اگست 2023 - Page 2 of 2 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

مولانا جمال دین کی وارننگ اور ساتھ شکریہ!

مولانا جمال دین کی وارننگ اور ساتھ شکریہ!

باجوڑ کا سانحہ ایسا ہے کہ سننے کیلئے کان تیار نہیں دیکھنے کیلئے آنکھیں شرمارہی تھیں۔ جناب محترم! میں خود اس پروگرام کا چیف گِیسٹ تھا۔ ہوسکتا تھا کہ میں آج یہاں نا ہوتا لیکن مائوں، یار دوستوں کی دعائوں ، اللہ کے فضل سے مجھے اللہ نے بچایا،وہاں کا منظر تو بیان کرنے کا نہیں۔ جن لوگوں نے ہمارے ساتھ ہمدردی کی، دعا کی، جتنے ساتھیوں نے پیغامات بھیجے ، ان سب کا میں مشکور ہوں۔ لیکن میں حکومت اور ذمہ دار لوگوں کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر اس کاروک تھام نہ ہوا، قبائل اپنے لیے راستہ اختیار کرلیںگے کیونکہ ڈپٹی اسپیکر! ہمارے پاس وزیر اعلیٰ بشمولِ چیف سیکرٹری آئے تو وہاں پر ایک بندے نے ان سے کھڑے ہو کر کہا کہ ہمارے تین سوالوں کے جواب دے دیں یا ان لوگوں کے ساتھ بامعنی با مقصد مذاکرات کرلیں اس طرح نہ ہو جس طرح پہلے ان لوگوں کو آنے دیاپھر مذاکرات چھوڑ دیے ۔اگر وہ نہیں کر سکتے، مصلحت نہیں سمجھتے یا آپ لوگ مجبور ہیں وہ نہیں کر سکتے تو آپ ان کیساتھ جنگ کرلیں۔ آپکی ذمہ داری ہے ہماری حفاظت۔ عوام کے ٹیکسوں سے آپ کو تنخواہ دی جاتی ہے اور ہماری حفاظت آپ کی ذمہ داری ہے ۔ اگر جنگ نہیں کر سکتے یاکرنا نہیں چاہتے ہو یاپھر آپ لوگوں کو ہماری شہادتیںمتضاد معلوم ہورہی ہوں تو خدا را ہم منت سماجت نہیںکرتے۔ آپ نکل جائیں، یہ علاقے خالی کرلیںتو ہم اپنی حفاظت خود کر سکتے ہیںانشاء اللہ یہ ہمیں کچھ نہ کر سکیں گے۔ باجوڑ میں ایسا گھر نہ رہا جہاں جنازہ نہ اٹھایا گیا۔ جس گھر میں نماز کیلئے گیا، میزبان کہہ رہا ہے کہ میرا ایک بھانجا، ایک بھتیجا شہید ہوا ۔وہ مناظر ہم نے دیکھے پھر بھی باجوڑ کے لوگوں نے پاکستان کے خلاف نعرہ نہ لگایا، جھنڈے نہ جلائے، سرکاری املاک پر حملہ نہ کیا وفاداری کا ثبوت دیا لیکن جو لوگ حکومت کے وفادار ہیں،ہم ان کو تحفظ نہیں دے سکتے۔آپ یقین کریں وہاں کوئی برداشت نہیں کر سکتا تھا، لوگ بہت مجبور، بہت تنگ آ چکے، لاشیں اٹھانے کی سکت نہیں رکھتے، خدارا قبائل پر رحم کرلیں اس سے پہلے کہ قبائل ایسے اقدام پر مجبور ہو جائیں کہ پھر حکومت کیلئے بہت مشکلات ہوں گی۔ وہ ایسا قدم اٹھائیں گے کہ پھر کوئی برداشت نہ کر سکے گا۔ آج ہمارا قبائلی جرگہ ہے دیکھیں وہ کیا فیصلہ کرتاہے۔ جس طرح اور پاکستانی حفاظت کے حقدار تو قبائلی بھائی بھی حفاظت کے حقدار ہیں، ان کی بھی حفاظت کی جائے۔ محترم ڈپٹی اسپیکر! میں قائد محترم مولانا فضل الرحمن کا بے حد مشکور ہوںکہ اپنے کو ہلاکت میں ڈال کر وہاں پہنچے شہداء کے ورثاء سے ملے تعزیت کی دلاسہ دیا۔ ماشاء اللہ جمعیت علماء اسلام کے کارکنان ، شہداء کے وارث بجائے یہ کہ مولانا ان کو دلاسہ دیتے وہ قائد محترم کو فرمارہے ہیں کہ مولانا صاحب! ہم نے آپ کیساتھ عہد کیا، ہم اس کیلئے تیار تھے شہادت کیلئے تیار ہیں، ہمارے قائد بھی حیران ہوئے اور رشک کررہے تھے کہ ہمارے جیسے کارکن پاکستان نہیں بلکہ دنیا میں بھی کسی کو نہیں ملے، میں ان کارکنوں کو داد دیتا ہوں اور قائد محترم کو یقین دلاتا ہوں کہ فاٹا کا ہر ایک کارکن، ہر مشر آپ پر فداء ہے، آپ حکم کریں گے ہم لبیک کہہ کر آپ کے پاس حاضر ہوں گے اور میں وزیر اعظم کا بھی مشکور ہوں کہ پشاور آکر شہداء کی تعزیت کی اور شہداء کیلئے20،20لاکھ روپے کا اعلان کیا وہاں خود عیادت کیلئے آئے، گورنر کے پی غلام علی کا مشکور ہوں کہ اسی وقت ہمارے ساتھ رابطہ کیا ہیلی کاپٹر ہائر کیا۔ انہی کی وجہ سے بیماروں کو ہیلی کاپٹر میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال پہنچایا گیا جو خدمت انہوں نے کی وہ بے مثال ہے اورچیف سیکریٹری جب بھی ان سے بات ہوئی ہے فون کیا ہے انہوں نے فوراً لبیک کہا ہے بہت تعاون کیا ہے تو میں ان کا بھی بے حد مشکور ہوں اور انتظامیہ کا بھی۔ تو لہٰذا میں ایک بار پھر ایک بیمار کے پاس لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں گیاتو انہوں نے مجھے کہا کہ مولوی صاحب! آپ ہمارے لئے دعا کریں کہ ہمارے دو بھائی شہید ہوئے اور میں یہاں زخمی پڑا ہوں کہ اللہ پاک مجھے بچالے۔ میں بتانا چاہتا ہوں کہ قبائل آخری حد تک پہنچ چکے ہیں ذمہ دار ادارے سوچ لیں، قبائل کبھی بھی یہ بات کو ماننے کیلئے تیار نہیں کہ اس کا مقابلہ امریکہ نہیں کر سکتا تھا،48ملک نہیں کر سکتے تھے۔ ہم مجبور ہیں، یہ نہیں کرسکتے ہیںیہ قبائل کبھی بھی اس کیلئے تیار نہیں، وہاں بارڈر بھی لگا ہوا ہے یہ کس طرح آتے ہیں۔ جیکٹ ایک منٹ میں تیار نہیں ہوتی، اس میں تو میرے خیال میں کئی دن لگتے ہیں۔ یہ کہاں سیٹ ہوتا ہے یہ کہاں اس کو چھپ کر بناتے ہیںیہ باتیں لوگ ماننے کیلئے تیار نہیں ،اگر سلسلہ نہ روکا جائے تو قبائل وہ قدم اٹھائیںگے پھر حکومت کیلئے مشکل ہوگا میں حکومت اور اداروں کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ ایسا نا ہو کہ پھر پاکستان کیلئے مشکل ہو۔ خدا را! قبائل پر رحم کریں قبائل کو اپنا سمجھیںیہ اپنے لوگ ہیں۔ خدا کی قسم اگر کوئی بندہ پاکستان سے وفادار ہے تو قبائل پاکستان سے ہزار گناہ زیادہ وفادار ہیں، آپ وفاداری کو کیوں نہیں اہمیت دیتے ہیں؟اس کو وفادار کیوں نہیں سمجھتے ہیں؟اس کو بے وفائی پر کیوں مجبور کیا جارہا ہے؟ اس کو جان پے کیوں گھسیٹا جارہا ہے؟تو لہٰذاقبائل پر رحم کرلیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

دہشتگرد اب خوارج بن چکے :مفتی عبدالرحیم

دہشتگرد اب خوارج بن چکے :مفتی عبدالرحیم

یہی وہ لوگ جن کا احادیث میں ذکر ہے اور جنہوں نے حضرت علی کو شہید کردیا تھااب علماء شہید کردئیے

کیا جب عوام ، مدارس، مساجد ، سیاسی پارٹیوں اور افغانوں کے علاوہ اپنوں کو شہید کیاتھا تو یہ مجاہد تھے؟

باجوڑ میں سانحہ ہوا بہت افسوسناک ، رات بھر نیند نہ آئی۔ بہت طبیعت پریشان رہی۔ کیسا وقت ہے کہ علماء اور طلباء تھے وہاں۔ چھوٹا سا علاقہ ہے آپ نے سنا ہوگا کہ بہت بڑا علاقہ نہیں۔ چھوٹے سے علاقے میں60،70جنازے اٹھے۔ ہر گھر میں شہید ہیں زخمی ہیں اس وجہ سے عورتیں بیوہ ہورہی ہیں بچے یتیم ہورہے ہیں، ماں باپ پریشان ہیں۔ دین کے نام پر خود کش حملے ہو رہے ہیں۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ ہدایت دے۔ اللہ نے جو ہمیں دین کی سمجھ دی اس کو لوگوں تک پہنچانا چاہیے۔ کون لوگ مولانا حسن جان کو شہید کررہے ہیں۔ جس نے تقریباً55مرتبہ بخاری شریف پڑھائی۔ اتنے بڑے شیخ الحدیث وہ کئی مرتبہ یہاں تشریف لائے۔ وہ صرف پاکستان کے شیخ الحدیث نہ تھے وہ عالم اسلام کے ان شیخ الحدیث میں تھے جو بالکل ٹاپ کے تھے۔ بہت اللہ نے ان کو علم عطا فرمایا ۔ بہت نیک بہت اللہ والے ان کو شہید کیا۔ شیخ الحدیث مولانا نور محمد وانا والے مسجد میں درس قرآن دے رہے تھے، خود کش حملہ کیا، مسجد کو خون سے نہلادیا کتنے لوگ اس میں شہید ہوگئے۔ مولانا معراج الدین بہت بڑے مدرس تھے ، بہت نیک تھے بہت آنا جانا تھا ان کو شہید کیااور یہ وہ لوگ ہیں جن کی انہوں نے ذمہ داری قبول کی۔ باجوڑ میں پچھلے سال ہمارے جامعہ کے سابق استاذ مفتی بشیر احمد کو شہید کیا اس بات پر کہ آپ فوجی کو کافر کیوں نہیں کہتے؟۔ ان کا ایک بچہ بڑا مجھ سے رابطے میں بھی رہتا تھا۔ اردو جانتا نہیں تھا بہت ہی نیک بچہ تھا اس سال رمضان میں اس کو بھی شہید کردیا۔ اتنے بے رحم لوگ۔ مولانا فضل الرحمن پر4مرتبہ خود کش حملہ ہوا ۔قاضی حسین احمد پر حملہ ہوا۔ مولانا طارق جمیل کو دھمکیاں دیں۔ مولانا تقی عثمانی نے مجھے فرمایا کہ مجھے ڈیڑھ سو سے زیادہ دھمکیاں دی ہوں گی۔ مجھے20سال ہوگئے اس پر بات کرتے ہوئے مجھے بھی بہت دھمکیاں دیں، بہت زیادہ مختلف طریقوں سے کوشش بھی کی انہوں نے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ہمارے دین میں ان کے بارے میں کچھ بھی احکامات نہیں ہوں گے؟ اگر آپ دیکھیں احادیث میں دین میں ، فقہاء نے جو کچھ ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا تو آپ حیران ہوجائیں گے کہ جتنے گمراہ فرقے ہیں ان میں سب سے زیادہ احادیث میں صراحتاً اور بہت تفصیل کیساتھ ذکر آیا ہے وہ خوارج کا ہے۔22،23ان کی علامات بتائی گئی ہیں۔ اتنی تفصیل کسی فرقے کے بارے میں حضور اکرم ۖ نے نہیں بتائی۔ فرمایا: یہ خوارج اٹھتے رہیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کو ختم کرتا رہے گا۔ پھر اٹھتے رہیں گے پھر ختم کرتا رہے گا۔ یہاں تک کہ یہ دجال کا ساتھ دیں گے۔ علامات میں20احادیث صحیح و حسن ہیں باقی جو اقوال ہیں صحابہ کرام یا روایات جن میں ضعف ہوتا ہے وہ الگ ہیں ۔ بعض علماء نے خوارج سے متعلق علامات والی روایات کو متواتر کہا۔ اتنی تفصیل سے، آپ لوگوں کو پتہ ہے اس کا ؟۔ کیوں نہیں پتہ؟ ، اتنا خون بہہ رہا ہے یہاں۔ اتنے لوگ یہاں مارے جارہے ہیں اتنی بربادی ہورہی ہے۔ تو آپ کیا پڑھتے ہیں یہاں؟ میں علماء اور طلبہ سے پوچھتا ہوں۔ آپ کا خون کون لوگ بہا رہے ہیں؟۔ حدیث ہے کہ ایسے نو عمر ہوں گے۔ خوارج کی علامات حدثاء الاسنان بہت بڑی عمر کے نہ ہوں گے نو عمر ہوں گے۔ سفھاء الاحلام عقل کے لحاظ سے کمزور ہوں گے، عمر کم ہوتی ہے تو تجربہ کم ہوتا ہے۔ یقتلون اھل الاسلام و یدعون اھل الاوثانصحیح مسلم ۔ اہل اسلام کو قتل اور مشرکین کو چھوڑیں گے۔ فرمایا: اتنے نیک ہوں گے کہ تمہاری نماز ان کی نماز کے مقابلے میں کچھ نہیں ہوگی۔ تمہارے روزے ان کے روزوں کے مقابلوں میں کچھ نہیں ہوں گے۔ تمہاری قرأت ان کی قرأت کے مقابلے میں، صحابہ کرام سے فرمارہے ہیں۔ مسلمانوں کی تکفیر کریں گے اور تکفیر کرنے کے بعد مسلمانوں کے خون کو حلال اور ان کے اموال کو حلال سمجھیں گے۔ ابن عمر نے فرمایا: شر الخلق کائنات کے بدترین لوگ ہوں گے۔ فرمایا: وہ آیات جو کفار کے بارے میں نازل ہوئی تھیں یجعلون فی اہل الاسلام ان کو اہل اسلام پر منطبق کرکے تکفیر کریں گے۔ بہت زیادہ عبادت گزار اور بڑے محنتی ہوں گے۔ ابن عباس ان سے مناظرے کیلئے گئے یہ وہ لوگ تھے جو حضرت علی کی تکفیر کرتے تھے اور ان سے وہ لڑے۔ عبد اللہ ابن خباب ایک صحابی تھے وہ کہیں مل گئے ان سے تو بات چیت کی کہ آپ عثمان غنی اور علی المرتضیٰ کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ میں تو ان کو اچھا سمجھتا ہوں اس بات پر ان کو شہید کیا۔ ان کی اُم ولد حاملہ تھی ،اُم ولد تو جانتے ہیں؟ جب باندی سے بچہ ہوجاتا ہے تو وہ اُم ولد ہوجاتی ہے اسکے احکام الگ ہوتے ہیں۔ وہ حاملہ تھی اس کا انہوں نے پیٹ چیر کر شہید کیا۔ اسی علاقے میں کسی عیسائی کا خنزیر چر رہا تھا تو خوارج میں کسی نے اس کو مار دیا تو انہوں نے بڑی توبہ استغفار کی اس پر اور اس سے جاکر معافی مانگی کہ تمہارا خنزیر ہمارے ہاتھوں سے قتل ہوگیا۔ اور یہ فرمایا کہ لوگ ان کو بہت نیک سمجھیں گے اور وہ اپنے عجب میں مبتلا ہونگے کہ بہت نیک ہیں۔ مسلمانوں کی طاقت کو توڑیں گے یہ بھی حدیث آتا ہے۔ اب دیکھیں عراق و شام میں کیا حالت ہوگئی ۔ کوئی پوچھنے والا نہیں اور عزتیں کس طریقے سے لٹ رہی ہیں؟۔ یہ سب کچھ اسلام کے نام پر ہورہا ہے۔ فرمایا: یہ اسلام سے ایسے نکلے ہوئے ہوں گے جیسے تیر کمان سے نکلا ہوتا ہے تو ان سے تو لڑنے کا حکم ہے۔ ایک روایت میں ہے کلاب النار یہ جہنم کے کتے ہونگے جو لوگ ان کو قتل کریں گے بہت مبارک لوگ ہوں گے۔ اور جو انکے ہاتھوں مارے جائیں گے بہت بڑے شہید ہوںگے۔ اتنا بڑا باب صحاح ستہ اور سیرت میںموجود ہے صحابہ کرام سے اور پھر عقائد میں بہت تفصیل سے پورا معاملہ پڑھایا جاتا ہے۔ ہم صرف زبانی جمع خرچ پر لگے رہتے ہیں۔ ان چیزوں کو دھیان سے پڑھنا چاہیے۔ ”العقیدة الطحاویة” سنا ہے نام وہ پڑھ لیں اس میں کیا لکھا ہوا ہے۔ شرح العقائد میں کیا لکھا ہوا ہے مجھے بہت دکھ ہے اس بات کا کہ مذہب کے نام پر اتنی بڑی خونریزی اور یہاں کوئی بولنے کیلئے تیار نہیں، کیوں نہیں بولتے؟۔ انسانی جان تو بہت بڑی ہے۔ طلباء علماء کرام کو مارنا یہ کیسا دین ہے؟۔ پاکستان پھر بھی کافی کچھ بچا ہے کیونکہ یہاں فوج مستحکم تھی۔ عراق، شام ، لیبیا،الجزائر، یمن، صومالیہ، اور سوڈان میں جاکر تو دیکھیں کچھ نہیں بچا ہے وہاں۔ ایک دفعہ ایک عرب شخص ملتزم پر دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا۔ بہت زیادہ اس نے چیخ و پکار اور آہ و فریاد کی تو میں نے پوچھا کہ کیا مشکل ہے؟۔ اس نے کہا کہ ہم لیبیا سے ہیں روزانہ پانچ سو لوگ قتل اور ہماری عزتیں لٹتی ہیں کوئی نہیں جو ہماری فریاد سنے۔ نا میڈیا، ناOICاور نااور کوئی ایسے ممالک ہیں جہاں انسانوں کے بارے میں بات ہو۔ ہم کو پوری دنیا نے لاوارث چھوڑ دیا۔ ہم ذلیل، قتل ہورہے ہیں تویہ ایک جگہ بچی ہے کہ ہم یہاں پرآکر اللہ کو پکاریں۔ اللہ ہدایت دے ،پاکستان کو سلامت رکھے ۔ جو شہید ہوئے اللہ ان کی شہادت قبول فرمائے۔جو زخمی ہیں اللہ ان کو صحت عطا فرمائے۔ شہداء کے گھر والوں کے بچے ، خواتین، ماں باپ اللہ ان کو صبر عطا فرمائے اور اللہ ان کو تباہ و برباد کرے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

یزیدی خاتون بہار اور3بچوں کا براحال؟

یزیدی خاتون بہار اور3بچوں کا براحال؟

مذہب انسانیت سکھاتا ہے،اسلام دین فطرت ہے، اسلام کے نام پر غیر انسانی سلوک کا بہت بڑا المیہ!

پاکستان میں علماء ومفتیان نے اسلامی منشور کو عام نہیں کیا تو پھر ان کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوسکتا ہے

2015میں بہار اور انکے3بچوں کو پانچویں بار فروخت کیا گیا تھا۔ وہ نام نہاد دولت اسلامیہ کے ہاتھوں ان بہت سی یزیدی خواتین میں سے ایک ہے جنہیں دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں نے2014کے اوائل میں شمالی عراق کے ضلع سنجار کے ایک گاؤں پر حملہ کے نتیجے میں قید کیا تھا۔ دولت اسلامیہ عراق میں گذشتہ6ہزار سال سے آباد یزیدی مذہبی فرقے کے پیروکاروں کو کافر قرار دیتے ہیں۔یہ تحریر ریچل رائٹ کی ہے جسے سحر بلوچ کی زبانی سن رہے ہیں۔ بہار کا خیال ہے کہ ان کے گاؤں پر حملے کے دوران ان کے شوہر اور بڑے بیٹے کو گولی مار کر قتل کردیا گیا ہوگا۔ اور انہیں کسی اجتماعی قبر میں دفن کردیا گیا ہوگا۔ بہار کو یاد ہے کہ کس طرح وہ اور ان کے کم عمر بچے ایک کمرے میں قطار میں کھڑے تھے اور زار و قطار رورہے تھے کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ دولت اسلامیہ کے جنگجو انکے سر قلم کر دیں گے۔ اگرچہ انہیں قتل تو نہیں کیا گیا لیکن اس کے بجائے فروخت کردیا گیا۔ اور بہار کے مطابق یہ وہ وقت تھا جب ان کی دہشت ناک کہانی کا آغاز ہوا۔ گاؤں پر حملے کے بعد وہ دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کے قبضے میں ان کی ذاتی ملکیت بن چکی تھیں۔ اب بس جنگجوؤں کی خدمت کرنا تھی۔ وہ جب چاہتے مجھے ان کی بیویوں کی طرح برتاؤ کرنا پڑتا، جب چاہتے تب مارتے تھے۔ بہار کے مطابق ان کے بچوں کو جن کی عمریں10سال سے کم تھیں ان کو بھی مارا پیٹا گیا جبکہ ان کی بیٹی کے چہرے پر رائفل کے بٹ مارے گئے۔ اس کے بعد وہ ایک ہاتھ سے دوسرے جنگجو کے ہاتھ فروخت ہوتی رہیں۔ جبکہ ان کے چوتھے مالک کا نام ابو خطاب تھا جو ایک تیونسی شہری تھا۔ بتایا کہ ہم اسکے گھر پر رہ رہے تھے۔ وہ میری خدمات مختصر عرصے کیلئے دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کیلئے دو ٹھکانوں پر صفائی ستھرائی کے کام کرنے کیلئے بھی دے دیتا تھا۔ تمام جگہوں پر میں کام کرتی، صفائی ستھرائی کرتی تھی ، جب چاہتے میرا ریپ کردیتے۔ یہ وہ وقت تھا جب عراق میں ہر وقت فضائی حملے ہوتے تھے۔ دولت اسلامیہ کے جنگجو اِدھر اُدھر بھاگ رہے تھے۔ ہتھیار پکڑے بمباری کے خوف سے چھپ رہے تھے۔ ایک افراتفری کا عالم ہوتا تھا۔ یہ صورتحال کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں تھی۔ پھر ایک دن جب بہار اور انکے بچے ابو خطاب کے گھر پر تھے تو ایک سفید کار اسکے گھر پر پہنچی جس کی کھڑکیوں کے شیشے سیاہ تھے۔ ڈرائیور لمبی داڑھی کیساتھ سیاہ لباس میں ملبوس تھا۔ وہ دولت اسلامیہ کے بہت سے جنگجوؤں کی طرح ہی نظر آتا تھا۔ اسے دیکھ کر بہار کو احساس ہوا کہ انہیں اور انکے بچوں کو ایک بار پھر فروخت کیا جا رہا ہے۔ صورتحال سے مغلوب ہوکر بہار نے بچی کچی ہمت جمع کی اور اس شخص پر یہ سوچتے ہوئے چیخ پڑی کہ انہیں فروخت کرنے کے بجائے اب مار دیا جائے کیونکہ وہ مزید برداشت نہیں کرسکتی۔ لیکن آگے جو ہوا وہ ان کی زندگی بدلنے والا تھا۔ گاڑی میں انہیں اور انکے بچوں کو بٹھا کر اس شخص نے گاڑی چلادی۔ گاڑی چلاتے ہی ڈرائیور نے کہا کہ میں آپ کو کہیں اور لے جارہا ہوں۔ بہار کو معلوم نہ تھا کہ یہ سب کیا ہورہا ہے؟۔ وہ یہ بھی سوچ رہی تھی کہ آیا اسے اس آدمی پر بھروسہ کرنا چاہیے یا نہیں؟۔ جب وہ بے چین ہونے لگی تو اس شخص نے گاڑی روکی۔ اور اپنے فون پر کسی کو کال کی۔ اس نے پھر فون بہار کے حوالے کردیا۔ دوسری طرف سے آنے والی آواز ابو شجاع کی تھی۔ جس کے بارے میں جانا جاتا ہے کہ اس نے بہت سی یزیدی عورتوں اور بچوں کو بچانے کا انتظام کیا۔ ابو شجاع سے بات کرکے انہیں معلوم ہوا کہ ڈرائیور نے اگرچہ انہیں خرید لیا مگر اب انہیں اور ان کے بچوں کو بچایا جاسکتا ہے۔ بہار کو شام میں رقہ کے قریب ایک تعمیراتی جگہ پر لے جایا گیا انہیں اس مقام پر چھوڑ دیا گیا اور بتایا گیا کہ ایک آدمی آئے گا اور کوڈ ورڈ سید کہے گا۔ جس کے جواب میں انہیں اسکے ساتھ جانا ہوگا اور ایسا ہی ہوا ۔تھوڑی دیر میں ایک شخص وہاں موٹر سائیکل پر آیا اور وہی کوڈ ورڈ بولا،بہار اور انکے تین بچوں سے کہا کہ وہ اس کی موٹر سائیکل پر سوار ہوجائیں۔ اس شخص نے کہا کہ سنو! ہم دولت اسلامیہ کے علاقے میں ہیں۔ یہاں ان کی چوکیاں ہیں اگر وہ آپ سے کچھ پوچھیں تو ایک لفظ نہ کہنا تاکہ وہ آپ کا یزیدی لہجہ پہچان نہ سکیں۔ بہار کا کہنا ہے کہ وہ شخص انہیں اپنے گھر لے گیا۔ وہ وہاں ہمارے ساتھ بہت اچھے سے پیش آئے ہم نے غسل کیا، ہمیں کھانا اور درد کش ادویات دیں اور کہا کہ آپ اب محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔ ایک اور شخص نے بہار اور انکے بچوں کی تصویریں بنائیں اور ابو شجاع کو بھیج دیں تاکہ یہ ثابت ہو کہ انکے پاس صحیح لوگ پہنچے ۔ پھر اگلی صبح تقریباً3 بجے اس خاندان کو بیدار کرکے کہا کہ وہ دوبارہ سفر کیلئے تیار ہوجائیں۔ جس شخص کے گھر وہ رہ رہی تھی اس نے بہار کو اپنی والدہ کا شناختی کارڈ دیا اور کہا کہ اگر کوئی روک کر پوچھے تو کہنا کہ وہ اپنے بیٹے کو ڈاکٹر کے پاس لے جارہی ہیں۔بہار بتاتی ہیں کہ ہم دولت اسلامیہ کی بہت سی چوکیوں سے گزرے لیکن کسی نے ہمیں نہیں روکا۔ آخر کار وہ شام عراق کی سرحد پر واقع گاؤں پہنچ گئے جہاں بہار کی ملاقات ابوشجاع اور انکے بھائی سے ہوئی۔ وہ کہتی ہیں کہ میں تباہی کے دہانے پر تھی بس مجھے یاد نہیں کہ اسکے بعد کیا ہوا؟۔ ابو شجاع جنہوں نے بہار کی بازیابی کا انتظام کیا وہ واحد شخص نہیں تھے جو دولت اسلامیہ کے ہاتھوں اغوا ہونیوالی خواتین اور بچوں کے بارے میں فکرمند تھے ۔ تاجر بہزاد فرحان نے یزیدی خواتین اور بچوں کو بچانے اور دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کے جرائم کو ریکارڈ کرنے کیلئے کنیت نامی ایک گروپ قائم کیا تھا ۔ کنیت کو یہ اطلاع ملی کہ دولت اسلامیہ کے جنگجو اغواء شدہ یزیدی خواتین اور بچوں کی آن لائن خرید و فروخت کررہے ہیں۔ خاص طور پر ٹیلیگرام (telegram) پر۔ بہزاد کہتے ہیں کہ ہم آن لائن گروپوں میں جعلی ناموں سے یا دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کے ناموں کے ساتھ شامل ہونے لگے۔ عراق کے کرد علاقے میں اپنے دفتر کی دیوار پر ٹیلی گرام (telegram) چیٹس کے اسکرین شاٹ کی طرف اشارہ کیا۔ ان میں سے ایک انگریزی میں ہے جس میں ایک لڑکی برائے فروخت کا اشتہار ہے اشتہار کی عبارت کچھ یوں تھی”12سالہ لڑکی کنواری نہیں ہے مگر بہت خوبصورت ہے ”۔ شام کے علاقہ رقہ میں موجود اس لڑکی کی قیمت13ہزار ڈالر لکھی گئی تھی۔ اسکے بعد انہوں نے مجھے لڑکی کی تصویر دکھائی، جو لیدر کے صوفے پر پرکشش انداز میں بیٹھی تھی۔ بہزاد کا کہنا ہے کہ ان ٹیلی گرام چیٹس سے انہیں یہ تفصیلات معلوم ہوتی تھیں کہ مغوی یزیدی خواتین کو کہاں رکھا گیا۔ ہم وہاں کے آس پاس رہنے والے لوگوں سے رابطہ کرتے اور انہیں ان مغویوں کے پتہ لگانے کا ٹاسک دیتے۔ یزیدیوں کیلئے دولت اسلامیہ کے علاقوں میں داخل ہونے کا عمل بہت خطرناک تھا۔ اسلئے مغویوں کے ریسکیو کا کام سگریٹ اور شراب کے مقامی اسمگلروں کے ذریعے ہوتا تھا۔ بہزاد کہتے ہیں کہ اسمگلر یہ کام پیسے کے عوض کرتے تھے۔ یہ ان کا واحد مقصد تھا۔ بہت سی یزیدی لڑکیوں کو واپس خریدنے کیلئے ہزاروں ڈالر ادا کئے۔ بہار کو دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں سے خریدنے اور آزاد کروانے پر تقریباً20ہزار ڈالر لاگت آئی۔ ان کی عمر اب40سال ہے لیکن وہ اپنی عمر سے بہت بڑی نظر آتی ہیں۔ انکے سر کے اسکارف کے نیچے زیادہ تر بال سفید ہوچکے ہیں۔ وہ آزاد ہونے کے بعد گذشتہ8سال سے ایک کیمپ میں رہ رہی ہیں۔ اپنے خیمے کے فرش پر ایک پتلے گدے پر بیٹھی وہ اپنے لاپتہ کنبے کے افراد کی تصویر کا البم نکالتی ہیں۔ وہ حقیقت میں نہیں جانتیں کہ ان کے شوہر اور بڑے بیٹے کا کیا بنا؟۔ اسکے ساتھ بار بار ریپ کئے جانے کے صدمے نے انہیں جسمانی اور جذباتی طور پر بہت کمزور اور بیمار کردیا ہے۔ انکے بچ جانے والے بچے اب بھی انکے ساتھ ہیں۔ بہار بتاتی ہیں کہ انکے بچے اب بھی صدمے میں ہر وقت پریشان رہتے ہیں۔ میری بیٹی کو مار پیٹ کے نتیجے میں کافی زخم آئے تھے مگر مجھے لڑتے رہنا ہے اور چلتے رہنا ہے۔ اور اس وقت جس حالت میں ہم لوگ رہ رہے ہیں وہ زندہ لاش ہونے کے مترادف ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

بدامنی کی بدترین فضائ

بدامنی کی بدترین فضائ

سعودی عرب میں ایران سے صلح کے بعد حرمین کے اندر جمعہ کے خطبے میں حضرت علی کے فضائل بیان کئے گئے۔ افغانستان میں امن و امان کے قیام کیلئے یہ ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں طالبان رہنما حضرت حسین کے علم کو لگانے کی رسم میں اہل تشیع کیساتھ شریک ہیں۔ دوسری طرف باجوڑ میں اتنا بڑا واقعہ ہوا اور بدامنی کی فضاء میں اب آئی جی صلاح الدین محسود کا بھائی حبیب محسود اغواء کے بعد ڈرائیور سمیت قتل ۔ لاشیں منزائی کے قریب بر آمد ۔یہ خبر واٹس ایپ پر ابھی ابھی ملی۔ ایک انسان کا بے گناہ قتل انسانیت کا قتل ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

قاضی حسین احمد بڑامنافق و قوم پرست ہے

قاضی حسین احمد بڑامنافق و قوم پرست ہے

جیونیوز پر ”جرگہ” میں سلیم صافی نے حکیم اللہ محسود کی ویڈیونشر کی، جو سوشل میڈیا پرپھر گردش کر رہی ہے !

حکیم اللہ محسود کی کیا رائے تھی جماعت اسلامی کی قیادت کے بارے میں؟۔ آئیے آپ کو اس کی ایک جھلک دکھاتے ہیں۔سلیم صافی : جرگہ جیونیوز
حکیم اللہ محسود: … وہ قاضی حسین احمد جس پر پاکستانی طبقہ ناز کرتا تھا، پاکستان کے مدرسین ناز کرتے تھے، پاکستان کا تعلیم یافتہ طبقہ ناز کرتا تھا، وہ قاضی حسین احمد کھلم کھلا ٹی وی پر سلیم صافی کے پروگرام میں اعلان کرتا ہے کہ پاکستان میں جہاد ، جہاد نہیں فساد ہے، پاکستان میں فدائی عملیات فساد ہے۔ افغانستان میں جہاد، جہاد ہے ، حالانکہ کرزئی کا اتحاد بھی امریکیوں کے ساتھ اور پاکستان کا اتحاد بھی امریکیوں کے ساتھ ہے، کرزئی حکومت امریکہ کی دوست اور پاکستانی حکومت بھی امریکہ کی دوست ہے۔ جیکب آباد کے اڈے پر امریکی ، بلگرام میں امریکی، بلوچستان میں امریکی، اے قاضی حسین احمد ہمیں فرق واضح کردو کہ افغانستان کے جہاد کو کیوں جہاد کہہ رہے ہو اور پاکستان کے جہاد کو کیوں فساد قرار دیتے ہو۔ میں نے تمہیں پہچان لیا کہ تم وطن پرست ہو، وطن کی حفاظت چاہتے ہو،اسلام کی حفاظت نہیں چاہتے، مسجد و مدرسے کی حفاظت نہیں چاہتے، اپنااقتدار قربان نہیں کرسکتے، اسلام سے محبت نہیں ، سیکولر نظرئیے کے مالک ہو۔ میں کبھی بھی آپ کے قول پر اعتماد نہ کروں گا، تمہارے انٹرویو پر اعتماد نہ کروں گا، تمہاری ترجمانی پر اعتماد نہ کروں گا۔ پاکستان کا قانون کفری ہے، اس پر فیصلے کرنا کفر ہے۔ اسکے کفر ہونے کی دلیل اللہ قرآن کریم میں بیان فرماتا ہے سورة المائدہ44،45،47،ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاؤلٰئک ھم الکافرون ان کفری قانون کے مطابق جس نے فیصلہ کیا وہ کافر ہے،فاؤلٰئک ھم الفاسقون وہ فاسق ہے، فاؤلٰئک ھم الظالمونوہ ظالم ہے۔ یہ وہ قانون ہے جس نے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کو شہید کردیا، یہ وہ نظام ہے جس نے شریعت کا نعرہ لگانے والے طلباء کو دریا میں پھینک دیا، یہ وہ قانون ہے جس نے سوات میں شریعت کا نعرہ لگانے والے طلباء کو درختوں سے لٹکادیا، یہ وہ قانون ہے جس نے سوات کے شریعت پسند طلباء کو دربدر کردیا، ان کی عورتیں کیمپوں میں پڑی ہیں، سوات کی عورتیں جیلوں میں ہیں، مہاجر ہوگئی ہیں، ان میری بہنوں کی بے عزتی ہوئی۔ واللہ، باللہ ، تاللہ، پاکستان کی حکومت کو معاف نہیں کروں گا۔ اس نظام کو معاف نہیں کروں گا ۔ ان سب دشمنوں کے سامنے میرا نعرہ ہے کہ دنیا میں غیرت مند لوگوں کے دو ہی کام ہوتے ہیں، یا شہید ہوجاتے ہیں یا پھر فتح و کامیابی سے ہمکنار ہوجاتے ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

پاکستان میں50کھرب کاخزانہ ۔ آرمی چیف سیدعاصم منیر

پاکستان میں50کھرب کاخزانہ ۔ آرمی چیف سیدعاصم منیر

سربراہ پاک فوج کا تاریخی اعلان۔ معاشی انقلاب کا وقت آن پہنچا۔
ہمیں جوائن کیا ہےGTVنمائندہ خصوصی متین حیدر صاحب نے۔ بتائیے گا کس طرح سے خوش آئند دیکھتے ہیں آرمی چیف نے تاریخی خطاب کیا ہے۔
متین حیدر: معدنیات پر انیقہ صحیح پوائنٹ آؤٹ کر رہی تھیں۔ اگر منرل کے شعبے کو صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے، گلگت بلتستان سے لیکر بلوچستان میں جو چھپے معدنی ذخائر ہیں ان کی مالیت50کھرب ڈالر بنتی ہے۔ صرف5فیصد بھی نکال لیا جائے تو پاکستان معاشی طور پر بہت بہتر ہوسکتا ہے۔ تمام تر قرضوں سے نجات مل سکتی ہے اور اسی طرف آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اشارہ کیا۔ اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ذرا اپنے ملک پر نظر تو ڈالیں برف پوش پہاڑوں سے لیکر صحراؤں کی وسعت تک ، ساحلی پٹی ،سے میدانی علاقوں تک اس سرزمین میں کیا کچھ نہیں؟۔ ہمارا خوشحالی کے راستے پر گامزن رہنا ہی استقامت ہے۔ قرآنی آیات کا حوالہ دیا علامہ اقبال کے اشعار کا ذکر کیا کہ
ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے
خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے
عبث ہے شکوہ تقدیر یزداں
تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے
امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ ہماری زمین معدنیات سے مزین ہے، استفادہ کیلئے بیرونی سرمایہ کاروں کو دعوت دی کہ خزانے دریافت کریں۔ پہلے ایگریکلچر پر فوکس کیا گیا ٹیکنالوجی میں بہت پوٹینشل ہے۔ ریکوڈک گیم چینجر ہوسکتا ہے۔یہ منصوبہ شروع ہوچکا۔ گلگت اور بلتستان، پختونخواہ اور بلوچستان میں ہر قسم کی معدنیات ہیں۔ ٹیکنالوجی اور انوسٹمنٹ کی ضرورت ہے۔ جو ڈائریکشن اب ہے اس پر ہم چلے تو پاکستان میں معاشی انقلاب برپا ہوسکتا ہے، غیر ملکی کمپنیاں بھی کمائیں گی ، ٹیکسوں کی مد میں پاکستان کو منافع ملے گا اور (social corporate responsibility) جہاں معدنیات ہیں وہاں بہت زیادہ ترقی ہوگی۔ کالجز ، ہیلتھ سینٹرز بنیں گے، مقامی روزگارمیں اضافہ ہوگا پاکستان کی اقتصادی ترقی میں بڑا انقلاب اورغیر معمولی تبدیلی آئیگی۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

شیعہ بھائی نہیں کافر ہیں مولانا منظور مینگل

شیعہ بھائی نہیں کافر ہیں مولانا منظور مینگل

کرائے کے مفتی کو مفتی اعظم پاکستان کس نے بنایا؟، شیعہ قرآن کو نہیں مانتے ،تم ان کو مسلمان کہتے ہو؟

مولانا منظور مینگل کی بات کا جواب جذبات نہیں دلائل سے دیں تو مفتی تقی عثمانی کی جان چھوٹے گی!

کرائے کا مفتی کہتا ہے کہ ”شیعہ ہمارے مسلمان بھائی ہیں پاکستان میں جو شیعہ ہیں ان کو ہم کافر نہیں کہتے: مفتی رفیع عثمانی”۔ تو تو ایران گیا نہیں، میں گیا ہوں ،انکے بڑے بڑے پوپ ،پادری ان سے میں مل چکا۔ تو نے نہیں دیکھا تیرے بڑوں نے بھی نہیں دیکھا۔ میں ایران کے عالمی مقابلوں میں گیا۔ تجھے کیا پتہ؟ پتہ نہیں کس نے مفتی اعظم بنادیا۔ تو کہاں سے مفتی اعظم پاکستان ہے؟ قرآن کے دشمن تیرے بھائی؟، صحابہ کو مرتد کہہ رہے ہیں وہ تیرے بھائی؟ اللہ کی اہانت کررہے ہیں تیرے بھائی؟، جو نبی ۖ کی توہین گستاخی کررہے ہیں تیرے بھائی ؟ جو علی کا نام سہارا اور اہل بیت کا نام لیکر خلق خدا کو دھوکہ دے رہے ہیں ، اللہ کی قسم علی کا کیا کہنا، علی حافظ قرآن۔ علی ایسا کہ کمپیوٹر بھی مقابلہ نہیں کرسکتا ،علی کو قرآن استحزر مستحزر۔ علی کو علوم قرآن مستحزر۔ آپ اور پوری دنیا کو چیلنج ہے ایک شیعہ بڑے سے بڑا مولوی لاؤ جو قرآن کے10صفحے سنا سکے۔ اس قرآن کو کوئی بھی ان میں سے یاد نہیں کرتا اسلئے کہ اس قرآن کا جمع کرنے والا حضرت عثمان ہے۔ عثمان اور ابوبکر نے یہ قرآن لکھوائے۔ ابوبکر اور عمر سے ان کو دشمنی ہے۔ قرآن کو ابوبکر، عمراور عثمان نے جمع کیا، ہم اس کو ہاتھ نہیں لگائیں گے، حفظ نہیں کریں گے ، اس میں تحریف ہوچکی۔ اصل قرآن امام زمانہ امام مہدی لیکر آئیگا۔ اصل قرآن آئیگا تو یہ اس کو حفظ کریں گے۔ ہمارا جو مولوی ہے شیعوں سے ملتا ہے اور کہتا ہے کہ ارے بھائی ! میری زندگی گزر گئی سنیوں کے مدرسے میں لیکن میں نے یہ مستقل باب دیکھا ہی نہیں تھا کہ اہل بیت کے فضائل کیا ہیں؟۔ نبی ۖ کے نواسوں کے فضائل کیا ہیں؟ نبی کی بیویوں کے فضائل کیا ہیں؟۔ نبی کی بیٹی کے فضائل کیا ہیں؟، علی کے فضائل کیا ہیں؟، یہ چیز تو اہل سنت چھپارہے ہیں۔ اللہ کی قسم کھاکر کہتا ہوں چھپاتے نہیں ، ایسے پڑھاتے ہیں کہ یہ سوچ نہیں سکتا۔ آپ آجائیں گھنٹوں کے گھنٹے مستقل ہمارے پاس مناقب حسین ہے ، مناقب حسن ہے، مناقب علی ہے، مناقب فاطمہ ہے ۔ یہ بخاری، ترمذی، نسائی، ابوداؤد میں۔ جھوٹا ہمارا سنی مولوی دجال یہ کیوں جھوٹ بولتا ہے کہ سنیوں کے یہاں یہ چیزیں نہیں؟۔ پھر علی کا وارث میں یا شیعہ؟۔ حسن حسین کا وارث میں ہوں یا وہ کالی پگڑی والا جس کا چہرہ کالا اور اللہ نے اندر سے دل بھی کالا کیا، ان کا وارث میں یا یہ لوگ ؟۔ انکے وارث ہم ہیں یہ قرآن ہاتھ میں لو اور مجھے اشارہ کرو پڑھ لو کسی جگہ سے ۔ خدا کی قسم انہیں قرآن نہیں آتا ۔ ہمارے کرائے کا مفتی بھی کہتا ہے کہ ہمارے مسلمان بھائی ہیں پاکستان بنانے میں ان کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔

___مولانا منظور مینگل کے بیان پر تبصرہ ___
آرمی چیف سید عاصم منیر ہمیں مولانا منظور مینگل کیساتھ بٹھادیں۔ جب وہ درسِ نظامی اور اپنے استاذ مولانا سلیم اللہ خان کی کتاب ” کشف الباری ” میں موجود قرآن کی تحریف کے عقیدے سے اعلانیہ توبہ کرے گا۔ تواس اقدام سے شیعہ سنی منافرت ختم ہونے کا آغاز ہو گا۔ منظور مینگل پنجابیوں کو غیرت سے عاری سمجھتا ہے مگر اس کا دماغ کھل جائے گا کہ اصل بے غیرتی کیا ہے؟۔اس نے کہا کہ ایک پنجابی عورت نے اپنے خاوند کو تھپڑ مارا ۔ میں نے پنجابی شاگرد سے کہا کہ یہ بلوچ ہوتا تو بیوی کو مارتا یا کم ازکم تین طلا ق دے کر چھوڑ دیتا۔
ایک بلوچ دوست کو جب حلالہ کی لعنت سمجھ میں آگئی تو اس نے بتایا کہ گاؤں میں ایک امام نے حلالہ کیا، عرصہ بعد عورت نظر آئی تو پوچھا کہ مزہ آیا تھا؟۔ عورت نے کہا کہ نہیں!۔ امام نے کہا کہ پھر حلال نہ ہوئی ، دوبارہ جماع کیا کہ مزہ آیا؟۔ عورت نے کہا کہ ہاں!۔ بے غیرتی یہ تھی ۔منظور مینگل نے اقبال کے اشعار میں” بڈھے بلوچ کی نصیحت ” پڑھی اور نہ مرد کامل سے فیض پایا۔ غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ ودومیں۔ حاصل کسی کامل سے یہ ہنر کر۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

افغان طالبان اور پاکستان اسلام کی بنیاد پر اپنا ایسا پروگرام تشکیل دے سکتے ہیں جو خطے میں دہشت گردی کی روک تھام کا ذریعہ ہو اور دیرپا امن و استحکام اور خوشحالی کا پیغام دنیا بھر کودے۔

افغان طالبان اور پاکستان اسلام کی بنیاد پر اپنا ایسا پروگرام تشکیل دے سکتے ہیں جو خطے میں دہشت گردی کی روک تھام کا ذریعہ ہو اور دیرپا امن و استحکام اور خوشحالی کا پیغام دنیا بھر کودے۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

پاکستان میں سیاسی استحکام کے لئے عمران خان کی طرح تمام سول و ملٹری بیوروکریٹس اور سیاسی و غیر سیاسی رہنماؤں کو توشہ خانہ میں دھر لیا جائے ،جرمانہ وصول کیا جائے

ہم اپنوں اور پوری دنیا کو یہ بتادیں کہ اسلام نے انسانیت کو دورِ جاہلیت سے نکال کر کیا کیا تحائف دیے ہیں اور اپنی جہالت سے پھر کس طرح قرآن کی معنوی تحریف کا شکار ہوئے؟

جب امریکہ میں9/11کا واقعہ ہوا تو افغانستان کا کیا حال کردیا گیا؟۔ قندھار امریکی ائیر بیس سے گوانتا نامو بے تک کی داستانیں افغانستان کے سفیر مُلا عبد السلام ضعیف اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے علاوہ ان گنت داستانیں ہیں جو یوٹیوب پر دستیاب ہیں۔ پھرعراق اور لیبیا کی بھی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ پاکستان میں خیبر پختونخواہ اور قبائلی علاقہ جات سمیت تسلسل کے ساتھ چھوٹے بڑے واقعات ہوئے، سانحہ باجوڑ بھی اس تسلسل کا ایک حصہ ہے، اس کے بعد بھی خودکش دھماکوں کو کنٹرول کرنا افغانستان اور پاکستان کے بس کی بات نہیں۔
جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تھا تو پاکستان میں علماء قرآنی آیت پڑھتے تھے کہ اِذْ یُوْحِیْ رَبُّکَ اِلَی الملآ ئکةِ اَنِّیْ مَعَکُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاسَاُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَ اضْرِبُوْا مِنْہُمْ کُلَّ بَنَانٍ(الانفال:12)
ترجمہ: ”جب آپ کے رب نے فرشتوں کو وحی کی کہ میں تمہارے ساتھ ہوں تم مسلمانوں کو ثابت قدم رکھو۔ عنقریب میں کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دوں گا تو تم کافروں کی گردنیں مارو اورہر جوڑ پر ضرب لگاؤ”۔
جب تلواروں کی جنگ ہو تو کارگر ضرب گردن پر ہوتی ہے لیکن کبھی گردن کا موقع نہیں ملتا تو کسی جگہ پر بھی ضرب لگا کر دشمن پر تسلط حاصل کیا جاتا ہے۔ اس آیت کا ترجمہ علماء اور خطیبوں نے منبروں پر یہ کرنا شروع کردیا کہ ”کافروں کی گردنیں مارو اور ان کو ہر ہر جوڑ پر مار کر ٹکڑے ٹکڑے کردو”۔ جنوبی وزیرستان علاقہ محسود میں پہلا گروپ عبد اللہ محسود کا تھا جو گوانتا ناموبے سے رہا ہوگیا تھا۔ دوسرا بیت اللہ محسود کا تھا جس کا گھر بار بنوں میں تھا اور وزیرستان کی سرزمین پر اس کی کوئی جائیداد نہیں تھی۔ شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان وزیرعلاقہ میں پہلے سے طالبان کے گروپ موجود تھے جن میں جنوبی وزیرستان کے نیک محمد اور شمالی وزیرستان کے حافظ گل بہادر گروپ زیادہ مشہور تھے۔ شمالی وزیرستان میں مشہور بدمعاشوں کو طالبان نے کھمبوں پر لٹکایا تو عوام بڑی خوش ہوئی۔ طالبان کو عوام میں ہر جگہ زبردست پذیرائی حاصل ہوئی۔ جتنے بدمعاش غنڈے تھے وہ بھی طالبان بن گئے۔ کمزور اور غریب طبقہ بھی طالبان بن گیا۔ سب سے زیادہ طالبان کا گڑھ وزیرستان کا محسود علاقہ بن گیا۔ وزیر علاقے سے جو ازبک وغیرہ بے دخل کئے گئے تھے وہ بھی محسود علاقے میں کیمپ لگاکر آباد ہوئے تھے۔
ایک مرتبہ ازبک اور مقامی طالبان کے کیمپ قریب قریب تھے تو ہیلی کاپٹر کے ذریعے مقامی طالبان پر بمباری کی گئی جس میں ہمارے اسکول کبیر پبلک اکیڈمی کا ایک برکی طالب علم شہید اور ایک اُستادزخمی ہوئے۔ جان محمد اورکزئی گورنر نے محسود قبائل کو پشاور گورنر ہاؤس طلب کیا اور ان کو پوری تفصیل بتائی کہ کس طرح ازبک محسود ایریا میں گئے اور کس کس نے کہاں کہاں ان کو ٹھہرایا تھا؟ جس پر جمعیت علماء اسلام ٹانک کے ضلعی جنرل سیکریٹری مولانا عصام الدین محسود نے کہا کہ صاحب! میں معافی چاہتا ہوں جتنی تفصیل آپ کو معلوم ہے اتنی ہمیں پتہ نہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر آپ نے ازبک کے کیمپ کو نشانہ کیوں نہیں بنایا؟۔ جس پر جنرل اورکزئی نے کہا کہ اگر ہم نہ کرتے تو امریکہ یہ کرتا۔ یہ تسلی بخش جواب نہ تھا لیکن طاقتور کے سامنے کون بول سکتا تھا؟۔
باجوڑ واقعہ کے بعد سابق سینیٹر مولانا محمد صالح شاہ قریشی سے شیر عالم برکی نے تفصیل سے انٹرویو لیا ہے جس کی کچھ معلومات عوام اور بااثر طبقات تک پہنچ جائیں تو مفید ہوگا۔ انگریز دور میں کچھ قبائلی سرکاری ملکان کو مراعات ملتی تھیں۔ ماہانہ2روپے ،5روپے ،50روپے،120روپے وغیرہ جن جن افراد کو ملتے تھے تو انگریز دور میں ان کیلئے یہ بہت بڑا اثاثہ ہوتا ہوگا۔ جب انگریز ہندوستان چھوڑ کر گیا تو بھی کافی عرصہ تک برطانیہ سے انگریز سرکار کے دُرِ یتیموں کو وظیفہ ملتا تھا۔ پھر آزادی کے بعد پاکستان نے بھی ان ملکان میں خاطر خواہ اضافہ کیا۔ قبائلی علاقوں پر سرکار کا جتنا خرچہ ہوتا تھا اس میں ملکان کے پیسے آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں تھے لیکن انگریز کے نمک خوار کے نام سے بدنام ہوئے۔ سید یوسف رضا گیلانی جب وزیر اعظم تھے تو سینیٹر صالح شاہ کیلئے6ہزار ماہانہ وظیفہ مقرر کرکے پورے قبائل کا گرینڈ چیف بنادیا۔ امریکہ سے عبوری وزیر اعظم معین قریشی آئے تھے تو قبائل میں بھی قومی اسمبلی کے ممبر وں کیلئے سرکاری ملکان کی جگہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر کردیا تھا۔ پہلے جنوبی وزیرستان میں1300ملکان کے ووٹوں سے قومی اسمبلی کا ممبر منتخب ہوتا تھا۔ جس میں ملکان کی اکثریت ووٹ بیچتے تھے۔جس طرح آج ٹانک میں بعض لوگوں نے قومی شناختی کارڈ کی تصدیق کیلئے بھی فیس رکھی ہے اسی طرح ملکان بھی شناختی کارڈ کی تصدیق کیلئے کبھی دستخط کرتے تھے اور بعض اس پر مفاد بھی اٹھاتے ہوں گے۔ جب طالبان نے چندوں اور مالی مفادات کا مزہ چکھ لیا تو وہ بھی دیوانے ہوگئے۔ کئی کتابوں کے مصنف اسماعیل ساگر جس نے سوشل میڈیا پر بہت زیادہ ویلاگ بھی کئے ۔ اس نے بتایا کہ پنڈی کے قریب بلیک واٹر نے بڑے پیمانے پر فوج اور پولیس سے نکالے گئے بدمعاش بھرتی کئے تھے اور اربوں روپے قبائل میں خرچ کئے۔
جب9/11کا واقعہ ہوا تو ہم نے ماہنامہ ضرب حق کا خصوصی شمارہ نکالا تھا اور اس میں بنوں کے ایک جوان حبیب اللہ کے خواب کی بڑی سرخی لگائی تھی۔ جس میں نبی کریم ۖ نے فرمایا تھا کہ” اللہ امریکہ کو تباہ کردے”۔ پہلے اس کو وہاں کے مذہبی طبقے نے تنگ کیا کہ تم شہرت چاہتے ہو پھر بڑے بالوں والے اٹھاکر لے گئے اور کہا کہ اگرپھر زبان کھولی تو پھر نظر نہیں آؤ گے۔ ہمیں یہ معمہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ایک خواب میں کونسا ایسا جرم ہے کہ اس بیچارے کو دھمکیاں دی گئیں۔ جب اسماعیل ساگر نے کہا کہ میں پہلے ڈر کے مارے بتا نہیں سکتا تھا اسلئے کہ حالات بہت مشکل تھے تو ہم سمجھے کہ یہ کرایہ دار افراد کی کاروائی ہوسکتی ہے لیکن پھر جب مُلا ضعیف کی روداد یوٹیوب پر دیکھی تو سمجھا کہ یہ فرشتے بھی ہوسکتے ہیں جنہوں نے ہمیں امریکیوں کی دسترس سے بچایا ہو۔
سینیٹر صالح شاہ کا یہ انٹرویو مکمل اردو ترجمے کے ساتھ تمام میڈیا چینلوں پر نشر ہونا چاہیے اسلئے کہ ایک تو انہوں نے اپیل کی ہے کہ عوام تک یہ باتیں پہنچائی جائیں۔ دوسرا یہ کہ جنرل فیض حمید نے جن قبائلی رہنماؤں کو افغانستان بھیج کر تحریک طالبان سے صلح کی کوشش کی تھی اس میں اس کا مکمل احوال ہے۔ ایک تو جنرل فیض حمید نے سرکاری ملکان کے معطل شدہ وظائف کو دوبارہ جاری کردیا تھا جو انضمام کے بعد ختم کئے گئے تھے۔ دوسرا یہ کہ پہلے یہ مذاکرات طالبان حکومت سے پاکستان کی حکومت کی طرف سے ہوئے تھے اور پھر جب بقول مولانا صالح شاہ کے جب ہم نے پاکستانی طالبان سے براہ راست رابطہ کیا تو افغان طالبان ناراض ہوگئے کہ تم نے براہ راست بات کیوں کی؟۔ جس سے یہ اعتراض بالکل لغو بن جاتا ہے کہ پاکستان کو افغان حکومت سے ہی براہ راست بات کرنی چاہیے تھی۔ ایک طرف پاکستانی یہ چاہتے تھے تو دوسری طرف افغان طالبان کی بھی یہی خواہش تھی۔ تیسرا یہ کہ تحریک طالبان پاکستان سے یہ طے ہوگیا تھا کہ اگر قبائل کی اکثریت دوبارہ انضمام چاہتی ہو تو ان کا مطالبہ مان لیا جائے گا اور اگر وہ انضمام نہ چاہتے ہوں تو وہ اکثریت کی مخالفت نہیں کریں گے۔ لیکن اس دوران جنرل فیض حمید کو تبدیل کردیا گیا اور بات ادھوری رہ گئی۔
مولانا صالح شاہ قریشی نے یہ بھی بتایا کہ جو قبائل پہلے انضمام کے حق میں تھے وہ بھی اب مخالف ہوگئے ہیں۔ قبائلی عوام بھی امن چاہتے ہیں اور فوجی بھی امن چاہتے ہیں لیکن وہاں امن ہے نہیں۔ کتے اتنے بڑھ گئے ہیں جو جانوروں کو کھاجاتے ہیں۔ ایک ایک آدمی کے کئی کئی جانور کھاکر کتوں نے عوام سے ان کا روزگار چھین لیا ہے لیکن سرکار نہ کتوں کو خود مارتی ہے اور نہ عوام کو مارنے کی اجازت دیتی ہے۔ خنزیر بہت زیادہ ہوگئے ہیں جو فصلوں کو تباہ کرتے ہیں جہاں گھاس میں خنزیر لوٹیاں لگاتے ہیں تو اس کو بدبو کی وجہ سے جانور نہیں کھاتے۔ عام آدمی کو پستول رکھنے کی اجازت بھی نہیں ہے لیکن جب دو قومیں آپس میں لڑتی ہیں تو بھاری اسلحوں سے ایک دوسرے کو تباہ کرتے ہیں۔ یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان پر حکومت کی طرف سے پابندی کیوں نہیں لگتی؟۔ وزیر ، سلمان خیل اور دوتانی قبائل میں وانہ کے قریب بڑی لڑائی ہوئی، اس طرح شکئی اور شکتوئی میں لڑائیاں ہوئی ہیں۔ جب فوجی اور طالبان ایک دوسرے پر فائر کھولتے ہیں تو بھی عوام متاثر ہوتے ہیں۔ اتنے آپریشنوں کے باوجود آج تک امن نہیں آسکا اور ہمیں 7سالوں تک مہاجر بنادیا گیا تھا۔ ہم بنوں ، پنجاب، ژوب، سندھ اور مختلف علاقوں میں پناہ گزینی کی زندگی بھی گزار چکے ہیں اور بدامنی کی وجہ سے اکثریت ہمارے علاقے کی طرف اپنی آبادی آج بھی رُخ نہیں کرتی ہے۔ ہم سمجھاتے ہیں کہ بدامنی سندھ ، کراچی، بلوچستان، بنوں اور پنجاب ہر کہیں پر ہے، ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک میں کون لوگ محفوظ ہیں؟۔ لیکن لوگ رہتے ہیں۔ کل بھی لکی مروت میں ایک بندے کو قتل کردیا گیا تو کیا لوگ اپنا وطن چھوڑ دیں؟۔ میری لوگوں سے گزارش ہے کہ اپنا علاقہ آباد کریں گے تو امن آئے گا۔
لطیفے کی بات یہ ہے کہ مولانا صالح شاہ نے کہا کہ جن لوگوں کو انگریز نے وظائف دئیے تھے وہ کہتے ہیں کہ تم کونسا انگریز کا سر قلم کرکے لائے ہو جو اتنی بڑی ملکی مل گئی؟۔دوسرے جواب میں کہتے ہیں کہ وہ کونسے انگریز کے سر قلم کرکے لائے تھے جن کو یہ اعزاز دیا گیا؟ ۔ حالانکہ یہ اعزازات سرکار کی وفاداری میں دئیے گئے ہیں۔ انگریز کے سر لانے والوں کو کیوں اعزاز ملتا؟۔
تحریک طالبان پاکستان نے امریکہ کے خلاف جو قربانیاں دی ہیں ان کے افغان طالبان معترف ہوں گے۔ دوسری طرف تحریک طالبان پاکستان نے جو دشمنیاں اپنوں سے مول لی ہیں وہ بھی خطرناک ہیں۔ بیت اللہ محسود اور عبد اللہ محسود گروپوں نے بھی ایک دوسرے کیخلاف کاروائیاں کی ہیں۔ ہم نے بھی تجویز پیش کی تھی کہ ان سے مذاکرات کرکے پاکستان میں آباد کیا جائے۔ ان میں بہت سے وہ لوگ ہیںجنہوں نے ایمانی جذبے کی بنیاد پر امریکہ کے خلاف جہاد کیا اور اب اس ماحول میں بہت پکے ہوگئے ہیں۔ مفتی عبد الرحیم اور جنرل سید عاصم منیر نے ان کو خوارج قرار دیا ہے لیکن ان کو خوارج بنانے والے کون ہیں؟۔ ایک دن میں یہ لوگ من و سلویٰ کی طرح آسمان سے زمین پر نہیں اترے ہیں بلکہ20سال میں نوزائدہ بچے بھی جوان ہوجاتے ہیں۔ افغانستان میں داعش ، تحریک طالبان پاکستان ، حقانی نیٹ ورک ، ملا یعقوب اور دوسرے افراد کے درمیان اس سے زیادہ بد اعتمادی کی اطلاع ہے جو پاکستان کی فوج اور سیاستدانوں کے درمیان موجود ہے۔ اس طرح شیعہ سنی ، بریلوی دیوبندی اور حنفی اہلحدیث کے درمیان پاکستان میں بھی منافرت کی ایک فضاء ہے۔ اگر ہم سب نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو یہ خطہ پھر آگ اُگل سکتا ہے۔ امریکہ ڈرون حملے کرے گا اور افغان طالبان ٹھکانے چھوڑ کر بھاگ رہے ہوں گے۔
پاکستان میں جب بد امنی کی فضاء تھی تو سرکاری گاڑیوں پر نمبر پلیٹ تک نہیں لگائے جاتے تھے۔ پہلے سے زیادہ سیاسی عدم استحکام اب پیدا ہوا ہے اور اس کی بنیادی وجہ پنجاب میں اسٹیبلشمنٹ کی پارٹیوں عمران خان اور ن لیگ کے درمیان دشمنی کی فضاء ہے۔ مریم نواز کافی عرصے سے خاموش تھی اور اب سوشل میڈیا پرعمران خان کو سزا دینے والے جج ہمایوں دلاور کی ایک ویڈیو کسی نامعلوم عورت کے ساتھ وائرل ہوئی ہے، اس سے پہلے جنرل قمر جاوید باجوہ کی ویڈیو بھی بہت ہلکے انداز میں وائرل ہوئی تھی جس میں خاتون کا پتہ نہیں چلتا تھا لیکن جنرل باجوہ کی تصویر واضح تھی۔ اس سے پہلے بھی ایک جج کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی اور اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ گہری سازشیں چل رہی ہیں۔
قرآن میں سورہ یوسف کو احسن القصص قرار دیا گیا ہے۔ عزیز مصر کی بیوی عام بدچلن نہیں تھی اور حضرت یوسف علیہ السلام بھی ایک تو پیغمبر تھے اور دوسرا انہوں نے فرمایا :”میں اپنے نفس کو بری نہیں سمجھتا بیشک نفس سرکشی کی طرف لے جاتا ہے مگر جس پر میرا رب رحم کرے”۔ (تیرہواں پارہ) ۔
تحریک انصاف اور ن لیگ کے زرخرید افراد ایک دوسرے کو ویڈیو لیک کرنے کی دھمکیاں دیتے تھے اور ویڈیوز بھی لیک ہوجاتی تھیں۔ جس سے پورا ملک بداعتمادی کی فضاؤں میں لٹک گیا۔ اب بھی پتہ نہیں کیا کیا ہے اور کس کس کی کیا کیا ویڈیو آئے گی؟۔ بلیک میلنگ کے ذریعے سے ملک میں استحکام نہیں آسکتا بلکہ فحاشی و عریانی اور بد اعتمادی کی فضائیں ملک و قوم میں بنتی ہیں۔
ہم نے اپنے اخبار اور اپنی کتابوں میں بہت مضبوط دلائل دئیے ہیں کہ اللہ نے قرآن کے ذریعے انسانیت کو کیا کیادیا تھا اور ہم نے کیا کیا کھویا ہے؟۔
1:سورہ محمدۖ میں ہے کہ جنگی قیدیوں کو احسان کرکے بھی آزاد کرسکتے ہیں اور فدیہ لے کر بھی آزاد کرسکتے ہیں۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن نے جنگ میں قید ہونے والے کسی بھی فرد کو غلام اور لونڈی بنانے کی اجازت نہیں دی ہے اور اس پر ذہنی اور جسمانی تشدد کی بھی اجازت نہیں دی ہے اور لمبے عرصے تک قید کرنے کی اجازت بھی نہیں دی ہے۔ جب نبی ۖ نے فرمایا کہ عورتوں پر ہاتھ بھی مت اٹھاؤ تو ان کو لونڈیاں بنانے کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے؟۔
جب عیسائیوں نے بیت المقدس کو مسلمانوں سے فتح کیا تو مسلمانوں کو بے دریغ شہید کیا گیا، ان کی عزتیں لوٹی گئیں اور مظالم کے پہاڑ توڑے گئے۔ لیکن جب صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو فتح کیا تو عیسائیوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک نہیں کیا۔ کسی کو قتل نہیں کیا اور نہ کسی عورت کی عزت لوٹی گئی۔ صرف فدیہ لے کر چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور جن کے پاس فدیہ دینے کیلئے کچھ نہیں تھا تو ان کو بغیر فدیہ احسان کیساتھ چھوڑ دیا اور قرآن پر من و عن عمل کیا۔ آج مغرب کے عیسائی صلاح الدین ایوبی کو بہت اچھے حکمران کے طور پر یاد کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ” اے بنی اسرائیل ! یاد کرو جب آل فرعون تمہارے بیٹوں کو قتل کرتے تھے اور تمہاری عورتوں کی عزتیں لوٹتے تھے”۔(القرآن)۔ جب آل فرعون بھی نبی اسرائیل کو لونڈیاں بناتے تھے تو کیا یہ ہوسکتا ہے کہ اللہ نے مسلمانوں کوآل فرعون کی جگہ لوگوں پر لونڈیاں بنانے کیلئے مسلط کیا ہو؟۔
جب روس نے کمیونزم اور سوشلزم کے ذریعے سے انسانوں کو غلامی سے نجات دلانے کا پروگرام دیا تو اللہ نے روس کو سپر طاقت بنادیا۔ اسی طرح جب امریکہ نے اپنے ملک میں غلاموں اور لونڈیوں کی خرید و فروخت پر پابندی لگائی تو اللہ تعالیٰ نے امریکہ کو بھی سپر طاقت بنادیا۔ اگر مسلمان بھی یہ طے کرلیں کہ دنیا کو غلامی سے آزادی دلانی ہے تو پھر ان کو بھی دنیا کی خلافت مل سکتی ہے۔
2: قرآن میں بیوی کا حق مہر شوہر کی استطاعت کے مطابق ہے لیکن قرآنی الفاظ پر علماء و فقہاء نے توجہ نہیں دی ہے۔ اگر شوہر ارب پتی ہے یا کروڑ پتی ہے یا لکھ پتی ہے یا پھر ہزار اور بالکل بھی حق مہر کی صلاحیت سے محروم ہے تو عورت بھی اس پر راضی ہوجائے تو حرج نہیں ہے۔ عورت کی شوہر کی طرف نسبت میں بھی اتنی اہمیت ہے کہ اگر ہاتھ لگانے سے پہلے بھی طلاق دی جائے تو مقرر کردہ حق مہر کا نصف اور اگر مقرر نہ ہو تو امیر پر اپنی وسعت کے مطابق اور غریب پر اپنی وسعت کے مطابق دینا فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق میں یہ واضح کیا ہے کہ اگر عورت نصف سے کم پر بھی راضی ہو تو ٹھیک ہے اور مرد نصف سے زیادہ بھی دے تو ٹھیک ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ جس کے ہاتھ میں نکاح کا گرہ ہے وہ نصف سے زیادہ دے اور ایکدوسرے پر فضل نہ بھولو۔
قرآن میں چونکہ ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق کا مسئلہ ہے اور طلاق شوہر ہی کی طرف سے ہوتی ہے اسلئے یہ واضح کردیا کہ جب شوہر چھوڑنا چاہتا ہے جس کے ہاتھ میں طلاق کا گرہ ہے تو اس کو اپنے حق سے زیادہ دینا مناسب ہے۔
نادان فقہاء نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کرلیا کہ طلاق مرد کا حق ہے اور عورت کا حق خلع اس وقت ہے جب مردخلع دینے پر راضی ہو۔ حالانکہ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ اس کے نتیجے میں ایسے غیر فطری فقہی مسائل نے جنم لیا ہے کہ جب مرد تین طلاق دے پھر اس سے مکر جائے اور عورت کے پاس دو گواہ نہ ہوں اور خلع بھی عورت کو نہ ملے تو عورت اپنے شوہر کے ساتھ حرامکاری پر مجبور ہوگی۔
حالانکہ اسلام ایسی جہالت کے تصور کا بھی قائل نہیں ہے۔ سورہ نساء آیت 19میں پہلے اللہ نے نہ صرف عورت کو خلع کا حق دیا ہے بلکہ حق مہر کے علاوہ جو چیزیں بھی شوہر نے دی ہیں اور وہ لے جانے والی ہیں جیسے کپڑے ، چپل، زیور، نقدی، گاڑی اور تمام منقولہ دی ہوئی اشیاء بھی ساتھ لے جاسکتی ہے۔ ان میں بعض چیزیں بھی شوہر واپس لینے کا حق نہیں رکھتا۔ مگر عورت کھلی فحاشی کرے تو ۔ اور عورت چھوڑ کر جارہی ہو تو بھی اس کے ساتھ حسن سلوک کا حکم ہے۔ اگر وہ بری لگتی ہوں تو ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز بری لگے اور اللہ اس میں بہت سارا خیر پیدا کرے۔ آیت19النساء کو عوام و خواص اچھی طرح سے تدبر سے دیکھیں۔
پھر آیت20اور21النساء میں شوہر کے طلاق کا ذکر ہے۔ جس میں جتنی بھی چیزیں دی ہیں منقولہ و غیر منقولہ اشیاء مکان ، دوکان، پلاٹ، زمین، باغ، فیکٹری اورمل سب کی سب طلاق شدہ بیوی کی ملکیت ہوں گی بھلے خزانے دئیے ہوں۔ خلع اور طلاق میں حقوق کا فرق ہے۔ اگر عورت طلاق کا دعویٰ کرتی ہے اور اس کے پاس گواہ نہیں تو اس پر خود بخود خلع کا اطلاق ہوگا۔ اور اس کو خلع کے حقوق ملیں گے۔ اگر اس کے پاس گواہ ہوں گے تو طلاق کے حقوق ملیں گے۔
جب خلع و طلاق کے حقوق کا مسئلہ سمجھ میں آجائے تو پھر طلاق کی حساسیت بھی سمجھ میں آئے گی۔ طلاق کیلئے اشارہ کنایہ اور صریح الفاظ کے تمام ابحاث اس وقت کارآمد ہونگے جب خلع و طلاق کے حقوق کا پتہ چلے گا۔ قرآنی آیات میں اللہ تعالیٰ نے بار بار صلح و اصلاح،باہمی رضامندی اور معروف کی شرط پر طلاق کے بعد رجوع کی اجازت دی ہے۔ جب میاں بیوی رجوع کیلئے راضی ہوں اور مولوی فتویٰ دے کہ جب تک حلالہ نہیں ہوگا رجوع نہیں ہوسکتا تو یہ اتنی بڑی خباثت ہے کہ امریکہ نے جتنے مظالم مسلمانوں پر کئے ہیں اس سے زیادہ حلالہ کی لعنت اور بے غیرتی اس پر بھاری ہے۔ ہم نے اس پر اپنے اخبار اور اپنی کتابوں میں ہر طرح کے دلائل دئیے ہیں لیکن مولوی غیرت نہیں کھاتا ہے۔
مولانا انور شاہ کشمیری نے لکھا ہے کہ ”قرآن میں معنوی تحریف بہت ہوئی ہے ”۔ (فیض الباری شرح صحیح بخاری)قرآن میں معنوی تحریف کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ خلع کیلئے سورہ نساء کی آیت19کے بجائے سورہ بقرہ کی آیت229سے خلع مراد لیا گیا ہے۔ حالانکہ اس میں2مرتبہ طلاق اور تیسری مرتبہ طلاق کے درمیان خلع کا کیا تصور ہوسکتا ہے؟۔ اللہ نے آیت229البقرہ میں پہلے3مرتبہ طلاق کا ذکر کیا ہے نبی ۖ نے فرمایا کہ الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان میں تسریح باحسان تیسری طلاق ہے۔ جس کو دیوبندی مکتبہ فکر کے وفاق المدارس کے صدر مفتی تقی عثمانی کے اُستاذ مولانا سلیم اللہ خان نے اپنی کتاب ”کشف الباری شرح بخاری” اور بریلوی مکتبہ فکر کے تنظیم المدارس کے صدر مفتی منیب الرحمن کے اُستاذ علامہ غلام رسول سعیدی نے اپنی کتاب ”نعم الباری شرح بخاری” میں نقل کیا ہے۔
آیت229میں3طلاق کے بعد عورت کے حق کا ذکر ہے کہ دی ہوئی چیز واپس نہیں لے سکتے ہیں مگر جب دونوں کو یہ خوف ہو اور فیصلہ کرنے والوں کو بھی یہ خوف ہو کہ اگر وہ دی ہوئی چیز واپس نہیں کی گئی تو دونوں میں رابطے کا ذریعہ بنے گی اور اس کی وجہ سے دونوں اللہ کے حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے۔ ناجائز جنسی تعلقات میں مبتلا ہوجائیں گے تو پھر اس کو فدیہ کرنے میں دونوں پر حرج نہیں۔ یہ وہ صورت ہے کہ جب دونوں نے اور فیصلہ کرنے والوں نے یہ طے کیا ہے کہ اب صلح نہیں ہوگی تو پھر دنیا میں مرد کی غیرت بھی کارفرما ہوتی ہے اور طلاق کے بعد بھی دوسرے شوہر سے اپنی مرضی کے مطابق نکاح کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلئے اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا کہ اس کے بعد اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے۔ پھر اگر طلاق ہوجائے تو اس سے نکاح کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں ہے۔ آیت230البقرہ۔
جب اس سے پہلے کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے عدت کے اندر اصلاح کی شرط پر رجوع کی اجازت دی ہے اور اس کے بعد کی آیات میں بھی معروف اور صلح کی شرط پر رجوع کی اجازت دی ہے تو حلالے کاجاہلانہ تصور بالکل باطل ہوجاتا ہے۔ لیکن جب جہالت اور خواہشات کا خبط سوار ہوجائے تو لوگ عزت کو لوٹنے اور لٹانے پر آمادہ ہوجاتے ہیں اور ایسا اسلام کس کو قبول ہوگا؟۔
3: جس طرح نکاح میں حق مہر ایک اعزازی چیز ہے جو اگر بیوی شوہر کو بھی دے تو وہ خوشی خوشی اس میں سے کھاسکتا ہے۔ اگر نکاح و طلاق کا اسلامی قانون دنیا کے سامنے آجائے تو پوری دنیا کی خواتین اسلامی نظام کا مطالبہ کریں گی۔ آج عرب بھی اپنی بچیوں کو بیچ کر اس کا مال کھاتے ہیں اور پختون جنہوں نے اسلام کی نشاة ثانیہ کا آغاز کرنا ہے وہ بھی اپنی بچیوں کو بیچ کر مال کھاتے ہیں تو پھر دہشت گردی سے اسلام نہیں آسکتا۔ ہماری حکومت ، قبائلی عمائدین ، علماء اور تعلیم یافتہ طبقے سے اپیل ہے کہ عورتوں کو ان کے حقوق دلانے کیلئے صف اول کا کردار ادا کریں اور اس میں وہ دوسروں کے محتاج نہیں آگاہی کا اعلان کریں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv