پوسٹ تلاش کریں

رسول ۖ پر وحی نازل ہونے کی وہ دلیل جس کو مشرق اور مغرب والے سب قبول کرلیں گے انشاء اللہ تعالیٰ

سورہ نور میں لعان کی آیات1400سال پہلے کوئی اختراع نہیں ہوسکتا تھامگر ہم نے عمل نہیں کیا
حلالہ کی لعنت کو مشرق ومغرب میں کوئی بھی فطری دین نہیں کہہ سکتا ہے لیکن بے غیرتی مسلط کی گئی۔

اسلام کی حقانیت کو دنیا میں ثابت کرنے کیلئے کسی اور دلیل کی ضرورت بھی نہیں۔علماء ومفتیان سورہ نور میں لعان کی آیات کو قانون سازی کیلئے پیش نہیں کرتے مگر اسلامی نظریاتی کونسل کے حرام خور حلالہ کی لعنت کو ختم نہیں کرتے! ۔

 

قرآن نے کمزور کو تحفظ دیا اور طاقتور کو لگام ۔ اس سے بڑی بات نہیں کہ کوئی اپنی بیگم کھلی فحاشی پر پکڑ لے مگر سزا نہ دے سکے۔ عورت جھوٹ بولے تو جج بھی سزا نہیں دے سکتا۔ مذہبی طبقہ طاقتوروںکی ٹانگوں کے درمیان اپنی ماں کا نپل سمجھ کر پیشاب کو دودھ کی طرح چوس لیا کرے تو کیا اسلام اجنبیت کی گھاٹیوں میں عنقا ء نہ ہوگا؟۔
قرآنی آیات میں واضح ہے کہ عورت کے بھی معروف حقوق ہیں جیسے مردوں کے انکے پر ہیں ۔طلاق سے رجوع کیلئے ان کی مرضی شرط ہے۔ وضاحتوں کے باوجود عورت کا حق چھین لیا گیا اور جہاں حلالہ کا خدشہ اور احتمال بھی نہیں تھا تو وہاں پر ہوس پرستوں نے لعنتوں سے منہ کالے کردئیے؟اور اسلام کو اجنبی بناکر رکھ دیا گیا۔
اللہ الذی انزل الکتاب بالحق والمیزان ومایدریک لعل الساعة قریبO(سورة الشوریٰ:17)

وہ اللہ جس نے حق کیساتھ کتاب نازل کی اور میزان ۔اور تمہیں کیا خبر ہے ؟ شاید کہ انقلاب کی گھڑی قریب ہے۔ فتح مکہ کے انقلاب کی گھڑی بھی قریب تھی اور اب اسلام کی نشاة کی گھڑی پاکستان کی فضاؤں میں شاید قریب ہو۔

 

اذا جاء نصر اللہ والفتحOورأیت النا س یدخلون فی دین اللہ افواجًاOفسبح بحمد ربک واستغفر ہ انہ کان توابًاO

”جب اللہ کی نصرت اور فتح آئے اور آپ دیکھ لیں کہ لوگ اللہ کے دین میں فوج درفوج داخل ہورہے تو اپنے رب کی پاکی اور تعریف بیان کر اور استغفار کر۔بیشک وہ توبہ قبول کرنے والا ہے”۔ فتح مکہ پر کوئی تکبر اور غرور نہیں تھا ۔ نبیۖ نے فرمایا: ”آج کے دن تم پر کوئی ملامت نہیں”۔

حلالہ کی لعنت کو اسلام اور رجوع کی نعمت کو کفر بنانے والوں نے اسلام کا معاشرتی ، معاشی ، اخلاقی اور سیاسی نظام تباہ کیا اور مذہبی اشرافیہ بن گئے۔ دین فروش، وطن فروش، ضمیر فروش اور عزت فروش اشرافیہ کو لگام دینے کی آج ضرورت ہے۔

اگر اسلامی نظریاتی کونسل نے لعان کا قانون اسمبلی میں پیش کردیا اور حلالہ کی لعنت پر سزا دینے کیلئے قانون سازی کرلی تو پاکستان میں اقتدار اعلیٰ اللہ کیلئے ہوجائے گا۔ طاقتوروں کو ظلم کا موقع نہیں ملے گا اور گندی ذہنیت رکھنے والے مذہبی طبقے سے مسلمانوں کو چھٹکارا مل جائے گا۔

قرآن کے الہامی کتاب ہونے کی سب سے بڑی دلیل تو سورہ نور میں لعان کا قانون ہے ۔ رسول اللہ ۖ کی پیدائش کو ڈیڑھ ہزار سال ہوگئے۔ عیسائی مصنف نے100بڑے آدمی کی فہرست میں پہلا نام حضرت محمدۖ کا اور دوسرا حضرت عمر کا دیا ہے۔ اسلام نے دنیا میں عورت ماں، بیٹی ، بہن اور بیوی کو جو حقوق دئیے تھے اس کا تصور بھی دنیا کے انسان نہیں کرتے تھے لیکن افسوس کہ مغرب نے عورت کو کچھ نہ کچھ حقوق پھر بھی دئیے ہیں اور چراغ تلے اندھیرا مسلمانوں پر چھایا ہوا ہے۔

بہاولپور کی ریاست کے نوابوں کی کہانی بڑی انوکھی تھی جن میں سے کسی نے100اور کسی نے200سے زیادہ شادیاں کیں۔ چار بیویوں کو نکاح میں رکھا جاتا تھا اور باقی قلعہ بند ہوتی تھیں۔ اپنے محرمات سے ملاقات کی بڑی محدود اجازت ہوتی تھی اور اپنے والد کے ہاں سیکورٹی گارڈز کی معیت میں کافی عرصہ بعد آنا جانا کرسکتی تھیں۔ حافظ احمد سکنہ بہالپور چولستان نے اپنے ولاگ میں بتایا ہے کہ ان کے خاندان میں فسٹ کزن کیساتھ شادی کا جواز تھا اور باہر نکاح کو زنا سمجھا جاتا تھا اور کسی دوسری قوم میں نکاح کو اسلام سے بھی خارج ہونا تصور کیا جاتا تھا۔ عربی کا مقولہ ہے کہ الناس علی دین ملوکھم ” لوگ اپنے بادشاہوں کے دین پر ہوتے ہیں”۔

اسلام نے غلام اور خواتین کو بہت حقوق دئیے، محمود غزنوی کے دادا غلام تھے۔ صلاح الدین ایوبی اپنے بادشاہ نور الدین زنگی کے سپاہ سالار تھے اور اسکی وفات کے بعد اس کی بیوہ سے شادی کی اور تخت پر بیٹھ گئے۔ نور الدین زنگی کانسب عمادالدین زنگی سے شروع ہوا تھا جو غلام خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔

امیر امان اللہ خان کی والدہ کو اس کے والد امیر حبیب اللہ خان نے طلاق دی تھی۔ تاریخ میں یہ ہے کہ اس کی والدہ نے ہی سازش کرکے حبیب اللہ خان کے قتل میں کردار ادا کیا تھا۔

عربوں نے بھی اسلام کو مسخ کیا ۔ممالیک خاندان غلاماں کا بھی مسلمانوں پر اقتدار رہاہے۔ پاکستان میں سب سے پہلے جرمن یہودی سے مسلمان اسد سلیم کو پاسپورٹ جاری ہوا تھا۔ پاسپورٹ نمبر:000001تاریخ اجرائ:15ستمبر1947ء الجزائر پر قابض فرانس سے فاطمہ نسومر المعروف خولة الجزائر نے25000ہزار مجاہدین تیار کرکے جہاد کیا۔ آزادی کے بعد فرانس نے کچھ مجاہدین کے پاسپورٹ بلاک کردئیے جن کو پاکستان نے اپنی شہریت کے پاسپورٹ جاری کئے اور لاکھوں ٹن گندم الجزائر کو قحط سالی کے دوران مفت میں بھیج دی تھی۔

فاطمہ نسو کی جوانی میں شوہر سے علیحدگی ہو ئی تو شوہر طلاق نہیں دے رہاتھا اسلئے اس نے شادی نہیں کی ۔آخر میں فرانس کی فوج نے اس کو گرفتار کرلیا تھا۔ قرآن نے قیدی کو غلام اور لونڈی بنانے سے روکا ہے اور جنسی زیادتی کا جواز بھی نہیں۔

فاذا لقیتم الذین کفروا فضرب الرقاب حتی اذا اثخنتموھم فشدوا الوثاق فاما منًا بعد واما فداء حتی تضع الحرب اوزارھا و لو شاء اللہ لانتصر منھم ولکن لببلو بعضکم ببعضٍ والذین قتلوا فی سبیل اللہ فلن یضل اعمالھم (سورہ محمد:4)
ترجمہ:”پس جب تم کافرلوگوں سے لڑو تو ان کی گردنیں مارو یہاں تک کہ ان کا خوب خون بہادو اور ان کو قیدی بناؤ۔ پھر اسکے ساتھ احسان کرو یا تاوان لیکر رہا کرو۔ یہاں تک کہ جنگ ختم ہو اور اگر اللہ چاہتا تو ان کو خود ہی مغلوب کرتا لیکن وہ تمہار ا بعض کے ساتھ بعض کا امتحان چاہتا ہے۔اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے تو ان کے اعمال رائیگاں نہیں ہیں”۔

نبی ۖ نے غزوبدرمیں کسی قیدی کو غلام نہیں بنایا اور نہ ہی کسی سپاہی کو غلام بنانا عقل کی بات ہے۔ اللہ نے صرف ان دو صورتوں کا حکم دیا کہ احسان کرکے چھوڑ دیا یا فدیہ لیکر اور بس۔

پاکستان نے بوسنیا اور چیچنیا وغیرہ کی بھی مدد کی۔ اسلام کی نشاة ثانیہ کیلئے باہمی افہام وتفہیم سے پوری دنیا کیلئے پاکستان کو ایک تحفہ خداوندی بناسکتے ہیں۔ تعصبات پھیلانے سے دھندہ بہت پرانا ہے۔ سکھ فوج نے میر چاکر بلوچ کے مزار کو نقصان پہنچایا۔ تقسیم ہند کے وقت انگریز کی سازش تھی کہ مذہبی بنیاد پر مسلمان اور سکھ اور ہندو کے نام پر نفرت ، تباہی و بربادی ہوئی۔ لیکن جب تک کوئی قوم خود کو سازشوں سے نہیں بچائے تو سب الزامات دوسروں پر تھوپنے سے کام نہیں بنتا ہے۔ گاؤں کی کتیا چوروں سے ملتی ہے تو پھر سازش کامیاب ہوتی ہے۔

پشتو کی کہاوت ہے کہ جب سچ پہنچتا ہے تو جھوٹ گاؤں کو بہاکر لے جاچکا ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا سچ پھیلانے کا بھی ایک بہترین ذریعہ ہے۔ اللہ کرکے جھوٹوں کو سچی ہدایت مل جائے اور ہماری قوم کی حالت بہتر سے بہترین ہوجائے۔

 

محفوظ جان کی26نومبر2025فیس بک پوسٹ سے

عبدالجبار خان المعروف ڈاکٹر خان باچا خان کے بڑے بھائی تھے ۔پہلی جنگ عظیم کے دوران ڈاکٹر خان فرانس میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ فرانس میں قیام کے دوران وہ سکاٹ لینڈ کی ایک نرس میریMary Victoria Kenmure سے ملے۔ وہ ایک دوسرے کے عاشق ہو گئے اور شادی کرلی میری طلاق شدہ تھی اور اسکی پہلے خاوند سے ایک بیٹیMuriel Mary Kenmure

پیدائش1914، سکاٹ لینڈتھی شادی کے بعد دونوں ماں بیٹی کو پشتون معاشرے میں ”میری بی بی”اور ”مریم”کہہ کر پکارا جانے لگا۔ تاریخی کتابوں اور خدائی خدمتگار دستاویزات میں بھی ”مریم”ہی لکھا1942کو مریم کو برٹش انڈین ائیر فورس کا ایک افسر فلائیٹ لیفٹیننٹ جسوات سنگھ پسند آیا۔ سکندر مرزا نے جو ان دنوں صوبہ سرحد میں تعینات تھا اپنے بنگلے پر چپکے سے انکی شادی کروادی تاکہ ہندومسلم فسادات اور خدائی خدمتگار تحریک کو بدنام کرواسکیں ۔ پورے صوبہ سرحد میں مشہور کرایا کہ باچہ خان کی بھتیجی سکھ افسر کیساتھ بھاگ گئی جبکہ اصل میں جسوات سنگھ سکھ نہیں تھا، مذھباً عیسائی تھا لیکن یہ پروپیگنڈہ کیاگیا کیونکہ پشتون عیسائیوں کی بجائے سکھوں سے زیادہ نفرت کرتے تھے ۔پشتو میں مثل ہے کہ” سکھ نہ مے بد ہ سی”۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ضیا الدین احمد نے2مئی1942کو جناح صاحب کو خط میں لکھا کہ میرے پاس خوشخبری ہے۔ ہمارا اسٹاف کا رکن پشاور گیا، وہ واپس آیا اور کہا کہ پورا صوبہ سرحد اب مسلم لیگ اور پاکستان کیساتھ ہے۔ ڈاکٹر خان کی بیٹی سکھ سے شادی کر کے سندھ فرار ہو گئی۔ اس واقعے پر پشتون بہت غصے میں ہیں اور خان عبدالغفار اور کیپٹن خان کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس خط سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسلم لیگ کے رہنماں کی اخلاقی ساکھ کتنی گری ہوئی تھی جس نے ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو مجبور کیا کہ وہ اپنے نمبرز بڑھانے کیلئے جناح کو اس طرح کا غلیظ خط لکھے۔

آل انڈیا مسلم لیگ کے کارکنوں اور رہنماں کو شاید اندازہ نہیں تھا کہ جناح صاحب کی بیٹی دینا واڈیا نے صرف چار سال پہلے سن1938کو مذہب زرتشت سے تعلق رکھنے والے ایک کاروباری آدمی سے شادی کی تھی جس پر جناح بہت ناراض ہوا تھا۔ جو پروپیگنڈہ مولوی حضرات برٹش ہندوستان میں جناح کے خلاف کررہے تھے ان سے دو قدم آگے بڑھ کے مسلم لیگ کے کارکن اور رہنما اپنے غلیظ ہتھکنڈوں سے باچہ خان کو بدنام کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔

مریم کے خاوند جسوات سنگھ بعد میں انڈین ائیر فورس کا وائس ائیر مارشل بنا اور افریقہ کے ملک گھانا کے ائیر فورس کی قیادت بھی کی جبکہ جناح کی بیٹی دینا واڈیا کا نواسہ نس واڈیا اس سال انڈین پریمیئر لیگ کا فائنل کھیلنے والی ٹیم کنگ الیون پنجاب کا شریک مالک ہے لیکن اپنے سیاسی مخالفین کو بدنام کرنے کیلئے گھریلو خواتین پر کیچڑ اچھالنا آج بھی پاکستانی سیاست کا حصہ ہے۔ حوالہ جات

Jaffrelot, Christophe The Pakistan Paradox (2015)
Rittenberg, Stephen Alan Ethnicity, Nationalism, and the Pakhtuns: The Independence Movement in India’s North-West Frontier Province (1988)
Shah, Sayyid Wiqar Ali Ethnicity, Islam and Nationalism: Muslim Politics in the North-West Frontier Province 1937-47 (1999)
Banerjee, Mukulika The Pathan Unarmed (2000)
Khudai Khidmatgar Archives اور Quaid-e-Azam Papers (Shamsul Hasan Collection, Vol. 17)
Air Vice Marshal Jaswant Singh۔۔۔۔ کی سوانح عمری۔۔۔CAp TAin…
ــــــــــ

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ دسمبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

سورہ اللیل دراصل سورہ النہار ہے (آمد رسول ۖ دن کا اجالا) صحابہ نے آسانی کیساتھ عروج اور کفار نے زوال کا سفرطے کرلیا

جلد فتح مکہ اور قیصر وکسریٰ کو شکست اور بڑا اقتدار
غزوات میں شکست اورپھرفتح مکہ میں بڑا سرنڈر
واللیل اذا یغشٰیOوالنہار اذا تجلٰیOوما خلق الذکر والانثٰیOان سعیکم لشتٰیO(سورة اللیل:1،2،3،4)

رات کی قسم جب وہ ڈھانپ لے اوردن کی قسم جب وہ چمک اُٹھے اورقسم جو نراور مادہ پیدا کیا ۔بیشک تمہاری کوششیں الگ الگ ہیں۔

فامامن اعطٰی واتقیOوصدّق بالحسنٰیOفسنیسرہ للیسریٰO (آیات:5،6،7)

پس جس نے حق دیا اور تقویٰ اختیار کیا اور اچھائی کی تصدیق کردی تو ہم اس کو عنقریب آسانی کیساتھ لے جائیں گے سہولت کیلئے۔
رسول اللہ ۖ چمکتے سورج کی طرح طلوع ہوگئے تو صحابہ کرام نے مستحقوں کو ان کے حقوق دینے شروع کردئیے اور تقویٰ اختیار کیا اور فطری شرعی احکام کی تصدیق کردی تو بہت آسانی کیساتھ آسانی کی منزل تک اللہ نے پہنچادیا۔

 

واما من بخل واستغنٰیOوکذّب بالحسنٰیOفسنیسرہ للعسریٰ (آیات:8،9،10)

اور پس جس نے بخل کیا اورحق سے لاپروا ئی برت لی اوراچھائی کو جھٹلادیا تو ہم اس کو آسانی کیساتھ لے جائیں گے مشکل کیلئے۔
اندھیری رات میں کفار نے حقوق غصب کئے ،پھر دن دھاڑے بھی بخل کیااور حق کی پرواہ نہیں اور فطری شرعی احکام کو جھٹلایا توپھر آسانی سے مشکل میں پہنچ گئے، جن پر مظالم کئے تھے انہی کے وہ دستِ نگربن گئے ۔

 

ومایغنی عنہ مالہ اذتردّ ٰ یOان علینا للھدٰیOفانذرتکم نارًاتلظیٰOلا یصلاھا الا الشقیOالذی کذّب و تولّیٰ

اور اسکا مال اسکو نہ بچا ئے جب گڑھے میںگرے۔بیشک ہمارا کام ہدایت ہے تو ہم نے بھڑکتی آگ سے تمہیں ڈرایا۔جس میں نہیں جائے گا مگر بدبخت جس نے جھٹلایا اور منہ موڑدیا۔ (11تا16) غیرتمند قبضہ مافیا، بھکاری ،طاقتور کے سامنے بھیگی بلی اور چڑھتے سورج کا پجاری نہیں ہوتا ۔

جب اسلام کی نشاة ثانیہ ہوگی تو پھر لوگ اپنے گرد وپیش سے پوری دنیا تک دو پارٹیوں میں بٹ جائیںگے۔

 

وسیجنبھا الاتقیOالذی یؤتی مالہ یتزکّیٰOومالاحد من نعمةٍ تجزٰیOالا ابتغاء وجہ ربہ الاعلٰیOولسوف یرضٰیO

اور عنقریب کفروتکذیب سے کناہ کش ہوگا جو پرہیزگار ہے جو اپنا مال دیتا ہے تاکہ تزکیہ حاصل کرے اور کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو نعمت کا بدلہ دے سکے۔ مگر یہ کہ وہ اپنے ربّ اعلیٰ کی رضا جوئی میں مگن رہے۔ اور عنقریب وہ اس سے راضی ہوگا۔ (آیات17تا21)

 

صلح حدیبیہ سے قبل سیدنا ولید بن ولید اور بعدمیںسیدنا خالد بن ولید اور فتح مکہ کے بعدسیدنا ابوسفیان و سیدہ ہند اور پھرسیدنا عکرمہ بن ابوجہل کفر سے کنارہ کرکے دامن رسالتۖ میں پناہ گزیں ہوگئے۔یہ بالکل روز روشن کی طرح واضح ہے کہ کسی نعمت کا بدلہ کوئی ایک بھی نہیں دے سکتا مگر یہ کہ اسکے بدلے اپنے رب اعلیٰ کی رضا میں مگن رہے توعنقریب وہ راضی ہوگا۔حضرت ابوبکر وعمر ، عثمان، علی ،حسن اور معاویہ خلافت کے بھوکے نہیں تھے، ذمہ داری کا بوجھ اٹھالیااور صحابہ کرام نے آزمائش اور مشکلات میں اللہ کی رضا جوئی کیلئے ہمیشہ کیلئے اپنی زندگیاں وقف کیں۔

یہ نری بکواس ہے کہ ایک ابوبکر نے نعمت کا بدلہ دیا۔ نعمت کا بدلہ ممکن نہیں ۔کسی کو منصب خلافت ملا یا نہیں ؟مگر اللہ سے راضی تھا اور اللہ اس سے راضی تھا اور ہر ایک کا معاملہ اپنا اپنا ہی تھا۔ لڑائی میں بھی خلوص تھا اور صلح میں بھی ایمان کا تقاضہ۔ جیسے رسول اللہ ۖ نے غزوہ بدر، اُحد، خندق، صلح حدیبیہ، فتح مکہ ، حنین اور یرموک غزوات میں تزکیہ فرمایا،تعلیم وتربیت دی اور حکمت سکھائی تھی۔ ماکان لنبی اں یکون لہ اسرٰ ی حتی یثخن فی الارض اور عصٰی اٰدم ربہ فغوٰی کی آڑمیںگندی ذہنیت کی گنجائش نہیں ۔ابوجہل وابولہب کی اولادخلوص کی پیکر بن گئی ۔اسلام کی سچائی کی تصدیق کی اور قبل اسلام کے کفر کو اللہ نے معاف کردیا مگر حقوق العباد انہوں نے پرہیزگاری اختیار کرتے ہوئے واپس لوٹادئیے۔

یزید اور حسین ، فاطمہ وہندہ اور حسن ومعاویہ پر بحث حقائق سے منہ چھپانا ہے۔اپنے دور کے یزید و حسین کی بات کرو۔ عربی مقولہ ہے کہ ہر فرعون کیلئے موسیٰ ہے۔ عمران خان کے نکاح خواہ مفتی سعید خان کی جنید جمشید سے فون پر بات ہوئی تو اس آیت سے حضرت ابوبکر مراد لیا۔ میں نے کہا کہ آیت میں کسی ایک کا استثناء نہیں،اگر ہوتا تو بات بنتی؟۔ کہنے لگے کہ سارے مفسرین نے یہی مراد لیا۔ میں نے کہا کہ مفسرین نے متن کیخلاف تفسیریں کرکے اسلام کا بیڑہ غرق کیا اس نے پشتو میں مفتی ابراہیم سے میرا کہا کہ یہ تو بڑا انقلابی انسان ہے۔

البقرہ:230کی اصل تفسیر یہ ہے کہ جب عورت کو کسی بھی طلاق کے بعد پہلاشوہر کسی اور سے نکاح کی اجازت نہیں دیتا تو پہلے کیلئے رجوع حرام ہے۔ سعد بن عبادہ کی بیگمات سے لیڈی دیانا تک بہت مثالیں ہیںمگر مولوی حلالہ کیلئے تشنہ تھا۔ قرآن کو بازیچہ اطفال اور مذاق بنادیا گیا اسلئے متروک ہوا۔

رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ”اسلام اجنبیت کی حالت میں شروع ہو ا، یہ عنقریب پھر اجنبی بن جائے گا۔ پس خوشخبری ہے اجبنیوں کیلئے”۔ آج اسلام مذہبی طبقات کے ہاتھوں اجنبی بن چکا ہے۔ جب کوئی جماعت اس کو اجنبیت سے نکالے گی تو پھر حق اور باطل کے دو گروہ بنیں گے!

ہند میں حکمت دیں کوئی کہاں سے سیکھے
نہ کہیں لذتِ کردار نہ افکارِ عمیق
حلقۂ شوق میں وہ جرأتِ اندیشہ کہاں
آہ محکومی و تقلید و زوالِ تحقیق!
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب
کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق!
جھوٹے غامدی کے بک بک پہ نہ جا
علیکم بالعلم و علیکم بالعتیق
ــــــــــ

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ دسمبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

حضرت مولانا عصام الدین مدظلہ اور صحافی ظفر اقبال جتوئی کے تاثرات

مولانا عصام الدین مدظلہ

پیر عتیق الرحمن صاحب کی باتیں بہت وزنی اور حقیقت پر مبنی ہوتی ہیں کیونکہ محترم تحقیقات کی روشنی میں اور مثبت دلائل کی بنیاد پر بات کرتے ہوئے مخالف کا منہ بند کرتے ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سے میری دعا ہے کہ پیر صاحب کی عمر، عمل اور علم و معرفت میں دن دگنی رات چوگنی ترقی نصیب ہو حضرت مولانا عصام الدین مدظلہ
ــــــــــ

سید عتیق الرحمن گیلانی

میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمیں مل بیٹھ کر ، چاہے وہ فوجی ہو، سیاستدان ہو مذہبی طبقہ ہو غلط رنگوں سے نکلو، اچھائی پر آؤ تاکہ پاکستان دنیا کیلئے بنے اور انشاء اللہ بنے گا۔ یقین ہے کہ سورہ دھر میں پاکستان کیلئے ملک کبیرکا ذکر ہوا۔ جس کی مسافت مشرق سے مغرب تک پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہوگی۔ ٹانک ڈیرہ اسماعیل خان سے حلالہ کا خاتمہ ہو تو فرقہ واریت اور سیاست بدلے گی۔
ــــــــــ

بیداری کی تحریک: نوشتہ دیوار
تحریر: ظفر اقبال جتوئی

نوشتہ دیوار کوئی عام ماہنامہ نہیں، یہ ایک ایسی فکری تحریک ہے جس نے شعور کی شمعیں جلانے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ اس کا مقصد خبروں کی دوڑ میں شامل ہونا نہیں بلکہ ایک ایسی فکر عام کرنا ہے جو قاری کو صرف پڑھنے والا نہیں، سوچنے، سمجھنے اور معاشرے میں تبدیلی لانے والا انسان بنا دے۔ یہ اخبار کسی طاقتور سرپرستی، اشتہار یا تجارتی مقصد کے بغیر صرف علم بانٹنے کے جذبے سے نکلتا ہے، اور یہی اس کی اصل قوت ہے۔

عتیق گیلانی کی قیادت میں نوشتہ دیوار نے یہ ثابت کیا ہے کہ جب فکر مضبوط ہو تو کسی بڑے مالی سہارے کی ضرورت نہیں رہتی۔ وہ ہمیشہ کہتے ہیں اگرآپ مجھے پڑھ رہے ہیں تو کل کوئی دوسرا آپ کو پڑھے گا۔ یہی جملہ اس تحریک کا محور ہے۔ یہاں قاری محض سامع نہیں رہتا، بلکہ قافلے کا حصہ بن جاتا ہے، یہی وہ سوچ ہے جس نے خانپور اور وسیب کے درجنوں نوجوانوں کے اندر نئی روح پھونک دی ۔

خان پور کا نوجوان شاہ نواز اسی فکر کا روشن چراغ ہے۔ وہ کبھی خاموش قاری تھا، مگر نوشتہ دیوار سے جڑنے کے بعد اس نے اپنی سوچ بدل ڈالی۔ آج وہ خود اپنے علاقے میں بیداری کا پیغام پھیلا رہا ہے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ تحریک کسی ایک فرد کا قصہ نہیں، یہ ان سب نوجوانوں کا سفر ہے جنہوں نے اس اخبار سے فکر کی غذا لی اور پھر اسے دوسروں تک پہنچایا۔

نوشتہ دیوار کی سب سے بڑی خوبی اس کا غیر روایتی مزاج ہے۔ یہاں کوئی طاقتور اشتہار بازی نہیں، کوئی خالی نعرہ نہیں صرف علم، دلیل اور شعور ہے۔ یہ اخبار قاری کو یہ احساس دلاتا ہے کہ اس کا وجود اہم ہے، اس کی آواز معنی رکھتی ہے، اور اس کے خیالات دنیا بدل سکتے ہیں۔ یہی سوچ ہر اس نوجوان کو حوصلہ دیتی ہے جو اپنے آپ کو کمزور سمجھتا ہے۔

خان پور کے گلی کوچوں میں اب یہ نام اجنبی نہیں رہا۔ نوجوانوں کی محفلوں میں جب نوشتہ دیوار کا ذکر آتا ہے تو ساتھ ہی بیداری کا لفظ بھی گونجتا ہے۔ یہ اخبار اب صرف ایک مطبوعہ رسالہ نہیں بلکہ فکری روشنی کا چراغ بن چکا ہے، جو ایک ایک ذہن کو جگا رہا ہے۔شاہ نواز جیسے نوجوانوں کی زندگیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ نوشتہ دیوار نے سوچ بدل دی ہے۔ یہ اخبار اپنے قاری کو خبر نہیں دیتا بلکہ اسے خود ایک زندہ خبر بنا دیتا ہے۔ وہ شخص جو کل تک قاری تھا، آج مبلغ، راہ دکھانے والا اور روشنی پھیلانے والا ہے۔یہ تحریک کسی وقتی جوش کا نام نہیں بلکہ ایک مسلسل فکری سفر ہے۔ نوشتہ دیوار یہ پیغام دیتا ہے: پڑھو تاکہ تم بدل سکو، بدلو تاکہ معاشرہ بدلے۔ یہی وہ فکر ہے جو ایک فرد کو قوت دیتی ہے اور پھر اسی قوت سے پورا قافلہ اٹھتا ہے۔

نوشتہ دیوار نے یہ بات منوا لی ہے کہ اگر اخبار کا نظریہ صاف، فکر مضبوط اور سمت واضح ہو تو وہ معاشرتی انقلاب کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ یہی وہ بیداری کی تحریک ہے جو آج خان پور میں ہے، کل وسیب کے ہر گوشے میں ہوگی۔
ــــــــــ

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ نومبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

14 تن پاک کا سچا تصور مگر کیوں؟

(جاوید احمد غامدی کی ویڈیو ”پنجتن پاک کا جھوٹا تصور ” اور اس کا جواب)

انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیراً
بیشک اللہ چاہتا ہے کہ تم سے اے اہلبیت! گند کو دور کردے اور تمہیں پاک کردے

یہ آیت قرآن میں ازواج مطہرات کے حق میں نازل ہوئی اسلئے کہ مشکلات کا شکار تھیں۔

نبیۖ نے چادر میںعلی،فاطمہ ، حسن وحسین کو لیا انکے میل کی صفائی کیلئے یہ دعامانگ لی۔

قرآن میں السابقون السابقون اولئک المقربون فی جنٰت النعیم ثلثة من الاولین و قلیل من الااٰخرین کا تصور بھی ہے اور اصحاب الیمین دائیں جانب والوں ، اصحاب الشمال کا بائیں جانب والوں کا تصور بھی ہے ۔ سورہ واقعہ ، سورہ رحمن، سورہ الحدید ، سورہ جمعہ اور سورہ الانعام وغیرہ میں بہت زبردست تفصیلات موجود ہیں۔

اہل سنت والجماعت کے نزدیک صحابہ کرام اور اہل بیت کی دونوں طبقات سے عقیدت ومحبت قرآن واحادیث کا اصل تقاضہ ہے۔ 30سال تک خلافت راشدہ کی بشارت تھی ۔اس طرح حضرت حسن و حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔
معتدل مزاج سنی اور شیعہ میں زیادہ تفریق اور نفرت نہیں ہے لیکن ناصبی، رافضی اور خوارج سوء ظن کا شکار رہتے ہیں۔

اللہ نے قرآن میں ان کے کالے منہ پر کالک مل دی ۔
وھٰذا کتاب انزلنا ہ مبارک فاتبعوہ واتقوا لعلکم ترحمون O ان تقولوا انما انزل الکتاب علی طائفتین من قبلنا وان کنا عن دراستھم لغافلین O او تقولوا لو انزل علینا الکتاب لکنا اھدٰی منھم فقد جاء کم بینة من ربکم و ھدًی و رحمة فمن اظلم ممن کذّب باٰیات اللہ و صدف عنھا سنجزی الذین یصدفون عن اٰیاتنا سوء العذاب بما کانوا یصدفون

”اوریہ مبارک کتاب ہم اتاری ، پس اس کی اتباع کرو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ یہ نہ ہو کہ تم کہو یہ پہلے دو گروہ پر نازل ہوئی اور اس ہم اس کی تدریس سے غافل رہے۔ یا کہو کہ اگر ہم پر یہ کتاب نازل ہوتی تو ہم ان سے زیادہ ہدایت پاتے۔ بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے دلائل آئے اور ہدایت اور رحمت۔ پس اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ کی آیات کو جھٹلائے اور اس سے منہ موڑے۔عنقریب ہم برے عذاب کا بدلہ دیں گے جو ہم آیات سے منہ موڑتے ہیں بسبب ان کے منہ موڑنے کے۔ (الانعام :155تا157)

رافضی و ناصبی سمجھتے ہیں کہ صحابہ و اہل بیت سے ان کا کردار بہتر ہوتا۔ جاویداحمد غامدی اور اس کے شاگردوں کو حضرت علی ، حسن اور حسین میں نااہلی نظر آتی ہے۔ کوئی شیعہ اور سنی اعتدال اور صحابہ واہلبیت میں کسی کی تعریف کرتا ہے تو بہت بڑا شدت پسند طبقہ تعصبات کی بنیاد پر کتوں کی طرح چھپٹتا ہے اور اپنی خباثتوں سے بے خبر پہلوں پربڑی انگلیاں اٹھاتے ہیں۔

بلاشبہ قرآن میں اہل بیت سے مراد ازواج مطہرات ہیں ۔ مشکلات کی چکیوں میں ڈال کر اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہی ان کا میل صاف کردیا۔ یہ اچھا ہے کہ اہل تشیع اس سے ازواج مراد نہیں لیتے ورنہ کچھ خبیث کی ذریت غلط معانی نکالتے۔

البتہ حدیث کساء میں حضرت علی، فاطمہ، حسن، حسین کیلئے نبیۖ نے دعا فرمائی کہ ”اے اللہ ! یہ میرے اہل بیت ہیں، ان سے میل کو دور کردے”۔ حسن نے یہ نہیں دیکھا کہ معاویہ نے حضرت علی سے لڑائی کی اور مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرادی۔ یزید کی نامزدگی پر حضرت ابوبکر کے بیٹے عبدالرحمن نے کہا تھاکہ ” اسلام میں ہرقل کی طرح بیٹے کو نامزد کرنے کی گنجائش نہیں۔ عبداللہ بن زبیر نے بھی مزاحمت کی تھی اور حسین نے مزاحمت کی قربانی دیدی۔ یزید کے بعد اسکے بیٹے معاویہ نے زین العابدین کو مسند پیش کی ۔ مروان بن حکم نے یزید کی موت کے بعد حضرت عبداللہ بن زبیر سے بیعت کا کہا تو آپ نے فرمایا کہ مدینہ سے نکل جاؤ مردود۔ پھر مروان نے شام میں باغی سازشی اقتدار قائم کیا۔ عبداللہ بن زبیر کے دور میں مختار ثقفی نے قاتلان حسین سے بدلہ لیامگر پھر آپس کی لڑائی نے عبدالملک بن مروان کو موقع دیا۔ مکہ میں حجاج بن یوسف نے عبداللہ بن زبیر کی ظالمانہ شہادت تک بغاوت پہنچائی۔

امام زین العابدین اور آپ کی اولاد نے قرآن وسنت کے مطابق حلالہ سے لوگوں کی حفاظت کرنے میں اپنی توانائی خرچ کی۔ عزت آنی جانی چیز نہیں ،یہ تو آج کا ماحول ہے کہ مفادکی خاطر عزت قربان کی جاتی ہے۔ آج ہماری وجہ سے لوگ حلالہ سے بچ رہے ہیں تو بہت لوگوں کی زبردست دعائیں ہیں۔

رسول اللہ ۖ کی دعا کا اثر نہ صرف پنج تن پاک پر بلکہ ان آنے والے ائمہ اہل بیت پر بھی قائم رہا جنہوں نے مسلم امہ کو حلالہ کی لعنت سے بچنے کیلئے قرآن وسنت سے رہنمائی فرمائی۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ ”میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑے جا رہاہوں ایک قرآن اور دوسرے میرے اہل بیت”۔ صحیح مسلم کی پہلی روایت ہے کہ اس سے ازواج مطہرات مراد ہیں؟۔ جس کے جواب میں ہے کہ ازواج بھی اہل بیت ہیں لیکن اس سے مراد ازواج مراد نہیں۔دوسری روایت میں پھر پوچھا گیا تو بتایا کہ ازواج قوم کا حصہ نہیں ہوتیں جب طلاق دی جائے تو وہ اپنی قوم کی طرف لوٹ جاتی ہیں۔ یہاںبنوہاشم مراد ہیں۔

اقتدار کیلئے اہل بیت نے امت کو نہیں لڑایا اور حلالہ کے گند سے بچایا تو یہ کافی ہے کہ نبیۖ کی دعا انکے حق میں قبول ہوئی ہے اور ان احادیث صحیحہ کے واقعی مصداق ثابت ہوگئے تھے۔ اصح الکتب بعد کتاب اللہ صحیح بخاری سے لیکر جاوید غامدی تک کا طلاق کی غلط تشریح اور حلالہ کے گند تک کی تعبیر سے حدیث کی صحت ثابت ہوتی ہے کیونکہ ناصبی سندنہیں عمل کو تو مانتے ہیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اکتوبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

پراوین سا ہنی انڈین دفاعی تجزیہ نگار

میں ان تعلقات کی بات کر رہا ہوں جو عالمی اور علاقائی جغرافیائی سیاست کو متاثر کرتے ہیں۔ آج پاکستان کے امریکہ کیساتھ اسٹریٹیجک تعلقات کیسے ہیں اور روس کیساتھ کس نوعیت کے ہیں؟۔ پاکستان چین تعلقات پر روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں کیونکہ دنیا بخوبی واقف ہے۔ یہ بھی بتاں گا کہ تینوں عالمی طاقتوں کیساتھ بیک وقت غیر معمولی اسٹریٹیجک صورتِ حال کے نتیجے میں پاکستان کو کیا فوائد حاصل ہو رہے ہیں۔ پہلے ان تین عوامل کو واضح کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے پاکستان کو اس بلند مقام تک پہنچایا کہ وہ تینوں طاقتوں سے بیک وقت حکمتِ عملی کی سطح پر بات کر سکتا ہے۔ پہلا پاکستان کی جغرافیائی حیثیت، دوسراآپریشن سندور۔ دنیا بالخصوص امریکہ نے دیکھا کہ پاکستان نے روایتی جنگی صلاحیت کتنی مضبوطی سے منوائی اور فضائیہ نے مرکزی کردار ادا کیا، تیسرا پاکستان کے چین سے وقت کی ہر آزمائش پر پورے اترنے والے دیرینہ اور مستحکم تعلقات، جو عالمی سیاست کے اتار چڑھا کے باوجود ہمیشہ قائم رہے۔

اب میں پاکستان اور ٹرمپ انتظامیہ کے تعلقات پر آتا ہوں۔ صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ میں انہی سے لین دین کرتا ہوں جو مجھے پسند ہیں۔ ظاہر ہے کہ انہیں پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت پسند آئی، کیونکہ انہوں نے دو ایسے اقدامات کیے جو ٹرمپ کے مزاج کے مطابق تھے۔ پہلا پاکستان کی قیادت نے کھلے عام اعلان کیا کہ فضائیہ نے بھارتی فضائیہ کے کئی جنگی طیارے مار گرائے اور بھارت کی طرف سے اس کی تردید نہ آئی۔ اس سے ظاہر ہوا کہ” آپریشن سندور” شدید جنگ تھی۔ دوسرا پاکستان نے جنگ بندی کا سہرا صدر ٹرمپ کے سر باندھا۔ ٹرمپ کی نظر میں یہ بڑی کامیابی تھی کہ دو ایٹمی ریاستوں کے درمیان جنگ بندی ممکن ہو سکی۔ٹرمپ خود کو”دورِ امن کے صدر”کے طور پر دیکھنا چاہتاہے۔ اسی لیے وہ بارہا اپنی تقاریر میں جنگوں کو ختم کرنے کی بات کرتارہاہے۔ اس کیلئے پاکستان کی یہ پوزیشن نہایت موزوں ہے کہ وہ خطے میں امن قائم کرنے میں ان کا شریک ہے۔ اس پس منظر میں پاکستان کی فوجی صلاحیت کو مشرقِ وسطی میں استحکام کیلئے وسیع کردار دیا گیا۔ یہ ٹرمپ کی خواہش تھی اور پاکستان نے دکھایا۔ اسی لئے پاکستان اور سعودی عرب نے باہمی دفاعی معاہدہ کیا، پہلی بار چین شامل ہوا۔ چین، سعودی عرب اور پاکستان نے مشترکہ فوجی مشق ”وارئیر نائن”میں شرکت کی۔

واضح ہے کہ چین بھی اتنا ہی خوش ہے جتنا ٹرمپ، کیونکہ مشرقِ وسطی میں پاکستان کی وسیع فوجی موجودگی سب کے حق میں ہے۔ سعودی عرب نے معاہدے کے بعد ایران کو اعتماد میں لیا اور ایران اس سے مطمئن نظر آیا۔ ایرانی صدر نے اقوامِ متحدہ میں کہا کہ وہ خطے کے مسلمانوں کے تعاون سے جامع علاقائی سیکیورٹی سسٹم تشکیل دینا چاہتاہے، جس میں پاکستان کی فوجی صلاحیت کو شامل سمجھا گیا۔اسی تناظر میں ٹرمپ نے آٹھ اسلامی و عرب ممالک سے ملاقات کی ۔اپنی ”اکیس نکاتی امن منصوبہ” پر بات کی۔ پاکستان بھی شامل تھا۔ پاکستان کی قیادت کو وائٹ ہاس مدعو کیا گیا تاکہ خطے میں اس کے کردار پر مزید بات ہو۔ وہاں تین بڑے امور پر بات ہوئی: مشرقِ وسطی میں استحکام، ایران، اور بگرام ایئربیس۔ پاکستان نے بگرام پر تعاون سے انکار کیا۔ جس پر چین، روس، ایران اور پاکستان نے مشترکہ بیان دیا کہ بیرونی فوجی اڈے کو افغانستان میں قبول نہیں کیا جائے گا۔یہ واضح ہے کہ ٹرمپ نے مشرقِ وسطی کے استحکام میں پاکستان کو کلیدی کردار دیا۔

اب آتے ہیں پاکستان روس تعلقات پر۔ ان تعلقات کو کم سمجھا گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تیزی سے دو سطحوں پر پروان چڑھ رہے ہیں۔ پہلی سطح عالمی نظامِ حکمرانی جس میں روس اور چین مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔ دوسری سطح براہِ راست دوطرفہ تعلقات۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے صدر پیوٹن سے ملاقات کی جس میں پیوٹن نے کہا کہ پاکستان ایشیا میں روس کا اولین شراکت دار ہے۔ افغانستان میں استحکام اور توانائی منصوبوں پر بھی بات ہوئی۔ آج پاکستان کے تینوں طاقتوں سے تعلقات ہیں۔ نتیجے میں اسے زیادہ ”رسائی ”اور”پکڑ”حاصل ہوئی۔ رسائی کا مطلب پاکستان کے سیاسی و معاشی روابط اب جنوبی ایشیا سے آگے وسطی ایشیا، مشرقِ وسطی اور جنوب مشرقی ایشیا تک پھیل گئے ہیں۔ جبکہ ”پکڑ”کا مطلب پاکستان کی فوجی صلاحیت اب ان خطوں میں اثرات مرتب کر سکتی ہے۔

پاکستان نے درست قدم یہ اٹھایا کہ اس نے اپنے آپ کو نئے عالمی نظام کیساتھ جوڑ لیا ہے جسے چین اور روس آگے بڑھا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چین اور روس کو پاکستان کے امریکہ کیساتھ تعلقات سے کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ ان کا وژن ”شراکت داری” پر مبنی ہے۔ اس کے برعکس امریکہ کی پالیسی ہر چار سال بعد بدل جاتی ہے، جبکہ چین اور روس کی پالیسی مستقل مزاج اور ادارہ جاتی سوچ پر قائم رہتی ہے۔لہٰذا آج پاکستان ایک مضبوط مقام پر کھڑا ہے کیونکہ اس نے صحیح وقت پر صحیح انتخاب کیا ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اکتوبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

وہ اُمت ہلاک نہ ہوگی جسکا اول میں ، درمیان مہدی اور آخر عیسیٰ ہیں۔حدیث سے اِمام خمینی مراد ہے۔

ایران اسرائیل کے ذریعے اسلحہ لیتا تھا تو سنی حکمرانوں نے سمجھا کہ شیعہ اور یہودی ہمیں ختم نہ کریں

علامہ شمس الدین شگری صاحب نے پوچھا کہ
سوال نمبر4: مسلمان فرقوں کی بنیاد کیا ہے؟
علامہ شبیر: امامت تک تعصب سے پاک شعور کا نہ ہونا۔امامت کو سب مانتے ہیں لیکن اپنا جو سبق بناکر رکھا ہوا ہے ان کی نہ اتباع کر نی ہے نہ حکمرانی کیلئے ان کے پیچھے چلنا ہے۔ تو پھر ایسی امامت کیا ہے ؟۔ اہل سنت کے چار امام ہیں وہ یہ مانتے ہیں کہ فقہ جعفریہ بھی ٹھیک ہے لیکن اس کو وہ سٹیٹس نہیں دیا انہوں نے۔ انہوں نے اس کو نکال کر علیحدہ رکھا ہوا ہے کہ یہ تو شیعہ فرقہ سے ہیں۔شیعہ سنی امامت میں افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ شیعہ امامت کا مقام غلط بڑھا دیتے ہیں اور سنی شیعہ امام کی پیروی کو دین کا حصہ نہیں بناتے۔ کہ بات ختم ہوگئی ۔

سوال نمبر7: امام مہدی سے متعلق آپ کا نظریہ منفرد ہے ۔
علامہ شبیر احمد اختر: شیعہ سنی مہدی و مسیح ابن مریم کوہم عصر سمجھتے ہیں پوری دنیا میں اسلام کو غالب کر دیں گے ۔یہ درست نہیں، ملت کو دو حصوں میں بانٹ دیا جب تک سنی شیعہ کی متفقہ قیادت نہیں آتی اسلامی غلبہ ملت مسلمہ کے بس میں نہیں، اسلئے عقیدہ امامت کا درست ادراک بہت ضروری ہے لیکن سنی عوام اور علماء خاص کر مولانا غلام اللہ خان ، مولانا غلام غوث ہزاروی جماعت اسلامی کے بانی کو بے دین، صحابہ کرام کا گستاخ اور یہودی ایجنٹ کہتے تھے۔ شاہ ایران کے حمایتی یورپ و امریکہ نے ایران کو اسلحہ فروخت کرنے سے انکار کر دیا۔ ایران نے مجبوراً بلیک مارکیٹ سے مہنگے داموں اسرائیل کے ذریعے اسلحہ حاصل کیا۔ پھر سنی عوام میں یہ نظریہ زور پکڑتا گیا کہ اسرائیل اور شیعہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ جو سنی اقتدار کوملیا میٹ کر دینگے۔ صدام حسین نے شکست قبول کرلی ۔ خفت مٹانے کیلئے کویت پر حملہ کیا۔ امریکہ نے صدام حسین کی وفادار فوج کو ٹریکٹروں کے ذریعے مٹی میں دفن کیا۔ یہ حدیث کی بڑی دلیل ہے کہ مہدی کے خلاف لشکر کشی والی فوج کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا۔ 1979میں امریکی صدر جمی کارٹر نے اسلحہ سے لیس بہترین فوج کو خمینی کا تختہ الٹنے کیلئے روانہ کیا مگر یہ فوج صحرا کے طوفان میں غرق ہوئی جو کہ تائید الٰہی کامنہ بولتا ثبوت ہے۔

شمس الدین شگری: امام خمینی کو بارہواں امام مہدی کیسے کہتے ہیں؟۔
علامہ: امام مہدی سے متعلق 200 سے زیادہ حدیثیں ہیں، زیادہ تر حدیثیں بنائی ہوئی ہیں جو کہ عیسی علیہ السلام سے متصل ہیں۔ایک حدیث کو مانتا ہوں ۔ واقعات اسکے مطابق ہیں۔ رسول اللہۖ نے فرمایا: اس امت کے شروع میں ”میں” اور درمیان میں مہدی اسلئے امام مہدی کو درمیان میں آنا چاہیے۔ عیسی علیہ السلام کیساتھ لنک بنتاہی نہیں تو اسلئے میں امام مہدی کو اس حدیث کے مطابق سمجھتا ہوں ۔ اب 1447ہے40، 50 سال رہ گئے۔ اگر مہدی نہیں آئے تو کم از کم10، 15 سال میںظہور ہو نا چاہیے عیسی علیہ السلام سے بہت پہلے۔ ذخیرہ حدیث سے زیادہ اہمیت وجدانی کیفیت اور زمینی حقائق ہیں۔ اللہ نے یہ آلہ انسانی جسم میں رکھ دیا۔ احادیث سنی کتابوں سے ہوں یا شیعہ سے ان میں غلطی کا امکان ہے لیکن حدیث کا کون سا حصہ درست اور کونسا حصہ ملاوٹ شدہ ہے، زمینی حقائق سے حقیقت نکھر کر سامنے آئے گی۔ دینی بنیاد پر تصدیق شدہ حدیث کو قبول کیا جائے گا۔ فالھمھا فجورھا و تقوٰھھا اس آیت میں انسان کے اندر اللہ نے حق و باطل کی پہچان کا جوہر وجدان میں ڈال دیا ۔امام مہدی کا علیحدہ تشخص ہے اور وہ اہل تشیع اور اہل سنت دونوں میں سے نہیں ہیں۔

سوال: جو من میں آیاکہ مہدی کی حدیث کو مانوں یا نہیں؟۔
علامہ شبیر اختر: نہیں معلوم کہ کوئی خمینی کے امام مہدی ہونے والے میرے تصور سے متفق ہے یا نہیں۔ امام علی سے 11تک دشواری پیش نہ آئی کہ امام آنے والے کا تعارف کروا دیتے مگر آخری زمانے کی غیبت کبریٰ کا غلط تصور شیعہ میں رواج پا گیا۔ امام کو اقتدار میں لانے کیلئے عوامی حمایت ضروری تھی ۔جو غلط عقیدہ شیعہ کا ہوچکا، خمینی نے ولایت فقیہ میں امام المہدی کی نیابت سے جوڑ دیا۔ انہوں نے اعلان نہیں کیا کیونکہ ا غلط عقیدہ شیعہ میں موجود تھا اس سے وہ کیسے نکلتے؟۔ اپنا کام 10سالہ خلافت الٰہی کو مضبوط بنیادوں پر استوار کر دیا۔ یہ وقت کیساتھ عوام کا شعور بیدار ہوکر وحدت انسانیت میں پھیل جائے گا۔ خمینی کو علم تھا کہ اسلام کووحدت انسانیت تک پہنچنا ہے کیونکہ فرقوںکی گہری جڑیں ختم نہیں ہوں گے۔ اسی لیے تو وہ آئیں گے۔ اگر فرقے حق پر قائم ہیں تو انکے آنے کی ضرورت نہیں ۔ وہ آگاہ تھے کہ اصل کام بنی نوع انسان کی سیدھی راہ کی طرف رہنمائی ہے۔ نئی امت مسلمہ انسانیت کے اظہار کے ذریعے معرض وجود میںآئے گی۔ یہ ہوگی اُمت مسلمہ ،امام مہدی جو چاہ رہے ہیں وہ یہی ہے ۔ اسکے باوجود اگر تعصب کی بیماری ختم نہ ہوئی تو عیسیٰ ابن مریم باقی کے کام مکمل کریں گے۔

سوال: تفرقہ کا خاتمہ ،اتحاد اوروحدت امت کیسے ممکن ہے؟۔
علامہ شبیر اختر: اہل بیت میں رسول اللہ ۖکی بیویاں، بیٹیاں، بیٹے اور ان کی اولادیں سب شامل ہیں۔ دین کو قائم رکھنے میں سب کی خدمات ہیں، مگر جب کوئی شخص یا گروہ کسی کردار کو گھٹانے یا بڑھانے کی کوشش کرتا ہے تو تفرقہ ہوتا ہے۔بطور مثال مولا علی اور جعفر طیار دونوں اہل بیت میں شامل ہیں مگرجو مقام مولا علی کا ہے وہ جعفر تیار کا نہیں ۔ بی بی فاطمہ کے علاوہ تین بہنیں تھیں۔ دو بیٹیاں خلیفہ حضرت عثمان بن عفان کی زوجیت میں تھیں۔ ذی النورین کے لقب سے مشہور ہوئے لیکن ان بیٹیوں کا وہ مقام نہیں جو رسول اللہ ۖ نے فاطمہ کو جگر کا ٹکڑا کہہ کر ان کی فضیلت اور برتری کو نمایاں بیان کر دیا۔ لیکن تینوں بیٹیوں کو جعفر طیار کی طرح عزت و احترام سے محروم نہیں کیا ،سب کو عزت واحترام سے گفتگو کی جائے گی۔ ائمہ اہل بیت پرسنی شیعہ میں افراط و تفریط پیدا ہوئی۔

سوال: فدک پہ حضرت ابوبکر کو بات مان لینی چاہیے تھی؟۔
علامہ شبیر احمد: پہلے تینوں خلفاء راشدین کا ایمان رسول اللہ اور انکے گھرانے سے محبت کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے، لیکن یہ خلفا ء معصوم نہیں، انکے دور میںکئی فیصلے 100 فیصد درست نہ تھے۔ ان پر پردہ پوشی سے سنی نے انکا حقیقی مقام کو داغدار کیا اور شیعہ ان پر الزام تراشیاںکرکے جابر اور غافل حکمرانوں میں شمار کرنے لگے یہ درست نہیں۔ پھر مولا علی سے تقویت نہ ملی تو تقیہ کے پردے میں چھپا کر مولائے کائنات کا کردار داغدار کیا۔ خلافت کا غصب درست نہیں مولا علی نے جائز خلافت تسلیم کیااور تینوں خلفائے راشدین سے بھرپور تعاون کیا۔ ان سب کا دور حکمرانی رحماء بینھم کی بہترین مثال ہے ۔

سوال: کیسے سمجھ میں آئے گاکہ انتظار میں تم بیٹھے ہو امام ا چکا ۔
علامہ شبیر احمد اختر: امام خمینی نہ تو سنی اورنہ شیعہ قید میں۔وہ آزاد تھے۔اسلام کی صحیح نمائندگی کا سسٹم نافذ کیا تھا۔ سنی اور شیعہ کو برابر مقام دیا۔ کسی کو کم تر نہیں جانا۔ اگر سارے اس کو اپنا لیں تو پھر یہ پوری امت دوبارہ اکٹھی ہو سکتی ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اکتوبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

خلیفہ موجود صرف خود کو ظاہر کرنا ہے۔ آفتاب اقبال

السلام علیکم !یہ سوال کہ جنگ سمیت بے شمار پیشگوئیاں کی ہیں بہت سوں کو100 فیصد یقین نہیں،ان تمام کو یکجا کر یں۔ تنقید پرخوشی لیکن رونما ہونے لگیں تو سافٹ کارنر پیدا کریں۔ ایک یادو چیزیں ہوگئیں تو باقی بھی ہو جائیں گی۔
نمبر1: ملک کا 75-70 سالہ نظام چند ہفتوں میں دھڑام سے گریگا۔ یہ نظام اللہ کا ہے۔ اسے لانے میں انسان ،گروپ یا ادارے کی شعوری کوشش کا عمل نہیں۔

نمبر 2: سزاؤں کا درد ناک سلسلہ ، جس نے کیا تمام طبقات سزا کے حقدار۔ بدعنوانی یا بدمعاشی سے اس مملکت ، عوام کو نقصان پہنچایا یا کرپشن کی تو سزا کا حقدار ہوگا۔ ملک نہیں retribution کا شکار پورا خطہ ہوگا۔کوئی ظلم ڈھایا، پاکستان یا اسلام سے غداری ملکی مفاد ذاتی منفعت کی بھینٹ چڑھایا، آئین پامال کیا، حلف کی کسی طور خلاف ورزی، حیثیت رکھتے ہوئے ظلم جبر پر صرف نظر کیا ، آواز احتجاج میں شامل کر سکتا تھا نہیں کیاوہ بھی کسی نہ کسی طور سزا کا حقدارہوگا۔ یہ نظام سب من جانب اللہ ،سپر کمپیوٹر کی CCTV فوٹیج سے کوئی بھی نہیں بچ سکے گا۔

نمبر3: جنگ: پھر جنگ ہوئی تو اتفاق بھی کرنے لگے۔ بہت سوں نے کہا جی fluke (اتفاقیہ) لگ گیا۔ جنگ لازماً ہوگی ۔ یہ نوشتہ دیوار ہے۔ دنیا کے حالات شدید پلٹا کھانے والے ہیں۔ جنگ ہوگی تو یہاں ساؤتھ ایشیا میں لیکن اثرات دنیا پر رونما ہونگے۔ 4، 5 دن خوب قتل و غارت ہوگی ۔ گھمسان کا رن پڑے گا اور اسکے بعد عجیب واقعہ رونما ہوگا، صورتحال احوال یکسر بدل جائے گی ، کیسے؟ خود دیکھئے گا۔

نمبر 4: ظہورخلیفہ: کئی ناک بھوں چڑھاتے ہیں ،میرے کچھ اساتذہ اختلاف کرتے ہیں۔ ظہورمہدی پر 100 فیصد پیشگوئیوں اورروایات پر ایمان کی حد تک یقین رکھتا ہوں لیکن وہ تقریباً8 ،10، 15 سال بعد۔ امام مہدی تشریف لائیں گے آخری معرکے کیلئے لیکن اس سے پہلے سسٹم بدلنا، سارے معاملات کو اس گند کو صاف کرنا ہے یہ فریضہ خلیفہ انجام دے گااور میرے حساب سے خلیفہ موجود ہیں انہوں نے صرف اپنے آپ کو ظاہر کرنا ہے۔ خلیفہ کون ہے؟۔ اللہ کا نائب۔ اگلی قسط میں کر لیں گے۔ شاید دو تین ہفتے بعد ڈسکس کریں۔ خلیفہ کی شخصیت ،اسکا طریقہ کار، اس کی ٹیم اور وہ وہ اثرات جو رونما ہوں گے ۔

نمبر5: دنیا تین بلاکس میں ہوگی۔پہلا امریکی بلاک یورپ، امریکی حلیف ہونگے۔ دوسرا ایشین بلاک چائنہ، رشیا ہے اور انکے حلیف اور تیسرا مسلم ممالک پر مشتمل زبردست، ایک نیا جدید ترین بلاک معرض وجود میںآئے گا اور انشااللہ اس کو لیڈ خلیفہ کریں گے۔ انتہائی دلچسپ بھارت کہاں ہوگا؟ بظاہر تو چائنہ کی طرف مائل ہے۔ راہ و رسم بڑھ رہے ہیں، لیکن سسپنس کو برقرار رکھتے ہوئے فی الحال آگے چلتے ہیں۔

نمبر6: یہ بلاک اسرائیل کو تنبیہ کرے گا سخت الفاظ میں ۔ اہل غزہ سکھ کا سانس لیں گے۔

نمبر7: آخری بات مسئلہ کشمیر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے حل ہونے جا رہا ہے سندھ طاس معاہدہ مسئلہ کشمیر کیساتھ ویسے ہی ختم ہو جائے۔
ـــــــــــــــــ

آفتاب اقبال کے منہ میں گڑ شکرلیکن حقائق پر مبنی ”تجزیہ”

چند ہفتے میں نظام گر ا تو ٹھیک نہیں تو آفتاب اقبال وڈیو کی قیمت لے چکا ۔ اوریا مقبول جان کا کسی نے کیا بگاڑا؟۔ انتظار ہے کہ گائے بچھڑا نہیں انڈہ دے گی اور انقلاب آجائے گا۔ یہ منجن بیچنے والے سمجھتے نہیں یا پھر بے ضمیرہیں؟۔

حضرت یونس علیہ السلام نے قوم کو عذاب کی ڈیڈلائن دی تو پھر قوم نے صرف امکان ظاہر کیا اور یہ مطالبہ رکھا کہ ” اللہ ہم پر صرف آپس کی لڑائی کا عذاب نازل نہ کرے اسلئے کہ اس میں بچت نہیں ہے۔ باقی پتھر برس جائیں تو ایک دوسرے کی مرہم پٹی کریںگے، بیماری میں علاج اور بیمارپرسی کریںگے۔ بھوک آئے تو گھاس کھالیںگے وغیرہ” ۔ اللہ کو قوم یونس کی یہ بات اتنی پسند آگئی کہ دنیا کی واحد قوم ہے جس سے عذاب ٹل گیا۔

امریکہ ،اسرائیل اور مغرب نے اقتصادی اور ٹیکنالوجی کی طاقت سے افغانستان، عراق اور ایران کو شکست دی۔ آج بھی اوپر اللہ اور نیچے فرعون اعلیٰ ہے جس سے موسیٰ علیہ السلام نبوت اور معجزات کے باوجود اپنی قوم کو لیکر بھاگے تھے۔ آفتاب اقبال اپنی چھوٹی بچی کا غم نہیں بھولا تو کیا خلافت کے قیام سے مغربی اقوم اپنی ماں ، بہن، بیٹی اور بیوی کو لونڈی بنانے دے گی؟۔ ہم سمجھتے ہیں کہ علاقائی ممالک کیساتھ اچھے روابط سے دوستی قائم کرکے نہ صرف خود کو بلکہ پورے خطے کو مشکلات سے نکالیں۔ ڈھانچہ نہیں بدلیں ڈھانچے کی اصلاح کریں۔ تاکہ غارتگری رک جائے۔ علامہ اقبال نے” فلسطین عرب ”سے کہا تھا کہ

زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ
میں جانتا ہوں وہ آتش تیرے وجود میں ہے
تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں ہے
فرنگ کی رگ جاں پنجۂ یہود میں ہے
سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات
خودی کی پرورش و لذت نمود میں ہے

سوز کوسامری کے ساز میں بدل دیاگیا۔مرزا جہلمی، جاوید غامدی ،مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب ہزاروی اور انکے مرید۔

اقتصاد کی آزادی ہے نجات کا پروانہ
رمق ایمان کی موت ، جواز سود میں ہے
اپنے نفس پر دوسروں کو ترجیح ہے حیات
اپنی فلاح اوروں کی بہبود میں ہے
مسلماں میں فقدان نظر آتا ہے جس کا
وہ جذبہ کہیں کہیں زندہ ہنود میں ہے
بے یقینی کی فضاؤں میں رہنے والو!
اعتماد کا پروانہ خدا کے حدود میں ہے
حسن کی صلح شہادت حسین قابل رشک
قبح آل فرعون ذم نار نمرود میں ہے

نبی ۖ کو مکہ سے نکلنے پر مجبور کیا گیا۔ فطرت کے شاہکار ہندو سے نفرت نہیں محبت کا جذبہ فرض ہے۔دنیا سائنسی علوم اور ہم نفرت کی بازیافت میں مگن ہیں۔ محبت خلق خدا سے اور دشمنی مخلوق کے دشمنوں سے فرض ہے۔ صحافی اور سیاستدان اگر میاں بیوی کی صلح کی آیات کو سمجھ کر بتائیں تویہی انقلاب ہے۔

اسلام لونڈی بنانے والا نہیں ہوگا بلکہ مزارعت سے اس استحصالی نظام کا خاتمہ کرے جس سے لوگ غلام اور لونڈی بنتے تھے اور سودی نظام کا خاتمہ کرے گا ۔ اسرائیل بھی سودی قرضوں کی گرفت ہے۔ جب ممالک، کمپنیاں اور لوگ اس سے نجات پائیںگے تو روس، چین، بھارت اور مغرب کو احساس ہوگا کہ اسلام نے سب امیر وغریب کو خوشحا ل کردیا۔
ـــــــــــــــــ

آفتاب اقبال کی بیٹی کا غم زدہ ویڈیو پیغام

مئی 2023ء میں آفتاب اقبال کو گرفتار کرلیا گیا تو اس کی بیٹی نے کہاکہ السلام علیکم ایک چھوٹا سا ویڈیو پیغام۔ میں آپ سب سے گزارش کرتی ہوں کہ دعا کیجئے میرے والد صاحب کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ کچھ عجیب و غریب سی گاڑیاں آئیں اور چند منٹ میں وہ انہیں لے کر وہاں سے نکل گئے۔ آپ سب سے گزارش ہے کہ انہیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ، آپ سب میری مائیں، میری بہنیں، میرے بھائی سب لوگ پلیز ان کیلئے دعا کیجئے۔ شکریہ۔
ـــــــــــــــــ

18مئی 2025، اسماء بٹ السلام علیکم

پاکستان زندہ ،پاک فوج زندہ باد۔ آفتاب اقبال تمہارا منہ کالا کروں گی!۔ تفصیل نیچے یوٹیوب لنک کے ذریعے دیکھ سکتے ہیں۔
https://www.youtube.com/watch?v=U4UNoTMil80&t=1s

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اکتوبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

40ہزار طالبان مئی2022ء میں شہباز شریف اور بلاول بھٹو لائے

 

پاکستان تحریک انصاف کے میجر سجاد آفریدی کا خیبر پختونخواہ اسمبلی سے خطاب: ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ ہم 40ہزار طالبان کو پاکستان لائے حالانکہ ساری میٹنگ انکے، یہ معاہدہ مئی 2022 میں ہوا ۔ جب وزیراعظم ان کا شہباز شریف اور وزیر خارجہ انکا بلاول زرداری تھایہ ہم نہیں کہتے۔ تاریخ میں لکھا ہے ،یہ انہی کی حکومت تھی۔ PTM کیساتھ خیبر ہماری ڈسٹرکٹ میں حادثہ ہوا ۔ وفاقی حکومت بری پھنس گئی۔ اور وزیر اعلی کے پیر پکڑے کہ کسی طریقے سے فیس سیونگ دی جائے۔

ہماری حکومت نے فیصلہ کیا کہ گھمبیر حالات سے نکالیں ۔ہم وفاق کی اکلوتی جماعت ہیں، جناب سپیکر! یہ جتنی پارٹیاں ہیں ہر سطح پہ انکا ایک ہی مشن ہے کہ اوپر سے ہدایات آتی ہیں اسی پر یہ عمل کرتے ہیں ۔اتنا بڑا مذاق ہے کہ ان کے وفاقی کابینہ کے ارکان سینٹ میں اور اسمبلی میں پشتونوں کو دھمکی دیتے ہیں کہ کوئی مائی کا لعل آپریشن روک کے دکھائے۔ جو بندہ تنظیم سازی میں ملوث تھا اور ابھی ہمیں دھمکیاں دے رہا ہے۔

مسلم لیگ ن ک کا وزیر دفاع کہہ رہا ہے کہ ہم امریکہ سے پیسے لیکر لڑتے تھے ،میں اس کیساتھ نہیں بیٹھنا چاہتا جس نے ہر دیوار پر لکھا تھا ”شریعت یا جہاد”۔ میرا کلچر تباہ کر دیا اور روزانہ میرے معصوم بچوںکو جہاد کے نام پہ شہید کروا دیا۔ پیپلز پارٹی جو ڈکٹیٹر کو ڈیڈی اوروہ زلفی کہا کرتا ۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ ستمبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

گاندھی انگریز کے دلال تھے۔ بھارتی ہندو جج

اکبر بادشاہ انڈیا کے بابائے قوم ہیں۔ مارکینڈے کاٹجو کا انٹرویو

چیف جسٹس مارکینڈے کا زلزلہ برپا کرنے والا زبردست انٹرویو۔تاریخی حقائق کو سمجھو اور اپنے خطے کو سازشوں سے بچاؤ!

السلام علیکم! میں ہوں سجاد پیزادہ۔ 24نیوز ڈیجیٹل ۔ انڈیا کی تین ہائی کورٹس کی چیف جسٹس رہنے والی مشہور شخصیت انڈین سپریم کورٹ کے سابق سینیئر جج ، چیئرمین پریس کونسل آف انڈیا رہنے والے جسٹس مارکنڈے کانجو۔ ہمارے پروگرام میں بہت بہت خوش آمدید جسٹس کالوجی !

جسٹس مارکنڈے: تھینک یو تھینک یو السلام علیکم!

سوال: بہت شکریہ کہ آپ نے ہمارے لیے وقت نکالا اگست 1947میں آزادی کا اعلان ہوا آپ کی عمر کتنی تھی سنا ہے کہ آپ علامہ اقبال کے گیت سن کر بڑے ہوئے۔
جواب: میری پیدائش ستمبر 1946 تو اگست 1947 میں میں11مہینے کا تھا، اس وقت کی کوئی یادداشت ہوتی نہیں کسی میں۔ علامہ اقبال کے شاعری بہت ہی پسند ہے۔

سوال: کاجو جی تقسیم میں بستی کی بستیاں اجڑ گئیں لوگ ادھر سے ادھر آئے کیا آپ کا خاندان متاثر ہوا تھا اور آج کے پاکستان کے کسی شہر میں بڑوں کی کوئی یادیں ہیں؟۔
جواب: میرے دادا جی کے والد انڈیا کی چھوٹی اسٹیٹ جاوڑا میںرہتے تھے ، دادا کو 10 سال کی عمر میں ایجوکیشن کیلئے لاہور بھیجا۔ وہاںاچھی ایجوکیشن نہیںتھی ۔جبکہ لاہور تو بہت ایجوکیشنل اور کلچر سینٹر رہا تو وہاں قریب 1900 سے 1906تک میرے دادا ڈاکٹر کیلاش ناتھ کانجو لاہور میںپہلے رنگ محل ہائی سکول ہے وہاں ایجوکیٹ ہوئے پھر فارمین کرسچن کالج میں ہوئے پھر BA ڈگری کے بعد LLBکرنے کیلئے وہ الہ آباد آگئے۔ میرا خاندان ایسٹرن یو پی کے شہر الہ آباد میں رہتا تھا۔ پیدا ہوا لکھنؤ میں مگر میری پوری پرورش الہ آباد میں ہوئی۔

سوال: آپ کے بڑوں کا مغل کورٹ سے تعلق تھا مغل ہندوستان میں عدالتیں تھیں وہاں کسی جگہ وہ تعینات تھے۔
جواب: میں تو ہوں کشمیری پنڈت مگر میرے پرکھے پنڈت منشا رام کانجو1800میں جاوڑا اسٹیٹ تو وہاں نواب تھے ان کے کورٹ میں ان کو سروس ملی کیونکہ ہم لوگ کشمیری پنڈت اردو اور فارسی کے بڑے ماہر تھے۔

سوال:گاندھی نے پینٹ کوٹ اتار کے دھوتی پہننا شروع کی ، نوجوانی میں شہر چھوڑا اور گاؤں جا کر بسے تاکہ عام آدمی کا درد محسوس کر سکیں۔ تو کیا آپ مہاتمہ گاندھی سے امپریس ہیں؟، کیا آپ ان کو اپنا ہیرو سمجھتے ہیں؟۔
جواب: میں گاندھی کوتو برٹش ایجنٹ مانتا ہوں یہی شخص بٹوارے کا ذمہ دار تھے۔ وہ بٹوارا سب سے بڑا سانحہ ہوا۔

سوال:آپ کے فادر آف دی نیشن ہیںگاندھی جی تو آپ ان کا کہہ رہے ہیں کہ وہ برٹش ایجنٹ تھے۔
جواب: دیکھئے بیوقوفوں کیلئے میں تو ذمہ دار ہوں نہیں اگر یہ بٹوارا نہ ہوتا تو ہندوستان یونائیٹڈ انڈیا انڈر سیکولر ماڈرن لیڈر شپ آج جوائنٹ بن جاتا جیسے چائنہ ہے۔ گاندھی ایجنٹ تھے برٹش کے ان کی وجہ سے بٹوارا ہوا۔

سوال: آپ سمجھتے ہیں کہ اگر گاندھی مسلمانوں کو انکے حقوق مل جاتے تو آج یہ خطہ کسی اور شکل میں نظر آتا۔
جواب: حقوق کا مطلب جانتے ہیں آپ؟۔ دیکھئے 14اگست کو آپ یوم آزادی منارہے ہیں۔15اگست کو ہندوستان منا رہا ہے مگر میں نے کہا میں نہیں مناؤں گا کیونکہ اصل آزادی ہے غربت ،بے روزگاری ،بھوک سے حفظان صحت کے فقدان سے آزادی یہ ملی ہے لوگوں کو؟۔ تو یہ فرضی یوم آزادی ہے۔ ہم بیوقوف ہیں کہ15 اگست کو سیلیبریٹ کریں جب ملک آزاد ہی نہیں ہوا ہے۔ آزادی ہوتی ہے اکنامک آزادی ۔ جناح کو مانتے ہیں بابائے قوم قائد اعظم یہ سب ۔ ہم لوگ کہتے ہیں فادر آف دی نیشن۔ آپ سوچیے بٹوارے میں کئی 10لاکھ لوگ کتنے بے رحمی سے قتل ہوئے ہندو مسلم ۔20 سوں لاکھ لوگ گھر سے بھگائے گئے قتل ہوا مشکلات ہوئیں یہی لوگ ذمہ دار تھے۔

سوال: تین بڑوں میں کس کو سب سے بڑا لیڈر مانتے ہیں بادشاہ اکبر، مہاتما گاندھی یا قائد اعظم محمد علی جنا ح کو؟۔
جواب: گاندھی بدمعاش لوگ تھے ان کی وجہ سے بٹوارا ہوا جس سے کتنا نقصان ہوا آج تک ہم لوگ …

سوال: فادرآف دی نیشن کون ہے پھر انڈیا کا؟۔
جواب: جرنلسٹ خود بولو۔ حوصلہ رکھئے بتارہا ہوں۔ بادشاہ اکبر کو مانتا ہوں کیونکہ جو پالیسی کا نام تھا ”صلح کل” یعنی سب مذہب اور کمیونٹیز کو برابر عزت دو جس کی وجہ سے مغل امپائر اتنا لمبا 300سال چلا ، سب کو ساتھ لے کے چلتا تھا۔ مغل بادشاہ اکبر کی کورٹ میں ہندو بڑے بڑے عہدے پہ تھے جیسے راجا ٹوڈر مل ہو آپ سمجھئے فائنانس منسٹر آف دی مغل امپائر،سارا فائنانس کنٹرول کرتے تھے، مان سنگھ بہت گریٹجنرل تھے سب کو برابر عزت دی گئی تو اسی کو میں فادر آف دی نیشن مانتا ہوں ، ہماری بیوقوفی ہے کہ گاندھی کو فادر آف دی نیشن مانتے ہیں، کتنا نقصان کیا ہندوستان کا، ہم بھی کتنے بڑے گدھے ہیں95%۔ اتنا نقصان کیا کہ آج تک ہم بھگت رہے ہیں بے روزگاری

سوال: دنیا مانتی ہے فادر آف دی نیشن۔ گاندھی کے سر میں دماغ نہ تھا کیا آپ نے تو برٹش ایجنٹ ان کو بنا دیا۔
جواب: دیکھئے ایک وقت تھا دنیا مانتی تھی کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے یہ جیو سنٹرک تھیوری پوری دنیا مانتی ہے پھر ایک آدمی نے کہا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے یہ ہے ہیلو سینٹرک تھیوری۔ 1523 میں اس نے لکھا تو یہ کہنا کہ دنیا مانتی ہے، یہ تو کوئی بات نہیں۔ اکثر ہوتا ہے کہ ایک آدمی صحیح بول رہا ہے ساری دنیا غلط بول رہی ہے ۔

سوال: مہاتما گاندھی کا مقام کہاں دیکھتے ہیں؟۔
جواب: میں نے بتایا نا کہ انگریزوں کے دلال تھے۔ انگریز وںکی جو پالیسی ڈیوائڈ اینڈ رول تھی، ان کی وجہ سے بٹوارا ہوا ہے۔ گاندھی جی آئے تھے انڈیا1915 میں اس سے پہلے 20سال وکالت کی تھی ساؤتھ افریقہ میں۔ 1915سے1948 تک جب ان کا قتل ہوا لگاتار ان کی تقاریر اور آرٹیکل پڑھ سکتے ہیں جو گورنمنٹ آف انڈیا پبلی کیشن ہے۔ عوامی تقریروں میں وکالت کرتے ہیں ذات پات کا نظام خود گائے کے تحفظ کی وکالت کرتا ہے۔ ہمیں گائے کو بچانا ہے اور ہندو نظریات کی باقاعدگی سے تبلیغ۔ اب اس کا کیا اثر ہوگا ایک عام مسلمان کے دماغ میں۔ عام مسلمان ایسی جماعت کا ممبر ہوسکتا ہے جس کا لیڈر یہ کہہ رہا ہے۔ کانگریس دانشوروں کی پارٹی تھی، اکثریت ہندوؤں کی تھی تو گاندھی نے سوچا کہ ہندوؤں کی حمایت حاصل کرنے کیلئے مذہب کا استعمال کرنا چاہئے تو مذہب کا استعمال کیا۔ مذہب سے حمایت تو ملی مگر صرف ہندوؤں کی۔ مسلمان اس جماعت میں کیسے شامل ہوسکتے تھے؟۔ وہ مستقل اپنی تقاریر میں ہندو مذہب کی تبلیغ کرتے تھے۔ بڑے مشہور انڈیا کے وکیل ایچ ایم سیروائی کی کتاب کا نام ہے ”Partition of India Legend and Reality” یہ نوٹ کرلیجئے۔ اس میں لکھا کہ گاندھی کی تقاریر براہ راست تقسیم کی طرف لے جاتی ہیں۔
1917کے آس پاس جناح سیکولر اور محب وطن تھے اورکانگریس اور مسلم لیگ دونوں کے رکن تھے۔ گاندھی نے کانگریس میں ہندو خیالات کااظہار کیاتو ناراض ہوگئے اور انگلینڈ گئے۔ انہوں نے کئی سال انگلینڈ میں وکالت کی۔ انگریزوں کی پالیسی یہ تھی کہ ہندوستان کومتحد نہیں رہنے دینا۔ اگر یہ متحد رہا تو یہ ایک جدید صنعتی یونٹ بن جائے گا۔

سوال: آپ سے مزید ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ قائد اعظم محمد علی جناح ان کی کوئی ایک خوبی بتا دیجیے۔
جواب: 1917ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کے طور پر جانے جاتے تھے۔ وہ سیکولر اور محب وطن تھے۔

سوال: سیکولر کا مطلب کیا ہے؟۔
جواب: سننے کا حوصلہ رکھیں۔ سیکولر کا مطلب ہے کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوگا۔ سیکولر کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اپنے مذہب کو پریکٹس نہیں کر سکتے بے شک آپ اپنے مذہب کو پریکٹس کر یں ہندو ہوتو مندر جائیے مسلم ہو تو مسجد جائیے۔ مگر مذہب نجی معاملہ ہے۔ ریاست سے کوئی تعلق نہیں۔ ریاست کا مذہب نہیں ہوگا۔ سیکولرازم کا مطلب یہ نہیں کہ لوگوں کو اپنے مذہب پر چلنے کا حق نہیں ہوگا۔

سوال: برطانیہ نے آزادی ہند ایکٹ منظور کیا جس پر 15اگست کو ہندوستان تقسیم ہوا، 10لاکھ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور لاکھوں عورتوں کا ریپ ہوا ہزاروں اٹھا لی گئی تو اس میں آر ایس ایس کے غنڈوں کا کتنا کردار تھا ؟۔
جواب:دوسرے مذاہب کیخلاف نفرت پھیلانا تھا۔ یعنی تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی کا حصہ تھے۔ 1857 سے پہلے فرقہ وارانہ مسئلہ نہ تھا ہندوستان میں اور کوئی مذہبی فسادات 1857سے پہلے نہیں ہوئے۔ ہندو اور مسلم ایک ساتھ رہتے تھے بھائی بہن جیسے ایک دوسرے کے تہواروں میں شرکت کرتے تھے ۔1857میں ہندو مسلم مل کے لڑے انگریز سے۔ پھر انگریزوں نے سوچا کہ ہندوستان کو کنٹرول کرنے کا تو ایک طریقہ ہے کہ تقسیم کرو اور حکومت کرو۔ تو ساری فرقہ واریت شروع ہوئی 1857سے ۔

سوال:یہ کیا بات ہوئی کہ 15اگست کو تو اعلان ہو گیا کہ تقسیم ہوگی لیکن تقسیم کے دو دن بعد 17اگست کو اعلان ہوا کہ فلاں علاقے ہندوستان میں آگئے فلاں پاکستان میں۔ یہ کیا تھا کیا یہ انگریز کی چال تھی کہ اس کے بعد بہت بڑی تعداد میں نقل مکانی ہوئی لوگوں آپس میں لڑ پڑے۔
جواب: انگریزکی چال تھی اپنے ایجنٹوں کے ذریعے۔ دیکھیں انگریز جن ملکوں کو چھوڑتے تھے چونکہ قوم پرستی کی تحریکیں شروع ہو گئی تھیں تو وہاں پہلے تقسیم کر تے پھر چھوڑ دیتے تھے جیسے کہ آئرلینڈ میں تحریک آزادی کی جدوجہد شروع ہوئی جسکے مغرب میں انگلینڈ ہے۔ تو انگریزوں نے اس کو تقسیم کیا چھوڑنے سے پہلے شمالی آئرلینڈپروٹسٹنٹ اور جنوبی آئرلینڈ جسے آئرش جمہوریہ کہتے ہیں کیتھولک۔ پھر سائپرس ایک آئرلینڈ ہے تو اس کو نارتھ اور ساؤتھ میں تقسیم کیا چھوڑنے سے پہلے وہ بھی مذہب کے نام پر۔ انڈیا کا بھی ایسے ہی تقسیم کیا۔ اسرائیل میں 95% لوگ پہلے عرب تھے تو اس کو پہلے اسرائیل بنایا اور دوسرا جارڈن بنایا۔ وہ بھی مذہب کے نام پہ۔ اسرائیل میں یہودی رہیں گے اور جو عرب تھے ان کو مار پیٹ کر بھگا دیا۔ پہلے 95% عرب اسرائیل میں ابھی 20% ہیں تو باقی 75%فیصد کہاں گئے؟۔ عورتوں بچوں کو مار ڈالا گیا یا بھگا دیا گیا۔ گالا میں ہیں یا ویسٹ بینک یا جارڈن میں ہیں یا لبنان میں۔

 

مارکنڈے کے انٹرویو پر تبصرہ

برطانوی ہند کو آزاد کرنے سے 3ماہ پہلے عرب خلیجی ممالک کو ہندوستان سے انتظامی اعتبار سے جدا کیاگیا۔ 1971ء میں وہاں سے نکلا۔ ہندوستان کو تقسیم کیا۔ عوام کو بے وطن اور بے آبرو کیا۔ ہم نے انگریزی نظام کا ڈھانچہ بدلنا تھا مگرمزید خراب کیا۔ کبھی کوئٹہ ژوب اور راولپنڈی سے بنوں، ٹانک اور مرتضی گومل تک ریلوئے لائن تھی وہ بھی ہم کھاگئے بھوکے کہیںکے۔ مارکنڈے ، لتا حیا اور ندی شرما جیسے لوگ غنیمت ہیں اور اپنی دشمنیاں ختم کرنی ہوں گی۔ لاکھوں فیلڈمارشل عاصم منیر ، ذوالفقار علی بھٹو، نوازشریف اور عمران خان کی ماں کی رشتہ داریاں بھارت میں ہیں اور ہندوستان میں لاکھوں ہندو سکھ ہیں جن کا تعلق پاکستان سے ہے تو آپس میں نفرت نہیں محبت بنتی ہے انگریز گیا مگر ہماری نفرتیں ختم نہیں ہوئیں کتوں کی طرح لڑتے ہیں۔

جب تقسیم ہند کے باوجود بردہ فروشی کا دھندہ ہے تو اگر میدان وسیع ہوتا تو مزید مشکلات بڑھ جاتیں۔ جو کچھ ہوا تو اس میں خیر تھی لیکن آئندہ تجارت اور انسانیت کیلئے یورپی یونین اور عرب امارات کی طرح مضبوط اتحاد اور آمد ورفت کا ماحول قائم کرنا ہوگا، پنجروں کی جگہ آزادی کا ماحول سبھی کیلئے نفرتوں کا عذاب ختم کرنے کیلئے ضروری ہے۔


 

پاکستان کا وجود کفار کی وجہ سے قائم ہے۔ ارشد محمودمصنف دانشور
حوریں اور تنہا عورت

شہریار وڑائچ:ہیلو ویورز! ہمارے ساتھ ایک بڑے ہی مشہور اور لیفٹسٹ اور مصنف دانشور سکالر جناب ارشد محمود ہیں ۔ لندن میں ایک دریا کے کنارے ہیں ارشد صاحب سب سے پہلے ویلکم!۔السلام علیکم!
ارشد محمود: وعلیکم السلام آج بڑا اتفاق ہے ہماری ملاقات لندن میں ہورہی ہے ہم لاہور میں بیٹھا کر تے تھے۔
شہریار:آپ کی کتاب پاکستانی معاشرے کے گٹھن میں بہشت میں تنہا عورت یہ کانسپٹ ذہن میں آیا کیسے؟۔یہ کیسے آپ نے سوچ لیا ؟۔
ارشد محمود: جنت میں حوریں ہوں گی۔ مسلمان عورت ہماری بیویاں ، بہن بیٹیاں ، مائیں ہو سکتی ہیں تو مجھے لگا کہ وہاں یہ زمینی عورت بڑی اجنبی سی ہوگی ۔ہم تو وہی مرد حوروں کی ہوس کے مارے ہوئے ۔ عبادتیں ظاہر حوروں کیلئے کی ہیں ان کیلئے تھوڑی کی کہ پھر یہی ملے ہم کو ؟۔

سوال: پاکستانی معاشرے کی پکچر کس طرح ہے؟۔
جواب: افسوسناک نہ صرف ایک جگہ فکری، تہذیبی لحاظ سے کھڑی بلکہ آنے والا 14اگست 77سال ہوئے کہ ہم نے پیچھے کا سفر کیا گرنے کا ۔ انگلینڈ ترقی یافتہ دنیانئی چیزیں ایجاد کر رہے ہیں۔ ان کی ایکٹیوٹیز ہیں پاکستانی معاشرہ مذہب کے تنگ سے دائرے میں پھنس چکا ہے۔

سوال: قیامت کا ہمارا کانسپٹ ہے دنیا سے تعلق نہیں تو پھرکیسے کہہ رہے ہیں کہ ہم بیک ورڈ جا رہے ہیں؟۔
جواب: پاکستان کے تمام نوجوانوں اور پیرنٹس کی یہی لگن ہے کہ بچے مغربی ملکوں میں جائیں اور ہماری دنیا ہماری زندگی اسلام یا مذہب کے مطابق ہو۔یہ تضاد ہے ۔

سوال: بطور مسلمان پہلا حق ہے تو حرج کیا ہے ؟۔
جواب: دنیا میں جنہوں نے مادی ترقی کی چین جاپان ویسٹرن کنٹری یورپ جس نے ترقی کی اس کا دین چھوٹ گیا وہ سیکولر مذہب سے دور ہو گئے۔ پاکستانیوں کو سمجھ نہیں کہ اب کرنا کیا ہے ۔ پاگل بنایاہماری اسٹیبلشمنٹ ، ہماری سٹیٹ نے روکاہے ۔ پاکستانیوں کی یہ خواہش کہ ہمارا ملک خاندان ، اولادیں خوشحال ہوں، وہ باہر یونیورسٹیوں میں پڑھیں تو مطلب ہمارا دل کہیں اور ہے دماغ کہیں اور ہے پاکستانیوں کا۔ تو اس چکر میں پاکستان رکا ہے اور جو چیز رک جاتی ہے توہ بدبودار متعفن ہو جاتی ہے ۔

سوال:تو اس متعفن ،کرپٹ معاشرے کا ذمہ دار؟۔
جواب :علماء کہتے ہیں کہ دین سے دورہیں اسلئے زیادہ کرپٹ ہیں ۔پاکستان اسلام کے نام پہ بنا ،قائد اعظم نے کہا مدینے کی ریاست ماڈل ہے۔ آئین اسلامی ، قوانین اسلامی۔ ہر حرام چیز پر پابندی ،اسلام کیخلاف کوئی قانون ممکن نہیںمسجدیں مدرسے مولوی ماشااللہ 86% نمازیں پڑھنے والی قوم مسجدیں بھری ہوتی ہیں، ہمارے بچپن میں مسجدیں خالی، ابھی تو ماشااللہ لوگ دکانیں بند، ریڑیاں چھوڑ کے مسجد جاتے ہیں۔ ہم خاصے بنیاد پرست ہیں، تمام پالیسیاں کفار کے خلاف ہیں پوری پاکستانی سوچ اور اسکا دماغ ۔ اس سے بڑا عشق کیا ہو سکتاہے کہ بندہ مذہب کی خاطر قتل کر دے۔ مقبول نعرہ سر تن سے جدا ہے حالانکہ کتنا وائلنٹ ہے ٹوٹلی آج کی تہذیب سے یہ میچ نہیں کرتاہے لیکن ہمارے ہاں کوئی اسکے خلاف بولتا نہیں۔

سوال: ہمارے خلاف مغرب سازشیں کرتا ہے؟۔
جواب: یہ ساری ہم نے چیزیں بنائی ہیں۔ پاکستان کا وجود ہی کفار کی وجہ سے کھڑا ہے ۔امریکہ کی وجہ سے ہے دیکھو نا اگر امریکہ نہ چاہے توآدھا 50-40سال پہلے ٹوٹ گیا ،کوئی انٹرنیشنل سازش کرے توہم کچھ نہیں کر سکیں گے ، پاکستان کا وجود قائم ہی عالمی طاقتوں کی وجہ سے ہے، پاکستان تسلیم شدہ ملک ہے اس کو کوئی خطرہ نہیں۔ ہمارا بڑا فائنانشل مددگار، سکیورٹی فورسز ہمیشہ امریکن اسلحے سے لیس ہماری ایکانمی انٹرنیشنل فائنانشل سیٹ اپ ہے ہمارا ملک ڈالروں کا ہے تو سازشیں کون کررہا ہے ہمارے خلاف ہے تو یہ چیزیں گلی محلے کی ہیں یہ علم و دانش کی چیزیں نہیں ہیں۔

سوال: آپ بچتے ہیں پاکستانیوں سے وجہ کیا ہے؟۔
جواب: میں آتا ہی سانس لینے ،آکسیجن مل جائے، خوبصورت، صاف ایماندار اسٹریٹ فارورڈ لوگ ہیں۔ لڑکیاں نیم برہنہ، مولوی کی نظر سے بے حیائی لیکن کتنا پاکیزہ ماحول ہے۔ کوئی کسی کو بری نظر سے نہیں دیکھ رہا، اتنا بڑا جرم بنا دیا ،عورت کو سب سے پہلے محفوظ کیا، کسی کو ہراس نہیں کر سکتے ۔ ہم تو برقعے والی کو بھی نہیں چھوڑتے دیکھنے سے ۔کوئی آلودگی نہیں ، کپڑے اورہوتے،شوز گندے نہیں ہوتے ۔کئی روز کے بعدشوز پالش کریں۔

سوال:اسی لئے ہم کہتے ہیں صرف ایک کمی ہے صرف اسلام قبول کر لیں باقی سب کام اسلام والے کرتے ہیں۔
جواب: یہ جو مغرب کے بارے میں کہتے ہیں کہ اسلام کے اصول ان کے پاس ہیں ۔ یہ عجیب بات ہے کہ جن کو کافر جہنمی کہتے ہیں جو دوزخی ہیں ان کو آپ کہہ رہے ہیں کہ سارا اسلام انہوں نے نافذ کیا ہوا ہے تو یار یہ تو بڑی عجیب بات ہے کسی ایک جگہ پہ تو یار قائم دائم رہونا یار۔


 

غزہ کے منافق دشمن۔ ارشد محمود مصنف دانشور سے انٹرویو

شہریار وڑائچ: فلسطین پر UK کے اندر بھی بہت بڑی تعداد ہے جو روز گرفتار ہو رہی ہے احتجاج بھی کر رہی ہے لیکن منع نہیں ہو تی۔ ارشد صاحب کا موقف مختلف ،آپ فلسطین کے مخالف کیوں ہیں ؟۔
ارشد محمود : فلسطین کیا میں کسی انسان کا مخالف نہیں ہو سکتا ہوں یہ اانسانی مسئلہ ہے ۔ ہم پاکستان کے ماحول کا ذکر کرتے ہیں تو بطور مسلمان ہم یہود دشمن ہیں ، نفرت رکھتے ہے یہودیوں سے عقیدے کے طور۔ اب ان سے ہمیں کیا توقع ہے ۔یار یہ تو ہے ہی نیچ یہ تو ہے ہی ظالم یہ تو ہے ہی جتنا بھی برا ان کو کہہ سکتے ہیں ہم کہیں گے۔ پرو فلسطینی موقف جو پاکستان کا ہے۔ رائٹ لیفٹ ایک جیسا جماعت اسلامی، لبیک ،جمعیت علماء میں کوئی فرق نہیں ۔ لیفٹ لبرل مذہبی اور غیر مذہبی سارے فلسطین کیساتھ ہیں اور اسرائیل کی مذمت کرنی اس کو نسل پرست اورفاشسٹ کہنا اس کو صیہونی یہ ٹرمیں بنائی ہوئی ہیں اس کو یہ صیہونیت ہے تو ایک نفرت کے مختلف لیبز ہیں۔

سوال:جب اتنے ہزاروں لوگ اور بچے مارئیے تو۔
ارشد محمود: اچھا ٹھیک ہے، فلسطینی مظلوم اسرائیل ظالم ہے۔ اب سوال ہے کہ 1948میں یہ تنازعہ ہے اب تک تقریبا پاکستان جیسی عمر ہے ۔ظلم ہو گیا، بچے مر گئے عورتیں مرگئیں بڑے مرگئے کیا یہ بچے پہلی دفعہ مرے ہیں؟، یہ 1948سے مر رہے ہیں ٹھیک ہے نا ۔ اس شور شرابے سے فلسطینیوں کو کیا فائدہ ہوا ؟۔ کیا تبدیلی آئی ؟،کیا وطن مل گیا بچے مرنے سے بچ گئے؟، مجھے کوئی فائدہ کوئی چیز بتائیں۔ قیامت تک میں کہوں گا، سو سال بعد بھی یہی کہہ رہے ہوں گے بچے مر گئے، اسرائیل ان کو مار رہا ہوگا یہ ان پہ حملے کر رہے ہوں گے یہ دہشت گردیاں کر رہے ہوں گے۔

سوال: جب وہ مار رہا ہو تویہ ظلم نہیں لگتا کہ اگر ہم کچھ کر نہیں سکتے تو ہم کیا ایک مظلوم کے حق میں بولیں بھی نہیں۔
ارشد محمود: میرے سننے والے ہیں شاید سمجھ سکیں میرا گھر ہے ، میرے ماں باپ کا کوئی گھر تھا انہوں نے قبضہ کیا ہو۔ بڑے طاقتور، بدمعاش، دولت والے ہیں میں ان کے سامنے کچھ بھی نہیں ہوں ۔ انکے ساتھ میں پنگا کروں گا تو یہ میرے بچوں کو مار دیں گے۔ تو ہرگز پنگا نہیں کروں گا میں کیوں راہ چلتے میں انہیں انگل دوں ، گھر میں پتھر پھینکنے دوں، گالی گلوچ دوں ۔اگر اپنے بچوں کو کہوں کہ کنکریاں مارو۔ تو جواب میں وہ میرے بچوں کو قتل کر دیں گے تو میں تو کبھی اپنے بچوں کو مروانے پہ راضی نہیں ہوں گا۔ یہ فلسطینی 1948سے 78سال سے بچوں کو مروا رہی ہیں مسلسل مروائے چلے جا رہے ہیں اور ان کی صحت پہ اثر نہیں ہوتا ساری دنیا دکھ کا، غم کا اور ظلم کا اظہار کرتی ہے۔ میں ہوں سولیوشن سائٹ کی طرف۔ میں ایک امن پسند آدمی ہوں۔ اگر میرا حق جاتا رہے لیکن زندہ رہوں اور میری میرے بچے زندہ رہیں تو میں تو اس طرف جاؤں گا۔ میں نہیں چاہوں گا کہ میری زندگی ہلاکتوں میں گزرے۔ مرنے مارنے پہ گزرے میری نسل در نسلیں لڑتی اور مرتی رہیں۔ آپ لوگوں کا قبائلی ذہن ہے، نسل در نسل مروانے والے جو فلسطینیوں کو سپورٹ کر رہے ہیں، ان کو مرواتے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ شاباش لڑتے رہو مرتے رہو اسرائیل پہ حملے کرتے رہو، لوگ اٹھاتے رہو۔ یار ایک دن میں 1200لوگوں کا ایک فنکشن میں میوزک کنسرٹ ہورہا تھا ، ان کا قتل عام کر دیتے ہیں یہ کوئی چھوٹی سی بات ہے ؟، 300لوگ جن میں بچے عورتیں اور بوڑھے ہیں ان کو اٹھا کر لے جاتے ہیں اگر یہ تماشے کرتے رہیں لڑتے رہیں مرتے رہیں آپ اسرائیل کا ماتم کرتے رہیں۔ اسرائیل کا ماتم کر کے 70-80 سال اس کا کیا بگاڑا لیاہے؟۔ وہ کمزور ہوا ہے 70-80 سال سے مجھے آپ یہ بتائیں ۔ہاں ناں تو کریں نا۔ کمزور ہوا ہے کہ طاقتور ہوا ہے؟۔

شہریار وڑائچ: وہ تو طاقتور ہی ہوا ہے۔
ارشد محمود: فلسطینی نے اپنی کچھ انچ زمین لے لی، یا جو پاس تھا وہ بھی کھو دیا بلکہ کمزور ہوئے ہیں۔ یہ 7اکتوبر آج سے ڈیڑھ دو سال پہلے غزہ جیتا جاگتا کوئی جگہ تھی نا، انکے ا سکول تھے، ہاسپٹل بھی، لائف ہوگی، ہزاروں لاکھوں فلسطینی زندہ ہوں گے، ماں باپ بچے اپنے بچوں کیساتھ پیار سے رہ رہے ہوں گے نا۔ تو آج وہی غزہ کی حالت ہے دیکھ لیں تو پایا کیا؟۔ یہ مستقل تنازعہ ہے۔ میرے مؤقف کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ آپ مستقل تصادم کو زندہ رکھ رہے ہیں وہ 800سال میں بھی پورا نہیں ہونا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ ستمبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

غزوۂ ہند سندھ اور پنجاب میں ہوگا۔ مولانا سید سلمان ندوی

ہندوستان کے مولاناسلمان ندوی نے کہا کہ

پاکستان کی حکومت خاص طور پر ظالم بھی ہے فاسق بھی ہے کافر بھی ہے قرآن کہہ رہا ہے۔ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاؤلٰئک ھم الکافرون(المائدہ:44)۔ھم الظالمون (المائدہ:45)ھم فاسقون(المائدہ:47)

پہلے دن سے لادینی ہے، کلمے کا استحصال کیا گیا پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ لیکن عملًا حکومت کا جو نظام بنایا گیا وہ لا الہ الا امریکہ، لا الہ لابریطانیہ، لا الہ الافرنسا، لا الہ الا اوربا۔ زبان پر کلمہ مجبوراً تھا لیکن اللہ کی الوہیت وربوبیت کے نظام کو نافذ کرنے کیلئے وہ مجرم تیار نہیں تھے ،30لاکھ انسانوں کو ذبح کروایا۔ ایک ملک توڑ کر ایک ملک ان کی لاشوں پر بنایا اسکا نام جھوٹا،نسبت جھوٹی رکھی اور اس پر انگریز کی صہیونی صلیبی فوج مسلط کر دی گئی، پورے ملک پر اسکے جنرل اسکے کمانڈر صہیونی کتے رہے پہلے دن سے۔ سوائے ایک ضیاء الحق ، اللہ غریق رحمت کرے مستثنیٰ تھے اور واقعتا وہ دین کا نفاذ چاہتے تھے لیکن مجرموں، بدمعاشوں، منافقوں نے امریکہ کیساتھ مل کر سازش کر کے ان کو شہید کیا ۔جیسے فیصل کو شہید کیا گیا۔ پاکستان والے یہ بات سن لیں کہ وہ شریعت کے نفاذ کیلئے تیار نہیں ان کی تعلیم لادینی، سیاست لادینی، عدالت لادینی، نظام لادینی، مسلط صہیونی کتے، جرنیل صہیونی، حکومت جعلی فراڈی مجرموں سؤروں کی ،سارے ادارے کتوں کے جو صہیونی نظام کے پرستار ہیں جھوٹے اعلان کرتے ہیں، ان کا میڈیا صبح شام جھوٹ بولتا ہے اس پر جو بیٹھے ہیں وہ کتے کتیاں ہیں ان کو بھونکنے کیلئے لگا دیا گیا ا ن کو گوشت کھلایا جاتا ہے چھیچڑے کھلائے جاتے ہیں ۔

آج اسی ضمن میں کہہ دوں کہ بڑی باتیں کی جاتی ہیں، جاہل اور احمق آخری درجے کے گدھے غزوہ ہند کی باتیں کرتے ہیں۔ یہ نہیں سمجھتے کہ نبی ۖ نے ہند کا لفظ استعمال فرمایا تھا تو افغانستان کے جنوبی بارڈر سے دکن تک اور اسکے نیچے تک اورخاص طور پر خراسان کے نیچے کاعلاقہ ہند تھا ۔ ایران کا مشرقی شمالی اور افغانستان کا مغربی شمالی علاقہ اور پھروسطی علاقے تک یہ خراسان تھا اور اس میں ازبکستان ، ترکستان شامل تھا اسکے بعد سندھ، بلوچستان اور پختونستان سب ہندوستان کا حصہ تھے تو نبیۖنے جب بات کی غزوہ ہند کی تو اس کا تعلق دلی ، حیدرآباد، کیرالہ سے نہ تھا پہلے نمبر پر اس کا تعلق سندھ، پنجاب سے تھا ۔ حدیثیں پڑھ لو سنتے ہی رہتے ہو گے اپنے مولویوں سے جو زبانیں چبا چبا کر جھوٹ بھی بولتے ہیں کچھ سچ بھی بولتے ہیں۔ تو خراسانی لشکر حضرت مہدی کیساتھ نکلے گا یہی وہ لشکر مدینہ منورہ، مکہ مکرمہ اور بیت المقدس پہنچے گا اورجو کاروائی کرے گا بلوچستان ، بختونستان ، سندھ میں، یہاں کے جو مظلوم انسان ہیں جن کو ایک لال ٹوپی والا بدمعاش خبیث مجرم جہنم کے کتے کہتا ہے خوارج کہتا ہے حکومت کے کتوں کی زبان میں بات کرتا ہے بے شرم اور بے حیا ۔ جوصہیونی کتوں کی بات ہے۔

یاد رکھو کہ وہ جو ظلم کے خلاف اٹھے ہیں چاہے وہ پختونستان میں اٹھے ہیں، یا بلوچستان میں اٹھے یا کہیں بھی اٹھیں یہی ہیں جو اسلام کے نمائندے ہیں یہی ہیں جو مہدی کے ہراول دستہ ہیں۔ جو اسرائیل جو صہیونیوں سے مقابلہ کریں جو ان کیلئے میدان میں آئیں ۔یہ ہیںسچے مسلمان اسلام کا کام کرنیوالے اور حضرت مہدی کا استقبال کرنیوالے ہوں گے۔ تو وہ خراسانی لشکر اور یوں کہہ سکتے ہو تم کہ وہ طالبان ہوں گے جو آزاد کریں گے پختونستان کو اور وہ خراسانی ہوں گے جو آزاد کریں گے بلوچستان کو۔ تمہاری خیریت اسی میں ہے تم امارات عربیہ متحدہ UAE کے غلام ہو اسکے تلوے چاٹتے ہو اس کا پیخانہ صاف کرتے ہو وہیں جا کر جائیداد بناتے ہو بار بار وہاں بھاگتے ہو تو اسکے طریقہ کار کو اختیار کرو تو ترقی ہوگی معاشی خوشحالی ہوگی بڑی بڑی بلڈنگیں بنیں گی ہر طرح کی راحت ہوگی۔ یعنی یونائیٹڈ عرب امارات انہوں نے بنایا تو تم یونائیٹڈ پاکستانی اسٹیٹس بنا لو ۔یہ اختیار دو ہر صوبے کے لوگوں کو کہ وہ جس کو چاہیں اپنا حاکم منتخب کریں اور جس آزادی سے رہنا چاہے رہیں۔ تو بلوچستان ایک امارت اور پختونستان ایک امارت ہو اور پھر سندھ کی ایک امارت ہو اور پنجاب کی ایک امارت ہو اور کشمیر کی امارت ہو۔ یہ زیادہ بہتر ہے خوشحالی زیادہ ہوگی لڑائیاں نہیں ہوں گی کوئی خوارج میں شمار نہیں کیا جائے گا ۔ اسلام کسی مذہب کے خلاف حملہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا اسلام کی لڑائی کسی مذہب سے نہیں ہے اسلام کی لڑائی صرف ظلم سے ہے۔لا ینہام اللہ عنِ الذِین لم یقاتِلوم فِ الدِینِ ولم یخرِجوم مِن دِیارِم ان تبروہم وتقسِطوا اِلیہِم اِن اللہ یحِب المقسِطِین (الممتحنہ: 8)

قرآن یہ کہتا ہے کہ جنہوں نے تم پر ظلم نہیں کیا، جنہوں نے تم کو گھر سے بے گھر نہیں کیا، جنہوں نے تمہارے ساتھ دین کی بنیاد پر لڑائی نہیں لڑی ہے تم ان کیساتھ زیادتی نہیں کر سکتے تم ان کیساتھ اچھا سلوک کرو اللہ تعالی تم کو ان کیساتھ حسن سلوک سے منع نہیں کرتا اور مسلمانوں نے جو ملک بھی فتح کیا وہاں غیر مسلموں کو زیادہ حقوق دئیے ان کو آزادی دی ان کو شہریت کے سارے حق دیے ان کے کسی انسانی حق کو نہیں مارا جو ٹیکس مسلمانوں سے لیا اس سے کم ٹیکس غیر مسلموں سے لیا جو حفاظت مسلمانوں کی کی اس سے زیادہ حفاظت غیر مسلموں کی زمیوں کی کی۔ یہ جو صحیح مسلمان تھے ان کا یہ رویہ رہا لیکن جب دور ملک عبود کا اور جبریہ کا اور عدو کا آیا ہر طرح کی بدمعاشی ہر طرح کا ظلم ہر طرح کا استحصال کیا گیا ثابت ہے قطعی طور پر حوالوں سے ثابت ہے۔ پاکستان بھی اسی جبریہ اور عدو کی حدیث کا مصداق بنا ہوا یہاں ایک جابرانہ، مستبدانہ ،طاغیانہ، طاغوتی صہیونی صلیبی نظام نافذ ہے اور یہی صورتحال عرب ملکوں کی ہے وہ مستثنیٰ نہیں ہیں۔ جس UAE میں تم جا کے پناہ لیتے ہو دولت بناتے ہو عیاشی کرتے ہو وہ سب سے بڑا صہیونی اڈاہے اور جس ملک میں جاتے ہو حرمین نے وہ دوسرا سب سے بڑا صہیونی اڈا ہے۔ اردن صہیونی اڈا ہے مصر صہیونی اڈا ہی نہیں ہے بلکہ صہیونی خادم ہے چپراسی ہے نوکر ہے۔ اور پاکستان بھی اسی فہرست میں ہے اور بہت آگے بڑھ کر ہے کہ یہ حکومتیں گراتا بھی ہے اور یہ ووٹ عوام کے کھاتا بھی ہے یہ خبیث پاخانہ کھانے والا مجرم یہ جرنیل جو قرآن پڑھتا ہے اسی قرآن کے خلاف عمل کرتا ہے کہ جو آیتیں بھی ہیں اللہ ورسول سے جنگ کی وہ اس پر منطبق ہوتی ہے یہ سودی نظام کے خلاف نہیں ہے یہ شریعت کے نفاذ سے متفق نہیں ہے یہ اللہ کا حکم جاری اپنے اوپر نہیں کر سکتا تو دوسروں پر کیا کرے گا؟۔ اس نے کتنی بے گناہ عورتوں کو قید کر رکھا ہے کتنے بے گناہ مردوں کو کتنے بچوں کو ظلم کا نشانہ بنایا ہے یہ خبیث اور مجرموں کا ایک ٹولہ ہے حکومت مجرم فوج مجرم اور وہاں کے ادارے مجرم ہیں اور علما کو سب سے پہلے وہ حدیث یاد کرو حضرت ابو ہریرہ کی کہ عذاب جب ہوگا تو سب سے پہلے عالم کو اور بڑے بہادر کو اور بڑے سخی کو پکڑا جائے گا کہ جہنم میں انہیں پہلے ڈالو کیونکہ انہوں نے مقابلہ نہیں کیا ظلم کا۔ مقابلہ نہیں کیا طاغوتی نظام کا۔ انہوں نے مقابلہ نہیں کیا ان لوگوں کا جن کی حکومت ظالمانہ تھی۔ فوج کے وہ جرنیل وکرنیل جو صہیونی کتے تھے ان کا مقابلہ نہیں کیا ۔ اپنے درس و تدریس میں لگے رہے حکم ہوگا اللہ کا فرشتوں کو کہ ان سے آغاز کرو۔

پاکستانیو! عذاب کا انتظار کرو تم بدمعاش ہو تم ظالم حکومتوں کیساتھ کھڑے ہو تم اہل بیت کے قاتلوں صحابہ کے قاتلوں تابعین کے قاتلوں کے لشکر میں ہو اسلئے سب سے پہلے لشکر مہدی تمہارا صفایا کرے گا پھر دوسروں کا نمبر آئے گا۔ کیونکہ وہ علی کا بیٹا ہوگا اور وہ انصاف قائم کرے گا جو ظلم کر لیا گیا تھا علی کے دور سے اس ظلم کیساتھ جو بھی کھڑے ہوں گے وہ ظاہر ہے پہلے ظالم تھے پکڑے جائیں گے اور جو ظلم کیساتھ آج بھی ہوں گے قیامت تک ہوں گے ان سب کا صفایا حضرت مہدی علیہ السلام پہلے کریں گے۔ تو اے لوگو! تم تو دجال کے منتظر ہو تو کیونکہ آل سعود ، آل نہیان اور اردن کا بادشاہ بھی دجال کا انتظار کر رہا ہے اور ظاہر ہے کہ تم ان کے نوکر چا کر ان کے بھکاری حرام خور ہو تو تم بھی اس کا انتظار کر رہے ہو لہٰذا دجال تم پر حکمرانی کرنے آنے والا ہے، تمہیں خوشی ہونا چاہیے کہ تمہارا جو رہبر ہے تمہارا جو قائد ہے وہ جلدی آنے والا ہے اور پھر جب مہدی آئیں گے تو تمہارا صفایا ہونا ہے تو غزوہ ہند تمہارے ہاں ہوگا اسلئے فکر کرو اور حدیثوں کی غلط تشریح نہ کرو کہ نبی پاک علیہ السلام نے جس دور میں ہند کا تذکرہ کیا تو پھر سندھ، کراچی، لاہور اور پشاور اور اس سے اوپر اور نیچے کے سارے علاقے ہند میںشمار ہوتے تھے۔ تو ظاہر ہے کہ لشکر خراسان سے چلے گا پہلے تم سے نمٹے گا کیونکہ اس کو ظالموں سے نمٹنا ہے اصلاً اور کافروں کی حکومت منظور ہوتی ہے اللہ تعالی کافروں کو موقع دیتا ہے اگر وہ ظلم نہ کرے اور مسلمان اگر ظلم کرے تو اس کی بخشش نہیں ہے۔ پھر وہ مثل کافروں کے ہوتا ہے لہٰذا اللہ نے قرآن میں فرمایا :و من یقتل ممِنا متعمِدا فجزآہ جہنم خلِدا فِیہا و غضِب اللہ علیہِ و لعنہ و اعد لہ عذابا عظِیما(النسائ: 93)جو ایک بھی مسلمان کو ظلماً قتل کرے گا ایک بھی تو وہ ہمیشہ ہمیش کیلئے جہنمی ہوگا۔ یہ قرآن اور حدیثوں میں ہے میں نے اپنی کتاب ”الامارة والقضائ” اور ”کتاب الحدود” میں جو مشکوٰة کی شرح ہے تفصیل کے ساتھ وہ صحیح حدیثیں بھی پیش کی ہیں جن میں کسی بھی ایک مسلمان کے قاتل کو مشرک و قاتل کا درجہ دیا گیا۔

تبصرہ : سید عتیق الرحمن گیلانی

مولانا سید سلمان ندوی سورہ مائدہ کی آیات کے سیاق وسباق کو دیکھ لیں۔ اللہ نے کفر کا فتویٰ علماء ومشائخ پر لگایا ہے جو دین فروش ہوں اور تھوڑے مفاد کیلئے دین کو بدل دیں۔ ظالم کا فتویٰ حکمران پر لگایا ہے جو عدل نہیں کرتا اور فاسق کا فتویٰ عوام پر لگایا ہے جو اپنا اختیار رکھتے ہیں۔

نوٹ: مولانا سید سلمان ندوی کے بیان پر نوشہ دیوار کا مکمل تبصرہ اس ماہ اگست 2025کے شمارے میں لتا حیا کے اشعار کے بعد پڑھ لیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اگست 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv