فروری 2018 - Page 2 of 2 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

ریاست والدین کی طرح ہے مردانہ اولاد قبائل نے اُف تک نہیں کی: عتیق گیلانی کا اسلام آباد دھرنے سے خطاب

naqeebullah-mehsud-all-pakhtoon-jirga-islamabad-sham-e-ghariban-pir-roshan-south-waziristan-raja-ranjit-singh-asp-police-tank-dera-ismail-khan

(عبدالواحد : اسلام آباد) سید عتیق گیلانی نے آل پختون جرگہ کی شامِ غریباں سے کہا:
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یابندہ صحرائی یا مردِ کوہستانی
میں یہ پیغام دینا چاہتا ہوں(پیچھے سے پشتوکاکہاگیا،اکثر سلیمان خیل تھے جواردو نہیں سمجھتے) دھرنے کے لوگ میں شعور دیکھ رہا ہوں۔ان پر جو ظلم ہوا ، جو جبر ہواہے، ان میں درد بھی ہے اور تعصب نہیں۔ تم لوگ آج یہ کہتے ہو کہ ’’ یہ جو دہشتگردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے‘‘، یہ تمہارا نیا جنم ہے لیکن میں شروع سے یہی کہتا ہوں ۔ اٹھو! نعرہ لگاؤ یہ جو دہشت گردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے۔ مجھ پر جب فائرنگ ہوئی تھی تو ایس پی پولیس ٹانک بدمعاش نہیں عتیق اللہ وزیر شریف آدمی تھا، میں نے اسے کہاتھا کہ تمہارے بس کی بات نہیں، ریاست نے اسلحہ برداروں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے،میں ریاست کے تھانے میں ریاست کے خلاف کوئی ایف آئی آر کیوں درج کروں؟،تو ایس پی نے کہا کہ ’’میں ذاتی طور پر کیا خدمت کرسکتا ہوں‘‘۔( پیچھے سے کسی بزدل محسود کی پشتو میں آواز آئی کہ ’’ یہ قوم کی بدنامی کررہا ہے‘‘۔ بعد میں پتہ چلا کہ الیکشن میں حصہ لینے کے خواہشمند یہ آواز میناباغ کے بھتیجے بادشاہی کی تھی۔ عتیق گیلانی کا وجود اس دھرنے میں احتجاج کرنیوالوں کیخلاف ایک ایٹم بم تھا اسلئے کہ اپنا واقعہ ہی بیان کردیتا تو لوگ فوج و ریاست کے کردار پر شیم شیم کے بجائے اُلٹا ہی دھرنا دینے والوں کی ملامت کرتے ۔ پھر تقریر پشتو میں بدل گئی ،ایک طرف دھرنے کے انتطامیہ کی خوف سے ہوا خارج ہونے لگی تو دوسری طرف بہت جلدی میں کچھ اہم نکات پیش کردئیے گئے جس سے دھرنے کے انقلابی ترانے میں زنانہ مرثیہ پڑھنے کو دھچکا پہنچا)
میں قوم کی بدنامی نہیں کررہا ،قوم کی پگڑی اونچی کر رہا ہوں۔ لوگوں میں دوقسم کے افراد ہوتے ہیں۔ میں پہلے قبائل کی تاریخ بتاتا ہوں۔جب مغل اعظم اکبر بادشاہ کا ہندوستان میں اقتدار تھا ،تب جنوبی وزیرستان کے پیرروشان نے اکبر کی حکومت اور اس کا دین تسلیم کرنے سے انکار کیاتھا۔ قبائل اور پٹھانوں میں بغاوت برپا کی تھی۔ پھر راجہ رنجیت سنگھ آیا تو بھی آزاد قبائل کی یہی حیثیت تھی، پھر انگریز آیا تب قبائل اسی پوزیشن میں تھے جو آج ہیں۔ انگریز کے جانے کے بھی آزادی فوج و ریاست کوملی تھی ،ہم پہلے سے آزاد تھے۔ جب انگریز کے جانے کے بعد پاکستان اور بھارت آزاد ممالک بن گئے تو قبائل نے بھارت سے آئی ہوئی سیاسی قیادت قائداعظم کو حکمران تسلیم کرلیا، جب کشمیر کیلئے پاک فوج کے انگریزسربراہ میں لڑنے کی جرأت نہ تھی تو قائداعظم نے قبائل سے کشمیر کے جہاد کیلئے کہہ دیا، قبائل گئے کہ نہیں گئے؟۔ (حاضرین نے کہاکہ گئے) جب لیاقت علی خان کو شہید کیا گیا تو پاکستان میں حکمرانی کیلئے کوئی شخص نہ تھا۔ محمد علی بوگرا کو امریکہ سے اقتدار سنبھالنے کیلئے لایا گیا،ریاست والدین کی طرح ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایاہے کہ والدین کے سامنے اُف تک نہ کرو۔ قبائل نے بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کیا لیکن آج تک اُف بھی نہ کی۔ آج بھی یہ یہاں اُف کرنے کیلئے نہیں آئے ہیں۔ اولاد کی دوقسمیں ہوتی ہیں، ایک مردانہ اور دوسری زنانہ۔ بیٹے پر کتنی سختی کی جائے اور سزا دیجائے ، ذلیل ورسوا کیا جائے لیکن وہ اُف اسلئے نہیں کرتا کہ ان مشکلات کو برداشت کرنے کی وجہ سے اس میں اہلیت و صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ پھر وہ اپنے باپ کی جگہ گھر کا کاروبار سنبھالنے کے قابل بن جاتا ہے اور اپنے باپ کا منصب لے لیتا ہے۔ قبائل ریاست کے مرد بچے ہیں یہ وہ نہیں ہیں جو کہتے کہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘۔ (حاضرین نے بڑی داد دیدی) ، بیٹی کو جب لاڈ پیار سے پالا جائے تو وہ بھاگ کر کورٹ میرج کرلیتی ہے۔ ریاست نے جن لاڈلی بیٹیوں کو پالا تھا، بھٹو، نواز شریف اور عمران خان یہ کورٹ میرج والی ہیں۔ معاملہ صرف نقیب اللہ اور راؤ انوار کا نہیں بلکہ پورے نظام کا ہے ۔ میڈیا نے کتنے اور مظالم سے پردہ اٹھایا ہے۔ حاضرین تم مجھ سے وعدہ کرو کہ اب اس وقت تک تحریک جارہی رہے گی جب تک عوام کو ریاست کا فائدہ نہیں پہنچتا اور ظلم وجبر کے نظام کا خاتمہ نہیں ہوتا ہے۔

زینب قتل کے مجرم عمران علی کو علماء کی گھڑی ہوئی شریعت کےمطابق کوئی سزا نہیں ہوسکتی

zainab-murderer-imran-ali-ulama-islam-dna-punjab-police-supreme-court-of-pakistan

نوشتۂ دیوار کے ڈائریکٹر فنانس فیروز چھیپا نے کہا: اگر عمران علی غریب نہیں کسی امیر کا بیٹا ہوتا تو وکیل پیسہ کمانے کیلئے برسوں کیس کو اعلیٰ عدالتوں میں لٹکائے رکھتا اور بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتا۔ علماء بھی شریعت کے تحفظ میں نکلتے کہ شریعت کیخلاف زینب اور دیگر بچیوں کے قاتل عمران علی کو سزا دینا شریعت کو بدلنے کا بڑاجرم ہے۔ پاکستان میں روز روز کسی بچی کیساتھ زیادتی کے بعد قتل کی خبر آتی ہے۔ پہلے لوگوں میں اتنی ہمت ہوتی تھی کہ ایسے گھناؤنے جرائم پر خود بھی سزا دینے سے نہیں کتراتے تھے اور معاشرے کی سطح پر کسی میں اتنے گھناؤنے جرائم کی ہمت بھی نہیں ہوتی تھی۔ اب جرائم پیشہ افراد سیاستدان اور اکابر علماء بن گئے ہیں۔ ضمیر نام کی کوئی چیز ان میں نظر نہیں آتی ہے۔ بڑے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں اور غریبوں کو قانون کے شکنجے میں ناجائز سزا بھی دلوائی جاتی ہے۔ معاشرہ تباہی کے کنارے پہنچ گیاہے۔

hussain-nawaz-panama-leaks-qatari-khat-zainab-murderer-imran-ali-nawaz-sharif-isi
سید عتیق الرحمن گیلانی علماء کرام، سیاستدانوں ، صحافیوں اور عوام کے علاوہ اداروں میں بیداری کی روح پھونکنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔کوئی ذاتی مخاصمت نہیں ہے۔ ذاتیات سے بالاتر ہوکر ملک وقوم ، عالمِ اسلام اور عالمِ انسانیت کی سوچ رکھتے ہیں۔ تمام لسانی اکائیوں اور مسلکی تعصبات سے پاکیزہ سوچ کو پروان چڑھارہے ہیں اور سب کیلئے قابلِ قبول ہیں۔ اس سے پہلے کہ ملک کی سطح پر کوئی عذاب نازل ہو، افغانستان ، عراق، لیبیا اور شام کے بعد خدانخواستہ پاکستان کی باری آئے اور سب کے سب راؤ انوار کی طرح بلکہ ان سے بدتر زندگی کی اس نگر میں پہنچ جائیں کہ مشکلات سے نکل نہ سکیں، احوال کی اصلاح کیلئے کمربستہ ہوجائیں اور پاکستان میں پُر امن اور پرسکون ماحول کا فائدہ اٹھاکر ایک حقیقی انقلاب لائیں۔ غریب اور ناداروں کا غم کھانیوالے لیڈران میں غیرت ہوتی تو تین تین شادی کرنیوالا عمران خان کوئی ایک شادی کسی غریب لڑکی سے کرلیتا جو اپنی پسماندگی دور کرناچاہتے ہیں ۔

ماکنے تو بلتکار شماکنے تو چمتکار، واہ بھئی واہ، عبد القدوس بلوچ

baloch-tahira-syed-madam-tahira-maulana-sami-ul-haq-nawaz-sharif-quddus-bizenjo-asma-jahangir-ptv-maryam-nawaz

نوشتۂ دیوار کے تجزیہ کار عبدالقدس بلوچ نے مریم نواز اور نوازشریف کا عدلیہ پر مسلسل توپخانہ کھولنے پر اطمینان کا اظہار کیاہے کہ یہ نظام اپنے لاڈلوں کے ہاتھوں انجام تک پہنچ رہاہے۔ ایگزٹ کورعایت دینے والے جج کو پچاس لاکھ رشوت کے الزام میں پکڑا گیا تو حدیبیہ پیپرز میں کروڑوں کی رشوت کا معاملہ بعیدازقیاس نہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری سے لیکر مولانا سمیع الحق اور مولانا فضل الرحمن تک علماء کی صحبت اور ڈکٹیٹرشپ کی سرپرستی نے نواز شریف ، مریم نواز اور شہبازشریف کے دل و دماغ میں دونوں قسم کی صفات پیدا کردی ہیں ایک ملائیت اور دوسری فسطائیت۔ بلوچی میں کہا جاتا ہے کہ ملاکنا تو سنت ماکنے تو کنت۔ ملاکرے تو سنت اور ہم کریں تو چڑ ہے۔ یہی روش شریف برادری نے بھی اختیار کررکھی ہے۔مولوی نے دوسرے سے کہا کہ قبلہ روہوکر تم پیشاب کررہے ہو تمہارا نکاح ٹوٹ گیاہے، اب حلالہ کروانے کی ضرورت ہے، جب ملا خود قبلہ رو پیشاب کرتے ہوئے پکڑا گیا توکہنے لگا کہ ’’ میں نے اپنے عضوء کا سر گھمادیاہے‘‘۔ علماء کی صحبت سے اور کچھ سیکھا یا نہیں سیکھا مگر اپنے لئے الگ راستہ تلاش کرنے میں مہارت حاصل کررکھی ہے۔ درباری علماء نے بھی ہمیشہ بادشاہوں کیلئے راہ ہموار کی ہے۔ میڈیم طاہرہ نے مولانا سمیع الحق کو بدنام کیا لیکن نوازشریف کے حلقہ بگوش علماء نے نعیم بخاری کی بیگم طاہرسید سے نوازشریف کی دوستی کو جواز بخشا ہوگا کہ ’’یہ ایگریمنٹ ہے‘‘۔ پانچویں پارے میں شادی شدہ خواتین سے ایگریمنٹ کا جواز ہے اسلئے کہ المحصنات من النساء الاماملکت ایمانکم وہ خواتین آتی ہیں جو کسی کی بیگمات بھی ہوں تب بھی وہ ایگریمنٹ کرسکتی ہیں۔ امام غزالیؒ نے لکھ دیا ہے کہ ’’ ابویوسف نے بادشاہ کیلئے اسکے باپ کی لونڈی کو جائز قرار دینے کا رستہ نکالا تھا‘‘۔ نوازشریف اور شہبازشریف کوئی شریف نہیں بلکہ ان کا باپ شریف تھا، وہ بھی صرف نام کا۔ یہ لوگ ڈکٹیٹر شپ کی پیداور ہیں۔ ڈکٹیٹر شپ کے شہزادے خود کو جمہوری صاحبزادے کہیں گے تو یہ جمہوری حرامزادے کہلائیں گے۔ اسٹیبلشمنٹ کو عقل آگئی ہے تو واضح اعلان کردے کہ اب ہم نے انکو عاق کردیا اور ہماراکسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں
نوازشریف ، شہباز شریف اور مریم نواز ڈکٹیٹر کی پیداوار ہیں اور وہ عدلیہ سے بھی ڈکٹیٹر شپ کی طرح رویہ رکھنا چاہتے ہیں، اگر یہ لوگ ملک پر مسلط ہوگئے تو فوج، پولیس، عدلیہ اورپنجابی بدمعاش گلو بٹوں کے ذریعے سے مخالف عوام کا جینا دوبھر کریں گے اور جس طرح ڈاکٹر طاہر القادری کو ڈرانے کیلئے بندوں کو ماردیا۔ سپریم کورٹ کی بلڈنگ پر چیف جسٹس سجاد علی شاہ پر بھی چڑھ دوڑے تھے اس طرح یہ فوج کو بھی بٹ مین بناکر رکھ دیں گے۔ انکے خمیر ڈکٹیٹر شپ، کرپشن، ملائیت کے باطل طرزِ عمل کو نکالنا ایک بڑے انقلاب کے بغیر ممکن نہیں ۔ اس بے شرم کو اتنی شرم بھی نہیں آتی کہ جب امریکہ کے پاگل صدرٹرمپ نے پاک فوج پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی تو اس نمک حرام ،احمق، جاہل اور بے غیرت نے انتہائی حماقت کرتے ہوئے کہا کہ’’ یہ جمہوری حکومت ہے، یہ بزدل فوج نہیں کہ ایک کال پر پرویز مشرف کی طرح ڈھیر ہوجائے ۔ ہمارے ساتھ فوج نے بڑی زیادتیاں کی ہیں، ڈان لیکس کی زیادتی ہمارے ساتھ ہوئی ہے اور ہم سب بتادیں گے‘‘۔ نوازشریف کا بیانیہ بڑی حماقت والا تھا۔ پورے مجلس میں ایک بھی رجل رشید اور حر نہیں تھا جو کہتا کہ الوکے پٹھے ! یہ کیا بک رہے ہو؟۔ ڈان لیکس فوج کی سازش تھی تو تم نے پرویزرشید اور طارق فاطمی کو کیوں قربانی کا دنبہ بنا لیاتھا؟۔ جس فوج کو بزدلی کا طعنہ دے رہے ہو تم تو اس سے زیادہ بزدل ثابت ہوئے ہو کہ خوف وبزدلی میں اپنے لوگوں کو ناجائز سزا دیدی ۔ یہ اتفاق فاونڈری کے کم اصل نواز اور شہباز کا قصور نہیں ہے بلکہ یہ ہماری فوج، عدلیہ اور علماء ومشائخ نے قصور کیا ہے کہ لوہے کی بٹی میں پیسوں کی چمک دیکھ کر پورے ملک کو ان کمینوں کے سپرد کردیا تھا۔ نبیﷺ نے فرمایاتھا کہ دجال سے زیادہ خطرناک لیڈر اور حکمران ہونگے۔ یہ وقت وہ ہے جس کی پیش گوئیاں احادیث اور شاہ نعمت اللہ ولیؒ کے شعر میں موجود ہے۔ عوام تماشہ دیکھنے کے بجائے اٹھ جائیں ورنہ!