جون 2020 - Page 3 of 3 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

خواتین اپنے حقوق کیلئے قرآنی آیات کو ملاحظہ کریں!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
اللہ نورالسمٰوٰت والارض مثل نورہ کمشکٰوة فیھا مصباح المصباح فی زجاجة الزجاجة کانھا کوکب دری یوقد من شجرة مبٰرکة زیتونة لاشرقےة ولاغربےة یکاد زیتھا یضی ء ولو لم تمسسہ نارنور علی نور یھدی اللہ لنورہ من یشاء ویضرب اللہ الامثال للناس واللہ بکل شیء علیمO ( سورة النور :35) ”اللہ آسمان اور زمین کا نور ہے، اسکے نور کی مثال ایسی ہے جیسے طاق میں چراغ ہواور چراغ قندیل میں ہو اور قندیل جیساکہ چمکتا ہوا ستارہ ہو۔جو مبارک درخت زیتوں سے روشن ہورہا ہو۔ یہ قندیل نہ مشرق زدہ ہو اور نہ مغرب زدہ۔ قریب ہے کہ اسکا تیل روشنی دے اگرچہ اس کو آگ بھی نہ چھوئے۔ یہ نور علی نور ہے۔ جس کو اللہ چاہتا ہے اپنے نور کی رہنمائی دیتا ہے۔اور اللہ لوگوں کیلئے مثالیں بیان کرتا ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے”۔
اللہ کانور علی نور فقہاء کی خود ساختہ شریعت ظلمات بعضہا فوق بعض کے برعکس بالکل واضح ہے۔ مولانا فضل الرحمن طالبان کی تائید کرتا تھا کہ زبردستی سے بھی مردوں کو داڑھی رکھوانا جائز ہے مگرپاکستان کی شریعت اپنے ماحول کے مطابق بتائی تھی اور اکرم درانی کو چھوٹی داڑھی رکھواکر علماء ومفتیان کی بڑی تعدادکے باوجود بھی وزیراعلیٰ بنوادیا تھا۔قاضی حسین احمدنے اپنی بیٹی ہی کو ایم این اے بنوادیا تھا۔
سورۂ نور کی پہلی آیات میں مسائل کو مغرب ومشرق سے بالاتر ہوکر حل کیا گیا۔ 1: عورت اور مرد سب کیلئے یکساں سزا کی وضاحت کردی ۔ 100کوڑے اعلانیہ مارے جائیں تو مساوات کا سبق ملے گا۔ عورت شادی شدہ ہوتی تھی یا کنواری لیکن غیرت کے نام پر قتل کردی جاتی تھی۔ عورت پر بہتان کی سزا 80کوڑے لگانے کا حکم ہے۔ اس میں اشرافیہ اور غریب خواتین کی عزتیں اور ان کی سزائیں برابر ہیں۔ 2: عورت پر بہتان کے بعد چار گواہ نہ لائے جائیں تو بہتان لگانے والے جھوٹے ہیں اور ان کی گواہی ہمیشہ کیلئے قبول نہیں کی جائے گی،یہ سب کیلئے قابل قبول ہے ۔ 3: زناکار مرد نکاح نہیں کرتا مگر زناکار عورت یا مشرکہ سے اور زناکار عورت کا نکاح نہیں کرایا جاتا مگر زناکار مرد یاپھر مشرک سے اور مؤمنوں پر یہ حرام کردیا گیا ہے۔ 4: اگر مردوں میں سے کوئی اپنی بیگمات کے خلاف بولیں تو ان کیلئے لعان کا طریقہ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے جس میں مرد اور عورت کی گواہیاں بالکل برابر اور مساوی ہیں۔
قرآن نے سورۂ نور کی ابتدائی آیات میں معاشرتی نظام کا جو نقشہ پیش کیا ہے تو اس میں مشرق ومغرب کا کوئی فرق نہیں ۔ لیکن مردوں نے ان قوانین کی بہت کھل کر خلاف ورزیاں کی ہیں اسلئے خواتین کی بغاوت کا جذبہ بھی فطری ردِ عمل ہے اور اس میں قصور قرآن وسنت سے ناواقف خواتین کا نہیں بلکہ ہٹ دھرم اور بے شرم علماء ومفتیان کا ہے جو قرآن وسنت کی واضح تعلیمات سے بالکل منحرف ہوگئے ۔
میں نے آپ نیوز اور زوم نیوز نیٹ ورک کوالگ الگ انٹرویو دیا تھا مگر مختصر انٹرویوز کو نشر کرنے کی جرأت بھی نہیں کی گئی۔لاہور عورت مارچ میں زیادہ تر لوگ مخالفت ہی کیلئے میدان میں اترے تھے۔ مولانا فضل الرحمن کی طرف سے اس دھمکی کے بعد بتایا جارہاتھا کہ پہلے سے کم تعداد میں خواتین آئی ہیں۔ ہم نے اسلام آباد عورت مارچ کو قائداعظم یونیورسٹی کے طلبہ کی طرف سے پروٹیکشن پر اطمینان کے بعد فیصلہ کیا کہ لاہور عورت مارچ کے آرگنائزروں کو کچھ دلائل سمجھاتے ہیں مگر ان سے پریس کلب میں ملاقات طے ہونے کے باوجود بھی ملاقات نہ ہوسکی۔ جب پتہ چلا کہ اسلام آباد میں حالات خراب ہیں ، مرد طلبہ نامردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشکل وقت میں 9اور2گیارہ ہونے کی بات کررہے ہیں۔ ایک طرف علماء نے مشتعل ہجوم کے ذریعے دھمکیوں کا سلسلہ جاری رکھا اور دوسری طرف عورت مارچ کا انتظامیہ خوف وہراس کا شکار تھا تو ہم نے اسلام آباد پہنچنے کی بھرپور کوشش کی تھی۔
علماء ومفتیان کو مجھے انکے اپنے اسٹیج سے یا خواتین کے اسٹیج سے حقائق سے آگاہ کرنا تھا لیکن نہیں پہنچ سکا۔ پھر ڈی چوک میں بھی اس وقت ہم پہنچے جب پروگرام ختم ہوچکا تھا اور خواتین کو پریس کلب تک جانے میں خوف محسوس ہورہاتھا۔ ہم نے پہنچ کر یہ حق ادا کرنے کی کوشش کی کہ خواتین پر حملہ ہونے سے پہلے ہم اس کی زد میں آجائیں۔ جب پریس کلب سے ڈی چوک جانے کیلئے خواتین گئی تھیں تب بھی ان کے ساتھ ہماری نوشتۂ دیوار کی ٹیم ساتھ ساتھ گئی تھی۔ شاید خواتین کو پہلے ڈر بھی لگ رہا تھا کہ یہ مولوی حضرات کے بھیجے ہوئے لوگ تو نہیں ہیں۔ ہم نے اسلام آباد اور لاہور کے علاوہ کوئٹہ، کراچی، سکھر، حیدر آباد، میرپورخاص، نواب شاہ اور خیرپور میں بھی نوشتۂ دیوار کا شمارہ خوب عام کیا تھا جس سے علماء اور مذہبی طبقے کی بہت حوصلہ شکنی ہوئی ہوگی۔ ان کے پست حوصلوں کا نتیجہ ہی یہ نکلا تھا کہ وہ ناکام ہوگئے۔
اگر خواتین نے علماء ومفتیان کے خلاف دھمکیوں ، سازشوں اور ظلم وجبر کا نظام جاری کیا ہوتا تو پھر ہم نے علماء اور مذہبی طبقے کا ساتھ دینا تھا۔ ہماری ہمدرد یاں تمام مظلوم اور مجبور عوام کیساتھ ہیں۔ ہندوستان میں مسلمانوں پر ظلم ہورہاہے تو وہاں کی لتا حیاء شاعرہ ہندو خاتون نے مودی کے خلاف اپنی آواز بلند کررکھی ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ نے فرمایا کہ ”حضرت لبید نے اپنی زندگی میں کہاتھا کہ ہم نے بہت زبردست زمانہ دیکھا تھا لیکن اگر وہ لوگ زندہ ہوتے تو کیا کہتے ۔ لیکن اگر لبید نے ہمارا زمانہ دیکھا ہوتا تو کیا کہتے؟”۔ جب ایک خاتون نے طلاق کے بعد تیسرے حیض میں عدت پوری سمجھ کر شوہر کا گھر چھوڑ دیا تو لوگوں نے کہا کہ قرآن کی خلاف ورزی ہوگئی ہے لیکن حضرت عائشہ نے فرمایا کہ قرآن میں عدت کے تین اَقراء سے اطہار مراد ہیں۔اس نے ٹھیک کیا ہے۔ حنفی فقہاء نے حضرت عائشہ کے قول کو قرآن کے منافی قرار دیدیا۔ نبیۖ نے حضرت عائشہ اور ازواج مطہرات سے فرمایا کہ میرے بعد حج کرنے کی کوئی ضرورت نہیں لیکن حضرت عائشہ نے حج بھی کیا اور شام کے لشکر کی قیادت بھی کی۔ حضرت عمر کے بہنوئی مار کھا رہے تھے مگر آپ کی بہن نے للکارا کہ تم خطاب کے بیٹے ہو تو میں بھی خطاب کی بیٹی ہوں اور تم جو کچھ کرسکتے ہو کرڈالو، ہم نے اسلام قبول کرلیا ہے۔ عمر اپنی بہن کی جرأتمندانہ للکارسے مرعوب ہوکر اسلام لائے۔ علماء دہشت گردوں سے خوف کھا رہے تھے تو بینظیر بھٹو نے للکارا۔ جب نواز و شہبازشریف نے پرویزمشرف کیساتھ ڈیل کی تھی تو نصرت شہباز اور کلثوم نوازنے میدان میں مقابلہ کیا تھا۔ جب ولی خان کو جیل میں ڈالا گیا تو بیگم نسیم ولی نے میدان سنبھالا تھا۔ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تو نصرت بھٹو ہی میدان میں اتری تھی۔ حضرت حسین کی شہادت کے بعد تحریک کی روحِ رواں آپ کی ہمشیرہ حضرت زینب نے تحریک کامیدان سنبھالا تھا۔
جب اسلام آباد دھرنے میں ایک بوڑھی خاتون سے کہا گیا کہ آپ چلو یہ لوگ مارینگے تو اس نے کہا کہ”میں بالکل نہیں اُٹھوں گی۔ یہ وہی لوگ تو ہیں جو اپنی ماں ، بہن ، بیٹیوں اور بیگمات کو اپنے گھروں میں مارتے ہیں۔اچھا ہے کہ مجھے بھی یہ لوگ ماریں۔انکے خلاف تو احتجاج کرنے نکلی ہوں”۔جب طالبان دہشتگردوں نے ہمارے گھر میں مہمان اور میزبان مرد و خواتین کو شہادت کی منزل پر پہنچایا تو میری بوڑھی مامی ان سے کہہ رہی تھی کہ تم نے امریکہ کے ڈالر کھا رکھے ہیں اسلام کی جنگ نہیں لڑ رہے ہو ، جس پر انکے سرپر بندوق کے بٹ مارے گئے۔بھارت میں مظالم کے خلاف مرد خاموش ہیں توایک ہندو شاعرہ لتا حیاء خواتین پر فخر کررہی ہیں۔

علتِ مشائخ کی تباہ کاریوں سے زمین پر لرزہ طاری؟

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

کچھ عرصہ پہلے فیصل آباد کے معروف جامعہ کے مہتمم شیخ الحدیث مولانا نذیراحمد کے خلاف فجر کی نماز کے بعد ایک طالب علم نے کھڑے ہوکر گواہی دی کہ مجھے جبری جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔پھر یکے بعد دیگرے ایک اچھی خاصی تعداد نے اپنی شکایت روتے ہوئے سنائی۔ شیخ الحدیث مولانا نذیر احمد مفتی محمدتقی عثمانی کا دوست تھا۔ 25سے 30 بچوں نے اپنے اوپر جنسی تشدد کی گواہی دی۔ شیخ الحدیث نذیر احمد کے بیٹوں نے اپنے باپ سے تنازعہ کیا اور فیصلے کیلئے مفتی محمد تقی عثمانی کو بلایا تھا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن وسنت میں علماء ومفتیان کے ہاں اس بات پر کیا سزا ہوسکتی ہے۔ اس کا بالکل بہت سادہ اور واضح جواب یہ ہے کہ ہر بچے اور لڑکے کو چار چار گواہ پیش کرنے ہونگے، تب ہی کسی سزا کا تصور ہوسکتا ہے لیکن اگر کوئی اپنے خلاف جبری جنسی تشدد کی شکایت نہ کرے تو پھر ”میرا جسم میری مرضی” کی گونج اپنی قومی اسمبلی میں بھی قادر پٹیل اور مراد سعید کے حوالے سے سنائی دیتی ہے۔
گوجرانوالہ سے تبلیغی جماعت کے کارکن سید زاہدشاہ گیلانی نے مختلف عوامی اور سرکاری حلقوں میں ناظرہ قرآن کا درس شروع کیا تو علماء کو کام پسندآیا مگر حسدبھی رکھا۔ زاہد گیلانی نے بتایا کہ علماء نے کہا کہ قوم لوط کاعمل علتِ مشائخ ہے۔ 17مارچ کو حافظ آباد سے خبر میڈیا پرنشر ہوئی ” 13 اور 16 سالہ دوبھائیوں کو جنسی تشدد کے بعد قتل کرکے پھینکا گیا ”۔ رحیم یار خان میں 10 سالہ بچی کو جنسی تشدد کے بعد قتل کیاگیا۔ڈارک ویب کا کارکن گینگ سمیت پکڑاگیا۔ تسلسل سے جنسی تشدد جاری ہے۔ قوم تماشہ دیکھ رہی ہے۔عورت مارچ نے جنسی تشدد اور پدرِ شاہی نظام کیخلاف نعرہ بلند کیا تو ریاست، صحافت، سیاسی ومذہبی پنڈتوں نے دوسرا رنگ دینے کی کوشش کی اور یہ تأثر قائم کردیا کہ یہ بیہودہ خواتین اپنے جسم کو پیش کررہی ہیں۔
چلو مان لیا کہ یہ خود کو پیش کررہی تھیں حالانکہ سلیم فطرت خواتین ایسا نہیں کرسکتی ہیں لیکن جبری جنسی تشدد کیخلاف توکم ازکم آواز اٹھارہی تھیں۔ ”جب فرشتے لڑکوں کی شکل میں حضرت لوط علیہ السلام کے پاس عذاب دینے کیلئے آئے تو قوم نے کہا کہ ہم ان سے بدفعلی کرینگے۔ حضرت لوط ؑنے کہا یہ میری بیٹیاں ہیں اگر تم کرتے ہو۔ کہنے لگے کہ ہمیں ان سے غرض نہیں، یہ آپ جانتے ہیں“(قرآن)۔ بدکردار قوم کیساتھ حضرت لوطؑ کی پردہ دار بیوی بھی ملی ہوئی تھی۔پھر اللہ نے ان پر عذاب نازل کیا تو بیوی بھی اس کی لپیٹ میں آگئی۔یہ تو اللہ ہی جانتا ہے کہ حیا مارچ کے نام پر مولوی اور جماعتِ اسلامی والوں کی بیگمات بگڑی تھیں یا جن خواتین کیلئے مذہبی طبقے نے معاشرے میں یہ تأثر قائم کیا کہ خبیث مردخبیث عورتوں کیلئے ہیں؟۔
دریا میں پشاور کے کارخانوں مارکیٹ کا کیمیکل اور ڈیرہ اسماعیل خان سمیت ساراگٹر سسٹم ڈالا جاتا ہے۔ یورپ میں جتنے لوگ کرونا وائرس سے مرتے ہیںاگر ان کو ہمارا پانی پلایا جائے تو اس سے کئی گنا شرح اموات میں اضافہ ہوگا۔ جب بنی اسرائیل کی حالت ناقابلِ اصلاح ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے چالیس سال تک جنگل میں رہنے کی سزا دی۔ کروناسے زیادہ خطرہ پچاس سال سے زیادہ عمر والوں کیلئے ہے۔ جبری جنسی تشدد ، غلامانہ نظام اور محنت کش طبقات کی زندگیوں کا اجیرن ہونا بہت بڑا المیہ ہے۔ کرونا پر قابو پالیںگے لیکن جب تک ظلم وستم کے خاتمے کیلئے ایک مشترکہ لائحۂ عمل تشکیل نہ دیا جائے تو ایکدوسرے کی مخالفت سے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔
خلیل الرحمن قمر نے ڈرامے لکھے مگر قرآن وسنت اور انسانی فطرت سے انحراف کی چالیں نہیں دیکھی ہیں۔ جنرل پرویزمشرف کے دور میں خواتین تحفظ بل منظور کرنے کی بات ہوئی ، جس کی بنیاد یہ تھی کہ 80فیصد سے زیادہ خواتین جیل میں بند تھیں کہ ان کیساتھ جبری جنسی زیادتی ہوئی تھی اور جب چار عادل گواہ پیش کرنے سے قاصر رہیں تو اُلٹا انہی کو قید کردیا گیا۔ حدود آرڈینینس میں تبدیلی کی بات ہوئی تو شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے اسکے خلاف بہت بھونڈے انداز میں لکھ دیا۔ جس کو جماعت اسلامی نے چھاپ کر بڑے پیمانے پر اس کی تشہیر کردی۔ اس وقت ہم ضرب حق کے نام سے اخبار نکالتے تھے۔ ہم نے ایک پمفلٹ لکھ کر مفتی تقی عثمانی کے دانت کھٹے کردئیے تھے۔ اسی لئے زرداری کے دور میں خواتین تحفظ بل کی کسی نے مخالفت نہیں کی ۔ قرآن میں زنا بالجبر کی سزا قتل اور حدیث میں سنگساری ہے ۔
اگر خواتین کو مغربی نظام اور مغربی لبادہ کسی قدر زنا بالجبر سے تحفظ دے اور برقعہ یا اسلامی نظام جبری جنسی زیادتی سے تحفظ نہیں دے سکتاتو آج چند خواتین ہیں ، کل خواتین کی بڑی تعداد ہوگی، انکا راستہ جبر وتشدد کے ذریعے سے نہیں روکا جاسکے گا۔
انسان کو زیادہ غیرت اپنی بیوی پر آتی ہے مگر ایسے بھی ہیں جن کو بیوی توکیا خود پر بھی غیرت نہیں آتی اسلئے کہ ان کی فطرت مسخ ہے ۔جو بیوی پر غیرت نہیں کھاتا بلکہ اس کو استعمال کرتا ہے تو اس کو دیوث کہتے ہیں۔ اشرافیہ کا گراف غیرت کے لحاظ سے افق پر نہیں۔ علتِ مشائخ نے مذہبی طبقے کا ضمیرمردہ بنایاہے۔ اسلام آباد عورت مارچ کیخلاف نکلنے والا مذہبی طبقہ غیرت رکھتا تو جنسی تشدد میں قتل کے خلاف عوام کو جلسے جلوسوں کی شکل میں احتجاج کیلئے ضرور نکالتالیکن وہ ایسا نہیں کرتے ہیں۔
ہمارے وزیرستان کےMNA پی ٹی ایم کے رہنما علی وزیر نے اسلام آباد عورت مارچ میں شرکت کی ، جس پر اسٹیج سے ان کا شکریہ بھی ادا کیا گیا مگر جب اس نے حالات کا جائزہ لیا تو موقع پر رفوچکر اور نو دو گیارہ ہونے میں عافیت جانی۔ فوج کیخلاف نعرہ لگانے والے کیلئے عورت مارچ میں مذہبی طبقہ کیخلاف کھڑا ہونا خالہ جی کا گھر نہ تھا۔ علی وزیر نے قومی اسمبلی میں کہا ”جو کچھ کہوں گا سچ کہوں گا۔سچ کے علاوہ کچھ نہیں کہوں گا۔ قبائلی علاقوں کے بڑے پاک فوج کی حمایت کی وجہ سے طالبان نے شہید کئے۔ میرا خاندان بھی فوج کی حمایت کی وجہ سے شہید کیا گیا”۔ حالانکہ اس میں کوئی صداقت نہیں ۔ البتہ جن لوگوں نے یہ الزام لگایا تھا کہ فوج اور طالبان نے ملکر ان کو شہید کیا ہے تو اس کی نفی ہوگئی ۔ شمالی و جنوبی وزیرستان میں وزیر قبائل نے بڑے پیمانے پر طالبان کی حمایت کی۔ ڈاکٹر گل عالم وزیر پہلے طالبان کیساتھ تھا اور اب علی وزیر کا ساتھی ہے۔ منظور پشتین کی بات درست ہے کہ ”ہم ظلم کیخلاف ہیں ، ظلم کوئی بھی کرے تو اسکے خلاف ہیں”۔ مذہبی طبقہ کا ظلم سامنے نہ لایا جائے توہم ایمان نہیں بچاسکتے ۔ مخصوص طبقہ کو ٹارگٹ کرنے کا اچھا نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ پاکستانی آئین اور ہمارے معاشرے کی بنیاد اسلام ہے اور اسلام کوعلماء نے مظلوم بنایا ہوا ہے۔ پاکستان میں جہیز اور حق مہر کے نام پر خواتین کو فروخت کرنے کا جس طرح کا ظلم معاشرے میں روا رکھا گیا ہے اور ان کی عزتوں کو حلالہ کے نام پر جس طرح سے لوٹا جارہاہے ۔ جبری جنسی زیادتی کو جس طرح قانونی تحفظ حاصل ہے۔ جب تک ان تلخ حقائق کو ہم درست طریقے سے ختم کرنے کا ٹھوس لائحۂ عمل تشکیل نہیں دیتے ،تو ہمارے مردہ معاشرے میں احسا س کی روح نہیں جاگ سکتی ہے۔
فوج، عدالت، سول بیوروکریسی ،سیاستدان، صحافی اورعلماء کرام ایک پیج پراس خطرناک وائرس کرونا سے بڑھ کرجرائم اور ظالمانہ رویوں کے خلاف قومی ایکشن کی تیاری کریں۔ قرآن وسنت ہی سے ظلم وجبر کے نظام سے چھٹکارامل سکتا ہے۔جب مذہبی لوگوں نے دہشت گردی کے ذریعے پوری دنیا کو ہلا ڈالا تودنیا میں اسلام بہت بدنام ہوا، لوگوں کو مسلمانوں سے نفرت ہونے لگی ۔ قرآن وسنت کے فطری قوانین کو دنیا میں متعارف کرایا گیا تو اسلام سے باغی اور تمام انسان اسلام کو پسند کرینگے۔

عورت آزادی مارچ پر حملہ اور خواتین کی ثابت قدمی!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

اللہ نے فرمایا کہ ”اے بنی آدم ! تمہیں شیطان ورغلائے نہیں کہ تمہیں ننگا کر دے جس طرح تمہارے والدین کو ننگا کرکے جنت سے نکلوادیا تھا”۔(القرآن)
ہم جو انسانوں کی تہذیب لئے پھرتے ہیں
ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں
ساحر لدھیانوی نے 1914ء میں یہ غزل لکھی تھی ، عورت آزادی مارچ اس کی عکاسی کرتی ہے۔عصمت شاہجہان کی تقریر غمازی کرتی ہے کہ یہ لوگ ظالمانہ نظام کیخلاف ہیںجس میںعورتوں،بچوں اور خواجہ سراؤں کا استحصال ہورہاہے۔
تشددکے بعدہدیٰ بھرگڑی نے جس تضاد کا ذکر کیا، یہ عورت پن کا کمال ہے ۔ مردوں کی نیچ حرکتوں اور جنسی ہراسمنٹ کا خدشہ غیرتمند عورت کوجتنا خوفزدہ کرتاہے اس کمزوری کے احساس کاتخمینہ جانور سے بدتر بے غیرت مرد نہیں لگاسکتے ۔طالبان نے میری وجہ سے میرے گھر پر حملہ کرکے 13افراد شہید کردئیے۔ میرابھائی، بہن، بھتیجا، بھانجی،ماموں زاداور خالہ زاد ، مسجد کے امام ، گھرکے خادم، دور و قریب کے مہمان محسود، مروت ، جٹ، آفریدی جن میں حافظ، عالم اور مجذوب شامل تھے۔ یہ چھوٹا کربلا برپا ہوا تو ایک بزرگ خاتون میری مامی نے موقع پر طالبان سے کہا کہ تم امریکہ کے ایجنٹ ہو، ڈالر تم نے کھائے ہیں ، اسلام کا تمہیں فکروغم نہیں ۔کوئی بوڑھی عورت نیک نمازی اور پرہیزگار ہو تو خود کش بمباروں، راکٹ لانچروں، بموں اور جدید اسلحہ سے لیس دہشت گردوں کو چیلنج کرتی ہے کہ آبیل مجھے مار۔ اسلام آباد میں مذہبی طبقے نے پتھر، ڈنڈے اورجوتے برسائے تو ایک معمر خاتون ڈٹ کر بیٹھ گئی کہ یہ وہی لوگ ہیں جو اپنے گھروں میں اپنی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو بھی مارتے ہیں، مجھے یہاں سے نہیں جانا بھلے مجھے بھی ماریں،انہی کیخلاف تو ہمارا احتجاج ہے۔ عوامی ورکر پارٹی کے کارکن قائداعظم یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹ سوات کے امجد نے اماں کو اٹھانے کی کوشش کی تو پتھر امجد کے سر پر لگا جس سے اسکے سر میں بہت بڑا گومڑ نکلا۔ جوان لڑکی کو اپنی عزت لٹنے کا جو خطرہ ہوتا ہے بوڑھی عورت کو اسکا خوف نہیں رہتا ۔
کافی عرصہ بیت گیا، ہمارے ساتھ ہونیوالے سانحہ پر ایک آنسو بھی نہیں ٹپکامگر جب اپنی بھتیجیوں کا واقعہ کے بعد ٹانک سے پشاور آتے ہوئے خوف کاماحول سن لیا تو مہینوں آنکھوں کے آنسو پر قابو نہیں پاسکتا تھا۔ جب میرے بڑے بھائی نے مجھے فون کیا کہ اس قربانی سے لوگوں میں امن کا ماحول قائم ہوگا تو یہ سستا سودا ہے تومیں نے عرض کیا کہ ہماری قربانی کچھ بھی نہیں ہے۔جن خواتین کو برہنہ کرکے پنجاب کی سرزمیں پر سرعام گھمایا جاتا ہے جب تک اسکا تدارک نہ ہو ،یہ عذاب ٹل نہیں سکتا ۔ پھر ڈیرہ اسماعیل خان میں لڑکی کو برہنہ کرنے کا واقعہ ہوا۔ جنسی تشدد کے بعد بچوں کو قتل کرنے کے واقعات صوبے صوبے، شہر شہر اور گاؤں گاؤں پہنچ رہے ہیں۔ تماشہ دیکھنے والے سمجھ رہے ہیں کہ ہمارا مستقبل محفوظ ہوگا؟۔ بھارت کا حال بھی لتا حیا کی شاعری میں جھلک رہاہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے مولانا فضل الرحمن کے فتوے سے مذاق مذاق میں خوف کا اظہار کیا تھا مگرمولوی کسی پر فتویٰ بھی لگاتا ہے تو عوام، تھانہ، عدالت ،ریاست اور حکومت اس کی تردید کرنے کی جرأت نہیں کرسکتی ہے۔
عورت آزادی مارچ نے اسلام آباد میں جس طرح جرأتمندانہ کردار ادا کیا ہے تو ہماری حکومت، ریاست، سیاست اور صحافت کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ اگلے الیکشن میں خواتین کو جتوائیں۔ جرأتمند خواتین سے گزارش ہے کہ لیفٹ اور رائٹ ونگ کا چکر چھوڑ کر معتدل معاشرے کی تشکیل میں اپناکردار ادا کریں، جس سے تمام باطل قوتوں کو جلد سے جلد شکست کا سامنا کرنا پڑے۔ عوامی ورکر پارٹی پنجاب کے صدر عاصم سجاد سے ایک ملاقات ہوئی تھی لیکن پھر وہ برطانیہ چلے گئے۔
کسی معاشرے میں ظلم کا راج ختم کرنا صرف ریاست کیلئے ممکن نہیں ہوتاہے۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں اساتذہ کرام اور طلباء عظام بالکل اولیاء تھے لیکن جب وہاں مردان کے کچھ بدمعاش طلبہ نے اپنا راج قائم کیا تھا تو اللہ کے فضل وکرم سے مجھے اللہ تعالیٰ نے ان کا راج ختم کرنے کی توفیق دی اور میں کامیاب ہواتھا۔
یاا یھا الجیش من نساء اہل المردان
ان کنتم رجالًا فتعالوا الی المیدان
ترجمہ:”اے مردان کی عورتوں کا لشکر اگر تم مرد ہو تو پھر میدان کی طرف آؤ”۔
مولانا نجم الدین مردانی نے شروع سے آخر تک جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں تعلیم حاصل کی، جب وہ مفتی کا کورس کررہاتھا تو مار کٹائی پر فتویٰ لکھ دیا، وحشیانہ پٹائی کو ناجائز قرار دیا۔ طلبہ نے فتوے کی فوٹو کاپیوں سے آئینہ دکھایا تو مولانا نجم الدین کو مدرسہ نے نکال دیا۔ میں نے کہا کہ فتوے کا جواب فتویٰ تھا، مولاناکو نکالنا بہت ظلم ہے۔ مردانی طلبہ نے مجھے بتایا کہ نجم الدین نے مفتی محمد ولی کو دھمکی دی کہ ” ریلوے اسٹیشن پہنچوگے تو میں تمہاری شلوار اتاروں گا”۔ میں نے کہا کہ یہ جرأت تو مدرسے کے چوکیدار کیلئے بھی غلط ہے ۔ میں مفتی ولی سے پہلے اسٹیشن پہنچا تو ڈھونڈنے کے باوجود نجم الدین نہ ملا۔ مفتی ولی صاحب پہنچے تو میرے کلاس فیلو مولانا صادق حسین اور حاجی عبداللہ (خادمِ خاص مولانا بنوری) بھی ساتھ آئے تھے۔مفتی صادق حسین آف ٹل پاڑہ چنار نے بعد میںبتایا کہ وہ اپنے ساتھ پسٹل بھی لایاتھا۔میں نے بعد میں بہانہ سے مردانی طلبہ کی پٹائی لگائی اور ان کو چیلنج کیا ، انہوں نے جب مفتی ولی کو ایکشن لینے اورداد رسی کیلئے میرے اشعار دئیے تو مفتی صاحب گنگناتے ہوئے میرے اشعار درسگاہ میں پڑھتے تھے جس کی وجہ سے مجھے ان طلبہ پر رحم آیا۔
ہم نے عورت آزادی مارچ سے پہلے کراچی، کوئٹہ ،لاہور، سکھر، خیرپور، نواب شاہ ، حید ر آباد اور اسلام آباد میں نوشتۂ دیوار خوب پھیلانے کی کوشش کی۔ جس میں عورت آزادی مارچ کی زبردست حمایت اور مذہبی طبقے کے ایمان کا پول کھول کر بڑی حوصلہ شکنی کی تھی۔ اگر ہم چاہتے تو عورت آزادی مارچ کی دھجیاں بکھیرنے کی سرخیاں لگاکر خراج کی خیرات وصول کرسکتے تھے مگر ضمیر کا شفاف آئینہ بفضل تعالیٰ اتنا باریک ہے کہ بڑے حادثے کے بعد مظلومیت کی ہمدردی کا اظہار بھی غبارکی مانندایک بڑا بوجھ لگتا تھا۔ کمزوروں پر طاقت آزمائی بڑے کمینے لوگوں کا کام ہے۔
لاہور عورت مارچ میں آپ نیوز ٹی وی چینل نے میرا مختصر انٹرویو ریکارڈکیا مگر ایک جملہ نشر کیا ۔ مبشر لقمان اس کونشر کرکے علماء سے رائے مانگ لیں۔ عورت مارچ میں یہ پلے کارڈ بھی تھا کہ اسلام نے ہمیں حقوق دئیے مگر مسلمان نہیں دیتا ۔ میں نے بہت کھلے الفاظ میں کہا تھا کہ عورت آزادی مارچ انقلاب ہے، عورت اپنے حق کیلئے نہیں اُٹھے گی تو مردوں نے ان کو حق نہیں دینا ہے۔ ایک طاقتور مرد کو قرآن کہتا ہے کہ اپنی بیوی کیساتھ کسی کوکھلے عام رنگ رلیاں مناتے ہوئے پکڑلو تو فحاشی کی بنیاد پر اس کو چھوڑ سکتے ہو مگر قتل نہیں کرسکتے۔ لیکن طاقتور مرد کہتا ہے کہ میں قرآن کا حکم نہیں مانتا ہوں ، لعان کرنے کی بجائے اس کو قتل کروں گا۔ مولوی اور معاشرہ کبھی نہیں کہتا کہ قرآن کا حکم نہیں مانتا اسلئے کافر وفاسق ہوگیا۔ دوسری طرف طاقتور مرد کسی عورت کی عزت زبردستی سے اسکے کمزورخاوند کے سامنے لوٹتا ہے اور وہ انصاف لینے جب اسلامی عدالت پہنچ جاتے ہیں تو زبردستی سے زیادتی کرنے والوں کی داد رسی تو بہت دور کی بات ہے، الٹا شکایت کرنے والوں سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ چار مرد گواہ لیکر آؤ۔ نہیں تو حدِ قذف کی سزا بھی کھاؤ۔ کیا مولوی کایہ اسلام قابلِ قبول ہوسکتا ہے؟۔

اسلام آباد عورت آزادی مارچ 2020

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

وہ بھیانک دور جب دہشتگرد دندناتے پھرتے تھے اور سرکاری عمارتوں ، گاڑیوں اور شخصیات کے علاوہ مساجد اور امام بارگاہوں کو بھی خودکش حملوں کا نشانہ بناتے تھے۔ لیکن ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالتا تھا۔ عمران خان کھلاڑی نے جب ڈاکٹر طاہر القادری کیساتھ اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا تو ایک طرف جنرل راحیل شریف نے دہشتگردی کے خلاف ضرب عضب آپریشن شروع کیا تھا تو دوسری طرف عمران خان پنجاب پولیس کے گلوں بٹوں کو طالبان کے حوالے کرنیکی دھمکیاں دے رہا تھا۔ اس وقت حیاء مارچ کی نمائندگی ڈاکٹر طاہر القادری کی خواتین کررہی تھیں اور میرا جسم میری مرضی والوں کی نمائندگی عمران خان کا دھرنا کررہا تھا۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے حیاء مارچ کی نمائندگی کرنے کے بعد ایک ضمنی سیٹ کا الیکشن ہارا تو بعد ازاں اس سیاست کو بھی خیر باد کہہ دیا۔ جبکہ میرا جسم میری مرضی والوں کی نمائندگی کرنے والے عمران خان کو پورے پاکستان میں سب سے زیادہ سیٹیں اور ووٹ مل گئے۔ یہ کس کا کرشمہ تھا ؟ لیکن انہی خواتین نے جب پدرِ شاہی نظام کے خلاف علم بلند کردیا تو حکومت ، ریاست ، سیاست اور مذہبی طبقات کی طرف سے ان کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ پی ٹی ایم کا تعلق بھی پی ٹی آئی والوں سے ہی تھا۔ جب کوئی انصاف طلب کرتا ہے تو اس کو ملک دشمن اور اسلام دشمن قرار دیا جاتا ہے۔ جب ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین روزانہ کی بنیاد پر جرنیلوں کو قبضہ کرنے کی دعوت گناہ دیتا تھا تو اس کی تمام دہشتگردی اور اجارہ داریوں کو برداشت کیا جاتا تھا۔
ہمارا ریاستی نظام امریکہ سے زیادہ کمزور ہے لیکن کوئی واقعہ جب امریکہ کے وائٹ ہاؤس سے صدر ٹرمپ کو بھگا سکتا ہے تو کوئی تحریک ہمارے نظام کو بھی تتر بتر کرسکتی ہے۔ جب جنرل ضیاء الحق کے دور میں بینظیر بھٹو آئی تھیں تو نظام کو خطرہ لاحق ہوگیا تھا۔ حبیب جالب نے کہا تھا کہ
ڈرتے ہیں بندوق والے ایک نہتی لڑکی سے
عورت آزادی مارچ والوں نے پدرِ شاہی نظام کے خلاف آواز اٹھائی تو ہر طرف سے لوگ اور ان کی جعلی لیڈر شپ انکے خلاف ہوگئی۔ نوشتہ ٔ دیوار کی ٹیم نے ثابت قدمی کے ساتھ ان نہتی خواتین کی حفاظت کا فریضہ پورا کرنے کی کوشش کی جن کو ریاست کی پولیس پر بھی اعتماد نہ تھا۔ درج بالا تصویر میں نوشتہ دیوار کی ٹیم نمایاں ہے جو خواتین پر پتھراؤ کے بعد پریس کلب سے ڈی چوک کی طرف کے سفر میں بالکل ساتھ ہے۔ سید شاہجہان گیلانی ، بلال خان ، علی خان نے بہت جرأت مندی کے ساتھ ظالموں کیخلاف مظلوموں کا ساتھ دیا۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید سوشل میڈیا کے ورکر مرد میدان نہیں ہوتے لیکن یہ تصور غلط ثابت ہوا ہے۔
بلوچ نژاد سندھی ہدیٰ بھرگڑی وہی خاتون ہیں جس کی پہلی تقریر امریکہ کے خلاف اور طالبان کے حق میں تھی لیکن وزیرستان میں طالبان کیلئے سب سے زیادہ ایکٹو قوم محسود کے سرنڈر طالبان کو ایک مخصوص لباس پہنا کر پاکستان کا قومی ترانہ گانے پر مجبور کیا جاتا ہے جس پر پاک فوج کو دل کی گہرائی سے سلام پیش کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہ بے ضمیر قومی جذبات کا غلط فائدہ اٹھا کر اپنی پشت میں بارود دبا کرملکی اثاثوں اور اپنی عوام کو تباہ کررہے تھے۔ ذیل میں ہم نے شہباز تاثیر اور قاری سعد اقبال مدنی کے بی بی سی پر نشر ہونے والے انٹرویوز بھی دئیے ہیں۔ اسلام کی خاطر قربانی دینے والے طبقات میں اگر درست شعور اجاگر ہو تو پھر بعید نہیں کہ ہماری ریاست ، ہماری سیاست اور ہمارا نظام بھی بدلے اور اس کیلئے صنف نازک خواتین کی طرح صرف اور صرف آواز اٹھانے کی قربانی اللہ کے ہاں قبول ہوجائے۔

 

اسلام مشرق و مغرب کی تہذیب سے بالاتر دین ہے: عتیق گیلانی

 

جب دنیا میں جہالت کی اندھیر نگری تھی تو خانہ کعبہ کا ننگا طواف کیا جاتا تھا۔ لونڈیوں کا لباس ناف سے رانوں تک اور حسن نساء (سینے کے ابھار) تک محدود ہوا کرتا تھا۔ لوگ اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کرنا غیرت کا تقاضہ سمجھتے تھے ۔ مظالم کی کوئی حد طاقتور لوگوں کیلئے نہیں ہوتی تھی۔ فرقہ پرستی اور قوم پرستی نے انسانیت کا بٹوارہ کر رکھا تھا۔ عرب عجم، سفید فام و حبشی اور کالے گورے کی بنیاد پر نسل آدم تقسیم تھی۔
اسلام نے لوگوں کے اقدار بدل دئیے۔ رسول ۖ نے فرمایا کہ لوگ چار وجوہات کی بنیاد پر اپنے لئے بیگمات کا انتخاب کرتے ہیں۔1: نسل و نسب کی بنیاد پر ۔ 2: مال و دولت کی بنیادپر۔ 3: حسن و جمال کی بنیاد پر ۔ 4: کردار کی بنیاد پر۔ تیری ناک خاک آلودہ ہو آپ کردار کو ترجیح دو۔
یہ روایت صحیح بخاری میں ہے اور وفاق المدارس کے صدر محدث العصر مولانا سلیم اللہ خان بانی جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کراچی نے اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھ دیا ہے کہ نبی ۖ نے فرمایا ہے کہ یہ چاروں خوبیاں عورت میں موجود ہونی چاہئیں ۔ (کشف الباری)۔ حالانکہ اس حدیث میں لوگوں کے فطری رجحانات کا ذکر ہے۔ کوئی مالی کمزوری کو دور کرنے کیلئے مالدار عورت کو ترجیح دیتا ہے تو کوئی حسن و جمال کو ترجیح دیتا ہے، کوئی نسب کو ترجیح دیتا ہے اور کوئی کردار کو ترجیح دیتا ہے۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ تمہیں کردار کو ترجیح دینی چاہیے۔ جب کردار کو ترجیح دی جائے گی تو مالدار ، حسن و جمال اور اعلیٰ نسب والے اپنے کردار کو ہی بدلیں گے۔ جس سے معاشرے کی اقدار بدل جائیں گی۔
ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جن لوگوں سے توقع کی جارہی ہے کہ وہ اسلام کی درست تشریح کریں گے وہی اسلام کی تعلیمات کا بیڑہ غرق کررہے ہیں۔ ہمارے ہاں جب علم ہی درست نہ ہوگا تو کردار سازی کہاں ہوگی؟۔ مگر جب علم درست ہوگا تو کردار سازی کیلئے مضبوط بنیادیں ہم فراہم کرسکیں گے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم مذہبی طبقات کی ہی مخالفت کرتے ہیں حالانکہ ہم مذہبی طبقات کی جہالتوں پر تنقید کرکے اپنی جانوں کے سروں کیساتھ کھیل رہے ہیں۔
جو لوگ ”میرا جسم میری مرضی” کے نام پر خواتین کے خلاف مہم جوئی کررہے ہیں وہ اپنی دانست میں درست ہی کررہے ہونگے۔ لیکن جو خواتین اپنے حقوق کا علم بلند کئے ہوئے ہیں انکی بات کو غلط رنگ دینے کے بجائے درست توجیہہ دینے کی ضرورت ہے۔ جو عورت چیخ رہی ہے، چلا رہی ہے اور غیظ و غضب کا اظہار کررہی ہے کہ مجھے رستے میں آتے جاتے تاڑ کر مت دیکھو، کہنیاں مت مارو، ریپ مت کرو، ریاست ہمیں تحفظ دے تو اسکے خلاف یہ کہنا کوئی حقیقت نہیں رکھتا کہ وہ چاہتی ہیں کہ ہم لوگوں کو اپنا جسم ہی پیش کرکے دنیا میں رہنا چاہتی ہیں۔ مینار پاکستان پارک لاہور کے قریب ہیرا منڈی ہے اور وہاں آئے روز مذہبی و سیاسی لوگ جلسے جلوس کرتے رہتے ہیں مگر مجال ہے کہ کبھی انہوں نے ہیرا منڈی کے خلاف آواز اٹھائی ہو۔ اب تو یہ معاملہ فیس بک کے آن لائن شاپوں سے بڑے بڑے عالی شان بنگلوں تک کھلے عام پھیلا ہوا ہے۔ ایک عورت بگڑتی ہے تو آس پاس کا پورا معاشرہ بگڑ جاتا ہے۔ کیونکہ عورتوں میں قدرتی طور پر اللہ تعالیٰ نے اپنی حفاظت کا بڑا مادہ رکھا ہے۔ قرآن میں اس کو اللہ کی حفاظت کا نام دیا ہے۔
اسلامی جمہوری اتحاد پیپلز پارٹی کے خلاف بنایا گیا تھا۔ اسلامی جمہوری اتحاد کے صدر پیپلز پارٹی کے رہنما غلام مصطفی جتوئی ہی تھے۔ نائب صدر مولانا سمیع الحق تھے اور اس اتحاد کے نتیجے میں میاں نواز شریف پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے۔ مولانا سمیع الحق کے خلاف میڈم طاہرہ کا وہ اسکینڈل اخبارات کی زینت بنا جس سے علماء اور اسلامی جمہوری اتحاد کا بھانڈہ پھوٹ گیا۔ میاں نواز شریف پر بھی طاہرہ سید ایکس وائف نعیم بخاری رہنما پی ٹی آئی کے حوالہ سے اسیکنڈل تھا۔ رہ گئے موجودہ امیر المؤمنین عمران خان نیازی تو ریحام خان کی طلاق کے بعد صحافیوں نے پوچھ لیا کہ تیسری شادی کا ارادہ ہے؟، عمران خان نے کہا کہ ہاں ! پھر صحافی نے پوچھا کوئی نظر میں ہے؟ ۔ عمران خان نے پھر جواب دیا کہ ہاں!۔ صحافی نے کہا کہ اسکے بارے میں کچھ بتاسکتے ہیں کہ وہ کون ہے؟۔ عمران خان نے کہا کہ نہیں!۔ صحافی نے پھر پوچھا کہ کنواری ہے، طلاق شدہ ہے یا بیوہ؟ مگر عمران خان نے اس پر مسکرا کر جواب ٹال دیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ بی بی بشریٰ نے خلع لیکر نکاح کرلیا۔ جیو کے تحقیقی صحافی نے میڈیا پر بتایا کہ اس وقت وہ عدت میں تھی۔ اب اس سے بڑھ کر ”میرا جسم میری مرضی” کا تصور ہوسکتا ہے؟ مگر طاقتور کیلئے قانون کچھ اور کمزور کیلئے کچھ اور ہے۔
صحیح حدیث میں آتا ہے کہ خلع کی عدت ایک حیض ہے اور سعودی عرب و دیگر ائمہ مجتہدین کے نزدیک حدیث پر عمل ہوتا ہے لیکن احناف اس حدیث کو قرآن سے متصادم سمجھ کر رد کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ حدیث قرآن سے متصادم نہیں ہے اور حنفی اصولوں کے مطابق بھی احناف کیلئے قطعی قابل قبول ہونا چاہیے۔ جس کے مضبوط دلائل بھی ہیں۔
میر شکیل الرحمن نے روزنامہ جنگ میں مولانا حامد سعید کاظمی کے خلاف بالکل جھوٹی خبر لگائی تھی اور پھر کاظمی نے ایک بے گناہ قید بھی کاٹی ۔ جنگ اور جیو کے ملازمین اس گناہ کا کیا کفارہ ادا کریں گے؟ ۔ میر شکیل الرحمن کی قید ؟ ۔ وکالت کیلئے وکیل کے پاس قانونی لائسنس ہوتا ہے مگر صحافی کیلئے کسی کی وکالت یا کسی کی بے جا مخالفت صحافت پر بڑا دھبہ ہے جو قانون کیخلاف ہے۔ صحافت کا کام قوم کا شعور بیدار کرنا ہے نہ یہ کہ بلیک میلنگ کے ذریعے سے اپنے اشتہارات کے مسائل حل کرنا۔ جن صحافتی اداروں پر ذرہ برابر بھی جانبداری کا شبہ ہو تو ان کو قانون کے شکنجے میں لاکر بند کردینا چاہیے۔ کیونکہ صحافت کیلئے یہی قانون ہے۔ ہمارا کام قوم ، ملک ، ریاست اور حکومت میں شعور بیدار کرنا ہے۔

کوئی پانچ سال کی بچی نہیں چھوڑتا، پدر شاہی بلا بن چکی جو عورت کے خون پر پلتی ہے، عصمت شاہجہان

پریس کلب میں عصمت شاہجہان کا خطاب
( (بلال خان، علی خان، شاہجہان ،عبید خان، اسفند یار وزیر ) کامریڈ عصمت شاہجہاں صدر وومین ڈیموکریٹک فرنٹ، عورت آزادی مارچ 2020اسلام آباد سے خطاب کرتے ہوئے کہا : سلام دوستو! ساتھیو! آپ سب کی جرأت کو لال سلام۔ آج دہشت و وحشت کے خوف کو جو آپ لوگوں نے توڑا آپ سب کو لال سلام۔ اور آج سیکولر پاکستان کا فیصلہ ہوگیا!۔

اسلام آباد،  پاکستان کا پولیٹکل سینٹر اسٹیج ہے اور پھر یہ پریس کلب پر لڑائی پانچ دن سے جاری رہی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ این او سی ہمیں بھی دی گئی اور ان کو بھی دی گئی۔ یہ کیوں کیا گیا؟ان سوالات پر میں بعد میں آؤں گی لیکن آج جشن کا دن ہے اپنی بات رکھنا چاہوں گی اس مارچ کے حوالے سے۔ سب سے پہلے میں شکریہ ادا کرتی ہوں ان تمام آرگنائزرز کا جنہوں نے ہمیں مکمل سپورٹ دی۔ ساتھ میں جو آرگنائزنگ کمیٹی ہے جنہوں نے دن رات کام کیا ان کی محنت کو اس خوف کو توڑنے کیخلاف آج نکلنے پر ان کو سلام پیش کرتی ہوں۔ میں سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کا شکریہ ادا کرتی ہوں جنہوں نے اسلام آباد کی ایڈمنسٹریشن کو خط لکھا کہ ان کو این او سی دیدیں ،میں باقی جو اسلام آباد کی لیفٹ  کی پارٹیاں ، وومن ایکشن فورم خاص طور پر ہمارے ساتھ کھڑی رہی اور عوامی ورکر پارٹی کی ٹیم انتھک ہمارے ساتھ کھڑی رہی۔ بھلے وہ سیکیورٹی کا مسئلہ ہو یا بینر پوسٹر ہو، یا گاڑی ہو، ہر جگہ وہ کھڑے رہے اورر ساتھ ہی ساتھ لیفٹ کی جن پارٹیوں اور تنظیموں کے لوگ آئے ہیں انکا بھی شکریہ ادا کرتی ہوں،  اور تمام لوگ جو آج یہاں اکھٹے ہوئے۔پورے پاکستان کو جو آج یہاں سے پیغام جارہا ہے ان سب کو میں ایک بار پھر لال سلام پیش کرتی ہوں۔

ساتھیو! یہ آج پہلی بار نہیں کہ پاکستان میں عورت نکلی ہے، پاکستان میں دہائیوں سے عورت مزاحمتی سیاست میں ہے اور سڑکوں پر ہے۔ بھلے وہ ایوب خان کے دور میں طاہرہ مظہر علی خان کی ڈیموکریٹک ویمن ایسوسی ایشن ہو جسکا ہم تسلسل ہیں،  یا وہ ویمن ایکشن فورم ہو جس نے ضیاءکی  آمریت کو للکارا۔یا ہیلتھ ورکرز ہوں اور لیڈی ٹیچرز ہوں جنہوں نے پاکستان میں  آئی ایم ایف  کی کٹوتیوں کیخلاف سڑکوں پر احتجاج کیا۔یا ہماری بلوچ بہنیں ہوں جو مسخ شدہ لاشوں اور جبری گمشدگیوں کے خلاف کھڑی رہی ہیں۔ یا ہماری پشتون بہنیں ہوں، جنکے گھروں میں لیویز کے اہلکار گھس جاتے ہیں۔ بہت ساری مزاحمتی تحریکیں چلتی رہی ہیں اور ہم انہی مزاحمتی تحریکوں کا تسلسل ہیں۔ریاست پاکستان نے نہ صرف ان مزاحمتی تحریک کو کوئی مثبت جواب نہیں دیا بلکہ عورتوں، محکوم قوموں اور مظلوم طبقات کے زخموں کے اندر پنجے گاڑے بیٹھی ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں ایک جنونی پدر شاہی کی تشکیل کی گئی، کیوں کی گئی ؟ جو پیچھے نظر آرہا ہے وہ کیا ہے؟

ہم سمجھتے ہیں کہ رائٹ ونگ جب عورت کو موبیلائز کرتا ہے یہ بنیادی طور پر پدر شاہی مفادات کیلئے کرتا ہے۔ تو پاکستان میں ایک جنونی پدر شاہی کی تشکیل کی گئی کیونکہ جنگی مفادات کیلئے ایک جنگجو اور ظالم لڑنے والا مرد چاہئے تھا۔ وہ masculinity (مردانگی) اس ریاست نے تشکیل دی۔ اس جنگ کے لئے  جو لٹریچر، مواد ، کتابیں، ویڈیوز، نظرئیے اور ہتھیار لائے گئے وہ نظریئے، ہتھیاراور کتابیں اب چلتے چلتے چلتے ہماری گلی اور محلوں میں پہنچ چکی ہیں۔ اور اب کوئی پانچ سال کی بچی بھی نہیں چھوڑتا۔ اب پدر شاہی ایک جنونی عفریت اور بلا بن چکی ہے جو عورت کے خون پر پلتی ہے۔ اور نہ صرف یہ کہ جو لوگ اس عورت کے جسم سے مماثلت رکھتے ہوں ان کی بھی خیر نہیں چاہے وہ صنف آزاد ہمارے خواجہ سرا بہن بھائی ہوں یا نابالغ بچے ہوں۔ تو تاریخ کے اس پڑاؤ میں ہم یہاں پہنچے ہیں کہ جنگ کیلئے جس پدر شاہی کو تشکیل دیا گیا اب وہ ایک عفریت بن چکی ہے۔ اور اس عفریت کے پیچھے ایک اور عفریت کھڑی ہے اور وہ ہے جنگی اقتصاد اور اسکے پیچھے سامراجی عفریت کھڑی ہے۔ اب یہ کئی جنگیں ہیں جو ہمیں لڑنی ہیں۔

ہم تاریخ کے اس دوراہے پر کھڑے ہیں کہ ہم نے ایک راستہ چننا ہے۔ یا صنفی انقلاب کا یا جنسی اور پدر شاہانہ بربریت کا۔ میں اسلام آباد کے اس اسٹیج سے پورے پاکستان کو پیغام دیتی ہوں کہ وہ وقت آگیا ہے کہ ہم نے وہ راستہ چننا ہے، ایک راستہ ہم کو چننا ہے اور ہم کو سخت فیصلہ کرنا ہے اور ہم کو منظم تحریکیں چلانی ہوں گی۔ یہ وقتی اور کبھی کبھار کی ون ڈے مارچ سے کچھ نہیں ہونے والا۔ منظم تنظیموں میں آئیں اور کام کریں جو بھی آپ کے نظرئیے کے قریب ہو اس میں ضرور آئیں۔

میں اسلام آباد میں جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا میں اس کی بھی کہانی سنانا چاہتی ہوں۔ آج کے دن ہمیں بتایا گیا کہ ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ کے یونٹس میں تحریک لبیک ،شریعت کونسل اور جمعیت علماء اور سپاہ صحابہ کے لوگ گئے،  اور انہوں نے کہا کہ” اگر آپ گئے، تو آج پھر آپ ادھر رہیں گے کیسے”؟ تو انہوں نے ہمیں فون کئے ، کہ ہم نہیں آسکتے، کیونکہ ہمیں یہاں رہنا ہے۔ منصوبہ یہ تھا ،کہ محنت کش آبادی سے عورتوں کو نہ نکالو۔ اور اس مارچ کو بدنام کرو کہ یہ تو مڈل کلاس این جی او مافیا ہے۔ تو محنت کش عورتوں کو آج نہیں آنے دیا گیا ۔ہم اس کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں ۔ ہماری گاڑیوں  کے ڈرائیوروں کو مارا گیا ،اور یہ ہماری چوتھی گاڑی ہے۔ ایسی صورتحال میں ہمیں دھمکیاں دی گئیں ، ویڈیو ز بھیجے گئے۔ اور ہمیں پیغام دیا گیا کہ اگر آپ نکلیں گے،تو ہم دو بجے وہاں ہوں گے، یہ کردیں گے ،وہ کردیں گے۔ ہم نے کہا کہ ہم بہت خوش ہیں۔ خوش اس بات پر ہیں کہ آج آپ وہ بات کررہے ہیں جو ہم کرتے رہے ہیں۔ آج آپ کو عورت کے سوال پر بولنا پڑ رہا ہے۔ ہم اتفاق کرتے ہیں جماعت اسلامی نے جو چارٹر ریلیز کیا ہے  کہ ہم یہ چاہتے ہیں وہ چاہتے ہیں ،عورت کو جائیداد میں حصہ دو۔

ہم آخر میں کچھ میڈیا کے بارے میں کہنا چاہتے ہیں ۔پاکستان کے میڈیا نے پچھلے مارچ کے دو پوسٹر اٹھائے،  تقریباً ہر شو میں ایک مولوی کو بلایا مولوی   ہاتھ نہ آیا،  تو ملوانی کو بلایا ،اور ان   پربات کی۔ایک وطیرہ بنایا ہے ،پاکستان کی ریاست اور اس کے میڈیا نے ۔کہ سوشلسٹوں کو  کفار کہو، قوم پرستوں کو غدار کہو اور عورتوں کو بدچلن کہو۔ یہ کلنک لگانے کا سلسلہ بند کرنا چاہیے۔اور میڈیا بھی یہ سن لے کہ آپ چار اشتہار چلاتے ہیں اور اگر آپ سمجھتے ہیں کہ فیمنسٹ تحریک کی عورتیں آئیں گی اور آپ کی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری اسی سے چلے گی کہ  ایک پوسٹر پر بات ہوگی۔ دیکھ لیں گے آج عورتیں کیا کہہ رہی ہیں۔ اور یہ پوسٹر پڑھ لیں۔ اور خبردار جو کسی نے اب پوسٹر کی بات کی!

آخری بات کہنا چاہتی ہوں کہ یہ ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ بند کیا جائے ۔ پاکستان کی ریاست اور اسٹبلشمنٹ بھی سن لے۔ جو پچھلے چار پانچ دن سے ہمارے اوپر کریک ڈاؤن اور ہمارے اعصاب کو جو پیرالائز کرنے کی کوشش کی گئی ،وہ سن لیں کہ یہ سب ساتھ ہیں ،ہم سب ساتھ ہیں،ہم سب ساتھ ہیں،  ہم سب ساتھ ہیں۔

 آخر میں  بس  کہنا  چاہتی ہوں کہ یہ جو این جی اوکی فنڈنگ کا برا الزام لگا ہے، اور جو لوگ یہ الزام لگانا چاہتے ہیں کہ یہ فنڈنگ کس کی ہے؟ پی ٹی آئی کی حکومت نے یہ پیغام بھیجا کہ آپ  پہلے یہ بتائیں کہ  آپکی فنڈنگ کس کی ہے؟۔ تو میں نے کہا کہ فنڈنگ تو آپ لیتے ہیں ۔تینتیس ملین ڈالر کی  جنگ کے لئے فنڈنگ آپ نے لی، غیرممالک سے خیرات آپ نے لی،دنیا بھر سے قرضے آپ نے لئے۔ اور جب ہم لوگ اس  فنڈنگ کے  خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو آپ بولتے ہو کہ فنڈنگ کس نے کی؟  ہم نے ہزار پانچ پانچ دو دو سو روپے جمع کرکے یہ سارا انتظام کیا ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ جو این جی او کا ڈرامہ کرکے ہم پر الزام لگارہے ہیں۔ ہم مزاحمتی تحریک ہیں کان کھول کر سن لیں سب۔ آئندہ کسی نے یہ کہا کہ ہم این جی او ہیں ، این جی او کی فنڈنگ ہے، یا فارن فنڈنگ ہے، سب کو اطلاع  عامہ ہے،کہ ایک دھیلا بھی ہم نے کسی سے لیا ہو۔آج اسٹیج پر یہ بتارہی ہوں۔ اور یہ این جی او کی فنڈنگ کا الزام جو ہے ،   "پروجیکٹ جہاد” کا یہ خود کھاتے رہے ہیں۔ اور این جی اوز کا بھی کھلاتے رہے ہیں۔ وہ بھی پروجیکٹ جہاد کی وجہ سے آج یہاں تھیں۔ کچھ تو ہیومن رائٹس کے نام پر آگئیں۔ لیکن مذہبی این جی اوز کی جو فنڈنگ ہوئی وہ تو بالکل ہی مطلب ……۔ تو ہم ان کو ایکسپوز کرنا چاہتے ہیں ۔ہماری کوئی فنڈنگ نہیں ہے۔ آخری بات رکھنا چاہتی ہوں کہ ہماری کوئی ڈیمانڈ نہیں ہے جدوجہد جاری رہے گی!

 اور ہم ایک ہی ڈیمانڈ رکھتے ہیں کہ حکومت پاکستان پاکستان میں "عورت ایمرجنسی ڈکلیئر کرے۔ جب تحریک لبیک سے بات ہوسکتی ہے ، سپاہ صحابہ سے بات ہوسکتی ہے تو فیمنسٹ تحریک سے کیوں بات نہیں ہوسکتی؟ ہم سے بات کرو ہم تنگ ہیں۔ ہمیں مارا جارہا ہے۔ ہم لاشیں اٹھاتے اٹھاتے تھک چکے ہیں۔

عورت آزاد،سماج آزاد۔ عورت آزاد،  سماج آزاد۔ جب تک عورت تنگ رہے گی ، جنگ رہے گی، جنگ رہے گی۔ عورت آزادی مارچ،  زندہ باد،زندہ باد۔

تبصرۂ تیز وتند قدوس بلوچ

ہمارا مقصد کمزوروں کو تحفظ دینا ہے۔محترمہ عصمت شاہجہان کا یہ خطاب پچھلے شمارے کے فرنٹ پییج پر مین لیڈ کیساتھ لگا تھا۔ اس شمارے میں بھی ہم نے شائع کیا۔ محترمہ عصمت نے ٹی وی اینکروں کو بڑی درست نشاندہی کی کہ پچھلے سال کے ایک دو پوسٹر پر بات کی گئی لیکن اس مرتبہ تو یہ پوسٹر بڑی تعداد میں تھے اور زیادہ قابلِ اعتراض تھے۔ بھگدڑ مچ گئی تو غلط پوسٹر اٹھانے والے بھاگ بھی گئے۔ جب ہم خالی دوسروں پر تنقید کو اپنا وطیرہ بنانے کے بجائے اپنی بھی اصلاح پر توجہ دیںگے تو بات مؤثر ہوگی۔ ہم نے خواتین کے حقوق کیلئے جو آواز اُٹھائی تو یہ تاریخ کا بڑا روشن باب ہے اور اسی سے انقلاب کا رستہ کھلے گا۔اور یہ افراد نہیں بلکہ قوم کی اجتماعی جدوجہد سے ہی ممکن ہے۔

 

 

عورتوں نے بہادری سے جنونی طبقے کا مقابلہ کیا

8مارچ 2020ء کو جہاں عورت آزادی مارچ والوں نے پریس کلب سے ڈی چوک تک اسلام آباد میں اپنے حقوق کیلئے احتجاج کرنا تھا وہاں مذہبی طبقات کو بھی حکومت نے ایک کپڑے کی دیوار کے پیچھے بٹھا رکھا تھا۔ عمران خان نیازی نے خود سیاسی علماء کے خوف سے ایک طرف جمعیت علماء اسلام کے دھرنے کو اسلام آباد کے ایک کونے میں روکا تھا اور دوسرے کونے میں اپنی رہائش گاہ کے آگے کنٹینروں سے رکاوٹ کی بھرمار کر رکھی تھی ، واہ نیاز ی واہ۔ عورتوں نے جس بہادری اور خندہ پیشانی کے ساتھ جنونی طبقے کا مقابلہ کیا وہ انسانی تاریخ کے یادگار لمحات ہیں۔ ایک طرف غیظ و غضب سے بھرپور مذہبی لوگوں کا جوش و خروش ہے اور دوسری طرف صنف نازک کی طرف سے اپنے خوف پر قابو رکھ کر وکٹری کا نشان ۔
ہزار خوف ہوں مگر ہو زباں دل کی رفیق یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق