پوسٹ تلاش کریں

شعور کے عروج کا دور شروع ہوچکا ہے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

مولانا فضل الرحمن کا گھر میں نماز پڑھنے کا پیغام دانشمندی کاہی ثبوت ہے!

والفجرOولیال عشرOوا لشفع والوترOوالّیل اذا یسرOھل فی ذٰلک قسم لذی حجرٍO ” قسم ہے خصوصی فجر کی اور دس راتوں کی اور خاص جفت اور طاق کی اور رات کی جب رخصت ہورہی ہو۔ کیا اس میںدانشور کیلئے کوئی قسم ہے؟”۔(سورة الفجر)
شعور کی مقدس صبح اس قابل ہے کہ اس پر قسم کھائی جائے۔ رمضان کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا آگ سے نجات ہے، یہ وہ مقدس مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا ۔ اسکے آخری عشرے کی جفت اور طاق راتوں میں لیلة القدر کی تلاش کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جس سال بے شعوری کی رات رخصت ہورہی ہو تو اس کی بھی اہمیت ہے۔ اس مقدس پیغام میں کسی بھی دانشور کیلئے قسم کی واقعی بڑی اہمیت ہوسکتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے اپنے گھر میں اپنے گھر والوں کیساتھ نماز، تراویح پڑھنے کے ذریعے قوم کو پیغام دیا کہ علماء ومفتیان کا عوام کو اجتماعی نمازوں کے ذریعے وبا کے خطرے میں ڈالنا دانشمندی نہیں۔اسلام اور ایمان کا ہرگز یہ تقاضا نہیں کہ اس خوف کارسک لیاجائے،جس نے دنیا کو لپیٹ میں لیاہے۔

 

کورونا میں جہاں مسلم اہل دانش کی آزمائش ہے وہاں کافروں کی الٹی گنتی شروع

الم ترکیف فعل ربّک بعاد Oارم ذات العمادOالتی لم یخلق مثلھا فی البلادOوثمود الذین جابوا الصخر بالوادOوفرعون ذی الاوتادOالذین طغوا فی البلادOفاکثروا فیھا الفسادO فصب علیھم ربک سوط عذاب Oان ربک لبالمرصادO”کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ تیرے رب نے عاد ستونوں والے ارم کیساتھ کیا کیا؟جس کی طرح قوم ملکوں میں پیدا نہیں کی گئی۔ اور ثمود کیساتھ جو چٹانیں وادی میں تراشتے تھے۔ اور فرعون کیساتھ جو میخوں والا تھا۔جنہوں نے ملکوں میں سرکشی کی تھی۔ اور اکثر اس میں فساد کرتے رہتے تھے۔ پھر تمہارے رب نے ان پر عذاب کا کوڑا برسایا۔ بیشک تیرا رب گھات لگائے بیٹھا ہواہے( انتظار ہے کہ ظالموں کا کب خاتمہ کردیگا) ۔ (الفجر)
جب تک شعور کی صبح طلوع نہیں ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے کسی قوم کو عذاب نہیں دیا ۔ امریکہ اور پوری دنیا میں یہ احسا س اُجاگر ہورہاہے کہ انتہائی مظالم ، فخر وغرور اور مفادپرستی کی سزا مل رہی ہے۔ پہلے مذہبی طبقات صالح، تقویٰ دار اور اچھے لوگ ہوتے تھے۔ اب تو بلیک واٹرتنظیم کے کارندوں نے مذہبی لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ شیخ الاسلام اور مفتی اعظم سودی بینکوں پر معاوضہ لیکر اسلام کا ٹھپہ لگاتے ہیں،جھوٹے تاجروں نے مذہبی لبادے کو اپنا ہتھیار بنالیا ۔تبلیغی جماعت کا نعیم بٹ کہتا ہے کہ حبشہ سے خواتین کی جماعت آئی ہے جس میں حضرت بلال حبشی کی نسل والی عورت ہے۔ حالانکہ سیدنا بلال حجاز میں بچپن، جوانی ، ضعیف العمری اور وصال تک آباد رہے۔ مولانا الیاس کے پڑپوتے کا تو خیال رکھا نہیں۔ مولانا طارق جمیل کو اس بنیاد پر تبلیغی جماعت والے فحش گالیاں دیتے ہیں کہ اہلبیت کی احادیث بیان کرتاہے۔ لاؤڈاسپیکر پر آذان ونماز سے گریز کرنے والے ویڈیو میں جھوٹ بولنے سے نہیں شرماتے۔

 

مذہبی طبقے اس انقلاب میں اپنی روش کی تصویر بھی ضرور دیکھ لیںکہ کیا چاہتاہے

فاما الانسان اذا ما ابتلاہ ربہ فاکرمہ و نعمہ فیقول ربی اکرمنO و اما اذا ماابتلاہ فقدر علیہ رزقہ فیقول ربی اھاننO کلا بل لاتکرمون الیتیم O و لا تحاضون علی طعام المسکینOو تأکلون التراث اکلًا لماOوتحبون المال حبًا جمًا Oکلااذا دکت الارض دکًادکًاO وجاء ربک والملک صفًا صفًاO وجیی ء یومئذٍ بجھنم یومئذٍ یتذکرالانسان وانّٰی لہ الذکرٰیOیقول یالیتنی قدمت لحیاتی Oفیومئذٍ لایعذب عذابہ احدOولا یوثق وثاقہ احدO یآایتھاالنفس المطمئنةOارجعی الٰی ربک راضےة مرضےةOفادخلی فی عبادیOوادخلی جنتیO ”اور جب انسان کو اسکارب آزماتا ہے اور اس کو عزت دیتا ہے اور اس کو نعمت دیتا ہے تو کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دار بنادیا اور اس کو آزماتا ہے اور رزق اس پر کم کردیتا ہے تو کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے ذلیل کردیا۔ ہرگز نہیں بلکہ تم نے یتیم کا اکرام نہ کیا اورنہ مسکینوں کیلئے ایکدوسرے کو کبھی اُبھارا۔ تم میراث کا مال سمیٹ کر کھا جاتے ہواور مال سے جم کر محبت کرتے ہو۔ جب زمین کو کوٹ کوٹ کر ریزہ ریزہ بنایا جائیگا اور تمہارا رب آجائے اور فرشتے صف در صف۔ پھر سامنے لایا جائے جہنم کو اس دن۔اس دن انسان نصیحت حاصل کرلے گا اور اسی کیلئے تو نصیحت ہے ۔ وہ کہے گا کہ کاش اپنی زندگی کیلئے کچھ تو آگے کرتا۔ اس دن کوئی دوسرا اس کو عذاب نہیں دیگا۔ اور اس کو کوئی دوسرا نہیں باندھے گا( بلکہ اپنے ضمیر کے عذاب اور جھکڑ کا شکار ہوگا)اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف لوٹ جا۔ راضی خوشی سے۔پس میرے بندو میں داخل ہوجاؤ اور میری جنت میں داخل ہوجاؤ۔ (الفجر)۔ انقلاب کے بعد دنیا کا یہ نقشہ بن جائیگا۔

 

پاک فوج نے لاک ڈاؤن میں ایک بنیادی کردار ادا کیا مگر جاہلوں کی ضدہے!

تبلیغی جماعت کے اکابر اور ترجمان اپنی غلطی ماننے کے بجائے دوسروں کو ٹوپی پہنا رہے ہیں اورتکلیف پہنچنے پر چوہدری پرویزالٰہی اور پاک فوج کے تعاون کا شکریہ ادا کررہے ہیں مگر یہ بات نہیں سمجھتے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ ہی نے تو اپنی قوم کو وبا کی مصیبت کے رحم وکرم پرنہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اگر تبلیغی جماعت کو بروقت مسجدوں میں قرنطینہ کرنے کا کریڈٹ کسی کو جاتا ہے تو یہ فوج کے ISPRکی جانب سے وزیراعظم کی خواہشات کے برعکس فیصلہ تھا اور اب عمران خان اور علماء ومفتیان کے مشترکہ رویہ سے صدر عارف علوی نے جاہلانہ فیصلہ کیا ہے تو اسکے نقصان کی تمام تر ذمہ داری احمقوں کی جنت میں رہنے والی مخلوق پر عائد ہوگی۔
مولانا فضل الرحمن نے اس اجتماعی فیصلے کا خیرمقدم کرنے کے بجائے اس سے اختلاف کو ایک ذاتی رائے کی حیثیت سے بے معنیٰ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ” اجتماعی فیصلے کا احترام کرنا چاہیے”۔ مگر بذات خود اپنے گھر والوںبھائیوں ، بیٹوں، بھتیجوں سمیت اپنے گھر میں ہی نماز پڑھنے کو واضح کیاہے۔ جو اپنے لئے آدمی پسند کرتا ہے وہ دوسروں کیلئے بھی پسند کرتا ہے۔ اگر جمعیت علماء اسلام کے کارکن اور رہنما ایک سخت اپوزیشن کے باجود حکومت کے امدادی کاموں میں رضاکارانہ طور پر پیشکش کرتے ہیں اور نماز گھروں میں پڑھتے ہیں تو اس کا زبردست اثر بھی مرتب ہونا چاہیے بلکہ جمعیت علماء اسلام کی شوریٰ کے ذریعے عوام کو گھروں ہی میں نمازپڑھنے کی تلقین ایک بہت جرأتمندانہ فیصلہ ہوتا۔ یہ ریاست کا کام ہے کہ لوگوں کو زبردستی موت کے منہ میں جانے سے بچائے مگر مذہبی طبقے کے سامنے ریاست ٹھنڈی ہے اسلئے کہ وزیراعظم کی اپنی روش بھی مختلف ہے۔ مذہبی طبقے کے سامنے لیٹنا مجبوری نہیں خوشی ہے، کل اگر خدانخواستہ بڑے پیمانے پر نقصان ہوگیا توذمہ دار طبقے کیابری الذمہ ہونگے؟۔

 

قرآن میں کورونا سے پیدا ہونے والی صورتحال کی بھرپور وضاحت ہے مگر…..

کوئی بھوک سے مرتا ہے اور کاروبار کھولنے کا مطالبہ کرتا ہے تو اس کی بات اپنی جگہ ہے مگر جب مساجد سے وبا پھیلنے کا خطرہ ہو تو اللہ تعالیٰ نے خوف کی صورت میں نماز باجماعت سے دُور رہنے کی بالکل واضح آیات میں تلقین کردی ہے۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب عوام اور علماء کرام کوقرآن کی افادیت سے آگاہ کردیا جاتا۔ مولانا بشیر فاروقی سیلانی ویلفیئرٹرسٹ سے خیرات بانٹ رہے ہیں۔بہت اچھی بات ہے ۔ تبلیغی جماعت کا بھی اپنا ایک ٹرسٹ ہونا چاہیے تھا جو نظر آتے کہ غریب عوام مسکینوں اور یتیموں کا یہ لوگ بھی احساس رکھتے ہیںلیکن بشیر فاروقی کو ٹی وی پر آتے وقت اعلان کرنا چاہیے تھا کہ تصویر کے معاملے میں شریعت ناکام ہوگئی ہے اور اس پر عمل کرنا ممکن نہیں رہاہے یا یہ اعلان کرنا چاہیے کہ تصویر جائز ہے یا پھر اپنی کوتاہی کو واضح کرتا کہ مجھے بھی اپنی شکل دکھانے کا شوق خوامخواہ میں سوجھا ہے۔ جب اسکے بقول حضرت علی نے یہودی سے کہا کہ تیری داڑھی، میری داڑھی کے گنجان آباد ہونے یانہ ہونے کا ذکر قرآن میں ہے۔اللہ اچھی زمین سے اچھا سبزہ اُگاتا ہے اور خبیث سے ناقص ۔ حالانکہ اس کی زد تو بعض صحابہ کرام ، علماء ومشائخ اورمسلم عوام پر بھی پڑتی ہے ، چین،جاپان، کوریا سب اس کی زد میں آتے ہیں لیکن شاباش ہوالیکٹرانک میڈیا کو کیسے کیسے جاہلوں کو بولنے کا موقع دیتے ہیں مگر قرآن کی ایک بہت واضح آیت اور حدیث کو پیش نہیں کرتے کہ خوف کی حالت میں مسجد کی نمازباجماعت سے قرآن نے چھوٹ دی ہے اور اس حدیث میں اسکی وضاحت ہے جس کا سب سے زیادہ اطلاق اس عالمی وبا کورونا وائرس پر ہوتا ہے۔ یہ زبردست موقع ہے کہ قرآن امت کو اجتہاد کے بغیر جو رہنمائی فراہم کرتاہے جس پر لوگ علماء ومفتیان کے محتاج نہیں ۔ علماء کو عوام کے ایمان وروحانی غذاء کی فکر نہیں بلکہ پیٹ کی آگ دماغ پر شعلہ زن ہے۔

 

دنیا میں ہی اس انقلاب کا نقشہ ہے جس میں رجعت پسند اور انقلابی کا حال ہے

سورۂ الفجر میں عقل والوں کیلئے قسم میں سمجھ کی بات کا داعیہ کیوں پیدا کیا گیا ہے؟۔ جب ایک طرف کم عقل علماء ومفتیان ہوں اور دوسری طرف اہل دانش ہوں تو اہل دانش ہی رہنمائی کا فریضہ انجام دینے کے قابل ہوں گے۔سورۂ فجر کی اگلی آیات میں گزشتہ طاقتور قوموں کی داستانوں اور ہلاکتوں کی طرف واضح پیغام دینے کے بعد یہ واضح کیا کہ ”تمہارا رب گھات میں بیٹھا ہے”۔ پھر انسان خاص طور پر مسلمان حکمرانوں، علماء ومفتیان اور مذہبی طبقات کے علاوہ عام لوگ سب کے سب انسانوں کی عمومی روش کو واضح کیا ہے کہ جب اس کو عزت ملتی ہے اور نعمت ملتی ہے تو کہتا ہے کہ پروردگار! (اس قابل تھا)تو نے مجھے اکرام کے قابل سمجھا۔ اور جب تھوڑا آزمائش میں ڈال دیتا ہے اور رزق کم کردیتا ہے تو کہتا کہ پروردگار تونے مجھے ذلیل کردیا۔بھلے کی آزمائش اچھی لگتی ہے اوربرے کی آزمائش پر تلملا اٹھتا ہے۔ لیکن جب دیکھو تو یتیموں کا کوئی اکرام نہیں کرتا۔ مسکینوں کے کھانے کی تحریک نہیں چلاتا۔ وراثت میں ناجائز حق کھا جاتا ہے۔ مال سے جم کر پیار کرتاہے۔ (ایسے میں اپنی نمازوں کو گھاس کی طرح کھا جائے اوران نمازیوں کیلئے ہلاکت ہے جو نماز کے مقاصد بھول جاتے ہیں)پھر اللہ نے انقلاب کا نقشہ قرآن میں کھینچاہے کہ جب زمین کوٹ کوٹ کر ریزہ ریزہ کی جائے گی اور تیرا رب آجائے اور ملائکہ صف درصف۔ اور جہنم کا نقشہ سامنے ہوگااسلئے کہ اسکے خیال میں دین کا تعلق صرف آخرت کیساتھ ہے دنیا کیساتھ نہیں۔پھر اس دن وہ نصیحت لے گا اور نصیحت تو ہے ہی اس کیلئے۔ مگر افسوس کریگا کہ اپنی اس زندگی کیلئے کچھ تو آگے کرتا۔ اس دن کوئی طعنہ نہ دیگا مگر اپنے ضمیر کے عذاب اور قید کا شکار ہوگا۔ انقلابی مخاطب ہوگا کہ اطمینان والا! اب خوشی راضی سے اپنے رب کی طرف لوٹ ! میرے بندوں، میری جنت میں داخل ہوجاؤ۔

 

قرآن کے مقاصد سے غافلوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ کیا فضول تعلیم دیتے ہیں؟

یقینا اب دنیا کے کافر بھی بڑے پیمانے پر اسلام کی حقانیت جان کر تمنا کرینگے!

اللہ تعالیٰ نے قرآن کو اسلئے نازل نہیں کیا کہ لوگ دم تعویذ،پیشاب سے علاج کیلئے لکھنے کی جسارت کریں ، اس بات پر درسِ نظامی کے اسباق پڑھائیں کہ تحریری شکل میں قرآن اللہ کا کلام نہیں ہے۔ فرقہ واریت اور مسلکانہ تعصبات کی لعنت میں پڑیں۔ مفادپرستی کیلئے ٹولہ بازی اور گروہ بندیوں میں تقسیم ہوں۔ جماعتوں اور تنظیموں سے امت کا بٹوارہ کرتے پھریں اور مختلف ممالک کی شکل میں قابض طبقات اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کریںبلکہ قرآن سے ایسا لگتا ہے کہ جس طرح موجودہ حالات میں فرقہ پرستوں اور قرآن کو چھوڑنے والوں پر ہی اب تازہ تازہ نازل ہوا ہو۔عربی میں حِجر عقل کو اور حَجر پتھر کو کہتے ہیں۔ وائل ابن حِجر صحابی تھے۔ علامہ ابن حجرکا معنیٰ دانشمند ہے جس طرح ابن سبیل مسافر ہوتاہے۔ علماء نے علامہ ابن حجر کو پتھر بناکر اسکے حافظے کو پتھر سے مشابہ قرار دیا ہے۔ قرآن میں سورۂ حجر کے اندرایک قوم کا ذکرہے جو اپنے ذہنی کمالات کی وجہ سے ترقی یافتہ تھی۔ کورونا نے ملکوں کے درمیان دشمنی کا ماحول ختم کرکے انسانیت کی فلاح کیلئے سائنسی بنیادوں پر کام کرنے کی ترغیب دی ہے۔
سورۂ الحجر میں بڑے حقائق ہیںلیکن مختصر حوالہ جات کافی ہیں۔ الرٰ تلک اٰےٰت الکتٰب و قراٰن مبینOربمایود الذین کفروا لو کانوا مسلمینOذرھم یاکلواو یتمتعوا ویلھھم الامل فسوف یعلمونOومااہلکنا من قرےة الا ولھا کتاب معلوم Oماتسبق من امة اجلھا ومایستأخرونOو قالوا یٰایھاالذی نزل علیہ الذکر انک لمجنونO ”الف ،لام ،را ،یہ کتاب کی آیات ہیں اور واضح قرآن ہے۔ قریب ہے جن لوگوں نے کفر کیا کہ وہ چاہیں کہ کاش ہم مسلمان ہوتے۔ ان کو چھوڑ و، کھائیں اور فائدہ اٹھائیں، ان کو اُمید نے غفلت میں ڈالا ہوا ہے۔ ہم کسی بستی کو ہلاک نہیں کرتے مگر اس کیلئے ایک مقررہ وقت ہے۔ کسی قوم کا وقت مقدم اور تاخیر کا شکار نہیں ہوسکتا ہے۔ اور انہوں نے کہا کہ اے جس پر وحی نازل ہوئی ہے آپ واقعی میںمجنون ہیں”۔ (سورہ حجر)
یہ سورة انقلابِ عظیم کے وقت کی نشاندہی کیلئے کافی ہے کہ جب کفر سے محبت کرنیوالا طبقہ دنیا میں ہی مسلمان ہونے کی تمنا کریگا۔ کافروں کو بہت عرصہ تک ڈھیل ملتی رہی ہے ، مسلمان بھی کوئی قابلِ قدر کردار ادا نہیں کرسکیںہیںلیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن ضائع ہونے کیلئے نازل نہیں کیا بلکہ اس سے عنقریب ہدایت کے وہ چشمے پھوٹیں گے کہ دنیا حیران ہوگی۔انشاء اللہ
اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام اور قوموں کی تاریخ کا تذکرہ اور بہت اہم باتوں کا ذکر کیا اور پھر فرمایا: ولقد کذّب اصحاب الحجر المرسلینO……………. ” اور تحقیق کہ اصحابِ الحجر نے رسولوں کو جھٹلایا۔ہم نے اپنی آیات ان کو دیں تو انہوں نے اس سے روگردانی کی۔ وہ پہاڑ تراش کر مکانات بناتے تھے، امن امان کی حالت میں رہتے تھے۔ پھر ہم نے ان کو صبح کے وقت دھماکوں سے پکڑلیا۔ جو انہوں نے حاصل کیا تھا وہ ان کو بچا نہیں سکا اور ہم نے نہیں بنایا آسمانوں اور زمین کو مگر حق کیساتھ اور بیشک مقررہ (انقلاب کا) وقت ضرور آئیگا( آسمان و زمین کی موجودگی میں) پس آپ اچھے انداز سے درگزر سے کام لو۔ بیشک تمہارا رب بہت ہی اخلاق والا جاننے والا ہے۔ اور بیشک ہم نے آپ کو سات (آیات) دُوہرانے والی دی ہیں اور قرآن عظیم۔ آپ اپنی آنکھوں کو اس پر نہ لگائیں جو ہم نے متاع کے اقسام دئیے ہیں اور ان پر زیادہ غم بھی نہ کھائیں اور مؤمنوں کیساتھ انتہائی عاجزی والا برتاؤ اپنائیں اور کہہ دیجئے کہ میں تو صرف ایک کھلا ڈرانے والا ہوں” ۔ (سورہ الحجر)ان آیات میں موجودہ ترقی یافتہ دور کے لوگوں کیلئے بہت کچھ ہے مگران کو قرآن سے رہنمائی کیلئے آگے بڑھنا ہوگا۔

 

گویا قرآن انہی لوگوں پر ہی نازل ہوا ہے جنہوں نے اس کو ٹکڑے کیا ہے!

فرمایا: کماانزلناعلی المقتسمیںOالذین جعلوا القراٰن عضینOفو ربک لنسئلنھم اجمعینO عما کانوا یعملونO…………………”گویا ہم نے تفرقہ بازی میں مبتلا ہونیوالے پر (یہ کلام ) نازل کیا ہے۔ جنہوں نے قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا ۔ پس تیرے رب کی قسم کہ ان سب سے ہم ضرور پوچھیںگے جو وہ عمل کرتے تھے۔( گدھوں سے قرآن کے حقائق اور رازوں کا نہیں بلکہ انکے اپنے عمل کا پوچھا جائیگا)پس اے نبی! آپ اعلان کرڈالیں جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے اور مشرکوں سے پہلوتہی برت لیں۔ ہم کافی ہیں مذاق اڑانے والوں کیلئے ،جنہوں نے اللہ کیساتھ دوسرے معبود بنارکھے ہیں۔ عنقریب یہ سمجھیں گے اور ہم یہ جانتے ہیں کہ انکی باتوں سے آپ کے سینے میں تکلیف اُٹھتی ہے۔پس پاکی بیان کر اپنے رب کی تعریف کیساتھ۔ اور سجدوں والوں میں سے ہوجاؤ۔ اپنے رب کی بندگی کر یہاں تک کہ آپ کے پاس یقین آجائے۔ (اہل حق کو اللہ غلبہ دلادے)۔ (سورہ حجر)
اللہ تعالیٰ نے قرآن کی مختلف آیات میں واضح کیا ہے کہ فرقہ بندی علم کے بعد آپس ہی کی بغاوتوں سے آئی ہے۔ اللہ کو یہ بھی معلوم تھا کہ ہم پہلے والوں اور آخر والوں کو جانتے ہیں اور یہ معلوم تھا کہ یہود ونصاریٰ کے نقش قدم پر چل کر مسلمانوں نے بھی قرآن کی معنوی تحریف کا ارتکاب کرنا ہے اسلئے کہ قیامت تک حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے ظاہری الفاظ کی لی ہے۔ شاباش مولانا مودودی جیسے عالم نے بھی قرآن کو ٹکڑے کرنے کی ذمہ داری امت کے سر رکھ دینے کے بجائے یہود یوں کا قرآن مراد لیا ہے۔جماعت اسلامی منصورہ میں اجلاس بھلاکر علماء کو کردار ادا کرنے پر متوجہ کرے۔ مولانا مودودی نے نکاح سے درست معنی مراد لئے ہیں مگر حنفی علماء نے اصولِ فقہ میں نکاح کے حوالہ سے شریعت اور فطرت کی دھجیاں بکھیر دی ہیں!۔

قرآن وسنت کے احکام کا معاملہ

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

قرآن کی تفسیر میں نقل کے علاوہ ڈھیر ساری جہالتوں کا مظاہرہ بھی کیا گیاہے!

قرآن کی تفسیر میںجس طرح علماء وفقہاء اور مفسرین نے مفہوم کو بگاڑنے میں کافی کردار ادا کیا ہے،اسی طرح مولاناسیدابوالاعلیٰ مودودی نے بھی حقائق کو مسخ کرنے میں اپنی جہالت کی وجہ سے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ تمام مکاتبِ فکر کے مذہبی طبقات کے بڑوں کو مل بیٹھ کر اپنی غلطیاں ٹھیک کرناسخت ضروری ہیں۔ رسول اللہ ۖ قیامت کے دن شکایت فرمائیںگے کہ وقال الرسول یارب ان قومی اتخذوا ھٰذا القراٰن مھجورًا ” اور رسول (ۖ) عرض کریںگے کہ اے میرے رب! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا”۔قرآن
جے یوآئی کے مولانا فضل الرحمن، جماعت اسلامی کے سراج الحق،تحریک لبیک کے علامہ خادم حسین رضوی ، اہلحدیث علامہ ابتسام الٰہی ظہیر، اہل تشیع کے علامہ شہنشاہ حسین نقوی کے علاوہ تمام مکاتب فکر نمائندوں کو قرآن کے ترجمہ وتفسیر کے حوالہ سے مل بیٹھ کر معاملات ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ توبہ کرنے کا مقصد تب ہی پورا ہوسکتا ہے کہ جب قرآن کے اندر جو معاملات مذہبی طبقات نے بگاڑدئیے ہیں پہلے انکی اچھی طرح اصلاح ہوجائے۔

قرآنی آیات پر مسلکی تضادات، عجیب واقعہ اور مولانا سیدمودودی کی جہالت!

حضرت مغیرہ ابن شعبہ جب بصرہ کے حاکم تھے تو انکے خلاف چار افراد نے زنا کی گواہی دی تھی، جن کے نام صحیح بخاری وغیرہ میںہیں۔ ان میں ایک صحابی حضرت ابوبکرہ بھی تھے اور آخری گواہ زیاد نے کہا تھا کہ میںنے دیکھا کہ سرین نظر آرہی تھی، لپٹے ہوئے سانسیں لے رہے تھے، اس عورت کے پاؤں مغیرہ کے کانوں پر ایسے لگ رہے تھے جیسے گدھے کے دوکان ہوں اور اسکے علاوہ میں نے کچھ اور نہیں دیکھا، جس پر حضرت عمر نے کہا کہ گواہی مکمل نہیں ہوئی ۔ باقی تین گواہوں کو حدقذف کے 80،80کوڑے لگائے گئے اور پھر یہ پیشکش کی گئی کہ اگر تم کہہ دو کہ ہم نے جھوٹ بولا تھا تو تمہاری گواہی قبول کی جائے گی۔ حضرت ابوبکرہ نے پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کیا اور باقی حضرات نے پیشکش قبول کرلی۔ جمہورآئمہ حضرت امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل کے نزدیک حضرت عمر کی پیشکش ٹھیک تھی اور قرآن میں جھوٹی گواہی دینے کے بعد حدقذف کے علاوہ اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ ان کی گواہی کبھی قبول نہیں کی جائے گی لیکن توبہ کرنے والوں کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک حضرت عمر کی پیشکش غلط تھی ، جھوٹ کی گواہی دینے والے کی گواہی ہمیشہ قبول نہیں کی جائے گی اور توبہ کا تعلق آخرت کے عذاب سے معافی کیساتھ ہے۔ جس واقعہ پر مسالک کی بنیاد رکھی گئی اور قرآن کی جو متضاد تفسیر کی گئی ہے اس کی شکایت قیامت کے دن رسولۖ اللہ کی بارگاہ میں قیامت کے دن کرینگے۔ مسلکی رسہ کشی سے نکل کر حقائق کی بنیاد پر دنیا میں اسلامی نظام کے نفاذ کیلئے پہلے فکری مرحلے کو درست کرنا ہوگا اور پھر عمل کا مرحلہ آسکے گا۔ جبکہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے لکھا کہ ” وہ عورت حضرت مغیرہ ابن شعبہ کی اپنی بیوی تھی” ۔ حالانکہ حضرت مغیرہ کو معزول کردیا گیا تھامگر مودودی ایک پڑھے لکھے جاہل تھے۔

عثمانی خلیفہ کی 4500 لونڈیاں بمقابلہ موجودہ برطانوی وزیراعظم کی گرل فرینڈ

کرونا وائرس میں مبتلاء برطانوی وزیراعظم کی حاملہ گرل فرینڈبھی کرونا کا شکار ہے۔ ہمارا مذہبی طبقہ سمجھتا ہوگا کہ دونوں اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے عذاب کا شکار ہیں ، اگر خلافت قائم ہو تو شادی شدہ وزیراعظم کو سنگسار اور کنواری گرل فرینڈ کو 100کوڑے اور1سال جلاوطنی کی سزا دی جاتی۔ اگر اسی مذہبی طبقے سے پوچھ لیا جائے کہ عثمانی خلیفہ کی4500 لونڈیا ں جائز تھیں تو یہ فتویٰ دینگے کہ قرآن میں بیگمات کی محدودتعداد مقرر ہے لیکن لونڈیوں کی تعداد متعین نہیں ہے۔ آج کی دنیا میں اسلامی خلافت کا یہ مذہبی تصور کافروں کیلئے تو بعیدازقیاس ہے مگر مسلمانوں کی اکثریت کیلئے بھی قابلِ قبول نہیں ہے۔ پھر جس سے زمین وآسمان والے سب خوش ہوں ،کونسی طرزِ نبوت کی خلافت کا تصور ہوسکتا ہے؟۔صحیح بخاری میں رسول اللہۖ ہی نے قرآنی آیت لاتحرموا ما احل اللہ لکم من الطیبٰت کی تفسیر کرتے ہوئے متعہ کو جائز قرار دیاہے۔ برطانوی وزیراعظم کی گرل فرینڈ کی حیثیت کو قرآن وسنت سے متعین کرنا ہوگا۔ نیز اللہ تعالیٰ نے لونڈی بنانے کو آل فرعون کا وطیرہ قرار دیا ہے جو بنی اسرائیل کیلئے بڑی سخت آزمائش تھی۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے آیت کی تفسیر میں بخاری کی حدیث نقل کرنی تھی مگر تفہیم القرآن میں عیسائیوں کی رہبانیت کا تصور پیش کیا گیا ہے۔قرآن میں لونڈی کوامہ اور غلام کو عبد قرار دیا گیا ہے اور ان سے نکاح کا تصور اور حکم بھی اجاگر کیا گیاہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ماملکت ایمانکم سے کیا مراد ہے؟ تو اسکا معنی ایگریمنٹ ہے اور اس ایگریمنٹ کا تعلق آزاد عورت کیساتھ بھی ہوسکتا ہے اور لونڈی وغلام کیساتھ بھی ۔ انسانی حقوق کی وجہ سے ہی دنیا میں مسلمانوں کو عروج حاصل ہوا تھا لیکن خاندانی بادشاہتوں نے نظریات کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا۔ ہم نے پہلے قرآن وسنت کے حقائق کو اجاگر کرنا ہوگا۔

قرآن وسنت میں کمزور کو حقوق دلانے میں بہت جلد جان چھڑانے کا تصورہے

مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری دینے کا حکم ہے۔مزارعین کو پوری فصل دینے کا حکم ہے۔ عورت کی جان چھڑانے کیلئے عدت تک مصالحت کرنے کا حکم ہے ۔خلع کی صورت میں عورت کی عدت صحیح حدیث میں صرف ایک حیض ہے۔ ہاتھ لگانے سے پہلے بھی اگر عورت کو طلاق دی جائے تو مقرر کردہ نصف حق مہر دینے کا حکم ہے اور عورت پر عدت نہیں ہے۔ میاں بیوی کے درمیان ہی نہیں بلکہ عوام کے کسی بھی دو طبقے کے درمیان اللہ کے نام پر عہدوپیمان ، حلف اور کسی بھی قسم کے لغو الفاظ کو رکاوٹ ڈالنے سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے مگر مسلم اُمہ بالکل الٹے پاؤں قرآن کے احکام کے برخلاف چل رہی ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ بہت واضح الفاظ کے قرآنی احکام اور معاملات کو انتہائی غلط طریقے سے بگاڑ دیا گیا ہے۔
دورِجاہلیت کا ایک مسئلہ یہ تھا کہ ” جب عورت سے طلاق کے الفاظ کا اظہار نہیں کیا جاتا تھا تو وہ لامحدود مدت تک بیٹھی رہتی تھی”۔ دورِ حاضر کی عدالتوں میں بھی کمزور و مظلوم کو بہت رُلایا جاتا ہے مگر ہمارے ضمیر پر یہ بوجھ اسلئے نہیں بنتا کہ خواتین کیساتھ اسلام کے نام پر یہی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ بیوی سے ناراضگی ہو تو جب تک شوہر طلاق نہ دے تو وہ بیٹھی رہے گی۔
قرآن نے دورِ جاہلیت کا یہ تصور طلاق کے مسائل میں سرفہرست حل کیا۔ اللہ نے فرمایا کہ ” جو لوگ اپنی بیگمات سے ناراض ہیں تو ان کیلئے چار ماہ کا انتظار ہے، اگر انہوں نے صلح کرلی تو اللہ غفور رحیم ہے اور اگر انہوں نے طلاق کا عزم کیا تو اللہ سننے والا جاننے والا ہے”۔ (البقرہ: آیت227,226)۔اگر طلاق کا عزم تھا اور پھر اظہار نہیں کیا تو یہ دل کا گناہ ہے۔ اسلئے کہ طلاق کے اظہار کی صورت میں انتظار کی عدت4 ماہ نہیں3 ماہ ہے ،ایک ماہ کی اضافی مدت کی تکلیف پر طلاق کے عزم کی صورت میں پکڑ ہے۔ قرآن بالکل واضح ہے۔

فقہی مسالک کے نام پر قرآن کی واضح آیات سے انحراف نے تباہی مچائی ہے!

سورہ ٔ البقرہ کی آیات228,227,226,225میں یہ بالکل واضح ہے کہ اگر طلاق کا اظہار نہیں کیا تو عورت کی عدت 4ماہ ہے اور اگر طلاق کا اظہار کیا تو 3 مراحل یا 3 ماہ ہے۔اور اگر طلاق کا عزم تھا اور پھر اس کا اظہار نہیں کیا تو یہ دل کا گناہ ہے اور اس پراللہ کی پکڑ ہوگی۔
اسلام فطرت کا دین ہے اور قرآن کی یہ آیات فطرت کے مطابق بالکل واضح اور سب ہی کیلئے قابلِ قبول ہیں لیکن ان کی تفسیر یہ کی جاتی ہے کہ یہ ناراضگی نہیں صرف قسم کی صورت میں ہے جو بہت بڑی زیادتی ہے۔ امام مالک مدینہ کے باشندے تھے ،ان کے نزدیک بھی ایلاء کا تعلق قسم سے نہیں بلکہ قسم کے بغیر ناراضگی کو بھی ایلاء کہتے ہیں۔ مولانا سید مودودی نے بھی اس کا تفہیم القرآن میں ذکر کیا ہے۔ قرآن میں ابہام اور تضادات کا سوال پیدا نہیں ہوتاہے لیکن جمہور اور حنفی مسلک کے نام پر تفسیر کو جو غیرفطری رنگ دیا گیاہے وہ بڑاافسوسناک ہے۔
چنانچہ احناف کے نزدیک چار ماہ گزرتے ہی عورت کو طلاق واقع ہوجائے گی۔ پھر تعلق جائز نہیں ہوگا اور جمہور کے نزدیک جب تک طلاق کا اظہار نہیں کیا جائے تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔ اختلاف کے نتیجے میں ایک طرف عورت نکاح سے نکل چکی ہوگی اور اس سے ازدواجی تعلق حرامکاری ہوگی اور دوسری طرف عورت بدستور نکاح میں ہوگی ، کسی اور سے نکاح کیا تو حرامکاری ہوگی۔ جب معاشرے میں ایک عورت کو جو کسی کی ماں ہوتی ہے، کسی کی بیوی ہوتی ہے ، کسی کی بہن ہوتی ہے اور کسی کی بیٹی ہوتی ہے اس قدر مشکلات میں ڈالا جائیگا تو یہ اسلام غیرمسلموں کیلئے قابلِ قبول ہوگا۔ ان اُلّوکے پٹھے علماء ومفتیان اور مذہب کے نام پر سیاست چمکانے والوں کو ریمانڈ دینے کی ضرورت ہے جنہوں نے قرآن کو غیرفطری تعلیم سے نقصان پہنچایا تھا۔ اب بھی ڈھیٹ اور مینسڑیں بنے بیٹھے ہیں اور ٹس سے مس نہیں ہوتے۔

قرآنی آیات کی غلط تفسیر کرنے کی اصل وجہ کیاہے؟۔ یہ سمجھ کر حیران ہوںگے!

قانون کا مقصد کمزور کا تحفظ ہوتا ہے۔ اللہ نے ناراضگی اور طلاق کی صورت میں عدت کا جو حکم دیا ہے تو عدت کا تعلق عورت سے ہی ہے اور عورت ہی کو تحفظ دینے کیلئے انتظار کی عدت ہے مگر حضرت امام مہدی علیہ السلام کے انتظار میں بیٹھے ہوئے گمراہ فقہاء نے کمزور عورت کو بحث سے بالکل خارج کردیا ۔ حنفی فقہاء کہتے ہیں کہ شوہرنے اپنا حق استعمال کرلیا اسلئے 4ماہ گزرتے ہی عورت طلاق ہوگئی اور جمہور کے نزدیک شوہرنے اپنا حق استعمال نہیں کیا اسلئے عورت بدستور نکاح میں ہے۔ کیا اللہ کی واضح آیات کے احکام میں اتنا بڑا تضاد ہوسکتاہے؟۔ نہیں !ہرگز نہیں!۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے عورت ہی کی عدت بیان کی ہے۔ اگر عورت چاہے توپھر اس عدت کے بعد آزاد ہے، دوسرے شخص سے نکاح کرسکتی ہے اور اگر عدت کے بعد بھی اپنی مرضی سے شوہرکیساتھ رجوع پر راضی ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی پابندی نہیں ہے۔
جن آیات اور احکام کی بدولت قرآن کے قوانین کو پوری دنیا میں رائج کیا جاسکتا ہے ان کا حلیہ بگاڑنے میں مذہبی طبقے نے نہ صرف اپنا کلیدی کردار ادا کیا ہے بلکہ اس غلط روش پر آج بھی اڑے ہوئے ہیں۔ ایک معاملے میں نہیں بلکہ معاشرتی حقوق ومعاملات کی ہر چیز بالکل تہہ وبالا کرکے رکھ دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک طرف عورت کی جان چھڑانے کیلئے آخری حد تک اس معاملے کی انتہاء کردی ہے اور دوسری طرف بار بار عدت میں ، عدت کی تکمیل پر اور عدت کی تکمیل کے عرصہ بعد رجوع کی گنجائش باہمی رضامندی سے رکھی ہے۔ دلائل پر دلائل ، مضامین پر مضامین اور کتابوں پر کتابیں شائع کردی ہیں لیکن حلالہ کی لعنت سے ان کی جان نہیں چھوٹ رہی ہے۔ہمارا معاشرتی نظام قرآن کے مطابق ہوتا تو دنیا کیلئے قابل فخر ہوتا مگرفقہاء نے قرآن کو پسِ پشت ڈال کر امت کو دنیا وآخرت میں مجرم کی حیثیت سے کھڑ اکیا

قرآن میں دنیاوی عذاب کا ذکر

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی ٹارگٹ کیوں؟ 

جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے اساتذہ بھی مفتی تقی پر تکیہ اور تقیہ کئے بیٹھے ہیں!

مفتی تقی عثمانی نے اپنی کتابوں” فقہی مقالات جلد چہارم” اور” تکملہ فتح المہلم” میں لکھ دیا تھا کہ ” علاج کیلئے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے”۔ جبکہ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی سے ہم نے اسکے خلاف فتویٰ لیا تھا۔ پھر جب عرصہ بعد ڈاکٹر عبدالرزاق سکندرپرنسپل جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی نے سودکے نام پر اسلامی بینکاری کے خلاف لکھا تو ملک اجمل نے جنگ کے صحافی نجم الحسن عطاء کیساتھ ڈاکٹر صاحب کی جرأت کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے حاضری دیدی۔ لیکن ڈاکٹر صاحب نے گھبرا کر کہا کہ ” میں نے مفتی تقی عثمانی کے خلاف کچھ نہیں لکھا ہے، پہلے بھی میرے ایک شاگرد نے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کے خلاف ہمارا فتویٰ شائع کیا تو مفتی تقی عثمانی ہم پر بہت برہم ہوگئے تھے۔ مفتی تقی عثمانی نے مولانا یوسف لدھیانوی پر بھی برہمی کا اظہار کیا تھا کہ مفتی محمود کے حوالہ سے اپنی تحریر میں پان و گولی کھلانے کا ذکر کیوں کیا تھا؟۔ طلاق کے مسئلے پر مفتی نعیم کو بھی مفتی تقی عثمانی نے ڈانٹا تھا اور مولانا انور بدخشانی مدرس جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی نے کہا کہ مفتی تقی عثمانی ہی کا سکہ چلتا ہے۔

مولانا فضل الرحمن بھی شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی کو بڑا قابل عالم سجھ رہے ہیں

طلاق وحلالہ کے غلط فتوؤں اور درسِ نظامی کے علاوہ حال ہی میں ” آسان ترجمہ قرآن” میں فاش غلطیوں کے ارتکاب میں مفتی تقی عثمانی نے ایک سرغنہ کا کردار ادا کیا ہے۔ علماء کرام کو ثالثی کی پیشکش ہم کررہے ہیں۔ صحافی موسیٰ خان خیل شہید کے بھائی مفتی احمدالرحمن کے داماد سے جامعہ بنوریہ عالمیہ سائٹ میں درسِ نظامی کے نصاب اور طلاق وحلالہ کے حوالہ سے ہماری بات ہوئی تھی لیکن جامعہ بنوری ٹاؤن کے اکابر علماء پہلے سے ہی اپنی بے بسی کا اظہار کر رہے تھے ،اسلئے وہاں بحث ومباحثہ کیلئے جانا مناسب نہیں سمجھا۔ وہاں بدمعاش لوگ پہلے بھی صاحبزادہ مولاناسید محمد بنوری کو شہید کرچکے تھے اور اسکا الزام شریف النفس ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر پر لگا رہے تھے۔ ہم نے ٹانک شہر میں ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے مقتدر علماء کرام کو بات کرنے کیلئے دعوت دی تھی تو مولانا فضل الرحمن نے اس اجتماع میں رکاوٹ کا خفیہ طور پر اظہار کیا ،پھرہم نے بالمشافہہ مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی ،کافی لیت لعل کے بعد اس نے سید عطاء اللہ شاہ منتظم معارف شرعیہ کو جانے کا حکم دیا مگر ڈیرہ اسماعیل خان سے علماء کرام وعدے کے باوجود نہیں آئے تھے۔ ٹانک کے اکابر علماء نے میرا مؤقف سننے کے بعد کھل کر حمایت کرنے کا اعلان کیا اور پھر ایک جلسہ عام میں بھی حمایت کردی جس کو ہم نے اخبار میں شہہ سرخیوں سے شائع کیا تو ڈیرہ کے علماء نے اخبار میں حمایت دیکھنے کے بعد رکاوٹ ڈالنے کا پرواگرام بنایا۔ اگلی مرتبہ جھگڑا کیا۔ پھر طے ہوا کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹانک سے مولانا فتح خان اور مولاناعبدالرؤف بھی آئیںگے اور مولانا علاء الدین کے مدرسہ نعمانیہ میں ایک نشست رکھیںگے لیکن پھر انہوں نے حالات خراب کردئیے اور حکومت نے ٹانک کے علماء پر پابندی لگادی اور ہمیں 16ایم پی اے کے تحت گرفتار کرنے کا آرڈر جاری کیا تھا

مولانا عطاء الرحمن نے مولانا شیرانی کے سامنے علمی بحث سے راہِ فرار اختیار کی

مولانا شیرانی اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمیں تھے تو قصر ناز میں مولانا عطاء الرحمن اور قاری عثمان سے بھی اچانک ملاقات کا موقع ملا تھا، وہ لوگ ریاستِ پاکستان کا مذاق اڑارہے تھے اور جب مجھ سے رائے پوچھی تو میں نے درسِ نظامی میں قرآن کی تعریف کا کہا کہ جب تم لوگ قرآن کو نہیں مانتے۔ المکتوب فی المصاحف سے مراد لکھی ہوئی کتاب(قرآن) مُراد نہ ہو تو قرآنی آیات اور لکھی ہوئی کتاب کا انکار لازم ہے ،جس کیوجہ سے اس کو پیشاب سے لکھنا بھی جائز قرار دیتے ہو۔جب نقل متواتر سے غیر متواتر آیات نکل گئیں تو قرآن کی حفاظت کا عقیدہ کہاں باقی رہتا ہے؟۔ جب بلاشبہ کی قید سے بسم اللہ نکل گئی تو ذلک الکتاب لاریب فیہ پر ایمان کہاں باقی رہتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے بھائی مولانا عطاء الرحمن نے کہا کہ جب بھوکے کو روٹی نہیں مل رہی تھی تو دوسرے نے کہا کہ پراٹھے کیوں نہیں کھاتا؟۔ ہم پاکستان کی بات کررہے تھے ، یہ اپنا مقصد قرآن لیکر آگیا۔ حامد میر جب روزنامہ اوصاف اسلام آباد کے ایڈیٹر تھے توڈیرہ اسماعیل خان میں علماء کے چیلنج کو قبول کرنے کی بجائے میرے بھاگنے کی خبر اس نے لگائی تھی اور پھر دوسرے دن میرے جواب کی بھی چھوٹی سی خبر شائع کی تھی۔
اسکائپ کے ذریعے بھی الیکٹرانک میڈیا پر حقائق کو سامنے لانے کا اہتمام ہوسکتا ہے۔ مفتی تقی عثمانی نے اپنی کتابوں سے ” سورۂ فاتحہ ” کو پیشاب سے لکھنے کا جواز نکالنے کا اعلان کیا تھا لیکن اسکے بعد وزیراعظم عمران خان کے نکاح خواں” مفتی سعید خان”نے اپنی کتاب ”ریزہ الماس” شائع کی جس میں سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کے جوازکا دفاع کردیاہے۔
درسِ نظامی کے نصاب پر امریکہ کی طرف سے کوئی دباؤ ہے یا نہیں لیکن ہم ایمان کا تقاضہ سمجھتے ہیںکہ علماء ومفتیان کودرسِ نظامی درست کرنیکا فریضہ بہر صورت ادا کرنا چاہیے۔

سورۂ مدثر، سورۂ دھر کیلئے قرآن کی دوسری سورتوں کوپیشِ نظر رکھ کرہی سمجھنا ہوگا!

قرآن کی سورۂ القلم میں بسم اللہ کے بعدن والقلم ومایسطرونOوانت بنعمة ربک بمجنون O وانَّ لک لاجرًا غیرممنونO وانک لعلیٰ خلق عظیمOفستبصرویبصرونO بایکم المفتونOان ربک ھو اعلم بمن ضل عن سبیلہ وھو اعلم بالمھتدین O”ن۔ قسم ہے قلم کی اور جوسطروں میں ہے۔ نہیں آپ اپنے رب کی نعمت سے مجنون۔ آپ کا مشن اجر ہے نہ ختم ہونے والا۔ اور آپ اخلاق کے عظیم رتبے پر ہیں۔سو عنقریب آپ دیکھ لیںگے اور وہ بھی دیکھیںگے کہ کون مبتلا ہے؟۔ بیشک تیرا رب جانتا ہے کہ جو راہ سے ہٹا ہے اور وہ ہدایت والوں کو بھی زیادہ جانتا ہے”۔اللہ تعالیٰ قلم اور سطروں میں لکھی ہوئی کتاب کی قسم کھارہاہے لیکن علماء کو فقہ واصول کی باطل تعلیم سے فرصت نہیں کہ قرآن کی تعریف کا غلط معاملہ سمجھ کر درست کرلیں۔ مشرکین نے نبیۖ کو مجبون قرار دیا، اور کہا کہ عنقریب آپ کا مشن ملیامیٹ ہوجائیگا۔ آپ کے اخلاق اچھے نہیںمگر اللہ نے ان کی سب باتوں کو بالکل رد کردیاتھا۔ہر بات آخرت پر نہیں چھوڑی بلکہ دنیا میں ہی نتائج سے آگاہ کردیاکہ عنقریب پتہ چل جائیگا کہ جنون اور بداخلاقی میں کون مبتلاہے اور کون ہدایت پر اور کون گمراہ ہے۔ سورۂ مدثر، سورۂ دھر میں بھی دنیاوی انقلاب ہی کا ذکر ہے مگر علماء نے اس کی غلط تفسیر کرکے آیاتِ قرآنی کے اصل معانی کو ہوا میں اڑادیا ہے۔ قرآن میں زمینی حقائق کے حوالہ سے بھی قرونِ اولیٰ اور اسلام کی نشاة ثانیہ کے انقلابات کی خبر یں ہیں۔
جب باطل قوتوں کا غلبہ ہوتا ہے تو ہتھیار کے بغیر بھی اہل حق الزامات کی زد میں ہوتے ہیں۔ شریف کو مجنون، اخلاق وآداب کے منافی قرار دیا جاتا ہے مگر پھر وہ وقت دور نہیں ہوتا ہے کہ اہل حق غالب اور باطل ناکام ہوتے ہیں۔ قرآن میں بہترین رہنمائی ہے۔

سورۂ قلم کی تفصیل سے ظاہر ہے کہ آخرت سے پہلے دنیا میں مجرموں کا پتہ چلے گا

اورارشادفرمایا:فلاتطع المکذبینOودّوالوتدھن فیدھنونO و لا تطع کل حلاف مھینOھمازٍ مشائٍ بنمیمOمناعٍ للخیرِ معتدٍ اثیمOعتلٍ بعد ذلک زنیمٍOو ان کان ذامالٍ وبنینٍOاذتتلٰی آےٰتنا قال اساطیر الاولینO سنسمہ علی الخرطومOانا بلونٰھم کما بلونآ اصحٰب الجنة اذا اقسموا لیصرمنھا مصبحینO”لہٰذا ان جھٹلانے والوں کی بات نہ مانو۔ یہ توچاہتے ہیں کہ آپ کچھ مداہنت کریں تو یہ بھی مداہنت کریں۔ہرگز بات نہ مانو، ہر ایک بہت قسم کھانے والے ہلکے آدمی کی، طعنہ دینے والے،چغلیاں کھانے والے کی،خیر کیلئے رکاوٹ کھڑی کرنیوالا، حدسے گزرا ہوا گناہ گار، کھاؤ پیو جھگڑالوبدخلق اور بداصل ۔گرچہ وہ مال و اولاد رکھتا ہے۔ جب ہماری آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو کہتا ہے کہ یہ تو پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔ عنقریب ہم اس کی سونڈ پر داغ لگائیںگے۔ ہم نے ان کو اس طرح آزمائش میں ڈالا۔ جس طرح جنت( باغ ) والوں کو آزمائش میں ڈالا تھا۔ جب انہوں نے قسم کھائی کہ ہم صبح ضرور اس کا پھل توڑیںگے”۔
سورۂ قلم کی ان آیات میں جھٹلانے والوں کے دباؤ میں آنے سے منع کیا۔ جو چاہتے تھے کہ آپۖ ڈھیلے ہوں تو وہ بھی ڈھیلے پڑیں۔ باطل گھناؤنی صفات رکھتے تھے۔ مال و اولاد کے زعم میں مبتلاسمجھتے تھے کہ آیات پرانے قصے ہیں مگر اللہ نے واضح کیا کہ” عنقریب اس کی سونڈ کو داغ دینگے” سونڈ سے مراد ناک، چہرہ ہے جو دنیاوی عزت ، جاہ وجلال ہوتاہے۔
سورہ ٔ قلم میں پھر جنت(باغ) والوں کا قصہ ہے جو اپنی نعمت کھونے کے بعد ایکدوسرے کی ملامت کررہے تھے۔ کذٰلک العذاب ولعذاب الاخرة اکبر ”ایسا ہی ہوتاہے عذاب اور آخرت کا عذاب اس سے بڑا ہے”۔دنیاوی انقلاب بالکل واضح ہے۔

پہلے رکوع کے بعد سورۂ قلم کے دوسرے رکوع کی چیدہ چیدہ آیات ملاحظہ کریں

ان للمتقین عند ربھم جنّٰت النعیمOافنجعل المسلمین کالمجرمینOما لکم کیف تحکمونOام لکم کتٰب فیہ تدرسونOانّ لکم لما تخیّرونO ام لکم اَیمان علینا بالغة الیٰ یوم القیامة ……”بیشک پرہیزگاروں کیلئے ان کے رب کے پاس نعمتوں والے باغات ہیں۔ کیا ہم حق قبول کرنے والوں سے مجرموں کا سا سلوک کرینگے؟۔تمہیں کیا ہوا ہے، کیسا فیصلہ کرتے ہو؟۔ کیا تمہارے پاس کوئی کتاب ہے جس کا تم درس دے رہے ہو؟اور اس میں تمہارے لئے ہے کہ تمہارے پاس اپنے لئے اختیار ہوگا؟۔ یا تمہارا ہمارے ساتھ کوئی عہدوپیمان ہے جو قیامت تک جو چاہو اپنے لئے فیصلہ کروالو؟”۔
فذرنی ومن یکذّب بھٰذالحدیث سنستدرجھم من حیث لایعلمون ….. ……”پس مجھے اور اس بات کو جھٹلانے والوں کو آپ چھوڑ دیں۔ ہم درجہ بہ درجہ انہیں لے جائیںگے جسکا ان کو پتہ بھی نہ چلے گا۔ میں ان کو مہلت دیتا ہوں اور میری تدبیر مضبوط ہے۔ کیا آپ ان سے کوئی معاوضہ طلب کرتے ہو،جسکے بوجھ تلے وہ دبے جارہے ہیں؟۔کیا ان کے پاس کوئی غیب ہے جس سے وہ لکھ رہے ہوں؟۔ پس آپ اللہ کے حکم کا انتظار کریں اور مچھلی والے کی طرح نہ بنیں۔جب اس نے پکارا تھا اور پھر مغموم تھا۔ اگر اپنے رب کی نعمت اس کو نہ ملتی تو چٹیل میدان میں پھینک دیا جاتا اور وہ دبوچا ہوا ہوتا۔ پھر اللہ نے اسے چن لیا اور اس کو صالحین میں سے بنایا۔ اور قریب ہے کہ جنہوں نے کفر کیا کہ اپنی آنکھوں سے پھسلادیںجب یہ ذکر کو سنتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بیشک یہ مجنون ہے اوریہ اور کچھ نہیں مگر تمام جہانوں کیلئے نصیحت ہے”۔ سورۂ قلم میں جہاں قرآن کیلئے مہم جوئی کرنیوالے متصدقین اور مخالفین مکذبین کا حال ہے وہاں دنیا میں بھی سزا اور جزاء کی بھرپور وضاحت ہے۔

عذاب وجنت سے آخرت ہی نہیں بلکہ دنیامیں بھی جزاء وسزا مراد ہوتی ہے!

قرآن میں جہاں دنیا کا عذاب یا جنت مراد ہواور اس سے آخرت مراد لی جائے تو قرآن سمجھ میں نہیں آئیگا۔ قرآن صرف آخرت کے عذاب اور جنت کی کتاب نہیں بلکہ اس کامفہوم درست پہنچانے کا نتیجہ دنیاکوجنت بناسکتا ہے اور اسے جھٹلانے کا عذاب دنیا میں مل سکتا ہے۔
قرآن کو جھٹلانے والوں کا سب سے بڑا وطیرہ دنیاوی مفادات اور آخرت کا انکار یا مفت میں اپنے لئے آخرت میں اپنی مرضی کے فیصلے۔ سورۂ قلم میں تفصیل سے اس کا ذکر ہے۔ اس کو تدبر کیساتھ پڑھنے کے بعد ذہن کھل جائیگا۔ مال اور اولاد کو ترجیح دیتے ہوئے آیات کیلئے پُرانے قصے کہانیوں کی سوچ رکھنے والے کیلئے ہے کہ ” عنقریب ہم اس کی سونڈ پر داغ لگائیں گے”۔ سورۂ مدثر اور سورۂ دھر کے علاوہ کئی سورتوں میں دنیاوی عذاب، قرآنی انقلاب ، اسلام کی نشاة اول اور نشاة ثانیہ کے حوالے یوم الفصل اور جزاء وسزا کابالکل بہت واضح ذکرہے۔
مفتی تقی عثمانی نے اپنے مال اور اولاد کیلئے بینکوں کو اپنا ٹھکانہ بنالیاہے۔ سودی نظام کو جائز قراردینے کی معصیت سے توبہ کئے بغیر قرآن وسنت کی طرف رجوع نہیں ہوسکتا۔(

 

جب قرآن وسنت فرقوں، مسلکوںاور گروہوں میں بٹ گیاتو امت کا زوال آیا!

قرآن کریم میں آخرت کا تصور تو بالکل اپنی جگہ پر واضح ہی ہے لیکن قرآن کیلئے مصدقین و مکذبین کا کردار ادا کرنے والے دنیا میں ہی فلاح پاتے ہیں یا اپنے انجام کو پہنچتے ہیں۔جب قرآن موضوعِ بحث تھا تو فتح مکہ اور سپر طاقتوں کو شکست دینے والے قرونِ اولیٰ کے مسلمان پوری دنیا سے اپنے عقائد اور اعمال کی بدولت ممتاز تھے۔ البتہ جب خلافتِ راشدہ کے بعد حکومت پر بنی امیہ، بنی عباس اور ترکی خاندان سلطنت عثمانیہ کا قبضہ ہوا۔ ہندوستان میں مغل تو افغانستان میں ایکدوسرے کا خون کرنے والے بادشاہ تھے تو اسلام کی حقیقی تعلیمات کا وجود نہیں تھابلکہ بادشاہوں کے مرغے شیخ الاسلامی کے عہدوںپر قاضی القضاة کا کردار ادا کرتے تھے، جو حق کہنے والوں کو گردن زدنی، جیل، کوڑوں اور جلاوطنی کی عبرتناک سزادیتے۔
اورنگزیب عالمگیر نے اپنے بھائیوں کو قتل اور باپ کو قید کردیا تھا مگر جب شاہ ولی اللہکے والد شاہ عبدالرحیم سمیت پانچ سو جید،مستند، معروف اور تقویٰ وپاک دامنی کے نجوم، آفتاب و مہتاب نے فتاویٰ عالمگیریہ مرتب کیا تو اس میں بادشاہ کیلئے قتل، زنا، چوری، ڈکیتی اور ہرقسم کی حد اور سزا معاف کردی اور حیلہ یہ ڈھونڈ نکالا کہ ”بادشاہ تو خود ہی دوسروں پر حد نافذ کرتا ہے مگر اس پر کون حد نافذ کردیگا؟۔ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا،اسلئے بلّا دودھ پی جائے تو معاف ہے”۔ انگریز نے تسلط حاصل کیا تو آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد جن جماعتوں اور فرقوں نے ایکدوسرے کیخلاف محاذ کھولے ہیں ان میں حق وباطل سے زیاد اپنے گروہی و فرقہ وارانہ مفادات ہیں۔ بریلوی،دیوبندی، اہل تشیع، اہلحدیث ، جماعت اسلامی، پرویزی اور انواع واقسام کے نت نئے فرقے طلوع وغروب ہوتے رہتے ہیں۔ مرزائیوں کو پہلے بھی کافر سمجھا جاتا تھا مگر مولانا احمد رضاخان بریلوی تو دوسروں کو قادیانی جیسا سمجھتے تھے

 

حق وباطل کی کشمکش مسلکوں اور فرقوں کی بنیاد پر نہیں ہوتی بلکہ قرآن کی بنیاد ہے

دارالعلوم دیوبند کے شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے مالٹا جیل سے رہائی کے بعد اُمت کے زوال کے دواسباب قرار دئیے۔ایک قرآن سے دوری اور دوسرا فرقہ واریت۔ مفتی محمد شفیع نے کہا کہ ” یہ دراصل ایک ہی سبب ہے۔ قرآن سے دوری۔ فرقہ واریت بھی قرآن سے دور ہونے کے سبب سے ہے”۔ دارالعلوم کراچی میں مفتی شفیع کے داماد مفتی عبدالرؤف سکھروی کو جاندار کی تصویر ناجائز لگتی ہے جبکہ مفتی تقی عثمانی کا فتویٰ اسکے منافی ہے۔ ایک شادی بیاہ میں تصاویر کھینچوانے پر اپنے مریدوں کو سخت ترین عذاب کی وعیدیں سناتا ہے اور دوسرے کی اپنی ویڈیوز مسجد میںبنتی ہیں۔ایک شادی بیاہ میں لفافے کی لین دین کو سود اور اسکے کم ازکم گناہ کو اپنی ماں سے زنا کے برابر قرار دیتا ہے اور دوسرے نے اسلامی نام پر سودی بینکنگ کا کاروبار اپنا مشن بنایا ہواہے۔ ایک علم آفتاب اور دوسرا تقویٰ کا مہتاب ہے۔ ماشاء اللہ چشم بد دور۔
شیخ الہند کے شاگرد مولانا عبیداللہ سندھی نے قرآن کی طرف دعوت دی تو ان کو پاگل اور گمراہ قرار دیا گیاتھا لیکن آخر کار مولانا انور شاہ کشمیری نے معافی طلب کرلی اور اعلانیہ کہا کہ ”ہم نے قرآن وسنت کی خدمت نہیں کی بلکہ مسلکوں کی وکالت کرکے زندگی ضائع کردی”۔ مولانا الیاس نے امت کا درد لیکر تبلیغی جماعت کے ذریعے دنیا میں دعوت کا کام عام کردیا مگر جماعت نے بستی نظام الدین مرکز سے بھی جان چھڑائی اور اب کوئی امیر بھی نہیں ہے۔ جب دارالعلوم دیوبند میں مولانا حسین احمد مدنی کے صاحبزادوں اور قاری طیب اور مولانا انور شاہ کشمیری کے صاحبزادوں میں مہتمم کے عہدے پر جھگڑا ہوا تو دارالعلوم دیوبند دوٹکڑے ہوگیا۔ آج تک مولانا سید محمد بنوری شہید کے قاتلوں کا بھی سراغ نہیں مل سکا لیکن وہ کونسے بدمعاش ہیں جو اتنے مضبوط بن گئے ہیں؟۔کیامولانا امداداللہ مردانی بتاسکتے ہیں قاتل؟۔

 

مدارس پر بدمعاشوں اور مافیاز کے قبضے ہیں، یہی حال تبلیغی جماعت کا لگتاہے!

مولانا الیاس نے تبلیغ کا کام شروع کیا تو اپنوں سے زیادہ غیروں نے پذیرائی بخش دی تھی اور یہ بات میں رجماً بالغیب نہیں کہتا ہوں بلکہ بچپن میں جب تبلیغی جماعت میں وقت لگایا تھا تو بریلوی مساجد کے بعض ائمہ بھی تبلیغی جماعت کو غیرمتنازع کہتے تھے۔ ہمارے مرشد حاجی عثمان کراچی کی جس مسجد میں عصر سے عشاء تک بیان کرتے تھے تو اسکے خطیب وامام مشہور مبلغ مولانا شفیع اوکاڑوی تھے، جس کو تعصبات پھیلانے پر مسجد کے متولی نے بروزِ جمعہ منبر سے اتارا اور حاجی عثمان سے تقریر کرنے کاکہا اور اوکاڑوی صاحب کو بتایا کہ تقریر ان سے سیکھ لو۔ پھر آہستہ آہستہ مولانا اوکاڑوی نے بستر گول کیااور مسجد نور جوبلی رنچھوڑ لائن کو چھوڑ کر گلزار حبیب مسجد کارُخ کیا۔ جہاں سے مولانا الیاس قادری نے دعوت اسلامی کا آغاز کیا تھا۔
پہلے تو اکابر اللہ والے ہوا کرتے تھے،اب جوکروں نے مشیخت کا لباس زیب تن کیا ہے۔ تبلیغی جماعت ، دعوت اسلامی اور مدارس کے علاوہ تمام مذہبی جماعتوں کے نیک لوگ امت کا بہت بڑا اثاثہ ہیں مگر انکے بڑے اکابر نے دانستہ یا نادانستہ طور پر مفادات کو شغل بنایا ہے۔
ہرمکتب فکر، گروہ، جماعت اور تنظیموں میں اچھے برے لوگ ہیں۔ اچھوں کی تعداد بروں کے مقابلے میں زیادہ ہی ہوتی ہے لیکن بدمعاش طبقہ سب پر غالب رہتا ہے اور پیدا گیر قسم کا ٹولہ ہمارے شیخ حاجی عثمان کی خانقاہ پر بھی براجمان تھا۔ مولانا فضل الرحمن کی حاجی عثمان کے خلیفہ سروربھائی النور والے نے دعوت کی تھی تومجھ سے جمعیت والوں نے پوچھا، میں نے کہا کہ ڈٹ کر کھاؤ، اچھا آدمی ہے۔ پھر ان کو جمعیت کا فیڈرل بی ایریا کا امیر بنانے کی تجویز آئی تو میں نے منع کردیاکہ ”یہ خبیث سدھرے گا، گدھے کی طرح کارکن بناکر اس سے کام لو”۔ میں نے کہا کہ دوسرے خلفاء بھی ایسے ہی ہیں تو سب حیران تھے مگر پھر ثابت ہوا۔

 

حاجی عثمان کے خلفاء ٹی جے ابراہیم اور الائنس موٹرز کے کرتے دھرتوں کا حال

طیب، جاوید ، ابراہیم نے 1500ر وپے سے چائے کا مشترکہ کام شروع کیا، حاجی عثمان نے دعا دی اور وعدہ لیا کہ اپنی ضروریات کے علاوہ منافع دین کیلئے خرچ کروگے۔ برکت کی انتہاء ہوگئی تو یتیم اور بیواؤں کا سرمایہ بھی شریک کرلیا۔ علماء ومفتیان نے اپنا سرمایہ بھی لگانے کی استدعا کردی۔ حاجی عثمان نے کمپنی کو شرعی قوانین مرتب کرکے اجازت دی۔ مضاربہ کی کمپنی کی یہ شرائط تھیں کہ ” 40 فیصد منافع سرمایہ کار اور60کمپنی کا ہوگا۔سرمایہ واپس لیتے وقت ایک ماہ پہلے اطلاع دینی ہوگی اور اس اطلاعی مدت کا منافع نہیں ملے گا”۔ جبکہ کمپنی کا ایجنٹ بھی سرمایہ کار سے 2فیصد منافع لیتا تھا۔ بڑے علماء ومفتیان سب ایجنٹ بن گئے تھے۔ حاجی عثمان کی خانقاہ پر جلی حروف سے لکھا تھا کہ ” رسول اللہ ۖ تشریف لائے اور فرمایا کہ حاجی محمد عثمان کا کوئی مرید ضائع نہ ہوگا،الّاا سکے جو اخلاص سے نہ جڑا۔ خلیفہ اول محمدابراہیم”۔
پھر حاجی عثمان نے تبلیغی جماعت کی طرف سے ٹی جے ابراہیم سے لاتعلقی کااظہار کرنے کے بعد کمپنی کو بند کرنے کا حکم دیا لیکن انہوں نے نام بدل کر ”الائنس موٹرز” رکھ دیا۔ پھر پتہ چل جانے سے بچنے کیلئے بڑے گر استعمال کئے اور آخر کار حاجی عثمان کو بیماری کا جھوٹ بناکر گھرمیں نظر بند کردیا گیا۔ چہیتوں نے آنکھیں پھیر یں اور بدمعاشی پر اتر آئے۔ اکابر علماء و مفتیان نے الائنس موٹرز کے کرتے دھرتوں کا ساتھ دیا، لوگوں کا سرمایہ پھنسا بیٹھے تھے لیکن سازش، اسلام کو غلط استعمال کرنیکی بھی حد ہوتی ہے، انہوں نے تمام حدود پھلانگ لئے تھے مگرحاجی عثمان پر اللہ تعالیٰ کا یہ انعام تھا جو سید عتیق الرحمن گیلانی جیسا مرید بھی عطاء کیا تھا۔ ہم ان فتوؤں پر علماء ومفتیان کا شکریہ ادا کرتے ہیںکیونکہ حاجی عثمان کی شخصیت کے گرد حصار ٹوٹنے سے کئی بڑوں کے چہروں سے نقاب اترا،البتہ قرآن کی طرف توجہ دینی ہوگی۔

 

سورہ المطففین کے پہلے رکوع کی چیدہ چیدہ آیات ملاحظہ کریں

ویل للطففینOالذین اذا اکتالوا علی الناس یستوفونOواذا کالوھم او وزنوھم یخسرونOالایظن اولٰئک انھم مبعوثونOلیوم عظیمOیوم یقوم الناس لرب العٰلمینOکلا ان کتاب الفجار لفی سجینOوماادراک ما سجینOکتاب مرقومO ویل یومئذٍ للمکذّبینOالذین یکذبون بیوم الدینOومایکذب بہ الاکل معتدٍ اثیمٍOاذا تتلٰی علیہ آیٰتناقال اساطیر الاولینOکلا بل ران علی قلوبھم ماکانوا یکسبونOکلا انھم عن ربھم یومئذٍ لمحجوبون Oثم انھم لصالوا الجحیمOثم یقال ھٰذا الذی کنتم بہ تکذبونO”تباہی ہے کمی کرنے والوں کیلئے جب لوگوں پر بانٹنے کیلئے تولتے ہیں تو پورا پورا حساب شمار کرتے ہیں اور جب چندہ بٹورنے کیلئے ناپ یا تول کا حساب لگاتے ہیں تو اس میں گھٹانے کا کام کرتے ہیں۔ کیا ان کو یہ گمان نہیں کہ ایک دن ان کی پیشی ہونے والی ہے،ایک بڑے دن کیلئے۔ جس دن لوگ کھڑے ہونگے اپنے رب العالمین کے سامنے؟۔ ہرگز نہیں،فاجروں کا حساب کتاب جیلوں میں ہوگا اور تمہیں کیا معلوم کہ جیل کیا ہے؟۔ لکھے ہوئے رجسٹر ہونگے۔ وہ دن تباہی کاہوگا جھٹلانے والوں کیلئے۔ جو جھٹلاتے ہیں ،آخرت کے دن کے ذریعے( کہ حساب کتاب وہاں ہوگا) اور اس کے ذریعے سے کوئی نہیں جھٹلاتا مگر ہر حد سے گزرا ہوا گناہگار۔ جب اسکے سامنے ہماری آیات کو تلاوت کیا جاتا ہے تو کہتا ہے کہ یہ پرانے لوگوں کے قصے ہیں۔ ہرگز نہیں بلکہ انکے دلوں پر زنگ چڑھ گیا ہے۔ جو انہوں نے کمایا ہے اسکے سبب۔ ہرگز نہیں ،اس دن وہ اپنے رب سے حجاب میں ہونگے۔ پھر یہ جحیم میں پہنچ جائینگے اور ان سے کہا جائیگا کہ یہ وہی ہے جسکے ذریعے سے تم جھٹلاتے تھے”۔

 

آج چندہ لیاجارہاہے اور اسلامی انقلاب کے عظیم دن حساب کتاب بھی ہوگا

قرآن بہت واضح عربی زبان میں ہے۔ پوپ فرانس سے لیکر امریکی جوانوں تک مظالم کا احساس ہوگیا ہے۔ کرونا وائرس کے متاثرین کیلئے چندوں کی ضرورت ہے ،چندہ لینے والے کہہ سکتے ہیں کہ دنیا میں نہیں آخرت میں ہم اپنا حساب کتاب دیںگے۔ وہ اپنی بداعمالیوں کو آخرت کی سزا اور جزا سے جوڑ کر اپنی جان چھڑاتے ہیں۔ برے لوگوں کا حساب کتاب جیل ہے اور انکا اعمالنامہ رجسٹر میں درج ہوگا۔ حکمرانوں ، سیاستدانوں، جرنیلوں،آفیسروں کے علاوہ این جی اوز، مذہبی وسیاسی جماعتوں اورسماجی کارکنوں میں نیک وبدکی تفریق کا حساب دنیا ہی میں سامنے آئیگا۔ نسل، رنگ، زبان، ملک اور مذہب کی تفریق کے بغیر اچھے لوگوں کی قدرومنزلت دنیا ہی میں ہوگی۔ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نشاة ثانیہ کیلئے بنایا ہے۔
عالمی اسلامی نظام کی طرف دنیا کا سفر شروع ہے۔ شدت پسندی ،فرقہ پرستی اورمفاد پرستی اپنے انجام کو پہنچنے والی ہے۔ انشاء اللہ۔ زنگ آلودہ دلوں کے فتح ہونے کا وقت آگیا ہے اور سب کا اعتقاد قرآن کے مطابق بنے گا کہ ذرہ برابر شرہو یا خیر اس کو انسان دیکھے گا۔

 

سورۂ مطففین میں دنیاوی انقلاب عظیم کا بھی ذکر ہے، علماء ومفتیان غور کرینگے؟

جب رسول اللہ ۖ کے دور میں مکہ فتح ہوا، انقلاب عظیم آگیا تو لوگ فوج در فوج اسلام کو قبول کرکے اسلام میں داخل ہونے لگے مگر وہ اپنے رب سے حجاب میں تھے۔ ابوسفیان و دیگر افراد کیلئے معافی عام کا اعلان نارِ نمرود سے کم نہیں تھا۔ نبیۖ کا وصال ہوا تو بہت لوگ فوج در فوج پھر اسلام سے مرتد ہوگئے۔ ابراہیم علیہ السلام کیلئے کافروں کا فیصلہ جحیم میں ڈالنے کاتھا مگر اللہ نے آگ کو سلامتی والا ٹھنڈا بنادیا۔ نبیۖ نے فتح مکہ پر معافی دی۔ کافر ومؤمن میں یہ فرق ہے کہ کافر آگ میں جھونکتے ہیں اور مسلمان معاف کرنے کوہی اپنا شعار سمجھتے ہیں۔
کلا ان کتٰب الابرار لفی علیینO………………ھل ثوّب الکفار ماکانوا یفعلونO”ہرگز نہیں! نیکی کرنیوالوں کارجسٹر بلند پایہ مقام پر ہوگا۔ اور آپ کو کیا معلوم کہ بلند پایہ مقام کیا ہے؟۔ یہ ایک لکھا ہوا رجسٹر ہے جس کا مشاہدہ مقربین کرینگے۔ (اسلامی انقلاب کے بعد اعلیٰ ترین لوگ) بیشک نیکی کرنے والے مسندوں پر بیٹھ کر نظارے دیکھتے ہونگے۔ انکے چہروں پر آپ نعمتوں کا نظارہ دیکھوگے، ان کو سیل بند اعلیٰ شراب پلائی جائے گی جس پر مشک کی سیل ہوگی۔ اس میں رشک والے ہی ایکدوسرے پر رشک کرینگے۔ جسکاوصف تسنیم ہوگا، یہ چشمہ ہوگا جس سے مقرب لوگوں کو پلایا جائیگا۔ بیشک مجرم لوگ ایمان والوں پر ہنستے تھے اور جب انکے قریب سے گزرتے تھے تو اشارہ بازی کرتے تھے۔ جب وہ اپنے گھروں میں لوٹتے تھے تو مزے لیتے تھے۔ جب وہ انکو دیکھ لیتے تھے تو کہتے تھے کہ یہ وہ گمراہ لوگ ہیں اور ان پر انکو نگران بناکر نہیں بھیجاگیا تھا۔ تو آج ایمان والے کفر والوں پر ہنسیں۔مسندوں پر بیٹھ کر نظارہ دیکھیں۔ کیا کفار کو ثواب مل گیا جو وہ کرتے تھے؟”۔ یہ سورة المطففین عظیم انقلاب کی خبر دے رہی ہے۔ کاش دنیا اس کو سمجھنے کی کوشش کرے۔

 

جس انقلاب عظیم سے زمین اور آسمان والے دونوں خوش ہوں تو اسکاذکرہے؟

سورۂ مطففین میںان ایمان والوں کا بھی ذکر ہے جس کو دیکھ کر جھٹلانے والے ہنستے تھے۔ خلافت علی منہاج النبوة کے قیام میں سیدھے سادے مگر مخلص لوگوں کا بنیادی کردار ہوگا، جن لوگوں نے قرآن کے واضح احکام کے باوجود بھی ان کو قبول کرنے سے انکار کیا ہوگا تو کفرکے معنی ہی اصل میں انکار کرنے کے ہیں۔ عربی میں منکرین کا ترجمہ الذین کفروا ہے۔جس جگہ حق کا پرچار کیا جائے تو ایک منکرین کا درجہ ہوتا ہے اور دوسرا مکذبین کا درجہ ہوتا ہے۔ جن لوگوں نے مکذبین کا مقام حاصل کیا ہوتا ہے تو وہ منکرین سے بھی سخت ہے۔
اگر دنیا میں طرزِ نبوت کی خلافت قائم ہوجائے تو پھر لوگ دو حصوں میں تقسیم ہونگے،ایک فجار(حقوق العباد کو پامال کرنے والے) اور دوسرے ابرار( حقوق العبادکیلئے خدمات انجام دینے والے)۔ ایک عذاب نبوت کی تکذیب کی وجہ سے آتا ہے۔ وماکنا معذبین حتیٰ نبعث رسولا، ”ہم عذاب نہیں دیتے جب تک کوئی رسول مبعوث نہ کردیں”۔نبیۖ کی ختم نبوت کی وجہ سے اب کسی قوم پرایسا عذاب بھی نہیں آسکتا ہے۔ البتہ ظلم وزیادتی، سود اور مختلف منکرات کی وجہ سے اللہ کا عذاب آسکتا ہے۔ دنیا میں سودی نظام عذاب کا ذریعہ ہے۔ جب پاکستان اور دنیا میں مزارعین کو مفت زمینیں دی جائیںگی اور سودی نظام کا خاتمہ ہوگا تو پھر ایک عظیم انقلاب کی آمد ہوگی۔ جنہوں نے ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور کامظاہرہ کرتے ہوئے غریب غرباء کے نام پر زکوٰة ، صدقات ، چندے بٹورے ہیں تو ان کو سونڈ پر داغا جائیگا۔ باقی اگر دنیا میں شراب کی بات ہوتو شرابی ہی ایکدوسرے پر رشک کرینگے اور مفتی تقی عثمانی کی طرح مفتی محمود کی طرف سے بدتر قرار دینے کے باوجود کسی کو اصرار کرکے مشروب نہیں پلائی جائے گی۔اس عظیم انقلاب کے نقشے میں دنیا کی خوشحالی ہوگی۔

 

سورۂ المطففین کے بعد متصل سورۂ انشقاق میں بھی انقلابِ عظیم کا ہی منظر ہے

اذا السماء انشقتOواذنت لربھا وحقتO…….” اور جب آسمان پھٹ پڑیگا اور اسکے رب کی طرف سے اجازت مل جائے گی اور یہی حق ہے۔اور جب زمین کھینچ جائے گی اور جو کچھ اس میں ہے سب اُگل دے گی اور خالی ہوجائے گی۔اسکے رب کی طرف اس کو اجازت ہوگی اور یہی حق ہے۔ …………………”۔ یہ تو طے ہے کہ احادیث میں آتا ہے کہ انقلابِ عظیم کے دور میں زمین اپنے خزانے اُگل دے گی اور آسمان سے خوب بارشیں ہونگی مگریہاں آسمان سے پھٹ پڑنے سے مترجمین اور مفسرین نے قیامت مراد لیا ہے۔حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ ”قرآن کی تفسیر زمانہ کریگا”۔ قرآن کی بعض آیات بعض کی تفسیر ہیں۔ سورۂ الشوریٰ میں آئندہ کے حالات اور آسمان پھٹنے کا پسِ منظر ہے۔ تکاد السمٰوٰت یتفطرن من فوقھن والملٰئکة یسبحون بحمد ربھم ویستغفرون لمن فی الارض الا ان اللہ ھوالغفور الرحیمO ”قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑے انکے اوپر سے اور ملائکہ پاکی بیان کرتے ہیں اپنے رب کی تعریف کیساتھ۔ اورجو زمین میں ہیں ،ان کیلئے استغفار کرتے ہیں۔خبردار! کہ بیشک اللہ مغفرت والا رحم والا ہے”۔ (الشوریٰ :5)
شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے لکھ دیا ہے کہ” قریب ہے کہ فرشتوں کے بوجھ سے آسمان پھٹ پڑے”۔(آسان ترجمہ قرآن کا حاشیہ)۔حالانکہ اللہ فرماتا ہے کہ” مغفرت کی طرف دوڑ پڑو، جو جنت عطاء کریگا جس کی چوڑائی آسمان اور زمین کی چوڑائی کے برابر ہے”۔
اللہ نے شوریٰ میں واضح کیا ہے کہ …. اور فرقو میں مبتلاء نہ ہوئے مگر علم کے بعد آپس کی بغاوت سے۔اگر تیرے رب کی طرف سے لکھا نہ ہوتا توانکے درمیان فیصلہ کرچکا ہوتا۔ بیشک جن کو کتاب کا وارث بنایاگیاانکے بعد تو وہ شک میں پڑے ہیں شبہ کیوجہ سے

 

سورۂ انشقاق سے دنیاوی انقلاب کی خبر مرادہے جو اسکی آیات سے واضح ہے!

سورۂ شوریٰ میں بہت حقائق واضح ہیں جس میں آسمان پھٹنے اور فرشتوں کا زمین والوں کی مغفرت طلب کرنا اور اللہ کا جلال واضح ہوناکہ اگر پہلے سے لکھا نہ جاچکا ہوتا تو کتاب کے بہت نالائق وارثوں پر غضب الٰہی کا آسمان سے فیصلہ ہوچکا ہوتا۔ لیکن اللہ غفور رحیم ہے۔ جب تک آسمان کے پھٹ جانے کا فیصلہ نہیں ہوتا تو ظالموں کو مہلت بھی ہوگی۔ جب آسمان پھٹے گا تو پھر ظالموں کی مہلت بھی ختم ہوگی۔ زمین کے خزانے اُگلنے کی بات تقاضہ کرتی ہے کہ مؤمنوں کیلئے خوشخبری کا پیغام ہو۔اللہ نے فرمایا کہ ” اوراسی طرح ہم نے آپ کی طرف وحی کی عربی قرآن کی تاکہ آپ ڈرائیں اہل مکہ کو اور جو انکے ارد گرد ہیں اور ڈرائیں جمع ہونے والے دن کیلئے جس میں کوئی شک نہیں ہے، فریق فی الجنة وفریق فی السعیر”ایک گروہ جنت (خوشی میں ہوگا) اور دوسرا گروہ سعیر(پاگل پنے میں ہوگا) ۔ (الشوریٰ:7)
ےٰاایھاالانسان انک کادح الیٰ ربک کدحاً فملٰقیہO…..” اے انسان!بیشک تو اپنے رب کی طرف مشقت اٹھاکر چل رہاہے اور اس سے سامنا کرنا ہے۔ پس جس کو دائیں ہاتھ میں اعمالنامہ مل جائے تو عنقریب اسکا آسان حساب لیا جائیگا اوروہ اپنے اہل کی طرف خوش ہوکر لوٹے گااورجس کو پیٹھ پیچھے اس کا اعمالنامہ دیا جائے تو وہ موت پکاریگا اور پاگل پن میں پہنچ جائیگا۔ بیشک وہ اپنے اہل وعیال میں خوش تھااور اس کا گمان تھا کہ وہ ہرگز نہیں لوٹے گا۔جی ہاں! اللہ اس کے کرتوتوں کو بخوبی دیکھ رہاتھا۔ ( الانشقاق:آیت6تا15)
یہ دنیا میں حساب کتاب اور گھر کے سربراہ کی بات ہے، آخرت میں تو انسان اپنے بھائی، ماں باپ، بیوی اور بچوں سے بھاگے گا۔ سب کا اپنا اپنا حساب ہوگا لیکن دنیا میں گھر کا سربراہ حساب کتاب دیگا۔ بیوی بچوں ،اہل وعیال کا کوئی قصور بھی نہ ہوگاجس پر پکڑ ہو۔

 

سورۂ انشقاق کے آخری حصہ میںبھی پہلے اور درمیانہ حصے کی طرح انقلاب کی خبر!

فلآ اقسم بالشفقOوالیل وماوسقOوالقمر اذا تسق Oلترکبن طبقًا عن طبقٍOفمالھم لایؤمنونO…………” پس نہیں، میں قسم کھاتا ہوں شفق کی اور رات کی جب وہ سمیٹ لے اور چاند کی جب وہ کامل بنے۔ تم نے ضرور ایک طبقہ سے دوسرے طبقہ کی طرف سوار ہو آنا ہے۔ پس ان کو کیا ہے کہ ایمان نہیں لاتے؟اور جب ان پر قرآن پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے؟۔بلکہ جنہوں نے انکار کیا، وہی لوگ جھٹلاتے ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ انہوں نے کیا کیا جمع کررکھا ہے۔ پس ان کودردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو۔مگر جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے صالح عمل کئے تو ان کیلئے بدلہ ہے کبھی نہ ختم ہونے والا”۔
رات کی سرخی انقلاب ہے ، جب رات کی طوالت آخری حد کو پہنچ جائے تو سب کچھ سمیٹ لیتی ہے۔ رات جل اٹھتی ہے شدتِ ظلمت سے ندیم لوگ اس وقفہ ماتم کو سحر کہتے ہیں
چاند کا مکمل ہوکر طلوع ہونا بھی رات کے اندھیرے میں اچھی علامت ہے۔ حدیث میں نبوت ورحمت کے دور کے بعد امارت، بادشاہت اور جبری حکومتوں کے بعد پھر طرزِ نبوت کی خلافت کا دور ہے۔ جس کو امت مسلمہ کے سارے طبقات مانتے ہیں مگر پھر کیوں ایمان نہیں لاتے ہیں؟۔ جب قرآن کی آیات سامنے آجائیں تو پھر بھی اپنے فقہی کمالات بھگارتے ہیں مگر قرآن کی نہیں مانتے ہیں۔ یہی وہ کفر کرنے والے ہیں جنہوں نے قرآن کو جھٹلایا ہے۔
جب بھی انقلاب عظیم آئیگا تو بڑے بڑوں کی پول کھلے گی۔ ہوسکتا ہے کہ انقلاب زیادہ دور نہ ہو۔ سورۂ جمعہ، سورۂ واقعہ ، سورۂ شوریٰ ، سورہ ٔ مدثر ، سورۂ دھر، سورۂ مطففین، سورۂ انشقاق اور اس سے متصل سورۂ البروج کے علاوہ سورہ الفجر اور سورہ البد وغیرہ میں انقلاب عظیم کی خبر بڑی وضاحتوں کیساتھ موجود ہے مگر قرآنی احکام اور معاملات کی طرف توجہ کرنی ہوگی۔

کیا یوم انقلاب کی خبر سے بے خبر ہیں؟

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

سورہ دھر نصیحت ہے اور اس کو دیکھ کر کوئی بھی اپنے رب کا راستہ پکڑسکتا ہے!

سورہ دھر کے آخر میں اللہ نے ارشاد فرمایا:انّ ہذہ تذکرة فمن شاء اتخذ الیٰ ربہ سبیلًاOوما تشاء ون الا ان یشاء اللہ ان اللہ کان علیمًا حکیمًاOیدخل من یشاء فی رحمتہ والظٰلمین اعدّلھم عذابًا الیمًاO ”یہ ایک نصیحت ہے۔پس جو چاہے اپنے رب کا راستہ پکڑلے۔ مگر تم نہیں چاہ سکتے ہو جب تک اللہ نہیں چاہے۔ بیشک اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ وہ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کردیتا ہے۔ اور ظالموں کیلئے اس نے دردناک عذاب تیار کررکھا ہے”۔ (سورۂ دھر)
جب انسان کا مطمع نظر آخرت ہو تو وہ غیب پر ایمان رکھ کر دنیا کی زندگی میں قربانیاں دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے صراط مستقیم دل وجان سے مانگتا ہے۔ پھر اس کیلئے اللہ اپنی رحمت کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ جب ظالم نہیں چاہتا ہے تو اللہ بھی اس کو اپناراستہ نہیں دکھاتا ہے۔
ہماری زندگی بفضل تعالیٰ قربانیوں سے عبارت ہے۔ جب مولانا فضل الرحمن پر دیوبندی علماء ومفتیان نے کفر والحاد کے فتوے لگائے تھے تو شیخ الحدیث مولانا علاء الدین ڈیرہ اسماعیل خان کے صاحبزادے مولانا مسعودالرؤف میرے ہم جماعت اور کمرے کے رومیٹ تھے۔ علماء ومفتیان کے متفقہ فتوے کا اشتہار اس نے لگایا تھا اور میں نے پھاڑ ڈالا۔ اسکے ساتھ ہاتھا پائی بھی ہوئی تھی۔ پھر ایک نظم لکھ ڈالی جس سے فتوے کو شکست ہوئی تھی۔ پھر مولانا فضل الرحمن نے اپنی تقریر میں یہ کہنے کی جرأت کی تھی کہ میں جدوجہد کررہاتھا اور تم فتوے لگارہے تھے؟ میں تمہارے فتوے کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہوں۔ اکابر علماء ومفتیان نے حاجی عثمان پر فتویٰ لگایا تو بھی اللہ نے سرخرو کیا تھا۔ پھر ٹانک کے اکابر علماء کی تائید کے بعد ڈیرہ کے علماء ومفتیان نے مل کر ہم پر فتوے لگائے تو بھی منہ کی کھانی پڑی مگر پھر بھی ان کوشرم نہیں آئی۔ واہ جی واہ!۔

 

قرآن میں متشابہات کی تفسیر زمانہ کرتاہے مگر واضح آیات ابہام کی متحمل نہیں !

والمرسلٰت عرفاOفالعٰصفٰت عصفاOوالنٰشرٰت نشراOفالفٰر قٰت فرقاOفالملقےٰت ذکراOعذرا او نذراOانما توعدون لواقعO
”قسم ہے معروف طریقے سے بھیجی جانے والیوں کی، جوپھر طوفانی کیفیت برپا کرتی ہیں اور نشر ہوجاتی ہیں اچھی طرح سے نشر ہونا۔پھر تفریق پیدا کرتی ہیں اچھے طریقہ سے۔پھر وہ نصیحت کو (دلوں میں) القاء کردیتی ہیں۔کوئی عذر پیش کرتا ہے اور کوئی ڈرتا ہے۔ بیشک جس (یوم انقلاب عظیم)کا تم سے وعدہ ہے وہ ضرور واقع ہونے والا ہے۔(سورۂ : المرسلات)
سیدابوالاعلیٰ مودودی نے لکھا کہ ” یہاں قیامت کے ضرور واقع ہونے پر پانچ چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے۔ ایک والمرسلات عرفا” پے در پے بھلائی کے طور پر بھیجی جانے والیاں” ۔دوسرے العٰصفٰت عصفا” بہت تیزی اورشدت کیساتھ چلنے والیاں”۔ تیسرے النٰشرٰت نشرا” خوب پھیلانے والیاں”۔چوتھے الفٰرقتِ فرقا: الگ الگ کرنے والیاں۔ پانچویں الملقےٰت ذکرا ”یادکا القاء کرنے والیاں”۔ چونکہ ان الفاظ میں صرف صفات بیان کی گئی ہیں کہ یہ کن چیزوں کی صفات ہیںاسلئے مفسرین کے درمیان اس امر میں اختلاف واقع ہوا ہے کہ پانچوں صفات ایک ہی چیز ہیں یا الگ الگ چیزوں کی۔ اور وہ چیز یا چیزیں کیا ہیں ۔ایگ گروہ کہتا ہے کہ پانچوں سے مراد ہوائیں ہیں۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ پانچوں سے مراد فرشتے ہیں۔ تیسرا گروہ کہتا ہے کہ پہلے تین سے مراد ہوائیں ہیں اور دوسرے دو فرشتے۔ چوتھا کہتا ہے کہ پہلے تین فرشتے دوسرے دو ہوائیں۔ایک گروہ کی رائے یہ پہلے سے مراد ملائکہ رحمت، دوسرے سے مراد ملائکہ عذاب اور باقی تین سے مراد قرآن مجید کی آیات ہیں”۔تفہیم القرآن میں مختلف تفاسیر ہیںلیکن اگلے صفحات پر غور کریں۔

 

مفسرین نے قرآن کی واضح آیات کومختلف آراء کی ہواؤں کے رحم وکرم چھوڑ دیا!

مفسرین خود ہی مختلف آراء میں سرگرداں ہونگے تو عوام اور کافروں کی کیا رہنمائی ہوگی؟۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بار بار انبیاء کرام اور انکے معاندین کا ذکر کیا ہے، انبیاء کرام کے ذریعے واضح رسالات اور پیغامات کا ذکر کیا، صحف ابراہیم و موسیٰ کا ذکر کیا ہے۔ جب بھی یہ رسالات یا پیغامات لوگوں تک پہنچی ہیں تو اس کے ذریعے سے طوفان کھڑے ہوئے ہیں اور جب یہ خوب نشر ہوتے ہیں تو حق و باطل کے درمیان تفریق وامتیاز کھڑی کردیتی ہیں۔ عوام اور خواص کے دلوں تک جب حقیقت پہنچ جاتی ہے تو اس کو قبول کرنے یا نہ کرنے میں لوگوں کو عذر یا خوف در پیش ہوتا ہے۔ لیکن پھر وہ دن پہنچ جاتا ہے جس میں دنیا ہی کے اند ر باطل کے عذاب اور اہل حق کی نجات کا فیصلہ ہوجاتا ہے۔ جب تک نبوت ورسالت کا سلسلہ جاری رہا تو یہ رسالات وپیغامات بھی لوگوں کو معروف طریقے سے ملتے رہے لیکن جب ختم نبوت کے بعد ان رسالات کی آمد کا سلسلہ بند ہوگیا تو قرآن کی شکل میں قیامت تک کیلئے یہ محفوظ ہے۔ البتہ قیامت سے پہلے بھی عظیم انقلاب کی خبر ہے جس کو مولانا سیدا بوالاعلیٰ مودودی نے اپنی کتاب ”ا حیائے دین ” میں واضح کیا ہے اور سب مسلمان اپنے اپنے دائرے میں اس دن کا انتظار کررہے ہیں جب اسلام ہربنگلہ اور جھونپڑی میں داخل ہوگا لیکن قرآن کی طرف توجہ کی ضرورت شاید کسی نے محسوس نہیں کی الاماشاء اللہ کہ اس یوم الفصل کی بات بہت واضح ہے۔
یوم موعود سے مرادقیامت نہیں بلکہ انقلابِ عظیم کا دن ہے۔قرآن آسمانی کتب و صحائف کا مجموعہ ہے اور ایک دن دنیا کی تمام اقوام اور مذاہب قرآنی انقلاب کے تحت جمع ہوںگے۔ قرآن اسلئے نازل نہیں ہوا کہ نزول کے وقت کے بعد قیامت تک اسکے راز پوشیدہ رہیں بلکہ دنیا میں ایک لمبے عرصہ تک قرآن کی بنیاد پر دنیا نے ہدایت سے فائدہ اٹھاناہے۔

 

قرآن میں استعارات کی زبان متشابہات کا راز کھلے توپھریہ محکمات بنتے ہیں

جب انقلاب کا دن آجائیگا تو چاند، سورج اور ستاروں کی طرح پوجے جانے والے لوگوں کی حیثیت ماند پڑجائے گی۔ مذہب اور سیاست میں آفتاب ومہتاب کی لیڈر شپ تو ویسے نہ ہوگی مگر ستارے سمجھے جانے والے بھی اپنی حیثیت ایسی کھو دیںگے جس طرح روزانہ دن کے نکلتے ہی ستارے غائب ہوجاتے ہیں۔ آسمان سے خوشیوں کی بہار آئے گی اور علم کے بڑے پہاڑ سمجھے جانے والے اُڑ جائیںگے۔ فرشتوں کی مدد کا وقت آجائیگا۔ فیض احمد فیض نے جس انقلاب کا ذکر اپنے اشعار میں کیا تھا وہ منظر نقارۂ خدا بن کر عوام میں بجنا شروع ہوجائیگا۔
المرسلات میں آگے اللہ فرماتا ہے۔ فاذا النجوم طمستOواذا السماء فرجت Oواذالجبال نسفت Oواذا لرسل اقتتO لایّ یوم اجلتOلیوم الفصلOوما ادراک ما یوم الفصلO ویل یومئذٍ للمکذّبینO………… ”پھرجب ستارے ماند پڑجائیںگے اورجب آسمان سے خوشیاں آئیںگی۔ جب پہاڑ اُڑ جائیںگے۔ جب فرشتوں کی آمد کا وقت پہنچے گا۔ یہ کس دن کیلئے جلدی کررہے ہیں۔ فیصلے کے دن کیلئے۔ اور آپ کو کیا معلوم کہ فیصلے کا دن کیا ہے؟۔ تباہی ہے جھٹلانے والوں کیلئے۔ کیا ہم نے پہلوں کو ہلاک نہ کیا اور پھر انکے بعد والوں کو انکے پیچھے (ہلاک ) نہیں لگایااور ہم ایسا ہی مجرموں کیساتھ (دنیا ہی میں )کرتے ہیں۔ہلاکت ہے جھٹلانے والوں کیلئے۔کیا ہم نے تمہیں حقیر پانی سے پیدا نہیں کیا؟۔ پھر ہم نے اسے بنایامحفوظ ٹھکانے میں۔ معلوم مدت تک اور ہم نے تقدیر مقرر کی اور ہم اچھی قدرت رکھنے والے ہیں، تباہی ہے ہلاکت والوں کیلئے ۔ کیا ہم نے زمین کو سمیٹ کر رکھنے والا نہ بنایا۔ زندگی اور اموات میں”۔ عربی میں فرج عام طور پرخوشی ہی کو کہتے ہیں۔انقلاب مؤمنوں کیلئے خوشیوں ہی کا باعث بنے گا۔

 

قیامت سے پہلے دنیا میں عظیم انقلاب کے ذریعے بھی قرآن کا اعجاز ثابت ہوگا

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں قیامت سے پہلے دنیا میں بھی عظیم انقلاب کے ذریعے خاکہ پیش کردیا ،تا کہ لوگوں کیلئے حق اور باطل کا راستہ قیامت کے دن تک واضح رہے گا لیکن انسان پھر آخر انسان ہے اور جب تک دنیا قائم رہے ،انسان غفلت کا شکار ہوتا رہے گا۔وسعت اللہ خان نے کورونا وائرس کے حوالے سے جو تحریر لکھ دی وہ جلی حروف کیساتھ ہی نہیں مرثیہ وغیرہ کی طرح میڈیا کے تمام چینلوں پر بار بار پڑھ کر سنانے کی بہت سخت ضرورت ہے۔
سورۂ واقعہ میں قیامت کا پورا نقشہ ہے جس میں لوگ تین گروہوں میں تقسیم ہونگے۔ ایک مقربین جو پہلوں میں سے بڑی جماعت اور آخرین میں تھوڑے ہونگے۔ دوسرے اصحاب الیمین جو پہلوں میں بھی بڑی جماعت ہوگی اور آخر میں بھی بڑی جماعت ہوگی۔ تیسرے کو اصحاب المشئمہ قرار دیا گیاہے۔ مقربین کو جو شراب پیش کی جائے گی تو اس سے سر چکرائے گا اور نہ عقل میں کوئی فتور آئیگا۔ دنیا میں بھی انقلاب کے ذریعے آخرت کا نقشہ سامنے آئیگا۔
مرسلات میں فرمایا: وجعلنافیھارواسی شٰمخٰت وا سقینٰکم مائً فراتاOویل یومئذٍ للمکذبینO……….”اور ہم نے اس میں بلند پہاڑ بنائے اور تمہیں میٹھا پانی پلایا اور تباہی ہے جھٹلانے والوں کیلئے۔ پس اب چلو،اس کی طرف جسکے ذریعے تم جھٹلاتے تھے۔ چلو اس سایہ کی طرف جو تین قبیلے( اقسام) والا ہے۔ جو نہ سایہ دار ہے اور نہ شعلے سے مستغنی کرنے والا ہے۔ بیشک یہ محل کی طرح بگولے پھینکے گا۔ گویا کہ وہ سرخ اونٹ ہیں۔ تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کیلئے۔ یہ دن ہے جب وہ بولتے نہ ہونگے اور نہ ان کو اجازت ہوگی کہ معذرت پیش کریں اور تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کیلئے”۔صرف طلاق و حلالہ پر تین کتابیں،کافی مضامین اور فتاویٰ لکھ دئیے مگر ڈھیٹ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔

 

مجرموں کو تھوڑا فائدہ اُٹھانے کا ذکر ہے اسکا تعلق دنیا کے انقلاب ہی سے ہے!

درسِ نظامی کی بنیادی تعلیم، قرآن کی تحریف، سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے اور نبیۖ کی سخت ترین توہین کے ارتکاب سے لیکر ایک ایک چیز کی وضاحت ہم کرچکے ہیں۔ انقلاب کا وقت آئیگا اور ہم دلائل کے آگ کے بڑے بڑے بگولے سے نشانہ بنائیںگے تو یہ بالکل سرخ اُنٹوں کی طرح نشانہ بننے کیلئے تیار ہونگے۔ پھر وہ بولیںگے بھی نہیں اور حلالہ کی لعنت کا شکار کرنے والی مخلوق اس قابل بھی نہیں ہوگی کہ ان کو معذرت کی اجازت دی جائے۔
اللہ نے مرسلات میں فرمایا: ھٰذا یوم الفصل جمعنٰکم والاوّلینOفان کان لکم کید فکیدونO ویل یومئذٍ للمکذبینO ……..’.’یہ جدائی کا دن ہے۔ہم نے تمہیں اور پہلوں کو جمع کرلیا( جیسا پہلوںکو اہل حق کے سامنے مجبور کردیا تھا ،اسی طرح تمہیں کردیا) پس اگر تم کوئی چال چل سکتے ہو تو کرکے دکھاؤ۔تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کیلئے۔ بیشک متقی لوگ اس دن سایہ میں ہونگے اور لوگوں کی نظروں میں(چڑھے ہونگے) اور پھلوں تک ان کی رسائی ہوگی ،ان میں سے جو وہ چاہتے ہونگے۔کھاؤ ، پیو مزے سے جو تم نے عمل کئے۔ بیشک ہم اس طرح نیکوکاروں کو بدلہ دیتے ہیں اور تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کیلئے۔ تم بھی کھاؤ اور تھوڑا فائدہ اٹھالو بیشک تم مجرم ہو۔ تباہی اس دن جھٹلانے والوں کیلئے اور جب ان سے کہا جاتا تھا کہ جھک جاؤ ،تو نہیں جھکتے تھے۔ تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کیلئے۔ اس( واضح کلام کے احکام) کے بعد کس بات پر وہ ایمان لائیںگے؟”۔ (سورہ المرسلات)
ہم دعوت دیتے ہیں کہ مفتی تقی عثمانی، مفتی منیب الرحمن اور مولانا فضل الرحمن ، علامہ شہنشاہ حسین نقوی اور علامہ ابتسام الٰہی ظہیر وغیرہ درسِ نظامی اور مذہبی طبقات کی طرف سے دین کو مسخ کرنے کے رویہ پر میڈیا میں ہی ہم سے بات کریں تو بھی انقلاب آجائے گا۔

 

اطلاق النار بندوق کی فائرنگ کو کہتے ہیں، قرآن زمان وکمان پر حاوی ہے

ہم نے دیکھا کہ حاجی عثمان کے ساتھ علماء ومفتیان نے کیا رویہ رکھا تھا۔ اس کی تفصیل کبھی سامنے آئے گی۔ لوگ حیران ہونگے کہ بڑے بڑوں نے کس قدر ضمیر فروشی کا مظاہر ہ کیا تھا۔ اور ہماری جیت کے باوجود کھڈے کھودنے والوں کو کتنی رعایت دی گئی۔ پھر ٹانک کے اکابر علماء کی تائید کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان کے علماء نے کس طرح مولانا فضل الرحمن کے ایماء پر کھڈا کھودا تھا مگر پھر وہ انجام کو پہنچ گئے، اس کی بھی ایک دلچسپ داستان ہے۔ جب کبھی موقع ملے گا اور ضرورت ہوگی تو ایک ایک بات آمنے سامنے بیان کرنے میں بہت مزہ آئیگا۔پھر وہ وقت آیا کہ طالبان نے میری وجہ سے ہمارے گھر کو نشانہ بنایا۔ میزائل، راکٹ لانچروں اور بموں کیساتھ چھوٹے بڑے جدید ہتھیاروں کیساتھ دھماکوں سے گونجتا رہااور بہت سے معجزانہ طور پر بچ گئے اور کئی ساروں کو شہادت کی منزل پر پہنچادیا۔ پچھلی تحریر میں سورہ الانشقاق کا ذکر کیا تھا اور اب اس سے متصل سورۂ البروج کے اندر ”یوم موعود” کے حوالے سے حقائق دیکھ لیں۔
والسماء ذات البروج Oوالیوم الموعودOوشاہدٍ ومشہودٍOقتل اصحاب الاخدودO النار ذات الوقودOاذھم علیھا قعودOوھم علی مایفعلون بالمؤمنین شہودO ومانقموا منھم الا ان یؤمنوا باللہ العزیزالحمیدOالذی لہ ملک السمٰوٰت والارض واللہ علیٰ کل شی ء شہیدOان الذین فتنوا المؤمنین والمؤمنات ثم لم یتوبوا فلھم عذاب جھنم ولھم عذاب الحریقO………….”قسم ہے برجوں والے آسمان کی اور جس دن کا وعدہ ہے اورگواہ اور جس کی گواہی دی جائے۔ مارے جائیں گڑھے کھودنے والے، ایندھن والی آگ کی۔جب وہ اس پر بیٹھے تھے اور مؤمنوں کیساتھ جو ہورہاتھا ،اس پر گواہ تھے۔

 

اللہ تعالیٰ نے ماضی کی طرح مستقبل کے حالات بھی قرآن میں بیان کئے ہیں!

اور ان سے انتقام نہیں لے رہے تھے مگراسلئے کہ وہ ایمان لائے اللہ پر جوبڑا زبردست اور تعریف کے لائق ہے۔وہی جس کیلئے آسمان اور زمین ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ بیشک جن لوگوں نے آزمائش میں ڈلا مؤمنین و مؤمنات کو اور پھر انہوں نے توبہ نہیں کی تو ان کیلئے عذاب ہے جہنم کا اور ان کیلئے عذاب ہے جلانے والا۔ بیشک جو ایمان لائے اور اچھے عمل کئے ان کیلئے باغات ہیںجس کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ بیشک تیرے رب کی پکڑ بہت سخت ہے۔ بیشک وہ پہل کرتا ہے اور لوٹاتا ہے اور معاف کرنے والا محبت کرنے والا ہے۔ عظمت والے عرش کا مالک ہے۔جو چاہتا ہے کردیتا ہے۔ کیا آپ کو لشکروں کی خبر پہنچی ہے؟۔ فرعون اور ثمود کی۔ بلکہ کفر کرنے والے جھٹلانے میں لگے رہتے ہیں اور اللہ نے ان کو پیچھے سے گھیر رکھا ہوتا ہے۔ بلکہ یہ تو قرآن مجید ہے لوح محفوظ میں”۔
اللہ نے مجرموں کو معافی مانگنے کا راستہ دیا ہے لیکن انقلاب عظیم قربانیوں کے بغیر نہیں آسکتا تھا۔ نکاح وایگریمنٹ ،طلاق وخلع ، اسلامی حدود اوراسلامی خلافت کے تقاضوں سے علماء ومفتیان آگاہ کرنے پر کان دھرتے تو ہم بھی مشکلات کے شکار نہ ہوتے اور تائید کرنے والے بھی معاشرے میںاپنا بھرپور کردار اداکرتے۔ سب کے سب سرخرو ہوتے۔ جب ہم اسلام کے نام پر بینک کے سود کو اسلامی قرار دینے کے باوجود علماء ومفتیان کو شیخ الاسلام اور مفتی اعظم کے القاب سے نوازیںگے تو غیر مسلموں کو کس اسلام کا سبق دیںگے؟۔ سوشلزم کے بعد دنیا میں کپٹلزم بھی ناکام ہوگیا ہے۔ اسلام واحد راستہ ہے جو دنیا کو ایک فطری نظام دے سکتا ہے۔ جمہوریت دولت کی لونڈی اور سیاستدان بھونڈے لوٹے ہیں۔ اگر درست اسلامی نظام کا معاشرتی اور بین الاقوامی ایجنڈا پیش کیا جائے تو پوری دنیا اسکاخیرمقدم کرے گی۔

 

حضرت حاجی محمد عثمان رات کے اندھیرے میں عروج ملت کا روشن تارہ تھے

اپنے دور میںحضرت حاجی محمد عثمان رات کے اندھیرے میں ایک روشن ستارے تھے، جن کی وجہ سے مخلوقِ خدا کو بہت فائدہ پہنچ رہاتھا۔ اعتکاف کیلئے 700آدمی بیٹھنے کیلئے تیار تھے مگر 350 افراد سے زیادہ کیلئے مسجدالٰہیہ خانقاہ چشتیہ سوکواٹر کورنگی کراچی میں جگہ نہیں تھی۔
دیوبندی ،بریلوی، جماعت اسلامی، اہلحدیث ، تبلیغی جاعت کے بڑے علماء ومفتیان اور فوجی افسران ، پولیس افسران وغیرہ سب بیعت تھے۔ سعودی عرب کے عرب بیعت تھے اور شام کے عرب بھی بیعت تھے۔آپ نے کہا تھا کہ تین قسم کے افراد میرے مرید ہیں۔ ایک تو دنیا دار ہیں، یہ تیسری جنس کھدڑے ہیں چھوڑ کر بھاگ جائیںگے۔ ایک آخرت والے ہیں جن کی حیثیت عورتوں کی ہے، ان میں مردانہ قوت نہیں ہوتی ہے۔پھر بھی بہرحال بہتر ہیں۔ تیسرے اللہ والے ہیں، یہ میدان کے مرد ہیں۔ انہوں نے اصل کام کرنا ہے۔ پھر وہی کچھ ہوا۔ کچھ لوگوں نے ہمارے ساتھ نکل کر خانقاہوں سے ادا کی رسمِ شبیری۔ماشاء اللہ
سورۂ البروج کے بعد سورۂ الطارق میں اللہ فرماتا ہے۔ والسماء والطارق Oوماادرٰک ما الطارقOالنجم الثاقبO………….”اور قسم ہے آسمان کی اور طارق کی اور آپ کو کیا معلوم کہ طارق کیا ہے؟۔ چمکتا ہوا تارہ ہے۔ ہر ایک جان پر ضرور کوئی نگہبان ہے۔ پس انسان دیکھ لے کہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے؟۔پیدا کیا گیاہے اچھلتے پانی سے۔جو پیٹھ اور سینے کے بیچ سے نکلتا ہے۔بیشک وہ اس کو لوٹانے پر بھی قادر ہے۔اس دن تو پوشیدہ راز واضح ہونگے۔تو اسکے پاس کوئی طاقت ہوگی اور نہ مددگار۔قسم ہے لوٹانے والے آسمان کی اور پھٹنے والی زمین کی۔ بیشک یہ فیصلہ کن بات ہے اور نہیں ہے کوئی مذاق۔وہ اپنی چال چلتے ہیں اور میں اپنی چال چلتا ہوں۔ کافروں کومہلت دو،ذرا اپنے حال پر چھوڑ دو”۔

ایک آزمائش معراج اور دوسرا حلالہ ہے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

امت کی یہ دو آزمائش ہیںایک واقعہ معراج اور دوسراقرآن میںشجرہ ملعونہ

ان نرسل بالاٰےٰت الا ان کذّب بھا الاولون واٰتینا ثمود الناقة مبصرةً فظلمو بھا ومانرسل بالاٰیات الاتخویفًاOو اذا قلنالک ان ربک احاط بالناس وماجعلنا الریا التی اریناک الا فتنة للناس والشجرة الملعونة فی القراٰن ونخوفھم فمایزیدھم الا طغیانًا کبیرًاO ” اور کوئی بستی نہیں مگر ہم اسکو ہلاک کرینگے قیامت سے قبل یا اسے عذاب دینگے سخت عذاب،یہ کتاب کی سطروں میں ہے اور ہم نے منع نہیں کیا کسی نشانی کو مگر اسے پہلے والے جھٹلاچکے اور ہم نے ثمود کو اونٹنی دی نظر آنیوالی پھر انہوں نے اس کیساتھ ظلم کیا اور ہم نہیں بھیجتے نشانی مگر ڈرانے کیلئے اور جب ہم نے کہا تیرا رب لوگوں پر حاوی ہے اور ہم نے نہیں بنایا خواب کو جو آپ کو دکھایا مگر لوگوں کیلئے آزمائش اورشجرہ ملعونہ قرآن میں اور ہم انکو ڈراتے ہیں ۔پس نہیں اضافہ کرتا انکا مگر بہت بڑی سرکشی میں”۔ (بنی اسرائیل آیات:58،59، 60)

 

واقعۂ معراج میں براق اور ہجرت کا مشکل ترین سفر صحابہ کے ایمان کی آزمائش

معراج پرفکری اختلاف مسئلہ نہیں تھا، کمزوری میں اللہ کی طاقت پرایمان حق تھا!

اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل میںمعراج کا واقعہ اور مختلف معاملات کاذکرکرتے ہوئے فرمایا کہ ولقد صرّ فنا فی ھٰذا لقراٰن لیذّکّروا و مایزیدھم الا نفورًاO ”اور تحقیق ہم نے مختلف پہلوؤں سے پھیر پھیر کر معاملات پیش کئے اس قرآن میںتاکہ وہ نصیحت حاصل کریں اور ان میں اضافہ نہیں ہوتا مگر راہِ فرار اختیار کرنے کا ”۔ (بنی اسرائیل آیت:41)اور فرمایا کہ” سات آسمان اور زمین اور جو ان میں ہیں تسبیح بیان کرتے ہیں اس کی اورکوئی چیز بھی ایسی نہیں جو اس کی تعریف کیساتھ اس کی پاکی بیان نہ کرتی ہومگر تم اس کی تسبیح کو نہیں سمجھتے ہو۔ بیشک وہ حلیم غفور ہے۔ جب آپ قرآن پڑھتے ہیں تو آپ اور جولوگ ایمان نہیں لاتے ،انکے درمیان چھپانے والا پردہ ڈال دیتے ہیں”۔ (بنی اسرائیل آیت: 44، 45)
اللہ نے یہ واضح کیا کہ لوگوں نے کوئی نشانی مانگ لی تو ہم نے ظاہر کردی مگر انہوں نے اس کا انکار کیا۔ ہم نے قوم ثمود کے سامنے اونٹنی رکھ دی تو انہوں نے اس پر ظلم کیا۔ جبکہ ہم نے کہا کہ تیرے رب نے لوگوں کا احاطہ کیا ہے اور ہم نے جو خواب آپ کو دکھایا تو لوگوں کیلئے ایک آزمائش کا ذریعہ تھا اور آزمائش کادوسرا ذریعہ قرآن میں شجرہ ملعونہ ہے۔ ہم ان کوڈراتے ہیں ان میں اضافہ نہیں ہوتا مگربہت بڑی سر کشی کا۔ آخر یہ دو باتیں امت کی آزمائش کیوں؟۔ اس بات کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ نے ان دو آزمائشوں سے پہلے انسانوں پراپنے غلبے کا ذکر کیاہے۔ جب واقعہ معراج پیش آیا تو نبیۖ مکی دور کی مشکلات میں تھے اور لوگوں کیلئے یہ بہت بڑی آزمائش تھی کہ کس طرح لمحہ بھر میں اتنا بڑا واقعہ ہوسکتا ہے۔ یہ لوگوں کے ایمان کا امتحان تھا۔حضرت ابوبکر صدیق اور دیگر صحابہ کرام اس میں پورے اترے۔ کافروں نے اپنی ہٹ دھرمی سے نبیۖ کو ہجرت کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ یہ ایمان کا امتحان بن گیا۔ کیا حضرت ابوبکر نے واقعۂ معراج کی تصدیق کی تو صدیق اکبر کا لقب پایا؟۔نبیۖ کاہجرت کے موقع پر ساتھ دینا اس سے زیادہ بڑی بات تھی،اسلئے کہ معراج کے تیز رفتار براق پر سفر کرنے والے رسول اللہۖ کیساتھ رفیقِ غار نے جن مشکلات کا سامنا کیا تھا۔ غارِ ثورپر کوئی آج بھی چڑھتا ہے تو مشکلات کا احساس کرسکتا ہے۔ پھر نبیۖ کو کاندھے پر چڑھانا تاکہ تعاقب کرنے والے دشمن قدم مبارک کے نشانات کے ذریعے نہیں پہنچ سکیں۔ کوئی کافر ہوتا تو چیخ اُٹھتا کہ اپنے براق کو بلواؤ۔ حضرت علی کی ہمشیرہ حضرت ام ہانی کے گھر میں معراج کا واقعہ ہوا تھا۔ وہ بھی ابتدائی چندمؤمنات میں سے تھیںلیکن نبیۖ کو انہوں نے یہ مشورہ دیا کہ واقعہ معراج کا ذکر نہ کریں اس سے صحابہ کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔ حضرت ام ہانی نے اپنے مشرک شوہر کی محبت میں ہجرت بھی نہیں کی۔ جب مکہ فتح ہوا تو منکرین کو بھی یقین ہوگیا کہ بت مغلوب ہیں اور اللہ نے واقعی میں انسانوں کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ اہمیت اس بات کی نہ تھی کہ واقعہ معراج جیتا جاگتا سفر تھا یا خواب تھا؟۔ بلکہ اللہ کا لوگوں پر غالب آنا ایمان تھا اور اس پر کسی صحابی یا صحابیہ نے شک کی گنجائش نہیں رکھی۔حضرت عائشہ اور حضرت ام ہانی اپنے عقیدہ معراج کے ظاہری یا خواب کی صورت پر اختلاف کرسکتی تھیں مگر اللہ کا لوگوں پر غالب آنا سب کے نزدیک یکساں یقینی تھا۔ حضرت عائشہ کی رائے یہ تھی واقعہ ٔ معراج خواب تھا اور جمہور صحابہ نے اس کو جاگتے کا واقعہ سمجھ لیا تھا۔ جب قرآن نے بھی اس کو خواب ہی قرار دیا تو اسکے خواب ہونے پر ایمان بھی کوئی کفر نہیں بلکہ عین اسلام ہے لیکن جب نبیۖ نے اس کو ظاہری حالت کا واقعہ بتایا ہو تو بھی اس پر ایمان لانااسلام کاتقاضہ تھا۔ تفسیر کے امام علامہ جاراللہ زمحشری بھی معتزلہ تھے ، سرسیداحمد خان اور غلام احمد پرویز تک معتزلہ سے متأثر تھے۔

 

نظریہ اضافیت سے معراج کا معمہ حل ہواہے لیکن شجرہ ملعونہ سے کیا مراد ہے؟۔

قرآن میں اصل بات یہ ہے کہ اس بات پر ایمان لانا ضروری ہے کہ اللہ کالوگوں پر احاطہ ہے۔ مسلمانوں کے مختلف فرقوں کا اس بات پر ایمان ہے کہ اللہ لوگوں پر غالب ہے۔ غلبے کا یقین ایک بہت بڑا اثاثہ ہے جس کیوجہ سے جب حق با ت سمجھ میں آجاتی ہے تو لوگوںکا خوف دل میں مانع نہیں ہوتا ہے اور جب ماحول میسر ہوتا ہے تو اس ماحول کے مطابق اظہار ضروری ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انسانوں میں اہل حق کے گروہ کے ذریعے ایک ماحول دنیا میں بناتا ہے۔ جس کے مقابلے میں باطل کو صرف آخرت ہی میں نہیں بلکہ دنیا میں بھی شکست ہوجاتی ہے۔
واقعۂ معراج پر مسلمانوں کا ایمان کافروں کیلئے معمہ تھا مگر جب البرٹ آئن سٹائن نے نظریہ اضافیت دریافت کیا تو پھر یہ معمہ نہیں رہا۔ قرآن میں دوسری بات شجرہ ملعونہ ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شجرہ ملعونہ سے کیا مراد ہے؟۔ جبکہ اللہ نے اسکے بعد آدم کو سجدے کے واقعے کا ذکرکیا ہے۔اللہ نے حضرت آدم وحواء کو حکم دیا کہ” اس درخت کے قریب مت جاؤ، پھر ظالموں میں سے ہوجاؤگے”۔ یہ کونسادرخت تھا؟۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جنت میں اللہ نے ایک درخت کے قریب جانے سے روکا اور قرآن میں یہ حکم دیا کہ لا تقربوا الزنا ”زنا کے قریب مت جاؤ”۔قریب نہ جانے کا حکم مشترک ہے، دیکھنا یہ ہے کہ دونوں سے مراد ایک ہے یا نہیں؟۔ شیطان نے کہا کہ کیا میں تمہیں شجرة الخلد (ہمیشہ رہنے والاشجرہ نسب ) بتادوں ،جسکا مُلک کبھی ختم نہ ہو؟۔ پھر دونوں کو ورغلایااور انکے کپڑے اتروادئیے۔ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ کیا میں نے تم دونوں کو تمہارے اس شجر سے روکا نہیں تھا؟۔ انہوں نے عرض کیا ہم نے اپنے اختیار سے یہ نہیں کیا۔ اللہ نے قرآن میںروزہ کی حالت میں بیوی سے مباشرت کرنے سے منع کیاہے لیکن ایک صحابی نے بے بس ہوکر روزہ توڑ دیا تھا انسان کی یہ کمزوری ہے۔

 

قرآن میں شجرہ ملعونہ کا ادراک حدیث میں حلالہ کی لعنت سے بالکل ہوسکتا ہے

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت آدم وحواء سے پہلا بیٹا قابیل پیدا ہوا تھاجس نے ظلم سے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کردیا تو کیا شجرة الخلد یہی شجرہ تھا جس سے آدم وحواء خودکو نہ روک سکے تھے؟۔بخاری میں ہے کہ رسول اللہۖ نے فرمایا کہ اگر بنی اسرائیل نافرمانی نہ کرتے تو گوشت خراب نہ ہوتا اور اگر حواء نہ ہوتی تو کوئی عورت اپنے شوہر سے خیانت نہ کرتی۔ جب رمضان میںرات کو بھی یہ سمجھا جارہا تھا کہ بیگمات سے مباشرت جائز نہیں تو اللہ نے فرمایا کہ علم اللہ انکم تختانون انفسکم (اللہ جانتا ہے کہ تم اپنے نفسوں سے خیانت کرتے ہو) احل لکم لیلة الصیام ان تباشروھن( تمہارے لئے روزہ کی رات ان سے مباشرت حلال ہے)۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ ” اے بنی آدم! تمہیں شیطان دھوکہ نہ دے کہ تمہیں ننگا کردے جیسے تمہارے والدین کو ننگا کیا تھا اور جنت سے نکلوادیا تھا”۔قرین قیاس لگتاہے کہ ناجائز تعلق ہی شجرہ ملعونہ اور شجرہ ممنوعہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ قرآن میں شجرہ ملعونہ کا اس امت کی آزمائش سے کیا تعلق ہے؟۔ حدیث میں حلالہ کرنے اور حلالہ کروانے والے پر اللہ کی لعنت کی گئی ہے اور اُمت مسلمہ میں حلالہ کی لعنت کوشجرہ ملونہ ہی سمجھا جاتا ہے۔ قرآن کی آیت میں اسکا ذکر اور اس امت کیلئے اسکا دوسری بڑی آزمائش ہونے کا کیا مطلب ہے؟۔
شیطان نے اتنے جوڑے جدا نہیں کئے ،اتنے خاندان تباہ نہیں کئے، اتنی بے راہ روی نہیں پھیلائی جس طرح قرآن، رحمان اور ایمان کے نام پر حلالہ کے حکم کی وجہ سے علماء ومفتیان اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ بہت لوگ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد رجوع کرنا چاہتے ہیں لیکن علماء ومفتیان اور اُمت مسلمہ میں مسلمان کا ماحول انکے درمیان حلالہ کے نام پر رکاوٹ ہے۔ حلالہ کی لعنت سے عزتوں کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں،آخر یہ کب تک چلے گا؟۔

 

بدرالدین عینی اور ابن ہمام نے نامعلوم بزرگوں کی بنیاد پر حلالہ کو کارِ ثواب کہا!

جس طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فحاشی سے منع کیا ہے مگر لوگ اس سے باز نہیںآتے ہیں۔اسی طرح سے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں حلالہ کی لعنت کا راستہ کھولا نہیں بلکہ روکا ہے لیکن مولوی ومفتی حضرات مذہب کے لبادے میں اس پلید شراب سے جان نہیں چھڑارہے ہیں۔
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔بریلوی مکتبۂ فکر کے مفتی شاہ حسین گردیزی کے پاس ایک بریلوی عالم دین آئے تھے ، مختصر نشست میں زیادہ بحث میں الجھنے کی گنجائش نہ تھی۔ اس نے کہاکہ حضرت آدم ایک نبی تھے اور شجرہ ممنوعہ کے پاس جانا گناہِ کبیرہ معلوم ہوتا ہے۔ اللہ نے فرمایا: الذین یجتنبون کبٰئر من الاثم والفواحش الا اللمم…… . .. . فلاتزکوا انفسکم ھو اعلم بمن اتقٰیO”اور جو لوگ کبائر گناہ سے اجتناب کرتے ہیں اور فواحش سے مگر بے بسی کے عالم میں۔بیشک تیرا رب واسع المغفرت ہے۔وہ تمہیں جانتا ہے کہ تمہیں زمین سے پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں جنین تھے۔ . پس اپنے نفسوں کی پاکیزگی بیان نہ کرو۔ اللہ جانتا ہے کہ کون تقویٰ رکھتا ہے”۔(سورہ النجم : 32)
فقہ حنفی کے مشہورومعروف فقہاء علامہ بدر الدین عینی اور امام ابن ہمام نے اپنے نامعلوم بزرگوں سے نقل کرتے ہوئے پہلی مرتبہ ثواب کی نیت سے حلالہ کی لعنت کو کارِ ثواب قرار دیا۔ لیکن صدیاں گزرنے کے باجود کسی میں اتنی جرأت نہیں ہوسکی کہ ان معتبر ہستیوں کی بات عام کرنے کی جسارت کرتے۔ علماء ومشائخ نے توجہ نہیں دی اور بگلے آنکھیں بند کرکے مچھلیوں کا شکار کھیلتے رہے۔ جب اللہ نے شجرہ ملعونہ کا ذکر قرآن میں کیا ہے اور حدیث میں حلالے ہی کو لعنت قرار دیا گیا ہے تو یہ واقعی قرآن کے مطابق امت کیلئے آزمائش تو ہے۔ لذت بھی ایسی چیز کی جو انسان کی فطری کمزوری ہے جس کی وجہ سے ہمیں جنت سے بھی نکالا گیا ہے

 

بڑے بہادر علماء حلالہ کی لعنت کو سمجھ کر اکابر کے ڈر سے حق کا فتوی نہیں دیتے!

پاکستان میں حنفی مسلک کی اکثریت ہے۔ دیوبندی بریلوی علماء کا تعلیمی نصاب ہی امت مسلمہ کی جان حلالے کی لعنت سے چھڑاسکتا ہے لیکن افسوس کہ بڑے بہادر کہلانے والے علماء ومفتیان اندورنِ خانہ ہمارے مؤقف سے سوفیصد متفق ہونے کے باجود کسی اور سے نہیں اپنے مکتب کے علماء و مفتیان اصاغر واکابر سے خوف کھا رہے ہیں اور قرآن وسنت کے واضح مؤقف کو قبول کرکے امت کی جان حلالے کی لعنت سے چھڑانے کی ہمت نہیں کررہے ہیں۔ مؤمن کوشجرہ ملعونہ اور اس کی پشت پناہی والوں کے مغلوب ہونے پر یقین ہے۔ ایک طرف اللہ کے واضح احکام ہیں اور دوسری طرف اتخذوا احبارھم ورہبانہم ارباباً من دون اللہ کے علمبردار ہیں۔ بظاہر یہودو نصاریٰ کے نقش قدم پر چلنے والے بہت مضبوط ہیں لیکن اللہ کی ذات سب کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔جس دن طلاق سے رجوع اور آیت میں حلال نہ ہونے کا راز کھل گیا تو شجرہ ملعونہ کی پشت پناہی کرنیوالے مجرم کی حیثیت سے کھڑے ہونگے مگر جنہوں نے غلطی سے معاملات خراب کئے ہوں اور ان کاقصد شیطان کی پیروی نہ ہو بلکہ غلطی سے شیطان کے جال کا شکار ہوگئے ہوں تو انسان خطاء کا پتلا اور اللہ حلیم غفور ہے۔
سورہ بقرہ آیت230: فان طلقہا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ ”پھر اگر اس نے طلاق دیدی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے”۔ امت مسلمہ کے فقہاء اس آیت سے حلالہ کی لعنت کا حکم مراد لیتے ہیں اور اچھے لوگ حلالے کو لعنت سمجھ کر اس سے انتہائی نفرت بھی کرتے ہیں۔ یہ شجرہ ملعونہ واقعی بڑی لعنت اور بہت بڑی آزمائش بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ طلاق سے رجوع کیلئے جو توازن شوہر وبیوی کے درمیان رکھا ہے، جس دن امت مسلمہ نے اس توازن کو سمجھ لیا تو بات بنے گی۔

 

”میرا جسم میری مرضی” والیوں نے عورت مارچ میں بہادری کی بھی حد کردی!

سب سے پہلی اور بنیادی بات یہ ہے کہ انسان، جانور، پرندے کے جوڑوں میں مقناطیس کی کشش کے علاوہ غیرت اور حمیت بھی ہے۔ انسانوں میں یہ فطرت نہ ہوتی تو ایک مرد اپنی بیگم سے بچے جنوانے کے بعد اس کو پھینک دیتا اور معاشرے میںعورت جانوروں یا مرغیوں کی طرح اکیلی بچے جننے اور انڈوں سے چوزے نکالنے کے بعد اپنے بچوں کا لشکر لے کر گھوم رہی ہوتی۔ جانوروں اور پرندوں میں شریف جانور بھی ہوتے ہیں جو غیرت رکھتے ہیں اور اپنے بچوں کو ماں باپ مل جل کر پالتے اور سنبھالتے ہیں۔ فاختہ اور کبوتر امن کی علامت ہیں اور اچھی نسل کی چیزوں میں جنسی بے راہ روی کا ماحول نہیں پایا جاتا ہے۔ نر ہرجگہ جنسی تشدد پر آمادہ ہوتا ہے اسلئے کوئی بھی بہادر مرغا کسی مرغی کو دیکھ کر اپنی جنسی تسکین اور تشدد کا نشانہ بناتا ہے۔ جب انسان اپنے مقام سے گرجاتے ہیں تو ان کو جانور بلکہ جانور سے بدتر کہا گیا ہے۔
اردو کی مشہور شاعرہ پروین شاکر نے اپنے شوہر کی بیوفائی کے باوجود جس عورت پن کا بڑا مظاہرہ کیا ہے جب تک اردو زبان زمین پر زندہ رہے، پروین شاکر کا نام بھی روشن رہے گا۔ مرد نے بھی اپنی عورت کیلئے قربانیاں دی ہیں اور وہ ساغر صدیقی کی صورت میں زندہ ہیں۔ یہ یاد رہے کہ ” میرا جسم میری مرضی” کے عنوان سے عورت کے پیچھے جس طرح مافیا پڑگیا تھا تو یہ بہت افسوس کی بات ہے۔ عورت مارچ میں جس طرح اسلام آباد کی عورتوں نے بہادری کی تاریخ رقم کردی ہے ۔ ایک طرف بپھرا ہوا مذہبی طبقہ تھا اور دوسری طرف نہتی خواتین کا بلٹ پروف کے بغیر پتھر کی پہنچ پر حوصلہ افزاء اسٹیج تھا، یہ کسی بدکردار اور بدعنوان عورت کی جرأت نہیں ہوسکتی تھی بلکہ مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا تھا کہ ” قوم دب جاتی ہے تو اسے دبانے والا طبقہ آخری حد تک پہنچادیتا ہے۔ پھر اس میں مزید دبنے کی گنجائش نہیں ہوتی ہے”۔

 

سورہ بقرہ :224سے 232 سمجھ میں آجائیں تو قرآن کوپذیرائی ملے گی!

قرآن کی آیت230 البقرہ سے پہلے 224سے 229تک اپنے متن کیساتھ دیکھنے کی زحمت کی جائے اور پھراسکے بعد231اور 232البقرہ بھی دیکھ لی جائیں۔ پھر سورۂ طلاق کو بھی دیکھ لیا جائے۔ یاد رہے کہ درسِ نظامی میں حنفی اصول فقہ کی داخلِ نصاب کتابوں کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ شجرہ ملعونہ کو کھل کر واضح کیا جائے تو اس آزمائش سے نہ صرف پوری امت مسلمہ سرخرو ہوکر نکلے گی بلکہ پوری دنیا میں اسلام کے معاشرتی نظام کے غلبے کا ڈنکا بجے گا۔عورت آزادی مارچ کی بات کرنے والی خواتین بھی قرآن ہی کو اپنانصب العین بنالیں گی اور سب سے زیادہ عزت عربی مدارس کے علماء وطلبہ کو اسلئے ملے گی کہ لوگ قرآن کا عربی متن سیکھنے کیلئے ان کو اپنا استاذ بنائیںگے۔ قرآن مردہ قوموں کی تقدیر بدل کر زندہ کردیتاہے۔
قرآن کی ان آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ میاں بیوی کی صلح میں رکاوٹ نہیں ہے۔اللہ الفاظ پر نہیں بلکہ دل کے نقصان دہ فعل پر پکڑتا ہے۔ طلاق کا اظہار نہ ہو تو ناراضگی کی صورت میں چار ماہ کی مدت ہے ۔ اگر طلاق کا عزم تھا تو یہ دل کا گناہ ہے جس پر پکڑبھی ہوگی اسلئے کہ طلاق کا اظہار کرنے کے بعد انتظار کی مدت تین ماہ ہے۔ ایک ماہ عدت بڑھنے کا گناہ ہے۔ طلاق پرعدت اور عدت کی تکمیل کے بعدباہمی رضامندی سے صلح کادروازہ کھلاہے اور جب عورت راضی نہ ہوتو عدت میں بھی صلح کا دروازہ بندہے۔ طلاق کی تین صورتیں ہیں ، دونوں کا منشاء جدائی کا ہوتو پھر سوال یہ پیدا نہیں ہوتا کہ رجوع ہوسکتا ہے یا نہیں بلکہ اسکے باوجود بھی کبھی شوہر اجازت نہیں دیتا اور کبھی عورت شرم کرتی ہے اسلئے اس کاحکم آیت230 میں واضح ہے۔شوہر نے طلاق دی ہو اور عورت جدائی نہ چاہتی ہو تو اسکا حکم آیت231میں ہے۔ اور عورت نے طلاق لی ہوتوپھر اپنے شوہر کے پاس جاناچاہتی ہو تو اسکا حکم آیت232میں ہے

دنیا میں ایک انقلابِ عظیم کی واضح خبر

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

قرآن تقویٰ والوں کیلئے بھی ہدایت کا ذریعہ ہے اور عوام الناس کیلئے بھی ہے

قرآن امت مسلمہ کیلئے قرون اولیٰ سے درمیانہ زمانے تک ھدی للمتقین اور درمیانہ زمانے سے آخری دور تک ھدیٰ للناسپوری عالم انسانیت کیلئے ہدایت کا ذریعہ ہے۔دنیا کی قوموں پر زوال وعروج کے مختلف ادوار آتے رہتے ہیں۔قرونِ اولیٰ کا زمانہ بہ لحاظِ تقویٰ اپنی انتہاء کو پہنچا ہوا تھا۔ ایک ادنیٰ صحابی کے تقویٰ کو اولیاء کے بڑے سے بڑے گروہ بھی پہنچ نہیں سکتے ہیں، یہ اٹل بات ہے۔ پھر بتدریج تابعین، تبع تابعین دور بہ دور ، زمانہ بہ زمانہ اس طرح تقویٰ کا معیار مولانا شاہ احمد نورانی کے باپ مولانا عبدالعلیم صدیقی، شیخ الحدیث مولانا زکریا،مولانا محمد یوسف بنوریکے دور سے ہوتے ہوئے ہمارے مرشد حضرت حاجی محمدعثمان کے دورتک جا پہنچا۔ملا عمر مجاہد اور دوسرے نیک لوگوں کی جگہ اب ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ یہ تقویٰ نہیں شعور وآگہی کا دور آگیا ہے ۔ مفتی محمودکیلئے تقویٰ معیارتھا مگر مولانافضل الرحمن کو تقویٰ نہیں شعور پر گزارہ کرنا ہے۔ طالبان رہنما جو برقعہ پوش خواتین سے ڈنڈے کی زبان پر بات کرتے تھے،اب ننگی ٹانگوں والیوں کے سامنے اپنی مرضی سے بیٹھ جاتے ہیں۔

 

مساجد میںنماز باجماعت اور جمعہ کی چھٹی کا فتویٰ دینے والے پھر کیوں گئے؟

آج سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ رمضان شریف میں عوام کی روحانی غذاء مساجد میں نماز باجماعت اور تراویح کی فکر کرنیوالوں کا اپنا حال یہ ہے کہ معاوضہ حاصل کرنے کیلئے سود کو جواز دے دیا ہے۔ مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمن کو عوام کے تقوے کی فکر ہے؟۔یا مذہب کے نام پر کاروبار، دھندے اور مذہبی لوگوں کے جذبات کیش کرنے کا جذبہ ہے؟۔ فتویٰ تودیا تھا کہ نماز باجماعت اور جمعہ کی جگہ ظہر کی نماز باجماعت گھر میں پڑھو!۔ پاکستان میں کورونا کی شرحِ اموات بہت کم تھی تو گھروں میں نماز کا فتویٰ دیدیا اور جب شرح اموات بڑھ گئی توپھر دوبارہ لاک ڈاؤن توڑنے اور نماز باجماعت، جمعہ اور تراویح کی فکر کے جذبات اُبھرے؟۔ جب شکوک وشبہات تھے کہ بیماری ہے یا ڈرامہ ہے تو گھروں میں نماز پڑھنے کی ہدایت دی؟ اور جب یقین کرلیا کہ واقعی بیماری ہے تو عوام کی روحانی غذاء کا درد پیٹ میں اُٹھ گیا ہے؟۔
چلو اس وقت تو تمہاری فطری مجبوری تھی کہ مجاہدین طلبہ کو جہاد کے فتوے دیتے تھے مگر اپنے بچوں کو شہادت کی منزل پر پہنچانے کا اہتمام کرنے سے ڈرتے تھے؟۔ جب تک ریاست کی طرف سے دہشتگردوں کے خلاف نیک نیتی سے اقدامات اٹھانے کی فکر سامنے نہیں آئی تو تم نے مساجد،بازاروں، اداروں اور پاکستان کے چپے چپے پر خود کش حملے ، ریموٹ بم دھماکے اور چھاپہ مار کاروائیوں کے خلاف کبھی فتویٰ نہیں دیا۔ مفتی رفیع عثمانی میڈیا پر کہتے تھے کہ اس جہاد کو ہم ناجائز نہیں کہہ سکتے۔ مولانا طارق جمیل کہا کرتا تھا کہ ہماری منزل ایک ہے، صرف راستے جدا ہیں۔ طارق اسماعیل ساگر آج پاکستان میں بلیک واٹر کا انکشاف کررہے ہیں لیکن جب دنیا میں انقلاب آئے تو بہت سے رازوں سے پردہ اٹھے گا۔ سیاستدان، علماء ومفتیان اورحکمران اپنی اپنی زبانوں سے ضرورعجیب وغریب حقائق سے پردہ اٹھائیں گے۔

 

مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھا کہ قرآن کا پہلامخاطب عرب اور دوسرا عالمگیر ہے

خواب کے نبوت کا چالیسواں حصہ ہونے سے مراد وحی کا سلسلہ نہیں غیب کی خبر!

قرآن کا اگلا دور انسانی شعور کے دور میں ایک عظیم انقلاب برپا کریگا؟۔اب تو لوگ سمجھتے ہیں کہ ان پڑھ دورِ جاہلیت کے بدو عربوں کو ایک عظیم رہبر انسانیتۖ نے اپنے ساتھیوں کی تربیت کرکے فاتح عالم بنادیا لیکن اس وقت دنیا پسماندہ تھی۔ ظلم وجبر تھا۔بڑاانسانیت سوز معاشرہ تھا جس میں نسبتاً بہتر لوگ پذیرائی پالیتے تھے۔ خلافتِ راشدہ سے بنی امیہ وبنی عباس کے دور میں زیادہ فتوحات ہوئیں اور خلافت عثمانیہ کے دور میں تو سب سے زیادہ علاقے پر قابو پالیا گیا۔ جدید ترقی یافتہ دنیا میںانسانیت، عدل وانصاف اورجمہوریت کے اصولوں سے مالامال مغرب کو پسماندہ مسلمانوں کے زیراثر آنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن سالگتا ہے۔اب بھی امریکہ ، یورپ اور مغربی ممالک نے شعور کی کمی کی وجہ سے مسلم دنیا کو شکست سے دوچار کردیا۔ کورونا وائرس کے دور میں ہمارا کام شعور کی تحریک ہونا چاہیے۔ جب نبیۖ نے اپنی حیات طیبہ (زندگی)میں لوگوں کو وبا سے بچنے کیلئے کوئی دعا، دم اور وظیفہ تلقین نہیں فرمایا تھا؟۔ حضرت عبیداللہ بن جراح ، حضرت معاذ بن جبل اور دیگر بہت سارے جلیل القدر صحابہ نے وبا سے شہادت پائی تو مفتی تقی عثمانی کے ذریعے تبلیغی جماعت کے بزرگ کو نبیۖ نے کسی خواب کے ذریعے تبلیغی جماعت کے کارکنوں کو مروانا تھا؟۔ اور مراکز بند کروانے تھے؟۔
صحابہ نے نبیۖ کے خواب کی بنیاد پر سمجھا کہ اسی سال عمرہ کرینگے توصلح حدیبیہ کا معاہدہ کرنا پڑگیا۔اللہ نے فرمایا لقد صدق اللہ رسولہ الریا بالحق لتدخلن المسجد الحرام ان شاء اللہ اٰمنین محلقین رء وسکم ومقصرین لاتخافون فعلم مالم تعلموا فجعل من دون ذٰلک فتحًا قریبًاO …” بیشک اللہ نے رسول کو سچا خواب دکھایا ، تم ضرور مسجد حرام میں داخل ہوگے انشاء اللہ امن کیساتھ سرکے بال منڈاتے اور کم کرتے ہوئے۔تمہیں کوئی خوف نہ ہوگا۔ پس اللہ جانتا ہے جس کو تم نہیں جانتے۔ پس اللہ نے اسکے بغیر تمہیں عنقریب فتح دیدی۔ وہ اللہ جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیج دیا ہے تاکہ اس کو تمام ادیان پر غالب کردے اور اللہ کی گواہی کافی ہے۔ محمدۖ اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ کیساتھ ہیں، کافروں پر سخت ،آپس میں ایکدوسرے پر رحم کرنے والے ہیں آپ ان کو دیکھوگے رجوع ،سجود، فضل چاہنے والے اللہ سے اور اس کی رضامندی، سجود کے اثرات سے انکے چہروں پر نشان ہیں، یہ وہ جن کی صفات توراة اور انجیل میں ہیں۔ گویا ایک کھیتی ہے جس نے پہلے کونپل نکالی پھر اس کی کمربنائی ،پھر مضبوط کردی، پھر اپنے تنے پر کھڑی ہوگئی جو بھلی لگتی ہے کاشتکار کو،تاکہ کفار انکے پھلنے پھولنے پر غصہ کھائیں۔ وعدہ کیا اللہ نے ایمان والوں اور عمل صالح کرنے والوں سے ان کی مغفرت اور اجرعظیم کا”۔
سورہ فتح کی ان آیات میں ایک بات یہ ہے کہ اللہ نے اپنے رسول ۖ کو سچا خواب دکھایا تھا۔ جس کی تعبیر عنقریب پوری ہوگی جس کو صحابہ نے نہیں جانا لیکن اللہ جانتاتھا۔ صحیح بخاری کی روایت ہے کہ نبی ۖ نے فرمایا کہ حضرت عائشہ کی تصویر خواب میں دکھائی گئی ۔ اگر یہ خواب اللہ کی طرف سے ہے تو پورا ہوگا اور شیطان کی طرف سے ہے تو پورا نہیں ہوگا۔جس سے پتہ چلتا ہے کہ خواب رحمانی اور شیطانی دونوں ہوسکتے ہیں۔نبیۖ نے درست فرمایا کہ نبوت میں سے کچھ بھی باقی نہیں رہ گیا ہے مگر مبشرات یعنی رویائے صادقہ۔یہ بھی فرمایا کہ سحری کے وقت میں زیادہ ترخواب سچے ہوتے ہیں اورفرمایا کہ خواب نبوت کا چالیسواں حصہ ہے۔
اگر نبوت کا چالیسواں حصہ رہتا ہے تو ختم نبوت پر ایمان باقی رہتاہے؟۔ نبوت سے مراد وحی ، رسالت ، نبوت کا معروف معنیٰ نہیں بلکہ نبوت غیب کی خبروں کو بھی کہتے ہیں۔

 

صحابہ کے دور میں دین تمام ادیان پر غالب نہیں ہوا، یہ وعدہ پوراہوناباقی ہے!

سورہ فتح کی آیات میں ایک اہم بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور دین حق کے غلبے کا تمام دنیا اور تمام ادیان پر جو وعدہ کیا تھا ، اس کا پورا ہونا ابھی باقی ہے۔ شاہ ولی اللہ نے بھی یہ لکھ دیا کہ آئندہ خلافت علی منہاج النبوة قائم ہوگی تو یہ وعدہ بھی پورا ہوجائیگا۔ (ازالة الخفائ) ان آیات کی ایک بات یہ بھی ہے کہ اللہ نے صحابہ کرام کی مثال کھیتی سے دی ،پہلے کونپل نکالا، پھر کمر کس لی،پھر مضبوط کرلی ،پھر اپنے تنے پر کھڑا ہونے کا وقت آیا جس سے کھیتی والا خوش ہوا،اور انکار کرنے والوں کو جلن لگ رہی تھی۔ جلن سے گویا گندھک کی شلواریں پہنی تھیں۔ پیٹ جلتا ہے تو بار بار قضائے حاجت کیلئے جانا پڑتا ہے ، دشمن کے پیٹ میں مروڑ اٹھتا ہے۔
ہم نے دیکھا کہ ہزاروں افراد خانقاہِ چشتیہ میں نماز، ذکر واذکار، تعلیم وتعلم، تلاوت قرآن اور ایمان ویقین کے روحانی محافل میں مشغول رہتے ۔ خواب ومشاہدات کا سلسلہ بدستورتھا لیکن پھر اچانک سازش شروع ہوئی، فتوے لگ گئے اور لہلاتے کھیت نیست ونابود ہوگئے۔ جس دن انقلاب آگیا تو سربستہ راز کھل جائیںگے۔ یوم تبلی السرآئر Oفمالہ من قوة و لاناصرO”جس دن پوشیدہ رازوں سے پردہ اُٹھ جائیگا تو اس کیلئے کوئی قوت ہوگی اور نہ مدد گار ہوگا”۔ (سورۂ الطارق)۔ یوٹیوب پر مفتی تقی عثمانی کو دنیا کا پہلا نمبر طاقتور انسان قرار دیا گیاہے۔ مولانا فضل الرحمن ، مفتی منیب الرحمن، قاری حنیف جالندھری وغیرہ کو بھی وہ تخلیہ میں بٹھادیں اور کچھ معاملات واضح کردیں۔ مفادات ، شہرت، دھونس دھمکی کو چھوڑدو۔ ہم نے خانقاہ کا انتقام نہیں لینا: والذی اخرج المرعٰی Oفجعلہ غثآئً احوٰیO ”اورجس نے نباتات اُگائیں اور پھر ان کو سیاہ کوڑا بنادیا”۔ (سورة الاعلیٰ)مفتی تقی عثمانی و مفتی رفیع عثمانی کے استاذ مولانا عبدالحق اور میرے استاذ مولانا فضل محمدسب گئے۔

 

قرآن میں جس طرح نماز جماعت کا ذکر ہے اسی طرح انفرادی نماز کا بھی ہے!

سورہ ٔالاعلیٰ اور اسکے بعد سورۂ الغاشیہ، سورۂ الفجر ، سورۂ البلداور سورۂ الشمس میں انقلاب کی زبردست خبر اوراوصاف ہیں۔ جناب علی محمد ماہی نے اپنی کتاب ”سرالاسرار المعروف یوم الفصل ”میں کیا لکھ دیا مگر ہم نے اپنی آنکھوں سے قیامت کا منظر دنیا میں اپنی گناہگار آنکھوں سے اسوقت دیکھا ،جب بڑے بڑے نام نہادعلماء وصلحاء کے چہروں سے نقاب اٹھتے دیکھے۔
سیذکر من یخشٰی Oویتجنبھا الاشقیOالذی یصلی النار الکبرٰی Oثم لایموت فیھا و لایحےٰیOقد افلح من تزکّٰی O وذکر اسم ربہ فصلّی Oبل تؤثرون الحےٰوة الدنیاOوالاخرة خیر و ابقٰی Oانّ ھٰذا لفی الصحف الاولیٰ Oصحف ابراہیم وموسٰیO”عنقریب نصیحت حاصل کریگا جو ڈرتا ہے اور گریز کریگا جو بدبخت ہے۔ جو بڑی آگ میں جائیگا، جس میں نہ مرے گا اور نہ زندہ ہوگا۔ تحقیق کہ فلاح پاگیا جس نے تزکیہ حاصل کیا اور اپنے رب کا نام لیا اور نماز پڑھ لی بلکہ تم تو دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو اور آخرت بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔ یہی بات پہلے صحائف میں بھی ہے۔ ابراہیم کے صحیفوں میں اور موسیٰ کے صحیفوں میں۔(سورةالاعلیٰ)۔ قرآن کریم کی آیات صرف پہلے ادواراور آخرت کیلئے نہیں بلکہ ہردور کے ہر ماحول کیلئے ہیں۔ان آیات میں نماز باجماعت نہیں بلکہ انفرادی نماز کا ذکر ہے۔اور یہ واضح ہے کہ حقیقی خوف رکھنے والا نصیحت حاصل کرلے گا اور بدبخت اجتناب کریگا۔ یہی با ت پہلے صحیفوں ابراہیم وموسیٰ کے صحیفوں میں بھی ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ فلاح اس شخص نے نہیں پائی جس نے تزکیہ حاصل نہ کیا اور نماز پڑھ لی بلکہ فلاح اس نے پائی جس نے تزکیہ حاصل کیا ، پھر نماز پڑھ لی۔جعلساز دکانداروں اور مولویوں کے نماز کی اللہ تعالیٰ کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔ یہی یاد رکھئے گا۔

 

قرآن میں جہاں دوسری باتوں کا ذکر ہے وہاں کورونا عالمگیر وباکا ذکر بھی ہے!

معمولی معمولی باتوں کا ذکر قرآن میں ہے۔ کائنات پھیلنے کا ذکر ہے۔ آسمان سے لوہا اترنے کا ذکر ہے۔ پانچ چیزوں کا ذکر ہے جس کو نبیۖ نے مفاتیح الغیب قرار دیا۔ ساعة کا علم، وہ بارش برساتا ہے، جو ارحام میں ہے اس کو جانتا ہے اور تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ کل کمائے گا اور کس زمین پر مرے گا۔ پہلی بات ثابت ہوگئی کہ الساعة کا علم غیب کی چابی ہے اور یہ نبیۖ نے اسلئے فرمایا تھا کہ معراج کی رات نظریہ اضافیت کا راز کھل گیا تھا۔ بارش برسنے سے آسمانی بجلی گرتی ہے جس کی وجہ سے الیکٹرک کی تسخیر نے دنیا کو غیب کی چابیوں سے آگاہ کیا اور ارحام میں صرف انسان نہیں بلکہ حیوانات ، نباتات اور جمادات سب شامل ہیں ۔ آج فارمی جانور، پرندے ،نباتات ،ایٹمی طاقت ،الیکٹرانک کی دنیا نے ثابت کردیا کہ واقعی غیب کی چابی یہی ارحام کا علم ہے۔ قرآن کی تفسیر اور حدیث کی تشریح زمانے نے کردی ہے۔
کورونا ایک عالمی وبا ہے تو کیا اس کا ذکر قرآن میں نہیں ہوگا؟۔ قرآن میں عذاب کا تعلق دنیا اور آخرت کیساتھ ہے۔ جب آدمی غریب ہوتا ہے اور دو وقت کی روٹی کیلئے ترستا ہے پھر خوشحالی کیلئے نذریں مانتا ہے لیکن خوشحالی کے بعد سب کچھ بھول جاتا ہے۔ مولانا مودودی اور حاجی عثمان نے ایک مشکل دور کے بعد آسانی بھی دیکھ لی ۔ ہم نے بھی غربت اور بھوک دیکھ لی تھی اور اپنا گزارہ کرنے کے علاوہ سب کچھ غریبوں پر بانٹنے کی نذریں مانی تھیں مگر وہ وعدہ کیاجو وفا ہوجائے۔ آج شکر ہے کہ بڑے پیمانے پر بینک بیلنس نہیں ورنہ پتہ نہیں قربانی سے بھی گریز کرتے۔ اللہ نے فرمایا: ” وہ نذروں کو پورا کرتے ہیںاور اس دن کے شر سے ڈرتے ہیں جس کی آفت ہر جانب پھیلی ہے ۔کھانا کھلاتے ہیں اپنی چاہت سے مسکین، یتیم اور قیدی کو۔بیشک ہم تمہیں اللہ کیلئے کھلاتے ہیں کوئی بدلہ اور شکریہ تم سے نہیں چاہتے ہیں۔

 

علامہ طالب جوہری نے اپنی کتاب” ظہور مہدی” میں سید گیلانی کا ذکر کیا ہے

ہیں اپنے رب سے اس بدنما بہت لمبی مدت والے دن کے شر سے ”۔ (سورہ ٔالدھر)
یہ آیات موجودہ دور میں کورونا کے معاملے کو بہت زبردست طریقے سے اجاگر کرتے ہیں اور مساکین ، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلانا اس موقع پر بہت اہمیت کا حامل ہے۔ لوگوں میں زمانے کے اس موڑ پر احساسات اجاگر ہورہے ہیں۔ جہانگیر ترین سمجھتا ہوگا کہ عمران خان کو جہازوں میں گھمانے اور خرچے کرنے کے بجائے غریب غرباء کے کام آتے۔ کاشتکاروں ہی کو حدیث کے مطابق پوری فصل دیدیتے تو ایک انقلاب اور حقیقی تبدیلی آسکتی تھی۔ انتخابات کے موقع پر ایک ہی قومی اور صوبائی حلقے میں مولانا فضل الرحمن کے بیٹے کو جمعیت کے صوبائی ممبر سے ٹانک میں تین ہزار کم ووٹ ملے۔ اس نے کہا کہ میں نے خرچہ زیادہ کیا تھا۔ دونوں کے مجموعی خرچے سے ایک ایک ووٹ لاکھ لاکھ روپے کا پڑا تھا۔آج کاغریب بدحال ہے۔
ایک عظیم انقلاب سے پہلے کورونا وائرس کی عالمگیر وبا کا ذکر قرآن میں ہوسکتا ہے؟۔ علی محمد ماہی نے کیا لکھا تھا ؟۔ مجھے معلوم نہیں مگر اپنے خاص علم کا اظہار کرکے اس نے داد کیا پائی تھی ، مجھے یہ بھی نہیں معلوم ۔ البتہ 1988ء میں لکھی گئی کتاب ” سرالاسرار المعروف یوم الفصل ” کو قرآن کی سورتوں سے جوڑنا علم الاعداد کے حساب سے اسکا اپنا فن تھا۔ انقلاب سے پہلے کورونا وائرس کی وبا نے لوگوں کو مہدی کی یاد دلائی۔ علامہ طالب جوہری نے” ظہورِ مہدی” کے حوالہ سے1987ء میں کتاب شائع کی جس میں مشرقی دجال کے مقابلہ میں حسنی سید کا ذکر ایک روایت میںہے۔ علامہ طالب جوہری نے لکھا کہ ”اس سے مراد سید گیلانی ہیں”۔
شیعہ سنی ، دیوبندی ، بریلوی، اہلحدیث اور جماعت اسلامی والے سب قرآن واحادیث کی طرف متوجہ ہوں اور اسلام کے غلبے کیلئے پاکستان سے جدوجہد کا آغاز کردیں۔

 

کوروناوائرس کی شکل میڈیا پر خاردار جھاڑ کی طرح ہے۔ضریع یہی تو ہے !

فرمایا: ھل اتٰک حدیث الغاشےةOوجوہ یومئذٍ خاشعةO………’ ‘ کیا آپ کو چھا جانے والی کی خبر پہنچی ہے؟۔کچھ چہرے اس دن خوفزدہ ہوں گے۔ عمل کرنے والے تھکے ہوئے ہونگے۔ ان کو چشمے کااُبلا ہوا پانی پلایا جائیگا۔ان کیلئے کھانا نہیں ہوگا مگر خاردار جھاڑ۔ جو نہ موٹا کرے گا اور نہ بھوک سے چھٹکارا دلائے گا۔بعض چہرے اس دن تازہ ہونگے اور اپنی محنت پر خوش ہونگے۔ وہ عالی درجہ باغات میں ہونگے۔ اس میں لغو بات نہیں سنیںگے۔ (جس طرح آج کل کی الیکٹرانک اور سوشل میڈیا بکواسیات کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں)اس میں چشمے بہتے ہونگے۔ اسکے اندر اونچی مسندیں ہوں گی اور پیالے رکھے ہونگے۔ گاؤ تکیوں کی قطاریں لگی ہونگی۔ نفیس ماربل وٹائیل کے فرش بچھے ہوںگے۔ کیا وہ اونٹ کی طرف نہیں دیکھتے کہ اس کو کیسے پیدا کیا؟ اور آسمان کی طرف کہ کیسے اونچا کردیا ؟، اور پہاڑوں کی طرف کہ کیسے جمالیا؟۔اور زمین کی طرف کہ کیسے بچھادی؟۔پس آپ ان کو نصیحت کیجئے، بے شک آپ نصیحت کرنیوالے ہیں۔ان پرآپ جبری مأمور نہیں۔ (خود کش حملوں اورجمعیت علماء اور اسلامی جمعیت طلبہ کی طرح) مگر جس نے منہ موڑا اور انکار کیا تو اللہ بڑا عذاب دے گا۔ ان لوگوں نے ہماری طرف پلٹنا ہے اور ہم پر ان سے حساب لینا ہے”۔ (سورۂ الغاشیہ)
کورونا وائرس کی خار دار جھاڑ تصویر کی شکل میں میڈیا پر دکھائی جارہی ہے۔ کتنے لوگ اس کی وجہ سے تکلیف میں مبتلاء ہیں۔ پوری دنیا کو لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ سورة کے آغاز میں جس طرح چھا جانے والی کی بات کی خبر پہنچنے کا ذکر ہے اور پھر بعض چہرے خوفزدہ ہونے اور بعض کے تروتازہ ہونے کا ذکر ہے اس کا تعلق دنیا ہی کے معاملے سے معلوم ہوتا ہے۔ دانشور وعلماء اور امت مسلمہ کے اصحاب حل وعقد مشاورت سے اپنے معاملات درست کرنے پر توجہ دیں!

کورونا وائرس پر علماء کا افسوسناک رویہ

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

قرآن وسنت میں معاملہ واضح ہونے کے باوجود علماء ومفتیان کا بدترین رویہ!

جب اللہ تعالیٰ نے معاشرتی مسائل کے درمیان نمازِ خوف کا حکم واضح کردیا ہے کہ ” نماز پر محافظت کرو، اور درمیان کی نمازکی۔ اگر تمہیں خوف ہو تو پھر پیادہ یا سوار ہوکر۔ پھر جب امن کی حالت میں آجاؤ ،تو اللہ کو یاد کرو(معمول کی نماز پڑھو) جس طرح تمہیں سکھایا گیاہے جو تم اس سے پہلے نہیں جانتے تھے۔ (البقرہ :آیات۔ 239,238)
رسول اللہۖ نے فرمایا: ” جب آذان کی آواز سنوتو گھرکی نماز قبول نہیں ہوگی ۔ جماعت میں شرکت ضروری ہے مگر خوف یا بیماری کی وجہ سے انفرادی نماز درست ہے”۔سنن ابی داؤد
قرآن اور سنت کے اس پیغام کو عام کردیا جاتاتو مذہبی طبقے سے زیادہ عام تعلیم یافتہ لوگ بھی قرآن وحدیث سے زبردست رہنمائی لیتے۔ علماء نے اپنے کم عقل مقلدین کے ذہنوں میں یہ بٹھادیا کہ”مسجد میں جماعت کی نماز اور جمعہ چھوڑنا جائز نہیں۔ جامعہ ازہر اور قدیم فقہاء کے فتوے ہم نے چھان مارے، کوئی ایسی نظیر نہیں ملی، البتہ نماز مختصر کی جاسکتی ہے”۔ پھربہت جلد اپنا فتویٰ ایسا بدل دیا جیسامنہ کا بتیسہ بدل کر کم عقل بچوں کو حیران کیا جاتاہے۔

گدھے کے پاس ڈھینچو ڈھینچو کے سوا کیا ہے؟ بس پدو مارمار کے گزارہ کرنا ہے

جب چین میں کورونا وائرس کی خبر آئی اور پاکستان کی میڈیا پر بحث ہوئی کہ حکومت کو چین سے پاکستانی طلبہ کو واپس لانا چاہیے یا نہیں ؟۔ تو وبا والی حدیث اینکر پرسن حضرات نے بیان کی کہ چین کے اس علاقہ سے آنے اور جانے کی بات شریعت کے بھی منافی ہے۔پاکستان کی سرزمین پر وبا کی بازگشت سنائی دی تو حجازمقدس میں مساجد کی نمازوں اور حرم کعبہ میں طواف پر پابندی کی خبر عام ہوئی۔ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی اورمفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن کی طرف سے مساجدمیں جمعہ اور پنج وقتہ نماز کی پابندی کا فتویٰ آیا اور سیاسی لیڈروں نے مساجد اور ڈھیٹ تبلیغی جماعت کے خلاف سازش کرنے کی خوب افواہیں پھیلانا شروع کردیں۔
پھر مفتی تقی عثمانی نے اپنا آڈیو پیغام ریکارڈ کروایا اسلئے کہ شکل دکھانے کے قابل نہ رہا ہوگا کہ ” موجودہ صورتحال کے پیشِ نظر جب حکومت نے جمعہ کی نماز پر پابندی لگادی ہے تو فقہاء کی کتابوں میں یہ مسائل مل گئے ہیں کہ ” اگر جمعہ فوت ہوجائے تو گھر میں باجماعت نمازکی اجازت نہیں، اسلئے کہ اندیشہ ہے کہ جمعہ کے مقابلے میں الگ سے لوگ اپنی جماعت کرائیں گے اور دوسرا یہ کہ جماعت مکرر ہوگی۔لیکن لوگ گھروں میں باجماعت نماز پڑھیںاسلئے کہ موجودہ صورتحال میں دونوں باتیں نہیں ۔ جمعہ کا مقابلہ ہے اورنہ جماعت کی تکرار ہے۔ البتہ گھروں میں جمعہ کی نماز نہیں پڑھ سکتے ہیں مگر جو لوگ جمعہ پڑھارہے ہیں وہ بھی ٹھیک ہے۔ یہ مسئلہ مجتہد فیہ ہے۔ اگر اس میں غلطی ہوتومیری ہے اور درست ہوتو اللہ کی طرف ہے”۔
مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمن قرآنی آیت و حدیث کا حوالہ دیناکیوں گوارا نہیں کرتے؟ اوربدلتی ہوئی صورتحال پر اپنا اجتہاد کیوں جھاڑتے ہیں؟۔ جمعہ فوت ہونیکی صورت میں تو بات ہی دوسری ہے، جب یہاں جمعہ فوت ہوا نہیں تو اسکا حوالہ دینا بالکل غلط ہے۔(

میڈیا، حکومت اور علماء ومفتیان کو چاہیے کہ قرآنی آیت اور حدیث کی تشہیر کریں

جب اللہ تعالیٰ نے جہاں نمازوں کی حفاظت کا حکم دیا ہے وہاں خوف کی حالت میں پیادہ اور سواری پر نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے تو جمعہ اور جماعت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔ یہ وقت تھا کہ قرآن کی آیت اور حدیث پیش کرکے اسلام کا روشن ترین چہرہ دنیا کے سامنے ہی لایا جاتا۔ علماء ومفتیان کہتے کہ خوف اور بیماری دونوں کا عذر اجتماعی طور پر اکٹھا ہوا ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام مکان وزمان کے احاطوں پر اللہ رب العالمین جل جلالہ عم نوالہ کا دین ہے جس کے رسولۖ قیامت تک کیلئے واقعی رحمت للعالمین ہیں۔ اسلام کی ناک بلند کرنے کا وقت ہے مگر گدھے ڈھینچوڈھینچو کرنے اور پدو مارنے میں لگے ہوئے ہیں۔
آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کو چاہیے کہ خاتون پولیس افسر کی طرف سے اپنی ڈیوٹی کا فریضہ پورا کرنے پر ویڈیو لنک کے ذریعے خراج تحسین پیش کرنے کا اہتمام کریں اور جنہوں نے خاتون ایس ایچ او کی مارکٹائی کی ہے ان کی سخت الفاظ میں مذمت کریں۔اوریا مقبول کا سوشل میڈیا پر بیان اگرسچا ہے کہ ایک بزرگ نے دیکھا کہ رسول اللہ ۖ نے جنرل باجوہ کو خواب میں تحفہ دیا جس کو جنرل قمر باجوہ بائیں ہاتھ سے لے رہے تھے تو حضرت عمر نے ان کا دائیں ہاتھ آگے کروادیا تو کورکمانڈر کے علاوہ پاک فوج کی نیوی اور فضائیہ کو بھی شامل کرکے قرآنی آیت اور حدیث کا حوالہ پوری قوم بلکہ پوری دنیا کے سامنے پیش کریں۔ پاک فوج کا ترجمان میجر جنرل افتخار جب قرآنی آیت اور حدیث کا حوالہ دیںگے تو پاکستان کے آئین کا روشن چہرہ بھی سامنے آجائیگا۔ پارلیمنٹ نے قرآن وسنت کا دفاع کیا کرنا ہے ؟۔ یہ تو اپنا بوجھ قوم کے سر سے اتارکر غریب عوام تک روٹی روزی کی رسائی کا اہتمام کریں تو ہی مہربانی ہوگی اورجب صدرجنرل پرویز مشرف کے گرد جمع ہوسکتے ہیں تویہ اور کیا نہیں کرسکتے ؟۔

قرآن میں سورۂ قیامت کے بعدسورۂ دھر میں زمانے کے اتار چڑھاؤ کا ذکر؟

جب پوری دنیا نے کروناوائرس سے ایک خوفناک منظر کا سامنا کیا ہے تو علماء کرام کو چاہیے کہ قرآن کے ذریعے عوام الناس کو رہنمائی فراہم کریں۔ سورۂ الدھر میں اللہ فرماتا ہے کہ
ھل اتٰی علی الانسان حین من الدھرلم یکن شیئًا مذکورًاOانا خلقنا الانسان من نطفة امشاج نبتلیہ فجعلنٰہ سمیعًا بصیرًاOانا ہدینٰہ السبیل اماشاکرًا و اما کفورًاOانا اعتدناللکٰفرین سلٰسلاواغلٰلًاوسعیرًاOان الابراریشربون من کاسٍ مزاجھا کافورًاOعینًا یشرب بھاعباداللہ یفجرونھا تفجیرًاOیوفون بالنذرویخافون یومًا کان شرہ مستطیرًا O و یطعمون الطعام علی حبہ مسکینًا ویتیمًا واسیرًاOانما نطعمکم لوجہ اللہ لانرید منکم جزائً ولاشکورًاO ”کیا انسان پر زمانے کا وہ وقت نہیں آیا جب وہ قابلِ ذکر چیز نہیں تھا۔ بیشک ہم نے انسان کو (ماں باپ) کے مخلوط نطفے سے پیدا کیا۔ ہم نے اس کو آزمائش میں ڈالا تو اس کو سننے والا دیکھنے والا بنایا۔بیشک ہم نے اس کو راستہ دکھایا یا تووہ شکر کی زندگی بسر کرے یا ناشکری کی زندگی بسر کرے۔ بیشک ہم نے ناشکری کرنے والوں کیلئے زنجیریںاور طوق اور دیوانی کی کیفیت کا تعین کردیا ہے۔ بیشک اچھے لوگ ایسے کپ پی رہے ہونگے جن کا مزاج(صفت جراثیم کش) کافوری ہوگا۔چشمہ ہوگا جس سے اللہ کے بندوں کو پلایا جائیگا اور اس سے جہاں چاہیںگے نہریںنکالیںگے۔ اپنی نذروں کو پورا کرتے ہونگے اور اس دن کا خوف کھائیںگے کہ جس کا شر بہت پھیل چکا ہوگا۔اور اپنی چاہت سے کھانے کھلائیںگے مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کو۔ (کہتے ہونگے کہ) بیشک ہم اللہ کیلئے تمہیں کھلا رہے ہیں۔ تم سے کوئی بدلہ اور شکریہ نہیں چاہتے ہیں”۔ آیات کروناکا ہی منظر ہیں۔

مجدد ملت حاجی عثمان قدس سرہ نے روزانہ سورہ دھر کی تلاوت کو معمول بنا رکھا تھا

سورہ دھر کی ان آیات میں برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں اور حکمرانوں کو اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ ہندی قومیت پر بننے والے ہندوستان میں مسلمانوں کیساتھ کیا سلوک ہورہاہے اور پاکستان میں اسلام کیساتھ کیا سلوک ہورہاہے؟۔ شکر کرنے یا ناشکری پر اللہ کی طرف سے کیا سلوک ہوسکتا ہے؟۔ پاکستان میں اسلام نافذ نہیں ہوا مگر شکر ہے کہ مذہبی تعصبات کے جس ڈگر پر چل رہا تھا ،اس سے باز آگیا۔ ہندوستان مذہبی تعصبات کے خلاف بناتھا مگر آج وہاں مسلمانوں کی شہریت بھی ختم کی جارہی ہے۔ شکر تو پاکستان کے حکمرانوں کی طرف سے بھی ادا نہیں ہواہے لیکن علماء ومفتیان نے بھی اسلام کا حلیہ بگاڑ رکھا تھا۔
قرآن کی تفسیر زمانہ کرتا ہے۔ کافوری مزاج کے جراثیم کُش کپوں اور نہریں نکالنے کے معاملات کی ضرورت دنیا میں ہوتی ہے جنت میں نہیں، مولانا مودودی نے لکھ دیا تھا کہ ” یہ مطلب نہیں ہے کہ کدال پھاوڑے لیکرنالیاں کھودیںگے”۔تفہیم القرآن۔انقلاب کا آغاز ہوگا تو برصغیرپاک وہند میں مذہبی تفریق کے بغیر سب اللہ کے بندوں کی پانی کے ذریعے ہی خدمت کی جائے گی اور جدید مشنری سے نہریں کھود کر محروم انسانوں کو خوشحال بنایا جائیگا۔ اس طرح نذریں پوری کرنا اور اس دن سے ڈرنا جسکا شر بہت پھیل چکا ہے۔مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلانے کا تعلق بھی دنیا ہی سے ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ کورونا وائرس نے تو انسانوں میں نفرت کی فضا ء ختم کردی ہے لیکن صرف بھارت کے حکمران ہی نفرتوں میں مگن نظر آتے ہیں۔ انسانیت کی بنیاد پر اسلامی انقلاب کا آغاز ہوگا تو مسلمان، ہندو، سکھ ، عیسائی، بدھ مت، پارسی اور قادیانیوں سمیت سب لوگ ایک پیج پر پوری دنیا کو برصغیر پاک وہند سے عظیم انقلاب کی بنیاد ساتھ دیںگے۔ سازش اور سازشی عناصر کا خاتمہ بالکل ہوگا۔

سورۂ قیامت میں قیامت کا ذکر ہے اور سورۂ دھر میں زمانے ہی کا ذکر ہے!

اچھے لوگ مسکینوں، یتیموں اور اسیروں کو اللہ کیلئے کھانا کھلانے کا اہتمام کریں ، کہیں کہ ہم اس کا بدلہ اور شکریہ نہیں چاہتے ۔ جس طرح وزیراعظم عمران خان اپنی سیٹ پکی کرنے اور ٹی وی پر اشہارات نشر کرکے بینظیر انکم سپورٹ کی رقم سے اپنا شکریہ ادا کرواتا ہے۔
جو لوگ غریبوں کی مدد کررہے ہیں وہ اس بدنما اور سخت دن سے ڈرتے ہیں جس کا سامنا دنیا کر رہی ہے۔ اللہ نے فرمایا: انّا نخاف من ربنا یومًا عبوسًا قمطریرًاOفوقٰھم اللہ شرِ ذٰلک الیوم ولقّٰھم نضرة و سرورًاO ………” ہم اپنے رب کا خوف کھا رہے ہیںبدنما سختی کے دن سے۔ پس اللہ انکو اس دن کے شر سے محفوظ کردیگا اور انکو تازگی اور خوشیوں کی حالت بخشے گا۔ اور ان کو بدلہ دیگا بسبب انکے صبر کے۔ باغات اور ریشم کا۔ بیٹھے ہوںگے مسندوں پر جہاں ان کو سورج کی دھوپ اور سردی کی ٹِھر نہیں ستائے گی۔ باغات کی چھاؤں پڑرہی ہونگی اور خوشے جھکے ہونگے اور انکے آگے چاندی کے برتنوں اور شیشے کے کپوں کی گردشیں ہوںگی۔ شیشے بھی چاندی کے ڈیزائنوں سے مرصع ہوںگے۔ان کو ایسے کپوں سے پلایا جائیگا جس کا مزاج(صفات) ادرک ( غیربادی) ہوگا۔ ایسا چشمہ ہوگا جس کا نام سلسبیل رکھا جائیگا اور انکے گرد ایسے لڑکے (ویٹر) گردش کررہے ہونگے جن کی ڈیوٹی ہمہ وقت (24گھنٹے) ہوگی۔جب آپ ان کو دیکھ لوگے تو گویا موتی بکھیر دئیے گئے ہوں۔اور جب پھر دیکھ لوگے اور پھر آپ دیکھ لوگے تو نعمت ہی نعمت ہوگی اور بہت بڑی سلطنت کا ایک ہی ملک ہوگا۔ ( دنیا بھر طرزِ نبوت کی خلافت کا قیام عمل پاکستان سے آچکا ہوگا)۔ان پرکپڑا ہوگا باریک ریشم کاسبز اور گاڑھے رشیم کا۔(پاکستان کی قومی شناخت) ،زیب تن ہونگی چاندی کی گھڑیاںاور ان کو انکا رب کوئی پاک مشروب پلائیگا”۔شریعت کا لحاظ رکھا جائیگا۔

علماء ومفتیان کو چاہیے کہ نازک موڑپراسلام کا درست معاشرتی نظام مانیں!

جب تھوڑے سے اجنبی افراد کے ہاتھوں ایک عظیم انقلاب برپا ہوگا تو اس سے پہلے علماء کو چاہیے کہ طلاق وخلع اور دیگراسلام کا درست معاشرتی نظام دنیا کے سامنے ضرور پیش کریں۔
اسلام کو اجنبیت سے نکالنے والے مقربین بارگاہ اور ان کی تائید کرنیوالے علماء ومفتیان کو یہ بہت بڑا انقلاب بہت خوشیوں اور مسرتوں کیساتھ نصیب ہوگا جس میں ہرمکتبۂ فکر کے علماء اور عوام الناس کی ایک بڑی تعداد اصحاب الیمین بن کر شامل حال ہوگی۔ اللہ نے اسکا نقشہ کچھ اس انداز میں کھینچاہے کہ سارے انقلاب عظیم کو انکی محنت وکوشش کے رہین منت قرار دیا
انّ ہٰذا لکم جزائً وکان سعیکم مشکورًاO” بیشک یہ تمہارا بدلہ اور تمہاری محنت شکریہ کی مستحق ٹھہر گئی”۔جب انقلاب آئیگا تو سب کو تائیدات کا وہ بدلہ ملے گا جس پر ان کے دل خوشیوں سے پھولے نہیں سمائیںگے۔ ٹانک کے مولانا فتح خان فرماتے تھے کہ انقلاب کا آنا بہت مشکل کام ہے لیکن اگر انقلاب آگیا تو عتیق علماء کی بہت قدر کریگا۔ ہماری چاہت یہ ہے کہ کسی کی تذلیل نہ ہو مگر حلالہ اور غیر اسلامی معاملے پر گناہ اور کفر کا ارتکاب نہیں کرسکتے۔
اللہ نے نبیۖ سے فرمایا:ان نخن نزلنا علیک القراٰن تنزیلًاOفاصبرلحکم ربک ولاتطع منھم اٰثم او کفورًاO”پس اپنے رب کے حکم کیلئے صبرکرو اور اطاعت مت کرو،ان میں سے کسی کی گناہگار اور ناشکرا ہوکر۔اور اپنے رب کا نام سویرے و شام کو یاد کرو اور رات میں اس کیلئے سجدہ کرو اور رات کو اس کی تسبیح بیان کرو لمبی مدت تک۔ یہ لوگ بیشک یہ جلدی حاصل ہونے والی دنیا چاہتے ہیںاور چھوڑ رہے ہیں اس دن کو جو بہت بھاری ہے۔ ہم نے ان کو پیدا کیا اور انکے اعصاب کو مضبوط کیا۔ جب ہم نے چاہا تو ان کے جیسوں کو بدل ڈلا”۔ سورہ دھر غور اور تدبر کیساتھ پڑھ لیں تو آنکھ کھلے۔ رہنمائی ملے گی۔

سورہ دھر نصیحت ہے اور اس کو دیکھ کر کوئی بھی اپنے رب کا راستہ پکڑسکتا ہے!

سورہ دھر کے آخر میں اللہ نے ارشاد فرمایا:انّ ہذہ تذکرة فمن شاء اتخذ الیٰ ربہ سبیلًاOوما تشاء ون الا ان یشاء اللہ ان اللہ کان علیمًا حکیمًاOیدخل من یشاء فی رحمتہ والظٰلمین اعدّلھم عذابًا الیمًاO ”یہ ایک نصیحت ہے۔پس جو چاہے اپنے رب کا راستہ پکڑلے۔ مگر تم نہیں چاہ سکتے ہو جب تک اللہ نہیں چاہے۔ بیشک اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ وہ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کردیتا ہے۔ اور ظالموں کیلئے اس نے دردناک عذاب تیار کررکھا ہے”۔ (سورۂ دھر)
جب انسان کا مطمع نظر آخرت ہو تو وہ غیب پر ایمان رکھ کر دنیا کی زندگی میں قربانیاں دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے صراط مستقیم دل وجان سے مانگتا ہے۔ پھر اس کیلئے اللہ اپنی رحمت کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ جب ظالم نہیں چاہتا ہے تو اللہ بھی اس کو اپناراستہ نہیں دکھاتا ہے۔
ہماری زندگی بفضل تعالیٰ قربانیوں سے عبارت ہے۔ جب مولانا فضل الرحمن پر دیوبندی علماء ومفتیان نے کفر والحاد کے فتوے لگائے تھے تو شیخ الحدیث مولانا علاء الدین ڈیرہ اسماعیل خان کے صاحبزادے مولانا مسعودالرؤف میرے ہم جماعت اور کمرے کے رومیٹ تھے۔ علماء ومفتیان کے متفقہ فتوے کا اشتہار اس نے لگایا تھا اور میں نے پھاڑ ڈالا۔ اسکے ساتھ ہاتھا پائی بھی ہوئی تھی۔ پھر ایک نظم لکھ ڈالی جس سے فتوے کو شکست ہوئی تھی۔ پھر مولانا فضل الرحمن نے اپنی تقریر میں یہ کہنے کی جرأت کی تھی کہ میں جدوجہد کررہاتھا اور تم فتوے لگارہے تھے؟ میں تمہارے فتوے کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہوں۔ اکابر علماء ومفتیان نے حاجی عثمان پر فتویٰ لگایا تو بھی اللہ نے سرخرو کیا تھا۔ پھر ٹانک کے اکابر علماء کی تائید کے بعد ڈیرہ کے علماء ومفتیان نے مل کر ہم پر فتوے لگائے تو بھی منہ کی کھانی پڑی مگر پھر بھی ان کوشرم نہیں آئی۔ واہ جی واہ!۔

قرآن کریم میں اسلام کی نشاة ثانیہ یوم الفصل اور انقلاب عظیم کی واضح خبر موجود ہے۔ عتیق گیلانی

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

قارئین کرام! السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
احادیث صحیحہ میں ایک بڑے انقلابِ عظیم کی خبر موجود ہے۔ شاعر انقلاب مفکرِ پاکستان علامہ اقبال نے کہاکہ
آملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے
پروفیسر باغ حسین کمال،پروفیسر علی محمد ماہی، پروفیسر احمد رفیق اختر، صوفی برکت علی لدھیانوی کے علاوہ بزرگ حضرات پاکستان کے بارے میں بڑی بڑی پیش گوئیوں کا ارتکاب کرچکے ہیں۔ استحصالی نظام کے ہوتے ہوئے جس طرح پہلے پاکستان دو لخت ہوا، اب اسکا قائم رہناہی دشوار ہے۔ اللہ تعالیٰ گھناؤنے کردار کے مالک طبقوں کی آشیرباد پر پلنے والے بزرگوں کے دل ودماغوں کیلئے اس قدر فارغ نہیں کہ ان کی زبانوں سے نکلنے والے الفاظ کی لاج رکھ لے۔ جبری جنسی تشدد سے زیادہ مدارس میں ایک ساتھ تین طلاق کے نام پر اللہ کے کلام کی توہین اور اسکی بے گناہ بندیوں کی مذہب کے نام پر عصمت دری ہے۔
قرآن میں نکاح وطلاق کے حوالے سے نہ صرف مرد اور عورت میں بہترین توازن ہے بلکہ عورت کو شوہر کے استحصال سے بچانے میں کمال کی آخری حدوں کوچھولیاگیا ہے۔ ایک طرف مرد کی غیرت کا یہ عالم ہے کہ برطانیہ میں شہزادہ چارلس لیڈی ڈیانا کو طلاق دیتا ہے تو ڈیانا اس کا یہ انتقام لیتی ہے کہ جہاں شاہی خاندان کو ٹھیس پہنچے،وہ وہیں پر شادی کرے۔ پہلے ایک پاکستانی ڈاکٹر سے شادی کی کوشش شروع کی لیکن اس میں کامیاب نہ ہوسکی۔ پھریہ قرعہ ایک عرب دودی الفہد کی قسمت میں آیا۔ ڈیانا فرانس کے شہر پیرس میں ایک ٹریفک حادثے کا شکار ہوئی ،جس پر قتل کی سازش کا کیس عدالت کی زینت بن گیا۔ ترقی اور آزادی سے آراستہ برطانیہ میں مردوں کے اقدار کا حال اس آخری دور میں یہ ہو تو چودہ سوسال سے مسلمانوںمیں غیرت کا تناسب کیا ہوگا؟۔ ہمارے مشرقی اقدار کا تقاضہ کیاہے؟۔ مغرب پر تو بنی اسرائیل کی اجارہ داری ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام پر عزیز مصر کی بیگم نے ہاتھ ڈالا تھا اور پتہ چلا تھا کہ غلطی بادشاہ کی بیگم کی ہے لیکن اس کو تہہ تیغ کرنے کے بجائے حضرت یوسف کو جیل بھیج دیا گیا تھا۔ بنی اسرائیل حضرت یوسف کے حوالے سے اس بادشاہ کے کلچر کواپنے مذہبی اقدار کی اہم بات سمجھتے تھے۔ جس کے اثرات آج بھی مغربی اقدار میں موجود ہیں۔
ہندوستان میں نوح کے بعد ہندو قوم نے ذوالکفل کو نہ مانا جسے بدھ مت والے گوتم بدھ کہتے تھے۔ عربوں میں اسماعیل کے بعد آخری نبیۖ تک کوئی نبی نہیں آئے۔ ہندو اقدار قدیم ہیں، بابِ اسلام سندھ کی اکثریت نے بدھ مت قبول کیا تھا۔ عرب قدیم اقدار کے مالک تھے۔ نبیۖ پر سورۂ نور میں لعان کا حکم نازل ہوا تو مدینہ کے اسٹیک ہولڈرحضرت سعد بن عبادہ نے کہا کہ ہم آیت پر عمل نہ کرینگے، عورتوں کو قتل کرینگے۔ نبیۖ نے انصار سے شکایت کی تو انصار نے کہا کہ یارسول اللہ ۖ درگزر کیجئے! یہ بہت غیرت والا ہے، کبھی طلاق شدہ یا بیوہ سے شادی نہ کی۔ ہمیشہ کنواری سے شادی کی ، جس کو طلاق دی تو اس کو کسی اور سے شادی نہیں کرنے دی۔ نبیۖ نے فرمایا: میں اس سے زیادہ غیرتمند ہوں اور اللہ مجھ سے بھی زیادہ غیرتمند ہے۔ ( صحیح بخاری)
علماء نے پدرِ شاہی نظام کیلئے اس حدیث کی غلط تعبیر لکھ دی کہ نبیۖ نے حضرت سعد کی غیرت کی تعریف کی۔ حالانکہ نبیۖ نے سچ فرمایا تھا کہ وہ زیادہ غیرتمند ہیں، جبھی تو اللہ نے فرمایاکہ” آپ کی ازو اج سے کبھی بھی نکاح نہ کرو، اس سے نبی کو اذیت ہوتی ہے”۔ (القرآن)
نبیۖ کی غیرت کا یہ عالم تھا کہ احادیث کی کتابوں میں لکھاہے کہ آپۖ کو اپنی لونڈی ماریہ قبطیہ پر اسکے ایک ہم زباں کا شک گزرا تو حضرت علی کو قتل کرنے کا حکم دیا مگر حضرت علی نے اس کو کنویں سے نکالا تو عضو ء تناسل کٹا ہوا تھا ، جس کی وجہ سے اس کو چھوڑ دیا۔ لونڈی سے کئی گنا زیادہ غیرت بیگم پر ہوتی ہے اسلئے کہ قرآن میں جس طرح آزاد بے نکاح عورتوں کے نکاح کرانے کا حکم ہے، اسی طرح سے غلاموں اور لونڈیوں کا بھی نکاح کرانے کا حکم ہے۔ قرآن و احادیث میں مستقل نکاح کی طرح سے ایگریمنٹ کی بھی وضاحت ہے۔ ایگریمنٹ اور نکاح آزاد عورتوں سے بھی ہوسکتا ہے اور لونڈیوں سے بھی ۔ آج مغرب اسلام کے زیادہ قریب اسلئے ہے کہ قرآن واسلام کے فطری نظام ہی کے قریب ہے اسلئے علامہ قبال کو مشرق میں مسلمان نظر آتا ہے مگر اسلام نظر نہیں آتا اور مغرب میں مسلمان نظرنہیں آتا ہے مگراسلام نظر آتا ہے۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے قرآن کا انقلاب دنیا میںنشر ہونے کا اعتراف کیا اور مسلمان ہی کو محروم قرار دیا ہے۔ پدرِ شاہی نے قرآن کے الفاظ سے بالکل غلط مفہوم لیا اور ماملکت ایماکم سے نکاح کے قانونی بندھن سے آزاد ایگریمنٹ مرادلینے کے بجائے لونڈیاں مراد لیا۔ جس کی وجہ سے اسلام کے نام پر عیاشی کرنے والا بادشاہ اور اسکے مشیراوروزیر اپنی اپنی خواہشات کے مطابق کئی ہزار اور سینکڑوں دوشیزاؤں کو محل سراؤں میں رکھتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے نبیۖ کی سیرت طیبہ کو اعلیٰ نمونہ اسلئے قرار دیا کہ وحی کے ذریعے ہر چھوٹی بڑی بات میں رہنمائی کا اہتمام کیا۔ جب حضرت عائشہ پر بہتان عظیم کا معاملہ آیا تو نبیۖ نے شک کی بنیاد پر قتل کرنے کے بجائے آپ کو گھر جانے کی اجازت دی ۔ سورۂ نور میں زناکی سزا اور پاکدامن خواتین پر بہتان لگانے کی سزا کا حکم نازل ہوا تو بہتان لگانے والوں کو 80، 80 کوڑے لگائے گئے۔
مرد گالی دینے کو عزت سمجھے تو بہتان پر سزا کیوں؟۔ قرآن نے صرف عورت کوتحفظ دیا ۔ یہ سزا اُم المؤمنین پر بہتان لگانے والوں کیلئے بھی تھی اور ایک عام غریب ونادار عور ت پر بہتان لگانے کی بھی یہ سزا تھی۔ قرآن وسنت کا یہ قانون آج نافذ ہوجائے توپھر پدرِ شاہی نظام بالکل دھڑام سے گرے گا۔ پدرِ شاہی نے جن شخصیات اور خاندانوں کی آبیاری کی، ان کی عزت عدالتوں میں اربوںکی ہے اور عوام کی ٹکے کی عزت نہیں۔ منظور پشتین مولوی بن کر نماز پڑھاتا ہے لیکن اسلام کی انصاف پر مبنی بات نہیں کرتا۔ تعصبات کو ہوا دینا پدرِ شاہی نظام کو تقویت دینے کا سبب بنتاہے۔ مذہبی ، قومی، لسانی اورملکی تعصبات پدرِ شاہی نظام کے عالمی استعمار کوہی تقویت پہنچانے کا خواب ہیںلیکن اب انشاء اللہ یہ پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتے ہیں۔ پاکستان میں بلیک واٹر کا کردار تھا؟۔
لیکن اس وقت طارق اسماعیل ساگر جیسے لوگ سب سمجھ کر بھی کچھ نہیں کہتے تھے۔ اب افغانستان میں اشرف غنی اور طالبان کے حمایتی قتل وغارتگری کی ذمہ داری بلیک واٹر پر ہی ڈال رہے ہیں۔ دونوں طرف کے بڑے امریکہ کی گود میں بیٹھ کر امریکہ کے کردار پر بات نہیں کرسکتے اسلئے ایک طرف ہندوستان دوسری طرف پاکستان کا نام لیتے ہیں۔ اور دونوں ہی شریعت،اسلام اور قرآن کا نام لیتے ہیں۔
ہندوستان کے پاس ہندوازم کا نظام نہیں تھا اسلئے عالمی استعمار کیخلاف کھڑے ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ملا لیکن پاکستان کے پاس قرآن اور اسلام جیسی نعمت ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ علماء نے جس طرح اسلام کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا تھا۔ عباسی دور میں جس طرح کی اسلام سازی سے آغاز ہوا تھا، وہ اب شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی کے ہاتھوں بالکل آخری حدوں کو چھورہاہے۔ ایک طرف قرض سے فائدہ ہی فائدہ اٹھانے کی بنیاد پربینکنگ کا سودی نظام جائز قرار دیا گیا اور دوسری طرف اپنا چہرہ چھپاکر ویڈیوبھی نشر کردی کہ” لوگ علت اور حکمت کا فرق نہیں سمجھتے۔ اسلئے کہتے ہیں کہ سود کا تعلق ظلم سے ہے ۔جب سود میں ظلم نہ ہو تو پھر جائز ہونا چاہیے لیکن میں کہتا ہوں کہ ظلم سود سے روکنے کی حکمت ہے مگر یہ اس کی علت نہیں ۔ سود کی علت قرض پر نفع حاصل کرنا ہے۔ میں اس کی مثال دیتا ہوں کہ لال بتی میں حکمت ٹریفک حادثات سے بچنا ہے مگر اس کی علت لال بتی کا جلنا ہے۔ اگر کوئی ماحول دیکھ کر لال بتی کی خلاف ورزی کریگا تو قانون کی گرفت میں آئیگا، چاہے وہ حادثہ سے بچنے کی حکمت اختیار کرے”۔ مفتی تقی عثمانی۔
دنیا نے سود کو ظالمانہ نظام تسلیم کرلیا۔ شیخ عبداللہ ناصح علوان کی کتاب ”مسلمان نوجوان”کا ترجمہ ہمارے استاذ ڈاکٹر حبیب اللہ مختارپرنسپل جامعة العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن (نیوٹاؤن) کراچی نے کیا، جس میں دنیا بھر کے معاشی ماہرین کی طرف سے سودی نظام کو ظلم کہا گیاہے۔ لیکن یہ کتاب مارکیٹ سے غائب کردی گئی اور ڈاکٹر حبیب اللہ مختار کو شہید کرکے جلاکر راکھ کردیا گیا۔
میرے گھر پر حملہ کرکے بہت سوں کو شہید کیا گیا تو میرے لئے تیزاب کے بڑے بڑے کین لائے تھے۔ میری ان سے ذاتی دشمنی نہیں تھی اور طالبان کے امیر نے ذمہ داروں سے قصاص لینے کا عزم بھی کیا تھا۔ قوم محسود کے نمائندے معافی تلافی کیلئے تو ساتھ آئے لیکن فیصلے کا وقت آیا تو طالبان نے ان کو کانیگرم نہیں آنے دیا تھا۔ کوئی شک نہیں کہ کشمیر میں ہندوستان کے فوجی طیارے استعمال کرکے باغی کشمیریوں کو نہیں مارتے اور پاکستان کی آرمی نے وزیرستان میں محسود قوم پر بمباری کرکے خواتین اور بچوں سمیت بہت بے گناہ افراد کو بھی شہید کردیا۔ لیکن جب دہشت گرد حملے کے بعد اپنی محفوظ پناہ گاہوں میں جاتے تھے تو پوری قوم بے غیرت بن کر انکے سامنے لیٹی ہوئی تھی۔ مجھ پر پہلے حملہ ہوا تھا توبھی میرے ساتھ دو معصوم افراد بھی بال بال بچ گئے تھے اورپھر بھی ہمارا گھر اور ہمارے عزیز واقارب طالبان کو سپورٹ کرنے میں بے شرمی اور بے غیرتی محسوس نہیں کرتے تھے۔ کربلا کے بعد بھی طالبان کی آمد کا سلسلہ جاری تھا۔ معاشرے میں کوٹ کوٹ کر بے غیرتی ہو تو پدرِ شاہی اور عالمی استعمار کا نام لینا حقائق سے فرار کی ایک بدترین صورتحال ہے۔
جب برطانیہ کے شہزادہ چارلس کوبھی غیرت کا سامنا تھا جس کی جھلک نجم سیٹھی کی بیگم جگنومحسن کی طرف سے ARYنیوز کے پروگرام میں نیٹ پر ملے گی تو پھر ہمارے شہروں، دیہاتوں اور قبائلی ماحول میں مردانہ غیرت اور خواتین کیساتھ مظالم کا حال کیا ہوگا؟۔ دنیا بھر میں عورت مارچ جنسی تشدد اور حقوق کیلئے آواز بلند کرتا ہے، جس نے پاکستان میں بہادری کی ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے۔
جب ریحام خان مسیج پر طلاق ملنے کے بعد بر طانیہ سے واپسی کا عزم کررہی تھی تو اس کو قتل کی دھمکیاں ملی تھیں لیکن قدرت نے اس قوم سے ایک ایسی تبدیلی کا انتقام لیا کہ عمران خان نے ایک شادی شدہ خاتون بشریٰ بی بی ہی سے خلع لینے کے بعد شادی کرلی تو قوم نے وزیراعظم بنایا اور جب جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا میں پختون کا لباس ودستار پہن کر بلاول صاحبہ پکار رہاتھا جس کو فیاض الحسن چوہان، عامر لیاقت، مراد سعید ، شہریار آفریدی اور اجمل وزیر نے بڑی داد بھی دی ہوگی لیکن وہ یہ سمجھتے تھے کہ بشری بی بی کا نکاح بھی ایک پختون مفتی محمدسعید خان نے ہی پڑھایا تھا۔ جب بہنوں اور بیٹیوں کی قیمت وصول کی جاتی ہے تو کوئی غیرت نہیں آتی ہے لیکن جب بیگم گھر میں بیٹھ جائے تو پھر غیرت کا مسئلہ کھڑا ہوجاتا ہے؟۔ غیرت کا مسئلہ الگ ہے مگر مفادات کو غیرت کا نام دینا الگ ہے۔
ہمارے کانیگرم شہر میں پڑوسی زنگی خان نے شادی کے بعد اپنی بیگم کو بیڑیاں ڈال کر قید کیا تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ وزیرستان میں اچانک عورت کا ریٹ بڑھ گیا ۔ اس کو فروخت کرنے والے باپ اور بھائیوں نے مطالبہ کیا تھا کہ یا نئے ریٹ دو یا پھر طلاق دو اوراپنا پیسہ واپس لے لو تاکہ ہم زیادہ قیمت وصول کرکے اس کو دوبارہ فروخت کردیں۔ یہ لوگ بعد میں طالبان بن گئے اور اپنی دہشت و غیرت سے اسلام کی غیرت دنیا پر مسلط کرنے لگ گئے۔
نبیۖ نے فرمایا کہ ” جب دوبارہ خلافت قائم ہوگی تواسلام زمین میں جڑ پکڑے گا”۔ قرآن میں یہ انقلاب بہت واضح ہے۔ بہت ساری آیات اور سورتوں میں اس عالمگیر انقلاب کا نقشہ بہت واضح ہے۔ سورہ جمعہ، سورہ محمد اور سورہ واقعہ میں صحابہ کے بعد پھر سے ایک نئی قوم کا ذکر ہے، نئی جماعت کا ذکر ہے اور تھوڑے مقربین اور بہت ہی زیادہ اصحاب الیمین کا ذکر ہے۔ مولانا عبیداللہ سندھینے کوشش کی تھی کہ قوم اس طرف توجہ کرے۔ قبلہ ایاز اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے چیئرمین مولانا سندھی کی اس کاوش کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن نوکری اور اختیار مل جاتا ہے تو مشکلات کا سامنا کوئی نہیں کرنا چاہتا ہے۔
غلام احمد پرویز نے احادیث صحیحہ کی روح کو نہیں سمجھا تھا اسلئے قرآن کی خدمت کے باوجود قرآن فہمی سے محروم رہاتھا۔غلام احمد پرویز سے زیادہ حنفی نصاب میں احادیث سے روگردانی کا قرآن کی بنیاد پرارتکاب ہے لیکن قرآن و سنت نہیں مسالک اورنظریات کی خدمت ہورہی ہے۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ قرآن وسنت کے تابع بننے کے بجائے مسلک پرستی اور نفس پرستی کے تابع اسلام کو بنایا جائے۔
فاذا جاء ت الصاخةOیوم یفر المرء من اخیہ Oامہ وابیہOو صاحبتہ وبنیہ O لکل امری ئٍ منھم شان یغنیہOوجوہ یومئذ مسفرةO ضاحکة مستبشرة Oو وجوہ یومئذ علیھا غبرہ Oترھقہا قترةOاُولئک ھم الکفرة الفجرةO( سورہ ٔ عبس کی آخری آیات)
جب انقلاب کی وہ آواز آئے جو دلوں کے اندھوں کو بھی سنائی دے تو آدمی اس دن اپنے بھائی سے فرار ہوگا۔ اپنی ماں اور اپنے باپ سے، اپنی بیوی، اپنے بچوں سے۔ ہر ایک اپنے سردرد میں مگن ہوگا۔ انقلاب کے داعی اچھے لوگوں کے چہروں پرخوشی نمایاں ہوگی،ان پرہنستے ہوئے بشارت کے اثرات ہونگے اور انقلاب دشمن لوگوں کے چہروں پر مجنونوں کی طرح بھاگنے اور رقص کرنے کی وجہ سے گرد وغبار چڑھا ہوگا۔ ان پر سیاہی کی تہہ چڑھی ہوگی۔ یہ وہی لوگ ہونگے جنہوں نے کفر و فجور کا راستہ اختیار کیا ہوگا۔ قرآنی احکام کو رد کرنے کا نتیجہ وہ بھگت لیںگے۔
اسلامی خلافت علی منہاج النبوة بعض مجرموں کو طوق وسلاسل پہنائے گی لیکن اس کی وجہ انتقام نہیں بلکہ اس دنیا کو انکے شر سے بچانا ہوگا۔ہندوؤں کا حکمران طبقہ زیادہ تر اس کا شکار اسلئے ہوگا کہ ہندوستان میں اسلام کا سورج ہی ہندوؤں کے ہاتھوں سے طلوع ہوگا۔ مودی کے تعصبات لتا حیا شاعرہ جیسے کروڑوں ہندوؤں کیلئے قابلِ نفرت ہے اور پاکستان میں ہندوؤں کیخلاف نفرت کو کوئی ہوا نہیں دی گئی ہے۔ جب پاکستان میں نفرت کی آگ بھڑ کائی گئی تو مشرقی پاکستان ٹوٹ گیا۔ بھارت کو بھی نفرتوں کی آگ اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ جو لوگ امریکی عوام پر مہذب ہونے کا فتویٰ صادر کرتے تھے تو انہوں نے دیکھ لیا کہ کس طرح انسانیت دشمنوں نے بے گناہ لوگوں کو زبردست نقصان پہنچایا۔ جب تک پاکستان میں صحیح اسلامی نظام کا نفاذ نہیں ہوتا ہے تو ہماری عوام اور ریاست بھی خطرات کی منڈیر پر طوفانوں کے گھیرے میں رہے گی اور لوگوں کو استحصالی طبقات کے غیرانسانی رویوں پر سراپا احتجاج بننے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ عدالتوں سے ہم انصاف کی امید نہیں رکھتے۔ سیاسی نظام کٹھ پتلی اور دلالی کا شاخسانہ ہے۔ مولوی کا اسلام فطرت کیخلاف کھڑا ہے۔ میڈیا اشتہار کیلئے مررہا ہے۔میڈیسن کا جعلی ہونا اور ڈاکٹروں کا غریب مریضوں کی کھال کھینچنا تو ایک معمول بن چکا۔ تاجر راہزن اور ٹرانسپورٹر غنڈے بن گئے ۔ ریاست اغواء برائے تاوان کیلئے غائب ہونیوالی ماں بن چکی ۔ جس کا دل دھڑکتاہوگا مگر دودھ اغواء کاروں کے ہاتھ میں ہے۔
قرآن کریم جہاں آخرت کی خبر دیتا ہے اسلئے کہ سبھی نے موت کا ذائقہ چکھ لینا ہے اور ہر ایک کو قبرو آخرت سے واسطہ پڑنا ہے لیکن ساتھ ساتھ قرآن دنیاوی انقلاب سے بھی لوگوں کو آشنا کرتا ہے۔ یہود، نصاریٰ، ہندو، بدھ مت اور تمام مذاہب میں انقلاب عظیم کی خبر ہے۔ قرآن نے بھی خبردی وماھو بقول الشیطٰن الرجیمOفاین تذھبونOان ھوالا ذکر للعٰلمین ”اور یہ شیطان مردود کا قول نہیں ہے۔پھر تم کہاں جارہے ہو؟۔ بیشک یہ نہیں مگر تمام جہانوں کیلئے نصیحت ہے”۔(سورۂ تکویر)
بنوامیہ و بنوعباس کے دور میں سرکاری ملاکی آبیاری ہونا شروع ہوئی۔ خلافت عثمانیہ اور انگریز کے دور سے آج تک ملاؤں اور سرکاری سرپرستی میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔جمعہ کے خطبہ میں السلطان ظل اللہ فی الارض من اھان سلطان اللہ فقد اہانہ اللہ کی حدیث پڑھی جاتی ہے۔زمین میں بادشاہ اللہ کا سایہ ہے، جس نے اللہ کے سلطان کی توہین کی تو اس نے اللہ کی توہین کی۔ بادشاہ نے چاہے فرعون ونمرود جیسا ظالمانہ نظام نافذ کیا ہو۔ اللہ نور السموات والارض کا بھلے کوئی اپنا سایہ نہ ہو مگر ظالموں کا اعزاز یہی ہے کہ وہ اللہ کا سایہ ہیں۔ وہ کربلاؤں کی تاریخ رقم کریں اور ہم یہ آیت پڑھیں کہ اللہ جس کو چاہتا ہے اس کو ملک کا مالک بنادیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے ملک کو چھین لیتا ہے۔ ایک طرف عوام کو ظالم وجابر حکمرانوں کے سایہ میں رہنا پڑتا ہے تو دوسری طرف انکے گماشتے زمین میں مدظلہ العالی کا استحقاق رکھتے ہیں یعنی انکے سایہ کو اللہ مزید کھینچ کر لمبا کردے۔ حکمرانوں اور مذہبی طبقات کے سایوں کا عوام کو فائدہ ہو نہ ہو مگر یہ ظل الٰہی زبردستی کیساتھ بھی اپنے سایوں کو مسلط رکھنا چاہتے ہیں۔
جب انقلاب عظیم آئیگا تو دنیا میں انصاف کا بول بالا ہوگا۔ان جھوٹے سایوں سے اس دن چھٹکارا مل جائیگا۔ اس دن انکے سایہ میں پلنے والوں کیلئے سایہ نہیں ہوگا۔ قرآن نے واضح کیا ہے کہ لاظلیل اس دن کوئی سایہ ان مجرموں کیلئے نہیں ہوگا۔ اسی کیفیت کو سورۂ مدثر میں بتایا گیا ہے کہ وہ سقر میں پہنچ جائیںگے۔ القاموس المعجم میں ہے کہ سقر کھلے آسمان تلے اس کیفیت کو کہتے ہیں کہ جب ان سے سورج کی تپش میں رکاوٹ نہ ہو۔ ان لوگوں کی اس خاص تعریف کا ذکر ہے کہ قرآنی آیات سے ایسے بھاگتے ہونگے جیسے گدھے بدک جاتے ہیں شیروں سے۔ ان کی یہ خواہش ہے کہ بس ان کی اپنی کتابیں نشر ہوتی رہیں، ان کو قرآن کی آیات عام کرنے سے کوئی غرض نہیں ۔
سورۂ دھر میں انقلاب کے بعد ادرک کے مزاج کے مشروبات کا ذکر ہے جس کی خاصیت قوتِ مدافعت اور بادی کا خاتمہ ہے۔ سورہ ٔ جمعہ میں واٰخرین منھم کا ذکر ہے جس سے اہل فارس مراد ہیں تو سورۂ الشوریٰ میں فرمایا کہ نبیۖ کو اللہ نے اہل مکہ اور آس پاس کے علاقوں کیلئے مبعوث کیا اور یوم جمع کیلئے بھی ۔ یوم جمع سے مراد اس دنیاوی انقلاب پر پوری دنیا کا جمع ہونا ہے جس کا ذکر تمام مذاہب کی کتابوں میں بہت واضح طور پرموجود ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ نبأء میں فرمایا کہ ” اور آپ سے پوچھتے ہیں ایک عظیم خبر کے بارے میں ۔جس میں لوگ اختلاف کرتے ہیں۔ ہرگز نہیں عنقریب یہ جان لیںگے، ہرگز نہیں عنقریب یہ جان لیںگے”۔ قرآن ہی کے ذریعہ دنیا میں عظیم انقلاب کی خبر دنیا سمجھ چکی ہے اسلئے کہ فارس و روم کی سپر طاقتوں کو پہلے بھی مسلمانوں نے شکست دی تھی اور کسی بھی مذہب میں یہ صلاحیت نہیں کہ اس کو اس قابل سمجھا جائے کہ کسی بڑے انقلاب کی صلاحیت رکھتا ہے۔
علامہ اقبال نے ”ابلیس کی مجلس شوری” کے حوالے سے لکھا ہے کہ شیطان کو صرف اور صرف آئین پیغمبر سے خوف ہے جو حافظِ ناموسِ زن ، مرد آزما ،مرد آفریں ہے۔
قرآن واحادیث میں ایک عظیم انقلاب کا ذکر ہے۔ اسلام نے توہمات، غلط عقیدتوں ، رسم وروایات کے غلط بندھنوںاور استحصالی معاشی نظام کو بیخ وبن سے اُکھاڑ دیا تھا اور دنیا کو حریتِ فکر کا سیاسی نظام سکھادیا تھا جس کی وجہ سے پوری دنیا میں بہت بڑی تبدیلی آگئی البتہ مؤمنوں کا اپنا کردار یہود کے احبار اور نصاریٰ کے رھبان والا بن گیا تو دنیا نے چراغ تلے اندھیرے کی کیفیت دیکھ لی ہے۔
ارتغل غازی کے کردار، شخصیت اور ڈرامے کا مجھے کچھ پتہ نہیں ہے لیکن اتنا جانتا ہوں کہ شیطان نے پھر کوئی داؤ کھیل کر امت مسلمہ پر نقب لگادی ہے۔ دنیا میں ہمارا مسئلہ کفار اور مسلمانوں کی جنگ نہیں بلکہ کفر اور اسلام کے درمیان جنگ ہے۔ پہلے بھی طالبان بہت نیک نیتی کے ساتھ اچھے جذبے سے امریکہ کیخلاف کھڑے ہوگئے تھے لیکن پھر نتیجہ یہ نکلا کہ افغان اور پاکستان حکومت کیخلاف بھی جنگ کا دائرۂ کار بڑھادیا۔ جب تک ہم اپنے معاشرہ سے کفر نہیں نکالیںگے اور جب تک ہم اپنے مدارس سے کفر نہیں نکالیںگے اس وقت تک ہم نہ معاشرتی نظام کی اصلاح کرسکتے ہیں اور نہ ملکی اور بین الاقوامی نظام کی کوئی اصلاح کرسکتے ہیں۔مدارس کے نصاب کی اصلاح کیلئے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی، بنوریہ عالمیہ سائٹ کراچی اور مولانادرخواستی صاحب کی آل اولاد کے ارباب اہتمام و فتویٰ مجھے طلب کرلیں۔ سب کچھ دنوں میں صحیح سمت چلنا شروع ہوجائیگا۔ ہمیں اپنے اساتذہ کرام کا احترام ہے۔
اگر قرآن کی آیات میں ایک طرف عدت کے اندر طلاق کے بعد رجوع کی گنجائش ہو، پھر عدت کی تکمیل کے بعد بھی گنجائش ہو اور پھر عدت کی تکمیل کے عرصہ بعد تک بھی رجوع کی گنجائش ہو تویہ قرآن بہت بڑے تضادات کا مجموعہ بن جائیگا۔ علماء وفقہاء نے اس کی بالکل غلط اور لغو تطبیق کی ہے۔ قرآن میں رجوع کیلئے اصل مدار باہمی صلح ہے اور اسی کو قرآن میں معروف رجوع کا نام دیا گیاہے۔
میاں بیوی میں طلاق کے بعد کسی بھی مرحلے پر صلح کی ترغیب اور گنجائش موجود ہے۔ قرآن کی ہرایک آیت کا مقصد واضح ہے۔ دوسری طرف کسی بھی مرحلے پر صلح کے بغیر رجوع کی گنجائش نہیں ہے، اس پربھی قرآن کی ہرآیت کی بھرپور وضاحت ہے۔ میاں بیوی صلح کرنا چاہتے ہوں تو قرآن کا کوئی ایسا حکم نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ انکے درمیان صلح میں رکاوٹ بن جائے۔ اس کی اللہ نے بار بار وضاحت بھی کی ہے۔ البتہ جب عورت جان چھڑانے پر آمادہ ہوتو پھر شوہر کیلئے اس پر زبردستی کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ اس کی راہ میں کسی اور شوہر سے نکاح کرنے میں رکاوٹ بن جائے۔ پھر کباب میں یہ ہڈی برداشت نہیں ہے جو اپنے معاشرے اور انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ منگیتر کو چھوڑنے کے باوجود اپنی مرضی سے شادی نہیں کرنے دی جاتی ہے اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ عورت کو طلاق دی تو پھر دوسری جگہ اس کو شوہر اپنی مرضی سے شادی کرنے نہیں دیتا ہے۔ میرے والد مرحوم نے پاکستان بننے سے پہلے ایک بیوی کو طلاق دی تھی اور پھر اس پر کوئی پابندی نہیں لگائی تھی کہ جہاں شادی کرنا چاہے کرسکتی ہے تو اس کو بہت بڑے انوکھے کردار کی حیثیت دی گئی تھی۔ کمزور پر ظلم نہ کرنااصلی اور نسلی ہونے کی نشانی ہے۔ جب انقلاب آئے اور قاتل ہمارے ہاتھ چڑھ جائیں اور اعتراف جرم کرلیں تو ان پر دسترس حاصل ہونے کے بعد معاف کرنے میں ہماری روح کو بڑی تسکین ملے گی۔ صحابہ کرام اور اسلاف کا فیصلہ اور فتویٰ طلاق کے حوالے سے سوفیصد درست تھاکہ جب عورت رجوع کیلئے راضی نہ ہو تو شوہر کیلئے اس وقت تک حرام ہے کہ جب تک وہ عورت اپنی مرضی سے نکاح نہ کرلے۔ آیت کا مقصد میاں بیوی کو سزا دینا نہیں بلکہ عورت کی اس ظالم سے جان چھڑانا ہے جو اس کی مرضی کا لحاظ نہیں رکھتا ہے بلکہ اپنی غیرت کیخلاف سمجھ کر اس کو اپنی مرضی سے کسی دوسرے سے نکاح نہیں کرنے دیتا ہے۔
قرآن وحدیث میں تین طلاق کو تین مراحل کیساتھ خاص قرار دیا گیا ہے۔ الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان ”طلاق دو مرتبہ میں ہے۔ پھر معروف طریقے سے رجوع یا احسان کیساتھ چھوڑ دینا ہے”۔ نبیۖ نے فرمایا کہ احسان کیساتھ چھوڑنا ہی تیسری طلاق ہے۔ نبی ۖ نے طہرو حیض کے مراحل کی وضاحت کرتے ہوئے بھی تین مرتبہ طلاق کے عمل کو اس عدت کیساتھ خاص کردیا جس میں عورت کو حیض آتا ہو۔ بخاری کی کتاب تفسیر سورہ ٔ طلاق ، کتاب الاحکام، کتاب الطلاق اور کتاب العدت میں حدیث موجود ہے۔
سورۂ بقرہ کی آیت229میں خلع کا کوئی ذکر نہیں ہے بلکہ تین مراحل میں تین مرتبہ طلاق کے بعد کی صورت کا ذکر ہے۔ جس میں طلاق کے بعد بیوی سے شوہر کے دئیے ہوئے مال میں سے کچھ بھی واپس لینا جائز نہیں ہے مگر جب دونوں کا اتفاق ہو کہ اگر وہ مخصوص چیز واپس نہ کی گئی تو دونوں کیلئے اللہ کی حدود پر قائم رہنا بڑا مشکل ہوگا اسلئے کہ میاں بیوی نے علیحدگی کا فیصلہ کرلیا ۔ دونوں کی راہیں جدا ہیں، الگ الگ شادیاں دوسری جگہ ہوسکتی ہیں۔ پھر وہ چیز ملنے کا ذریعہ ہو تو پہلے سے دونوں کا ایک تجربہ رہاہے جس کی ایکسرسائز ہوسکتی ہے تو پھر وہ چیز واپس کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں۔ معاشرے نے بھی یہی فیصلہ کیا ہو توپھر سوال یہ پیدا نہیں ہوتا کہ رجوع ہوسکتا ہے یا نہیں ؟۔ بلکہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے بعد بھی عورت کو مرضی کی اجازت ہے یا نہیں؟۔ اسی کو ہی آیت230 البقرہ میں بیان کیا گیا ہے۔

خواتین کی طرف سے اپنے حقوق کی جنگ کو اللہ نے سورہ مجادلہ میں دوام بخشا۔ عتیق گیلانی

 تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

سورۂ النساء آیت19میں پہلی بات تویہ واضح ہے کہ عورت (بیوی) مرد کی جاگیر نہیں ۔ جبری ملکیت کے تصور کو اسلامی معاشرے سے بالکل حرفِ غلط کی طرح مٹادیا جائے۔
جب غیر مسلموں نے قرآن کے تراجم کرلئے تو ان پر اسلام اور مسلمانوں کی فتوحات کاراز کھل گیا۔ شاہ ولی اللہ نے دیکھا کہ اسلام مخالف پادریوں سے علماء اسلئے شکست کھاتے ہیں کہ وہ کوئی بات کرتے ہیں کہ قرآن میں یہ لکھا ہے تو علماء انکار کردیتے ہیں کہ قرآن میں ایسا کچھ نہیںلیکن جب قرآن کھول کر دیکھتے ہیں تو وہ بات قرآن میں ملتی ہے۔ اور اسی وجہ سے علماء کو شرمندگی کا سامنا ہوتا ہے پھر شاہ ولی اللہ کو پتہ چلا کہ ان پادریوں نے اپنی زبانوں میں قرآن کا ترجمہ کررکھا ہے۔علماء میںان کے مقابلے کی صلاحیت پیدا کرنے کیلئے پھر شاہ ولی اللہ نے بھی قرآن کا ترجمہ کرلیا۔
سیدا بوالاعلیٰ مودودی نے لکھا کہ ” کیا وجہ ہے کہ شاہ ولی اللہ کے خاندان کا تقویٰ وکردار بھی قرون اولیٰ کی یادگار تھا، یہاں مسلمانوں کی حکومت بھی تھی لیکن انگریز نے ہم پر اپنا تسلط جمالیا اور شاہ ولی اللہ کے افکار ناکام ہوئے؟”۔
انگریز اسلئے کامیاب ہوا کہ انسانی حقوق کے حوالے سے قرآن کا پیغام سمجھا۔ خواتین نے جب اپنے حقوق کیلئے وہاں جنگ لڑی تو حقوق دیدئیے۔ اسلام کی حریت فکر سے سبق حاصل کیا اور اپنی تقدیر بدل دینے میں دیر نہیں لگائی۔ جبکہ ہم مذہبی بحثوں میں اُلجھ گئے اور جب انگریز چھوڑ کر گیا تو پھرہم فرقوں ، مسلکوں اور جماعتوں میں بٹ کر رہ گئے۔
ایک طرف سورۂ النساء میں قرآن کہتاہے کہ (اے مسلمانو!) تم عورتوں( بیویوں) کے زبردستی مالک نہ بن بیٹھو ۔ تودوسری طرف علماء کہتے ہیں کہ شوہر بیوی پر لونڈی کی ملکیت سے بھی زیادہ حق رکھتا ہے۔ آزاد عورت بیوی فدیہ دیکر خلع حاصل کرسکتی ہے جبکہ لونڈی کودوسرا شخص بھی آزاد کرسکتا ہے۔ آزاد عورت (بیوی) کو فدیہ دیکر بھی شوہر نے نہیں چھوڑنا ہو تو شوہر کو پھر بھی مکمل اختیار حاصل ہے۔
مولوی یہ بالکل فضول بکواس کرتاہے کہ اسلام نے یہ حق مردوں کو عورت کی بھلائی کیلئے دیا ہے اسلئے کہ مولوی کا مستند فقہی مسلک یہ ہے جس پر وہ انگریز کے دور میں بھی اپنا فتویٰ دیتا تھا اور آج بھی یہی فتویٰ دیتا ہے کہ ”اگر شوہر نے بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دیدیں تو بیوی اس پر حرام ہوگی لیکن اگر شوہر نے انکار کردیا کہ اس نے تین طلاقیں نہیں دی ہیں تو پھر بیوی کو دو گواہ لانے پڑیںگے اور اگر اس کے دو گواہ نہ ہوئے تو پھر اسلامی عدالت شوہر سے حلف لے گی اور اگر اس نے حلف دیا تو عورت اس پر حرام ہوگی مگر اسکے نکاح میں رہے گی۔ پھر عورت کو چاہیے کہ وہ فدیہ دیکر خلع حاصل کرے لیکن اگر شوہر خلع نہ دے تو عورت بدکاری پر مجبور ہے”۔ (حیلہ ٔناجزہ: مولانااشرف علی تھانوی)
جب عدالت سے خلع کا فیصلہ بڑی مشکلات کے بعد ہوتا ہے تو مدارس فتویٰ دیتے ہیں کہ طلاق نہیں ہوئی ہے۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی نے اپنا فتویٰ بدل دیا ہے مگر مفتی محمد تقی عثمانی نے سود کو حلال قرار دینے کے باوجود اپنا فتویٰ نہیں بدلا ہے۔ پھر شیخ الاسلامی کا منصب بھی خطرے میں پڑجائیگا۔ یہ مفتی نہیں استحصالی طبقات کے گماشتے ہیں۔
جب سورۂ النساء کے مطابق بیوی شوہر کی جاگیر نہیں ہوگی تو ماؤں کی کوکھ سے آزاد منش بچے جنم لیںگے اور سماج سے غلامی کے نظام کو بیخ وبن سے اُکھاڑ یںگے۔ جب شوہر کے تین طلاق کی ملکیت کا تصور ختم ہوگا تو عورت کے خلع میں مذہبی طبقہ رکاوٹ نہیں کھڑی کرسکتا اور پھر حلالہ کے نام پر شکار ہونے والی خواتین کی بھی بڑی بچت ہوگی۔
جو خواتین مذہب سے بغاوت پر اُتر آئی ہیں تو مولوی کے خودساختہ مذہب سے ان کی بغاوت کا خیر مقدم ہی ہونا چاہیے۔ اللہ کا دین اسلام ایسا ہے جس کو دیکھ کر غیرمسلم اور تمام باغی خواتین قرآن وسنت کی تعلیم کو اپنا منشور بنالیں گی۔ اگر جمعیت علماء اسلام کے دھرنے میں سازش سے کچھ لوگ طالبان کے جھنڈے لاسکتے ہیں تو عورت آزادی مارچ میں بھی کچھ سازشی عناصر اپنے بیہودہ پوسٹر لاسکتی ہیں۔
ہم شیر و ہرن کو ایک گھاٹ پر پانی پلانے کی طرح علماء اور عورت آزادی مارچ کے آرگنائزروں کو اکٹھا کرینگے۔ ہم نے دیکھ لیا کہ مذہب مخالف جذبہ رکھنے والا کہہ رہا تھا کہ ”عورتوں کیوجہ سے میں مذہبی طبقہ سے مار نہ کھاتا اور ایک لڑکی تاڑ لی تھی کہ ہلا گلا ہو تواسے اٹھاکر رفو چکر ہوجاؤں”۔ یہ قائداعظم یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک سیکولرقوم پرست پختون کا حال تھا۔
مرد اور عورت زندگی کے جزو لاینفق لازم وملزوم ہیں اور دونوں کے درمیان ایک بالکل آزاد معاہدے کی سخت ضرورت ہے۔ترقی یافتہ ممالک نے عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق دئیے ہیں۔ عورت کو معاشرے میں قانون کے ذریعے تحفظ اور انصاف کا ماحول فراہم کیا ۔لیکن اسلام نے خواتین کو مساوی نہیں بلکہ زیادہ حقوق دئیے ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جب رشتہ کے بعد طلاق ہوجاتی ہے تو اس کے تمام برے نتائج کا خمیازہ عورت ہی کو بھگتنا پڑتا ہے۔ رسول اللہ ۖ نے خاتون کو مروجہ مذہبی فتویٰ دیا کہ شوہر کی طرف سے ماں کی پیٹھ سے تشبیہ دینے کے بعدعورت حرام ہوجاتی ہے تو اللہ نے اس خاتون کے حق میں فتوی دیدیا۔ اس سورة کا نام مجادلہ ہے۔ عورت کی طرف سے جھگڑنے کا معاملہ اللہ نے قرآن کی زینت بنایا۔ حضرت خولہ بنت ثعلبہ سے جب سامنا ہوتا توحضرت عمر احترام کیلئے کھڑے ہوجاتے،کیونکہ اسی کی وجہ سے سورۂ مجادلہ نازل ہوئی تھی۔
پدرِ شاہی کے نوکروں کی اوقات کیا ہے کہ خواتین کو اپنے حقوق مانگنے پر کھڑے ہوجاتے ہیں؟۔ پاک فوج کا کمال ہے کہ خود کش حملوں کا ماحول ختم کردیا ہے مگر مولوی تو اس کی تائید کرتا تھا، امن کی فاختہ مولاناطارق جمیل نے کہا تھا کہ دہشت گردوں اور ہمارے راستے الگ ہیں مگر منزل ایک ہے۔ دہشت گرد تبلیغی جماعت کا عسکری ونگ تھے۔
سور ةٔ النساء کی آیات نمبر21,20,19میں خواتین کے جن حقوق کا تحفظ ہے اگر اس کی سمجھ خواتین کو آجائے تو پوری دنیا میں اسلام کا ڈنکا بجانے میں دیر نہیں لگائیں گی۔
ایک غلط فہمی دور ہونی چاہیے کہ البقرہ کی آیت229 میں خلع کا کوئی تصور ممکن ہی نہیں ہے لیکن پدرِ شاہی نے یہ غلط تصور عرصہ سے مسلط کیاہے۔ خلع کا ذکر سورۂ النساء کی آیت 19میں ہے جہاں عورت کو نہ صرف جانے کا حق دیا گیا ہے بلکہ شوہر کی طرف سے حق مہر کے علاوہ تمام منقولہ جائیداد بھی لے جانے کا حق دیا گیا ہے، فحاشی کی صورت میں بھی بعض چیزیں لے جانے کا حق دیا گیا ہے۔ رخصت کرتے وقت اچھا برتاؤ رکھنے کی تلقین کی گئی ہے۔ جدائی کا یہ فیصلہ برا لگنے کے باوجود اللہ سے زیادہ خیر کی امید کا یقین دلایا گیا ہے۔ جبکہ آیات 21اور22میں طلاق کا حکم واضح کیا گیا ہے۔جس میں حق مہر کے علاوہ تمام دی ہوئی اشیاء منقولہ وغیرمنقولہ تمام دی ہوئی جائیداد میں سے کچھ بھی اس کا شوہر واپس نہیں لے سکتا ۔ جس کا ذکرالبقرہ آیت 229 میں بھی ہے۔ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے ان آیات کی تفسیر وترجمہ میں انتہائی دجل سے کام لیا ہے۔
خلع کی صورت میں عورت کو شوہر کی طرف سے دی ہوئی غیر منقولہ جائیداد سے دستبردار ہونا پڑے گا لیکن طلاق کا معاملہ بالکل جدا ہے۔ طلاق کی صورت میں گھر عورت ہی کا ہے اور دی ہوئی تمام منقولہ وغیرمنقولہ جائیداد بھی واپس نہ لینے کا بھی حکم ہے۔ کھلی فحاشی کی صورت میں گھر کا معاملہ الگ ہے لیکن اللہ نے شوہر کو اپنے مفاد کی خاطر بیوی کو تہمت کا نشانہ بنانے پر بے غیرتی و تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
عورت ماں بنتی ہے ، مردباپ بنتا ہے۔ماں بچوں کو پیٹ میں رکھنے سے دودھ پلانے اور بھوکے بچے کی خاطر بار بار نیند سے جاگتی ہے تو دوسری طرف باپ پر بہت سی ذمہ داریاں اللہ نے ڈالی ہیں۔ میری پہلی وائف سندھی ہیں جنکے آباد و اجداد کا تعلق لاڑکانہ اور شکار پور سے ہے۔ قوموں ، زبان اور کلچر کے فرق کے باوجود اپنی بیگمات سندھی اور بلوچ کی رفاقت بفضل تعالیٰ بالکل مثالی ہے۔ عورتوں کے حقوق ہی سے اسلام کا بول بالا ہوگا۔ حضرت یعقوب کی دوسری بیگم نہ ہوتی تو یوسف پیدا نہ ہوتے ۔ حضرت ابراہیم کی دوسری سے اسماعیل پیداہوئے۔ میں اپنے باپ کی تیسری بیگم کا بیٹا ہوں۔ہم صدیوں سے جس وزیرستان میں ہیں ۔ ہمارا کردار بھی کوئی مثالی نہیں ہے مگر خواتین کے حقوق کے حوالے سے بہت سی برائیوں سے ہمارا خاندان وزیرستان میں رہتے ہوئے بھی مختلف ہے۔ انشاء اللہ ہم اپنا پورا کردارادا کرنیکی کوشش کرینگے۔

عورت آزادی مارچ کا ترانہ اور قرآن کی زبردست تائید۔ عتیق گیلانی

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

عورت کو خلع کابھرپور حق

اللہ نے عورت کے حقوق پر سورۂ النساء میں فرمایا کہ
ولاترثوا النساء کرھا………..” اور عورتوں کے جبری مالک مت بن بیٹھو اور نہ ان کو اسلئے روکو کہ جو تم نے ان کو دیا ہے ،اس میںسے بعض لے اُڑو۔ مگر یہ وہ کھلی ہوئی فحاشی کا ارتکاب کریں اور انکے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں بری لگے اور اللہ اس میں تمہارے لئے بہت ساخیر رکھ دے”۔ (سورۂ النساء آیت نمبر19)
علمائِ حق اور خواتین کے حقوق میں سنجیدہ طبقہ یاد رکھ لے کہ اللہ نے عورت کو جن حقوق دینے کا اعلان کیا تھا، وہ ظالم سماج نے چھین لئے ہیں ۔ قرآن کے تراجم وتفاسیر کو غلط رنگ دیا گیا ۔ جس کی وضاحت بڑاانقلاب ہوگا۔
عربی، اردو میں ”عورت” بیوی کو کہتے ہیں۔ فرمایا: اذا طلقتم النساء ”جب تم عورتوں کو طلاق دو”۔جس سے بیویاں ہی مراد ہوسکتی ہیں۔ اسی طرح فرمایا کہ عورتوں کے مالک زبردستی سے مت بن بیٹھو اور اسلئے ان کو نہ روکو کہ جو کچھ تم نے ان کو دیا ہے ، بعض ان سے واپس لے لو۔
عربی ادب کی کتاب قرأت الراشدہ میں ایک چڑیا کی فریاد ہے جس کا ایک زبردست شعر یہ بھی ہے کہ
الحبس لیس مذہبی و ان یکن من ذہبی
” پنجرے کی قید میرا شغل نہیں ،اگرچہ سونے کا ہو”۔
کچھ سرپھری خواتین اسلام کو بدترین ”قید” سمجھ کر اپنی عورت آزادی مارچ منارہی ہیں۔ مسلمان خواتین دنیا بھر کی عورت آزادی مارچ کا حصہ اسلئے بن گئی ہیں کہ اسلام کو پدرِ شاہی کے پالتو ملاؤں نے بالکل غلط پیش کیا ہے۔ سب نہیں جانتے تو اب جان لیں کہ قرآن کے تراجم غیرمسلم کی طرف سے ہوئے تھے مگر مسلمانوں کے ہاں شاہ ولی اللہ نے پہلی مرتبہ ترجمہ کیا تو ملاؤں نے ان کو مرتد اور واجب القتل قرار دیا۔ دو سال تک ان کو روپوش رہنا پڑا تھا۔ شاہ ولی اللہ کے والد شاہ عبدالرحیم نے اورنگزیب کے” فتاویٰ عالمگیریہ ”میں کردار ادا کیا تھا۔ جس میں بادشاہ کیلئے تمام حدودمعاف قرار دئیے گئے ۔ قتل، چوری، زنا کوئی سزا بھی بادشاہ کو نہیں دی جاسکتی ہے۔ اگر اسلام کے درست احکام نافذ ہوتے تواپنے بھائیوں کے قاتل اورنگزیب بادشاہ بھی اسلامی عدالت میں بادشاہ بننے کے باوجود قصاص میں قتل کردئیے جاتے۔ یزید نے شہداء کربلا کے قاتلوں سے کوئی بدلہ لیا ہوتا تو یزید اس قدر بدنام نہ ہوتا لیکن پدرِ شاہی نظام بھی پھر باقی نہیں رہ سکتا تھا۔ حضرت عائشہ صدیقہ نے بھی حضرت عثمان کے قاتلوں کو سزائیں دلوانے کیلئے جنگ برپا کردی تھی۔ طاقتور کبھی سزا کھانے کیلئے تیار نہیں ہوتا ہے۔ فرعون نے ہزاروں بچے قتل کر ڈالے مگرسزا کھانے کا کوئی تصور نہیں رکھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے غلطی میں قتل کا ارتکاب ہواتھا لیکن آپ کو معاف نہیں کرنا تھا۔ اسلام نے قتل عمد اور قتل خطاء کی حیثیت جدا جدا رکھ دی ہے۔ کوئی بھی خوشی سے سزا کھانے کیلئے تیار ہوتا تو حضرت موسیٰ نے بھی راہِ فرار اختیار نہیں کرنا تھی۔ ایک طاقتور صحابی کے بچے نے دوسرے غریب صحابی کے بچے کا دانت توڑ دیا تو یہ قسم کھالی کہ اسکے بدلے میرے بچے کا دانت نہیں توڑا جائے گا۔ مگر نبیۖ نے انصاف ہی قائم کرنا تھا۔ پھر غریب صحابی نے بدلہ لینے کے بجائے معاف کردیا تو نبیۖ نے فرمایا کہ بعض لوگ اللہ کو اتنے محبوب ہوتے ہیں کہ وہ قسم کھالیں تو اللہ ان کی قسم کو پورا کردیتا ہے۔ (صحیح بخاری)
بصرہ کے گورنر حضرت مغیرہ ابن شعبہ کے خلاف چار افراد نے زنا کی عجیب وغریب گواہی دی ،جن میں حضرت ابوبکرہ صحابی بھی شامل تھے۔ آخری گواہ زیاد گواہی دینے آیا تو حضرت عمر نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ اللہ اس شخص کی وجہ سے نبیۖ کے صحابی کو اس ذلت کی سزا سے بچالے گا اور پھر جب وہ گواہی دینے لگا تو حضرت عمر نے بہت زور سے چلا کر کہا کہ تمہارے پاس کیا ہے؟۔ راوی نے کہا ،اس دھاڑ سے قریب تھا کہ میں بیہوش ہوجاتا۔ پھر زیاد نے کہا: میں نے ننگا کولہا دیکھا، عورت (ام جمیل) کے پاؤں اسکے کاندھے پر گدھے کی کان کی طرح پڑے تھے۔ جس پر عمر نے کہا کہ گواہی پوری نہیں ہوئی۔ پہلے تین افراد پر قذف کا حد جاری کیا اور پھر ان سے کہا کہ اگر تم اعتراف کرلو کہ ہم نے جھوٹ بولا ، تو آئندہ تمہاری گواہی قبول کی جائے گی۔
حضرت ابوبکرہ نے کہا کہ میں نے سچ کہا ،اگرآئندہ میری گواہی قبول نہیں کی جاتی تو مجھے کوئی پرواہ نہیں ۔ باقی دو افراد نے کہا کہ ہم نے جھوٹ بولا تھا۔ امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کے مسلک میں حضرت عمر نے پیشکش کی تھی اسلئے قرآن کی آیت میں جہاں جھوٹی گواہی دینے والے کی گواہی قبول نہ کرنے کا واضح ذکر ہے تو اس کا اطلاق توبہ کے بعد کی صورت پر نہیں ہوتا ہے۔ جبکہ حضرت امام ابوحنیفہ نے پدرِ شاہی نظام کی نفی کرکے واضح کیا تھاکہ قرآن کی آیت میں واضح ہے کہ جھوٹی گواہی دینے والے کی گواہی کبھی قبول نہیں کی جائے گی اسلئے حضرت عمر کے غلط فیصلے کی وجہ سے قرآن کی تعبیر نہیں بدلی جائے گی۔
صحیح بخاری کے مصنف نے بھی حضرت امام ابوحنیفہ کی مخالفت کا ٹھیکہ لے رکھا تھا اسلئے یہ واقعہ تمام کرداروں اور ناموں کیساتھ پیش کیا گیا۔ ائمہ اربعہ کے درمیان جس واقعہ کی بنیاد پر مسلکانہ اختلافات ہیں ،اس کی حقیقت عوام کو سمجھانے کی بہت سخت ضرورت ہے۔ ابوالاعلیٰ مودودی کوئی باقاعدہ عالم نہیں تھے اسلئے انہوں نے اپنی تفسیر میں لکھ دیا ہے کہ ” وہ عورت حضرت مغیرہ ابن شعبہ کی اپنی ہی زوجہ تھی”۔ پدرِ شاہی نظام کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ ”علم کی حقیقت کو عوام سے چھپانے کا وطیرہ بنالیا جاتاہے اور بے شعور لوگوں کے مذہبی جذبات کو ایک ہتھیار کے طور پر استحصالی طبقات کیلئے ناجائزہی استعمال کیا جاتاہے”۔
سورہ ٔ النساء کی آیت19میں واضح طور پر اللہ بیگمات کیلئے فرماتا ہے کہ ” عورتوں کے زبردستی سے مالک مت بن بیٹھو اور ان کو اسلئے جانے سے مت روکو کہ جو تم نے ان کو دیا ہے اس میں بعض واپس لے لو”۔ وزیراعظم عمران کے نکاح خواں مفتی سعید خان صاحب سے بالمشافہ ملاقات میں جب کہا کہ اس آیت میں جن عورتوں کے مالک بننے سے روکا گیا ہے ،انہی کے بارے میں یہ فرمایا گیاہے کہ ان کو اسلئے مت روکو کہ جو ان کو تم نے دیا، ان میں سے بعض مال واپس لے لو۔ تو مفتی سعیدخان نے کہا کہ یہ آپ کے نزدیک ہے؟، میں نے کہا کہ آپ ہی بتاؤ کہ ان سے کوئی دوسری عورتیں بھی مراد ہوسکتی ہیں؟۔ تو مفتی صاحب نے کہا کہ نہیں دوسری مراد نہیں ہوسکتی ہیں۔
جب پدرِ شاہی کے ایجنٹ علماء نے آیت کے ترجمے سے راہِ فرار کی گنجائش نہیں دیکھی تو تفسیر لکھ ڈالی کہ آیت کا پہلا جملہ ان خواتین سے متعلق ہے جنکے شوہر فوت ہوجاتے اور زمانہ جاہلیت میں لوگ انکے زبردستی سے مالک بنتے۔ دوسرا جملہ بیویوں سے متعلق ہے۔ حالانکہ دنیا کی کسی بھی زبان میں قرآن کا ترجمہ کرکے یہ باطل معنی مرادلینا ممکن نہیں ہے۔ ایسا کیوں کیا گیا ہے؟۔ اسکے پیچھے ایک بہت بڑا فلسفہ ہے۔ پدرِ شاہی میں مردوں کا عورتوںکو اپنی جاگیر سمجھنے کا تسلسل ہے جس کی قرآن نے بالکل نفی کردی ہے۔
جس دن دنیا نے سمجھ لیا کہ ” عورت مرد کی جاگیرنہیں ہے اور بیوی نہ صرف شوہر کو چھوڑ کر جانے کا حق رکھتی ہے بلکہ حق مہر کے علاوہ شوہر کی طرف سے دی گئی تمام منقولہ جائیداد بھی ساتھ لے جاسکتی ہے” تو دنیا کے تما م شوہروں کا رویہ خود بخود بالکل درست ہوجائیگا۔ ترقی یافتہ دنیا نے بھی پھر اسلام کے عادلانہ نظام کی طرف فوری آنا ہے۔
جب عورت کھلی فحاشی کی مرتکب پائی جائے توپھر شوہر کو (خلع) کی صورت میں بعض چیزیں واپس لینے کا حق ہے۔ پھر بھی تمام چیزیں واپس نہیں لے سکتا، ورنہ تو مرد کپڑے اور جوتے اترواکر ننگا کرنے کو بھی اپنا حق سمجھتے۔ کھلی فحاشی کی صورت میںبھی کسی کو حق مہر واپس لینے کا اللہ نے حق نہیں دیا ہے بلکہ حق مہر کے علاوہ دی ہوئی چیزوں کو واپس نہ لینے کا حکم دیا ہے۔جہاں تک حق مہر کا تعلق ہے تو اللہ نے اسکو ہاتھ لگانے سے پہلے نصف اور ہاتھ لگانے کے بعد پوراپورا دینے کا حکم واضح کردیاہے۔ ظالم سماج نے علماء کو بھی اپنا آلۂ کار بنالیا ہے اسلئے حق کو واضح نہیں کیا گیاہے۔
کاش ! خواتین اسلامی محاذ پر تھوڑی سی توجہ دیں تو پھر صدیوں کی منزلیں مہینوں میں مل سکتی ہیں۔ قرآن ان کے تحفظ سے بھرا پڑا ہے۔ حقوقِ نسواں کو بالکل نظر انداز کرکے قرآنی احکام کو بازیچۂ اطفال بنایا گیا ہے۔