پوسٹ تلاش کریں

4:اسلامی احکام اور خواتین کے حقوق کی وضاحت

عالمی اسلامی جمہوری منشور کے اہم نکات
4:اسلامی احکام اور خواتین کے حقوق کی وضاحت
جب تک اللہ تعالیٰ کے احکام کی درست وضاحت عوام کے سامنے نہیں آئے گی یہ قوم کبھی بھی فلاح کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکے گی۔ جب اسلام نے لونڈی اور غلامی کے نظام کو حرفِ غلط کی طرح مٹانے کی بنیادیں فراہم کی ہوں۔ سورۂ النساء آیت19میں پہلے کسی بھی خاتون کو خلع کا حق دیا ہو اور پھر آیت20،21میں شوہر کو طلاق کا حق دینے کیساتھ یہ وضاحت بھی کردی ہو کہ عورت کے مالی اور اخلاقی حقوق بالکل محفوظ ہوں۔ مگر اسکے برعکس عورت سے نہ صرف خلع کاحق چھین لیا بلکہ آیت کے مفہوم کو مسخ کرنے کی کوشش بھی کی۔ خواتین کو خلع کاحق نہ دینا لونڈی بنانے بلکہ زنا بالجبر کو قانونی طور پر رائج کرنے کے مترادف ہے، طلاق شدہ اور بیوہ خواتین کو اپنی مرضی کا فیصلہ کرنے کی قرآن نے اجازت دی اور کنواری کیلئے حدیث میں ولی کی اجازت ضروری ہے مگر لڑکی کا والد لڑکی کی مرضی کے بغیر اس کی شادی کرائے تو اس کو بھی حدیث میں ناجائز قرار دیا گیا ۔جیسے چیئرمین نیب کیلئے حکومت اور اپوزیشن لیڈر کی رضامندی اور اتفاق ضروری ہے ویسے کنواری لڑکی اور باپ کی مرضی ضروری قرار دینے سے بڑا اچھا اثر مرتب ہوتاہے۔ کورٹ میرج کا فتنہ قرآن وسنت کے احکام کو درست نہ سمجھنے کا شاخسانہ ہے۔ جب قرآن وسنت کے خلاف اپنی بیٹی اور بہن وغیرہ کا نکاح اس کی مرضی کے بغیر کروایا جائے تو زنا بالجبر سے بدتر اسلئے ہے کہ یہ چند لمحات کا جبر نہیں بلکہ زندگی بھر کا جبر ہے جو لونڈی بنانے سے بھی بدتر ہے، کم نہیں۔
خواتین کے حقوق قرآن وسنت سے اُجاگر ہوں تو علامہ اقبالؒ کے وہ اشعار عوام اور خواص کو اچھی طرح سمجھ میں آئیں جو’’ ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے کہ شیطان کو آئین پیغمبرﷺ سے کیوں خوف تھا۔شوہر کو طلاق پر ایک درجہ اضافی دیا گیا ہے توحق مہر بھی بیوی کی رضامندی سے شوہر کے ذمہ ہے۔ اور فضل کی بنیادشوہر کا محافظ ہونا اور مال خرچ کرنے کی بنیاد پرہے۔ بیوی کھلائے پلائے تواس کی فضیلت ہے البتہ شوہر پھر بھی محافظت کی وجہ سے اپنی فضیلت رکھتا ہے۔ نکاح و طلاق اور خلع کے حوالہ سے قرآنی آیات ترجمہ و درست مفہوم کیساتھ دنیا کے سامنے آئیں تو ہمارا معاشرہ آئیڈل بن جائیگا ۔ خواتین جج، ڈاکٹر، پروفیسراور دیگر عہدوں پر پہنچ کر شادی اسلئے نہیں کرتیں کہ نکاح کے نام پرشوہر کی بدترین غلامی کا شکار نہیں ہونا چاہتی ہیں حالانکہ ایسا نہیں ۔ خاتون افسر اور شوہر نوکر چاکر ہو تودونوں کی اپنی اپنی حیثیت پر اثر نہیں پڑیگا۔ عورت خلع لینا چاہے تو اسکی عدت بھی تین طہروحیض کے بجائے حدیث صحیحہ میں ایک حیض ہے۔ حدیث قرآن سے متصادم نہیں۔ عورت کو حمل ہو تو اسکی عدت بچے کی پیدائش ہے جسکا دورانیہ حیض سے کم بھی ہوسکتا ہے۔حدیث میں لونڈی کی عدت دو حیض قرار دیا گیا لیکن اس حدیث کوآیت سے متصادم سمجھنے کے بجائے حنفی مسلک کا معیار قرار دیا گیا۔ قرآن و سنت میں تضادہر گزنہیں ہے۔

3: غلامی سے چھٹکاراکے ذرائع اور محرکات

عالمی اسلامی جمہوری منشور کے اہم نکات
3: غلامی سے چھٹکاراکے ذرائع اور محرکات
عبد کا لفظ بندگی کیلئے بھی ہے اور غلامی کیلئے بھی۔اسلام نے عالم انسانیت کو روحانی طور پر جھوٹے معبودوں کی غلامی سے نجات دلادی تو دوسری طرف انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر آزادی کی نعمت عطاء کردی ۔ صحابہؓ نے اپنا نصب العین بتادیا کہ لنخرج العباد من عبادۃ العبادالی رب العباد ’’ہمارا کام یہ ہے کہ بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکالیں ربّ کی غلامی کی طرف لائیں‘‘۔ رسول اللہﷺ نے اپنے غلام کو بیٹا قرار دیا۔ نبی کریم ﷺ کے صحابیؓ کا نام عبدالکعبہ تھا تو تبدیل کردیا۔ انسان تو انسان اللہ کے گھر بیت اللہ کی بھی غلامی اور عبادت جائز نہیں۔یہ حقیقت تھی کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد غلامی کی زندگی گزاررہی تھی۔ اسلام نے بتدریج ماحول بدل ڈالا۔ زمین کی مزارعت ختم کردی ۔ جس دین میں مزارعت جائز نہ ہو اس میں غلامی کا جواز کہاں رہتاہے۔ سود کو اللہ اور اسکے رسول کیساتھ اعلانِ جنگ قرار دیا، سود میں انسان کی گردن کو مالی بوجھ میں جکڑا جاتا ہے۔ مسلمانوں پر اموال وفصل میں غریبوں کیلئے عشروزکوٰۃ اور غیرمسلم رعایا پر خراج وٹیکس تھا۔ حاکموں کو رعایا کیلئے مالک نہیں خادم بنایا گیا۔ نبیﷺ نے سیدالقوم خادمھم کے الفاظ متعارف کروائے تاکہ سفر کی حالت میں کوئی اپنی امارت کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائے۔ ایک صحابیؓ نے غصہ میں آکر لکڑیاں جمع کرکے آگ لگانے کے بعد اس میں کودنے کا حکم دیا لیکن صحابہؓ نے کہا کہ ’’ہم نے کودنے کیلئے نہیں آگ سے بچنے کیلئے اسلام قبول کیا ہے‘‘۔ مسلمانوں کی مساجد، بازاروں اور عوام کے درمیان بارودی جیکٹ میں پھٹنے والوں کی رگ رگ میں خوئے غلامی نہ سمائی ہوتی تو اپنے امیر کے غلط حکم کو کبھی نہ مانتے۔جس معاشرے میں غریب کی بیٹی کیساتھ زبردستی سے اجتماعی زیادتی ہو اور اس کا مداوا نہ ہوتو یہ اس سے زیادہ قابلِ افسوس ہے کہ کوئی بے گناہ خودکش حملے کی زد میں آئے۔ شہادت تو مطلوب و مقصود مؤمن ہے، حادثاتی موت کا شکار ہونیوالے شہید کی منزل پالیں تو اس سے بڑی کیا خوش قسمتی ہے لیکن جنسی زیادتی کا شکار ہوناکوئی ایسی قربانی نہیں جس پر فخر یا صبر کیا جاسکے۔ مردوں کی غلامی سے بدتر لونڈی بنانے کا نظام تھا۔ پنجرے میں پالے ہوئے پرندوں کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو وہ بے گھر ہوکر بھوک سے بھی مرجائیں گے، انسانوں کو بھی دورِ جاہلیت میں غلامی کے بندھن سے نکالنے کی بتدریج ضرورت تھی،اسلام نے وہی کیا لیکن افسوس کہ ہم نے پھر خواتین کو لونڈی کی طرح جکڑا، مزارعت و سودی نظام کو پھر سے شروع کیا۔جس طرح آج کے دور میں سودی نظام کو اسلام کی شلوار پہنائی گئی ۔ اسی طرح سے مزارعت کو اسلام کی روح کے خلاف جواز بخشا گیا تھا۔ امام ابوحنیفہؒ ، امام شافعیؒ ، امام مالکؒ متفق تھے کہ مزارعت سود اور ناجائز ہے ، احادیث میں مزارعت کوسود و ناجائز قرار دیا گیا۔ اللہ نے فرمایا کہ ’’جو مرد کمائیں وہ مردوں کا حصہ ہے اور جو عورتیں کمائیں وہ عورتوں کا حصہ ہے‘‘۔ مزارعین خاندان کے خاندان غلام ہیں۔ قرآن و حدیث اور ائمہ مجتہدین کے بعد کونسے علماء نے اجتہاد کیا کہ ’’مزارعین سے ان کی محنت کی کمائی چھین لی جائے؟‘‘۔ اجتہاد کا دروازہ بھی بند تھا اور یہ قرآن وسنت کے مقابلے میں کوئی اجتہاد تھا یا دین میں تحریف کا ارتکاب تھا ؟۔ جیسے آج سودی نظام کو جواز پیش کرنے کا خود ساختہ حیلہ بنایا گیا ہے۔
ناجائز اختیار کی شکل میں حکمرانی، ناجائز منافع خوری کی شکل میں سرمایہ داری ، ناجائز مزارعت کی شکل میں جاگیرداری نے دنیا میں غلامی کے نت نئے ماڈل تیار کرلئے ہیں۔ خواتین کے حقوق غصب کرکے گھر کی لونڈی سے بدتر حالت پر پہنچادیا ہے۔ خواتین سے جبری زیادتی کو دنیا کا ہر شخص بہت برا سمجھتا ہے مگر اسکے عوامل اور وجوہات کو سمجھنے کیلئے تھوڑے سے معروضی حقائق کو بھی دیکھنا پڑیگا۔ جب تک اس بیماری کو جڑ سے ختم کرنے کیلئے کوئی اقدامات نہیں اٹھائیں گے تو اس سے دنیا کو نجات بھی کبھی نہیں مل سکے گی۔
جنسی میلان انسانی فطرت ہے۔ عربی میں شجرہ درخت کو کہتے ہیں، شجرۂ نسب پشت درپشت سلسلہ نسب کو کہتے ہیں۔ انسانی شجرۂ نسب حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حواء علیہا السلام تک پہنچتا ہے۔ حضرت ہابیل اور قابیل حضرت آدم ؑ کے بیٹے تھے۔ بڑا بیٹا قابیل ناخلف ، نافرمان اور سرکش تھا، اس نے ناجائز جنسی میلان کی وجہ سے چھوٹے بھائی حضرت ہابیل ؑ کو قتل کیا، کوے سے دفن کا طریقہ سیکھا اور افسوس کیا کہ میں کوے جیسا بھی نہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ کے دور میں بادشاہ مسافرکی بیوی چھین کر زیادتی کرتا تھا۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی بیوی حضرت سارہؑ کا فرمایا کہ یہ میری بہن ہے۔ بادشاہ کے حوالہ کرنے کے بعد اللہ کی بارگاہ میں عزت کی حفاظت کیلئے دعاکی۔ بت توڑنے پر جھولے کے ذریعے آگ کے الاؤ میں جانے سے بڑی آزمائش یہ تھی۔ اللہ نے عزت کی حفاظت کی اور ساتھ میں حضرت حاجرہؑ بھی تحفہ میں دی جو کسی بادشاہ کی بیٹی تھی لیکن اس کو لونڈی بنایا گیا تھا۔ جاہل بادشاہ کا دوسروں کی تذلیل کا یہ انوکھا طریقہ تھا کہ بہن، بیٹی اور ماں کی عزت بحال رکھتے تھے مگر بیوی کی عزت دری کردیتے تھے تاکہ دوسرا پھر سر اٹھانے کے قابل نہ رہے۔ سوتیلے باپ، داماد اور بہنوئی کا رشتہ عزت کا ہوتاہے لیکن بیگم کیساتھ کسی دوسرے کی نسبت انسانی غیرت کا مسئلہ ہے ، بیگم بھی سوتن بہت مشکل سے برداشت کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ حضرت سارہ ؑ کے ضرر سے بچانے کیلئے حضرت حاجرہؑ کو وادئ غیر ذی زرع میں چھوڑنا پڑا، حضرت ابراہیم ؑ کے پڑپوتے حضرت یوسفؑ کو سوتیلے بھائیوں نے ویران کنوئیں میں ڈالا۔ عزیز مصر کی بیگم نے یوسف ؑ پر ہاتھ ڈالا لیکن مالک سے خیانت کرنے کو حضرت یوسف ؑ نے اللہ کے فضل سے مسترد کردیا۔ بچہ سازش کا پردہ چاک کرگیا مگر طاقتور نے غریب الوطن یوسف ؑ کو جیل میں ڈالا، جہاں سے خواب کی تعبیر نے اقتدار کی منزل تک پہنچایا۔ بنی اسرائیل میں بہت ملوک اور انبیاء کرامؑ آئے، حضرت داؤدؑ اور حضرت سلیمان ؑ انبیاء تھے اور بادشاہ بھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کا مقابلہ کیا۔ فرعون کی آل نے بنی اسرائیل سے مظالم کی انتہاء کررکھی تھی۔ انکے بیٹوں کو ذبح کرتے تھے اور خواتین کو لونڈیاں بنانے کیلئے زندہ رکھتے تھے، یہ بنی اسرائیل پر اللہ کی طرف سے سخت ترین آزمائش تھی۔ جس سے اللہ نے نجات دی۔ حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ کو مبعوث فرمایا جن کیلئے حضرت ابراہیم ؑ نے بیت اللہ کی تعمیر کے وقت دعا فرمائی۔اللہ نے لونڈیاں بنانا قرآن میں آلِ فرعون کا وظیفہ قرار دیا تھا تو رسول اللہﷺ کی بعثت اسلئے نہیں فرمائی تھی کہ آل فرعون کا مشن پورا کرنے بنی اسرائیل کو پھر سے لونڈیاں بنانے کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ جب دنیا کی اقوام کے ذہن میں یہ بات ہو کہ مذہبی طبقے نے قبضہ کرکے ان کی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں اور بیویوں کو لونڈی بناناہے تو وہ شدت پسند وں کی پشت پناہی کرکے مسلمانوں پر ہی مسلط کرنے کی سازش کرینگے تاکہ اسلام کا نام ونشان ہی دنیا سے مٹ جائے۔ سواتی طالبان کی خبریں میڈیا کی زینت بنیں کہ انہوں نے زبردستی سے خواتین سے شادیاں کیں۔ البتہ وزیرستان کے طالبان نے یہ بڑا کارنامہ انجام دیا تھا کہ بعض خاندان میں روایتی بنیاد پر لڑکیوں کو زبردستی مرضی سے شادی نہیں کرنے دی جاتی تو انہوں نے اس غلط رسم کو توڑنے میں تھوڑاکردار ادا کیا۔ کوئی عورت کسی سے شادی پر راضی نہ ہو اور اس کو روایات کی بنیاد پر زبردستی سے مجبور کرنا لونڈی بنانے سے بھی زیادہ برا ہے۔ خلیل جبران ایک عیسائی فلاسفر اور مصلح تھے مگر ایسے لوگ رنگ ونسل اور مقامی روایات اور مذہبی رسم ورواج سے بالاتر ہوتے ہیں۔ وہ لبنان کے عرب تھے مگر پھرمغرب میں بس گئے ، وہ کہتے ہیں کہ آسمانی شادی وہی ہے جس میں میاں بیوی ایک دوسرے کیساتھ باہمی رضامندی سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوں۔ جہاں ماحول کا جبر مجبور رکھتا ہو شادی کاوہ تصور ناجائز اور غلط ہے۔ کہتے ہیں کہ ’’دین وہ تھا جو عیسیٰ ؑ اور طہ محمد ﷺ لیکر آئے تھے ، بعد والوں نے اپنی خواہشات کو دین کا نام دیدیا‘‘۔ جو بات 20ویں صدی ہجری میں ایک عیسائی اصلاح پسند کہہ رہا تھا وہ ایک مسلمان عربی عالم ابوالعلاء معریٰ نے ہزار سال پہلے کہی تھی۔ لیکن ابوالعلاء وقت کی تلخیوں سے تنگ آکر گوشہ نشین بن گئے تھے اور معاشرے سے آخری حد تک بدظن ہوکر تفردات کا بھی شکار ہوگئے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ’’اسلام نے لونڈیوں کا نظام ختم کردیا تھا لیکن عربوں نے یورپ کی سرخ وسفید عورتوں کو دیکھا تو نیت خراب ہوگئی اور پھر لونڈیاں بنانا شروع کر دیں‘‘۔ قرآن میں اللہ نے بے نکاح خواتین ، نیک غلاموں اور لونڈیوں کا نکاح کرانے کا حکم دیا : وانکحوا الایامیٰ منکم و صالحین من عبادکم وایمائکم جب لونڈیوں کی شادی کرانے کا واضح حکم ہو تو لونڈیاں بنانے کی اجازت کیسے ہوسکتی ہے؟۔ اللہ نے محرم خواتین کی فہرست کے آخر میں فرمایا کہ والمحصنٰت من النساء الا ما ملکت ایمانکم ’’اورشادی شدہ بیگمات مگر جن سے معاہدہ کرنے کے تم مالک بن جاؤ‘‘۔ جن خواتین نے مکہ سے ہجرت کرکے اپنے شوہروں کو چھوڑ کر اسلام قبول کیا تو اللہ نے فرمایا کہ ’’ ان کو واپس مت لوٹاؤ، لاھن حل لھم ولاھم یحلون لھن یہ خواتین ان شوہروں کیلئے حلال نہیں اور نہ وہ ان کیلئے حلال ہیں، ان سے باہمی رضاکیساتھ حق مہر ادا کرکے نکاح بھی کرسکتے ہو‘‘۔وہ خواتین جو ہجرت نہ کرسکیں، مشرک شوہروں کیساتھ رہیں ، ان پر حکم کا اطلاق نہ ہوتاتھا۔ فتح مکہ کے موقع پرحضرت علیؓ نے اپنی بہن حضرت اُمّ ہانیؓ کے شوہر کو قتل کرنا چاہا تووہ رسولﷺ کے پاس پناہ کیلئے پہنچ گئیں، نبیﷺنے پناہ دیدی مگر وہ شخص مکہ چھوڑ کر نجران چلاگیا اور عیسائی بن گیا۔ نبیﷺ نے ام ہانیؓ سے نکاح کیلئے فرمایا مگر آپؓ نے کہا کہ میرے بچے ہیں اسلئے شادی نہیں کرسکتی، جس پر نبیﷺ نے آپؓ کی تعریف فرمائی اور پھر آیت میںیہ حکم نازل ہوا کہ ’’ جن رشتہ دار خواتین نے اسلام قبول کرنے کے بعد ہجرت نہیں کی ، ان سے آپﷺ نکاح نہ کریں اور پھر فرمایا کہ اسکے بعد کسی سے بھی نکاح نہ کریں خواہ وہ آپ کو بھلی لگے‘‘۔

2:برابری اور مساوات کی بنیاد پرعزتوں کی حفاظت

عالمی اسلامی جمہوری منشور کے اہم نکات
2:برابری اور مساوات کی بنیاد پرعزتوں کی حفاظت
اللہ نے فرمایا کہ ’’اور اللہ کیلئے عزت ہے اور اسکے رسول ﷺکیلئے ہے اور مؤمنوں کیلئے ہے‘‘۔ آیت کا مقصد ہے کہ دنیاوی رعب ودبدبہ، اسباب اور چاپلوسی کو عزت سمجھنے والے حقیقت کی آنکھیں کھولیں۔ ایک خاتون نے رسول اللہﷺ سے مجادلہ کیا جس کا ذکر سورۂ مجادلہ میں ہے تو رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی قراردیکر توہین رسالت کا حکم اللہ نے جاری نہیں کیا جیسا کہ انگریز نے توہین عدالت کیلئے رائج کررکھاہے بلکہ اللہ نے خاتونؓ کے احتجاج کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت بخش دیا۔ جب رسول اللہﷺ نے اپنی لونڈی حضرت ام المؤمنین ماریہ قبطیہؓ سے حرمت کی قسم کھالی تو اللہ تعالیٰ نے سورۂ تحریم میں فرمایا کہ ’’ جس کو اللہ نے تمہارے لئے حلال کیا ہے، اس کواپنے اوپر کیوں حرام کررہے ہو ،اپنی ازواج کی مرضی تلاش کرنے کیلئے؟‘‘۔ نبیﷺ نے قیامت تک اس تعلیم وتربیت کو اپنے لئے انسلٹ (توہین) قرار نہیں دیا۔ بہت بڑی بد نصیبی ہے کہ ہم ایمان، علم اور تربیت کے فقدان کی وجہ سے معمولی معمولی باتوں کو توہین سمجھ کر ناراض ہوجاتے ہیں۔ خود ساختہ عزتوں کے پجاریوں کیلئے یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ نبیﷺ نے بدر ی قیدیوں پر فدیہ لینے کا فیصلہ کیا تو اللہ نے صحابہ کو ڈانٹ پلائی، پھر اُحد کی شکست کا سخت بدلہ لینے کا فیصلہ کیا تو بھی اللہ نے منع فرمایا بلکہ معاف کرنے کا حکم بھی دیا۔ رئیس المنافقین ابن ابی کا جنازہ پڑھایا تو اللہ نے منع فرمایا۔ منافقین نے دھوکہ سے70قاریوں کو شہید کیا تو نبیﷺ نے اپنے دست مبارک انکے خلاف دعا کیلئے اٹھائے، جس پر اللہ نے منع فرمادیا۔ الغرض عدل اور اعتدال کیلئے قدم قدم پر رہنمائی سے اللہ نے نبی کریم ﷺ اور صحابہؓ کواعلیٰ ترین مقام ومنزلت سے نوازا۔لیکن ہمارے ہاں لوگ اپنی خواہشات کے پجاری ہیں۔
واقعات غلط پیش کرنے سے اسلام اجنبی اور بیگانہ بن گیا۔ اسلام کی حقیقت دنیا کے سامنے آجائے تو دنیا اس طرح اسلامی حکومت کے قیام پر متفق ہوگی جیسے کوئی خاتون اپنے لئے کسی شوہر کا انتخاب کرکے اپنا حق مہر بھی معاف کردیتی ہے اور شوہر خوشی خوشی اس کو کھا بھی سکتاہے۔ جب دنیا میں اسلامی نظام کی حقیقت کا راز کھل جائیگا تو کارٹونوں کے توہین آمیز خاکوں اور سوشل میڈیا کے ذریعے سے دل کی بھڑاس نکالنے کے بجائے ساری دنیا کا ایک ایک فرد بلاتفریق رنگ ونسل اور مذہب ونظریہ نبیﷺ کی عظمت کو سلام کریگا۔ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی خبر قرآن وسنت میں ہے ۔ عالمی اسلامی خلافت کا قیام عمل میں آئے تو یہی وہ مقام محمود ہوگا جس کا وعدہ اللہ نے نبیﷺ سے کیا ہے۔ جس کی دعا ہر آذان کے بعد تسلسل کیساتھ مانگی جارہی ہے اور اس پر بڑا اجروثواب ہے۔ مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے اپنی تفسیر ’’المقام محمود‘‘ میں سورۂ قدر کے ضمن میں پنجاب، سندھ، کشمیر، بلوچستان ، فرنٹئیر اور افغانستان میں بسنے والی تمام قوموں کو اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں امامت کیلئے حقدار قراردیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ مسلک حنفی کے ذریعے قرآنی تعلیم کو ترجیحی بنیادوں پر اٹھائیں گے تو اہل تشیع بھی اس کو قبول کرلیں گے ، کیونکہ امام ابوحنیفہؒ ائمہ اہلبیت ؒ کے شاگرد تھے اور مولانا سندھیؒ نے حضرت شاہ ولی اللہؒ کی فکر کو بنیاد بنایا تھا۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ کا سب سے بڑا کارنامہ قرآن کا ترجمہ تھا۔ میرے بھائی پیرنثار احمد شاہ نے مفتی اعظم پاکستان مفتی محمودؒ کو خواب میں دیکھا تو پوچھا کہ میری لائبریری میں کونسی کتاب سب سے اچھی ہے ؟۔ مفتی محمود صاحبؒ نے قرآن اٹھاکر کہا کہ ’’یہ‘‘۔ کاش حقائق سامنے آجائیں۔
جان کے بدلے جان کی طرح عزت میں امتیاز نہیں ۔ کسی پاکدامن پرزنا کا بہتان بڑی ہتکِ عزت ہے۔ سورۂ نور میں زنا کی سزا 100 بہتان کی 80کوڑے ہیں۔ حضرت عائشہؓ پر بہتان لگا تو یہ سزا مقرر کردی۔ اسلامی انقلاب کیلئے یہ آیت کافی ہے۔ کہاں اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کا مقام اور کہاں حکمران طبقے کی عورتیں؟۔ آصف زرداری الطاف حسین اور نوازشریف سے اتحاد اپنی اور ان کی بیٹیوں کا نام لیکر کرتا ہے۔ معمولی بات پر اربوں روپے میں ہتک عزت کا دعویٰ ہوتاہے اور غریب کی عزت ٹکے کی بھی نہیں جنکے نام پر سیاست ہوتی ہے ، ان کی عزتوں کو لوٹا بھی جاتا ہے تو مجرموں کو تحفظ ملتاہے۔ اسلئے کہ طاقتور کے ذریعے سے سیاستدان نے ووٹ اور نوٹ حاصل کرنے ہوتے ہیں۔
100کوڑوں سے بے حیائی کا خاتمہ، 80کوڑوں سے بہتانوں کا تدارک ہے۔ قیمت لگے تو عزت عزت نہیں بلکہ برائے فروخت فحش اداکاروں کا فریم ورک ہے۔ غریب آدمی کیلئے 10لاکھ کیا10ہزار بھی بڑی سزا اسلئے ہے کہ یہ اس کی ماہانہ تنخواہ ہے جس سے گھر کا چولہا جلتا ہے، دن کا روزہ رکھ سکتاہے لیکن مہینے کا فاقہ اسکے بچے برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔ امیر کیلئے 10 لاکھ، 10کروڑ اور 10ارب بھی بڑی سزا نہیں ۔ جبکہ کوڑوں کی سزا سب کیلئے برابر ہے۔تعلیمی اداروں کا کام صرف تعلیم نہیں تربیت بھی ہے۔ تادیبی کاروائی کے نام پر کیڈٹ کالجوں میں سخت سے سخت سزاؤں پر پابندی لگائی جائے لیکن جب عدالت میں بڑے لیڈر معذرت اور غیر مشروط معافی مانگ لیں تو اس سے قوم کی تربیت نہ ہوگی، سخت غلطی کرنے پر مرغا بناکر چھترول کیا جائے اور عوام کی ایک جماعت کو اس پر گواہ بھی بنایا جائے جس کیلئے میڈیا بہتر پلیٹ فارم ہے تو قوم کو سیکھنے کیلئے بہت کچھ ملے گا۔ آصف زرداری نے اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دی، عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے پارلیمنٹ کے دروازے کو توڑا، پی ٹی وی پر حملہ کیا، پولیس افسر کی پٹائی لگائی اور نوازشریف نے پارلیمنٹ میں قوم کے سامنے جھوٹ بکا اور سپریم کورٹ کے ججوں نے اسلئے نا اہل قراردیا کہ بیچارے اسکی نااہلیت کا فیصلہ کرنے پر مجبور ہوئے تو بڑے لیڈروں کو قوم کے سامنے مرغا بنانے سے قیامت نہ ٹوٹے گی بلکہ قوم غلطیوں پر سزا کھانے سے بہت کچھ سیکھے گی۔ خورشید شاہ نے پارلیمنٹ میں درست کہا کہ وزیروں کو غیر حاضری پر کھڑا رکھ کر سزا دی جائے، جس کی حکومتی رکن نے تائید کرنے کے باوجود یہ جواب دیا کہ ’’ٹانگ کا درد ختم نہ ہوگا بلکہ ٹانگ درد کی عادی بن جائے گی‘‘۔کیا فوج پارلیمنٹ کو ڈسپلن سکھائے گی؟۔ غریب بیچارہ شک کی بنیاد پر تشدد کا نشانہ بنتا ہے، قید و بند کی زندگی گزارتا ہے اور لیڈری چمکانے والے جرائم پیشہ عناصر آزاد پھرتے ہیں،اس سے قوم کی تربیت نہ ہوگی،بڑوں کو جرم پرسزا دینی ہوگی۔انگریز گیا مگر اسکا نظام نہ گیا، اسلام میں اہلیت کا تصور تھا، انگریز میرٹ کا لحاظ رکھتا ہوگا مگر ہمارے ہاں رشوت اور اقرباء پروری نے میرٹ کا خاتمہ کردیا۔ مجرم کو انگریز A کلاس B کلاس Cکلاس غلامانہ ذہنیت کی وجہ سے دیتاتھا، یہی اسٹیٹس کو ہے،عمران خان انگریز کی مثال دیکر اسٹیٹس کوختم کرناچاہتاہے۔
جب بہتان لگانے پر عملی سزاؤں سے بالکل برابری اور مساوات کا تصور قائم ہوگا تو عوام کے اندر خود اعتمادی کا تصور اُجاگر ہوگا۔ غریب بھی سمجھے گا کہ معاشرے میں ہماری بھی کوئی عزت ہے۔ بڑے لوگوں کو سرِ عام سزا دی جائے تو جھوٹ اور بہتانوں کا طوفان تھم سکے گا، نام نہادسیاسی رہنماؤں نے انتہائی منافقانہ وکالت سے قوم کا بیڑہ غرق کردیاہے اور اس سے قوم کا مستقبل تاریکی کی اتھاہ گہرائیوں کی طرف جارہاہے۔ پیشہ ور غنڈوں کے ذریعے خوف وہراس اوراچھے لوگوں کو غنڈہ گردی پر لگادینا زیادہ برا ہے۔ عیسائی جمعدار پاکدامن خاتوں کی عزت کسی بڑے عالم، مفتی اور حکمران کی بیوی، بیٹی ، ماں اور بہن سے کم نہیں۔ مسلمان اس سے نکاح کرسکتاہے اور اس پر بہتان کی سزا اُم المؤمنین نبیﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ صدیقہؓپر بہتان جتنی ہے جو خلیفۂ اول ابوبکرؓ کی صاحبزادی تھیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے بہتان پر قریبی رشتہ دار حضرت مسطحؓ سے آئندہ مالی تعاون نہ کرنے کی قسم کھائی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم میں سے جو اولی الفضل یعنی مالدار ہیں، ان کیلئے مناسب نہیں کہ غریبوں سے دست کش رہنے کی قسم کھائیں۔ اپنے احسان کا سلسلہ جاری رکھیں۔
غلام احمد پرویز نے حدیث کے واقعے کا انکار کرکے اسلامی مساوات کی نفی اورانگریز کی غلامانہ بیوروکریسی کی عکاسی کی اور فرقہ وارانہ منافرت کا بیج بویا کہ’’ یہ شیعہ عجم کی سازش تھی کہ حضرت عائشہؓ پر بہتان کا واقعہ گھڑ لیا، یہ کسی عام خاتون کا واقعہ تھا۔ حضرت عائشہؓ پر بہتان لگایا جاتا تو اذیت رسولؐ کے مرتکب واجب القتل ہوتے‘‘۔سول بیورو کریسی میں موجود اکثریت نے پرویز کا فلسفہ قبول کیاکہ افسر وماتحت کی عزت برابر نہیں تو اُمّ المؤمنین حضرت عائشہؓ پر بہتان کو عام خاتون کے برابر کیسے قرار دیا جائے؟۔ ان کی میم صاحبہ غریب کی بچیوں پر ظلم وتشدد کی انتہاء کردیں اور غریب کی بچی کو آہ کرنے کی جرأت اور سسکی لینے کی اجازت بھی نہ ہو تو وہ اسلامی مساوات کا نظام علماء اور غریب غرباء کے سامنے کیسے قبول کریں گے؟۔ درباری علماء تو درباری ہوتے ہیں مگر علماء حق کو صداقت کا علم بلند کرتے ہوئے اسلامی مساوات کا نعرہ بلند کرنا ہوگا۔ پھر دیکھوگے کہ اسلامی لبادے میں منافقت کرنیوالا اسلام کی مخالفت کریگا اور جن کو ملحد وبے دین،کمیونسٹ اور سیکولر کہا جاتاہے وہی اسلامی مساوات کا جھنڈا بلند کرنے میں اسلامی تحریک کے بالکل شانہ بشانہ ہونگے۔
اسلام کی غیر فطری تشریح کی گئی ۔ بہتان لگانے والے چار سے زیادہ ہوں تب بھی ان کو سزا دی جائے گی۔ حضرت عائشہؓ پر بہتان لگانے والوں میں سر فہرست عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین تھا لیکن مشہور شاعر حضرت حسّانؓ ، مسطحؓ، حمنہؓ اور زیدؓ بن عارفہ بھی اس میں شامل تھے جن کو 80،80کوڑوں کی سزائیں دی گئیں۔ سزا میں مخلص صحابہؓ اور منافقؓ برابر تھے۔ بہتان میں عدد پورا کرنے کو ثبوت نہیں قرار دیا جاسکتا۔ سزا میں اصل بات یہ ہے کہ مجرم سے جرم سرزد ہوجائے۔ رسول اللہ ﷺ سے خاتون نے شکایت کردی کہ اس کیساتھ فلاں نے زبردستی سے زنا کیا تو رسول ﷺ نے اس کو پکڑ نے اور سنگسار کرنے کا حکم دیا۔ یہ نہیں کیا کہ اس مظلوم خاتون سے گواہ مانگے ہوں اور چار گواہ پیش نہ کرسکنے پر اُلٹا اس کو بہتان کے 80کوڑے مارنے کا حکم جاری کیا ہو۔ اسلام اور فطرت سے جاہلوں نے ’’الٹاچور کوتوال کو ڈانٹے ‘‘ کی قانون سازی کی ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ’’ دریا کے کنارے کتا بھی پیاس سے مرجائے تو میرا مواخذہ ہوگا‘‘۔ اور یہاں روز روز کسی حواء کی بیٹی جبری زیادتی سے اپنی عزت کھو بیٹھتی ہے ، شنوائی تو دور کی بات ہے ان کو بہتان کی سزا بھی نام نہاد اسلامی قانونِ شہادت کے نام پر کھانی پڑتی ہے۔ قرآن میں خواتین کیساتھ زیادتی کرنے پر قتل کی وضاحت ہے کہ اللہ کی سنت پہلے سے رہی ہے کہ فاینما ثقفوا فقتلوا تقیلا ’’جہاں بھی پائے گئے قتل کئے گئے‘‘۔ نبیﷺ نے اس پر عمل بھی کیا ۔عورت سے زبردستی کی زیادتی کوئی غیرت مند قوم برداشت نہیں کرسکتی ۔بد قسمتی سے حقائق کے برعکس نام نہاد اسلامی قوانین بنائے گئے اسلئے تو سپریم کورٹ کو شریعت کورٹ پر ترجیح دی گئی ہے۔ ججوں نے بھی موجودہ قوانین اور اصلاحات پر بالکل عدم اعتماد کا اظہار کرنا شروع کردیا ۔فللہ الحمد والشکر جل جلالہ عم نوالہ وصل وسلم علی حبیبہ
مذہبی جماعتیں دینی علوم سے جاہل ہیں، کسی کی آلۂ کار بن چکی ہیں اور طاقتور کے مقابلہ میں غریب کیلئے کھڑا ہونا اپنے مفاد کے خلاف سمجھتی ہیں اسلئے علماء حق اور عام لوگوں کو غریب کے حقوق کیلئے اسلامی مساوات کا نعرہ لگانا ہوگا۔ اس نعرے میں غیر مسلم اقلیت یا اکثریت کیخلاف کوئی تعصب نہیں، انسانی فطرت کے مطابق یہ وہ مساوات ہے جس پر پوری دنیا کے انسان بلاتفریق مذہب، رنگ، نسل اور علاقہ سب کے سب متفق ہوسکتے ہیں بلکہ دنیا بھر کے لاچار ، مظلوم اور بے بس طبقے ہی نہیں سب ہی کے دل وروح کی آواز ہے جسکی گونج پاکستان سے اُٹھ کر مشرق مغرب اور شمال جنوب کے تمام برِ اعظموں میں یکساں مقبولیت کے ساتھ سنائی دیگی اور یہی شیطان کی سازشوں کو مکڑی کے جالوں کی طرح اُڑادیگی۔حقائق سامنے لائے جائیں تو اسلامی خلافت کیلئے کوئی رکاوٹ نہ ہوگی۔
اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی اندازہے مشرق ومغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

1: جان کے بدلے جان اورناک، کان، دانت…..

عالمی اسلامی جمہوری منشور کے اہم نکات
1: جان کے بدلے جان اورناک، کان، دانت…..
اللہ نے فرمایا: یاایھا الذین امنوا کتب علیکم القصاص فی القتلیٰ،الحر بالحر والعبد بالعبد والانثیٰ بالانثیٰ ،فمن عفی لہ من اخیہ شئی فاتباع بالمعروف وادا ء الیہ باحسان، ذلک تخفیف من ربکم ورحمۃ فمن اعتدیٰ بعد ذلک فلہ عذاب الیم O و لکم فی القصاص حیاۃ ےٰأولی الاباب لعلکم تتقون O اے ایمان والو! تم پر مقتولوں کا بدلہ ہے آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام ، عورت کے بدلے عورت، پس جس کو اپنے بھائی کی طرف سے کوئی چیز معاف کردی جائے۔ تو معروف کااتباع کرنا ہے اور اس کی طرف دیت احسن طریقہ سے ادا کرنا ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے آسانی اور رحمت ہے۔ اسکے بعد جو حد سے تجاوز کرے تو اس کیلئے دردناک عذاب ہے ۔ اور تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے ،اے عقل رکھنے والو!، شاید تم تقویٰ اختیار کرلو۔( البقرہ: آیت178,9) دور جاہلیت میں طاقتور اور کمزور کے درمیان مقتول کے بدلے حد سے تجاوز تھا اسلئے آزاد، غلام اور خواتین کا بدلہ اپنی حدود میں محدود کردیا گیا۔ آزاد قبائل میں طالبان کی آمد سے پہلے امن تھا۔ اسلحہ کی بھرمار میں جھگڑا ہوتا مگر قتل سے گریز ہوتا اور وجہ قصاص کا قانون تھا۔ طاقتور کمزور کو اسلئے نہ مارسکتا تھا کہ پولیس، عدالت اور غلامی کیلئے بننے والے قوانین کے نقاب میں چھپ سکے۔ پھرطالبان نے بد امنی کی انتہاء کردی اور اب پاک فوج نے مثالی امن قائم کررکھا ہے۔
قرآن کے اندرجان میں تفریق نہیں۔ تورات کے حوالہ سے اللہ نے فرمایا کہ ’’ہم نے ان پر لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان،آنکھ کے بدلے آنکھ ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان،دانت کے بدلے دانت اور زخموں کا بدلہ قصاص (برابر) ہے۔ جو اللہ کے نازل کردہ احکام پر فیصلہ نہیں دیتے تو وہی لوگ ظالم ہیں‘‘۔(المائدہ:45)
ہمارا آئین پابند ہے کہ قرآن وسنت سے متصادم قانون نہ بنے ،قرآنی آیات کے مطابق قانون بنے۔ طاقتور اور کمزور میں تمیز کئے بغیر قاتل کو قتل کیا جائے، ناک اور کان کاٹنے والوں کے ناک کان کاٹے جائیں ، آنکھ پھوڑنے والے کی آنکھ پھوڑی جائے، دانت توڑنے والے کا دانت توڑا جائے ،ٹانگ پر گولی مارنے والے کی ٹانگ پر گولی ماری جائے، ڈنڈے سے سر توڑنے والے کا ڈنڈے سے سر توڑا جائے، پیٹ میں چھرا گھونپ دینے پر چھرا گھونپ دیا جائے تو سب بدمعاشوں کو راستے پر آنے میں دیر نہیں لگے گی۔ ناک کاٹنے پر جیل کی سزا سے جرم نہ رُکے گا۔ جیل جانیوالا قید پر فخر کریگا لیکن جب بدلے میں ناک کاٹی جائے تو مجرم چلتا پھرتا عبرت کا نشان بن جائیگا اور جرم بالکل رُک جائیگا۔
سب انسانی جان برابر ہیں۔ یہودنے یہ حکم بدل ڈالا اورغیریہود کے بدلے یہودی کے قتل کو نکال دیا، یہی جمہور مالکی، شافعی ، حنبلی نے کہا کہ مسلمان کو غیر مسلم کے بدلے میں قتل نہ کیا جائیگامگر امام ابوحنیفہؒ نے قرآن کے واضح حکم میں تحریف کو ناکام بنادیا۔ رسول اللہﷺ نے ریاستِ مدینہ میں یہود کیساتھ میثاق مدینہ کا آئین بنایا۔ تب بھی یہی قانون مساوات کی بنیاد تھا۔ طاقتور کمزور کو حیثیت نہیں دیتا لیکن ریاست کا کام ہے کہ کمزور کا بدلہ طاقتور سے لے ۔ صحابیؓ کے بیٹے نے دوسرے صحابیؓ کے بیٹے کا دانت توڑ دیا۔ صحابیؓ نے کہا کہ ’’اللہ کی قسم! میں بیٹے کے دانت کو اسکے دانت کے بدلے توڑنے نہ دونگا۔ نبیﷺ نے قرآن کے مطابق اسکے بیٹے کا دانت توڑنا تھا۔ مگر دوسرے صحابیؓ نے خود ہی معاف کرنے کا فیصلہ کیا۔ جس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ بعض لوگ اللہ کے نزدیک اتنے پسندیدہ ہوتے ہیں کہ اگر وہ قسم کھالیں تو اللہ ان کی قسم کو پورا کرلیتاہے۔(بخاری)
یہ انسانی فطرت ہے کہ آخری حد تک اپنی ذات اور اقرباء کو بچائے مگر حکومت کا فرض بنتاہے کہ وہ مساوات قائم کرے۔ صحابیؓ نے انسانی جبلت کے مطابق سزا سے مقدور بھر بچنے کی کوشش کی ۔ اس وجہ سے صحابیؓ پر طعن کرنا غلط ہے۔فتح مکہ کے موقع پر مشرک کیساتھ نکاح میں رہنے پر حضرت علیؓ نے بہن کو مجرم سمجھا جس نے مؤمن ہوکرمشرک سے لاتعلقی اور ہجرت کا فرض پورا نہ کیا مگرقتل اسکاشوہر کرناچاہا،اس وجہ سے حضرت علیؓ پر طعن کرنا غلط ہوگا۔ قصاص سے انکار کے باوجود نبیﷺ نے اس صحابیؓ کو اس قدر مقدس قرار دیا کہ اس کی ناجائز قسم کو بھی اللہ کے ہاں مقبولیت کا درجہ دیا؟۔ حالانکہ یہ تعجب کی بات نہیں!۔ دانت توڑنے سے بڑا جرم قتل ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قومی عصبیت میں غلطی سے ایک شخص کو قتل کیا ،پھر پتہ چلا کہ اپنی قوم کا فرد ہی غلط ہے یہ تو قرآن کا قصہ ہے۔ ’’آگ لینے گئے اور پیغمبری مل گئی‘‘ بلکہ قتل کرکے گئے اور پیغمبری مل گئی۔ قافلہ لینے گئے اور بدری جہاد کی فضیلت مل گئی۔ ہوسکتاہے کہ یہود کے علماء نے اسی واقعہ کی وجہ سے اللہ کے قانون کو بدل ڈالا ہو کہ یہودی کو غیر یہودی کے بدلے قتل نہیں کیا جائیگا۔ اسلامی ریاست کا فرض ہے کہ مجرم کومعصومیت کے لبادے میں معاف نہ کرے بلکہ قتل کے بدلے قتل، اعضاء کے بدلے اعضاء اور زخموں کے بدلے قصاص کا یکساں اور برابری کا قانون نافذ کردے۔
قرآن و احادیث کے واقعات کا پسِ منظر سمجھنے کی ضرورت ہے اور کسی واقعہ کے مخصوص پسِ منظر کو چھوڑ کر عمومی قوانین سے انحراف کرنا بہت بڑی گمراہی ہے۔ فرعون کو بھی مولانا طارق جمیل نے عادل کہا ، حالانکہ ہزاروں بچوں کو اقتدار کی خاطر قتل کرنیوالا عادل نہیں ہوسکتا۔ حضرت موسی ؑ سے غلطی کی بنیاد پر اس شخص کا قتل ہونا اس پسِ منظر میں انوکھی بات نہ تھی۔ اگرایک عادلانہ نظام ہوتا تو حضرت موسیٰ کو کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا۔ لواحقین دیت لیکر معاف کردیتے۔ ہزاروں بے انصافیوں کے سامنے یہ چھوٹی بات ہرگز التفات کے لائق نہ تھی مگر اللہ نے پھر بھی اس کو فروگزاشت نہیں کیا ۔فرمایاکہ ’’اے موسیٰ ڈرو مت، بیشک ہمارے مقرر ہونیوالے رسول نہیں ڈرتے مگر جس نے ظلم کیا ‘‘۔ عدل وانصاف میں جان کے بدلے جان ، اعضاء کے بدلے اعضاء اور زخموں کا بدلہ صرف اسلامی ممالک نہیں بلکہ دنیا بھر کی ضرورت ہے۔امریکہ اوریورپ میں پھر سفیدفام دہشت گردوں کا فتنہ سیاہ فام اور مسلمانوں کیخلاف اٹھ کھڑا ہے۔ درندے اور گزندے نما انسان کا تعلق جہاں سے ہو، حکمران طبقے سے ہو یا عوام سے، کسی رنگ ونسل کی بنیاد پر ہو یا مذہب و ریاست کی بنیاد پر قاتل کو قتل کی سزا دی جائے تو روئے زمین پر امن قائم ہوگا۔ کوئی پُرامن اور سلیم الفطرت انسان اللہ کے قانونِ فطرت کا انکار نہیں کرسکتا جو اللہ نے تورات کے حوالہ سے قرآن میں لکھ دیاہے۔ اچھے اچھے بھی خود کو قانون کے حوالہ نہیں کرتے مگر قیام امن کا راستہ یہی ہے۔ یہود، نصاریٰ، مسلمان اور تمام مذاہب اور لادین طبقات اس پر متفق ہوکر بہتر ین ریاست وجود میں لاسکتے ہیں۔ یہی وہ خلافت ہوگی جس سے زمین وآسمان والے دونوں کے دونوں خوش ہوں گے۔جس کا ذکر قرآن کی آیات اور احادیث میں واضح طور سے موجود ہے۔
قتل کے بدلے قتل نہ ہو بلکہ قاتل تبلیغی جماعت، دعوتِ اسلامی ، جماعت اسلامی، جہادی تنظیموں اور کسی بھی لبادے میں منہ چھپائے تو دنیا میں عدل کا نظام قائم نہیں ہوسکتا۔ حدیث کی روایت میں 100افراد کو قتل کرنیوالے کے بارے میں معافی کی بات درست اسلئے ہے کہ وہ معافی کیلئے ہرقیمت چکانے پر تیار تھا۔ اگر عدل وانصاف کا نظام ہوتا اور اقرارِ جرم پر اس کو قتل کردیا جاتا تو اس کی توبہ قبول ہونے میں فرشتوں میں جھگڑا اور اللہ کیلئے زمین کی پیمائش بدلنے کی ضرورت نہ تھی اور نہ مزید قتل کی نوبت نہ آتی۔اگرمذہبی جماعتیں بھی نہ صرف قاتلوں اور دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہوں بلکہ وہ کھلم کھلا دہشتگردوں کو ہم عقیدہ ،ہم مسلک اور ہم مشرب سمجھ کر انکو سپورٹ کرتے ہوں، ریاستی ادارے ان پر ہاتھ ڈالنے کے بجائے انکی حفاظت پر مأمور ہوں، مولانا طارق جمیل تبلیغی جماعت کے رہنما کایہ زورِ خطابت فون کی گھنٹیوں پر نشرہو کہ ’’زنا کو گناہ سمجھتے ہیں، نماز کا چھوڑ دینا زنا سے بڑا جرم ہے۔رشوت کھانے کو گناہ سمجھتے ہیں، نماز کا چھوڑدینا رشوت سے بڑا جرم ہے۔ قتل کرنے کو بڑا گناہ سمجھتے ہیں نماز کا چھوڑ دینا قتل سے بڑا جرم ہے‘‘۔ کہاوت ہے کہ ’’کتیا چوروں سے مل گئی ،پہرہ دیوے کون‘‘۔ریاست بھی معاشرے کی عکاسی کرتی ہے۔
مولانا مودودی نے لکھا کہ استطاعت کے باوجود حج نہ کرنیوالا مرتد ہے اور وجہ یہ ہے کہ حدیث ہے کہ’’ جو حج کی استطاعت رکھتا ہو اور حج نہ کرے تو اس کی مرضی ہے کہ عیسائی بن کر مرے یا یہودی بن کر‘‘۔ علماء نے کہا کہ فقہ کی کتابوں میں حج نہ کرنیوالے کو فاسق اور حج کے منکر کو کافر کہاگیا۔ مولانا مودودی ؒ نے کہا کہ فقہ کے مقابلے میں حدیث کو مانتا ہوں جب مرتد کوواجب القتل قرار دیا جائے توکئی واجب القتل ہونگے۔ حالانکہ قرآن میں متعدد بار کفر اور اسلام قبول کرنے کی تکرار پر بھی قتل کا حکم نہ دیا گیا۔ احادیث میں بڑوں کی توقیر نہ کرنے والے، چھوٹوں پر رحم نہ کھانے والے کے بارے میں بھی کہا گیا کہ وہ ہم میں سے نہیں۔ ملاوٹ کرنیوالے وغیرہ کیلئے بھی یہی الفاظ ہیں،آپس میں لڑنے پر بھی کفر کا فتویٰ ہے لیکن قرآن میں لڑنے کے باوجود نہ صرف مؤمن قرار دیا گیاہے بلکہ صلح کا بھی حکم ہے۔ فقہ میں بے نمازی کی سزا پر قتل سے لیکر زدو کوب اور قید تک مختلف سزائیں مقررہیں۔
فقہ سمجھ کا نام ہے فضول بکواس دیکھنے اور اس کا رٹا لگانے کا نہیں۔ صحابہؓ کی عظمت پر لڑنا جھگڑنا مسائل کا حل نہیں بلکہ ان اسلامی احکام کو زندہ کرنا مسائل کا حل ہے جن پر عمل کرکے صحابہ کرامؓ اسلام کی عظمت رفتہ کے تابندہ ستارے بن گئے۔ حضرت علیؓ اور حضرت عائشہؓ کا اختلاف جن غلط فہمیوں کا نتیجہ تھا اور حق وناحق کا فیصلہ بھی روشن دلائل سے ہوسکتاہے لیکن شیعہ سنی کا وہ کاروباری مذہبی طبقہ کون راستے پر لائیگا جنکے بچے تعصبات کی آگ بھڑکانے سے پل رہے ہیں۔حضرت عائشہؓ پر بہتان لگا تو مصیبت میں کس نے ساتھ دیا؟ لیکن اللہ نے وحی کے ذریعے بری کرنے کا اعلان فرمایا، حضرت عثمانؓ کی شہادت کی افواہ پر قرآن میں تحت الشجرہ بیعت الرضوان میں حضرت علیؓبھی تھے۔ آخری ایام میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ پچھتائے کہ’’ غیرجانبداری کا فیصلہ غلط تھا، مجھے حضرت علیؓ کا ساتھ دینا چاہیے تھا‘‘۔

اسلامی احکامات کی اجنبیت کو ختم کرنے کی ہمیں سخت ضرورت ہے

zina-bil-jabr-sangsar-rajam-tobah-rajeem-doodh-ibne-majah-quran-bakri-kha-gai-matami-jaloos
خلفاء راشدین حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓاور حضرت حسنؓ کا 30 سالہ دورمبارک تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے دور کو بہترین قرار دیا تھا۔ مدینہ کے سات فقہاء میں حضرت ابوبکرؓ کا پوتا اور نواسہ بھی شامل تھا۔پوتا حضرت قاسمؒ بن محمد بن حضرت ابوبکرؓ اور نواسہ عروہؒ بن زبیرؓ تھے۔پھر تبع تابعین کا دورتھا ۔ائمہ مجتہدینؒ کو ہم چار اماموں کے نام سے جانتے ہیں۔حضرت عمر فاروق اعظمؓ اور حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ کے بارے میں بھرپور طریقے سے وضاحت مسلم اُمہ کے اتحاد کیلئے سنگِ میل ہوگی۔ان حضرات کی غلط وکالت نے بیڑہ غرق کردیا۔
خانہ کعبہ سے پہلے قبلہ اول بیت المقدس تھا۔ تحویل قبلہ کی طرح بہت سے احکام بدل گئے جن پر پہلے عمل کیا گیا ۔ سخت ترین طلاق یہ تھی کہ شوہر بیوی کو ماں سے تشبیہ دیتا تھا۔ جسکے بعد حلالہ سے بھی حلال نہ ہوتی تھی۔ سورۂ مجادلہ میں اس کی اللہ نے بھرپور وضاحت کردی۔ اہل کتاب کے ہاں یہ رائج تھا کہ شادی شدہ کو زنا کرنے پر سنگسار کردیا جاتا اور کنواروں کو 100 کوڑے ، ساتھ میں ایک سال جلاوطنی کی سزا دی جاتی تھی۔ سائنس کے ذریعے دنیا کو زمین سے آسمان پر پہنچانا آسان مگر مذہبی اور دنیاوی رسوم کو ملیامیٹ کرنا بڑا مشکل کام ہے۔ قرآن میں بیوی کو بدکاری پر دیکھنے میں لُعان کاحکم ہے مگر قتل کردیا جاتا ہے۔ مذہبی احکام اپنے اصل کے اعتبار سے کچھ ہوتے مگر پھر مذہبی طبقوں کی طرف سے تحریف اور تبدیلی کا شکار ہوجاتے تھے۔ یہودنے لعان کے بجائے قتل کیلئے حکم بدل ڈلا ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہود کی کٹر مذہبی ذہنیت کا مقابلہ کچھ اس طرح سے کیا کہ ’’ زنا کے مرتکب شادی شدہ کو سنگسار کیا جانے لگا تو فرمایا کہ سب سے پہلا پتھروہ مارے جس نے خود زنا نہیں کیا ہو‘‘۔( بائبل) یہ کام حضرت عیسیٰ ؑ خود بھی کرسکتے تھے مگر مقصد اس خود ساختہ مذہبی حد سے جان چھڑانا تھا۔ان کے پاس اقتدار نہیں تھا اسلئے حکمت سے کام لیا تھا۔
رسول اللہﷺ کے سامنے ایک یہودی اپنا مقدمہ لیکر آیا کہ میراغیر شادی شدہ لڑکا دوسرے کی بیوی سے زنا کا مرتکب ہوا۔ میں نے 100بکریوں پر فیصلہ کیا۔ پھر علماء نے بتایا کہ تمہارے لڑکے کو 100کوڑے اور سال جلاوطنی کی سزا ہوگی اور اس کی بیوی کو سنگسار کیا جائیگا۔ یہود نے آیت رجم کو انگلی سے چھپایا مگر نشاندہی ہوگئی تو رسول ﷺ نے اس پر عمل کروادیا۔ ایک مسلم خاتون نے اپنے اوپر زنا کی گواہی دی، رسول ﷺ نے سالوں سال ٹالا مگر خاتون آخر پھر حاضر ہوئی کہ’’بچہ دودھ نہیں روٹی سے پل رہاہے‘‘۔ نبیﷺ نے پھرسنگساری کا حکم دیا۔ یہود ونصاریٰ رجم کے حکم پر عمل نہیں کرتے تھے، بیوی کو زنا پر ماردینے کا عام رواج تھا۔ لُعان کاحکم نازل ہوا تب بھی حضرت سعد بن عبادہؓ نے کہا کہ ’’میں قرآن کے حکم پر عمل نہیں کروں گا ، بیوی کو قتل کردوں گا ‘‘۔ حکم سے اس طرح واضح انکار یہود نے بھی حضرت موسیٰ ؑ کے سامنے کیا ہوگا۔ توراۃ میں رجم سے مراد سنگسار کرنا نہیں بلکہ لعن طعن کرنا ہی ہوگا۔ جیسے شیطان رجیم ہے کیونکہ بوڑھا 100کوڑے سے مر سکتا ہے اور دین میں قتل کرنے کی اس طرح سے اجازت ہوتی تو لُعان کرنے کا حکم نہ اترتا۔
خاتونؓ سنگسار ہوئی توحضرت عمرؓ نے مذمت کی کہ اپنی اور خاندان کی تذلیل کردی ۔نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’ اس خاتونؓ کی توبہ ایسی قبول ہے کہ اگر سب مدینہ والوں پر اسکو بانٹ دیا جائے تو سب کے گناہ معاف ہوں‘‘۔ یہ حقیقت ہے کہ مجرم خود کو قانون کے حوالہ کرکے سزا بھگت لے تو یہ بہت بڑی بات ہے۔سزا پر عمل ہوتو دوسرے اس سے عبرت بھی پکڑتے ہیں۔ پھر ایک شخصؓ نے خود پر گواہی دی اور بار بار اقرارِ جرم پر اس کو بھی سنگسار کرنے کا حکم دیا گیا۔ وہ بھاگ رہا تھا تو حضرت عمرؓ نے جانور کی بڑی ہڈی مار کر قتل کیا۔ نبیﷺ کو بتایا گیا تو نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’ بھاگ رہا تھا تو جانے دیتے‘‘۔ حضرت عمرؓکو احساس ہوا کہ غلط ہوگیا۔ پھر کسی نے چار مرتبہ اقرارِ جرم کیا تو نماز کا وقت ہوگیا، نماز کے بعدجب کسی میں ہمت نہ تھی کہ سنگسار کرنے کے حکم پر عمل کیلئے آواز اٹھاتاتو حضرت عمرؓ نے ہمت کرکے عرض کیا کہ اس شخص نے اقرار کرلیا ، اس کو سنگسار کیا جائے تو نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’اس کو جانے دو، اس نے نماز پڑھ لی اور توبہ کی ہے‘‘۔یہ چند واقعات ہیں، سورۂ نور میں زنا پر100کوڑے کی سزا واضح ہے۔ بخاری کی روایت ہے کہ صحابی سے پوچھا گیا کہ ’’ رسول ﷺ نے اسکے بعدکسی کو سنگسار کیا ہے تو اس نے جواب دیا کہ مجھے معلوم نہیں ‘‘۔ جس کا واضح مطلب یہی ہے کہ سورۂ نور میں کوڑوں کے حکم کے بعد اس پر عمل نہیں ہوا۔
یہ حکمت یاد رکھنے کے قابل ہے کہ رسول اللہﷺ نے یہودی خاتون اور مسلمان خاتون کے بعد مسلمان مرد پر بھی سنگساری کا یکساں حکم جاری فرمایا۔ غیرمسلم اور مسلم پر برابری کی سطح،اس طرح مرد اور عورت پر برابری کی سطح نے معاشرے کے چہرے سے منافقت کا کردار ختم کردیا تھا۔ ہمارے یہاں تو سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ عورت کنواری ہو تو بھی ماری جاتی ہے اور اگر مرد شادی شدہ ہو تو بھی نہیں مارا جاتاہے۔ الزام کی بنیاد پر غیر مسلم اقلیتوں کی بستیاں جلادی جاتی ہیں اور ایکدوسرے پر شرک وگستاخی اور واجب القتل کے فتوے لگاگر بھی دُم پیچھے سے دبائی جاتی ہے اور اس منافقانہ کردار کی وجہ سے لوگ معاشرے میں مذہبی طبقات سے سخت نفرت کرتے ہیں۔
سنگساری کا عمل رُک گیا مگرغیرشادی شدہ کو100کوڑے کے بعد سال کیلئے جلاوطن کرنے پر حنفی مسلک اور باقی تینوں مسلکوں میں اختلاف رہا۔ چونکہ قرآن میں اس حکم کا ذکر نہیں اسلئے حنفی مسلک میں ایک سال کی جلاوطنی شرعی حد نہیں ، اگر نبیﷺ ، خلفاء راشدینؓ سے اس پر عمل کا ثبوت ہو تب بھی یہ تعزیز ہے جو حکمران اپنی طرف سے تجویز کرتا ہے لیکن حد اللہ کی طرف سے مقرر ہوتی ہے۔حنفی مسلک روایت پرست اور تقلیدی ذہنیت کا حامل نہیں ۔ قرآن کے مقابلہ میں روایات کو ترجیح نہ دینا تقلید واجتہانہیں اور نہ ہی دین سے انحراف بلکہ اصولِ دین کا تقاضہ ہے اسلئے امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا کہ’’ کوئی حدیث صحیح ثابت ہوجائے تو وہ میرا مذہب ہے‘‘۔ شیعہ سمجھتے ہیں کہ ’’قرآن اور اہلبیت ایکدوسرے سے الگ نہیں ہوسکتے۔ حدیث‘‘۔ امامیہ کہتے ہیں کہ’’ اہلبیت سے مراد موجودہ دور میں عرصہ ہزار سال سے غائب امام مہدی ہیں‘‘۔ اسلئے ان کو اس الزام کا سامنا کرنا پڑتاہے کہ وہ اصلی قرآن کو بھی امام کیساتھ پردہ غیب میں سمجھتے ہیں۔ اسماعیلی ، بوہری اور حوثی بھی اس عقیدے کی وجہ سے امامیہ شیعہ کو گمراہ سمجھتے ہیں،وہ کہتے ہیں کہ قرآن کی طرح امام بھی غائب نہیں ہوسکتا ،جبکہ امامیہ شیعہ ان دوسرے شیعہ فرقوں کو اس طرح کافر سمجھتے ہیں جس طرح مسلمان قادیانیوں کو سمجھتے ہیں۔قائداعظم آغا خانی تھے اور دیوبندی نے جنازہ پڑھایا تھا۔
اہلحدیث حنفی کو بدترین گمراہ سمجھتے ہیں جبکہ ’’ جماعت المسلمین ‘‘ اہلحدیث کو گمراہ سمجھتے ہیں۔ دیوبند سے الگ ہونیوالے پنج پیری علماء دیوبند کو توحید میں ڈھیلا سمجھتے ہیں اور مسعود عثمانی اور کمال عثمانی والے پنج پیری کو بھی خائن سمجھتے ہیں۔ اس تفریق وانتشار کے پیچھے علم سے زیادہ جہالت کارفرماہے۔ ابن ماجہ میں ہے کہ رسولﷺ کا وصال ہوا تو بڑے آدمی کا کسی عورت کی چھاتی سے لگ کر دودھ پینے کی10آیات بکری نے کھاکر ضائع کردیں۔ حنفی اس حدیث کو قرآن میں تحریف کا ذریعہ سمجھتے ہیں اسلئے مسترد کرتے ہیں۔ اہلحدیث کو یہ حدیث اپنے مسلک کو سپورٹ کرنے کیلئے اچھی لگتی ہے ۔ان کا مسلک ہے کہ’’بڑا آدمی عورت کا دودھ پی سکتا ہے ، اسکے بعد وہ عورت سے پردہ نہ کرے۔ البتہ اس سے شادی کرسکتا ہے‘‘۔اہلحدیث کا یہ مسلک فطرت اور قرآن وسنت سے متصادم ہے مگر بدترین تقلیدی ذہن والے اہلحدیث حقائق کو نہیں سمجھتے ہیں۔
کیا حدیث سے قرآن کی تحریف لازم آتی ہو تب بھی اس کو مانا جائیگا؟۔ اگر آیات ضائع ہونے کیلئے بکری نے کام دکھایا تو پھر کیا باقی بچا؟۔ اہل تشیع کی کسی کتاب میں نہیں کہ’’ قرآن چالیس پارے کاتھا، دس پارے بکری کے کھانے سے ضائع ہوگئے‘‘۔ مگر بے تکا الزام لگادیا گیا اور اہلحدیث اور درسِ نظامی پڑھانے والے دیوبندی بریلوی خود چور نکلے کہ ’’دس آیات بکری کے کھا جانے سے ضائع ہوگئیں‘‘ ۔ عقل کے اعتبار سے کمزور ڈٹ گئے کہ ’’ہم اہلحدیث ہیں‘‘ اور یہ نہیں سوچا کہ ’’ جب اجنبی آدمی سے عورت کیلئے قرآن میں چھاتی کا ابھار چھپانا بھی حکم ہے تو عورت چھاتی سے پھر دودھ کیسے پلاسکتی ہے؟۔ لمبی لمبی داڑھیوں والوں سے کوئی بعید نہیں کہ ہم مسلک خواتین کو آمادہ کرلیں کہ ضائع شدہ آیات اور احادیث کی روایات کی سنت کو زندہ کرنے کیلئے ان کی گود میں لیٹ کر چھاتیوں سے دودھ پینا شروع کردیں۔ اگر دنیا میں اس سنت پر عمل کا آغاز ہوا تو عاشورہ محرم کے اندر شیعوں کے ماتمی جلوس کو لوگ بھول جائیں گے۔
امام ابوحنیفہؒ نے جمہور کیخلاف کھڑے ہوکر اُمت کو گمراہی پر جمع ہونے سے بچایا تھا۔ شافعی، مالکی اور حنبلی مسلک یہ ہے کہ مرد چار مرتبہ گواہی دے تب اس پر شرعی حد نافذ کی جائے گی اور عورت ایک مرتبہ بھی گواہی دے تو حد جاری کرنے کیلئے کافی ہے کیونکہ یہ مستند حدیث میں مذکور ہے۔ جبکہ امام ابوحنیفہؒ کے مسلک والے کہتے ہیں کہ ایک روایت کا ذکر مسئلہ حل کرنے کیلئے کافی نہیں، اس عورت کے واقعہ کی تفصیل موجود ہے حد ٹالنے کیلئے کتنی بار لوٹادیا گیا؟، کس قدر غلط بات ہے کہ مرد کیلئے چار مرتبہ اقرار اور عورت کیلئے ایک بار اقرار کافی ہو؟۔ حالانکہ دوسری طرف عورت کی گواہی بھی آدھی مانتے ہو؟، حد کیلئے پھر عورت کی گواہی سرے سے قابلِ قبول بھی نہیں تو عورت کا 4 مرتبہ اقرار بھی قابل قبول نہ ہونا چاہیے تھا یا اس کی طرف سے 8مرتبہ اقرار ضروری ہونا چاہیے تھا۔ اہلحدیث کی طرح اس جمہور کا بھی عقل کا پیمانہ کچھ زیادہ لائق اعتماد نہیں تھا البتہ اہلحدیث اور انکے اخلاص پر شک کی گنجائش نہیں ۔علم، شعور و آگہی کی دنیا میں وہ سب اختلافات ختم ہوسکتے ہیں جو جہالت اور تعصبات کا شاخسانہ ہیں۔آج کے اہلحدیث ہوشیار بن گئے ہیں۔
حضرت شاہ ولی اللہؒ اور ان کے پوتے شاہ اسماعیل شہیدؒ نے تقلید کا بندھن توڑنے کی کوشش کی اور دیوبند ی اکابرؒ ان کی راہ پر چلنا چاہتے تھے کہ بریلوی مکتب کے اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضاخان بریلویؒ کی طرف سے رکاوٹ ڈالی گئی۔ حسام الحرمین کے خوف سے المہند علی المفند کتاب اپنی وضاحت کیلئے لکھنا پڑگئی تھی۔ جس طرح دیوبندی، بریلوی اور اہلحدیث سب شاہ ولی اللہؒ پر اعتماد کرتے ہیں مگر سب نے ایکدوسرے سے راہیں جدا کرلی ہیں۔ ازل سے یہی کچھ ہوتا آیاہے۔
سب سے زیادہ قابل اعتماد ذریعہ قرآن پھر سنت ہے، خلافت راشدہ، امام ابوحنیفہ ؒ اور اکابرؒ کا سلسلہ بھی معتبرتھامگر عملی طورپر قرآن وسنت کا راستہ ہی مشعلِ راہ ہوسکتا ہے ۔ لاالہ الاللہ محمد رسول اللہ پڑھنے والے پہلے تمام معبودوں کی نفی پھر اللہ کی توحید اور رسول ﷺ کی رسالت کا اقرار کرتے ہیں۔مذہبی پیشواء جب قرآن وسنت کی رہنمائی کا حق ادا کریں تو علماء سے بہتر مخلوق نہیں جو انبیاء ؑ کے وراث ہیں اور اگر اپنی ذات اور اپنے بڑوں کو معبود کا درجہ دیں تو مخلوق میں بدترین ہیں۔ علماء حق اور علماء سوء کا سلسلہ ہر دور میں کوئی نہ کوئی واضح شکل اختیار کرتا رہاہے۔زکوٰۃ کے مسئلہ سے سود کو معاوضہ کے تحت جواز بخشنے کی حد تک سرکاری مرغے مفتی منیب و تقی عثمانی آج بھی موجودہیں۔
حضرت عمرؓ کے دور میں فتوحات کے دروازے کھل گئے، بڑی تعداد میں لوگ مسلمان ہوگئے۔ خوشحالی میں انسان کو جنت میں بھی نافرمانی سوجھ جاتی ہے۔ حضرت عمرؓ نے وقت کے بدلتے تیور دیکھے تو منبر پر چڑھ کر کہا کہ ’’ زنا کا کیس آیا تو سنگسار کردونگا، اگرمجھے ڈرنہ ہوتا کہ لوگ کہیں گے کہ عمر نے قرآن میں اضافہ کیاہے تو میں رجم کا حکم قرآن میں لکھ دیتا‘‘ ۔ یہ بخاری میں ہے اور بخاری قرآن کے بعد صحیح ترین کتاب ہے۔ پھر بصرہ کے گورنرمغیرہؓ ابن شعبہؓ کے خلاف 4افراد زنا کی گواہی دینے کیلئے آگئے۔ ایک نے گواہی دی تو حضرت عمرؓ کا رنگ اڑگیا۔ دوسرے نے گواہی دی تو حضرت عمرؓ بہت پریشان ہوگئے اور تیسرے کی گواہی کے بعد حضرت عمرؓ کی پریشانی انتہاء تک پہنچ گئی۔ چوتھا آیا تو حضرت عمرؓ نے اظہار کیا کہ ہوسکتاہے کہ اسکے ذریعہ اللہ اس صحابیؓ رسولؐ کو اس ذلت سے بچائے۔ جب گواہی دینے لگا تو حضرت عمرؓ نے دھاڑ کر کہا کہ ’’بتا ،تیرے پاس کیا ہے؟‘‘۔ راوی نے کہا وہ اس زور کی دھاڑ تھی کہ میں بیہوش ہونے کے قریب پہنچ گیا۔چوتھے گواہ زیاد بن ابوسفیانؓ نے کہا کہ ’’ میں نے دیکھا کہ اس عورت کے پاؤں صاحب کے کاندھے پر گدھے کے کانوں کی طرح پڑے ہوئے تھے اور اسکی چوتڑ نظر آرہی تھی‘‘۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ گواہی نامکمل ہے اور باقی تینوں کو بہتان لگانے کی پاداش میں80،80کوڑے لگادئیے۔ پھر ان کو پیشکش کردی کہ’’ اگر تم کہو کہ جھوٹ بولا تھا تو تمہاری گواہی آئندہ قبول کی جائے گی‘‘۔ ان 4گواہوں میں صرف ایک صحابیؓ حضرت ابوبکرہؓ تھے۔ وہ ڈٹ گئے کہ میں نے سچ کہا تھا، آئندہ میری گواہی قبول نہ کی جائے تومجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ 2گواہوں نے جھوٹ کا اعتراف کرلیا کہ ایسی گواہی بھاڑ میں جائے جہاں لینے کے دینے پڑیں اوریہ واقعہ فقہاء کے درمیان قانون سازی کی بنیاد بن گیا۔ بخاری میں بھی گواہوں کے ناموں کی وضاحت ہے۔ حنفی مسلک میں حضرت عمرؓ کی پیشکش غلط تھی اسلئے جھوٹی گواہی ہو توآئندہ قرآنی آیت کے مطابق کبھی بھی اس کی گواہی قبول نہ کی جائے گی جبکہ باقی تین امام کے نزدیک حضرت عمرؓ کا مؤقف درست تھا، توبہ کے بعد گواہی قبول کی جائیگی۔ واقعہ بظاہر اتنا شرمناک ہے کہ پارلیمنٹ میں زیربحث نہیں آسکتا۔
اس واقعہ اور قانون سازی پر ائمہ مجتہدینؒ کیا حضرت عمرؓ کا دفاع کرنا بھی انتہائی دشوار تھا، اسلئے علماء اسلامی قانون سازی کیلئے اس واقعہ کا ذکر نہیں کرسکتے ہیں لیکن گدھے کی طرح آنکھیں بند کرکے سڑک پر کھڑا ہونے سے رواں ٹریفک کی زد سے خود کو نہیں بچا سکتے ہیں۔ یہود کے نقش قدم پر چل کر کمثل الحمار یحمل اسفارا کی روش سے ہم کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے سنگساری کے حوالہ سے جو کچھ تعلیم وتربیت پائی تھی اسکا یہی نتیجہ ہوسکتا تھا کہ سنگسار کرنے کے بجائے ہوشیاری دکھانے والوں کو ہی سبق سکھایا جائے۔ امام شافعیؒ ، امام مالکؒ اور امام احمد بن حنبلؒ نے کہا ہوگا کہ حضرت عمرؓ پر لعن طعن غلط ہے یہ اس تعلیم وتربیت کا نتیجہ تھا جو رسولﷺ سے سیکھا تھا۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ نے حضرت عمرؓ کی طرف سے گواہوں کو اس طرح کی پیشکش کو غلط سمجھا۔مگر مسلکوں کی تقلید کرنے والوں کی بالکل ناجائز وکالت کا نتیجہ ہے کہ بعد والوں نے قانون سازی کو غلط رنگ دیدیا تھا۔پاکستان کا آئین قرآن و سنت کا پابند ہے اور قرآن کی درست وضاحت علماء کا فرض اورقانون سازی پارلیمنٹ کا کام ہے،پارلیمنٹ علماء کو بلواکر آغاز کرے۔
زنا کرنے پر سنگساری کی سزا کا حکم قرآن میں نہیں۔ اگر شادی شدہ وکنوارے مرد اور عورت کی زنا پر100کوڑے لگانے کے حکم کی ترویج اور اشاعت کی جائے تو خواتین کو غیرت کے نام پر قتل سے بچایا جاسکتاہے اور طاقتورمرد حضرات پر حد نافذ کرکے قانون کے کٹہرے میں لایا جاسکتاہے اور پھر لوگ اپنے اوپر حد نافذ کروانے کا حوصلہ بھی کرینگے۔ شیعہ ماتمی جلوس میں زنجیر زنی سے نہیں خود پر شرعی حد نافذ کرکے محرم کی 10تاریخ کو حضرت علیؓ، حضرت حسنؓ ، حضرت حسینؓ ، امام جعفر صادقؒ اور امام مہدئ غائب کی خوشنودی حاصل کرینگے۔ تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی کا طبقہ بھی اپنے گناہگار ہونے کے اعترافی قصیدے گانے کیساتھ ساتھ شرعی حد جاری کرکے ایمان کی دولت کا ثبوت دینگے۔ صحابہؓ نے شرعی حدود کے اجراء کیلئے خود کو پیش کردیا تھا۔طالبان دوسروں پر خود کش کرنے کے بجائے خود پر شرعی حد جاری کروائیں تواسلام دنیا میں پھر سے زندہ وتابندہ ہوگا۔
بیت المقدس پر قابض اسرائیلی یہودیوں کے سامنے مسلمان خود کو پیش کریں کہ توراۃ کے مطابق ہم پر سنگساری کا حکم جاری کریں تو یہود فلسطین چھوڑ کر بھاگ جائیں گے ۔ یہ بھول جائیں کہ امریکہ دہشت گردی کا خاتمہ چاہتا ہے ، پاکستان سے اسکا گلہ یہی ہوسکتا ہے کہ افغانستان کی طرح دہشت گردوں کے جتھے تم بھی پالو۔ امریکہ نے پاکستان کو دہشت گرد ختم کرنے کیلئے نہیں بلکہ پالنے کیلئے امداد فراہم کی تھی۔ حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی اس کا ثبوت ہے جو دہشت گردوں کا مدر پلانٹ تھا، بینظیر بھٹو کو اسلئے راستے سے ہٹایا گیا کہ اس نے انکشاف کیا تھا کہ دہشت گردوں کو 2سو ڈالر ماہانہ تنخواہ ملتی ہے۔ چوہدری نثار نے غیر ملکیوں کو رجسٹریشن کا پابند بنادیا اسلئے راستے سے ہٹادیا گیا۔ حامد کرزئی کو امریکہ کی پالیسی سمجھ میں آئی تو تنقید شروع کی اورپھر ہٹادیا گیا۔جنرل راحیل اور جنرل باجوہ کے کردار کے بعد امریکہ ہم سے ناراض ہے۔
حضرت عمرؓ کا کردار کسی کیلئے قابلِ تقلید یا تنقیدہے مگرآپ کی جو تعریف خالص اہل تشیع کی کتاب ’’ نہج البلاغہ‘‘ میں حضرت علیؓ نے کی، اس سے زیادہ کے سنی بھی قائل نہیں۔ یہ شکر ہے کہ اللہ کے احکام میں سب سے زیادہ سخت حضرت عمرؓ کے ہاتھ سے اللہ نے سنگساری کی سزا میں آخری کیل ٹھونک دی ۔ حضرت علیؓ کی یہ بات خلوص پر مبنی تھی کہ ’’اگر موقع ملے تو یہود، نصاریٰ اور مسلمانوں پر اپنی اپنی کتابوں کا حکم نافذ کردیں‘‘۔ ہوسکتاہے کہ مسلمانوں پر سنگسارکرنے کا نہیں اللہ کی کتاب کے مطابق 100کوڑے لگانے کا حکم جاری کرتے۔ لیکن اللہ کو یہ بھی منظور نہیں تھااسلئے کہ توراۃ میں بھی سنگسار کرنے کا غیرشرعی اور غیرفطری حکم نہ تھا ۔ جب قرآن میں وضاحت نہیں تھی تو بھی رسول ﷺ اس پر عمل سے حتی الامکان پہلو تہی برت رہے تھے اور جب قرآن میں وضاحت آگئی تو پھر اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں تفصیل سے بتایا کہ قرآن محفوظ ہے اور یہود نے توراۃ میں تحریف کی ہے۔ اگر وہ اپنی کتاب سے فیصلہ کرنے کا کہہ دیں تب بھی ان کی کتاب سے ان کو فیصلہ نہ دیں اسلئے کہ جو تمہارے پاس ہے اس کی وجہ سے اپنی کتاب سے بھی فتنہ میں پڑجاؤگے۔ اے ایمان والو! یہود ونصاریٰ کو اپنا ولی نہ بناؤ۔۔۔‘‘۔ ولی سے مراد فیصلے کا اختیاردینا ہے۔ جیسے کنواری لڑکی کا ولی اس کا باپ ہوتاہے۔ دوست بنانا مراد نہیں۔ اہل کتاب سے شادی کی اجازت ہے تو اس سے بڑھ کر کیا دوستی ہوسکتی ہے۔ مسلمان یہود ونصاریٰ کو اپنے فیصلے کا اختیار دینگے تو وہ ان پر سنگساری کا حکم نافذ کردینگے۔ مسلمان کے پاس یہود ونصاریٰ بھی آئیں گے تو قرآن کے مطابق ان کو سنگسار نہیں کیا جائیگا بلکہ کوڑے مارے جائیں گے۔ آج دنیا میں داعش خواتین پر سنگسار ی کا حکم جاری کرکے اسلام کو بدنام کررہے ہیں۔ علماء اُٹھ کر حقائق کی وضاحت کردیں۔داعش والے طالبان کی طرح علماء کی غلط تعبیر سے نادانستہ استعمال ہورہے ہیں۔
قرآن میں شادی شدہ لونڈی کیلئے نصف سزا کا حکم ہے اور نبی کریمﷺ کی ازواج کو دوگنی سزا کا حکم بتایا گیاہے۔ 100کا نصف 50اور دگنا200ہے لیکن سنگساری میں نصف اور دگنے کا کوئی تصور نہیں ۔ قرآن نے یہ وضاحت بھی کی ہے کہ’’ اللہ نے اہل کتاب کو اپنی جانوں کے قتل اور جلاوطنی کی سزا کا حکم نہیں دیا ،یہ انکا خود ساختہ حکم تھا‘‘۔ اللہ نے اس بات کو واضح کردیا کہ’’ زانی نکاح نہیں کرتا مگر زانیہ یا مشرکہ سے اور زانیہ کا نکاح نہیں کرایا جاتا مگر زانی یا مشرک سے اور مؤمنوں پریہ حرام کردیا گیا ہے‘‘ ۔ اس آیت میں واضح ہے کہ نکاح کرنے والے مردو عورت اور مشرکوں سے اللہ تعالیٰ نے نافرمانی کے باوجود ان سے زندگی کا حق چھین لینے کا حکم نہیں دیا ۔ علماء نے لکھا کہ’’ اس آیت کا حکم اس آیت سے منسوخ ہے جس میں بے نکاح خواتین، صالح غلام اور لونڈیوں کے نکاح کرانے کا حکم دیا گیاہے کیونکہ اس میں زنا کار اور اچھے سب شامل ہیں‘‘۔ حالانکہ زناکاری کے ماحول سے بچنے کیلئے ہی اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیاہے۔اور اگر مسلک کا تقاضہ ہوتا تو سورۂ بقرہ کی آیت اور حلالہ سے متعلق روایت کو منسوخ قرار دینا مناسب سمجھا جاتا۔ مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے اپنی طرف سے اسلام کو قابلِ عمل بنانے کی تجاویز پیش کی ہیں چنانچہ لکھاہے کہ ’’سنگساری کا حکم توراۃ میں تعزیر تھا ۔ ان تک اس حکم کو محدود کیا جائے جن کی ازدواجی زندگی بحال ہو، طلاق شدہ اور بیوہ اور جن مردوں کی بیوی طلاق یامرچکی ہو ان کو سنگسار نہ کیا جائے‘‘۔ مولانا مناظر احسن گیلانیؒ نے توراۃ کی آیت کو لفظی اور معنوی اعتبار سے من گھڑت قرار دیا۔ بوڑھے اور بوڑھی پر رجم کا حکم ہو تواس کی زد میں جوان کنوارے اور شادی شدہ نہیں آتے اور بوڑھے کنوارے زد میں آتے ہیں (تدوین القرآن) جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے استاذ نے ’’تدوین القرآن‘‘ پر اپنا مقدمہ بھی لکھ دیاہے۔نصاب تعلیم کی غلطیوں اور کفر کو مان کر بھی حق قبول نہ کرنازیادتی ہے۔
اگر اللہ کی حدود کو قائم کرنے والا حکمران فاسق وفاجر ، منافق اورکافر ہو تب بھی عدل کا نظام قائم ہوگا مگرکوئی بڑا پارسا، متقی و پرہیزگار اور عالم فاضل بھی حکمران ہو تو اللہ کے حدود کو قائم نہ کرنیوالا عدل وانصاف کے تقاضے پر پورا نہیں اترسکتا۔ یہ بحث چھوڑ دی جائے کہ کون خلیفہ تھا اور کون ہو، اسلام کی اصل تصویر سامنے لائی جائے توخلافت قائم ہوگی۔جس دن ہم نے قرآن وسنت کے معاشرتی احکام کو عملی جامہ پہنانا شروع کردیا تو پارلیمنٹ اور عدلیہ سے بھی قانون سازی اور قانون پر عمل درآمد کا سلسلہ شروع ہوگا۔ سورۂ بقرہ آیت230میں جس طرح حلال نہ ہونے کا ذکر ہے اس سے قبل اور بعد کی آیات میں عدت میں رجوع ، مرحلہ وار طلاقوں اور مکمل پسِ منظر کا بھی ذکرہے، سورۂ طلاق اور ابوداؤد کی روایت میں وضاحت ہے ۔ ساغرصدیقی نے سلطان باہو ؒ کے اشعار کاترجمہ کیا جس میں علم اور علماء کو بہرہ گونگا قرار دے دیا تھا۔ سید عتیق الرحمن گیلانی

نا اہل وزیراعظم نواز شریف اپنے حقیقی والد میاں شریف اور روحانی باپ جنرل ضیاء الحق کیساتھ

badrooh-general-zia-ul-haq-shair-e-mashriq-rooh-e-muhammad-sheeraza-musalman-mian-sharif-nawaz-2

نا اہل وزیراعظم نواز شریف اپنے حقیقی والد میاں شریف اور روحانی باپ جنرل ضیاء الحق کیساتھ کھڑا فریاد کررہا ہے کہ مجھے پرویز مشرف کی بدروح نے نکال دیا، شہید ضیاء الحق اپنی روح سے مدد فرما۔ جبکہ بقول اقبالؒ : اے روح محمدؐ
شیرازہ ہوا ملت مرحوم کا ابتر اب توہی بتا تیرا مسلمان کدھر جائے

جنرل ایوب خان 1958 میں وزیر خارجہ ذو الفقار علی بھٹو……

establishment-of-pakistan-zulfiqar-ali-bhutto-benazir-bhutto-ayub-khan-dictatorship-raag-alapna-2

جنرل ایوب خان 1958میں وزیر خارجہ ذو الفقار علی بھٹو، بچوں بے نظیر بھٹو، مرتضی بھٹو، شاہنواز بھٹو اور صنم بھٹو کیساتھ ۔اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کا راگ الاپنے والے نام نہاد جمہوری لیڈروں کی پرورش جمہوری ماحول میں نہ ہوئی تھی اسلئے جمہوریت کے لبادے میں ان قائدین میں ڈکٹیٹر شپ پنہاں رہی۔