پوسٹ تلاش کریں

علماء و مفتیان کی قرآن فہمی کی تصویر کا دوسرا رُخ اور حقیقت ۔ عتیق گیلانی

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

مُلاؤں نے ایک طرف فرض روزوں پر جس طرح کا حملہ کیا ہے اس کی جھلکیاں تصویر کے پہلے رُخ میں موجود ہیں۔اب ہم سفر کی نماز میں تصویر کا دوسرا رُخ دکھاتے ہیں تاکہ علماء حق اور حق کے طالب عوام الناس کی آنکھیں کھلیں اور قرآن کریم کی طرف اُمت مسلمہ بخوبی متوجہ ہوجائے۔
و اذا ضربتم فی الارض فلیس علیکم جناح ان تقصروامن الصلوٰة ان خفتم ان یفتنکم الذین کفروا ان الکافرین کانوا لکم عدوًا مبیناO و اذا کنت فیہم فاقمت لھم الصلوٰة فلتقم طآئفة منھم معک ولیأخذوا اسلحتھم فاذا سجدوا فلیکونوا من ورائکم ولتأت طآئفة اُخرٰی لم یصلوا فلیصلوا معک ولیاخذوا حذرھم و اسلحتھم ود الذین کفروا لو تغفلون عن اسلحتکم و امتعتکم فیمیلون علیکم میلة واحدة ولا جناح علیکم ان کان بکم اذًی من مطرٍ او کنتم مرضیٰ ان تضعوا اسلحتکم وخذوا حذرکم ان اللہ اعد للکٰفرین عذاب مھیناO فاذا قضیتم الصلوٰة فاذکروااللہ قیٰما و قعودًا و علیٰ جنوبکم فاذا اطماننتم فاقیموا الصلوٰة ان الصلوٰة کانت علی المؤمنین کتٰباً موقوتاًO (آیات ١٠١، ١٠٢، ١٠٣ ، سورة البقرہ)
اور جب تم سفر کرو زمین میں تو تم پر کوئی گناہ نہیں کہ نماز میں سے کچھ کم کرلو۔ اگر تمہیں ڈر ہو کہ فتنہ میں ڈالیں گے وہ لوگ جو کافر ہیں ۔ بیشک کافر تمہارے لئے کھلے دشمن ہیں۔ اور جب آپ ان میں موجود ہوں اور آپ ان کیلئے (باجماعت ) نماز قائم کریں تو ضرور ان میں سے ایک گروہ آپ کے ساتھ کھڑا رہے اور وہ اپنے ہتھیار بھی پاس رکھیں اور جب سجدہ کرلیں تو یہ لوگ آپ کے پیچھے ہوجائیں اور آئے دوسرا گروہ جنہوں نے نماز نہیں پڑھی تو وہ آپ کے ساتھ نماز پڑھیں اور حاضر دماغ رہیں اور اپنا اسلحہ اپنے ساتھ رکھ لیں۔ جو لوگ کافر ہیں وہ چاہتے ہیں کہ اگر تم اپنے اسلحہ اور اپنے سامان سے غافل ہوجاؤ تو ایک دم تم پر حملہ کردیں۔ اور تمہارے اوپر کوئی گناہ نہیں اگر تمہیں بارش کی وجہ سے تکلیف ہو یا تم بیمار ہو کہ اپنا اسلحہ رکھ لو۔ مگر حاضر دماغی سے کام لو۔ بیشک اللہ نے کافروں کیلئے ذلت آمیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔ اور جب تم نماز پوری کرچکو تو اللہ کو یاد کرو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے ہوئے۔ پس جب تمہیں اطمینان ہوجائے تو نماز قائم کرو۔ بیشک نماز مؤمنوں پر مقررہ وقتوں پرفرض ہے۔(النساء 103-102-101)
ان آیات میں سفر کی نماز کا حکم بیان کیا گیا ہے۔ جس میں واضح الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہارے اوپر کوئی حرج نہیں کہ اگر سفر میں نماز میں سے کچھ کم کرو۔ جس کا مطلب آسانی سے ہر کوئی سمجھ سکتا ہے کہ قصر کرنا اللہ نے فرض نہیں قرار دیا ہے بلکہ اس کی اجازت دی ہے۔ علماء کا حال یہ ہے کہ مقتدیوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہوتی ہے اور وہ سب کے سب مسافر نہیں مقیم ہوتے ہیں مگر کوئی امام مسافر ہوتا ہے تو وہ اپنی قصر پڑھ کر فارغ ہوجاتا ہے جسکے بعد مقتدیوں کو اپنی نماز خود پوری کرنی ہوتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ دوسرے مسالک کے نزدیک سفر میں قصر کرنا جائز ہے اور احناف کے نزدیک فرض ہے۔ حالانکہ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے سفر کی حالت میں پوری نماز بھی پڑھی ہے اور قصر بھی پڑھی ہے۔
پھر احناف کا یہ بھی مسئلہ ہے کہ مسافر امام اپنی قصر نماز کے بعد سلام پھیرے گا اور مقیم مقتدی اپنی نماز پوری کریں گے اور بقیہ نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنے کے بجائے خاموش ہی رہیں گے۔ عام طور پر نماز جنازہ اور نماز عید کا طریقہ کار بتایا جاتا ہے مگر مسافر امام کے پیچھے مقیم مقتدیوں کو کسی قسم کی تلقین بھی نہیں ہوتی ہے۔ شاید وہ اس سردردی کا احساس بھی رکھتے ہیں۔ فرض روزوں کو ایک ایک مسکین کا کھانا کھلانے کی بنیاد پر ساقط کرنے والے کیا ہی اچھا کرتے کہ مسافر امام صاحبان قرآنی آیات کو دیکھ کر قصر کے بجائے مقتدیوں کی خاطر پوری ہی نماز پڑھ لیتے۔ اگر ان پر دباؤ پڑ جائے تو دوسرے مسالک پر عمل بھی کرگزریں گے۔
سفر کی نماز کے حوالے سے قرآن میں جہاں قصر کا ذکر ہے وہاں نمازِ خوف کا بھی ذکر ہے۔ نمازِ خوف کیا ہے؟ تو اس کا حکم اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی بیان کردیا ہے۔فرمایا کہ
حٰفظوا علی الصلوٰت و الصلوٰة الوسطیٰ وقوموا للہ قانتینO فان خفتم فرجالاً اورُکباناً فاذا امنتم فاذکروا اللہ کما علمکم مالم تکونوا تعلمونO البقرہ 140-139
نمازوں کی محافظت کرو خاص طور پر بیچ کی نماز کی اور اللہ کے آگے تواضع سے کھڑے ہوجاؤ۔ پھر اگر تمہیں خوف ہو تو پیدل چلتے چلتے پڑھ لو یا سوار ہوکر پڑھ لو۔ پھر جب تم خوف سے امن پالو تو اللہ کو یاد کرو (نماز) جس طرح سے تمہیں سکھایا گیا جو تم نہیں جانتے تھے۔( البقرہ)
ان آیات کے سیاق و سباق میں کسی جنگ کا ماحول نہیں بلکہ جس قسم کا بھی خوف ہو اس میں باقاعدہ سجدہ اور رکوع وغیرہ کے بجائے پیدل یا سوار ہوکر چلتے چلتے نماز کا حکم دیا گیا ہے۔ عام طور پرسفر میں امن کی حالت ہو تو پھر نماز قصر کی گنجائش ہے اور جب خوف کا عالم ہو تو پھر اس کا بیان ہوچکا ہے جس میں قیام رکوع سجود کا تصور نہیں۔
سورہ نساء میں بھی سفر کی نماز میں قصر کے بعد خوف کی نماز کا ذکر ہے جس کا حکم سورہ بقرہ میں پہلے سے واضح تھا۔ پھر سفر کی حالت میں یہ تلقین ہے کہ جب نبی ۖ نماز کے قیام کا اہتمام فرمائیں تو صحابہ دو گروہوں میں تقسیم ہوں۔ ایک گروہ مستقل حفاظت کررہا ہو جس کیلئے اسلحہ اٹھانا ایک فطری بات ہے۔ مگر جو گروہ نبی ۖ کے ساتھ نماز میں شریک ہو تو اس کو بھی حاضر دماغی اور اسلحہ ساتھ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ پھر جب وہ ایک رکعت مکمل کرلیں تو پھر پیچھے ہٹ جائیں اور جنہوں نے نماز نہیں پڑھی ہے وہ نماز میں شریک ہوں۔ جس کیلئے نماز کے اندر بھی حاضر دماغی اور اسلحہ ساتھ رکھنے کی وضاحت ہے۔ کیونکہ کافر تاک میں رہتے تھے کہ موقع ملے اور ایک دم حملہ کردیں۔ ایک ہائی ویلیو سیکیورٹی کا تقاضہ یہی تھا کہ سفر میں بھی پہلے تو باجماعت نماز نہ پڑھی جائے۔ نبی ۖ نے انفرادی نمازیں پڑھی ہیں جبھی تو حضرت عائشہ نے قصر اور غیر قصر کا ذکر کیا ہے۔
اگر نبی ۖ نماز پڑھانے کا فیصلہ کریں تو ساری توجہ آپۖ کی حفاظت پر مرکوز کرنے کیلئے ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ پھر بارش کی وجہ سے اذیت یا مریض ہونے کی حالت میں اسلحہ رکھنے کی بھی اجازت دی گئی ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ جب تم نماز پوری کرچکو تو قیام ، بیٹھنے کی حالت اور لیٹنے کی حالت میں اللہ کا ذکر کرو۔ اسلئے کہ خلاف معمول خوف کی نماز میں قیام و رکوع و سجود کا اہتمام نہیں ہوسکتا ہے۔ پھر یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ جب تم اطمینان کی حالت میں آجاؤ تو معمول کے مطابق نماز کو قائم کرو۔ اسلئے کہ وقت کے مطابق نماز مؤمنوں پر فرض کی گئی ہے۔ یہ آیات لڑائی اور جنگ سے متعلق نہیں کیونکہ یہ خلاف فطرت ہے کہ دشمن قتل و غارت کررہا ہو اور آدمی پھر بھی اس کے سامنے قیام و رکوع اور سجود کا فرض ادا کرے۔
خوف کا کوئی تعین نہیں۔ لٹیروں کا خوف ہو ، بیماری کا خوف ہو، جنگلی جانوروں کا خوف ہو اور کسی قسم کا بھی خوف ہو ، جس میں قیام ، رکوع اور سجود کرتے وقت خدشات بڑھ جائیں ۔ یہ نماز فرض کرنیوالے کی طرف سے وضاحت ہے۔ رسول اللہ ۖ اور صحابہ کرام موجودہ مذہبی لوگوں کی طرح جاہل نہیں تھے کہ بدر و اُحد میں باقاعدگی سے نماز کا اہتمام کرتے اور دشمنوں کو موقع دیتے بلکہ خندق کھودتے وقت بھی نمازیں قضاء ہوئی تھیں جب باقاعدہ جنگ شروع نہیں ہوئی تھی۔ حضرت امام حسین کیلئے بھی جن لوگوں نے کہانیاں گھڑی ہیں وہ قرآنی آیات کو غور سے دیکھیں اور سمجھ کر اپنے مؤقف پر نظر ثانی کریں۔ علامہ اقبال مجاہد نہیں ایک شاعر تھے۔ اسلئے شاعرانہ کلام میں جذبات کی لڑیاں باندھنے کیلئے عین لڑائی میں وقت نماز اور سر بسجود ہونے کی بات کی ہے۔ مفتی منیب الرحمن نے کورونا کے حوالے سے میڈیا پر جو بیان دیا تھا کہ عین لڑائی میں بھی نماز فرض ہے تو یہ اس کی جہالت کی بہت بڑی دلیل ہے۔ خدارا ! علماء کرام اور مفتیان عظام قرآن دیکھ کر عوام کی رہنمائی کریں۔

علماء و مفتیان کی قرآن فہمی کی تصویر کا پہلا رُخ اور حقیقت۔ عتیق گیلانی

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

فرض روزوں کے بارے میں
یا ایھا الذین اٰمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون Oایاما معدودات فمن کان منکم مریضا او علی سفر فعدة من ایام اخر و علی الذین یطیقونہ فدیة طعام مسکین فمن تطوع خیرا فھوا خیر لہ و ان تصوموا خیر لکم ان کنتم تعلمونO١٨٣۔١٨٤
اے ایمان والو! تمہارے اوپر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے ۔ ہوسکتا ہے کہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔ یہ گنتی کے دن ہیں۔ پس جو تم میں کوئی مریض ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرے اور جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہیں تو ان پر فدیہ ہے مسکین کا کھانا اور جو کوئی بھلائی کرے تو یہ اس کیلئے بہتر ہے۔ اور اگر تم روزہ رکھو تو تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم سمجھ رکھتے ہو۔ (آیت 184-183 ، سورة البقرہ۔ )
ان آیات میں روزے فرض کرنے کی وضاحت ہے جس طرح پہلے لوگوں پر روزے فرض کئے گئے تھے۔ فرض کا کوئی متبادل نہیں ہوتا ہے پھر وضاحت ہے کہ تم میں سے کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو تو روزے چھوڑ کر دوسرے دنوں میں رکھ سکتا ہے۔ چونکہ مرض اور سفر کی حالت میں مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے اسلئے روزوں کا متبادل دوسرے دنوں میں قضاء روزے رکھنے کی وضاحت کی گئی ہے۔ حالت سفر یا مرض میں دو قسم کے لوگ ہوسکتے ہیں، غریب اورامیر۔ جو غریب ہیں ان میں فدیہ دینے کی طاقت نہیں ہوتی ہے اور جو امیر ہوتے ہیں ان میں فدیہ دینے کی طاقت ہوتی ہے۔ غریب کو فدیہ دیا جاتا ہے اور امیر فدیہ دیتا ہے۔ سفر یا مرض کی حالت میں اللہ تعالیٰ نے جو رعایت دی ہے تو پھر ضروری نہیں ہے کہ زندگی میں پھر کبھی روزہ رکھنے کا موقع بھی مل جائے اسلئے اللہ نے فدیہ کی طاقت رکھنے والوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ایک روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا بھی کھلائیں اور اگر اس سے زیادہ بھلائی کریں تو پھر یہ ان کیلئے زیادہ بہتر ہے۔ انسان عبادت اور مشقت سے راہ فرار اختیار کرنے میں بہت حیلے بہانے تراشتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ انسان کی نفسیات سے خوب آگاہ ہے۔ اسلئے اس کو جہاں سفر اور مرض کی حالت میں روزے کی رعایت دی ہے وہاں پر اس بات کا بھی اظہار فرمایا ہے کہ اگر تم روزے رکھو تو یہ تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے تاکہ جس سفر اور مرض کی حالت میں انسان کو زیادہ تکلیف نہ ہو تو وہ روزوں سے راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش اور حیلے بہانوں سے بھی باز رہے۔ اسلئے فرمایا کہ اگر تم روزہ رکھ لو یعنی آسان سفر اور معمولی مرض کی حالت میں تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔
علماء نے کمال کج فہمی سے کام لے کر لکھ دیا ہے کہ اس میں اللہ نے سفر اور مرض کی حالت میں روزوں کو مؤخر کردیا ہے لیکن جو لوگ روزہ رکھنے کی عام حالت میں طاقت بھی رکھتے ہیں تو ان کیلئے ایک مسکین کا کھانا کھلانا ہے۔ یہ ان کی کج فہمی ، کم عقلی اور مفاد پرستی میں اندھے پن کی انتہا ہے اور اس کی وجہ سے قرآن فہمی کا بیڑا غرق کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ مزدور اگر اپنی دیہاڑی آٹھ سو یا ہزار روپے لیتا ہو اور ایک سو روپے سے اس کیلئے روزہ معاف ہوسکتا ہو تو پھر وہ ایک سو روپے فدیہ دے کر پانچ سو کا اوور ٹائم کرلے گا۔
قرآن کے تراجم میں غلط بیانی کرکے بہت سے امیر لوگوں کیلئے مُلا کو سو روپے دینے کے بدلے روزہ معاف کیا گیا ہے۔ مُلاؤں کو ہر چیز میں جاگیرداروں و سرمایہ داروں کیلئے رعایت کا پہلو نظر آتا ہے۔ وہ ان پر فدیوں کی بارش کرتے ہیں اور یہ ان کو روزوں میں رعایت فراہم کرتے ہیں۔ قرآن کی ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ٹھوس احکام کو بیان کیا ہے۔ بعضوں نے ان کو منسوخ قرار دیا ۔
اللہ تعالیٰ نے روزوں کے بارے میں ان آیات کے اندر انسانی فطرت اور اسلامی احکام کی زبردست وضاحت اور رہنمائی فرمائی ہے تاکہ سفر اور مرض کی حالت میں آئندہ کے ایام تک روزے مؤخر کرنے کی رعایت بھی پیش نظر ہو اور اس رعایت کا فدیہ بھی ادا کیا جائے اور غلط فائدہ بھی نہ اٹھایا جائے۔ عوام اور مولوی اس کو باربار پڑھیں۔
اللہ تعالیٰ تمام معاملات میں اُمت مسلمہ کو اعتدال اور میانہ روی پر کاربند رکھتا ہے۔ بعض ایسے خبطی قسم کے لوگ بھی ہوتے ہیں جو الفاظ پڑھ کر اس کی غیر فطری منطق سے خود کو بہت مشقت میں ڈال دیتے ہیں۔ اگر یہی آیات ہی ہوتیں تو پھر بعض متشدد اور خبطی قسم کے لوگ بہر صورت روزہ رکھتے اور کہتے کہ بیماری اور سفر کی حالت میں خواہ کتنی زیادہ تکلیف کیوں نہ ہو لیکن جب اللہ نے کہا ہے کہ روزہ رکھنے میں تمہارے لئے زیادہ بہتری ہے تو پھر روزہ ہی رکھنا ہے اور اس قسم کے لوگوں کی جاہل دینداروں میں کمی نہیں۔
اسلئے اللہ تعالیٰ نے اُمت مسلمہ کو اعتدال پر ڈالنے کی روایت اور اپنی سنت پر قائم رہتے ہوئے آگے فرمایا کہ
شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ھدی للناس و بینات من ھدیٰ و الفرقان فمن شھد منکم اشھر فلیصمہ ومن کان مریضا او علیٰ سفر فعدة من ایام اخر یرید اللہ بکم الیسرولا یرید بکم العسر ولتکمل العدة ولتکبروا اللہ علیٰ ما ھداکم و لعلکم تشکرونO ١٨٥
رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن اُتارا گیا ہے۔ لوگوں کی ہدایت کیلئے اور ہدایت کے دلائل کیلئے اور تفریق کیلئے(حق و باطل کے درمیان) ۔ پس جو تم میں سے اس مہینے کو پالے تو وہ روزہ رکھے۔ اور جو کوئی مریض ہو یا سفر میں ہو تو وہ گنتی پوری کرے دوسرے دنوں میں۔ اللہ تعالیٰ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر مشکل نہیں چاہتا ہے اور تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو ۔ اور اللہ کی بڑائی بیان کرو جو اس نے تمہاری رہنمائی کی ہے۔ اور ہوسکتا ہے کہ تم اس پر شکر ادا کرو۔ (کھلی وضاحتوں پر ) آیت 185البقرہ۔
کاش! علماء کرام اور مفتیان عظام قرآن کے متن کی طرف خصوصی توجہ دیں ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اللہ نے جب نہ صرف روزوں کو فرض قرار دیا بلکہ پہلی اُمتوں کی طرح ہم پر فرض قرار دیا تو اس آیت میں فرض کا متبادل کیا فدیہ ہوسکتا ہے؟۔ یا آیت کو منسوخ قرار دیا جاسکتا ہے؟۔
ظاہر ہے کہ حالت سفر یا مرض میں جہاں روزوں کو دوسرے ایام تک مؤخر کرنے کا ذکر ہے وہاں طاقت رکھنے والوں کیلئے فدیہ دینے کا بھی حکم ہے۔ اور اگر ہوسکے تو پھر زیادہ بھلائی کرنے کی بھی ترغیب ہے۔ جس طرح بھلائی کی ترغیب ہے اسی طرح روزہ رکھنے کی بھی ترغیب ہے۔
پھر اگلی آیت میں ایک طرف تو روزہ رکھنے کی پوری ترغیب اور حکم ہے اور جن گدھوں سے خدشہ تھا کہ رعایت سے غلط مراد لیں گے تو ان کی باطل تاویلات کا راستہ روکا گیا ہے اور ساتھ میں اس بات کی بھی وضاحت کی گئی ہے کہ اللہ تمہارے لئے آسانیاں پیدا کرتا ہے مشکلات نہیں۔
پوری دنیا میں چاند ایک ہے اور مشرق و مغرب میں ایک ہی روزہ ہوتا ہے لیکن پاکستان کے علماء و مفتیان نے اپنی شریعت اپنی حکومت کے پلو میں باندھ دی ہے۔ جس کا کھاؤ اس کا گاؤ کی منطق پر عمل کے نتیجے میں دنیا روزہ رکھتی ہے اور ہم رمضان کیلئے ایک ایسے ہلال کمیٹی کے چیئر مین کے محتاج ہوتے ہیں جو کبھی چاہے تو رات 9بجے فیصلہ کر دے کہ چاند نظر نہیں آیا اور چاہے تو 11بجے فیصلہ کردے کہ چاند نظر آگیا ہے۔ ریاست کا تعلق نظام مملکت سے ہی ہوتا ہے۔ اور اسلام کا نظام مملکت پوری دنیا میں جب ایک ہی خلافت ہے تو ریاستوں کو اس دورِ جدید میں الگ الگ روزے رکھنے اور عید منانے کی گنجائش ہے یا نہیں؟۔ غور کرنا چاہیے۔”عصر حاضر” مولانا یوسف لدھیانوی شہید کی کتاب میں لکھا ہے کہ عن انس۔ رفعہ ۔ من اقتراب الساعة ان یریٰ الہلال قبلاً فیقال لیلتین و ان تتخذ المساجد طرقا و ان یظھر موت الفجاء ة…”
قرب قیامت کی ایک نشانی یہ ہے کہ چاند پہلے سے دیکھ لیا جائیگا اور کہا جائیگا کہ یہ دوسری تاریخ کا ہے۔ …
ایک طرف سائنس نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ پہلے سے چاند نظر آتا ہے اور دوسری طرف ہٹ دھرمی کا یہ حال ہے کہ ہر ایک سمجھتا ہے کہ چاند دو دن کا ہے ۔ حالانکہ ایسے چاند کیلئے ہلال کمیٹی اور اس پر خرچے کی ضرورت ہے؟۔

ہم نے ایک ماہ میں‌ووہان کا ریکارڈ توڑا اور نمبر 2 پر آگئے. ہدیٰ بھرگڑی

ہدیٰ بھرگڑی:

رات کے ساڑھے 12بج رہے ہیں،آپ میں سے کئی لوگ نیند میں ہونگے۔ شاید کافی لوگ جاگ رہے ہونگے ۔ آج کے دن میں ہم نے ووہان سٹی کا ریکارڈ پاس کرلیا۔اور دنیابھر میں پاکستان اس وقت دوسرے نمبر پر ہے۔ پچھلے ایک مہینے کے اندر 500%کیسز کی تعداد بڑھی ہے۔ میں اس وقت اسلام آباد میں ہوں اور میرے گھر کی ساتھ والی گلی جو کہ 11-E میں ہے وہ سیل ہوچکی ہے اور آہستہ آہستہ ہم سب کی محفوظ پناہ گاہیں کورونا پوزیٹیو کے گھیرے میں آرہی ہیں۔ مجھے اس وقت 24سے 26ہزار لوگ فالو کرتے ہیں ۔ آپ وہ لوگ ہیں جنہوں نے مجھے بہت سپورٹ کیا ۔ میرے ساتھ ہر قدم پر رہے ہیں، میری بات کو آپ نے اہمیت دی، آپ نے مجھ سے اختلاف رائے بھی رکھا ہوگا میری باتوں پر مجھے سپورٹ بھی کیا ہوگا۔لیکن اس وقت ملک میں جس چیز کی کمی ہے اور جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ ہے ایک پالیسی ریفارم کی او رابھی تک ہمیں یہاں کوئی پالیسی میں اصلاحات بالکل بھی نظر نہیں آرہی ہیں۔ 2020یہ سال جس میں ہم رہ رہے ہیں اس نے ہماری نظریں اور ہمارا دماغ کھول دیا ہے اور ہمیں یہ بھی بتادیا ہے کہ جو فیصلے ہم نے کئے ہیں اپنی حکومت سازی کیلئے وہ تمام فیصلے بہت بری طریقے سے فیل ہوچکے ہیں۔ میں کام کے سلسلے میں راولپنڈی اسلام آباد گئی ہوں ، میںہسپتالوں میں بھی جاچکی ہوں کام کے سلسلے میں اور چونکہ سوشل ورکر کے طور پر کووڈ رسپونس پر کام کرہی ہوں تو میرا اپنا تجزیہ اور آنکھوں دیکھا تجربہ ہے جو میں نے دیکھا کہ آہستہ آہستہ ہم سب کے سب Death Row پر آرہے ہیں اور Death Row کا مطلب یہ ہے کہ ہم سب کے سب بس اب موت کے انتظار میں ہیں۔ ایک ماہ میں 500%کیسز کا بڑھ جانا ، عید کے دنوں میں لاک ڈاؤن کو چھوڑنا اور اس وقت جو صورتحال ہے کہ آپ کے بڑے بڑے شہروں میں تو پالیسی ہے دکانیں بند ہورہی ہیں پولیس چل رہی ہے سب کچھ ہورہا ہے لیکن اگر آپ چھوٹے چھوٹے شہروں میں چلے جائیں جیسا کہ راولپنڈی ہے جہاں میرا ایک دو دن پہلے چکر لگا تھا تو آپ اکا دُکا لوگوں کو ماسک پہنا ہوا دیکھیں گے ، اِکا دُکا لوگ سوشل ڈسٹنسنگ کررہے ہیں ۔ ہر چیز، ہر مارکیٹ، ہر روڈ، ہر بازار ، ہر راستہ بالکل معمول کے مطابق چل رہا ہے جیسا کہ کچھ غلط اس ماحول میں ہے ہی نہیں۔ ہم اس طرح سے دکھاوا کررہے ہیں اور اس طرح کے Denialمیں ہیں کہ ہمیں کچھ ہوگا ہی نہیں، ہم بچ جائیں گے۔ آسمان سے کوئی قوت اتریگی کچھ ہوگا کہ ہم پاکستانیوں کو اس پوری صورتحال سے بچالے گی۔ میرا اس ویڈیو کے بنانے کا مقصد یہ ہے کہ آپ سب لوگ جنہوں نے مجھے ہمیشہ سنا ہے ، مجھے سپورٹ کیا ہے، میری بات کو کچھ اہمیت دی ہے میں آپ سے درخواست کرتی ہوں ، اپیل کرتی ہوں کہ کل شام (5جون)آپ سب لوگ 5بجے سے لیکر 7بجے تک Twitterکے اوپر #ImposeCompleteLockdownکے ہیش ٹیگ کے ساتھ اس ٹویٹر کیمپیئن میں حصہ لیں اور اس سوشل میڈیا کو ٹول بنائیں تاکہ ہم اپنے اس احتجاج کو ریکارڈ کرسکیں کہ خدارا اس ملک کے اندر مکمل لاک ڈاؤن کو نافذ کیا جائے۔ اب اس کیلئے دلیل یہ دی جائے گی کہ ڈیلی ویجز کو کام نہیں ملے گا۔ ڈیلی ویجز کے پاس پیسے نہیں ہونگے۔ تو اس کا جواب بس اتنا سا ہے کہ جو10 بلین جمع کئے تھے پاکستان کی عوام نے ڈونیشن دیکر پیسے دیکر تاکہ ان سے کورونا وائرس کے جو متاثرین ہیں ان کو کسی قسم کی کوئی مددفراہم کی جائے ان 10بلین پاکستانی روپے سے Circular Deathہے وہ چکایا گیا ہے۔ تومطلب یہ ہے کہ ڈیلی ویجز اور غریب کوپیسے تو آپ نے ویسے بھی نہیں دینے تو کم سے کم انہیں موت کا تحفہ تو نہ دیں۔ غریب کی تو آپ نے مدد نہیں کرنی ۔ آپ نے تو صرف اور صرف سرمایہ داروں اور فیکٹری مالکان کو سہولت دینی ہے۔ آپ نے صرف Big Giant بڑے بڑے دیو جو کہ اشرافیہ ہیں اس ملک کے آپ نے تو ان کو سہولت دینی ہے ۔ جب آپ نے غریب کو کچھ دینا نہیں تو کم سے کم ان کو مرنے کی اتنی چھوٹ تو نہ دیں۔ اس طرح آزاد تو کم سے کم نہ پھرنے دیں۔ اگر کچھ دے نہیں سکتے تو اس کا مطلب یہ تھوڑی ہے آپ ان کو شکار اورر چارے کے طور پر کمزور حالت میں چھوڑیں۔ یہ کس طرح کا پالیسی ریفارم ہے؟ یہ کوئی پالیسی بھی ہے کہ نہیں ؟ میں عام انسان ہوں، ایک عام اسٹوڈنٹ، ایکٹیوسٹ ہوں، میرے پاس اتنا زیادہ پاور نہیں لیکن کم سے کم دماغ ہے اور دماغ یہ دلیل دے رہا ہے کہ ہماری حکومت کر کیا رہی ہے۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں۔ یہ کیا پالیسی چینج ہوگا ؟ آپ نے ایک مہینے میں ووہان کا ریکارڈ توڑ دیا اور نمبر 2پر آگئے ہیں۔ آخر کیا ہے جو آپ کو سمجھ میں نہیں آرہا؟۔ تو میں تمام لوگوں سے درخواست کرتی ہوں اس سے پہلے کہ موت کا شکار ہوں، موت کی لکیر کے قریب پہنچ جائیں ، زندگی کی بقاء ا س ملک میں نا ممکن ہوجائے ، اب یہ وقت ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے ہم سب کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ چھوٹے بچوں کو … پرائیویٹ اسکول تو اسکول کھولنے کی باتیں کررہے ہیں ظاہر سی بات ہے انہیں فیس چاہئے۔ ان کو پیسے چاہئیں ان کو کوئی پرواہ تھوڑی ہے کہ چھوٹے بچوں کو کچھ ہوتا ہے اگر وہ ہلاک ہوجاتے ہیں تو ہوتے رہیں ۔ سرمایہ داری کا بس پہیہ نہیں رکنا چاہیے،جو سرمایہ مارکیٹ ہے بس وہ چلتا رہنا چاہے بیشک وہ مارکیٹ کا پہیہ غریب عوام کے خون پر ہی کیوں نہ چلے مگر اسے چلانا چاہیے۔ اگر یہ اس وقت کی پالیسی ہے تو بہت ضروری ہے کہ ہم اس پالیسی کو رد کریں اور ہم اپنی آواز اٹھائیں۔ مجھے پتہ ہے کہ ہم اسوقت بہت ہی زیادہ انتشار کا شکار ہیں ۔ ہمارے سامنے روزانہ سوشل میڈیا پر کوئی نہ کوئی نیا پروپیگنڈہ آجاتا ہے جس میں ہم سوشل میڈیا کو استعمال کرکے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ ہماری بقاء اور مزاحمت کی جنگ ہے۔ اب جو سوال ہے وہ یہ ہے کہ کیا آپ خود کو ، اپنے گھر والوں کو، اپنے بوڑھوں کو بزرگوں کو بچاسکتے ہیں یا نہیں بچاسکتے؟۔ میں ان تمام لوگوں سے درخواست کرتی ہوں جو مجھے فالو کرتے ہیں اور ان سے بھی جو مجھ سے نفرت کرتے ہیں صرف ایک بار صرف ایک بار ہمیں یہ فیور دیں کہ ہمیں جائن کریں اور ملک میں کل(5جون( سے مکمل لاک ڈاؤن کی حمایت کریں۔ برائے مہربانی ہماری اس کیمپئن میں شامل ہوجائیں اور ٹویٹر پر 5بجے سے 7بجے تک ایک طوفان کھڑا کردیں۔ کم سے کم ہمیں یہ دکھ نہیں ہوگا کہ ہم نے اپنی طرف سے یا اپنا احتجاج حکومت وقت کے سامنے نہیں رکھا۔ آپ لوگوں نے مجھے ہمیشہ سپورٹ کیا ہے اور میں امید کرتی ہوں کہ اس وقت بھی آپ مجھے سپورٹ کرینگے۔آپ مجھے سپورٹ کریں میری خاطر نہیں بلکہ اپنی خاطر۔ اپنے مستقبل کی بقاء کیلئے، ان لوگوں کیلئے جن کو آ پ تحفظ دینا چاہتے ہیں ،اپنے بچوں کیلئے، اپنے ان پیاروںکیلئے جن کی آپ تدفین بھی نہ دیکھ سکیں۔

پاکستان سے اسلام کی نشاة ثانیہ کا آغازمگرسمجھو توسہی! عتیق گیلانی

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم اسلئے نازل نہیں فرمایا کہ یہ مذہبی طبقے کا ایک کاروبار بن جائے۔ مسٹنڈے لوگ فرقہ واریت کے نام پر ایکدوسرے کی مخالفت کا بازار گرم کرکے نفرتوں کے بیج بوتے رہیں اور اپنا کاروبار چمکائیں اور عوام رشد وہدایت کی دولت سے محروم رہے ۔یہ تو قیامت تک لوگوں کی ہدایت کا آخری ذریعہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے نبیۖ سے فرمایا کہ انک لاتھدی من احببت ” بیشک آپ ہدایت نہیں دے سکتے جس کو چاہیں”۔روایت میں ابوطالب نے آپۖ کی چاہت کے باوجود اسلام قبول نہ کیا۔ نبی ۖ نے عمر بن خطاب و عمرو بن ہشام عمروین میں ایک کیلئے ہدایت مانگی جو عمر بن خطاب کے حق میں قبول۔ عمرو بن ہشام ابوجہل ہی رہا۔ عرب دو الگ ناموں کوایک کرتے ۔ حسنین کا معنی دو حسن ہیں اور مراد حسن و حسین ہیں۔ عمرو اور عمر دو الگ نام ہے۔ آخر میں واؤ لگانے سے عمر و کا تلفظ اردومیں عمروعیار غلط مشہور ہے۔ یہ عَمر ہے اور بغیر واؤ کے عُمر ہوتا ہے۔
رسول اللہ ۖ کے ذریعے اللہ نے اقدار دکو بدل دیا تھا۔ نسب وسرداری اور دنیا داری ومالداری کو سب کچھ سمجھنے والے ابوجہل، ابولہب، امیہ، عتبہ اور ابوسفیان وغیرہ کے مقابلے میں بلال حبشی، صہیب رومی، سلمان فارسی اور حضرت ثوبان وغیرہ کے کردار نے عزت اور جگہ بنالی۔ حضرت ابوبکر و عمر ، حضرت عثمان و علی اور حضرت حسن نے خلافت راشدہ کا اعزاز حاصل کیا۔ اہلسنت اور اہل تشیع دونوں نے حضرت حسن کی شخصیت کو خاص وہ اہمیت نہ دی، جسکے وہ مستحق تھے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ”خبردارظلم نہ کرنا، خبردارظلم نہ کرنا، خبردار ظلم نہ کرنا ! میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایکدوسرے کی گردنیں مارنے لگو”۔جنگ جمل وصفین میں ایک دوسرے کی گردنیں ماریں ۔آج تلخ یادوں کو مختلف انداز میں زندہ کیا جارہا ہے اور نبیۖ نے فرمایا تھا کہ میرے بیٹے حسن کے ذریعے اللہ مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کروادے گا۔ حضرت حسن کے کردار سے خونریزی رُک گئی مگر طرزِ خلافت امارت میں بدل گیا۔ بنوامیہ پھر بنوعباس نے اقتدار کوخاندانی بنیاد پر قابو میں رکھا۔
جب خلافت کے استحقاق پر بحث چل پڑی تو دیندارطبقہ بنوعباس سے زیادہ اہلبیت کو حکومت کا حقدار قرار دیتاتھامگر ابن الوقتوں نے فیصلہ کیا کہ اہلبیت نبی ۖ کے چچازاد علی کی اولاد ہیںاور بنوعباس نبیۖ کے چچا عباس کی اولاد ہیں جس کی وجہ سے بنوعباس خلافت کے زیادہ حقدار ہیں۔ حضرت ابوطالب کو غیرمسلم قرار دینے کیلئے کہانی گھڑی گئی یا حقیقت تھی؟ مگر بنوعباس کے خلفاء کو سپورٹ کیا گیاتھا۔ پھر یہ بھی بھول بیٹھے کہ چچا اور بھتیجے کی اولاد کی بنیاد پر خلافت کے استحقاق کا مسئلہ بنتا تھا تو پھر حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان کی خلافت کا کیا بنتا ہے جو چچاتھے اور نہ چچازاد بلکہ بنی ہاشم کے خاندان سے بھی کوئی تعلق نہیں رکھتے تھے؟۔ ڈھیرسارا مواد سیدھے سادے طریقے سے فرقہ واریت کی پیچیدگیوں کیلئے زبردست ایندھن بن گیا۔ شیعہ ، اہلسنت، معتزلہ اور بہت سے غالی اور عالی گروہوں نے جنم لیا تھا۔
احادیث کی کتب میں فضائل اہلبیت اور فضائل صحابہ کے حوالہ سے بڑا مواد تھا مگر معاملہ کسی نتیجے پر نہ پہنچتا۔ محققِ عصرِ رواں علامہ مفتی شاہ حسین گردیزی کی ضخیم تصنیف” تفتازانیہ” میں درسِ نظامی کے حوالہ سے ایک بڑی معروف شخصیت علامہ سعدالدین تفتازانی کے حوالے سے بحث ہے کہ وہ صحیح اہلسنت کے نمائندے تھے یا اہل تشیع سے متأثر تھے؟۔ درسِ نظامی کے طلبہ ہی نہیں فرقہ وارانہ ، مسلکانہ اور مذہبی معاملات سے دلچسپی رکھنے والوں کیلئے یہ بڑا تحفہ ہے۔ اعتدال و توازن کی بنیادپر باکمال لوگ لاجواب سروس کی عمدہ کوشش ہے۔ تاہم انسان میں ماحولیاتی کمزوری ہوتی ہے اور اس سے کسی نہ کسی حد تک سب متأثر ہوتے ہیں اور کوئی اس سے مبرا نہیں ہوتا ہے لیکن مخالف بھی اس علمی گفتگو اور اسکے اندازِ بیان کو داد ضرور دیں گے۔
میرے نزدیک تو فرقہ واریت کی بھول بھلیوں اور پگڈنڈیوں سے نکلنے کیلئے یہ کہنے میں بھی حرج نہیں کہ اسلام کا یہ حشر کیا گیا ہے کہ جس طرح تفتازانیہ میں کتاب کی تمام علمی مباحث کو چھوڑ کر تفتازان اور تفتازانی کی نسبت کو چھوڑ کر” تفتا”کے لفظ کوالگ اور” زانی” کے لفظ کو الگ کرکے صاحبِ تصنیف کا مذاق اڑایا جائے۔ جس کا وہم وگمان بھی علامہ مفتی شاہ حسین گردیزی کے افکار میں نہیں۔ سہیل وڑائچ نے ایک دن جیو کیساتھ علامہ اقبال سے خاص شغف رکھنے والے کا انٹرویو لیا۔ نیٹ پر موجود ہے جس میں وہ علامہ اقبال کی فارسی شاعری سے یہ بات نقل کرتے ہیں کہ ”ہم پر علماء ومشائخ کا بڑا احسان ہے جن کے توسط سے اسلام ہم تک پہنچا ہے، مگر اللہ اور رسول ۖ اور جبریل حیران ہونگے کہ ہم جو اسلام لائے تھے اور ان لوگوں نے اسلام کا جوحال بنارکھا ہے اسکا اس اسلام سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ”۔
مفتی سیدشاہ حسین گردیزی نے لکھاہے کہ ” قرآن حکیم ہے لایکلف اللہ نفساً الا وسعھا اللہ تعالیٰ ہر نفس کو اس کی طاقت کے مطابق ذمہ داری دیتا ہے اور حضور علیہ الصلوٰة والسلام کا فرمان اذا وسد الامر الیٰ غیر اہلہ تنظر الساعة جب معاملہ غیر اہل کے سپرد ہوجائے تو پھر قیامت ہی کا انتظار کیا جائے، انصاف وہیں ملے گا، اس نظام اور اس دنیا میں اس کی امید عبث ہے”۔ تفتازانیہ، صفحہ:13
اگر علامہ شاہ حسین گردیزی مولانا مودودی، مولانا احمدرضاخان بریلوی اور مولانا اشرف علی تھانوی وغیرہ سمیت قرآن کے تمام معروف مترجمین کا اسی آیت پر محاسبہ یا اصلاح کرتے تو یہ تفتازانیہ کی ابحاث سے زیادہ مفید ہوتا ۔سورہ بقرہ کی اس آخری آیت کا اتنا غلط ترجمہ مشہورکیا گیا ہے کہ اللہ کے کلام قرآن پاک کے اندر بھی تضاد نظر آتا ہے اور انسانی فطرت سے بھی اس کا مفہوم قطعی طورپر ہم آہنگ نہیں لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے لئے یہ اہم نہیں ہے کہ اللہ ہم سے کیا کہہ رہا ہے بلکہ ہم بہت خشوع وخضوع کیساتھ اپنے اوپر جھوٹی رقت طاری کرکے تلاوت کے ثواب کو ہتھیانے کے درپے ہوتے ہیں۔ فلم اور ڈرامہ کے اداکاروں کی طرح عوام کو کسی حد تک انٹرٹین کرکے اپنی دنیاوی زندگی کو کامیاب بنانے کے گر سمجھ گئے ہیں۔
میری سکینڈ وائف ( دشتی بلوچ تربت ) نے مجھ سے فون پر کہا کہ ” اللہ بھی جھوٹ بولتا ہے۔ اس نے قرآن میں کہا ہے کہ میں انسان کی طاقت سے زیادہ اس پر بوجھ نہیں ڈالتا مگر میں نے دیکھ لیا کہ مجھ پر میری طاقت سے زیادہ بوجھ آپ کی ڈانٹ سے پڑگیا تھا”۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ قرآن کو سمجھنا اب مشکل نہیں رہا، جب سوال اٹھتا ہے تو جواب آتا ہے۔ درسِ نظامی کی تعلیم کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ قرآن سمیت ہر معاملے پر سوال اٹھایا جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مفاد پرست ٹولے نے درسِ نظامی پر آج قبضہ کررکھا ہے۔ ذلک الکتٰب لاریب فیہ فاتحة الکتاب کے بعدالبقرہ کا الم کے بعد پہلا جملہ ہے۔ جس پر سوال اٹھایا جاتا ہے کہ ذٰلک اسم اشارہ دور کیلئے ہے جبکہ کتاب قریب ہے لہٰذا ھذا الکتاب ہونا چاہیے۔ مولانا محمد یوسف لدھیانوی نے روایت نقل کی، جو ضروری علم کے حوالہ سے ہے، فرمایا کہ ” علیکم بالعلم وعلیکم بالعتیق تم پر علم کی پیروی لازم ہے اور تمہارے اوپر عتیق کی پیروی لازم ہے”۔ نبیۖ نے فرمایا: علیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین المہدیین”تمہارے اوپر میری سنت کی پیروی لازم ہے اور رشدوہدایت والے خلفاء کی پیروی لازم ہے”۔خلفاء راشدین نے مہدیوں کا کردار ادا کرتے ہوئے خلافت کو خاندان کی لونڈی نہیں بنایا تھا۔ بخاری کے استاذ نعیم بن حماد نے یہ روایت چار مرتبہ اپنی کتاب ”الفتن” میں نقل کی ہے کہ عن عبداللہ بن عمروقال : قال رسول اللہ ۖ اذا ملک العتیقان عتیق العرب و عتیق الروم کانت علی ایدیھما الملاحم
حدیث نمبر1315،1349،1358،1417، عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ دوعتیقوں کوجب اقتدار ملے گا تو انکے ہاتھوں سے جنگیں جاری ہونگی ، عتیق العرب اور عتیق الروم ۔ قیامت تک بہت سی شخصیات کا احادیث میں ذکر ہے۔کئی مہدیوں اور دجالوں کا ذکر ہے۔ اگر میں اپنے بارے میں کہوں کہ میں وہ عتیق ہوں جسکا ذکر مولانا یوسف لدھیانوی کی کتاب میں ہے تو کوئی کم عقل یہ سوال اٹھائیگا کہ میں وہ ہوں کا جملہ غلط ہے اسلئے کہ وہ دور کیلئے آتا ہے ،آپ کو یہ کہنا چاہیے کہ میں یہ عتیق ہوں۔ اردو کے اہل زبان یہ سمجھتے ہیں۔ قرآن کی آیت ذلک الکتاب لاریب فیہ پر ابوجہل وابولہب نے سوال نہ اٹھایا کہ عربی غلط ہے مگر جو لوگ گرائمر کی مدد سے عربی سیکھتے تھے انکے ذہن میں سوال اٹھ گیا۔ درسِ نظامی میں سوال وجواب رٹے رٹائے ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ”اللہ کسی نفس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا ہے”۔ ترجمہ کرنیوالوں نے اپنا غلط رنگ جمایا ہے بلکہ یہ فرمایا کہ ” اللہ کسی نفس کو مکلف نہیں بناتا مگر اس کی وسعت کے مطابق”۔ نفس پر اس کی طاقت سے بڑا بوجھ پڑتا ہے جبھی تو اس کی روح پرواز کرتی ہے۔ اگر اللہ طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا تو پھر کیا اللہ کوئی کم عقل مولوی ہے؟۔ جو سکھائے کہ ربنا ولاتحمل علینا اصرًا کما حملتہ علی الذین من قبلنا ربنا لاتحملنا مالا طاقة لنا بہ”اے ہمارے ربّ! ہم پروہ بوجھ نہ ڈال جس طرح ہم سے پہلوں پر آپ نے بوجھ ڈالا تھا ،اے ہمارے ربّ! ہم پر ہماری طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالنا”۔ اللہ تعالیٰ انسان کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالتا نہیں تو پھر اسی آیت کی یہ دعا بے معنیٰ ہوگی۔ اللہ نے یہ فرمایا :اللہ ہرنفس کو وسعت کے مطابق مکلف بناتا ہے( یعنی دائرہ اختیار کے مطابق اس سے پوچھ گچھ ہوگی) آرمی چیف ، وزیراعظم اور سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی آئینی ترمیم کیلئے ناک رگڑوائی ۔ایران امریکہ کی جنگ چھڑنے کے خدشے پر پارلیمنٹ نے آئینی ترمیم بلاسوچے سمجھے کر ڈالی مگر جس آئین میں قرآن و سنت کا سب سے اہم اور بنیادی کردار قرار دیا گیا ہو ،اسکے ترجمے میں بہت بڑی غلطی کو برداشت کرنا اسلام اور پاکستان دونوں کیساتھ غداری ہے۔ پارلیمنٹ کا مقصد اقتدار کیلئے ایکدوسرے کی ٹانگ کھینچنا ہی رہ گیا ہے۔ اس حمام میں سب ننگے ہوگئے ہیں۔ سوشل میڈیا کا دور ہے شعور کا راستہ روکا گیا تو بڑا تصادم ہوسکتا ہے۔
مفتی شاہ حسین گردیزی نے حدیث لکھی کہ ”معاملہ نااہلوں کے سپردہوجائے تو پھر ساعہ کا انتظار کیا جائے”۔ ساعة سے مراد قیامت نہیں بلکہ دنیا میں دوبارہ خلافت علی منہاج النبوة کے قیام کی خوشخبری بھی ہوسکتی ہے۔ ٹرمپ، مودی، عمران خان اور دنیا بھر کے موجودہ حکمرانوں پر تاریخ کے بدترین نااہلی کا گمان نہیں یقین ہے اور اس سے بڑی نااہلی کیا ہے کہ عمران خان کرپشن کیخلاف آیااور کہتا ہے کہ حکومت نے ناجائز سبسڈی دی اور ذمہ دار حکومت سے باہر جہانگیرترین ہے جس نے جہاز بھر بھرکر لوٹوں کے ذریعے لوٹوں کی مخالفت کرنے والے کی حکومت قائم کی۔ مودی کے دور میں ہندوستان، ٹرمپ کے دور میں امریکہ جل رہاہے اور سعودی عرب بدترین کرائسس میں ہے۔ایران نے جہاز گرانے کے بعد حقائق کا انکار کیا پھر اعتراف بھی کرلیا۔ یہ حکمرانوں کی نااہلی کی انتہاء ہے جو دنیا پر مسلط ہیں۔
قرآن میں باربار پڑھی جانے والی سات آیات پر مشتمل سورۂ فاتحہ اور قرآن کا خاص طور پر ذکر ہے۔ بعض مصاحف میں فاتحہ کی آیات کے نمبر دینے سے اجتناب کیا گیا ہے اور بعض میں آیت کے گول نشانOکے بغیر ہی غلط نمبر ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ قرآن کا معجزہ ہے کہ ایک گول نشان کااضافہ کرنے کی جرأت بھی کسی سے نہیں ہوئی ہے۔ یہ بھی قرآن کا معجزہ ہے کہ 114سورتوں میں صرف ایک توبہ کی ابتداء میں بسم اللہ نہیں ہے تو کسی نے جرأت نہیں کی ہے کہ اسکا اضافہ کردیتا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس طرح سورتوں کے اپنے نام ہیں،اسی طرح عام زباں میں سورہ کی ابتدائی آیت سے مراد بھی وہی سورت لی جاتی ہے۔ جیسے سورة الاخلاص اور قل ھواللہ احد سے مراد ایک ہی سورت ہے۔ چونکہ بسم اللہ سورتوں کے آغاز میں موجود ہے اسلئے بسم اللہ کو چھوڑ کر بعض روایات میں آیا ہے کہ ہم نے نماز کی ابتداء پر الحمدللہ رب العٰلمین سنا ہے جس کا مقصد یہی تھا کہ صحابہ کرام سورۂ فاتحہ سے نمازکا افتتاح کرتے تھے۔ لیکن بعد میں کم عقل اور متعصب طبقات نے اس کو دوسرا رنگ دیدیا کہ صحابہ بسم اللہ کے بغیر ہی نماز پڑھتے تھے۔پھر اس بحث کو مزید الجھاؤ کا ذریعہ بنادیا گیا کہ کس کے نزدیک بسم اللہ کے بغیر نماز نہیں ہوگی؟، کس کے نزدیک فرض نماز میں بسم اللہ پڑھنا جائز نہیں؟۔ کس کے نزدیک دونوں کی گنجائش ہے؟۔ پھر یہ تعلیمی نصاب کا حصہ بنادیا گیا کہ امام شافعی کے نزدیک بسم اللہ سورۂ فاتحہ کا حصہ ہے اور امام مالک کے نزدیک قرآن کا حصہ بھی نہیں ہے۔ احناف کے نزدیک اصل اور درست بات یہی ہے کہ بسم اللہ قرآن کا حصہ ہے مگر اس میں شک ہے اور شبہ اتنا قوی ہے کہ اگر قرآن کی کسی آیت پر شک کیا جائے تو بندہ کافر بن جائیگا مگر بسم اللہ پر شک کرنے یا اس کا انکار کرنے سے کوئی کافر نہیں بنتا۔ بریلوی دیوبندی نصابِ تعلیم کی کتابوں ”نوالانوار” اور ” توضیح تلویح” میں یہی تعلیم دی جارہی ہے۔
پڑھایا جاتاہے کہ کتابت کی صورت میں قرآن نہیںاور فقہ وفتوے کی کتابوں میں مسائل ہیں کہ قرآن کے مصحف پر حلف نہیں ہوتا اور سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے علاج کیلئے لکھنا جائز ہے۔مولانا فضل الرحمن کے بھائی مولانا عطاء الرحمن امتحان میں ناکامی کی وجہ سے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی چھوڑ کر گئے تھے اور بفضل تعالیٰ مجھے پہلے سال کے ابتدائی مہینوں میں علم الصرف اور قرآن کی کتابت پر بحث کرنے میں ایک معتبرمفتی کو بدترین شکست دینے کی وجہ سے علامہ تفتازانی کا خطاب مل گیا تھا۔
علماء ومشائخ سب کے سب نیک وصالح ضرور گزرے ہیں اور مجھے عربی کے اس شعر کو دل سے بہت عقیدت کیساتھ گنگنانے میں بڑا زبردست لطف آتا ہے۔
احب صالحین ولست منھم لعل اللہ یرزقنی صلاحا
ترجمہ:” میں نیک لوگوں سے محبت کرتا ہوں مگر خود ان میں سے نہیں ہوںشاید کہ اللہ تعالی ان سے اس محبت کی برکت سے میری بھی اصلاح فرمادے”۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : الا بذکراللہ تطمئن القلوب ” خبردار! اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو اطمینان ملتا ہے”۔ آیت کے سیاق وسباق میں واضح ہے کہ یہاں آیت میں ”ذکر”سے مراد قرآن پاک ہے۔ کافروں کو اعتراض تھا کہ اللہ کی آیات ہمارے لئے اطمینان بخش نہیں اسلئے دوسری آیات نازل ہونی چاہییں۔ انکے جواب میں اللہ نے ایمان والوں کا ذکر کیا ہے کہ وہ آیات سے مطمئن ہیں۔
ہم نے علماء وصوفیا کی زباں سے سن کر یقین کرلیا کہ ذکرکے وظائف مراد ہیں اور اس پر کسی دور میںخوب عمل بھی کیا بلکہ ہماری وجہ سے طلبہ اور علماء میں تصوف ہی کے ذریعے دینداری کی ایک نئی لت بھی پڑگئی۔تصوف اور تشدد دونوں کو بنیاد فراہم کرنے کی ذمہ داری مجھ پر عائد ہوتی ہے۔ تاہم بفضل تعالیٰ میں نے ہر میدان میں عتیق ہونے کا ثبوت بھی دیا ہے۔ جب ہماری خانقاہ کے علماء ومشائخ تصوف کی دنیا میں مست تھے تو ہم نے ان کو جمعیت علماء اسلام کے پلیٹ فارم سے سیاست سکھائی اور جب ہمارے شیخ حاجی عثمان پر فتوے لگے تو بڑے بڑے علماء ومشائخ سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ رہے تھے اور ہم نے طوفانوں کارخ بدلنے میں کوئی دیر نہیں لگائی تھی۔
طوفان کررہاتھا میرے عزم کا طواف
دنیا سمجھ رہی تھی کہ کشتی بھنور میں ہے
جب مجاہدین امریکہ کیلئے لڑبھی رہے تھے اور شکایت بھی تھی تو ان کو خلافت کے راستے سے ہم نے پہلی بار آشنا کیا تھا۔ تصویر کو ناجائز سمجھا تو ایک دنیا کو اس کا مخالف بنادیا اور جب بات کھل گئی تو لگی لپٹی کے بغیر نام نہاد مفتیان اعظم کا پول کھولنے میں کوئی دیر نہیں لگائی ۔ نتیجے میں تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی والے جو لاؤڈاسپیکر پر نمازو آذان دینے کے قائل نہیں تھے،سرِ عام ویڈیو کے ذریعے اپنے بِلوں سے باہر آگئے۔ وہ پختون اور علماء جو کسی کو بھی مہدی کا نام لینے پر قتل کرتے تھے ،کسی حدتک پختون قبیلے کے ملاعمرسے بھی خراسان کے مہدی کا گمان کرنے لگے۔
مولانا یوسف بنوری کے شاگرد نے ” مہدی منتظر” پر کتاب لکھی۔ اپنے سے بڑا نام مولانا بنوری کا لکھ دیا ، دور سے لگتاہے کہ مولانا بنوری کی کوئی کتاب ہے۔ جس میں تفصیل سے مہدی کی حکومت قائم ہونے کے بعد کئی شخصیات اور انقلابات کا ذکر ہے۔ پھر ان کے بعد منصور کا ذکر ہے اور اس کو بھی مہدی قرار دیا گیا ہے۔ موصوف نے تمام تفصیلات کا ذکر کرنے کے باوجود لکھ دیا کہ ”ملاعمر وہی منصور تھا”۔ جب وہ مہدی آیا ہے اور نہ اسکے بعد انقلابات آئے ہیں تو پھر منصور کیسے آگیا؟۔
پاکستان میں نظام ہے، عدالت ہے، ریاست ہے، میڈیا ہے، حکومت اورعلماء ہیںبلکہ اب تو ایک سوشل میڈیاکا بھی بہت بڑا کردار ہے۔اپنا مثبت پیغام عوام تک اور اہل اقتدار تک پہنچانا بہت آسان ہے۔ علامہ جلال الدین سیوطی نے بارہ خلفاء کا ذکر احادیث کے حوالے سے کیا ہے اور لکھ دیا ہے کہ ابھی تک یہ بارہ خلفاء نہیں آئے ہیں جن پر امت کا اجماع ہوگا اور یہ سب قریش سے ہونگے۔ حضرت علامہ پیر مہر علی شاہ گولڑہ شریف (مرشد سیدعطاء اللہ شاہ بخاری) نے اپنی تصنیف ”تصفیہ ما بین شیعہ وسنی” میں لکھ دیا ہے کہ ”یہ بارہ خلفاء ابھی تک نہیں آئے ہیں جن پر امت کا اجماع ہوگا”۔ ہم نے نقشِ انقلاب، اخباراور کتابوں میں حدیث صحیحہ کا نقشہ بھرپور طریقے سے واضح کیا جس کی تمام مکاتب کی معروف شخصیات نے بھرپور حمایت کی، ڈاکٹر اسرار، پروفیسر غفور،جے یوآئی کے امیر مولانا عبدالکریم بیرشریف، علامہ طالب جوہری ، مولانا عبدالرحمن سلفی اور اتحادا لعلماء کے مولانا عبدالرؤف۔
کتابچہ ” پاکستان کی سرزمین سے اسلام کی نشاة ثانیہ کا آغاز” میں سینکڑوں علماء کی تائیدات تھیں۔میرے استاذ جامعہ بنوری ٹاؤن کے پرنسپل ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر مدظلہ العالیٰ نے لکھا کہ ” اسلام کی نشاة ثانیہ والوں کو امام مالک کے اس قول کو سامنے رکھنا ہوگا کہ اس امت کی اصلاح اسی طرح سے ہی ہوسکتی ہے جس طرح اس کی ابتداء میں اصلاح ہوئی تھی یعنی پہلے تعلیم تربیت اور پھر نظام کی طرف آنا ہوگا” ۔ مولانا فضل الرحمن کی نوشہرہ دیوبند کا نفرنس میں امام کعبہ کی آمد پر شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے بھی عربی میں خیر سگالی کے کلمات کہے تھے اور ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے بھی کلمات کہے تھے۔ دونوں کی عربی ، علم واستعداد اور لہجے اور قابلیت کا اندازہ اس مختصر آزمائش سے لگایا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر مدظلہ العالی نے عربی کی تقریر میں پاکستان ، پاکستانیوں کی لاج رکھ لی اور مفتی تقی عثمانی کو مولانافضل الرحمن نے شاید اپنے باپ کا بدلہ لینے کیلئے سب کے سامنے ایکسپوز کردیا تھا۔بالکل جاہل پختون اس سے زیادہ اچھی اردو بول لیتے ہیں جو ایک عالم فاضل عربی بول رہا تھا۔
کچھ تو مفتی تقی عثمانی نے سودی زکوٰة اور بینکاری کے نظام کیلئے خالصتاًمفاد کی خاطر بھی اپنے فتوے دئیے ہیں لیکن اصل مسئلہ یہ بھی لگتاہے کہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کررہاہے جس کے ہمارے پاس دستاویزی ثبوت بھی ہیںاور ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ بڑا نالائق ہے۔ قرآن کے ترجمے کی جو ریڑ ھ ماری ہے اور جو تفسیر لکھی ہے تو اس سے اسکی نالائقی پر مہر تصدیق ثبت ہوتی ہے۔ جب بھی ان سے سنجیدہ رابطے کی کوشش کی ہے تو انکار کیا ہے اور الزام لگایا ہے کہ ڈنڈے کے زور پر ہم انکے خلاف بول نہیں سکتے۔ ہماری تحریرات میں لٹھ مار کی کیفیت نمایاں ہے لیکن انکے پاس کوئی جواب نہیں ہے اور ہمارے پاس ان کی بہت کمزوریاں ہیں۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ ہمارے مرشد حاجی عثمان نے شدید مخالفت کے دور میں ہمارے ساتھیوں کا کوڈ نام رکھا تھا، میرا نام ڈنڈے مار رکھا تھا۔ مولانا یوسف بنوری کے شاگرد نے مہدی کے حوالے سے جو کتاب میں پاکستان کے ڈنڈے والی سرکار کی طرف سے کردار کا ذکر کیا ہے۔اگر پاکستان کے اصحاب حل وعقد ہمیں کوئی کردار دیں تو پھر وہ دن دور نہیں کہ قرآن وسنت اور پاکستان کے جمہوری آئین کی مدد سے دنیا بھرمیں ایک عظیم انقلاب برپا ہوجائیگا۔ علامہ اقبال کی شاعری کو پھر ہر پاکستانی گائے گا۔
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے تو فیق
مولانا ابوالکلام آزاد نے حضرت علی ، حسن علیہ السلام اور فاطمہ علیہا السلام لکھ دیا تو کل مولانا آزاد پر شیعہ کی طرف راغب ہونے کا فتویٰ لگ سکتا ہے اور صحیح بخاری کو بھی اسی بنیاد پر شیعہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ مرزائی، شیعہ بریلوی کا فتویٰ لگانے والے اس بات کو سمجھ لیں کہ ختم نبوت اور سپاہ صحابہ کے مرکزی قائدین بھی ہمارے شانہ بشانہ ہونگے۔ صرف اس سے بھی قادیانی اور شیعہ پر بڑی زد پڑتی ہے کہ احادیث صحیحہ میں بارہ خلفاء قریش میں آئندہ ہر ایک پر امت کا اجماع ہوگا۔
پاکستان میں دیوبندی بریلوی مکاتبِ فکر کا تعلق حنفی مسلک سے ہے اورمذہبی تعلیمی نصاب” درسِ نظامی ” دونوں کا ایک ہے۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھ دیا ہے کہ ”سندھ ، بلوچستان، پنجاب، فرنٹئیر(پختونخواہ) ، کشمیر اور افغانستان میں جس قدر قومیں بستی ہیں یہ سب امامت کی حقدار ہیں۔اسلام کی نشاة ثانیہ کا مرکز یہی خطہ ہے ۔اگر ہندو پوری دنیا کو ہمارے مقابلے میں لے آئے تو ہم اس سے دستبردار نہ ہونگے۔ حنفی مسلک کے بنیادی اصول قرآن کی طرف رجوع سے یہ انقلاب آئیگا۔ ایران کے شیعہ بھی اس کو قبول کرینگے۔ حضرت امام ابوحنیفہ اہلبیت کے شاگرد تھے۔ حنفی مسلک کے علاوہ یہاں کے لوگ کسی بات کو قبول نہیں کرینگے”۔ مولانا سندھی کی تحریر قرآن کی آخری پارے کی تفسیر ”المقام المحمود” میں سورة القدر کی روشنی میں ہے اور اتفاق کی بات یہ کہ مولانا سندھی مسلم لیگ کے نہیں کانگریس کے رکن تھے اور ان کا کسی ایک خطے اور قوم پر توجہ دیکر قرآنی انقلاب برپا کرنے کی تحریک پاکستان سے پوری ہوسکتی تھی۔ اگر متحدہ ہندوستان ہوتا تو بھی مسلم اکثریت والے علاقوں میں ہم قرآنی انقلاب برپا کرکے ہندوستان بلکہ دنیا کو جہالتوں کے اندھیروں سے نکال سکتے تھے۔ اسلام نفرتوں اور تعصبات کا خاتمہ کرکے انسانی بنیادوں پر انقلاب کا داعی ہے لیکن سرکاری مولوی حضرات ہمیشہ دوسروں کے آلۂ کار بن کر رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی اسٹیبلشمنٹ کے پیداوار نوازشریف کی چشم وچراغ مریم صفدر نواز کے پیروں کے ناخن پر منظور پشتین کو قربان کردیں گے اور قوم پرستوں اور ملاؤں نے ہی اسلام، جمہوریت اور اپنی قوم کا بیڑہ غرق کیا ہے۔ بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام کی اکثریت تھی، جہاں پختونوں اور اسلام کا اقتدار قائم ہوتا مگر قوم پرستوں اور ملاؤں نے مل کر عطاء اللہ مینگل کووزیراعلیٰ بنادیا تھا اور صوبہ سرحد میں قوم پرستوں کی اکثریت تھی مگر مفتی محمود کو وزیراعلیٰ بنادیا گیا۔ یہ لوگ نہ تو جمہوری ہیں ، نہ قوم پرست ہیں اور نہ اسلام کے وفادار بلکہ پرائے گو پر پادمارکر شرم بھی نہیں کھاتے ہیں۔ قوم ،وطن اور اسلام سے محبت ایمان کا تقاضہ ہے لیکن اس سے بھی کوئی بڑی منافقت نہیں کہ پہلے ہندوستان کو اسلام کے نام پر دولخت کردیا کہ وطن سے محبت بولہبی ہے پھر اسلام کو وطن پر قربان کیا کہ سب سے پہلے پاکستان۔
دَ خپلے خاورے لُٹے وی کہ کانڑی
ما تہ خکاری د جنت د گلو پانڑی
مرگ پہ ژوند زما لہ چا گلہ نشتہ
کہ دے نہ کرل غنم بیا بے وانڑی
جناور ڈیر دی خو یو سپیی بل خر
پریدہ کہ سوک غاپی کہ سوک ہانڑی
د اللہ سرہ د بندگانو سہ کمی دہ؟
پہ خپل فضل زمونگ قام چھانڑی
اصلی خبرہ د تقویٰ و دکردار دہ
بے خوی سید نہ اعلیٰ یو خہ کٹانڑی
چرتہ ابولہب وابوجہل چرتہ بلال
داسے قریش نہ خلق حبشی خہ گانڑی
وینہ د پلار آدم، مینہ د مور حواء دہ
کزشہ دے تعصب لہ بالا مانڑی
پنجاپی تہ ولے وای تور شاہین
پختون دے پڑے کڑو د زانڑی
ملا پہ خپل جنت ھم اُور لگہ وی
کہ مومی بُٹی د اخزی او لانڑی
دَ وران نصاب کہ اصلاح اُو نہ شوہ
نو ورک بہ شئی د جماعت ملوانڑی
داہل حق دتاریخ بدلہ مے واخستہ
دفتوے ماہر بربنڈ دی تنڑپتانڑی
دانقلاب پہ کنڑ غرب بہ زر پوہ شے
ماگڑدولی دی دکفر ڈیر چپانڑی
عتیق ستانہ غٹ غٹ شیخان زغلی
تہ کارمہ لرہ پہ چنڑی چانڑی
” اپنی مٹی کے ڈھیلے ہوں یا پتھر، مجھے جنت کے پھولوں کے پتے دکھتے ہیں۔ موت و زندگی پرمیرا کسی سے گلہ نہیں، اگر گندم بوؤ نہیں تو پیسوگے۔ جانور دنیا میں بہت ہیںایک گدھا،دوسرا گھوڑا،چھوڑدو کوئی بھونکے یا کوئی ڈھینچو ڈھینچو کرے۔ زمین پر اچھے بندوں کی کیاکمی مگر اللہ نے فضل سے ہماری قوم کا انتخاب کیا۔ اصلی بات تقویٰ وکردار کی ہے، بد خصلت سید سے اعلیٰ وارفع اچھا خانہ بدوش ہے۔ خون باپ آدم کا محبت ماںحواء کی ہے، اُتروتعصب کے بلند مورچہ سے۔ پنجابی کو کیوں کہتے ہو کالے شاہین، پختونوں کو بنادیاہے کونجوں کی رسی۔ملا پھر اپنی جنت کو بھی آگ لگاتا ہے، اگر اسے کانٹے دارجھاڑیاں یا لائیاں مل جائیں ۔بگڑے نصاب کی اگر اصلاح نہ کی تو مسجدکے ملوانڑے( مُلے) صفحہ ہستی سے غائب ہونگے۔میں نے اہل حق کی تاریخ کا بدلہ چکادیا، فتوے کے ماہر ننگے تتر بتر ہوگئے ہیں۔انقلاب کی گھن گرج کو جلد سمجھ جاؤگے، میں نے کفر کے کافی چیتھڑے اُڑادئے ہیں۔ عتیق تم سے بڑے بڑے شیخ علماء بھاگتے ہیں،آپ غرض نہ رکھو ،ان طلبہ ملبہ سے”۔
جب خان عبدالغفار خان ، عبدالصمد خان اچکزئی شہید نے گاندھی ، نہرو اور سردار پٹیل سے نہ صرف محبت رکھی بلکہ افغانستان کو چھوڑ کر بھارت کیساتھ متحدہ ایک ہندوستانی قومیت کا راگ الاپا توہم سندھی، بلوچ اور پنجابیوں سے پختونوں کو کیسے جدا کرسکتے ہیں؟۔ جمعیت علماء اسلام کو ہندوستان میں جمعیت علماء ہند کابھارت میں سیکولر اسلام پسند ہے تو پاکستان طالب زدہ کیسے ہوسکتا ہے؟۔ ہم تو وہ ہیں کہ اپنے وطن کے ڈھیلوں اور پتھروں کو بھی جنت کے پھولوں کی پتیاں سمجھتے ہیں۔ جس طرح نوح علیہ السلام کی بیٹے کنعان اور ابراہیم علیہ السلام کی باپ آذر سے محبت فطرت کا تقاضہ تھی اسی طرح اپنے قبیلے، شہر، علاقے، ملک اور براعظم سے محبت فطرت کا تقاضا ہے۔جب عقیدے اور نظرئیے میں دورنگی آتی ہے تو پھر ہمیشہ انسان قوتِ پرواز سے محروم رہتا ہے۔ منافق ادھر کا رہتاہے اور نہ ہی ادھر کا۔ لا الی ھا اولاء ولا الی ھا اولاء وابتغ بین ذٰلک سبیل ” نہ وہ ادھر کے ہوتے ہیں نہ ادھر کے ،دونوں کے بیچ میں راستہ تلاش کرتے پھرتے ہیں”۔
حضرت امام ابوحنیفہ کے مسلک کی بنیاد پر جو اصولِ فقہ کی تعلیم دی جارہی ہے تو اس کی بنیادی روح یہ ہے کہ قرآن کی واضح آیات کے مقابلہ میں احادیث صحیحہ کو بھی بالکل رد کردیا جائے، کیونکہ قرآن کے خلاف کوئی صحیح حدیث نہیں ہوسکتی ہے اور اگر حدیث صحیح ثابت ہوجائے تو پھر میرے مسلک کو دیوار پر دے مارا جائے۔ جو حدیث صحیحہ ہی میرا مذہب ہے۔ علامہ اقبال نے ہندوستان کے بارے میں کہا تھا کہ ”میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے یعنی ہندوستان” مگر اپنے مؤقف سے پھر رجوع کرلیا تھا۔ امام ابوحنیفہ اپنے مؤقف پر ڈٹے تھے۔ احناف کا سب سے اچھا اور اہم اصول یہ بھی ہے کہ ضعیف احادیث میں تضاد ہوتو بھی رد نہیں کرنا چاہیے بلکہ جہاں تک ممکن ہو تطبیق دی جائے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلکِ حنفی کے نام پر قرآن کو بھی تضادات کا مجموعہ بنادیا گیا اور یہ سب جہالتوں کا ہی نتیجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے مالٹا کی قید سے رہائی پائی تھی تو امت کے زوال کے دواسباب بتائے ،قرآن سے دوری اور فرقہ پرستی۔ مفتی محمد شفیع مفتی اعظم پاکستان نے لکھا کہ ” فرقہ پرستی بھی قرآن سے دوری کا نتیجہ ہے”۔ مولانا انور شاہ کشمیری نے کہا کہ ” ہم نے مسلکوں کی وکالت کرتے ہوئے اپنی زندگی ضائع کردی، قرآن وسنت کی کوئی خدمت نہیں کی ہے”۔ جنہوں نے زندگی بھر درسِ نظامی کی خدمت کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا وہ نصابِ تعلیم کو سمجھتے تھے کہ اس کا کیا کردار ہے؟مگر جن نالائق در نالائق در نالائقوں نے اس کواپنا سہل ذریعہ معاش سمجھ رکھا ہے انکے دل میں نہیں بلکہ پیٹ کی اوجھ اور دماغ کی رگ میں درد اُٹھ رہاہے۔
مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کی عصر حاضر میں مساجد کے علماء و مقتدی اور مدارس کے مفتیان اپنا حال دیکھ سکتے ہیں۔ سیاسی مذہبی علماء اور مذہبی لبادے والے فرقے ، جماعتیں اور تنظیموں کو اپنا عکس دکھائی دے سکتا ہے۔ سود کو حلال کرنے کیلئے تقلید کی بھی ضرورت نہیں ہے اور باقی ہر اس کام میں تقلید کی ضرورت ہے جن کو سود کی طرح مختلف ادوار حیلے باز اور سرکاری ملاؤں نے بدل ڈالا تھا۔ احادیث میں تو مزارعت کو سود اور ناجائز قرار دیاگیا ہے اور امام ابوحنیفہ ، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کا مزارعت کے ناجائز اور سود ہونے پر اتفاق تھا مگر جنہوںنے اس حکم کو بدل ڈالا تھا تقلید ان حیلہ سازوں کی ہورہی ہے جن کا مسلک سرکار کی سرپرستی کیوجہ سے ہر دور میں سکہ رائج الوقت رہا ہے۔ مفتی محمود سے مولانا فضل الرحمن تک اور مفتی زرولی خان،مولانا سلیم اللہ خان ، جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور پاکستان کے مدارس نے مفتی تقی عثمانی ومفتی رفیع عثمانی کی طرف سے پہلے زکوٰة اور سودی بینکاری پر کسی کی بات نہیں مانی لیکن سکہ رائج الوقت سرکارکی سرپرستی کی وجہ سے عثمانی برادران ہی رہے ہیں۔ آنیوالے دور میں تاریخ کے تمام سرکاری مرغوںشیخ الاسلاموں کی طرح مفتی تقی عثمانی اور انکے فرزندوں کا ہی نام رہے گا۔ مولانا آزاد کی کتاب” تذکرہ” میں شیخ الاسلاموں کی اہل حق کے خلاف حقائق کی تاریخ پڑھ سکتے ہیں لیکن اس دور کے شیخ الاسلام کچھ کچھ قابلیت بھی رکھتے تھے اور حکومت نے باقاعدہ ان کو عہدے کا اہل سمجھ کر شیخ الاسلام کا منصب سونپا ہوتا تھا۔ یہ لوگ تو اپنے آپ ہی شیخ الاسلام بنے پھرتے ہیں۔ ان سے کوئی اپنا پوچھ ہی لے کہ بھیا شیخ الاسلام کس نے بنایا ہے؟۔
پہلی بات یہ ہے کہ طلاق و حلالہ کے حوالے سے قرآنی آیات اور احادیث میں کوئی تضاد نہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ حضرت عمر اور حضرت علی کے علاوہ تمام صحابہ میں کوئی اختلاف نہ تھا۔ تیسری بات یہ ہے کہ ائمہ اربعہ کا مسلک درست تھا اور چوتھی بات یہ ہے کہ طلاق وحلالہ کے حوالے سے درسِ نظامی کی تعلیم کا تقاضہ یہی ہے کہ باہمی صلح کی بنیاد پر معروف طریقے سے عدت میں، عدت کی تکمیل پر اور عدت ختم ہونے کے عرصہ بعد بھی رجوع ہوسکتا ہے اور باہمی صلح اور معروف طریقے کے بغیر عدت کے اندر بھی رجوع نہیں ہوسکتا۔ جن احکام کو قرآن وسنت و اسلاف نے پیش کیا ان کو غلط رنگ دیا گیا،وہ غیرمسلم کیلئے بھی قابلِ قبول ہیں۔

حور سے مراد اگر دنیاوی عورتیں تو یہ بیویاں ہیں اگر اس سے مراد پریاں تو یہ ہم نشین کے معنی میں ہیں ۔

تحریر : سید عتیق الرحمن گیلانی

حور سے مراد اگر دنیاوی عورتیں ہیں تو یہ بیویاں ہیں اور اگر اس سے مراد پریاں ہیں تو یہ پھر ہم نشین کے معنی میں ہیں ۔

قرآن میں سورۂ الدخان کی آیت
وزوجنٰھم بحور عین کے بارے میں قرآن کی مشہور لغت مفردات القرآن میںامام راغب نے لکھا کہ” ہم نے ان کو حور عین کا ہم نشین بنایا ہے”۔
اگر حورسے مراد انسانوں سے الگ جنس کی مخلوق ہو تو پھر زوجنا سے مراد شادی کے معنیٰ میں نہیں ہوگا۔ بلکہ پریوں کو انکا ہم نشین بنانا مراد ہوگا۔ عربی کی مشہور لغت القاموس المعجم میں حوریات کے بارے میں لکھا ہے کہ ”شہری عورتوں کو کہتے ہیں”۔ شہری عورت پر حور کااطلاق ہوتا ہے جو زیادہ سفیدیا صاف ستھری ہوتی ہیں۔ اس بات کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے کہ عربی زبان کا معاملہ سمجھے بغیر قرآنی آیات کے مفہوم کو سمجھنا مشکل ہے۔ قرآن میں زوج کے کئی معانی ہیں۔ سورۂ واقعہ میں انسانوں کے تین ازواج یعنی اقسام کا ذکر ہے۔
اصحاب الیمین، اصحاب الشمال اور مقربین۔ یہ جنت اور جہنم اور درجہ کے اعتبار سے تین اقسام ہیں۔ قرآن میں واذا النفوس زوّجت ”اور جب نفسوں کو جوڑا جوڑا بنایا جائیگا”۔کے بارے میں علماء سمجھتے ہیں کہ جب لوگوں کو مختلف اقسام میں تقسیم کیا جائیگا۔ حالانکہ اس کا یہ مفہوم بھی ہوسکتا تھا کہ جب لوگوں کو شادی کے بندھن میں جوڑا جوڑا بنایا جائیگا۔ اگر آیت سے سیاق وسباق کے مطابق معانی مراد لئے جائیں تو حقائق منظر عام پر آجائیںگے۔ جہاں قرآن میں یہ ہے کہ زندہ درگور کرنے والیوں سے پوچھا جائیگا کہ وہ کس گناہ کے بدلے قتل کی گئیں؟۔ اسی جگہ پر نفسوں کو جوڑا بنانے کا ذکر بھی ہے ۔ دورِ جاہلیت میں بچیوں کو زندہ دفن کردیا جاتا تھا اور میاں بیوی صلح چاہتے تھے تو بھی ان میں مذہب کے نام پر تفریق کرادی جاتی تھی اور دونوں برائیوں کو ایک پس ِ منظر میں دیکھا جائے تو اذاالنفوس زوجت سے نفسوں کے مختلف اقسام بنانا مراد نہیںہوسکتا ہے بلکہ اسلام کے نام پر اب بھی جس طرح طلاق اور تفریق کا سلسلہ جاری ہے تو اس تنبیہ سے علماء ومفتیان کو سبق سیکھنا چاہیے۔ جنت دنیا میں بھی ہے اور آخرت میں بھی۔ دنیاوی جنت کے حوالہ سے قرآن میں بہت سی آیات ہیں۔ اسی طرح جنت کے علاوہ دنیا میں بھی جحیم کی اقسام ہیں۔ حضرت ابراہیم کو بھی کافروں نے دنیا میں سزا دینے کا ارادہ کیا تو آپ کو قرآن کے الفاظ میںجیحم میں پہنچانے کا پروگرام بنایا۔ باغ کو بھی جنت کہتے ہیں۔ آخرت کی بنیاد پر جنت کی کیفیت کو سمجھنا ہمارے لئے ممکن نہیں ۔
دنیا میں اسلامی انقلاب آئے تو بھی نیک واچھے لوگوں کی ازواج یعنی بیویوں پر حوروں کا اطلاق ہوگا اور اسکے معانی پاکیزہ کے بھی ہیں۔ انقلاب کے بغیر بھی جس طرح متقی لوگوں کیلئے الطیبون لطیبات و الطیبات للطبین” پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کیلئے ہیں اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کیلئے ہیں”۔ ان پر بھی حوروں کا اطلاق ہوتا ہے۔ حور صرف مؤنث ہی نہیں بلکہ مذکر کیلئے بھی عربی لغت میں آتا ہے۔ جب ساتھی کے معنیٰ میں ہو تو پھر جس طرح حضرت عیسیٰ کے ساتھیوں کو اللہ تعالیٰ نے الحواریون قرار دیا ہے جنہوں نے آپ کی مدد کی تھی۔ صحابہ کرام دنیا کی طرح آخرت میں نبیۖ کے ساتھی ہونگے۔ حور عین کا معنیٰ بڑی بڑی آنکھوں والا بھی ہے اور آنکھ کی سفیدی کا زیادہ سفید ہونا اور سیاہی کا زیادہ سیاہ ہونے کو بھی کہتے ہیں اور حور کا معنی نقصان اٹھانے کو بھی کہتے ہیں۔
ہمارے یہاں سخت ، بڑی اور موٹی روٹی بنتی ہے جس کو گاڈلیائی کہا جاتا ہے۔ کہاوت ہے کہ کوچے کے کتے کو چودھویں کا چاند بھی گاڈلیائی نظر آتا ہے۔ عربی کی کہاوت ہے کہ للناس فی مایعشوقون مذاہب ”لو گ اپنے ذوق کے مطابق رائے رکھتے ہیں”۔ نبیۖ اور صحابہ کرام کیلئے سیدنا بلال حبشی بھی حور تھے اور علة مشائخ رکھنے والوں کا ذوق کچھ اور ہوتا ہے۔
دھوبی کا کام کرنے والوں کو بھی حور کہتے ہیں اور باطنی صفائی رکھنے والے کو بھی حور کہتے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ االسلام کا ساتھ دھوبیوں نے دیا تھا ،دھوبیوں کو حواریون کہا گیا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ان کے ساتھی صوفی باصفاء باطن کی صفائی رکھتے تھے اسلئے ان کو حواریون کہا گیا ہے۔
جنات اور پریاں ہماری باطن کی دنیا میں بھی ہیں اور اس کا ذکر قرآن میں ہے۔ تو جنت اور آخرت میں بھی ہوسکتی ہیں۔ سورۂ رحمن میں تو دونوں کو مخاطب کیا گیا ہے۔ یہی مخلوق جنت میں ہمارے ساتھ کھلے عام بھی ہوسکتی ہے۔اگر اس کی جنس الگ ہے تو جنسی تعلق کاامکان نہیں رہتاہے۔ ابلیس اور اس کی مادی بھی جنت میںپہنچ گئے تھے۔ جس کو اللہ نے آگ سے بنایا ہے اور ہمیں مٹی سے۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھ دیا ہے کہ ” ابلیس اور اس کی بیگم نے حضرت آدم و حواء کو اپنے جنسی تعلق کا مشاہدہ کرایا تھا جس کے بعد یہ لوگ بھی اس شجرہ ممنوعہ کی شہوت میں پڑگئے۔ اور اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کردی”۔ قرآن میں تفصیل کے ساتھ قصے کا ذکر ہے ،جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے درخت کے قریب جانے سے منع کیا ہے پھر فرمایا کہ فاکلا” پھر دونوں نے اسے کھایا” تو اس ازواجی تعلق پر کھانے کا اطلاق کیسے ہوسکتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اکل کے معنی صرف کھانے کے نہیں بلکہ کھجلانے کے بھی ہیں۔ اکل راسہ ”اس نے اپنا سر کھجلایا”۔ (المنجد: عربی ، ارود لغت)
اللہ نے قرآن میں بیوی سے جنسی تعلق کیلئے کئی الفاظ استعمال کئے ہیں۔ باشر، تغشی، لامستم ”براہ راست ہونا، چادر میں چھپانا، ہاتھ لگانا”۔ لیکن قرآن میں وطی کا لفظ جنسی تعلق کیلئے کہیں نہیں آیا ہے اور فقہ کی کتابیں اس سے بھری ہوئی ہیں۔ تہجدکا وقت اشدوطائً واقوم قیلًا”نفس کو کچلنے کا ذریعہ اور بات سمجھنے کیلئے زیادہ اچھا ہوتا ہے”۔ عربی میں گھاس کو کچلنے کیلئے وطأ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ قرآن میں بیگمات کو شوہروں کیلئے حرث قرار دیا گیا ہے اور حرث کھیتی کو بھی کہتے ہیں اور اثاثہ (ایسٹ) کو بھی ۔ اثاثہ ایسٹ کے بھی دو اقسام ہیں۔ مال ودولت کو بھی کہتے ہیں اور عناصر کی صفات کوبھی کہتے ہیں۔ عناصر سے ان کی صفات جدا نہیں ہوسکتی ہیں لیکن مال کا متبادل ہوتا ہے اور قرآن میں بیگمات کو جس طرح کا اثاثہ قرار دیا گیا ہے، تمام اہل ذوق اپنے اپنے ماحول کے مطابق اسکا معنیٰ لیں گے۔ جب کوئی بیٹا زیادہ قابل اعتبار ہو گا تو اس کا باپ اس کو اپنا اثاثہ (ایسٹ) قرار دے گا۔
قرآن کا یہ کمال ہے کہ لوگوں کی اپنی اپنی ذہنی سطح کے مطابق اسکے معانی سمجھ میں آتے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے ذو القرنین کا ذکر کیا ہے کہ وہ مغرب کے آخری کنارے تک پہنچا تو اس نے سورج کو پانی اور کیچڑ میں اترتے دیکھا۔ ظاہر ہے کہ سورج تو اپنی جگہ پر کہکشاؤں کی جھرمٹ میں اپنی منزل کی طرف اپنی رفتار سے گامزن ہے جس کا قرآن میں ذکر ہے لیکن جب ذوالقرنین کا زمانہ تھا تو اس نے اپنی ذہنیت ہی کے مطابق سورج کو کیچڑ میں اترتے دیکھا تھا۔ اچھے لوگوں پر غلط تہمت نہیں لگائی جاسکتی ہے کہ انہوں نے حوروں کے غلط تصورات پیش کرکے عوام کو ورغلانے کی کوشش کی ہے۔ البتہ حوروں کے تصورات کے باجود بھی بہت لوگوں نے چند ٹکوں کی خاطر سودی نظام کو جائز قرار دیدیا ہے۔ اللہ کیلئے نہ کرتے تو حوروں سے شادی کیلئے ہی چند ٹکوں کی خاطر دین کو نہیں بیچنا تھا۔
اللہ والوں نے راتوں کو تہجد میں قرآن سمجھنے کیلئے اپنی عقل کو استعمال نہیں کیا مگر اس مشقت اور نفسوں کو کچلنے کے باعث علة مشائخ کی بیماریوں سے محفوظ رہے۔ یہ بھی گھاٹے کا سودا نہیں تھا لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن جس مقصد کیلئے نازل کیا گیا تھا اس کو صرف رونے دھونے اور پیشانیوں کو سجدوں کے نشانات سے چمکانا مقصد نہیں تھا۔ علامہ اقبال نے کہا کہ ابلیس کا بڑا خوف تھا کہ سحرگاہی کے آنسوؤں سے وضو کرنے والے بہت خطرناک ہیں لیکن انکے خشک لہجوں میں مٹھاس اسلئے نہیں آسکتی تھی کہ قرآن بہت کامل معاشرے کی تشریح پیش کرتا ہے جس میں اچھی معیشت، معاشرت ، سیاست ، حکمت، فقاہت ، بڑی زبردست سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور ترقی کی سب ہی راہیں اس میں موجود ہیں۔ فقہ سے زیادہ سائنس کے حوالے سے آیات ہیں۔ ہمارا مولوی طبقہ تو فقہ کی دنیا میں بھی آج سے نہیں پتہ نہیں کب سے پنچر ہوچکا۔
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ۖ کی شکایت کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے کہ وقال الرسول یارب ان قومی اتخذوا ھٰذالقراٰ ن مھجورًا ”اور رسولۖ عرض کرینگے کہ اے میرے ربّ! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا”۔ القرآن
پہلے دارالعلوم دیوبند کے اکابر کے استاذشیخ الہند محمود الحسن نے مالٹا کی جیل سے رہائی کے بعد یہ مشن بتایا کہ مدارس کے نصاب کو چھوڑ کر قرآن کی طرف امت کو متوجہ کیا جائے۔ لیکن ایک شاگرد مولانا انور شاہ کشمیری نے درسِ نظامی کی تدریس جاری رکھی، مولانا الیاس نے تبلیغی جماعت کی بنیاد رکھی، مولانا اشرف علی تھانوی نے تصوف کو زندہ رکھا ، مفتی کفایت اللہ نے فتوؤں کا کام زندہ رکھا، مولانا حسین احمد مدنی نے سیاست کا کام کیا اورصرف مولانا عبیداللہ سندھی نے اپنے استاذ کی بات مان لی۔ امام انقلاب کہلائے لیکن ان پر کفروگمراہی کے فتوے لگائے گئے اور جب مولانا کشمیری کو آخر میں احساس ہوا تو معافی مانگ لی اور فرمایا کہ ” میں نے زندگی ضائع کردی ہے”۔ آج علماء دیوبند مختلف شعبۂ جات میں مذہب کو تجارت گاہ بناچکے ہیں۔ہر شعبے میں ماحول زوال کی آخری حد کو چھورہاہے۔ اللہ سب کو ہدایت عطاء فرمائے ۔آمین

قرآن کریم عظیم الشان انقلاب کی ہی خبر دے رہا ہے!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
دنیا میں اسلام کا تعارف مذہب ہے مگراسلام دینِ فطرت ہے۔ شیعہ وسنی علماء وذاکرین نے مذہب کو اپنا ذریعہ معاش بنارکھا ہے اور سیاست کے علمبردار اسلام کو سیاسی حربے کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔شیعہ کیلئے بڑی بات حدیثِ قرطاس کی ہے۔ نبیۖ نے تحریری وصیت لکھناچاہی کہ خلیفہ و امیرالمؤمنین علی ولی اللہ کو بنایا جائے۔ حضرت عمرنے کہا کہ” ہمارے لئے قرآن کافی ہے”۔ حنفی مسلک کا سارا اصولِ فقہ اسی سے شروع ہوتا ہے اور اسی پر ختم ہوتا ہے کہ قرآن کے مقابلے میں صحیح احادیث قابلِ قبول نہیں ہیں۔ ہم یہ وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ نبیۖ کو اپنا جانشین نامزد کرنے کا اس سے زیادہ حق تھا جس طرح حضرت ابوبکر نے اپنا جانشین حضرت عمر کو نامزد کیا تھا۔ البتہ جانشین نامزد کرنے پر اختلاف جائز تھا اسلئے کہ اللہ تعالیٰ نے وامرھم شوریٰ بینھم و شاور ھم فی الامر کی آیات میں اصول وضع کردیا ہے ۔صحیح مسلم کی ایک حدیث میں اہل مغرب کو قیامت تک حق پر قائم ہونے کی خبر دی گئی ہے اور اس سے مغرب کا جمہوری نظام ہی مراد ہوسکتا ہے۔ اسلام ہی نے دنیا کو جمہوریت سکھائی ہے اور جمہوریت کے ذریعے سے خلافت کا قیام دنیا میں آئیگا تو اس سے زمین وآسمان والے دونوں کے دونوں خوش ہونگے۔ انصار وقریش،قریش واہلبیت کے درمیان خلافت کے استحقاق کی مہم نے اسلامی سیاسی نظام کی جڑوں کو اتنا کمزور کردیا تھا کہ حضرت ابوبکر وعمر کے بعد تیسرے خلیفہ حضرت عثمان کو مسند پر شہید کردیا گیا اور پھر خونریزی ، عدمِ اعتماد اور اسلام کی روح مفقود ہونے کا سلسلہ شروع ہوا، جو آج اپنی انتہاء کو پہنچا ہوا ہے۔ اہل تشیع کی اکثریت کو قرآن اسلئے اچھا نہیں لگتا ہے کہ علی اور حسین کی اسمیں کھل کرتائید نہیں ہے اور اہلسنت کو قرآن سمجھنے کا شوق نہیں مگر اسلئے اچھا لگتا ہے کہ ہردور کے فرعون کیلئے بھی آیات پڑھی جاتی ہے کہ ” جس کو اللہ عزت دے اور جس کو ذلت دے ، جسے چاہے ملک کا اقتدار دے اور جس کو چاہے اس سے اقتدار چھین لے”۔ خلافت راشدہ کے بعد امیہ ، بنو عباس، خلافت عثمانیہ اور انگریز سرکار تک قرآن کی آیات کا سہارا لیا گیا۔ جسکے ہاتھ میں ڈنڈا تھا، اسکے گن گانے کی فقہ ایجاد کی گئی۔ ائمہ مجتہدین کے نزدیک دینی فرائض پر کوئی معاوضہ لینا جائز نہیں تھا ، احادیث صحیحہ میں زمین کو مزارعت یا کرائے پر دینا ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ سُود کی آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ۖ نے زمینوں کو مزارعت پر دینا بھی سُود قرار دیا۔ ائمہ مجتہدین امام ابو حنیفہ ، امام شافعی ، امام مالک کے نزدیک متفقہ طور پر زمین کو مزارعت پردینا سُود اور ناجائز تھا پھر بعد میں بعض حنفی علماء نے اپنا مؤقف بدل دیا اور زمین کو مزارعت پر دینا جائز قرار دیا۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے بانی حضرت مولانا یوسف بنوری کے داماد حضرت مولانا طاسین صاحب نے بھی حقائق پر مبنی بڑی تفصیل کے ساتھ اپنا نکتہ نظر پیش کیا جس کو جمعیت علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن سمیت بہت سے معتبر علماء نے بہت سراہا لیکن وہ گوشہ گمنامی کا شکار ہوئے اور مفتی تقی عثمانی نے پہلے سودی رقم سے زکوٰة کی کٹوتی کو جائز قرار دیا اور پھر بینکنگ کے سودی نظام کو بھی اسلامی قرار دیا۔ آج کی طرح ہر دور میں علماء حق کا کردار پسِ منظر میں چلاگیا اور اسلام کو اجنبیت کی طرف دھکیلنے والے شیخ الاسلام بن گئے۔ دیوبندی مکتبہ فکر کی مشہور شخصیت حضرت مولانا قاری اللہ داد صاحب نے بتایا کہ ایک بڑے تاجر نے یہاں آکر کہا کہ تم لوگ اپنا حق ادا نہیں کررہے ہو، سُود کو مفتی تقی عثمانی نے جائز قرار دیا ہے اور آپ لوگ کھل کر ان کی مخالفت نہیں کرتے۔ میں نے کہا کہ ”ہماری سنتا کون ہے؟ ”۔ مولانا قاری اللہ داد صاحب مدظلہ العالی نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اس وقت آپ مجھے بڑے یاد آئے۔
حیدر آباد میں مفتی تقی عثمانی کے ایک شاگرد نے الزام لگایا ہے کہ طلاق و حلالہ کے حوالے سے مفتی محمد نعیم صاحب مدظلہ العالی پر دباؤ ڈالا گیاتھا۔ یہ بھونڈے الزام کسی کام کے نہیں ہیں۔ قرآن و سنت اور تمام مکاتب فکر کے ہاں اسلام کے غلبے کا تصور موجود ہے۔ اسلام کا غلبہ فرقہ واریت اور مذہبی تعصبات کی بنیاد پر نہ ہوگا بلکہ اسلام آفاقی دین ہے جو انسانی فطرت کا بہترین شاہکار ہے۔ پاکستان کی سرزمین سے قوم ملک سلطنت کے ذریعے تمام مذہبی طبقات کی یکجہتی سے اللہ کا دین نافذ ہوگا اور پوری دنیا اسلام کو دیکھ کر اسکے سیاسی ، معاشی ، اخلاقی ، معاشرتی اور مذہبی معاملے کو قبول کرے گی۔ اسلام میں نسلی تعصبات نہیں، وطنی تعصبات نہیں، لسانی تعصبات نہیں ، قومی تعصبات نہیں، فرقہ وارانہ اور مذہبی تعصبات نہیں بلکہ انسانیت کا بہترین نظام موجود ہے۔ دین میں زبردستی کا کوئی تصور نہیں اور ظالمانہ نظام کسی طرح سے بھی کہیں بھی قابل قبول نہیں۔ کوئی انسان ایسا نہیں جو ظلم کو اپنی فطرت کے مطابق صحیح سمجھتا ہو۔ البتہ لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ جب وہ بالادست ہوتے ہیں تو کمزور پر ظلم کو اپنا حق تصور کرتے ہیں۔ جب عدل کا نظام قائم ہوگا تو کوئی ظالم اپنی ہٹ دھرمی پر قائم نہیں رہ سکے گا۔ اسلام نے دنیا سے غلط اور باطل عقائد اور عقیدتوں کا جنون و جمودتوڑا تھا مگر آج فرقہ پرستی کی بنیاد پر لوگ پھر اسی جنون و جمود کا شکار ہوئے ہیں۔
غلطیاں سب سے سرزد ہوئی ہیںاور غلطیوں سے توبہ کا دروازہ موت تک بالکل کھلا ہے۔ ہم بہت سے تضادات کا زبردست شکار ہیں جب مذہبی طبقات حلال اور حرام کا تصور لیتے ہیں تو اس میں اپنے لئے گنجائش نکالتے ہیں اور دوسروں کیلئے راہ تنگ کردیتے ہیں۔ تصویر کو ناجائز سمجھتے ہیں مگر شوق سے ویڈیو بنواتے ہیں۔ پردے کو ضروری سمجھتے ہیں مگر اپنے اور پرائے کے درمیان اپنے کردار کا بہت تضاد رکھتے ہیں۔ کوئی سُود کو جائز قرار دے تو یہ رائے کا اختلاف ہے اور جوحقوق کی جنگ لڑے تو وہ اسلام کا باغی اور مرتد قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان امریکہ کی مدد کرے تو مجاہد لیکن افغان حکومت امریکہ کی آشیر باد لے تو کافر و گمراہ۔ یہ تضادات چلنے والے نہیں۔
ISIکے سابق افسر طارق اسماعیل ساگر نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں بلیک واٹر کو کھلی چھوٹ ملی تھی جس نے مذہبی دہشتگردوں کو پیدا کیا۔ وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے کہا کہ میں جب دہشتگردوں سے ملتا تھا تو اس وقت پوری دنیا ان کی حمایت کرتی تھی۔ سوشل میڈیا پر دونوں بیانات موجود ہیں۔ جب مشرکین مکہ کو جہالت ، سابقہ کفر اور اپنی بچیوں کو زندہ درگور کرنا معاف ہوگیا تو ہم بھی مختلف جہالتوں سے گزرے ہیں اور توبہ کرنے سے اللہ تعالیٰ سب کو معاف کرسکتا ہے۔ جو ہوا سو ہوا مگر اب آئندہ کیلئے کوئی درست لائحہ عمل تشکیل دیں تاکہ ہمارا مستقبل روشن ہوجائے۔
رسول اللہ ۖ نے حضرت ابو طالب کیلئے ہدایت کی دعا مانگی تھی مگر اہل سنت کے بقول قبول نہیں ہوئی۔ رسول اللہ ۖ نے حضرت امیر معاویہ کیلئے دعا مانگی تھی کہ اللہ ان کو ہادی اور مہدی بنادے۔ حضرت امیر معاویہ کے حق میں یہ دعا قبول تھی یا نہیں مگر ان کے دورِ حکومت کو خلفاء راشدین مہدیین میں شمار نہیں کیا جاتا ہے۔ اور سنی سادات ہی نہیں اہل تشیع کیلئے بھی معاویہ کے نام سے کوئی بغض نہیں ہوسکتا، اس لئے کہ یزید کے بیٹے معاویہ نے اہل بیت کی وجہ سے اقتدار چھوڑ دیا تھا۔ مگر معاویہ کا معنیٰ عربی میں ٹھیک نہیں ہے۔ اسلئے یہ نام نہیں رکھا جاتا ہے۔ صاحب کشاف تفسیر کے امام جار اللہ زمحشری نے لکھا ہے کہ معاویہ اس کتیا کو کہتے ہیں جو کتوں کو شہوت پر ابھارنے کیلئے آواز نکالتی ہے۔ بھیڑئے اور لومڑی کے بچے کو بھی معاویہ کہتے ہیں۔ حضرت علامہ مفتی شاہ حسین گردیزی نے اپنی کتاب ”تفتازانیہ” میں ساری تفصیل لکھ دی ہے جو حال میں چھپی ہے اہل ذوق دیکھ سکتے ہیں۔ سید عتیق الرحمن گیلانی

خواتین اپنے حقوق کیلئے قرآنی آیات کو ملاحظہ کریں!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
اللہ نورالسمٰوٰت والارض مثل نورہ کمشکٰوة فیھا مصباح المصباح فی زجاجة الزجاجة کانھا کوکب دری یوقد من شجرة مبٰرکة زیتونة لاشرقےة ولاغربےة یکاد زیتھا یضی ء ولو لم تمسسہ نارنور علی نور یھدی اللہ لنورہ من یشاء ویضرب اللہ الامثال للناس واللہ بکل شیء علیمO ( سورة النور :35) ”اللہ آسمان اور زمین کا نور ہے، اسکے نور کی مثال ایسی ہے جیسے طاق میں چراغ ہواور چراغ قندیل میں ہو اور قندیل جیساکہ چمکتا ہوا ستارہ ہو۔جو مبارک درخت زیتوں سے روشن ہورہا ہو۔ یہ قندیل نہ مشرق زدہ ہو اور نہ مغرب زدہ۔ قریب ہے کہ اسکا تیل روشنی دے اگرچہ اس کو آگ بھی نہ چھوئے۔ یہ نور علی نور ہے۔ جس کو اللہ چاہتا ہے اپنے نور کی رہنمائی دیتا ہے۔اور اللہ لوگوں کیلئے مثالیں بیان کرتا ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے”۔
اللہ کانور علی نور فقہاء کی خود ساختہ شریعت ظلمات بعضہا فوق بعض کے برعکس بالکل واضح ہے۔ مولانا فضل الرحمن طالبان کی تائید کرتا تھا کہ زبردستی سے بھی مردوں کو داڑھی رکھوانا جائز ہے مگرپاکستان کی شریعت اپنے ماحول کے مطابق بتائی تھی اور اکرم درانی کو چھوٹی داڑھی رکھواکر علماء ومفتیان کی بڑی تعدادکے باوجود بھی وزیراعلیٰ بنوادیا تھا۔قاضی حسین احمدنے اپنی بیٹی ہی کو ایم این اے بنوادیا تھا۔
سورۂ نور کی پہلی آیات میں مسائل کو مغرب ومشرق سے بالاتر ہوکر حل کیا گیا۔ 1: عورت اور مرد سب کیلئے یکساں سزا کی وضاحت کردی ۔ 100کوڑے اعلانیہ مارے جائیں تو مساوات کا سبق ملے گا۔ عورت شادی شدہ ہوتی تھی یا کنواری لیکن غیرت کے نام پر قتل کردی جاتی تھی۔ عورت پر بہتان کی سزا 80کوڑے لگانے کا حکم ہے۔ اس میں اشرافیہ اور غریب خواتین کی عزتیں اور ان کی سزائیں برابر ہیں۔ 2: عورت پر بہتان کے بعد چار گواہ نہ لائے جائیں تو بہتان لگانے والے جھوٹے ہیں اور ان کی گواہی ہمیشہ کیلئے قبول نہیں کی جائے گی،یہ سب کیلئے قابل قبول ہے ۔ 3: زناکار مرد نکاح نہیں کرتا مگر زناکار عورت یا مشرکہ سے اور زناکار عورت کا نکاح نہیں کرایا جاتا مگر زناکار مرد یاپھر مشرک سے اور مؤمنوں پر یہ حرام کردیا گیا ہے۔ 4: اگر مردوں میں سے کوئی اپنی بیگمات کے خلاف بولیں تو ان کیلئے لعان کا طریقہ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے جس میں مرد اور عورت کی گواہیاں بالکل برابر اور مساوی ہیں۔
قرآن نے سورۂ نور کی ابتدائی آیات میں معاشرتی نظام کا جو نقشہ پیش کیا ہے تو اس میں مشرق ومغرب کا کوئی فرق نہیں ۔ لیکن مردوں نے ان قوانین کی بہت کھل کر خلاف ورزیاں کی ہیں اسلئے خواتین کی بغاوت کا جذبہ بھی فطری ردِ عمل ہے اور اس میں قصور قرآن وسنت سے ناواقف خواتین کا نہیں بلکہ ہٹ دھرم اور بے شرم علماء ومفتیان کا ہے جو قرآن وسنت کی واضح تعلیمات سے بالکل منحرف ہوگئے ۔
میں نے آپ نیوز اور زوم نیوز نیٹ ورک کوالگ الگ انٹرویو دیا تھا مگر مختصر انٹرویوز کو نشر کرنے کی جرأت بھی نہیں کی گئی۔لاہور عورت مارچ میں زیادہ تر لوگ مخالفت ہی کیلئے میدان میں اترے تھے۔ مولانا فضل الرحمن کی طرف سے اس دھمکی کے بعد بتایا جارہاتھا کہ پہلے سے کم تعداد میں خواتین آئی ہیں۔ ہم نے اسلام آباد عورت مارچ کو قائداعظم یونیورسٹی کے طلبہ کی طرف سے پروٹیکشن پر اطمینان کے بعد فیصلہ کیا کہ لاہور عورت مارچ کے آرگنائزروں کو کچھ دلائل سمجھاتے ہیں مگر ان سے پریس کلب میں ملاقات طے ہونے کے باوجود بھی ملاقات نہ ہوسکی۔ جب پتہ چلا کہ اسلام آباد میں حالات خراب ہیں ، مرد طلبہ نامردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشکل وقت میں 9اور2گیارہ ہونے کی بات کررہے ہیں۔ ایک طرف علماء نے مشتعل ہجوم کے ذریعے دھمکیوں کا سلسلہ جاری رکھا اور دوسری طرف عورت مارچ کا انتظامیہ خوف وہراس کا شکار تھا تو ہم نے اسلام آباد پہنچنے کی بھرپور کوشش کی تھی۔
علماء ومفتیان کو مجھے انکے اپنے اسٹیج سے یا خواتین کے اسٹیج سے حقائق سے آگاہ کرنا تھا لیکن نہیں پہنچ سکا۔ پھر ڈی چوک میں بھی اس وقت ہم پہنچے جب پروگرام ختم ہوچکا تھا اور خواتین کو پریس کلب تک جانے میں خوف محسوس ہورہاتھا۔ ہم نے پہنچ کر یہ حق ادا کرنے کی کوشش کی کہ خواتین پر حملہ ہونے سے پہلے ہم اس کی زد میں آجائیں۔ جب پریس کلب سے ڈی چوک جانے کیلئے خواتین گئی تھیں تب بھی ان کے ساتھ ہماری نوشتۂ دیوار کی ٹیم ساتھ ساتھ گئی تھی۔ شاید خواتین کو پہلے ڈر بھی لگ رہا تھا کہ یہ مولوی حضرات کے بھیجے ہوئے لوگ تو نہیں ہیں۔ ہم نے اسلام آباد اور لاہور کے علاوہ کوئٹہ، کراچی، سکھر، حیدر آباد، میرپورخاص، نواب شاہ اور خیرپور میں بھی نوشتۂ دیوار کا شمارہ خوب عام کیا تھا جس سے علماء اور مذہبی طبقے کی بہت حوصلہ شکنی ہوئی ہوگی۔ ان کے پست حوصلوں کا نتیجہ ہی یہ نکلا تھا کہ وہ ناکام ہوگئے۔
اگر خواتین نے علماء ومفتیان کے خلاف دھمکیوں ، سازشوں اور ظلم وجبر کا نظام جاری کیا ہوتا تو پھر ہم نے علماء اور مذہبی طبقے کا ساتھ دینا تھا۔ ہماری ہمدرد یاں تمام مظلوم اور مجبور عوام کیساتھ ہیں۔ ہندوستان میں مسلمانوں پر ظلم ہورہاہے تو وہاں کی لتا حیاء شاعرہ ہندو خاتون نے مودی کے خلاف اپنی آواز بلند کررکھی ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ نے فرمایا کہ ”حضرت لبید نے اپنی زندگی میں کہاتھا کہ ہم نے بہت زبردست زمانہ دیکھا تھا لیکن اگر وہ لوگ زندہ ہوتے تو کیا کہتے ۔ لیکن اگر لبید نے ہمارا زمانہ دیکھا ہوتا تو کیا کہتے؟”۔ جب ایک خاتون نے طلاق کے بعد تیسرے حیض میں عدت پوری سمجھ کر شوہر کا گھر چھوڑ دیا تو لوگوں نے کہا کہ قرآن کی خلاف ورزی ہوگئی ہے لیکن حضرت عائشہ نے فرمایا کہ قرآن میں عدت کے تین اَقراء سے اطہار مراد ہیں۔اس نے ٹھیک کیا ہے۔ حنفی فقہاء نے حضرت عائشہ کے قول کو قرآن کے منافی قرار دیدیا۔ نبیۖ نے حضرت عائشہ اور ازواج مطہرات سے فرمایا کہ میرے بعد حج کرنے کی کوئی ضرورت نہیں لیکن حضرت عائشہ نے حج بھی کیا اور شام کے لشکر کی قیادت بھی کی۔ حضرت عمر کے بہنوئی مار کھا رہے تھے مگر آپ کی بہن نے للکارا کہ تم خطاب کے بیٹے ہو تو میں بھی خطاب کی بیٹی ہوں اور تم جو کچھ کرسکتے ہو کرڈالو، ہم نے اسلام قبول کرلیا ہے۔ عمر اپنی بہن کی جرأتمندانہ للکارسے مرعوب ہوکر اسلام لائے۔ علماء دہشت گردوں سے خوف کھا رہے تھے تو بینظیر بھٹو نے للکارا۔ جب نواز و شہبازشریف نے پرویزمشرف کیساتھ ڈیل کی تھی تو نصرت شہباز اور کلثوم نوازنے میدان میں مقابلہ کیا تھا۔ جب ولی خان کو جیل میں ڈالا گیا تو بیگم نسیم ولی نے میدان سنبھالا تھا۔ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تو نصرت بھٹو ہی میدان میں اتری تھی۔ حضرت حسین کی شہادت کے بعد تحریک کی روحِ رواں آپ کی ہمشیرہ حضرت زینب نے تحریک کامیدان سنبھالا تھا۔
جب اسلام آباد دھرنے میں ایک بوڑھی خاتون سے کہا گیا کہ آپ چلو یہ لوگ مارینگے تو اس نے کہا کہ”میں بالکل نہیں اُٹھوں گی۔ یہ وہی لوگ تو ہیں جو اپنی ماں ، بہن ، بیٹیوں اور بیگمات کو اپنے گھروں میں مارتے ہیں۔اچھا ہے کہ مجھے بھی یہ لوگ ماریں۔انکے خلاف تو احتجاج کرنے نکلی ہوں”۔جب طالبان دہشتگردوں نے ہمارے گھر میں مہمان اور میزبان مرد و خواتین کو شہادت کی منزل پر پہنچایا تو میری بوڑھی مامی ان سے کہہ رہی تھی کہ تم نے امریکہ کے ڈالر کھا رکھے ہیں اسلام کی جنگ نہیں لڑ رہے ہو ، جس پر انکے سرپر بندوق کے بٹ مارے گئے۔بھارت میں مظالم کے خلاف مرد خاموش ہیں توایک ہندو شاعرہ لتا حیاء خواتین پر فخر کررہی ہیں۔

علتِ مشائخ کی تباہ کاریوں سے زمین پر لرزہ طاری؟

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

کچھ عرصہ پہلے فیصل آباد کے معروف جامعہ کے مہتمم شیخ الحدیث مولانا نذیراحمد کے خلاف فجر کی نماز کے بعد ایک طالب علم نے کھڑے ہوکر گواہی دی کہ مجھے جبری جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔پھر یکے بعد دیگرے ایک اچھی خاصی تعداد نے اپنی شکایت روتے ہوئے سنائی۔ شیخ الحدیث مولانا نذیر احمد مفتی محمدتقی عثمانی کا دوست تھا۔ 25سے 30 بچوں نے اپنے اوپر جنسی تشدد کی گواہی دی۔ شیخ الحدیث نذیر احمد کے بیٹوں نے اپنے باپ سے تنازعہ کیا اور فیصلے کیلئے مفتی محمد تقی عثمانی کو بلایا تھا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن وسنت میں علماء ومفتیان کے ہاں اس بات پر کیا سزا ہوسکتی ہے۔ اس کا بالکل بہت سادہ اور واضح جواب یہ ہے کہ ہر بچے اور لڑکے کو چار چار گواہ پیش کرنے ہونگے، تب ہی کسی سزا کا تصور ہوسکتا ہے لیکن اگر کوئی اپنے خلاف جبری جنسی تشدد کی شکایت نہ کرے تو پھر ”میرا جسم میری مرضی” کی گونج اپنی قومی اسمبلی میں بھی قادر پٹیل اور مراد سعید کے حوالے سے سنائی دیتی ہے۔
گوجرانوالہ سے تبلیغی جماعت کے کارکن سید زاہدشاہ گیلانی نے مختلف عوامی اور سرکاری حلقوں میں ناظرہ قرآن کا درس شروع کیا تو علماء کو کام پسندآیا مگر حسدبھی رکھا۔ زاہد گیلانی نے بتایا کہ علماء نے کہا کہ قوم لوط کاعمل علتِ مشائخ ہے۔ 17مارچ کو حافظ آباد سے خبر میڈیا پرنشر ہوئی ” 13 اور 16 سالہ دوبھائیوں کو جنسی تشدد کے بعد قتل کرکے پھینکا گیا ”۔ رحیم یار خان میں 10 سالہ بچی کو جنسی تشدد کے بعد قتل کیاگیا۔ڈارک ویب کا کارکن گینگ سمیت پکڑاگیا۔ تسلسل سے جنسی تشدد جاری ہے۔ قوم تماشہ دیکھ رہی ہے۔عورت مارچ نے جنسی تشدد اور پدرِ شاہی نظام کیخلاف نعرہ بلند کیا تو ریاست، صحافت، سیاسی ومذہبی پنڈتوں نے دوسرا رنگ دینے کی کوشش کی اور یہ تأثر قائم کردیا کہ یہ بیہودہ خواتین اپنے جسم کو پیش کررہی ہیں۔
چلو مان لیا کہ یہ خود کو پیش کررہی تھیں حالانکہ سلیم فطرت خواتین ایسا نہیں کرسکتی ہیں لیکن جبری جنسی تشدد کیخلاف توکم ازکم آواز اٹھارہی تھیں۔ ”جب فرشتے لڑکوں کی شکل میں حضرت لوط علیہ السلام کے پاس عذاب دینے کیلئے آئے تو قوم نے کہا کہ ہم ان سے بدفعلی کرینگے۔ حضرت لوط ؑنے کہا یہ میری بیٹیاں ہیں اگر تم کرتے ہو۔ کہنے لگے کہ ہمیں ان سے غرض نہیں، یہ آپ جانتے ہیں“(قرآن)۔ بدکردار قوم کیساتھ حضرت لوطؑ کی پردہ دار بیوی بھی ملی ہوئی تھی۔پھر اللہ نے ان پر عذاب نازل کیا تو بیوی بھی اس کی لپیٹ میں آگئی۔یہ تو اللہ ہی جانتا ہے کہ حیا مارچ کے نام پر مولوی اور جماعتِ اسلامی والوں کی بیگمات بگڑی تھیں یا جن خواتین کیلئے مذہبی طبقے نے معاشرے میں یہ تأثر قائم کیا کہ خبیث مردخبیث عورتوں کیلئے ہیں؟۔
دریا میں پشاور کے کارخانوں مارکیٹ کا کیمیکل اور ڈیرہ اسماعیل خان سمیت ساراگٹر سسٹم ڈالا جاتا ہے۔ یورپ میں جتنے لوگ کرونا وائرس سے مرتے ہیںاگر ان کو ہمارا پانی پلایا جائے تو اس سے کئی گنا شرح اموات میں اضافہ ہوگا۔ جب بنی اسرائیل کی حالت ناقابلِ اصلاح ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے چالیس سال تک جنگل میں رہنے کی سزا دی۔ کروناسے زیادہ خطرہ پچاس سال سے زیادہ عمر والوں کیلئے ہے۔ جبری جنسی تشدد ، غلامانہ نظام اور محنت کش طبقات کی زندگیوں کا اجیرن ہونا بہت بڑا المیہ ہے۔ کرونا پر قابو پالیںگے لیکن جب تک ظلم وستم کے خاتمے کیلئے ایک مشترکہ لائحۂ عمل تشکیل نہ دیا جائے تو ایکدوسرے کی مخالفت سے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔
خلیل الرحمن قمر نے ڈرامے لکھے مگر قرآن وسنت اور انسانی فطرت سے انحراف کی چالیں نہیں دیکھی ہیں۔ جنرل پرویزمشرف کے دور میں خواتین تحفظ بل منظور کرنے کی بات ہوئی ، جس کی بنیاد یہ تھی کہ 80فیصد سے زیادہ خواتین جیل میں بند تھیں کہ ان کیساتھ جبری جنسی زیادتی ہوئی تھی اور جب چار عادل گواہ پیش کرنے سے قاصر رہیں تو اُلٹا انہی کو قید کردیا گیا۔ حدود آرڈینینس میں تبدیلی کی بات ہوئی تو شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے اسکے خلاف بہت بھونڈے انداز میں لکھ دیا۔ جس کو جماعت اسلامی نے چھاپ کر بڑے پیمانے پر اس کی تشہیر کردی۔ اس وقت ہم ضرب حق کے نام سے اخبار نکالتے تھے۔ ہم نے ایک پمفلٹ لکھ کر مفتی تقی عثمانی کے دانت کھٹے کردئیے تھے۔ اسی لئے زرداری کے دور میں خواتین تحفظ بل کی کسی نے مخالفت نہیں کی ۔ قرآن میں زنا بالجبر کی سزا قتل اور حدیث میں سنگساری ہے ۔
اگر خواتین کو مغربی نظام اور مغربی لبادہ کسی قدر زنا بالجبر سے تحفظ دے اور برقعہ یا اسلامی نظام جبری جنسی زیادتی سے تحفظ نہیں دے سکتاتو آج چند خواتین ہیں ، کل خواتین کی بڑی تعداد ہوگی، انکا راستہ جبر وتشدد کے ذریعے سے نہیں روکا جاسکے گا۔
انسان کو زیادہ غیرت اپنی بیوی پر آتی ہے مگر ایسے بھی ہیں جن کو بیوی توکیا خود پر بھی غیرت نہیں آتی اسلئے کہ ان کی فطرت مسخ ہے ۔جو بیوی پر غیرت نہیں کھاتا بلکہ اس کو استعمال کرتا ہے تو اس کو دیوث کہتے ہیں۔ اشرافیہ کا گراف غیرت کے لحاظ سے افق پر نہیں۔ علتِ مشائخ نے مذہبی طبقے کا ضمیرمردہ بنایاہے۔ اسلام آباد عورت مارچ کیخلاف نکلنے والا مذہبی طبقہ غیرت رکھتا تو جنسی تشدد میں قتل کے خلاف عوام کو جلسے جلوسوں کی شکل میں احتجاج کیلئے ضرور نکالتالیکن وہ ایسا نہیں کرتے ہیں۔
ہمارے وزیرستان کےMNA پی ٹی ایم کے رہنما علی وزیر نے اسلام آباد عورت مارچ میں شرکت کی ، جس پر اسٹیج سے ان کا شکریہ بھی ادا کیا گیا مگر جب اس نے حالات کا جائزہ لیا تو موقع پر رفوچکر اور نو دو گیارہ ہونے میں عافیت جانی۔ فوج کیخلاف نعرہ لگانے والے کیلئے عورت مارچ میں مذہبی طبقہ کیخلاف کھڑا ہونا خالہ جی کا گھر نہ تھا۔ علی وزیر نے قومی اسمبلی میں کہا ”جو کچھ کہوں گا سچ کہوں گا۔سچ کے علاوہ کچھ نہیں کہوں گا۔ قبائلی علاقوں کے بڑے پاک فوج کی حمایت کی وجہ سے طالبان نے شہید کئے۔ میرا خاندان بھی فوج کی حمایت کی وجہ سے شہید کیا گیا”۔ حالانکہ اس میں کوئی صداقت نہیں ۔ البتہ جن لوگوں نے یہ الزام لگایا تھا کہ فوج اور طالبان نے ملکر ان کو شہید کیا ہے تو اس کی نفی ہوگئی ۔ شمالی و جنوبی وزیرستان میں وزیر قبائل نے بڑے پیمانے پر طالبان کی حمایت کی۔ ڈاکٹر گل عالم وزیر پہلے طالبان کیساتھ تھا اور اب علی وزیر کا ساتھی ہے۔ منظور پشتین کی بات درست ہے کہ ”ہم ظلم کیخلاف ہیں ، ظلم کوئی بھی کرے تو اسکے خلاف ہیں”۔ مذہبی طبقہ کا ظلم سامنے نہ لایا جائے توہم ایمان نہیں بچاسکتے ۔ مخصوص طبقہ کو ٹارگٹ کرنے کا اچھا نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ پاکستانی آئین اور ہمارے معاشرے کی بنیاد اسلام ہے اور اسلام کوعلماء نے مظلوم بنایا ہوا ہے۔ پاکستان میں جہیز اور حق مہر کے نام پر خواتین کو فروخت کرنے کا جس طرح کا ظلم معاشرے میں روا رکھا گیا ہے اور ان کی عزتوں کو حلالہ کے نام پر جس طرح سے لوٹا جارہاہے ۔ جبری جنسی زیادتی کو جس طرح قانونی تحفظ حاصل ہے۔ جب تک ان تلخ حقائق کو ہم درست طریقے سے ختم کرنے کا ٹھوس لائحۂ عمل تشکیل نہیں دیتے ،تو ہمارے مردہ معاشرے میں احسا س کی روح نہیں جاگ سکتی ہے۔
فوج، عدالت، سول بیوروکریسی ،سیاستدان، صحافی اورعلماء کرام ایک پیج پراس خطرناک وائرس کرونا سے بڑھ کرجرائم اور ظالمانہ رویوں کے خلاف قومی ایکشن کی تیاری کریں۔ قرآن وسنت ہی سے ظلم وجبر کے نظام سے چھٹکارامل سکتا ہے۔جب مذہبی لوگوں نے دہشت گردی کے ذریعے پوری دنیا کو ہلا ڈالا تودنیا میں اسلام بہت بدنام ہوا، لوگوں کو مسلمانوں سے نفرت ہونے لگی ۔ قرآن وسنت کے فطری قوانین کو دنیا میں متعارف کرایا گیا تو اسلام سے باغی اور تمام انسان اسلام کو پسند کرینگے۔

عورت آزادی مارچ پر حملہ اور خواتین کی ثابت قدمی!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

اللہ نے فرمایا کہ ”اے بنی آدم ! تمہیں شیطان ورغلائے نہیں کہ تمہیں ننگا کر دے جس طرح تمہارے والدین کو ننگا کرکے جنت سے نکلوادیا تھا”۔(القرآن)
ہم جو انسانوں کی تہذیب لئے پھرتے ہیں
ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں
ساحر لدھیانوی نے 1914ء میں یہ غزل لکھی تھی ، عورت آزادی مارچ اس کی عکاسی کرتی ہے۔عصمت شاہجہان کی تقریر غمازی کرتی ہے کہ یہ لوگ ظالمانہ نظام کیخلاف ہیںجس میںعورتوں،بچوں اور خواجہ سراؤں کا استحصال ہورہاہے۔
تشددکے بعدہدیٰ بھرگڑی نے جس تضاد کا ذکر کیا، یہ عورت پن کا کمال ہے ۔ مردوں کی نیچ حرکتوں اور جنسی ہراسمنٹ کا خدشہ غیرتمند عورت کوجتنا خوفزدہ کرتاہے اس کمزوری کے احساس کاتخمینہ جانور سے بدتر بے غیرت مرد نہیں لگاسکتے ۔طالبان نے میری وجہ سے میرے گھر پر حملہ کرکے 13افراد شہید کردئیے۔ میرابھائی، بہن، بھتیجا، بھانجی،ماموں زاداور خالہ زاد ، مسجد کے امام ، گھرکے خادم، دور و قریب کے مہمان محسود، مروت ، جٹ، آفریدی جن میں حافظ، عالم اور مجذوب شامل تھے۔ یہ چھوٹا کربلا برپا ہوا تو ایک بزرگ خاتون میری مامی نے موقع پر طالبان سے کہا کہ تم امریکہ کے ایجنٹ ہو، ڈالر تم نے کھائے ہیں ، اسلام کا تمہیں فکروغم نہیں ۔کوئی بوڑھی عورت نیک نمازی اور پرہیزگار ہو تو خود کش بمباروں، راکٹ لانچروں، بموں اور جدید اسلحہ سے لیس دہشت گردوں کو چیلنج کرتی ہے کہ آبیل مجھے مار۔ اسلام آباد میں مذہبی طبقے نے پتھر، ڈنڈے اورجوتے برسائے تو ایک معمر خاتون ڈٹ کر بیٹھ گئی کہ یہ وہی لوگ ہیں جو اپنے گھروں میں اپنی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو بھی مارتے ہیں، مجھے یہاں سے نہیں جانا بھلے مجھے بھی ماریں،انہی کیخلاف تو ہمارا احتجاج ہے۔ عوامی ورکر پارٹی کے کارکن قائداعظم یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹ سوات کے امجد نے اماں کو اٹھانے کی کوشش کی تو پتھر امجد کے سر پر لگا جس سے اسکے سر میں بہت بڑا گومڑ نکلا۔ جوان لڑکی کو اپنی عزت لٹنے کا جو خطرہ ہوتا ہے بوڑھی عورت کو اسکا خوف نہیں رہتا ۔
کافی عرصہ بیت گیا، ہمارے ساتھ ہونیوالے سانحہ پر ایک آنسو بھی نہیں ٹپکامگر جب اپنی بھتیجیوں کا واقعہ کے بعد ٹانک سے پشاور آتے ہوئے خوف کاماحول سن لیا تو مہینوں آنکھوں کے آنسو پر قابو نہیں پاسکتا تھا۔ جب میرے بڑے بھائی نے مجھے فون کیا کہ اس قربانی سے لوگوں میں امن کا ماحول قائم ہوگا تو یہ سستا سودا ہے تومیں نے عرض کیا کہ ہماری قربانی کچھ بھی نہیں ہے۔جن خواتین کو برہنہ کرکے پنجاب کی سرزمیں پر سرعام گھمایا جاتا ہے جب تک اسکا تدارک نہ ہو ،یہ عذاب ٹل نہیں سکتا ۔ پھر ڈیرہ اسماعیل خان میں لڑکی کو برہنہ کرنے کا واقعہ ہوا۔ جنسی تشدد کے بعد بچوں کو قتل کرنے کے واقعات صوبے صوبے، شہر شہر اور گاؤں گاؤں پہنچ رہے ہیں۔ تماشہ دیکھنے والے سمجھ رہے ہیں کہ ہمارا مستقبل محفوظ ہوگا؟۔ بھارت کا حال بھی لتا حیا کی شاعری میں جھلک رہاہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے مولانا فضل الرحمن کے فتوے سے مذاق مذاق میں خوف کا اظہار کیا تھا مگرمولوی کسی پر فتویٰ بھی لگاتا ہے تو عوام، تھانہ، عدالت ،ریاست اور حکومت اس کی تردید کرنے کی جرأت نہیں کرسکتی ہے۔
عورت آزادی مارچ نے اسلام آباد میں جس طرح جرأتمندانہ کردار ادا کیا ہے تو ہماری حکومت، ریاست، سیاست اور صحافت کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ اگلے الیکشن میں خواتین کو جتوائیں۔ جرأتمند خواتین سے گزارش ہے کہ لیفٹ اور رائٹ ونگ کا چکر چھوڑ کر معتدل معاشرے کی تشکیل میں اپناکردار ادا کریں، جس سے تمام باطل قوتوں کو جلد سے جلد شکست کا سامنا کرنا پڑے۔ عوامی ورکر پارٹی پنجاب کے صدر عاصم سجاد سے ایک ملاقات ہوئی تھی لیکن پھر وہ برطانیہ چلے گئے۔
کسی معاشرے میں ظلم کا راج ختم کرنا صرف ریاست کیلئے ممکن نہیں ہوتاہے۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں اساتذہ کرام اور طلباء عظام بالکل اولیاء تھے لیکن جب وہاں مردان کے کچھ بدمعاش طلبہ نے اپنا راج قائم کیا تھا تو اللہ کے فضل وکرم سے مجھے اللہ تعالیٰ نے ان کا راج ختم کرنے کی توفیق دی اور میں کامیاب ہواتھا۔
یاا یھا الجیش من نساء اہل المردان
ان کنتم رجالًا فتعالوا الی المیدان
ترجمہ:”اے مردان کی عورتوں کا لشکر اگر تم مرد ہو تو پھر میدان کی طرف آؤ”۔
مولانا نجم الدین مردانی نے شروع سے آخر تک جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں تعلیم حاصل کی، جب وہ مفتی کا کورس کررہاتھا تو مار کٹائی پر فتویٰ لکھ دیا، وحشیانہ پٹائی کو ناجائز قرار دیا۔ طلبہ نے فتوے کی فوٹو کاپیوں سے آئینہ دکھایا تو مولانا نجم الدین کو مدرسہ نے نکال دیا۔ میں نے کہا کہ فتوے کا جواب فتویٰ تھا، مولاناکو نکالنا بہت ظلم ہے۔ مردانی طلبہ نے مجھے بتایا کہ نجم الدین نے مفتی محمد ولی کو دھمکی دی کہ ” ریلوے اسٹیشن پہنچوگے تو میں تمہاری شلوار اتاروں گا”۔ میں نے کہا کہ یہ جرأت تو مدرسے کے چوکیدار کیلئے بھی غلط ہے ۔ میں مفتی ولی سے پہلے اسٹیشن پہنچا تو ڈھونڈنے کے باوجود نجم الدین نہ ملا۔ مفتی ولی صاحب پہنچے تو میرے کلاس فیلو مولانا صادق حسین اور حاجی عبداللہ (خادمِ خاص مولانا بنوری) بھی ساتھ آئے تھے۔مفتی صادق حسین آف ٹل پاڑہ چنار نے بعد میںبتایا کہ وہ اپنے ساتھ پسٹل بھی لایاتھا۔میں نے بعد میں بہانہ سے مردانی طلبہ کی پٹائی لگائی اور ان کو چیلنج کیا ، انہوں نے جب مفتی ولی کو ایکشن لینے اورداد رسی کیلئے میرے اشعار دئیے تو مفتی صاحب گنگناتے ہوئے میرے اشعار درسگاہ میں پڑھتے تھے جس کی وجہ سے مجھے ان طلبہ پر رحم آیا۔
ہم نے عورت آزادی مارچ سے پہلے کراچی، کوئٹہ ،لاہور، سکھر، خیرپور، نواب شاہ ، حید ر آباد اور اسلام آباد میں نوشتۂ دیوار خوب پھیلانے کی کوشش کی۔ جس میں عورت آزادی مارچ کی زبردست حمایت اور مذہبی طبقے کے ایمان کا پول کھول کر بڑی حوصلہ شکنی کی تھی۔ اگر ہم چاہتے تو عورت آزادی مارچ کی دھجیاں بکھیرنے کی سرخیاں لگاکر خراج کی خیرات وصول کرسکتے تھے مگر ضمیر کا شفاف آئینہ بفضل تعالیٰ اتنا باریک ہے کہ بڑے حادثے کے بعد مظلومیت کی ہمدردی کا اظہار بھی غبارکی مانندایک بڑا بوجھ لگتا تھا۔ کمزوروں پر طاقت آزمائی بڑے کمینے لوگوں کا کام ہے۔
لاہور عورت مارچ میں آپ نیوز ٹی وی چینل نے میرا مختصر انٹرویو ریکارڈکیا مگر ایک جملہ نشر کیا ۔ مبشر لقمان اس کونشر کرکے علماء سے رائے مانگ لیں۔ عورت مارچ میں یہ پلے کارڈ بھی تھا کہ اسلام نے ہمیں حقوق دئیے مگر مسلمان نہیں دیتا ۔ میں نے بہت کھلے الفاظ میں کہا تھا کہ عورت آزادی مارچ انقلاب ہے، عورت اپنے حق کیلئے نہیں اُٹھے گی تو مردوں نے ان کو حق نہیں دینا ہے۔ ایک طاقتور مرد کو قرآن کہتا ہے کہ اپنی بیوی کیساتھ کسی کوکھلے عام رنگ رلیاں مناتے ہوئے پکڑلو تو فحاشی کی بنیاد پر اس کو چھوڑ سکتے ہو مگر قتل نہیں کرسکتے۔ لیکن طاقتور مرد کہتا ہے کہ میں قرآن کا حکم نہیں مانتا ہوں ، لعان کرنے کی بجائے اس کو قتل کروں گا۔ مولوی اور معاشرہ کبھی نہیں کہتا کہ قرآن کا حکم نہیں مانتا اسلئے کافر وفاسق ہوگیا۔ دوسری طرف طاقتور مرد کسی عورت کی عزت زبردستی سے اسکے کمزورخاوند کے سامنے لوٹتا ہے اور وہ انصاف لینے جب اسلامی عدالت پہنچ جاتے ہیں تو زبردستی سے زیادتی کرنے والوں کی داد رسی تو بہت دور کی بات ہے، الٹا شکایت کرنے والوں سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ چار مرد گواہ لیکر آؤ۔ نہیں تو حدِ قذف کی سزا بھی کھاؤ۔ کیا مولوی کایہ اسلام قابلِ قبول ہوسکتا ہے؟۔

اسلام آباد عورت آزادی مارچ 2020

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

وہ بھیانک دور جب دہشتگرد دندناتے پھرتے تھے اور سرکاری عمارتوں ، گاڑیوں اور شخصیات کے علاوہ مساجد اور امام بارگاہوں کو بھی خودکش حملوں کا نشانہ بناتے تھے۔ لیکن ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالتا تھا۔ عمران خان کھلاڑی نے جب ڈاکٹر طاہر القادری کیساتھ اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا تو ایک طرف جنرل راحیل شریف نے دہشتگردی کے خلاف ضرب عضب آپریشن شروع کیا تھا تو دوسری طرف عمران خان پنجاب پولیس کے گلوں بٹوں کو طالبان کے حوالے کرنیکی دھمکیاں دے رہا تھا۔ اس وقت حیاء مارچ کی نمائندگی ڈاکٹر طاہر القادری کی خواتین کررہی تھیں اور میرا جسم میری مرضی والوں کی نمائندگی عمران خان کا دھرنا کررہا تھا۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے حیاء مارچ کی نمائندگی کرنے کے بعد ایک ضمنی سیٹ کا الیکشن ہارا تو بعد ازاں اس سیاست کو بھی خیر باد کہہ دیا۔ جبکہ میرا جسم میری مرضی والوں کی نمائندگی کرنے والے عمران خان کو پورے پاکستان میں سب سے زیادہ سیٹیں اور ووٹ مل گئے۔ یہ کس کا کرشمہ تھا ؟ لیکن انہی خواتین نے جب پدرِ شاہی نظام کے خلاف علم بلند کردیا تو حکومت ، ریاست ، سیاست اور مذہبی طبقات کی طرف سے ان کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ پی ٹی ایم کا تعلق بھی پی ٹی آئی والوں سے ہی تھا۔ جب کوئی انصاف طلب کرتا ہے تو اس کو ملک دشمن اور اسلام دشمن قرار دیا جاتا ہے۔ جب ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین روزانہ کی بنیاد پر جرنیلوں کو قبضہ کرنے کی دعوت گناہ دیتا تھا تو اس کی تمام دہشتگردی اور اجارہ داریوں کو برداشت کیا جاتا تھا۔
ہمارا ریاستی نظام امریکہ سے زیادہ کمزور ہے لیکن کوئی واقعہ جب امریکہ کے وائٹ ہاؤس سے صدر ٹرمپ کو بھگا سکتا ہے تو کوئی تحریک ہمارے نظام کو بھی تتر بتر کرسکتی ہے۔ جب جنرل ضیاء الحق کے دور میں بینظیر بھٹو آئی تھیں تو نظام کو خطرہ لاحق ہوگیا تھا۔ حبیب جالب نے کہا تھا کہ
ڈرتے ہیں بندوق والے ایک نہتی لڑکی سے
عورت آزادی مارچ والوں نے پدرِ شاہی نظام کے خلاف آواز اٹھائی تو ہر طرف سے لوگ اور ان کی جعلی لیڈر شپ انکے خلاف ہوگئی۔ نوشتہ ٔ دیوار کی ٹیم نے ثابت قدمی کے ساتھ ان نہتی خواتین کی حفاظت کا فریضہ پورا کرنے کی کوشش کی جن کو ریاست کی پولیس پر بھی اعتماد نہ تھا۔ درج بالا تصویر میں نوشتہ دیوار کی ٹیم نمایاں ہے جو خواتین پر پتھراؤ کے بعد پریس کلب سے ڈی چوک کی طرف کے سفر میں بالکل ساتھ ہے۔ سید شاہجہان گیلانی ، بلال خان ، علی خان نے بہت جرأت مندی کے ساتھ ظالموں کیخلاف مظلوموں کا ساتھ دیا۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید سوشل میڈیا کے ورکر مرد میدان نہیں ہوتے لیکن یہ تصور غلط ثابت ہوا ہے۔
بلوچ نژاد سندھی ہدیٰ بھرگڑی وہی خاتون ہیں جس کی پہلی تقریر امریکہ کے خلاف اور طالبان کے حق میں تھی لیکن وزیرستان میں طالبان کیلئے سب سے زیادہ ایکٹو قوم محسود کے سرنڈر طالبان کو ایک مخصوص لباس پہنا کر پاکستان کا قومی ترانہ گانے پر مجبور کیا جاتا ہے جس پر پاک فوج کو دل کی گہرائی سے سلام پیش کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہ بے ضمیر قومی جذبات کا غلط فائدہ اٹھا کر اپنی پشت میں بارود دبا کرملکی اثاثوں اور اپنی عوام کو تباہ کررہے تھے۔ ذیل میں ہم نے شہباز تاثیر اور قاری سعد اقبال مدنی کے بی بی سی پر نشر ہونے والے انٹرویوز بھی دئیے ہیں۔ اسلام کی خاطر قربانی دینے والے طبقات میں اگر درست شعور اجاگر ہو تو پھر بعید نہیں کہ ہماری ریاست ، ہماری سیاست اور ہمارا نظام بھی بدلے اور اس کیلئے صنف نازک خواتین کی طرح صرف اور صرف آواز اٹھانے کی قربانی اللہ کے ہاں قبول ہوجائے۔