے مقابلے میں معاویہ اور حسین کے مقابلے میں یزید تھا۔ یزیدی کردار پر حسینیت کی قربانی بنتی ہے اور سب میں اتنا بڑا دل نہیں ہوتا۔
شاری بلوچ کی عقل وفکر اور فطرت وعمل سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن علماء ومفتیان، مذہبی وسیاسی طبقات اور تمام قوم پرستوں کیلئے اس کی قربانی سے مثبت نتائج نکالے جاسکتے ہیں اور اس کی قربانی سب کیلئے مشعل راہ بن سکتی ہے۔ جان کی اگر قربانی نہیں دے سکتے ہیں تو حق بات کیلئے زبان کی قربانی دیں اور حاجرہ یامین کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے ظلم اور ظالم کے خلاف آواز اٹھانے کی قربانی دیں۔ مجھے لگتا ہے کہ پاکستان کی ریاست ، حکومت، علماء ومفتیان ، مذہبی طبقات اور عوام الناس اب اپنے مفادات کو چھوڑ کر قربانی دینے کی پوزیشن پر آگئے ہیں۔ کیونکہ اگر اب نہیں بدلے تو بہت برے حالات کا شکار ہوجائیں گے اور اس خوف کا تقاضا ہے کہ ہم سدھر جائیں۔
قیادت کی پیاس اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ عمران خان جیسے آزمودہ اور نالائق انسان پر بھی لوگ اعتماد کرکے کہتے ہیں کہ آزادی کیلئے ہر قربانی دینی ہے۔ جب پیاس لگتی ہے توآدمی کو سراب بھی پانی نظر آتا ہے۔ عمران خان کا سراب بھی متأثر کن بن گیا ہے۔ عمران خان گھڑی گھڑی اپنے بیانات بدلتا رہتا ہے۔ پہلے اس نے امپائر کی انگلی اٹھنے کی بات کہی تھی اور پھر کہا تھا کہ امپائر سے مراد میں نے اللہ لیا تھا۔ پھر جانور سے بھی مشکل لگنے پر کچھ اور مراد لیا اور میرجعفر اور میر صادق سے بھی کچھ اور مراد لیا۔ حضرت حسین نے کربلا کا راستہ چن لیا تھا تو پھر شہادت کی منزل تک کوئی بیان تبدیل نہیں کیا۔ پہلے سے یہ تجاویز رکھ دی تھیں کہ واپس جانے دیا جائے۔ سرحد پار جانے دیا جائے ۔ یزید سے براہِ راست بات کرنے دی جائے لیکن یزید کی بیعت پر آخری وقت تک راضی نہیں تھے۔
عمران خان ایا ک نعبد وایا ک نستعین سے پہلے اور بعد کی آیات کو بھی سمجھ کر تلاوت کرتا تو نرگسی اور خود پسندی کا شکار نہ ہوتا بلکہ تمام تعریفیں اللہ کیلئے قرار دیتا اپنے لئے نہیں اور رحمن و رحیم کی صفات سے مخالفین کیلئے بھی رحم دلی کاجذبہ رکھتا اور مالک یوم الدین کے بعد خود کو انقلاب کے دن کا بھی بادشاہ سمجھنے کی غلطی نہ کرتا۔ پھر اللہ سے صراط مستقیم کی ہدایت بھی مانگتا۔ ان لوگوں کا راستہ جن پر اللہ نے انعام کیا ہے جن پر نہ غضب ہوا اور نہ گمراہ ہوئے۔ عمران خان کبھی طالبان بن جاتا تھا اور کبھی پاک پتن کے مزار کی راہداری کو چومتا تھااور کبھی مدینہ میں جوتے اتارنے کا ڈرامہ کرتا۔PDMکی بانی جماعتوں کی نالائقی سے عمران خان پروان چڑھ گیا اور عمران خان کی نالائقی نےPDMکی قیادت کو پھر زندہ کردیاہے حالانکہ ان کی فاتحہ بھی لوگ پڑھ چکے تھے اور اب پھر وہ زندگی کی طرف لوٹ گئے تو انکی وجہ سے عمران خان پھر زندہ ہوگیا۔
شاری بلوچ کی قربانی کو ہلکا نہ لیا جائے، مسنگ پرسن کے لواحقین اور ان کی خواتین نے خود کش دھماکے شروع کردئیے تو عمران خان اور نوازشریف کی باتوں سے ڈرنے والوں کیلئے زیادہ خطرناک ثابت ہوں گے۔ باتوں کا جواب باتوں سے دیا جاسکتا ہے لیکن خود کش بمبار کا کوئی علاج معالجہ نہیں ہے۔
جب گوادر کے مولانا عنایت الرحمن کا بیان میری بلوچ گھر والی نے سنا تو اس نے شدید غصے کا اظہار کیا کہ اب اس کو دیکھو کہ اپنے معمولی مفاد کیلئے اس شاری بلوچ کی قربانی کا ذکر کررہاہے۔ مٹھی بھر بلوچ اپنی قوم اور اپنے وطن کی آزادی کیلئے اٹھے ہیں اور اب ان کو ناراض بلوچ کہنے کی بات بھی گالی لگتی ہے لیکن ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے کہ ان سے دل وجان سے محبت کریں۔ عمران خان کو بندر کی طرح کاندھے پر چڑھا کر اقتدار میں لایا گیا اور جب اپنی نالائقی سے اتر گیا تو ملک میں بدتمیزی کا طوفان برپا کرکے حقیقی آزادی کے نام پر بھونچال برپا کردیاہے۔ اگر غوث بخش بزنجو سے لیکر ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ تک کسی قوم پرست بلوچ کو پاکستان حوالے کیا جاتا تو مشرقی پاکستان کے بنگالی بھی ہم سے جدا نہ ہوتے۔ بلوچ دوسروں سے نفرت نہیں کرتے بلکہ غلامی قبول نہیں کرتے ہیں۔ جب نوازشریف نے جنرل کاکڑ کو آرمی چیف بنایا تو غلام اسحاق خان اور نوازشریف دونوں کو فارغ کردیا گیا۔ آج عمران خان اور شہبازشریف کی جگہ پر مرکز میں منظور پشتین، علی وزیر، محسن داوڑ ، اختر مینگل، سرفراز بگٹی ، شاہ زین بگٹی ، خالد مقبول صدیقی اور ڈاکٹر فاروق ستار سیاست کررہے ہوتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

پاکستان کی ریاست و سیاست میں خطرہ440وولٹ کے خدشات پیدا ہوگئے ۔

پاکستان کی ریاست و سیاست میں خطرہ440وولٹ کے خدشات پیدا ہوگئے ۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

تحریک انصاف بمقابلہ امریکہ ، شہبازحکومت یا اسٹیبلشمنٹ؟ ۔ عمران خان کو سیاسی شہید بناکر زندہ کرنیوالے کون ، کون اور کون ہیں؟
جو صحافی حضرات عمران ریاض خان گوگی اور سمیع ابراہیم وغیرہ کل تک تحریک انصاف اور پاک فوج کی حمایت کررہے تھے آج وہ ان کو لڑانے کے زبردست کرتب دکھارہے ہیں

پاکستان انتہائی خطرناک موڑ پر کھڑا ہے۔ جب اسرائیلی وزیرنے دوبئی کا دورہ کیا اور باچاخان مرکز پشاور میںANPکے نمائندے اور مولانا فضل الرحمن نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ مولانا فضل الرحمن نے روایتی سخت مؤقف کا اظہار کرکے دوبئی کے حکمران کو بے حیثیت کٹھ پتلی قرار دیا اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے قائداعظم محمد علی جناح کے مؤقف کو امت مسلمہ کی نمائندگی قرار دیا تھالیکن صحافی عمران خان عرف گیلا تیتر بلکہ گوگی خان نے مولانا فضل الرحمن پر اسرائیل کو تسلیم کرنے اور دوبئی میں چندہ بند ہونے کے خدشے پر اتنا دروغ گوئی سے کام لیا تھا کہ انسان سوچ بھی نہیں سکتا کہ کوئی اتنا جھوٹ بھی بول سکتا ہے؟ سوشل میڈیا پروقارملک بھی کھلم کھلا بہت کچھ کہتا ہے اور اس نے یہ جھوٹی خبر دی کہ کراچی میں مرغی کے گوشت کی قیمت ہزارروپے فی کلو ہے، عمران ریاض خان نے ایک مرتبہ آرمی چیف جنرل باجوہ پرکسی مافیا کی پشت پناہی کا بتایا اور پھر معافی مانگ لی لیکن بشری بی بی کی فرنٹ مین فرح گوگی پر کوئی رپورٹ نہیں دی۔ کٹھ پتلی صحافیوں اور سیاستدانوں نے ہمیشہ جھوٹ اور بدتمیزی سے اخلاقیات کا جنازہ نکالنے میں بڑا کردار ادا کیا اورآج پوری قوم اور وہ پاک فوج اس کی سزا بھگت رہی ہے۔جو پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگاکراپنے مخالفین کو ہرقسم کی تنقید،تضحیک اور جھوٹے پروپیگنڈے کا نشانہ بناتے تھے اور سستی شہرت کماتے اور مفادات اُٹھاتے تھے۔اس میں شک نہیں کہ یہ جمہوریت کا تحفہ ہے کہ ملک وقوم پر ایسی حکومت مسلط ہوگئی ہے جس طرح جنگلی جانورپہلے کوئی شکار کرکے کھالیتے ہیں۔ پھر باقی ماندہ پر لگڑ بگڑ جھپٹتے ہیں اور آخرکار گدھ کا نصیب جاگ جاتاہے اور یہ لگڑبگڑ اور گدھ شرم بھی نہیں کھاتے ہیں۔ بقیہ صفحہ3نمبر1

بقیہ… خطرہ440کے خدشات
صحافی عمران خان، سمیع ابراہیم اور صابر شاکروغیرہ نے ہمیشہ پاک فوج اور عمران خان کی تائید میں صحافت کی بجائے کٹھ پتلی کا کردار ادا کیا ہے۔ سمیع ابراہیم نے فواد چوہدری سے ایک بڑا زبردست مکا بھی کھایا تھا جس کی وجہ سے اس کے چشمے بھی بدل گئے تھے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کم ازکم فواد چوہدری سے معافی طلب کرنے کی بات کرتا تو بھی مناسب ہوتا لیکن جب سمیع ابراہیم کو اپنے چہرے پرمکا کھانے کی پرواہ نہیں ہے تووہ دوسروں کی عزت اور ان کو نقصان پہنچنے کا کیا غم کھا سکتا ہے؟۔
عمران احمد خان نیازی نے میانوالی سے حقیقی آزادی کے نام سے تحریک شروع کردی لیکن کیا وزیراعظم بننے کے باوجود بھی اسٹیبلشمنٹ کا غلام تھا؟۔ عوام کی عرصہ دراز سے یہ خواہش رہی ہے کہ عالمی ومقامی اسٹیبلشمنٹ کی غلامی سے حقیقی آزادی ملنی چاہیے اسلئے عمران خان کی بھرپور تائید ہورہی ہے۔ شدت پسندی ، انتہاء پسندی اور دہشت گردی کو پروان چڑھانے میں امریکہ مخالف پالیسی کا بڑا ہاتھ رہاہے جس میں لوگوں کیساتھ ڈبل پارٹ ہوتا تھا۔ ایک طرف اسٹیبلشمنٹ اور اس کے حواری خود امریکہ سرکار کی پالیسیوں پر عمل در آمد کرتے تھے اور دوسری طرف اپنے مخالفین کو نشانہ بناتے تھے کہ یہ امریکی ایجنٹ ہیں۔
محمود خان اچکزئی،مولانا فضل الرحمن ،محسن داوڑ، منظور پشتین،سردار اختر مینگل اور عمران خان کے بیانیہ میں اب کوئی فرق نہیں رہا کہ ہماری ریاست نے ڈالروں کی خاطر افغان جنگ لڑی اور اس خطے کے امن کو تباہی کے کنارے پر پہنچادیا۔ پیپلزپارٹی، ن لیگ اور تحریک انصاف نے اپنی مدتِ ملازمت میں امریکہ اور اپنی اسٹیبلشمنٹ کیساتھ مل جل کر وہی کیا جس کی توقع ایک تابعدار ملازم سے ہونی چاہیے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے امریکہ کی نام نہاد جمہوریت کو دھچکا پہنچایا۔ عمران خان نے پاکستان کی نام نہاد جمہوریت کا بھانڈہ پھوڑ دیا اور مودی سرکار بھارت کی جمہوریت کا بیڑہ غرق کرنے میںلگی ہوئی ہے۔
پاک فوج کے ترجمان نے واضح کیا کہ 75سالوں سے عوام کی خواہش تھی کہ فوج نیوٹرل ہوجائے تو اب دوسال سے ہم نیوٹرل ہیں۔ عمران خان قصائی نیوٹرل فوج کو جانور کہتا ہے اور بکرے کو چھرا نظر آتا ہے تو اپنی خیر مناتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ فوج کو نیوٹرل رہنا چاہیے تھا اور اگر پہلے نہیں تھی تو اس کی ذمہ داری موجودہ فوج پر نہیں ڈالنی چاہیے۔ عمران خان کہتا ہے کہ جب امریکہ نے سمجھ لیا کہ میں پاکستان کو نیوٹرل رکھنا چاہتا ہوں تو مجھے ہٹادیا گیا۔ اگر عالمی سطح پر نیوٹرل رہنے سے عمران خان جانور نہیں بنتا تو نیوٹرل فوج کو بھی جانور کہنا درست نہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ اورسابقہDGISIجنرل فیض حمید کو نوازشریف نے بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ن لیگ کے وکلاء وغیرہ نے” یہ جو دہشت گردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے” کے نعرے لگائے تھے۔ حالانکہ ان کا نعرہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ ”یہ جو سیاست گردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے”۔ نوازشریف لندن میں بیٹھا تھا اسلئے کھل کر بات کی ۔ عمران خان نے اشارہ دیا تھا کہ اگر مجھے باہر کردیا گیا تو زیادہ خطرناک ہوجاؤں گا لیکن وہ میر جعفر اور میر صادق نوازشریف اور زرداری کو کہتا تھا اور اس سے مراد وہ لیتا تھا جس کازبان پر نام نہیں لے سکتا تھا۔ اسلئے کہ کٹھ پتلی صحافی مارکہ غنڈوں کے بیچ میں رضیہ پھنس گئی تھی۔
بجلی میں خطرہ440وولٹ یہ ہے کہ جب220،220وولٹ دو تاروں کے ٹچ ہونے کا خدشہ ہوتا ہے تو اس سے بڑی تباہی مچ جاتی ہے۔ انسان کے بچنے کے امکانات نہیں رہتے۔ گھروں میں فریج، پنکھے، بلب وغیرہ سب کچھ جل جاتے ہیں لیکن جب ایک220وولٹ کا مثبت تار اور دوسرا منفی تار ہو تو پھر بجلی کا نظام بہترین چلتاہے۔ جمہوری نظام میں حکومت اور اپوزیشن کا کردار بھی مثبت اور منفی دونوں پہلو کا ہو توبہترین چلتا ہے ۔جب اسٹیبلشمنٹ اور تحریک انصاف میںدراڑ پیدا ہوگئی اور دونوں کی حمایت کرنے والے صحافیوں نے دونوں طرف کی سپلائی جاری رکھی تو اس سے خطرہ440کا خدشہ پیداہوگیا۔
امریکہ نے ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں افغان جہاد کیلئے بنیاد رکھ دی تھی لیکن بھٹو نے روس کے ذریعے اسٹیل مل کی بھی بنیاد رکھی اور اسلامی سوشل ازم کا نعرہ بھی لگایا۔ پھر جنرل ضیاء الحق اورISIچیف اختر عبدالرحمن نے اس کی تکمیل کردی۔ کرائے کے مجاہدین کا داد اامریکہ تھا اور نانیCIAتھی۔ کرائے کاباپ جنرل ضیاء الحق اور ماں جماعت اسلامی تھی۔ پھر بے نظیر بھٹو اور نصیراللہ بابر کے ذریعے طالبان لائے گئے۔ پھر اسامہ بن لادن اور طالبان کے خلاف امریکہ آنے لگا تو کرائے کے مجاہدین کا سوتیلا باپ مولانا فضل الرحمن بن گیا۔ غیرجماعتی انتخابات سے اسلامی جمہوری اتحاد اور پیپلزپارٹی ومسلم لیگ کے درمیان اپنی اپنی باری کا سلسلہ پرویزمشرف کے دور سے پہلے بھی تھا اور پھر بعد میں بھی بن گیا اور پھر تحریک انصاف کو لایا گیا اور اب پھر باریوں کا چرچاہے۔ عمران خان کباب میں ہڈی ہے۔ جس طرح ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی تیسری بیگم کی علیحدگی کا چرچہ ہے اسی طرح وسعت اللہ خان کے بقول دو بیویوں کے بعد تیسری سے اسٹبیلشمنٹ کی لڑائی کا سلسلہ اب عروج پر پہنچ رہاہے۔ یہ جمہوریت نہیں بلکہ خاندانی قسم کے مسائل میں عوام کو الجھایا جارہاہے۔ خوفناک تصاد م کا بھی خطرہ ہے اور عزت سادات بھی گئی کا مسئلہ نظر آتا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

ہمارا ریاستی اور سیاسی نظام اور محمد علی جناح کا دیا ہوا پاکستان

ہمارا ریاستی اور سیاسی نظام اور محمد علی جناح کا دیا ہوا پاکستان

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

مغرب کا مقابلہ حقیقی اسلام سے کرنا ہوگا۔ افغانستان، سعودی عرب اور ایران نے جو اسلام سرکاری سطح پر پیش کیا وہ اسلام کی بگڑی ہوئی شکل ہے لیکن پاکستان میں اسلام کی شکل سرکار نے نہیں مولوی نے بگاڑ ی ہے ۔ پاکستان کے آئین میں اقتدار اعلیٰ اللہ کیلئے اور قرآن وسنت کے مطابق قانون سازی کی وضاحت ہے۔ ہم نے75سال میں آزاد خارجہ پالیسی نہیں اپنائی۔ اگر قرآن کے مطابق چور کی سزا ہاتھ کاٹنا قرار دیتے تو بڑے بڑوں کے ہاتھ کٹ جاتے اور وہ اپنی انگلیاں لہرالہرا کر عوام کو ورغلانے کیلئے تقریریں پھر نہیں کرسکتے تھے اوراگردنیا سعودی عرب کو اجازت دیتی ہے توہمیں کیوں نہیں دیتی؟۔اپنا مقتدر طبقہ چور ہے اسلئے پارلیمنٹ میں اسلامی قانون سازی نہیں کرتا۔ جب اسلام دنیا میں نازل ہوا توعیسائی مشرکانہ عقیدہ رکھتے تھے کہ تین خدا ہیں۔ یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کیلئے توہین آمیز نظریہ رکھتے تھے۔ اسلام نے اہل کتاب کی خواتین کیساتھ نکاح کی اجازت دی لیکن آج ہماری جہالتوں کا حال یہ ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان میںالجامعة الاسلامیہ الفلاح للبنات کی19سالہ معلمہ کو توہین مذہب، بھونڈے خواب اور مفادات کی بھینٹ چڑھا کر چند خواتین نے چھریاں مارمارکر ذبح کرکے شہید کردیا۔ وفاق المدارس سے ملحق مدرسے کے مہتمم مولانا شفیع اللہ کے بیان کو دیکھ لیا جائے تو وہ معلمہ کا دفاع بھی جرأتمدانہ انداز میں کرنے سے عاری دکھائی دیتا ہے۔ وفاق المدارس ڈیرہ اسماعیل خان کے علماء نے چندوں کے تحفظ کی خاطر جو بیان دیا، وہ بھی شرمناک ہے۔ مولانا سیدمحمد بنوری جب گھر میں شہید کئے گئے تھے تو مولانا فضل الرحمن سے استدعا کی تھی کہ مجھے قتل کردیا جائیگا۔مولانا فضل الرحمن مفتی جمیل خان کو ساتھ لئے گھوم رہے تھے جس نے روزنامہ جنگ میں خود کشی کرنے کی جھوٹی خبر چلائی تھی۔ مدارس کے علماء کو چوڑیاں پہنادیں اور خواتین عالمات اپنی کسی رہنما کی قیادت میں اس معلمہ کے بہیمانہ قتل پر ملک گیر احتجاج کا حق ادا کریں۔ایک انسان کا بے گناہ قتل تمام انسانیت کا قتل ہے۔ اگر یہ فتنہ نہیںروکا گیا تو مولانا فضل الرحمن، عمران خان، شہبازشریف، بلاول بھٹو، مفتی تقی عثمانی، مفتی منیب الرحمن، علامہ حافظ سعد رضوی ، اسفندیار ولی ، جنرل قمر باجوہ ، چیف جسٹس عطاء محمد بندیال اور بہت مرد اورخواتین کو بھی خوابوں کی بنیاد پر قتل کرنے کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ ان خواتین کو ایسی عبرت ناک سزائیں دی جائیں کہ آئندہ کسی دوسرے کو ایسے خواب نظر نہ آئیں۔ اشرافیہ کو غریبوں پر ظلم دکھائی نہیں دیتا ہے۔
قرآن میں توراةکے حوالے سے اللہ نے جان کے بدلے جان، دانت، آنکھ، ناک، کان اور ہاتھ وغیرہ کے بدلے میں دانت ،آنکھ، ناک، کان اور ہاتھ وغیرہ کا حکم دیا ہے۔ اگر پاکستان میں اس پر عمل کرنا شروع کریںگے تو دنیا بھر کے مذہبی جنونی یہودی بھی ہمارا ساتھ دیں گے جن کے پنجے میں فرنگیوں کی شہہ رگ ہے۔ عیسائیوں کے انجیل میں شرعی حدود کا ذکر نہیں لیکن وہ تورات کے احکام کو تسلیم کرتے ہیں اسلئے عیسائی بھرپور ساتھ دیں گے۔ جرائم پرقابو پانے اور چوری کا خاتمہ کرنے کیلئے دنیا بھر کے مالیاتی ادارے پاکستان کے اقدامات کو قابلِ تحسین قرار دیںگے۔ جب ہماری عدالتیں چور کو سزائیں دیتی ہیں تو چور قید سے نکل کر اپنی معصومیت کا ڈھنڈورا پیٹنے میں شرم محسوس نہیں کرتا ہے۔ پارلیمنٹ چوروں کیلئے قرآن کے مطابق ہاتھ کاٹنے کی سزا کو قانونی شکل دیتی تو کتنااچھا ہوتا؟ لیکن بلی کو مچھلی کی چوکیداری سونپ دی گئی ہے۔
اللہ نے فرمایا کہ زخموں کا قصاص یعنی بدلہ ہے۔ اگر قتل اور اعضاء کاٹنے اور تیزاب پھینکنے کی سزاؤں پر تین دن کے اندر اندر عمل ہو تو جرائم کی شرح زیرو ہوسکتی ہے۔ سالوں سال بعد مظلوم اپنی جان، مال اور عزت پر کھیل کر انصاف حاصل کرنے میں ناکام ہوتا ہے۔ انصاف میں دیر بھی انصاف کا قتل ہے۔ ظالموں کو موقع دینے کیلئے جتنے تاخیری حربوں کو قانون کا حصہ بنایا گیا ہے وہ سب ایک خود مختار پارلیمنٹ کے ذریعے ختم کئے جائیں۔ ہندوؤں کے پاس اپنا کوئی قانونی نظام نہیں ۔ قرآن وسنت کے ٹھوس قوانین کی شکل بگاڑ دی گئی۔ ریمنڈ ڈیوس کیلئے فوج، صوبائی اور مرکزی حکومت نے اسلام کو سہولت کاری کیلئے استعمال کیا تھا۔ بیوہ عورت نے اکلوتے بیٹے کا خون عدالت کی دہلیز پر اسلئے معاف کیا کہ اس کو خطرہ تھا کہ جوان بیٹیوں کی عزت لٹ جائے گی۔ مسلم لیگ ن کے رہنما صدیق کانجو کے بیٹے مصطفی کانجو اور شارخ جتوئی کے کیس میں فرق و امتیاز نہ ہونے کے باوجود عدالت نے الگ الگ انصاف دیا تھا۔
فائز عیسیٰ کی بیگم کی بیرون ملک جائیداد پر اپنے پیٹی بند جج بھائیوں کو دھمکی ملتی ہے کہ تمہارا بھی بھانڈہ پھوڑ دیں گے تو اس کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ عمران خان کی حکومت کو اس کی بے دریغ حمایت کرنے والے سوشل، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے ڈبودیا ہے اور مسلم لیگ ن کا بیڑہ اس کی حمایت کرنے والا میڈیا غرق کررہاہے۔ قطری خط اور دھمکی خط میں دونوں طرف کی میڈیا نے جس طرح کی شرمناک مہم جوئی کی، ان کو صحافت کی جگہ کوئی اورپیشہ اپنانا چاہیے۔ معتدل، سچے اور غیرجانبدار میڈیاہاؤس اور صحافیوں کو بڑا کریڈیٹ جاتا ہے لیکن کرائے پر مہم جوئی کرنے والوں کابھی فائدہ ہے۔ معتدل اس طرح سے جرأتمندی کا مظاہرہ نہیں کرسکتے جس طرح فواد چوہدری کے سامنے مطیع اللہ جان کھڑے ہوگئے ۔حالانکہ فواد نے مبشر لقمان اور سمیع ابراہیم کو تھپڑ تک رسید کردئیے۔
قراردادمقاصد اور آئین پاکستان میں اقتدارِ اعلیٰ کا حق اللہ اور خلافت کا حق حکمران کاہے۔ آدم کو زمین میں خلیفہ بنایا تھا۔ جس شجر سے اللہ نے روکا ۔ شیطان نے وسوسہ ڈالا کہ کیا میں ہمیشہ والا شجر بتادوں اور ایسی بادشاہت جونہ ختم ہونیوالی ہو؟۔ حضرت آدم کو شیطان نے ورغلایا۔اقتدار حقیقت میں اللہ کیلئے ہے اور جب کوئی اس کو اپنے لئے دائمی اور خاندانی سمجھنے لگتاہے اور اس کی حرص میں مبتلا ء ہوجاتا ہے تو یہ وہ شیطانی کھیل ہے جس کی وجہ سے آدم وحواء ننگے ہوگئے تھے ۔ قرآن میں اللہ نے بنی آدم سے کہا کہ تمہیں شیطان ننگا نہ کردے کہ جیسے تمہارے آباء کو ننگا کردیا تھا۔ خلافت راشدہ کے بعد بنوامیہ کو زبردستی قیامت تک اپنی دائمی بادشاہت قائم رکھنی تھی ۔پھر عوام نے ان کو ایسے عبرتاک انجام سے دوچارکردیا تھا کہ کربلا کے مظالم بھی لوگ بھول گئے تھے۔ تین سفیانوں کے مقابلے میں تین مہدیوں کا ذکر ہے اوراچھے برے شجرے کی حقیقت آخر کار پھر عوام کے سامنے ضرور آئے گی۔مولانا الیاس گھمن کے ساتھی مفتی رضوان کا نیٹ پر انٹرویو دیکھا ۔اس نے کہا کہ” حضرت حسن و حضرت حسین ہمارے ایمان کا حصہ ہیں اور یزید تاریخ کا حصہ ہے۔ تاریخ کو ہم ایمان پر مقدم نہیں رکھ سکتے۔ یزید واقعہ کربلا میں خود ملوث تھا یا نہیں ؟۔ اس پر ہمارے اکابر نے سکوت اختیار کیا”۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ ”ا گر دریائے فرات کے کنارے کتا پیاس سے مرے تو ذمہ دار عمر ہوگا”۔یزید کی حکمرانی میں واقعہ کربلا ، اہلبیت کے بچے ، بیمار اور خواتین کو زنجیروں میں باندھ کر اور امام حسین کے کٹے ہوئے سر کو یزید کے دربار میں پیش کیا اور یزیدنے دانت مبارک اپنی تلوار سے کٹکٹائے کہ مقابل نہ آتا تو یہ انجام نہ ہوتا۔ اور اس پر سکوت اختیار کیا جائے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت راشدہ کا عدل وانصاف نہیں چاہیے بلکہ جن کو شیطان نے اپنے دائمی حکومت کی خوہش سے ننگاکیا تھاوہی اقتدار چاہیے۔ بقیہ صفحہ 2نمبر2

بقیہ : ہمارا سیاسی وریاستی نظام اور محمد علی جناح کا دیا ہوا پاکستان
قرآن میں کلمہ طیبہ کی مثال شجرہ طیبہ اور کلمہ خبیثہ کی مثال شجرہ خبیثہ سے دی گئی اور بنوامیہ، بنوعباس، خلافت عثمانیہ، مغل سلطنت، فاطمی خلافت، خاندانِ غلاماں اور ایران، سعودی عرب اور افغانستان کے علاوہ تمام خاندانی بادشاہتیں در اصل شجرہ خبیثہ کی طرح تھیں، ہیں اور رہیں گی جو بھی ان کے نقش قدم پر چلتا رہے گا۔ حضرت علی کے بیٹے حسن نے مسنداقتدار کو چھوڑ کر شجرہ طیبہ کی مثال قائم کردی۔ آدم کے بیٹے قابیل نے شجرہ خبیثہ کی بنیاد رکھ دی اور ہابیل نے شجرہ طیبہ کا نقشہ بتادیا کہ قدرت رکھنے کے باوجود ظالم بننے کی جگہ مظلومیت کو ترجیح دے دی۔ نوازشریف، شہبازشریف سے لوگ اسلئے نالاں تھے کہ ایک بھائی وزیراعظم اور دوسرا پنجاب کا وزیراعلی بنتا تھا اور اب حمزہ شہباز کے وزیراعلیٰ پنجاب اور شہباز شریف کی وزیراعظم کی خواہش نے پھر شجرہ خبیثہ کی یاد تازہ کردی۔ کوئی عقلمند شجرہ خبیثہ سے تعلق رکھتا تو بھی مسلم لیگ ن میں نئی شامل ہونے والی منتخب آزادرکن اسمبلی محسن جگنو کووزیراعلیٰ بناتا مگر حمزہ شہباز کو بنانے سے گریز کرتا۔ اسلئے کہ کسی بھی عوامی جماعت پر خاندان کی اجارہ داری شرمناک ہے۔ مولانا فضل الرحمن اپنے بیٹے کی جگہ جماعت کے کسی سینئر رکن پارلیمنٹ کو آگے نہیں لاسکتا تھا تو سگے بھائی مولانا عطاء الرحمن کوہی آگے لاتا۔ سیاسی اور مذہبی جماعتوں میں خاندانی اقتدار کا دوام کھلی غلط خواہش ہے جس کی وجہ سے حضرت آدم کو بھی شیطان نے وسوسہ ڈال کر جنت سے نکلوادیا تھا۔ محمود خان اچکزئی کی بات سوفیصد درست تھی کہ ”کم بختو! قیادتیں بنائی نہیں جاتی ہیں بلکہ پیدا ہوتی ہیں”۔ بھٹو، نوازشریف اور عمران خان ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویزمشرف کے کالبوت میں رکھ کرہی بنائے گئے تھے اور قیادتوں کیلئے خاندانی کاشت فرعون کی شجرہ خبیثہ ہوسکتی ہے۔ خلافت راشدہ کا معیار خاندانی امتیاز نہیں بلکہ کردار اور عوامی رائے کا معاملہ تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل کے بجائے قریش سے نبیۖ کی بعثت ہوئی تو اس میں خاندانی اجارہ داری کی جگہ نبوت کا شجرہ طیبہ کا معاملہ تھا اور نبیۖ کے بعد بنوہاشم کی جگہ بنوتمیم سے حضرت ابوبکر صدیق اکبر کی خلافت بھی شجرہ طیبہ سے تعلق رکھتا تھا۔ حضرت علی بنادئیے جاتے تو قیامت تک خاندانوں کی فرعونیت کا معاملہ اسلام کے گردن میں فٹ کرنے کی کوشش کی جاتی۔
مولانا فضل الرحمن حدیث سناتاہے کہ ”جس حکمران نے عوامی رائے کے بغیر خود کو زبردستی سے مسلط کیا تو اس پر اللہ کی لعنت ہو”۔ ایک حدیث جمعہ کے خطبات میں پڑھی جاتی ہے کہ ” سلطان زمین پر خدا کا سایہ ہے اور جس نے سلطان کی توہین کی اس نے اللہ کی توہین کی ”۔ اس حدیث کو بھی جمعہ کے خطبے کا حصہ بنادیا جاتا کہ زبردستی سے اقتدار پر قابض ہونے والے پر اللہ کی لعنت ہو۔ جہاں بھی سازشوں، خاندانی قبضہ مافیا اور ڈکٹیٹر شپ سے کسی کو اقتدار ملتا ہے تو مولوی حسنِ قرأت سے آیت پڑھتا ہے کہ ” اللہ ملک کا مالک ہے وہ جس کو چاہتا ہے ملک عطاء کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتاہے اور جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے”۔ اگر فرعون کے زمانے میں حضرت موسیٰ کو بھاگتے اورہمارامولوی موجودہوتا تب یہ آیت پڑھتا۔
قائداعظم محمد علی جناح اور انکے ساتھیوں نے اپنی مادر وطن ہندوستان سے وفاداری نہیں کی تھی بلکہ دو قومی نظرئیے کی بنیاد پر مادروطن ہندوستان کو تقسیم کرکے قربان کیا تھا اور مولانا حسین احمد مدنی کو وطن پرست ہونے کی بنیاد پر علامہ اقبال نے ابولہب قرار دیا تھا۔ نبیۖ نے مکہ مکرمہ سے یثرب ہجرت کرنے پر ترجیح دی تھی اور حضرت اسماعیل کوبھی حضرت ابراہیم نے بچپن میں ہجرت کی راہ پر ڈالا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پہلے بھاگ کر جان بچائی تھی ۔پھر اپنی قوم کو دریا پار لے گئے تھے۔ پاکستان بنا تو مہاجرین اور قائدین نے ہجرت کی تھی اور جن علاقوں نے پاکستان اور نظرئیے کو ووٹ دیایہاں تشریف لائے تھے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن علاقوں نے پاکستان کو ووٹ دیا تھا اور جس میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بھی شامل تھا۔ جب وہاں کی پارٹی جیت گئی تو اس کو ذوالفقار علی بھٹو اور اس کی پشت پناہی کرنے والوں نے اقتدار سپرد کرنے میں تاخیری حربے استعمال کئے۔ جس کی وجہ سے ملک ٹوٹ گیا تھا۔
آج بنگلہ دیش کی کرنسی ہماری کرنسی سے زیادہ حیثیت رکھتی ہے۔ ہماری تمام حکومتوں نے ڈالر کی قیمت کے سامنے اپنے روپیہ کو بے وقعت بناتے بناتے آخر یہاں تک پہنچادیا ہے کہ بنگالی ٹکے نے بھی روپیہ سے سبقت لے لی ہے۔ تیس سال سے ن لیگ اور پیپلزپارٹی ذمہ دار تھے اور اب پونے چارسال سے تحریک انصاف نے اسی پگڈنڈی پر چل کر تنزلی کا سفر جاری رکھا ۔ صحافی نے شہباز شریف سے پوچھا کہ آپ کیا بہتری لائیں گے تو اس کا جواب یہ تھاکہ عمران خان سے پوچھ لو جو کہتا تھا کہ ہرچیز کا ذمہ دار وزیراعظم ہوتا ہے۔
ہماری حکومت اور ریاست واقعی اللہ کا سایہ ہے اور اللہ باقی رکھے کیونکہ جس طرح دہشتگردی کا مقابلہ ہماری پاک فوج اور پاک پولیس نے کیا عوام مقابلے کی صلاحیت سے محروم تھی۔ البتہ گڈ طالبان اور بدمعاش بھی ریاست اور حکومت پالتی ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں تمام قسم کے جرائم بھی بڑی ڈھڑلے سے ہوتے ہیں۔ خواتین کے ساتھ جبری جنسی زیادتی اور اغواء برائے تاوان سے لیکر ہیروئن ، چرس ،افیون ،چائے، ایرانی تیل،کپڑے،ادویات اورصاف شفاف پانی تک کی سمگلنگ ہورہی ہے اور ان کے پیچھے کس کس کا ہاتھ ہے؟۔ یہ کسی بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ مسلم لیگ کے صدیق کانجو کے بیٹے اور جام عبدالکریم کے ہاں غریبوں کا قتل اور مجبوری میں معافی میڈیا میں بھی زیادہ نہیں اچھالا جاتا ہے اور جب میڈیا مجید اچکزئیMPAکے قتل کو اچھالتی ہے تب بھی ایک غریب ٹریفک پولیس کے اہلکار شہید کو انصاف نہیں ملتا ہے۔
جب بلاول بھٹو زرداری کے والدین کی شادی نہیں ہوئی تھی اور بینظیر بھٹو آنسہ کہلاتی تھی تو میں نے1984میں جمعیة اعلاء کلمة الحق کے نام پر جماعت بنائی تھی اور کوشش کی تھی کہ جماعت کا امیر کسی دوسرے کو بنایا جائے مگر اس میں کامیاب نہیں ہوسکا تھااور جب عمران خان کرکٹ کھیلتا تھا اور ورلڈ کپ بھی نہیں جیتا تھا تو میں نظام کی تبدیلی کیلئے ڈیرہ اسماعیل خان1991میں ایک سال بامشقت جیل کی سزا کاٹ رہا تھا۔ جب نواز شریف جنرل ضیاء الحق کا کٹھ پتلی تھا تو بھی نام نہاد اسلامی جمہوری اتحاد کی جگہ میں نے مولانا فضل الرحمن کو باقاعدہ اپنا شاختی کارڈ بنواکر ووٹ دیا تھا۔ حالانکہ میں نے اپنا شناختی کارڈ تصویر کو جائز نہ سمجھنے کی وجہ سے ضائع بھی کردیا تھا۔ مولانا عبدالکریم بیرشریف نے بھی شناختی کارڈ کیلئے اپنی تصویر نہیں کھچوائی تھی جو جمعیت علماء اسلام کے مرکزی امیر تھے اور اس سے پہلے جمعیت علماء اسلام کے مرکزی امیر مولانا سراج الدین دین پوری نے جمعیت چھوڑ کر پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن جمعیت میں حیثیت عہدے کی نہیں شخصیت کی ہے اوریہ فطری بات ہے لیکن شخصیت کو اپنے خاندانی تسلط قائم کرکے یزید سے بدتر کردار ادا نہیں کرنا چاہیے ۔یزید کے بیٹے معاویہ نے خاندانی قبضہ کرنے کے بجائے اقتدار کو چھوڑ دیا تھا۔ مولانا فضل الرحمن کے کارکن جن لوگوں سے مولانا کیلئے لڑرہے تھے انہی کو مولانا نے کارکنوں پر مسلط کر دیا ہے۔ بہتر ہے کہ جمعیت علماء اسلام عوام سے کھلواڑ کرنے کے بجائے مریم نواز کی جماعت میں باقاعدہ ضم ہوجائے۔ مولانا نے حافظ حسین احمد کے مدِ مقابل مولانا غفور حیدری کو سپورٹ کرکے کٹھ پتلی جنرل سیکرٹری بنادیا تھا اور ابھی تک اپنی نااہلی کے باوجود اسی کی پشت پناہی سے مسلسل منتخب ہورہاہے۔
جب عمران خان کے کارکنوں کی طرف سے ہلڑبازی کا خدشہ تھا تو مریم نواز نےPDMکے پلیٹ فارم کو چھوڑ کر ن لیگ کے کارکنوں کو لاہور میں روک دیا تھا اور مارکٹائی کرنے اور کھانے کیلئے جمعیت علماء اسلام کے کارکن پہنچائے گئے تھے۔ جب ایک جماعت ہوگی تو کم ازکم فرنٹ لائن کا کردار تو ادا نہیں کریںگے اور جب مار کھانی اور کھلانی ہوگی تو سب ایک جگہ جینے مرنے کا دم بھریں گے۔ جب قومی اسمبلی میں ختم نبوت کی شقوں کے خلاف ن لیگ کی حکومت نے بڑی سازش کی تھی تو مولانا فضل الرحمن بھی اس کے اتحادی تھے۔ قومی اسمبلی سے بل پاس ہوگیا تھا اور سینٹ میں حافظ حمداللہ نے اس کی نشاندہی بھی کی تھی لیکن جب اتفاق سے سینٹ میں بل پاس نہ ہوسکا تو سینٹ وقومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں بل پیش کیا گیا۔ شیخ رشید چیخ چیخ کرجمعیت علماء اسلام کو سیدعطاء اللہ شاہ بخاری کی قربانیاں یاد دلاتے رہے لیکن کوئی ٹس سے مس نہیں ہورہاتھا۔ پھر علامہ خادم حسین رضوی نے فیض آباد دھرنہ دیا تھا۔ پیپلزپارٹی، تحریک انصاف، جمعیت علماء اسلام اور دوسری چھوٹی بڑی پارٹیاں بھی خاموش تھیں۔ صرف اور صرف جماعت اسلامی نے شیخ رشید کی دھائی سن لی تھی اور آواز اٹھائی تھی۔
جمعیت علماء اسلام کی تو سیاست ہی ختم نبوت کا دفاع ہے ۔ مولانا عبدالغفور حیدری اتنا کم عقل ہے کہ جلسے میں قاری محمد حنیف جالندھری کی موجودگی میں کہہ رہاتھا کہ ”میرا دل بیٹھا ہوا تھا کہ اگر سینٹ سے یہ بل پاس ہوجاتا تو مجھے چیئرمین سینٹ کی غیرموجودگی میں چیئرمین کی حیثیت سے دستخط کرنے پڑتے لیکن شکر ہے کہ بل پاس نہیں ہوسکا تھا”۔ شاید نوازشریف اور مولانا فضل الرحمن نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو قادیانی سمجھ رکھا تھا اور اس کی خوشنودی کیلئے یہ ترمیم کی جارہی تھی۔ اللہ اور اسکے رسول ۖ کیلئے تو یہ خدمت نہیں ہوسکتی تھی۔یہ بات کرتے ہوئے سادہ لوح ، کم عقل اور بیوقوف انسان اتنا بھی نہیں سوچ رہا تھا کہ رنگے ہاتھوں اعتراف جرم کررہاہوںاور ساتھ ساتھ یہ کہنے پر نہیں شرمارہاتھا کہ” ہم اسمبلیوں میں دین کے تحفظ کیلئے بیٹھے ہیں”۔ تقریب میں قاری حنیف جالندھری نے کہا کہ ”کورٹ سے خلع لینے کا تصور غلط ہے اور اسکے خلاف ایک ملک گیر تحریک چلائیں گے”۔ کہا جاتا تھاکہ مفتی محمود نے جنرل ایوب خان سے ایک لاکھ روپیہ لیکر عائلی قوانین کے خلاف مزاحمت نہیں کی تھی جن میں عدالت سے عورت کو خلع مل گیا ۔ مفتی محمود نے فقہ کے غلط مسائل دیکھ کر عدالتی خلع کی مزاحمت نہیں کی ہوگی۔ مولانا اشرف علی تھانوی جس اسلام کیلئے تقسیم ہند کی حمایت کررہے تھے تو اس کی وجہ خلع کے غیرفطری مسائل فقہ کا حصہ تھے لیکن مولانا حسین احمد مدنی نے ان فقہی مسائل کی تقلید کے مقابلہ میں متحدہ ہندوستان میں ہندوؤں اور سکھوں کیساتھ مل کر سیکولر ریاست بنانے کو ترجیح دی تھی۔
ذوالفقار علی بھٹو کو اسلامی دنیا نے اسلئے ترجیح دی تھی کہ وہ پاکستان جیسے ملک کا وزیراعظم تھا، بھٹو کی شخصیت سے ملک کابڑا عمل دخل تھا۔ جنرل ضیاء الحق کی بھی اسلامی دنیا میں بڑی حیثیت تھی۔ عمران خان کو ترکی ، ایران، ملائشیا اور دیگر ممالک نے اہمیت دی لیکن سعودی عرب نے اشارہ کیا تو بیٹھ گیا تھا۔ یہ اسلامی ممالک کو دوبلاکوں میں تقسیم کرنے کاا یجنڈہ تھا۔
اسلام نے پنجاب کے بھانڈ اور سندھ کے مداری پیدا کرکے دنیاکی قیادت نہیں کی تھی بلکہ عملی طور پر مساوات کا راسخ عقیدہ دیا تھا۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ پر بہتان لگا تو بہتان لگانے والوں کیلئے اسی اسی کوڑوں کی سزا کا حکم دیا گیا اوریہ حکم امہات المؤمنین کیساتھ خاص نہیں ہے بلکہ عام درجے کی خاتون پر کوئی بہتان لگائے تو اس کیلئے بھی وہی سزا ہے جو نظریہ ٔ ضرورت کے تحت بدل نہیں سکتاہے۔ جب قیصرو کسریٰ کے شاہی تختوں اور درباروں میں اس انصاف ، قانون اور عقیدے کی گونج پہنچ گئی تو بادشاہ، ملکہ اور درباری ہل کررہ گئے۔
آج مریم نوازجمعیت علماء اسلام کے جن کارکنوں میں اسٹیج کی رونق بنتی ہے وہ کارکن اپنی بیگمات اور ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں کو کسی قیمت پر اس طرح اسٹیج پر نہیں لائیں گے لیکن عدالت میں معزز خواتین کی ہتک عزت کی کیا قیمت ہے ؟ اور مریم نواز کی ہتک عزت ہوجائے تو اس کی کیا قیمت ہے؟۔ مریم نواز اربوں میں دعویٰ کرے گی اور ان غریب اور عزت دار خواتین کو عدالتوں سے اتنا بھی معاوضہ نہیں ملے گا جتنے معاوضے پر وہ عدالت اور وکیل کی فیس بھر سکیں۔ اگر مریم نواز پر کروڑوں کی ہتک عزت کا دعویٰ ہوجائے تو وہ پل بھر میں ادا کردے گی۔ کیونکہ اس کا شوہر عام کیپٹن نہیں ہے بلکہ شریف خاندان کا داماد ہے جس نے ملک لوٹ لیا ہے لیکن اگر کبھی جمعیت کے غریب کارکنوں کوایک لاکھ کے جرمانے کا سامنا بھی کرنا پڑے تو انکے پاس یہ رقم نہیں ہوگی۔ موجودہ غیر اسلامی اور غیر عوامی ہتک عزت کے قوانین میں انصاف کہاں ہے؟۔ ہماری سیاسی اشرافیہ کو آئین میں اسلام کی فکر نہیں بلکہ اپنے مفادات کی فکر ہے۔ اگر عوام اور اسلام کا خیال ہوتا تو ہتک عزت میں80،80کوڑوں کی سزاؤں کو نافذ کیا جاتا جو سب کیلئے یکساں ہے اور پاکستان میں اس پر عمل ہوجاتا تو عرب بادشاہوں کی شلواریں بھی گیلی ہوجاتیں۔ اس قانون کے نفاذ سے پوری دنیا میں اسلام اور پاکستان کا ڈنکا بجے گا۔ عزت جان اور مال پر بھی مقدم چیز ہے۔
قرآن میں توراة کے حوالے سے جان کے بدلے جان کی بات ہے لیکن پھر یہودیوں نے توراة سے روگردانی اختیار کرتے ہوئے یہود کے بدلے میں کسی غیر یہودی کو قتل کرنا ٹھیک قرار دیا لیکن یہودی کو غیر یہودی کے بدلے میں قتل کرنا غلط قرار دیا۔ آج اسرائیل میں اللہ نے ان کا اصل چہرہ عوام کو دکھانا تھا اور امریکہ نے گوانتاناموبے میں جو مظالم مسلمانوں کیساتھ روا رکھے وہ بھی پوشیدہ نہیں ہیں۔ مسلک حنفی نے کافر کے بدلے مسلمان کو قتل کرنے کا اسلام باقی رکھا لیکن باقی تین مشہورفقہی مسالک مالکی، شافعی اورحنبلی کے ہاں کافر کے بدلے مسلمان کو قتل نہ کرنے کی یہودی تحریف اسلام میں داخل ہوئی۔ پاکستان میں حنفی مسلک کی اکثریت ہے اور اپنے بگڑے ہوئے مذہبی مسائل کو درست کرکے پاکستان کو عالم انسانیت کی قیادت پر پہنچایا جاسکتا ہے۔عربوں اور امریکہ میں تکبر ورعونت کے باعث ابلیس کی صفات داخل ہوگئی ہیں اور ہمارا پاکستانی معاشرہ تکبر ورعونت کی صفات سے پاک ہے اسلئے پاک فوج کا موجودہ سپاہ سالارجنرل قمر جاوید باجوہ بھی تواضع وانکساری کی ایک تصویر نظر آتا ہے۔ البتہ اوریا مقبول جان جیسے لوگوں سے بچ کے رہنا چاہیے۔ غلط اعداد وشمار سے قوم کو دھوکے میں رکھنے سے زیادہ کوئی غلط بات نہیں ہے۔ اصل اسلام کے احیاء سے پاکستان میں ایک انسانیت کا انقلاب آسکتا ہے جو بحرانوں سے نکال دے گا۔
رضاربانی نے روتے ہوئے ووٹ کو پارٹی کی امانت قرار دیکر ضمیر کے خلاف دیا توان کی دیانتداری مانی گئی لیکن حلف میں کہا جاتاہے کہ ”میں ملک اور اسلام کیلئے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو اپنے ذاتی ، گروہی مفادات سے بالاتر ہوکر استعمال کروں گا”۔ آئین وحلف اورقول وفعل میں بلا کے تضادات ہیں۔
عمار علی جان اور عروج اورنگزیب با صلاحیت شخصیات ہیں اور ان کے ساتھی بھی جذبات سے بھرپور ہیں۔ اسلام نے سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام کا مکمل خاتمہ کیا تھا۔ عورت کو زبردست آزادی اور تحفظ فراہم کیا تھالیکن سب کچھ مذہبی طبقات نے اپنے موٹے موٹے پیٹ میں تباہ کردیا۔صحیح احادیث میں ہے کہ جب سود کی حرمت کی آیت نازل ہوئی تو نبیۖ نے پھر زمین کی مزارعت کو بھی سود قرار دیکر پابندی لگادی تھی۔ امام ابوحنیفہ، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل سب متفق تھے کہ زمین مزارعت پر دینا سود ہے لیکن جس طرح آج کے شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی اور مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن نے سودی بینکاری کو حیلے سے جواز بخشا ہے ،اسی طرح پہلوں والوں نے مزارعت کو جواز بخش دیا تھا۔ ججوں، سیاستدانوں، جرنیلوں ، علماء ومفتیان ، صحافیوںاور معاشرے کے کسی بھی طبقے اور شخصیات کو برا بھلا کہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ سب ایک ماحول کا حصہ ہیں اورمثبت اسلامی اور انسانی معاشرے کو ہرکوئی پسند کرے گا۔ جب گڑ سے اس باطل نظام کی روح ماری جاسکتی ہے تو زہر کھلانے کی کیا ضرورت ہے؟۔ کسی ایک طبقے کو بر ابھلا کہہ کر اپنے نمبر بنانے کی کوشش کا رواج اور رحجان بھی خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ ہوا میں تیر چلانے کا کیا فائدہ ہے؟۔ معاشرے میں افراتفری پھیلانے کی کوئی ضرورت نہیں جسکا بڑا نقصان ہے۔وقت پر تیر نشانے پر مارا جائے تو بات بن جائیگی۔ انشاء اللہ ۔عتیق گیلانی

اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ شمارہ اپریل 2022
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

مسلمانوں کا نام نہاد اسلامی نظام اور مملکت خداداد پاکستان

مسلمانوں کا نام نہاد اسلامی نظام اور مملکت خداداد پاکستان

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

یورپ عورت کے حقوق کامطالبہ کرتا ہے لیکن ہمارا اشرافیہ عورت مارچ سے خوف زدہ ہے، پدر شاہی نظام کے خلاف باشعورعورت بھی آواز اٹھارہی ہے۔ افغان طالبان نے مؤقف پیش کیا ہے کہ عورت آزاد جنس اور انسان ہیں ان پر کوئی اپنی مرضی مسلط نہیں کرسکتا ۔ اقبال نے شیطان کی مجلس شوریٰ میں کہا کہ
الحذر آئینِ پیغمبر سے سو بار الحذر حافظِ ناموسِ زن ،مرد آزما ، مرد آفریں
پاکستان کا معاشرتی دارالخلافہ تختِ لاہور ہے ۔ جہاں ہیرہ منڈی ہے۔ مغرب میںعورت پرجبری جنسی تشددہوتا ہے اور وہ بھی حقوق سے محروم ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے عورت کو سورۂ النساء آیت19میں خلع کا حق دیا ہے اوراسکے بعد کی آیات20،21سورۂ النساء میں مردوں کو طلاق کا حق دیا ہے۔ اس سے زیادہ بڑی بے غیرتی کیا ہوسکتی ہے کہ جب عورت اپنے شوہر کے پاس رہنا نہیں چاہتی ہو اور بے غیرت مرد پھر بھی اپنی بیوی کو اپنے ساتھ رہنے پر مجبور کرتا ہو؟۔
عورت کواسکا شوہر اپنی جاگیر سمجھتا ہے ۔ اسکے نام پربینک بیلنسن، زمین، اپنا گھر کرتاہے۔ عورت خلع لے تو قرآن نے فرمایا : لاترثوالنساء کرھًا و لا تعضلوھن لتذھبوا ببعض ما اتیموھن شئےًا الا ان یأتین بفاحشة مبینة وعاشروھن بمعروف وان کرھتموھن فعسٰی ان تکرھوا شیئًا ویجعل اللہ فیہ خیرًا کثیرًاO(سورہ ٔ النساء آیت19)” عورتوں کے زبردستی مالک مت بن بیٹھواور نہ اسلئے ان کو روکو کہ جو تم نے ان کو مال دیا ہے کہ ان میں سے بعض واپس لے لو مگر یہ کہ وہ کھلی فحاشی کا ارتکاب کریںاور ان کیساتھ (خلع کے باوجود) اچھا برتاؤ کرو۔اگر وہ تمہیں بری لگتی ہوں تو ہوسکتا ہے کہ کسی چیز کو تم برا سمجھو اور اللہ تمہارے لئے اس میں خیر کثیر بنادے”۔
عورت اپنے شوہر کو اپنا مجازی خدا کہے تویہ بھی رسم ہے لیکن شوہر اپنی بیوی کا زبردستی سے مالک نہیں بن سکتا۔ اگر وہ خلع لینا چاہتی ہو اور شوہر کو چھوڑنا چاہتی ہو تو اللہ نے اجازت دی ہے اور مردوں کو تلقین کردی کہ ان کو اسلئے مت روکو کہ تم نے جو کچھ بھی ان کو دیا بعض چیزیں واپس لے لو۔ البتہ اگر وہ کھلی فحاشی کریں تو بعض چیزیں واپس لی جاسکتی ہیں لیکن کپڑے ، جوتے اور سب کچھ پھر بھی نہیں۔
عورت خلع لیکر جارہی ہو تو اسکے ساتھ بدسلوکی کے بڑے خدشہ کو ملحوظِ خاطر رکھ کر اچھے انداز کیساتھ پیش آنے کی تلقین قرآن کا بہت بڑا معجزہ ہے۔ اس وقت عورت بری لگ سکتی ہے لیکن اللہ نے فرمایا کہ ہوسکتا ہے کوئی چیز تمہیں بری لگے اور اس میں تمہارے لئے بہت ساراخیر بنادے۔ پہلا خیر یہ ہوسکتا ہے کہ عورت کچھ دنوں یا عرصہ کے بعد خودواپس آجائے اور اس میں زندگی گزارنے کا زیادہ اچھا سلیقہ آجائے۔ دوسرا خیر یہ کہ وہ بد دلی سے خود کو اور شوہر، بچوں اور گھروالوں سے انتقام لینے کی کاروائی نہ کر ڈالے۔ تیسرا خیر یہ کہ اس کی جگہ ایسی عورت ملے جس کیساتھ زیادہ بہتر انداز میں زندگی گزرے۔ چوتھا خیر یہ کہ اس کی وجہ سے عزت برباد ہونے سے بچ جائے۔ کئی خیر ہوسکتے ہیں اور ممکن ہے کہ بدلے میں بیکار عورت سے بھی واسطہ پڑسکتا ہے اسلئے اللہ نے امکان کا ذکر کیا تاکہ رشتہ جوڑنے کا کرداراداکرنے کی کوشش حتی الامکان ہوتی رہے۔
مولوی نے عورت سے خلع کا حق چھین لیا تو یہ کم علمی ،جہالت ، بدنیتی اور بد تہذیبی ہے۔ کرتوت خراب ہوں تو چہرے پر بدصورتی کے علاوہ نحوست ٹپکتی ہے پھر اس خیال میں گھر کی بھیدی عورت لنکا ڈھا سکتی ہے۔ ظاہر و باطن میں فرق ہوتووہ اپنی بیگمات سے خلع کا خوف رکھتے ہیں پھر وہ قرآنی آیات کی وضاحتوں کو بھی نہیں مانتے ۔ خلع میں عورت کو حق مہر کے علاوہ شوہر کی دی ہوئی منقولہ اشیاء ساتھ لیجانے کا حق حاصل ہو اور غیرمنقولہ دی ہوئی جائیداد سے وہ دستبردار ہوجائیں تو مسلم معاشرے میں نہیں مغرب میں بھی انقلاب برپا ہوجائیگا۔ خواتین وحضرات سب کیلئے یہ قانون قابلِ قبول ہوگا جو فطرت کا تقاضہ ہے۔ طلاق میں شوہر کو تمام دی ہوئی اشیاء منقولہ وغیر منقولہ جائیداد میں سے کچھ بھی واپس لینے کا حق نہیں۔ سورۂ النساء آیت20،21میں بھرپور وضاحت ہے۔
مغرب نے عورت اور مرد کی جائیدادوں کو برابر برابر تقسیم کرنے کا غلط اور غلیظ قانون دیا ہے ۔ جمائمانے عمران خان پر اعتماد کیا اور عمران خان نے بقول یوٹیوبر کے12ہزار کروڑ پاونڈ جمائما کی جائیداد سے لینے کو قبول نہ کیا کیونکہ یہ غیرفطری قانون ہے ۔اگر عمران خان ریحام خان کو طلاق کے بعد بنی گالا کاگھر حوالے کردیتا تو ریحام خان کبھی اسکے خلاف کتاب لکھ کر اس کا تیاپانچہ نہ کرتی۔ جس سے ساکھ کو نقصان پہنچا اور قادر پٹیل کی تقریر کا اسمبلی میں سامنا کرنا پڑا۔
عورت کو خلع کا حق اور مالی تحفظ حاصل ہوتا تو ن لیگ کی حکومت پنجاب کو ضرورت نہ پڑتی کہ خواتین کوگھریلو تشدد سے بچاؤ کیلئے کوئی ایسا بل منظور کرتی جو مولانا فضل الرحمن کے احتجاج کی وجہ سے واپس لینا پڑتی۔ خلع کا حق رکھنے والی خاتون پر شوہر اور اسکے گھر والے کوئی ستم نہیں ڈھاسکتے ہیں ۔علاوہ ازیں خلع کا حق نہ دینے کی وجہ سے جن مسائل کا سامنا علماء ومفتیان کو کرنا پڑتا ہے اور جن کا حل بھی انکے بس کی بات نہیں ۔ اگر ان کا مدلل حل نکل آئیگا تو سب سے زیادہ خوشی علماء ومفتیان اور مذہبی طبقے کو ہوگی۔ انشاء اللہ تعالیٰ العزیزالرحمن الرحیم
یہودی علماء کاکرداریہ تھا: یحرفون الکلم عن مواضعہ ” یہ لوگ جملوں کو اپنی جگہوں سے بدلتے ہیں”۔قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے لیا۔ علامہ انورشاہ کشمیرینے کہاکہ ”بہت معنوی تحریف ہمارے علماء نے کی ہے”۔ سورۂ النساء آیت19میںعورت کاخلع واضح ہے مگر علماء اور مذہبی اسکالروں نے جگہ بدل ڈالی ہے ۔الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف اوتسریح باحسان و لا یحل لکم ان تأخذوا مما اٰتیتموھن شیئًا الا ان یخافا الا یقیما حدود اللہ فان خفتم الا یقیما حدود اللہ فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ تلک حدود اللہ فلا تعتدوھاومن یتعد حدود اللہ فاؤلئک ھم الظٰلمونOفان طلقھا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ …(.البقرہ آیت229،230)
ترجمہ :” طلاق دومرتبہ ہے پھر معروف طریقے سے روکنا یا احسان کیساتھ چھوڑنا ہے اور تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے کہ اس میں کچھ واپس لو مگر جب دونوں کو خوف ہو کہ دونوں اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے اور اگر تمہیں خوف ہو کہ دونوں اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو دونوں پر حرج نہیں عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں ،یہ اللہ کے حدود ہیں پس ان سے تجاوز مت کرو اور جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔پس اگر پھر اس نے طلاق دیدی تو اسکے بعد اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے…..”۔ (البقرہ::229،230)
طلاق کے بعد عورت کے مالی حق کی حفاظت ہے کہ جو شوہر نے چیزیں دی ہیں ان میں سے کچھ واپس لینا حلال نہیں ۔ مگر جب دونوں اور تم خوف محسوس کرو کہ اگر وہ چیز واپس نہ کی گئی تو دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے۔ وہ کونسی صورت ہے کہ جس میں وہ دونوں اور فیصلہ کرنے والے خوف کھائیں کہ اگر وہ چیز واپس نہیں کی گئی تو دونوں اللہ کے حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے ؟۔ اگر یہ چیزواپس نہ کی گئی تو دونوں اللہ کے حدود کو پامال کریں۔ بدکاری کے مرتکب ہوجائیں ۔ قرآن کے الفاظ میں قطعی کوئی ابہام نہیں ہے۔بقیہ صفحہ 2نمبر1پر

بقیہ…… مسلمانوں کا نام نہاد اسلامی نظام اور مملکت خداداد پاکستان
مولانا ابوالاعلیٰ مودودی اور جاوید احمد غامدی جیسے لوگوں کا اس آیت کے ترجمے میں معاوضہ دیکر خلع کی بات کرنا انتہائی افسوسناک ہے۔ مفتی محمد تقی عثمانی نے لکھا تھا کہ ”اس آیت کا ترجمہ ومفہوم انتہائی مشکل ہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی کے ترجمے وتفسیر سے اسکا حل نکالنے میں تھوڑی بہت مدد ملی ہے”۔
حالانکہ قرآن میں جہاں عورت کامالی حق محفوظ ہو ،وہاں عورت کو خلع کے نام پر بلیک میل کرنا بھونڈی حرکت ہے جو یحرفون الکلم عن مواضعہ کی بڑی مثال ہے۔ اس آیت کے واضح ترجمہ میں ان مشکلات کا حل بھی ہے جن کی وجہ سے فقہاء و محدثین نے امت کوگمراہی کے دلدل میں ڈبودیا ہے۔
آیات229،230البقرہ سے پہلے اور بعد کی آیات میں عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد باہمی اصلاح ، رضامندی اور معروف طریقے سے رجوع کی گنجائش ہے اور تمام آگے پیچھے کی آیات میں واضح کیاگیا ہے کہ باہمی اصلاح کے بغیر شوہر کیلئے رجوع کرنا حلال نہیں ۔ایک طلاق یا اشارہ کنایہ کی طلاق اور حتی کہ ایلاء جہاں طلاق کے الفاظ کا اظہار بھی نہ ہو، تب بھی شوہر کیلئے عورت کی رضامندی کے بغیر رجوع کی اجازت نہیں ۔ جب نبیۖ نے ایلاء کیا تھا تو اللہ نے واضح طور پراپنی ازواج کو اختیار دینے کا بھی حکم فرمایا تھا۔
مشکلات کا شکار علماء اسلئے ہیں کہ اگر خلع سے پیدا ہونے والے مسائل کا چرچا عوام میںہواتو ان کو داڑھیاں منڈواکر شناخت بھی تبدیل کرنی پڑے گی۔ دیوبندی بریلوی مدارس کا فتویٰ ہے کہ ”اگر شوہر نے بیوی سے کہا کہ تجھے تین طلاق اور پھر اپنی بات سے مکر گیا تو عورت پھر بھی اس پر حرام ہوجائے گی لیکن عورت کو اپنی جان چھڑانے کیلئے دو گواہ لانے پڑیں گے اور اگر اسکے پاس دو گواہ نہیں تھے تو ہر قیمت پر خلع لے گی۔ اگر شوہر کسی صورت اور قیمت پر بھی خلع دینے پر راضی نہ ہو تو عورت اسکے نکاح میں حرامکاری پر مجبور ہوگی۔ پھر جماع کے وقت عورت لذت نہیں اٹھائے ورنہ گنہگار ہوگی”۔توبہ العیاذ باللہ تعالیٰ
حکیم الامة مجدد ملت مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنی کتاب ” حیلۂ ناجزہ ” میں بھی یہ مسئلہ لکھ دیا۔ دیوبندی بریلوی مدارس کا یہ فتویٰ ہے۔ کیا یہود، نصاریٰ، ہندو، سکھ، پارسی، بدھ مت اور کسی کیلئے ایسے گھناؤنے مسائل قابلِ قبول ہیں؟۔ اگر پارلیمنٹ میں اس پر بحث ہو تو جان چھوٹ جائے گی ،جس طرح قادیانیت سے جان چھڑائی گئی۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے لکھ دیا کہ ”اگر شوہر بیوی سے کہے کہ طلاق طلاق طلاق تو تین طلاق واقع ہوجائیںگی اور بیوی اس پر حرام ہوجائے گی لیکن اگر اس کی نیت ایک طلاق کی ہو تو پھر ایک ہی طلاق واقع ہوگی لیکن بیوی پھر بھی اس کو تین طلاق ہی سمجھے”۔ (بہشتی زیور: مولانا تھانوی)
ایک طرف عورت شوہر کے نکاح میں ہو گی اور دوسری طرف عورت سمجھے گی کہ وہ اس پر حرام ہے۔ عورت دوسرے شوہر سے نکاح کرے توپھر نکاح پر نکاح ہوگا اور شرعی لحاظ سے حرام ہوگا اور مر د نے اس کو اپنے پاس رکھنا ہو تو اس کیلئے جائز ہوگی لیکن عورت اس کو حرام سمجھے گی۔ کیا یہ اللہ تعالیٰ اور اسکے قرآن اور اسکے رسول رحمت للعالمین ۖ کی شریعت ہوسکتی ہے؟۔ اگر یہی اسلام ہے تو اس سے کفر ، یہودیت، ہندومت، نصرانیت وغیرہ بہتر نہیں ؟۔ یہ اسلام نہیں بلکہ مولوی کے پیٹ کی ہوا ہے۔ جب حقائق کا سامنا کرنا پڑئے تو ٹیٹیں مارتا ہوا گدھے کی طرح بھاگے گا اور اعتراف کرے گا کہ واقعی نبی ۖ نے سچ فرمایا کہ” یہ امت بھی سابقہ امتوں کے نقش قدم پر چلے گی” اور جس طرح قرآن میں یہود کے علماء کی مثال گدھے کی ہے جن پر کتابیں لادی گئی ہوں۔ ہٹ دھرم اورہڈ حرام لوگوں کا وقت قریب لگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ علماء حق کی حفاظت فرمائے اور حق کی آواز بلند کرنے کی بھی جلد از جلد توفیق عطاء فرمائے۔
بریلوی دیوبندی درسِ نظامی کے نصاب میں فقہ حنفی کا یہ مسلک ہے کہ عربی میں ف تعقیب بلا مہلت کیلئے ہے اور آیت230میں جس طلاق کا ذکر ہے اس کا تعلق عورت کی طرف سے فدیہ دینے کی صورت سے ہے۔ یعنی ایک تو پہلے دومرتبہ طلاق دی ہو اور پھر تیسری طلاق سے پہلے فدیہ عورت نے دیا ہو۔ پھر اس سے مربوط طلاق دی جائے تو اسکے بعد عورت پہلے شوہر کیلئے حلال نہیں ہوگی یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرلے۔ اس کی تائید علامہ ابن تیمیہ کے شاگرد علامہ ابن قیم نے اپنی کتاب ”زاد المعاد” میں حضرت ابن عباس کے قول سے کی ہے ۔ معروف حنفی عالم علامہ تمنا عمادی نے اس پرکتاب ” الطلاق مرتان ” لکھی ہے۔جسکے لاجواب ہونے کی تعریف مدرسے کے اپنے ایک استاذ سے بھی سنی تھی۔ علامہ تمنا عمادی نے سقوط ڈھاکہ کے بعد پاکستان ہجرت کی۔
جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں ہمارے استاذ مولانا بدیع الزمان نے طلبہ کو تلقین فرمائی تھی کہ روزانہ بلاناغہ قرآن کا ایک ایک رکوع عربی متن و ترجمہ کے ساتھ غور وتدبر سے سمجھنے کی کوشش کریں۔ سورۂ بقرہ میں آیت229سے231تک ایک رکوع ہے۔ اس ایک رکوع کے غور وتدبر سے چودہ طبق روشن ہوسکتے ہیں۔ اپنے اساتذہ کرام اور علماء حق کا دل وروح سے بہت قدردان ہوں۔
قرآن میں رکوع کا رکوع سے ربط ہے۔ آیت228البقرہ میں یہ واضح ہے کہ ”طلاق کے تین ادوار ہیں،عدت کے آخر تک باہمی اصلاح کی شرط پر طلاق شدہ عورتوں کو انکے شوہروں کو لوٹانے کا حق ہے”۔ قرآن میںیہ تضاد نہیں ہے کہ پہلے اصلاح کی شرط پرعدت کے آخر تک رجوع کی گنجائش رکھے پھر اسکے برعکس دومرتبہ طلاق کے بعد غیرمشروط رجوع کی گنجائش رکھے اور تیسری طلاق کے بعد عدت کے اندر باہمی اصلاح کی شرط کے باوجود رجوع کا راستہ روکے۔ اتنا بڑا تضاد کسی عقلمندانسان کی کتاب میں بھی نہیں ہوسکتا۔چنانچہ اللہ نے فرمایا کہ ” طلاق دو مرتبہ ہے ، پھر معروف طریقے سے روکنا یا احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے”۔ (آیت229) معروف طریقے سے روکنے کا مطلب اصلاح کی شرط پر روکنا ہے لیکن معروف کی شرط کو حنفی وشافعی فقہاء نے منکر بنادیا ۔ حنفی کے نزدیک نیت کے بغیر شہوت کی نظرسے بھی رجوع ہوگا اور شافعی کے نزدیک نیت کے بغیر جماع سے بھی نہیں ہوگا۔ یہ مسائل اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد نے بھی کتاب ” طلاق ثلاثہ :مصنف حبیب الرحمن” میں شائع کردی ہیں۔
نبیۖ نے غضبناک ہوکر ابن عمر کے سامنے واضح فرمایا تھا کہ ” اپنی بیوی سے طلاق کے بعد رجوع کرلو۔ طہر میں اپنے پاس رکھو، یہاں تک کہ حیض آجائے، پھر طہر میں رکھو، یہاں تک کہ حیض آجائے اور پھر طہر آئے تواگر روکنا چاہتے ہو تو روک لو اور چھوڑنا چاہتے ہو توچھوڑ دو۔ یہ وہ عدت ہے جس میں اللہ نے اس طرح طلاق کا حکم دیا ہے”۔( بخاری کتاب التفیسرسورۂ طلاق)۔
عدت کے تین ادوار اور تین مرتبہ طلاق کا فعل ایکدوسرے سے جدانہیں۔ فقہاء نے قرآن اوراحادیث صحیحہ کے بالکل برعکس بہت سارے مسائل گھڑ لئے ہیں۔یہ بھی لکھاہے کہ ایک طلاق کے بعد عورت دوسرے شوہر سے نکاح کرلے تو پہلا پھر بھی دوطلاق کا مالک ہو گا۔یہ بھی لکھا کہ حرام کے لفظ سے تیسری طلاق واقع ہوجائے گی۔یہ بھی لکھاہے کہ پہلی اور تیسری طلاق واقع نہیں ہوگی ، دوسری طلاق واقع ہوجائے گی۔ یہ بھی لکھاہے کہ دوسری طلاق واقع ہوجائے گی تیسری طلاق واقع نہ ہوگی۔ علماء ومفتیان کی اکثریت مخلص ہے لیکن سمجھ نہیں رکھتے۔
نبیۖ سے صحابی نے پوچھا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے؟۔ فرمایا : ”الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف اوتسریح باحسان حسان کیساتھ چھوڑنا تیسری طلاق ہے”۔ حنفی اصول کے مطابق ف تعقیب بلامہلت کے حوالے سے بھی تیسری طلاق کا تعلق تسریح باحسان ہی سے بنتا ہے۔
آیت229کے بعد230البقرہ میں اس صورت کی وضاحت ہے کہ جب میاں بیوی اس طرح سے جدا ہونا چاہتے ہوں کہ آئندہ آپس میں رابطے کی بھی کوئی صورت نہ رکھیں ۔ ان آیات میں جو تحفظ عورتوں کو جن الفاظ میں دیا گیا ہے اگر لوگوں پر کھل جائے تو دنیا کے سامنے اسلام اور مسلمان سرخرو ہوجائیں۔ مرد اپنی معشوقہ اور منگیترکوغیرت کی وجہ سے مقدور بھر نہیں چھوڑتا کہ دوسرا شخص اس سے نکاح کرلے تو طلاق شدہ بیوی کوکہاں اجازت دے گا کہ وہ اپنی مرضی سے جہاں اور جس سے چاہے نکاح کرلے؟۔ برطانوی شہزادہ چارلس پر پیرس فرانس میں لیڈی ڈیانا کو طلاق کے بعد غیرت کے قتل کا مقدمہ ہوا۔ جس طلاق کے بعد بھی عورت رجوع کیلئے راضی نہ ہو تو شوہر کیلئے قرآن کی تمام آیات میں رجوع کی گنجائش نہیں لیکن یہود کی توراة کی طرح قرآن کو ترک کرنے والوں نے آیات کے واضح الفاظ میں اصلاح، معروف طریقے، باہمی رضا مندی کے تمام واضح الفاظ کو نظر انداز کرتے ہوئے دومرتبہ طلاق رجعی کا تصور دیا۔ جس سے جاہلیت میں مسلمانوں کو دھکیل دیا گیا۔ اگر دومرتبہ غیرمشروط طلاق رجعی کا تصورہو تو شوہر کو عورت پر تین عدتیں گزارنے کا حق ہوگا۔ ایک طلاق کے بعد عدت کے آخر میں رجوع ، پھر طلاق کے بعد عدت کے آخر میں رجوع اور پھر تیسری مرتبہ طلاق کے بعد سے تیسری عدت گزارنے پر مجبور کرسکے گا۔
سورۂ طلاق کی پہلی دو آیات میں سورۂ بقرہ کی ان آیات کا خلاصہ ہے۔ جب ام رکانہ کے شوہر نے تین طلاقیں دی اور عدت کی تکمیل کے بعد بھی رجوع نہیں کیا اور ایک اور عورت سے نکاح کیا تواس نے کہا کہ وہ نامرد ہیں۔ نبیۖ نے اس کو چھوڑنے کا فرمایا اور ام رکانہ سے رجوع کی تجویز پیش کی۔ انہوں نے عرض کیا کہ وہ تو تین طلاق دے چکا ۔ جس پر نبیۖ نے فرمایا کہ مجھے معلوم ہے اور سورۂ طلاق کی آیات کوتلاوت فرمایا۔ یہ حدیث ابوداؤد شریف میں موجود ہے۔ جہاں تک صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ حضرت رفاعة نے جس عورت کو طلاق دیدی تھی اور نبیۖ نے اس کو دوسرے شوہر کی لذت اٹھانے کا حکم دیا تھا تو پہلی بات یہ ہے کہ عورت کو نبیۖ نے یہ حکم تو نہیں دیا کہ ایک دم تین طلاقیں واقع ہوگئیں ، رجوع نہیں ہوسکتا ۔ عدت گزارو۔ پھر دوسرے شوہر سے حلالہ کراؤ۔ پھر شوہر کے پاس آجاؤ۔ بلکہ وہ پہلے سے دوسرے شخص کے نکاح میں تھی۔ شکایت یہ تھی کہ وہ نامرد ہے اسلئے پہلے شوہر کے پاس جانا چاہتی ہے۔ کیا نبیۖ اس عورت کو نامرد کے پاس رہنے پر مجبور کرسکتے تھے؟۔جب نامرد میں حلالہ کی صلاحیت نہیں تھی تو نبیۖ اس کو کیسے یہ حکم دے سکتے تھے؟۔
اصل بات یہ تھی کہ بخاری شریف میں یہ وضاحت بھی ہے کہ رفاعة نے اس عورت کو مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق دی تھی اسلئے اس سے یکمشت تین طلاق کا حکم نکالنا بہت بڑی بددیانتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے قرآن میں عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد باہمی اصلاح اور معروف طریقے سے رجوع کی اجازت فرمائی ہے تو نبیۖ اس کی کیسے خلاف ورزی کا تصور بھی فرماسکتے تھے؟۔ تیسری بات یہ ہے کہ اس عورت کو اپنے شوہر نے بری طرح مارا پیٹا تھا اور بخاری کی دوسری روایت میں تفصیل کا ذکر ہے اور اس شخص نے اپنے نامرد ہونے کی بہت سخت الفاظ میں تردید کی تھی۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ نبیۖ نے ان میںصلح صفائی کروائی ہوگی۔ ضروری نہ تھا کہ جب رفاعة نے ایک مرتبہ اس کو چھوڑ دیا تو اس کو دوبارہ قبول بھی کرلیتا۔ چوتھی بات یہ ہے کہ مولانا سلیم اللہ خان صدر وفاق المدارس پاکستان نے اپنی کتاب ” کشف الباری شرح صحیح البخاری” میں لکھا ہے کہ ”یہ حدیث خبر واحد ہے اور اس میں اتنی جان نہیں کہ حنفی مسلک کے نزدیک قرآن کے الفاظ نکاح پر جماع کا اضافہ کیا جائے۔ ہم قرآن میں نکاح سے جماع مراد لیتے ہیں حدیث سے استدلال نہیں پکڑتے ”۔ یہ ساری باتیں حلالے کا شکار کھیلنے والوں کی تردید کرتی ہیں اور اسلام قرآن وسنت کا نام ہے اور فقہاء کے پیٹ کے مسائل کانام نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب تیسری طلاق کو حلالے کیلئے بنیاد قرار دیا جائے ،جب لونڈی اور غلام کی دو طلاقوں میں تیسری طلاق ممکن بھی نہیں ہے تو پھرلونڈی اور غلام کی طلاق کیلئے حلالے کاراستہ دو طلاقوں سے کیوں ہموار کیا گیا ہے؟۔ حلالہ کیلئے ہرقیمت پر راستے ہموار کرنے کا فتویٰ؟۔ جب کہا جائے کہ نبیۖ کی صحیح حدیث ہے کہ ”خلع کی عدت ایک حیض ہے”۔ تو اس پر کہا جائے کہ ”قرآن میں عدت تین حیض ہے ،حدیث سے قرآن پراضافہ نہیں جاسکتا ہے”۔ حالانکہ قرآن میں بیوہ کی عدت4 ماہ10دن ہے اور حمل میں بچے کی پیدائش سے یہ مدت کم کی گئی ۔ جب ہاتھ لگائے بغیر طلاق دی جائے تو عورت پر شوہر کی عدت کاکوئی حق نہیں جس کو شمار کیا جائے تو پھر خلع میں بھی حدیث صحیحہ کے مطابق ایک حیض کی عدت کافی ہے۔ جس پر سعودیہ کی حکومت عمل بھی کررہی ہے۔
محمود بن لبید کی روایت میں کسی شخص کی تین طلاق پر نبیۖ کے غضبناک ہونے کا ذکر ہے جس پر کسی شخص نے عرض کیا کہ کیا میں اس کو قتل نہ کردوں؟۔ یہ نامعلوم اکٹھی تین طلاق دینے والے ابن عمرتھے اور قتل کرنے کی پیشکش والے حضرت عمر تھے۔ صحیح مسلم میں حسن بصری کی روایت ہے کہ بڑے مستند شخص نے کہا کہ ”عبداللہ بن عمر نے بیوی کو تین طلاقیں دی تھیں۔پھرزیادہ معتبر شخص نے20سال بعد بتایا کہ ایک طلاق دی تھی”۔ صحیح حدیث کے مقابلے میں ضعیف اور من گھڑت احادیث نے قرآن وسنت کا رخ تبدیل کردیا ۔ حضرت ابوبکر و عمر نے احادیث پر پابندی لگادی تھی۔ حضرت عمر نے تین طلاق پر رجوع کا حکم ٹھیک جاری کیااسلئے کہ عورت صلح پر آمادہ نہ تھی۔اگر ایک طلاق کے بعد عورت صلح پر آمادہ نہ ہو توقرآن میں رجوع نہیں ہوسکتاہے۔ طلاق اور خلع کے حقوق میں فرق ہے اسلئے اگر بیوی دعویٰ کرے کہ اس کو طلاق دی گئی اور شوہر حلفیہ انکار کردے تو پھر اس کو طلاق نہیں خلع تصور کیا جائے گا اور عورت کو طلاق نہیں خلع کے مالی حقوق ملیںگے۔ اسلام کو کم عقلوں نے بگاڑ دیاہے۔
جب ایک شخص حاضرہو اور دوسرا غائب ہوتو حاضر کے عیب کی اصلاح کرنا شریعت، فطرت اور انسانیت کا تقاضہ ہے اور غائب کے عیب کا تذکرہ کرنا غلط ہے۔ قرآن نے اس کو اپنے مردے بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دی ہے اور حدیث میںغیبت کو زنا بھی زیادہ سخت قرار دیا گیا۔ عورت کے حقوق کی علمبردار ہدی بھرگھڑی نے اپنی ایک تقریر میں کیا خوب نکتہ اٹھایا ہے کہ نبیۖ کے دور میں مساجد کے اندر عورت بھی موجود ہوتی تھی اور آج بھی حرم مکہ میں عورت مرد کیساتھ نماز، طواف، صفا ومروہ کے سعی اور منی ومزدلفہ کے قیام میں ساتھ ہوتی ہے۔ لیکن جب عام مساجد کے اندرجمعہ کے اجتماعات میں خطیبوں کے سامعین صرف مرد ہوںگے تو خطیب حضرات مردوں کے حقوق بیان کریںگے۔
اگر فیملی پارک، شاپنگ مال، سکول،کالج اور یونیورسٹی میں مخلوط ہوسکتا ہے تو مساجد میں بھی مخلوط ماحول سے صالح معاشرے کا قیام عمل میں لایا جائے۔ فیملی مساجد کا قیام یا چھڑوں پر مساجد کے اندر خاص اوقات میں پابندی سے یہ مسئلہ حل ہوسکتاہے۔ مغربی تہذیب کا مقابلہ ،فحاشی وعریانی کا خاتمہ اپنی عورتوں کو گھروں میں بٹھانے اوردوسری خواتین کا تماشہ دیکھنے سے نہیں ہوتا۔ مسجد کے امام پراپنی فیملی مسجد میںلانے کی پابندی لگے اور امام کو گھر کی بھی سہولت ملے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ شمارہ اپریل 2022
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

مفتی محمد تقی عثمانی چالاک پرندے کی طرح دونوں پیروں سے پھنس گئے

مفتی محمود کی وفات کا واقعہ
بٹوہ لیتے تھے کہ لاؤ بھئی پان کھائیں گے تمہارا!پھرایکدم یہاں ہاتھ رکھا اور ختم؟
مفتی محمد تقی عثمانی چالاک پرندے کی طرح دونوں پیروں سے پھنس گئے

مفتی تقی عثمانی نے اپنی سابقہ تحریر اور مولانا یوسف لدھیانوی کی تحریر کے برعکس جھوٹ بولا۔زکوٰة کا مسئلہ اسلام کو بدلنا اور غریبوں کا بڑا قتل تھا

شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنے یوٹیوب کے تازہ آڈیو بیان میں کہا ہے کہ
حضرت مولانا مفتی محمود جوبہت مشہور عالم ہیں اور بڑی شہرت اللہ تعالیٰ نے ان کو دی ہے اور بڑا کام کیا انہوںنے، تو ایک مرتبہ زکوٰة کا ایک مسئلہ تھا جس میں ہماری طرف سے جو فتویٰ جاری کیا گیا تھا اس میں اور حضرت مفتی محمود نے جو فتویٰ جاری کیا تھا اس میں کچھ اختلاف ہوگیا کہ ہمارا فتویٰ کچھ اور تھا ان کا کچھ اور تھا۔ حضرت مفتی صاحب سفر کرکے عمرے کیلئے تشریف لے جارہے تھے۔ اور یہاں بنوری ٹاؤن کے مدرسے میں تشریف فرما تھے ، اگلے دن عمرے کو جانا تھا۔ تو انہوں نے اپنی شفقت سے ہمیں بلایا کہ بھئی آکر ذرا اس موضوع پر بات کرلیں آپس میں۔ اور جو تمہارا مؤقف ہے تم بیان کردو جو ہمارا ہے ہم بیان کردیں پھر دیکھیں کوئی راستہ اتباع کرنے کے لائق۔ تو بھائی صاحب حضرت مولانا مفتی محمد رفیع صاحب اور میں ہم دونوں گئے بنوری ٹاؤن۔ حضرت مفتی صاحب کا معاملہ بڑا شفقت کا تھا۔ اور اتنا پیار تھا یعنی گفتگو میں اور ہر چیز میں تو انہوں نے، وہ بھی پان کھاتے تھے۔ ہم بھی پان کھاتے تھے۔ اور مفتی صاحب بعض اوقات اپنی بے تکلفی میں میرے پاس پان کا وہ ہوتا تھا نا ڈبہ بٹوہ، چھوٹا سا ہوتا تھا ، اب تو وہ کم ہوگیا ہے معاملہ۔ پہلے تو بہت کھاتا تھا میں تو اس وجہ سے اس میں رکھ کر لے جاتا تھا کہیں جانا ہوتا تھا تو۔ تو حضرت مفتی صاحب کی عادت تھی یعنی شفقت کی وجہ سے کہ خود ہی ہاتھ بڑھا کر وہ بٹوہ لے لیتے تھے۔ لاؤ بھئی پان کھائیں گے تمہارا۔ اس طرح بالکل یعنی خوش بخوش اور بہت ہی نشاط طبع کوئی طبیعت میں ادنیٰ بھی کوئی کمزوری نہیں تھی۔ اور پان بھی لیا اور اس کے بعد پھر بات چیت بھی شروع کی۔ اور بات چیت شروع کرتے کرتے ایک دم سے یہاں ہاتھ رکھا اور ختم۔ ایک دم سے یہاں ہاتھ رکھا اور گر گئے۔ ہم لوگ اٹھا کر لے کر گئے ہسپتال تو ہسپتال میں کہا گیا کہ یہ تو ختم ہوچکے ہیں۔ بیٹھے بیٹھے بات کرتے ہوئے ، عمرے کا سفر تیار اور یعنی آدمی اگر بیمار ہو تو عمرے کا سفر تو نہیں کرے گا نا۔ لیکن کوئی بیماری نہیں تھی کوئی پریشانی نہیں تھی اور بیٹھے بیٹھے ختم ہوگئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اب ہم دیکھتے ہی رہ گئے کہ بات کرتے کرتے کرتے اچانک ، ہاتھ یہاں رکھا سر پر بس اور گر گئے۔
مفتی محمود کی وفات پر مشہور تھا کہ مفتی محمود کو علماء نے پان میں زہر دیکر شہید کردیا ۔کراچی جلسۂ عام میں مفتی محمود نے جنرل ضیاء الحق کو رئیس المنافقین قرار دیا تھا۔ قاری شیرافضل خان نے نعرہ لگایا کہ مرزائی نواز مردہ باد۔ تو مفتی محمود نے کہا کہ ”مرزائی نواز مت کہو ،مرزائی کہو”۔ مولانا انس نورانی نے اسلام آبادPDMکے جلسے میں جنرل ضیاء الحق کو رئیس المنافقین قرار دیا ۔جنرل ضیاء الحق نے مفتی تقی عثمانی کو لائبریری کیلئے خطیر رقم اور دارالعلوم کراچی کے مغرب کے سائیڈ کا بہت بڑا پلاٹ دیا ۔ جنرل ضیاء نے بینکوں کے سود سے زکوٰة کی کٹوتی کا حکم جاری کیا تو مفتی محمود سمیت پاکستان بھر کے علماء نے مخالفت کی تھی۔ رئیس المنافقین اور مرزائی قرار دیا لیکن سرکاری مرغوں مفتی تقی عثمانی و مفتی رفیع عثمانی نے سود سے زکوٰة کی کٹوتی کو جائز قرار دیا۔اس وقت ان دونوں بھائیوں کی حیثیت مفتی محمود کے سامنے بچوں کی طرح تھی۔ مفتی محمودنے زکوٰة کے مسئلے پر ان کو جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی بلایا اور مسئلے میں کوئی ابہام بھی نہیں تھا۔ اگر دس لاکھ پر سالانہ ایک لاکھ سود ملے ۔ دس لاکھ محفوظ اور75ہزار سود ملے اور25ہزار زکوٰة کے نام پر کٹ جائیں تو زکوٰة کی ادائیگی کہاں سے ہوگی؟۔ مولانا فضل الرحمن جلسوں میںمدارس کیلئے اس زکوٰة کو شراب کی بوتل پر آب زم زم کا لیبل قرار دیتا تھا۔ختم نبوت کے نام پر جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور ملک بھر کے علماء کرام نے جنرل ضیاء الحق کے خلاف تحریک چلائی تو جنرل ضیاء کو” امتناع قادیانیت آڈرنینس ”نافذ کرنا پڑا تھا۔جمعیت علماء اسلام کراچی کے امیر مولانا شیر محمد دارالعلوم الاسلامیہ واٹر پمپ فیڈرل بی ایریا مفتی تقی عثمانی پر برہم رہتے تھے کہ ڈاکٹر عبدالحی سے قادیانی جنرل رحیم الدین کی لڑکی کا جنرل ضیاء الحق کے بیٹے ڈاکٹر انوارالحق کا نکاح پڑھوایا اور مفتی محمود کو پان میں زہر دیکر قتل کردیا تھا۔ جب البلاغ دارالعلوم کراچی میں مفتی تقی عثمانی کی وہ تحریر پڑھی تھی جو اس نے مفتی محمود کی وفات پر لکھی تھی تو مجھے اپنے استاذ مولانا شیرمحمد سمیت سب لوگوں پر بہت غصہ آیا تھا کہ اتنا بڑا جھوٹ کیسے مفتی تقی عثمانی اور مفتی رفیع عثمانی پر لگادیا ہے اسلئے کہ اس تحریر سے پان کھلانے کا شائبہ تک بھی ختم ہوجاتا تھا۔ مفتی تقی عثمانی نے لکھا تھا کہ ” جب ہم دونوں بھائی مفتی محمود کے ہاں بنوری ٹاؤن پہنچے تو ہمیں چائے پیش کی گئی ۔ میںنے کہا کہ ہم دونوں بھائی دن بھر میں ایک مرتبہ چائے پیتے ہیں ، پھر سارا دن نہیں پیتے۔ مفتی محمود نے کہا کہ میں خود زیادہ چائے پیتا ہوں لیکن اگر کوئی کم چائے پیتا ہو تو میں اس کو پسند کرتاہوں۔ میں نے پان کا بٹوہ دکھایا کہ حضرت ہمارے ساتھ یہ علت لگی ہے۔ مفتی محمود نے کہا کہ یہ تو چائے سے بہت بدتر ہے۔ پھر مفتی محمود نے گفتگو کا سلسلہ شروع کیا تو تھوڑی دیر بعد ان پر غشی طاری ہوگئی۔ فلاں نے ہاتھ اور فلاں نے پیر ملے اور ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ دیا تھا”۔ مفتی تقی عثمانی کی اس تحریر کے پڑھنے کے بعد کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مفتی تقی عثمانی نے اصرار کرکے پان کھلایا ہوگا۔ میزبان کی چائے کی دعوت ٹھکرانے ،پان کو علت اور بدتر قرار دینے کے بعد ایک برخودار جیسی حیثیت رکھنے والا مفتی تقی عثمانی کس طرح مفتی محمود جیسے بزرگوار کوپان کھلانے کی پیشکش کرسکتا تھا؟۔ اسلئے پان کھلانے کی ساری کہانی بہت بھونڈی حرکت لگی تھی۔ پہلے یقین اسلئے کیا تھا کہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو بھی پان میں زہر کھلایاگیا تھا۔ البتہ جب اقراء ڈائجسٹ مفتی محمود وبنوری نمبر میں نہ صرف مفتی تقی عثمانی کی یہ تحریر چھپ گئی بلکہ مولانا یوسف لدھیانوی کی بھی وہ تحریر شائع ہوئی جو مفتی محمود کی وفات پر انہوں نے لکھی تھی۔ جس کو دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ اس میں مفتی تقی عثمانی کا پھر اصرار کرکے پان کھلانے کا بھی لکھ دیا تھا اور ساتھ میں دوسرے بھائی مفتی رفیع عثمانی کادورۂ قلب کی خصوصی گولی حلق میں ڈالنے کا بھی لکھ دیا تھا۔ جب ہم نے اپنی تحریرمیں یہ معلومات شائع کردیں تو مولانا یوسف لدھیانوی نے فرمایا تھا کہ ” مفتی تقی عثمانی سے مجھے ڈانٹ پلوادی ہے کہ کیا ضرورت تھی پان کھلانے اور گولی حلق میں ڈالنے کی بات لکھنے کی ؟۔ مجھے پھنسا دیا ہے”۔ مولانا یوسف لدھیانوی خوش تھے اسلئے کہ حاجی محمد عثمان پر فتویٰ لگانے سے بھی وہ سخت ناراض تھے اور ان کی طرف جھوٹا فتویٰ لکھ کر منسوب کیا گیا تھا۔ حاجی عثمان کے وکیل نے ہتک عزت کا نوٹس بھیجا تو مفتی تقی عثمانی نے سارا جھوٹ اپنے سر لیا تھاکہ ” ہم نے نام سے کوئی فتویٰ نہیں دیا ہے”۔ اب تو اپنے بیان سے بالکل رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں۔
سودی نظام کو حیلے سے اسلامی قرار دینے پر مدارس کے علماء و مفتیان نے مفتی تقی عثمانی کو انفرادی فتویٰ جاری کرنے سے روکنے کیلئے اپنا اجتماعی کردار ادا کیا لیکن بینکوں سے معاوضے لینے والوں نے اپنے مفاد کی خاطر اپنے اساتذہ اور بڑوں کی سنی ان سنی کردی۔بڑی غلط بیانی شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے یہ کی کہ ”مفتی محمود پان کھاتے تھے اور مجھ سے پان کا بٹوہ لیتے تھے کہ لاؤ بھئی ہم تمہارا پان کھائیںگے”۔حالانکہ پان اور نسوار میں بڑا فرق ہے۔ پان چھپا کر کھانے کی گنجائش نہیں جبکہ نسوار کی گنجائش ہے۔ باپ بیٹا ، استاذ شاگرد اور بڑا چھوٹااکٹھے پان کھائیں تو ان میں شرم و حیاء اور ایکدوسرے سے تکلف نہیں ہوتا۔ نسوار میں ایکدوسرے سے چھپ چھپاکر حیاء وشرم اور لحاظ رکھاجاسکتا ہے۔
پہلے رمضان کے مہینے میں لوگ نماز، روزہ کی طرح زکوٰة کو فرض سمجھ کر اپنی ذمہ داری پوری کرتے تھے۔ بڑے پیمانے پر امیر لوگ غریب ومستحق لوگوں میں زکوٰة کی رقم تقسیم کردیتے تھے۔ جبکہ بعض لوگ سود کی رقم کو بھی بینک سے نکال کر غریبوں میںتقسیم کردیتے تھے اور مولوی حضرات اس سے مساجدو مدارس کے غسلخانے اور لیٹرین بناتے تھے۔ حکومت کے کارندے زکوٰة کی رقم بھی بڑے پیمانے پر کھا جاتے ہیں اور اس کی ذمہ دار ی مفتی تقی عثمانی پر عائد ہوتی ہے۔مفتی تقی عثمانی کے فتوے نے پہلے غریبوں پر زکوٰة کی رقم کا راستہ بند کردیا۔ پھر سودی رقم کیلئے اسلامی منافع کا نام دیکررہی سہی کسر بھی پوری کردی۔جس کی وجہ سے لوگوں میں زکوٰة کی ادائیگی اور سود کی حرمت کا تصور بھی ختم ہوگیا۔ اسلام کو بدل ڈالااور غریبوں کو بھوک کی طرف دھکیل کرانکا معاشی قتل عام کیا۔ پھر لوگوں نے مدارس، فلاحی اداروں ، تنظیموں اور مختلف ذرائع سے زکوٰة، خیرات اور صدقات کے نام سے اپنے لئے منافع بخش کاروبار شروع کردیا۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع نے پہلے علامہ سید سلیمان ندوی اور مولانا ابوالکلام آزاد کی طرف سے کیمرے کی تصویر کو جائز قرار دینے کے خلاف فتویٰ دیاپھر پاکستان بننے کے بعد ریاست، تجارت اور دیگر معاملات کیلئے جائز قرار دیدیا۔مولانا شیرمحمد دار العلوم کراچی میں پڑھتے تھے تو مفتی شفیع نے مفتی تقی عثمانی اورمفتی رفیع عثمانی کیلئے دارالعلوم کراچی کی وقف شدہ زمین میں مکان خریدے تھے اور مفتی رشید احمد لدھیانوی نے اسکے خلاف فتویٰ دیا تواسکی زبردست پٹائی لگوا دی تھی۔
٭٭٭

مدارس کے نصاب کو تبدیل کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ مفتی محمد تقی عثمانی کا بیان
مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنے تازہ بیان میں مفتی محمود کی وفات پر تبصرے کے علاوہ مدارس کے نصاب کی تبدیلی کی ضرورت پربھی زور دیکر کہا ہے کہ وفاق المدارس پاکستان کے پہلے صدر مولانا شمس الحق افغانی نے تقریباً50یا60سال پہلے کہا تھا کہ مدارس کا موجودہ نصاب مغربیت کا مقابلہ نہیں کرسکتاہے ۔
فاضل دارالعلوم دیوبند پیر مبارک شاہ نے کانیگرم جنوبی وزیرستان میں سکول کھولا۔ اکوڑہ خٹک کا دینی مدرسہ بعد میں بنا۔مولانا عبدالحق نے پہلے سکول کھولا۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے1920میں مالٹا کی رہائی کے بعد اپنی وفات سے پہلے حکیم اجمل خان کی یونیورسٹی کا افتتاح کیا۔ جب مولانا ابوالکلام آزاد ہندوستان کے وزیر تعلیم تھے تو ملک بھر سے علماء کی میٹنگ بلائی تھی کہ مدارس کے نصاب تعلیم کو تبدیل کرنا ضرور ی ہے ،جس سے علمی استعداد نہیں بنتی، اس نصابِ تعلیم کی وجہ سے ذہین لوگ کوڑھ دماغ بنتے ہیں۔1983میںجو طلبہ فاروق اعظم مسجد ناظم آباد مولانا قمر قاسمی کے ہاں جمعہ کے دن میٹرک پڑھنے جاتے تھے تو دارالعلوم کراچی، جامعہ بنوری ٹاؤن اورجامعہ فاروقیہ شاہ فیصل نے ان کو خارج کردیا تھا۔ دارالعلوم کراچی میں ایک کمر شل سکول بھی موجودہے۔ جامعة الرشید نے یونیورسٹی کے طرز پر بینکاری وغیرہ کی تعلیم شروع کردی ہے اور مفتی تقی عثمانی کے بیٹے بھی میزان بینک کے اسلامی ڈائریکٹر بنے ہوئے ہیں۔
٭٭٭

شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی درس نظامی کے نصاب میں تبدیلی کیوں چاہتے ہیں؟

شاہ ولی اللہ نے قرآن وسنت کی طرف امت کو متوجہ کیااور ناجائز تقلیدکی مخالفت کی اور شاہ اسماعیل شہید نے تقلید کو بدعت قرار دیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا تھاکہ ” اصولِ فقہ کی کتابوں میں ایسے نقا ئص ہیں کہ جس دن کسی عقلمند کی اس پر نظر پڑگئی تو سب کچھ ملیا میٹ ہوجائیگا”۔ (تذکرہ : مولانا آزاد)شیخ الہند اورمولانا سندھی نے قرآن پر زور دیا اور آخر میں مولانا کشمیری نے بھی کہا کہ ”میں نے اپنی زندگی فقہی مسالک کی وکالت میں ضائع کردی۔قرآن و سنت کی خدمت نہیں کی”۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے نصاب کی تبدیلی نہیں تسہیل پر زوردیا۔ بہشتی زیور ، حیلہ ناجزہ اور بہت سارے مواعظ اور کتابیں دلیل ہیں۔
علامہ اقبال نے کہا تھا کہ اجتہاد اچھا لیکن تمہارے اجتہاد میں تقلیدِ فرنگی کا جذبہ نظرآتا ہے۔مفتی محمد تقی عثمانی نے اکابرین کے برعکس بینک کے سودی نظام کو اسلامی بنانے کا حیلہ ایجاد کرلیا تو کیا یہ مغربیت کا مقابلہ ہے؟۔ مغربیت کے بڑے فتنے میں تو امت مسلمہ کو ڈبودیا اور اب اس کی تعلیم کا سلسلہ جاری ہے۔ مغرب کا دینی مدارس پر حملہ آور ہونے کی کوشش کا ذکر مولانا فضل الرحمن نے کیا اور مولانا فضل الرحمن کو وفاق المدارس کا صدر بنایا جارہاتھا پھر مفتی تقی عثمانی کو بنایا گیا۔ ٹھیک ٹھاک پیسوں سے علماء ومفتیان کو خریدلیا گیا۔جامعة الرشید اور دارالعلوم کراچی کی تلاشی لی جائے ۔ جامعہ بنوریہ سائٹ کے مہتمم مفتی محمد نعیم کے اکاونٹ میں5ارب ساڑھے34کروڑ روپے تھے۔ صحافی حامد میر نے مفتی نظام الدین شہید سے امریکہ کی طرف سے علماء کو خریدنے کی خبر نقل کی تھی۔ پھر جہاد کے نام پر80ہزار پاکستانی شہید کئے گئے۔ مولانا فضل الرحمن نے نصاب کی تبدیلی پر مثبت بیان دیا لیکن ڈھیٹ علماء ومفتیان اس میںرکاوٹ ہیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ شمارہ اپریل 2022
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv