پوسٹ تلاش کریں

سورۂ النجم کے حوالے سے شیطانی القا کی طرح بخاری وابن ماجہ وغیرہ میں قرآن کی حفاظت کے منافی احادیث کو بھی مسترد کرنا ہوگا

سورۂ النجم کے حوالے سے شیطانی القاکی طرح بخاری وابن ماجہ وغیرہ میںقرآن کی حفاظت کے منافی احادیث کو بھی مسترد کرنا ہوگا،اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا وعدہ پورا کیا ہے مگر شیعہ سنی ایکدوسرے پر تحریف قرآن کا الزام لگاتے ہیں

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

سنی شیعہ کتب میں تحریف کا عقیدہ موجود ہے اور ایکدوسرے پر الزامات لگانے کے بجائے ان من گھڑت روایات کو بہت کھلے انداز میں اپنے دل اوردماغ سے نکالنے کی ضرورت ہے

امام جعفر صادق،امام ابوحنیفہ ،امام مالک ،امام شافعی اورامام احمد بن حنبل سب کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ قرآن کے مقابلے میں کسی اور قرآن کو رواج نہیں دیا،سب اسی قرآن پر متفق ہیں

مدینہ منورہ میں ایک کتب خانے والے سے میں نے کہا کہ میں شیعہ ہوں تو انہوں نے کہا کہ الحمد للہ ہم سنی ہیں۔ میں نے کہا کہ الحمدللہ میں شیعہ ہوںالحمدللہ کہنے سے تو کچھ فرق نہیں پڑتا ہے ،شیعہ سنی میں فرق کیا ہے؟۔ اس نے کہاکہ سنی شیعہ میں بہت فرق ہے، شیعہ قرآن کو نہیں مانتے۔ میں نے کہا کہ آپ قرآن کو مانتے ہیں؟۔ اس نے کہا کہ الحمدللہ ہم مانتے ہیں۔ میں نے کہا کہ ابن ماجہ اٹھانا اور ابن ماجہ میں رضاعت کبیر کی روایات دکھائی کہ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ” جب رسول اللہ ۖ کا وصال ہوا تو آپۖ کی چار پائی کے نیچے دس آیات پڑی تھیں۔ جن میںرجم کرنے کا اور بڑے شخص کو دودھ پلانے کا ذکر تھا تو بکری نے کھاکر ضائع کردیں”۔یہ دیکھ کر اس کا رنگ اُڑگیا۔ میں نے کہا کہ ہم نہ سنی ہیں اور نہ شیعہ،بلکہ مسلمان ہیں۔ اس نے کہا ہم بھی بس مسلمان ہیں۔
سنیوں نے اپنے لوگوں کے دل ودماغ میں یہ بھردیا ہے کہ شیعہ قرآن کی تحریف کے قائل ہیں اور شیعہ اب لوگوں کے دل ودماغ میں یہ بھر رہے ہیں کہ سنی قرآن کی تحریف کے قائل ہیں۔ حقائق کے بجائے مذہبی وسیاسی اتحاد کی بات کرنا اسلام اور ملت کا تقاضہ نہیں بلکہ منافقت کا شاخسانہ ہے۔ ابن ماجہ اور صحیح مسلم میں کس کا درجہ اونچا ہے؟۔ ظاہر ہے کہ صحیح مسلم کا ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا کہ ”اگر مجھے لوگوں کا خوف نہ ہوتا کہ وہ کہیں گے کہ اللہ کی کتاب پر اضافہ کیا ہے تو رجم کی آیات کو قرآن میں لکھ دیتا”۔ ابن ماجہ میں ہے کہ بکری کے کھا جانے کی وجہ سے رجم کی آیت و رضاعت کبیر کی آیات ضائع ہوگئیں اور صحیح مسلم میں ہے کہ اگر رجم کا حکم قرآن میں درج کیا جائے تو پھر لوگ اسکو قرآن میں اضافہ سمجھ لیں گے۔ حالانکہ اگر یہ بات صحیح ہوتی کہ آیات بکری کے کھا جانے سے ضائع ہوگئی ہیں تو قرآن میں درج کرنے پر کیوں اعتراض ہوتا؟۔
سوال یہ ہے کہ رجم ورضاعت کبیر کا حکم قرآن میں تھا یا پھرحدیث میں؟۔ اگر قرآن میں تھا تو پھر جس کا حکم موجود تھاتو اس کی تلاوت منسوخ کیسے ہوگئی؟۔ اہلحدیث حضرات امام ابوحنیفہ اور ائمہ فقہ کے سخت مخالف ہیں لیکن وہ یہ مسائل کبھی حل نہیں کرسکتے ۔ اہلحدیث کایہ مسلک ہے کہ” بڑا آدمی کسی عورت کا دودھ پی لے تو پھر ان کا آپس میں پردہ نہیں رہتا ہے لیکن اگر نکاح کرنا چاہیں تو پھر آپس میں نکاح کرسکتے ہیں”۔ جسطرح مدینہ منورہ میں کتب خانے والے نے ابن ماجہ میں قرآن کی تحریف کی آیت دیکھ کر سنی ہونے سے بھی برأت کا اعلان کردیا،اسی طرح اہلحدیث اپنے مسلک کی تقلید سے بھی پکی توبہ کرلیںگے۔
قرآن کے بارے میں حدیث ہے کہ سات حروف پر نازل کیا گیا ہے اور ظاہر بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرطاس میں کتابت کی شکل میں نازل نہیں کیا تھا اور ایک حرف کو پڑھنے کا لہجہ مختلف تھا۔ جس طرح پختون اور بلوچ ف پر پ کا تلفظ کرتے ہیں۔ فعل کو پعل کہتے ہیں۔ انگریزوں ، عربوں اور ہندوستانیوں کا لہجہ بھی حروف میں مختلف ہے۔ فون کو اسلئے (Fone)کے بجائے(Phone) لکھا جاتا ہے۔ تاکہ پ اور ف دونوں سے پڑھنے کا آپشن باقی رہے۔ ہماری پشتو زبان کے بعض حروف میں دونوں طرح کے لہجے کی گنجائش ہے۔پشتو اور پختو پڑھ سکتے ہیں۔ جئی اور زئی،لژ اور لگ ، سہ اور چہ وغیرہ لکھنے میں ایک ہیں لیکن پڑھنے میں تلفظ بالکل مختلف ہے۔ بعض عرب ق کو ج اور غ بھی پڑھتے ہیں۔ امارات میں شارجہ لکھنے میں شارقہ ہے اور لیبیا کے صدر قذافی کسی افریقی عرب کا قرآن سن رہے تھے تو اناانزلنٰہ فی الیلة القدر کو لیلة الغدر پڑھا جارہا تھا۔ مصری ج کو گ پڑھتے ہیں۔ انگریزی میں بھی (G)گ اور ج کی آواز دیتا ہے۔
صحابہ کرام نے قرآن کے مصاحف پر کوئی اختلاف نہیں کیا تھا ۔ جہاں کسی کے مصحف میں کوئی اضافہ ہے تو یہ اس کی تفسیر ہے۔ جس طرح جلالین اور کسی اور تفسیر میں اضافہ قرآن کا اختلاف نہیں ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ تورات، زبور اور انجیل کے علاوہ افلاطون کی کتاب کیلئے کاغذ اور محفوظ راستہ تھا مگر ہماری روایات میں قرآن ہڈیوں ، پتھروں، درخت کے پتوں پر لکھا جاتا تھا اسلئے اپنے قرآن کی حفاظت کے بارے میں اپنی روایات سے شکوک ڈال دئیے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ نبیۖ نے قرطاس ایک وصیت لکھنے کیلئے مانگا تھا لیکن قرآن کیلئے قرطاس نہیں تھا جس کا ذکر قرآن کی آیت میں بھی ہے؟۔
قرآن کی حفاظت کیلئے قرآن کی داخلی آیات بھی کافی ہیں لیکن احادیث کی کتب میں قرآن کی حفاظت کیلئے بخاری کی ایک ہی سب سے مضبوط روایت ہے کہ ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت علی نے فرمایا کہ رسول اللہۖ نے ہمارے پاس مابین الدفتین ”دو جلد کے درمیان قرآن” کے علاوہ کچھ نہیں چھوڑا تھا۔ صحیح بخاری کی اس روایت پر وفاق المدارس کے صدر مولاناسلیم اللہ خان نے اپنی شرح ”کشف الباری” میں لکھ دیا ہے کہ ” امام اسماعیل بخاری نے یہ روایت شیعوں کے رد میں لکھ دی کہ تمہارا عقیدہ غلط ہے کہ قرآن میں تحریف ہوئی ہے ، حالانکہ صحیح بخاری کا اپنا عقیدہ اور سنیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن ایک نہیں ہے ۔جب حضرت عثمان نے قرآن جمع کیا تو حضرت عبداللہ بن مسعود کی رائے شامل نہیں کی ۔ جس کی وجہ سے ابن مسعود ناراض تھے اور حضرت عثمان کی طرف سے کسی کنواری لڑکی سے شادی کی پیشکش بھی اسلئے قبول نہیں کی تھی”۔
مولانا مودودی کی تفسیرتفہیم القرآن، علامہ غلام رسول سعیدیکی تفسیر تبیان القرآن اور علامہ شبیر احمد عثمانی کی تفسیر عثمانی میں لکھا ہے کہ ” عبداللہ بن مسعود کے مصحف میں آخری دو سورتیں نہیں تھیں اسلئے کہ وہ اس کو قرآن نہ سمجھتے تھے”۔ روایات میں آخری دو سورتوں کے علاوہ یہ بھی ہے کہ سورۂ فاتحہ کو بھی مصحف میں نہیں لکھا تھا۔ جس طرح سورۂ نجم کے حوالے سے شیطانی القا کی آیات پر بہت بڑا اختلاف ہے، یہی اختلاف حضرت ابن مسعود کی طرف سورتوں سے انکار پر بھی موجود ہے۔ مولانا مودودی نے اس کی تردید بھی نہیں کی ہے۔ حالانکہ جب کسی آیت سے انکار کفر کا موجب ہے تو سورتوں سے انکار کفر کا موجب کیوں نہیں ہوگا؟ حضرت عبداللہ بن مسعود کے مصحف کو جن لوگوں نے دیکھا تھا تو اس کا پہلا اور آخری صفحہ پھٹ چکا تھا جس کی وجہ سے سورۂ فاتحہ اور آخری دو سورتیں اس میں موجود نہیں تھیں۔ حضرت مولانا حافظ مفتی محمدحسام اللہ شریفی کے پاس اورنگزیب عالمگیر بادشاہ کے ہاتھ کا لکھا ہوا قرآن موجود ہے، اس میں فاتحہ اور آخری پانچ سورتیں نہیں ہیں اسلئے پہلا اور آخری دو صفحے پھٹ چکے تھے لیکن اس کا یہ مطلب لینا ہرگز درست نہیں کہ وہ قرآن کی آخری سورتوں کے منکر تھے۔
دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث ، جماعت اسلامی اور اہل تشیع مل بیٹھ کر اپنے اپنے پیروکاروں کے ذہنوں سے غلط فہمیاں دور کرنے میں اپنا کردار ادا کریں اور تفاسیر میں قرآن کے نص اور سورتوں سے متعلق اپنی غلطی کی بھرپور نشاندہی کرکے عقیدے کی صحت کیلئے ایک پلیٹ فارم سے جدوجہد کریں۔ اگر عوام کی طرف سے مذہبی طبقات کے خلاف رد عمل آنا شروع ہوگیا تو نہ صرف ان کے مدارس بند ہوں گے بلکہ ان کی زندگیوں کو بھی خطرات لاحق ہوجائیں گے۔
ہم بہت تسلسل کیساتھ ان ڈھیٹ قسم کے لوگوں کو سمجھا رہے ہیں لیکن انکی بھلے ٹیٹ نکل جائے مگر راہِ راست پر آنے کیلئے تیار نہیں ہورہے ہیں۔ چھوٹے علماء کرام اور مسلمان عوام کے نزدیک قرآن محفوظ ہے لیکن بڑے بڑے ڈھیٹ بنے پھرتے ہیں۔ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے اپنے دانت بدل دئیے ہیں اور اپنے شاگرد مفتی زبیر صاحب کے ہاں فارغ التحصیل علماء سے خطاب کیا ہے کہ ”آج بعض افراد سے بہت لوگ متأثر ہورہے ہیں لیکن معتزلہ وغیرہ فرقے آج کہاں ہیں؟۔ غلام احمد پرویز کی باتوں کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا سوائے اس کے کہ اس پر کفر کا فتویٰ لگایا جائے۔ آج پرویز کہاں ہے، اسی طرح یہ نئے لوگ بھی تاریخ کا حصہ بن جائیںگے”۔
دارالعلوم دیوبند کے سب سے بڑے مدرس شیخ الحدیث مولانا سیدانورشاہ کشمیری نے آخر ی عمر میں فرمایا تھا کہ ” میں نے فقہ کی الجھنوں میں اپنی ساری زندگی تباہ وبرباد اور ضائع کردی۔ قرآن وسنت کی کوئی خدمت نہیں کی”۔ مفتی محمد تقی عثمانی نے الائنس موٹرز میں حیلہ کرکے زکوٰة کے پیسے تجارت کیلئے دئیے۔ وقف مال شریعت میں بیچنے اور خریدنے کی اجازت نہیں ہوتی ہے لیکن اس نے مدرسے میں اپنے لئے گھر بیچا اور خریدا۔ اسکے استاذ مفتی رشیداحمد لدھیانوی نے فتویٰ دیا کہ وقف مال بیچنے اور خریدنے کی شریعت میں اجازت نہیں ہے ۔ یہ بھی نہیں ہوسکتا ہے کہ بیچنے والا اور خریدنے والا ایک ہی شخص ہو۔ مفتی محمد شفیع اپنے بچوں کیلئے دارالعلوم کی وقف زمین بیچنے والا بھی خود ہو اور خریدنے والا بھی خود ہو توپھر اپنی اصلاح کرنے کے بجائے مفتی تقی عثمانی اور مفتی رفیع عثمانی نے اپنے استاذ مفتی رشیداحمد لدھیانوی کی تاریخی پٹائی لگائی تھی۔ ہمارے استاذ جمعیت علماء اسلام کراچی کے امیر مولانا شیر محمد صاحب اور ان کے ساتھ دوسرے طلباء نے اپنے استاذمفتی رشید احمد لدھیانوی کی مارپٹائی سے سوجھے ہوئے چہرے کو دیکھا تو بدلہ لینے کی پیشکش کردی تھی لیکن مفتی رشیداحمد لدھیانوی نے اجازت نہیں دی اسلئے کہ اس کو جان کا خطرہ بھی ہوسکتا تھا۔ یزید نے صحابیوں کے بیٹوں سے حضرت امام حسین اور ان کے ساتھیوں کو اقتدار کیلئے شہید کروایا تھا۔ بینکوں کی سودی زکوٰة، بینکوں کو اسلامی قرار دینے کے معاوضے، وقف مال پر اپنا ذاتی کاروبار اور حلالہ کی لعنت میں گرفتار لوگ ہی تاریخ کا حصہ بنیں گے ۔ انشاء اللہ
قارئین کرام! بہت مجبوری کے تحت اصل موضوع پر تفصیل سے بات کرنا ادھوری رہ جاتی ہے۔ حضرت مولانا انور شاہ کشمیری نے قرآن کی لفظی تحریف کا اعتراف نہیں کیا ہے بلکہ اس کی نشاندہی فرمائی ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی جس طرح بھی گزاری لیکن خاتمہ بالخیر ہوگیا تھا۔ ہماری جوانی اللہ تعالیٰ نے اپنے ہی فضل سے قبول فرمائی اور ہم سے دین کے تحفظ کی خدمت لے لی ہے۔ حضرت مولانا انورشاہ کشمیری نے قرآن میں بہت زیادہ معنوی تحریف کا انکشاف کیا تھا تو یہ معنوی تحریف ہی دراصل وہ شیطانی القا ہے جس کا ذکر سورۂ حج کی آیت(52) میں موجود ہے۔ اصل موضوع کیلئے جگہ کم ہے لیکن قارئین سمجھ جائیںگے کیونکہ اس معنوی تحریف پر ہم نے کتابوں اور اخبار میں بہت وضاحتیں لکھ دی ہیں۔
یہ شکر ہے کہ کراچی کے اکابر علماء ومفتیان نے حضرت حاجی محمد عثمان پر فتویٰ لگادیا تھا ۔ ورنہ مخالفت کی فضاؤں میںشاہین کو اونچی اُڑان کا موقع نہ ملتا ۔ تندیٔ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب یہ تو چلتی ہے تجھے اُونچا اڑانے کیلئے
سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کے صرف اہلحدیث ہی مخالف تھے۔ علامہ غلام رسول سعیدی نے شرح صحیح مسلم میں فتاویٰ شامیہ کیخلاف لکھ دیاتھا تو انہوں نے مجھے خود بتایا کہ بریلوی مسلک کے علماء نے اس کو گردن سے پکڑلیا تھا کہ وہ کون ہوتا ہے ،علامہ شامی کے خلاف لکھنے والا۔ اگر میں بھی باطل کی ہاں میں ہاں ملاتا اور سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کے جواز پر اہلحدیث کا منہ بند کرنے کیلئے کہتا کہ اہلحدیث کے نزدیک دودھ پیتے بچے کا پیشاب پاک ہے تو پھر اس پاک پیشاب پر سورۂ فاتحہ لکھنے میں کیا حرج ہے؟۔ اگر میں باطل کا دفاع کرتا تو مدارس اور مساجد کے علماء مجھے اپنے سرکا تاج بنادیتے لیکن میں نے کسی فرقے اور مسلک سے نہیں بلکہ اللہ اور اسکے رسول ۖ اور قرآن وسنت سے وفاداری کا ثبوت دیا۔ جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مجھے فتح اور مفتی تقی عثمانی کو شکست سے دوچار کردیا۔ ایم کیوایم کے بعض لوگوں کو پہلے استعمال کرکے ہمارے ساتھیوں کو خانقاہ چشتیہ ،مدرسہ محمدیہ ،یتیم خانہ سیدنا اصغر بن حسین اور مسجد الٰہیہ سے نکال دیا تھا لیکن جب ایم کیوایم کے رہنماؤں اور کارکنوں نے مفتی محمد تقی عثمانی کی طرف سے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کی جسارت دیکھ لی تو ہمارا ساتھ دیا۔
لبنا ن کے مشہور دانشور خلیل جبران نے کیا خوب کہا ہے کہ ”اگرمذہب محض جنت کی بشارت کا نام ہے، حب الوطنی ذاتی مفاد کیلئے ہے اور علم کا مقصد دولت اور آسائش کا حصول ہے تو میں کافر، غدار اور جاہل کہلانا پسند کروں گا”۔

NAWISHTA E DIWAR March Ilmi Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

القائے شیطانی کا وسیع پس منظر ہے جس نے اُمت مسلمہ کو گمراہی کے دلدل میں پھنسا کر قرآنی آیات کے تحفظ کے باوجود مدارس کو گمراہی میں ڈال دیا!

امام ابوحنیفہ عالمِ حق لیکن فقہاء احناف نے تقلید کیلئے علمی قابلیت کا حق ادا نہیں کیا۔ القائے شیطانی کا وسیع پس منظر ہے جس نے اُمت مسلمہ کو گمراہی کے دلدل میں پھنسا کر قرآنی آیات کے تحفظ کے باوجود مدارس کو گمراہی میں ڈال دیا!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

آئیے جانِ من!بڑا حقیقت پسندانہ تحقیقاتی علمی جائزہ لیکر سورۂ جمعہ، بخاری ومسلم اور مولانا عبیداللہ سندھی کی تفسیر المقام المحمود کی روشنی میں پاکستان سے اسلام کی نشاة ثانیہ کا آغاز کریں

آج درسِ نظامی ، مولانا انورشاہ کشمیریکی فیض الباری، قاضی عبدالکریم کلاچی کے سوال اور مفتی فرید کے جواب ”فتویٰ دیوبند پاکستان” میں گھمبیر مسائل کا بھرپور انداز میںحل تلاش کریں

مجھے بریلوی مکتبۂ فکر کے بانی امام احمد رضا خان بریلوی کے خلوص اور ایک اچھے قابل فقیہ ہونے میں شک نہیں ہے لیکن ان کی باتوں کو مان لینا بہت بڑے درجے کی حماقت اسلئے ہے کہ قادیانی، دیوبندی، وہابی ،اہلحدیث اور شیعہ سب میں کوئی فرق کرنارضاخانیت اور بریلویت کی نفی ہے۔ جس بریلوی نے پہلے سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے دور میں تحریک ختم نبوت میں حصہ لیا تھا ،اسے بریلوی مکتبۂ فکر کے بعض زعماء نے بریلویت سے خارج کردیا تھا۔ دیوبندی اور بریلوی حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکیاور پیر سید مہر علی شاہ گولڑہ شریف شدت پسند طبقہ سے مبرا بہت اچھے مسلمان تھے اور بہت سوں کیلئے اصل امام کی حیثیت یہی لوگ رکھتے تھے۔ حضرت شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی سے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تک دونوں مکتبۂ فکر کا سلسلہ ایک ہی مسلک سے تھا۔
حضرت امام ابوحنیفہ کے نزدیک قرآن کریم کے تحفظ پر ایمان بہت ہی ضروری تھا اور قرآن کے مقابلے میں کوئی صحیح حدیث بھی آجائے تو سراسر غلط ہی ہے۔ یہی عقیدہ اہلسنت کے چار اماموں اور اہل تشیع کے بارہ اماموں کا بھی تھا۔ جب پاکستان میں اہل تشیع کا ایرانی لٹریچر پہنچنا شروع ہوا تو مدارس کے علماء نے بڑے پیمانے پر اہل تشیع کواسلئے کافر قرار دیا کہ وہ قرآن کی تحریف کے قائل ہیں لیکن مولانا حق نواز جھنگوی شہید کی ایک تقریر شائع ہوئی تھی جس میں یہ کہا گیا تھا کہ” شیعہ سے ہمارا صحابہ پر اختلاف نہیں ہے، ہمارا قرآن پر اختلاف نہیںہے، شیعہ سے ہمارا اصل اختلاف عقیدۂ امامت کی وجہ سے ہے۔ عقیدۂ امامت سے ختم نبوت کا انکار لازم آتا ہے”۔ شاہ ولی اللہ نے لکھ دیا ہے کہ رسول اللہۖ نے مشاہدے یا خواب میں فرمایا کہ” شیعہ کی گمراہی کی وجہ عقیدۂ امامت ہے” ۔ جب میں نے اس پر غور کیا تو یہ نتیجہ اخذ کرلیا کہ عقیدۂ امامت کی وجہ سے ختم نبوت کا انکار لازم آتا ہے،اسلئے نبیۖ نے ان کو گمراہ قرار دیا ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ نے اپنے مشاہدے یا خواب کی تعبیر بہت غلط کی ہے کیونکہ گمراہ اور کافر میں فرق ہے۔ ختم نبوت کے انکار سے گمراہی نہیں کفر کا فتویٰ لگتا ہے لیکن اہل تشیع کے عقیدۂ امامت کو گمراہی کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ جب ملت جعفریہ کے قائد علامہ ساجد علی نقوی بہت کھلے الفاظ میں کہتے ہیں کہ مجھے پتہ نہیں ہے کہ اہل تشیع نے برصغیر پاک وہند میںآذان اور کلمہ میں شہادت ثالثہ کا اضافہ کیوں کیا ہے؟۔ جبکہ عراق وایران اورکربلا میں شیعہ جو نسل در نسل اپنے کلمہ وآذان میں صرف توحید اور رسالت کی دو شہادتوں پر اکتفاء کرتے ہیں۔
پاکستان میں ایران و عراق سے اہل تشیع کے جید علماء ومجتہدین اور حضرت علامہ ساجد علی نقوی قائدملت جعفریہ و علامہ جواد نقوی ، علامہ شہنشاہ نقوی ، علامہ شہریار رضا عابدی ، علامہ حیدر نقوی وغیرہ کو بٹھاکر آذان وکلمہ میں شہادت ثالثہ کا مسئلہ حل کردیا جائے تو شیعہ ملت کے آپس کا بھی جھگڑا ختم ہوجائے گا اور بہت بڑی تبدیلی سنی مکتبۂ فکر کے ہاں آنے میں بھی دیر نہیں لگے گی۔ شیعہ نے برصغیر میں کلمہ وآذان میں اضافہ کیا تو وہی حال بریلوی مکتبۂ فکر نے اختیار کیا ہے۔
قندھار سے بریلی اور مردان سے کراچی تک پٹھان علماء سخت گیرتھے اور اگر مولانا احمد رضا خان بریلوی نے بڑے سخت فتوے دئیے ہیں جو قندھار کے پٹھان تھے تو شیخ الحدیث مفتی زرولی خان نے بھی اپنا حساب برابر کرتے ہوئے شیخ الحدیث مولانامفتی ڈاکٹر منظور مینگل پر علامہ خادم حسین رضوی کیلئے مغفرت کی دعا مانگنے اور ان کو خراج تحسین پیش کرنے پر تجدیدِ نکاح کا فتوی دیا ہے۔
پٹھان ناراض نہ ہوں ، ہندوستانی علماء خدائے کریم وجلیل کی قسم ان سے زیادہ جاہل ، چھوٹی کھوپڑی کے مالک ،مفاد پرست ، ہٹ دھرم اور ہڈ حرام تھے اسلئے کہ فتاویٰ عالمگیریہ پر (500)معتبر علماء نے دستخط کئے تھے جس میں بادشاہ کیلئے قتل، زنا، چوری ، ڈکیتی اور ہرقسم کی حد وسزا معاف تھی اسلئے کہ اورنگ زیب بادشاہ نے اپنے بھائیوں کو قتل کرکے اقتدار سنبھالا تھا۔ جس اسلام میں کسی خلیفۂ راشد کیلئے استثناء کی کوئی گنجائش نہیں تھی تو اس میں بادشاہ کیلئے کیسی ہوسکتی تھی؟۔ جب مسجد نبویۖ کے قریب حضرت عباس کے گھر کا پرنالہ نمازیوں کے لباس کو متاثر کررہا تھا تو لوگوں کی شکایت پر حضرت عمر نے اس پرنالے کی جگہ تبدیل کر دی، حضرت عباس نے اس کی شکایت سرکاری قاضی کے رجسٹر میں درج کردی اورقاضی انصاری صحابی تھے۔ انہوں نے حضرت عمر کیلئے حاضر ہونے کا حکم دیا۔ دونوں کی بات سن کر حضرت عباس سے کہا کہ اگر خلیفۂ وقت اپنے ہاتھ سے اس پرنالے کی مٹی تیار کرکے اہل مدینہ کے سامنے آپ کو اپنے کاندھے پر چڑھاکر اسی جگہ پر لگادے تو آپ معاف کردیںگے ؟۔ حضرت عباس نے کہا کہ مجھے یہ منظور ہے۔ حضرت عمر نے اپنے ہاتھ سے مٹی تیار کی اور سب کے سامنے اپنے کاندھے پرحضرت عباس کو چڑھایا اور پرنالہ لگادیا۔ حضرت عباس نے بتایا کہ میں نے گھر بنایا تو رسول ۖ کو اپنے کاندھے پر چڑھایا کہ وہ پرنالہ لگادیں لیکن مجھ سے بوجھ برداشت نہیں ہوسکتا تھا تو رسول اللہۖ نے مجھے اپنے کاندھے پر چڑھایا اور میں نے یہ پرنالہ لگادیا۔ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ خلیفہ انصاف کرتا ہے یا نہیں؟۔ اب میں اپنے مکان کو مسجد نبویۖ کیلئے وقف کرتا ہوں۔
ایک مولوی صاحب نے یوٹیوب پر موجودہ ریاستی نظام کو اس واقعہ کی بنیاد پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے لیکن مذہبی لوگوں کو جنونی شدت پسند بنانے سے بہتر یہ ہے کہ اسلام کی اجنبیت کے پل کے نیچے جتنا پانی بہہ چکاہے اس کو بھی دیکھ لیا جائے۔ اہل تشیع تو عقیدۂ امامت میں بہت غلوکی وجہ سے یہاں تک پہنچ گئے کہ اگر شہنشاہ حسین نقوی اتحادامت کانفرنس میں شرکت کرکے علامہ جواد نقوی کے جامعہ عروة الوثقیٰ کی مسجد البیت العتیق لاہور میں شیعہ سنی علماء کے سامنے خطاب میں کہہ دیں کہ ” بسم اللہ کے بعد میں الحمد للہ رب العالمین کہنے کی بجائے الحمد لعلی ابن ابی طالب کہنے میں فخر محسوس کرتا ہوں ” تو شیعہ شرکاء بڑی گرم جوشی سے نعرہ بھی لگادیںگے۔ اگر علامہ جواد حسین نقوی کو اس کی مخالفت میں کچھ کہنا ہو تب بھی وہ پہلے سے ہوشیار نہ کریں کہ میں ان غلط اقدار کی مذمت کرنے کی بات کررہا ہوں تو بات سننے سے پہلے مجمع سے وہی پرجوش آواز آئے گی۔
درسِ نظامی میں پڑھایا جاتا تھا کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک عربی پر قدرت رکھنے کے باوجود بھی فارسی زبان میں نماز پڑھنا نہ صرف جائز بلکہ افضل ہے مگر جب حضرت شاہ ولی اللہ نے قرآن کا فارسی میں ترجمہ کردیا تو شاہی خانوادے کے قابلِ اعتماد شہزادے شاہ ولی اللہ نے قرآن کا ترجمہ کرنے کے جرم کی پاداش میں دو سال تک روپوشی کی زندگی اختیار کرلی۔ شاہ ولی اللہ کے والد شاہ عبدالرحیم بھی فتاویٰ عالمگیریہ پردستخط کرنے والے علماء میں شامل بلکہ سہولت کار تھے۔ یہ ہندوستانی علماء کی ہٹ دھرمی اور ہڈ حرامی تھی جن کی آل واولاد ہم پر مسلط ہیں۔ ملاجیون جیسے لوگ سادہ لوح مگر متقی وپرہیزگار تھے لیکن آج چالاک وعیار لوگوں نے پتہ نہیں کونسے قاعدہ کلیہ کے تحت شیخ الاسلامی ومفتی اعظمی کا درجہ پایا ہے؟۔
فقیہ العصر قاضی عبدالکریم کلاچی ڈیرہ اسماعیل خان نے مفتی اعظم پاکستان مفتی فرید صاحب کے پاس خط لکھاکہ ” مولانا انور شاہ کشمیری کی فیض الباری شرح صحیح بخاری میں یہ عبارت پڑھ کر پاؤں سے زمین نکل گئی جس میں لکھا ہے کہ ”قرآن میں معنوی تحریف تو بہت ہے لیکن لفظی تحریف بھی ہے ،یہ انہوں نے غلطی سے کیا ہے یا عمداً کیا ہے”۔اس عبارت میں لفظی تحریف کی نسبت صحابہ کی طرف ہے کیونکہ کفار کی طرف اس جرم کی نسبت نہیں ہوسکتی ہے”۔
مفتی فرید صاحب نے اسکا بالکل غیر تسلی بخش جواب دیا تھا جو فتاویٰ دیوبند پاکستان میں شائع بھی ہوچکا ہے۔ بریلوی مکتب کے مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن سابق چیئرمین ہلال کمیٹی کے ساتھی علامہ غلام رسول سعیدی نے کئی جلدوں میں تفسیر تبیان القرآن لکھی ہے، صحیح مسلم کی شرح اور صحیح بخاری کی شرح بھی لکھی ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ”شیخ انورشاہ کشمیری کی فیض الباری کا حوالہ دئیے بغیر دارالعلوم کراچی سے عبارت پر فتویٰ لیا تو مفتی تقی عثمانی اور مفتی رفیع عثمانی کے ہاں سے اس پر کفر کا فتویٰ بھی لگادیا گیا ہے ، جس کا ریکارڈموجود ہے ”۔جب ہم نے دارالعلوم کراچی سے قرآن کی اس تعریف پر فتویٰ لینا چاہاتھا جس کو درسِ نظامی کی کتابوں میں پڑھایا جاتا ہے تو فتویٰ دینے سے انہوں نے انکار کردیا۔
ہمارا اصل موضوع یہی ہے کہ قرآن میں جو معنوی تحریف ہوئی ہے جس کی نشاندہی امام العصر حضرت علامہ انور شاہ کشمیری نے بخاری کی اپنی شرح میں کی ہے ۔ سورۂ حج کی آیت(52) میں جس القائے شیطانی کی مداخلت کی وضاحت ہے وہ قرآن کی معنوی تحریف ہے۔ جہاں تک سورۂ نجم کے حوالے سے کفارِ مکہ کے غلط پروپیگنڈے پر شیطانی آیات کی تائید یا تردید کا تعلق ہے تو اس پر مولانا مودودی کی تفسیر تھوڑی بہت عقل مگر علم سے عاری ہونے کی دلیل ہے۔ کیونکہ وہ اتنا گھمبیر مسئلہ نہیں ہے جتنا اصول فقہ کی کتابوں میں قرآن کی تعریف میں بہت بڑی تحریف کا مسئلہ گھمبیر ہے۔ جب اصولِ فقہ میں کتاب سے مراد قرآن میں احکام سے متعلق (500) آیات ہیں اورباقی قصے کہانیاں ہیں تو حق یہ بنتا تھا کہ وہ آیات مختلف عنوانات کے تحت درج کردی جاتیں اور پھر اس کیساتھ احادیث اور فقہ کے اجتہادی مسائل پر بحث ہوتی مگر یہ تو نہ ہوا ،البتہ قرآن کی تعریف میں تحریف کاارتکاب ہے۔ قرآن کی تعریف کا پہلا جملہ یہ ہے کہ المکتوب فی المصاحف ”جو مصحاف میں لکھا ہوا ہے”۔ پھر اس کی تشریح ہے کہ لکھے ہوئے سے مراد لکھا ہوا نہیں ہے ۔کیونکہ لکھائی تو محض نقشِ کلام ہے۔ اللہ کا کلام صرف زبانی الفاظ میں ہے۔ حالانکہ قرآن کی ڈھیر ساری آیات اس احمقانہ نصاب کی نفی کیلئے کافی ہیں۔ اللہ نے یہاں تک فرمایا کہ ”اگر میں اس کو قرطاس میں نازل کرتا اور یہ مشرک اس کو چھولیتے تب بھی انہوں نے نہیں ماننا تھا”۔ مشرکینِ مکہ بھی اس کتاب کی نسبت پرانی کہانیاں صبح شام لکھوانے کی تہمت لگاتے تھے۔ فتاویٰ قاضی خان سے فتاویٰ شامیہ تک اور مفتی تقی عثمانی کی کتاب تکملہ فتح الملہم اور فقہی مقالات سے وزیراعظم عمران کے نکاح خواں مفتی سعید خان کی ریزہ الماس تک سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کا جواز فقہ حنفی کا شاخسانہ موجود ہے۔
قرآن کی تعریف کا دوسرا جملہ المنقول عنہ نقلًا متواترًابلاشبہہے جس سے غیرمتواتر قرآنی آیات نکل گئیں اور بسم اللہ کو مشکوک قرار دیا گیا ہے۔ جب قرآن کے علاوہ دیگر آیات کا عقیدہ رکھا جائے تو قرآن کے تحفظ پر کتنا بڑا حملہ ہے۔ اگر سید مودودی نے درسِ نظامی کی تعلیم حاصل کی ہوتی تو اس بات پر برہم ہوتے کہ صحیح سند کیساتھ ایسی قرآنی آیات کا تصور ماننا بہت بڑا کفر ہے کہ جس سے قرآن کی صحت مشکوک ہوجائے۔ جس طرح امام شافعی نے انکا وجود کفر سمجھاتھا ،اسی طرح امام ابوحنیفہ قرآن پر اضافی آیات کو کفر سمجھتے تھے مگر جس طرح مفتی تقی عثمانی نے اپنے باپ ، اکابراور ہم عصر لوگوں جن میں انکے استاذ وفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خان بھی شامل تھے اور بینک کے سودی نظام کو دیگر مدارس والے بھی سود قرار دے رہے تھے لیکن مفتی تقی عثمانی کا فتویٰ چل گیا اور ہم جیسوں پر ان کی مخالفت کرنے کی وجہ سے رافضی کا فتوی بھی لگادیا ہے۔ یہی فتویٰ امام ابوحنیفہ کی درباری پود نے امام شافعی پر بھی لگایا تھا۔
اگر امام ابوحنیفہ نے اپنے فقہ میں حلف توڑنے کے کفارے میں روزوں کا تسلسل ضروری قرار دیا تھا تو اس کی وجہ نعوذ باللہ من ذٰلک یہ نہیں تھی کہ قرآن کی کسی اضافی آیت کے قائل تھے بلکہ سورۂ مجادلہ میں کفارے کے روزوں میں تسلسل کی وضاحت ہے اور کسی صحابی نے اپنے مصحف کی تفسیر میں تفسیری اضافہ کیا تھا۔ جس طرح تفسیرجلالین میں تفسیری اضافے کا مطلب آیات کا اضافہ نہیں ہے۔ علاوہ ازیں عبداللہ بن مسعود نے اپنے مصحف میں عورت سے خاص فائدہ اُٹھانے کیساتھ الی اجل مسمٰی ”ایک مقررہ وقت کا اضافہ کیا ہے”۔ تو یہ بھی قرآن کے متن میں اضافہ نہیں ہے بلکہ قرآن کی تفسیر ہے جو بخاری ومسلم میں عبداللہ بن مسعود سے نبیۖ کی حدیث میں بھی موجود ہے۔ اگر احناف کا مذہب تفسیری اضافہ قرآن کے متن میں اضافہ ہوتا تووہ متعہ کے قائل ہوتے۔ امام ابوحنیفہ نے علم الکلام سے توبہ کی تھی اسلئے قرآن کی تعریف میں المکتوب فی المصاحفکی غلط تشریح پڑھانا اور مسائل کی تخریج کرنا بہت بڑی گمراہی ہے اور اس گمراہی سے نکلنے کیلئے کسی مہدی کا انتظار کرنا زیادہ بڑی گمراہی ہے۔

NAWISHTA E DIWAR March Ilmi Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

سورۂ حج کی آیت (52) کی تفسیر پر یہ پورا شمارہ ہے مگر اس رکوع اور پہلے و بعد کے رکوع میں بھی معاملہ واضح ہے۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

جس رکوع میں سورۂ حج کی آیت(52)ہے وہ بھی اس آیت کے مفہوم کو واضح کرنے کیلئے کافی ہے ۔ اسی رکوع میں آیات(49، 50اور51)ہیں۔ فرمایا:
” کہہ دیجئے کہ اے لوگو! بیشک میں تمہارے لئے کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں۔ پس جن لوگوں نے ایمان لایا اور اچھے عمل کئے تو ان کیلئے مغفرت ہے اور عزت کی روزی ہے۔ اور جن لوگوں نے کوشش کی کہ ہماری آیات کو مغلوب کریں تو یہی لوگ جحیم والے ہیں”۔ ان تینوں آیات میں جو مقدمہ ہے وہ اللہ کی طرف سے نبیۖ کو کھلم کھلا ڈرانے والا ہونا ہے۔ پھر ایمان و عمل صالح والوں کو مغفرت اور عزت کی روزی کا وعدہ ہے۔ پھر ان لوگوں کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ کی آیات کو شکست دینے کے درپے ہیں کہ یہ اصحاب جیحم ہیں۔
سورۂ نجم کی آیات اور القائے شیطانی کی یہاں کوئی گنجائش نہیں نکلتی ہے مگر اس کو زیرِ بحث لایا جائے تو جن کفارِ مکہ نے القائے شیطانی کا جھوٹا پروپیگنڈہ کیا تھا ،ان کا انجام بھی سامنے ہے اور جن لوگوں نے ایمان و صالح عمل کی راہ اپنائی تھی وہ تاریخ میں ایک روشن باب بن گئے۔ بے آب وگیاہ حجاز کے مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں سپر طاقت بناکر کہاں سے کہاں پہنچادیا تھا؟۔
اس مذکورہ رکوع سے پہلے والے رکوع میں اپنے علاقوں سے ظلم کیساتھ نکالے جانے والے مظلوموں کا ذکر ہے اور پھر مختلف قوموں میں ایکدوسرے کے خلاف مدافعت کا جذبہ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے قوموں کی تقدیریں بدلنے کا ذکر ہے۔جس کی وجہ سے مختلف مذاہب کی عبادتگاہوں کی اللہ نے حفاظت کی ہے۔ پھر ان اچھے لوگوں کا ذکر ہے کہ اگر ان کو ٹھکانہ مل جائے تو نماز قائم کرنے اور زکوٰة ادا کرنے کا فریضہ ادا کریں اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فرض پورا کریں۔ پھر اللہ نے فرمایا ہے کہ”( اے نبی!) اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلارہے ہیں تو آپ سے پہلے قوم نوح ، عاد اور ثمود نے بھی ایسا کیا۔ اور قوم ابراھیم وقوم لوط اور اصحاب مدین نے بھی ایسا کیا۔ اور موسیٰ کو بھی جھٹلایاگیا لیکن پہلے میں نے کفار کو مہلت دی اوران کو پکڑ لیا۔تو پھرکیسی تھی عقوبت؟۔ پھر کتنی بستیاں تھیں جن کو ہم نے ہلاک کر ڈالا، پھر وہ اپنے تختوں پرتلپٹ پڑی ہوئی تھیں اور ویران کنویں اور عالی شان بنگلے ۔ کیا وہ زمین میں سیر نہیں کرتے؟۔ تاکہ ان کے دل ہوں جس سے وہ سمجھ پائیں اور انکے کان ہوں جس سے وہ سن سکیں۔ لیکن بیشک آنکھوں کی بصارت اندھی نہیں ہوتی مگر وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں اور یہ آپ سے عذاب کی جلدی چاہتے ہیں اور اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا ہے۔ اور بیشک ایک دن تیرے رب کے پاس ہزار دنوں کے برابر ہے جو تمہارے شمار کے برابر ہیں اور کتنی بستیاں تھیں جن کو میں نے مہلت دی اور وہ ظالمہ تھی پھر میں نے اس کو پکڑ لیا اور میری طرف ٹھکانہ ہے ”۔
انبیاء کرام کی قوموں نے بہت جلدعذاب کا مشاہدہ دیکھ لیا اور مشرکین مکہ نے بھی بہت جلد اپنے انجام کی خبر پالی۔ رسول اللہۖ رحمت للعالمین تھے اس لئے آپ کے خلفاء عظام نے بہت جلد دنیا کی سپر طاقتوں کو بھی شکست دی تھی۔ سورۂ حج کی آیت(52)سے پہلے والے رکوع کے بعد جس پسِ منظر میں یہ آیت نازل ہوئی ہے وہ ایک ہزار سال بعد دیکھنے کی ضرورت ہے۔ نبیۖ کی تمنا کیا تھی اور آپ سے پہلے کے انبیاء ورسولوں کی تمناؤں کیساتھ بعد کے ناخلفوں نے کیا سلوک کیا؟۔ اس میں القائے شیطانی کے تصورات کیا تھے اور ہمارے قرآن کیساتھ کیا ہوا؟۔ اور ہم اس القائے شیطانی کے کیسے شکارہوئے اور اللہ نے ہمارے لئے بچاؤ کے کیسے راستے پیدا کئے ہیں؟۔نبیۖ کی یہ بھی تمنا تھی کہ بیت المقدس کے بجائے خانہ کعبہ البیت العتیق کی طرف نماز میں رخ کیا جائے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا تھا۔ نبیۖ کی ایک تمنا یہ بھی تھی کہ لوگ ایک ساتھ تین طلاق میں حلالہ کی لعنت سے بچ جائیں اور اللہ نے اس کا بھی بندوبست کیا تھا۔ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام اور دیگر انبیاء کرام کی قوموں نے اپنی اپنی شریعتوں کو مسخ کرکے رکھ دیا اور اس میں القائے شیطانی کا بڑا عمل دخل تھا تو ہمارے ساتھ بھی وقت گزرنے کیساتھ ساتھ یہی کچھ ہوا ہے۔
ہم قرآن کی محکم آیات کی روشنی میں ان لوگوں کو شکست دے سکتے ہیں جن کے دل ودماغ پر القائے شیطانی نے دین کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ مؤمن القائے شیطانی کے مقابلے میں محکم آیات کو مان لیں گے۔

NAWISHTA E DIWAR March Ilmi Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

سیدابوالاعلیٰ مودودی نے سورۂ حج کی آیت 52 میں معتبر مفسرین کی متضادرائے سے اختلاف کرکے جہالت کا مظاہرہ کیا ہے۔

سیدابوالاعلیٰ مودودی نے سورۂ حج کی آیت (52) میں معتبر مفسرین کی متضادرائے سے اختلاف کرکے عالمانہ کردار ادا نہیں کیا ہے بلکہ انتہائی جہالت کا مظاہرہ کیا ہے۔ پھر آیت کی اصل تفہیم وتفسیر کا مسئلہ بھی جوں کا توں چھوڑ دیا ہے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

بظاہر سیدمودودی کی تفسیر میں بڑا وزن ،سمجھ وفہم لگتا ہے لیکن قرآن وسنت کے وسیع ذخیرے سے کم علمی اور جہالت کا اتنا بڑا مظاہرہ پہلے علماء مفسرین نے بھی نہیں کیاجو انہوں نے کیا ہے!

اگر آیت کے مفہوم کی وضاحت میں بہت بڑی ٹھوکر نہیں کھائی جاتی اور اس ٹھوکر سے اُمت مسلمہ کا بیڑہ غرق نہ ہوتا تو ہم صرف نفسِ مسئلہ کو واضح کرکے مولانامودودی پر تنقید نہ کرتے۔

ایک عام جدید تعلیم یافتہ قاری جب مولانا مودودی کی تفسیر دیکھ لیتا ہے تو یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ مولانا سید ابولاعلیٰ مودودی نے تمام بڑے بڑے مفسرین سے اختلاف کرکے سب کو زبردست مات دی ہے مگر جن علماء کرام نے سید مودودی پر سخت اعتراض کیا تھا تو یہ مولانا مودودی سے حسد نہیں بلکہ حقیقت پسندانہ رویہ تھا۔ ایک عام آدمی سوچتا ہے کہ تفہیم القرآن میں شیطانی آیات کا کتنا زبردست قلع قمع کیا گیا ہے کہ الفاظ میں بھی بہت فرق ہے اور مفہوم میں بھی بہت فرق ہے؟
حالانکہ الفاظ اور مفہوم کا فرق قرآنی آیات کے حوالے سے احادیث کے بہت ہی مستند ذخیرے میں بھی موجود ہے لیکن احادیث صحیحہ کے ذخیرے میں اجماعی قرآن کے مقابلے میں خبر احاد اور خبر مشہور کے قرآن کو رد کردیا جاتا ہے۔ اس طرح احادیث صحیحہ کے الفاظ اور مفہوم میں بہت سارے اختلافات ہیں۔ لیکن الفاظ اور مفہوم میں اختلافات کے باجود بھی وہ احادیث قابلِ قبول ہیں۔
جدید تعلیم یافتہ طبقے کا مولانا مودودی کی وجہ سے اسلاف پر اعتماد متزلزل ہوا ہے لیکن مولانا مودودی خودہی جاہل اور جاہلوں کے سرغنہ ثابت ہوئے ہیں۔ مولانا مودودی کی تفسیر کا آخری حصہ ہم نے نقل نہیں کیا ہے۔ بہت اچھے انداز میں انہوں نے بنی اسرائیل ، سورۂ نجم اور سورۂ حج کے زمانہ نزول کے حوالے سے اس کی تردید کردی ہے لیکن اس تردید میں دو اہم باتیں ہیں ۔پہلی بات یہ ہے کہ نفس مسئلہ اور آیت کے مفہوم کو واضح کرنے کی بجائے سورۂ نجم کا معاملہ ہی واضح کیا ہے، حالانکہ سورۂ نجم کی آیات میں کوئی مشکل درپیش نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ تو سورۂ حج کی اس آیت کی وجہ سے الجھا ہوا ہے۔ جس کے بارے میں سید مودودی نے” تمنا” کے دو معانی اور دو تفسیریں لکھ کر معاملہ مزید الجھا دیا ہے کہ اگر تمنا کے معنی عربی میں اردو کی طرح تمنا کے ہیں تو پھر آیت کی تفسیر یہ ہے اور اگر اسکے معانی تلاوت اور پڑھوانے کے ہیں تو پھر اسکے معانی یہ ہیں۔
حالانکہ مولانا مودودی نے غلط لکھا ہے کہ تمنا کے معانی تلاوت کے بھی ہیں۔ جن تفسیروں میں شیطانی آیت کی نبیۖ کی طرف تلاوت کی نسبت کی تھی تو اس وجہ سے مولانا مودودی نے ”تمنا” کے ایک معانی پڑھنے کے کئے ہیں۔ حالانکہ عربی لغت میں یہ معنی نہیں ہے۔ چونکہ سورۂ نجم کی تلاوت پر کفار مکہ نے نبیۖ کیساتھ سجدہ کیا تھا اسلئے اپنی خفت مٹانے کیلئے یہ جھوٹا دعویٰ کردیا تھا کہ نبیۖ نے شیطانی آیات کی تلاوت فرمائی۔ جب مشرکینِ مکہ کی بڑی تعداد فتحِ مکہ کے بعد مسلمان ہوئی تو ان میں حضرت عباس بھی تھے اور انہی مشر کینِ مکہ کی گھڑی ہوئی کہانی بھی اس وقت لوگوں کے دل میں آگئی جب انہوں نے نسل در نسل اس واقعہ کے کچھ مندرجات اپنے گھروں میں سن رکھے تھے۔ محقق مفسر کا یہ کہنا بالکل بنتا تھا کہ اس واقعہ کی کوئی اصل نہیں ہے۔ یہ زنادقہ کی طرف سے اسلام کے خلاف کوئی من گھڑت سازش ہے۔ جن مشہور مفسرین نے اس واقعہ کو ردّ کردیا تھا تو یہ انہوں نے بالکل زبردست اور صحیح کام کیا تھا۔
جن مفسرین نے اس روایت کو قبول کرلیا تھا تو یہ ان کی انتہائی دیانتداری تھی کہ ایک واقع بخاری ومسلم کی شرط کے مطابق نقل ہوا ہے تو اصل کے ہوتے ہوئے جزیات میں اختلافات کی وجہ سے اس کی تردید نہیں کی جاسکتی ہے۔ ان کی رائے بھی بہت زبردست ہے اوران کے نزدیک بظاہر آیت کی تفسیر میں بھی زبردست مدد مل رہی تھی اس وجہ سے اس کو قبول بھی کرلیا۔ یہ خیانت اور کم عقلی نہیں تھی لیکن جہاں تک مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی طرف آیت کی تفسیر میں خلوص کی بات ہے تو ان کے خلوص پر بھی بالکل شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے مگر جس طریقۂ استدلال کا سید مودودی نے سہارا لیا ہے ،یہ انتہائی جاہلانہ اور علم کے ابجد سے بالکل ہی انوکھی اور نری جہالت کا شاخسانہ ہے۔
قرآن کی سورتوں میں آیات کی ترتیب نزول اور آیات کی تدوین میں بڑا فرق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی جمع وترتیب کا کام بھی قرآن ہی میں اپنے ذمے لیا ہے کہ اے نبی ! جلدی سے کام نہ لیں۔ان علینا جمعہ وقرآنہ (بیشک ہم پرذمہ داری ہے اس کی جمع وترتیب اورتدوین کی ) ۔ کئی جگہوں پر ایسا ہوا ہے کہ ایک سورة کے شانِ نزول کا زمانہ کچھ ہوتا ہے لیکن اس میں آیات کے نزول کا حوالہ بالکل مختلف ہوتا ہے۔ علماء ومفسرین نے اپنی اپنی کوشش بہت دیانتدارانہ انداز میں کی۔ آیات سے دوسری آیات کی تفسیر کو جوڑ دیا لیکن جب کہیں اس کے مفہوم کو واضح کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور کہیں روایات کا سہارا لینا پڑا تو بھرپور دیانتداری سے اپنی قیمتی آراء کو پیش کردیا۔ سید مودودی نے بھی اپنے طور پر بہت اچھے انداز میں ان کی رائے کو درج کیا ۔جہاں اتفاق تھا تو اتفاق کیا اور جہاں اختلاف تھا وہاں اختلاف کیا اور اپنی طرف سے بھرپور توجیہات بھی پیش کیں۔ البتہ جن علماء کرام نے مولانا مودودی سے اختلاف کیا تو اس کی وجہ بھی بغض وحسد نہیں بلکہ ان کی طرف سے جہالت کا کھلا مظاہرہ تھا۔
اگر آیت کی تفسیر کا مسئلہ حل ہوجاتا تو پھر کوئی وجہ نہیں تھی کہ علماء وفقہاء میں کسی قسم کا کوئی اختلاف باقی رہتا ۔ اساتذہ کرام کا سینہ بہ سینہ ایک دوسرے کو علم منتقل کرنے سے ایک فائدہ یہی ہوتا ہے کہ اگر کوئی نیا کارنامہ انجام نہیں بھی دیاجائے تو کم ازکم بڑی بڑی ٹھوکریں کھانے سے انسان بچ جاتا ہے۔ دیوبند یا بریلوی علماء کے ہاں درسِ نظامی کی تعلیم کا سلسلہ مکمل کرنے سے تقلید کی بیماری لگ جاتی ہے جس کی وجہ سے نئی تحقیق کا مادہ بھی دماغ سے نکل جاتا ہے مگر تجدید کا ایسا بھوت بھی سوار نہیں ہوجاتا ہے کہ بڑی بڑی کھائیوں میں بڑی بڑی ٹھوکریں کھانے والا سمجھے کہ وہ براق پر معراج کا سفر کررہاہے۔ علم کو ثریا سے کھینچ لارہاہے۔ ایسی غلط فہمیاں بھی اس کو لاحق نہیں ہوتی ہیں۔ ان کے نالائق شاگرد البتہ تفسیر، احادیث کے ابجد سے بھی ناواقف ہونے کی وجہ سے تجدیدی کارنامہ انجام دینے والے کی دُم پر لٹک کر کچھ فوائد بھی حاصل کرتے ہیں اور کہیں ان کو نئی نوکری بھی مل جاتی ہے۔
آئیے کسی بھی مفادات کے چکر سے ہٹ کرقرآن کی طرف امت کو متوجہ کریں اور ڈوبتی اور ڈولتی ہوئی امت کی کشتی کو زبردست سہارا فراہم کریں۔

NAWISHTA E DIWAR March Ilmi Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

قرآن کریم کی مشکل ترین آیات کی سب سے آسان تفہیم اور تفسیر: از سیدعتیق الرحمن گیلانی

وماارسلنا من قبلک من رسولٍ ولا نبیٍ الا اذا تمنّٰی القی الشیطٰن فی اُمنیتہ فینسخ اللہ ما ےُلقی الشیطٰن ثم ےُحکم اللہ اٰیتہ واللہ علیم حکیم OلیجعلOو لیعلم (سورة الحج52،53،54)

اور ہم نے نہ بھیجاکسی رسول اور نہ کسی نبی کومگر جب اس نے تمنا کی تو شیطان نے القاء کیااس کی تمنا میں ،پس اللہ نے مٹادیا جو شیطان نے القاء کیاپھر آیات کو محکم کیااور اللہ علیم حکیم ہے

تاکہ بنادے جو شیطان نے القاء کیاان لوگوں کیلئے فتنہ جنکے دلوں میں مرض ہے اور جنکے دل کھوٹے ہیں اور بیشک ظالم بہت دور کی بدبختی میں ہیں۔اور تاکہ جان لے وہ لوگ جن کو علم

دیا گیا ہے کہ بیشک حق تیرے ربّ کی طرف سے ہے۔پس اس پر ایمان لائیںاور انکے دل اسکے آگے جھک جائیںاور بیشک اللہ ایمان والوں کو سیدھی راہ کی ہدایت کرتا ہے۔(الحج)
سورۂ حج آیت(52) پر ابولاعلیٰ مودودی نے” تفہیم القرآن” میں ”تمنا ” کے دو معانی اور تفسیر لکھی۔مولانا مودودی لکھتے ہیں کہ” رسول اللہۖ نے سورۂ النجم کی تلاوت میںجب افر ء یتم اللٰت والعزیٰ ومنوٰة الثالة الاخرٰی۔ پر پہنچے تو یکایک آپۖ کی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوئے : تلک الغرانقة العلیoوان شفاعتھن لترجی۔( یہ بلند پایہ دیویاں ہیں ،ان کی شفاعت ضرور متوقع ہے)۔ اس کے بعد آگے پھر آپۖ سورۂ نجم کی آیات پڑھتے چلے گئے ،یہاں تک کہ جب اختتام سورہ پر آپۖنے سجدہ کیا تومشرک اور مسلمان سب سجدے میں گرگئے۔ کفار قریش نے کہا کہ اب ہمارا محمدۖ سے کیا اختلاف باقی رہ گیا ؟۔ ہم بھی یہی کہتے تھے کہ خالق اور رزاق اللہ ہی ہے ،البتہ ہمارے یہ معبود اسکے حضور ہمارے شفیع ہیں۔ شام کو جبریل آئے اور انہوں نے کہا : یہ آپ نے کیا کیا؟۔ یہ دونوں فقرے تو میں نہیں لایا تھا۔ اس پر آپۖ سخت مغموم ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے وہ آیت نازل کی جو سورۂ بنی اسرائیل ، رکوع آٹھ (8) میں ہے کہ وان کادوا لفتنونک عن الذی اوحینا الیک لتفتری علینا غیرہ …….ثم لاتجد لک علینا نصیرًا۔یہ چیز برابر نبیۖ کو رنج وغم میں مبتلاء کئے رہی، یہاں تک کہ سورۂ حج کی یہ آیت نازل ہوئی اور اس میں نبیۖ کو تسلی دی گئی کہ آپۖ سے پہلے بھی انبیاء کے ساتھ ایسا ہوتا رہاہے۔ اُدھر یہ واقعہ کہ قرآن سُن کر آنحضرتۖ کے ساتھ قریشِ مکہ کے لوگوں نے بھی سجدہ کیا ، مہاجرین حبشہ تک اس رنگ میں پہنچا کہ آنحضرتۖ اور کفارِ مکہ میں صلح ہوگئی ہے۔چنانچہ بہت سے مہاجرین مکہ آگئے ۔مگر یہاں پہنچ کر انہیں معلوم ہوا کہ صلح کی خبر غلط ہے۔ اسلام اور کفر کی دشمنی جوں کی توں قائم ہے۔
یہ قصہ ابن جریراور بہت سے مفسرین نے اپنی تفسیروں میں، ابن سعد نے طبقات میں، موسیٰ بن عقبہ نے مغازی میں ، ابن اسحاق نے سیرت میں اور ابنِ ابی حاتم ، ابن المنذر، بزار، ابن مردویہ اور طبرانی نے اپنے احادیث کے مجموعوں میں نقل کیا ہے۔ جن سندوں سے یہ نقل ہوا ہے۔محمد بن قیس، محمد بن کعب قرطبی،عروہ بن زبیر،ابوصالح، ابولعالیہ، سعید بن جبیر،ضحاک، ابوبکر بن عبدالرحمن بن حارث ، قتادہ، مجاہد ، سُدی بن شہاب زہری ، حضرت ابن عباس۔ ابن عباس کے سوا ان میں کوئی صحابی نہیں۔ قصے میں چھوٹے چھوٹے اختلافات کو چھوڑ کر دو بڑے اختلافات ہیں۔ ایک یہ کہ بتوں کی تعریف میں جو کلمات نبیۖ کی طرف منسوب کئے گئے ہیںوہ قریب قریب ہر روایت میں دوسرے سے مختلف ہیں۔ ہم نے اس کا استقصا کرنے کی کوشش کی تو (15)عبارتیں الگ الگ الفاظ میں پائیں۔ دوسرا بڑا اختلاف یہ ہے کہ کسی روایت میں یہ الفاظ دورانِ وحی میں شیطان نے آپۖ پر القاء کردئیے اور آپۖ سمجھے کہ یہ بھی جبریل لائے ہیں۔کسی روایت میں ہے کہ یہ الفاظ اپنی خواہش کے زیر اثر سہواً آپۖکی زبان سے نکلے۔ کسی میں ہے کہ آپۖ کو اونگھ آگئی تھی اور اسی حالت میں یہ الفاظ نکلے۔ کسی کا بیان ہے کہ آپۖ نے قصداً استفہام ِ انکاری کے طور پر کہے۔ کسی کا قول ہے کہ شیطان نے آپۖ کی آواز میں آواز ملاکر یہ الفاظ کہہ دیے اور یہ سمجھا گیا کہ آپۖ نے کہے ہیں اور کسی کے نزدیک کہنے والا مشرکین میں سے کوئی تھا۔
ابن کثیر، قاضی عیاض ، ابن خزیمہ، قاضی ابوبکر ابن عربی ، امام رازی، قرطبی، بدرالدین عینی، شوکانی، آلوسی وغیرہ حضرات اس قصے کو بالکل غلط قرار دیتے ہیں۔ ابن کثیر نے کہا کہ جتنی روایتوں سے یہ نقل ہوا ہے ،سب مرسل اور منقطع ہیں۔ مجھے کسی صحیح متصل سند سے یہ نہیں ملا۔ بیہقی کہتے ہیں کہ ” ازروئے نقل یہ قصہ ثابت نہیں ہے”۔ ابن خزیمہ سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ”یہ زنادقہ کا گھڑا ہوا ہے”۔ قاضی عیاض کہتے ہیں کہ ” اس کی کمزوری اسی سے ظاہر ہے کہ صحاح ستہ کے مؤلفین میں سے کسی نے بھی اس کو اپنے ہاں نقل نہیں کیا اور نہ کسی صحیح، متصل، بے عیب سند کے ساتھ ثقہ راویوں سے یہ منقول ہوا ہے ”۔ امام رازی ، قاضی ابوبکر اور آلوسی نے اس پر مفصل بحث کرکے اسے بڑے پُرزور طریقے سے رد ّکیا ہے۔ لیکن دوسری طرف حافظ ابن حجر جیسے بلندپایہ فقیہ اور ابوبکر جصاص جیسے نامور فقیہ اور زمحشری جیسے عقلیت پسند مفسر اور ابن جریرجیسے امام تفسیروتاریخ وفقہ اس کو صحیح مانتے ہیں اور اسی آیتِ زیر بحث کی تفسیر قرار دیتے ہیں۔ ابن حجر کا محدثانہ استدلال یہ ہے کہ :
” سعید بن جبیر کے طریق کے سوا جن طریقوں سے یہ روایت آئی ہے وہ یا تو ضعیف ہیں یا منقطع، مگر طریقوں کی کثرت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس کی کوئی اصل ہے ضرور۔ علاوہ بریں یہ ایک طریقے سے متصلاً بسند صحیح بھی نقل ہوا ہے، جسے بزار نے نکالا ہے ( مراد ہے یوسف بن حماد عن اُمیہ بن خالد عن شعبہ عن ابی بِشر عن سعید بن جبیر عن ابن عباس)اور دو طریقوں سے اگرچہ مرسل ہے مگر اس کے روای صحیحین کی شرط کے مطابق ہیں۔ یہ دونوں روایتیں طبری نے نقل کی ہیں۔ ایک بطریق یونس بن یزید عن ابن شہاب ، دوسری بطریق معمر بن سلیمان وحماد بن سلمہ عن داؤد بن ابی ہند بن ابی العالیہ”۔
جہاں تک موافقین کا تعلق ہے وہ اسے صحیح مان ہی بیٹھے ہیں۔ لیکن مخالفین نے بھی اس پر تنقید کا حق ادا نہیں کیا ہے۔ ایک گروہ ا سے اسلئے ردّ کرتا ہے کہ اس کی سند اس کے نزدیک قوی نہیں ہے ۔ اس کے معنیٰ یہ ہوئے کہ اگر سند قوی ہوتی تو یہ حضرات اس قصے کو مان لیتے۔ دوسرا گروہ اسلئے رد کرتا ہے کہ اس سے تو سارا دین ہی مشتبہ ہوجاتا ہے اور دین کی ہر بات کے متعلق شک پیدا ہوجاتا ہے کہ نہ معلوم کہاں کہاں شیطانی اغوایا نفسانی آمیزشوں کا دخل ہوگیا ہو۔ حالانکہ اس نوعیت کا استدلال ان لوگوں کو تو مطمئن کرسکتا ہے جو ایمان لانے کے عزم پر قائم ہوں مگر جو لوگ پہلے سے شکوک میں مبتلاء ہیں یا جواَب تحقیق کرکے فیصلہ کرنا چاہتے ہیںکہ ایمان لائیں یا نہ لائیں؟۔ ان کے دل میں یہ جذبہ پیدا نہیں ہوسکتا کہ ایک نامور صحابی اور بکثرت تابعین وتبع تابعین اور متعدد راویانِ حدیث کی روایت سے ایک واقعہ ثابت ہورہاہے تو اسے صرف اس بنا پر کیوں رد کیا جائے کہ اس سے آپ کا دین مشتبہ ہواجاتاہے؟۔اس کے بجائے آپ کے دین کو مشتبہ کیوں نہ سمجھا جائے۔ جب یہ واقعہ اسے مشتبہ ثابت کررہاہے؟۔
(تفہیم القرآن جلد سوئم، صفحہ نمبر240۔ سید ابولاعلیٰ مودودی)

NAWISHTA E DIWAR March Ilmi Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

سنی شیعہ اتحاد کا مسئلہ بہت گھمبیر بھی ہے اور ناگزیر بھی

سنی شیعہ اتحاد کا مسئلہ بہت گھمبیر بھی ہے اور ناگزیر بھی۔معروضی حقائق کے نتیجے میں بہت دلگیر بھی اور اچھی اُمید کی زندہ تصویر بھی۔جب تک عدل واعتدال سے کام نہیں لیا جاتا تب تک صراط مستقیم پل صراط سے بھی زیادہ مشکل ہے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

شیخ الحدیث حضرت مولانامفتی محمدزرولی خان کا مولانا طارق جمیل صاحب پر اعتراض اور علامہ سید شہریار رضاعابدی کا علامہ سید جوادحسین نقوی پر اعتراض بڑا زبردست آئینہ ہے!

مفتی زرولی خان نے مولانا طارق جمیل کے مولیٰ کہنے پر اعتراض کیا اور علامہ شہریار عابدی نے علامہ سید جواد نقوی پر علامہ زاہدالراشدی سے ملنے اور پیچھے نماز پڑھنے پراعتراض کیا

سنی شیعہ مسئلہ شروع سے گھمبیر تھا لیکن اب انتہاء کی طرف پہنچ رہا ہے۔ برطانیہ اورامریکہ کی ایجنسیوں کی مشترکہ قینچی سے اُمت مسلمہ کے اتحاد کو کون نقصان پہنچارہاہے؟۔یہ لوگ ایک دوسرے پر اغیار کے ایجنٹ ہونے کا الزام لگانے پر اُتر آئے ہیں۔ علامہ شہریار رضاعابدی بھی ٹھیک کررہے ہونگے جنہوں نے علامہ سید جواد نقوی کو تنقید کا نشانہ بنایا اور مفتی زرولی خان نے بھی ٹھیک کیا کہ مولانا طارق جمیل کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ مفتی زرولی خان نے کہا کہ اکابر اہل سنت نے حضرت علی کیساتھ مولا کا لفظ نہیں لگایا ہے تو اہل تشیع کی معتبر کتابوں میں ائمہ اہل بیت نے بھی حضرت علی کیساتھ کبھی مولا کے لفظ کا اضافہ نہیں کیا۔ بہت سارے صحابہ کرام کیساتھ ان الفاظ کا کبھی اضافہ نہیں لکھا گیا جو نبیۖ نے ان کیلئے استعمال کئے تھے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص سے نبیۖ نے فرمایا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ جس کا ذکر مفتی زرولی خان نے نہیں کیا۔ لیکن بہت سے دوسرے صحابہ کرام کی صفات اور خصوصیات کا ذکر کیا۔
مفتی زرولی خان نے کہا کہ اہل تشیع کے فتنہ گروں نے حضرت علی کیلئے یہ تک کہا کہ کائنات کے خالق بھی حضرت علی ہیں اور قرآن میں اللہ تعالیٰ نے رب العالمین کو بھی مولا قرار دیا ہے۔ اہل تشیع جب اللہ اور علی میں فرق نہیں کرتے تو پھر علی کیلئے مولا کے لفظ کا استعمال ان کی خوشنودی کیلئے کسی امام باڑے کے ذاکر کا کام ہوسکتا ہے لیکن اہل سنت کا لبادہ پہن کر یہ کام بہت خطرناک ہے اور پھر اکابرین سلف کو اس وجہ سے مجرم کہنا شیعہ کی ترجمانی ہے۔ مفتی زرولی خان کے مدلل اور تفصیلی مؤقف کو یوٹیوب پر دیکھا جاسکتا ہے۔
علامہ شہریار رضاعابدی کی باتوں میںوزن ہ کہ زاہدالراشدی نے ہمیشہ سپاہ صحابہ کے مؤقف کی تائید کی جنہوں نے اہل تشیع کا خون بہایا ہے۔ زاہد الراشدی کے والد مولانا سرفراز صفدر نے اپنی کتاب میں امامیہ شیعہ کو کافر قرار دیا ہے اور جنہوں نے شیعوں کا قتلِ عام کیا ہے وہ دیوبندی مکتبۂ فکر سے تعلق رکھتے تھے تو پھر دیوبندیوں پر اہل تشیع کا اعتماد بحال کرنے میں غور کرنا چاہیے۔
علامہ شہریاررضاعابدی نے بریلوی مکتبہ فکر کی طرف سے مولانا اشرف علی تھانوی کے ایک حیدر آبادی ماموں کا بھی حوالہ دیا جس نے شریعت کے معارف بیان کرنے کیلئے یہ شرط لگائی تھی کہ وہ مجمع میں برسربازار ننگا چلے گا اورایک آدمی اسکے عضوتناسل کو پکڑ کر آگے اور دوسرا اسکے پیچھے دبر میں انگلی ڈال کر پیچھے چلے گا اور لڑکے یہ آواز لگائینگے کہ بھڑوا ہے بھڑوا،بھڑوا ہے بھڑوا، بھڑوا ہے بھڑوا۔ اس میں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب”الافاضات یومیہ ” کا حوالہ ہے۔ علامہ شہریار رضاعابدی کہتے ہیں کہ میں بریلوی کی زبان سے سنانے کے بعد اسکو دہراؤں گا نہیں لیکن اگر ہماری کسی کتاب میں یہ واقعہ ہوتا تو دیوبندی ہمارا کیا حشر کرتے؟ ۔ہم صرف ان کو ایک آئینہ دکھانا چاہتے ہیں۔
یہ ذہن نشین رہے کہ سپاہ صحابہ نے ایک کتابچہ نما پمفلٹ چھا پا تھا جس میں بریلوی مکتبۂ فکر کے مولانا احمد رضا خان بریلوی اور دیگر معتبر علماء کے فتوے ہیں کہ ”جو شیعہ کے کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے”۔ گوگل میں دیکھ سکتے ہیں۔
ہمارا تعلق علماء دیوبند سے ہے، دیوبندی اور اہلحدیث بہت بعد میںتوحید کی وجہ سے وہابی کہلائے ہیں جبکہ ہم اپنے جدامجد سید عبدالقادر جیلانی کے بعد تسلسل ہی کیساتھ توحیدی ہیں۔ جس ماحول سے انسان کا تعلق ہوتا ہے اسکے اثرات ہوتے ہیں۔ برصغیر پاک وہند میں دیوبندی مسلک پھیل گیا تو دوسری طرف بریلوی مکتبہ فکر پھیل گیا۔ مولانا احمد رضاخان بریلوی نے جس طرح سے مزاروں پر خرافات کی مخالفت کی تھی تو اس کی تصویر عملی طور پر علماء دیوبند تھے۔ دوسری طرف ان خرافات کے دفاع میں بریلوی علماء بلکہ جہلاء نے مولانا احمد رضا بریلوی کی ایماء پر آذان سے پہلے صلوٰة وسلام پڑھنا شروع کیا ۔ مذہبی جذبہ اور مشن کاروبار بن گیا۔ جب دیوبندی و بریلوی اپنااپنا نظریہ برصغیر میں پھیلارہے تھے تو ہمارا تعلق علماء دیوبند سے نہیں تھابلکہ دیوبند کے فاضل نے ہماری مسجد کی امامت شروع کی۔ مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ صاحب نے بہت بڑی ضخیم کتاب لکھ دی تھی جس میں نماز کی سنت کے بعد دعا کو بدعت قرار دیا تھا لیکن فاضل دیوبند مولانا اشرف خان صاحب نے جہاں ہمارے ہاں امامت کرائی وہاں علماء دیوبند کے مسلک کو مسلط نہیں کیا تھا۔ اگر مولانا احمد رضاخان بریلوی کا شاگرد ہوتا تو بھی صلوٰة وسلام کا آذان میں اضافہ نہ کرتا۔
مولوی بیچارا زیادہ تر ماحول کا غلام ہوتا تھا۔ اب تو دین ،ایمان اور اسلام سے ہٹ کر مولوی فرقہ پرست اور مفادات کا غلام بنتا جارہاہے ۔ مولوی کو جہاں سیاستدانوں اور فرقہ پرستوں نے بالکل بے وقعت بنادیا ہے وہاں منبر ومحراب ، مسجد ومدرسہ اور خانقاہ وامام باگارہ کی طاقت کا بہت غلط استعمال ہورہاہے۔ کچھ لوگ نیک نیتی سے سب کچھ کررہے ہیں اور کچھ ایک مفید کاروبار سمجھ کر چھپکلی بنے پھرتے ہیں۔ ظالموں کی طرف سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگِ نمرود میں پھینکا گیا تھا تو یہ پھونکیں مارہی تھی۔ جو لوگ چڑیا بن کر یہ آگ بجھا رہے ہیں تو ان کی روح یانار کونی بردًا وسلامًا علی ابراھیم کی خلافت کا حق ادا کرنے میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔ قادرمطلق ذات تو اللہ کی ہے۔
کانیگرم جنوبی وزیرستان میں پنچ پیر یکے شاگرد نے نماز میں سنت کے بعد دعا کو بدعت قرار دیا تو کانیگرم کے مولانا محمدزمان نے اس پر قادیانیت کا فتویٰ لگادیا ۔ ہماری مسجد کا امام مولانا اشرف خان شریف آدمی تھا اورمولانا محمدزمان بدمعاش تھا جس کی موت بہت عبرتناک ہوئی ہے۔کانیگرم کے مولاناشاداجان اب بھی بقید حیات ہیں جو بہت نیک اور اچھے آدمی ہیں۔ سنت کے بعد اجتماعی دعا کراچی کے معروف دیوبندی مدارس جامعہ بنوری ٹاؤن، دارلعلوم کراچی اور جامعہ فاروقیہ سمیت لاہور، ملتان، فیصل آباد، پشاور ، بنوں ڈیرہ اسماعیل خان اور پاکستان کے دوسرے بڑے شہروں میں بھی اب نہیں ہوتی ہے۔
دیوبندی پہلے ہی تقسیم تھے۔اب بریلوی لوگوں نے ایکدوسرے پر یلغار شروع کردی ہے اور مولانا سید مظفر حسین شاہ نے علامہ الیاس قادری کو چیرنے کی دھمکی دیکر معافی مانگ لی ہے جو صبح کا بھولا ہوا شام کو گھر واپس آجائے تو کوئی حرج نہیں لیکن دوسری طرف علامہ آصف جلالی اور علامہ عرفان شاہ قادری کے پیچھے بریلوی شخصیات نے بھول بھلیوں کا سفر شروع کردیا ہے۔ یہ آغا ز ہے انجام سفر کیا ہوگا یہ فتنوں کے اس دور کے آخر میں پتہ چلے گا اور جب بیرون ملک کی ایجنسیاں اور مذہبی جاہلوں کا سامنا ہوتو معاملہ خطرناک ہوسکتا ہے اور ہماری ریاست کے پاس اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ ان کو کنٹرول کرسکے۔
احسان اللہ احسان کے بارے میں سلیم صافی نے یہ خبر دی کہ فوج نے اس کو استعمال کرکے اپنا کام لے لیا لیکن اسکے ساتھ جو وعدہ کیا تھا وہ پورا نہیں کیا اسلئے وہ فرار کروایا نہیں گیا بلکہ فرار ہوا ہے اور غفلت برتنے والے اہلکاروں کے خلاف محکمانہ کاروائی ہوئی۔ بہت لوگوں کو یہ بہت عجیب لگتا ہوگا کہ احسان اللہ احسان سے آخر کیا کام لیا گیا اور اتنی بڑی غفلت کو کیسے آسانی سے برداشت کیا گیا؟۔ لیکن اس سے بڑے کام تو ان سرنڈر طالبان سے لئے جاتے ہیں جو آئے روز کبھی کبھافوج کو دھوکہ میں نشانہ بھی بناتے ہیں ۔ جس طرح پنجابی کے علاقے میں ایک پٹھان فوجی پنجابیوں کی پہچان نہیں کرسکتا ہے اسی طرح سے پنجابی فوجی بھی علاقہ غیر کے آزاد قبائل میں اچھے برے پٹھانوں کی پہچان نہیں کرسکتے ہیں اور مجبوری میں ایسے لوگوں سے کام لیا جاتا ہے جن کو گڈ طالبان کہا جاتا ہے مگر کوئی شریف آدمی اس کام کیلئے تیار نہیں ہوتا ہے اسلئے پلے پلائے پِلے اور جگریوں سے کام لیا جاتا ہے ۔فوجیوں کا قتل ہو یا عوام کا اس کو برداشت کرنا دل گردے کا کام ہے لیکن جس طرح مولانا کے حیدر آباد دکنی ماموں نے ملامتی صوفی بننے کیلئے عجیب کردار ادا کیا تھا اس سے زیادہ پاک فوج اپنے لئے سلیکشن کی قربانی دینے والوں کی شلواریں اترواکر ملامتی صوفی بنادیتے ہیں۔
بہت ہوچکا ہے ، عوام برداشت کی آخری حد کو پہنچ چکی ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے حضرت خضر علیہ السلام نے اپنے تصوف کے تین واقعات دکھائے۔ خوامخواہ میں کشتی خراب کرکے تخریب کاری کا بہت کھلا مظاہرہ کیا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام وعدے کے باوجود بھی اس پر خاموش نہیں رہ سکے۔ پھر بولنے پر یاد دلایا تو کہنے لگے کہ آئندہ سوال نہیں کروں گا۔ پھر جب بچے کو قتل کردیا تو حضرت موسیٰ نے سوال نہ کرنے کی خاموشی توڑ دی۔ جب یاد دلایا تو ایک موقع اور مانگ لیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کی بھوک بھی انتہاء تک پہنچائی تھی۔ تخریب کاری اور قتل پر سوال نہ اٹھانے کا وعدہ تو کرچکے تھے لیکن ایک دیوار کو اُٹھانے پر معاوضہ طلب نہ کرنا اتنی بڑی بات نہیں تھی لیکن جب دیوار سیدھی کردی تو پھر سوال اٹھاکر معاملہ انجام تک پہنچادیا تھا۔ ریاست ، حکومت اور مذہبی طبقات کی ساری منطق صحیح ہے اور یہ تخریب کاری اور معصوم کے قتل تک سب کچھ برداشت کرلیتے ہیںمگر پیٹ پر لات مارنا اچھا نہیں لگتا ہے۔
حضرت ابوبکر اور حضرت علی کے قد بہت اونچے اونچے تھے۔ مذہبی بونوں کیساتھ یہ بات جچتی نہیں ہے کہ اپنے سے بڑی شخصیات کے قدکاٹھ ناپ کر فیصلہ کریں کہ کس کی کیا اوقات تھی اور کس کی کیا اوقات نہیں تھی؟۔ فرشتوں سے بڑھ کر ہے انسان زیادہ مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ۔ اصحاب رسولۖ نے کس کس مرحلے میں کیا کیا قربانیاں دیں؟ ان سے اہل سنت کے ماحول میں پیدا ہونے والے بڑی محبت کریں تو یہ فطری بات ہے۔ علامہ شہنشاہ حسین نقوی کو بہت مبارک ہو کہ وہ چرس کے نشے میں موالیوں کے جھرمٹ میں پہنچ کر جب علی کا نام لیتا ہے جہاں علامہ خود نہیں پہنچ سکتے تو وہ ملنگ بڑا اچھا لگتا ہے اور اچھا لگنا بھی چاہیے ۔ ہمیں بخدا اچھا ہی لگتا ہے لیکن جس صحابی نے مکی دور، بدر اور احد اور خندق کے علاوہ تمام جنگوں اور صلح حدیبیہ میں رسول اللہۖ کا ساتھ دیا وہ سنی کو کیسے اچھا نہیں لگے گا؟۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی قرآن سے نبیۖ کے ہم سفروں کو نکالنے پر بھی اصرار کرے اور ملنگوں کو داخل کرے تو اس پر بھی خوشی کے شادیانے بجائے جائیں لیکن علماء حق کی یہ ذمہ داری ہے کہ چرس کے نشے میں نہیں دین کے نشے میں پھانسی کے پھندوں کو چومنے کی سنت کو زندہ رکھیں۔ جہاں ریڈ بتی جلے وہاں اسٹاپ نہ کرنا موت کا باعث بن سکتا ہے۔ سڑک کی موت سے بڑی عقیدے اور نظریے کی موت ہے۔
اگر ایک کہتا ہے کہ مجھے اللہ نے اپنی بندگی کیلئے پیدا کیا ہے اور دوسرا کہتا ہے کہ مجھے علی کی پرستش کیلئے پیدا کیا ہے تو دونوں کا راستہ ایک نہیں ہوسکتا ہے۔ علامہ شہنشاہ نقوی کی بات صحیح ہے کہ اہل تشیع کو مارو مت، انکے خلاف کتابیں لکھو، دلیل سے بات کرو۔ ہماری بھی اتنی گزارش ہے کہ اہل تشیع ایک تو اختلاف اور توہین کے درمیان تمیز کاپیمانہ بنائیں ۔ ہم نے مان لیا کہ قرآن میں حضرت موسیٰ کی طرف خوف اور ظلم کی نسبت ہے اور علی کے درجے کو اسلئے افضل مانتے ہونگے کہ علی کی طرف ظلم اور خوف کی نسبت نہیں ہے اور موسیٰ فرعون کے پاس اسلئے جانے سے ڈرے تھے کہ ایک قتل خطاء ہوا تھا اور حضرت علی نے کئی مشرکوں کو قتل کیا تھا تب بھی مشرکوں سے نہیں ڈرتے تھے۔ اگر اس کو افضلیت کی دلیل نہیں بناتے بلکہ جہاد اور تعصبات کی فضاء میںقتل خطاء کے اندر تفریق کرتے تو ذاکر نہیں علامہ کہلانے کے مستحق ہوتے۔ جب حضرت علی نے اپنے منصوص حق کیلئے تین خلفاء کے خلاف قیام نہیں کیا جو سب کو قتل کرکے منزل مراد تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتے تھے اور حضرت حسین نے بہتّر ساتھیوں کیساتھ یزید کے چھوٹے لشکر کے سامنے شہید ہونا قبول کیا اور یزید کے لشکر کے سپاہ سالار حر نے حسین کیساتھ شہید ہونا قبول کیا لیکن کوفہ کے ذاکر دُم گھسائے بیٹھے رہے تھے تو پھر آنے والے وقت میں حسین کے مقابلے میں علی پر بھی ملامت کا خطرہ ہوگا۔ جس طرح بوہری و آغا خانی حضرت حسن کو نہیں مانتے ہیں۔
علامہ شہریار عابدی دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث ، آغاخانی ،بوہری سب کو مسلمان مانتے ہیں جو ختم نبوت پر یقین رکھتے ہیں لیکن اکابر صحابہ کیلئے کلمہ خیر نہیں مانتے۔ اہل سنت ائمہ اہلبیت کو مانتے ہیں لیکن جاہل شیعوں کو نہیں مانتے تو وقت نے فیصلہ کرنا ہے کہ اصل شدت پسند اور مجرم کون ہے کون نہیں ہے؟۔

NAWISHTA E DIWAR March Special Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

جب حق آجائے تو شدت پسندوں کے باطل عقائد اور نظریات روئی کے گالوں کی طرح ہوا میں اُڑیں گے

شدت پسند مذہبی طبقے اسلام سے دور ہیں۔ ایمان، صالح عمل ، حق کی تلقین اور صبر کی تلقین میں شدت پسند سب سے پیچھے ہیں اور جب حق آجائے تو ان کے باطل عقائد اور نظریات روئی کے گالوں کی طرح ہوا میں اُڑیںگے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

مساجد ومدارس ، خانقاہیں وامام بارگاہیں شدت پسند طبقات کی آماجگاہیں ہیںمگر احادیث صحیحہ میں مذہبی طبقوںکی شدید الفاظ میں مذمت ہے۔ کیامذہبی طبقے حق کی طرف آئیں گے؟

شہید اسلام حضرت مولانامحمد یوسف لدھیانوی نے اپنی کتاب ”عصر حاضر حدیث نبویۖ کے آئینہ میں” مذہبی طبقے کے علاوہ حکام، تجاراور معاشرے کے ہرطبقے کو آئینہ دکھا دیا۔

جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی سے ماہنامہ ” البینات ” رسالہ نکلتا تھا اور اب بھی شاید شائع ہورہاہو۔ حضرت مولانا سیدمحمد یوسف بنوریاور مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کی گرانقدر تحریرات اس میں شائع ہوتی تھیں۔ جب مولانا یوسف بنوری نے اپنے مضمون کے عنوان ” عبر وبصائر ” پر آیت لکھنا شروع کردی تو مولانا یوسف لدھیانوی نے عرض کیا کہ اس سے ایک اشتباہ ہوتا ہے کہ آپ کی تحریر میں قرآن کی طرح لوگوں میں بصائر ہیں۔ مولانا سیدمحمد یوسف بنوری نے یہ نہیں سوچا کہ ایک چھوٹا عالم اور مدرسے کے رسالے کا ملازم مجھے یہ رائے اور رہنمائی دینے کا کیا حق رکھتا ہے بلکہ فوری طور پر بات قبول کرکے اپنے مضمون کا عنوان رہنے دیا اور اس آیت کو رسالے سے ہٹادیا ۔
جب مولانا سید محمدیوسف بنوری کی وفات ہوئی تو مولانا یوسف لدھیانوی نے لکھ دیا کہ اسلاف کی آخری نشانی ہمارے درمیان سے اُٹھ گئی ، اب کوئی عالمِ حق کا آئینہ نہیں بچا ہے۔ پھر وہ وقت بھی جلد آگیا کہ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمود ،موجودہ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی اور شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کے درمیان جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں بینکوں کی سودی رقم سے زکوٰة کی کٹوتی پر بحث ہوئی اور اسی بحث کے دوران مفتی محمود پر موت کا دورہ پڑگیا اور وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ اس ملاقات کا حال مفتی تقی عثمانی نے بھی ماہنامہ البلاغ دارالعلوم کراچی میں لکھا ہے اور مولانا محمد یوسف لدھیانوی نے بھی ماہنامہ البینات جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں لکھا ہے۔ پھر اقراء ڈائجسٹ میں یہ دونوں مضامین ”مولانا یوسف بنوری ومولانا مفتی محمودنمبر” میں شائع ہوئے ہیں۔ مفتی محمود نے وفات پائی تو میں لیہ پنجاب میں تھا اور جمعیت علماء اسلام کے کارکن فیض محمدشاہین نے عبدالخیل ڈیرہ اسماعیل خان میں مفتی محمود کے جنازے میں شرکت کے بعد آکربتایا کہ مفتی محمود کو زہر دے کر شہیدکیا گیا ہے۔ اس وقت مذہبی لوگوں کے دلوںمیں پیپلزپارٹی سے سخت نفرت تھی اور پاک فوج سے بڑی محبت تھی۔ جب بھٹو کوپھانسی دیدی گئی تو مساجد میں حلوئے بانٹے گئے تھے۔ میرے بڑے بھائی ایس ڈی او واپڈا اس وقت چیچہ وطنی میں تھے اور بھٹو کی موت پر شدید رنج اور غم وغصے کا اظہار کررہے تھے ۔ محلے میں مسجد کے امام نے ان سے قرضہ لیا تھا وہ بھی اسی غصے میں واپس مانگ لیا تھا۔
جب مفتی محمود کی وفات کے بعدعلامہ سیدعبدالمجید ندیم شاہ لیہ آئے تھے تولوگوں نے جمعیت علماء اسلام کی پیپلزپارٹی کیساتھ شمولیت کی باز گشت سنی تو جلسہ ختم ہونے کے بعد ندیم صاحب سے پوچھا کہ کیا جمعیت نے پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرلی ہے؟۔ ندیم صاحب نے بھاگ کر جان چھڑائی تھی کہ ابھی نہیں۔ جب مولانا فضل الرحمن جمن شاہ لیہ آگئے تو پیپلزپارٹی اور جمہوری قوتوں کیساتھ مارشل لاء کے خلاف بہت مدلل انداز میں بات کی اور پاک فوج کو احترام کیساتھ اقتدار سے الگ کرنے کیلئے زبردست دلائل دئیے اور یہ طلسم توڑ دیا کہ چوکیداری کرنے والے ہی اقتدار پر قبضہ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
جب میں کراچی گیا تو جمعیت علماء اسلام کراچی کے امیر مولانا شیرمحمدنے کہا کہ مفتی محمود کو زہر دیا گیا تھا۔ جب مجھے بنوری ٹاؤن کراچی میں داخلہ ملا تو وہاں پرانے رسالے طلبہ کو اٹھانے کیلئے دئیے گئے تھے۔ ان میں البلاغ کا وہ رسالہ بھی تھا جس میں مفتی محمود کی وفات کا مفتی محمد تقی عثمانی نے تذکرہ کیا تھا۔ تحریر دیکھ کر مجھے اس مذہبی طبقے پر بڑا غصہ آگیا جنہوں نے مفتی محمد تقی عثمانی پر مفتی محمود کو پان میں زہر کھلانے کا الزام لگایا تھا، اسلئے کہ اس مفتی تقی عثمانی نے لکھا تھا کہ ” ہمیں چائے کی پیشکش کی گئی تو ہم دونوں بھائیوں نے کہا کہ ہم دن میںصبح ایک بار چائے پیتے ہیں اور پھر دن بھر نہیں پیتے”۔ جب فرشتوں نے حضرت ابراہیم کے کھانے کی دعوت قبول نہیں کی تو دل میں خوف آیا تھا کہ مہمان دشمن تو نہیںہیں؟۔ مگر مفتی محمود نے دونوں بھائیوں کے ضمیر کو مطمئن کرنے کیلئے کہا کہ ” میں خود چائے زیادہ پیتا ہوں لیکن اگر کوئی چائے نہیں پیتا ہے تو اس کو پسند کرتا ہوں”۔ حالانکہ مفتی محمود معمول کی زندگی میں فرماتے تھے کہ چائے میں دودھ ہے اور دودھ کی دعوت قبول نہ کرنے سے نبیۖ نے منع فرمایا ہے۔ مذہبی لوگوں کا سیاست سے تعلق ہو تو وہ بات کو پلٹانے کی بھی مہارت رکھتے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی نے لکھا کہ ”میں نے عرض کیا کہ ہمارے ساتھ یہ علت لگی ہوئی ہے۔(پان کا بٹوہ دکھاکر) ”۔ مفتی محمود نے فرمایا کہ ”یہ تو چائے سے بھی بدتر ہے”۔ پھر مفتی تقی عثمانی نے مفتی محمود پر دورہ پڑنے کا ذکر کیا ہے اور ڈاکٹر کے آنے اور مفتی صاحب کی روح پرواز کرنے تک کا واقعہ لکھا ہے۔ اس تحریر کے بعد مفتی تقی عثمانی پر پان کھلانے کا شائبہ تک نہیں ہوسکتا تھا۔ پھر جب کافی سالوں کے بعد اقراء ڈائجسٹ میں بنوری ومحمود نمبر میں مولانا یوسف لدھیانوی کی تحریر دیکھ لی تو اس میں یہ اضافہ بھی تھا کہ پھر مفتی محمد تقی عثمانی نے اصرار کرکے مفتی محمود کو پان کھلادیا۔ جب تھوڑی دیر بعد مفتی محمود پر دورہ پڑگیا تو مفتی محمدرفیع عثمانی نے دل کے دورے کی خصوصی گولی مفتی صاحب کے حلق میں ڈال دی۔ اقراء ڈائجسٹ کی مجلس مشاورت میں حاجی محمدعثمان کا نام بھی لکھا تھا۔ بنوری ومحمود نمبر میںحاجی عثمان کے نام کی جگہ ستارے کے نشان لگادئیے ۔
جمعیت علماء اسلام کے قاری شیرافضل خان نے مفتی محمود کے جلسے میں مرزائی نواز جنرل ضیاء کے نعرے لگائے تو مفتی محمود نے کہا کہ مرزائی نواز نہیں مرزائی کہو۔ جنرل ضیاء کے بیٹے ڈاکٹرانوارالحق کی شادی مشہور قادیانی مبلغ جنرل رحیم الدین کی بیٹی سے ہوئی اور اس کا نکاح پڑھانے کیلئے مفتی تقی عثمانی اپنے مرشد ڈاکٹر عبدالحی خلیفہ مجاز مولانا اشرف علی تھانوی کو لے گئے۔ جنگ کے میر شکیل الرحمن نے قادیانی لڑکی کو مولانا یوسف لدھیانوی کے ہاتھ پرمسلمان کرنے کے بعد نکاح کیا تھا۔ مولانا یوسف لدھیانوی نے بتایا تھا کہ جو فتویٰ اور خط کا جواب اقراء ڈائجسٹ میں ان کی طرف منسوب کرکے حاجی عثمان کیخلاف شائع کیا گیا ہے یہ مفتی محمد جمیل خان نے لکھا ہے اور یہ ساری خباثت مفتی رشید لدھیانوی کی ہے۔ آج جامعة الرشید اسی مفتی رشید کی طرف منسوب ہے اور اسکے مہتمم مفتی عبدالرحیم کی چشم کشا تحریرات ہمارے پاس محفوظ ہیں۔ سارے حقائق کو عوام کے سامنے لایا جائے تو پھر مذہبی طبقات کے چہروں سے بہت سارے نقاب اُٹھ جائیںگے۔ جب ہم نے مولانا یوسف لدھیانوی کے حوالے سے مفتی تقی عثمانی کی مفتی محمود کی وفات کے حوالے سے کہانی لکھ دی تو مولانا یوسف لدھیانوی نے بتایا تھا کہ مفتی تقی عثمانی نے بہت ڈانٹا کہ آپ نے ماجرا لکھ کر مجھے پھنسادیا ۔مولانا یوسف لدھیانوی نے اپنی طرف منسوب غلط فتوے سے بھی معذوری ظاہر کی لیکن حاجی عثمان کی قبر پر داماد کیساتھ گئے تھے۔
جب حضرت حسین پر مشکل وقت آیا تو کوفہ کے شیعہ، مدینہ ومکہ کے صحابہ سمیت کسی نے بھی یزید کے خلاف کوئی موثر آواز نہیں اٹھائی تھی۔ جان کو خطرہ ہو تو اللہ تعالیٰ نے کلمہ ٔ کفر بھی معاف کردیا ہے لیکن عزیمت والے اور سازش میں شریک ہونے والے برابر نہیں ہوسکتے ہیں۔ جب حاجی عثمان پر فتوے لگے تو خانقاہ میں بڑی تعداد میں مرید ہونیوالوں کا تقویٰ پوٹی پیشاب کی طرح بہت بری طرح بہہ گیا۔ پھر حاجی عثمان کی وفات کے بعد بھی مذہبی طبقے کا مسجد الٰہیہ اور خانقاہ چشتیہ میں کردار بہت قریب سے دیکھ لیا تھا۔ جب حقائق کو منظر عام پر لایا جائیگا تو لوگ حیران ہونگے کہ یہ مذہبی طبقے کا حال تھا؟۔
مولانا محمد یوسف لدھیانوی کی مقبول کتاب ”عصر حاضر حدیث نبویۖ کے آئینہ میں” مارکیٹ سے غائب کردی گئی جسکے لاکھوں نسخے تیزی سے فروخت ہونے کا دعویٰ بھی کتاب پر لکھ دیا گیا لیکن شائع نہیں ہورہی ہے۔ مولانا سید محمد بنوری کی شہادت نے ثابت کردیا تھا کہ خود کشی کا جھوٹا الزام لگانیوالے قتل میں ملوث تھے اور مولانا یوسف لدھیانوی ، مفتی نظام الدین شامزئی، ڈاکٹر حبیب اللہ مختار،مفتی عبد السمیع، مفتی سعیدا حمد جلالپوری اور مفتی عتیق الرحمن اور مفتی جمیل خان کے قتل کے پیچھے بھی اسی گینگ کے ملوث ہونے کا اندیشہ ہے۔ ویسے شیعہ سنی نے بھی اپنے اپنے پالتو دہشتگرد رکھے تھے لیکن جب شرافت کے لبادوں میں چھپے ہوئے رستم میدان میں کھل کرسامنے آجائیںگے تو یوم تبلی سرائر ”اس دن بڑے بڑے رازوں سے پردہ اُٹھ جائیگا”۔ مولانا یوسف لدھیانوی کی کتاب عصر حاضر میں مساجد کے ائمہ کو آسمان کے نیچے بدترین مخلوق قرار دیا گیا ہے اور ان میں نماز پڑھنے والوں کو ہدایت سے بالکل عاری گمراہ قرار دیا گیا ہے۔ مدارس کے رئیس دارالافتاء کو علماء حق کے اُٹھ جانیکی وجہ سے جاہل قرار دیا ہے جن سے فتوے پوچھے جائیں گے تو بغیر علم کے فتوے دیںگے اور خود بھی گمراہ ہونگے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریںگے۔ یہ بھی روایت میں لکھ دیا ہے کہ علماء حق سے غلطی ہوسکتی ہے لیکن حق واضح ہونے کے بعد باطل پر ڈٹ جانے والا عالم نہیں بلکہ کھلم کھلا شیطان ہے۔ مذہبی لبادے اور مذہبی زبان میں لوگوں کو جہنم کی طرف بلانے والی روایت بھی لکھ دی ہے جس میں حکم ہے کہ مسلمانوں کی جماعت اور اسکے امام سے مل جاؤ لیکن اگر اس وقت نہ مسلمانوں کی جماعت اور نہ امام ہو تو ان سارے فرقوں سے الگ ہوجاؤ، چاہے درخت کی جڑ چوس کر گزارہ کرنا پڑجائے۔
قاری شیر افضل خان نے بتایا کہ میں نے خواب دیکھا کہ ”رسول اللہۖ قرآن کا درس دے رہے ہیں۔ مولانا یوسف بنوری اس درس قرآن میں موجود ہوتے ہیں اور کچھ اور لوگ بھی ہوتے ہیں لیکن مفتی محمود کو اس درس میں بیٹھنے کی اجازت نہیں ملتی ہے۔ میں نے مفتی محمود صاحب کو خواب بتایا تو مفتی صاحب نے کہا کہ مولانا بنوری کا بڑا مقام ہے اور مجھے اللہ نے اتنا اعزا ز نہیں بخشا ہے”۔ تبلیغی جماعت والے اپنے گناہوں کو اللہ سے بخشوانے کیلئے جماعت میں وقت لگاتے ہیں اور مفتی محمود صاحب سیاسی دغا بازی کی معافی مانگنے کیلئے حج پر جاتے تھے۔ جب مولانا احمد جان نے مفتی محمود سے کہا کہ میرے حلقے میں میرے لئے ووٹ مانگو۔ آپ نے کلثوم سیف اللہ سے ڈیرہ اسماعیل خان اور بنوں کی سیٹ پر اپنے لئے گٹھ جوڑ کررکھاہے۔ جمعیت کے ہر امیدوار کیلئے ووٹ مانگنا آپ کا فرض ہے تو مفتی محمود نے عوام سے کہا کہ مولانا احمد جان کہتا ہے کہ مفتی محمود ڈیرہ اسماعیل خان کا نام لیتا ہے بنوں کا نام نہیں لیتا ہے۔ جب میرا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے تو میں ہر جگہ ڈیرہ اسماعیل خان ہی کے حوالے سے اپنا تعارف کراؤں گا۔ سیاسی دغہ بازی کا کھیل بہت تاریخی اور پرانا ہے۔

NAWISHTA E DIWAR March Special Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

سنی شیعہ کے کچھ معرکة الآراء مسائل اورانکے حل کی ادنیٰ کوشش۔ عتیق گیلانی

سنی شیعہ کے کچھ معرکة الآراء مسائل اورانکے حل کی ادنیٰ کوشش۔ شیعہ مسائل اٹھارہے ہیں اور سنی کہتے ہیں کہ پہلے تم خود کو مؤمن ثابت کرکے دکھاؤ، پھر جواب دینگے۔ تم حضرت ابوبکر و عمرکو نہیں مانتے تو تم مسلمان کہاں ہو؟

یوٹیوب میدان جنگ بناہوا ہے ،شیعہ کہتے ہیں کہ جس بات پرتم ہمارے خلاف ایف آئی آر(FIR)کٹاتے ہو تو یہ تمہاری کتابوں میں لکھی ہیں،پہلے ان کا چھاپنا بند کرو، پھر ہم بھی حوالہ نہیں دیں گے

قرآن میں رسول اللہ ۖ کی طرف ” ذنب” کی نسبت گناہ نہیں بوجھ ہے اور اس سے کیا اولی الامر اور من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ مراد ہے؟ ، مولانا طارق جمیل مشکل میں پڑے۔

آج مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ عالمی اسلامی خلافت کیلئے ایک خلیفہ کا تقرر ہے۔ شیعہ سنی میں سب سے بڑا ، بنیادی اور اہم مسئلہ بھی یہی ہے۔ حضرت مولانا حق نواز جھنگوی نے ایک تقریر کی تھی جو ”سنی شیعہ اختلاف کا اصلی مسئلہ ” کے عنوان سے شائع ہوئی ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ” شیعہ سنی کا اصلی اختلاف قرآن پر نہیں ۔ صحابہ پر بھی نہیں ہے ، سنی شیعہ اختلاف کا اصلی اختلاف مسئلہ امامت پر ہے”۔

علامہ سید جواد نقوی نے کہا ہے کہ ” سنیوں کیلئے خلافت بہت آسان ہے۔ کسی بھی شخص کو خلیفہ مقرر کیا جائے تو اس کی مشروط اطاعت ہوتی ہے جبکہ شیعہ کے ہاں امامت کا مسئلہ ہے۔ شیعہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ کو اللہ نے حکم دیا کہ اپنے بعد ایک خلیفہ وامام مقرر کرو۔ حضرت علی کی امامت نص سے ثابت ہے۔ غدیر خم کے موقع پر نبیۖ نے اللہ کے حکم سے حضرت علی کو اس منصب پر فائز کردیا تھا۔ امام کی تقرری کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ حضرت علی نے حضرت حسن ، حضرت حسن نے حضرت حسین ، حضرت حسین نے حضرت زین العابدین ، اس طرح سے بارویں امام مہدی غائب علیہ السلام تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ امام پر وحی نازل نہیں ہوتی ہے بلکہ قرآن وہی ہے جو رسول اللہۖ پر نازل ہوا۔ رسول اللہ ۖ کی سنت وہی ہے جس کو سب مانتے ہیں۔ البتہ شیعہ کے نزدیک امامت کا سلسلہ مخلوقِ خدا کی طرف سے نہیں ہے ۔ پہلے امام حضرت علی شیعہ کے نزدیک نبیۖ کے مقرر کردہ ہیں اور پھر دوسرے، تیسرے اور بارویں امام تک کا سلسلہ اماموں نے ہی ایکدوسرے کو نامزد کیا ہے۔ بارہ امام کو ماننے والے امامیہ کہلاتے ہیں”۔

آغا خانیوں اور بوہریوں کا سلسلہ چھ اماموں کے بعد الگ ہوجاتا ہے ۔ انہوں نے فاطمیہ کے نام سے حکومت بھی کی ہے۔ ارتغرل غازی کی فلم میں کہتے ہیں کہ جو خلافتِ عثمانیہ قائم کی گئی تھی تو اس سے پہلے خلافت عباسیہ کا خاتمہ چنگیزکے پوتے ہلاکو خان نے کیا تھااور خلافت عثمانیہ والوں نے خلافت فاطمیہ کا بھی خاتمہ کردیا تھا۔

خلافتِ عثمانیہ کے ہوتے ہوئے جب پہلے مغل بادشاہت کا خاتمہ ہوا تو انگریز کی موجودگی میں راجہ رنجیت سنگھ کی حکومت بھی تھی۔ تختِ لاہور پنجاب کے سکھ رنجیت کی وجہ سے انگریز کی دسترس سے باہر تھا۔ کابل کے بادشاہ جس کے ایک بھائی نے پشاور، دوسرے نے کوئٹہ اور تیسرے نے کشمیر کا اقتدار سنبھالا تھا، راجہ رنجیت سنگھ کے ساتھ ان کامعاہدہ تھا۔ حضرت سید احمد بریلوی اور آپکے مرید شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے ہندوستان سے آکر مہدی خراسان کی خلافت کے آغاز کیلئے تحریک چلائی تھی۔ پشاور سے ہزارہ گئے اور بالاکوٹ کے مقام پر شہید ہوگئے۔

کابل کے بادشاہ امیر دوست محمد خان نے انگریز سے جنگیں لڑیں لیکن جب اس کے بھائی والئی کشمیر نے اسکے بچوں کو انگریز پر بیچ دیا تو اس نے ہتھیار ڈال دیئے۔ ژوب کے مولانا قطب الدین آزاد کی کچی پکی معلومات اور یاداشت اچھی ہیںجس کا تعلق جمعیت علماء اسلام سے ہے اور کراچی میں رہتے ہیں۔ ان کے بقول اسکے وقت کے طالبان سیداحمدبریلوی اور شاہ اسماعیل شہید کے ساتھی تھے۔

مطالعہ ٔپاکستان میں اس تحریکِ بالاکوٹ کو پاکستان کی بنیاد قرار دیا جاتا ہے اور شاہ ولی اللہ پر دیوبندی، بریلوی، جماعت اسلامی اور اہلحدیث متفق ہیں۔جبکہ شاہ اسماعیل شہید کی کتاب ”تقویة الایمان” کی وجہ سے دیوبندی بریلوی میں اختلاف کی شدت ہے۔ شاہ اسماعیل شہید کی ایک کتاب ”منصبِ امامت ” پر بریلوی مکتب کا بھی اتفاق ہے۔ جامعہ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے بانی حضرت مولانا محمد یوسف بنوری نے شاہ اسماعیل شہید کی کتاب کا اردو ترجمہ” بدعت کی حقیقت” کے مقدمہ میں شاہ اسماعیل شہید کی کتاب ”منصبِ امامت ” کی بہت تعریف کی ہے۔

جمعیت علماء اسلام کے مولانا محمد خان شیرانی نے علامہ سید جواد نقوی کے ہاں اپنی تقریر میں کہا کہ ” نصب امام اسلام میں بہت اہمیت رکھتا ہے اور شیعہ نے اس کو زندہ رکھا ہوا ہے جبکہ سنیوں نے اس کو بالکل نظر انداز کیا ہوا ہے”۔ اس پر بعض شیعہ فرقہ سے تعلق رکھنے والوں نے اپنی جیت کا جشن منایا اور بعض نے اس پر صفِ ماتم بچھایا ہے اور بہت سخت الفاظ میں اہل سنت کی امامت کا پوسٹ مارٹم کیا ہے۔

جنرل ضیاء الحق کے دور میں بریلوی مکتبۂ فکر کے بہت معتبر عالمِ دین نے امام کی تقرری کا مسئلہ اُٹھایا تھا لیکن دیوبندی مکتبۂ فکر کے مدارس نے جواب نہیں دیا تھا۔ یہ ساری روئیداد ہماری کتابوں میں تفصیل سے درج ہیں لیکن ساغر صدیقی کے بقول ”کچھ یادرہیں، کچھ بھول گئے”کے مصداق مگریہاں تفصیل لکھنے کی گنجائش نہیں ۔

ایک وقت تھا کہ جمعیت علماء اسلام کے مولانا فضل الرحمن نے شرعی اعتبار سے ان احادیث کو اپنی جماعت پر فٹ کیا تھا جو خلافت اور جماعت سے متعلق ہیں ۔ پھر میں نے اپنے سکول کا افتتاح مولانا فضل الرحمن سے کروایا، تاکہ میرے بھائی اور جمعیت کے قائد میں مراسم باقی رہیں۔ مولانا نے افتتاحی تقریب میں ہمارے خاندان کے بزرگوں کی دینی خدمات کے علاوہ یہ بھی کہا کہ ” اس خاندان میں عتیق جیسے اہل علم بھی موجود ہیں” ساتھ میں یہ بھی کہا کہ میں علماء کیساتھ ہوں۔ من شذ شذ فی النار ”جو جماعت سے ہٹ گیا وہ جہنم کی آگ میں پھسل گیا”۔ پھر میں نے اپنی کتاب ”اسلام اور اقتدار” میں احادیث کی وضاحت کی اور مولانا فضل الرحمن کا نام لیکر آخر میں لکھ دیا کہ ”عاقل کیلئے اشارہ کافی ہے”۔ میں نے سپاہِ صحابہ کے اس نعرے سے پہلے مولانا کو تحفظ دیا تھا کہ ”کافر کافر شیعہ کافر، جو نہ بولے وہ بھی کافر”۔ عروج ملتِ اسلامیہ کا فیصلہ کن مرحلہ نامی کتاب میں نے ڈیرہ اسماعیل خان جیل سے رہائی کے بعد شکارپور سندھ میں (1992ئ) کے ابتدائی مہینوں میںلکھی تھی۔

پھر جمعیت علماء اسلام کی شوریٰ نے انتخابی سیاست چھوڑ کر انقلابی سیاست کے آغاز کا اعلان کیا اور اسکے محرک مولانا خان محمد شیرانی تھے۔ مجلس شوریٰ نے فیصلہ کرلیا اور باقاعدہ اعلان لاہور کے جلسۂ عام میں کرنا تھا۔ اس وقت نوازشریف کی حکومت تھی اور جمعیت کے کارکن امید سے تھے کہ حکم ملے گا اور نوازشریف کے ماڈل ٹاؤن پر قبضہ کرکے اسلامی جمہوری اتحاد کو بازوکے زور سے ہٹادیا جائیگا لیکن فوج نے پھر مولانا فضل الرحمن کو دھمکی دی اور مولانا نے انقلاب کا اعلان کسی اور وقت پر ٹال دیا تھا۔ میرے بھائی نے اس وقت سمجھ لیا کہ اب جمعیت ایک دھوکہ ہے۔

پھرو قت آیا کہ جمعیت علماء اسلام ف ٹانک کے جنرل سیکرٹری ،امیر ، سرپرست اعلیٰ اورسب جماعتوں کے اکابر نے ہماری بھرپور حمایت کی لیکن مولانا فضل الرحمن نے بات دل پر لے لی۔ جب ٹانک کے اکابر نے جلسۂ عام میں حمایت کردی تھی تو ان کے بیانات شہہ سرخیوں کیساتھ ہمارے اخبار میں چھپ گئے۔ بس پھر مولانا بھی شاید تپ گئے۔ اگلی مرتبہ ڈیرہ اسماعیل خان میں ہمارے اخبار کے خلاف سازش تیار کی گئی اور سامنے سپاہ صحابہ والے آگئے لیکن پیچھے مولانا تھے۔ خلیفہ عبدالقیوم نے بتانا بھی چاہا لیکن میں نے بات بدل دی تھی اسلئے کہ مجھے اندیشہ تھا کہ بھائی کو پتہ چلے گا تو یہ لڑائی مذہب سے ہٹ کر خاندانی رُخ اختیار کرلے گی۔ ابوجہل کو خوف تھا کہ امیرحمزہ کو جواب دیا تو معاملہ مذہب سے خاندانی بن جائیگا اور نبیۖ نے بھی اس کودین کی حدتک رہنے دیا اور ابوجہل کا مقابلہ کرنے کے بجائے فرمایا کہ ” اگر آپ مسلمان بن جاؤ ، تو یہ میرے لئے زیادہ خوشی کی بات ہوگی”۔ سپاہ صحابہ کے خلیفہ عبدالقیوم کو ہم ان کے گھر سے ہسپتال کی مسجد میں اٹھاکر لائے۔ عبدالرؤف بلوچ وغیرہ بھی پہنچ گئے اور مجھ سے سوال کیا کہ شیعہ کافر ہیں یا مسلمان؟۔ میں نے جواب دیا کہ شیعہ کو کس بنیاد پر کافر کہوں؟۔ انہوں نے کہا کہ وہ قرآن کو نہیں مانتے۔ میں نے کہا کہ قرآن کو اگر سنی بھی نہیں مانیں تو وہ بھی کافر ہیں ، شیعہ بھی کافر ہیں لیکن پہلے ہم طے کرلیں کہ قرآن کو کون نہیں مانتا۔ ہمارے درسِ نظامی میں قرآن کی جو تعریف پڑھائی جاتی ہے وہ بھی قرآن کی تحریف ہے۔ پھر طے ہوا کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں علماء کا ایک پروگرام رکھ لیتے ہیں جس میں اس مسئلے پر بات چیت ہوگی۔ پہلے بھی ڈیرہ کے علماء کو ٹانک میں بلایا تھا مگر وہ نہیں آسکے تھے۔ پھر ٹانک سے مولانافتح خان اور مولانا عبدالرؤف کو بھی اس مجلس میں بلانے پر اتفاق ہوگیاتھا لیکن پھر انہوں نے ایسی فضاء بنائی کہ جیسے ہم نے بات کرنے کے بجائے مدرسہ پر حملہ کرنا ہو اور حکومت نے پابندی لگادی۔

چونکہ اصل مسئلہ شیعہ سنی مسائل کا حل پیش کرنا ہے لیکن جب تک میری تاریخ کا پتہ نہ ہو تو پھر میری بات کا بھی اعتبار نہیں ہوگا۔ قاضی عبدالکریم کلاچی فتوؤں کا ماسٹر تھا اور اس نے اپنے شاگرد پیرالطریقت مولاناشیخ محمد شفیع کو خط لکھ دیا کہ ” اس شخص پر مہدی کا دعویٰ کرنے والی بات اصل مسئلہ نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اس پر امت کا اجماع ہے کہ شیعہ کافر ہیں اور یہ شخص نہ صرف شیعہ کو مسلمان سمجھتا ہے بلکہ ان کے دفاع میں بھی بات کرتا ہے اسلئے یہ گمراہ ہے اور جہاں تک دوسرے علمائ( جمعیت ف گروپ) کا تعلق ہے تو یہ قادیانیوں کا بھی استقبال کریںگے۔ مجھے تمہارے اوپر افسوس ہے کہ آپ عتیق کی مجالس اور تحریرمیں تائید کیوں کرتے ہیں”۔ مولانا شیخ شفیع میری حمایت میں پھر بھی ڈٹ گئے لیکن مولانا فضل الرحمن کی وجہ سے جمعیت ف کے رہنماؤں نے اس خط پر الجواب صحیح لکھ کر فتوے کی تصدیق کردی۔ حالانکہ یہ فتویٰ جمعیت ف پر بھی لگایا گیا تھا کہ قادیانیوں کا بھی استقبال کرینگے۔جمعیت علماء اسلام ف ٹانک کے ضلعی امیر مولاناعبدالرؤف نے مولانا فضل الرحمن کو بھی خوب سنائیں اور قاضی عبدالکریم سے بھی کہا کہ ”اپنی بھونڈی حرکتیں چھوڑ دو”۔ ہم نے قاضی کو بڑا اچھا جواب دیا تھا کہ ملی یکجہتی کونسل کا صوبائی امیر تمہارا بھائی قاضی عبداللطیف ہے اور یہ فتویٰ اس پر بھی لگتا ہے اسلئے کہ شیعہ کیساتھ تحریری معاہدہ کیا ہے کہ ہم ایکدوسرے کی تکفیر نہیں کرینگے۔ اور یہ سعودی عرب اور اس سے پہلے والے حکمرانوں پر بھی لگتا ہے کہ حرم میں شیعہ کو داخل ہونے دیتے ہیں۔ پھر قاضی عبدالکریم نے مجھ سے معافی طلب کرنے کے بجائے مولانا عبدالرؤف سے معافی طلب کی تھی۔

ڈاکٹرا سرار احمد کے پروگرام عالمی خلافت کانفرنس میں قاضی عبداللطیف، طالبان کے نائب سفیر حبیب اللہ فوزی اور میں (عتیق گیلانی) ایک اسٹیج پر بیٹھے تھے اور اتفاق سے مجھے بالکل آخر ی خطاب کا موقع ملا لیکن وقت بہت کم دیا گیا تھا۔ پھر مولانافضل الرحمن بھی ہمارے گھر پر تشریف لائے تھے اور مقصد صلح صفائی تھی ۔ اس معاملے کی بہت زبردست اور دلچسپ تفصیلات ہیں لیکن جگہ اورضرورت نہیں ہے۔

اہل تشیع کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر جب اپنے بعد خلافت کی فکر رکھتے تھے تو نبیۖ کو ان سے زیادہ فکر تھی اور اس پر عمل بھی کیا۔ حضرت علی نے امام کیساتھ ساتھ مسندِ خلافت کو بھی سنبھالا ہوتا تو بہت قریب کے دور میں حضرت عثمان مسندِ خلافت پر اس طرح قتل نہیں کئے جاتے کہ ان کا پانی بھی بند کردیا گیا اور مسجد کی امامت کیلئے بھی نہیں آسکتے تھے۔ حضرت علی نے پانی پہنچایا لیکن قاتلوںسے نہیں بچاسکے اور جب اس ہنگامہ خیز دور میں حضرت علی نے منصب کے ساتھ مشاورت سے مسند کو بھی سنبھالا تو امیرشام امیر معاویہ نے بغاوت کردی۔ حضرت عائشہ نے بھی نکل کر لڑنے والوں کی قیادت کی۔ بخاری کی روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ کے مخالف لشکر میں موجود حضرت ابوبکرہ نے نبیۖ کی حدیث نقل کی کہ جس گروہ کی قیادت عورت کے ہاتھ میں ہو تووہ کبھی فلاح نہیں پاسکتا ہے۔ اہل سنت حضرت علی سے اتنا بغض رکھتے ہیں کہ مولانا طارق جمیل کو مولا علی کہنے پر اپنی صف سے نکال دیا گیا۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

NAWISHTA E DIWAR Feburary Newspaper 2021

شیعہ سنی مسئلہ حل نہیں کیا تو پاکستان فرقہ واریت کا شکار ہوجائیگا: عتیق گیلانی

شیعہ سنی مسئلہ حل نہیں کیا تو پاکستان فرقہ واریت کا شکار ہوجائیگا اور عقائد کے تضادات کے علاوہ یہاں پر بیرونی فنڈ آتا ہے ، چندہ بٹورنے کیلئے بھی یہ پیشہ بن چکا ہے۔ اب اس پر کاری ضرب لگانے کی بہت سخت ضرورت ہے: سید عتیق الرحمن گیلانی

میری تحریروں کو اہلسنت کی طرح اہل تشیع میں بھی پذیرائی ملتی ہے اور میں بنی اُمیہ کے مقابلے میں مظلوم ائمہ اہلبیت علیہم السلام کے دفاع والوں کو چاہتاہوںکیونکہ انسان پھر سید ہوں!

تاہم اہل تشیع کے انداز میں سوشل میڈیا پر جس قسم کی تلخیاں بڑھتی جارہی ہیں اسکا نتیجہ مجھے اتنا بڑا تصادم نظر آتا ہے کہ کیاشیعہ سنی ایکدوسرے کیخلاف صف بندی کرکے کٹ مرینگے ؟

اہل تشیع اوراہل سنت دونوںایک اللہ ، ایک رسولۖ اور ایک قرآن وسنت کو مانتے ہیں۔ صحابہ کرام اور اہلبیت عظام کے درمیان تلخیاں ، لڑائیاں اور مشکلات رہیں۔ قیامت تک وہ تاریخ چھوڑی کہ دونوں کے ماننے والوں میں ایکدوسرے کیخلاف بغض وعناد کے چولہے جلائے جاسکتے ہیں۔ تاہم اہل تشیع کاطرز گفتگو جس تلخی کی طرف بڑھ رہاہے اگر اس کا تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا تو پھر معاملات تصادم کی طرف جائیں گے اور کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی خونریزی کا تدارک نہیں کرسکے گی۔ اسلئے ضروری ہے کہ اہل تشیع کو تھوڑا سا احساس بھی دلایا جائے۔

بہت ہی محبت اور بہت ہی معذرت کیساتھ جب شیعہ جوشِ جذبات میں آکر کہتا ہے کہ فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ بڑا لیڈر کون تھا؟۔ نبیۖ کو ساتھیوں نے دن کے وقت جنگ میں تنہاء چھوڑ دیا اور بھاگ گئے۔ جبکہ حضرت حسین نے ساتھیوں سے کہا کہ جاؤ اور مشعلیں بھی بجھادیں مگر کوئی چھوڑ کر نہیں گیا ۔تو فیصلہ ہوگیا کہ بڑا لیڈر کون تھا اوراس پر مجمع سے واہ واہ ، واہ واہ ، واہ واہ کی آوازیں بلند ہوتی ہیں۔

اگر رسول اللہ ۖ سے بھی بڑا لیڈر حضرت حسین تھا اور اہل تشیع اس پر خوش بھی ہوتے ہیں تو یہ ان کی مرضی ہے ، دین میں زبردستی کا کوئی تصور نہیں ۔ رسولۖ کا تو ان کو احسا س نہیں اور بھلے نہ ہو۔ یہ اور ان کا مذہب جانے لیکن جب حضرت حسین کی تعریف کچھ اس انداز سے کرتے ہیں کہ جملہ بازیوں سے صحابہ کو تو چھوڑئیے، اس طنز وتشنیع کا نشانہ علی وحسن اور چوتھے امام حضرت زین العابدین سے حضرت مہدی تک سب اس کا شکار بنتے ہیں۔ پھریہ امامیہ نہیں رہتے بلکہ حسینیہ بنتے ہیں۔

ان کے حسینیہ بننے پر بہت خوشی ہوگی اسلئے کہ یزید کے مقابلے میں اگر حضرت امام حسین کی بات ہو تو پھر اس کا تہہ دل سے ہم بھی خیرمقدم کرتے ہیں۔ معاملہ اس سے بھی نہیں بگڑتا کہ حضرت علی سے ابوبکر، عمر اور عثمان کے مقابلے میں محبت کریں۔ حضرت علی کیلئے ترجیحات قائم کرنا بھی ان کا حق ہے۔انصار کے سردار سعد بن عبادہ نے حضرت ابوبکر وعمر کے پیچھے کبھی نماز بھی نہیں پڑھی اور اگر شیعہ حضرت علی کو خلیفہ بلا فصل مانیں تو یہ انکا حق ہے۔ بنی امیہ اور اہل بیت کی جنگوں کا معاملہ تاریخ کا حصہ ہے۔ اس کی تلخیاں بیان کرنا اور شدید الفاظ میں مذمت کرنا ان کا حق ہے۔

سورۂ محمد کی تفسیر پر اہل تشیع مجھے بڑی داد بھی دیں گے جو اس شمارے کا حصہ ہے۔ دوسری طرف سورۂ حجرات کاترجمہ اور تفسیر بھی لکھ دی ہے جس سے شیعہ حضرات میں کافی حد تک اعتدال بھی قائم ہوجائے گا۔ سورۂ محمد صفحہ نمبردو (2)اور سورۂ حجرات صفحہ تین (3)پر دیکھ لیجئے گا۔ امید ہے کہ شیعہ سنی میں اعتدال کی راہ ہموار ہو گی۔

ایک شیعہ جوان ذاکر نے کہا کہ ” علامہ ابن جوزی اپنے وقت کابہت مشہور عالم تھا اور اس نے حضرت علی کے قول کی نقل اتاری کہ سلونی سلونی قبل ان ….. مجھ سے سوال کرو، اس سے پہلے کہ میں آپ لوگوں کو پھر دستیاب نہ ہوں۔ ایک عورت نے اٹھ کر سوال کیا کہ حضرت علی اس وقت کسی دوسرے شہر میں بہت دور تھے جب حضر ت سلمان کی وفات ہوگئی لیکن جنازہ کیلئے وہاں پہنچ گئے۔ مگر عثمان کی میت تین دن تک پڑی رہی ، علی نے جنازہ کیوں نہیں پڑھا؟۔ کیا حضرت علی نے خود کو اس قابل نہیں سمجھا تھا کہ عثمان کا جنازہ پڑھاتے یا اس کو کافر سمجھتے تھے؟۔ ابن جوزی نے کہا کہ مجھ کو پہلے یہ بتاؤ کہ اپنے شوہر سے اجازت لیکر آئی ہو یا بغیر اجازت کے سوال کیا ہے؟ اس خاتون نے کہا جس کے دل میں اہلبیت کی محبت تھی کہ اگر میں نے اجازت لیکر سوال کیا ہے تو اس کا کیا جواب ہے اور اگر اجازت نہیں لی ہے تو کیا جواب ہے؟۔ ابن جوزی نے کہا کہ اگر تونے اجازت نہیں لی تو تجھ پر لعنت ہو اور اگر اجازت لی ہے تو تیرے شوہر پر لعنت ہو۔ اس عورت نے کہا کہ وہ جو حضرت عائشہ شام میں لڑنے گئی تو اس نے شوہر سے اجازت لی تھی ؟ اور اگر نہیں لی تھی تو اس پر لعنت ہو؟”۔

اہل تشیع کے ذاکرین شیعہ بھائیوں سے داد وتحسین وصول کرتے ہیں اور بھاری بھرکم معاوضہ بھی ۔ اور خوش ہوتے ہیں کہ اپنے مذہب کے اصول وفروغ کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔ دنیا وآخرت میں سرخرو ہونے کا یقین رکھتے ہیں۔

مجھے پتہ ہے کہ اہل تشیع بہت سخت ناراض ہوں گے کہ آج تک سپاہ صحابہ والے بھی ابن جوزی کی طرح جواب دیتے رہے ہیں جس سے شیعہ اپنے عقائد میں مزید پختہ ہوجاتے ہیں اور میرے طرزِ استدلال سے ان کی روٹی روزی بند ہونے کا خدشہ ہوگا۔ لیکن مجھے ان کی قیمتی جانیں بچانے کا کردار ادا کرنا ہے تاکہ گستاخانہ طرزعمل کو آئندہ قرآن وحدیث سمجھ کر بیان نہیں کریں اور قتل وغارتگری کا سلسلہ رک جائے۔

جب صلح حدیبیہ سے پہلے حضرت عثمان کی شہادت کا مسئلہ کھڑا ہوا تو نبیۖکی بیعت حضرت علی سمیت تمام صحابہ کرام نے کی۔ بیعت کا مقصد حضرت عثمان کے قتل کا بدلہ لینا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس بیعت پر خوش خبری سنائی : (ان الذین یبایعونک انما یبایعون اللہ یداللہ فوق ایدیھم فمن نکث فانما ینکث علی نفسہ ومن اوفٰی بما عٰھد علیہ اللہ فسیؤتیہ اجرًا عظیمًاO) ” اے نبیۖ! جو لوگ آپ سے بیعت کررہے ہیں تو بے شک اللہ سے بیعت کررہے ہیں۔ اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اُوپر ہے۔ پس جو اس عہد کو توڑے گا تو اس کی عہد شکنی کا اثر کسی اور پر نہیں بلکہ خود اس کے اپنے نفس پر ہی پڑے گا۔ اور جوپورا کرے گاجو اس نے عہد کیا ہے تو عنقریب اس کو بہت بڑا اجر ملے گا”۔ (سورۂ فتح آیت10)

ہمیں تو یہ علم نہیں کہ حضرت عثمان کی شہادت پر حضرت علی نے وہ کردار ادا کیا تھا جو شیعہ ذاکر اپنی زبان سے بہت فخر کیساتھ بیان کررہاہے تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ایک غیر جانبدار نومسلم جسکے جگر میں سنی شیعہ ماحول نہ ہو تووہ یہ سوچنے پر مجبور ہوگا کہ علی نے اس بیعت کو توڑ ا جس کا ذکر قرآن میں ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ علی نے مدینہ چھوڑ کر کوفہ کو دارالخلافہ بنایا اور وہاں اپنے پروردہ لوگوں کے ہاتھوں شہادت پائی اور حسن نے بھی مجبوری میں خلافت سے دستبرداری اختیار کرلی اور امام حسین کو بھی کوفیوں نے بلاکر شہید کردیا۔ مدینہ واپس جانے کی بات بھی تسلیم نہیں کی تھی۔ ہیکل نے حضرت محمدۖ اور حضرت عمرکے نام کو سو (100)شخصیات میں شامل کیا تھا۔

ام المؤمنین حضرت عائشہنے شام کا سفرکیا۔ اس بیعت کی عہد شکنی محسوس کی جسکا ذکر قرآن میں عثمان کی شہادت کا بدلہ لینے کیلئے ہے۔ اُم المؤمنین حضرت عائشہ نے قرآن وسنت کی پیروی میں کوئی غلطی نہیں کی۔ جس نے غلطی کی تھی تو اس نے خود بھگت بھی لیا ہے۔ یہ ایک غیرجانبدار فرد کا تجزیہ ہوگا۔

اللہ تعالیٰ نے سورۂ فتح میں فرمایا : (انا فتحنا لک فتحًا مبینًا Oلیغفرلک اللہ ماتقدم من ذنبک و ماتأخر ویتم نعمتہ علیک ویھدیک صراط مستقیمًا O)” بیشک ہم نے کھلی فتح دیدی۔ تاکہ آپ کے اگلے پچھلے ذنب معاف کردے۔ اور آپ پر اپنی نعمت کی تکمیل کردے اور صراط مستقیم پر لگادے”۔

پچھلے ذنب اور اگلے ذنب سے کیا مراد ہے؟۔ اللہ تعالیٰ نے نبیۖ کو حکم دیا تھا کہ وشاورھم فی الامر”اورکسی خاص بات میں مشورہ کرلیا کریں”۔ کیونکہ صحابہ کرام کی یہ خاصیت بیان فرمائی ہے کہ وامرھم شوریٰ بینھم ”اور ان کا امر باہمی مشاورت سے ہوتا ہے”۔ کیا رسول اللہۖ نے حضرت علی کیلئے من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ فرمایا تو یہ ذنب تھا اسلئے کہ مشاورت کے حکم پر عمل نہیں ہوا ؟۔ حدیث قرطاس میں حضرت عمر نے اسلئے کہا کہ ”ہمارے لئے کتاب اللہ کافی ہے”۔ نبیۖ اولی الامر تھے اور اولی الامر کی حیثیت سے جہاں اپنے جانشین کو مقرر کرنے کا حق تھا تو وہاں اختلاف کی گنجائش بھی اللہ نے رکھی تھی اور اولیٰ یہی تھا کہ مشاورت سے ہی آپۖ کام لیتے تو امت کو مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔

نبیۖ نے فرمایا کہ ” اگر خیر میرے ہاتھ میں ہوتی تو سب سمیٹ لیتا”۔ اپنے اوپر بات رکھ کر صحابہ امت کو یہ درس دیا کہ خواہشات کی پیروی نہ کرو۔ ان کی ترجیح سے ٹکراؤ پیدا ہوگا۔ ابوبکر اپنے بعد بیٹے کو مقرر کرتے تو ٹکراؤ پیدا ہوتا اور عمرنے اپنے بیٹے کو نااہل نہ قرار دیا ہوتا تو آپ کے بیٹے پر مشاورت سے اتفاق ہوسکتا تھا۔

( فاعلم انہ لاالہ الا اللہ واستغفر لذنبک وللمؤمنین والمؤمنات واللہ یعلم متقلّبکم ومثوٰاکم O)” پس جان لو !کہ بیشک کوئی الہ نہیں ہے مگر اللہ۔اور اپنے ذنب کیلئے مغفرت طلب کریں اور مؤمنین اور مؤمنات کیلئے بھی۔ اور اللہ جانتا ہے تمہارے پلٹنے اور تمہارے ٹھکانے کو”۔ (سورۂ محمدآیت19)

اللہ تعالیٰ کو پتہ تھا کہ نبی کریم ۖ کو مخاطب کرکے ذنب کیلئے استغفار کی بات ہو اور مؤمنین اور مؤمنات کی مغفرت کا مسئلہ ہو تو اہل تشیع منطقی نتائج نہیں نکالیں گے اور اگر نبیۖ کے کسی صحابی یا خلیفہ راشد پر گرفت کرنی ہو تو زمین وآسمان کی قلابیں ملائیں گے۔ اگر اس آیت میں حضرت علی مخاطب ہوتے تو بھی اہل تشیع اس کو علی کی عصمت کے خلاف قرار دیکر مسترد کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے نبیۖ کو مخاطب کیا۔ مؤمنین نے جس طرح سے حضرت عثمان کی شہادت کا بدلہ لینے سے پلٹ جانا تھا اور کوفہ ٹھکانا تھا اس کا اللہ کو بالکل علم تھا اور اس کو وضاحت کیساتھ بیان بھی کردیا ہے۔

رضی اللہ عنہ کا مطلب دعا دینا نہیں بلکہ یہ سند دینا ہے کہ اللہ ان سے راضی ہوا۔ یہ اس شیعہ کو جواب ہے جس کا درس یوٹیوب پر نظر آتا ہے۔ علیک السلام، علینا السلام اور علیہ السلام تو قبرستان کے مردوں سے لیکر مسلمانوں تک سب میں عام ہے۔ باغ فدک میں امہات المؤمنین کا حق تھا۔ حضرت فاطمہ کی پرورش کا ذمہ حضرت علی نے اٹھانا تھا۔ ازواج مطہرات نے نبیۖ کی میراث پر گزر بسر کرنا تھا۔ حضرت علی کی شخصیت زبردست تھی اسلئے فدک کا مسئلہ چھوڑ دیا ۔ شیعہ عالم نے کہا کہ امام حسن نے امیرمعاویہ سے معاہدہ میں یہ طے کرنے سے انکار کیا کہ معاویہ کی وفات کے بعد حسن خلیفہ ہوگا بلکہ یہ لکھوادیا کہ” جسے مسلمان منتخب کریں”۔حضرت آدم جنت میں ممنوعہ شجر کے پاس گئے لیکن نبوت پر اثر نہیں پڑا۔ حضرت موسیٰ نے بھائی ہارون کو سراور داڑھی کے بالوں سے پکڑلیا تو کیا اس پر جملے کسنے کی کہانیاں گھڑی جائیں؟۔ اگرنبیۖ جانشین نامزد کرتے تو یزید سے لیکر سعودی ولی عہد تک سب کا جواز ہوتا۔ سورۂ نجم میں کبائرگناہ اور فواحش میں اجتناب سے الاالمم کا استثنیٰ ہے جس کی تفسیر ماحول میں مختلف ہے اور اللہ نے فرمایا کہ” اپنی پاکی بیان نہ کرو، اللہ جانتا ہے کہ کون متقی ہے”۔ سورۂ النجم۔ اہل تشیع کے علماء اپنے جاہل ذاکرین کو لگام دے دیں۔

علی کی ہمشیرہ اُم ہانی اولین مسلمانوں میں تھیں مشرک شوہر سے محبت کی وجہ سے ہجرت نہیں کی۔ فتح مکہ کے بعد علی نے قتل کرنا چاہا تو ام ہانی نے نبیۖ سے اپنے شوہر کیلئے پناہ لی۔ شوہر چھوڑ کر گیا تو نبیۖ نے نکاح کا پیغام دیا مگر انہوںنے قبول نہ کیا۔ اللہ نے فرمایا: آپۖ کیلئے چچا کی وہ بیٹیاں حلال ہیں جو آپ کیساتھ ہجرت کرچکی ہیں۔اگر یہ ابوبکرو عمر کی بہن ہوتی تو شیعہ آیات سے توہین آمیز گفتگو کرتے کہ طیبون طیبات ،خبیثون خبیثات اور زانی و مشرک کاایکدوسرے سے نکاح ہے اور مؤمنوں پر اس کو حرام کردیاہے۔شیعہ سنی گمراہی میں نہ بھٹکیں۔ ہدایت کی طرف آجائیں!۔

NAWISHTA E DIWAR Feburary Newspaper 2021

انجینئر محمد علی مرزا کی قرآن کے بارے میں جہالت اور کم عقلی کا انوکھا مظاہرہ!

فرمایا : وینزل الغیث ویعلم ما فی الارحام ”اور وہ بارش نازل کرتا ہے اور جانتا ہے جو ارحام میں ہے” مگر مرزا نے کہا کہ” اللہ جانتا ہے کہ بارش کب ہوگی اور ماں کے پیٹ میں کیا ہے جبکہ سب فرقوں کا ترجمہ غلط ہے”!

مرزا نے تفسیر کی کہ ”قرآن میں ہے کہ بارش کب ہوگی” اور دنیا کو آج بھی پتہ نہیں کہ بارش کب ہوگی۔ الٹراساؤنڈ نے فرقوں کو غلط ثابت کیا ہے، اللہ جانتا ہے کہ کون کافر ہے یا مسلمان”

مرزا جاہل کتابی کو یہ بھی معلوم نہیں کہ قرآن کے الفاظ کیا ہیں؟۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ ” قرآن کی تفسیر زمانہ کرے گا” آج کے زمانے نے قرآن کے الفاظ کی تفسیر کی ہے!

انجینئر محمد علی مرزا نے قرآن کے حوالے سے عوام کی اصلاح نہیں کی بلکہ مزید جہالت کے اندھیروں میں دھکیلا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مرزا میں کتنا خلوص ہے؟۔ یا وہ جاہل اور کم عقل کے علاوہ انتہائی ہٹ دھرم بھی ہے؟۔

انجینئرمحمد علی مرزا نے اپنی ویڈیو میں کہا ہے کہ :

”قرآن کے الفاظ کی ذمہ داری اللہ نے لی ہے ،تمام فرقوں کے علماء کی غلطیوں کا اللہ ذمہ دار نہیں ہے۔ جب سائنس نے ترقی نہیں کی تھی تو علماء نے کاقرآن ترجمہ یہ کیا کہ ”اللہ جانتا ہے کہ ماں کے پیٹ میں بچہ ہے یابچی ”۔ اب سائنس نے ترقی کرلی ہے اور الٹرا ساونڈ میں بچے اور بچی کا پتہ چلتا ہے۔ اب لوگ سمجھ رہے ہیں کہ قرآن غلط ثابت ہوگیا ہے۔ نہیں جی علماء کا ترجمہ غلط ثابت ہوا ہے۔ قرآن میں یہ تو نہیں ہے کہ بچے اور بچی کا عوام کو پتہ نہیں چلتا ہے ، یہ تو علماء نے ترجمہ غلط کیا ہے۔ قرآن کے الفاظ میں ہے کہ ماں کے پیٹ میں جو ہے اس کا پتہ لوگوں کو نہیں ہے ،یہ غیب کا علم ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ ”تم میں مؤمن بھی ہیں اور کافر بھی ہیں” ۔ اب کوئی بتائے کہ ماں کے پیٹ میں کافر ہے یا مسلمان؟۔ قرآن غلط ثابت نہیں ہوتا ہے۔ جب سائنس نے ترقی نہیں کی تھی توعلماء نے قرآن کا ترجمہ غلط کیا تھا۔

اللہ نے فرمایا ہے کہ ”کوئی نہیں جانتا ہے کہ بارش کب ہوگی” ۔ آج بھی لوگوں کو پتہ نہیں ہے کہ بارش کب ہوگی۔ ایک سال بعد آج کی تاریخ کا پتہ چلتا ہے کہ بارش ہوگی ؟۔ جب مون سون کا علم ہو اور ہواکے رخ سے بادل کا پتہ چلے کہ بارش آرہی ہے تو یہ غیب کا علم نہیں ہے۔ غیب کا علم وہ ہے جو سائنس کے بغیر حاصل ہو۔ اللہ نے غیب کی نفی کی ہے اور یہ غیب نہیں ہے”۔

محترم انجینئرمحمد علی مرزا صاحب !

پہلی بات یہ ہے کہ ہمیں تمہارے خلوص اور علمی محنت پر کوئی شک نہیں ۔ آپ کی ویڈیو دیکھ کر دل میں یہ خواہش اُبھرتی ہے کہ پروفیسر احمد رفیق اختر کی طرح آپ کے درس کابھی حکومت کے اداروں میں سرکاری اہتما م ہونا چاہیے۔ کراچی میں رینجرز سے پروفیسر صاحب نے خطاب کیا تھا۔ قاسم علی شاہ اور پروفیسر احمد رفیق اختر سے زیادہ آپ کی تقریروں سے فرقہ واریت کا ناسور ختم کرنے کی اب ریاستِ پاکستان اور مسلمانوں کو سخت ضرورت ہے۔

فرقہ واریت سے بالاتر نہ سہی لیکن اہلسنت کی کتابوں سے فرقہ پرستی کی جہالتوں کو ختم کرنا مرزا صاحب کے خلوص کا آئینہ ہے۔ اسی طرح اہل تشیع کی کتابوں سے شیعہ میں فرقہ واریت کے جراثیم کم کرنا بھی اچھا ہے۔ انسان بہت کمزور ہے اور یہ کمزوری ہم میں بھی ہے اور مرزا صاحب کی شخصیت میں بھی۔ اہل علم پھلدار درخت کی طرح تواضع سے جھکے ہوتے ہیں۔

قرآن کے الفاظ میں ”بارش کب ہوگی”نہیں بلکہ فرمایا :ان اللہ عندہ علم الساعة وینزل الغیث ویعلم مافی الارحام وماتدری نفس ما ذا تکسب غدا و بای ارض تموت ”بیشک اللہ کے پاس وقت کا علم ہے اوروہ بارش برساتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ رحموں میں کیا ہے اور کسی کو پتہ نہیں کہ وہ کل کیا حاصل کرلے گا اور کس زمین پر مرے گا”۔

مجھے نہیں پتہ کہ کس فرقے کے کس عالم نے قرآن کے ان واضح الفاظ کا غلط ترجمہ کیا ہے لیکن مرزا صاحب نے اپنی ویڈیو میں بالکل غلط ترجمہ کیا۔

قرآن میں جن پانچ چیزوں کا ذکر ہے ۔ آخری دو چیزوں کی نفی ہے کہ ”کوئی نفس نہیں جانتاکہ وہ کل کیا حاصل کرلے گا اور کس زمین پر مرے گا”۔ یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے سے گہری مناسبت رکھتی ہیں۔ دنیا جس رفتار سے ترقی کررہی ہے تو اس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ آنے والے دورکی ترقی وعروج یا زوال وتنزل کا علم واقعی کسی بھی نفس کیلئے مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ اور اسی کیساتھ” کس زمین میں مرے گا” کا معاملہ بھی واضح ہے کیونکہ جس قدر جہاز، گاڑیوں اور ذرائع آمدو رفت کا نظام بڑھ گیا ہے اور ترقی کی نت نئی ایجادات ہورہی ہیں وہ قرآن کی ان دونوں باتوں کی مزید تفسیر کررہی ہیں۔

جہاں تک پہلی تین چیزیں ہیں تو اللہ نے کسی اور کی نفی نہیں کی ہے بلکہ فرمایا کہ” اللہ کے پاس وقت کا علم ہے، وہ بارش برساتا ہے اور وہ جانتا ہے جو رحموں میں ہے ”۔ ان تین چیزوں میں کسی اور کی نفی نہیں ہے۔ رسول اللہۖ نے فرمایا کہ ” پانچ چیزیں غیب کی چابیاں ہیں اور ان کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے”۔ نبیۖ نے ٹھیک فرمایا اسلئے کہ اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ ”جس دن ملائکہ اور روح چڑھتے ہیں تو اس کی مقدارپچاس (50) ہزار سال ہے”۔ سورۂ معارج کی اس آیت کا مشاہدہ نبیۖ نے معراج کی رات کو کیا تھا۔ البرٹ آئن سٹائن نے نظریۂ اضافیت دریافت کیا اور ریاضی کے حساب سے تصدیق کردی کہ جب چڑھنے کی رفتار تیز ہو تو زمین کے ایک لمحہ کے مقابلے میں تیزرفتاری سے چڑھنے کی مدت اسی (80)سال ہوتی ہے۔ موٹا دماغ رکھنے والے کیلئے یہ بھی ہے کہ دن رات اور ماہ وسال سے زمین کا اپنے محور کے گرد گھومنا اور سورج کے گرد گھومنا ثابت کرتا ہے کہ واقعی وقت غیب کی چابی ہے ۔ رسول اللہۖ نے سچ فرمایا کہ یہ غیب کی چابی ہے اور وقت نے ثابت بھی کردیا ہے۔ دوسری چیز بارش کا نازل ہونا۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ”دجال جہاں چاہے گا بارش برسائے گا”۔ اللہ تعالیٰ نے صرف یہ فرمایا ہے کہ ”وہ بارش برساتا ہے” ۔ کسی اورکی نفی نہیں کی ہے۔ نبیۖ نے اس کو بھی غیب کی چابی قرار دیا ہے۔ قرآن نے بادل اور ہر چیزکے مسخر ہونے کا ذکر کیاہے اور بارش سے آسمانی بجلی کا بھی مشاہدہ ہوتا ہے انسان نے بارش سے فائدہ اُٹھاکر مصنوعی بجلی پیدا کرلی ہے اور وقت نے بارش برسنے کو غیب ہی کی چابی ثابت کردیا ہے۔ آج دنیا میں بجلی سے جو دنیا آباد ہے یہ قرآن وحدیث کی زبردست تفسیر ہے۔ تیسری بات اللہ نے یہ فرمائی ہے کہ ” وہ جانتا ہے کہ رحموں میں کیا ہے” اس میں بھی کسی اور کی نفی نہیں ہے۔ آج فارمی جانور، پھل اور کھیت سے لیکر ایٹم کے ذرات تک ایٹمی ٹیکنالوجی اور الیکٹرانک کی دنیا یہ ثابت کررہی ہے کہ ارحام کا تصور وسیع ہے جو غیب کی چابی ہے اور جس طرح انسان اورجانور میں رحم ہے اسی طرح نباتات اور جمادات میں بھی ہے۔ ماں کے پیٹ، انڈے، پھل، گندم، ایٹمی ذرات پر رحم کا اطلاق ہوتا ہے ۔ اور اللہ نے ان نرومادہ کا فرمایا تھا کہ ”اور وہ جو تم نہیں جانتے ”۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی