جون 2020 - Page 2 of 3 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

کورونا وائرس پر علماء کا افسوسناک رویہ

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

قرآن وسنت میں معاملہ واضح ہونے کے باوجود علماء ومفتیان کا بدترین رویہ!

جب اللہ تعالیٰ نے معاشرتی مسائل کے درمیان نمازِ خوف کا حکم واضح کردیا ہے کہ ” نماز پر محافظت کرو، اور درمیان کی نمازکی۔ اگر تمہیں خوف ہو تو پھر پیادہ یا سوار ہوکر۔ پھر جب امن کی حالت میں آجاؤ ،تو اللہ کو یاد کرو(معمول کی نماز پڑھو) جس طرح تمہیں سکھایا گیاہے جو تم اس سے پہلے نہیں جانتے تھے۔ (البقرہ :آیات۔ 239,238)
رسول اللہۖ نے فرمایا: ” جب آذان کی آواز سنوتو گھرکی نماز قبول نہیں ہوگی ۔ جماعت میں شرکت ضروری ہے مگر خوف یا بیماری کی وجہ سے انفرادی نماز درست ہے”۔سنن ابی داؤد
قرآن اور سنت کے اس پیغام کو عام کردیا جاتاتو مذہبی طبقے سے زیادہ عام تعلیم یافتہ لوگ بھی قرآن وحدیث سے زبردست رہنمائی لیتے۔ علماء نے اپنے کم عقل مقلدین کے ذہنوں میں یہ بٹھادیا کہ”مسجد میں جماعت کی نماز اور جمعہ چھوڑنا جائز نہیں۔ جامعہ ازہر اور قدیم فقہاء کے فتوے ہم نے چھان مارے، کوئی ایسی نظیر نہیں ملی، البتہ نماز مختصر کی جاسکتی ہے”۔ پھربہت جلد اپنا فتویٰ ایسا بدل دیا جیسامنہ کا بتیسہ بدل کر کم عقل بچوں کو حیران کیا جاتاہے۔

گدھے کے پاس ڈھینچو ڈھینچو کے سوا کیا ہے؟ بس پدو مارمار کے گزارہ کرنا ہے

جب چین میں کورونا وائرس کی خبر آئی اور پاکستان کی میڈیا پر بحث ہوئی کہ حکومت کو چین سے پاکستانی طلبہ کو واپس لانا چاہیے یا نہیں ؟۔ تو وبا والی حدیث اینکر پرسن حضرات نے بیان کی کہ چین کے اس علاقہ سے آنے اور جانے کی بات شریعت کے بھی منافی ہے۔پاکستان کی سرزمین پر وبا کی بازگشت سنائی دی تو حجازمقدس میں مساجد کی نمازوں اور حرم کعبہ میں طواف پر پابندی کی خبر عام ہوئی۔ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی اورمفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن کی طرف سے مساجدمیں جمعہ اور پنج وقتہ نماز کی پابندی کا فتویٰ آیا اور سیاسی لیڈروں نے مساجد اور ڈھیٹ تبلیغی جماعت کے خلاف سازش کرنے کی خوب افواہیں پھیلانا شروع کردیں۔
پھر مفتی تقی عثمانی نے اپنا آڈیو پیغام ریکارڈ کروایا اسلئے کہ شکل دکھانے کے قابل نہ رہا ہوگا کہ ” موجودہ صورتحال کے پیشِ نظر جب حکومت نے جمعہ کی نماز پر پابندی لگادی ہے تو فقہاء کی کتابوں میں یہ مسائل مل گئے ہیں کہ ” اگر جمعہ فوت ہوجائے تو گھر میں باجماعت نمازکی اجازت نہیں، اسلئے کہ اندیشہ ہے کہ جمعہ کے مقابلے میں الگ سے لوگ اپنی جماعت کرائیں گے اور دوسرا یہ کہ جماعت مکرر ہوگی۔لیکن لوگ گھروں میں باجماعت نماز پڑھیںاسلئے کہ موجودہ صورتحال میں دونوں باتیں نہیں ۔ جمعہ کا مقابلہ ہے اورنہ جماعت کی تکرار ہے۔ البتہ گھروں میں جمعہ کی نماز نہیں پڑھ سکتے ہیں مگر جو لوگ جمعہ پڑھارہے ہیں وہ بھی ٹھیک ہے۔ یہ مسئلہ مجتہد فیہ ہے۔ اگر اس میں غلطی ہوتومیری ہے اور درست ہوتو اللہ کی طرف ہے”۔
مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمن قرآنی آیت و حدیث کا حوالہ دیناکیوں گوارا نہیں کرتے؟ اوربدلتی ہوئی صورتحال پر اپنا اجتہاد کیوں جھاڑتے ہیں؟۔ جمعہ فوت ہونیکی صورت میں تو بات ہی دوسری ہے، جب یہاں جمعہ فوت ہوا نہیں تو اسکا حوالہ دینا بالکل غلط ہے۔(

میڈیا، حکومت اور علماء ومفتیان کو چاہیے کہ قرآنی آیت اور حدیث کی تشہیر کریں

جب اللہ تعالیٰ نے جہاں نمازوں کی حفاظت کا حکم دیا ہے وہاں خوف کی حالت میں پیادہ اور سواری پر نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے تو جمعہ اور جماعت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔ یہ وقت تھا کہ قرآن کی آیت اور حدیث پیش کرکے اسلام کا روشن ترین چہرہ دنیا کے سامنے ہی لایا جاتا۔ علماء ومفتیان کہتے کہ خوف اور بیماری دونوں کا عذر اجتماعی طور پر اکٹھا ہوا ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام مکان وزمان کے احاطوں پر اللہ رب العالمین جل جلالہ عم نوالہ کا دین ہے جس کے رسولۖ قیامت تک کیلئے واقعی رحمت للعالمین ہیں۔ اسلام کی ناک بلند کرنے کا وقت ہے مگر گدھے ڈھینچوڈھینچو کرنے اور پدو مارنے میں لگے ہوئے ہیں۔
آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کو چاہیے کہ خاتون پولیس افسر کی طرف سے اپنی ڈیوٹی کا فریضہ پورا کرنے پر ویڈیو لنک کے ذریعے خراج تحسین پیش کرنے کا اہتمام کریں اور جنہوں نے خاتون ایس ایچ او کی مارکٹائی کی ہے ان کی سخت الفاظ میں مذمت کریں۔اوریا مقبول کا سوشل میڈیا پر بیان اگرسچا ہے کہ ایک بزرگ نے دیکھا کہ رسول اللہ ۖ نے جنرل باجوہ کو خواب میں تحفہ دیا جس کو جنرل قمر باجوہ بائیں ہاتھ سے لے رہے تھے تو حضرت عمر نے ان کا دائیں ہاتھ آگے کروادیا تو کورکمانڈر کے علاوہ پاک فوج کی نیوی اور فضائیہ کو بھی شامل کرکے قرآنی آیت اور حدیث کا حوالہ پوری قوم بلکہ پوری دنیا کے سامنے پیش کریں۔ پاک فوج کا ترجمان میجر جنرل افتخار جب قرآنی آیت اور حدیث کا حوالہ دیںگے تو پاکستان کے آئین کا روشن چہرہ بھی سامنے آجائیگا۔ پارلیمنٹ نے قرآن وسنت کا دفاع کیا کرنا ہے ؟۔ یہ تو اپنا بوجھ قوم کے سر سے اتارکر غریب عوام تک روٹی روزی کی رسائی کا اہتمام کریں تو ہی مہربانی ہوگی اورجب صدرجنرل پرویز مشرف کے گرد جمع ہوسکتے ہیں تویہ اور کیا نہیں کرسکتے ؟۔

قرآن میں سورۂ قیامت کے بعدسورۂ دھر میں زمانے کے اتار چڑھاؤ کا ذکر؟

جب پوری دنیا نے کروناوائرس سے ایک خوفناک منظر کا سامنا کیا ہے تو علماء کرام کو چاہیے کہ قرآن کے ذریعے عوام الناس کو رہنمائی فراہم کریں۔ سورۂ الدھر میں اللہ فرماتا ہے کہ
ھل اتٰی علی الانسان حین من الدھرلم یکن شیئًا مذکورًاOانا خلقنا الانسان من نطفة امشاج نبتلیہ فجعلنٰہ سمیعًا بصیرًاOانا ہدینٰہ السبیل اماشاکرًا و اما کفورًاOانا اعتدناللکٰفرین سلٰسلاواغلٰلًاوسعیرًاOان الابراریشربون من کاسٍ مزاجھا کافورًاOعینًا یشرب بھاعباداللہ یفجرونھا تفجیرًاOیوفون بالنذرویخافون یومًا کان شرہ مستطیرًا O و یطعمون الطعام علی حبہ مسکینًا ویتیمًا واسیرًاOانما نطعمکم لوجہ اللہ لانرید منکم جزائً ولاشکورًاO ”کیا انسان پر زمانے کا وہ وقت نہیں آیا جب وہ قابلِ ذکر چیز نہیں تھا۔ بیشک ہم نے انسان کو (ماں باپ) کے مخلوط نطفے سے پیدا کیا۔ ہم نے اس کو آزمائش میں ڈالا تو اس کو سننے والا دیکھنے والا بنایا۔بیشک ہم نے اس کو راستہ دکھایا یا تووہ شکر کی زندگی بسر کرے یا ناشکری کی زندگی بسر کرے۔ بیشک ہم نے ناشکری کرنے والوں کیلئے زنجیریںاور طوق اور دیوانی کی کیفیت کا تعین کردیا ہے۔ بیشک اچھے لوگ ایسے کپ پی رہے ہونگے جن کا مزاج(صفت جراثیم کش) کافوری ہوگا۔چشمہ ہوگا جس سے اللہ کے بندوں کو پلایا جائیگا اور اس سے جہاں چاہیںگے نہریںنکالیںگے۔ اپنی نذروں کو پورا کرتے ہونگے اور اس دن کا خوف کھائیںگے کہ جس کا شر بہت پھیل چکا ہوگا۔اور اپنی چاہت سے کھانے کھلائیںگے مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کو۔ (کہتے ہونگے کہ) بیشک ہم اللہ کیلئے تمہیں کھلا رہے ہیں۔ تم سے کوئی بدلہ اور شکریہ نہیں چاہتے ہیں”۔ آیات کروناکا ہی منظر ہیں۔

مجدد ملت حاجی عثمان قدس سرہ نے روزانہ سورہ دھر کی تلاوت کو معمول بنا رکھا تھا

سورہ دھر کی ان آیات میں برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں اور حکمرانوں کو اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ ہندی قومیت پر بننے والے ہندوستان میں مسلمانوں کیساتھ کیا سلوک ہورہاہے اور پاکستان میں اسلام کیساتھ کیا سلوک ہورہاہے؟۔ شکر کرنے یا ناشکری پر اللہ کی طرف سے کیا سلوک ہوسکتا ہے؟۔ پاکستان میں اسلام نافذ نہیں ہوا مگر شکر ہے کہ مذہبی تعصبات کے جس ڈگر پر چل رہا تھا ،اس سے باز آگیا۔ ہندوستان مذہبی تعصبات کے خلاف بناتھا مگر آج وہاں مسلمانوں کی شہریت بھی ختم کی جارہی ہے۔ شکر تو پاکستان کے حکمرانوں کی طرف سے بھی ادا نہیں ہواہے لیکن علماء ومفتیان نے بھی اسلام کا حلیہ بگاڑ رکھا تھا۔
قرآن کی تفسیر زمانہ کرتا ہے۔ کافوری مزاج کے جراثیم کُش کپوں اور نہریں نکالنے کے معاملات کی ضرورت دنیا میں ہوتی ہے جنت میں نہیں، مولانا مودودی نے لکھ دیا تھا کہ ” یہ مطلب نہیں ہے کہ کدال پھاوڑے لیکرنالیاں کھودیںگے”۔تفہیم القرآن۔انقلاب کا آغاز ہوگا تو برصغیرپاک وہند میں مذہبی تفریق کے بغیر سب اللہ کے بندوں کی پانی کے ذریعے ہی خدمت کی جائے گی اور جدید مشنری سے نہریں کھود کر محروم انسانوں کو خوشحال بنایا جائیگا۔ اس طرح نذریں پوری کرنا اور اس دن سے ڈرنا جسکا شر بہت پھیل چکا ہے۔مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلانے کا تعلق بھی دنیا ہی سے ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ کورونا وائرس نے تو انسانوں میں نفرت کی فضا ء ختم کردی ہے لیکن صرف بھارت کے حکمران ہی نفرتوں میں مگن نظر آتے ہیں۔ انسانیت کی بنیاد پر اسلامی انقلاب کا آغاز ہوگا تو مسلمان، ہندو، سکھ ، عیسائی، بدھ مت، پارسی اور قادیانیوں سمیت سب لوگ ایک پیج پر پوری دنیا کو برصغیر پاک وہند سے عظیم انقلاب کی بنیاد ساتھ دیںگے۔ سازش اور سازشی عناصر کا خاتمہ بالکل ہوگا۔

سورۂ قیامت میں قیامت کا ذکر ہے اور سورۂ دھر میں زمانے ہی کا ذکر ہے!

اچھے لوگ مسکینوں، یتیموں اور اسیروں کو اللہ کیلئے کھانا کھلانے کا اہتمام کریں ، کہیں کہ ہم اس کا بدلہ اور شکریہ نہیں چاہتے ۔ جس طرح وزیراعظم عمران خان اپنی سیٹ پکی کرنے اور ٹی وی پر اشہارات نشر کرکے بینظیر انکم سپورٹ کی رقم سے اپنا شکریہ ادا کرواتا ہے۔
جو لوگ غریبوں کی مدد کررہے ہیں وہ اس بدنما اور سخت دن سے ڈرتے ہیں جس کا سامنا دنیا کر رہی ہے۔ اللہ نے فرمایا: انّا نخاف من ربنا یومًا عبوسًا قمطریرًاOفوقٰھم اللہ شرِ ذٰلک الیوم ولقّٰھم نضرة و سرورًاO ………” ہم اپنے رب کا خوف کھا رہے ہیںبدنما سختی کے دن سے۔ پس اللہ انکو اس دن کے شر سے محفوظ کردیگا اور انکو تازگی اور خوشیوں کی حالت بخشے گا۔ اور ان کو بدلہ دیگا بسبب انکے صبر کے۔ باغات اور ریشم کا۔ بیٹھے ہوںگے مسندوں پر جہاں ان کو سورج کی دھوپ اور سردی کی ٹِھر نہیں ستائے گی۔ باغات کی چھاؤں پڑرہی ہونگی اور خوشے جھکے ہونگے اور انکے آگے چاندی کے برتنوں اور شیشے کے کپوں کی گردشیں ہوںگی۔ شیشے بھی چاندی کے ڈیزائنوں سے مرصع ہوںگے۔ان کو ایسے کپوں سے پلایا جائیگا جس کا مزاج(صفات) ادرک ( غیربادی) ہوگا۔ ایسا چشمہ ہوگا جس کا نام سلسبیل رکھا جائیگا اور انکے گرد ایسے لڑکے (ویٹر) گردش کررہے ہونگے جن کی ڈیوٹی ہمہ وقت (24گھنٹے) ہوگی۔جب آپ ان کو دیکھ لوگے تو گویا موتی بکھیر دئیے گئے ہوں۔اور جب پھر دیکھ لوگے اور پھر آپ دیکھ لوگے تو نعمت ہی نعمت ہوگی اور بہت بڑی سلطنت کا ایک ہی ملک ہوگا۔ ( دنیا بھر طرزِ نبوت کی خلافت کا قیام عمل پاکستان سے آچکا ہوگا)۔ان پرکپڑا ہوگا باریک ریشم کاسبز اور گاڑھے رشیم کا۔(پاکستان کی قومی شناخت) ،زیب تن ہونگی چاندی کی گھڑیاںاور ان کو انکا رب کوئی پاک مشروب پلائیگا”۔شریعت کا لحاظ رکھا جائیگا۔

علماء ومفتیان کو چاہیے کہ نازک موڑپراسلام کا درست معاشرتی نظام مانیں!

جب تھوڑے سے اجنبی افراد کے ہاتھوں ایک عظیم انقلاب برپا ہوگا تو اس سے پہلے علماء کو چاہیے کہ طلاق وخلع اور دیگراسلام کا درست معاشرتی نظام دنیا کے سامنے ضرور پیش کریں۔
اسلام کو اجنبیت سے نکالنے والے مقربین بارگاہ اور ان کی تائید کرنیوالے علماء ومفتیان کو یہ بہت بڑا انقلاب بہت خوشیوں اور مسرتوں کیساتھ نصیب ہوگا جس میں ہرمکتبۂ فکر کے علماء اور عوام الناس کی ایک بڑی تعداد اصحاب الیمین بن کر شامل حال ہوگی۔ اللہ نے اسکا نقشہ کچھ اس انداز میں کھینچاہے کہ سارے انقلاب عظیم کو انکی محنت وکوشش کے رہین منت قرار دیا
انّ ہٰذا لکم جزائً وکان سعیکم مشکورًاO” بیشک یہ تمہارا بدلہ اور تمہاری محنت شکریہ کی مستحق ٹھہر گئی”۔جب انقلاب آئیگا تو سب کو تائیدات کا وہ بدلہ ملے گا جس پر ان کے دل خوشیوں سے پھولے نہیں سمائیںگے۔ ٹانک کے مولانا فتح خان فرماتے تھے کہ انقلاب کا آنا بہت مشکل کام ہے لیکن اگر انقلاب آگیا تو عتیق علماء کی بہت قدر کریگا۔ ہماری چاہت یہ ہے کہ کسی کی تذلیل نہ ہو مگر حلالہ اور غیر اسلامی معاملے پر گناہ اور کفر کا ارتکاب نہیں کرسکتے۔
اللہ نے نبیۖ سے فرمایا:ان نخن نزلنا علیک القراٰن تنزیلًاOفاصبرلحکم ربک ولاتطع منھم اٰثم او کفورًاO”پس اپنے رب کے حکم کیلئے صبرکرو اور اطاعت مت کرو،ان میں سے کسی کی گناہگار اور ناشکرا ہوکر۔اور اپنے رب کا نام سویرے و شام کو یاد کرو اور رات میں اس کیلئے سجدہ کرو اور رات کو اس کی تسبیح بیان کرو لمبی مدت تک۔ یہ لوگ بیشک یہ جلدی حاصل ہونے والی دنیا چاہتے ہیںاور چھوڑ رہے ہیں اس دن کو جو بہت بھاری ہے۔ ہم نے ان کو پیدا کیا اور انکے اعصاب کو مضبوط کیا۔ جب ہم نے چاہا تو ان کے جیسوں کو بدل ڈلا”۔ سورہ دھر غور اور تدبر کیساتھ پڑھ لیں تو آنکھ کھلے۔ رہنمائی ملے گی۔

سورہ دھر نصیحت ہے اور اس کو دیکھ کر کوئی بھی اپنے رب کا راستہ پکڑسکتا ہے!

سورہ دھر کے آخر میں اللہ نے ارشاد فرمایا:انّ ہذہ تذکرة فمن شاء اتخذ الیٰ ربہ سبیلًاOوما تشاء ون الا ان یشاء اللہ ان اللہ کان علیمًا حکیمًاOیدخل من یشاء فی رحمتہ والظٰلمین اعدّلھم عذابًا الیمًاO ”یہ ایک نصیحت ہے۔پس جو چاہے اپنے رب کا راستہ پکڑلے۔ مگر تم نہیں چاہ سکتے ہو جب تک اللہ نہیں چاہے۔ بیشک اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ وہ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کردیتا ہے۔ اور ظالموں کیلئے اس نے دردناک عذاب تیار کررکھا ہے”۔ (سورۂ دھر)
جب انسان کا مطمع نظر آخرت ہو تو وہ غیب پر ایمان رکھ کر دنیا کی زندگی میں قربانیاں دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے صراط مستقیم دل وجان سے مانگتا ہے۔ پھر اس کیلئے اللہ اپنی رحمت کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ جب ظالم نہیں چاہتا ہے تو اللہ بھی اس کو اپناراستہ نہیں دکھاتا ہے۔
ہماری زندگی بفضل تعالیٰ قربانیوں سے عبارت ہے۔ جب مولانا فضل الرحمن پر دیوبندی علماء ومفتیان نے کفر والحاد کے فتوے لگائے تھے تو شیخ الحدیث مولانا علاء الدین ڈیرہ اسماعیل خان کے صاحبزادے مولانا مسعودالرؤف میرے ہم جماعت اور کمرے کے رومیٹ تھے۔ علماء ومفتیان کے متفقہ فتوے کا اشتہار اس نے لگایا تھا اور میں نے پھاڑ ڈالا۔ اسکے ساتھ ہاتھا پائی بھی ہوئی تھی۔ پھر ایک نظم لکھ ڈالی جس سے فتوے کو شکست ہوئی تھی۔ پھر مولانا فضل الرحمن نے اپنی تقریر میں یہ کہنے کی جرأت کی تھی کہ میں جدوجہد کررہاتھا اور تم فتوے لگارہے تھے؟ میں تمہارے فتوے کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہوں۔ اکابر علماء ومفتیان نے حاجی عثمان پر فتویٰ لگایا تو بھی اللہ نے سرخرو کیا تھا۔ پھر ٹانک کے اکابر علماء کی تائید کے بعد ڈیرہ کے علماء ومفتیان نے مل کر ہم پر فتوے لگائے تو بھی منہ کی کھانی پڑی مگر پھر بھی ان کوشرم نہیں آئی۔ واہ جی واہ!۔

قرآن کریم میں اسلام کی نشاة ثانیہ یوم الفصل اور انقلاب عظیم کی واضح خبر موجود ہے۔ عتیق گیلانی

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

قارئین کرام! السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
احادیث صحیحہ میں ایک بڑے انقلابِ عظیم کی خبر موجود ہے۔ شاعر انقلاب مفکرِ پاکستان علامہ اقبال نے کہاکہ
آملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے
پروفیسر باغ حسین کمال،پروفیسر علی محمد ماہی، پروفیسر احمد رفیق اختر، صوفی برکت علی لدھیانوی کے علاوہ بزرگ حضرات پاکستان کے بارے میں بڑی بڑی پیش گوئیوں کا ارتکاب کرچکے ہیں۔ استحصالی نظام کے ہوتے ہوئے جس طرح پہلے پاکستان دو لخت ہوا، اب اسکا قائم رہناہی دشوار ہے۔ اللہ تعالیٰ گھناؤنے کردار کے مالک طبقوں کی آشیرباد پر پلنے والے بزرگوں کے دل ودماغوں کیلئے اس قدر فارغ نہیں کہ ان کی زبانوں سے نکلنے والے الفاظ کی لاج رکھ لے۔ جبری جنسی تشدد سے زیادہ مدارس میں ایک ساتھ تین طلاق کے نام پر اللہ کے کلام کی توہین اور اسکی بے گناہ بندیوں کی مذہب کے نام پر عصمت دری ہے۔
قرآن میں نکاح وطلاق کے حوالے سے نہ صرف مرد اور عورت میں بہترین توازن ہے بلکہ عورت کو شوہر کے استحصال سے بچانے میں کمال کی آخری حدوں کوچھولیاگیا ہے۔ ایک طرف مرد کی غیرت کا یہ عالم ہے کہ برطانیہ میں شہزادہ چارلس لیڈی ڈیانا کو طلاق دیتا ہے تو ڈیانا اس کا یہ انتقام لیتی ہے کہ جہاں شاہی خاندان کو ٹھیس پہنچے،وہ وہیں پر شادی کرے۔ پہلے ایک پاکستانی ڈاکٹر سے شادی کی کوشش شروع کی لیکن اس میں کامیاب نہ ہوسکی۔ پھریہ قرعہ ایک عرب دودی الفہد کی قسمت میں آیا۔ ڈیانا فرانس کے شہر پیرس میں ایک ٹریفک حادثے کا شکار ہوئی ،جس پر قتل کی سازش کا کیس عدالت کی زینت بن گیا۔ ترقی اور آزادی سے آراستہ برطانیہ میں مردوں کے اقدار کا حال اس آخری دور میں یہ ہو تو چودہ سوسال سے مسلمانوںمیں غیرت کا تناسب کیا ہوگا؟۔ ہمارے مشرقی اقدار کا تقاضہ کیاہے؟۔ مغرب پر تو بنی اسرائیل کی اجارہ داری ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام پر عزیز مصر کی بیگم نے ہاتھ ڈالا تھا اور پتہ چلا تھا کہ غلطی بادشاہ کی بیگم کی ہے لیکن اس کو تہہ تیغ کرنے کے بجائے حضرت یوسف کو جیل بھیج دیا گیا تھا۔ بنی اسرائیل حضرت یوسف کے حوالے سے اس بادشاہ کے کلچر کواپنے مذہبی اقدار کی اہم بات سمجھتے تھے۔ جس کے اثرات آج بھی مغربی اقدار میں موجود ہیں۔
ہندوستان میں نوح کے بعد ہندو قوم نے ذوالکفل کو نہ مانا جسے بدھ مت والے گوتم بدھ کہتے تھے۔ عربوں میں اسماعیل کے بعد آخری نبیۖ تک کوئی نبی نہیں آئے۔ ہندو اقدار قدیم ہیں، بابِ اسلام سندھ کی اکثریت نے بدھ مت قبول کیا تھا۔ عرب قدیم اقدار کے مالک تھے۔ نبیۖ پر سورۂ نور میں لعان کا حکم نازل ہوا تو مدینہ کے اسٹیک ہولڈرحضرت سعد بن عبادہ نے کہا کہ ہم آیت پر عمل نہ کرینگے، عورتوں کو قتل کرینگے۔ نبیۖ نے انصار سے شکایت کی تو انصار نے کہا کہ یارسول اللہ ۖ درگزر کیجئے! یہ بہت غیرت والا ہے، کبھی طلاق شدہ یا بیوہ سے شادی نہ کی۔ ہمیشہ کنواری سے شادی کی ، جس کو طلاق دی تو اس کو کسی اور سے شادی نہیں کرنے دی۔ نبیۖ نے فرمایا: میں اس سے زیادہ غیرتمند ہوں اور اللہ مجھ سے بھی زیادہ غیرتمند ہے۔ ( صحیح بخاری)
علماء نے پدرِ شاہی نظام کیلئے اس حدیث کی غلط تعبیر لکھ دی کہ نبیۖ نے حضرت سعد کی غیرت کی تعریف کی۔ حالانکہ نبیۖ نے سچ فرمایا تھا کہ وہ زیادہ غیرتمند ہیں، جبھی تو اللہ نے فرمایاکہ” آپ کی ازو اج سے کبھی بھی نکاح نہ کرو، اس سے نبی کو اذیت ہوتی ہے”۔ (القرآن)
نبیۖ کی غیرت کا یہ عالم تھا کہ احادیث کی کتابوں میں لکھاہے کہ آپۖ کو اپنی لونڈی ماریہ قبطیہ پر اسکے ایک ہم زباں کا شک گزرا تو حضرت علی کو قتل کرنے کا حکم دیا مگر حضرت علی نے اس کو کنویں سے نکالا تو عضو ء تناسل کٹا ہوا تھا ، جس کی وجہ سے اس کو چھوڑ دیا۔ لونڈی سے کئی گنا زیادہ غیرت بیگم پر ہوتی ہے اسلئے کہ قرآن میں جس طرح آزاد بے نکاح عورتوں کے نکاح کرانے کا حکم ہے، اسی طرح سے غلاموں اور لونڈیوں کا بھی نکاح کرانے کا حکم ہے۔ قرآن و احادیث میں مستقل نکاح کی طرح سے ایگریمنٹ کی بھی وضاحت ہے۔ ایگریمنٹ اور نکاح آزاد عورتوں سے بھی ہوسکتا ہے اور لونڈیوں سے بھی ۔ آج مغرب اسلام کے زیادہ قریب اسلئے ہے کہ قرآن واسلام کے فطری نظام ہی کے قریب ہے اسلئے علامہ قبال کو مشرق میں مسلمان نظر آتا ہے مگر اسلام نظر نہیں آتا اور مغرب میں مسلمان نظرنہیں آتا ہے مگراسلام نظر آتا ہے۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے قرآن کا انقلاب دنیا میںنشر ہونے کا اعتراف کیا اور مسلمان ہی کو محروم قرار دیا ہے۔ پدرِ شاہی نے قرآن کے الفاظ سے بالکل غلط مفہوم لیا اور ماملکت ایماکم سے نکاح کے قانونی بندھن سے آزاد ایگریمنٹ مرادلینے کے بجائے لونڈیاں مراد لیا۔ جس کی وجہ سے اسلام کے نام پر عیاشی کرنے والا بادشاہ اور اسکے مشیراوروزیر اپنی اپنی خواہشات کے مطابق کئی ہزار اور سینکڑوں دوشیزاؤں کو محل سراؤں میں رکھتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے نبیۖ کی سیرت طیبہ کو اعلیٰ نمونہ اسلئے قرار دیا کہ وحی کے ذریعے ہر چھوٹی بڑی بات میں رہنمائی کا اہتمام کیا۔ جب حضرت عائشہ پر بہتان عظیم کا معاملہ آیا تو نبیۖ نے شک کی بنیاد پر قتل کرنے کے بجائے آپ کو گھر جانے کی اجازت دی ۔ سورۂ نور میں زناکی سزا اور پاکدامن خواتین پر بہتان لگانے کی سزا کا حکم نازل ہوا تو بہتان لگانے والوں کو 80، 80 کوڑے لگائے گئے۔
مرد گالی دینے کو عزت سمجھے تو بہتان پر سزا کیوں؟۔ قرآن نے صرف عورت کوتحفظ دیا ۔ یہ سزا اُم المؤمنین پر بہتان لگانے والوں کیلئے بھی تھی اور ایک عام غریب ونادار عور ت پر بہتان لگانے کی بھی یہ سزا تھی۔ قرآن وسنت کا یہ قانون آج نافذ ہوجائے توپھر پدرِ شاہی نظام بالکل دھڑام سے گرے گا۔ پدرِ شاہی نے جن شخصیات اور خاندانوں کی آبیاری کی، ان کی عزت عدالتوں میں اربوںکی ہے اور عوام کی ٹکے کی عزت نہیں۔ منظور پشتین مولوی بن کر نماز پڑھاتا ہے لیکن اسلام کی انصاف پر مبنی بات نہیں کرتا۔ تعصبات کو ہوا دینا پدرِ شاہی نظام کو تقویت دینے کا سبب بنتاہے۔ مذہبی ، قومی، لسانی اورملکی تعصبات پدرِ شاہی نظام کے عالمی استعمار کوہی تقویت پہنچانے کا خواب ہیںلیکن اب انشاء اللہ یہ پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتے ہیں۔ پاکستان میں بلیک واٹر کا کردار تھا؟۔
لیکن اس وقت طارق اسماعیل ساگر جیسے لوگ سب سمجھ کر بھی کچھ نہیں کہتے تھے۔ اب افغانستان میں اشرف غنی اور طالبان کے حمایتی قتل وغارتگری کی ذمہ داری بلیک واٹر پر ہی ڈال رہے ہیں۔ دونوں طرف کے بڑے امریکہ کی گود میں بیٹھ کر امریکہ کے کردار پر بات نہیں کرسکتے اسلئے ایک طرف ہندوستان دوسری طرف پاکستان کا نام لیتے ہیں۔ اور دونوں ہی شریعت،اسلام اور قرآن کا نام لیتے ہیں۔
ہندوستان کے پاس ہندوازم کا نظام نہیں تھا اسلئے عالمی استعمار کیخلاف کھڑے ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ملا لیکن پاکستان کے پاس قرآن اور اسلام جیسی نعمت ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ علماء نے جس طرح اسلام کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا تھا۔ عباسی دور میں جس طرح کی اسلام سازی سے آغاز ہوا تھا، وہ اب شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی کے ہاتھوں بالکل آخری حدوں کو چھورہاہے۔ ایک طرف قرض سے فائدہ ہی فائدہ اٹھانے کی بنیاد پربینکنگ کا سودی نظام جائز قرار دیا گیا اور دوسری طرف اپنا چہرہ چھپاکر ویڈیوبھی نشر کردی کہ” لوگ علت اور حکمت کا فرق نہیں سمجھتے۔ اسلئے کہتے ہیں کہ سود کا تعلق ظلم سے ہے ۔جب سود میں ظلم نہ ہو تو پھر جائز ہونا چاہیے لیکن میں کہتا ہوں کہ ظلم سود سے روکنے کی حکمت ہے مگر یہ اس کی علت نہیں ۔ سود کی علت قرض پر نفع حاصل کرنا ہے۔ میں اس کی مثال دیتا ہوں کہ لال بتی میں حکمت ٹریفک حادثات سے بچنا ہے مگر اس کی علت لال بتی کا جلنا ہے۔ اگر کوئی ماحول دیکھ کر لال بتی کی خلاف ورزی کریگا تو قانون کی گرفت میں آئیگا، چاہے وہ حادثہ سے بچنے کی حکمت اختیار کرے”۔ مفتی تقی عثمانی۔
دنیا نے سود کو ظالمانہ نظام تسلیم کرلیا۔ شیخ عبداللہ ناصح علوان کی کتاب ”مسلمان نوجوان”کا ترجمہ ہمارے استاذ ڈاکٹر حبیب اللہ مختارپرنسپل جامعة العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن (نیوٹاؤن) کراچی نے کیا، جس میں دنیا بھر کے معاشی ماہرین کی طرف سے سودی نظام کو ظلم کہا گیاہے۔ لیکن یہ کتاب مارکیٹ سے غائب کردی گئی اور ڈاکٹر حبیب اللہ مختار کو شہید کرکے جلاکر راکھ کردیا گیا۔
میرے گھر پر حملہ کرکے بہت سوں کو شہید کیا گیا تو میرے لئے تیزاب کے بڑے بڑے کین لائے تھے۔ میری ان سے ذاتی دشمنی نہیں تھی اور طالبان کے امیر نے ذمہ داروں سے قصاص لینے کا عزم بھی کیا تھا۔ قوم محسود کے نمائندے معافی تلافی کیلئے تو ساتھ آئے لیکن فیصلے کا وقت آیا تو طالبان نے ان کو کانیگرم نہیں آنے دیا تھا۔ کوئی شک نہیں کہ کشمیر میں ہندوستان کے فوجی طیارے استعمال کرکے باغی کشمیریوں کو نہیں مارتے اور پاکستان کی آرمی نے وزیرستان میں محسود قوم پر بمباری کرکے خواتین اور بچوں سمیت بہت بے گناہ افراد کو بھی شہید کردیا۔ لیکن جب دہشت گرد حملے کے بعد اپنی محفوظ پناہ گاہوں میں جاتے تھے تو پوری قوم بے غیرت بن کر انکے سامنے لیٹی ہوئی تھی۔ مجھ پر پہلے حملہ ہوا تھا توبھی میرے ساتھ دو معصوم افراد بھی بال بال بچ گئے تھے اورپھر بھی ہمارا گھر اور ہمارے عزیز واقارب طالبان کو سپورٹ کرنے میں بے شرمی اور بے غیرتی محسوس نہیں کرتے تھے۔ کربلا کے بعد بھی طالبان کی آمد کا سلسلہ جاری تھا۔ معاشرے میں کوٹ کوٹ کر بے غیرتی ہو تو پدرِ شاہی اور عالمی استعمار کا نام لینا حقائق سے فرار کی ایک بدترین صورتحال ہے۔
جب برطانیہ کے شہزادہ چارلس کوبھی غیرت کا سامنا تھا جس کی جھلک نجم سیٹھی کی بیگم جگنومحسن کی طرف سے ARYنیوز کے پروگرام میں نیٹ پر ملے گی تو پھر ہمارے شہروں، دیہاتوں اور قبائلی ماحول میں مردانہ غیرت اور خواتین کیساتھ مظالم کا حال کیا ہوگا؟۔ دنیا بھر میں عورت مارچ جنسی تشدد اور حقوق کیلئے آواز بلند کرتا ہے، جس نے پاکستان میں بہادری کی ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے۔
جب ریحام خان مسیج پر طلاق ملنے کے بعد بر طانیہ سے واپسی کا عزم کررہی تھی تو اس کو قتل کی دھمکیاں ملی تھیں لیکن قدرت نے اس قوم سے ایک ایسی تبدیلی کا انتقام لیا کہ عمران خان نے ایک شادی شدہ خاتون بشریٰ بی بی ہی سے خلع لینے کے بعد شادی کرلی تو قوم نے وزیراعظم بنایا اور جب جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا میں پختون کا لباس ودستار پہن کر بلاول صاحبہ پکار رہاتھا جس کو فیاض الحسن چوہان، عامر لیاقت، مراد سعید ، شہریار آفریدی اور اجمل وزیر نے بڑی داد بھی دی ہوگی لیکن وہ یہ سمجھتے تھے کہ بشری بی بی کا نکاح بھی ایک پختون مفتی محمدسعید خان نے ہی پڑھایا تھا۔ جب بہنوں اور بیٹیوں کی قیمت وصول کی جاتی ہے تو کوئی غیرت نہیں آتی ہے لیکن جب بیگم گھر میں بیٹھ جائے تو پھر غیرت کا مسئلہ کھڑا ہوجاتا ہے؟۔ غیرت کا مسئلہ الگ ہے مگر مفادات کو غیرت کا نام دینا الگ ہے۔
ہمارے کانیگرم شہر میں پڑوسی زنگی خان نے شادی کے بعد اپنی بیگم کو بیڑیاں ڈال کر قید کیا تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ وزیرستان میں اچانک عورت کا ریٹ بڑھ گیا ۔ اس کو فروخت کرنے والے باپ اور بھائیوں نے مطالبہ کیا تھا کہ یا نئے ریٹ دو یا پھر طلاق دو اوراپنا پیسہ واپس لے لو تاکہ ہم زیادہ قیمت وصول کرکے اس کو دوبارہ فروخت کردیں۔ یہ لوگ بعد میں طالبان بن گئے اور اپنی دہشت و غیرت سے اسلام کی غیرت دنیا پر مسلط کرنے لگ گئے۔
نبیۖ نے فرمایا کہ ” جب دوبارہ خلافت قائم ہوگی تواسلام زمین میں جڑ پکڑے گا”۔ قرآن میں یہ انقلاب بہت واضح ہے۔ بہت ساری آیات اور سورتوں میں اس عالمگیر انقلاب کا نقشہ بہت واضح ہے۔ سورہ جمعہ، سورہ محمد اور سورہ واقعہ میں صحابہ کے بعد پھر سے ایک نئی قوم کا ذکر ہے، نئی جماعت کا ذکر ہے اور تھوڑے مقربین اور بہت ہی زیادہ اصحاب الیمین کا ذکر ہے۔ مولانا عبیداللہ سندھینے کوشش کی تھی کہ قوم اس طرف توجہ کرے۔ قبلہ ایاز اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے چیئرمین مولانا سندھی کی اس کاوش کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن نوکری اور اختیار مل جاتا ہے تو مشکلات کا سامنا کوئی نہیں کرنا چاہتا ہے۔
غلام احمد پرویز نے احادیث صحیحہ کی روح کو نہیں سمجھا تھا اسلئے قرآن کی خدمت کے باوجود قرآن فہمی سے محروم رہاتھا۔غلام احمد پرویز سے زیادہ حنفی نصاب میں احادیث سے روگردانی کا قرآن کی بنیاد پرارتکاب ہے لیکن قرآن و سنت نہیں مسالک اورنظریات کی خدمت ہورہی ہے۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ قرآن وسنت کے تابع بننے کے بجائے مسلک پرستی اور نفس پرستی کے تابع اسلام کو بنایا جائے۔
فاذا جاء ت الصاخةOیوم یفر المرء من اخیہ Oامہ وابیہOو صاحبتہ وبنیہ O لکل امری ئٍ منھم شان یغنیہOوجوہ یومئذ مسفرةO ضاحکة مستبشرة Oو وجوہ یومئذ علیھا غبرہ Oترھقہا قترةOاُولئک ھم الکفرة الفجرةO( سورہ ٔ عبس کی آخری آیات)
جب انقلاب کی وہ آواز آئے جو دلوں کے اندھوں کو بھی سنائی دے تو آدمی اس دن اپنے بھائی سے فرار ہوگا۔ اپنی ماں اور اپنے باپ سے، اپنی بیوی، اپنے بچوں سے۔ ہر ایک اپنے سردرد میں مگن ہوگا۔ انقلاب کے داعی اچھے لوگوں کے چہروں پرخوشی نمایاں ہوگی،ان پرہنستے ہوئے بشارت کے اثرات ہونگے اور انقلاب دشمن لوگوں کے چہروں پر مجنونوں کی طرح بھاگنے اور رقص کرنے کی وجہ سے گرد وغبار چڑھا ہوگا۔ ان پر سیاہی کی تہہ چڑھی ہوگی۔ یہ وہی لوگ ہونگے جنہوں نے کفر و فجور کا راستہ اختیار کیا ہوگا۔ قرآنی احکام کو رد کرنے کا نتیجہ وہ بھگت لیںگے۔
اسلامی خلافت علی منہاج النبوة بعض مجرموں کو طوق وسلاسل پہنائے گی لیکن اس کی وجہ انتقام نہیں بلکہ اس دنیا کو انکے شر سے بچانا ہوگا۔ہندوؤں کا حکمران طبقہ زیادہ تر اس کا شکار اسلئے ہوگا کہ ہندوستان میں اسلام کا سورج ہی ہندوؤں کے ہاتھوں سے طلوع ہوگا۔ مودی کے تعصبات لتا حیا شاعرہ جیسے کروڑوں ہندوؤں کیلئے قابلِ نفرت ہے اور پاکستان میں ہندوؤں کیخلاف نفرت کو کوئی ہوا نہیں دی گئی ہے۔ جب پاکستان میں نفرت کی آگ بھڑ کائی گئی تو مشرقی پاکستان ٹوٹ گیا۔ بھارت کو بھی نفرتوں کی آگ اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ جو لوگ امریکی عوام پر مہذب ہونے کا فتویٰ صادر کرتے تھے تو انہوں نے دیکھ لیا کہ کس طرح انسانیت دشمنوں نے بے گناہ لوگوں کو زبردست نقصان پہنچایا۔ جب تک پاکستان میں صحیح اسلامی نظام کا نفاذ نہیں ہوتا ہے تو ہماری عوام اور ریاست بھی خطرات کی منڈیر پر طوفانوں کے گھیرے میں رہے گی اور لوگوں کو استحصالی طبقات کے غیرانسانی رویوں پر سراپا احتجاج بننے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ عدالتوں سے ہم انصاف کی امید نہیں رکھتے۔ سیاسی نظام کٹھ پتلی اور دلالی کا شاخسانہ ہے۔ مولوی کا اسلام فطرت کیخلاف کھڑا ہے۔ میڈیا اشتہار کیلئے مررہا ہے۔میڈیسن کا جعلی ہونا اور ڈاکٹروں کا غریب مریضوں کی کھال کھینچنا تو ایک معمول بن چکا۔ تاجر راہزن اور ٹرانسپورٹر غنڈے بن گئے ۔ ریاست اغواء برائے تاوان کیلئے غائب ہونیوالی ماں بن چکی ۔ جس کا دل دھڑکتاہوگا مگر دودھ اغواء کاروں کے ہاتھ میں ہے۔
قرآن کریم جہاں آخرت کی خبر دیتا ہے اسلئے کہ سبھی نے موت کا ذائقہ چکھ لینا ہے اور ہر ایک کو قبرو آخرت سے واسطہ پڑنا ہے لیکن ساتھ ساتھ قرآن دنیاوی انقلاب سے بھی لوگوں کو آشنا کرتا ہے۔ یہود، نصاریٰ، ہندو، بدھ مت اور تمام مذاہب میں انقلاب عظیم کی خبر ہے۔ قرآن نے بھی خبردی وماھو بقول الشیطٰن الرجیمOفاین تذھبونOان ھوالا ذکر للعٰلمین ”اور یہ شیطان مردود کا قول نہیں ہے۔پھر تم کہاں جارہے ہو؟۔ بیشک یہ نہیں مگر تمام جہانوں کیلئے نصیحت ہے”۔(سورۂ تکویر)
بنوامیہ و بنوعباس کے دور میں سرکاری ملاکی آبیاری ہونا شروع ہوئی۔ خلافت عثمانیہ اور انگریز کے دور سے آج تک ملاؤں اور سرکاری سرپرستی میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔جمعہ کے خطبہ میں السلطان ظل اللہ فی الارض من اھان سلطان اللہ فقد اہانہ اللہ کی حدیث پڑھی جاتی ہے۔زمین میں بادشاہ اللہ کا سایہ ہے، جس نے اللہ کے سلطان کی توہین کی تو اس نے اللہ کی توہین کی۔ بادشاہ نے چاہے فرعون ونمرود جیسا ظالمانہ نظام نافذ کیا ہو۔ اللہ نور السموات والارض کا بھلے کوئی اپنا سایہ نہ ہو مگر ظالموں کا اعزاز یہی ہے کہ وہ اللہ کا سایہ ہیں۔ وہ کربلاؤں کی تاریخ رقم کریں اور ہم یہ آیت پڑھیں کہ اللہ جس کو چاہتا ہے اس کو ملک کا مالک بنادیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے ملک کو چھین لیتا ہے۔ ایک طرف عوام کو ظالم وجابر حکمرانوں کے سایہ میں رہنا پڑتا ہے تو دوسری طرف انکے گماشتے زمین میں مدظلہ العالی کا استحقاق رکھتے ہیں یعنی انکے سایہ کو اللہ مزید کھینچ کر لمبا کردے۔ حکمرانوں اور مذہبی طبقات کے سایوں کا عوام کو فائدہ ہو نہ ہو مگر یہ ظل الٰہی زبردستی کیساتھ بھی اپنے سایوں کو مسلط رکھنا چاہتے ہیں۔
جب انقلاب عظیم آئیگا تو دنیا میں انصاف کا بول بالا ہوگا۔ان جھوٹے سایوں سے اس دن چھٹکارا مل جائیگا۔ اس دن انکے سایہ میں پلنے والوں کیلئے سایہ نہیں ہوگا۔ قرآن نے واضح کیا ہے کہ لاظلیل اس دن کوئی سایہ ان مجرموں کیلئے نہیں ہوگا۔ اسی کیفیت کو سورۂ مدثر میں بتایا گیا ہے کہ وہ سقر میں پہنچ جائیںگے۔ القاموس المعجم میں ہے کہ سقر کھلے آسمان تلے اس کیفیت کو کہتے ہیں کہ جب ان سے سورج کی تپش میں رکاوٹ نہ ہو۔ ان لوگوں کی اس خاص تعریف کا ذکر ہے کہ قرآنی آیات سے ایسے بھاگتے ہونگے جیسے گدھے بدک جاتے ہیں شیروں سے۔ ان کی یہ خواہش ہے کہ بس ان کی اپنی کتابیں نشر ہوتی رہیں، ان کو قرآن کی آیات عام کرنے سے کوئی غرض نہیں ۔
سورۂ دھر میں انقلاب کے بعد ادرک کے مزاج کے مشروبات کا ذکر ہے جس کی خاصیت قوتِ مدافعت اور بادی کا خاتمہ ہے۔ سورہ ٔ جمعہ میں واٰخرین منھم کا ذکر ہے جس سے اہل فارس مراد ہیں تو سورۂ الشوریٰ میں فرمایا کہ نبیۖ کو اللہ نے اہل مکہ اور آس پاس کے علاقوں کیلئے مبعوث کیا اور یوم جمع کیلئے بھی ۔ یوم جمع سے مراد اس دنیاوی انقلاب پر پوری دنیا کا جمع ہونا ہے جس کا ذکر تمام مذاہب کی کتابوں میں بہت واضح طور پرموجود ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ نبأء میں فرمایا کہ ” اور آپ سے پوچھتے ہیں ایک عظیم خبر کے بارے میں ۔جس میں لوگ اختلاف کرتے ہیں۔ ہرگز نہیں عنقریب یہ جان لیںگے، ہرگز نہیں عنقریب یہ جان لیںگے”۔ قرآن ہی کے ذریعہ دنیا میں عظیم انقلاب کی خبر دنیا سمجھ چکی ہے اسلئے کہ فارس و روم کی سپر طاقتوں کو پہلے بھی مسلمانوں نے شکست دی تھی اور کسی بھی مذہب میں یہ صلاحیت نہیں کہ اس کو اس قابل سمجھا جائے کہ کسی بڑے انقلاب کی صلاحیت رکھتا ہے۔
علامہ اقبال نے ”ابلیس کی مجلس شوری” کے حوالے سے لکھا ہے کہ شیطان کو صرف اور صرف آئین پیغمبر سے خوف ہے جو حافظِ ناموسِ زن ، مرد آزما ،مرد آفریں ہے۔
قرآن واحادیث میں ایک عظیم انقلاب کا ذکر ہے۔ اسلام نے توہمات، غلط عقیدتوں ، رسم وروایات کے غلط بندھنوںاور استحصالی معاشی نظام کو بیخ وبن سے اُکھاڑ دیا تھا اور دنیا کو حریتِ فکر کا سیاسی نظام سکھادیا تھا جس کی وجہ سے پوری دنیا میں بہت بڑی تبدیلی آگئی البتہ مؤمنوں کا اپنا کردار یہود کے احبار اور نصاریٰ کے رھبان والا بن گیا تو دنیا نے چراغ تلے اندھیرے کی کیفیت دیکھ لی ہے۔
ارتغل غازی کے کردار، شخصیت اور ڈرامے کا مجھے کچھ پتہ نہیں ہے لیکن اتنا جانتا ہوں کہ شیطان نے پھر کوئی داؤ کھیل کر امت مسلمہ پر نقب لگادی ہے۔ دنیا میں ہمارا مسئلہ کفار اور مسلمانوں کی جنگ نہیں بلکہ کفر اور اسلام کے درمیان جنگ ہے۔ پہلے بھی طالبان بہت نیک نیتی کے ساتھ اچھے جذبے سے امریکہ کیخلاف کھڑے ہوگئے تھے لیکن پھر نتیجہ یہ نکلا کہ افغان اور پاکستان حکومت کیخلاف بھی جنگ کا دائرۂ کار بڑھادیا۔ جب تک ہم اپنے معاشرہ سے کفر نہیں نکالیںگے اور جب تک ہم اپنے مدارس سے کفر نہیں نکالیںگے اس وقت تک ہم نہ معاشرتی نظام کی اصلاح کرسکتے ہیں اور نہ ملکی اور بین الاقوامی نظام کی کوئی اصلاح کرسکتے ہیں۔مدارس کے نصاب کی اصلاح کیلئے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی، بنوریہ عالمیہ سائٹ کراچی اور مولانادرخواستی صاحب کی آل اولاد کے ارباب اہتمام و فتویٰ مجھے طلب کرلیں۔ سب کچھ دنوں میں صحیح سمت چلنا شروع ہوجائیگا۔ ہمیں اپنے اساتذہ کرام کا احترام ہے۔
اگر قرآن کی آیات میں ایک طرف عدت کے اندر طلاق کے بعد رجوع کی گنجائش ہو، پھر عدت کی تکمیل کے بعد بھی گنجائش ہو اور پھر عدت کی تکمیل کے عرصہ بعد تک بھی رجوع کی گنجائش ہو تویہ قرآن بہت بڑے تضادات کا مجموعہ بن جائیگا۔ علماء وفقہاء نے اس کی بالکل غلط اور لغو تطبیق کی ہے۔ قرآن میں رجوع کیلئے اصل مدار باہمی صلح ہے اور اسی کو قرآن میں معروف رجوع کا نام دیا گیاہے۔
میاں بیوی میں طلاق کے بعد کسی بھی مرحلے پر صلح کی ترغیب اور گنجائش موجود ہے۔ قرآن کی ہرایک آیت کا مقصد واضح ہے۔ دوسری طرف کسی بھی مرحلے پر صلح کے بغیر رجوع کی گنجائش نہیں ہے، اس پربھی قرآن کی ہرآیت کی بھرپور وضاحت ہے۔ میاں بیوی صلح کرنا چاہتے ہوں تو قرآن کا کوئی ایسا حکم نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ انکے درمیان صلح میں رکاوٹ بن جائے۔ اس کی اللہ نے بار بار وضاحت بھی کی ہے۔ البتہ جب عورت جان چھڑانے پر آمادہ ہوتو پھر شوہر کیلئے اس پر زبردستی کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ اس کی راہ میں کسی اور شوہر سے نکاح کرنے میں رکاوٹ بن جائے۔ پھر کباب میں یہ ہڈی برداشت نہیں ہے جو اپنے معاشرے اور انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ منگیتر کو چھوڑنے کے باوجود اپنی مرضی سے شادی نہیں کرنے دی جاتی ہے اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ عورت کو طلاق دی تو پھر دوسری جگہ اس کو شوہر اپنی مرضی سے شادی کرنے نہیں دیتا ہے۔ میرے والد مرحوم نے پاکستان بننے سے پہلے ایک بیوی کو طلاق دی تھی اور پھر اس پر کوئی پابندی نہیں لگائی تھی کہ جہاں شادی کرنا چاہے کرسکتی ہے تو اس کو بہت بڑے انوکھے کردار کی حیثیت دی گئی تھی۔ کمزور پر ظلم نہ کرنااصلی اور نسلی ہونے کی نشانی ہے۔ جب انقلاب آئے اور قاتل ہمارے ہاتھ چڑھ جائیں اور اعتراف جرم کرلیں تو ان پر دسترس حاصل ہونے کے بعد معاف کرنے میں ہماری روح کو بڑی تسکین ملے گی۔ صحابہ کرام اور اسلاف کا فیصلہ اور فتویٰ طلاق کے حوالے سے سوفیصد درست تھاکہ جب عورت رجوع کیلئے راضی نہ ہو تو شوہر کیلئے اس وقت تک حرام ہے کہ جب تک وہ عورت اپنی مرضی سے نکاح نہ کرلے۔ آیت کا مقصد میاں بیوی کو سزا دینا نہیں بلکہ عورت کی اس ظالم سے جان چھڑانا ہے جو اس کی مرضی کا لحاظ نہیں رکھتا ہے بلکہ اپنی غیرت کیخلاف سمجھ کر اس کو اپنی مرضی سے کسی دوسرے سے نکاح نہیں کرنے دیتا ہے۔
قرآن وحدیث میں تین طلاق کو تین مراحل کیساتھ خاص قرار دیا گیا ہے۔ الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان ”طلاق دو مرتبہ میں ہے۔ پھر معروف طریقے سے رجوع یا احسان کیساتھ چھوڑ دینا ہے”۔ نبیۖ نے فرمایا کہ احسان کیساتھ چھوڑنا ہی تیسری طلاق ہے۔ نبی ۖ نے طہرو حیض کے مراحل کی وضاحت کرتے ہوئے بھی تین مرتبہ طلاق کے عمل کو اس عدت کیساتھ خاص کردیا جس میں عورت کو حیض آتا ہو۔ بخاری کی کتاب تفسیر سورہ ٔ طلاق ، کتاب الاحکام، کتاب الطلاق اور کتاب العدت میں حدیث موجود ہے۔
سورۂ بقرہ کی آیت229میں خلع کا کوئی ذکر نہیں ہے بلکہ تین مراحل میں تین مرتبہ طلاق کے بعد کی صورت کا ذکر ہے۔ جس میں طلاق کے بعد بیوی سے شوہر کے دئیے ہوئے مال میں سے کچھ بھی واپس لینا جائز نہیں ہے مگر جب دونوں کا اتفاق ہو کہ اگر وہ مخصوص چیز واپس نہ کی گئی تو دونوں کیلئے اللہ کی حدود پر قائم رہنا بڑا مشکل ہوگا اسلئے کہ میاں بیوی نے علیحدگی کا فیصلہ کرلیا ۔ دونوں کی راہیں جدا ہیں، الگ الگ شادیاں دوسری جگہ ہوسکتی ہیں۔ پھر وہ چیز ملنے کا ذریعہ ہو تو پہلے سے دونوں کا ایک تجربہ رہاہے جس کی ایکسرسائز ہوسکتی ہے تو پھر وہ چیز واپس کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں۔ معاشرے نے بھی یہی فیصلہ کیا ہو توپھر سوال یہ پیدا نہیں ہوتا کہ رجوع ہوسکتا ہے یا نہیں ؟۔ بلکہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے بعد بھی عورت کو مرضی کی اجازت ہے یا نہیں؟۔ اسی کو ہی آیت230 البقرہ میں بیان کیا گیا ہے۔

خواتین کی طرف سے اپنے حقوق کی جنگ کو اللہ نے سورہ مجادلہ میں دوام بخشا۔ عتیق گیلانی

 تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

سورۂ النساء آیت19میں پہلی بات تویہ واضح ہے کہ عورت (بیوی) مرد کی جاگیر نہیں ۔ جبری ملکیت کے تصور کو اسلامی معاشرے سے بالکل حرفِ غلط کی طرح مٹادیا جائے۔
جب غیر مسلموں نے قرآن کے تراجم کرلئے تو ان پر اسلام اور مسلمانوں کی فتوحات کاراز کھل گیا۔ شاہ ولی اللہ نے دیکھا کہ اسلام مخالف پادریوں سے علماء اسلئے شکست کھاتے ہیں کہ وہ کوئی بات کرتے ہیں کہ قرآن میں یہ لکھا ہے تو علماء انکار کردیتے ہیں کہ قرآن میں ایسا کچھ نہیںلیکن جب قرآن کھول کر دیکھتے ہیں تو وہ بات قرآن میں ملتی ہے۔ اور اسی وجہ سے علماء کو شرمندگی کا سامنا ہوتا ہے پھر شاہ ولی اللہ کو پتہ چلا کہ ان پادریوں نے اپنی زبانوں میں قرآن کا ترجمہ کررکھا ہے۔علماء میںان کے مقابلے کی صلاحیت پیدا کرنے کیلئے پھر شاہ ولی اللہ نے بھی قرآن کا ترجمہ کرلیا۔
سیدا بوالاعلیٰ مودودی نے لکھا کہ ” کیا وجہ ہے کہ شاہ ولی اللہ کے خاندان کا تقویٰ وکردار بھی قرون اولیٰ کی یادگار تھا، یہاں مسلمانوں کی حکومت بھی تھی لیکن انگریز نے ہم پر اپنا تسلط جمالیا اور شاہ ولی اللہ کے افکار ناکام ہوئے؟”۔
انگریز اسلئے کامیاب ہوا کہ انسانی حقوق کے حوالے سے قرآن کا پیغام سمجھا۔ خواتین نے جب اپنے حقوق کیلئے وہاں جنگ لڑی تو حقوق دیدئیے۔ اسلام کی حریت فکر سے سبق حاصل کیا اور اپنی تقدیر بدل دینے میں دیر نہیں لگائی۔ جبکہ ہم مذہبی بحثوں میں اُلجھ گئے اور جب انگریز چھوڑ کر گیا تو پھرہم فرقوں ، مسلکوں اور جماعتوں میں بٹ کر رہ گئے۔
ایک طرف سورۂ النساء میں قرآن کہتاہے کہ (اے مسلمانو!) تم عورتوں( بیویوں) کے زبردستی مالک نہ بن بیٹھو ۔ تودوسری طرف علماء کہتے ہیں کہ شوہر بیوی پر لونڈی کی ملکیت سے بھی زیادہ حق رکھتا ہے۔ آزاد عورت بیوی فدیہ دیکر خلع حاصل کرسکتی ہے جبکہ لونڈی کودوسرا شخص بھی آزاد کرسکتا ہے۔ آزاد عورت (بیوی) کو فدیہ دیکر بھی شوہر نے نہیں چھوڑنا ہو تو شوہر کو پھر بھی مکمل اختیار حاصل ہے۔
مولوی یہ بالکل فضول بکواس کرتاہے کہ اسلام نے یہ حق مردوں کو عورت کی بھلائی کیلئے دیا ہے اسلئے کہ مولوی کا مستند فقہی مسلک یہ ہے جس پر وہ انگریز کے دور میں بھی اپنا فتویٰ دیتا تھا اور آج بھی یہی فتویٰ دیتا ہے کہ ”اگر شوہر نے بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دیدیں تو بیوی اس پر حرام ہوگی لیکن اگر شوہر نے انکار کردیا کہ اس نے تین طلاقیں نہیں دی ہیں تو پھر بیوی کو دو گواہ لانے پڑیںگے اور اگر اس کے دو گواہ نہ ہوئے تو پھر اسلامی عدالت شوہر سے حلف لے گی اور اگر اس نے حلف دیا تو عورت اس پر حرام ہوگی مگر اسکے نکاح میں رہے گی۔ پھر عورت کو چاہیے کہ وہ فدیہ دیکر خلع حاصل کرے لیکن اگر شوہر خلع نہ دے تو عورت بدکاری پر مجبور ہے”۔ (حیلہ ٔناجزہ: مولانااشرف علی تھانوی)
جب عدالت سے خلع کا فیصلہ بڑی مشکلات کے بعد ہوتا ہے تو مدارس فتویٰ دیتے ہیں کہ طلاق نہیں ہوئی ہے۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی نے اپنا فتویٰ بدل دیا ہے مگر مفتی محمد تقی عثمانی نے سود کو حلال قرار دینے کے باوجود اپنا فتویٰ نہیں بدلا ہے۔ پھر شیخ الاسلامی کا منصب بھی خطرے میں پڑجائیگا۔ یہ مفتی نہیں استحصالی طبقات کے گماشتے ہیں۔
جب سورۂ النساء کے مطابق بیوی شوہر کی جاگیر نہیں ہوگی تو ماؤں کی کوکھ سے آزاد منش بچے جنم لیںگے اور سماج سے غلامی کے نظام کو بیخ وبن سے اُکھاڑ یںگے۔ جب شوہر کے تین طلاق کی ملکیت کا تصور ختم ہوگا تو عورت کے خلع میں مذہبی طبقہ رکاوٹ نہیں کھڑی کرسکتا اور پھر حلالہ کے نام پر شکار ہونے والی خواتین کی بھی بڑی بچت ہوگی۔
جو خواتین مذہب سے بغاوت پر اُتر آئی ہیں تو مولوی کے خودساختہ مذہب سے ان کی بغاوت کا خیر مقدم ہی ہونا چاہیے۔ اللہ کا دین اسلام ایسا ہے جس کو دیکھ کر غیرمسلم اور تمام باغی خواتین قرآن وسنت کی تعلیم کو اپنا منشور بنالیں گی۔ اگر جمعیت علماء اسلام کے دھرنے میں سازش سے کچھ لوگ طالبان کے جھنڈے لاسکتے ہیں تو عورت آزادی مارچ میں بھی کچھ سازشی عناصر اپنے بیہودہ پوسٹر لاسکتی ہیں۔
ہم شیر و ہرن کو ایک گھاٹ پر پانی پلانے کی طرح علماء اور عورت آزادی مارچ کے آرگنائزروں کو اکٹھا کرینگے۔ ہم نے دیکھ لیا کہ مذہب مخالف جذبہ رکھنے والا کہہ رہا تھا کہ ”عورتوں کیوجہ سے میں مذہبی طبقہ سے مار نہ کھاتا اور ایک لڑکی تاڑ لی تھی کہ ہلا گلا ہو تواسے اٹھاکر رفو چکر ہوجاؤں”۔ یہ قائداعظم یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک سیکولرقوم پرست پختون کا حال تھا۔
مرد اور عورت زندگی کے جزو لاینفق لازم وملزوم ہیں اور دونوں کے درمیان ایک بالکل آزاد معاہدے کی سخت ضرورت ہے۔ترقی یافتہ ممالک نے عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق دئیے ہیں۔ عورت کو معاشرے میں قانون کے ذریعے تحفظ اور انصاف کا ماحول فراہم کیا ۔لیکن اسلام نے خواتین کو مساوی نہیں بلکہ زیادہ حقوق دئیے ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جب رشتہ کے بعد طلاق ہوجاتی ہے تو اس کے تمام برے نتائج کا خمیازہ عورت ہی کو بھگتنا پڑتا ہے۔ رسول اللہ ۖ نے خاتون کو مروجہ مذہبی فتویٰ دیا کہ شوہر کی طرف سے ماں کی پیٹھ سے تشبیہ دینے کے بعدعورت حرام ہوجاتی ہے تو اللہ نے اس خاتون کے حق میں فتوی دیدیا۔ اس سورة کا نام مجادلہ ہے۔ عورت کی طرف سے جھگڑنے کا معاملہ اللہ نے قرآن کی زینت بنایا۔ حضرت خولہ بنت ثعلبہ سے جب سامنا ہوتا توحضرت عمر احترام کیلئے کھڑے ہوجاتے،کیونکہ اسی کی وجہ سے سورۂ مجادلہ نازل ہوئی تھی۔
پدرِ شاہی کے نوکروں کی اوقات کیا ہے کہ خواتین کو اپنے حقوق مانگنے پر کھڑے ہوجاتے ہیں؟۔ پاک فوج کا کمال ہے کہ خود کش حملوں کا ماحول ختم کردیا ہے مگر مولوی تو اس کی تائید کرتا تھا، امن کی فاختہ مولاناطارق جمیل نے کہا تھا کہ دہشت گردوں اور ہمارے راستے الگ ہیں مگر منزل ایک ہے۔ دہشت گرد تبلیغی جماعت کا عسکری ونگ تھے۔
سور ةٔ النساء کی آیات نمبر21,20,19میں خواتین کے جن حقوق کا تحفظ ہے اگر اس کی سمجھ خواتین کو آجائے تو پوری دنیا میں اسلام کا ڈنکا بجانے میں دیر نہیں لگائیں گی۔
ایک غلط فہمی دور ہونی چاہیے کہ البقرہ کی آیت229 میں خلع کا کوئی تصور ممکن ہی نہیں ہے لیکن پدرِ شاہی نے یہ غلط تصور عرصہ سے مسلط کیاہے۔ خلع کا ذکر سورۂ النساء کی آیت 19میں ہے جہاں عورت کو نہ صرف جانے کا حق دیا گیا ہے بلکہ شوہر کی طرف سے حق مہر کے علاوہ تمام منقولہ جائیداد بھی لے جانے کا حق دیا گیا ہے، فحاشی کی صورت میں بھی بعض چیزیں لے جانے کا حق دیا گیا ہے۔ رخصت کرتے وقت اچھا برتاؤ رکھنے کی تلقین کی گئی ہے۔ جدائی کا یہ فیصلہ برا لگنے کے باوجود اللہ سے زیادہ خیر کی امید کا یقین دلایا گیا ہے۔ جبکہ آیات 21اور22میں طلاق کا حکم واضح کیا گیا ہے۔جس میں حق مہر کے علاوہ تمام دی ہوئی اشیاء منقولہ وغیرمنقولہ تمام دی ہوئی جائیداد میں سے کچھ بھی اس کا شوہر واپس نہیں لے سکتا ۔ جس کا ذکرالبقرہ آیت 229 میں بھی ہے۔ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے ان آیات کی تفسیر وترجمہ میں انتہائی دجل سے کام لیا ہے۔
خلع کی صورت میں عورت کو شوہر کی طرف سے دی ہوئی غیر منقولہ جائیداد سے دستبردار ہونا پڑے گا لیکن طلاق کا معاملہ بالکل جدا ہے۔ طلاق کی صورت میں گھر عورت ہی کا ہے اور دی ہوئی تمام منقولہ وغیرمنقولہ جائیداد بھی واپس نہ لینے کا بھی حکم ہے۔ کھلی فحاشی کی صورت میں گھر کا معاملہ الگ ہے لیکن اللہ نے شوہر کو اپنے مفاد کی خاطر بیوی کو تہمت کا نشانہ بنانے پر بے غیرتی و تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
عورت ماں بنتی ہے ، مردباپ بنتا ہے۔ماں بچوں کو پیٹ میں رکھنے سے دودھ پلانے اور بھوکے بچے کی خاطر بار بار نیند سے جاگتی ہے تو دوسری طرف باپ پر بہت سی ذمہ داریاں اللہ نے ڈالی ہیں۔ میری پہلی وائف سندھی ہیں جنکے آباد و اجداد کا تعلق لاڑکانہ اور شکار پور سے ہے۔ قوموں ، زبان اور کلچر کے فرق کے باوجود اپنی بیگمات سندھی اور بلوچ کی رفاقت بفضل تعالیٰ بالکل مثالی ہے۔ عورتوں کے حقوق ہی سے اسلام کا بول بالا ہوگا۔ حضرت یعقوب کی دوسری بیگم نہ ہوتی تو یوسف پیدا نہ ہوتے ۔ حضرت ابراہیم کی دوسری سے اسماعیل پیداہوئے۔ میں اپنے باپ کی تیسری بیگم کا بیٹا ہوں۔ہم صدیوں سے جس وزیرستان میں ہیں ۔ ہمارا کردار بھی کوئی مثالی نہیں ہے مگر خواتین کے حقوق کے حوالے سے بہت سی برائیوں سے ہمارا خاندان وزیرستان میں رہتے ہوئے بھی مختلف ہے۔ انشاء اللہ ہم اپنا پورا کردارادا کرنیکی کوشش کرینگے۔

عورت آزادی مارچ کا ترانہ اور قرآن کی زبردست تائید۔ عتیق گیلانی

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

عورت کو خلع کابھرپور حق

اللہ نے عورت کے حقوق پر سورۂ النساء میں فرمایا کہ
ولاترثوا النساء کرھا………..” اور عورتوں کے جبری مالک مت بن بیٹھو اور نہ ان کو اسلئے روکو کہ جو تم نے ان کو دیا ہے ،اس میںسے بعض لے اُڑو۔ مگر یہ وہ کھلی ہوئی فحاشی کا ارتکاب کریں اور انکے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں بری لگے اور اللہ اس میں تمہارے لئے بہت ساخیر رکھ دے”۔ (سورۂ النساء آیت نمبر19)
علمائِ حق اور خواتین کے حقوق میں سنجیدہ طبقہ یاد رکھ لے کہ اللہ نے عورت کو جن حقوق دینے کا اعلان کیا تھا، وہ ظالم سماج نے چھین لئے ہیں ۔ قرآن کے تراجم وتفاسیر کو غلط رنگ دیا گیا ۔ جس کی وضاحت بڑاانقلاب ہوگا۔
عربی، اردو میں ”عورت” بیوی کو کہتے ہیں۔ فرمایا: اذا طلقتم النساء ”جب تم عورتوں کو طلاق دو”۔جس سے بیویاں ہی مراد ہوسکتی ہیں۔ اسی طرح فرمایا کہ عورتوں کے مالک زبردستی سے مت بن بیٹھو اور اسلئے ان کو نہ روکو کہ جو کچھ تم نے ان کو دیا ہے ، بعض ان سے واپس لے لو۔
عربی ادب کی کتاب قرأت الراشدہ میں ایک چڑیا کی فریاد ہے جس کا ایک زبردست شعر یہ بھی ہے کہ
الحبس لیس مذہبی و ان یکن من ذہبی
” پنجرے کی قید میرا شغل نہیں ،اگرچہ سونے کا ہو”۔
کچھ سرپھری خواتین اسلام کو بدترین ”قید” سمجھ کر اپنی عورت آزادی مارچ منارہی ہیں۔ مسلمان خواتین دنیا بھر کی عورت آزادی مارچ کا حصہ اسلئے بن گئی ہیں کہ اسلام کو پدرِ شاہی کے پالتو ملاؤں نے بالکل غلط پیش کیا ہے۔ سب نہیں جانتے تو اب جان لیں کہ قرآن کے تراجم غیرمسلم کی طرف سے ہوئے تھے مگر مسلمانوں کے ہاں شاہ ولی اللہ نے پہلی مرتبہ ترجمہ کیا تو ملاؤں نے ان کو مرتد اور واجب القتل قرار دیا۔ دو سال تک ان کو روپوش رہنا پڑا تھا۔ شاہ ولی اللہ کے والد شاہ عبدالرحیم نے اورنگزیب کے” فتاویٰ عالمگیریہ ”میں کردار ادا کیا تھا۔ جس میں بادشاہ کیلئے تمام حدودمعاف قرار دئیے گئے ۔ قتل، چوری، زنا کوئی سزا بھی بادشاہ کو نہیں دی جاسکتی ہے۔ اگر اسلام کے درست احکام نافذ ہوتے تواپنے بھائیوں کے قاتل اورنگزیب بادشاہ بھی اسلامی عدالت میں بادشاہ بننے کے باوجود قصاص میں قتل کردئیے جاتے۔ یزید نے شہداء کربلا کے قاتلوں سے کوئی بدلہ لیا ہوتا تو یزید اس قدر بدنام نہ ہوتا لیکن پدرِ شاہی نظام بھی پھر باقی نہیں رہ سکتا تھا۔ حضرت عائشہ صدیقہ نے بھی حضرت عثمان کے قاتلوں کو سزائیں دلوانے کیلئے جنگ برپا کردی تھی۔ طاقتور کبھی سزا کھانے کیلئے تیار نہیں ہوتا ہے۔ فرعون نے ہزاروں بچے قتل کر ڈالے مگرسزا کھانے کا کوئی تصور نہیں رکھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے غلطی میں قتل کا ارتکاب ہواتھا لیکن آپ کو معاف نہیں کرنا تھا۔ اسلام نے قتل عمد اور قتل خطاء کی حیثیت جدا جدا رکھ دی ہے۔ کوئی بھی خوشی سے سزا کھانے کیلئے تیار ہوتا تو حضرت موسیٰ نے بھی راہِ فرار اختیار نہیں کرنا تھی۔ ایک طاقتور صحابی کے بچے نے دوسرے غریب صحابی کے بچے کا دانت توڑ دیا تو یہ قسم کھالی کہ اسکے بدلے میرے بچے کا دانت نہیں توڑا جائے گا۔ مگر نبیۖ نے انصاف ہی قائم کرنا تھا۔ پھر غریب صحابی نے بدلہ لینے کے بجائے معاف کردیا تو نبیۖ نے فرمایا کہ بعض لوگ اللہ کو اتنے محبوب ہوتے ہیں کہ وہ قسم کھالیں تو اللہ ان کی قسم کو پورا کردیتا ہے۔ (صحیح بخاری)
بصرہ کے گورنر حضرت مغیرہ ابن شعبہ کے خلاف چار افراد نے زنا کی عجیب وغریب گواہی دی ،جن میں حضرت ابوبکرہ صحابی بھی شامل تھے۔ آخری گواہ زیاد گواہی دینے آیا تو حضرت عمر نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ اللہ اس شخص کی وجہ سے نبیۖ کے صحابی کو اس ذلت کی سزا سے بچالے گا اور پھر جب وہ گواہی دینے لگا تو حضرت عمر نے بہت زور سے چلا کر کہا کہ تمہارے پاس کیا ہے؟۔ راوی نے کہا ،اس دھاڑ سے قریب تھا کہ میں بیہوش ہوجاتا۔ پھر زیاد نے کہا: میں نے ننگا کولہا دیکھا، عورت (ام جمیل) کے پاؤں اسکے کاندھے پر گدھے کی کان کی طرح پڑے تھے۔ جس پر عمر نے کہا کہ گواہی پوری نہیں ہوئی۔ پہلے تین افراد پر قذف کا حد جاری کیا اور پھر ان سے کہا کہ اگر تم اعتراف کرلو کہ ہم نے جھوٹ بولا ، تو آئندہ تمہاری گواہی قبول کی جائے گی۔
حضرت ابوبکرہ نے کہا کہ میں نے سچ کہا ،اگرآئندہ میری گواہی قبول نہیں کی جاتی تو مجھے کوئی پرواہ نہیں ۔ باقی دو افراد نے کہا کہ ہم نے جھوٹ بولا تھا۔ امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کے مسلک میں حضرت عمر نے پیشکش کی تھی اسلئے قرآن کی آیت میں جہاں جھوٹی گواہی دینے والے کی گواہی قبول نہ کرنے کا واضح ذکر ہے تو اس کا اطلاق توبہ کے بعد کی صورت پر نہیں ہوتا ہے۔ جبکہ حضرت امام ابوحنیفہ نے پدرِ شاہی نظام کی نفی کرکے واضح کیا تھاکہ قرآن کی آیت میں واضح ہے کہ جھوٹی گواہی دینے والے کی گواہی کبھی قبول نہیں کی جائے گی اسلئے حضرت عمر کے غلط فیصلے کی وجہ سے قرآن کی تعبیر نہیں بدلی جائے گی۔
صحیح بخاری کے مصنف نے بھی حضرت امام ابوحنیفہ کی مخالفت کا ٹھیکہ لے رکھا تھا اسلئے یہ واقعہ تمام کرداروں اور ناموں کیساتھ پیش کیا گیا۔ ائمہ اربعہ کے درمیان جس واقعہ کی بنیاد پر مسلکانہ اختلافات ہیں ،اس کی حقیقت عوام کو سمجھانے کی بہت سخت ضرورت ہے۔ ابوالاعلیٰ مودودی کوئی باقاعدہ عالم نہیں تھے اسلئے انہوں نے اپنی تفسیر میں لکھ دیا ہے کہ ” وہ عورت حضرت مغیرہ ابن شعبہ کی اپنی ہی زوجہ تھی”۔ پدرِ شاہی نظام کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ ”علم کی حقیقت کو عوام سے چھپانے کا وطیرہ بنالیا جاتاہے اور بے شعور لوگوں کے مذہبی جذبات کو ایک ہتھیار کے طور پر استحصالی طبقات کیلئے ناجائزہی استعمال کیا جاتاہے”۔
سورہ ٔ النساء کی آیت19میں واضح طور پر اللہ بیگمات کیلئے فرماتا ہے کہ ” عورتوں کے زبردستی سے مالک مت بن بیٹھو اور ان کو اسلئے جانے سے مت روکو کہ جو تم نے ان کو دیا ہے اس میں بعض واپس لے لو”۔ وزیراعظم عمران کے نکاح خواں مفتی سعید خان صاحب سے بالمشافہ ملاقات میں جب کہا کہ اس آیت میں جن عورتوں کے مالک بننے سے روکا گیا ہے ،انہی کے بارے میں یہ فرمایا گیاہے کہ ان کو اسلئے مت روکو کہ جو ان کو تم نے دیا، ان میں سے بعض مال واپس لے لو۔ تو مفتی سعیدخان نے کہا کہ یہ آپ کے نزدیک ہے؟، میں نے کہا کہ آپ ہی بتاؤ کہ ان سے کوئی دوسری عورتیں بھی مراد ہوسکتی ہیں؟۔ تو مفتی صاحب نے کہا کہ نہیں دوسری مراد نہیں ہوسکتی ہیں۔
جب پدرِ شاہی کے ایجنٹ علماء نے آیت کے ترجمے سے راہِ فرار کی گنجائش نہیں دیکھی تو تفسیر لکھ ڈالی کہ آیت کا پہلا جملہ ان خواتین سے متعلق ہے جنکے شوہر فوت ہوجاتے اور زمانہ جاہلیت میں لوگ انکے زبردستی سے مالک بنتے۔ دوسرا جملہ بیویوں سے متعلق ہے۔ حالانکہ دنیا کی کسی بھی زبان میں قرآن کا ترجمہ کرکے یہ باطل معنی مرادلینا ممکن نہیں ہے۔ ایسا کیوں کیا گیا ہے؟۔ اسکے پیچھے ایک بہت بڑا فلسفہ ہے۔ پدرِ شاہی میں مردوں کا عورتوںکو اپنی جاگیر سمجھنے کا تسلسل ہے جس کی قرآن نے بالکل نفی کردی ہے۔
جس دن دنیا نے سمجھ لیا کہ ” عورت مرد کی جاگیرنہیں ہے اور بیوی نہ صرف شوہر کو چھوڑ کر جانے کا حق رکھتی ہے بلکہ حق مہر کے علاوہ شوہر کی طرف سے دی گئی تمام منقولہ جائیداد بھی ساتھ لے جاسکتی ہے” تو دنیا کے تما م شوہروں کا رویہ خود بخود بالکل درست ہوجائیگا۔ ترقی یافتہ دنیا نے بھی پھر اسلام کے عادلانہ نظام کی طرف فوری آنا ہے۔
جب عورت کھلی فحاشی کی مرتکب پائی جائے توپھر شوہر کو (خلع) کی صورت میں بعض چیزیں واپس لینے کا حق ہے۔ پھر بھی تمام چیزیں واپس نہیں لے سکتا، ورنہ تو مرد کپڑے اور جوتے اترواکر ننگا کرنے کو بھی اپنا حق سمجھتے۔ کھلی فحاشی کی صورت میںبھی کسی کو حق مہر واپس لینے کا اللہ نے حق نہیں دیا ہے بلکہ حق مہر کے علاوہ دی ہوئی چیزوں کو واپس نہ لینے کا حکم دیا ہے۔جہاں تک حق مہر کا تعلق ہے تو اللہ نے اسکو ہاتھ لگانے سے پہلے نصف اور ہاتھ لگانے کے بعد پوراپورا دینے کا حکم واضح کردیاہے۔ ظالم سماج نے علماء کو بھی اپنا آلۂ کار بنالیا ہے اسلئے حق کو واضح نہیں کیا گیاہے۔
کاش ! خواتین اسلامی محاذ پر تھوڑی سی توجہ دیں تو پھر صدیوں کی منزلیں مہینوں میں مل سکتی ہیں۔ قرآن ان کے تحفظ سے بھرا پڑا ہے۔ حقوقِ نسواں کو بالکل نظر انداز کرکے قرآنی احکام کو بازیچۂ اطفال بنایا گیا ہے۔

علماء و مفتیان کی قرآن فہمی کی تصویر کا دوسرا رُخ اور حقیقت ۔ عتیق گیلانی

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

مُلاؤں نے ایک طرف فرض روزوں پر جس طرح کا حملہ کیا ہے اس کی جھلکیاں تصویر کے پہلے رُخ میں موجود ہیں۔اب ہم سفر کی نماز میں تصویر کا دوسرا رُخ دکھاتے ہیں تاکہ علماء حق اور حق کے طالب عوام الناس کی آنکھیں کھلیں اور قرآن کریم کی طرف اُمت مسلمہ بخوبی متوجہ ہوجائے۔
و اذا ضربتم فی الارض فلیس علیکم جناح ان تقصروامن الصلوٰة ان خفتم ان یفتنکم الذین کفروا ان الکافرین کانوا لکم عدوًا مبیناO و اذا کنت فیہم فاقمت لھم الصلوٰة فلتقم طآئفة منھم معک ولیأخذوا اسلحتھم فاذا سجدوا فلیکونوا من ورائکم ولتأت طآئفة اُخرٰی لم یصلوا فلیصلوا معک ولیاخذوا حذرھم و اسلحتھم ود الذین کفروا لو تغفلون عن اسلحتکم و امتعتکم فیمیلون علیکم میلة واحدة ولا جناح علیکم ان کان بکم اذًی من مطرٍ او کنتم مرضیٰ ان تضعوا اسلحتکم وخذوا حذرکم ان اللہ اعد للکٰفرین عذاب مھیناO فاذا قضیتم الصلوٰة فاذکروااللہ قیٰما و قعودًا و علیٰ جنوبکم فاذا اطماننتم فاقیموا الصلوٰة ان الصلوٰة کانت علی المؤمنین کتٰباً موقوتاًO (آیات ١٠١، ١٠٢، ١٠٣ ، سورة البقرہ)
اور جب تم سفر کرو زمین میں تو تم پر کوئی گناہ نہیں کہ نماز میں سے کچھ کم کرلو۔ اگر تمہیں ڈر ہو کہ فتنہ میں ڈالیں گے وہ لوگ جو کافر ہیں ۔ بیشک کافر تمہارے لئے کھلے دشمن ہیں۔ اور جب آپ ان میں موجود ہوں اور آپ ان کیلئے (باجماعت ) نماز قائم کریں تو ضرور ان میں سے ایک گروہ آپ کے ساتھ کھڑا رہے اور وہ اپنے ہتھیار بھی پاس رکھیں اور جب سجدہ کرلیں تو یہ لوگ آپ کے پیچھے ہوجائیں اور آئے دوسرا گروہ جنہوں نے نماز نہیں پڑھی تو وہ آپ کے ساتھ نماز پڑھیں اور حاضر دماغ رہیں اور اپنا اسلحہ اپنے ساتھ رکھ لیں۔ جو لوگ کافر ہیں وہ چاہتے ہیں کہ اگر تم اپنے اسلحہ اور اپنے سامان سے غافل ہوجاؤ تو ایک دم تم پر حملہ کردیں۔ اور تمہارے اوپر کوئی گناہ نہیں اگر تمہیں بارش کی وجہ سے تکلیف ہو یا تم بیمار ہو کہ اپنا اسلحہ رکھ لو۔ مگر حاضر دماغی سے کام لو۔ بیشک اللہ نے کافروں کیلئے ذلت آمیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔ اور جب تم نماز پوری کرچکو تو اللہ کو یاد کرو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے ہوئے۔ پس جب تمہیں اطمینان ہوجائے تو نماز قائم کرو۔ بیشک نماز مؤمنوں پر مقررہ وقتوں پرفرض ہے۔(النساء 103-102-101)
ان آیات میں سفر کی نماز کا حکم بیان کیا گیا ہے۔ جس میں واضح الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہارے اوپر کوئی حرج نہیں کہ اگر سفر میں نماز میں سے کچھ کم کرو۔ جس کا مطلب آسانی سے ہر کوئی سمجھ سکتا ہے کہ قصر کرنا اللہ نے فرض نہیں قرار دیا ہے بلکہ اس کی اجازت دی ہے۔ علماء کا حال یہ ہے کہ مقتدیوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہوتی ہے اور وہ سب کے سب مسافر نہیں مقیم ہوتے ہیں مگر کوئی امام مسافر ہوتا ہے تو وہ اپنی قصر پڑھ کر فارغ ہوجاتا ہے جسکے بعد مقتدیوں کو اپنی نماز خود پوری کرنی ہوتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ دوسرے مسالک کے نزدیک سفر میں قصر کرنا جائز ہے اور احناف کے نزدیک فرض ہے۔ حالانکہ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے سفر کی حالت میں پوری نماز بھی پڑھی ہے اور قصر بھی پڑھی ہے۔
پھر احناف کا یہ بھی مسئلہ ہے کہ مسافر امام اپنی قصر نماز کے بعد سلام پھیرے گا اور مقیم مقتدی اپنی نماز پوری کریں گے اور بقیہ نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنے کے بجائے خاموش ہی رہیں گے۔ عام طور پر نماز جنازہ اور نماز عید کا طریقہ کار بتایا جاتا ہے مگر مسافر امام کے پیچھے مقیم مقتدیوں کو کسی قسم کی تلقین بھی نہیں ہوتی ہے۔ شاید وہ اس سردردی کا احساس بھی رکھتے ہیں۔ فرض روزوں کو ایک ایک مسکین کا کھانا کھلانے کی بنیاد پر ساقط کرنے والے کیا ہی اچھا کرتے کہ مسافر امام صاحبان قرآنی آیات کو دیکھ کر قصر کے بجائے مقتدیوں کی خاطر پوری ہی نماز پڑھ لیتے۔ اگر ان پر دباؤ پڑ جائے تو دوسرے مسالک پر عمل بھی کرگزریں گے۔
سفر کی نماز کے حوالے سے قرآن میں جہاں قصر کا ذکر ہے وہاں نمازِ خوف کا بھی ذکر ہے۔ نمازِ خوف کیا ہے؟ تو اس کا حکم اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی بیان کردیا ہے۔فرمایا کہ
حٰفظوا علی الصلوٰت و الصلوٰة الوسطیٰ وقوموا للہ قانتینO فان خفتم فرجالاً اورُکباناً فاذا امنتم فاذکروا اللہ کما علمکم مالم تکونوا تعلمونO البقرہ 140-139
نمازوں کی محافظت کرو خاص طور پر بیچ کی نماز کی اور اللہ کے آگے تواضع سے کھڑے ہوجاؤ۔ پھر اگر تمہیں خوف ہو تو پیدل چلتے چلتے پڑھ لو یا سوار ہوکر پڑھ لو۔ پھر جب تم خوف سے امن پالو تو اللہ کو یاد کرو (نماز) جس طرح سے تمہیں سکھایا گیا جو تم نہیں جانتے تھے۔( البقرہ)
ان آیات کے سیاق و سباق میں کسی جنگ کا ماحول نہیں بلکہ جس قسم کا بھی خوف ہو اس میں باقاعدہ سجدہ اور رکوع وغیرہ کے بجائے پیدل یا سوار ہوکر چلتے چلتے نماز کا حکم دیا گیا ہے۔ عام طور پرسفر میں امن کی حالت ہو تو پھر نماز قصر کی گنجائش ہے اور جب خوف کا عالم ہو تو پھر اس کا بیان ہوچکا ہے جس میں قیام رکوع سجود کا تصور نہیں۔
سورہ نساء میں بھی سفر کی نماز میں قصر کے بعد خوف کی نماز کا ذکر ہے جس کا حکم سورہ بقرہ میں پہلے سے واضح تھا۔ پھر سفر کی حالت میں یہ تلقین ہے کہ جب نبی ۖ نماز کے قیام کا اہتمام فرمائیں تو صحابہ دو گروہوں میں تقسیم ہوں۔ ایک گروہ مستقل حفاظت کررہا ہو جس کیلئے اسلحہ اٹھانا ایک فطری بات ہے۔ مگر جو گروہ نبی ۖ کے ساتھ نماز میں شریک ہو تو اس کو بھی حاضر دماغی اور اسلحہ ساتھ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ پھر جب وہ ایک رکعت مکمل کرلیں تو پھر پیچھے ہٹ جائیں اور جنہوں نے نماز نہیں پڑھی ہے وہ نماز میں شریک ہوں۔ جس کیلئے نماز کے اندر بھی حاضر دماغی اور اسلحہ ساتھ رکھنے کی وضاحت ہے۔ کیونکہ کافر تاک میں رہتے تھے کہ موقع ملے اور ایک دم حملہ کردیں۔ ایک ہائی ویلیو سیکیورٹی کا تقاضہ یہی تھا کہ سفر میں بھی پہلے تو باجماعت نماز نہ پڑھی جائے۔ نبی ۖ نے انفرادی نمازیں پڑھی ہیں جبھی تو حضرت عائشہ نے قصر اور غیر قصر کا ذکر کیا ہے۔
اگر نبی ۖ نماز پڑھانے کا فیصلہ کریں تو ساری توجہ آپۖ کی حفاظت پر مرکوز کرنے کیلئے ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ پھر بارش کی وجہ سے اذیت یا مریض ہونے کی حالت میں اسلحہ رکھنے کی بھی اجازت دی گئی ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ جب تم نماز پوری کرچکو تو قیام ، بیٹھنے کی حالت اور لیٹنے کی حالت میں اللہ کا ذکر کرو۔ اسلئے کہ خلاف معمول خوف کی نماز میں قیام و رکوع و سجود کا اہتمام نہیں ہوسکتا ہے۔ پھر یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ جب تم اطمینان کی حالت میں آجاؤ تو معمول کے مطابق نماز کو قائم کرو۔ اسلئے کہ وقت کے مطابق نماز مؤمنوں پر فرض کی گئی ہے۔ یہ آیات لڑائی اور جنگ سے متعلق نہیں کیونکہ یہ خلاف فطرت ہے کہ دشمن قتل و غارت کررہا ہو اور آدمی پھر بھی اس کے سامنے قیام و رکوع اور سجود کا فرض ادا کرے۔
خوف کا کوئی تعین نہیں۔ لٹیروں کا خوف ہو ، بیماری کا خوف ہو، جنگلی جانوروں کا خوف ہو اور کسی قسم کا بھی خوف ہو ، جس میں قیام ، رکوع اور سجود کرتے وقت خدشات بڑھ جائیں ۔ یہ نماز فرض کرنیوالے کی طرف سے وضاحت ہے۔ رسول اللہ ۖ اور صحابہ کرام موجودہ مذہبی لوگوں کی طرح جاہل نہیں تھے کہ بدر و اُحد میں باقاعدگی سے نماز کا اہتمام کرتے اور دشمنوں کو موقع دیتے بلکہ خندق کھودتے وقت بھی نمازیں قضاء ہوئی تھیں جب باقاعدہ جنگ شروع نہیں ہوئی تھی۔ حضرت امام حسین کیلئے بھی جن لوگوں نے کہانیاں گھڑی ہیں وہ قرآنی آیات کو غور سے دیکھیں اور سمجھ کر اپنے مؤقف پر نظر ثانی کریں۔ علامہ اقبال مجاہد نہیں ایک شاعر تھے۔ اسلئے شاعرانہ کلام میں جذبات کی لڑیاں باندھنے کیلئے عین لڑائی میں وقت نماز اور سر بسجود ہونے کی بات کی ہے۔ مفتی منیب الرحمن نے کورونا کے حوالے سے میڈیا پر جو بیان دیا تھا کہ عین لڑائی میں بھی نماز فرض ہے تو یہ اس کی جہالت کی بہت بڑی دلیل ہے۔ خدارا ! علماء کرام اور مفتیان عظام قرآن دیکھ کر عوام کی رہنمائی کریں۔

علماء و مفتیان کی قرآن فہمی کی تصویر کا پہلا رُخ اور حقیقت۔ عتیق گیلانی

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

فرض روزوں کے بارے میں
یا ایھا الذین اٰمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون Oایاما معدودات فمن کان منکم مریضا او علی سفر فعدة من ایام اخر و علی الذین یطیقونہ فدیة طعام مسکین فمن تطوع خیرا فھوا خیر لہ و ان تصوموا خیر لکم ان کنتم تعلمونO١٨٣۔١٨٤
اے ایمان والو! تمہارے اوپر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے ۔ ہوسکتا ہے کہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔ یہ گنتی کے دن ہیں۔ پس جو تم میں کوئی مریض ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرے اور جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہیں تو ان پر فدیہ ہے مسکین کا کھانا اور جو کوئی بھلائی کرے تو یہ اس کیلئے بہتر ہے۔ اور اگر تم روزہ رکھو تو تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم سمجھ رکھتے ہو۔ (آیت 184-183 ، سورة البقرہ۔ )
ان آیات میں روزے فرض کرنے کی وضاحت ہے جس طرح پہلے لوگوں پر روزے فرض کئے گئے تھے۔ فرض کا کوئی متبادل نہیں ہوتا ہے پھر وضاحت ہے کہ تم میں سے کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو تو روزے چھوڑ کر دوسرے دنوں میں رکھ سکتا ہے۔ چونکہ مرض اور سفر کی حالت میں مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے اسلئے روزوں کا متبادل دوسرے دنوں میں قضاء روزے رکھنے کی وضاحت کی گئی ہے۔ حالت سفر یا مرض میں دو قسم کے لوگ ہوسکتے ہیں، غریب اورامیر۔ جو غریب ہیں ان میں فدیہ دینے کی طاقت نہیں ہوتی ہے اور جو امیر ہوتے ہیں ان میں فدیہ دینے کی طاقت ہوتی ہے۔ غریب کو فدیہ دیا جاتا ہے اور امیر فدیہ دیتا ہے۔ سفر یا مرض کی حالت میں اللہ تعالیٰ نے جو رعایت دی ہے تو پھر ضروری نہیں ہے کہ زندگی میں پھر کبھی روزہ رکھنے کا موقع بھی مل جائے اسلئے اللہ نے فدیہ کی طاقت رکھنے والوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ایک روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا بھی کھلائیں اور اگر اس سے زیادہ بھلائی کریں تو پھر یہ ان کیلئے زیادہ بہتر ہے۔ انسان عبادت اور مشقت سے راہ فرار اختیار کرنے میں بہت حیلے بہانے تراشتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ انسان کی نفسیات سے خوب آگاہ ہے۔ اسلئے اس کو جہاں سفر اور مرض کی حالت میں روزے کی رعایت دی ہے وہاں پر اس بات کا بھی اظہار فرمایا ہے کہ اگر تم روزے رکھو تو یہ تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے تاکہ جس سفر اور مرض کی حالت میں انسان کو زیادہ تکلیف نہ ہو تو وہ روزوں سے راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش اور حیلے بہانوں سے بھی باز رہے۔ اسلئے فرمایا کہ اگر تم روزہ رکھ لو یعنی آسان سفر اور معمولی مرض کی حالت میں تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔
علماء نے کمال کج فہمی سے کام لے کر لکھ دیا ہے کہ اس میں اللہ نے سفر اور مرض کی حالت میں روزوں کو مؤخر کردیا ہے لیکن جو لوگ روزہ رکھنے کی عام حالت میں طاقت بھی رکھتے ہیں تو ان کیلئے ایک مسکین کا کھانا کھلانا ہے۔ یہ ان کی کج فہمی ، کم عقلی اور مفاد پرستی میں اندھے پن کی انتہا ہے اور اس کی وجہ سے قرآن فہمی کا بیڑا غرق کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ مزدور اگر اپنی دیہاڑی آٹھ سو یا ہزار روپے لیتا ہو اور ایک سو روپے سے اس کیلئے روزہ معاف ہوسکتا ہو تو پھر وہ ایک سو روپے فدیہ دے کر پانچ سو کا اوور ٹائم کرلے گا۔
قرآن کے تراجم میں غلط بیانی کرکے بہت سے امیر لوگوں کیلئے مُلا کو سو روپے دینے کے بدلے روزہ معاف کیا گیا ہے۔ مُلاؤں کو ہر چیز میں جاگیرداروں و سرمایہ داروں کیلئے رعایت کا پہلو نظر آتا ہے۔ وہ ان پر فدیوں کی بارش کرتے ہیں اور یہ ان کو روزوں میں رعایت فراہم کرتے ہیں۔ قرآن کی ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ٹھوس احکام کو بیان کیا ہے۔ بعضوں نے ان کو منسوخ قرار دیا ۔
اللہ تعالیٰ نے روزوں کے بارے میں ان آیات کے اندر انسانی فطرت اور اسلامی احکام کی زبردست وضاحت اور رہنمائی فرمائی ہے تاکہ سفر اور مرض کی حالت میں آئندہ کے ایام تک روزے مؤخر کرنے کی رعایت بھی پیش نظر ہو اور اس رعایت کا فدیہ بھی ادا کیا جائے اور غلط فائدہ بھی نہ اٹھایا جائے۔ عوام اور مولوی اس کو باربار پڑھیں۔
اللہ تعالیٰ تمام معاملات میں اُمت مسلمہ کو اعتدال اور میانہ روی پر کاربند رکھتا ہے۔ بعض ایسے خبطی قسم کے لوگ بھی ہوتے ہیں جو الفاظ پڑھ کر اس کی غیر فطری منطق سے خود کو بہت مشقت میں ڈال دیتے ہیں۔ اگر یہی آیات ہی ہوتیں تو پھر بعض متشدد اور خبطی قسم کے لوگ بہر صورت روزہ رکھتے اور کہتے کہ بیماری اور سفر کی حالت میں خواہ کتنی زیادہ تکلیف کیوں نہ ہو لیکن جب اللہ نے کہا ہے کہ روزہ رکھنے میں تمہارے لئے زیادہ بہتری ہے تو پھر روزہ ہی رکھنا ہے اور اس قسم کے لوگوں کی جاہل دینداروں میں کمی نہیں۔
اسلئے اللہ تعالیٰ نے اُمت مسلمہ کو اعتدال پر ڈالنے کی روایت اور اپنی سنت پر قائم رہتے ہوئے آگے فرمایا کہ
شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ھدی للناس و بینات من ھدیٰ و الفرقان فمن شھد منکم اشھر فلیصمہ ومن کان مریضا او علیٰ سفر فعدة من ایام اخر یرید اللہ بکم الیسرولا یرید بکم العسر ولتکمل العدة ولتکبروا اللہ علیٰ ما ھداکم و لعلکم تشکرونO ١٨٥
رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن اُتارا گیا ہے۔ لوگوں کی ہدایت کیلئے اور ہدایت کے دلائل کیلئے اور تفریق کیلئے(حق و باطل کے درمیان) ۔ پس جو تم میں سے اس مہینے کو پالے تو وہ روزہ رکھے۔ اور جو کوئی مریض ہو یا سفر میں ہو تو وہ گنتی پوری کرے دوسرے دنوں میں۔ اللہ تعالیٰ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر مشکل نہیں چاہتا ہے اور تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو ۔ اور اللہ کی بڑائی بیان کرو جو اس نے تمہاری رہنمائی کی ہے۔ اور ہوسکتا ہے کہ تم اس پر شکر ادا کرو۔ (کھلی وضاحتوں پر ) آیت 185البقرہ۔
کاش! علماء کرام اور مفتیان عظام قرآن کے متن کی طرف خصوصی توجہ دیں ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اللہ نے جب نہ صرف روزوں کو فرض قرار دیا بلکہ پہلی اُمتوں کی طرح ہم پر فرض قرار دیا تو اس آیت میں فرض کا متبادل کیا فدیہ ہوسکتا ہے؟۔ یا آیت کو منسوخ قرار دیا جاسکتا ہے؟۔
ظاہر ہے کہ حالت سفر یا مرض میں جہاں روزوں کو دوسرے ایام تک مؤخر کرنے کا ذکر ہے وہاں طاقت رکھنے والوں کیلئے فدیہ دینے کا بھی حکم ہے۔ اور اگر ہوسکے تو پھر زیادہ بھلائی کرنے کی بھی ترغیب ہے۔ جس طرح بھلائی کی ترغیب ہے اسی طرح روزہ رکھنے کی بھی ترغیب ہے۔
پھر اگلی آیت میں ایک طرف تو روزہ رکھنے کی پوری ترغیب اور حکم ہے اور جن گدھوں سے خدشہ تھا کہ رعایت سے غلط مراد لیں گے تو ان کی باطل تاویلات کا راستہ روکا گیا ہے اور ساتھ میں اس بات کی بھی وضاحت کی گئی ہے کہ اللہ تمہارے لئے آسانیاں پیدا کرتا ہے مشکلات نہیں۔
پوری دنیا میں چاند ایک ہے اور مشرق و مغرب میں ایک ہی روزہ ہوتا ہے لیکن پاکستان کے علماء و مفتیان نے اپنی شریعت اپنی حکومت کے پلو میں باندھ دی ہے۔ جس کا کھاؤ اس کا گاؤ کی منطق پر عمل کے نتیجے میں دنیا روزہ رکھتی ہے اور ہم رمضان کیلئے ایک ایسے ہلال کمیٹی کے چیئر مین کے محتاج ہوتے ہیں جو کبھی چاہے تو رات 9بجے فیصلہ کر دے کہ چاند نظر نہیں آیا اور چاہے تو 11بجے فیصلہ کردے کہ چاند نظر آگیا ہے۔ ریاست کا تعلق نظام مملکت سے ہی ہوتا ہے۔ اور اسلام کا نظام مملکت پوری دنیا میں جب ایک ہی خلافت ہے تو ریاستوں کو اس دورِ جدید میں الگ الگ روزے رکھنے اور عید منانے کی گنجائش ہے یا نہیں؟۔ غور کرنا چاہیے۔”عصر حاضر” مولانا یوسف لدھیانوی شہید کی کتاب میں لکھا ہے کہ عن انس۔ رفعہ ۔ من اقتراب الساعة ان یریٰ الہلال قبلاً فیقال لیلتین و ان تتخذ المساجد طرقا و ان یظھر موت الفجاء ة…”
قرب قیامت کی ایک نشانی یہ ہے کہ چاند پہلے سے دیکھ لیا جائیگا اور کہا جائیگا کہ یہ دوسری تاریخ کا ہے۔ …
ایک طرف سائنس نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ پہلے سے چاند نظر آتا ہے اور دوسری طرف ہٹ دھرمی کا یہ حال ہے کہ ہر ایک سمجھتا ہے کہ چاند دو دن کا ہے ۔ حالانکہ ایسے چاند کیلئے ہلال کمیٹی اور اس پر خرچے کی ضرورت ہے؟۔

ہم نے ایک ماہ میں‌ووہان کا ریکارڈ توڑا اور نمبر 2 پر آگئے. ہدیٰ بھرگڑی

ہدیٰ بھرگڑی:

رات کے ساڑھے 12بج رہے ہیں،آپ میں سے کئی لوگ نیند میں ہونگے۔ شاید کافی لوگ جاگ رہے ہونگے ۔ آج کے دن میں ہم نے ووہان سٹی کا ریکارڈ پاس کرلیا۔اور دنیابھر میں پاکستان اس وقت دوسرے نمبر پر ہے۔ پچھلے ایک مہینے کے اندر 500%کیسز کی تعداد بڑھی ہے۔ میں اس وقت اسلام آباد میں ہوں اور میرے گھر کی ساتھ والی گلی جو کہ 11-E میں ہے وہ سیل ہوچکی ہے اور آہستہ آہستہ ہم سب کی محفوظ پناہ گاہیں کورونا پوزیٹیو کے گھیرے میں آرہی ہیں۔ مجھے اس وقت 24سے 26ہزار لوگ فالو کرتے ہیں ۔ آپ وہ لوگ ہیں جنہوں نے مجھے بہت سپورٹ کیا ۔ میرے ساتھ ہر قدم پر رہے ہیں، میری بات کو آپ نے اہمیت دی، آپ نے مجھ سے اختلاف رائے بھی رکھا ہوگا میری باتوں پر مجھے سپورٹ بھی کیا ہوگا۔لیکن اس وقت ملک میں جس چیز کی کمی ہے اور جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ ہے ایک پالیسی ریفارم کی او رابھی تک ہمیں یہاں کوئی پالیسی میں اصلاحات بالکل بھی نظر نہیں آرہی ہیں۔ 2020یہ سال جس میں ہم رہ رہے ہیں اس نے ہماری نظریں اور ہمارا دماغ کھول دیا ہے اور ہمیں یہ بھی بتادیا ہے کہ جو فیصلے ہم نے کئے ہیں اپنی حکومت سازی کیلئے وہ تمام فیصلے بہت بری طریقے سے فیل ہوچکے ہیں۔ میں کام کے سلسلے میں راولپنڈی اسلام آباد گئی ہوں ، میںہسپتالوں میں بھی جاچکی ہوں کام کے سلسلے میں اور چونکہ سوشل ورکر کے طور پر کووڈ رسپونس پر کام کرہی ہوں تو میرا اپنا تجزیہ اور آنکھوں دیکھا تجربہ ہے جو میں نے دیکھا کہ آہستہ آہستہ ہم سب کے سب Death Row پر آرہے ہیں اور Death Row کا مطلب یہ ہے کہ ہم سب کے سب بس اب موت کے انتظار میں ہیں۔ ایک ماہ میں 500%کیسز کا بڑھ جانا ، عید کے دنوں میں لاک ڈاؤن کو چھوڑنا اور اس وقت جو صورتحال ہے کہ آپ کے بڑے بڑے شہروں میں تو پالیسی ہے دکانیں بند ہورہی ہیں پولیس چل رہی ہے سب کچھ ہورہا ہے لیکن اگر آپ چھوٹے چھوٹے شہروں میں چلے جائیں جیسا کہ راولپنڈی ہے جہاں میرا ایک دو دن پہلے چکر لگا تھا تو آپ اکا دُکا لوگوں کو ماسک پہنا ہوا دیکھیں گے ، اِکا دُکا لوگ سوشل ڈسٹنسنگ کررہے ہیں ۔ ہر چیز، ہر مارکیٹ، ہر روڈ، ہر بازار ، ہر راستہ بالکل معمول کے مطابق چل رہا ہے جیسا کہ کچھ غلط اس ماحول میں ہے ہی نہیں۔ ہم اس طرح سے دکھاوا کررہے ہیں اور اس طرح کے Denialمیں ہیں کہ ہمیں کچھ ہوگا ہی نہیں، ہم بچ جائیں گے۔ آسمان سے کوئی قوت اتریگی کچھ ہوگا کہ ہم پاکستانیوں کو اس پوری صورتحال سے بچالے گی۔ میرا اس ویڈیو کے بنانے کا مقصد یہ ہے کہ آپ سب لوگ جنہوں نے مجھے ہمیشہ سنا ہے ، مجھے سپورٹ کیا ہے، میری بات کو کچھ اہمیت دی ہے میں آپ سے درخواست کرتی ہوں ، اپیل کرتی ہوں کہ کل شام (5جون)آپ سب لوگ 5بجے سے لیکر 7بجے تک Twitterکے اوپر #ImposeCompleteLockdownکے ہیش ٹیگ کے ساتھ اس ٹویٹر کیمپیئن میں حصہ لیں اور اس سوشل میڈیا کو ٹول بنائیں تاکہ ہم اپنے اس احتجاج کو ریکارڈ کرسکیں کہ خدارا اس ملک کے اندر مکمل لاک ڈاؤن کو نافذ کیا جائے۔ اب اس کیلئے دلیل یہ دی جائے گی کہ ڈیلی ویجز کو کام نہیں ملے گا۔ ڈیلی ویجز کے پاس پیسے نہیں ہونگے۔ تو اس کا جواب بس اتنا سا ہے کہ جو10 بلین جمع کئے تھے پاکستان کی عوام نے ڈونیشن دیکر پیسے دیکر تاکہ ان سے کورونا وائرس کے جو متاثرین ہیں ان کو کسی قسم کی کوئی مددفراہم کی جائے ان 10بلین پاکستانی روپے سے Circular Deathہے وہ چکایا گیا ہے۔ تومطلب یہ ہے کہ ڈیلی ویجز اور غریب کوپیسے تو آپ نے ویسے بھی نہیں دینے تو کم سے کم انہیں موت کا تحفہ تو نہ دیں۔ غریب کی تو آپ نے مدد نہیں کرنی ۔ آپ نے تو صرف اور صرف سرمایہ داروں اور فیکٹری مالکان کو سہولت دینی ہے۔ آپ نے صرف Big Giant بڑے بڑے دیو جو کہ اشرافیہ ہیں اس ملک کے آپ نے تو ان کو سہولت دینی ہے ۔ جب آپ نے غریب کو کچھ دینا نہیں تو کم سے کم ان کو مرنے کی اتنی چھوٹ تو نہ دیں۔ اس طرح آزاد تو کم سے کم نہ پھرنے دیں۔ اگر کچھ دے نہیں سکتے تو اس کا مطلب یہ تھوڑی ہے آپ ان کو شکار اورر چارے کے طور پر کمزور حالت میں چھوڑیں۔ یہ کس طرح کا پالیسی ریفارم ہے؟ یہ کوئی پالیسی بھی ہے کہ نہیں ؟ میں عام انسان ہوں، ایک عام اسٹوڈنٹ، ایکٹیوسٹ ہوں، میرے پاس اتنا زیادہ پاور نہیں لیکن کم سے کم دماغ ہے اور دماغ یہ دلیل دے رہا ہے کہ ہماری حکومت کر کیا رہی ہے۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں۔ یہ کیا پالیسی چینج ہوگا ؟ آپ نے ایک مہینے میں ووہان کا ریکارڈ توڑ دیا اور نمبر 2پر آگئے ہیں۔ آخر کیا ہے جو آپ کو سمجھ میں نہیں آرہا؟۔ تو میں تمام لوگوں سے درخواست کرتی ہوں اس سے پہلے کہ موت کا شکار ہوں، موت کی لکیر کے قریب پہنچ جائیں ، زندگی کی بقاء ا س ملک میں نا ممکن ہوجائے ، اب یہ وقت ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے ہم سب کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ چھوٹے بچوں کو … پرائیویٹ اسکول تو اسکول کھولنے کی باتیں کررہے ہیں ظاہر سی بات ہے انہیں فیس چاہئے۔ ان کو پیسے چاہئیں ان کو کوئی پرواہ تھوڑی ہے کہ چھوٹے بچوں کو کچھ ہوتا ہے اگر وہ ہلاک ہوجاتے ہیں تو ہوتے رہیں ۔ سرمایہ داری کا بس پہیہ نہیں رکنا چاہیے،جو سرمایہ مارکیٹ ہے بس وہ چلتا رہنا چاہے بیشک وہ مارکیٹ کا پہیہ غریب عوام کے خون پر ہی کیوں نہ چلے مگر اسے چلانا چاہیے۔ اگر یہ اس وقت کی پالیسی ہے تو بہت ضروری ہے کہ ہم اس پالیسی کو رد کریں اور ہم اپنی آواز اٹھائیں۔ مجھے پتہ ہے کہ ہم اسوقت بہت ہی زیادہ انتشار کا شکار ہیں ۔ ہمارے سامنے روزانہ سوشل میڈیا پر کوئی نہ کوئی نیا پروپیگنڈہ آجاتا ہے جس میں ہم سوشل میڈیا کو استعمال کرکے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ ہماری بقاء اور مزاحمت کی جنگ ہے۔ اب جو سوال ہے وہ یہ ہے کہ کیا آپ خود کو ، اپنے گھر والوں کو، اپنے بوڑھوں کو بزرگوں کو بچاسکتے ہیں یا نہیں بچاسکتے؟۔ میں ان تمام لوگوں سے درخواست کرتی ہوں جو مجھے فالو کرتے ہیں اور ان سے بھی جو مجھ سے نفرت کرتے ہیں صرف ایک بار صرف ایک بار ہمیں یہ فیور دیں کہ ہمیں جائن کریں اور ملک میں کل(5جون( سے مکمل لاک ڈاؤن کی حمایت کریں۔ برائے مہربانی ہماری اس کیمپئن میں شامل ہوجائیں اور ٹویٹر پر 5بجے سے 7بجے تک ایک طوفان کھڑا کردیں۔ کم سے کم ہمیں یہ دکھ نہیں ہوگا کہ ہم نے اپنی طرف سے یا اپنا احتجاج حکومت وقت کے سامنے نہیں رکھا۔ آپ لوگوں نے مجھے ہمیشہ سپورٹ کیا ہے اور میں امید کرتی ہوں کہ اس وقت بھی آپ مجھے سپورٹ کرینگے۔آپ مجھے سپورٹ کریں میری خاطر نہیں بلکہ اپنی خاطر۔ اپنے مستقبل کی بقاء کیلئے، ان لوگوں کیلئے جن کو آ پ تحفظ دینا چاہتے ہیں ،اپنے بچوں کیلئے، اپنے ان پیاروںکیلئے جن کی آپ تدفین بھی نہ دیکھ سکیں۔

پاکستان سے اسلام کی نشاة ثانیہ کا آغازمگرسمجھو توسہی! عتیق گیلانی

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم اسلئے نازل نہیں فرمایا کہ یہ مذہبی طبقے کا ایک کاروبار بن جائے۔ مسٹنڈے لوگ فرقہ واریت کے نام پر ایکدوسرے کی مخالفت کا بازار گرم کرکے نفرتوں کے بیج بوتے رہیں اور اپنا کاروبار چمکائیں اور عوام رشد وہدایت کی دولت سے محروم رہے ۔یہ تو قیامت تک لوگوں کی ہدایت کا آخری ذریعہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے نبیۖ سے فرمایا کہ انک لاتھدی من احببت ” بیشک آپ ہدایت نہیں دے سکتے جس کو چاہیں”۔روایت میں ابوطالب نے آپۖ کی چاہت کے باوجود اسلام قبول نہ کیا۔ نبی ۖ نے عمر بن خطاب و عمرو بن ہشام عمروین میں ایک کیلئے ہدایت مانگی جو عمر بن خطاب کے حق میں قبول۔ عمرو بن ہشام ابوجہل ہی رہا۔ عرب دو الگ ناموں کوایک کرتے ۔ حسنین کا معنی دو حسن ہیں اور مراد حسن و حسین ہیں۔ عمرو اور عمر دو الگ نام ہے۔ آخر میں واؤ لگانے سے عمر و کا تلفظ اردومیں عمروعیار غلط مشہور ہے۔ یہ عَمر ہے اور بغیر واؤ کے عُمر ہوتا ہے۔
رسول اللہ ۖ کے ذریعے اللہ نے اقدار دکو بدل دیا تھا۔ نسب وسرداری اور دنیا داری ومالداری کو سب کچھ سمجھنے والے ابوجہل، ابولہب، امیہ، عتبہ اور ابوسفیان وغیرہ کے مقابلے میں بلال حبشی، صہیب رومی، سلمان فارسی اور حضرت ثوبان وغیرہ کے کردار نے عزت اور جگہ بنالی۔ حضرت ابوبکر و عمر ، حضرت عثمان و علی اور حضرت حسن نے خلافت راشدہ کا اعزاز حاصل کیا۔ اہلسنت اور اہل تشیع دونوں نے حضرت حسن کی شخصیت کو خاص وہ اہمیت نہ دی، جسکے وہ مستحق تھے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ”خبردارظلم نہ کرنا، خبردارظلم نہ کرنا، خبردار ظلم نہ کرنا ! میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایکدوسرے کی گردنیں مارنے لگو”۔جنگ جمل وصفین میں ایک دوسرے کی گردنیں ماریں ۔آج تلخ یادوں کو مختلف انداز میں زندہ کیا جارہا ہے اور نبیۖ نے فرمایا تھا کہ میرے بیٹے حسن کے ذریعے اللہ مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کروادے گا۔ حضرت حسن کے کردار سے خونریزی رُک گئی مگر طرزِ خلافت امارت میں بدل گیا۔ بنوامیہ پھر بنوعباس نے اقتدار کوخاندانی بنیاد پر قابو میں رکھا۔
جب خلافت کے استحقاق پر بحث چل پڑی تو دیندارطبقہ بنوعباس سے زیادہ اہلبیت کو حکومت کا حقدار قرار دیتاتھامگر ابن الوقتوں نے فیصلہ کیا کہ اہلبیت نبی ۖ کے چچازاد علی کی اولاد ہیںاور بنوعباس نبیۖ کے چچا عباس کی اولاد ہیں جس کی وجہ سے بنوعباس خلافت کے زیادہ حقدار ہیں۔ حضرت ابوطالب کو غیرمسلم قرار دینے کیلئے کہانی گھڑی گئی یا حقیقت تھی؟ مگر بنوعباس کے خلفاء کو سپورٹ کیا گیاتھا۔ پھر یہ بھی بھول بیٹھے کہ چچا اور بھتیجے کی اولاد کی بنیاد پر خلافت کے استحقاق کا مسئلہ بنتا تھا تو پھر حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان کی خلافت کا کیا بنتا ہے جو چچاتھے اور نہ چچازاد بلکہ بنی ہاشم کے خاندان سے بھی کوئی تعلق نہیں رکھتے تھے؟۔ ڈھیرسارا مواد سیدھے سادے طریقے سے فرقہ واریت کی پیچیدگیوں کیلئے زبردست ایندھن بن گیا۔ شیعہ ، اہلسنت، معتزلہ اور بہت سے غالی اور عالی گروہوں نے جنم لیا تھا۔
احادیث کی کتب میں فضائل اہلبیت اور فضائل صحابہ کے حوالہ سے بڑا مواد تھا مگر معاملہ کسی نتیجے پر نہ پہنچتا۔ محققِ عصرِ رواں علامہ مفتی شاہ حسین گردیزی کی ضخیم تصنیف” تفتازانیہ” میں درسِ نظامی کے حوالہ سے ایک بڑی معروف شخصیت علامہ سعدالدین تفتازانی کے حوالے سے بحث ہے کہ وہ صحیح اہلسنت کے نمائندے تھے یا اہل تشیع سے متأثر تھے؟۔ درسِ نظامی کے طلبہ ہی نہیں فرقہ وارانہ ، مسلکانہ اور مذہبی معاملات سے دلچسپی رکھنے والوں کیلئے یہ بڑا تحفہ ہے۔ اعتدال و توازن کی بنیادپر باکمال لوگ لاجواب سروس کی عمدہ کوشش ہے۔ تاہم انسان میں ماحولیاتی کمزوری ہوتی ہے اور اس سے کسی نہ کسی حد تک سب متأثر ہوتے ہیں اور کوئی اس سے مبرا نہیں ہوتا ہے لیکن مخالف بھی اس علمی گفتگو اور اسکے اندازِ بیان کو داد ضرور دیں گے۔
میرے نزدیک تو فرقہ واریت کی بھول بھلیوں اور پگڈنڈیوں سے نکلنے کیلئے یہ کہنے میں بھی حرج نہیں کہ اسلام کا یہ حشر کیا گیا ہے کہ جس طرح تفتازانیہ میں کتاب کی تمام علمی مباحث کو چھوڑ کر تفتازان اور تفتازانی کی نسبت کو چھوڑ کر” تفتا”کے لفظ کوالگ اور” زانی” کے لفظ کو الگ کرکے صاحبِ تصنیف کا مذاق اڑایا جائے۔ جس کا وہم وگمان بھی علامہ مفتی شاہ حسین گردیزی کے افکار میں نہیں۔ سہیل وڑائچ نے ایک دن جیو کیساتھ علامہ اقبال سے خاص شغف رکھنے والے کا انٹرویو لیا۔ نیٹ پر موجود ہے جس میں وہ علامہ اقبال کی فارسی شاعری سے یہ بات نقل کرتے ہیں کہ ”ہم پر علماء ومشائخ کا بڑا احسان ہے جن کے توسط سے اسلام ہم تک پہنچا ہے، مگر اللہ اور رسول ۖ اور جبریل حیران ہونگے کہ ہم جو اسلام لائے تھے اور ان لوگوں نے اسلام کا جوحال بنارکھا ہے اسکا اس اسلام سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ”۔
مفتی سیدشاہ حسین گردیزی نے لکھاہے کہ ” قرآن حکیم ہے لایکلف اللہ نفساً الا وسعھا اللہ تعالیٰ ہر نفس کو اس کی طاقت کے مطابق ذمہ داری دیتا ہے اور حضور علیہ الصلوٰة والسلام کا فرمان اذا وسد الامر الیٰ غیر اہلہ تنظر الساعة جب معاملہ غیر اہل کے سپرد ہوجائے تو پھر قیامت ہی کا انتظار کیا جائے، انصاف وہیں ملے گا، اس نظام اور اس دنیا میں اس کی امید عبث ہے”۔ تفتازانیہ، صفحہ:13
اگر علامہ شاہ حسین گردیزی مولانا مودودی، مولانا احمدرضاخان بریلوی اور مولانا اشرف علی تھانوی وغیرہ سمیت قرآن کے تمام معروف مترجمین کا اسی آیت پر محاسبہ یا اصلاح کرتے تو یہ تفتازانیہ کی ابحاث سے زیادہ مفید ہوتا ۔سورہ بقرہ کی اس آخری آیت کا اتنا غلط ترجمہ مشہورکیا گیا ہے کہ اللہ کے کلام قرآن پاک کے اندر بھی تضاد نظر آتا ہے اور انسانی فطرت سے بھی اس کا مفہوم قطعی طورپر ہم آہنگ نہیں لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے لئے یہ اہم نہیں ہے کہ اللہ ہم سے کیا کہہ رہا ہے بلکہ ہم بہت خشوع وخضوع کیساتھ اپنے اوپر جھوٹی رقت طاری کرکے تلاوت کے ثواب کو ہتھیانے کے درپے ہوتے ہیں۔ فلم اور ڈرامہ کے اداکاروں کی طرح عوام کو کسی حد تک انٹرٹین کرکے اپنی دنیاوی زندگی کو کامیاب بنانے کے گر سمجھ گئے ہیں۔
میری سکینڈ وائف ( دشتی بلوچ تربت ) نے مجھ سے فون پر کہا کہ ” اللہ بھی جھوٹ بولتا ہے۔ اس نے قرآن میں کہا ہے کہ میں انسان کی طاقت سے زیادہ اس پر بوجھ نہیں ڈالتا مگر میں نے دیکھ لیا کہ مجھ پر میری طاقت سے زیادہ بوجھ آپ کی ڈانٹ سے پڑگیا تھا”۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ قرآن کو سمجھنا اب مشکل نہیں رہا، جب سوال اٹھتا ہے تو جواب آتا ہے۔ درسِ نظامی کی تعلیم کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ قرآن سمیت ہر معاملے پر سوال اٹھایا جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مفاد پرست ٹولے نے درسِ نظامی پر آج قبضہ کررکھا ہے۔ ذلک الکتٰب لاریب فیہ فاتحة الکتاب کے بعدالبقرہ کا الم کے بعد پہلا جملہ ہے۔ جس پر سوال اٹھایا جاتا ہے کہ ذٰلک اسم اشارہ دور کیلئے ہے جبکہ کتاب قریب ہے لہٰذا ھذا الکتاب ہونا چاہیے۔ مولانا محمد یوسف لدھیانوی نے روایت نقل کی، جو ضروری علم کے حوالہ سے ہے، فرمایا کہ ” علیکم بالعلم وعلیکم بالعتیق تم پر علم کی پیروی لازم ہے اور تمہارے اوپر عتیق کی پیروی لازم ہے”۔ نبیۖ نے فرمایا: علیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین المہدیین”تمہارے اوپر میری سنت کی پیروی لازم ہے اور رشدوہدایت والے خلفاء کی پیروی لازم ہے”۔خلفاء راشدین نے مہدیوں کا کردار ادا کرتے ہوئے خلافت کو خاندان کی لونڈی نہیں بنایا تھا۔ بخاری کے استاذ نعیم بن حماد نے یہ روایت چار مرتبہ اپنی کتاب ”الفتن” میں نقل کی ہے کہ عن عبداللہ بن عمروقال : قال رسول اللہ ۖ اذا ملک العتیقان عتیق العرب و عتیق الروم کانت علی ایدیھما الملاحم
حدیث نمبر1315،1349،1358،1417، عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ دوعتیقوں کوجب اقتدار ملے گا تو انکے ہاتھوں سے جنگیں جاری ہونگی ، عتیق العرب اور عتیق الروم ۔ قیامت تک بہت سی شخصیات کا احادیث میں ذکر ہے۔کئی مہدیوں اور دجالوں کا ذکر ہے۔ اگر میں اپنے بارے میں کہوں کہ میں وہ عتیق ہوں جسکا ذکر مولانا یوسف لدھیانوی کی کتاب میں ہے تو کوئی کم عقل یہ سوال اٹھائیگا کہ میں وہ ہوں کا جملہ غلط ہے اسلئے کہ وہ دور کیلئے آتا ہے ،آپ کو یہ کہنا چاہیے کہ میں یہ عتیق ہوں۔ اردو کے اہل زبان یہ سمجھتے ہیں۔ قرآن کی آیت ذلک الکتاب لاریب فیہ پر ابوجہل وابولہب نے سوال نہ اٹھایا کہ عربی غلط ہے مگر جو لوگ گرائمر کی مدد سے عربی سیکھتے تھے انکے ذہن میں سوال اٹھ گیا۔ درسِ نظامی میں سوال وجواب رٹے رٹائے ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ”اللہ کسی نفس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا ہے”۔ ترجمہ کرنیوالوں نے اپنا غلط رنگ جمایا ہے بلکہ یہ فرمایا کہ ” اللہ کسی نفس کو مکلف نہیں بناتا مگر اس کی وسعت کے مطابق”۔ نفس پر اس کی طاقت سے بڑا بوجھ پڑتا ہے جبھی تو اس کی روح پرواز کرتی ہے۔ اگر اللہ طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا تو پھر کیا اللہ کوئی کم عقل مولوی ہے؟۔ جو سکھائے کہ ربنا ولاتحمل علینا اصرًا کما حملتہ علی الذین من قبلنا ربنا لاتحملنا مالا طاقة لنا بہ”اے ہمارے ربّ! ہم پروہ بوجھ نہ ڈال جس طرح ہم سے پہلوں پر آپ نے بوجھ ڈالا تھا ،اے ہمارے ربّ! ہم پر ہماری طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالنا”۔ اللہ تعالیٰ انسان کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالتا نہیں تو پھر اسی آیت کی یہ دعا بے معنیٰ ہوگی۔ اللہ نے یہ فرمایا :اللہ ہرنفس کو وسعت کے مطابق مکلف بناتا ہے( یعنی دائرہ اختیار کے مطابق اس سے پوچھ گچھ ہوگی) آرمی چیف ، وزیراعظم اور سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی آئینی ترمیم کیلئے ناک رگڑوائی ۔ایران امریکہ کی جنگ چھڑنے کے خدشے پر پارلیمنٹ نے آئینی ترمیم بلاسوچے سمجھے کر ڈالی مگر جس آئین میں قرآن و سنت کا سب سے اہم اور بنیادی کردار قرار دیا گیا ہو ،اسکے ترجمے میں بہت بڑی غلطی کو برداشت کرنا اسلام اور پاکستان دونوں کیساتھ غداری ہے۔ پارلیمنٹ کا مقصد اقتدار کیلئے ایکدوسرے کی ٹانگ کھینچنا ہی رہ گیا ہے۔ اس حمام میں سب ننگے ہوگئے ہیں۔ سوشل میڈیا کا دور ہے شعور کا راستہ روکا گیا تو بڑا تصادم ہوسکتا ہے۔
مفتی شاہ حسین گردیزی نے حدیث لکھی کہ ”معاملہ نااہلوں کے سپردہوجائے تو پھر ساعہ کا انتظار کیا جائے”۔ ساعة سے مراد قیامت نہیں بلکہ دنیا میں دوبارہ خلافت علی منہاج النبوة کے قیام کی خوشخبری بھی ہوسکتی ہے۔ ٹرمپ، مودی، عمران خان اور دنیا بھر کے موجودہ حکمرانوں پر تاریخ کے بدترین نااہلی کا گمان نہیں یقین ہے اور اس سے بڑی نااہلی کیا ہے کہ عمران خان کرپشن کیخلاف آیااور کہتا ہے کہ حکومت نے ناجائز سبسڈی دی اور ذمہ دار حکومت سے باہر جہانگیرترین ہے جس نے جہاز بھر بھرکر لوٹوں کے ذریعے لوٹوں کی مخالفت کرنے والے کی حکومت قائم کی۔ مودی کے دور میں ہندوستان، ٹرمپ کے دور میں امریکہ جل رہاہے اور سعودی عرب بدترین کرائسس میں ہے۔ایران نے جہاز گرانے کے بعد حقائق کا انکار کیا پھر اعتراف بھی کرلیا۔ یہ حکمرانوں کی نااہلی کی انتہاء ہے جو دنیا پر مسلط ہیں۔
قرآن میں باربار پڑھی جانے والی سات آیات پر مشتمل سورۂ فاتحہ اور قرآن کا خاص طور پر ذکر ہے۔ بعض مصاحف میں فاتحہ کی آیات کے نمبر دینے سے اجتناب کیا گیا ہے اور بعض میں آیت کے گول نشانOکے بغیر ہی غلط نمبر ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ قرآن کا معجزہ ہے کہ ایک گول نشان کااضافہ کرنے کی جرأت بھی کسی سے نہیں ہوئی ہے۔ یہ بھی قرآن کا معجزہ ہے کہ 114سورتوں میں صرف ایک توبہ کی ابتداء میں بسم اللہ نہیں ہے تو کسی نے جرأت نہیں کی ہے کہ اسکا اضافہ کردیتا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس طرح سورتوں کے اپنے نام ہیں،اسی طرح عام زباں میں سورہ کی ابتدائی آیت سے مراد بھی وہی سورت لی جاتی ہے۔ جیسے سورة الاخلاص اور قل ھواللہ احد سے مراد ایک ہی سورت ہے۔ چونکہ بسم اللہ سورتوں کے آغاز میں موجود ہے اسلئے بسم اللہ کو چھوڑ کر بعض روایات میں آیا ہے کہ ہم نے نماز کی ابتداء پر الحمدللہ رب العٰلمین سنا ہے جس کا مقصد یہی تھا کہ صحابہ کرام سورۂ فاتحہ سے نمازکا افتتاح کرتے تھے۔ لیکن بعد میں کم عقل اور متعصب طبقات نے اس کو دوسرا رنگ دیدیا کہ صحابہ بسم اللہ کے بغیر ہی نماز پڑھتے تھے۔پھر اس بحث کو مزید الجھاؤ کا ذریعہ بنادیا گیا کہ کس کے نزدیک بسم اللہ کے بغیر نماز نہیں ہوگی؟، کس کے نزدیک فرض نماز میں بسم اللہ پڑھنا جائز نہیں؟۔ کس کے نزدیک دونوں کی گنجائش ہے؟۔ پھر یہ تعلیمی نصاب کا حصہ بنادیا گیا کہ امام شافعی کے نزدیک بسم اللہ سورۂ فاتحہ کا حصہ ہے اور امام مالک کے نزدیک قرآن کا حصہ بھی نہیں ہے۔ احناف کے نزدیک اصل اور درست بات یہی ہے کہ بسم اللہ قرآن کا حصہ ہے مگر اس میں شک ہے اور شبہ اتنا قوی ہے کہ اگر قرآن کی کسی آیت پر شک کیا جائے تو بندہ کافر بن جائیگا مگر بسم اللہ پر شک کرنے یا اس کا انکار کرنے سے کوئی کافر نہیں بنتا۔ بریلوی دیوبندی نصابِ تعلیم کی کتابوں ”نوالانوار” اور ” توضیح تلویح” میں یہی تعلیم دی جارہی ہے۔
پڑھایا جاتاہے کہ کتابت کی صورت میں قرآن نہیںاور فقہ وفتوے کی کتابوں میں مسائل ہیں کہ قرآن کے مصحف پر حلف نہیں ہوتا اور سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے علاج کیلئے لکھنا جائز ہے۔مولانا فضل الرحمن کے بھائی مولانا عطاء الرحمن امتحان میں ناکامی کی وجہ سے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی چھوڑ کر گئے تھے اور بفضل تعالیٰ مجھے پہلے سال کے ابتدائی مہینوں میں علم الصرف اور قرآن کی کتابت پر بحث کرنے میں ایک معتبرمفتی کو بدترین شکست دینے کی وجہ سے علامہ تفتازانی کا خطاب مل گیا تھا۔
علماء ومشائخ سب کے سب نیک وصالح ضرور گزرے ہیں اور مجھے عربی کے اس شعر کو دل سے بہت عقیدت کیساتھ گنگنانے میں بڑا زبردست لطف آتا ہے۔
احب صالحین ولست منھم لعل اللہ یرزقنی صلاحا
ترجمہ:” میں نیک لوگوں سے محبت کرتا ہوں مگر خود ان میں سے نہیں ہوںشاید کہ اللہ تعالی ان سے اس محبت کی برکت سے میری بھی اصلاح فرمادے”۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : الا بذکراللہ تطمئن القلوب ” خبردار! اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو اطمینان ملتا ہے”۔ آیت کے سیاق وسباق میں واضح ہے کہ یہاں آیت میں ”ذکر”سے مراد قرآن پاک ہے۔ کافروں کو اعتراض تھا کہ اللہ کی آیات ہمارے لئے اطمینان بخش نہیں اسلئے دوسری آیات نازل ہونی چاہییں۔ انکے جواب میں اللہ نے ایمان والوں کا ذکر کیا ہے کہ وہ آیات سے مطمئن ہیں۔
ہم نے علماء وصوفیا کی زباں سے سن کر یقین کرلیا کہ ذکرکے وظائف مراد ہیں اور اس پر کسی دور میںخوب عمل بھی کیا بلکہ ہماری وجہ سے طلبہ اور علماء میں تصوف ہی کے ذریعے دینداری کی ایک نئی لت بھی پڑگئی۔تصوف اور تشدد دونوں کو بنیاد فراہم کرنے کی ذمہ داری مجھ پر عائد ہوتی ہے۔ تاہم بفضل تعالیٰ میں نے ہر میدان میں عتیق ہونے کا ثبوت بھی دیا ہے۔ جب ہماری خانقاہ کے علماء ومشائخ تصوف کی دنیا میں مست تھے تو ہم نے ان کو جمعیت علماء اسلام کے پلیٹ فارم سے سیاست سکھائی اور جب ہمارے شیخ حاجی عثمان پر فتوے لگے تو بڑے بڑے علماء ومشائخ سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ رہے تھے اور ہم نے طوفانوں کارخ بدلنے میں کوئی دیر نہیں لگائی تھی۔
طوفان کررہاتھا میرے عزم کا طواف
دنیا سمجھ رہی تھی کہ کشتی بھنور میں ہے
جب مجاہدین امریکہ کیلئے لڑبھی رہے تھے اور شکایت بھی تھی تو ان کو خلافت کے راستے سے ہم نے پہلی بار آشنا کیا تھا۔ تصویر کو ناجائز سمجھا تو ایک دنیا کو اس کا مخالف بنادیا اور جب بات کھل گئی تو لگی لپٹی کے بغیر نام نہاد مفتیان اعظم کا پول کھولنے میں کوئی دیر نہیں لگائی ۔ نتیجے میں تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی والے جو لاؤڈاسپیکر پر نمازو آذان دینے کے قائل نہیں تھے،سرِ عام ویڈیو کے ذریعے اپنے بِلوں سے باہر آگئے۔ وہ پختون اور علماء جو کسی کو بھی مہدی کا نام لینے پر قتل کرتے تھے ،کسی حدتک پختون قبیلے کے ملاعمرسے بھی خراسان کے مہدی کا گمان کرنے لگے۔
مولانا یوسف بنوری کے شاگرد نے ” مہدی منتظر” پر کتاب لکھی۔ اپنے سے بڑا نام مولانا بنوری کا لکھ دیا ، دور سے لگتاہے کہ مولانا بنوری کی کوئی کتاب ہے۔ جس میں تفصیل سے مہدی کی حکومت قائم ہونے کے بعد کئی شخصیات اور انقلابات کا ذکر ہے۔ پھر ان کے بعد منصور کا ذکر ہے اور اس کو بھی مہدی قرار دیا گیا ہے۔ موصوف نے تمام تفصیلات کا ذکر کرنے کے باوجود لکھ دیا کہ ”ملاعمر وہی منصور تھا”۔ جب وہ مہدی آیا ہے اور نہ اسکے بعد انقلابات آئے ہیں تو پھر منصور کیسے آگیا؟۔
پاکستان میں نظام ہے، عدالت ہے، ریاست ہے، میڈیا ہے، حکومت اورعلماء ہیںبلکہ اب تو ایک سوشل میڈیاکا بھی بہت بڑا کردار ہے۔اپنا مثبت پیغام عوام تک اور اہل اقتدار تک پہنچانا بہت آسان ہے۔ علامہ جلال الدین سیوطی نے بارہ خلفاء کا ذکر احادیث کے حوالے سے کیا ہے اور لکھ دیا ہے کہ ابھی تک یہ بارہ خلفاء نہیں آئے ہیں جن پر امت کا اجماع ہوگا اور یہ سب قریش سے ہونگے۔ حضرت علامہ پیر مہر علی شاہ گولڑہ شریف (مرشد سیدعطاء اللہ شاہ بخاری) نے اپنی تصنیف ”تصفیہ ما بین شیعہ وسنی” میں لکھ دیا ہے کہ ”یہ بارہ خلفاء ابھی تک نہیں آئے ہیں جن پر امت کا اجماع ہوگا”۔ ہم نے نقشِ انقلاب، اخباراور کتابوں میں حدیث صحیحہ کا نقشہ بھرپور طریقے سے واضح کیا جس کی تمام مکاتب کی معروف شخصیات نے بھرپور حمایت کی، ڈاکٹر اسرار، پروفیسر غفور،جے یوآئی کے امیر مولانا عبدالکریم بیرشریف، علامہ طالب جوہری ، مولانا عبدالرحمن سلفی اور اتحادا لعلماء کے مولانا عبدالرؤف۔
کتابچہ ” پاکستان کی سرزمین سے اسلام کی نشاة ثانیہ کا آغاز” میں سینکڑوں علماء کی تائیدات تھیں۔میرے استاذ جامعہ بنوری ٹاؤن کے پرنسپل ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر مدظلہ العالیٰ نے لکھا کہ ” اسلام کی نشاة ثانیہ والوں کو امام مالک کے اس قول کو سامنے رکھنا ہوگا کہ اس امت کی اصلاح اسی طرح سے ہی ہوسکتی ہے جس طرح اس کی ابتداء میں اصلاح ہوئی تھی یعنی پہلے تعلیم تربیت اور پھر نظام کی طرف آنا ہوگا” ۔ مولانا فضل الرحمن کی نوشہرہ دیوبند کا نفرنس میں امام کعبہ کی آمد پر شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے بھی عربی میں خیر سگالی کے کلمات کہے تھے اور ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے بھی کلمات کہے تھے۔ دونوں کی عربی ، علم واستعداد اور لہجے اور قابلیت کا اندازہ اس مختصر آزمائش سے لگایا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر مدظلہ العالی نے عربی کی تقریر میں پاکستان ، پاکستانیوں کی لاج رکھ لی اور مفتی تقی عثمانی کو مولانافضل الرحمن نے شاید اپنے باپ کا بدلہ لینے کیلئے سب کے سامنے ایکسپوز کردیا تھا۔بالکل جاہل پختون اس سے زیادہ اچھی اردو بول لیتے ہیں جو ایک عالم فاضل عربی بول رہا تھا۔
کچھ تو مفتی تقی عثمانی نے سودی زکوٰة اور بینکاری کے نظام کیلئے خالصتاًمفاد کی خاطر بھی اپنے فتوے دئیے ہیں لیکن اصل مسئلہ یہ بھی لگتاہے کہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کررہاہے جس کے ہمارے پاس دستاویزی ثبوت بھی ہیںاور ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ بڑا نالائق ہے۔ قرآن کے ترجمے کی جو ریڑ ھ ماری ہے اور جو تفسیر لکھی ہے تو اس سے اسکی نالائقی پر مہر تصدیق ثبت ہوتی ہے۔ جب بھی ان سے سنجیدہ رابطے کی کوشش کی ہے تو انکار کیا ہے اور الزام لگایا ہے کہ ڈنڈے کے زور پر ہم انکے خلاف بول نہیں سکتے۔ ہماری تحریرات میں لٹھ مار کی کیفیت نمایاں ہے لیکن انکے پاس کوئی جواب نہیں ہے اور ہمارے پاس ان کی بہت کمزوریاں ہیں۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ ہمارے مرشد حاجی عثمان نے شدید مخالفت کے دور میں ہمارے ساتھیوں کا کوڈ نام رکھا تھا، میرا نام ڈنڈے مار رکھا تھا۔ مولانا یوسف بنوری کے شاگرد نے مہدی کے حوالے سے جو کتاب میں پاکستان کے ڈنڈے والی سرکار کی طرف سے کردار کا ذکر کیا ہے۔اگر پاکستان کے اصحاب حل وعقد ہمیں کوئی کردار دیں تو پھر وہ دن دور نہیں کہ قرآن وسنت اور پاکستان کے جمہوری آئین کی مدد سے دنیا بھرمیں ایک عظیم انقلاب برپا ہوجائیگا۔ علامہ اقبال کی شاعری کو پھر ہر پاکستانی گائے گا۔
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے تو فیق
مولانا ابوالکلام آزاد نے حضرت علی ، حسن علیہ السلام اور فاطمہ علیہا السلام لکھ دیا تو کل مولانا آزاد پر شیعہ کی طرف راغب ہونے کا فتویٰ لگ سکتا ہے اور صحیح بخاری کو بھی اسی بنیاد پر شیعہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ مرزائی، شیعہ بریلوی کا فتویٰ لگانے والے اس بات کو سمجھ لیں کہ ختم نبوت اور سپاہ صحابہ کے مرکزی قائدین بھی ہمارے شانہ بشانہ ہونگے۔ صرف اس سے بھی قادیانی اور شیعہ پر بڑی زد پڑتی ہے کہ احادیث صحیحہ میں بارہ خلفاء قریش میں آئندہ ہر ایک پر امت کا اجماع ہوگا۔
پاکستان میں دیوبندی بریلوی مکاتبِ فکر کا تعلق حنفی مسلک سے ہے اورمذہبی تعلیمی نصاب” درسِ نظامی ” دونوں کا ایک ہے۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھ دیا ہے کہ ”سندھ ، بلوچستان، پنجاب، فرنٹئیر(پختونخواہ) ، کشمیر اور افغانستان میں جس قدر قومیں بستی ہیں یہ سب امامت کی حقدار ہیں۔اسلام کی نشاة ثانیہ کا مرکز یہی خطہ ہے ۔اگر ہندو پوری دنیا کو ہمارے مقابلے میں لے آئے تو ہم اس سے دستبردار نہ ہونگے۔ حنفی مسلک کے بنیادی اصول قرآن کی طرف رجوع سے یہ انقلاب آئیگا۔ ایران کے شیعہ بھی اس کو قبول کرینگے۔ حضرت امام ابوحنیفہ اہلبیت کے شاگرد تھے۔ حنفی مسلک کے علاوہ یہاں کے لوگ کسی بات کو قبول نہیں کرینگے”۔ مولانا سندھی کی تحریر قرآن کی آخری پارے کی تفسیر ”المقام المحمود” میں سورة القدر کی روشنی میں ہے اور اتفاق کی بات یہ کہ مولانا سندھی مسلم لیگ کے نہیں کانگریس کے رکن تھے اور ان کا کسی ایک خطے اور قوم پر توجہ دیکر قرآنی انقلاب برپا کرنے کی تحریک پاکستان سے پوری ہوسکتی تھی۔ اگر متحدہ ہندوستان ہوتا تو بھی مسلم اکثریت والے علاقوں میں ہم قرآنی انقلاب برپا کرکے ہندوستان بلکہ دنیا کو جہالتوں کے اندھیروں سے نکال سکتے تھے۔ اسلام نفرتوں اور تعصبات کا خاتمہ کرکے انسانی بنیادوں پر انقلاب کا داعی ہے لیکن سرکاری مولوی حضرات ہمیشہ دوسروں کے آلۂ کار بن کر رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی اسٹیبلشمنٹ کے پیداوار نوازشریف کی چشم وچراغ مریم صفدر نواز کے پیروں کے ناخن پر منظور پشتین کو قربان کردیں گے اور قوم پرستوں اور ملاؤں نے ہی اسلام، جمہوریت اور اپنی قوم کا بیڑہ غرق کیا ہے۔ بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام کی اکثریت تھی، جہاں پختونوں اور اسلام کا اقتدار قائم ہوتا مگر قوم پرستوں اور ملاؤں نے مل کر عطاء اللہ مینگل کووزیراعلیٰ بنادیا تھا اور صوبہ سرحد میں قوم پرستوں کی اکثریت تھی مگر مفتی محمود کو وزیراعلیٰ بنادیا گیا۔ یہ لوگ نہ تو جمہوری ہیں ، نہ قوم پرست ہیں اور نہ اسلام کے وفادار بلکہ پرائے گو پر پادمارکر شرم بھی نہیں کھاتے ہیں۔ قوم ،وطن اور اسلام سے محبت ایمان کا تقاضہ ہے لیکن اس سے بھی کوئی بڑی منافقت نہیں کہ پہلے ہندوستان کو اسلام کے نام پر دولخت کردیا کہ وطن سے محبت بولہبی ہے پھر اسلام کو وطن پر قربان کیا کہ سب سے پہلے پاکستان۔
دَ خپلے خاورے لُٹے وی کہ کانڑی
ما تہ خکاری د جنت د گلو پانڑی
مرگ پہ ژوند زما لہ چا گلہ نشتہ
کہ دے نہ کرل غنم بیا بے وانڑی
جناور ڈیر دی خو یو سپیی بل خر
پریدہ کہ سوک غاپی کہ سوک ہانڑی
د اللہ سرہ د بندگانو سہ کمی دہ؟
پہ خپل فضل زمونگ قام چھانڑی
اصلی خبرہ د تقویٰ و دکردار دہ
بے خوی سید نہ اعلیٰ یو خہ کٹانڑی
چرتہ ابولہب وابوجہل چرتہ بلال
داسے قریش نہ خلق حبشی خہ گانڑی
وینہ د پلار آدم، مینہ د مور حواء دہ
کزشہ دے تعصب لہ بالا مانڑی
پنجاپی تہ ولے وای تور شاہین
پختون دے پڑے کڑو د زانڑی
ملا پہ خپل جنت ھم اُور لگہ وی
کہ مومی بُٹی د اخزی او لانڑی
دَ وران نصاب کہ اصلاح اُو نہ شوہ
نو ورک بہ شئی د جماعت ملوانڑی
داہل حق دتاریخ بدلہ مے واخستہ
دفتوے ماہر بربنڈ دی تنڑپتانڑی
دانقلاب پہ کنڑ غرب بہ زر پوہ شے
ماگڑدولی دی دکفر ڈیر چپانڑی
عتیق ستانہ غٹ غٹ شیخان زغلی
تہ کارمہ لرہ پہ چنڑی چانڑی
” اپنی مٹی کے ڈھیلے ہوں یا پتھر، مجھے جنت کے پھولوں کے پتے دکھتے ہیں۔ موت و زندگی پرمیرا کسی سے گلہ نہیں، اگر گندم بوؤ نہیں تو پیسوگے۔ جانور دنیا میں بہت ہیںایک گدھا،دوسرا گھوڑا،چھوڑدو کوئی بھونکے یا کوئی ڈھینچو ڈھینچو کرے۔ زمین پر اچھے بندوں کی کیاکمی مگر اللہ نے فضل سے ہماری قوم کا انتخاب کیا۔ اصلی بات تقویٰ وکردار کی ہے، بد خصلت سید سے اعلیٰ وارفع اچھا خانہ بدوش ہے۔ خون باپ آدم کا محبت ماںحواء کی ہے، اُتروتعصب کے بلند مورچہ سے۔ پنجابی کو کیوں کہتے ہو کالے شاہین، پختونوں کو بنادیاہے کونجوں کی رسی۔ملا پھر اپنی جنت کو بھی آگ لگاتا ہے، اگر اسے کانٹے دارجھاڑیاں یا لائیاں مل جائیں ۔بگڑے نصاب کی اگر اصلاح نہ کی تو مسجدکے ملوانڑے( مُلے) صفحہ ہستی سے غائب ہونگے۔میں نے اہل حق کی تاریخ کا بدلہ چکادیا، فتوے کے ماہر ننگے تتر بتر ہوگئے ہیں۔انقلاب کی گھن گرج کو جلد سمجھ جاؤگے، میں نے کفر کے کافی چیتھڑے اُڑادئے ہیں۔ عتیق تم سے بڑے بڑے شیخ علماء بھاگتے ہیں،آپ غرض نہ رکھو ،ان طلبہ ملبہ سے”۔
جب خان عبدالغفار خان ، عبدالصمد خان اچکزئی شہید نے گاندھی ، نہرو اور سردار پٹیل سے نہ صرف محبت رکھی بلکہ افغانستان کو چھوڑ کر بھارت کیساتھ متحدہ ایک ہندوستانی قومیت کا راگ الاپا توہم سندھی، بلوچ اور پنجابیوں سے پختونوں کو کیسے جدا کرسکتے ہیں؟۔ جمعیت علماء اسلام کو ہندوستان میں جمعیت علماء ہند کابھارت میں سیکولر اسلام پسند ہے تو پاکستان طالب زدہ کیسے ہوسکتا ہے؟۔ ہم تو وہ ہیں کہ اپنے وطن کے ڈھیلوں اور پتھروں کو بھی جنت کے پھولوں کی پتیاں سمجھتے ہیں۔ جس طرح نوح علیہ السلام کی بیٹے کنعان اور ابراہیم علیہ السلام کی باپ آذر سے محبت فطرت کا تقاضہ تھی اسی طرح اپنے قبیلے، شہر، علاقے، ملک اور براعظم سے محبت فطرت کا تقاضا ہے۔جب عقیدے اور نظرئیے میں دورنگی آتی ہے تو پھر ہمیشہ انسان قوتِ پرواز سے محروم رہتا ہے۔ منافق ادھر کا رہتاہے اور نہ ہی ادھر کا۔ لا الی ھا اولاء ولا الی ھا اولاء وابتغ بین ذٰلک سبیل ” نہ وہ ادھر کے ہوتے ہیں نہ ادھر کے ،دونوں کے بیچ میں راستہ تلاش کرتے پھرتے ہیں”۔
حضرت امام ابوحنیفہ کے مسلک کی بنیاد پر جو اصولِ فقہ کی تعلیم دی جارہی ہے تو اس کی بنیادی روح یہ ہے کہ قرآن کی واضح آیات کے مقابلہ میں احادیث صحیحہ کو بھی بالکل رد کردیا جائے، کیونکہ قرآن کے خلاف کوئی صحیح حدیث نہیں ہوسکتی ہے اور اگر حدیث صحیح ثابت ہوجائے تو پھر میرے مسلک کو دیوار پر دے مارا جائے۔ جو حدیث صحیحہ ہی میرا مذہب ہے۔ علامہ اقبال نے ہندوستان کے بارے میں کہا تھا کہ ”میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے یعنی ہندوستان” مگر اپنے مؤقف سے پھر رجوع کرلیا تھا۔ امام ابوحنیفہ اپنے مؤقف پر ڈٹے تھے۔ احناف کا سب سے اچھا اور اہم اصول یہ بھی ہے کہ ضعیف احادیث میں تضاد ہوتو بھی رد نہیں کرنا چاہیے بلکہ جہاں تک ممکن ہو تطبیق دی جائے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلکِ حنفی کے نام پر قرآن کو بھی تضادات کا مجموعہ بنادیا گیا اور یہ سب جہالتوں کا ہی نتیجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے مالٹا کی قید سے رہائی پائی تھی تو امت کے زوال کے دواسباب بتائے ،قرآن سے دوری اور فرقہ پرستی۔ مفتی محمد شفیع مفتی اعظم پاکستان نے لکھا کہ ” فرقہ پرستی بھی قرآن سے دوری کا نتیجہ ہے”۔ مولانا انور شاہ کشمیری نے کہا کہ ” ہم نے مسلکوں کی وکالت کرتے ہوئے اپنی زندگی ضائع کردی، قرآن وسنت کی کوئی خدمت نہیں کی ہے”۔ جنہوں نے زندگی بھر درسِ نظامی کی خدمت کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا وہ نصابِ تعلیم کو سمجھتے تھے کہ اس کا کیا کردار ہے؟مگر جن نالائق در نالائق در نالائقوں نے اس کواپنا سہل ذریعہ معاش سمجھ رکھا ہے انکے دل میں نہیں بلکہ پیٹ کی اوجھ اور دماغ کی رگ میں درد اُٹھ رہاہے۔
مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کی عصر حاضر میں مساجد کے علماء و مقتدی اور مدارس کے مفتیان اپنا حال دیکھ سکتے ہیں۔ سیاسی مذہبی علماء اور مذہبی لبادے والے فرقے ، جماعتیں اور تنظیموں کو اپنا عکس دکھائی دے سکتا ہے۔ سود کو حلال کرنے کیلئے تقلید کی بھی ضرورت نہیں ہے اور باقی ہر اس کام میں تقلید کی ضرورت ہے جن کو سود کی طرح مختلف ادوار حیلے باز اور سرکاری ملاؤں نے بدل ڈالا تھا۔ احادیث میں تو مزارعت کو سود اور ناجائز قرار دیاگیا ہے اور امام ابوحنیفہ ، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کا مزارعت کے ناجائز اور سود ہونے پر اتفاق تھا مگر جنہوںنے اس حکم کو بدل ڈالا تھا تقلید ان حیلہ سازوں کی ہورہی ہے جن کا مسلک سرکار کی سرپرستی کیوجہ سے ہر دور میں سکہ رائج الوقت رہا ہے۔ مفتی محمود سے مولانا فضل الرحمن تک اور مفتی زرولی خان،مولانا سلیم اللہ خان ، جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور پاکستان کے مدارس نے مفتی تقی عثمانی ومفتی رفیع عثمانی کی طرف سے پہلے زکوٰة اور سودی بینکاری پر کسی کی بات نہیں مانی لیکن سکہ رائج الوقت سرکارکی سرپرستی کی وجہ سے عثمانی برادران ہی رہے ہیں۔ آنیوالے دور میں تاریخ کے تمام سرکاری مرغوںشیخ الاسلاموں کی طرح مفتی تقی عثمانی اور انکے فرزندوں کا ہی نام رہے گا۔ مولانا آزاد کی کتاب” تذکرہ” میں شیخ الاسلاموں کی اہل حق کے خلاف حقائق کی تاریخ پڑھ سکتے ہیں لیکن اس دور کے شیخ الاسلام کچھ کچھ قابلیت بھی رکھتے تھے اور حکومت نے باقاعدہ ان کو عہدے کا اہل سمجھ کر شیخ الاسلام کا منصب سونپا ہوتا تھا۔ یہ لوگ تو اپنے آپ ہی شیخ الاسلام بنے پھرتے ہیں۔ ان سے کوئی اپنا پوچھ ہی لے کہ بھیا شیخ الاسلام کس نے بنایا ہے؟۔
پہلی بات یہ ہے کہ طلاق و حلالہ کے حوالے سے قرآنی آیات اور احادیث میں کوئی تضاد نہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ حضرت عمر اور حضرت علی کے علاوہ تمام صحابہ میں کوئی اختلاف نہ تھا۔ تیسری بات یہ ہے کہ ائمہ اربعہ کا مسلک درست تھا اور چوتھی بات یہ ہے کہ طلاق وحلالہ کے حوالے سے درسِ نظامی کی تعلیم کا تقاضہ یہی ہے کہ باہمی صلح کی بنیاد پر معروف طریقے سے عدت میں، عدت کی تکمیل پر اور عدت ختم ہونے کے عرصہ بعد بھی رجوع ہوسکتا ہے اور باہمی صلح اور معروف طریقے کے بغیر عدت کے اندر بھی رجوع نہیں ہوسکتا۔ جن احکام کو قرآن وسنت و اسلاف نے پیش کیا ان کو غلط رنگ دیا گیا،وہ غیرمسلم کیلئے بھی قابلِ قبول ہیں۔

حور سے مراد اگر دنیاوی عورتیں تو یہ بیویاں ہیں اگر اس سے مراد پریاں تو یہ ہم نشین کے معنی میں ہیں ۔

تحریر : سید عتیق الرحمن گیلانی

حور سے مراد اگر دنیاوی عورتیں ہیں تو یہ بیویاں ہیں اور اگر اس سے مراد پریاں ہیں تو یہ پھر ہم نشین کے معنی میں ہیں ۔

قرآن میں سورۂ الدخان کی آیت
وزوجنٰھم بحور عین کے بارے میں قرآن کی مشہور لغت مفردات القرآن میںامام راغب نے لکھا کہ” ہم نے ان کو حور عین کا ہم نشین بنایا ہے”۔
اگر حورسے مراد انسانوں سے الگ جنس کی مخلوق ہو تو پھر زوجنا سے مراد شادی کے معنیٰ میں نہیں ہوگا۔ بلکہ پریوں کو انکا ہم نشین بنانا مراد ہوگا۔ عربی کی مشہور لغت القاموس المعجم میں حوریات کے بارے میں لکھا ہے کہ ”شہری عورتوں کو کہتے ہیں”۔ شہری عورت پر حور کااطلاق ہوتا ہے جو زیادہ سفیدیا صاف ستھری ہوتی ہیں۔ اس بات کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے کہ عربی زبان کا معاملہ سمجھے بغیر قرآنی آیات کے مفہوم کو سمجھنا مشکل ہے۔ قرآن میں زوج کے کئی معانی ہیں۔ سورۂ واقعہ میں انسانوں کے تین ازواج یعنی اقسام کا ذکر ہے۔
اصحاب الیمین، اصحاب الشمال اور مقربین۔ یہ جنت اور جہنم اور درجہ کے اعتبار سے تین اقسام ہیں۔ قرآن میں واذا النفوس زوّجت ”اور جب نفسوں کو جوڑا جوڑا بنایا جائیگا”۔کے بارے میں علماء سمجھتے ہیں کہ جب لوگوں کو مختلف اقسام میں تقسیم کیا جائیگا۔ حالانکہ اس کا یہ مفہوم بھی ہوسکتا تھا کہ جب لوگوں کو شادی کے بندھن میں جوڑا جوڑا بنایا جائیگا۔ اگر آیت سے سیاق وسباق کے مطابق معانی مراد لئے جائیں تو حقائق منظر عام پر آجائیںگے۔ جہاں قرآن میں یہ ہے کہ زندہ درگور کرنے والیوں سے پوچھا جائیگا کہ وہ کس گناہ کے بدلے قتل کی گئیں؟۔ اسی جگہ پر نفسوں کو جوڑا بنانے کا ذکر بھی ہے ۔ دورِ جاہلیت میں بچیوں کو زندہ دفن کردیا جاتا تھا اور میاں بیوی صلح چاہتے تھے تو بھی ان میں مذہب کے نام پر تفریق کرادی جاتی تھی اور دونوں برائیوں کو ایک پس ِ منظر میں دیکھا جائے تو اذاالنفوس زوجت سے نفسوں کے مختلف اقسام بنانا مراد نہیںہوسکتا ہے بلکہ اسلام کے نام پر اب بھی جس طرح طلاق اور تفریق کا سلسلہ جاری ہے تو اس تنبیہ سے علماء ومفتیان کو سبق سیکھنا چاہیے۔ جنت دنیا میں بھی ہے اور آخرت میں بھی۔ دنیاوی جنت کے حوالہ سے قرآن میں بہت سی آیات ہیں۔ اسی طرح جنت کے علاوہ دنیا میں بھی جحیم کی اقسام ہیں۔ حضرت ابراہیم کو بھی کافروں نے دنیا میں سزا دینے کا ارادہ کیا تو آپ کو قرآن کے الفاظ میںجیحم میں پہنچانے کا پروگرام بنایا۔ باغ کو بھی جنت کہتے ہیں۔ آخرت کی بنیاد پر جنت کی کیفیت کو سمجھنا ہمارے لئے ممکن نہیں ۔
دنیا میں اسلامی انقلاب آئے تو بھی نیک واچھے لوگوں کی ازواج یعنی بیویوں پر حوروں کا اطلاق ہوگا اور اسکے معانی پاکیزہ کے بھی ہیں۔ انقلاب کے بغیر بھی جس طرح متقی لوگوں کیلئے الطیبون لطیبات و الطیبات للطبین” پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کیلئے ہیں اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کیلئے ہیں”۔ ان پر بھی حوروں کا اطلاق ہوتا ہے۔ حور صرف مؤنث ہی نہیں بلکہ مذکر کیلئے بھی عربی لغت میں آتا ہے۔ جب ساتھی کے معنیٰ میں ہو تو پھر جس طرح حضرت عیسیٰ کے ساتھیوں کو اللہ تعالیٰ نے الحواریون قرار دیا ہے جنہوں نے آپ کی مدد کی تھی۔ صحابہ کرام دنیا کی طرح آخرت میں نبیۖ کے ساتھی ہونگے۔ حور عین کا معنیٰ بڑی بڑی آنکھوں والا بھی ہے اور آنکھ کی سفیدی کا زیادہ سفید ہونا اور سیاہی کا زیادہ سیاہ ہونے کو بھی کہتے ہیں اور حور کا معنی نقصان اٹھانے کو بھی کہتے ہیں۔
ہمارے یہاں سخت ، بڑی اور موٹی روٹی بنتی ہے جس کو گاڈلیائی کہا جاتا ہے۔ کہاوت ہے کہ کوچے کے کتے کو چودھویں کا چاند بھی گاڈلیائی نظر آتا ہے۔ عربی کی کہاوت ہے کہ للناس فی مایعشوقون مذاہب ”لو گ اپنے ذوق کے مطابق رائے رکھتے ہیں”۔ نبیۖ اور صحابہ کرام کیلئے سیدنا بلال حبشی بھی حور تھے اور علة مشائخ رکھنے والوں کا ذوق کچھ اور ہوتا ہے۔
دھوبی کا کام کرنے والوں کو بھی حور کہتے ہیں اور باطنی صفائی رکھنے والے کو بھی حور کہتے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ االسلام کا ساتھ دھوبیوں نے دیا تھا ،دھوبیوں کو حواریون کہا گیا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ان کے ساتھی صوفی باصفاء باطن کی صفائی رکھتے تھے اسلئے ان کو حواریون کہا گیا ہے۔
جنات اور پریاں ہماری باطن کی دنیا میں بھی ہیں اور اس کا ذکر قرآن میں ہے۔ تو جنت اور آخرت میں بھی ہوسکتی ہیں۔ سورۂ رحمن میں تو دونوں کو مخاطب کیا گیا ہے۔ یہی مخلوق جنت میں ہمارے ساتھ کھلے عام بھی ہوسکتی ہے۔اگر اس کی جنس الگ ہے تو جنسی تعلق کاامکان نہیں رہتاہے۔ ابلیس اور اس کی مادی بھی جنت میںپہنچ گئے تھے۔ جس کو اللہ نے آگ سے بنایا ہے اور ہمیں مٹی سے۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھ دیا ہے کہ ” ابلیس اور اس کی بیگم نے حضرت آدم و حواء کو اپنے جنسی تعلق کا مشاہدہ کرایا تھا جس کے بعد یہ لوگ بھی اس شجرہ ممنوعہ کی شہوت میں پڑگئے۔ اور اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کردی”۔ قرآن میں تفصیل کے ساتھ قصے کا ذکر ہے ،جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے درخت کے قریب جانے سے منع کیا ہے پھر فرمایا کہ فاکلا” پھر دونوں نے اسے کھایا” تو اس ازواجی تعلق پر کھانے کا اطلاق کیسے ہوسکتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اکل کے معنی صرف کھانے کے نہیں بلکہ کھجلانے کے بھی ہیں۔ اکل راسہ ”اس نے اپنا سر کھجلایا”۔ (المنجد: عربی ، ارود لغت)
اللہ نے قرآن میں بیوی سے جنسی تعلق کیلئے کئی الفاظ استعمال کئے ہیں۔ باشر، تغشی، لامستم ”براہ راست ہونا، چادر میں چھپانا، ہاتھ لگانا”۔ لیکن قرآن میں وطی کا لفظ جنسی تعلق کیلئے کہیں نہیں آیا ہے اور فقہ کی کتابیں اس سے بھری ہوئی ہیں۔ تہجدکا وقت اشدوطائً واقوم قیلًا”نفس کو کچلنے کا ذریعہ اور بات سمجھنے کیلئے زیادہ اچھا ہوتا ہے”۔ عربی میں گھاس کو کچلنے کیلئے وطأ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ قرآن میں بیگمات کو شوہروں کیلئے حرث قرار دیا گیا ہے اور حرث کھیتی کو بھی کہتے ہیں اور اثاثہ (ایسٹ) کو بھی ۔ اثاثہ ایسٹ کے بھی دو اقسام ہیں۔ مال ودولت کو بھی کہتے ہیں اور عناصر کی صفات کوبھی کہتے ہیں۔ عناصر سے ان کی صفات جدا نہیں ہوسکتی ہیں لیکن مال کا متبادل ہوتا ہے اور قرآن میں بیگمات کو جس طرح کا اثاثہ قرار دیا گیا ہے، تمام اہل ذوق اپنے اپنے ماحول کے مطابق اسکا معنیٰ لیں گے۔ جب کوئی بیٹا زیادہ قابل اعتبار ہو گا تو اس کا باپ اس کو اپنا اثاثہ (ایسٹ) قرار دے گا۔
قرآن کا یہ کمال ہے کہ لوگوں کی اپنی اپنی ذہنی سطح کے مطابق اسکے معانی سمجھ میں آتے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے ذو القرنین کا ذکر کیا ہے کہ وہ مغرب کے آخری کنارے تک پہنچا تو اس نے سورج کو پانی اور کیچڑ میں اترتے دیکھا۔ ظاہر ہے کہ سورج تو اپنی جگہ پر کہکشاؤں کی جھرمٹ میں اپنی منزل کی طرف اپنی رفتار سے گامزن ہے جس کا قرآن میں ذکر ہے لیکن جب ذوالقرنین کا زمانہ تھا تو اس نے اپنی ذہنیت ہی کے مطابق سورج کو کیچڑ میں اترتے دیکھا تھا۔ اچھے لوگوں پر غلط تہمت نہیں لگائی جاسکتی ہے کہ انہوں نے حوروں کے غلط تصورات پیش کرکے عوام کو ورغلانے کی کوشش کی ہے۔ البتہ حوروں کے تصورات کے باجود بھی بہت لوگوں نے چند ٹکوں کی خاطر سودی نظام کو جائز قرار دیدیا ہے۔ اللہ کیلئے نہ کرتے تو حوروں سے شادی کیلئے ہی چند ٹکوں کی خاطر دین کو نہیں بیچنا تھا۔
اللہ والوں نے راتوں کو تہجد میں قرآن سمجھنے کیلئے اپنی عقل کو استعمال نہیں کیا مگر اس مشقت اور نفسوں کو کچلنے کے باعث علة مشائخ کی بیماریوں سے محفوظ رہے۔ یہ بھی گھاٹے کا سودا نہیں تھا لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن جس مقصد کیلئے نازل کیا گیا تھا اس کو صرف رونے دھونے اور پیشانیوں کو سجدوں کے نشانات سے چمکانا مقصد نہیں تھا۔ علامہ اقبال نے کہا کہ ابلیس کا بڑا خوف تھا کہ سحرگاہی کے آنسوؤں سے وضو کرنے والے بہت خطرناک ہیں لیکن انکے خشک لہجوں میں مٹھاس اسلئے نہیں آسکتی تھی کہ قرآن بہت کامل معاشرے کی تشریح پیش کرتا ہے جس میں اچھی معیشت، معاشرت ، سیاست ، حکمت، فقاہت ، بڑی زبردست سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور ترقی کی سب ہی راہیں اس میں موجود ہیں۔ فقہ سے زیادہ سائنس کے حوالے سے آیات ہیں۔ ہمارا مولوی طبقہ تو فقہ کی دنیا میں بھی آج سے نہیں پتہ نہیں کب سے پنچر ہوچکا۔
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ۖ کی شکایت کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے کہ وقال الرسول یارب ان قومی اتخذوا ھٰذالقراٰ ن مھجورًا ”اور رسولۖ عرض کرینگے کہ اے میرے ربّ! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا”۔ القرآن
پہلے دارالعلوم دیوبند کے اکابر کے استاذشیخ الہند محمود الحسن نے مالٹا کی جیل سے رہائی کے بعد یہ مشن بتایا کہ مدارس کے نصاب کو چھوڑ کر قرآن کی طرف امت کو متوجہ کیا جائے۔ لیکن ایک شاگرد مولانا انور شاہ کشمیری نے درسِ نظامی کی تدریس جاری رکھی، مولانا الیاس نے تبلیغی جماعت کی بنیاد رکھی، مولانا اشرف علی تھانوی نے تصوف کو زندہ رکھا ، مفتی کفایت اللہ نے فتوؤں کا کام زندہ رکھا، مولانا حسین احمد مدنی نے سیاست کا کام کیا اورصرف مولانا عبیداللہ سندھی نے اپنے استاذ کی بات مان لی۔ امام انقلاب کہلائے لیکن ان پر کفروگمراہی کے فتوے لگائے گئے اور جب مولانا کشمیری کو آخر میں احساس ہوا تو معافی مانگ لی اور فرمایا کہ ” میں نے زندگی ضائع کردی ہے”۔ آج علماء دیوبند مختلف شعبۂ جات میں مذہب کو تجارت گاہ بناچکے ہیں۔ہر شعبے میں ماحول زوال کی آخری حد کو چھورہاہے۔ اللہ سب کو ہدایت عطاء فرمائے ۔آمین

قرآن کریم عظیم الشان انقلاب کی ہی خبر دے رہا ہے!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
دنیا میں اسلام کا تعارف مذہب ہے مگراسلام دینِ فطرت ہے۔ شیعہ وسنی علماء وذاکرین نے مذہب کو اپنا ذریعہ معاش بنارکھا ہے اور سیاست کے علمبردار اسلام کو سیاسی حربے کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔شیعہ کیلئے بڑی بات حدیثِ قرطاس کی ہے۔ نبیۖ نے تحریری وصیت لکھناچاہی کہ خلیفہ و امیرالمؤمنین علی ولی اللہ کو بنایا جائے۔ حضرت عمرنے کہا کہ” ہمارے لئے قرآن کافی ہے”۔ حنفی مسلک کا سارا اصولِ فقہ اسی سے شروع ہوتا ہے اور اسی پر ختم ہوتا ہے کہ قرآن کے مقابلے میں صحیح احادیث قابلِ قبول نہیں ہیں۔ ہم یہ وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ نبیۖ کو اپنا جانشین نامزد کرنے کا اس سے زیادہ حق تھا جس طرح حضرت ابوبکر نے اپنا جانشین حضرت عمر کو نامزد کیا تھا۔ البتہ جانشین نامزد کرنے پر اختلاف جائز تھا اسلئے کہ اللہ تعالیٰ نے وامرھم شوریٰ بینھم و شاور ھم فی الامر کی آیات میں اصول وضع کردیا ہے ۔صحیح مسلم کی ایک حدیث میں اہل مغرب کو قیامت تک حق پر قائم ہونے کی خبر دی گئی ہے اور اس سے مغرب کا جمہوری نظام ہی مراد ہوسکتا ہے۔ اسلام ہی نے دنیا کو جمہوریت سکھائی ہے اور جمہوریت کے ذریعے سے خلافت کا قیام دنیا میں آئیگا تو اس سے زمین وآسمان والے دونوں کے دونوں خوش ہونگے۔ انصار وقریش،قریش واہلبیت کے درمیان خلافت کے استحقاق کی مہم نے اسلامی سیاسی نظام کی جڑوں کو اتنا کمزور کردیا تھا کہ حضرت ابوبکر وعمر کے بعد تیسرے خلیفہ حضرت عثمان کو مسند پر شہید کردیا گیا اور پھر خونریزی ، عدمِ اعتماد اور اسلام کی روح مفقود ہونے کا سلسلہ شروع ہوا، جو آج اپنی انتہاء کو پہنچا ہوا ہے۔ اہل تشیع کی اکثریت کو قرآن اسلئے اچھا نہیں لگتا ہے کہ علی اور حسین کی اسمیں کھل کرتائید نہیں ہے اور اہلسنت کو قرآن سمجھنے کا شوق نہیں مگر اسلئے اچھا لگتا ہے کہ ہردور کے فرعون کیلئے بھی آیات پڑھی جاتی ہے کہ ” جس کو اللہ عزت دے اور جس کو ذلت دے ، جسے چاہے ملک کا اقتدار دے اور جس کو چاہے اس سے اقتدار چھین لے”۔ خلافت راشدہ کے بعد امیہ ، بنو عباس، خلافت عثمانیہ اور انگریز سرکار تک قرآن کی آیات کا سہارا لیا گیا۔ جسکے ہاتھ میں ڈنڈا تھا، اسکے گن گانے کی فقہ ایجاد کی گئی۔ ائمہ مجتہدین کے نزدیک دینی فرائض پر کوئی معاوضہ لینا جائز نہیں تھا ، احادیث صحیحہ میں زمین کو مزارعت یا کرائے پر دینا ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ سُود کی آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ۖ نے زمینوں کو مزارعت پر دینا بھی سُود قرار دیا۔ ائمہ مجتہدین امام ابو حنیفہ ، امام شافعی ، امام مالک کے نزدیک متفقہ طور پر زمین کو مزارعت پردینا سُود اور ناجائز تھا پھر بعد میں بعض حنفی علماء نے اپنا مؤقف بدل دیا اور زمین کو مزارعت پر دینا جائز قرار دیا۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے بانی حضرت مولانا یوسف بنوری کے داماد حضرت مولانا طاسین صاحب نے بھی حقائق پر مبنی بڑی تفصیل کے ساتھ اپنا نکتہ نظر پیش کیا جس کو جمعیت علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن سمیت بہت سے معتبر علماء نے بہت سراہا لیکن وہ گوشہ گمنامی کا شکار ہوئے اور مفتی تقی عثمانی نے پہلے سودی رقم سے زکوٰة کی کٹوتی کو جائز قرار دیا اور پھر بینکنگ کے سودی نظام کو بھی اسلامی قرار دیا۔ آج کی طرح ہر دور میں علماء حق کا کردار پسِ منظر میں چلاگیا اور اسلام کو اجنبیت کی طرف دھکیلنے والے شیخ الاسلام بن گئے۔ دیوبندی مکتبہ فکر کی مشہور شخصیت حضرت مولانا قاری اللہ داد صاحب نے بتایا کہ ایک بڑے تاجر نے یہاں آکر کہا کہ تم لوگ اپنا حق ادا نہیں کررہے ہو، سُود کو مفتی تقی عثمانی نے جائز قرار دیا ہے اور آپ لوگ کھل کر ان کی مخالفت نہیں کرتے۔ میں نے کہا کہ ”ہماری سنتا کون ہے؟ ”۔ مولانا قاری اللہ داد صاحب مدظلہ العالی نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اس وقت آپ مجھے بڑے یاد آئے۔
حیدر آباد میں مفتی تقی عثمانی کے ایک شاگرد نے الزام لگایا ہے کہ طلاق و حلالہ کے حوالے سے مفتی محمد نعیم صاحب مدظلہ العالی پر دباؤ ڈالا گیاتھا۔ یہ بھونڈے الزام کسی کام کے نہیں ہیں۔ قرآن و سنت اور تمام مکاتب فکر کے ہاں اسلام کے غلبے کا تصور موجود ہے۔ اسلام کا غلبہ فرقہ واریت اور مذہبی تعصبات کی بنیاد پر نہ ہوگا بلکہ اسلام آفاقی دین ہے جو انسانی فطرت کا بہترین شاہکار ہے۔ پاکستان کی سرزمین سے قوم ملک سلطنت کے ذریعے تمام مذہبی طبقات کی یکجہتی سے اللہ کا دین نافذ ہوگا اور پوری دنیا اسلام کو دیکھ کر اسکے سیاسی ، معاشی ، اخلاقی ، معاشرتی اور مذہبی معاملے کو قبول کرے گی۔ اسلام میں نسلی تعصبات نہیں، وطنی تعصبات نہیں، لسانی تعصبات نہیں ، قومی تعصبات نہیں، فرقہ وارانہ اور مذہبی تعصبات نہیں بلکہ انسانیت کا بہترین نظام موجود ہے۔ دین میں زبردستی کا کوئی تصور نہیں اور ظالمانہ نظام کسی طرح سے بھی کہیں بھی قابل قبول نہیں۔ کوئی انسان ایسا نہیں جو ظلم کو اپنی فطرت کے مطابق صحیح سمجھتا ہو۔ البتہ لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ جب وہ بالادست ہوتے ہیں تو کمزور پر ظلم کو اپنا حق تصور کرتے ہیں۔ جب عدل کا نظام قائم ہوگا تو کوئی ظالم اپنی ہٹ دھرمی پر قائم نہیں رہ سکے گا۔ اسلام نے دنیا سے غلط اور باطل عقائد اور عقیدتوں کا جنون و جمودتوڑا تھا مگر آج فرقہ پرستی کی بنیاد پر لوگ پھر اسی جنون و جمود کا شکار ہوئے ہیں۔
غلطیاں سب سے سرزد ہوئی ہیںاور غلطیوں سے توبہ کا دروازہ موت تک بالکل کھلا ہے۔ ہم بہت سے تضادات کا زبردست شکار ہیں جب مذہبی طبقات حلال اور حرام کا تصور لیتے ہیں تو اس میں اپنے لئے گنجائش نکالتے ہیں اور دوسروں کیلئے راہ تنگ کردیتے ہیں۔ تصویر کو ناجائز سمجھتے ہیں مگر شوق سے ویڈیو بنواتے ہیں۔ پردے کو ضروری سمجھتے ہیں مگر اپنے اور پرائے کے درمیان اپنے کردار کا بہت تضاد رکھتے ہیں۔ کوئی سُود کو جائز قرار دے تو یہ رائے کا اختلاف ہے اور جوحقوق کی جنگ لڑے تو وہ اسلام کا باغی اور مرتد قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان امریکہ کی مدد کرے تو مجاہد لیکن افغان حکومت امریکہ کی آشیر باد لے تو کافر و گمراہ۔ یہ تضادات چلنے والے نہیں۔
ISIکے سابق افسر طارق اسماعیل ساگر نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں بلیک واٹر کو کھلی چھوٹ ملی تھی جس نے مذہبی دہشتگردوں کو پیدا کیا۔ وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے کہا کہ میں جب دہشتگردوں سے ملتا تھا تو اس وقت پوری دنیا ان کی حمایت کرتی تھی۔ سوشل میڈیا پر دونوں بیانات موجود ہیں۔ جب مشرکین مکہ کو جہالت ، سابقہ کفر اور اپنی بچیوں کو زندہ درگور کرنا معاف ہوگیا تو ہم بھی مختلف جہالتوں سے گزرے ہیں اور توبہ کرنے سے اللہ تعالیٰ سب کو معاف کرسکتا ہے۔ جو ہوا سو ہوا مگر اب آئندہ کیلئے کوئی درست لائحہ عمل تشکیل دیں تاکہ ہمارا مستقبل روشن ہوجائے۔
رسول اللہ ۖ نے حضرت ابو طالب کیلئے ہدایت کی دعا مانگی تھی مگر اہل سنت کے بقول قبول نہیں ہوئی۔ رسول اللہ ۖ نے حضرت امیر معاویہ کیلئے دعا مانگی تھی کہ اللہ ان کو ہادی اور مہدی بنادے۔ حضرت امیر معاویہ کے حق میں یہ دعا قبول تھی یا نہیں مگر ان کے دورِ حکومت کو خلفاء راشدین مہدیین میں شمار نہیں کیا جاتا ہے۔ اور سنی سادات ہی نہیں اہل تشیع کیلئے بھی معاویہ کے نام سے کوئی بغض نہیں ہوسکتا، اس لئے کہ یزید کے بیٹے معاویہ نے اہل بیت کی وجہ سے اقتدار چھوڑ دیا تھا۔ مگر معاویہ کا معنیٰ عربی میں ٹھیک نہیں ہے۔ اسلئے یہ نام نہیں رکھا جاتا ہے۔ صاحب کشاف تفسیر کے امام جار اللہ زمحشری نے لکھا ہے کہ معاویہ اس کتیا کو کہتے ہیں جو کتوں کو شہوت پر ابھارنے کیلئے آواز نکالتی ہے۔ بھیڑئے اور لومڑی کے بچے کو بھی معاویہ کہتے ہیں۔ حضرت علامہ مفتی شاہ حسین گردیزی نے اپنی کتاب ”تفتازانیہ” میں ساری تفصیل لکھ دی ہے جو حال میں چھپی ہے اہل ذوق دیکھ سکتے ہیں۔ سید عتیق الرحمن گیلانی