پوسٹ تلاش کریں

نماز ِخوف (کرونا) قرآن کریم میں

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
:حٰفظوا علی الصلوٰت والصلوة الوسطیٰ وقوموا للہ قٰنتینO فان خفتم فرجالًا او رکبانًا فاذا امنتم فاذکروا اللہ کما علّمکم ما لم تکونوا تعملون
اپنی نمازوں کی حفاظت کرو اور بیچ کی نماز کی اور اللہ کیلئے فرمانبردار بن کر کھڑے رہو۔ پس اگر تمہیں خوف ہو تو پیدل اور سواری پر نماز پڑھو۔ پھر جب امن میں آجاؤ تو نماز پڑھو ، جس طرح تمہیں سکھایا گیا، جو تم نہ جانتے تھے البقرہ :239
آج پوری دنیا پر خوف طاری ہے کہ متعدی مرض ” کرونا وائرس” پھیل سکتا ہے۔ مساجد کے علاوہ سفر اور گھروں میں جب یہ خدشہ ہو کہ رکوع و سجود سے کرونا کے وائرس کا شکار ہوسکتے ہیں تو اللہ نے جہاں نمازوں کی نگہداشت کا خاص طور پر حکم دیا ہے وہاں خوف کی حالت میں پیدل اور سواری پر بھی نماز پڑھنے کی بہت واضح الفاظ میں اجازت دی ہے۔ دنیا سوال اٹھارہی ہے کہ قرآن میں یہ فرمایاگیا کہ انزلنا الکتاب تبیانًا لکل شئی ”اورہم نے کتاب(قرآن) کونازل کیا ہے ہر چیز کو واضح کرنے کیلئے ۔ تو کیا ایسی وبائی مرض کی خوف کی حالت میں نماز کی کوئی کیفیت بیان کی گئی ہے یا نہیں؟۔ تو اللہ نے واضح کیا ہے کہ خوف کی حالت میں نماز پڑھنے کا یہ حکم ہے۔ اگر خوف کے باوجود اس حکم پر عمل نہیں کیا تو پھر یہ اللہ کی نہیں طاغوت کی بندگی ہے۔ یہ آیات حالتِ جنگ کے حوالے سے نہیں بلکہ اس سے آگے پیچھے معاشرتی احکام ہیں۔ نبیۖ فرمایا :وبائی مرض سے ایسے بھاگو، جیسے شیر سے بھاگتے ہو۔ اللہ ہدایت دے ۔

ایک انسان کو بچانا انسانیت کو بچانا ہے

بھارت کی معروف شاعرہ لتا حیا اور ریٹائرڈ چیف جسٹس مرکنڈے ہندوستان میں کروڑوں مسلمانوں کی خاطرگائے کے خلاف انسانیت کیلئے آواز بلند کررہے ہیں ، یہ جذبہ اور قربانی اس قابل ہے کہ پاکستان یہ اعلان کردے کہ ان دونوں کی حق گوئی کے جواب میں آئندہ یہاں کوئی گائے ذبح نہیں ہوگی۔ ایک مباح کام کی وجہ سے ہم ڈیڑھ ارب انسانوں کے دل جیت سکتے ہیں ۔ ایک انسان کو بچانا انسانیت کو بچانا ہے۔

انڈیا کے چیف جسٹس نے بھارتی عوام کے بخئے ادھیڑ دئیے۔ 

میں گائے کو ماتا نہیں مانتا ہوں۔ گائے کو گھوڑے اور کتے سے زیادہ نہیں مانتا،دنیا کھاتی ہے ابھی میں کیرالہ ہوکر آیا ہوں تو میں نے وہاں بیف کھایا۔
چلا رہے ہیں رام مندر ۔ میں آپ کو بتاؤں اصل رامائن جو سنسکرت میں ہے اس میں رام خدا نہیں بلکہ انسان ہے ۔دو ہزار سال کے بعد وہ خدا بن گیا
اندرا گاندھی نے کہا غریبی ہٹاؤ ، آپ پیچھے پیچھے، جیسے چوہے بانسری بجانیوالے کے پیچھے پیچھے۔صحافی کو چمچہ گیری کرنی پڑتی ہے ورنہ نوکری جائیگی۔
انڈیا کے سابق چیف جسٹس مرکنڈے نے کہا کہ سرکار کا دماغ خراب ہوگیا ہے ۔ کس طرح سے یہ چار سال سے Behaveکررہے ہیں حد کردی ہے دنیا میں ہماری ہندوستان کی ناک کٹادی۔ میں امریکہ میں ابھی چھ مہینے رہ کر آیا ہوں ، جون سے دسمبر تک تھا لوگ ہنستے ہیں ہندوستان پر کہ یہ کس طرح کے پاگل لوگ ہیں کہ کسی کو پکڑ کر مار ڈالا ،یہ کہ گائے کاٹ رہا تھا۔ کسی کو کچھ کررہے ہیں پاگل پن کئے جارہے ہیں کئے جارہے ہیں چار سال سے پاگل پن ہوا ہے اس ملک میں۔
ایک صحافی نے سوال کیا کہ گائے کو سب سے بڑا ہوا بنا کر پیش کیا گیا ہے اس وقت۔ جسکے جواب میں ہندوستان کے چیف جسٹس مرکنڈے نے کہا کہ میں نے تو صاف صاف کہہ دیا ہے میں سائنٹیفک آدمی ہوں میں گائے کو ماتا نہیں مانتا ہوں۔ گائے کو گھوڑے اور کتے سے زیادہ نہیں مانتا ہوں، جیسے گھوڑا یا کتا ہے، ویسے گائے ایک جانور ہے۔ اور دنیا کھاتی ہے گائے کا گوشت ، امریکہ کھاتا ہے یورپ کھاتا ہے ، افریقہ ، چائنا، آسٹریلیا ، یہاں تک کہ افغانستان ، پاکستان ، تھائی لینڈ میں بھی، ہندوستان میں بھی، ابھی میں کیرالہ ہوکر آیا ہوں تو میں نے وہاں بیف کھایا۔ کوئی بری چیز نہیں ہے دنیا کھاتی ہے۔ وہ سب برے لوگ ہیں آپ ہی سادھو سنت ہیں؟۔ حد کردی پاگل پن کی۔ آپ میں مگر پگلیٹی بھری ہوئی ہے ماتا ماتا پاگلوں کی طرح چلا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گائے ماتا ہے کیونکہ وہ دودھ دیتی ہے پینے کو۔ تو بھئی بکری بھی دیتی ہے دودھ پینے کو، بھینس بھی دیتی ہے، اونٹ کا بھی پیتے ہیں لوگ دودھ، تبت میں یاک کا پیتے ہیں، وہ سب دیوی دیوتا ہیں؟۔ پاگل پن کی باتیں ہیں۔ بے وقوفی کی باتیں ہیں۔ اب تم گدھے ہو تو بنے رہو گدھا۔ گدھے کا علاج نہیں ہے میرے پاس۔ گائے کو ماتا ماننا او رپوجا کرنا انتہائی بے وقوفی کی بات ہے۔ آپ گائے کو ماتا مانتے ہیں ذرا سوچئے کوئی جانور انسان کی ماتا ہوسکتی ہے؟ دماغ ہے آپکے پاس یا گوبر بھرا ہوا ہے۔ گائے جانور ہے جیسے گھوڑا اور کتا ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ میں نہیں مانتا ہوں۔
صحافی نے کہا کہ اسی طرح کی اظہار رائے کھل کر کرنے کے بعد نصیر الدین شاہ کو پاکستان بھیجنے کی بات کی گئی ہے۔ جسکے جواب میں چیف جسٹس نے کہا کہ اس کو تو بھیج دیا مجھے بھیج کر دکھاؤ اگر ہمت ہو تو، بے وقوفی کی باتیں۔ عقل استعمال کرو یا عقل بالکل کھو گئی تمہاری۔ گائے ماتا ہے گائے دیوی ہے، پاگل پن کی باتیں۔ دنیا کے سامنے اپنا مذاق اڑوارہے ہو لوگ سوچتے ہیں کہ گدھے ہیں ہندوستان میں اور کچھ نہیں۔
صحافی نے کہا کہ ایک پولیس افسر سے زیادہ اہمیت گائے کی نظر آتی ہے ، بلند شہر کا معاملہ جس طرح سے سامنے آیا۔ چیف جسٹس مرکنڈے نے کہا کہ جیسے میں نے کہا اکبر الہ آبادی کا شعر ہے
خبر دیتی ہے تحریک ہواتبدیل موسم
تو اب بد ل رہا ہے زمانہ،
بڑا اچھا جھٹکا پانا ان لوگوں کیلئے بہت ضروری تھا۔ جس پر صحافی نے کہا کہ ہم پورا شعر سننا چاہیں گے آپ سے۔ چیف جسٹس مرکنڈے نے پورا شعر سنایا۔
خبر دیتی ہے تحریک ہواتبدیل موسم
کھلیں گے اور ہی گل زمزمے بلبل کے اور ہوں گے
زیادہ تھے جو اپنے زعم میں وہ سب سے کم ہوں گے
زمزمے کا مطلب ہے گیت اور زعم کا مطلب گھمنڈ، تو چار سال سے یہ لوگ زعم میں تھے ان کا دماغ خراب ہوگیا تھا۔ پاگل پن کئے جارہے ہیں کئے جارہے ہیں کئے جارہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ رام مندر بننے سے کیا بیروز گاری ختم ہوجائے گی ؟ child malnutrition ختم ہوجائے گا؟، farmers distressختم ہوجائے گا؟ یہ سب الیکشن کیلئے ہے چونکہ چناؤ آرہا ہے۔ اسی لئے چلا رہے ہیں رام مندر رام مندر۔ میں آپ کو بتاؤں اصل رامائن جو سنسکرت میں ہے اس میں رام خدا نہیں ہے بلکہ انسان ہے۔۔۔ دو ہزار سال کے بعد وہ خدا بن گیا۔۔۔آپ کسی سنسکرت کے اسکالر سے پوچھ لیں۔ تو جب وہ انسان ہے تو اس کا عبادتخانہ کیوں بنارہے ہو؟۔
عبادتخانہ تو دیوی دیوتا کا بنایا جاتا ہے انسانوں کا تھوڑی بنایا جاتا ہے۔ لوگوں نے اصل رامائن پڑھا نہیں کیونکہ آپ لوگ پڑھے لکھے لوگ تو ہیں نہیں۔ ادھر اُدھر ہوا میں تیر ماردیا کہیں۔ جو بھگوان ہے ہی نہیں تو اس کا مندر کیا بنارہے ہو؟ ۔۔۔
آپ لوگ پروفیسر ہیں اس یونیورسٹی کے میں آپ کا ایک ٹیسٹ لے لیتا ہوں بہت بڑے پروفیسر بن کے آئے ہیں نا آپ ۔ ابھی ٹیسٹ لے لیتا ہوں۔ آپ کی بیٹی اگر کسی دلت (اچھوت) سے شادی کرنا چاہے گی آپ راضی ہوں گے؟۔ کبھی نہیں ہونگے۔ قتل کردیں گے اس کا۔ دلت (اچھوت) لڑکا اگر غیر اچھوت لڑکی سے شادی کرنا چاہے تو وہ اپنی موت کو دعوت دے رہا ہے۔ قتل ہوجائے گا آپ کی پروفیسری سب رہ جائے گی جب آپ کی لڑکی کہے گی کہ اچھوٹ لڑکے سے شادی کرنی ہے۔ آپ یہ نہ سمجھئے کہ بڑے پی ایچ ڈی لئے ہوئے ہیں کوٹ اور ٹائی پہنی ہے تو بڑے تعلیم یافتہ ہیں۔ میں آپ کو تعلیم یافتہ نہیں مانتا ہوں کیونکہ آپ میں بھی کوڑا بھرا ہوا ہے نسل پرستی بھری ہوئی ہے۔ سر میں گوبر بھرا ہے آپ کے بھی معاف کرئے گا۔ یہ آپ کا ٹیسٹ ہے کہ اگر آپ میں نسل پرستی بھری ہے کہ نہیں؟۔ ننانوے فیصد پروفیسرز کے سر میں یہ نسل پرستی بھری ہے۔ لڑکی گھر چھوڑ کر بھاگ جائے تو یہ الگ بات ہے مگر آپ اجازت کبھی نہیں دیں گے۔ کیونکہ آپ دلت (اچھوت) کو نیچ مانتے ہیں۔
آج بھی 71سال ہوگئے ہیں آزادی کے مگر ابھی تک دلت کو نیچ کا خطاب دیا جاتا ہے۔ تم بڑے پسماندہ ملک میں ہو۔ ۔۔۔ آپ کے میڈیا کے جو مالک ہیں یہ بزنس مین ہیں اور بزنس مین گورنمنٹ کو ناراض نہیں کرنا چاہتا ہے، کیونکہ ناراض کیا تو گورنمنٹ بیس طریقے سے ناراض کرسکتی ہے۔ انکم ٹیکس نوٹس اور پلیوشن نوٹس ، یہ نوٹس وہ نوٹس تو مالک نہیں چاہیں گے گورنمنٹ کو پریشان کرنا۔ تو چمچہ گیری کریں گے گورنمنٹ کی۔ تو لہٰذا آپ کو بھی چمچہ بننا پڑے گا۔ چمچہ نہیں بنو گے تو آپ کی نوکری گئی۔ بہت بڑے آپ سینہ تان کے آئے ہیں جرنلسٹ اور زیادہ آپ نے بک بک کیا تو مالک آپ کو نوکری سے نکال دے گا۔ آپ کے بھی بیوی بچے ہیں نا ان کو کھلانا ہے آپ کو۔ کیا کھلاؤ گے اگر نوکری چلی گئی؟۔
معاف کیجئے گا میں میڈیا کے صرف چند افراد کی عزت کرتا ہوں دو چار ہیں ۔ ان کے علاوہ میں میڈیا کی عزت نہیں کرتا کیونکہ سب بکے ہوئے ہیں۔ ٹی وی تو میں نے دیکھنا چھوڑ دیا ہے۔ کیا بکواس چل رہی ہے۔ ایک وہ لارڈ تھے بھاؤ بھاؤ ان کا نام رکھا ہے میں نے آپ سمجھ سکتے ہیں وہ کون ہیں۔ تو یہ میڈیا والے کیسے چمچہ گیری کرتے ہیں اب بی جے پی پاور میں آئی تو بی جے پی کی چمچہ گری ہورہی ہے اگر وہ الیکشن ہار گئی تو یہی جرنلسٹ جو پاور میں آئے گا اس کی چمچہ گیری شروع کردیں گے۔ تو بھیا بہت بہت شکریہ نمستے ! ایک دو کو چھوڑ کر میرے دل میں کسی کی عزت نہیں ہے۔تم سب بکے ہوئے ہو۔ میں میڈیا کے بارے میں بات ہی نہیں کرنا چاہتا ہوں۔ بہت دکھ ہوتا ہے جو میڈیا کو کرنا چاہیے ۔ ۔۔۔
آپ کسی ٹھگ کو چن لیں سب ٹھگ بیٹھے ہیں جو آپ کو بہت پیار اٹھگ لے اس کو ووٹ دے دو۔ میں تو نہیں دوں گا ووٹ کیونکہ مجھے سب ٹھگ لگتے ہیں۔ معذت میں اس بکواس کام کا حصہ نہیں بنتا چاہتا ۔ آپ بنئے ہم کیا آپ کو رائے دیں۔
آپ کو ٹھگ پیارے ہیں ۔ جیسے وہ اندرا گاندھی نے کہا غریبی ہٹاؤ اور آپ پیچھے پیچھے، جیسے چوہے بانسری بجانے والے کے پیچھے پیچھے، اندرا گاندھی کو دھڑادھڑ ووٹ مل گئے اور وہ جیت گئی۔ پھر مودی آئے انہوں نے کہا بگاڑ بگاڑ وکاس وکاس ، لو بھی تمہاری نوکریاں تو چلی گئی ہیں جو تھیں وہ بھی چلی گئی ہیں یہ وکاس ہوگیا ہے۔
انا ہزارے آئے ایمانداری ایماندداری کرکے چیف منسٹر ہوگئے لو بھیا ایمانداری۔ اب ہم کیا تم کو سمجھائیں ؟ تم کو عقل نہیں ہے یا گوبر بھرا ہے ۔ اس کا میرے پاس علاج نہیں ہے۔ مجھے پارلیمنٹری ڈیموکریسی پر بھروسہ ہی نہیں ہے تو نوٹا یا پوٹا ا س کے کوئی معنی نہیں۔

حاجی عبد الوہاب ؒ دو دفعہ مرکرزندہ ہوئے تیسری مرتبہ نہیں بچے گا:ڈاکٹر مفتی مولانا منظور مینگل

جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کے سابق معروف استاذ ڈاکٹر مولانا مفتی منظور مینگل علماء دیوبند کے مناظر اسلام ہیں۔ تبلیغی جماعت پاکستان کے امیر حاجی عبدالوہاب ؒ وفات پاگئے تو ان کا درد بھرا تعزیتی خطاب منظر عام پر آیا مگر اسکے ساتھ ایک سابقہ بیان بھی سوشل میڈیا پر توجہ کا مرکز ہے۔ مولانا منظور مینگل نے کہا کہ ’’ تبلیغی بھائی کہتے ہیں کہ حاجی عبدالوہاب صاحب دو مرتبہ فوت ہوگئے لیکن اللہ نے واپس اسے دنیا میں بھیجا۔ مولانا منظور مینگل نے ہنستے ہوئے کہا کہ اب وہ نہیں بچ سکے گا۔ ایک مجلس میں حاجی عبدالوہاب صاحب کی موجودگی میں ایک تبلیغی نے کہااور اس وقت میں خودبھی اس مجلس میں موجود تھا کہ حاجی عبدالوہاب فوت ہوگئے، فرشتوں نے پوچھا کہ من ربک ، ما دینک، من نبیک ( تیرارب کون ہے؟۔تیرا دین کیا ہے؟ ، تیرا نبی کون ہے؟) حاجی عبدالوہاب نے کہا کہ یہ کونسی جگہ ہے اور مجھے یہ کہاں لیکر آئے ہو؟۔ فرشتوں نے کہا کہ یہ جنت البقیع ہے۔ حاجی عبدالوہاب نے کہا کہ مولاناالیاس کاندہلوی، حضرت جی مولانا یوسف، حضرت جی مولانا انعام الحسن صاحب کہاں ہیں؟۔ فرشتوں نے کہا کہ وہ بستی نظام الدین میں ہیں۔ حاجی عبدالوہاب نے کہا کہ مجھے وہاں لے جاؤ یا ان حضرات کو میرے پاس لاؤ۔ فرشتے لاجواب ہوگئے اور اللہ نے کہا کہ حاجی عبدالوہاب کو واپس بھیج دو۔اسطرح دو مرتبہ اللہ نے مرنے کے بعد حاجی عبدالوہاب کو واپس دنیا میں بھیجا۔ وہ یہ بات کررہا تھا کہ بخاری شریف میں ایک صحابیؓ کے بارے میں بھی ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوگیا تھا۔ جب وہ کمرے سے باہر آیا تو میں نے کہاکہ وہ صحابی فوت نہیں ہوا تھا بلکہ بیہوش ہوا تھا۔ جسکا نام جبلؓ تھا اور جب وہ بیہوش ہوا تو اس کی بہنیں اور گھر کے افراد نے رونا مچایا کہ واہ جبلا، واہ جبلا، واہ ملجا، واہ مأویٰ ۔ جب ہوش میں آیا تو کہا کہ فرشتے مجھ پر ہنس رہے تھے کہ چار پانچ فٹ کا بھی کوئی پہاڑ ہوتا ہے میرا نام جبل کیوں رکھا؟، مجھے فرشتوں کے سامنے شرمندگی ہوئی۔ بخاری کا واقعہ موت کے بعد زندہ ہونے کا نہیں ۔ قرآن میں ہے کہ موت کے بعد کوئی زندہ نہیں ہوسکتا ‘‘۔ مولانا منظورمینگل کی پوری ویڈیو ضرور دیکھ لیجئے گا۔
ایک نیندہے جس میں انسان پر ایک چھوٹی سی موت طاری ہوجاتی ہے، سونے سے پہلے اور نیند سے اٹھ جانے کے بعد مسنون دعا میں اس کو موت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جس طرح نیند کی حالت میں آدمی خواب دیکھتا ہے تو اسی طرح بیہوشی کی حالت میں مشاہدہ بھی دیکھ لیتا ہے۔
یہ ممکن ہے کہ صحابیؓ نے مشاہدہ دیکھا ہو، حضرت حاجی عبدالوہاب ؒ نے بھی مشاہدہ دیکھا ہو۔خواب اور مشاہدہ اسلئے اللہ تعالیٰ دکھاتا ہے کہ اس سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ کیا کرنا چاہیے۔ نبیﷺ نے قیس کا نام عبدالرشیدؓ رکھا اور کافی صحابہؓ کے نام بدل دئیے۔ معاذ بن جبلؓ اور حضرت ابوبکرؓ بن ابی قحافہؓ کے والد زیادہ عمر والے تھے اسلئے نام نہ بدلا ہوگا۔ حاجی عبدالوہابؒ کا مشاہدہ بھی درست ہوگا کہ حدیث میں ہے کہ المرء مع من احب (آدمی جس سے محبت کرتاہے، اسی کیساتھ ہوگا) ۔جس دن تبلیغی جماعت کے سابق امیر مولاناانعام الحسنؒ کے بیٹے کا انتقال ہوا تھا تو مولانا طارق جمیل نے مولانا الیاس ؒ کے پڑپوتے کیلئے دعا کی کہ اب ذمہ داری کا بوجھ اکیلے مولانا سعد کے کاندھے پر پڑگیا، اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرمائے۔ مولانا انعام الحسنؒ کو مشورہ دیا گیا کہ حضرت ابوبکرؓ کی طرح اپنے بعد کسی کو امیر بنالیں۔ حاجی عبدالوہاب کی رائے تھی کہ مولانا سعد کو امیر بنایا جائے، مولانا سعید خان کا مشورہ تھا کہ مولانا زبیر کو امیر بناؤ۔ اتفاق نہ ہوا تو ایک فیصل کو اختیار دیا مگر مولانا سعد نے کہا کہ مجھے امیرنہ بناؤ ، مولانا زبیر کے ساتھی کٹ جائیں گے، مولانا زبیر نے کہا کہ مجھے امیر نہ بناؤ، مولانا سعد کے حامی کٹ جائیں گے۔ فیصل نے تین افراد کو ذمہ داری کا بوجھ سونپ دیا۔ ایک پہلے فوت ہوگئے، پھر مولانا زبیرنے وفات پائی تو مولانا سعد پر ذمہ داری کا بوجھ آیا۔
حاجی عبدالوہاب نے پریشر پر شوریٰ کا تقرر کیاجس کو مولانا سعد نے مسترد کیا۔ اب دونوں گروپوں میں بحث ہے کہ اسلامی نظام امارت ہے یا پھر شورائی ہے؟۔ شوریٰ والے کہتے ہیں کہ مولانا سعد پر کسی نے محبت یا بغض میں حملہ کردیا یہ فیصلہ نہیں ہوسکا۔ مارپیٹ کے بعد پولیس کوحوالہ کیا گیا اور مولانا سعد کی سیکورٹی مقرر کی گئی۔ پہلے دعوت چلتی تھی پھر ماحول بدل گیا اسلئے اکابرؒ نے اصلاح کی کوششوں کے بعد بستی نظام الدین کو چھوڑ کر الگ مرکز قائم کیا۔ مولانا سعد والے کہتے ہیں کہ مولانا سعد نے مرکز میں کھانے کے خاص دسترخوان اور جماعت کے پیسوں سے بیرون ملک سفر پر پابندی لگائی جو کا م کا بنیادی اصول تھا اور یہ برداشت نہ ہوا اسلئے الگ ہوگئے۔ مدرسہ کڑمہ جنوبی وزیرستان سے بھگانے کیلئے رائیونڈ کے فاضل مولانا شاہ حسین پر تبلیغی کارکن نے قاتلانہ حملہ کیا تھا۔
پھر مولانا شاہ حسین نے ٹانک کے قریب جنڈولہ روڈ پر مدرسہ بنایا ، جسکا نام مدرسہ حسنین رکھ دیا۔ تبلیغی جماعت نے اسکے خلاف پروپیگنڈہ کرکے نام بدلنے پر مجبور کیا کہ یہ شیعہ نام ہے، حالانکہ مولانا طارق جمیل کے مدرسے کا نام بھی حسنین ہے۔ مولانا شاہ حسین کی تشکیل فیصل آباد کی ایک مسجد میں ہوئی تھی، پڑوسی رائیونڈ سے پتہ کرکے آیا تھا اور ساتھ میں کلہاڑی کا لوہا واسکٹ کی جیب میں چھپایا تھا، اور اسکا دستہ ہاتھ میں تھا۔ کلہاڑی سے سرپر وارکردیا اور مولانا نور محمد شہید کے بھائی مولانا نیاز محمد نے بچایا ۔اس نے پہلے ہی مینٹل( پاگل) ہونے کا سرٹیفکیٹ بھی بنایا تھا۔
حاجی عبدالوہاب صاحب کو مشاہدہ میں بتایا گیاہوگا کہ تیرا قبلہ قرآن وسنت اور حرمین شریفین نہیں بستی نظام الدین ہے اور ان اکابرینؒ کو منہ دکھانا ہے جسکے مولاناسعد کیخلاف سازشوں کے بدترین جال بچھائے گئے ہیں۔
بانیانِ تبلیغی جماعت کا مقصد کسی نئے گروہ کا اضافہ نہیں بلکہ قرآن وسنت کا احیاء تھا، تبلیغی حاجی عثمانؒ کی قدر کرتے تو تفریق وانتشار اور اس طرح سازشوں کا شکار نہ ہوتے۔ کراچی کے اکابرعلماء دیوبند عام بسوں میں سفر کرتے تھے اور پھر حاجی عثمانؒ کے مریدوں کی الائنس موٹرز کے ایجنٹ اور گاڑیوں کے مالک بن گئے تو پیری مریدی کو منافع بخش کاروبار سمجھ کر اختیار کیا۔ طلبہ غریب ہوتے ہیں، مریدوں میں بڑے مرغے ہاتھ لگتے ہیں۔ اُمت کے دیانتدار علماء و مشائخ اور تبلیغی کارکن مل بیٹھ کر قرآن وسنت کے فطری احکام کو پروان چڑھائیں تو سب کا زبردست بھلا ہوگا۔
جامعہ بنوری ٹاؤن کے پرنسپل ڈاکٹر حبیب اللہ مختارنے مسلمان نوجوان کا اردو ترجمہ کیا، تو ان کو درس قرآن اور تبلیغی کارکنوں کے تنازعہ پر کرایہ کے غنڈوں سے شہید کروایا گیا۔ مولانا یوسف لدھیانویؒ نے عصر حاضر میں جو عالمگیر فتنے کی حدیث کا ذکر کیا تھا تو وہ بھی شہید کئے گئے۔ دونوں کتابیں مسلمان نوجوان اور عصر حاضر مارکیٹ سے غائب کردی گئیں ۔ ایک اعلیٰ تحقیقاتی کمیٹی بنائی جائے۔

کوئی مسلمان ملک مسلمانوں کیلئے اتنی بڑی عظیم نعمت نہیں جتنا پاکستان ہے. مفتی تقی عثمانی

شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی کا اہم خطاب: 69سال پہلے اللہ نے بظاہر انتہائی نا مساعد حالات میں برصغیر کے مسلمانوں کو ہمالیہ کے دامن میں پھیلا وسیع و عریض سرسبز و شاداب ملک محض اپنے فضل و کرم سے ایسے موقع پر عطا فرمایا جب غیر اسلامی طاقتیں پورا زور خرچ کر رہی تھیں کہ یہ ملک وجود میں نہ آئے اللہ نے غیب سے مسلمانان بر صغیر کی مدد فرمائی اور دنیا کے نقشے پر پہلی بار ایسی ریاست قائم ہوئی جو اسلام کے نام پر وجود میں آئی۔ ابھی آپ نے دل آویز ترانہ سنا جو 1944میں یعنی پاکستان بننے سے تین سال قبل مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کرکے شاعر نے کہا تھا۔ اسکا ہر بند اس جملے پر ختم ہورہا تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ۔بچپن کی وہ فضا یاد ہے جب ہندوستان کی فضاؤں میں نعرے گونجا کرتے تھے کہ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ۔ یہ نعرے کہ لے کے رہیں گے پاکستان، بنکے رہے گا پاکستان۔اللہ نے پھر اپنے فضل سے یہ ملک عطا فرمایا۔یوں تو انسان کے فرائض میں ہے کہ اللہ و رسول کے بعد وطن سے وفادار ہو لیکن جوملک اسلام کے نام پر بنا اس کی وفاداری، محبت اور تعمیر و ترقی کی کوشش اسلام اور دین کا فریضہ بھی ہے ۔
پاکستان وجود میں آیا بلکہ وجود سے پہلے کفر کی طاقتوں نے پروپیگنڈہ مہم شروع کی۔ نعرہ لگا کہ پاکستان اگر بن جائیگا تو یہ ناکام ملک اور ناکام ریاست ہوگی ۔ بھوکا پاکستان اور ننگا پاکستان ۔ آنکھوں سے دیکھا کہ والد ماجد مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیعؒ کیساتھ ہجرت میں آرہے تھے ، سرحد پرکسٹم چوکی آنے والوں کے سامان میں جو بے سلا کپڑا دیکھتی تو اس کو ضبط کرلیتی تا کہ کپڑا پاکستان نہ جاسکے۔ بھوکا ، ننگا پاکستان کو عملی جامہ پہنایا جارہا تھامگر اللہ کے فضل سے پاکستان بنا، بے وسیلہ ملک تھا ، اسکے پاس پیسے نہ تھے ، اسکے پاس دفتروں میں بیٹھ کر کام کے آلات نہ تھے ، ببول کے کانٹوں سے بال پن کا کام لیا جاتا، کھلی بیرکوں میں دفاتر قائم کئے۔ اللہ نے انعامات سے نوازا، وہ نعرہ کہ ’’بھوکا پاکستان ننگا پاکستان‘‘ دفن ہوگیا،پاکستان بننے کے بعد مستقل پروپیگنڈہ ہے، برائیوں پر مشتمل جملے عوام کی نوک زباں پررہتے ہیں کہ پاکستان میں یہ ہوگیا ، پاکستان میں فلاں معاملہ ہے، عجیب ہے کہ پاکستان میں رہنے والے اور جو باہر دور ملک میں مقیم ہیں پاکستان کی برائیاں کرتے نہیں تھکتے کہ گرانی ہے ، بد امنی ہے ، اسلامی نظام نافذ نہ ہوا، لوگوں کی جان مال اور آبرو محفوظ نہیں۔ یہ جملے زبانوں پر رہتے ہیں اور مجلسیں اس سے گرم کی جاتی ہیں لیکن یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ باوجود ان تمام بد عنوانیوں کے جو ہم آج ملک میں دیکھ رہے ہیں ، جو نقصانات ہم نے اٹھائیں، اسکے باجود آج اعتماد سے کہتا ہوں کہ پوری دنیا کے نقشے میں اتنازیادہ مستحکم اور اتنا زیادہ مفید ملک مسلمانوں کیلئے کوئی اور نہیں جتنا پاکستان ہے۔ میں نے دنیا کے بڑے بڑے تمام ممالک کا سفر کیا اور اسلامی ممالک میں کوئی ملک نہیں جہاں جانے کا اتفاق نہ ہو،قریب سے نہ دیکھا ہو، حالات کا جائزہ نہ لیا ہو، سب حالات کا جائزہ لینے کے بعد میں الحمد للہ پورے اعتماد کیساتھ کہہ سکتا ہوں کہ کوئی مسلمان ملک مسلمانوں کیلئے اتنی بڑی عظیم نعمت اور فائدے والا نہیں جتنا پاکستان ہے۔
پاکستان سے باہر الحمد للہ اسلامی ممالک بہت ہیں لیکن یہ اعزاز پاکستان کو حاصل ہے کہ اسکے بنیادی دستور میں اللہ کی حاکمیت کو دستور کا سب سے بنیادی پتھر قرار دیا ہے۔ یہ بات تمام مسلمان ممالک کسی میں نہیں ملے گی یہاں تک کہ سعودی عرب میں بھی کیونکہ کوئی دستور نہیں۔ لہٰذا اسکے اندر اس تصریح کیساتھ یہ نہیں کہ حاکمیت اعلیٰ اللہ کو حاصل ہے اور یہاں جو حکومت کوئی ہوگی وہ اللہ کی حاکمیت کے اقرار کے ماتحت ہوگی۔ یہ اعزاز اور کسی ملک کو حاصل نہیں جتنا اللہ نے اس ملک کو عطا فرمایا۔ یہ اعزاز بھی کسی اور کو حاصل نہیں کہ جس میں وضاحت کیساتھ یہ بات طے کی گئی ہو کہ پاکستان میں کوئی قانون قرآن و سنت کیخلاف نہ بنایا جائیگا۔ موجودہ قوانین کو قرآن و سنت کے ڈھانچے میں بدلا جائیگا، صراحت کیساتھ کسی ملک میں یہ دفعہ موجود نہیں، صرف اتنا ہی نہیں بلکہ دستور میںیہ ہے کہ ہر شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ اگر وہ کسی قانون کو قرآن و سنت کیخلاف دیکھے تو وہ عدالت میں اسلامی قانون کا دعویٰ کرے اور عدالت قبول کرے تو عدالت کو یہ اختیار حاصل ہے اس قانون کو فسخ اورمنسوخ کرکے اسکی جگہ اسلامی قانون کو نافذ کرنے کا حکم جاری کرے۔ حکومت ، عوام اور افسوس ہے کہ دینی حلقوں کی بے حسی کی وجہ سے یہ دفعہ معطل ہے، فائدہ نہ اٹھایا جاسکا۔ آج یہ تہیہ کرلیں کہ اس دفعہ کو برسر کار لائیں گے تو الحمد للہ راستہ کھلاہے، لہٰذاجو پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ اسلامی نظام کیلئے بغیر ہتھیار چارہ نہیں بالکل غلط جھوٹا ہے، اسلامی قوانین کو نافذ کرنے کا الحمد للہ راستہ ہے، شرط یہ ہے کہ بے حسی ختم اورشعور پیدا کریں اوراس دفعہ کو بروئے کار لائیں۔ میں 17سال وفاقی شرعی عدالت، سپریم کورٹ کی شریعت اپیلٹ بنچ میں کام کرتا رہا اور الحمد للہ ہم نے 200 قوانین عدالت کے ذریعے اسلامی سانچے میں ڈھالنے کا حکم جاری کیا، وہ قوانین بدلے مگر افسوس کہ دینی حلقوں کی طرف سے فائدہ اٹھانے کیلئے درخواست دائر نہ ہوئی۔ ہاتھ جوڑے منتیں کیں کہ آپ خدا کیلئے اس دفعہ سے فائدہ اٹھانے کیلئے درخواستیں دائر کریں مگر افسوس کہ کوئی درخواست ہماری طرف سے دائر نہ ہوئی۔ بے دینوں اور ملحدین کی طرف سے آئیں ۔ اس پر فیصلے دئیے گئے اور 200کے قریب ہم نے بدلے ۔
کہا جاتا ہے کہ گرانی ہے، اگر آپ دوسری دنیا سے مقابلہ کرکے دیکھیں تو پاکستان سستا ترین ملک ہے۔ کسی بھی مسلمان ملک میں تحریر و تقریر کی وہ آزادی نہیں کہ ضمیر کیمطابق جس طرح چاہے اظہار کر سکے، پابندیاں ہیں اور لوگوں کے گلے گھٹے ہوئے ہیں ۔
بھائیو،بزرگو! غلط پروپیگنڈے سے متاثر ہونے کے بجائے اللہ کاشکر ادا کرو۔ اس شکر کا اہم حصہ یہ ہے کہ مایوسی پھیلانے کے بجائے امید کے چراغ روشن کرو ۔ اور ملک کی تعمیر و ترقی میں ہر شخص جس شعبہ زندگی سے تعلق رکھتا ہے وہ اپنا کردار ادا کرے۔ اور وہ یہ سمجھے کہ ملک کی خدمت درحقیت اسلام کی خدمت ہے اور اسلام کی خدمت عظیم صدقہ جاریہ ہے اور اس کیلئے زندگی بھر ثواب کا ذریعہ بنے گا۔
والدماجد نے ملک کیلئے نہ صرف جدوجہد بلکہ عظیم قربانیاں دیں۔ دار العلوم کراچی قائم کیا یہ محض رسمی کاروائی نہ تھی کہ جس طرح اور مدرسے قائم ہیں بلکہ اسکے پیچھے عظیم مقصد یہ تھا کہ اس میں ایسے افراد تیار کئے جائیں جو ملت کی رہنمائی کرسکیں او راس میں اللہ کے دین کے علوم بھی پڑھائے جائیں اور ساتھ ساتھ ایسے لوگ بھی تیار کئے جائیں کہ جو علوم عصریہ کے اندر مہارت رکھتے ہوں اور ہر شعبہ زندگی میں ملک کی خدمت کرسکیں، کوشش ہے کہ والد کی آرزو اور تمنا کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔
تبصرہ : مدیر منتظم نوشتۂ دیوارنادر شاہ
شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے اپنی تقریر میں جو باتیں کی ہیں،ان کا ترکی بہ ترکی جواب دینا مناسب ہے۔ 1: اگر پاکستان کے مخالف کفر کی طاقتیں تھیں تو مفتی شفیع کے اساتذہ پر کھل کر کفر کا فتویٰ لگائیے۔جو دارالعلوم دیوبند اور جمعیۃ علماء ہند کے پلیٹ فارم سے بھارت کی حمایت کررہے تھے۔ 2: پاکستان وجود میں آیا تو ختم نبوت کیلئے نعرہ لگانے پر بھی پابندی لگ گئی تھی جو انگریز دور میں بھی نہیں لگی تھی۔ مفتی اعظم پاکستان اور شیخ الاسلام کے منصبوں پر جو فائز تھے وہ ختم نبوت اور ملک میں آزادی کیلئے تحریک والوں پر کفر کے فتوے لگارہے تھے۔ پاکستان کا اسلامی آئین انہی شخصیات کی وجہ سے اس وقت وجود میں آیا جب بنگلہ دیش ہم سے الگ ہوا۔ سیدعطاء اللہ شاہ بخاریؒ ، مولانا احمد علی لاہوریؒ ، مولانا مفتی محمودؒ ، مولانا عبداللہ درخواستیؒ ، مولانا ہزارویؒ ، مولاناعبیداللہ انورؒ ، مولانا عبدالستار خان نیازیؒ ، شورش کاشمیریؒ ، مولانا ابوالحسنات احمد قادریؒ ، مولانا شاہ احمد نورانیؒ سب ہی نے قربانیاں دی ہیں مگر آپ کا بزرگ طبقہ اسلام اور آزادی کیلئے قربانی دینے والوں پر فتوے لگارہاتھا۔ علامہ اقبال نے کہا:
ملاکو ہے جو ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
3: کس اسلام کی آپ بات کرتے ہیں؟۔ مفتی محمودؒ اور تمام علماء ومفتیان کا فتویٰ یہ تھاکہ جب بینک میں اصل سرمایہ محفوظ ہے تو زکوٰۃ کی کٹوتی کا تصور سودی رقم سے نہیں ہوسکتا ہے لیکن آپ نے اپنے ذاتی مفاد کیلئے اپنے باپ کی جگہ مفتی محمودؒ کی بات بھی نہ مانی۔ پھر اپنے استاذ مولانا سلیم اللہ خانؒ سمیت تمام مدارس کو مسترد کرکے معاوضہ لیکر سودی نظام کو اسلامی قرار دینے کی خباثت کی۔ کوئی آپ سے نہیں پوچھ سکتا ہے کہ شادی بیاہ کی رسم میں لفافے پر سود اور اسکے 70گناہوں سے زیادہ کے اندر کم ازکم گناہ اپنی ماں کیساتھ زنا کا فتویٰ جاری کرنے والے نے حیلے سے سود کو کیسے اسلامی قرار دیا ؟۔ اسلئے کہ جب تم نے ذاتی مکانات مدرسہ میں لئے تو اسکے خلاف فتویٰ پر اپنے ہی استاذ مفتی رشید احمد لدھیانوی کی زبردست پٹائی لگوائی تھی۔ حالانکہ وقف مال کی خرید اور فروخت نہیں ہوسکتی اور نہ ایک شخص خرید نے اور بیچنے والا ہوسکتا ہے۔ اگر اپنے استاذ کو نہ بھگاتے تو ڈنڈا بازی کے ماہر مفتی رشید کم از کم رمل کا طریقہ تو سکھادیتا۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ جو آپ نے رمل کرکے دکھایاہے کہ شاید آپ کو رقص کرنے کا بھوت چڑھ گیاہے۔
4: دارالعلوم کراچی کے اردگرد غریبوں کی بستیوں میں کبھی موٹر سائیکل پر غمی شادیوں میں شرکت کرتے تو تحریک چلانے کے قابل بھی ہوتے اور سنت بھی زندہ ہوجاتی۔ نبیﷺ کی سنت یہ تھی کہ اونٹ، گھوڑے اور گدھے پر بھی سواری فرمالیتے تھے اور غریب صحابہؓ کے ولیمہ اور جنازہ میں شرکت فرماتے۔ جنہوں نے ملک میں آزادی یا اسلام نافذ کرنیکی جدوجہد کی ہے وہ غریب عوام کے غریب خانوں میں دسترخوانوں پر شرکت کرتے تھے اور غرباء کیلئے ان کے دروازے کھلے ہوتے تھے۔
5: شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں نے اس ملک میں آزادی اور اسلام کو نقصان پہنچایا ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے ریفرینڈم میں عوام کو اختیار دیا کہ وہ اعتماد کریں یا نہ کریں لیکن تم نے ووٹ دینے کو زبردستی فرض قرار دیا۔ ملک نے سود کو جائز نہیں قرار دیا اور تم نے قرار دیا۔ مولانا فضل الرحمن اور مولانا درخواستیؒ نے جس زکوٰۃ کو شراب کی بوتل پر آب زم زم کا لیبل کہا تھا تو مدارس اور دینی حلقے تمہارے خلاف ہی تحریک چلارہے تھے۔ وہ کیونکر تیری عدالت میں حاضری دیتے؟۔ آپ کے اپنے بھائی کو چاہیے تھا کہ تیرے دربار میں اسلامی دفعات کیلئے حاضر ہوجاتا۔ کسی اور سے گلہ کیوں؟۔
6: جس قیمت پر مدرسہ میں تم نے گھر لیاتھا اور آج اس کی جواصل قیمت ہے ،اگر نیلام کیا جائے تو دارالعلوم کراچی سے حلالہ کیلئے نکلنے والے فتوؤں کی لعنت کو عملی جامہ پہنانے کیلئے وہ عیاش لوگ ڈبل قیمت پر لے لیں گے۔یہ آپ کی ہٹ دھرمی ہے کہ طلاق کا مسئلہ واضح ہونے کے بعد بھی آپ لوگوں کی عزتوں سے کھلواڑ کو نہیں روکتے۔ عزتوں کی حفاظت کوئی بڑا مسئلہ آپ کیلئے اسلئے نہیں کہ حلالہ نے ضمیر کو خراب کردیاہے، آپ کے دوست شیخ نذیر احمد نے امدادالعلوم فیصل آباد میں طلبہ سے جبری جنسی تشدد کیا اور اس کیساتھ بیٹے لڑے تو آپ نے تصفیہ کردیا تھا۔

سرکٹی تبلیغی جماعت کی کہانی عبد القدوس بلوچ کی زبانی

پہاڑاپنی جگہ سے ہل سکتاہے، انسان فطرت سے نہیں ہٹ سکتا۔ حدیث ۔فرمایا کہ ’’انسان فطرت پر پیدا ہوتا ہے مگر والدین یہودو عیسائی بنادیتے ہیں‘‘۔اللہ نے فرمایا کہ لن ترضیٰ عنک الیہود ولن النصٰریٰ حتیٰ تتبع ملتھم ’’ یہود ونصاریٰ آپؐ سے کبھی راضی نہ ہونگے یہانتک کہ انکی ملت کا اتباع کرو‘‘۔
یہودونصاریٰ کا مذہبی طبقہ حق کو پہچاننے کے باوجود رسول ہ ﷺ کی مخالفت کرتا۔ عوام نے ان کو اللہ کے علاوہ اپنا رب بنالیا ، جس چیز کو حلال و حرام قرار دیتے ، عوام عمل پیرا ہوتے۔ جس طرح فرعون نے زمین پر خدائی قائم کی، دریا میں غرق ہوا مگر حق سے انکار کردیا۔ اہل کتاب کے مذہبی طبقے کا بھی بالکل یہی حال تھا۔ پھر وہ وقت آیا کہ عیسائیوں نے مذہبی خداؤں کو پہچان کر ان کی خدائی کا زمین میں خود ہی خاتمہ کرکے رکھ دیا۔

رسول ﷺ نے طرزِ نبوت کی ایسی خلافت کا ذکر فرمایا جس سے زمین وآسمان والے دونوں خوش ہونگے۔ یہ امت بھی سابقہ امتوں کے نقش قدم پر چل رہی ہے مگر اسلام کے دینِ حق ہونے کی وجہ سے مذہبی طبقے کا خاتمہ نہ ہوگا بلکہ دیندار طبقے کو عروج حاصل ہوگا۔حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ خلافت اور اتحاد کے علمبردار تھے، حاجی عثمانؒ ؒ مولانا الیاس ؒ ، شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ اورحاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کے جانشین تھے۔ تبلیغی جماعت سے 35سال تک ایسے وابستہ رہے کہ نصاب کی مکمل پابندی کی۔ پھر ہوا یہ کہ وہ جس جماعت میں گئے، عقیدتمند ضابطے کے منافی وہیں پہنچے، تبلیغی جماعت پیری مریدی نہیں۔ اسلئے زبردستی سے ڈسپلن کا پابند بنانا مشکل تھا، آخر جمعہ کے دن اور سہ روزہ جماعت میں بیان تک محدودہو گئے۔ حاجی عبدالوہاب سے بڑے اکابر میں شمار ہونے کے باوجود آپ کی نشست وبرخاست اور کھانے پینے کا طریقۂ کار بالکل عوامی تھا۔ تبلیغی جماعت کے مخصوص طبقے نے آپ کیخلاف پروپیگنڈہ کیا کہ ’’ حاجی عثمان کی وجہ سے تبلیغی جماعت شخصیت پرستی کا شکار ہورہی ہے‘‘۔ حاجی عثمانؒ نے جواب میں اپنے مریدوں میں بیان کیا کہ جماعتوں کا مقصد شخصیات بنانا ہی ہوتا ہے، شخصیت کے بغیر جماعت بھیڑ ہے ۔ شیخ الحدیث مولانا زکریاؒ نے اس بیان کی کیسٹ تبلیغی جماعت کے اکابرکوبٹھا کر سنا دی اور فرمایا کہ انکا مؤقف درست اوریہ تمہارا پروپیگنڈہ غلط ہے کہ جماعت شخصیت پرستی کا شکار بنار ہے ہیں۔ پھرشیخ الحدیث مولانا محمد زکریاؒ نے مجالسِ ذکر پر زور دینا شروع کیا اور انکے اکثروبیشتر خلفاء بھی تبلیغی جماعت کے سخت مخالف ہوگئے لیکن سرد جنگ کی طرح معاملہ چلتا رہا۔ حاجی عثمانؒ نے سرد جنگ نہ کی، مریدوں کو اختیار دیا کہ تبلیغی جماعت اور مریدی میں ایک کو چن لو، تاکہ ذہنی انتشار نہیں یکسو ہوکر اصلاح اور دین کا کام کرسکو۔ تصوف کا کام ولایت صغریٰ اور تبلیغ کا کام ولایت کبریٰ کا ہے۔ کافی سارے مریدوں نے تبلیغی جماعت کو ترجیح دی اور حاجی عثمانؒ کو چھوڑ دیا۔ حاجی صاحب نے پھر بھی جمعہ کے دن مسجد نور کا بیان جاری رکھا ، جہاں سے جماعت کی ترغیب و تشکیل کا کام بھی ہوتا رہا۔ تبلیغی جماعت نے یہ دیکھ کر پرزور پروپیگنڈہ کیا مگر ختم نبوت کے امیر مولانا خان محمد ؒ نے علماء و مفتیان کی نشست رکھی اور تبلیغی اکابر کو سختی کیساتھ تصادم کی فضاء پیدا کرنے سے روک دیا۔ حاجی صاحب کے مریدوں نے ٹی جے ابراہیم کے نام سے جو مضاربت کمپنی کھولی ۔ اکابر علماء ومفتیان اسکا حصہ تھے۔ تبلیغی جماعت نے روزمانہ جنگ میں اشتہارر دیا کہ ٹی جے ابراہیم سے جماعت لا تعلق ہے۔ حاجی عثمانؒ نے دیکھا تو مریدوں کو کمپنی ختم کر نے کا حکم دیا۔ مریدوں نے علماء و مفتیان کے مشورہ سے کمپنی کوختم نہ کیا بلکہ نام بدلا اور حاجی عثمان کو بتایا کہ الائنس موٹرز ہمارا شوروم ہے،مفتی رشیداحمدلدھیانوی الائنس موٹرز میں حاضری دیتا تھا مگر یہ تصور بھی نہ تھا کہ حاجی عثمانؒ وہاں جاتے۔ مفتی رشید لدھیانوی و مفتی تقی عثمانی نے الائنس موٹرز والوں کو خوش کرنے کیلئے تبلیغی جماعت کے اکابرین پر فتویٰ داغا۔ پیرطریقت حکیم اختر نے بھی 1986ء میں تبلیغی جماعت کی سخت مخالفت کی جو کتابی شکل میں نیٹ پر ہے۔ حاجی عثمانؒ نے فرمایا کہ میں محنت کرکے خانقاہ میں لوگوں کو دیندار بناؤنگا اور پھر رائیونڈ بھیج دونگا تاکہ پتہ چلے کہ کس طرح اصلاح ہوتی ہے؟۔ مگرافسوس کہ الائنس موٹرز والوں نے سازش کرکے حاجی صاحب کو کئی ماہ تک گھر میں نظر بند رکھا ، عبدالکریم بھائی کو پتہ چلا تو ملنے پہنچ گئے اور سب مریدوں تک بات پہنچادی۔ الائنس موٹرز والوں نے علماء ومفتیان کی مدد سے حاجی محمد عثمانؒ کے خلاف ایک عجوبہ فتویٰ شائع کرکے پھیلایا۔
الائنس موٹرز سرمایہ کار کو 40%منافع دیتی تھی۔بڑے علماء و مفتیان کمپنی کے ایجنٹ تھے جو سرمایہ کار سے 2%منافع لیتے تھے۔ کمپنی نے یہ شرط بھی رکھی تھی کہ سرمایہ واپس لینے کی صورت میں ایک ماہ پہلے اطلاع دینی ہوگی اور اس اطلاعی مدت کا منافع نہیں ملے گا۔ معروف شیخ الحدیث مولانا مفتی حبیب اللہ شیخ نے اس شق کی بنیاد پر اس کاروبار کو ناجائز قرار دیا تھا، جب بحران آیا تو مفتی رشید سے فتویٰ لیکر پہلے اطلاعی مدت یک طرفہ طور پر 3 ماہ کردی گئی اور پھر 6 ماہ کردی گئی۔
مولانا الیاسؒ کے ساتھی مولانااحتشام الحسن کاندہلویؒ مصنف ’’ موجودہ پستی کا واحد علاج‘‘ جو تبلیغی نصاب کا حصہ ہے، بہت پہلے جماعت کی سخت مخالفت کرچکے تھے۔ مولانا الیاسؒ کے بیٹے مولانا یوسفؒ نے کبھی جماعت میں وقت نہ لگایا تھا مگر صاحبزادہ ہونے کی وجہ سے امیر بنایا گیا۔ وہ نیک اور اچھے انسان تھے اسلئے جماعت اچھی چل رہی تھی۔ انکے بعد خاندان میں کوئی زیادہ عمر کا ذمہ دار شخص نہیں تھا تو مولانا انعام الحسن کو امیر بنایا گیا جو ذاتی طور پر اچھے مگر صلاحیت سے محروم تھے۔ان کو مشورہ دیا گیا کہ کسی کو زندگی میں امیر بنالو۔ رائیونڈ ، بنگلہ دیش اور بھارت کے اکابر مرکز بستی نظام الدین میں اکھٹے ہوئے مگر کسی بھی امیرپر اتفاق نہ ہوا۔ انکے بیٹے مولانا زبیر الحسن، مولانا الیاس کے پڑ پوتے مولانا سعد اور ایک تیسرے مولانا کو فیصل مقرر کیا۔ انکی وفات کے بعد تینوں مشاورت سے چلتے رہے۔ تیسرے کا انتقال ہوا تو مولانا سعد اور مولانا زبیر مشاورت سے چلتے رہے جنکے درمیان محبت واعتماد مثالی تھی لیکن دونوں کا خیال تھا کہ اگر ایک کو امیر بنایا گیا تو دوسرا گروپ نہیں مانے گا۔ یہ اس جماعت کی مرکزیت کا حال تھا جسکے ہاں تین آدمی کی تشکیل ہوتی ہے تو ایک امیر دوسرا رہبر، تیسرا متکلم بنتا ہے۔ یہ بھیڑ ہے جسے جماعت نہیں کہہ سکتے، اگر حاجی عثمانؒ کی بات مانی جاتی تو بہت سی شخصیات کا پیدا ہونا ممکن تھا۔ حاجی عبدالوہابؒ کی شخصیت نے ایک حد تک جماعت کو متحد رکھا ہوا تھا۔

حاجی عبدالوہابؒ نے سہاگ رات میں بیوی کو طلاق دیکرکہا کہ’’ مجھے دین کا کام کرنا ہے‘‘۔ اللہ نے فرمایا: الذین یجتنبون الکبائر من الاثم والفواحش الا لمم’’ جو اجتناب کیا کرتے ہیں بڑے گناہوں اور فحاشی سے مگر یہ لمم کا کبیرہ گناہ و فحاشی الگ ہے‘‘۔جس طرح کھانا پینا انسانی ضرورت ہے اسی طرح جنسی خواہش کا پورا کرنا بھی انسان کی بے بسی ہے۔ قرآن میں ہر ایک کو اپنے ماحول اورمقام کے اعتبارسے یہ استثنیٰ دیا گیا۔خواہش سے پاک اللہ سبحان ہے۔ حضرت آدمؑ وحواء ؑ کو شجر سے روکا گیا تھاتو وہ نافرمانی میں بے بس ہوگئے اسلئے یہ مؤمنین کی صفات پر اثر انداز نہیں تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی نظر اجنبی پر پڑگئی تو اپنی بیوی کے پاس گئے اور امت کو راستہ بتادیا کہ ایسا ہو تو بیگم سے حاجت پوری کرلینا ، جو چیز اسکے پاس ہے وہ بیوی کے پاس بھی ہے۔اسلام میں رہبانیت نہیں لیکن تبلیغی جماعت کے مرکزی شخص عبدالوہابؒ کو راہب کی زندگی گزارنی پڑگئی۔ وہ کتنے کامیاب کتنے ناکام تھے، یہ اللہ اور اسکے بندے کو معلوم ہے مگر قرآن نے فحاشی سے بچت کی ایک استثناء دیدی جس کی وسعتوں کو اللہ خود بہتر جانتا ہے۔ بیوی اور شوہر کی حیثیت پر معاشرے میں ریاست اورامارت کی بنیاد تعمیر ہے۔ بیوی امور خانہ داری کی ماہر ہو تو شوہر کو گھر کے سربراہ وامیر سے ذمہ داری کا تجربہ ہوتا ہے۔ حاجی عبدالوہاب ؒ نے نکاح کی سنت کو چھوڑ کر مستحسن کام کیلئے خود کو وقف کیاتھا ۔ معترض کہہ سکتا ہے کہ طلاق کے ناپسندیدہ عمل سے حاجی عبدالوہاب ؒ نے آغاز کیا تو انجام کیا تھا؟۔ ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق کے بارے میں ہے کہ لاجناح علیکم ان طلقتم النساء مالم تمسوھن ’’تم پر کوئی گناہ نہیں اگر ہاتھ لگانے سے پہلے عورتوں کو طلاق دی‘‘۔ مولوی بحث میں پڑیگا کہ خلوت صحیحہ ہاتھ لگانا تھا کہ نہیں تھا؟۔
تبلیغی جماعت میں مستورات کی جماعتوں کا رواج بعدمیں پڑا ۔ سوشل میڈیا پر مولانا سعد کے خلاف خاتون سے زنا کا الزام لگاکر کہا گیا کہ منع کرنے کے بعد مزید دو خواتین سے ملوث ہوا۔ مولانا صاحب شادی شدہ بھی ہونگے اور انسان اپنی فطرت پر مجبور ہوتا ہے۔ قرآن میں 1 نہیں 2،2، 3،3 اور 4، 4 عورتوں سے نکاح کا حکم ہے اور عدل نہ کرنے کا خوف ہو تو پھر ایک سے ۔ جودو خواتین میں عدل سے ڈرے اس کو ریاست یاجماعت کا امیر نہیں بننا چاہیے اور ایک کا بھی تجربہ نہ ہو تو اس کو ہرگز امیر نہیں ہونا چاہیے تھا۔
شیخ الہندؒ نے مالٹاکی قید کے بعدعوام کو قرآن اور اتحاد کی طرف بلانے کی ضرورت پر زور دیا۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ نے کہا کہ خراسان سے مہدی آنے تک بگاڑ بڑھتا جائیگا۔ مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے علماء کو قرآن کی دعوت دی ۔مولانا الیاسؒ نے بارش کی طرح برس کر اپنا فیض عام کرنا شروع کیا۔ لوگ نماز، وضو اور غسل کے بنیادی احکام سے واقف نہ تھے۔ تبلیغی جماعت نے ایک چلتی پھرتی خانقاہ اور مدرسے کا کام کرنا شروع کردیا۔ آج مذہب کی طرف اتنا بڑا رحجان اس جماعت کے کام کی برکت سے ہی ہے۔
مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ نے حاجی عثمانؒ کی قبر پر حاضری دی تو یہ علماء حق کیلئے بڑی بات ہے مگر اب تو معاملہ عیاں ہونے کی انتہاء ہوگئی۔
موبائل فون کی ایک مقبول رنگ ٹون میں مولانا طارق جمیل کی تقریر کا ایک حصہ ہے کہ :
’’جس زمین پر سجدہ نہ ہو اس سے بھی بڑا کوئی جرم ہے، زنا کرنے کو گناہ سمجھتے ہیں نماز کا چھوڑ دینا زناسے بڑا جرم ہے، رشوت کھانے کو گناہ سمجھتے ہیں نماز کا چھوڑ دینا رشوت کھانے سے بڑا جرم ہے، قتل کرنا بڑا گناہ سمجھتے ہیں نماز کا چھوڑ دینا قتل کرنے سے بڑا جرم ہے، سجدے ہی کا تو انکار کیا تھا شیطان نے، شیطان نے کوئی زنا کیا تھا کوئی قتل کیا تھا کوئی شراب پی تھی کوئی جوا کھیلا تھا، کیا کیا تھا؟ کوئی شرک کیا تھا؟ شیطان ایک سجدے کا انکار کرکے وہ ہمیشہ کیلئے مردود ہوگیا۔‘‘
ان تقریروں سے دہشت گرد حوصلہ پاتے تھے۔ زنا ، رشوت ، قتل وغیرہ کیلئے ایسی تقریریں کرنے والوں کے پس پردہ کہانیوں سے نقاب اٹھتا ہے۔ بنگال میں تبلیغی جماعت کی لڑائی اس وقت بھی ہوسکتی تھی جب مستورات کی جماعتیں اس مرکز میں موجود ہوتیں۔ حاجی عبد الوہاب نکاح کی سنت پر عمل کرتے تو نبوت والے کام کیلئے مستورات کی جماعتیں نکالنے کی کوئی ضرورت پیش نہ آتی۔ بھوک پیاس کی طرح جنسی خواہش بھی انسان کی فطری کمزوری ہے اور یہی وجہ تھی کہ حضرت آدمؑ و حواؑ سے جنت میں اس کی غیر اختیاری خلاف ورزی ہوئی۔ شیطان نے اپنی بڑائی کیلئے تکبر کیا تھا ورنہ تو غزوہ خندق میں نبی کریم ﷺ اور صحابہؓ سے بھی نماز قضا ہوئی۔
ایک صحابیؓ نے نبی ﷺ سے عرض کیا کہ میں نے روزے کی حالت میں بیگم سے مباشرت کی تو میرے لئے کیا حکم ہے؟۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ 60 روزے رکھو۔ صحابیؓ نے عرض کیا کہ یہ تو بہت مشکل ہے ۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ ۔ صحابیؓ نے عرض کیا کہ میں خود مسکین ہوں تو نبی ﷺ نے کہیں سے آیا ہوا ہدیہ کا مال دیدیا کہ یہ صدقہ کردو۔ صحابیؓ نے عرض کیا کہ مجھ سے زیادہ کوئی مستحق نہیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اپنے گھر لے جاؤ۔ اس واقعہ سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جنسی خواہش اس وقت بھی انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتی جب وہ شادی شدہ ہو۔ حضرت ابو ہریرہؓ نے عرض کیا تھا کہ ہم خود کو خصی نہ بنالیں ؟ تو نبی ﷺ نے فرمایا کہ ایک چادر کے بدلے سہی، کسی عورت سے متعہ کرلو۔ اللہ نے فرمایا ہے کہ جن چیزوں کو اللہ نے تمہارے اوپر حلال کیا ہے ان کو اپنے لئے حرام نہ بناؤ۔(آیت: بخاری )
تبلیغی جماعت اللہ کے احکام اور نبی ﷺ کی سنت کی طرف زبانی جمع خرچ سے دعوت دیتی ہے لیکن عملی طور پر اپنے طریقہ کار کے علاوہ کسی کو درست نہیں سمجھ رہی ہے۔ مولانا الیاسؒ عظیم تھے اور حاجی محمد عثمانؒ انکے مشن کے اصل علمبردار تھے لیکن جماعت والوں نے انکی کوئی قدر نہیں کی۔ امارت کے مسئلے پر خلفاء راشدینؓ کا بھی اختلاف تھامگر اُمت عرصہ تک کسی امیر پر متفق رہی ہے۔
بشریٰ بی بی کو آئیڈیل کہنے والے اپنی بیگم کو ایسا دیکھنا پسند کرینگے؟میرا ور میرے ساتھیوں کا کردار ہرگز آئیڈیل نہیں مگر اسلامی تعلیم کی ترویج سے ہی چند لمحوں میں یہ دنیا بدل سکتی ہے۔ اعلیٰ اخلاقی معیار اوراقدارکے قیام کی راہ میں سب بڑی رکاوٹ ہماراہی اجنبی اسلام ہے۔اسلام کو اجنبیت سے نکالا جائے تو اسلام کے نام پر ڈرامہ نہ ہوگا۔رات کی تاریکیوں میں رونے سے دل کی اندھیرنگری میں اسوقت تک ہر گز روشنی پیدا نہ ہوگی جبتک کھلے دلوں سے دن کے وقت اسلامی احکامات کو قبول نہیں کیا جائے، مولانا سعد نے کہا کہ الیاسؒ نے دین کی دعوت مسجد میں دی تو مولانا طارق جمیل نے جواب دیا کہ آذان مسجد میں جائز نہیں تو دعوت کا کام مسجد سے باہر کرنا چاہیے۔ سوشل میڈیا پر ایکدوسرے کیخلاف حیران کن طریقے سے گھٹیا الزامات خبث باطن کا اظہار ہے۔یہ ہماری کتاب جاندار کی تصویرکے جواز پر ’’جوہری دھماکہ‘‘کا کمال ہے کہ لاؤڈاسپیکر پرباجماعت نماز وآذان سے گریز اں طبقہ کھلم کھلا ویڈیو سے تبلیغی سرگرمیاں سامنے لانے کی جرأت کررہاہے۔مغرب نے حقوقِ نسواں کے تحفظ کیلئے اسلامی احکام کی طرف رجوع کرناہے مگر اسلام کو واضح کرنا ہوگا۔ مولانا طارق جمیل کہہ سکتاہے ’’ وزیر اعظم عمران خان کی ہمت کو سلام ، پاک پتن کے مزار پر سجدہ کی شکل بنا کر راہداری کو چوما ، ہم امیر پر اتفاق نہیں کرسکتے ۔ ٹیرن نے لونڈی لباس کی سنت زندہ کی، مجھ میں جرأت نہیں ورنہ اسکی ٹانگوں کو ملکہ سبا کی ٹانگیں سمجھ کر بوسہ دیتا‘‘۔ مفتی قوی کہتا کہ تبارک اللہ احسن الخالقین اور اللہ جمیل یحب الجمال کا منظرعمران کی بیٹی ہے تو تبلیغی اور pti کے کارکن سر دھنتے رہتے کہ واہ کیا بات ہے۔

حج و عمرہ میں مسلمان خواتین و حضرات حجر اسود چومتے وقت ایکدوسرے سے رگڑ کھا تے ہیں۔

حج و عمرہ میں مسلمان خواتین و حضرات حجر اسود چومتے وقت ایکدوسرے سے رگڑ کھا تے ہیں۔ پوری دنیا میں ایسے مناظر دیکھنے کو نہیں ملتے۔ یہ بے شرمی و بے غیرتی کی انتہا ہے۔ فقہ میں پڑھائے جانے والا لونڈیوں کا لباس بھی انتہائی شرمناک ہے۔ قرآن و سنت کیخلاف حلالہ کی لعنت بھی اسلام ہی نہیں انسانیت کی بھی توہین ہے۔ انگریز نے ترقی اسلئے کی کہ برصغیر سے بیوہ کو زندہ جلانے کی رسم ستی اور شوہر کی گمشدگی کے بعد عورت کیلئے 80سال انتظار میں کردار ادا کیا۔ اسلام کی ترقی کا راز انسانی حقوق کی بحالی تھا مگر اسلام اجنبی بن گیا۔دجال بھی لونڈی اور حلالہ کے نام پر لوگوں کی عزتوں سے نہیں کھیلے گا۔

شاہ ولی اللہ ٌاور مولانا عبید اللہ سندھیٌ تک کے افکار کی ناکامی کی وجوہات

حضرت امام شاہ ولی اللہؒ ایک خوش قسمت اور بہت بڑے انسان تھے۔ بسا اوقات بڑے لوگ ہوتے ہیں مگر ان کی اتنی قسمت نہیں ہوتی ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن رسول اللہﷺ اپنی مسلم امت کی شکایت کرینگے ۔ وقال الرسول یاربّ ان قومی اتخذوا ہذا القرآن مھجورا’’ رسول کہیں گے کہ اے میرے رب بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا‘‘۔مذہبی طبقوں نے قرآن کی اس شکایت کو کبھی سنجیدہ نہیں لیا ہے۔ کوئی اس غفلت، بے دینی ، گمراہی اور سخت کوتاہی کا نوٹس لینے کے بجائے اس کی کان پر جوں تک نہ رینگے تواس کو ہدایت ملنے کا سوال کہاں سے پیدا ہوگا؟ اور یہ قوم پھر ہدایت پانے کے بجائے کسی مہدی کا انتظار کرے گی۔ یہی تو عرصہ سے ہورہاہے۔
حضرت شاہ ولی اللہؒ نے سب سے بڑا کام یہ کیا ہے کہ قرآن کا پہلی مرتبہ ہمارے لئے ترجمہ کردیا تھا۔ اس کی پاداش میں دو سال تک مسلسل واجب القتل کے فتوے لگنے سے روپوش رہنا پڑا تھا۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے قرآن کا ترجمہ اسلئے کیا کہ ایک اسلام دشمن مستشرق پادری آیا تھا اور اسکے پاس قرآن کی بھرپور معلومات تھیں۔ وہ کہتا کہ قرآن میں یہ لکھا ہے، علماء اس کی بات کا انکار کردیتے لیکن جب قرآن کو دیکھا جاتا تو اس کی بات درست نکلتی۔ شاہ ولی اللہؒ نے معلوم کیا کہ وہ اپنی زبان میں قرآن کا ترجمہ پڑھ چکے تھے۔ پھر شاہ ولی اللہؒ نے ہندوستان کے علماء کو باصلاحیت بنانے کیلئے فارسی میں ترجمہ کردیا،تاکہ وہ اسلام دشمن عناصر کے مناظروں کا جواب دے سکیں۔
حضرت شاہ ولی اللہؒ کو یہ محنت مہنگی پڑگئی ، علماء نے واجب القتل کے فتوے لگادئیے۔ دو سال تو وہ روپوش رہے، پھر لوگوں کو بات سمجھ میں آئی کہ اپنے محسن کو دہشتگردی کا نشانہ بناناٹھیک نہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے اپنی قوم سے مایوسی کے بعد تصوف کا مشاہدہ دیکھا کہ ’’ مہدی نکلنے والے ہیں‘‘۔ ایسی قوم سے انقلاب کی توقع رکھنا عبث تھی۔ حضرت شاہ ولی ؒ کے بیٹے شاہ رفیع الدینؒ و شاہ عبدالقادرؒ نے قرآن کے اردو میں بامحاورہ و لفظی تراجم کیے۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ کے پوتے شاہ اسماعیل شہیدؒ نے اپنے مرشد سید احمد بریلویؒ کو خراسان سے نکلنے والے امام مہدی سمجھ کر بڑا اقدام اٹھایا کہ دنیا میں پھر سے خلافت قائم کریں گے ۔ اسی کیلئے اپنی کتاب ’’ منصبِ امامت ‘‘ بھی لکھ ڈالی ۔ انگریز نے خوشی کیساتھ یہ کھیل کرنے دیا، تاکہ پنجاب وسرحد میں رنجیت سنگھ کی حکومت کو کمزور کیا جائے۔ پیرومریدوں کا یہ قافلہ سندھ وپنجاب کو عبور کرکے احیائے خلافت کی غرض ہی سے سرحد پہنچ گیا۔ پشاور سے ہزارہ بالاکوٹ پہنچ کر دفاعی جنگ لڑتے ہوئے سکھ راجہ کے لشکر کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔ کچھ لوگوں کا خیال یہ تھا کہ سید احمد بریلویؒ زندہ غائب ہیں ،امام مہدی دوبارہ منظر عام پر آکر خلافت قائم کرینگے۔ شاہ اسماعیل شہیدؒ نے تقلید کیخلاف بھی ایک کتاب لکھ دی۔ اکابرِ دیوبندؒ پہلے ان کی حمایت کررہے تھے لیکن جب مولانا احمد رضا خان بریلویؒ نے انکے خلاف ’’ حسام الحرمین‘‘ کا فتویٰ لکھا کہ یہ تقلید کو بدعت کہتے ہیں تواس وقت حرمین پر شریف مکہ کی حکومت تھی، علماء دیوبندؒ نے شاہ اسماعیل شہیدؒ کی فکر سے دستبرداری کا اعلان کیا۔ وہابیت کے فتوے سے بچنے کیلئے مولانا حسین احمد مدنیؒ نے محمد بن عبدالوہاب کیخلاف بہت کچھ لکھا بھی۔
عرب کے مشہور عالم علامہ ابن تیمہؒ نے لکھا ہے کہ ’’ چاروں فقہی مسالک پر دین کی تفریق کا فتویٰ لگتا ہے۔ یہ فقہی مسالک نہیں مستقل فرقے ہیں‘‘۔ سعودیہ کی موجودہ حکومت علامہ ابن تیمہؒ کے افکار کو مانتی ہے۔ تقلید پر پہلے سعودی عرب کا اہلحدیث سے اتفاق تھا لیکن پھر احادیث صحیحہ کی کتابوں میں اہلبیت کے فضائل اور اہل تشیع کے عقائد کا خوف کھاتے ہوئے علامہ ابن تیمہؒ کے مسلک سے روگردانی اختیار کرلی۔ چاروں امامؒ کی تقلید کے علاوہ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد رجوع نہ کرنے کا حکومتی سطح پر ازسرِ نو اعلان کردیا اور آج یہ سب دفاعی پوزیشن پر آگئے ہیں۔
مولانا حسین احمد مدنیؒ نے حرمین پروہابیوں کی حکومت قائم ہونے کے بعد محمد بن عبدالوہاب کے بارے میں اپنا پرانا مؤقف بدل کر اسکی بڑی تائیدبھی کردی۔’’تقلید کی شرعی حیثیت‘‘ کتاب میں شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے قرآنی آیت کی تحریف کرتے ہوئے فان تنازعتم فی شئی فردہ الی اللہ والی الرسول کے معنی ومفہوم بھی بدل ڈالے۔ چڑھتے سورج کاپجاری ایک گالی لگتی ہے مگر سورج مکھی کے پھول جیسے لوگ ابن الوقت ہوتے ہیں۔ ابن الوقتی کے تقاضے نے ہمیں قرآن کو چھوڑنے پر مجبور کیا ہوا ہے۔
شاہ ولی اللہؒ کو بریلوی دیوبندی اور اہلحدیث سب مانتے ہیں مگر اگر مدارس کے اس نظام تعلیم سے جان نہیں چھڑاسکتے جوکسی بھی دینی، فطری، مہذب معاشرے کیلئے قابلِ قبول نہیں تو قرآن کی طرف رجوع کا کیا سوال پیدا ہوسکتاہے؟۔ آج اگر میں حکومت وریاست کی صفوں میں کھڑا ہوگیا اور اپنی جان کاتحفظ لیکر ٹی وی ٹاک شوزاور قومی سطح پر علماء ومفتیان کے نظامِ تعلیم کے خلاف عوام میں شعور وآگہی کی تحریک بیدار کردی تو علماء کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی۔ میں یورپ میں پناہ لیکر بھی کام کرسکتا تھا لیکن بے سروسامانی کی حالت میں مدارس ومساجد کو مٹانے کیلئے نہیں ان کے تحفظ کیلئے کام کررہا ہوں۔ جس دن علماء و مفتیان نے مدارس کے نصابِ تعلیم کی گمراہیوں کو دور کرنا شروع کیا تو یہ مرکز رشد وہدایت ہوں گے اور عوام کا سیلاب ان کو آباد کرنے اُٹھے گا۔
وزیراعظم عمران خان نے علماء ومفتیان سے تعلیم حاصل کی ہوتی تو کلمہ درست پڑھنا آتا، وہ تو آذان والے الفاظ سے کلمہ بھی غلط پڑھتا ہے، کلمہ میں محمدرسول اللہ اور آذان میں محمد رسول اللہ کے الفاظ میں فرق ہے۔ محمدﷺ کے نام کا آخر دال ہے۔ دال پر پیش اور زبر سے معانی بدلتے ہیں۔ عربی میں اعراب کی درستگی بہت ضروری ہوتی ہے اور یہ کام علماء کرام اور مفتیانِ عظام ہی کرتے ہیں۔ لگتا ہے کہ عمران خان بچپن میں نہ تو مسجد ومدرسہ گیا ہے اور نہ کسی مولوی نے گھر پرہی پڑھایا ہے ورنہ کم ازکم مدینہ کی ریاست کا دعویدار کو کلمہ پڑھنا درست آتا۔ مولانا فضل الرحمن نے میری علمی خدمات کو جانتے بوجھتے نظر انداز نہ کیا ہوتا تو آج زرداری، نوازشریف اور عمران خان سے زیادہ متحدہ مجلس عمل مقبول ہوتی مگر بہت اچھا ہوا کہ مذہب دنیاداری کیلئے استعمال نہ ہوا۔
عمران خان نے کسی عالم یا صوفی سے تربیت اور علم حاصل کیا ہوتا تو دہشت گرد طالبان کی اس طرح سے حمایت نہ کرتے جس طرح ماضی میں کی تھی اور پھر پاکپتن کے مزار پر بینڈ ہوکر زمین کا ایسا بوسہ کبھی نہ لیتے۔ پھر بشریٰ بی بی کی ہدایات پر عمل کرکے مزار کے اندر عجیب وغریب کیفیت کا مظاہرہ بھی نہ کرتے۔علماء ومفتیان اور مشائخ کی صحبت وتربیت اور علم وتدریس نہ ہونے کایہ نتیجہ تھا کہ جس خاتون کو کسی کے نکاح میں ہونے کے باجود اس سے شادی کا پروگرام بنایا اور عقیدت کا بھی اسی کو مرکز بنالیا۔ ایسا ناقص کردار رکھنے والا بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وزیراعظم بن گیا جس نے اپنی ایک ایک بات پر یوٹرن لیکر قوم ہی کی اخلاقیات کا بھی بیڑہ غرق کردیا اور ہمارے کم عقل ریاستی اہلکاروں نے بھی اندھوں میں اسکو راجہ سمجھ لیا ۔یہ تاریخ کا بہت بڑا المیہ ہے۔
امام شاہ ولی اللہؒ سے امام عبیداللہ سندھیؒ تک کی ناکامی کے کچھ بنیادی وجوہات ہیں۔ مدرسہ وفرقہ وارانہ ذہنیت کے علاوہ قرآن کی تعلیمات سے تقلید کے لبادے میں دوری بنیادی عوامل تھے اور ایک ادنیٰ مثال یہ ہے کہ بیت اللہ کے مطاف میں خواتین وحضرات شانہ بشانہ طواف کا فرض ادا کرتے ہیں ۔ حجراسود چومنے کامنظر بڑا ہی عجیب ہوتا ہے۔ یورپ وچین کے خواتین وحضرات کی بھری ہوئی مخلوط ٹرینوں اور بسوں میں وہ رگڑے ممکن نہیں جو حجراسود چومتے وقت نامحرم مؤمنین و مؤمنات ایکدوسرے سے کھاتے ہیں۔کہاں شرعی پردے کاتصور ؟ اور کہاں حجراسود چومنے کی رگڑیں؟۔ مخلوط تعلیمی اداروں اور ملازمتوں کے مخالف مذہبی طبقات بیت اللہ کی دیواروں کے سایہ میں مخلوط طواف کو تونظر انداز کرتے ہی ہیں لیکن حجراسود کو چومتے وقت مخلوط رگڑے کھانے پر بھی دانت کھول کر زباں کو جنبش نہیں دیتے ہیں اور اس اندھیر نگری میں اندھوں کے راجے تو کوئی اور ہی بنیں گے، جس پر تعجب کی بات نہیں۔
قرآن میں مسائل کا حل موجود ہے لیکن اس کی طرف بدکردار طبقہ نہیں بلکہ نیک و باکردار علماء وصلحاء بھی توجہ نہیں کرتے ۔ چڑھتے سورج کے پجاریوں اور ابن الوقتوں کی توبات چھوڑدیں۔ قرآن میں پردہ کے احکام ہیں ، بوڑھی خواتین جن میں نکاح کی رغبت نہ ہو۔زینت کے جگہوں کی نمائش کے بغیر وہ کپڑے بھی اُتاریں تو حرج نہیں ۔ پھر اللہ نے اگلی آیت میں فرمایا ’’ اندھے پر حرج نہیں،نہ پاؤں سے معذور پرحرج ہے اور نہ مریض پر حرج اور نہ تمہاری جانوں پر کہ تم کھاؤ اپنے گھروں میں، اپنے باپ کے گھروں میں یا اپنی ماؤں کے گھروں میں یا اپنے بھائیوں کے گھروں میں یا اپنی بہنوں کے گھروں یا اپنے چچا اور ماموں، خالہ ، پھوپھی، دوست ، جنکے گھروں کی چابیاں تمہارے لئے کھلی ہیں۔۔۔ تم سب ہی اکٹھے کھانا کھاؤ یا الگ الگ تمہاری مرضی ہے‘‘۔
اس آیت میں دنیا کی رسم وروایت کے عین مطابق شرعی پردے کا آسان تصور اُجاگر ہوتاہے لیکن مذہبی طبقات کی مت ماری گئی ہے۔ چنانچہ شاہ ولی اللہؒ کے فرزند شاہ عبدالقادرؒ نے قرآن کا اردو ترجمہ کرتے ہوئے آیت قرآنی کا مفہوم ہی مسخ کرڈالا۔ لکھاہے کہ ’’ آیت میں حرج سے یہ مراد ہے کہ نابینا، پاؤں سے معذور و مریض کیلئے جمعہ کی نماز اور جہاد وغیرہ معاف ہیں‘‘۔ ہمارے پہلے شیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانی نے بھی یہ تفسیر نقل کردی۔ جب قرآن کا مفہوم بدل دیا جائے تولوگ قرآن کی طرف رجوع کیسے کرینگے؟۔یہ آیت شرعی پردے کا وہ تصور ختم کرتی ہے جو لوگ اپنے ذہنوں میں سمجھتے ہیں۔
علماء نے سترعورت اور شرعی پردے کا جو خود ساختہ تصور قائم کیا وہ قرآن کیخلاف ہے اور اس پر علماء ومفتیان خود بھی عمل نہیں کررہے ہیں۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسن ؒ کے استاذ مولانا رشید احمد گنگوہیؒ نے فتاویٰ رشیدیہ میں لکھاکہ جو مسجد کا امام شرعی پردہ نہیں کرتا ہے وہ فاسق ہے، اسکے پیچھے نماز پڑھی جائے تو واجب الاعادہ ہے یعنی وہ نماز دوبارہ لوٹائی جائے ،یہ ضروری ہے۔
شرعی پردے کا تصور ہے کہ بھابھی، چاچی، مامی، خالہ زاد، چچازاد، ماموں زاد سب ہی سے پردہ کیا جائے ورنہ تو وہ شخص فاسق ہوگا۔ علماء شرعی پردے کا تصور رکھنے کے باوجود اس پر عمل نہیں کرتے ۔ صوفی ، تبلیغی جماعت و دعوت اسلامی کے عمل و کردار والوں میں بھی شاذ ونادر ہی اس شرعی حکم پر عمل پیرا ہوتے ہیں مگر یہ شریعت کا حکم قطعی طور پرنہیں، قرآنی آیت میں گھروں میں کھانے کی انفردای و اجتماعی طور پر کھل کر اجازت ہے مگر اس مفہوم کو علماء و مفتیان نے مسخ کردیا ہے اسلئے کہ اردو تراجم کی حد تک شاہ ولی اللہؒ کے فرزند شاہ عبدالقادرؒ سب کے امام ہیں۔ اصل ترجمہ وہی ہے باقی سب ہی نے نقل کرکے اسے اپنے لفظوں میں ڈھالا ۔
جن خواتین میں نکاح کی رغبت نہ ہو ، پردے میں زینت کے مقامات کے بغیر ان کیلئے اپنے کپڑے اُتارنے سے واضح ہے کہ ستر عورت کا بھی علماء ومفتیان نے بالکل غلط تصور لیا۔ عورت کے ہاتھ پیر اور چہرے کے علاوہ سب کچھ ستر ہو تو نکاح کی رغبت نہ رکھنے والی خواتین کیلئے خالی زنیت کی جگہیں چھپانے کا کوئی تُک نہیں بنتا۔ چونکہ ستر عورت فرض اور فرض کو مستثنیٰ نہیں قرار دیا جاسکتا ۔آیت میں زینت کے علاوہ کپڑے اتارنے سے واضح ہے کہ ستر عورت کا غلط مذہبی تصور مسلط کیا گیاہے۔ مولانا مودودیؒ نے آواز کو بھی ستر میں شامل کیا لیکن اسلامی جمعیت طلبہ کے طلباء و طالبات ایک صف میں ہوتے تھے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی نظر میں شرعی پردے کا تصور وہ ہو جو علماء ومفتیان کے ہاں فقہی اور جاہل صلحاء کے ہاں عملی زندگی کا حصہ ہے؟۔ توچیئرمین صاحب کا خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ تصاویر سوشل میڈیا پر دینے سے علم وعمل کا بڑا تضاد ہوگا اور بے عملی حقائق میں رکاوٹ بنتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنی چاچی علیؓ کی والدہ کی میت کو اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتارا تھا اور فرمایا تھا کہ ’’یہ میری ماں ہے جس نے میری پرورش کی ہے‘‘۔ مفتی طارق مسعود جیسے جاہلوں نے سوشل میڈیا پر فقہی جہالتوں کا بازار گرم کردیا ہے لیکن وہ قرآن واحادیث اور صحابہ کرامؓ کے واقعات سے نابلد ہیں۔ بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ و صحابہ کرامؓ نے ایک صحابیؓ کی دعوت ولیمہ میں شرکت کی تو دولہادلہن خود ہی ضیافت کی خدمت انجام دے رہے تھے۔اس سے زیادہ نام نہاد شرعی پردے کا تصور کیا ہوگا؟ کہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہؓ کے طرز عمل کو بھی ہم نہیں مانتے اور قرآن کو بھی نہیں مانا جاتا ہے۔ قبلہ ایاز سے عرض ہے کہ
اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن
مولانا عبیداللہ سندھی ؒ نے لکھاکہ ’’ عوام میں شرعی پردے کا کوئی تصور نہیں اور شرفاء میں شرعی نہیں روایتی پردہ ہے۔ شرعی پردہ تو کوئی ویسے بھی نہیں کرتا ہے اور نہ یہ ممکن ہے لیکن جہاں روایتی پردہ ہوتا ہے وہاں پر لوگ قوم لوط ؑ کے مرض کا شکار ہوجاتے ہیں جو بالکل غیرفطری ہے، اگر پردہ ترک کیا جائے تو قوم لوطؑ کے مرض سے بچت ہوگی‘‘۔ مولانا سندھیؒ نے قرآن کی تعلیم کا درس دینے کے بجائے اپنی فکر مسلط کی تھی تو لوگ کیسے قبول کرتے؟۔ دوسروں کے بچوں کو بچانے کیلئے کوئی اپنی بچیاں کیوں پیش کریگا؟۔ یورپ کی آزادی میں بھی ہم جنسی کا مرض برقرار ہے۔ جب قرآن کی تعلیم سے روگردانی کا درس دیکر قرآن ہی کے نام پر انقلاب کا درس دیا جائیگا تو اسے کون قبول کریگا؟۔ ذرا سوچئے تو سہی!۔
حضرت شاہ ولی اللہؒ نے شیعہ کی گمراہی کا سبب عقیدۂ امامت کو قرار دیا ، جس سے ختم نبوت کا انکار لازم آتا ہے، لیکن انکے پوتے شاہ اسماعیل شہیدؒ نے من وعن وہی عقیدہ منصب امامت میں درست قرار دیا تھا۔ وہ خود شہید ہوئے لیکن انکے پیروکار سمجھ رہے تھے کہ سیداحمد بریلویؒ غائب ہیں ، دوبارہ امام مہدی کی حیثیت سے وہ آئیں گے اور خلافت قائم کردیں گے۔
مرزا غلام احمد قادیانی نے شاہ اسماعیل شہیدؒ کے افکار سے نبوت وامامت کو ایک درجہ دیدیا تھا۔ اہل تشیع کے غالی لوگ بھی گمراہانہ فلسفے میں مبتلا ہیں۔ یہ کتنا بڑا فساد ہے کہ جو کالعدم سپاہ صحابہؓ کے لوگ شیعہ کو عقیدۂ امامت کی وجہ سے کافر کہتے ہیں وہ شاہ اسماعیل شہیدؒ کی کتاب منصب امامت کی تعریف کرنیوالے مولانا یوسف بنوریؒ اور بریلوی مکتبہ فکر کو مانتے ہیں۔ اگر ایک طرف ہم نبیﷺ کے واضح حکم کی خلاف ورزی کرنیوالے عشرہ مبشرہ کے صحابہؓ سے عقیدت رکھتے ہیں۔ اس وقت بھی غالی قسم کے لوگوں نے مقدس افراد کو آپس کی لڑائی پر مجبور کیا لیکن بعد میں بھی شیعہ پر کفر کے فتوے لگانے والے اکابرہی پیچھے ہٹ گئے۔ علماء ومفتیان کے جتھے مؤقف کی تبدیلی میں مفادات حاصل کرینگے تویہ اپنے کرتوت کی بدولت مقبول نہ ہونگے۔
عمران خان کو محمد رسول اللہ اور ﷺ بھی درست تلفظ کیساتھ نہیں آتا لیکن لوگ ان فقہاء وعلماء کو علامہ اقبالؒ کی زباں سے بھی مسترد کرکے عمران کی تعریف کرینگے۔
قلندر بجز دو حرف لا الہ کچھ نہیں جانتا
فقیہِ شہر ہے قارون لغت ہائے حجازی کا
اس بات سے ڈرنے کی ضرورت ہے کہ قادیانی علماء کو خراب کرنے کیلئے کل عمران خان کے بچوں سے قرآن کی سورۃ آل عمران ہی مراد لیں۔پھر یہ حدیث بھی پیش کردیں کہ ’’ کسی قوم کا بھانجا اسی قوم کا فرد ہوتا ہے‘‘۔ پھر بتائیں کہ حسنؓ و حسینؓ کی اولاد بھی نانا کی وجہ سے سید اور بلاول زرداری بھی نانا کی وجہ سے بھٹو ہے۔ پھر قرآن میں بنی اسرائیل کی تمام عالمین پر فضیلت کا حوالہ بھی دیں۔ پھر فقہ کی کتب سے حرمتِ مصاہرت کے مسائل اٹھائیں اور میڈیا پر علماء ومفتیان کو شرمندہ کریں۔
شاہ ولی اللہؒ نے علماء کی مدافعت کرتے ہوئے قرآن کا فارسی میں ترجمہ کیا تھا مگر ان پر واجب القتل کے فتوے لگے ۔ جبکہ حضرت علیؓ نے اعلیٰ معیار کے تقویٰ، عدل اور توحید کا درس دیکر جن لوگوں کو تعلیم دی تھی وہ خوارج بن کر ایک مصیبت بن گئے تھے۔ حضرت علیؓ کا قول مشہور ہوا کہ’’ جس پر احسان کرو تو اسکے شر سے بھی بچو‘‘۔ آج امریکہ اور افغانیوں کی امداد پاکستان کے گلے میں آئی ہے۔ حضرت عثمانؓ کو خوارج نے ہی شہید کیا اور انہوں نے ہی حضرت علیؓ کو بھی شہید کیا۔ جزاء الاحسان الا حسان ’’ احسان کا بدلہ احسان ہی ہے‘‘۔ نبی ﷺ سے اللہ نے فرمایا فلا تمنن فتکثر ’’ اسلئے احسان نہ کرو کہ زیادہ بدلہ مل جائیگا‘‘۔ ایک انقلابی اپنی قوم پر اپنے افکار ، تعلیمات، نظریات اور طرزِ عمل اور تربیت کا احسان کرتا ہے تو امید ہوتی ہے کہ بہت اچھا بدلہ ملے گا اور اچھے نتائج نہ نکلیں تو مایوسی ہوتی ہے۔ قرآن میں ہے کہ حتی اذا استیئس الرسل وقالوا قد کذبوا ’’ اور یہانتک کہ جب رسول مایوس ہوگئے اور پکار اٹھے کہ ہمیں جھٹلادیا گیا ہے‘‘۔ مشن کی کامیابی کا یقین کرنے والے جب ڈھیٹ مخلوق اور زندہ لاشوں کو دیکھتے ہیں تو مایوس ہوجاتے ہیں۔ نبی اور انکے ساتھی چیخ اٹھے کہ متی نصراللہ ’’اللہ کی مدد کب آئے گی؟‘‘اس کی وجہ انسان کی تخلیق کی کمزوری ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو بندے کو اللہ کے سامنے چوتڑ اٹھاکر سجدہ ریز ہونے کے بجائے اپنی پوجا کرنا پڑتی،جو سیاسی ومذہبی لیڈر شپ اپنی بڑائی بیان کرتے ہیں وہ اپنی پونچھ پکڑنے کی دعوت دیتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے مردہ قوم میں زندگی کی روح پھونکی تو یہ بڑا معجزہ تھا۔ جن کی آنکھیں تھیں مگر دیکھنے کی صلاحیت سے محروم تھے ان کو بینائی کی دولت دیدی۔ہمارے رسول اللہﷺکی بدولت آنکھوں کے اندھوں، کانوں کے بہروں اور دلوں کے اندھوں کو شفاء مل گئی اور قرآن کا یہ معجزہ آج بھی برقرار ہے لیکن اسکا فائدہ نہیں اٹھایا جارہاہے۔ مولاناعبید اللہ سندھیؒ کی دعوت قبول کرکے قرآن کی طرف رجوع کیا جاتا اور مولوی کی فکر سے قرآن کو آزادی دلائی جاتی تو آج ہماری حالت بہتر ہوتی لیکن مولانا سندھیؒ خود بھی قرآن نہیں تقلید اور اجتہاد میں معلق تھے۔
قرآن میں مسافر کیلئے غسل کے بغیرہی حالت جنابت میں نماز پڑھنے کی اجازت واضح ہے مگراجازت اور حکم میں فرق ہے، نبیﷺ نے یہ فرق سمجھ کر حضرت عمرؓ و عمارؓ دونوں کی سفر کی حالت میں نماز چھوڑنے اور پڑھنے کی تائید کی ۔ حضرت اشعریؓ و حضرت ابن مسعودؓ کے درمیان مناظرہ ہوا جس کو صحیح بخاری میں نقل کیا گیا۔ حضرت شاہ ولی اللہ ؒ نے لکھا کہ’’ عجیب بات ہے کہ حضرت عمرؓ نے حضرت عمارؓ کی بات سن کر اپنے مؤقف سے رجوع کیوں نہ کیا؟ اور اس سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ پھر نبیﷺ نے حضرت عمرؓ سے خود کیوں نہیں کہاکہ تمہارا مؤقف غلط ہے‘‘۔ مشہور عالم مولانا مناظر احسن گیلانی نے اس کو نقل کیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نبیﷺ نے تو قرآن کے مطابق دونوں صحابہؓ کی تائید کی تھی البتہ حضرت شاہ ولی اللہ ؒ فقہ وحدیث کی کتابوں میں بھول بھلیوں کا شکار ہوئے اور یہی نہیں بلکہ لکھا ہے کہ قرآن میں وعدہ ہے کہ مؤمنین کو اللہ نے خلافت دینی تھی۔ عربی میں جمع کا اطلاق کم ازکم تین افراد پر ہوتا ہے، قرآن میں جمع کا صیغہ ہے۔ یہ وعدہ تین افراد حضرت ابوبکر، عمرؓ اور عثمانؓ کیساتھ پورا ہوا۔ علیؓ کی خلافت منتظمہ نہیں تھی اسلئے یہ وعدہ انکے ساتھ پورا نہ ہوا۔ یہ تحریر ’’ ازالۃ الخفا عن الخلفاء ‘‘ میں ہے۔ کیا یہ فرقہ وارانہ ذہنیت کیلئے تشفی تھی؟ اور کیا یہ قرآن کی درست تفسیر ہے؟۔
مولانا سندھیؒ نے شاہ ولی اللہؒ کی فکر میں ایک ترمیم کی اور وہ یہ کہ شاہ ولی اللہؒ نے کہا کہ خیرالقرون میں پہلا دور نبی ﷺ کا تھا اور پھر حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ ،پھر حضرت عثمانؓ کا۔ جبکہ مولانا سندھیؒ نے حضرت ابوبکرؓ کے دور کو بھی نبیﷺ کے دور میں شامل کیا جس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی پھر عمرؓ اور پھر عثمانؓ کا دور شمار کیا ہے اور لکھاہے کہ حضرت عمرؓ کے دور میں سرمایہ دارانہ نظام نے حفظ مراتب کے وظیفے مقرر کرکے جڑ پکڑ لی تھی لیکن مضبوط نہیں ہوا تھا۔ حضرت عثمانؓ کے دور میں شاہی اور سرمایہ دارانہ نظام مضبوط ہوا ، جس نے امیرمعاویہؓ کے دور میں مضبوط درخت کی صورت اختیار کی تھی۔ شاہ ولی اللہؒ اور مولانا سندھیؒ میں بیچ کا واسطہ حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ تھے جن کی کتاب ’’ بدعت کی حقیقت‘‘ میں صحابہؓ و تابعینؒ و تبع تابعینؒ کے ادوار خیرالقرون تھے ، چوتھی صدی ہجری میں تقلید کی بدعت ایجاد ہوئی اور اس کا شریعت میں جواز نہیں تھا جبکہ مولانا سندھیؒ امام ابوحنیفہؒ کی تقلید کو ہی انقلاب کا ذریعہ قرار دیتے تھے۔
امامت افراد کو نہیں قوموں کو ملتی ہے۔ مسلمانوں کو امامت مل گئی تو فاتح ترک بھی مسلمان بن گئے۔ آج امریکہ اور مغرب کی امامت ہے اوراُمت سرگردان ہے۔
قرآنی آیت سے نہ صرف شرعی پردے کی حقیقت واضح ہے بلکہ ماں ، باپ اور بھائی ، بہن کے الگ الگ گھروں کا تصور بھی ہے۔ اگر باپ کا الگ گھر ہو اور ماں کا الگ گھر ہو تو جب انکا انتقال ہوجائے پھر حقیقی وراثت کا معاملہ بھی اجاگر ہوگا۔
بچے جب چھوٹے ہوتے ہیں تو ان کی پرورش والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے اور والدین بوڑھے ہوجاتے ہیں تو بچے انکی دیکھ بھال اور پرورش کا ذمہ لیتے ہیں۔یہ ایک المیہ ہے کہ بیٹا بڑا ہوکر گھر بنائے۔ بوڑھے والدین کی خدمت کرے ، باپ کا انتقال ہوتا ہے تو بہنوئی کھڑا ہوکہ گھر والد کے نام پر ہے، گھر بار بیچ ڈالو! اور وراثت میں حصہ دو، نہیں تو عدالت کا سامنا کرو۔ جس گھر میں والدین نے اپنے بچوں کو زندگی میں رکھا ہو، وہ انہی کا ہوتا ہے۔ جن کارخانوں زمینوں سے بیٹے اور پوتے تک والدین کی زندگی میں پلتے ہوں وہ انہی کا ہے جن کو زندگی میں مالک بنایا گیا ہے ،فوت ہونے کے بعد بھی پوزیشن بدلتی نہیں ۔ ورثاء اس وقت جائیداد اور گھر وں پر لڑسکتے ہیں کہ جب والدین کے اپنے الگ الگ مکانات اور جائیدادیں ہوں۔
باغِ فدک کی وراثت حضرت فاطمہؓہی کو مل جاتی تو رسول اللہ ﷺ کے معمولات کو حضرت ابوبکرؓ برقرار نہیں رکھ سکتے تھے۔ جب خلافت کی مسند پر بنوامیہ کا حق تسلیم کیا گیا تو حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے وہ باغِ فدک سادات کو دیدیا تھا لیکن اسوقت سادات کی تعداد زیادہ اور باغ فدک سے کمائی ان کی کثرت کے مقابلہ میں کم تھی۔ نبیﷺ نے مزارعت کو ناجائز قرار دیا تو اولاد کو مزارعت کی کمائی کیسے کھلاتے؟۔
بچوں کی پرورش، رہائش، تعلیم کی ذمہ داری والد اور یتیم پوتوں کی ذمہ داری دادا پر ہوتی ہے۔ باپ اور دادا کی فوتگی پر پہلا حق زیر پرورش بچوں کا ہوتا ہے ۔ بدقسمتی سے فقہی بھول بھلیوں میں یتیم پوتوں کو بھی دادا کی میراث سے محروم کردیا گیا۔ جبکہ زندگی کی طرح فوت ہونے کے بعد بھی پہلا حق انہی یتیم پوتوں کا تھا۔ شادی شدہ بیٹی کی پرورش کی ذمہ داری اسکے شوہر پر عائد ہوتی ہے ۔ میراث کے حوالے سے جس طرح معاملہ گھمبیر بنادیا گیا یہی حال سُود کے معاملے پر بھی اختیار کیا گیا ہے

اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئر مین قبلہ ایاز کے خط کا جواب، از عتیق گیلانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اسلامی نظریاتی کونسل کے چےئرمین محترم المقام جناب قبلہ ایاز صاحب!
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ! جناب کا مراسلہ پڑھ کربہت خوشی ہوئی۔ کچھ بنیادی گزارشات خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں،اس اُمید کیساتھ کہ طبیعت پر ناگوار نہیں گزریں گی، میرے لئے آپ ذاتی طور پر بڑے احترام کے لائق ہیں۔
میرے خاندان کے بزرگوں کاسلسلہ علماء اور اولیاء اللہ کا رہا لیکن والد صاحب مرحوم نے مدرسہ کی تعلیم سے فرار کی راہ اسلئے اختیار کی تھی کہ اس زمانہ میں گھر گھر جاکر طلبہ کو روٹی سالن مانگنے کیلئے ندا بلند کرنی پڑتی تھی اور کم عمر طالبوں کو یہ کرناپڑتا تھا۔ والد صاحب کی جب باری آتی تو بھیک کی آواز بلند کرنے سے شرماتے اسلئے بھاگ جاتے ۔ پھر ہمارے خاندان سے یہ سلسلہ ٹوٹا۔علماء کی قدر ومنزلت تھی لیکن علماء بننے کو معیوب تصور کرنے لگے ، اسلئے کہ یہ پیشہ زیردست طبقے کا رہ گیا، پہلے علماء مذہبی خدمات کیساتھ طب وحکمت حاصل کرکے زیرِ دست نہیں رہا کرتے تھے بلکہ دنیاوی حیثیت میں بھی دوسروں سے ممتاز مقام رکھتے۔ میرے لئے والدین اور بھائیوں سے مدارس کی تعلیم کیلئے اجازت نہ ملنے میں بغاوت کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ تھا۔تبلیغی جماعت کے بزرگ حاجی عبدالوہاب سے رائیونڈ میں مشورہ لینے کی استدعا کی لیکن انہوں نے کہا کہ ’’ بھائی مجھ سے مشورہ نہ لینا‘‘۔ مولانا محمد یوسف لدھیانوی ؒ سے فتویٰ پوچھا کہ ’’ والدین میری خدمت کے محتاج نہیں مگر وہ مدرسے میں تعلیم کی اجازت نہیں دیتے، تو کیا اجازت کے بغیر دینی تعلیم حاصل کرسکتا ہوں‘‘۔ مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ نے فرمایا کہ ’’ میرا مشورہ ہے کہ ان کی بات مان لو،اسلئے کہ مدرسہ کی تعلیم فرض کفایہ ہے، آپ کے علاقے میں بھی اتنے علماء ومفتیان ہیں کہ لوگوں کی شرعی مسائل میں رہنمائی کرسکتے ہیں، آپ پر یہ کوئی فرض نہیں‘‘۔ میں نے عرض کیا کہ میں نے مشورہ نہیں فتویٰ مانگا۔ جس پر انہوں نے قدرے ناگواری میں فرمایا کہ والدین کو آپ کی خدمت کی ضرورت نہ ہو تو آپ مدرسے میں دینی تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ مجھے اس وقت بڑا تعجب ہوا کہ جب مولانا یوسف لدھیانوی سے یہ سنا کہ قرآن کے مصحف پر ہاتھ رکھنے سے حلف نہیں ہوتا اسلئے کہ مصحف کی صورت میں کتاب قرآن اور اللہ کا کلام نہیں اور پھر اس سے بڑا تعجب اس بات پر ہوا کہ اگلے مہینے جب بنوری ٹاؤن میں داخلہ لیا تو پتہ چلا کہ مولانا عبدالسمیع صاحب کو بھی اس حقیقت کا قطعی طور پر کوئی ادراک نہیں تھا۔
میری خوش قسمتی تھی کہ درسِ نظامی کی تعلیم کا موقع ملا ۔ مولانا ابوالکلام آزادؒ نے لکھا کہ ’’ اگر اصولِ فقہ کی تعلیم پر کسی عقل والے کی نظر پڑگئی تو یہ سب بکھر کر رہ جائیگا اسلئے کہ اس میں تضادات اور واضح غلطیاں ہیں‘‘۔ ایک موقع پر فرمایا کہ ’’ علماء کو شکایت ہے کہ علماء میں استعداد اور صلاحیت نہ رہی ۔ حالانکہ مدارس کا نصابِ تعلیم ہی علماء کو کوڑھ دماغ بنانے کیلئے کافی ہے۔ پہلے اسلام کے عروج کا دور تھا پھر چھٹی ہجری میں انتہائی علمی انحطاط کا دور آیا تو ساتویں صدی ہجری میں زوال کی انتہاء تک پہنچنے والوں نے عجیب وغریب کتابیں لکھیں۔ مغلق عبارات، مختصر سے مختصر الفاظ میں ایسے جملے لکھنے کو کمال سمجھا گیا کہ صاحبِ کتاب نے خود بھی اپنی کتابوں کی ایک سے زائد شرحیں لکھ ڈالیں جب اس دور کی کتابوں کو نصاب تعلیم بنایا گیا تو اس سے علمی قابلیت پیدا نہیں ہوسکتی ‘‘۔مولانا آزادؒ جب بھارت کے وزیرِ تعلیم تھے تو بھی مدارس کے اربابِ اختیار سے کھلی کھلی باتیں کی تھیں جو ریکارڈ پر ہیں لیکن مدارس کے اربابِ اختیار کے پلے کچھ بھی نہیں پڑا تھا۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی کی تقریر بھی ہفت روزہ ضربِ مؤمن کراچی کی زینت بنی تھی۔ جس میں انہوں نے اپنے والد مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحبؒ کی پرانی تقریر کا حوالہ دیدیا کہ ’’30 سال سے ہمارے مدارس بانجھ ہیں۔ علامہ پیدا ہورہے ہیں، مولانا پیدا ہورہے ہیں لیکن مولوی پیدا نہیں ہورہا ہے۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ کو لوگ مولانا نہیں مولوی کہتے تھے لیکن ان کے پاس علم تھا، القاب نہیں تھے، آج القاب ہیں مگر علم نہیں ہے‘‘۔
شیخ الہند کے مولانا عبیداللہ سندھیؒ ، مولانا اشرف علی تھانویؒ ، مولانا الیاسؒ ، مفتی کفایت اللہؒ ، مولانا حسین احمد مدنیؒ ، علامہ شبیراحمد عثمانیؒ اور مولانا انور شاہ کشمیریؒ جیسے شاگرد تھے۔ مولانا ابوالکلام آزادؒ براہِ اراست انکے شاگرد نہ تھے لیکن امام الہندؒ کے لقب سے انہوں نے ہی نوازا تھا۔ علامہ انور شاہ کشمیریؒ کا تعلق سیاست نہیں خالص مذہبی ماحول و مدرسہ سے تھا۔ مفتی محمد شفیعؒ نے لکھا کہ ’’ مولانا انورشاہ کشمیریؒ نے آخری عمر میں کہا کہ ساری زندگی قرآن وحدیث کی خدمت کرنے کے بجائے مسلکوں کی وکالت میں ہی ضائع کردی ‘‘۔ شیخ الہندؒ نے کئی عشروں تک درسِ نظامی کی تدریس وتعلیم کی لیکن جب مالٹا میں قید ہوگئے تو قرآن کی طرف توجہ گئی اور پھر ان کی فکروسوچ میں واضح تبدیلی آئی۔ اُمت کے زوال کے دو اسباب بتائے ، قرآن سے دوری اور فرقہ واریت۔ مفتی محمد شفیعؒ نے لکھا کہ ’’شیخ الہندؒ نے دو اسباب کا ذکر کیا لیکن یہ درحقیقت ایک ہی سبب ہے اور وہ قرآن سے دوری ہے، فرقہ واریت بھی اسی وجہ سے پیدا ہوئی‘‘۔ شیخ الہندؒ کے خیالات میں جو تبدیلی آئی وہ درسِ نظامی کو ترک کرکے قرآن کی طرف رجوع تھا۔جس پر مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے بڑا کام بھی کیا لیکن وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ درسِ نظامی کے مذہبی طبقے پر گمراہی کی مہریں لگ چکی ہیں اور وہ ہدایت کی طرف رجوع کرنیوالے نہیں ۔ مولانا انور شاہ کشمیریؒ نے آخری عمر میں انکی بات سمجھ تو لی مگرعملی طورپر کچھ نہ ہو سکا۔
شیخ الہند کی مالٹا کی قید سے پہلے رائے یہ تھی کہ ’’ اب اصلاح کی کوئی اُمید نہیں، بگاڑ بڑھتا جائیگا، یہانتک کہ خراسان سے مہدی نکلے گا تو انکے ذریعے اصلاح ہوگی، وہ اپنی روحانی قوت سے پوری دنیا کو بدلے گا، اب چھوٹی بڑی اصلاح کی کوئی تحریک کارگرنہیں‘‘۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ نے شیخ الہندؒ کایہ قول نقل کیا اور اسی پر ڈٹے رہے‘‘۔مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی کی یہ تقریر بھی میڈیا میں شائع ہوئی کہ ’’ ہم اچھے برے، صحیح وغلط اور حلال وحرام کی تمیزسے عاری ہیں، یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ کس کی رائے حق اور کس کی باطل ہے لیکن امام مہدی آئیں گے تو ان کا ہر قول صحیح اور حق ہوگا اور ان کے مخالفین کی ہر بات غلط اور باطل ہوگی۔یہ مدارس کے علماء اور طلبہ امام مہدی کیلئے لشکر تیارہورہے ہیں‘‘۔ صوابی میں پنچ پیر کے مقابلے میں شاہ منصور کے مولانا عبدالہادی نے طلبہ سے پوچھا تھا کہ امام مہدی کا مقابلہ کس سے ہوگا؟، طلبہ نے کہا کہ روس سے! مولانا نے کہا کہ جواب درست نہیں۔ طلبہ نے کہا کہ امریکہ سے۔ مولانا نے کہا نہیں بلکہ مدارس کے علماء نے اسلام کو مسخ کررکھاہے، انکے خلاف وہ جہاد کریں گے۔ مولانا سید بوالاعلیٰ مودودی نے اپنی کتاب ’’ احیائے دین‘‘ میں لکھاہے کہ ’’ میرے نزدیک امام مہدی کی ساخت پرداخت وہ نہیں ہوگی جس مذہبی لبادے کو دیکھنے اور تاڑنے کی امید کی جارہی ہے بلکہ وہ تمام جدیدوں سے بڑھ کر جدید ہوگا بلکہ ان کی جدتوں سے گھبرا کر مولوی اور صوفی صاحبان ہی سب سے پہلے ان کے خلاف شورش برپا کرینگے‘‘۔ مولانا سندھیؒ نے شیخ الہندؒ کے مالٹا کی قید سے رہائی کے بعد کا مؤقف اپنایا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ ’’ جو اپنے استاذ کی بات نہیں مانتے تو وہ امام مہدی نہیں بلکہ مخالفین کیساتھ ہونگے‘‘۔ بہرحال یہ یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ شیخ الہندؒ کا پہلا مؤقف درسِ نظامی کی تعلیم کو سامنے رکھتے ہوئے درست تھا اسلئے کہ اس سے نااہل لوگوں نے ہی پیدا ہونا تھا۔ لیکن یہ انتہائی گمراہ کن بھی تھا اسلئے کہ ایسی روحانی شخصیت تو حضرت آدم علیہ السلام سے نبی آخر زمان خاتم الانبیاء والمرسلین حضرت محمدﷺ تک بھی کوئی نہیں جواپنی روحانی قوت کے بل بوتے پر دنیاوی اور روحانی انقلاب برپا کرسکیں۔شیعہ بھی اسی وجہ سے گمراہ ہوگئے تھے۔
مرزا غلام احمد قادیانی کے پیروکاروں کو اس وجہ سے پذیرائی مل رہی ہے اور دنیا میں بڑھتے جارہے ہیں اور ان کی گمراہی بھی شیخ الہندؒ کے اس قول کے مقابلے میں زیادہ نہیں اسلئے کہ امام مہدی کے بارے میں ایسا عقیدہ تمام انبیاء کرامؑ سے زیادہ حیثیت دینے کے مترادف ہے۔ مرزا غلام ا حمدقادیانی نے تو ظلی نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ یہ اصلی نبوت سے بھی بڑھ کر ہے۔مرزا غلام احمد کے پیروکار اسلئے بڑھ رہے ہیں کہ مفتیان اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع اور مفتی رفیع عثمانی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور مرزا غلام احمد قادیانی کے درمیان شجرۂ نسب کا موازنہ لکھ دیا کہ دونوں شخصیات الگ الگ ہیں جبکہ قادیانی کہتے ہیں کہ قرآن کی رو سے حضرت عیسیٰ ؑ فوت ہوچکے ہیں اور احادیث میں حضرت عیسیٰ اور مہدی سے مراد ایک ہی شخصیت کے دونام ہیں جس کی حیثیت مثیل کی ہے جیسے مشہور مقولہ ہے کہ’’ ہرفرعون کیلئے موسیٰ ہوتا ہے‘‘۔حالانکہ مرزا غلام احمد قادیانی ایک مولوی اور صوفی تھا اور اگر انگریز اس کی حمایت کرنے کے بجائے اس کومالٹا کی جیل میں ڈال دیتے تووہ بھی شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ کی طرح درسِ نظامی کی باطل تعلیمات سے قرآن کی طرف رجوع کرتا ۔ انگریز اسکو قیدکیوں کرتا؟ اقبال نے اسکو مجذوب فرنگی کہا :
قوموں کی حیات ان کے تخیل پہ ہے موقوف
یہ ذوق سکھاتا ہے ادب مرغِ چمن کو
مجذوب فرنگی نے بہ اندازِ فرنگی
مہدی کے تخیل سے کیا زندہ وطن کو
اے وہ کہ تو مہدی کے تخیل سے ہے بیزار
نومید نہ کر آہوئے مشکیں سے ختن کو


مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے شیخ الہند کی طرف سے اپنائے جانے والے آخری مؤقف کو اپنا مشن بنالیا تھا مگر علماء نے ان کی فکر کو قبول نہیں کیا۔قرآن کی سورۂ فاتحہ میں صراط مستقیم کی ہدایت طلب کرنے کی دعا ہے اور سورۂ بقرہ میں قرآن کو بلاشبہ کہہ کر متقین کیلئے ہدایت کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ اہل تشیع کا عقیدہ ہے کہ امام مھدی گوشۂ غیب سے نکل کر امت مسلمہ میں قرآن کی اصلی تعلیمات عام کرینگے اور سنی مکتبۂ فکر کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن ہی کے ذریعے سے نہ صرف امام مہدی پیدا ہونگے بلکہ مسلم اُمہ کیلئے بھی قرآن رشدو ہدایت کا ذریعہ ہے۔تبلیغی جماعت کے بانی مولانا الیاسؒ نے مدارس کے فقہی مسائل کو چھوڑ کر عوامی سطح پر ایک زبردست تحریک برپا کردی لیکن تبلیغی جماعت سے متاثر ہونے والے طبقے نے خانقاہوں اور مدارس کو ہی اپنا منبع بنالیا ہے۔ مدارس کے نصاب میں غلطیوں اور فکری اختلاف کے سبب کوئی درست فکر وجود میں نہیں آسکتی۔
سورۂ البقرہ کی ابتداء الم O ذٰلک الکتٰب لاریب فیہ O ہدی للمتقین الذین یؤمنون بالغیب Oویقیمون الصلوۃ وممارزقنٰھم ینففقون Oوالذین ےؤمنون بماانزل الیک وماانزل من قبلکO وبالاخرۃ ھم ےؤقنونOاولئک علی ھدی من ربھم واولئک ھم المفلحونOان الذین کفروا سواء علیھم أأ نذرتھم أم لم تنذرھم لایؤمنونOختم اللہ علی قلوبھم وعلی سمعھم وعلی ابصارھم غشٰوۃ ولھم عذاب الیمO سے کوئی بات درست فکر و عمل کی بنیاد علماء نے نہیں بنائی ۔
المOبیضاوی شریف درسِ نظامی کی آخری تفسیر ہے۔ لکھاہے کہ الف لام میم سے مراد اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ اور یہ بھی کہا گیا کہ الف سے اللہ، لام سے جبریل اور میم سے مراد حضرت محمد ﷺ ہیں اور مطلب یہ ہے کہ اللہ نے جبریل کے ذریعے محمدﷺ پر یہ کتاب نازل کی ۔ میں انوار القرآن آدم ٹاؤن کراچی مولانا درخواستی ؒ کے مدرسے میں موقوف علیہ میں پڑھ رہا تھا ، مولانا شبیراحمد ہمارے استاذ تھے ۔ میں نے سبق کے دوران اعتراض کیا کہ یہ تضادات اور غلطیوں کا مجموعہ ہے۔ اسلئے کہ جب اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا کہ الم سے مراد کیا ہے تو یہ کہنا غلط ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے جبریل کے ذریعہ یہ کلام حضرت محمد ﷺ پر نازل کیا۔ پھر الف جیم میم ہونا چاہیے تھا اسلئے کہ اللہ کا پہلا حرف الف، جبریل کا جیم ہے نہ کہ لام ۔ استاذ نے کہا کہ عتیق کی بات درست ہے، تفسیر بیضاوی نے غلط لکھا ۔ اساتذہ نے میری بڑی حوصلہ افزائی کی۔
ذلک الکتٰب ’’یہ وہ کتاب ہے ‘‘۔ اصول فقہ میں ہے کہ کتاب سے مراد لکھی ہوئی کتاب نہیں ۔ کیونکہ لکھے ہوئے محض نقش ہیں جونہ لفظ ہیں اور نہ معنی۔ فقہ کا مسئلہ ہے کہ ’’ قرآن کے مصحف پر ہاتھ رکھنے سے حلف نہیں، البتہ الفاظ میں کلام اللہ کہنے پر حلف ہے‘‘۔ اسکے نتیجے میں صاحب ہدایہ، علامہ شامی، فتاویٰ قاضی خان ، مفتی تقی عثمانی اور مفتی سعید خان نے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کے جواز کی بات لکھ ڈالی۔ ک سے کتاب اور B سے BOOKپڑھنے والے بچے کو یہ پتہ چلتا ہے کہ کتاب کیا ہے لیکن کوڑھ دماغ علماء نہیں جانتے کہ کس طرح وہ یہ پڑھتے اور پڑھاتے ہیں کہ ’’ کتاب کی تعریف یہ ہے کہ مصاحف میں جو لکھا ہوا ہے مگر لکھے ہوئے سے مراد لکھا ہوا نہیں اسلئے کہ لکھائی محض نقش ہے الفاظ ومعانی نہیں‘‘۔ حالانکہ قرآن میں کتابت سے ہی کتاب بنتی ہے اور اس کی ڈھیر ساری آیات کے علاوہ فطرت وعقل میں بھی وضاحت ہے ۔ یہ کم عقلی صرف علماء تک محدود نہیں بلکہ زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے مرکزی جنرل سیکریٹری اوروائس چانسلر اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد نے بھی یہ سمجھاتھا لیکن ضعیف العمری میں بھی ان کو حقیقت سمجھ میں آگئی کہ کتاب اورل نہیں کتابت اور پڑھی جانے والی چیزہے ۔
لاریب فیہ’’ اس میں کوئی شک نہیں‘‘کتاب کی تعریف کا دوسرا جملہ ہے کہ جو متواتر طور پر نقل کیا گیا نبیﷺ سے اور اس قید سے غیرمتواتر آیات خبر مشہور و احاد نکل گئیں۔ حالانکہ قرآن میں متواتر اور غیر متواتر کے عقیدے سے بڑا گمراہانہ عقیدہ اور کیاہے؟۔ اصول فقہ میں یہ وضاحت بھی ہے کہ امام شافعیؒ کے نزدیک خبر واحد کی احادیث قابل استدلال ہیں جبکہ قرآن کے باہر قرآن کی آیات کا اعتقاد کافرانہ ہے لیکن احناف کے نزدیک قرآن سے باہر کی آیات بھی قرآن کا حصہ ہیں جس سے قرآن کی صحت پر اعتماد نہیں رہتا ہے۔ قرآن کی تعریف میں اصولِ فقہ کا تیسرا جملہ بلاشبہ کا ہے اور لکھا ہے کہ اس بلاشبہ کی قید سے بسم اللہ نکل گئی اسلئے کہ صحیح بات یہ ہے کہ بسم اللہ قرآن کا حصہ ہے لیکن بسم اللہ میں شک ہے اور یہ شک اتنا قوی ہے کہ اس کی وجہ سے اسکے انکار سے کوئی کافر نہیں بنتا ہے۔(اٖصول فقہ کی کتابیں : نور الانوار ، توضیح تلویح)
ہدیً للمتقین ہدایت ہے متقیوں کیلئے مگر علماء کے نزدیک یہ محض بات کی حد تک ہے ورنہ قرآن صرف امام مہدی کیلئے ہدایت ہے۔
الذین یؤمنون بالغیب علماء کا غیب پر ایمان برائے نام ہے اسلئے علامہ اقبالؒ نے لکھ دیا کہ ’’جو تجھے حاضر وموجود سے بیزار کرے‘‘
ویقیمون الصلوٰۃ علماء تنخواہ کے بغیر نمازکی امامت نہیں کرتے مگراقتدار ملتا ہے تو بے نمازیوں کو سزا دیتے ہیں۔ امام مالکؒ وامام شافعیؒ کے مسلکوں میں بے نمازی کو قتل کرنے پر اتفاق ہے مگر ایک کے نزدیک نماز قضاء کرنے پر آدمی مرتد بنتا ہے اور دوسرے کے نزدیک نماز کا نہ پڑھنے کی سزا قتل ہے۔ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک اس کی سزا زدوکوب اور قید کرنے کی ہے۔ مولانا محمد خان شیرانی اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین تھے تو میری ان سے بھی ملاقاتیں رہی ہیں، انکا کہنا تھا کہ طلاق کے مسئلے پر آپ کا مطالعہ ہے اسلئے میں بات نہیں کرونگا ، نماز پر بات کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ کا تعلق جمعیت علماء اسلام سے ہے کل کو آپ اقتدار میں آئیں تو بے نمازی کو کیا سزا دینگے؟۔ فقہ میں جو اختلافات ہیں اگر قرآن وسنت میں کوئی سزا ہوتی تو کوئی اختلاف ہوتا؟، کیا سزا کے خوف سے نماز پڑھنے والے کی نماز ہوگی؟۔کہنے لگے کہ میرا مقصد نماز کے فضائل پر بات تھی۔ میں نے کہا کہ نماز کے فضائل پر بات کرنے کے بجائے تبلیغی جماعت میں چلہ لگایا جائے ،غزوہ خندق میں نبیﷺ اور صحابہؓ سے نمازیں قضاء ہوگئیں ،تبلیغی جماعت میں صحابہؓ چلہ لگاتے تو نبیﷺ کو وہ خندق کھودنے کیلئے تنہا چھوڑ دیتے لیکن نماز باجماعت نہ چھوڑتے۔ مولانا شیرانی نے کہا کہ یہ درست ہے کسی اور موضوع پر بات کرلیتے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ افغانستان کے طالبان نے جو شریعت نافذ کی تھی ،مولانا فضل الرحمن نے بھی زبردستی داڑھی رکھوانے کو جائز قرار دیا تھا جبکہ جمعیت علماء اسلام کا ترجمان جان اچکزئی کو مقرر کیا، جو مونچھ داڑھی اور سرکے بالوں کو روزانہ کی بنیاد پر صاف کرتا ہے۔ مولانا شیرانی نے کہا کہ اس بات سے میں اتفاق کرتا ہوں ، مولانا کی غلطی تھی۔مولانا عطاء الرحمن نے کہا کہ اب مولانا پر تنقید کردی۔ مولانا شیرانی، مولانا عطاء الرحمن اور قاری عثمان ریاست کے نمک خوار ہوکر پاکستان کو سخت تنقید کا نشانہ بنارہے تھے، مجھ سے پوچھ لیا تو میں نے درسِ نظامی میں قرآن کی عجیب وغریب تعریف کا حوالہ دیکر کہا کہ اسکے بارے میں کیا خیال ہے؟۔ جس پر مولانا عطاء الرحمن نے کہا کہ ’’بھوکے کو روٹی نہیں مل رہی تھی اور کسی نے کہا کہ پھر وہ پراٹھے کیوں نہیں کھاتا؟۔ ہم پاکستان کی بات کررہے تھے اور یہ اپنے مطلب کی بات لے آیا‘‘۔ مولوی اتنے کوڑھ دماغ ہیں کہ مولانا ابوالکلام آزادؒ کوآئیڈیل قرار دینے کے باوجودمولانا فضل الرحمن کے بھائی مولانا عطاء الرحمن میری داڑھی پر سوال اٹھارہے تھے اور جان اچکزئی کا حوالہ دینے پر مولانا فضل الرحمن کو بے جا تنقید کا نشانہ سمجھ لیا۔
مولانا عطاء الرحمن نے راہِ فرار اختیار کرنے میں عافیت جانی ،مولانا شیرانی سے گفتگو کا سلسلہ جاری رہا۔ مولانا شیرانی نے پھر نماز کو چھوڑ کر معاشی نظام پر بات کرنے کی دعوت دے ڈالی۔ میں نے عرض کیا کہ یہ بھی اچھی بات ہے لیکن کس طرح سے عقلی بنیادوں پر سود کے مسائل سمجھائے جاسکتے ہیں کہ اخروٹ وغیرہ وزن کے بدلے وزن میں سود مگر گنتی میں سود نہ ہوں اور وہ بھی نقد میں؟۔ مولانا شیرانی نے آخر کار ایک لمبے چوڑے فلسفے کی کہانی شروع کردی جس میں سوال جواب کا کوئی موقع نہ تھا، جاہل علماء کو اسی سے وہ مرعوب کرتے ہونگے لیکن ہم نے زیبِ داستان کیلئے قصہ گوئی کی جان سے روح نکال دی تھی۔ یہ معروضات اسلئے پیش کررہا ہوں کہ محترم قبلہ ایاز صاحب! اسلامی نظریاتی کونسل کے ریسرچ ڈائریکٹرمولانا مفتی ڈاکٹر انعام اللہ کو پہلے بھی میں اپنی کتاب ’’ ابرِ رحمت‘‘ دے چکا ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ اور مولانا شیرانی کی فکر ذرا ہٹ کے ہے۔ یہ مولوی اور اسلامی نظریاتی کونسل کے معزز ارکان حقائق سے نابلد ہیں۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ نے زندگی کا بڑا قیمتی وقت درسِ نظامی کی تعلیم میں گزار دیا ،حالانکہ انکے والد ذوالفقار علی صاحب ایک بڑے سرکاری افسر تھے لیکن ان کی آنکھیں مالٹا کی قید میں ہی کھل سکی تھیں۔ محترم جناب قبلہ صاحب ! آپ اس جرم میں شریک نہیں رہے ہیں اسلئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو کونسل کی چیئرمینی کا اعزاز ایک ایسے وقت میں بخشا کہ جب مولوی ریاست کی ضرورت نہ رہا بلکہ ریاست اب اس کی جہالت اور جذباتیت سے ہوا نکالنے کے سوفیصدموڈ میں نظر آرہی ہے۔
ومما رزقنٰھم ینفقون’’ اور جو ہم نے ان کو رزق دیا ہے ،اس میں سے خرچ کرتے ہیں‘‘۔ مولوی سمجھتا ہے کہ یہ میرامسئلہ نہیں۔ہوسکتا ہے کہ غریب مولوی پھر بھی خرچ کی غیرت رکھتا ہو ،مگر امیر مولوی تو دنیا کے امیرترین افراد میں شامل ہوں تب زکوٰۃ کا خود کو مستحق سمجھتاہے ۔
والذین یؤمنون بماانزل الیک ومانزل من قبلک وباالاخرۃ ھم یؤقنون ’’اور جو ایمان رکھتے ہیں اس پرجو آپکی طرف نازل کیا گیا اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا اور جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں‘‘۔ اللہ کے نازل کردہ واضح احکام پر فقہی مسائل مرتب نہیں اسلئے نبی ﷺ کی طرف نازل کردہ آیات اور سابقہ آیات پر انکے ایمان کا سوال پیدا نہیں ہوتاہے۔ آخرت کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دیتے ہیں۔ سورۂ احزاب میں نبی ﷺ سے فرمایا: کہ کافروں اور منافقوں کی اتباع نہ کریں ، جو آپ کی طرف نازل کیا گیا اس کی اتباع کریں۔ سابقہ قوموں کے نقشِ قدم پر چل کر یہ امت بھی عملی طور پر قرآنی احکام کے اتباع سے بالکل محروم ہوکر رہ گئی ہے۔ نام کے مسلمان ہیں اور کام کے جن کو دیکھ کر شرمائے یہود ۔ سورۂمائدہ میں توراۃ کے حوالے سے علماء و مشائخ کیلئے دین کی حفاظت کی ذمہ داری کا ذکر ہے اور تھوڑے بھاؤ کے بدلے اللہ کی آیات کو بیچنے اور اللہ کے مقابلے میں لوگوں سے ڈرنے پر یہ حکم لگایا گیا کہ ’’ جو اللہ کے نازل کردہ پر فیصلہ نہیں کرتے تو وہ لوگ کافر ہیں‘‘۔ اس کفر کے فتوے کا اطلاق علماء ومشائخ پر اسلئے ہوتا ہے کہ انکے فتویٰ سے دین بدل جاتا ہے۔ پھر حکمرانوں کو ظالم قرار دیا گیا ہے اسلئے کہ جان کے بدلے جان، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت اور زخموں کابدلہ قصاص ہے اور اسکا تعلق حکمرانوں سے ہے اور اللہ کے نازل کردہ پر فیصلہ نہ کرنے والوں کو ظالم قرار دیا گیا اور پھر اہل انجیل سے عوام الناس کا ذکر ہے جو نہ علماء ومشائخ تھے اور نہ حکمران۔ عوام کیلئے دونوں طبقے سے نرم فتویٰ ہے ان کو اللہ کے حکم پر فیصلہ نہ کرنے پر فاسق قرار دیا گیا ہے۔ میں نے غالباً 1993ء میں کتابچہ ’’ پاکستان کی سرزمین سے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز‘‘ لکھا۔ جس کی تمام مکاتبِ فکر کے اکابر علماء نے تائید کی تھی اور اس میں سورۂ مائدہ کی ان آیات کی یہ وضاحت ہے۔ مولانا فضل الرحمن اورقاضٰی فضل اللہ پہلی مرتبہ ہمارے گھر آئے تو مولانافضل نے قاضی فضل سے کہا کہ یہ ہم سے بڑے انقلابی ہیں مگرتھوڑے جذباتی ہیں۔ قاضی فضل نے ایک رسالہ پڑھنے کے بعد مولانا صالح شاہ قریشی سے کہا تھا کہ ’’ یہ جمعیت میں شامل ہوں توہماری جماعت بھی انقلابی بن جائے گی ‘‘لیکن میں نے معذرت کی تھی کہ مجھ جیسے بہت اس جماعت میں تنکے کی طرح بہہ چکے ہیں،معاف کیجئے گا۔
اولئک علی ھدیً من ربھم واولئک ھم المفلحون ’’ یہی لوگ انکے ربّ کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں‘‘۔ کیا یہ لوگ خودکواللہ کی طرف سے ہدایت پر سمجھ سکتے ہیں ؟اور کیا یہ فلاح پانیوالے ہیں؟۔ انہوں نے مذہب کے نام پر اپنی دنیا آباد اور آخرت برباد کرکے رکھ دی ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو غور کرنے کی ضرورت ہے کہ انہوں نے کفر کا راستہ تو اختیار نہیں کیا؟ ۔اور کہیں ان کے دلوں اور کانوں پر مہریں تو نہیں لگ چکی ہیں اور کہیں ان کی آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے تو نہیں؟۔ذرا سوچنے کی سخت ضرورت ہے۔
ان الذین کفروا سواء علیھم أأ نذرتھم ام لم تنذھم لایؤمنونOختم اللہ علی قلوبھم وعلی سمعھم و علی ابصارھم غشٰوۃ ولھم عذاب الیم ’’ بیشک جن لوگوں نے کفر کیا ، برابر ہے کہ ان کو آپ ڈرائیں یا نہ ڈرائیں یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ ان کے دلوں اور کانوں پر اللہ نے مہریں لگادی ہیں اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اور ان کیلئے درد ناک عذاب ہے‘‘۔ قرآن میں رسولوں کے ذریعے اتمامِ حجت اور عذاب کا فیصلہ کرنے کی وضاحت ہے۔ وماکنا معذبین حتی نبعث رسولاً ’’ اور ہم کسی قوم کو عذاب نہیں دیتے یہاں تک کہ کسی رسول کو مبعوث نہ کرلیں‘‘۔ شاہ اسماعیل شہیدؒ نے اپنی کتاب ’’ منصبِ امامت‘‘ میں لکھ دیا ہے کہ قوموں پر اتمامِ حجت جسطرح رسولوں کے ذریعے سے ہوتی ہے، اسی طرح ان کے نائبین اماموں کے ذریعے بھی ہوتی ہے۔علماء کرام مولانا عبیداللہ سندھیؒ کی بات مان لیتے تو بھی مولانا انورشاہ کشمیریؒ کو آخری دور میں یہ کہنا نہ پڑتا کہ زندگی ضائع کردی ۔ وہ توپھر بھی بھلے انسان تھے کہ آخر میں سہی مگر آنکھیں کھل گئیں ، بڑا افسوس تو ان لوگوں پر ہے جن کو تسلسل کیساتھ کھلے ڈھلے انداز میں درسِ نظامی کی خرابیاں بتائی جارہی ہیں لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہورہے ہیں۔
غسل اور وضو کے فرائض کی ایجادات سے لیکر معاشیات تک ایک ایک چیز کا درسِ نظامی کے نصابِ تعلیم نے بیڑہ غرق کر رکھاہے۔ محترم قبلہ ایاز صاحب! پہلی فرصت میں نہ صرف مسئلہ طلاق بلکہ تمام نظریاتی مسائل کی اصلاح کیلئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو زبردست موقع عنایت فرمایا ہے ۔ مجھے امید ہے کہ آپ کے ذریعے سے اسلامی نظریاتی کونسل نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام کے گھمبیر مسائل کے حل کیلئے بھی بہت بڑی بنیاد بنے گی۔ مدارس کے قابل اساتذہ کرام بھی معاشی کمزوری کے سبب اس طرف توجہ نہیں دے پارہے ہیں، حالانکہ وہ ہل چکے ہیں۔
حنفی مسلک میں احادیث صحیحہ کی اسلئے تردید ہے کہ ان کی نظر میں احادیث آیات سے متصادم ہیں،تو فقہی جزیات میں تقلید کی گنجائش کیا ہوگی؟۔ احادیث صحیحہ کی تقلید نہیں تردید کی تعلیم ہوتو تقلید کہاں جائز ہوسکتی ہے؟۔ شاہ ولی اللہؒ نے فک النظام(نظام کو تلپٹ کردو) کی تعلیم کا درس مذہبی طبقے کی تقلیدی روش کیخلاف ہی دیا مگر علماء میں یہ صلاحیت ہی نہ تھی اسلئے مولانا احمد رضاخان بریلوی نے ایک فتوے سے اکابرین دیوبند کو الٹے پاؤں ہنکانے پر مجبور کردیا تھا۔ یہ اچھا بھی ہوا ، ورنہ الٹے سیدھے اجتہادات سے کم عقل طبقات اُمت مسلمہ کا مزید بیڑہ غرق کردیتے۔
تین طلاق کا مسئلہ بڑے پیمانے پر علماء ومفتیان کو سمجھ آیا لیکن اسکے باوجود ہٹ دھرمی کو انہوں نے اپنا شعار بنایا۔ اسلام دین ہے ، مذہبی طبقات نے اس کومسالک و مذاہب اور فرقوں میں تقسیم کررکھا ہے۔ رسول اللہ ﷺ قیامت کے دن امت کی اللہ کی بارگاہ میں شکایت فرمائیں گے وقال الرسول یاربّ ان قومی اتخذوا ہذا القرآن مھجورا ’’ اے میرے رب میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا‘‘۔
محترم قبلہ ایاز صاحب! اللہ نے آپ کو اچھے وقت پر اسلام، قوم اور سلطنت کی خدمت کا موقع دیا ۔اسکا فائدہ اٹھاتے ہوئے درسِ نظامی سے قابل علماء اور اہل مفتیوں کی جان چھڑانے کا وقت آگیا، یہ صرف معاش کا مسئلہ ہے ۔ نوجوان لاکھوں کی تعداد میں درسِ نظامی کی نذر ہورہے ہیں۔ کچھ تو وہ ہیں جن کا یہ ذریعہ معاش ہے۔ مفتی عدنان کاکا خیل کیلئے ماسٹرسے اتنی عزت ، شہرت اور دولت کا وسیلہ نہ تھا ،جتنا اس نظام سے ہی وابستگی میں ان کیلئے وسیع مواقع ہیں۔ ڈاکٹر خالد محمود سومرو MBBSسے زیادہ مولانا خالد محمود کے اندر فائدہ دیکھ رہا تھا۔ ڈاکٹر اسرار مرحوم، مولانا سیدابولاعلیٰ مودودیؒ اور جاوید احمدغامدی کو جو مقام دین کی وجہ سے ملا ، وہ کبھی دنیاوی تعلیم کی وجہ سے نہیں پاسکتے تھے مگر دین کی تعلیم اور مذہبی لوگوں کا حقائق کی طرف رحجان موڑنے میں کسی کی محنت کارگر ثابت نہیں ہوئی۔ ان لوگوں نے درسِ نظامی کی فکر کو سلیس انداز میں قوم کے سامنے پیش کرکے مذہبی رحجان رکھنے والوں کا مزید بیڑہ غرق کردیا۔ اور اپنی طرف سے گمراہانہ سوچ کو غلام احمد پرویز وغیرہ نے پروان چڑھاکر درسِ نظامی کے فارغ التحصیل لوگوں سے بھی گمراہی میں سبقت حاصل کرلی ہے۔ایسے میں اسلامی نظریاتی کونسل سے آپ کی سرپرستی میں ایک مثبت فکر کو کھلے ڈھلے انداز میں پروان چڑھایا جائے تو یہ آپ اور ہم سب کیلئے دنیا وآخرت کی سرخروئی کا باعث بنے گی۔
محترم قبلہ صاحب! اصولِ فقہ میں لکھا ہے کہ ’’ پہلا اصول اللہ کی کتاب ہے،یہاں قرآن سے مراد صرف پانچ سو آیات ہیں، باقی قرآنی آیات قصے اور مواعظ ہیں اسلئے اصول فقہ میں زیربحث نہیں ہیں‘‘۔اگر نکاح، طلاق، غسل ، وضو اور دیگر عنوان سے قرآنی آیات لکھ دئیے جاتے تو بات سے بتنگڑ نہیں بنائے جاتے۔ اصولِ فقہ میں نکاح وطلاق کے حوالے سے جو عجیب وغریب مسائل اپنے من گھڑت اصولوں سے گھڑے گئے ہیں اگر ان کی تفصیل سامنے رکھ دی جائے تو آپ کو عجیب وغریب لگے گا کہ کس طرح کی استعداد ، صلاحیت اور علم رکھنے والے افراد کی آپ قیادت کرکے چیئرمین ہونے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ جس طرح قرآن کی 500آیات کو موضوع بحث بنانے کے بجائے قرآن کی اپنی شناخت بھی مسخ کی گئی ہے اورتعریف کی بجائے تحریف کا ارتکاب کیا گیا ہے،اسی طرح طلاق کا بھی بلکہ اس سے زیادہ حال بگاڑ دیا گیا ہے۔
جناب کونسل کے پلیٹ فارم پر ریاست اور حکومت کے اہم اداروں کے اہم افراد سے مشاورت کرکے مقتدر اکابر علماء ومفتیان سے ایک کھلی میٹنگ رکھ لیں اور مجھے بھی حاضر ہونے کا حکم فرمائیں تو نہ صرف دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا بلکہ یہ اقدام قرآن وسنت کی طرف رجوع کیلئے ایک اہم سنگِ میل ثابت ہوگا۔ انشاء اللہ العزیز۔ آئین پاکستان قرآن وسنت کا پابند ہے مگر مولوی طبقہ میں بذاتِ خود قرآن وسنت کی کوئی صلاحیت نہیں ہے۔ اسلامی سکالروں کا بھی علماء ومفتیان سے بھی برا حال ہے۔ قرآن جس دور میں نازل ہوا تھا اور سنت جس نبیﷺ کے قول وعمل کا نام ہے ، اس وقت کوئی مدرسہ، جامعہ، سکول ، کالج اور یونیورسٹی نہیں تھی۔مدارس کے جامعات نام رکھنے والوں کو یہ پتہ بھی نہیں کہ جامعات میں پی ایچ ڈی :ڈاکٹرکی ڈگری ہوتی ہے۔ جس میں پی ایچ ڈی نہیں ہوسکتا ہو ،اس کو جامعہ کا نام دینا بھی ایک فراڈ یا جہالت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اگر قرآنی آیات کا سلیس ودرست ترجمہ کرکے مسائل کے حل کیلئے اس کوپہلی بنیاد قرار دیا جاتا تو مسلکانہ تعصبات، فرقہ وارانہ بے راہ روی اور معاشرتی عدمِ توازن کی ساری بنیادیں ڈھ سکتی تھیں۔ غلط نصابِ تعلیم نے قوم کو اس نہج تک پہنچادیا ہے کہ ایک ہی درسِ نظامی پڑھنے والے بریلوی دیوبندی علماء ومفتیان اپنے اندر زمین وآسمان کا فرق محسوس کرتے ہیں۔ سخت ترین منافرت کے ساخت وپرداخت سے اکثریت نہیں نکل پارہی ہے۔پاکستان میں دیوبندی طالبان کو قتل ودہشت گردی کا موقع مل گیا تو بریلوی مکتبۂ فکر والوں کو مشرک سمجھ کر قتل کیا گیا، مینگورہ سوات میں ایک مذہبی شخصیت کو قتل کیا گیا اور اس کی لاش قبر سے نکال کر 3 دنوں تک چوک پر لٹکائی گئی۔ حالانکہ اس وقت پختونخواہ میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت تھی جس میں بریلوی مکتبۂ فکر کی نمائندہ جماعت مولانا شاہ احمد نورانی کی جمعیت علماء پاکستان بھی شامل تھی۔ حالیہ احتجاج میں بھی تبلیغی جماعت کے کارکنوں کو قتل کیا گیا۔ اگر بریلوی شدت پسندوں کے ہاتھ میں طاقت آئی تو گستاخانِ رسول کے نام پر دیوبندیوں کو قتل کردیا جائیگا۔ دیوبندی بریلوی کے علاوہ شیعہ سنی اور حنفی اہلحدیث کی ایکدوسرے سے بدترین منافرت بھی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل میں تمام مکاتبِ فکر کے علماء کرام اور دانشور شامل ہیں۔ مولانا محمد خان شیرانی نے اپنا موقع کھودیا۔ اب ایک موقع اللہ تعالیٰ نے قبلہ صاحب آپ کودیدیا ہے۔مدارس کے علماء ومفتیان کا آج خود بھی درسِ نظامی پر کوئی اعتماد نہیں رہاہے اسلئے کہ10سال تک تسلسل کیساتھ ماہنامہ ضرب حق کراچی کی موجیں اس کی بنیادوں سے ٹکرارہی تھیں اور پھر کئی تصانیف خصوصاً ’’جوہری دھماکہ‘‘ اور ’’ آتش فشان‘‘ نے سب کو ہلاڈالا تھا۔ جس کی پاداش میں ایک مرتبہ مجھ پر اندھا دھند فائرنگ اور دوسری مرتبہ میرے گھر پر لشکر کشی بھی کی گئی لیکن اللہ تعالیٰ نے میری جان محفوظ رکھی۔ پھر8سال تک گوشہ نشینی کی زندگی میں تحقیق کا سلسلہ جاری رکھا پھر ’’ابررحمت‘‘ ودیگر تصانیف کے علاوہ ماہنامہ نوشتہ دیوار کراچی کے منظر عام پر لانے کے بعد بڑے پیمانے پر تبدیلی نظر آرہی ہے۔ اگر جناب نے حق کی آواز کو اٹھانے میں ہماری مدد فرمائی تو پاکستان میں واقعی تبدیلی دیکھنے کو ملے گی۔
از طرف :سید عتیق الرحمن گیلانی چیف ایڈیٹر ماہنامہ نوشتۂ دیوار کراچی وبانی ادارہ اعلاء کلمۃ الحق پاکستان

دیوبندی مدارس کے علماء و مفتیان کے نام کھلا خط : از سید عتیق الرحمن گیلانی

ولقد اٰتینا موسی الکتٰب فاختلف فیہ ولولا کلمۃ سبقت من ربک لقضی بینھم و انھم لفی شکٍ منہ مریب O و ان کلا لما لیوفینھم ربک اعمالھم انہ بما یعملون خبیر O فاستقم کماامرت ومن تاب معک ولاتطغوا انہ بماتعملون بصیرًاOولاترکنوٓا الی الذین ظلموا فتمسکم النار ومالکم من دون اللہ اولیاء ثم لاتنصرونO و اقم الصلوٰۃ طرفی النھار و زلفاً من الیل ان الحسنٰت یذھبن السیئات ذٰلک ذکریٰ للذٰکرین O
سورۃ الھود : آیت109سے113تک)

درج بالا قرآنی آیات کا ترجمہ:
’’اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تو اس میں بھی اختلاف کیا گیااور اگر اللہ کی طرف سے پہلے لکھا نہ جاچکا ہوتا تو ان میں فیصلہ کردیا جاتا۔ اور اب تک لوگ اس سے شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ اور بے شک ہر ایک کو اسکے عمل کا آپ کا رب پورا بدلہ دیگا۔ وہ جو کرتے تھے وہ اس کی خبر رکھتا ہے۔ لہٰذا (اے پیغمبر!) جس طرح تمہیں حکم دیا گیا اسکے مطابق چلو اور جو لوگ توبہ کرکے تمہارے ساتھ ہیں وہ بھی قائم رہیں اور حد سے آگے نہ بڑھو ۔ بے شک وہ تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے اور (اے مسلمانو!)ان ظالم لوگوں کی طرف ذرا بھی نہ جھکنا ورنہ تمہیں بھی آگ پکڑے گی۔ پھراللہ کے علاوہ تمہارا کوئی ساتھ نہ ہوگا اور تمہاری مدد نہیں کی جائے گی۔ اور (اے پیغمبر!) نماز پڑھیں دن کے کناروں پر اور رات کے ٹکڑوں میں ‘‘۔
درج بالا قرآنی آیات کی تشریح:
یہود نے توراۃ میں اختلاف کا کیا، وہ عذاب کے مستحق بن چکے تھے۔اللہ چاہتا تو انکے درمیان فیصلہ کرتا پھر وہ حق وباطل کے شک میں پڑگئے تھے۔ امت مسلمہ بھی انہی کے نقش قدم پر چل قرآنی آیات میں اختلافات کا شکار ہوسکتی تھی ۔اسلئے نبیﷺ اور آپ کے ساتھیوں توبہ کرنے والوں کو حکم دیا گیا کہ قرآنی احکام میں اپنے حدود سے تجاوز مت کرو، وہ اللہ تمہارے اعمال کی خبر رکھتا ہے۔ اگر مسلمانوں نے ظالموں کی طرف جھکاؤ کر ڈالا، تو ان کو آگ پکڑلے گی۔ پھر اللہ کے علاوہ کوئی مدد کرنیوالا نہ ہوگا۔آج سے بڑا المیہ یہ ہے کہ مدارس کسی تجارت کے مرکز کا منظر پیش کرتے ہیں۔ قرآنی آیات کی جگہ خیالات اور آراء کی خرافات نے لے لی ہے۔
دن کے اطراف میں نماز کا حکم ہے اور رات کے مختلف ٹکڑوں میں ۔ فجر، ظہر، عصر، مغرب ، عشاء اور تہجد کا ذکر نہیں۔ جہاں 6ماہ دن اور 6 ماہ رات ہو۔ وہاں پنج وقتہ نمازاورتہجدہوسکتی ہے۔ یہ قرآن کا بڑا معجزہ ہے کہ نماز کے اوقات کا تعین ان ممالک سے نہ کیا جدھر ایک جیسے دن رات 24گھنٹے ہوتے ہیں بلکہ قرآن نے نماز کے اوقات میں دنیا بھر کی عالمگیر یت کاپتہ بھی بتادیا ہے۔

یوم ندعوا کل اناس بامامھم۔۔۔O ومن کان فی ھذہٖ اعمیٰ فھو۔۔۔O وان کادوا لیفتنوک عن الذی اوحینآ الیک لتفتری علینا غیرہ واذًا لاتخذوک خلیلًاOولو لآ ان ثبتنٰک لقد کدت ترکن الیھم۔۔۔Oاذًا لاذقنٰک ضعف الحےٰوۃ ۔۔۔ Oوان کادوا لیستفزونک من الارض لیخرجونک منھا واذًا۔۔۔O سنۃ من قد ارسلنا قبلک من ۔۔۔ O اقم الصلوٰۃ لدلوک الشمس الیٰ غسق الیل و قرآن الفجر۔۔۔O ۔۔۔ عسیٰ ان یبعثک ربک مقاماً محموداًO و قل رب ادخلنی مدخل صدقٍ ۔۔۔واجعل لی من لدنک سلطان نصیراًO و قل جاء الحق ۔۔۔O و ننزل من القرآن ماھوا شفاء و رحمۃ للمؤمنین ولا یزید الظالمین الا خساراًO و اذا انعمنا علی الانسان اعرض۔۔۔O قل کل یعمل علیٰ شاکلتہٖ فربکم اعلم۔۔۔O۔۔۔ قل الروح من امر ربی وما اوتیتم من العلم الا قلیلاًO ولئن شئنا لنذھبن بالذی اوحینا الیک۔۔۔O ۔۔۔ان فضلہ کان علیک کبیراًO ۔۔۔اجتمعت الانس و الجن علیٰ ان یاتوا بمثل ھذا القرآن لا یاتون بمثلہٖ ۔۔۔O ۔۔۔ فی ھٰذا القرآن من کل مثل فابیٰ اکثر الناس الا کفوراًO (بنی اسرائیل:آیات71سے88تک)

ان قرآنی آیات کا سلیس ترجمہ
’’ہم اس دن سب کو ان کے اماموں کے ساتھ بلائیں گے ، پھر جنہیں دائیں ہاتھ میں اعمالنامہ دیا جائے گا تو ان پر ذرا بھی ظلم نہ ہوگااور جو شخص دنیا میں اندھا تھا وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا۔ اور راستے سے بھٹکا ہوا ۔ اور (اے پیغمبر!) جو وحی ہم نے تمہارے پاس بھیجی قریب تھا کہ یہ لوگ آپ کو فتنوں میں ڈالتے تاکہ ہم پر ایسی بات گھڑتے جو ہماری طرف سے نہ ہوتی اور پھر یہ لوگ تمہیں اپنا دوست بھی بنالیتے۔ اور اگر ہم تمہیں ثابت قدم نہ بناتے تو قریب تھا کہ آپ ان کی طرف تھوڑا سا جھکاؤ رکھتے پھر ہم تمہیں زندگی کی کمزوری اور موت کی کمزوری کا ذائقہ چکھاتے۔ پھر تمہیں ہمارے مقابلے میں کوئی مددگار نہ ملتا۔اور اگر انکا بس چلتا تو زمین میں ٹکنے نہ دیتے اور اس سے نکال باہر کرتے۔ پھر وہ بھی تمہارے بعد نہ رہتے مگر کم عرصہ تک۔یہ وہ طریقہ کار ہے جو آپ سے پہلے جن رسولوں کو ہم نے بھیجا ہے ان کے ساتھ بھی رہا ہے۔ اور ہمارے طریقے میں تبدیلی نہ پاؤ گے۔ (اے پیغمبر!) سورج ڈھلنے کے وقت سے لیکر رات کے اندھیرے تک نماز قائم کرو اور فجر کے وقت کا قرآن! بیشک فجر کے وقت کے قرآن میں مشاہدہ ہوتا ہے۔ اور رات کے وقت تیرے لئے تہجد کی نماز نفل ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ تیرا رب تجھ مقام محمود عطا کرے۔ اور کہہ دیجئے کہ اے میرے رب مجھے سچائی کے ساتھ داخل کردے اور سچائی کے ساتھ نکال دے اور میرے لئے اقتدار کو مددگار بنادے۔ اور کہہ دیجئے کہ حق آیا اور باطل مٹ گیا بیشک باطل مٹنے والا ہے۔ اور قرآن میں ہم نے وہ نازل کیا جو مؤمنوں کیلئے شفا ہے۔ اور ظالم لوگ اضافہ نہ پائیں گے مگر خسارے میں۔ اور جب ہم کسی کو نعمت دیتے ہیں تو وہ اعراض کرتا ہے اور پہلو بدلتا ہے اور جب اس کو برائی پہنچتی ہے تو مایوس ہوجاتا ہے۔ کہہ دیجئے کہ ہر ایک اپنی خصلت پر عمل کرتا رہے اور تمہارا رب بہتر جانتا ہے کہ کون ہدایت پر ہے۔ اور تجھ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں کہہ دیجئے کہ یہ بھی دیگر امور کی طرح ایک امر ربی ہے۔ اور تمہیں علم نہیں دیا گیا مگر تھوڑا سا۔ اور اگر ہم چاہیں تو ہم اس کو لے جائیں جس کو تیری طرف وحی کیا ہے۔ اور پھر تجھے ہمارے اوپر کوئی مددگار نہ ملے۔ لیکن یہ تیرے رب کی طرف سے رحمت ہے اور تجھ پر اس کا بڑا فضل ہے۔ کہہ دیجئے کہ اگر انسان اور جنات تمام جمع ہوجائیں تو اس قرآن کی مثال نہیں لاسکتے۔ اور نہ اس جیسا کوئی اور۔ اور اگرچہ بعض بعض کی مدد کرنے پر بھی اتریں۔ اور ہم نے الٹ پھیر کر اس قرآن میں ہر طرح کی مثالیں دی ہیں مگر اکثر لوگ انکار کرتے ہیں مگر یہ کہ ناشکری بھی کرتے ہیں۔ ‘‘

مفتی تقی عثمانی نے زکوٰۃ کے مسئلے پر مفتی اعظم پاکستان مفتی محمود ؒ کو شکست دی ، سودی بینکاری پر اپنے استاد مولانا سلیم اللہ خان ؒ اور تمام دیوبندی مدارس کو شکست دی ۔ سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کی عبارات کو اپنی کتابوں سے نکال دیا۔ ’’آسان ترجمہ قرآن‘‘ کی تفسیر میں امام سے مراد اعمالنامہ لیا ہے، قرآنی آیت میں مقام محمود کی تفسیر سے امت کی سفارش کا غلط مقام مراد لیا۔ طلاق کے حوالے سے بھی آیات میں لفظی تحریف کا ارتکاب کیا، مفتی تقی عثمانی کے آباء نے مرزائیوں کیلئے نرم گوشہ رکھا اور اپنوں پر کفر کے فتوے لگائے۔

قرآنی آیات اور فتوے کی وضاحت
لوگوں کو انکے اماموں کیساتھ بلانے کی وضاحت ہے۔ قرآن میں ائمۃ الکفر کا ذکر بھی ہے۔ اچھے برے امام یا پیشواء ہوتے ہیں ۔ جب کفر کے اماموں کی بہتات ہو تو حق پر ثابت قدم رہنا بہت مشکل ہے۔ مفتی محمدنعیم کی دعوت پر میں جامعہ بنوریہ عالمیہ گیا اور وہاں کے رئیس دارالافتاء سے ملاقات ہوئی۔ مفتی سید سیف اللہ جمیل بہت اچھے انسان ، عالم اور مفتی ہیں۔ انہوں نے مجھے بہت مخلصانہ مشورہ دیا کہ ’’ اپنی صلاحیتیں ضائع کرنے کے بجائے ایک مختصر ، مدلل اور شائستہ تحریر لکھ دیں جسے مدارس کے علماء ومفتیان پڑھنا گوارا کریں۔ اس میں اپنے دلائل اور اپنی رائے لکھ دیں اور فتویٰ طلب کریں کہ علماء ومفتیان کیا رہنمائی فرماتے ہیں۔ اس سے بڑا اچھا نتیجہ سامنے آجائیگا‘‘۔ مجھے یہ تجویز بہت اچھی لگی۔ پورا ارادہ کیا کہ ’’میں یہ تحریر لکھوں گا‘‘۔ مفتی احمدالرحمنؒ کے داماد شہید صحافی موسیٰ خانیل کے بھائی نے کہا کہ ’’میری بنوری ٹاؤن میں رہائش ہے، وہاں سے فتویٰ کا جواب لینا میری اپنی ذمہ داری ہے‘‘۔ یہ ممکن تھا کہ دارالعلوم کراچی اور دیگر مدارس بھی جواب دیتے مگر مجھے یہ آیات یاد آئیں اور مجھے خوف محسوس ہوا کہ جب نبیﷺ کو اتنی بڑی وعید سنائی گئی ہے تو یہ اہل حق کیلئے بھی بڑا لمحہ فکریہ ہے۔ پھر یہ بات سمجھ میں آئی کہ مفتی کا کام اپنی رائے پیش کرنا ہوتا ہے۔ میں نے اپنی کتابوں اور اخبار کے مضامین میں قرآنی آیات کو پیش کیا ہے تو یہ میری اپنی رائے تو نہیں ہے اور اگر میں نے ان کو اپنی رائے قرار دیاتو علماء ومفتیان ایسا کرنے پر مجھے دوست بنائیں گے لیکن مجھے ان آیات کے وعیدوں کا سامنا کرناہوگا۔اسلئے میں نے اپنا ارادہ بدلا ۔ قرآن کو مختلف انداز سے دوہرایاگیا ہے۔ طلاق سے رجوع کیلئے بھی آیات کودوہرایا گیا۔ علماء ومفتیان قرآنی آیات پر فتویٰ دیں۔علماء دیوبند خود کو حضرت عمرؓ سے سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ تک علماء حق کا جانشین کہتے ہیں مگر حضرت عمرؓ سے بخاریؒ تک مونچھوں والے مَردوں کے جانشین یہ ہجڑے اور چٹ کیسے ہوسکتے ہیں جو حق نہ بول سکیں؟۔
مفتی محمد نعیم صاحب مدظلہ نے مفتی تقی عثمانی اور وفاق المدارس کے علماء کو طلاق کے مسئلے پر بات کرنے کیلئے آمادہ کرنے کی کوشش کی مگروہ کامیاب نہ ہوسکے۔یہ تحریر مدارس کے علماء و مفتیان کیلئے ایک چیلنج ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

دیوبندی مدارس کے علماء و مفتیان کے نام کھلا خط

مسلک حنفی کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ قرآن کے مقابلے میں احادیث صحیحہ کو بھی رد کردیا جو صراط مستقیم کیلئے میزان ہے

قرآن میں شجرہ ملعونہ کا ذکر ہے ، علماء و مفتیان نے قرآن و سنت کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے حلالہ کی لعنت اپنائی۔

قرآن میں عدت کے اندر ، عدت کی تکمیل پر اور عدت کے بعد بار بار رجوع کی گنجائش کا ذکر ہے لیکن علماء غور نہیں کرتے

تین طلاق پر میاں بیوی کے درمیان تفریق ، صلح کے عدمِ جواز اور حلالہ کا فتویٰ دیا جاتا ہے۔ دیوبندی، بریلوی حنفی ہیں۔ شافعی، مالکی ،حنبلی کے علاوہ اہلحدیث و اہل تشیع کے مسالک بھی قرآن وسنت سے بالکل ہٹ کر ہیں۔نبی کریمﷺ نے فرمایا تھا کہ ’’ اسلام کا آغاز اجنبیت کی حالت میں ہوا، یہ عنقریب پھر اجنبی بن جائیگا، پس خوشخبری ہے اجنبیوں کیلئے‘‘۔ تین طلاق کے معاملہ پر قرآن وسنت میں بالکل بھی کوئی ابہام نہیں ہے۔ مسلکانہ وکالتوں کی رنجشوں نے تین طلاق کے حوالہ سے مسئلہ خراب کردیا ہے۔
جامعہ بنوریہ عالمیہ کے رئیس دارالافتاء مفتی سید سیف اللہ جمیل کی نصیحت پر مختصر مدلل اور شائستہ تحریر لکھنے کا ارادہ کیا مگر

وان کادو۔۔۔لاتخذوک خلیلًاOولو لآ۔۔۔ ترکن الیھم شےءًا قلیلًاOاذًا لاذقنٰک ضعف الحےٰوۃ۔۔۔O۔۔۔ من الارض لیخرجونک منھا۔۔۔O (بنی اسرائیل:72تا 74)

کو یاد کیااور ایسی تحریر لکھنے سے اجتناب برت لی کہ محض اپنی رائے کے نام سے قرآن وسنت کے مضبوط مؤقف سے دستبردار ہوجاؤں۔
مفتی صاحب نے بہت خلوص کیساتھ فرمایا کہ ’’ اپنی صلاحیتوں کو ضائع کرنے کے بجائے ایک ایسی مختصرتحریر لکھ دیں کہ قرآن وسنت کی روشنی میں میری اپنی ذاتی رائے ہے، علماء ومفتیان اپنی رائے دیں ‘‘۔ میرا ارادہ تھا کہ میں ایسا کروں تو یہ میرے لئے اچھا ہے اور مدارس کے علماء کرام اور مفتیانِ عظام کیلئے بھی سوال کا جواب دینا مناسب ہوگا۔ اگر میں ایسا کرلیتا تویہ قرآن وسنت کو دوسروں کی رحم وکرم پر چھوڑنے کے مترادف تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ میں بھی اللہ تعالیٰ پر کذب وافتراء میں ملوث ہوجاتا اور جن ظالموں نے اللہ تعالیٰ کے حدود سے تجاوز کرکے میاں بیوی میں جدائی ، تفریق اور حلالہ کی لعنت کا بازار گرم کررکھا ہے ، میں بھی انکی فہرست میں شامل ہوجاتا۔

فاستقم ۔۔۔Oولاترکنوٓا الی الذین ظلموا فتمسکم النار ۔۔۔O

قرآنی آیات کے خوف نے مجھے ایسا کرنے سے روکا۔
فتویٰ میں ایک مفتی صاحب اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے جس کے درست اور غلط ہونے کے امکان پر آخر میں لکھا جاتا ہے کہ واللہ اعلم بالصواب ۔ فتویٰ کسی اجتہادی رائے کے بارے میں ٹھیک اور غلط ہوسکتا ہے لیکن قرآن کی واضح آیات کے بارے میں یہ نہیں لکھا جاسکتا ہے کہ ’’یہ میری ذاتی رائے، سمجھ بوجھ اور اخذکردہ فتویٰ ہے‘‘ کیونکہ ایمان اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتاہے۔
میں اپنا پسِ منظر ضرور بتا سکتا ہوں کہ میں نے دین کی تعلیم درسِ نظامی سے ہی حاصل کی ہے ۔ حنفی مسلک کا نصابِ تعلیم قرآن وسنت کو اولیت دیتا ہے اور پاکستان کے آئین میں بھی قرآن وسنت کو ترجیح حاصل ہے۔کوئی شک نہیں کہ اُمت کا اختلاف رحمت ہے اور امت گمراہی پر اکٹھی نہیں ہوسکتی لیکن جس طرح حضرت علیؓ نے خوارج کے بارے میں فرمایا کہ’’ ان کی للہ الامر کی بات سچی ہے مگر اس سے وہ باطل مراد لیتے ہیں‘‘۔ اسی طرح امت کے اختلاف کو رحمت اور گمراہی پر اجماع نہ ہونے سے باطل مراد لیا جاتاہے۔
تین طلاق سے رجوع کے متعلق مدارس کے علماء اورمفتیان کا فتویٰ
عوام حنفی مسلک کے مدارس علماء و مفتیان دیوبندی بریلوی سے فتویٰ طلب کرتے ہیں کہ اکٹھی تین طلاق کے بعد رجوع کرنا چاہتے ہیں تو رجوع ہوسکتا ہے یا نہیں؟۔ قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔ شوہر اور زوجہ کا نام ، مکمل پتہ اور قومی شناختی کارڈ
جواب میں سورۂ بقرہ آیت:229کا ٹکڑا کہ الطلاق مرتٰن ’’طلاق دو مرتبہ ہے‘‘ اور پھر سورۂ بقرہ آیت: 230 کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ وان طلقہا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ ’’پھر اگر اس نے طلاق دیدی تو اس کیلئے حلال نہیں، یہانتک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرلے‘‘۔ پھر حدیث کا حوالہ دیا جاتاہے کہ ایک خاتون کا طلاق کے بعد دوسرے شوہر سے نکاح ہوا۔ اور شکایت کی کہ دوسرا شوہر نامرد ہے مگر نبیﷺ نے فرمایا کہ جب تک تو اسکا ذائقہ نہ چکھ لے اور وہ تیرا نہ چکھ لے، پہلے کیلئے حلال نہیں ہوسکتی۔اکھٹی تین طلاق کے بعد صلح کی گنجائش نہیں جب تک حلالہ نہ کروایا جائے۔ مولانا نیاز محمد ناصرناطق بالحق لورا لائی بلوچستان فاضل جامعہ بنوری ٹاؤن ، سابق صدر کالعدم سپاہ صحابہ بلوچستان نے کہاکہ’’ اہلحدیث اور حنفی دونوں کا فتویٰ غلط ہے ۔ عورت کو سزا نہ دی جائے اسکا قصور نہیں طلاق دینے والا شوہر قصوروار ہے ۔ تین قندھاریوں سے اس شخص کو چدوایا جائے‘‘۔ہر دور میں حلالہ کی مخالفت کرنے والے علماء حق رہے ہیں۔ پہلے افتاء کا کورس نہیں ہوتا تھا ، جو عالم دار الافتاء میں فتویٰ کی خدمت انجام دیتا تھا اسی کو مفتی کہا جاتا تھا۔ پہلے فرضی نام پر فتویٰ دیا جاتا تھا ، اب عورت کو بلا کر اسکا شناختی کارڈ اور ایڈریس بھی لیا جاتا ہے۔
قرآن میں حضرت آدم علیہ السلام کو جس درخت کے قریب جانے سے روکا گیا تھا مولانا عبید اللہ سندھیؒ نے لکھ دیا تھا کہ وہ ازدواجی تعلق کا درخت تھا ۔ قرآن میں جو شجرہ ملعونہ کا ذکر ہے ، وہ ناجائز جنسی تعلق کا شجرہ ہے، حلالہ کے نام پر قرآنی آیات کو جس طرح سے مسخ کرکے لعنت میں ملوث ہونے کا ثبوت دیا گیا ہے جس کو بڑے بڑے فقہاء نے لعنت سے کارِ ثواب تک پہنچادیا ہے اس پر غور کرنا ہوگا اور کھلے لفظوں میں عوام کو قرآن کی دعوت دینی ہوگی۔
مدارس کایہ فتویٰ قرآن و سنت کے منافی، سراسر غلط، گمراہ کن ، عقل و فطرت اور مسلک حنفی کیخلاف ہے
قرآنی آیات کی اہم ترین کڑی کو چھوڑ کر سیاق و سباق کے منافی فتویٰ دیا جاتاہے۔ حدیث کا حوالہ بھی غلط اور خلافِ واقع دیا جاتا ہے۔ جس کیلئے بڑی لمبی چوڑی تحریر اور دلائل کی کوئی ضرورت نہیں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے عرصے سے اُمت مسلمہ قرآن سے دُور اور گمراہی کا شکار رہی ہے؟۔ صحابہ کرامؓ، تابعینؒ ، ائمہ مجتہدینؒ اور سلف صالحین ؒ سب کے سب غلط تھے، قرآن و سنت کی موٹی موٹی باتیں سمجھنے سے قاصر تھے، بس اب یہ عتیق گیلانی پیدا ہوا ہے جو قرآن وسنت کو سمجھ سکا ہے؟۔
اس کو خوش قسمتی سے تعبیر کریں یا بدقسمتی سے لیکن واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ قیامت کے دن اللہ رب العزت سے شکایت فرمائیں گے کہ وقال الرسول یاربّ ان قومی اتخذوا ہذا القراٰن مھجورًا ’’اور رسول کہیں گے کہ اے میرے ربّ!بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا‘‘۔( القرآن) اس آیت سے واضح ہے کہ رسول اللہ ﷺ اُمت مسلمہ کی سفارش نہیں اللہ رب العزت کی بارگاہ میں شکایت فرمائیں گے۔
مفتی محمد تقی عثمانی نے’’ آسان ترجمہ قرآن‘‘ میں مقام محمود کے حوالے سے لکھا کہ ’’ اسکے معنی تعریف کا مقام ہے اور احادیث سے لگتا ہے کہ نبیﷺ امت کے حق میں سفارش کرینگے ، اس سے مقام محمود بھی مراد ہوسکتا ہے‘‘۔ آج اُمت نے اسلام اور قرآنی احکام کا حلیہ بگاڑ کر سودی نظام کو بھی جواز بخش دیا ۔ دنیا میں کارٹونوں سے نبیﷺ کی شان میں گستاخانہ خاکے جاری ہیں۔ قرآنی احکام پر مسلمان عمل کرنا شروع کردینگے اور دنیا میں طرزِ نبوت کی خلاف قائم ہو گی تو نبیﷺ کیلئے یہی’’ مقام محمود‘‘ ہوگا۔
مولانا عبیداللہ سندھیؒ قیامِ پاکستان سے پہلے ہی فوت ہوگئے ، آپ نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا مرکزپنجاب، سندھ، بلوچستان، فرنٹئیر، افغانستان اور کشمیر کو قرار دیتے ہوئے لکھا کہ یہاں جتنی قومیں بستی ہیں ،سب امامت کی حقدار ہیں۔ اتفاق سے تفسیر کا نام ’’ المقام المحمود‘‘ ہے اور سورۂ قدر کی تفسیر میں یہ لکھا ۔ پاکستان لیلۃ القدر کو بناتھا۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز صاحب کو مولانا سندھیؒ کے افکار سے عقیدت بھی ہے جن کا بنیادی مقصد فقہ حنفی کی روشنی میں ’’ امت مسلمہ کا قرآن کی طرف رجوع تھا‘‘۔ فقہ حنفی کا سب سے بڑا کریڈٹ یہ ہے کہ اگر حدیث صحیحہ قرآن سے متصادم ہو تو اس کورد کرنے کی تعلیم نصاب میں شامل کی جائے۔ جب صحیح حدیث کو رد کرنے کی تعلیم دی جائے تو پھر کسی فقیہ، امام، محدث اور مفتی کی رائے کی قرآن کے مقابلے میں حیثیت کیا؟۔ درسِ نظامی کا یہ بنیادی جوہر ہی صراطِ مستقیم کیلئے ایک میزان ہے۔
حضرت مولانا بدیع الزمانؒ سے نحومیر، قرآن کا ترجمہ و تفسیر، اصولِ فقہ کی کتابیں اصول الشاشی اور نورالانوار کی تعلیم حاصل کرنے کا شرف ملا۔جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے درودیوار سے مجھے محبت ہے جس کی بنیاد مولانا بنوریؒ نے تقویٰ پر رکھی تھی۔ میرے اساتذہ کرام میں محترم ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر، قاری مفتاح اللہ ، مفتی عبدالمنان ناصر اور ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہیدؒ وغیرہ شامل تھے۔ اگر میرے مشن کو دنیاوآخرت میں کامیابی ملی تو یہ اساتذہ کرام کیلئے شرف وعزت اور اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی مقبولیت ہے۔
درسِ نظامی کے کھوکھلے نصاب کیخلاف آواز اٹھانے کا حوصلہ جامعہ بنوری ٹاؤن کے اساتذہ کرام سے ملا۔ پہلے دارالعلوم کراچی میں داخلہ لیا مگر وہاں سے مجھے نکالا گیا، کیونکہ میں نے قریبی ماچس فیکٹری میں کام تلاش کیا اور میں نے مدرسے کی زکوٰۃ کا کھانا منع کیا۔ میری تقدیرکا ستارہ علامہ سیدبنوریؒ کے فیضان سے چمکا۔ قاری شیر افضل نے بتایا کہ ’’ خواب میں نبیﷺ کو قرآن کا درس دیتے دیکھا ،مولانا یوسف بنوریؒ اس میں موجود تھے لیکن مفتی محمود اس میں جانے کی کوشش کے باوجود نہ پہنچ سکے۔ مفتی محمودؒ نے کہا کہ میری مولانا بنوریؒ جیسا مقام نہیں‘‘۔ میرے بھائی پیر نثار احمدنے خواب میں مفتی محمودؒ کو دیکھا اور پوچھا کہ میری لائیبریری میں کونسی کتاب اچھی ہے؟۔ مفتی محمودؒ نے قرآن اٹھایا، کہا کہ یہی کتاب اچھی ہے۔
شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ نے کئی دہائیوں تک مدرسے میں تدریس کی اور بڑے نامور شاگرد پیدا کئے ۔ مالٹا کی قید سے رہائی کے بعد مسلم اُمہ کو تفرقہ بازی سے ہٹانے اور قرآن کی طرف رجوع کو اپنامشن قرار دیا۔ مولانا انورشاہ کشمیریؒ نے آخر فرمایا ’’ میں نے اپنی زندگی ضائع کردی، قرآن وسنت کی خدمت نہیں کی ، فقہ کی وکالت کی ہے‘‘۔ مولانا الیاسؒ نے دعوت وتبلیغ کے ذریعہ اُمت میں مذہب کی طرف رحجان کی روح پھونکی۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ نے تصوف کے میدان میں کام کیا۔ مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے قرآن کی طرف رجوع کومشن بنایا۔ دیوبند نے مدرسہ، تبلیغ،سیاست، جہاد کے میدان میں خدمت انجام دی۔ مفتی اعظم ہند مولانا مفتی کفایت اللہؒ نے ایک ضخیم کتاب لکھی کہ ’’ نماز کی سنتوں کے بعد اجتماعی دعا بدعت ہے‘‘۔ افغانی دیوبندی اس بدعت پر عمل پیراہیں۔ بلوچستان، پختونخواہ کے دیوبندی آپس میں لڑتے رہے ہیں اور اندورن سندھ وکراچی میں اس بدعت پر کھلا تضاد ہے۔
اب تو ؂ زاغوں کے تصرف میں ہے شاہیں کا نشیمن
شاہ ولی اللہؒ نے ترجمہ سے امت مسلمہ میں قرآن کی طرف رجوع کی بنیاد رکھی۔ آپکے پوتے شاہ اسماعیل شہیدؒ نے اپنے مرشد سید احمد بریلویؒ کیساتھ تحریکِ خلافت کی بنیاد رکھ دی، تقلید کو بدعت قرار دیاتھا۔ علماء دیوبند نے قرآن وسنت کی احیاء کی تحریک شروع کی تو مولانا احمد رضا خان بریلویؒ نے ’’ حسام الحرمین‘‘ کا فتویٰ شائع کیا، ان کو الٹے پاؤں تقلید کی طرف ہنکانے پر مجبور کردیا۔ جس کیوجہ سے اکابر دیوبند جھکنے پر مجبور ہوئے اور انکا میدان قرآن وسنت کی تحریک کے بجائے رسوم و رواج کے مقابلہ میں فقہی مسائل کی طرف رجوع بن گئی۔علماء دیوبند بھارت میں کانگریس، پاکستان میں مسلم لیگ کے تابع بن گئے۔ پھر مرکزی جمعیت علماء اسلام سے جمعیت علماء اسلام نے بغاوت اختیار کرلی۔ علامہ شبیر احمد عثمانیؒ نے قائداعظم ؒ کا جنازہ پڑھایا۔ مفتی محمد شفیعؒ ، مولانا رشید احمد لدھیانویؒ ، مولانا احتشام الحق تھانویؒ وغیرہ مرکزی والے تھے۔ مفتی محمودؒ ، مولانا غلام غوث ہزارویؒ ، مولانا لاہوریؒ کے فرزند مولانا عبیداللہ انورؒ ،مولانا درخواستی ؒ بغاوت والے تھے۔
1970ء میں جمعیت علماء اسلام کے اکابر مفتی محمودؒ ، مولانا انورؒ ، مولانا درخواستیؒ ، مولانا ہزارویؒ پر فتویٰ لگایاگیا کہ وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں اسلئے کہ کمیونسٹ ذوالفقار علی بھٹو کو کافر کیوں نہیں کہتے؟۔ فتویٰ لگانے والے مرکزی جمعیت والے تھے۔ بنگلہ دیش و پاکستان کے بڑے مدارس نے دستخط بھی کردئیے لیکن مولانا یوسف بنوریؒ نے ساتھ نہ دیا۔ ان لوگوں نے قادیانیوں کیلئے نرم گوشہ رکھا، ختم نبوت والوں نے احتشام الحق تھانویؒ کی جوتوں سے پٹائی بھی کی۔یہ مولانا بعد میں پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے ۔ انکے صاحبزادوں نے گرگٹ کی طرح رنگ بدل بدل کر ہر نئی پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔
مفتی رشید لدھیانویؒ کے مرید مفتی طارق مسعود نے سوشل میڈیا پر حاجی عثمانؒ اور مفتی رشید لدھیانویؒ کا قصہ بیان کیا لیکن اس کی معلومات بالکل زیرو ہیں۔ مفتی رشید لدھیانویؒ کی حالت اسکے خلفاء چشم دید گواہ مفتی عبدالرحیم و مفتی ممتاز احمد سے پوچھ لیں۔ مفتی رشید لدھیانوی کی حالت ایسی بن گئی کہ اگر پھسکڑیاں مارنے سے سیلنڈر بھرنا کارمد ہوتا تو کسی کمپنی سے معاہدہ کر تے۔ حاجی عثمانؒ سے معافی کیلئے تیار تھے لیکن ہم نے مولانا یوسف بنوریؒ و مفتی محمودؒ کا حساب بھی چکادیا تھا۔ مولانا فضل الرحمن نے مجھ سے اس وقت کہا تھا کہ ’’ بکرا آپ نے لٹادیا، چھرا آپکے ہاتھ میں ہے ،اگر پھیرلوگے تو پاؤں ہم پکڑلیں گے‘‘۔
مولانا فضل الرحمن پر فتوے لگے تو دفاع ہم نے کیا۔ ایک طرف دارالعلوم دیوبند میں یومِ آزادی کے موقع پر پاکستان کے جھنڈے جلائے گئے اور دوسری طرف مولانا فضل الرحمن کی ویڈیو ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے خواب میں فون پر بات ہوئی۔ آدم علیہ السلام نے پوچھا کہ کیا چاہتے ہو؟ میں نے کہا کہ امن۔ حضرت آدمؑ اس پر خاموش ہوگئے۔ سوچا کہ فون کٹ نہ جائے۔اور سلام کیا تو حضرت آدم ؑ نے ڈانٹا کے صبر نہیں کرسکتے تھے؟۔
خواب سچا ہے اور تعبیر بھی مشکل نہیں!۔ پرویزمشرف اور ق لیگ کے بعد زرداری، مسلم لیگ اور کس کس گھاٹ کا دفاع کیا؟۔ جعلی مینڈیٹ سے بننے والی پارلیمنٹ کی مخالفت اور برائے نام چند نشستوں کے باوجود صدارت کیلئے بھی کھڑے ہوگئے؟۔حضرت آدم علیہ السلام نے یہ اسلئے نہیں پوچھا کہ تمہاری چاہت پوری کرنا چاہتے تھے۔ چاہتوں کو زندہ قومیں اپنی تقدیر خود نہ بدلیں تو اللہ بھی پورا نہیں کرتا ۔ حضرت آدمؑ نے حرکتوں کو دیکھ کر فرمایا کہ آخر تم چاہتے کیا ہو؟۔ تمہارے امن کے جواب کو ڈھیٹ پن سمجھ کر خاموش ہوگئے کہ یہ کیا بک رہا ہے ۔ اور جب سلام کہا تو اس جہالت پر مزید غصہ آیا ۔اسلئے کہ کلام کے ابتداء میں سلام شروع کرنے کیلئے ہوتا ہے اور آخر میں بات ختم کرنے کیلئے اور درمیان میں جاہلوں سے بات ختم کرنے کیلئے ۔ واذا خاطبھم الجاہلون قالوا سلاما
مولانا الیاسؒ کے بھتیجے مولانا زکریاؒ جن کی کتاب بھی تبلیغی نصاب کا حصہ ہے ، انہوں نے کبھی چلہ تک نہ لگایا۔ مولانا الیاسؒ کے صاحبزادے مولانا یوسفؒ نے بھی پہلے تبلیغ میں وقت نہیں لگایاجبکہ مولانا احتشام الحسنؒ جس کی کتاب ’’موجودہ پستی کا واحد علاج‘‘ تبلیغی نصاب کا حصہ ہے، مولانا الیاسؒ کے خلیفہ تھے، لیکن صاحبزادہ ہونے کی وجہ سے مولانا یوسفؒ کو امیر بنایا گیا۔ مولانا یوسفؒ وفات پاگئے تو مولانا انعام الحسنؒ امیر بنائے گئے لیکن انکی امیری برائے نام تھی، قاضی جاوید اشرف جو آئی ایس آئی چیف بھی رہے ہیں جو آجکل کرپشن میں گرفتار ہیں، جاوید ناصر اور دوسرے کرتا دھرتا لوگ اندرونِ خانہ اکابرین کو کنٹرول میں رکھتے تھے، جماعت کی اندر ونی فضاء بدل گئی تو مولانا احتشام الحسنؒ نے تبلیغی جماعت کو فتنہ قرار دیا۔ مولانا انعام الحسنؒ کی وفات کے بعد شوریٰ کا غلبہ تھا۔ اب مولانا سعد جو مولانا الیاسؒ کے پوتے اور تبلیغی مرکز بستی نظام میں ہیں، رائیونڈ کے اکابرکو اپنا اور اصل کام کا باغی قرار دیتے ہیں۔ رائیونڈ کے اکابر نے پہلے مولانا طارق جمیل کو نکال باہر کیا تھا مگر اس مشکل صورتحال کو دیکھ کر اپنے ساتھ ملالیاہے۔
حاجی عثمانؒ نے مریدوں کو تبلیغی جماعت سے الگ کرنے کا اعلان کیا تو مفتی تقی عثمانی، مفتی رشیدلدھیانویؒ نے تبلیغی جماعت کے اکابرین پر فتوے لگائے اور حکیم اخترؒ نے تبلیغی جماعت پر علماء کی بے ادبی پر کفر کا فتویٰ لگایا۔ حالانکہ اسی بیان میں تصوف کی بنیاد پر علماء کے دلوں کو کتے بلی کی پوٹی لگنے کے مترادف کہااور جاہل کا شعر نقل کیا کہ منافق موجود ہو تو نبی کا فیض بھی محفل پر اثر نہیں کرتاہے۔
مولانا اشرف علی تھانویؒ نے شیخ الہندؒ کا قول نقل کیا کہ ’’اب چھوٹی موٹی روحانیت کام نہیں آئے گی۔ خراسان سے مہدی آئیں گے ، جس میں اتنی روحانیت ہوگی کہ پوری دنیا کو بدل سکیں گے‘‘۔ حالانکہ حضرت آدم ؑ سے لیکر تاجدارِ ختم نبوت ﷺ تک کوئی اس درجہ کی روحانیت لیکر نہیں آئے جو روحانی قوت کے بل بوتے پر دنیا کو بدلتے، یہ عقیدہ تو مرزاقادیانی کوماننے والوں سے زیادہ خطرناک ہے جو امت میں رچ بس گیا۔ ملاعمرؒ کو خراسان کا مہدی بنایاگیا پھر بگڑی شریعت کی وجہ سے طالبان پر مولانا فضل الرحمن نے بھی خراسان کے دجال کے لشکر کا فتویٰ لگایا مگر دوسری طرف متحارب طالبان میں صلح بھی کروادی تھی۔
شیخ الہندؒ نے مالٹا کی قید کے بعد مہدی کے انتظار کے بجائے قرآن کی طرف رجوع اور اتحاد امت کا مسئلہ اٹھایا جسکے بارے میں مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیعؒ نے لکھ دیا کہ ’’دونوں باتیں دراصل ایک ہیں اور وہ قرآن کی طرف رجوع ہے‘‘۔ مفتی طارق مسعود کی یہ بات تودرست تھی کہ مفتی تقی اورمفتی رفیع عثمانی مفتی رشید احمد لدھیانویؒ کے شاگرد تھے مگر بنوری ٹاؤن کے مفتی ولی حسنؒ وغیرہ شاگرد نہ تھے، مولانا یوسف لدھیانویؒ حاجی عثمانؒ کی قبر پر جاتے اور کہتے تھے کہ سازش کی بنیاد مفتی رشید احمد لدھیانوی کی خباثت تھی۔ مفتی رشید احمد لدھیانوی کی یہ نیکی تھی کہ جب مفتی شفیع ؒ نے مفتی تقی ومفتی رفیع عثمانی کیلئے دارالعلوم میں گھر خریدے تو فتویٰ دیا کہ وقف کی خریدو فروخت جائز اور نہ بائع ومشتری ایک شخص ہوسکتا ہے۔ جس پر تاریخی پٹائی لگائی گئی، مفتی رشیدا حمد لدھیانوی کی دارالعلوم کراچی چھوڑنے کی وجہ بھی یہی تھی۔ شاگرد تو ضرور تھے لیکن جس طرح پروین شاکر نے اپنے شوہر کے بارے میں کہا کہ
کیسے کہہ دوں کہ اس نے چھوڑ دیا مجھے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
مولانا سرفراز خان صفدرؒ ، مولانا عبدالکریم بیرشریفؒ ، مولانا خان محمد کندیاںؒ ، ضلع ٹانک کے تمام اکابر علماء کرامؒ کے علاوہ تمام مکاتبِ فکر کے نامور اکابرؒ نے ہماری بڑی حمایت کی تھی۔ جن میں دیوبندی، بریلوی، اہل تشیع اور اہلحدیث کے علاوہ جماعتِ اسلامی والے شامل تھے۔
مفتی محمد نعیم صاحب مدظلہ میرے استاذ ہیں اور ان کی حمایت کا بھروسہ ہے۔ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر مدظلہ العالی پرنسپل جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کی میری کتاب پر یہ تجویز شائع ہوئی تھی کہ ’’ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی کوشش کرنیوالوں کو امام مالک ؒ کے اس قول کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ اُمت کی اصلاح نہیں ہوسکتی ہے مگر جس چیز سے پہلے ہوئی تھی۔ نبیﷺ نے پہلے تعلیم وتربیت دی ، تزکیہ فرمایا اور پھر ایک انقلاب برپا کردیا‘‘۔ قرآن وسنت کی طرف رجوع مسئلہ کا حل ہے اوریہ تمام مکاتبِ فکر کیلئے قابلِ قبول بھی ہے ۔
قرآن وسنت کی ایسی تشریح جس سے کوئی انحراف نہیں کرسکتا ہو۔ مسلک حنفی اور درسِ نظامی کی بنیادی تعلیم کا ایسا دفاع کہ اہلحدیث اور اہل تشیع بھی مان جائیں۔ پھر کونسی ایسی بات رہتی ہے جوانکار کاباعث بنے؟۔ ہاں اسلام کے روشن چہرے پر کالے بادلوں کے دھبے کی صفائی کچھ اسطرح سے کہ لوگ دنگ رہ جائیں۔ مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ ’’سنتوں کے بعد دعا‘‘نہیں، 3 طلاق پرہی قرآن وسنت کی طرف توجہ کرتے تو یہ مسئلہ حل ہوجاتا۔
اصولِ فقہ کی پہلی کتاب کا پہلا سبق ہے حتی تنکح زوجًا غیرہ آیت230البقرہ میں عورت کو آزاد قرار دیا گیا جبکہ نبیﷺ نے فرمایا کہ’’ جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تواسکا نکاح باطل ہے، باطل ہے ، باطل ہے‘‘۔ قرآن سے تصادم کی بنیاد پر حنفی حدیث کو ردکرتے ہیں جبکہ جمہور مالکی، شافعی، حنبلی اور اہلحدیث کے نزدیک حدیث کی تردیدگمراہانہ حنفی ذہنیت ہے۔
اس اختلاف کا اثر تعلیمی اداروں، معاشرتی اور عدالتی معاملات اور مسلکانہ تعصبات میں بھی پایا جاتا ہے۔کوئی لڑکی گھر سے بھاگ کر آشنا سے مرضی کے مطابق شادی کرلیتی ہے۔مسلک حنفی اور عدالت میں یہ درست قرار دیا جاتاہے۔1991ء میں عبدالقادر روپڑی کی بیٹی کا مشہور کیس ہوا، جس پر مذہبی حلقوں سے تسلی بخش جواب بھی نہ بن سکا تھا۔ آئے روز عدالتوں میں مارکٹائی ، جگ ہنسائی اور تکلیف دہ خبروں کا میڈیا میں تماشہ لگارہتا ہے۔دنیا بھر میں شادی کا تہوار ایسی بدمزگی سے نہیں منایا جاتا ہے جسکا پاکستان میں مظاہرہ ہوتاہے ۔ اسکا ذمہ دار ہمارا تعلیمی نصاب ہے ، جہاں قرآن وحدیث کو متصادم قرار دیا گیا ۔ مدارس کا عوام سے ایک تعلق رہ گیا کہ حلالہ کے فتوے دیکر عقیدت رکھنے والی خواتین کو اپنی ہوس کانشانہ بنائیں۔ لعنت کے رسیا لوگوں کو دلائل نہیں ڈنڈے کے زور سے ہی باز رکھنے پر مجبور کیا جاسکتاہے۔
قرآن میں طلاق شدہ و بیوہ عورت کی آزادی سے نکاح کا ذکر ہے ۔ حدیث سے مراد کنواری عورت ہے۔
جمہور کا مسلک غلط اور گمراہ کن اسلئے تھا کہ بیوہ کے بارے میں ہے فاذا بلغن اجلھن فلاجناح علیکم فیما فعلن فی انفسھن بالمعروف ’’ جب وہ اپنی عدت پوری کرلیں تو تم پر کوئی حرج نہیں کہ وہ جو بھی اپنی جانوں کے بارے میں معروف طریقے سے فیصلہ کرلیں‘‘ اگر نبیﷺ نے عورت کو اسکے ولی کی اجازت کا پابند بنانا تھا تو بیوہ کیلئے واضح آیت کے بعد یہ پابندی ممکن نہ تھی۔ عرف عام اور شریعت میں کنواری اور بیوہ وطلاق شدہ کے احکام مختلف ہیں۔ جمہور نے حدیث کی وجہ سے آیات کے منافی غلط مسلک بنایا مگرامام ابوحنیفہؒ نے اتفاق میں خلل ڈالااسلئے کہ امت کا گمراہی پر اجماع نہ ہوسکتاتھا ۔ یہ اختلاف اسلئے رحمت کا باعث ہے کہ امت کا اختلاف قرآن وحدیث کے گرد گھوم رہاتھا۔ عورت کی شادی نہ ہو تو اسکا ولی ہوتا ہے اور شادی ہو تو اسکا سرپرست اسکا شوہر بنتا ہے۔شوہر کے مرنے یا طلاق کے بعد عورت خود مختار بنتی ہے۔ قرآنی آیات میں طلاق شدہ اور بیوہ کے خودمختار ہونے کی وضاحت ہے اور حدیث سے کنواری مراد ہے۔
صحابہ کرامؓ کاان معاملات پر اختلاف نہ تھا اور سلف صالحین ؒ نے حق پر ڈٹنے اور امت کو گمراہی پر اکٹھا ہونے سے بچانے میں حتی الوسع بھرپور کردار ادا کیا۔ کس موڑ پر کس نے کیا کردار ادا کیا؟ اور کس کی بات درست اور کس کی بات غلط تھی؟۔لیکن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں رسول اللہ ﷺ شکایت فرمائیں گے کہ :

یاربّ ان قومی اتخذوا ہذاالقراٰن مھجورًا

’’اے میرے ربّ! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا‘‘۔
امام ابوحنیفہؒ نے زندگی علم کلام کی گمراہی میں گزار دی اور آخرکارتوبہ کرکے اصول فقہ کی بنیاد رکھ دی۔ میری ایک بیگم سندھی اور دوسری تربت کی بلوچ ہے۔ جس کا ایک چچا مجذوب ہے، وہ موبائل پر فون کرکے اتنی بات کہتا کہ کیاحال ہے مگر خیریت کا جواب سننے سے پہلے فون کاٹتا اور یہی صورحال اصولِ فقہ کی کتابوں کا بھی ہے۔ قرآن کا ذکر ہے لیکن اسکے احکام کی کوئی وضاحت نہیں ۔ قرآن کی تعریف میں اس علم کلام کی گمراہی شامل ہے جس سے امام ابوحنیفہؒ نے توبہ کی۔قرآن کی لکھائی اللہ کا کلام نہ ہوتو پھر فتاویٰ قاضی خان، صاحب ہدایہ، علامہ شامی، مفتی تقی عثمانی اورمفتی سعید خان نکاح خواں عمران خان کا قصور بھی نہیں کہ ’’ سورۂ فاتحہ کوپیشاب سے لکھنا جائز قرار دیا‘‘۔
امام ابوحنیفہؒ کے بعد تاریخ کے اوراق میں امام غزالیؒ کانام ہے جس نے فقہ و اصولِ فقہ کے اندھیرے میں زندگی گزار دی لیکن آخر کارتصوف کی طرف ہجرت کرکے کتاب لکھ ڈالی ’’ من الظلمات الی النور ‘‘ اندھیروں سے روشی کی طرف کا نام اسلئے دیا کہ فقہ واصول فقہ کی تعلیم میں گمراہی کے سوا کچھ نہ ملا۔ جس طرح احناف نے توبہ کے باوجود علم کلام کی گمراہی کو اصولِ فقہ میں داخل کیا ، اس سے بھی زیادہ امام غزالی ؒ نے فقہ کی جس گمراہی سے توبہ کیا اس سے تصوف کی کتابیں لکھ کر بھرڈالیں۔جب مریدوں نے امام غزالیؒ کو خواب میں دیکھا تو امام غزالیؒ نے کہا مجھے کچھ بھی کام نہیں آیا۔ احیاء العلوم، کیمیاءِ سعادت، اندھیروں سے روشنی کی طرف ساری کتابیں کھوٹے سکّے نکلے۔ ایک مکھی کو سیاہی پینے دی تھی ، اس سے میری بخشش ہوگئی۔
مریدوں اور عقیدتمند وں نے اس خواب سے عبرت حاصل کرکے ان تعلیمات کو دریابرد کرنے یا اس پر نظرثانی کرنے کے بجائے مزید گمراہی کا ٹھیکہ اٹھالیا کہ امام غزالیؒ نے تصوف سے جس خلوص کی تعلیم دی ہے، مکھی کو سیاہی کی بوند پلانے کے علاوہ کسی عمل میں خلوص نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنابت سے غسل اور وضو کا حکم قرآن میں نماز کیلئے ہے۔ نبیﷺ جنابت کی حالت میں غسل کئے بغیر صرف وضو کرکے بھی رات کوسوجایا کرتے تھے۔ تصوف کا کارنامہ یہ تھا کہ امام غزالیؒ نے لکھ دیا کہ ’’ اگر نفس سردی کی راتوں میں نہانے سے سستی کی طرف مائل ہو تو ٹھنڈے پانی میں کپڑے سے نہاکر رات بھر اسی میں سوجاؤ، یہ نفس کو سرکشی کی سزا ہے‘‘۔ الیاس قادری بانی دعوت اسلامی نے اپنی کتاب ’’ غسل کاشرعی حنفی طریقہ‘‘ کے ابتداء میں یہ درج کیا ہے، حالانکہ امام غزالی ؒ حنفی نہیں شافعی تھے۔
یہ بڑا المیہ ہے کہ درسِ نظامی کے نصاب ’’اصول فقہ‘‘ میں یہ تعلیم دینے کے باوجود کہ مسائل کے حل کیلئے پہلا اصول قرآن، دوسرا سنت ، تیسرا اجماع اور چوتھا قیاس ہے لیکن بنیادی اصول قرآن کی واضح آیات اور احادیث صحیحہ کو چھوڑ کر قیاس کے گھوڑے دوڑائے جاتے ہیں۔ تین طلاق کے حوالے سے جو عمارت کھڑی کی گئی ہے وہ شرمناک بھی ہے اور انسانیت سوزی کے اعتبار سے بہت کربناک بھی۔ میں نے اپنی کتابوں میں حقائق کو کھولا اور اسکے بعد نرم گوشہ پیدا کرنے کی کوشش کو وبال اور عذاب سے کم نہیں سمجھتا۔ اپنے اساتذۂ کرام سے مجھے توقع ہے کہ حق کی آواز بلند کرنے میں میرا ساتھ دینگے اور طالب علمی کے زمانے سے جاننے والے طلباء عظام سے توقع رکھتا ہوں کہ اب وہ کھل کر حمایت کرینگے۔ انشاء اللہ العزیز

وانزلنا الکتاب تبیانًا لکل شئی

’’اور ہم نے کتاب کو نازل کیاہے ، ہر چیز کو واضح کرنے کیلئے‘‘۔ تین طلاق اور اس سے رجوع کا مسئلہ بھی قرآن میں ایک بار نہیں بلکہ بار بار واضح کیا گیا۔ ایک بھی ایسی حدیث صحیحہ نہیں جو قرآن کی ان آیات سے متصادم ہو۔
طلاق کے احکام کا مقدمہ یہ ہے کہ ’’اور اللہ کو مت بناؤ اپنے عہدوپیمان کیلئے ڈھال کہ نیکی کرو، تقویٰ اختیار کرو اور لوگوں کے درمیاں صلح کراؤ‘‘(البقرہ: 224 )
اس آیت کا تقاضہ ہے کہ قرآن میں ایسی صورت نہ ہو کہ لوگ بالعموم اور میاں بیوی بالخصوص صلح چاہتے ہوں اور کوئی لفظ، عہد وپیمان اور فتویٰ میاں بیوی کے درمیاں صلح کیلئے اللہ کے نام پر رکاوٹ بن جائے۔بالفرض محال ایسی کوئی صورت نکل آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے درمیاں صلح پر پابندی لگائی ہو تو یہ قرآن کے احکام میں بہت بڑا تضاد ہوگا۔ علماء ومفتیان کے ذہنوں میں قرآن کریم تضادات سے بھرا ہواہے لیکن وہ اس گمراہانہ سوچ کو سمجھنے سے بالکل قاصر نظر آتے ہیں۔ ایک بڑے علامہ کی طرف سے سوال کیا گیا کہ ’’ جب انبیاء کرام معصوم ہیں تو حضرت آدم علیہ السلام اس شجرہ ممنوعہ کے پاس کیسے گئے؟ ابلیس نے کیسے پھسلایا اور جنت سے نکلوایا؟‘‘، حالانکہ کسی نبی کی عصمت کا درست مفہوم یہ ہے کہ وحی کے ذریعے ان کی رہنمائی کا سلسلہ رہتا ہے، کوئی ایسی شخصیت نہیں کہ اس کی وحی سے رہنمائی ہو۔ خلفاء راشدینؓ کی بھی رہنمائی نہ تھی۔ گناہوں سے پاک معصوم تو بچے، فرشتے اور ہجڑے بھی ہوتے ہیں اور یہ کوئی کمال کی بات بھی نہیں کیونکہ جن مخلوقات میں نافرمانی یا شہوت کی صلاحیت نہ ہو تو ان کے معصوم ہونے کا فائدہ یا کمال بھی کوئی نہیں ہے۔
قرآن نے یہ بتایا کہ اللہ کو صلح میں کسی طور پر رکاوٹ قرار دینا قرآن کے واضح حکم کی خلاف ورزی ہے۔یہ بھی بتایا کہ طلاق کے بعد انتظار کی عدت ہے اور اس دوران اصلاح کی شرط پر شوہر ہی رجوع کا زیادہ حقدار ہے۔ اور یہ بھی بتایا کہ اگر باہوش و حواس میاں بیوی نہ صرف جدا ہونا چاہتے ہوں بلکہ آئندہ کسی قسم کا رابطہ نہ کرنے پر متفق ہوں اور فیصلہ کرنیوالے بھی اسی نتیجے پر پہنچ جائیں تو ایسی صورت میں طلاق کے بعد شوہر کیلئے وہ عورت حلال نہیں یہانتک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے۔ قرآن کو سمجھنے کیلئے عام ان پڑھ اور کمزور درجے کی عقل رکھنے والا انسان بھی کافی ہے۔ اندھوں میں کانا راجہ ہوتا ہے ،دعوت اسلامی کے کارکنوں کا امام علامہ الیاس قادری میمن مسجد کراچی کے پاس جھاڑو بیچتاتھااور اب ایک خلقِ خدا اس کی پوچا کررہی ہے۔ اگر شریعت کی حقیقت کو عوام پر نہیں کھولا گیا تو آنیوالے وقت میں علامہ الیاس قادری بھی تاریخ کے اوراق میں ایک بڑی چیز ہوگی۔
میاں بیوی باہوش وحواس جدائی پر متفق ہوں، فیصلہ کرنیوالے بھی رابطہ کی صورت باقی نہ چاہتے ہوں تو پھر آیت کا مطلب واضح ہے کہ شوہر کی غیرت اسوقت جاگ اٹھتی ہے جب عورت طلاق کے بعد کسی اور شوہر سے نکاح کرنا چاہتی ہو۔پھر یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ صلح یا رجوع ہوسکتا ہے یا نہیں؟۔ بلکہ سوال یہ اٹھتا ہے کہ پہلا شوہر اس طلاق کے بعد بھی اپنی مرضی سے اس کو دوسرے شوہر سے نکاح کی اجازت دیتا ہے یا نہیں؟۔ عورت کی آزادانہ نکاح میں طلاق کے بعد ولی نہیں بلکہ سابق شوہر کی طرف سے رکاوٹ ہوتی ہے۔ لیڈی ڈیانا کے حادثاتی قتل میں برطانوی شاہی خاندان کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا۔ وزیراعظم عمران خان نے ریحام کو طلاق دی تھی تو پاکستان واپس آنے پر ریحام خان کو قتل کی دھمکیوں کا سامنا ہوا۔
اللہ نے سورۂ بقرہ کی آیت230سے پہلے عدت میں رجوع کو واضح کیا اور اسکے بعد بھی عدت کی تکمیل کے بعد رجوع کے جواز کی واضح الفاظ میں وضاحت کردی۔ سورۂ طلاق میں بھی اس مؤقف کی جامع وضاحت کردی لیکن علماء ومفتیان کا کمال ہے کہ قرآن کی طرف دیکھے بغیر صلح نہ کرنے، گھروں اور عزتوں کی تباہی کے فتوے ڈھٹائی سے ڈھیٹ بن کر دئیے جارہے ہیں۔
یہ تحریر اہلحدیث ،پرویزی اورشیعہ سے زیادہ اہلیت والے دیوبندی بریلوی علماء و مفتیان سمجھ سکتے ہیں۔ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کو باطل کرنے والی حدیث صحیحہ کو رد کرنے کی تعلیم دی جاتی ہے مگر رجوع کے حوالے سے بہت سی آیات کے ہوتے ہوئے بھی قرآن کے مطابق کوئی فتویٰ نہیں دیا جاتا حالانکہ کوئی ایک حدیث صحیحہ بھی ان آیات سے متصادم نہیں۔ میرا لہجہ تحکمانہ لگتا ہے لیکن میں رائے نہیں بلکہ آیات اور احادیث پیش کررہا ہوں، اگر میں اپنی رائے پیش کررہا ہوتا تو اتنے بڑے اکابر علماء ومفتیان کے مقابلے میں اپنی عاجزانہ رائے پیش کرنے کی جسارت بھی بڑی گستاخی سمجھتا۔ اگراکابر خالص قرآنی آیات، احادیث صحیحہ ، اصولِ حدیث اور اصولِ فقہ کے علاوہ تمام عقلی ونقلی دلائل سے صرف اسلئے انکار کریں کہ وہ اکابر ہیں اور میری کوئی حیثیت نہیں تو ایسا اکابر ہونا انہیں مبارک ہو اور مجھے اللہ پناہ دے۔

و کذالک جعلنا فی کل قریۃ اکابر مجرمیھالیمکروا فیھا واللہ خیر ماکرین O

’’ اور اسی طرح ہم نے تمام شہروں میں انکے مجرم اکابربنائے ہیں ، تاکہ اس میں اپنے داؤو پیج کھیلیں اور اللہ بہتر تدبیر کرنیوالا ہے‘‘۔
علامہ ابن ہمامؒ اور علامہ بدرالدین عینی ؒ کی وفات 950ھ اور 980ھ کو ہوئی تھی۔ انہوں نے لکھ دیا ہے کہ ’’حلالہ کی نیت دل میں ہو لیکن زبان سے الفاظ ادا نہ کئے جائیں تونیت کا اعتبار نہیں اور حلالہ لعنت نہیں، بعض مشائخ نے کہا ہے کہ اگر خاندان کوجوڑنے کی نیت ہو توحلالہ کارِ ثواب بھی ہے‘‘۔ یہ شیوخ ،اکابر حضرات جس طرح کی حیلہ سازی سے مجرمانہ مکر کرتے رہے ہیں ،اسکے نتیجے میں آج اسلامی اور عام بینکوں میں جلی حروف کیساتھ دیواروں پر بہت خوبصورت خطاطی کیساتھ انتہائی بے شرمی کیساتھ یہ قرآنی آیت لکھی ہوتی ہے :

واحل اللہ البیع وحرّم الربوٰ

اللہ تعالیٰ نے طلاق کے مسئلے کو زبردست طریقے سے پیش کیااور فقہاء نے اس کی شکل مسخ کرکے رکھ دی ہے ، دونوں میں موازنہ کرنے کے بعد تھوڑاعلم اور سمجھ بوجھ رکھنے والا انسان اندھیرے اور روشنی کو برابر نہیں کہہ سکتاہے۔دنیا کے اندھے آخرت میں بھی اندھے اُٹھیں گے۔
اگر میں قرآن وسنت کو غلط پیش کررہا ہوں تو علماء ومفتیان میں میرے اساتذہ کرام بھی ہیں ۔ مجھے کان سے پکڑ کر سیدھا کریں۔ مجھے میڈیا کے سامنے مرغا بنائیں۔ مجھے اپنے استاذوں کو نہ صرف مان دینی ہے بلکہ یہ ان کا دینی فریضہ بھی ہے جو مجھے بالکل قبول ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

لاتجعل اللہ عرضۃ لایمانکم ان تبروا وتتقوا وتصلحوا بین الناس

’’ اپنے عہد و پیمان کیلئے اللہ کو ڈھال مت بناؤ، کہ تم نیکی کرو، تقویٰ اختیار کرو اور لوگوں کے درمیان صلح کراؤ‘‘ یمین کا لفظ عام ہے۔ حلف، عہد ، وعدہ اور طلاق وغیرہ سب اس میں شامل ہیں۔ اصول فقہ کی کتابوں میں یمین پر بحث اور اختلاف انتہائی لغو اور جہالت پر مبنی ہے۔ یمین لغو، یمین غموس اور یمین منعقدہ کی تقسیم اور اس پر اختلاف کی گنجائش نہیں۔ ہروہ قسم ، عہدوپیمان، وعدہ جو بلاسوچے سمجھے زبان سے ادا ہوتو وہ یمین لغو ہے۔

لاےؤاخذکم بالغو فی ایمانکم کا ذکر سورہ بقرہ آیت225اور سورہ مائدہ دونوں میں ہے۔

اس کی تشریح ہی غلط کی گئی ہے۔ تفسیر کی کتابوں میں فقہ کی تشریح سے اختلاف بھی موجود ہے۔یمین وعدہ اور عہدوپیمان بھی ہوسکتا ہے اور یہ بھی کہ یمین سے مراد حلف لیا جائے۔ احناف کے نزدیک یمینِ منعقدہ میں ہی کفارہ ہے یمین غموس میں نہیں اسلئے کہ سورہ مائدہ میں لفظ اذا عقدتم الایمان ہے تو کفارہ کا بھی حکم ہے جبکہ سورہ بقرہ میں بماکسبتم قلوبکم ہے لیکن اس میں کفارہ کا حکم نہیں حالانکہ یہ بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔ سورۂ مائدہ میں واضح فرمایا :

ذلک کفارۃ ایمانکم اذا حلفتم

’’ یہ تمہارے یمینوں کا کفارہ ہے اس وقت جب تم نے حلف اٹھایا ہو‘‘۔ یمین سے مراد حلف نہیں وعدہ ہو تو کفارہ نہیں ۔ نکاح سے بڑا پکا وعدہ کیاہے؟۔ میثاق غلیظ اورعقدۃ النکاح کے توڑنے پر کفارے کا حکم نہیں۔ یمین سے مراد حلف ہو تو کفارہ ہے اور وعدہ ہو توپھر کفارہ نہیں ۔
یہ نئی بات لگی ہوگی کہ یمین سے مراد قسم کے علاوہ وعدہ، نکاح، طلاق اور عہد وپیمان کیسے ہیں؟۔ آئیے! جہالت در جہالت ظلمات بعضھا فوق بعض کے قلعوں (مدارس)کے مکینو!تمہارے شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنی کتاب’’ تقلید کی شرعی حیثیت ‘‘ میں اس متفق علیہ حدیث کو تقلید کی فرضیت میں لکھا کہ جس میں نبیﷺ نے فرمایا کہ علم کو اللہ تعالیٰ اس طرح سے نہیں اٹھائے گا کہ قرآن کو آسمان پر اٹھالے بلکہ علماء کو ایک ایک کرکے اٹھاتا رہے گا یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہیگا تو لوگ جہلاء کو اپنا پیشواء بنالیں گے، ان سے فتویٰ پوچھیں گے اور وہ جانے بوجھے بغیر فتویٰ دینگے، تو خود بھی گمراہ ہونگے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرینگے۔(بخاری ومسلم)

مفتی تقی عثمانی نے لکھ دیا ہے کہ یہ حدیث دلیل ہے کہ ائمہ اربعہؒ کے بعد علماء اٹھ چکے، علماء نہیں رہے تھے اسلئے تقلید ضروری ہے۔

جبکہ مولانا یوسف لدھیانویؒ نے اس کو اپنی کتاب ’’عصر حاضر حدیث نبویﷺ کے آئینہ میں‘‘ کے اندر لکھ دیا۔ ہمارے وزیرستان کے لوگ کہتے ہیں کہ’’ مورپلور میں مڑہ کے مووترانجے تہ لایکہ : میرے ماں باپ مریں اور مجھے اُچھلنے کودنے کیلئے فارغ کردے تاکہ لوفری کرتا پھروں‘‘ اجتہاد کو ناجائز قرار دینے والا سود کو جواز بخش رہا ہے۔ پہلے والے بھی کوئی قابل رشک نہیں تھے لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ تو اللہ والے موجود رہتے تھے لیکن حاجی عثمانؒ کیساتھ جو کچھ ہوا ، وہ بھی میرے بالکل سامنے کا معاملہ ہے۔
یہاں یہ سمجھانا مقصد ہے کہ یمین سے مراد طلاق اور دوسرے ایسے الفاظ ہیں جس میں حلف و دیگر معاملات شامل ہیں۔ فتاویٰ قاضی خان بہت معتبر کتاب ہے ۔ فتاوی تاتارخانیہ میں قاضی خان کے حوالے لکھا ہے کہ ۷۹۱۲:

وفی الخانےۃ: رجل قال لامرأتہٖ : ان لم یکن فرجی احسن من فرجک فانت طالق، وقالت المرأۃ: ان لم یکن فرجی احسن من فرجک فجاریتی حرۃ ، قال الشیخ الامام ابوبکر بن الفضل : ان کان قائمین عندالمقالۃ برت المرأۃ و حنث الزوج ، لو کان قاعدین برالزوج و حنث المرأۃ ،لان فرجھا فی حالۃ القیام احسن من فرج الزوج، ولامر علی العکس فی حالۃ القعود ، وان کان الرجل قائماً و المرأۃ قاعدۃ قال الفقیہ ابوجعفر : لا اعلم ھذا، وقال : وینبغی ان یحنث کل واحدٍ منھما لان شرط البر فی کل یمین ان یکون فرج احدھما احسن من فرج لاٰخر وعند التعارض لایکون احدھما احسن من الاٰخر ، فیحنث کل واحد منھما ۔ الفتاوی التاتارخنیۃ، التالیف للشیخ الامام فرید الدین عالم بن العلاء الاندربی الدھلوی الھندی المتوفی ۷۸۶ ھ ، قام بترتیبہٖ وجمعہٖ و ترقیمہٖ و تعلیقہٖ بنحو عشرۃ الٰاف من الاحادیث و الاٰثار شبیر احمد قاسمی المفتی المحدث بالجامعۃ القاسمیۃ الشھیرۃ بمدرسۃ شاہی مراد آباد الھند ، المجلد الخامس بقےۃ من الطلاق ، لنفقات العتقاق، ص ۲۹۴،مکتبہ رشیدیہ سرکی روڈ کوئٹہ فون: 2662263

ترجمہ:’’ فتاویٰ خانیہ میں ہے کہ آدمی نے اپنی عورت سے کہا کہ اگر تیری شرمگاہ میری شرمگاہ سے خوبصورت نہ ہو تو تجھے طلاق ۔ اورعورت نے کہا کہ اگرمیری شرمگاہ سے تیری شرمگاہ سے زیادہ خوبصورت نہ ہو تومیری لونڈی آزاد۔ الشیخ امام ابوبکر بن الفضل نے کہا کہ ’’ اگر مکالمے کے دوران دونوں کھڑے تھے تو عورت بری ہے ( لونڈی آزاد نہ ہوئی)۔اور مرد حانث ہوا( طلاق ہوگئی) اور مکالمے کے وقت دونوں بیٹھے تھے تو مرد بری ہوا(طلاق واقع نہ ہوئی) اور عورت حانث ہوئی ( لونڈی آزاد ہوگئی) اسلئے کہ کھڑے ہونے کی حالت میں عورت کی شرمگاہ مرد کی شرمگاہ سے خوبصورت ہے اور معاملہ برعکس ہے بیٹھنے کی حالت میں۔اور اگر مرد کھڑا تھا اور عورت بیٹھی ہوئی تھی تو فقیہ ابوجعفر نے کہا کہ اس صورتحال کو میں نہیں جانتا کہ کیا ہوگا؟۔ اور کہا کہ چاہیے کہ ہرایک دونوں میں حانث ہو، اسلئے کہ برأت کی شرط ہر یمین میں یہ ہے کہ ایک دوسرے سے ان کی شرمگاہ خوبصورت ہو اور اسکے برعکس معاملے میں دونوں میں سے ہر ایک حانث ہو۔تو دونوں کو حانث ہونا چاہیے‘‘۔ فتاویٰ تاتارخانیہ ۔ تالیف الامام فرید الدین عالم بن العلاء الاندرپی الدہلوی الہندی متوفی 786ھ۔ اس کی ترتیب وجمع اور ترقیم وتعلیق کیلئے کھڑا ہوا۔تقریباً دس ہزار احادیث اور آثار کیساتھ شبیر احمد قاسمی مفتی و شیخ الحدیث جامعہ قاسمیہ شاہی مراد آباد ، ہندوستان ۔ جلد نمبر 5، بقےۃ من الطلاق، لنفقات العتاق ، صفحہ294۔مکتبہ رشیدیہ سرکی روڈ کوئٹہ۔
فتاویٰ قاضی خان کو باقی فتوؤں کی کتابوں کیلئے ماں کہا جائے تو بیجا نہیں ہوگا۔ لونڈی آزاد کرنے اور طلاق کوبھی یمین سے تعبیر کیا گیا۔ حالانکہ یہ حلف نہیں ہے۔ جب مفتی تقی عثمانی نے اپنی کتابوں ’’فقہی مقالات اور تکملہ فتح الملہم‘‘سے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کے جواز کی بات کو نکالنے کا اعلان کیا تو وزیراعظم عمران خان کے روحانی پیشوا اور نکاح خواں مفتی محمدسعید خان نے اسکے تین چار سال بعد اپنی کتاب ’’ریزہ الماس‘‘ شائع کی اور اس میں فتاویٰ قاضی خان کی اس عبارت کو ٹھیک قرار دیا کہ سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے۔ اصولِ فقہ میں یہ پڑھایا جائے کہ ’’ قرآن کے لکھے ہوئے الفاظ محض نقوش ہیں جو نہ لفظ ہیں اور نہ معنیٰ اور یہ اللہ کا کلام نہیں، جس پر حلف اٹھایا جائے تو حلف نہیں ہوتا۔ پھر پیشاب سے لکھنے میں کیا حرج ہوگا؟۔فقہ پر نظر ثانی کی جائے!۔
شوہربیوی شرمگاہ کی خوبصورتی کا فتویٰ علماء و مفتیان سے طلب کریں۔ ہیت بدلنے سے جلوؤں میں فرق آتا ہو اور یہ فیصلہ مفتی صاحب نے کرنا ہو۔ دوصورتوں میں معاملہ واضح ہو، ایک ہیت میں مرد کی شرمگاہ زیادہ حسین ہو اور دوسری ہیت میں عورت کی شرمگاہ کو چار چاند لگیں۔ حبشی شوہر اورگوری خاتون یا گورا شوہر اور حبشی خاتون کا حسن ہیت بدلنے سے بدلے تو حسنِ یوسف علیہ السلام کودیکھ کر قطعن ایدیھن کے علاوہ ہابیل وقابیل کے قصے سے لیکر دنیا کے بہت سے حقائق سے انحراف ہے اور تیسری صورت میں مفتی صاحب کو بھی پتہ نہ ہو کہ بیوی طلاق ہوگی یا لونڈی آزاد ہوگی؟۔ مگر وہ اپنا خیال ظاہر کرے کہ دونوں کو حانث ہونا چاہیے اسلئے کہ دونوں اپنی اپنی یمین میں بریت چاہتے ہیں، دونوں بری نہیں ہیں، خاص پوزیشن میں بیٹھنے کی وجہ سے۔ ذرا سوچئے توسہی! اور قرآن کے مقابلے میں بحرمردار میں غرق ہوجائیے۔ کس ادب ، کس نرمی، کس شائستگی سے رائے کے نام پر اپنی گردن تمہارے آگے جھکاؤں اور خود کو تباہ کردوں؟۔ یہی مذہبی طبقہ ہے جس نے پہلے ادیان کو اپنی خواہشات کیلئے تباہ کیا اور آج بھی قرآن کے پرخچے اُڑارہے ہیں۔
علامہ ابن رشد کی کتاب ’’ بدایۃ المجہد نہاےۃ المقتصد‘‘میں طلاق کے حوالے مختلف مکاتبِ فکر کے حوالے سے زبردست بحث مباحثہ کا خلاصہ دیا گیا ہے۔
اہلحدیث کے پاس کوئی فتویٰ لیکر جائے کہ ایک دن کی تین مجالس یاتین دن یا تین طہروحیض میں تین مرتبہ کی طلاق کے بعد رجوع کی گنجائش ہے تو انکا فتویٰ ہے کہ اس صورت میں رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ غلام احمد پرویز کے پیروکار کہتے ہیں کہ فقہ حنفی میں طلاقِ احسن کا جو تصور ہے کہ ایک مرتبہ میں ایک طلاق دیدی، عدت کی تکمیل کے بعد رجوع کرلیا، پھر دوسری مرتبہ طلاق دی اور عدت کی تکمیل کے بعد رجوع کرلیا تو پھر تیسری مرتبہ طلاق کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا ہے جب تک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرلے۔ پرویز فقہ حنفی سے چوری شدہ فکر کو قرآن کی طرف رجوع کا نام دیتا ہے۔ جبکہ علامہ عمادی نے اپنی کتاب ’’ الطلاق مرتان ‘‘ میں قرار دیا تھا کہ احادیث تو عجم کی سازش ہیں، قرآن نے تین طلاق کا تصور ختم کردیا، البتہ عورت خلع لے تو حلالہ کی سزا پھر اس کو ملے گی۔ اہل تشیع کے ہاں طلاق کیلئے تینوں مراحل میں دو دو عادل گواہ شرط ہیں اور پھر طلاق دی جائے تو قرآن کی رو سے حلالہ کا تصور قائم ہوگا۔ غرض سب نے اپنی اپنی بات کی ہے۔
قرآن کی آیات اور احادیث صحیحہ کا آپس میں تصادم نہیں ،طلاق کے حوالے سے جتنی آیات اور احادیث ہیں ان کی تفصیل دیکھ لی جائے توپھر راہِ ہدایت مل سکتی ہے۔
مسلک حنفی نے قرآن کے مقابلے میں احادیث کے انکار سے صراط مستقیم کا توازن قائم کردیاہے۔

ابن ماجہؒ کی حدیث ہے کہ ’’ رضاعت کبیر یعنی بڑا آدمی نا محرم عورت کا دودھ پی سکتا ہے اور اسکے بارے میں 10قرآنی آیات تھیں، رسول ﷺ کے وصال فرمانے کے بعدآپؐ کی میت جس چارپائی پر موجود تھی اسکے نیچے یہ آیات پڑی تھیں اور بکری کے کھا جانے سے ضائع ہوگئیں‘‘۔

اگر مسلک حنفی میں قرآن سے متصادم احادیث کو رد نہ کیا جاتا تواُمت بدترین گمراہی کا شکار بن جاتی۔اہلبیت کی احادیث سے اہل تشیع کی طرح سب کے سب مہدئ غائب کے انتظار میں بیٹھ جاتے۔ اہل تشیع نے بھی آخر کار خمینی کی قیادت میں نظرئیے سے بغاوت کی۔ اجتہاد اور شیخ الاسلام کی جگہ ولایت فقیہ اور حجۃ الاسلام نے لے لی ہے اور اہلحدیث بھی اپنے مسلک کی یہ بکواس سرِ عام نہ کرسکے کہ ’’ بڑا آدمی عورت کا دودھ پی کر پردہ ختم کرسکتا ہے لیکن پھر اس عورت اور مرد کی آپس میں شادی بھی ہوسکتی ہے‘‘۔
حنفی مسلک کا کمال تھا کہ احادیث صحیحہ اور خلفاء کرام حضرت ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ اور علیؓکے اقوال سے نصاب ہی میں اپنا واضح اختلاف اسلئے نقل کیا کہ اپنے زعم کے مطابق احناف کو وہ سب کچھ قرآن کی آیات سے متصادم لگتا تھا۔ یہی اختلاف رحمت اور وحی کا نعم البدل گردانا جاسکتاہے۔ میری خوش قسمتی ہے کہ اہل تشیع، اہلحدیث اور پرویزیوں سے نہیں بلکہ مدارس عربیہ سے دینی تعلیم حاصل کی ہے۔ میری تعلیم حنفی مدارس اور تربیت خانقاہی ماحول میں ہوئی ہے۔ حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوریؒ اور حضرت حاجی محمد عثمانؒ کے تقویٰ وپرہیزگاری اور عنداللہ مقبولیت کیلئے ایک دلیل یہ بھی ہے کہ میری تعلیم وتربیت کا اعزاز بھی ان کے کھاتے میں جاتا ہے۔ اختلافِ رائے سے عقیدت کی بنیاد ختم ہوسکتی تھی تو نبی کریم ﷺ سے حضرت عمرؓ کی طرف سے حدیث قرطاس کے معاملے پر ہمیں شیعہ بننا چاہیے۔
رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر کوئی شخصیت نہیں ، قرآن سے بڑھ کر کوئی کتاب نہیں۔ زمانہ جاہلیت میں سب سے سخت ترین طلاق یہ تھی کہ کوئی اپنی بیوی کی پیٹھ کو اپنی ماں کی پیٹھ سے تشبیہ دیتا۔ ایک خاتون حضرت خولہؓ نے جب نبیﷺ سے فتویٰ طلب کیا تو نبیﷺ نے اس وقت کے رسم ورواج اوررائج الوقت شرعی قول کے مطابق یہ بتایا تھا کہ ’’ آپ اپنے شوہر کیلئے حرام ہوچکی ہو ‘‘۔ کیونکہ اس میں حلالہ کا بھی تصور نہیں تھا۔ اس خاتون نے بارگاہِ رسالت مآبﷺ میں جھگڑا شروع کردیا کہ حرام نہ ہوناچاہیے، یہ اسلام کا مسئلہ نہ ہونا چاہیے، میری جوانی اور میرا مال سارا ختم ہوگیا ہے، اب مجھ سے کون شادی کریگا، میرے بچے رُل جائیں گے۔ اپنے پاس رکھوں تو بھوک سے مرینگے ، شوہر کے پاس رکھوں تو ماں کے بغیر کیسے گزارہ کرینگے؟۔
اللہ نے سورۂ مجادلہ کی وحی نازل فرمائی کہ’’ بیشک اللہ نے سن لی اس عورت کی بات جو آپ(ﷺ) سے جھگڑ رہی تھی اور اللہ سے شکوہ کررہی تھی، اللہ دونوں کا مکالمہ سن رہا تھا۔ مائیں وہ ہیں جنہوں نے جنا ، منہ کے کہنے سے وہ بیویاں مائیں نہیں بن جاتیں، یہ جھوٹ و منکر قول ہے‘‘۔
سورۂ احزاب بھی مدارس کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔

’’ یاایھا النبی اتق اللہ ولاتطع الکٰفرین و المنافقین ،ان اللہ کان علیما حکمیاOاتبع مایوحیٰ الیک من ربک ان اللہ کان بماتعملون خبیرا O و توکل علی اللہ وکفی باللہ وکیلاO … . .. و اذ تقول للذی انعم اللہ علیہ وانعمت علیہ امسک زوجک علیک واتق اللہ وتخفی فی نفسک ماللہ مبدیہ وتخشی الناس واللہ احق ان تخشٰہ ۔۔۔آیت:37) ۔

اے نبی(ﷺ) کافروں اور منافقوں کی اطاعت نہ کرو، بیشک اللہ علیم حکیم ہے ۔ جو وحی تیرے رب نے تیری طرف نازل کی اس کا اتباع کریں۔اور اللہ جانتا ہے جو تم لوگ عمل کرتے ہو، اور اللہ پر توکل کرو، اس کی وکالت کافی ہے۔ ( پھر منہ سے بیوی کو ماں قرار دینے اور منہ بولے بیٹے کی طلاق شدہ بیویوں کا ذکرکرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ حقیقی ماں وحقیقی بیٹے کی بیوی کی طرح وہ نہیں ہوسکتی ہیں۔ دلیل یہ دی ہے کہ ایک شخص کے سینے میں دو دل نہیں ہوسکتے کہ ایک دل سے اس عورت کو اپنے بچوں کی ماں اور دوسرے سے اپنی حقیقی ماں سمجھے ، اس طرح لے پالک کی طلاق شدہ بیوی کا بھی یہی مسئلہ ہے۔ اللہ نے فطری دلائل دئیے ہیں)…. پھر اللہ نے فرمایا’’ جس شخص کو آپ نے نعمت(بیوی ) سے نوازا تھا اور اللہ نے نوازا تھا، اس (حضرت زیدؓ ) کو بار بار آپ کہہ رہے تھے کہ بیوی کو طلاق نہ دے اور اللہ کا خوف کھا۔ جس چیز کو اپنے اندر چھپارہے تھے ، اللہ نے یہ ظاہر کرنا تھا۔ آپ لوگوں سے ڈرتے ہو، جبکہ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ اس سے ڈرو‘‘۔ ان آیات کی غلط تشریح کی وجہ سے مرزا غلام قادیانی جیسے ملعون نبوت کے دعویدار پیدا ہوئے اور ہمارے اکابر اور عجیب وغریب روایات گھڑنے والوں نے اس کو بہت غلط رنگ میں پیش کیا۔ امریکہ سے ایک کتاب ’’ اسلام کے مجرم ‘‘ شائع ہوئی ہے جس پر کراچی ہی کے پوسٹ بکس کا ایڈریس لکھا ہے۔ اس میں بکواسات کی بھرمار ہے اور فقہ وتصوف کی گمراہی نے عجیب رنگ دیا۔
علماء ومفتیان کی بات مان کر اگر میں نے ہتھیار ڈال دئیے تو مذہب کے نام پر یہ عوام کے سامنے زیادہ عرصہ رہ نہیں سکیں گے ،اسلئے کہ کھوکھلے نظام کی دھجیاں بکھیرنے میں بہت لوگوں نے بہت کچھ کیا ہے اور میری طرف سے احیاءِ دین کی کوشش میں مذہبی طبقات کی بھی بقاء ہے۔
طلاق پرفقہی مسائل میں بیہودہ ، غلط اور کم عقلی کی بنیاد پرجو عمارت کھڑی کی گئی ہے اس کو سہارا دیا جاسکتا تھا تو بڑے مدارس سے میری کوئی کتاب رد کی جاتی مگر بڑے بڑوں نے ہتھیار ڈال دئیے ہیں۔ چند بنیادی باتوں کی طرف علماء ومفتیان کی توجہ ہوجائے تو قرآن ان کیلئے شفاء اور آنکھیں لوٹانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
1: قرآن میں خلع اور طلاق کا تصور ہے۔ خلع کو سورۂ النساء میں اولیت ہے ۔ آیت 19میں خلع، آیت 20 اور21میں طلاق کی وضاحت ہے۔ ہاتھ لگائے بغیر جدائی کا فیصلہ ہوجائے تو عدت نہیں، لیکن ہاتھ لگانے کے بعد یعنی ازدواجی تعلق کے بعد عدت ہے۔ ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق میں آدھا حق مہربھی ہے۔جب عورت اور اسکے شوہر میں جدائی ہو تو اصل معاملہ حقوق کا ہے۔
2: عورت دعویٰ کرے کہ اس کو شوہر نے طلاق دی تو مرد کا اقرار یا عورت کی طرف سے گواہ پیش کرنا ہوگا۔ورنہ تومرد کو حلف اٹھانا پڑیگا۔ اسلئے نہیں کہ جدائی کا معاملہ اس سے رُک جائیگا بلکہ اگر عورت معتبر گواہ پیش کرے تو حقوق کے حوالے سے اس پر طلاق کا اطلاق ہوگا اور اگر عورت اپنے دعوے میں ناکام ہو اور شوہر حلف اٹھائے تو پھر اس جدائی پر خلع کا اطلاق ہوگا۔ فقہ کی کتابوں میں بہت زیادہ غلط بیانی کی گئی ہے جس کی اسلام اور فطرت میں گنجائش نہ تھی۔ مثلاً عورت نے دعویٰ کیا کہ اسکے شوہر نے تین مرتبہ طلاق دی مگر گواہ نہ لاسکی اور شوہر نے حلف اٹھالیا ، اگرچہ غلط حلف بھی اٹھایا ہے تو بھی عورت حرامکاری پر مجبور ہوگی اور خلع لینے کی کوشش فرض ہوگی لیکن شوہر خلع نہ دے تو پھر عورت کوشش کرے کہ اسکے ساتھ جماع نہ ہو لیکن مجبوری میں اگر وہ خوش نہ ہوگی تو اس بدکاری پر گناہگار نہ ہوگی۔
3: طلاق کے بعد عورت کیلئے عدت گزارنا لازم ہے جس کی میعاد حیض آنے کی صورت میں تین طہروحیض ہیں اور حیض نہ آتا ہویا اس میں ارتیاب ہو توتین ماہ عدت ہے اور حمل کی صورت میں بچے کی پیدائش ہے۔ طلاق کے اظہار کی صورت میں عدت3مراحل ہیں جو3ماہ کے برابر طہروحیض ہیں اور طلاق کا اظہار نہ ہو اور طلاق کا عزم بھی ہو تو شوہر گناہگار ہوگا ، یہی دل کا گناہ ہے جس پر اللہ نے پکڑ کا ذکر کیا ہے لیکن اس میں انتظار کی عدت 4ماہ ہے۔ انتظار کی عدت اسلئے بیان کی گئی ہے کہ عورت کو انتظار کرنے کی زیادہ اذیت نہ ہو۔سورۂ بقرہ کی آیات 225،226 اور227میں یہ بالکل واضح ہے۔
4: سب بڑی اور بنیادی بات یہ ہے کہ طلاق کے بعد شوہر کو یک طرفہ رجوع کا حق حاصل نہیں۔ عدت میں شوہر اصلاح کی شرط پر زیادہ حقدار اسلئے ہے کہ میاں بیوی کے درمیان صلح کا دروازہ اللہ تعالیٰ نے کھلا چھوڑ دیا ہے۔ تاکہ حلالہ کی خواہش رکھنے والے درمیان میں کسی طرح بھی ٹپک نہ سکیں۔ میاں بیوی کو دنیا کی کوئی طاقت ان کی مرضی کے بغیر جدا نہ کرسکے۔مگرافسوس کہ قرآن پر عمل کے بجائے ہم نے گردنیں مذہبی طبقات کے حوالے کردیں۔
5: یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو ایک ہی عدت گزارنے کا حکم دیا ہو اور مولوی مرد کو تین عدتوں کے حق سے نواز دے، طلاق رجعی کا یہ تصور انتہائی غلط ہے کہ شوہر کو دومرتبہ عورت کی مرضی کے بغیر رجوع کا حق حاصل ہو۔ اسلئے کہ وہ ایک مرتبہ طلاق دیگا، عدت کے ختم ہونے سے کچھ دیر پہلے رجوع کرلے گا، پھر طلاق دیگا اور عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کرلے گا، پھر طلاق دیگا تو اس کی یہ پہلی دوسری نہیں بلکہ تیسری عدت ہوگی۔ جس کا اللہ اور رسول ﷺنے کوئی حق نہیں دیا ہے۔
6: اللہ تعالیٰ کسی چوہے کی طرح کمزور حافظے والا بھی نہیں ہے کہ آیت228البقرہ میں عدت کے اندر باہمی صلح کیساتھ رجوع کا حق دے اور229میں بھول جائے اور کہہ دے کہ نہیں دوبار طلاق کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا اور اگر ایک ساتھ تین طلاق دیدئیے تو حلالہ کے بغیر چارہ نہیں ہے۔ جو بات 228میں بتائی تھی کہ عدت کے تین مراحل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی مزید وضاحت کردی ۔ پہلے دومراحل میں دومرتبہ طلاق کے بعد تیسرے مرحلے میں تیسری مرتبہ طلاق یا رجوع کا فیصلہ ہونا چاہیے۔ ایک عورت ایک طہرو حیض میں انتظار کرے، پھر دوسرے طہرو حیض میں انتظار کرے اور پھر تیسرے طہروحیض تک بھی انتظار کرے تو اس سے بڑا شوہر کا کیا درجہ ہوسکتاہے؟۔
7: ایک طرف یہ واضح ہے کہ باہمی اصلاح کے بغیر شوہر عدت میں بھی رجوع نہیں کرسکتا ہے تو دوسری طرف یہ بھی واضح ہے کہ باہمی اصلاح سے رجوع ہوسکتا ہے۔ باہمی اصلاح سے رجوع کیلئے بار بار معروف طریقے سے رجوع کا تصور دیا ہے ۔ احناف کے نزدیک شہوت کی نظر پڑنے اور نیند میں ہاتھ لگنے سے بھی رجوع ہوگا اور شوافع کے نزدیک نیت نہ ہو تو جماع کرنے سے بھی رجوع نہ ہوگا۔ ایک دوسرا اہم ترین معاشرتی مسئلہ یہ بھی ہے کہ جب میاں بیوی باہمی مشاورت سے ایکدوسرے سے باہوش وحواس جدا ہوں ، تب بھی عدت وطلاق کے بعد یہ مسئلہ آتا ہے کہ پہلا شوہر اس عورت کو دوسری جگہ اس کی مرضی سے نکاح نہیں کرنے دیتا ہے۔ اس اہم معاشرتی مسئلہ کے حل کیلئے اللہ تعالیٰ نے جن الفاظ میں سابقہ شوہر کی حوصلہ شکنی کی ہے ،اس کو سیاق وسباق کے مطابق دیکھ لیاجائے تو پوری دنیا کی ہدایت کیلئے یہ آیت ذریعہ بنے۔
8: اگر سیاق سباق کے مطابق دیکھا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے دومرتبہ طلاق کے بعد تیسرے مرحلے میں ایک طرف معروف رجوع کو واضح کیا اور دوسری طرف رخصتی کا فیصلہ کرنے کو واضح کیا۔ اگر معروف رجوع کرلیا تو پھر رات گئی بات گئی لیکن چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو پھر جو کچھ بھی عورت کو دیا ہے ، اس میں سے کچھ بھی واپس لینا جائز نہیں الا یہ کہ دونوں متفق ہوں کہ اس چیز کو واپس کئے بغیر دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے اور فیصلہ کرنے والے بھی یہی سمجھتے ہوں تو دونوں پر کوئی حرج نہیں کہ اس کو واپس کیا جائے۔ اللہ نے باہمی اصلاح کے حوالے سے تمام حدود کی وضاحت کرتے ہوئے واضح کیا کہ یہ اللہ کی حدود ہیں، ان سے تجاوزمت کرو اور جو ان سے تجاوزکرے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔ ایسی صورت میں اگر اس نے طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہانتک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے‘‘۔ پھر اگلی آیات231اور232میں اللہ تعالیٰ نے عدت کی تکمیل پر معروف رجوع کو واضح اور دوٹوک انداز میں بیان کیا ہے ، سورۂ بقرہ کی ان آیات اور سورۂ طلاق کی آیات کے بعد ابہام نہیں رہتا ہے اور کوئی ایسی حدیث نہیں جو صلح کی راہ میں رکاوٹ ہو۔
مولانا سلیم اللہ خانؒ نے لکھ دیا کہ ’’ ذائقہ چکھ لینے کی حدیث خبرواحد ہے۔ جس سے قرآن میں موجود نکاح پر جماع کا اضافہ ہم احناف نہیں کرسکتے ہیں مگراحناف نکاح کا معنی جماع کے لیتے ہیں ، اس حدیث کی وجہ سے اضافہ نہیں کرتے‘‘۔( کشف الباری : مولانا سلیم اللہ خانؒ )
اصل بات یہ ہے کہ رفاعۃ القرظیؓ نے جب طلاق دی اور اس عورت نے دوسرے سے نکاح کرلیا تو پھر رجوع و حلالہ کا مسئلہ نہیں رہتا ہے بلکہ وہ خاتون کسی اور شخص سے ازدواجی تعلق قائم کرچکی تھی۔ وہ اسی کی بیوی تھی ، صلح کیلئے تو اس وقت بات ہوسکتی تھی جب اس نے دوسری شادی نہ کی ہوتی۔ اسلئے حدیث قرآن کے منافی نہیں ہے کہ کوئی صلح پر پابندی لگائی گئی ہو۔ وہ تو بیوی ہی کسی اور کی تھی۔
بے شرمی، بے غیرتی، بے حیائی ، کمینہ پن ، ذلالت، گمراہی اور اندھے پن کی بات یہ ہے کہ جب عدت میں رسول اللہ ﷺ نے کسی میاں بیوی کو کبھی یہ فتویٰ نہیں دیا تھا کہ ’’ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا‘‘ تو ایسی حدیث سے حلالہ کا فتویٰ کیوں دیا جارہاہے جس کے بارے میں کوئی اختلافِ رائے نہیں کہ وہ عورت دوسرے سے شادی کرچکی تھی؟۔ جب اللہ تعالیٰ نے عدت کی تکمیل تک بار بار واضح الفاظ میں صلح ورجوع کی گنجائش رکھی ہے تو نبیﷺ کیوں اس کا دروازہ بند کرتے؟۔ یہ تو حلالہ کی حرص وہوس نے فقہاء کو غلط راستے پر ڈال دیا تھا۔
حضرت عمرؓ کے پاس تنازعہ نہ آتا تو اکٹھی تین طلاق واقع ہونے کا فیصلہ کبھی نہ دیتے، تنازعہ کی صورت ہو تو پھر ایک طلاق کے بعد بھی شوہر عورت کو رجوع پر مجبور نہ کرسکتا تھا۔ طلاقِ رجعی کے غلط تصور نے جگہ پکڑلی تو تنازعات کا تقاضہ تھا کہ بات بات پر تین طلاق کو ناقابلِ رجوع قرار دیا جاتا۔ بالفرض ایک ساتھ تین طلاق واقع نہ ہونے کے فتوے دئیے جائیں اور شوہر کو یکطرفہ رجوع کا حق حاصل ہو تو خواتین بہت خسارے میں رہتیں۔ حضرت عمرؓ کا فیصلہ نہ صرف ائمہ اربعہ ؒ بلکہ دنیا کی ہر عدالت کیلئے قابلِ قبول ہے۔البتہ تنازع کی صورت نہ ہو تو رجوع کی اجازت نہ دینا قرآن وسنت ، عقل وفطرت اور شریعت وطریقت کے خلاف ہے۔ لچک کے بغیر اچھے کی امیدہے۔ عتیق گیلانی