پوسٹ تلاش کریں

ظہور مہدی اور امریکہ کی تباہی

اردو ترجمہ:

اہم خواب کی تمہید
میرے اللہ کے محبوبو!
آج ہمارے ساتھ ایک نہایت اہم خواب ہے،
جو ایک ایسے اہم معاملے پر روشنی ڈالتا ہے جو امام مہدی کے ظہور سے پہلے پیش آئے گا۔
یہ خواب بعنوان ہے:

امریکہ کا زوال یا خاتمہ، اور امام مہدی کا ظہور

خواب کی تفصیل
خواب دیکھنے والا بیان کرتا ہے:
میں نے دیکھا کہ میں ایک پردے دار (چھپا ہوا) گھر میں داخل ہوا۔
اس میں دو مرد موجود تھے اور ان میں سے ایک کا ایک لڑکا بھی تھا۔
ان میں سے ایک شخص نے چہرہ ڈھانپ رکھا تھا (نقاب پہنا ہوا تھا)۔
اتنے میں رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کے ہمراہ اس گھر میں داخل ہوئے۔
نبی کریم ﷺ نے ان کے ساتھ دو رکعت نماز ادا کی،
پھر ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا:
"کس نے تمہیں بتایا؟ کس نے تمہیں خبر دی کہ میں آ رہا ہوں؟”
تو وہ لڑکا بولا: "یہ بوڑھا۔”
اور اس نے اس شخص کی طرف اشارہ کیا جس نے چہرہ چھپا رکھا تھا۔
تو نبی ﷺ نے فرمایا:
"یہ بوڑھا؟ یہی امام مہدی منتظر ہیں!”
پھر نبی ﷺ نے فرمایا:
"اب صرف ایک ورق (صفحہ) باقی ہے، اور وہ ہے امریکہ کا صفحہ۔”

خواب کی تعبیر

میرے عزیزو!
یہ خواب جیسا ہے ویسا ہی ہے، یعنی اس کی تعبیر بھی ظاہر پر ہے۔
اگر یہ خواب سچا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ امام مہدی کے ظہور سے پہلے صرف امریکہ کی تباہی باقی ہے۔
ایک اضافی اشارہ بھی ہے:
وہ نقاب پوش شخص جو خواب میں ذکر ہوا وہ امام مہدی ہیں۔
وہ نقاب میں اس لیے نظر آئے کیونکہ ابھی وہ لوگوں کے لیے ظاہر نہیں ہوئے،
اور وہ اب بھی پردۂ خفا میں ہیں۔
انہیں "بوڑھا” بھی اس لیے کہا گیا کیونکہ ان کی بیعت درمیانی عمر میں کی جائے گی، اور اللہ بہتر جانتا ہے۔

امریکہ کی تباہی کی ممکنہ شکل
امریکہ کی تباہی ممکن ہے "خسف” یعنی زمین میں دھنسنے کے ذریعے ہو۔
یہ میری ذاتی رائے ہے۔
اللہ تعالیٰ کفر کے دو بڑے گروہوں کو زمین میں دھنسنے سے ہلاک کرے گا:
ایک مغرب میں،
دوسرا مشرق میں،
اور تیسرا جزیرۂ عرب میں، جو سفیانی کے لشکر کے لیے ہوگا۔
اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

امام مہدی کی عمر پر سوال اور وضاحت

کوئی شخص یہ سوال کر سکتا ہے کہ امام مہدی کی بیعت چالیس سال کی عمر میں کیوں ہوگی؟
یہ بات بظاہر غیر منطقی لگ سکتی ہے۔
لیکن یہاں "کہولا” یعنی درمیانی عمر مراد ہے، اور اس پر واضح اثر (حدیث) موجود ہے۔
جب نص موجود ہو، اور وہ بھی واضح مفہوم کے ساتھ، تو اس میں اجتہاد کی گنجائش نہیں رہتی۔

حدیثِ نبوی ﷺ سے امام مہدی کی شناخت

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمران بن حصین خزاعی نے عرض کیا:
"اے اللہ کے رسول! ہم امام مہدی کو کیسے پہچانیں گے؟”
آپ ﷺ نے فرمایا:
"وہ میرے بیٹوں میں سے ایک ہوں گے۔
وہ بنی اسرائیل کے مردوں کی طرح ہوں گے۔
ان پر دو چادریں ہوں گی۔
ان کا چہرہ ستارے کی مانند چمکدار ہوگا۔
اور ان کے دائیں گال پر ایک سیاہ تل ہوگا۔
ان کی عمر چالیس سال ہوگی۔”
(یہ روایت امام ابو عمر عثمانی ابن سعید نے اپنی سنن میں نقل کی ہے۔)

اسی طرح حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"تمہارے اور رومیوں کے درمیان چار امن معاہدے ہوں گے،
چوتھا معاہدہ ایک ہرقل خاندان کے شخص کے ذریعے ہوگا،
جو سات سال تک قائم رہے گا۔”

عبدِ قیس قبیلے کے ایک شخص، مستورد بن جیلان، نے پوچھا:
"اے اللہ کے رسول! اس وقت لوگوں کا امام کون ہوگا؟”
آپ ﷺ نے فرمایا:
"میرے بیٹوں میں سے مہدی،
چالیس سالہ ہوں گے،
ان کا چہرہ چمکتا ستارہ ہوگا،
اور ان کے دائیں رخسار پر ایک سیاہ تل ہوگا۔
ان پر دو سوتی چادریں ہوں گی،
وہ بنی اسرائیل کے مردوں کی طرح ہوں گے۔
وہ خزانے نکالیں گے،
شرک کے شہر فتح کریں گے،
اور ان کی بیعت چالیس سال کی عمر میں کی جائے گی۔
اگرچہ ان کی شکل نوجوانوں جیسی ہوگی۔”

جوانی کی شکل، درمیانی عمر کی پختگی

یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص عطا ہے کہ ان میں عمر کی پختگی اور نوجوانی کی طراوت دونوں صفات ہوں گی۔
"کہولت” کا مطلب یہاں پختگی، ثابت قدمی، اور تحمل ہے۔
نبی ﷺ کو بھی چالیس سال کی عمر میں نبوت ملی تھی،
اور آپ ﷺ نے رسالت کا بار اسی عمر میں اٹھایا۔
یہ وہ عمر ہے جو جوانی سے آگے اور بڑھاپے سے پہلے کی ہے۔
یہ ضعیفی یا کمزوری کی علامت نہیں۔

میں نے پہلے سنا تھا، اگرچہ اس کی صحت یقینی نہیں،
کہ "کہولت” کی عمر 35 سے 50 سال کے درمیان ہوتی ہے۔
یہ وہ وقت ہوتا ہے جب انسان نہ جذباتی نوجوان ہوتا ہے، نہ ہی کمزور بوڑھا،
بلکہ وہ اپنی عقل و جسمانی طاقت میں مکمل ہوتا ہے۔
ایسی عمر کا انسان زندگی کی سختیوں کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہوتا ہے،
اور اس کے پاس زندگی کا تجربہ بھی ہوتا ہے۔
جو شخص چالیس سال تک پہنچتا ہے، اس نے یقیناً بہت کچھ سیکھا ہوتا ہے۔

اختتامیہ

یہاں ہم اس ویڈیو کے اختتام پر پہنچتے ہیں۔
اگلی ویڈیو میں ہمارا ساتھ دیجئے،
جو امام مہدی اور خلافت کے نور کے بارے میں ہوگی۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاته۔

ضربِ حق کی تدبیر

یزید تا مفتی تقی عثمانی باطل حلالہ کی تصویر

مرگیا ہے لیکن ویراں ہے قبر یزید کی
ہر ظالم ہے روحانی اولاد پلید کی
فرعون ہو نمرود ہو یا آج کا مردود
اندھے کو اندھیرے میں سوجھی بعید کی
ظالم کے کسی فوج کی بڑی ہو پریڈ
اہل حق کو نہیں ضرورت تائید کی
حسین کا قافلہ ہے اہل حق کا راستہ
قبولیت ہے قسمت نبی کے حفید کی
صحابہ و اہل بیت ہیں راتوں کے ستارے
قرآن میں نبی کی مثال ہے خورشید کی
یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے
اقبال کی شاعری جھلک ہے نوید کی
فتوے ڈھینچو ڈھینچو پدو مار پٹاخے
حلالہ بدبو ہے گدھے کے لید کی
لعنت سے براستہ ماں کی زنا سودی نظام
مجال ہے کوئی کہ جرأت کریں تردید کی
کیوں گند میں پھنسی کھڑی ہے کھوتی؟
مفتی تقی کی جدہ سزا کھا گئی تقلید کی!
سورہ قلم میں ذکر ہے بد نسل زنیم کا
اللہ نے خبر لی مغیرہ کے بیٹے ولید کی
جو کبھی سہہ نہ سکے گا کوئی باطل
حق کی ضرب نے وہ تھپڑ رسید کی
سہم مفتی فرید دُم ہے دُبر عنید پر
مٹی پلید ہوئی آج ہر زر خرید کی
فتویٰ فروش کریں اب ماتم کو بہ کو
ہمیں تلاش کب ہے رجل رشید کی؟
عتیق خوشیاں مناؤ اپنی ہر کربلا پر تم
دنیا بھی ہے تمہاری عقبیٰ بھی شہید کی

 

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جولائی 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

علامہ آغا سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی کا مختصر تعارف

علامہ سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی ،گلگت بلتستان کے علاقہ شگر کے ایک گاں علی آباد چھورکاہ میں 1938 عیسوی میں پیدا ہوئے۔والد کا نام سید محمد موسوی ہے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے سے حاصل کی۔ آپ چونکہ ایک شیعہ جعفری اثنا عشری گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اسلئے پاکستان سے بنیادی اسلامی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے مزید اعلی تعلیم حاصل کرنے کیلئے 1957 عیسوی میں نجف کا رخ کیا۔وہاں حوزہ علمیہ نجف میں دینی علم حاصل کیا۔1964عیسوی میں نجف سے واپس پہنچے۔

پھر آپ نے دینی تعلیم کیلئے ایران کے شہر قم کی مشہور و معروف شیعہ درسگاہ ”حوزہ علمیہ قم” میں داخلہ لیا۔

حوزہ علمیہ میں تعلیم کے دوران آپ نے نصاب میں قرآن کو لازمی مضمون کے طور پر شامل نہ کرنے پر شکایت کی ۔ ایک تقریر کی جس سے بہت سارے حوزہ والے آپ سے خفا ہوگئے۔آپ کے استاد آیت اللہ صادقی تہرانی تھے جو خود قرآن فہمی اور قرآنی تعلیمات کو عام کرنے کے پر جوش حامی تھے۔اسکے علاوہ آپ نے آیت اللہ باقر صدر سے بھی شرف تلمذ حاصل کیا۔آپ نے آیت اللہ خمینی اور آیت اللہ خوئی کی بھی براہ راست شاگردی اختیار کی۔

عراق و ایران (نجف،قم ،مشہد)میں کل 20سال آپ علوم دین حاصل کرتے رہے۔اور آیت اللہ حکیم سے لے کر اب تک کے علما نے آپ کو اجازة نامہ دئے،لیکن آپ نے ان اجازة کو تفخر کے طور پر کبھی شو نہیں کیاہے۔

سر زمین پاکستان آنے کے بعد 1981ء میں ادارہ ”دارالثقافہ الاسلامیہ پاکستان”کی بنیاد رکھی۔جسکے تحت آپ نے مذہب شیعہ جعفری اثنا عشری سے متعلق کتب کا اردو میں ترجمہ کرنے اور شیعہ مسلک کی تبلیغ کا آغاز کیا۔

آپ نے شیعہ مسلک کی چوٹی کی کتابوں کا اردو ترجمہ کیا ۔ شیعہ مسلک کو پھیلانے میں پر عزم ہو گئے۔ پاکستان میں امام مھدی سے متعلق اور ان کی شان میں لکھی گئی کتب کو بھی عام کیا،ان کتابوں میں ”شیعیت کا آغاز کب اور کیسے”،تیجانی سماوی کی کتابوں ہو جاؤسچوں کیساتھ اور پھر میں ہدایت پا گیا۔فلسفہ امامت،مذہب اہل بیت،شب ہائے پشاور،اہل بیت آیت تطہیر کی روشنی میں،فلسفہ امامت اوردعائے ندبہ وغیرہ کا بھی اہتمام کیا۔ آپ نے قرآن فہمی کے سلسلے میں رمضان1407ہجری میں پہلا سیمینار ”یوم القرآن”منعقد کیا،تاکہ قرآنی تعلیمات کی اہمیت،قرآنی علوم کی نشر و اشاعت ہو سکے۔ سیمینار میں ملک کے علما ء و دانشور وں کو مختلف موضوعات پر قرآن کی روشنی میں اظہار خیال کی دعوت دی گئی۔یہ سیمینار مسلسل8 سال تک منعقد ہوتا رہا۔ چنانچہ رمضان 1415ہجری میں پہلی مرتبہ ملکی سطح پر مقابلہ معارف قرآن کا انعقاد کیا تاکہ کراچی شہر کی حدود سے نکل کر ملک کے دور دراز علاقوں کے لوگوں تک کو قرآنی تعلیمات کی جانب توجہ اور انکے حصول کی ترغیب دی جائے اور پورے ملک میں قرآن شناسی کی فضا پیدا ہو جائے۔

1417 رمضان کو تیسری بار معارف قرآن کا اعلان کیا،جب حصہ لینے اور ناظرین کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ 10ہزار کی تعداد میں یہ سوالات تقسیم کرنے کا اہتمام کیا۔

علامہ نے 1979 کے انقلاب اسلامی کے بعد مقام رہبری اور مقام ولایت فقیہ کو پاکستان میں روشناس کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ علامہ علی شرف الدین موسوی کا شمار اس دور کے چوٹی کے علماء اور شیعہ اثنا عشری کے مرکزی قائدین میں تھا۔ آغا صاحب کی پر جوش شخصیت ہی تھی کہ جس کی وجہ سے قائد عارف حسین کی شہادت کے بعد آپ کا نام بھی شیعہ مسلک کی قیادت کے لئے سنا جاتا رہا۔

علامہ نے نہ صرف کتب لکھیں بلکہ عزاداری کی مجلسوں میں بھی شیعیت اور اہل بیت پر مبنی خطبات دیے۔چنانچہ تحقیقات و علمی جستجو کے دوران آپ پر عزاداری میں موجود خرافات ظاہر ہو گئیں ۔ اس سلسلہ میں پہلے مشہور کتب شیعہ جو اصلاح عزاداری کے سلسلے میں تھی کا اردو ترجمہ کیا جیسے جناب علامہ طبرسی کی اللولو والمرجان اور حسین شناسی جیسی کتب شائع کیںپھر آپ نے بذات خود خرافات کیخلاف کتابیں لکھنے کا فیصلہ کیا ۔چنانچہ عزاداری کیوں، انتخاب مصائب امام حسین،قیام امام حسین کا سیاسی جائزہ وغیرہ درجنوں کتب لکھیں۔جلد ہی آپ نے پہچان لیا کہ مذہب تشیع میں بہت سی رسومات و خرافات بھی شامل ہو گئے ہیں چنانچہ آپ نے ”عقائد و رسومات شیعہ اور شیعہ اہل بیت” اور موضوعات متنوعہ لکھی۔اسکے علاوہ ان تمام رسومات اور بدعات کو رواج دینے والے اصل لوگوں کی پہچان کیلئے ”باطنیہ و اخوتھا”لکھی۔ان سب کتابوں کو لکھنے کے علاوہ قرآن فہمی کے سلسلے میں ”اٹھو قرآن کا دفاع کرو”اور اس جیسی 10کے قریب کتابیں لکھیں۔چنانچہ آغا صاحب کے بعض سوالات و نظریات اور اصلاحات کیخلاف بہت سے شیعہ علما ء مخالف ہو گئے۔کئی علما ء نے شیعہ مسلک سے خارج قرار دیا۔ آغا شرف الدین کی پاؤں میں لغزش نہ آئی اور مسلسل اسلام میں شامل کی گئی رسومات اور بدعات کے خلاف نبرد آزما رہے۔ان سب سے تنگ آکر درباری ملاؤں نے ان کے قتل کا فتوی صادر کیا،کسی نے ان کو وہابی ایجنٹ کہا تو کسی نے استعماری ایجنٹ اور کسی نے کہا کہ آغا صاحب سنی ہو گئے ہیں۔غرض آغا صاحب کے گھر کا گھیرا کیا گیا اور ان کو مسلسل 10 سال تک گھر میں محبوس رکھا۔

آغا نے 40سال شیعہ مسلک کا درس دیا۔ چنانچہ آغا صاحب نے حال ہی میں تہمتوں ،بہتانوں کے بارے میں ”محرم 2013ء ”میں کتابچہ”دارالثقافہ سے عرو الوثقیٰ” لکھا۔غرض آج آغا صاحب اپنے موقف پر قائم ہیں اور شیعہ اثنا عشری جعفری وغیرہ کی بجائے خود کو ”شیعہ علی” کہتا ہے۔آج بھی آغا صاحب چیلنج کرتے ہیں کہ اگر میرا موقف غلط ہے تو میری زندگی میں ہی دلائل سے جواب دیں نہ کہ ڈنڈے کے زور پر ان کو عقائد سے دستبردار ہونے کیلئے کہا جائے۔بلاشک و شبہ آغا صاحب ایک دلیر اور منصف مزاج شخصیت ہیں،جن کی لکھی ہوئی کتابوں کی تعداد اب 100کے قریب پہنچ گئی ہیں۔ان کی ایک ایک کتاب سے حق و صداقت کی بوآتی ہے۔آج بھی ان کا اعلان ہے کہ ”صرف قرآن و سنت ہی میرا دین ہے۔ اسلام کے سوا فرقوں سے مجھے نفرت ہے۔اللہ کی توحید اور رسول ختم نبوت اور سنت سے مجھے محبت ہے،اہل بیت کا میں تا بعدار اور رسول اللہ کے سفر و حضر کے ساتھیوں مہاجرین و انصار کو حقیقی مسلمان مانتا ہوں اور ان کو میں کافر نہیں کہہ سکتا,علی کے بعد یاران رسول ۖ میں سے سب سے افضل ابوبکر و عمر کو سمجھتا ہوں.۔شرک و بدعات اور خرافات سے مجھے نفرت اور کراہت ہے”۔

آغا صاحب نے اس سال ایک کتاب خطداحون کے نام سے لکھی ہے جس میں فرقہ خطا و قداحیہ کے باقیات کو رد کیا ہے اور اپنی اولاد سے بیزاری و لاتعلقی کا اعلان کیا کیونکہ وہ خطداحون کے عقائد رکھتے ہیں.

اپنی کتاب رشد و رشادت میں خلفائے راشدین کے سنہرے دور کا علمیی جائزہ اور ان پر اعتراضات کا مسکت جواب دیا ۔ آغا صاحب کی تالیفات و تصانیف کی فہرست میں 70کے نام درج ہیں۔یہ 2019ء کی تحریر ہے۔آغا صاحب کی 100 سے زائد تصانیف ہیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جولائی 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

آمریت کے تین نشان بھٹو، بگٹی، ٹکا خان

مفتی شامیر شہید کے والد سردار عزیز بلوچ کا انٹرویو

براق نیوز۔السلام علیکم ! بلوچستان کے دور دراز علاقہ پدراک میں لوکل سردار سے ملاقات کی خبر جس نے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا۔ وعلیکم السلام ! میرا نام عزیز احمد بزنجو ۔ میر صاحب غوث بخش بزنجواور میرا دادا بھائی ہیں۔میر حاصل خان وغیرہ ہم لوگ فرسٹ کزن ہیں۔ میری کوئی ذاتی دشمنی نہیں۔ گروپوں میں ایک کا سربراہ جاوید مینگل میرے خالہ کا لڑکا ہے اختر کے بھائی۔ ہماری اصل مخالفت کیوجہ یہ کہ وہ بولتے ہیں کہ ہم آزاد ریاست بلوچستان بنائیں گے ،ہم کہتے ہیں آپ جو خواب دیکھتے یا لوگوں کو دکھا رہے ہیں یہ آپ کو معلوم ہے کہ ایسی کوئی چیز نہیں۔ نہ بلوچستان اکیلا بن سکتا ہے بغیر پاکستان کے۔ جو اسلامی ملک ہے۔ ہم مسلمان کلمہ گو لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہنے والے سب لوگ بھائی بھائی ہیں۔ آپ کیوں منافقت پھیلا تے اوردشمنیاں پیدا کر رہے ہو ذاتی مفاد میں؟۔ کسی زمانے میں BSO کا نعرہ تھا کہ آمریت کے تین نشان بھٹو، بگٹی ٹکا خان ۔ ٹکا خان چیف آف اسٹاف ، بھٹو وزیراعظم اور یہی بگٹی گورنر تھے۔ آج بگٹی شہید تووہ کیا تھا؟۔ تو وہ ہمیں بولتے ہیں دلال ہیں۔ ہم بولتے ہیں ہم نہیں تم بیرونی ملک کے دلال ہو۔ ہم اپنے ملک کی خدمت کر رہے ہیں۔ ہم نے پاکستان کیلئے جان دی ہے تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ

جان دی دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

ہمیں صرف یہی مل رہا ہے کہ ہم سچے پاکستانی ہیں تو آج تک جب کبھی ہم سے ڈیمانڈ تنخواہ کی نہیں کی یہ بھی ہماری طرح کے مجاہد ہیں ۔ہم نے آج اپنی زمین بیچ کر جنگیں لڑی ہیں۔ کبھی 10روپیہ ،10گولیاں بھی نہیں ملی ہیں۔ گروپوں نے قبول نہیں کیا لیکن انڈیا نے مفتی شاہ میر کی شہادت کو قبول کیا ۔ مفتی شاہ میر کی شہادت کے بعد سردار عزیزنے کہا تھا ایک روپیہ بھی نہیں لیا۔ ایک پہلو تشنہ رہ گیا یا حکمت سے چھپا دیا کہ مفتی شامیر نے تربت میں ذکریوں کے خلاف منافرت پیدا کی ؟۔اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کبھی سپاہ والے JUIکیساتھ تھے۔ واللہ اعلم

 

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جولائی 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مہدی اس صفت اور اس شکل کے ساتھ نہیں آئے گا۔

مہدی کی شخصیت اچانک غیر متوقع
مہدی اس صفت اور اس شکل کے ساتھ نہیں آئے گا۔
عربی چینل ”حقائق خفیہ” کے چشم کشا انکشافات

رحمت اور وحی کے امین اللہ کے رسول محمدپر صلوة والسلام اور آپ کے آل اور اصحاب تمام کے تمام پر بھی۔

لوگوں میں کثرت سے یہ رواج پایا جاتا ہے کہ ہر کوئی مہدی کے معاملہ کو اپنے اوپر منطبق کرنا شروع کردیتا ہے۔ اور ہر گروہ یہ گمان رکھتا ہے کہ مہدی ان کے نظریات وخیالات کی تائید کیلئے آئے گا۔ یہاں پر ہم اس معاملے میں ہرچیز کی وضاحت کرنا مناسب سمجھتے ہیں۔

 

مہدی کے معاملے میں کچھ عمومی اصول یہ ہیں :

اگر تم یہ گمان کرتے ہو کہ مہدی لمبی داڑھی والا، محلاتی لباس، صدری اور رومال پوش شخصیت ہوگی تو پھر اس کا انتظار مت کرو۔ اگر تم ایسے مہدی کے منتظر ہو کہ مسلمانوں کو چھوٹی بڑی بات پر کافر قرار دے گا تو پھر اس کا نتظار ہرگز مت کرو۔ ایسا کوئی مہدی نہیں اور نہ ہی کوئی نکلے گا اور کوئی ہوگاتو پھر وہ گمراہ اور گمراہ کرنے والاہی ہوگا۔ اگر تم ایسے مہدی کے منتظر ہو جو نرم خو،مصلحت پسند،کمزور شخصیت کا حامل ہو،جو لڑنے میں سخت اقدام اٹھانے سے وہ بالکل گریز کرے گا توانتظار نہ کرو۔

اس طرح اگر تم ایسے مہدی کے منتظر ہو جو اسلامی ثقافت تک محدود ہو ۔جو کسی اور چیز کو نہ پڑھا ہو اور عالم سے بے خبر ہو ۔ ایسا شخص جس کی سوچ محدود ہو،جس کی تمام فکر یہاں فقہی شریعت تک محدود ہو ، یا صرف یہ کہ مسلمانوں کیلئے کیا مناسب اور کیا نہیںتو یہ جان لو کہ ایسا شخص مہدی نہیں ہوگا۔نہ اسکا انتظار کرو، نہ خود کو تھکاؤ اور نہ خود کو پریشانی میں رکھو۔

مہدی ایک عالمی شخصیت ہوں گے جو ساری دنیا پر حکومت کیلئے آئیں گے۔وہ دنیا کی ثقافتوں کے مطابق ہوں گے۔ یعنی انہوں نے داستانیں، ادب، شاعری پڑھی ہوگی ، فلمیں دیکھی ہوں گی،ڈرامے سنے ہوں گے، قوموں کی ثقافتوں کو سمجھا ہوگا۔ ریاضی کو سمجھا ہوگا۔بدھ مت کو بھی جانتے ہوں گے اور اعلیٰ درجہ کے مہذب ہوں گے۔ ایسا شخص ہوگا جس کا اخلاقی معیار بلند ہوگا، باوقار ہوگا اور عظیم اخلاقیات کا مالک ہوگا۔ ساتھ ساتھ اسی وقت وہ سخت گیر، جباراور اعلیٰ درجہ کی حکمت رکھنے والا ہوگا۔ ایسا سخت جان، دلیر اور جنگجو ہوگا جو اللہ کے سوا کسی سے بھی نہ ڈرے گا اور نہ خوف کھائے گا۔ وہ ماہر سیاستدان ہوگا،جو کسی کام کے نتائج کو اس کے شروع ہونے سے پہلے ہی دیکھ لے گا۔وہ چالیں چلنے والا، جنگوںمیں فریب دینے والا ، دشمن کو حیرت میں ڈالنے والااور ایسی جگہ سے وار کرنے والا ہوگا کہ دشمن کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔

 

وہ نرم دل ہوگا جیسا معصوم بچہ اور سخت دل ہوگا اپنے وقت پر

اور اس کے ساتھ جو اس کا حقدار ہوگا۔ وہ سخت دل،جبار، طاقتور،مضبوط اور شدید ہوگا ،اس کے ساتھ جو اس کا مستحق ہوگااور اس وقت جب اس کی ضرورت ہوگی۔ لہٰذا اگر تم اس قسم کے مہدی کے منتظر ہو جس کی ہم نے صفات بیان کیں ، جو لمبی داڑھی رکھتا ہواور جبہ پہنتا ہو تو ایسا شخص ہرگز بھی نہیں آئے گا۔ ایسا مہدی ان صفات کیساتھ نہیں ہوگا۔

اور عام طور اسلام مقاصد کا دین ہے، اخلاقیات کا دین ہے، نتائج کا دین ہے،نہ کہ ظاہری شکل وصورت کا۔کچھ لوگ اس پر ناراض ہوں گے تو ہوں۔ ہر وہ شخص جو اسلام کی ظاہری شکل وصورت پر زور دیتا ہے ، جو لوگوں کو دیواروں کے چھونے پر کافر کہتا ہے ،جو تسبیح نہ کرنے پر کافر کہتا ہے ، جو داڑھی نہ بڑھانے پر کافر کہتا ہے، وہ اس وقت یہودیوں کیساتھ کھڑا ہے۔ اور ان یہودیوں کے ساتھ صف بصف کھڑا ہے جو مبارک زمین پر بچوں اور عورتوں کو قتل کررہے ہیں۔ یعنی ایسا شخص جس نے مسلمانوں کو معمولی باتوں اور فروعی چیزوں پر پکڑااور نتیجے میں وہ اسلام کی بنیادی چیزوں کو چھوڑ بیٹھا۔ ایسا شخص مجموعی طورپر اسلام سے نکل گیا،نکلنے کے سب سے بڑے وسیع دروازے سے باہر نکلا۔

ہوسکتا ہے کہ کوئی ایسا شخص جو منشیات بیچتا ہو لیکن اس کے دل میں اسلام کی غیرت ہواور وہ اپنی جان ، مال ، گھر والوں اور اولاد کیساتھ اسلام کے دفاع کیلئے نکلے تو ایسا شخص سعودی عرب کے مفتی اور شیخ الازہر سے بہتر ہوگا۔ ہم نے مصر کے عالموں کو بھی دیکھا ہے، اسلام مؤقف کا دین ہے نہ کہ ظاہرکادین۔ہمارے پاس ایسے اداکار بھی ہیں جو نکلتے ہیں اور ظاہر کرتے ہیں کہ گویا انہوں نے حقیقت پالی ہے۔ گویا انہوں نے اللہ کی طرف سے کوئی سر ٹیفکیٹ لے لیا ہے کہ جسے چاہیں اسلام سے نکالیں۔اور جسے چاہیں داخل کر یں۔یہ سب فضول عقلی تفسیریں ہیں۔ تم ہرگز ایسے مہدی کو نہیں پاؤگے جو فضول عقلی تاویلیں کرتا ہو اور نہ ہی وہ اسلام کی فروعی چیزوں کی پرواہ کرے گا۔ یہ بھی ان اصولوں میں سے ہے جنہیں جاننا ہمارے لئے ضروری ہے۔ یہ آدمی (مہدی) ہرگز ایسا نہ ہوگا جو اسلام کے فروعی چیزوں کی فکر کرے اور نہ وہ یہ پرواہ کرے گا کہ تم کیا پہنتے ہو؟۔اور کس چیز کو تم اختیار کرتے ہو؟اور نہ وہ تم سے پوچھے گا کہ آج تم نے کتنی مرتبہ تسبیح کی یا کتنی نماز یں پڑھیں، وہ اسلام کے نتائج کی فکر کرے گا۔ اسلام کے ان مقاصد کے نفاذ کی جو انبیاء کی بعثت کا سبب تھیں۔ یعنی عدل وانصاف کا قیام ۔

وہ تم سے واقعی زکوٰة کی مقدار کے بارے میں سوال کرے گا ۔ زکوٰة کونکالنے اور اس کو فقراء ومساکین تک پہنچانے کیلئے قتال کرے گا۔ وہ کمزروں کے حقوق کیلئے بھی قتال کرے گا۔ وہ یہ بھی یقینی بنائے گا کہ سب برابر کے درجے پر زندگی گزاریں۔مسلمان ہوں یا غیر مسلم۔ مسلمان کمزور ہوں یا طاقتور۔ وہ (مہدی) زکوٰة نکالنے اور فقیروں کو دینے پر جنگ کرے گا۔ اور زمین میں عدل کو واپس لانے کیلئے لڑے گا۔ اور ظلم ، کفر اور نفاق کو دبانے کیلئے جہاد کرے گا۔ اور مظلوم کو آزاد کرانے اور جس کا حق چھینا گیا ہو اسے واپس دلانے کیلئے لڑے گا۔ وہ آئے گا تاکہ تم سے کہے کہ زکوٰة نکالو۔ وہ زکوٰة اس طرح وصول کرے گا جیسے رسول اللہ ۖ نے وصول کی تھی۔ وہ زکوٰة مالداروں سے وصول کرے گا ،غریبوں کو دے گا۔ وہ ہر گز برداشت نہیں کرے گا کہ کوئی زیادہ مالدار ہو۔ جبکہ کوئی غریب مسلمان ملکوں میں بھوک سے نہ مرے گا۔ یہ مکمل اور ہمہ گیر عدل ہوگا۔ پس مہدی ایسا آدمی نہیں ہوگا جو صرف ظاہری دین کی بات کرے اور نہ وہ فروعی مسائل، شکل وصورت یا وضع قطع والا شخص ہوگا۔ بلکہ وہ مقاصد کا ، حقیقتوں کا اور نتائج کا شخص ہوگا۔وہ اس بات کی پرواہ نہ کرے گا کہ تم کیا پہنتے ہو، کیا کھاتے ہو، یا کیسے چلتے ہو۔ یہ چیزیں اس کی عقل میں معمولی اور حقیر ہوں گی۔اسے اس بات کی فکر ہوگی کہ تم کیسا برتاؤ کرتے ہو، کیسے بولتے ہو،اور لوگوں کے ساتھ کیسے زندگی گزارتے ہو۔ اور کیسے حق کیساتھ کھڑے ہواور باطل سے لڑتے ہو۔اور کیسے مظلوم کی مدد کرتے ہو۔اور کمزور کا حق چھین کر لاتے ہو۔ وہ ان سب باتوں کی پرواہ کرے گا مگر تمہاری ظاہری شکل اور صورت کی پرواہ ہر گز نہیں کرے گا۔ اور نہ تمہاری داڑھی کی لمبائی کی اور نہ تمہارے رنگ کی۔ اور نہ اس بات کی کہ آج تم نے کتنی تسبیحات کیں۔ اور نہ یہ کہ تم نے کتنی بار قرآن پڑھا۔ یہ سب تمہارے اور تمہارے رب کے درمیان کے معاملات ہیں۔لیکن اس بات کی پرواہ ہوگی کہ تمہار ا زمین پر برتاؤ کیا ہے اور تم کیسے حق کے مدد گار اورباطل کے دشمن بنتے ہو۔

 

مہدی اپنی صف میں کسی منافق کو قبول نہیں کرے گا

اور نہ کسی بزدل کو جو زندگی چاہتا ہو۔اور اللہ کی راہ میں لڑنے سے ڈرتا ہو۔ اور نہ کسی لالچی کو جو دنیا اور خواہشات کا پیچھا کرتا ہو۔ اور نہ دھوکے باز کو جو لوگوں کو فریب دے اور ان سے جھوٹ بولے۔مہدی حق کی حکومت ان لوگوں کے ذریعے قائم کرے گا جو اس جیسے ہوں گے۔ایسے لوگ جو سچے، بہادر، زاہد ، عبادت گزار اور مجاہد ہوں گے۔ جو صرف اللہ سے ڈریں گے اور کسی سے نہیں۔ جو نہ شہرت چاہیںگے ، حکومت اور نہ مال۔ بلکہ صرف اللہ کی رضا، اس کے دین کا قیام اور اس کے بندوں کی مدد چاہتے ہوں گے ،ان کی تعداد کم ہوگی مگر مقام بڑا ہوگا۔

 

مہدی کی حکومت کثرت اور زیادہ تعداد سے نہ ہوگی

بلکہ وہ سچائی،تقویٰ ، ایمان اور نیک عمل سے ہوگی۔ وہ ان صفات سے اسے قائم کرے گا ،پس جو اس کے ساتھ ہونا چاہے وہ اپنی اصلاح کرے۔اور اپنے رب کی طرف توبہ کرے۔اللہ کے ساتھ سچ بولے اور اس کی راہ میں جہاد کرے۔ورنہ اپنے گھر میں بیٹھا رہے کیونکہ مہدی کمزور عزم اور کمزور ارادوں والوں کو نہیں چاہتا۔وہ ایسے شخص کو نہیں چاہتا جو اپنے سائے سے ڈرے اور بادل کے گرج سے بھاگے۔ وہ ایسے شخص کو نہیں چاہتا جو اپنے دین کو دنیا کے بدلے بیچ دے اور اپنے مفادا ت کو اسلام کے مفادات پر مقدم رکھے۔وہ ایسے شخص کو نہیں چاہتا جو لوگوں کو دکھانے کیلئے پرہیزگاری اور ایمان کا مظاہرہ کرے حالانکہ وہ ان دونوں سے خالی ہو۔ بیشک وہ پاکیزہ دل ،صاف نفس اور باشعور عقلیں چاہتا ہے۔ تاکہ ان کے ذریعے ایک نئی امت بنائے جو ہدایت کا نور اٹھائے اور زمین میں اسلام کا عدل پھیلائے۔اور جو یہ گمان کرے کہ مہدی حق کو کاہلی، سستی اور محض آرزوؤں سے قائم کرے گا تو وہ یقینا بہت دور کی گمراہی میں پڑگیا ہے۔ کیونکہ راستہ قربانی، جہاد، صبر اور ثابت قدمی سے بھراہوا ہے ۔اور اس تک صرف وہی پہنچے گا جو اللہ کیساتھ سچا ہو اور اللہ اسے سچا ثابت کرے۔

 

پس تیار ہوجاؤ،اے ایمان والو! بیشک وعدہ قریب ہے

گھڑی آنے والی ہے اور مہدی ظاہر ہونے والا ہے۔ اور خوش نصیب وہ ہوگا جو شروع سے ہی اسکے ساتھ ہوگا اور بدبخت وہ ہے جو اس سے پیچھے رہ گیا ،یا اس کے بارے میں شک میں پڑگیا ، یااس سے دشمنی کی۔ کیونکہ اللہ کے حکم سے بھاگنے کی کوئی جگہ نہیں اور نہ ہی کوئی پناہ مگر اس کی طرف۔

اور جس کے دل میں بیماری ہے تو اس کی بیماری بڑھ جائے گی۔اور جس کا دل ایمان کے نور سے روشن ہے وہ حق کو واضح دیکھے گا۔اور نجات کے راستے کی پیروی کرے گا۔اور اسے کوئی نقصان نہیں دے گا جو اس کی مخالفت کرے یا دشمنی رکھے۔ پس مہدی کے خاص لوگ اللہ کے مخلص اولیاء ہوں گے جنہوں نے اپنی جانیں اللہ کے ہاتھ بیچ دی ہیں، اور دنیا کے بدلے آخرت خرید لی ہے اور اللہ کی رضا کو ہر چیز پر ترجیح دی ہے۔ یہی لوگ مہدی کے لشکر، اس کے مددگار اور اس کے خاص ساتھی ہوں گے۔ جن کے ذریعے اللہ دین کو قائم کرے گا۔ ان کے ذریعے عدل پھیلائے گا۔اور ان کے ذریعے حق کو ظاہر کرے گا۔ اور اللہ ان کے ذریعے دشمنوں کو ذلیل کرے گااور کافروں اور منافقوں کو پست کرے گا۔ اللہ ان کے ذریعے دین کو تازہ اور زندہ کرے گا جیسا کہ اس نے اس کی ابتداء سیدنا محمدۖ کے ہاتھوں کی تھی، تو وہ زمین کو انصاف وعدل سے بھر دے گاجیسا کہ وہ پہلے ظلم و جور سے بھری ہوئی تھی۔ اور اللہ ان کے ذریعے محمدی پرچم کو بلند کرے گااور نبوت کے طرز پر خلافت راشدہ دوبارہ قائم کرے گا۔اور ان کے ذریعے دین کو تمام ادیان پر غالب کردے گا۔ خواہ کافر اس کو ناپسند کریں۔پس یہی مہدی اور اسکے انصار کی وہ صورت ہے جس کی خبر رسول اللہۖ نے دید ی ہے۔

تو جو اس فہم کے موافق ہے وہ اللہ کی طرف سے بصیرت اور نور پر ہے۔ اور جو اس کا انکار کرے یا تکبر کرے تو وہ خیر سے محروم ہوا اور دور کی گمراہی میں جاپڑا ۔ اور جو یہ گمان کرے کہ مہدی آئے گا تاکہ اس کے مذہب کو قائم کرے یا اسکے فرقے کی نصرت کرے یا اس کے شیخ کو مقدس بنائے تو وہ وہم میں پڑا اور خطا کی اور دور کی گمراہی میں جاپڑا ۔

پس مہدی کا کوئی محدود مذہب ہوگا ، نہ کوئی مخصوص مسلک ، نہ مخصوص مشرب، نہ مخصوص طریقہ اور نہ مخصوص جماعت۔ بلکہ وہ کتاب وسنت پر ہوگا۔اور اس طریقے پر ہوگا جس طریقے پر سلف صالحین تھے۔ بغیر کسی فرقہ پرستی ، مقلدانہ تعصب اور کسی خواہش کی پیروی کے۔ وہ حق کو جہاں پائے گا لے لے گااور باطل کو جہاں دیکھے گا رد کردے گا اور دین خدا کے معاملے میں کسی کی رعایت نہ کرے گا۔خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ پس وہ بصیرت، عدل اور حق پر ہوگا ، نبوی طریقہ سیرت محمدی پر ہوگا۔

اور جو شخص ایسا مہدی چاہتا ہے جو اس کی خواہشات کے مطابق ہو ، اس کی امیدوں کی تصدیق کرے اور اس کے دیکھے ہوئے کو درست سمجھے تو اس کو چاہیے کہ اپنی ذات کا جائزہ لے، اس سے پہلے کہ حقیقت اس کو صدمہ دے کیونکہ مہدی ان تمام تصورات کے خلاف آئے گا جو لوگ اپنے ذہنوں میں بنائے بیٹھے ہیںاور وہ ان سب وہموں ، ظاہر پرستیوں اور رسم ورواج کو ڈھا دے گا جو لوگوں نے تعمیر کررکھا ہے۔ وہ اللہ کے دین کو اس طرح قائم کرے گا جیسے وہ نازل ہوا تھا۔پاک وصاف ، بغیر کسی زیبائش کے ، بغیر کسی تحریف اور بغیر کسی تبدیلی کے۔

اور اسی وجہ سے اسکے سب سے بڑے دشمن وہ لوگ ہوں گے جوآج اس کی نصرت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اور اس کے ظہور کے وقت وہی لوگ سب سے زیادہ دشمن ہوں گے۔ کیونکہ وہ ان کے مفادات کو مسمار کرے گا۔ان کے باطل مذاہب کو بگاڑ دے گا اور لوگوں کو ان کی خواہشات کے اندھیروں سے نکال کر حق کے نور کی طرف لے جائے گا۔

 

اور وہ لوگوں کو قرآن کے میزان کی طرف واپس بلائے گا

نہ کہ فقہائ، ائمہ ، مذاہب،رسم ورواج اور عادتوں کے میزان کی طرف۔ اس کے نزدیک میزان صرف اللہ کی کتاب اور اسکے نبی ۖ کی سنت ہوگی۔ نہ کہ وہ جو لوگوں نے بعد میں بنایا ۔اور وہ حق کو قائم کرے گا اور باطل کو گرادے گا۔ فاسد فکر کو مسمار کرے گا اور اس مقدس جھوٹ کو باطل کرے گا جس کی لوگ عبادت کررہے تھے اور ان کو اس کا شعور تک نہیں تھا۔

کیونکہ مہدی حق کے معاملے میں کسی کی خوشامد نہیں کرے گا۔اللہ کے معاملہ میں کسی کا لحاظ نہیں کرے گا۔اور دین کے بدلے میں کسی کو خوش نہیں کرے گا۔اور مہدی ایسا شخص ہوگا جو اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرے گا۔ کسی بڑے بوڑھے کی پرواہ کرے گا اور نہ کسی جلیل القدر عالم کی رعایت کرے گا۔نہ کسی طاقتور امیر کی پرواہ کرے گا ۔ جب باطل اسکے راستے میں آئے گا تو وہ اسے کچل ڈالے گا۔جڑسے ختم کردے گا ،اس کی پرواہ نہیں کرے گا کہ کون ناراض ہوتا ہے اور کون راضی۔

اور بہت کچھ بدلے گا جس کے لوگ عادی ہوچکے ہیں اور جو انہوں نے نسل درنسل وراثت میں لیا ہے۔اور وہ وہی چیز برپا کرے گا جو اللہ کو پسند ہے۔اور وہی چیز قائم کرے گا جو اللہ نے چاہی۔نہ کہ جو لوگوں نے چاہی جو انہیں آبا واجداد سے وراثت میں ملی ۔ پس وہ جھوٹے فکری ڈھانچے کو گرا دے گا، باطل بنیادوں کو مٹادے گا۔ اور ہر اس چیز کو باطل قرار دے گا جو قرآن وسنت اور اس دین عظیم کے خلاف ہو۔لہٰذا کوئی یہ گمان نہ کرے کہ کسی خاص مکتب فکر کو قائم کرنے آئے گایا کسی مدرسے کی تائید کرے گا۔یا کسی گروہ کو دوسرے گروہ پر ترجیح دے گا۔ یہ سب اس کے ہاتھوں ختم ہوجائے گا۔یہ ساری انسانی بنیادیں اس کے دور میں گر پڑیں گی اور وہ ایسا دین تعمیر کرے گا جو خالص اور پاک ہوگا جیسا کہ محمدۖ کے دل پر نازل ہوا تھااور وہ قرآن کو ہی حکم ، حاکم اورلوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے والا بنائے گا۔ فقہ کی کتابیں لپیٹ دی جائیں گی اور علماء اور ائمہ کی باتیں نظر انداز کردی جائیں گی۔سوائے اس کے جو قرآن وسنت کے موافق ہو۔تو دین نیا اور خالص ہوجائے گا۔ اس میں نہ کوئی انسانی واہمہ ہوگا ، نہ کمزوروں کی تفسیریں،نہ عاجز لوگوں کی اجتہادی کوششیں۔ اور مہدی کو قلب کی فتوحات ، روح کے اسرار ، معانی کی معرفتیں حاصل ہوں گی۔اس کے پاس لدنی علم ہوگا جو اس نے کسی سے وراثت میں نہیں لیا ہوگا ، نہ کسی شیخ سے سیکھا ہوگا،نہ کسی کتاب سے پڑھا ہوگا۔بلکہ اللہ کے دوازے سے اس پر براہِ رست کھلا ہوگا۔

 

پس وہ اللہ کے نور سے دیکھے گا، اللہ کے نور سے سنے گا

اللہ کے نور سے سمجھے گااور حق کیساتھ ایسے کلام کرے گا جیسے کہ وہ اللہ کے نزدیک ہے ۔ نہ کہ جیسے لوگ اپنے گمانوں اور خیالوں میں رکھتے ہیں۔ پس وہ لوگوں کو دین کی حقیقتوں کی بشارت دے گا، سنت کی نشانیاں ظاہر کرے گا ، ہر بدعت کو باطل کرے گا۔اور قرآن کے چہرے سے غلط تفسیر اور فاسد تاویل کے پردے ہٹادے گا۔ اور وہ مجدد دین میں سب سے عظیم اور مجدّدین کا خاتمہ ہوگااور جو اس کے بعد آئیں گے وہ اسکے راستے اور نور پر ہوں گے۔ نہ کہ کسی مستقل اجتہاد پر ، پس وہ اصل ہوگا اور باقی سب اس کی شاخیں ہوں گی۔اور وہ قرآن کی تاویل پر قتال کرے گا جیسے رسول اللہ ۖ نے اس کی تنزیل پر قتال کیا تھا۔ اور وہ مردہ سنتوں کو زندہ کرے گا اور زندہ بدعتوں کو مٹادے گا۔ اسکے سب سے بڑے دشمن علماء سوئ، ریا کار فقہائ، جاہل صوفیاء اور ظالم امراء ہونگے ، یہی تو وہ لوگ ہوں گے جو اس سے لڑیں گے۔اس کو جھٹلائیں گے اور اس پر جھوٹ باندھیں گے۔جیسے پچھلی امتوں نے اپنے انبیاء کے ساتھ کیا تھا۔

اورنہ اس کے پاس سند ہوگی ، نہ کسی شیخ کی اجازت
نہ کسی مدرسے کی تصدیق، نہ کسی سلطان کا منصب بلکہ وہ صرف اللہ کا بندہ ہوگا ، قرآن کا مدد گار، سنت کا حامل اور دین کا مجدداور وہ حکومت اور طاقت سے دُور ہوگا ،دنیا اور اسکی زینت سے کنارہ کش، اسکے مال اور مرتبے سے زاہد، اسے کسی تعریف کرنے والے کی تعریف کی پرواہ ہوگی ،نہ مذمت کرنے والے کی مذمت کا غم ہوگا، نہ شہرت کی طلب ، نہ اتباع جمع کرنے کی خواہش بلکہ وہ اپنے ملک میں اجنبی کی طرح ہوگا، اپنی قوم میں غیر کی طرح،ابتداء میں اسے کوئی نہ پہچانے گا مگر اولیاء اورعارفین۔

پھر اللہ اسے مخلوق پر ظاہر کرے گا، اس کاراز عالمین پر آشکار کرے گا
اللہ اس کی زبردست نصرت فرمائے گا،اس کیلئے زمین میں کلمہ علیا بنائے گا،اسکے ذریعے جابروں کی گردنیں جھکائے گا،کافروں منافقوں کو ذلیل کرے گا،اسلام کی عظمت اور دین کی عزت کو واپس لوٹائے گا۔ اور زمین میں اس کا سب سے بڑا مقام ہو گا جیسا انبیاء کا ہوا کرتا تھا۔اور وہ اولیاء کا امیر ہوگا ، اقطاب کا قطب ،نبوت کے اسرار کا وارث،مجددین کا خاتم،اسکے بعد کوئی بھی اس طرح کی تجدد نہ کرے گا بلکہ لوگ اسکے اثر اور طریقے پر ہوں گے،اس کی اقتداء کریں گے اور اسکے نور پر چلیں گے اور اس کی روحانی فتح بادشاہوںاور سلطانوں سے عظیم ہوگی۔……الخ

 


قناة السرالاعظم (ترجمہ) مہدی منتظر : پوشیدگی کا مرحلہ

 

لیکن دیکھو اے مہدی!

تم یہاں ہو، ابھی بھی سانس لے رہے ہو! ابھی بھی لڑ رہے ہو!۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ کے پاس تمہارے لیے کچھ محفوظ ہے!۔وہ لوگ جن کا کوئی مقصد نہیں ہوتا، ایسی شدید جنگوں سے نہیں گزرتے۔تمہارے ایمان کو آزمایا گیا، تمہاری شخصیت نکھری، تمہاری مزاحمت تیار ہوئی، ہر وہ دھوکہ جو تم نے سہا۔اس نے تمہارے اندر ایک جذباتی قوت پیدا کی جو عام لوگوں کے پاس نہیں ہوتی۔لوگوں کی ہر سختی سے کی گئی نفی نے تمہارے اندر اللہ پر بھروسا اور یقین کو مضبوط کیا۔

اے امام!

جب اللہ نے تمہیں عظیم مشن سے قبل خاموشی میں شک میں ڈالااور عام ظہور کے مرحلے سے پہلے، تجلی سے پہلے پوشیدگی کی ایک مدت ہوتی ہے۔شاید تم اس وقت بالکل اسی مرحلے میں ہو، یہ اللہ کی طرف سے تمہارا امتحان ہے۔اللہ کی طرف سے تمہاری آزمائش سزا نہیں ہے اور نہ ہی بھول جانے کی علامت، بلکہ یہ ایک تربیتی میدان ہے۔یہ ایک خفیہ مقام ہے، جہاں وہ تمہاری روح کی جڑوں میں کام کرتا ہے، داد و تحسین سے دوراور جھوٹی تعریفوں اور مادی و دنیوی موازنوں سے ہٹ کر۔

اے امام!

تم اپنی زندگی کو دیکھتے ہو، سوچتے ہو اور کہتے ہو: ”میرا وقت ابھی تک کیوں نہیں آیا؟۔کیا میں یونہی نظر انداز رہوں گا! کوئی مجھے کیوں نہیں دیکھتا یا میری قدر کیوں نہیں پہچانتا!”لیکن آسمان تمہیں دیکھ رہا ہے اور کہتا ہے: ”میں ایک ایسی چیز تخلیق کر رہا ہوں، جسے دیکھنے کیلئے دنیا ابھی تیار نہیں”۔اللہ پردے میں کام کرتا ہے، آسمان کو اپنی عظیم ترین معجزات کے اظہار کے لیے مجمع کی ضرورت نہیں ہوتی۔جب تم یہ سمجھ رہے ہوتے ہو کہ تم رکے ہوئے ہو، تب آسمان پردے کے پیچھے سب کچھ حرکت دے رہا ہوتا ہے۔تمہاری شخصیت تمہارے اندر صلاحیتوں اور مہارتوں کو تیار کر رہی ہوتی ہے۔آسمان تمہیں مناسب وقت کیلئے تیار کر رہا ہے، پردہ داری اور ظہور کے درمیان فرق کو نہ ملاؤ۔اللہ کی خاموشی غیر موجودگی نہیں ہوتی، بلکہ یہ تعمیر کا عمل ہے، یہ حفاظت کا مطلب رکھتی ہے۔

اے مہدی! تمہاری پردہ داری میں ایک ربانی مقصد پوشیدہ ہے۔

اللہ تمہیں ان معرکوں سے محفوظ رکھتا ہے جن کیلئے تم ابھی تیار نہیں ہو!
اللہ تمہارے جلد ظاہر ہونے کو روکتا ہے کیونکہ وہ تمہیں جذباتی اور روحانی طور پر تباہ کر سکتا ہے!۔پردہ داری کا وقت سیکھنے، عبادات میں گہرائی پیدا کرنے اور قرآن کی معرفت حاصل کرنے کا وقت ہے۔اور روحانی نظم و ضبط، کیونکہ جب ظہور کا وقت آئے گا تو تمہارے پاس سیکھنے کا وقت نہیں ہوگا۔تمہارا سارا وقت صرف کام کیلئے مخصوص ہوگا۔

سنو! اگر تم اس لمحے میں سانس لے رہے ہو تو اس کا مطلب ہے کہ آسمان ابھی تک، آسمان کے پاس تمہارے لیے ابھی بھی منصوبے ہیں اور یہ پردہ ختم ہو جائے گا، مگر جب تک پردہ قائم ہے۔ہر لمحے کو اپنی نشوونما اور تیاری کیلئے استعمال کرو، کیونکہ بہت جلداللہ تمہیں اندھیرے کنویں سے باہر نکلنے کیلئے بلائے گااور دنیا دیکھے گی کہ آسمان کیا چھپا رہا تھا۔جو کچھ آسمان نے پوشیدگی میں تیار کیا، وہ آزمائشیں تمہارے لیے تربیتی میدان تھیں۔

اے امام، تم قریب ماضی کی طرف دیکھ سکتے ہو اور ان راتوں کو یاد کر سکتے ہو۔جن میں تم روئے یہاں تک کہ سو گئے، وہ لمحات جن میں لگا کہ کوئی راستہ نہیں، اور یہ کہ ہرچیز بکھر رہی ہے۔کچھ لوگ جن سے تم نے سچے دل سے محبت کی، انہوں نے تمہیں ٹھکرا دیا۔ وہ دروازے جنہیں تم نے سمجھا تھا کہ وہ کھلیں گے۔وہ زور سے بند ہو گئے، دوستیوں کا خاتمہ ہو گیا، خواب مرنے لگے اس سے پہلے کہ وہ پیدا ہوں۔اور ان سب کے بیچ تم نے خود سے پوچھا: یہ سب کچھ میرے ساتھ ہی کیوں ہو رہا ہے؟۔سن لو، ہر آنسو جو تم سے بہا، ہر ذلت، ہر درد، ہر نقصان یہ سب تمہاری روحانی تشکیل کا ایک باب تھا، جو تمہیں شکستوں کا سلسلہ لگ رہا تھاوہ دراصل تمہارے لیے اللہ کی طرف سے تربیت کا میدان تھا، اللہ نے کچھ خاص معرکوں کی اجازت دی۔اسلئے نہیں کہ تمہیں تباہ کرے بلکہ تاکہ تمہیں تیار کرے۔تمہارے ایمان کو آزمایا گیا، تمہاری شخصیت کو نکھارا گیا، تمہاری مزاحمت کو مضبوط کیا گیا، ہر وہ خیانت جسے تم نے سہا۔اس نے تمہیں ایک جذباتی قوت بخشی جو عام لوگوں کے پاس نہیں ہوتی۔ہر سخت انکار نے تمہارے اندر اللہ پر اعتماد اور توکل کو مضبوط کیا۔ہر نقصان جو تم نے اُٹھایا، اُس نے تمہیں یہ سکھایا کہ اصل میں کیا چیز اہم ہے۔تم زندگی کے ہاتھوں شکست خوردہ نہیں ہو! تم کامیاب ہو، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر، تم تربیت میں مصروف ایک جنگجو ہو۔کتنی بار تم نے سوچا کہ اب برداشت نہیں ہوگا، کتنی بار تم نے ہار ماننے کا سوچا؟لیکن دیکھو اے مہدی! تم ابھی تک یہاں ہو، تم اب بھی سانس لے رہے ہو! تم اب بھی لڑ رہے ہو!۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کے پاس تمہارے لیے کچھ محفوظ ہے۔جن لوگوں کا کوئی مقصد نہیں ہوتا، وہ ایسی سخت جنگوں سے نہیں گزرتے۔وہ لڑائیاں جن کا تم نے سامنا کیا، اس بات کا ثبوت ہیں کہ آسمان تمہیں خفیہ طور پر کسی عظیم چیز کیلئے تیار کر رہا ہے۔لہٰذا آج کا دن ہے کہ تم اپنے نقطۂ نظر کو بدلو، اپنے زخموں کو ناکامی کی علامت سمجھنا بند کرو۔ان پر روحانی بقا کے آلات کے طور پر نظر ڈالو، ہر وہ درد جس پر تم نے قابو پایا، وہ اللہ کی طرف سے اس بات کی گواہی ہے کہ اللہ تمہارے ساتھ تھا اور رہے گا۔

میں ہمیشہ یہی چاہتا ہوں کہ میں آپ کے حسنِ ظن پر پورا اتروں۔اگر آپ نے میرے بارے میں اچھا گمان رکھا ہے، تو میری ویڈیوز کو پسند کر کے اسے ثابت کریں۔اللہ کے رحم میں رہیں، اور آپ پر سلامتی، اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جولائی 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

کربلا، حسین و یزید مکتب وجدان کے نقطہ نظر سے

متنازعہ عراقی مفکر احمد القبانجی

شمس الدین حسن شگری سے عربی مکالمے کا کچھ حصہ۔

دین اسلام انسان اور خدا کے درمیان ایک رشتہ ہے۔ دنیاوی معاملات کا دین سے براہ راست تعلق نہیں۔مثلا شادی، خرید و فروخت آپ گاڑی بیچتے ہیں، خریدتے ہیں تو کیا یہ دین کے اصولی جزو ہیں؟ نہیں، نہ یہ دین کے ذاتی امور اور نہ بنیادی احکام۔ لیکن تیسری چیز دین انسانی زندگی کے ہر پہلو کو ایک الٰہی رنگ دیتا ہے۔قرآن کہتا ہے: صبغة اللہ، ومن احسن من اللہ صبغة” اللہ کا رنگ، اور اللہ سے بہتر کس کا رنگ ہو سکتا ہے؟”یعنی آپ کی خرید و فروخت، آپ کی شادی سب کچھ ایک عرفی (سماجی طور پر تسلیم شدہ) معاملہ ہے، لیکن جب وہ دینی رنگ اختیار کرتا ہے، تو ایک روحانی پہلو حاصل کر لیتا ہے۔حکومت بھی ایسی ہی ہے۔ یہ نہ دین کی ذات میں شامل نہ اس کی شاخوں میں، لیکن یہ الٰہی رنگ اختیار کرتی ہے۔اللہ چاہتا ہے کہ اسلامی حکومت ایمان دار ہو۔یعنی حکومت دنیاوی معاملات میںخدمات دیتی ہے، لیکن اسکا مزاج دینی ہو ایمان سے لبریز، اخلاقی بنیادوں پر چلنے والی جہاں حکام ایمان رکھتے ہوں،لوگوں کو روحانی اقدار کی طرف راغب کریں۔جیسے شادی عرفی بھی ہے، شرعی بھی لیکن جو شادی دینی رنگ رکھتی ہو وہ زیادہ مضبوط، اس میں زیادہ محبت ہوتی ہے کیونکہ اس کی بنیاد ایمان پر ہوتی ہے۔

جواب:تاریخی واقعات میں اصل نیت کا تعین مشکل ہوتا ہے، کیونکہ صرف وہی شخص اپنی نیت کو جانتا ہے۔لیکن مورخین اور محققین مختلف قرائن و کلمات سے اندازہ لگاتے ہیں۔علمی منہج نیتوں سے سروکار نہیں رکھتامگر دین رکھتا ہے، کیونکہ حدیث ہے:انما الاعمال بالنیات، و انما لکل امرء ما نوٰی”عمل نیت کے مطابق ہوتا ہے۔لہٰذا امام حسین کے حوالے سے پانچ مشہور نظریات ہیں اور ہمارا بھی ایک نظریہ ہے جو شاید چھٹا ہو:

نظریہ اول:

ناصبیوں، ملحدوں اور سیکولرز کا ہے کہ امام حسین اقتدار چاہتے تھے۔ یعنی مقصد حکومت حاصل کرنا تھا، بالکل معاویہ اور یزید کی طرح۔یہ نظریہ ہم قبول نہیں کرتے، کیونکہ امام حسین جنت کے سردار ہیں،ان جیسی عظیم قربانی کا مقصد محض دنیاوی اقتدار کیسے ہو سکتا ہے؟اگر اقتدار مطلوب ہوتا تو یزید سے صلح کر لیتے، عزت سے رہتے۔

 

نظریہ دوم:

حسین اقتدار چاہتے تھے، اپنے لئے نہیں، امت کیلئے۔مقصد عدل و انصاف کا قیام تھا جیسے خلفائے راشدین یا امام علی کا طرزِ حکومت۔یزید چونکہ ظالم و فاسق تھا تو امام حسین نکلے۔

 

نظریہ سوم:

یہ اکثر اہلِ سنت کے ہاں مقبول ہے۔کہ امام کو کوفہ والوں نے بلایا پھر دھوکہ دیا۔ امام نے واپس جانا چاہا تو انہیں روکا یا بیعت کرو یا قتل۔یعنی امام نے بغاوت کی نیت نہیں کی تھی، وہ بس دھوکہ کھا گئے۔یہ رائے اسلئے بھی ہے تاکہ نہ یزید پر کھلا الزام آئے، نہ امام حسین پر۔یہ بیچ کا راستہ ہے:یعنی اہلِ کوفہ کو ذمہ دار ٹھہرایا ،یزید بری الذمہ مگر بہت سے اہل سنت یزید پر لعنت کرتے ہیں،کیونکہ نہ صرف حسین کو قتل کیا بلکہ اگلے سال مدینہ میں صحابہ کو قتل کیاپھر کعبہ پر چڑھائی کی 3 سال تک فتنہ برپا رہا۔

 

نظریہ چہارم شیعہ نظریہ :

امام جانتے تھے کہ کوفہ والے دھوکہ دیں گے۔ صرف70  افراد میسر تھے، تو عقل سے یہ حکومت کا منصوبہ نہیں تھا۔عقلمند صحابہ جیسے عبداللہ بن عباس، ابن زبیر، ابن عمرسب نے امام کو روکالیکن امام نکلے کیونکہ یہ تحریک عقل کی نہیں، وجدان کی پکار تھی۔ امام جانتے تھے کہ شہید ہوں گے لیکن مقصد یہ تھا کہ یزید کی حکومت سے شرعی جواز چھین لیا جائے۔کیونکہ یزید کہتا تھا کہ وہ خدا کا خلیفہ ہے امام کی شہادت نے عوام کو بیدار کیاپھر یکے بعد دیگرے کئی انقلابات آئے۔ جس کے نتیجے میں بنی امیہ کا زوال آیا۔

 

نظریہ پنجم :

یہ غالی شیعوں کا نظریہ ہے، جو حسین کو نجات دہندہ سمجھتے ہیں جیسے مسیح۔ کہ امام کی شہادت گناہ گاروں کیلئے کفارہ بن گئی۔ بس حسین سے محبت کافی ہے نجات کیلئے۔یہ عیسائی سے مستعار تصور ہے۔ ہم اس کو قبول نہیں کرتے، کیونکہ اس میں دین خرافات بن کر رہ جاتا ہے۔ حسین کو قربانی بنا کر انکے غم، معجزات، ان پر رونے کو نجات کا ذریعہ قرار دیا گیا جیسے مسیحی حضرت عیسی کی قربانی کو کفارہ سمجھتے ہیں۔ یہ خرافات پر مبنی اور ناقابلِ قبول ہے۔

 

نظریہ ششم (مصنف کا ذاتی نظریہ):

یہ نہ دینی تحریک تھی، نہ عقلی، بلکہ وجدانی تحریک تھی۔امام نہ حکومت چاہتے تھے، نہ شہادت۔ جب بیعت کا مطالبہ آیا، تو وجدان نے کہا:ھیھات منا الذلة ذلت ہم سے دور ہے۔یعنی عزت نفس اور انسانی وقار کے خلاف تھا کہ یزید جیسے فاسق کی بیعت کی جائے۔اسی لیے امام حسین نے کہا:”میں موت کو سعادت اور ظالموں کیساتھ زندگی کو بیزاری سمجھتا ہوں اوریہ وجدان کی پکار تھی نہ قرآن کہتا ہے کہ ظالم کے خلاف بغاوت کرو، نہ حدیث۔قرآن : ”لا ترکنوا الی الذین ظلموا” ان کے قریب بھی نہ جا”لیکن ”ان کے خلاف تلوار اٹھا”ایسا کہیں نہیں۔لہٰذا یہ وجدانی انقلاب تھا۔نبیۖ نے دین میں انقلاب لائے ۔توحید، ایمان، اخلاق لیکن وجدان کی بیداری باقی تھی۔جیسے ہی نبی دنیا سے رخصت ہوئے، صحابہ آپس میں لڑ پڑے۔ مطلب ہے کہ وجدان کمزور تھا یا مر چکا تھا۔اور فتوحات سے جو مال و دولت آیا، اس نے دین کو دنیا کا ذریعہ بنا دیا۔پہلے دین سلطنت کو چلاتا تھا اب سلطنت دین کو چلا رہی تھی۔اسی وجہ سے امام حسین نے اقدام کیا تاکہ انسانیت کے اندر ضمیر کو بیدار کیا جا سکے۔یہی ان کی تحریک کی اصل روح ہے۔

سوال: انقلابِ خمینی نے علماء دین اور مذہبی شخصیات کو قتل کیا۔آیت اللہ خامنہ ای، سید کمال الحیدری، یہاں تک کہ آیت اللہ منتظری جیسے افراد کو بولنے کی اجازت نہیں دی گئی۔کئی لوگ، خصوصا لبرلز، جیلوں میں بند ہیں۔تو پھر وہ ضمیر کہاں گیا جو امام حسین کے انقلاب سے متاثر ہو کر جاگا تھا؟اب ایران میںنہ کوئی رحم ہے، نہ ہمدردی۔

جواب :میں فرق کرتا ہوں ایرانی اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ میں۔اسلامی جمہوریہ انقلاب نہیں ۔خمینی کا انقلاب جو امام حسین سے ماخوذتھا اپنی جگہ درست تھالیکن ”اسلامی جمہوریہ” کا قیام الگ معاملہ ہے۔ حسین نے کبھی کوئی ریاست یا حکومت قائم نہیں کی۔لہٰذا فرق کرنا ہوگا: خمینی کا انقلاب، ایران کا انقلاب، شاہ کیخلاف، امریکہ و اسرائیل کیخلاف، یہ سب قابلِ احترام اور مبارک ہے لیکن جب یہ انقلاب ریاست میں تبدیل ہوا، اسلامی جمہوریہ میںتو ریاست کی بقا کیلئے مظاہروں کو کچلنا شروع کیا گیا، اوریہ چیزیں حسین سے ماخوذ نہیں۔ریاست کے اصول الگ ہیں۔میں ایران کی کچھ چیزوں کو سراہتا ہوں، جیسے فلسطین کی حمایت،اسرائیل و امریکہ کے خلاف موقف اور داعش کے حملے کے وقت عراق کی مدد کرنا، جب دوسرے ممالک خاموش تھے۔لیکن ریاست کی بھی غلطیاں ہیں۔تو اگرچہ ایران کی حکومت میں مثبت پہلو ہیں،یہ واضح ہے کہ یہ حکومت حسین کے انقلاب جیسی نہیں ۔ حسین کا انقلاب نظام کو بدلنا تھا،جبکہ نئی حکومت کا قیام، نئے معیارات کے مطابق ہوتا ہے،جیسے عوام کی رضا، جمہوریت وغیرہ۔

سوال :شیعہ عام طور پر سنیوں سے زیادہ جذباتی ہیں، فلسطین اور غزہ میں مظلوموں کی مدد کی یہ امام کے انقلاب کے اثرات ہیںتو پھر ایرانی عوام کیساتھ ہمدردی کہاں گئی؟ بے شمار لوگوں کو صرف حکومت پر تنقید کرنے پر قتل کیا۔

جواب :یہ ولایت فقیہ کی حکومت ہے،یہ انقلاب سے خیالات نہیں لیتی بلکہ روایات، عقائد اور نظام کے مفادکی بنیاد پر فیصلے کرتی ہے جبکہ حسین کا انقلاب ”نظام کے مفاد” کی بنیاد پر نہیں تھا،بلکہ نظام کے خاتمے کیلئے تھا۔میں سیاست میں نہیں پڑتا کیونکہ وہ بدلتی رہتی ہے اور اس میں بہت جھوٹ بھی ہوتا ہے۔ایران کے خلاف مغربی میڈیا، سعودی عرب اور کچھ دیگر آوازیں مسلسل پروپیگنڈا کرتی ہیں۔میں یہ نہیں کہتا کہ سب جھوٹ ہے، لیکن سب سچ بھی نہیں۔پاکستان کی حکومت بھی مکمل درست یا مکمل غلط نہیں لیکن فرق یہ ہے کہ پاکستانی حکومت دین یا حسین کے نام پر نہیں جبکہ ایرانی حکومت ”اسلامی”اور ”حسینی”کہلا کر کام کرتی ہے۔ حالانکہ اسلام وہاں روایات سے لیا گیا جیسے”علم کلام” میں امام غائب اور نائب امام کے تصورات۔میں نے پہلے بھی کہا، میں ولایت فقیہ کے نظریے سے متفق نہیںلیکن ایرانی عوام اور نظام کا احترام کرتا ہوں۔ولایت فقیہ خدا کی طرف سے نہیں، بلکہ فقیہوں کی اجتہادی رائے ہے،جیسے امام خمینی یا شہید صدر کی۔اب سوال یہ ہے کہ امام حسین کے اہداف و مقاصد کی اتنی مختلف تفسیریں کیوں ہیں، حالانکہ ان کی تقریریں، وصیتیں، اور بیانات مکمل محفوظ ہیں؟تو اس کا جواب ”علمِ تاویل” میں ہے۔تاریخی متون مختلف قراتیں برداشت کرتے ہیں، جیسے قرآن کے بھی کئی تفاسیر ہیں۔ اسی طرح امام حسین کے کلمات کی کئی تفاسیر ہو سکتی ہیں۔ ہر مؤرخ اپنے پس منظر، عقائد اور سوچ کے مطابق تاریخ کو دیکھتا ہے۔سنی کچھ اور سمجھیں گے، شیعہ کچھ اور، مسیحی کچھ اور۔ جیسے کہ قرآن کے مفسر بھی اگر صوفی ہو تو صوفیانہ تفسیر کرتا ہے،شیعہ ہو تو شیعہ نظر سے۔

تحقیقی طریقہ کار (سائنسی و تاریخی)کہتا ہے کہ کسی بھی ذاتی یا مذہبی تعصب کے بغیر تحقیق کی جائے۔دینی قرات میں، جیسے امام حسین کی تحریک میں کئی تشریحات ممکن ہیں جیسے تفاسیر قرآن میں کئی صحیح ہو سکتی ہیں اگر انکے پاس دلائل ہوں لیکن جو خرافاتی تفاسیر ہوں، جیسے”بعوضہ (مچھر) سے مراد امام علی ہے”،یا ”جن و درخت امام حسین پر روئے” یہ غلو (افراط)کی مثالیں ہیںمگرباقی4یا5 نظرئیے دلائل کیساتھ ہوں تو قابل قبول ہو سکتی ہیں۔تاریخ مختلف قراتوں کو سہہ سکتی ہے اور ہم اپنی قرات کو ”ثورة الوجدان”(ضمیر کی بیداری)کہتے ہیں۔ بیسویں صدی کے دوسرے نصف سے پہلے، اسلام کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔ یعنی خلافتِ عثمانیہ میں،شیعہ اپنے مذہب کے مطابق آزادانہ زندگی بسر کرتے تھے۔نماز، روزہ، سب کچھ اپنی مرضی سے کرتے تھے۔ نہ کسی کو جبرا سنی بنایا جاتا تھا،نہ جبرا کمیونسٹ یا بعثی (بعث پارٹی کا رکن)بنایا جاتا تھا۔لیکن اب یہ نئی سیکولر حکومتیں،لوگوں پر دباو ڈال کر انکے دین کو مٹا رہی ہیں،انہیں دین سے خارج کر رہی ہیں۔ اگر تم بعثی نہیں بنتے تو تمہیں جینے نہیں دیا جائے گا۔

اسی لیے بیدار علما نے کہا کہ اب وقت آ گیا کہ ایک ریاست قائم کی جائے۔ اب کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا۔اب دو ہی راستے ہیں:اسلام موجود رہے یا بالکل ختم ہو جائے۔اگر یہی حکومتیں رہیں تو اسلام خطرے میں ہے۔ امام حسین نے کہا تھا:اگر یزید حکومت رہی تو اسلام کا خاتمہ ہو جائے گا۔ معاویہ کے زمانے میں اسلام خطرے میں نہیں تھا کیونکہ معاویہ جانتا تھا کیسے سیاست کرنی ہے۔کہا جاتا ہے کہ "شعرہ معاویہ” کبھی ٹوٹتی نہیں،یعنی وہ حد سے آگے نہیں بڑھتا تھا۔مگر یزید واضح طور پر دین کے خلاف تھا،اسلئے وہ دین کیلئے خطرہ تھا۔اسی طرح خمینی اور شہید صدرنے کہا کہ یہ دین خطرے میں ہے اور اب ریاست قائم کرنا ضروری ہے۔جب کہ اس سے پہلے مولانا مودودی جیسے لوگ،تقریبا 100 سال پہلے، انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں، جمال الدین افغانی، طحطاوی جیسے لوگوں نے اسلام کی طرف واپسی اور شریعت کے نفاذ کی بات کی۔ہاں، وہ پہلے آئے لیکن ایران میں اس وقت کوئی خطرہ نہیں تھا،شاہ بھی شیعہ تھا، مدارس تھے، علما ء تھے، کوئی مسائل نہیں تھے۔جیسے کہ عراق میں صدام کے زمانے میں تھے۔ ایران میں ایسی کوئی صورتحال نہ تھی لیکن خمینی نے گہری نظر سے دیکھا کہ امریکہ شیعوں کی حمایت کرتا ہے،لیکن وہ ظاہری، سطحی شیعہ۔حقیقی، علوی تشیع نہیں بلکہ صفوی تشیع۔

شیعہ حکومت یعنی شاہ،جو شیعہ ہونے کا دعوی کرتا تھا، زیارت کرتا تھا،لیکن حقیقت میں کیا کرتا تھا؟پہلا اسرائیلی سفارت خانہ جس مسلم ملک میں کھلا وہ ایران تھااور شام کے اسرائیل سے تعلقات۔اسرائیل طغیان کی علامت ہے،اسلامی علما کے نزدیک،کفر و طغیان کی علامت۔ حتی کہ امریکہ بھی اتنا برا نہیں جتنا اسرائیل کیونکہ اسرائیل ایک غیر قانونی مسلط شدہ وجود ہے۔جبکہ امریکہ، فرانس، برطانیہ کی حکومتیں ظلم کرتی ہیں،لیکن انکے پیچھے عوام ہوتے ہیں۔ اسرائیل تو سراسر ناجائز ہے۔شاہ ایران پہلا حمایتی تھا،تیل بھی اسرائیل کو دیتا تھا۔یہی چیز خمینی کو سب سے زیادہ پریشان کرتی تھی۔اس نے کہا کہ اگر ہم نے روکا نہیںتو پورا اسلام ظاہری اور کھوکھلا بن جائے گا۔جیسے خلیجی ممالک۔یہ سب اسرائیل کی درپردہ حمایت کرتے ہیں۔غزہ کے مظلوم عوام کیخلاف اسرائیل کی مدد کرتے ہیں۔ خمینی نے کہا کہ اگر ہم نے شاہ کو نہ روکاتو خلیجی ریاستوں جیسا بن جائے گا پھر امریکہ اسے اربوں ڈالر دے گا۔ جیسا ہو رہا ہے۔

سوال :شکریہ استاذ!آپ نے اپنا قیمتی وقت دیا۔آپ کی باتوں نے ہمارے دل و دماغ کو بیدار کیا،جن میں سچائی، فلسفہ اور علم کی گہرائی موجود تھی۔پاکستان میں بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ آپ کی کتابیں اردو میں دستیاب ہوں۔ آپ کا نظریہ منفرد ہے،اللہ جزائے خیر دے۔

جواب: وجدان صرف شیعہ یا سنی تک محدود نہیں،یہ مسیحی اور ملحد کو بھی شامل کرتا ہے۔بے دین شخص باوجدان ہوتو وہ بے ضمیر مسلمان یا شیعہ سے بہتر ہے۔وجدان اللہ کی آواز ہے،یہ قول میرا نہیں عارفین کا ہے ”مومن کا دل عرشِ رحمن ہے ”یعنی اللہ دل میں رہتا ہے۔شیعہ، سنی، عیسائی کی تمیز نہیں،یہ سب نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لئے۔اللہ نے ہر انسان کو وجدان دیا :ونفس وما سواہا، فلہمہا فجورہا وتقواہاہر نفس کویعنی ہر انسان کو،اللہ نے نیکی اور بدی کا شعور دیا ۔ہم یہی کہتے ہیں:اے لوگو! اپنے وجدان کو زندہ کرو!لوٹو، اپنے ضمیر کی طرف واپس آو،جس کو تم نے فرقہ بندی میں کھو دیا ۔لوگ فرقہ واریت میں الجھ گئے،اور اصل خدا کو بھول گئے۔اسی کی طرف لوٹنا ضروری ہے۔چاہے وہ سنی ہو مگر باوجدان ہو۔نہ کہ سنی جو اسرائیل کی حمایت کرے۔یا ایسا شیعہ ہو جو غلو کرے،صحابہ کو گالی دے اور فرقہ واریت پھیلائے۔یہ شیعہ نہیں، یہ بے ضمیر ہے۔اگر شیعہ باوجدان ہو، مسیحی ہو،تو اپنے مذہب پر قائم رہے۔ سیکولرشخص بھی قابل قبول ہے۔ اللہ انسان سے یہی چاہتا ہے کہ وہ باوجدان ہو۔ ہم اسی بات پر زور دیتے ہیں، یہی پیغام دینا چاہتے ہیں۔کہ لوگ سچے دین، سچے خدا کی طرف لوٹیں،نہ کہ مذاہب ، مسالک والے خدا کی طرف۔ اللہ رب العالمین ہے،ہم نے مسلمانوں کا، شیعوں ، سنیوں، وہابیوں ، اخباریوں ، اصولیوں کا خدا بنا دیا۔ اب ہر فرقے کا اپنا رب ہے۔ قرآن کہتا ہے:أرباب متفرِقون خیر أمِ اللہ الواحِد القہاراللہ واحد و قہار ہے۔ہاں جیسا آپ نے کہا، وہ رب العالمین ہے۔
٭٭

ساری دنیا ایک طرف ایران اکیلا ہے،علامہ حسن ظفر نقوی

علامہ حسن ظفر نقوی کے بنیادی نکات ہیں کہ مذہب سے زیادہ بڑی تعداد میںوسائل پر قبضہ کی وجہ سے لوگ قتل ہوئے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم اس کی مثال ہیں۔ ایران میں کٹھ پتلی شاہ ، اسرائیل کاوجود تیل پر قبضہ کرنا تھا۔ عرب ممالک کو اسی وجہ سے مختلف ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیا۔ بیت المقدس تو مسلمان، عیسائی اور یہودی سب کیلئے مشترکہ تھا۔ اصل جنگ وسائل پر قبضہ کی ہے۔ انقلاب اسلامی ایران نے سامراج سے ٹکر لی ۔ جس کو فرقہ واریت کا رنگ دیا گیا۔ اسرائیل کے مخالفین کو ختم کیا تو پھر ایران پر حملہ کردیا۔ ایرانی میزائلوں کو روکا جاتا ہے اور اسرائیل کیلئے کوئی رکاوٹ نہیں۔ ایرانی انقلاب کے بعد اسرائیل کا سفارت خانہ فلسطین کے حوالے کیا گیا۔ ایران اکیلا کھڑا ہے ،اس کی شکست عرب ممالک پر قبضہ کی راہ ہموار کریگی، حسین کی جیت اور یزید کی شکست ولایت فقیہہ کا نظریہ ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جولائی 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

تشکر نامہ برائے تعزیت

سوگوار خاندان سید علی شرف الدین موسوی

بسم اللہ الرحمن الرحیم انا للہ و انا الیہ راجعون
”الٰہی رضا بقضائ، وتسلیما لمر، لا معبود سوا، یا غیاث المستغیثین”

السلام علیکم و رحم اللہ و برکاتہ علامہ سید علی شرف الدین موسوی اپنی عمر سے زیادہ وقت ملک عزیزمیں قرآن و سنت کی حقیقی تعلیمات پہنچانے کی راہ میں ہر چیز قربان کر کے آج ہمیں داغ مفارقت دیکراپنے خالق حقیقی سے ملے ،آپ اشِدا ء علی الکفار رحماء بینھم کے پابند تھے اور حقیقی معنوں میں رسول اکرم ۖ کے عاشق تھے اسی وجہ سے دین کا صرف نام لیکر عمل نہ کرنے پر پریشان رہتے تھے۔ لعلک باخع نفسک الا یکونوا یؤمنینولایت اور امامت کے عملی مظاہر کے خواہاں تھے۔ صرف شعر و شاعری اور لمبے لمبے جعلی اور لقہ لقہ لسانی اور صرف جذباتی الفاظ سے بھری تقریروں کے مخالف تھے ، اسی وجہ سے مرحوم اگرچہ نا خرد افراد کی تہمتوں کے برعکس زندگی کے اواخر کچھ سال انتہائی کسمپرسی کے عالم میں زندگی گزاری اور دنیا کے ہر قسم کی آسائشات سے محروم رہے لیکن اس پر مسلسل زبان پر شکر کے الفاظ ہی ادا کرتے نظر آئے ۔ ان کے اسی دین کے ساتھ سخت لگاؤ کو بہت سے لوگ ان کو سخت مزاج تصو ر کرتے تھے ،ان کے ذاتی مخالفین اپنی دشمنی کو دینی شکل دینے کی کوشش کرتے رہے لیکن ان کی زندگی میں کامیاب نہ ہوئے تو اپنی کچھ بھڑاس کو ان کی وفات کے بعد نکالنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں جن کو ابھی تک ولایت اور امامت کے لفظی مفاہیم کے بارے میں علم نہیں ہے یا جو افراد امامت اور ولایت کو گھر میں ذوق بنا کر مجالس کرنے کو سمجھتے ہیں وہ ایسی شخصیت کیلئے مخالف ولایت اور امامت کا ٹائٹل لگا کر تعزیت نامہ لکھتے ہیں جس نے اپنی پوری زندگی کو اسی راہ میں قربان کر دیا ،ائمہ اطہارکی سیرت طیبہ پر چلتے ہوئے اپنی جائیداد بیچ کر حج پر جانے پر تہمت لگانا ذاتی دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے ، ان کی رحلت پر خوشی منانا بعید از قیاس بھی نہیں ہے کیونکہ انہیں گھروں میں امام خمینی جیسے عظیم رہبر کے وفات پر یہ کہہ کر مٹھائی تقسیم ہوئی تھی کہ یہ شاہ ایران کے مخالف تھے ، مرحوم بھی اسی راستہ کے ایک ادنیٰ سے شاگرد تھے ، اور انکا دل بھی ہمیشہ اسی لئے ڈھرکتا تھا حتی کہ رحلت کی رات بھی سونے سے پہلے امریکہ اور ایران کے درمیان جنگ کے بارے میں بار بار پرس وجو کرتے ہوئے اور رہبر معظم کے بیانات پر کافی اطمینان قلبی پیدا کر کے ہی سوگئے تھے ۔

کچھ لوگ جس طرح حضرت حمزہ کی شہادت پر ابوسفیان نے نہ خوشی اورنہ غم کا نعرہ لگایا ،کچھ افراد اسی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کسی عالم کی رحلت پر خوشی کے الفاظ انتخاب کرتے نظر آتے ہیں جن کو ابھی تک یہ بھی نہیں معلوم کہ دنیا کی سب سے بڑی شیعہ طلبا ء کی تربیت گاہ میں اس محقق کے نظریات پر بحث و گفتگو کیلئے کمیٹی بنی ہے اور دسیوں تھیسسز لکھ چکے ہیں اورابھی یہ سلسلہ جاری ہے لیکن مرحوم کے نظریات کو نظر اندازکرنے کی باتیں تعزیت نامہ میں لکھ کر اپنی جہالت کو سب کے سامنے عیاں کر لیا ہے ابھی ہم مصیبت کے ایام میں ہیں لہٰذاان بے ادبانہ الفاظ کا مکمل جواب دینا نہیں چاہتے لیکن خود ان کی عبارات سے عیاں ہے جو اپنے آپ کو عالم دہر سمجھتے ہیں کہ انکے قلم میں ایک مکمل پیراگراف لکھنے کی طاقت بھی نہیں ۔
ہم دل کی گہرائیوں سے ان تمام عزیزان کا شکریہ ادا کرتے ہیں جو ہمارے اس عظیم غم میں مخلصانہ برابر کے شریک ہو کر ہمیں تسلی دی، دعائیں کیں، اور اپنی محبت و ہمدردی کے ذریعے ہمارے دکھ کو بانٹا۔

آپ کی طرف سے بھیجے گئے دلسوز کلمات، فون کالز، پیغامات، حاضری، دعائیہ کلمات ہمارے لیے حوصلے، تقویت اور ایمان کی تجدید کا باعث بنے۔ہم ان تمام افراد کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں جن کے دل ہمارے ساتھ ہیں دلی طور پر ہمارے غم میں شریک ہیں لیکن سماجی دباو اور کچھ سیاسی اور اجتماعی روابط انہیں تعزیت نامہ لکھنے سے محروم رکھے ہوئے ہیں ، ہم آپ کی مجبوری کو بھی سمجھتے ہیں لہٰذا اس دلی ہمدردی پر شکریہ ادا کرنے کیساتھ ساتھ دعا مغفرت کی درخواست کرتے ہیں

یہ مشکل وقت انسان کی آزمائش ضرور ہوتا ہے، مگر آپ جیسے محبت کرنے والوں کی موجودگی ہمیں صبر اور اللہ کی رضا پر قائم رہنے کا حوصلہ عطا کرتی ہے۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں مرحوم و مغفور کے لغزشوں سے درگزر فرمائے انہیں اولیا الٰہی کی شفاعت نصیب فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطاء فرمائے ۔آپ تمام عزیزان سے بھی ان کے لئے ایک بار پھر دعا مغفرت کے طلب کار ہیں ۔”خداوند آپ سب کو سلامت رکھے، آپ کے اہلِ خانہ کو اپنی حفظ و امان میں رکھے "جزاکم اللہ خیرا کثیرا والسلام سوگوارخاندان سید علی شرف الدین موسوی
اول محرم الحرام 1447 ہجری

سید ارشاد علی نقوی کے دوست مہدی شگری کی تعزیت

انا للہ وانا الیہ راجعون

مفکر اسلام، مبلغ قرآن،محقق و مورخ، حجتہ الاسلام والمسلمین آقای سید علی شرف الدین موسوی آج بروز ہفتہ ذوالحجہ الحرام دار فانی سے کوچ کرکے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ نماز جنازہ جناب قبلہ شیخ غلام نبی صاحب کی اقتدا میں مسجد شاہ کربلا ٹرسٹ رضویہ سوسائٹی میں ادا کی گئی ۔۔۔اللہ پاک آغا صاحب کے گناہان کبیرہ و صغیرہ معاف فرما اور جنت میں اعلی مقام عطا فرما۔ تمام لواحقین کو خصوصا آپکی خانوادوں کو صبر جمیل عطا فرما آمین۔

اس المناک موقع پر آپ کے فرزندان محترم آغاباقر موسوی، آغا صادق موسوی، سید روح اللہ موسوی، آغا مہدی موسوی، برادر آغا روح اللہ موسوی Agha Ruhullah Shigri ، محترم آغا سعید موسوی، محترم آغا علی عباس صاحب، برادر آغا عابد اور پوری فیملی کی خدمت میں تعزیت پیش کرتے ہیں ۔ مصیبت کی گھڑی میں ہم آپکے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ مہدی شگری۔21جون 2025، رات 11بجے

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جولائی 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

50ٹریلین ڈالرز کا” خزانہ” پاکستان کی تو نکل پڑی۔

امریکہ اور چین سرمایہ کاری کو تیار

السلام علیکم ! انسائڈ بائی معظم میں خوش آمدید۔ دو بڑے ہاتھیوں امریکہ اور چین میں شروع ہو گیا مقابلہ اور ہم بیچارے پھنس گئے ۔ مقابلہ توپہلے سے تھا۔ یہ گلگت بلتستان کے معدنی ذخائر کیلئے ہے جو نہ پختونخواہ ہے اور نہ بلوچستان ۔ 2020ئ میں جیولوجیکل سروے ہوا تھا، رپورٹس جیسے ہی منظر عام پر آئیں تو ہل جل شروع ہو گئی ہے۔ ان کی مالیت 5ٹرلین ڈالر سے زیادہ ہے ۔ فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیرکوامریکہ وائٹ ہاؤس میں لنچ کی وجہ یہ لاٹری ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ابھی جب جنوری میں اپنے عہدے کو سنبھالا تو سب سے پہلے مختلف ممالک پر ٹیرف عائد کیا اور چائنہ پر تنقید کی کیونکہ چائنہ کا مال نہ صرف سستا بلکہ امریکہ کی مارکیٹس پر چائنہ کا غلبہ ہو گیا اور ڈونلڈ ٹرمپ نے چائنہ پر127فیصد کا ٹیرف عائد کر دیا۔چائنہ نے جوابی ٹیرف امریکہ پر اسی والیوم کا عائد کر دیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ خیال تھا کہ شاید چین متاثر ہوگا مگر یہاں پر آگیا ٹوئسٹ۔ چائنہ نے تمام سامان خاص طور پر اسلحہ سازی، میزائل راکٹ سازی کے ،جنگی جہازکی تیاری کے بنیادی اجزا ء اور الیکٹرک گاڑیاں تیار کرنے کیلئے ارتھ منرلز کی ایکسپورٹ پر پابندی لگا ئی۔ امریکہ اور انڈیا سے چائنہ نے کہہ دیا کہ ہم نے نہیں بھیجنے اور چونکہ امریکہ کی اکانومی کا زیادہ دار و مدار ہے اسلحہ بنانا اور بیچنے پر اور دنیا کے تمام ممالک امریکہ سے اسلحہ خریدتے ہیں لہٰذا اسلحہ سازی اور خاص طور پر میزائل ، راکٹ اور خلا ئی سفر پر اچھی خاصی جو مشکلات ہیں وہ امریکہ کو آنی تھیںاور اسکے ساتھ ساتھ امریکہ کی ایلون مسک کی ٹیسلا کمپنی چلتی الیکٹرک سسٹم پرہے ۔ ارتھ منرلز پر تقریباً چائنہ کی اجارہ داری ہے۔ چائنہ اپنے علاقہ منگولیا سے سب سے زیادہ ارتھ منرلز حاصل کرتا ہے دنیا کی مجموعی زمینی معدنیات کا 60 فیصد چائنہ کے پاس ہے۔ چائنہ کی پابندی کا دبا ؤآیا ڈونلڈ ٹرمپ پر تو جو ٹیرف مسلط کیا وہ واپس لے لیا لیکن امریکن ایڈمنسٹریشن نے غور شروع کر دیا کہ چائنہ کا متبادل کون ہے؟۔ گلگت بلتستان میں جو ٹوٹل ریئر ارتھ منرلز کی تعداد کو کلاسیفائڈ کر کے 17ارتھ منرلز بتائے گئے ۔ان 17میں سے 16 گلگت بلتستان میں ہیں۔ خیبر پختونخواہ میں ارتھ منرلز کی موجودگی کا انکشاف ہوا اورپھر صورتحال میںتھوڑی تبدیل ہوئی ۔چین اور امریکہ میں اسلحہ سازی کی انڈسٹری ہے لہٰذا ان کو ان منرلز کی جو ضرورت ہے ۔ بڑے ذخائر کی نشاندہی کے باوجود پاکستان میں ریئر ارتھ ایلیمنٹس کی تلاش وتجارتی افزائش محدود ہے۔ بنیادی وجوہات ہیں ٹیکنالوجیکل اور انفراسٹرکچر کی کمی پالیسی اور ریگولیٹری خلا سیاسی اور سیکیورٹی خدشات ۔ اداروں نے جو پہلے سرویز کیے جس میں جیولوجیکل سرویز آف پاکستان ہے۔ دیگر کمپنیز خاص طور پر چائنیز کمپنیز نے جو اچھے طریقے سے چھان پھٹک کی۔ مختلف مقامات سے اس بات کی نشاندہی کی کہ جناب یہ ایریا جو ہے وہ معدنی ذخائر سے مالا مال ہے لیکن اسکے باوجود بھی ابھی تک پاکستان اس پروڈکٹ کو انٹرنیشنل مارکیٹ کے اندر مکمل طور پر سیل کرنے میں ناکام رہا۔ اسی دوران جب یہ ڈونلڈ ٹرمپ آئے اور انہوں نے پابندیاں لگائیں چائنہ نے ایکسپورٹ کو سسپینڈ کیا اس کے بعد امریکہ کی توجہ آگئی اس معاملے پر اور حالیہ دنوں میں ہم نے امریکہ کی پاکستان کے ساتھ جو محبت ہے وہ ہم نے دیکھی کہ کس طریقے سے ڈونلڈ ٹرمپ جو ہے وہ پاکستان کا نام جپ رہے ہیں ایسے خواہ مخواہ تو ڈونلڈ ٹرمپ نے 19مرتبہ اس بات کا کریڈٹ نہیں لیا کہ جناب میں نے پاکستان اور انڈیا کی لڑائی رکوائی ہے۔ اس وجہ سے تو انہوں نے بار بار اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ پاکستان کے جو فیلڈ مارشل ہیں بڑی متاثر کن شخصیت کے مالک ہیں۔ تو وہ کہتے ہیں کوئی فری لنچ نہیں ہوتا تو وہ واقعتا فری لنچ نہیں ہے۔ اب پاکستان کیلئے یہی ایک صورتحال ہے جو زیادہ تشویش کا سبب بن گئی پاکستانی نقطہ نظر میں۔ پاکستان کے چائنہ اور امریکہ کے ساتھ سٹریٹیجک نوعیت کے تعلقات ہیں ۔ چائنہ سے تعلقات بہت زیادہ گہرے ہیں اور پاکستان کے عوام امریکہ کے مقابلے میں چائنہ پر زیادہ اعتماد کرتے ہیں۔امریکہ چائنہ کا اب اگلا میدان جنگ بننے جا رہا ہے پاکستان۔ اور پاکستان جیسے ہی بیٹل گراؤنڈ بننے جائے گا تو صورتحال زیادہ خراب ہوگی کیونکہ پاکستان کو ان دو ممالک میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ پاکستان امریکہ کو کہہ دے جناب تو آجا تو چائنہ کو کہہ دے تو بھی آجا ایسا ممکن نہیں ۔یہ صورتحال چائنہ کیلئے قابل قبول نہیں ہوگی لہٰذا پاکستان کو منرلز کو ایکسپلور کیلئے ٹیکنالوجیکل پارٹنر شپ درکار ہے ۔

پوری ویڈیو کی تفصیل ویڈیو پر سن سکتے ہیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جولائی 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

پاکستان پوری دنیا کی طاقت کا مرکز بننے جارہا ہے اس کی 5بنیادی وجوہات ہیں جس کا انکار ممکن نہیں

نمبر1:

قرآن کے واضح آیات محکمات کودنیا نے عملی جامہ پہنایا ہے لیکن مسلمان مذاہب کی تقلید کی وجہ سے یہودونصاریٰ کے نقش قدم پر خود اس سے محروم ہیں۔ میاں بیوی میں صلح کیلئے حلالہ کی لعنت کھڑی کرنا اور عورت کی رضامندی کے بغیر رجوع کی اجازت دینا جاہلیت اولیٰ کی زندہ شکل ہے۔

نمبر2:

پاکستان میں جتنی مذہبی اور جمہوری آزادی ہے اور اس کا استعمال غلط طریقے سے ہورہاہے لیکن یوٹیوب، فیس بک، واٹسپ اور جدید ترین میڈیا پر حق کی اشاعت کے بعد باطل کا ٹھہرنا ممکن نہیں ہے۔ موجودہ ریاستی، عدالتی، سیاسی اور مذہبی نظام سے لوگ تنگ آمد بجنگ آمد کے قریب ہیں۔

نمبر3:

پہلے دولت کی سب سے بڑی بنیاد تیل تھی جس نے جاہل عربوں کو دولتمند بنادیا اور اب معدنی ذخائر ہیں۔ گاڑیوں، جہازوں اور خلائی شٹل سے لیکر دنیا کی ہر چیز کیلئے معدنی ذخائر بنیاد ہوگی جس میں الیکٹریکل توانائی سٹور بالفاظِ دیگر چارج ہونیکی صلاحیت پر ہوگی اور پاکستان اصل بنیاد ہے۔

نمبر4:

براعظم ایشیا اور یورپ کو تیز رفتار ٹرینوں کے ذریعے سستا ترین تجارتی سامان اور سفری سہولت کیلئے ملایا جائے گا۔ جس کیلئے واسکو ڈیگاما نے مشکلات برداشت کیں اور اسی میں امریکہ بھی دریافت ہوا تھا۔ آج ہندوستان پر قابض ظالم قوتیں پرتگال،فرانس اور برطانیہ سمٹ کر محدود ہوگئی ہیں۔

نمبر5:

دریائے سندھ کا قدرتی بہاؤ پاکستان اور ہندوستان کیلئے سب سے بڑی دولت ہیں۔ جن سے برصغیر پاک وہند دنیا میں جنت نظیر بن جائے گا۔ عراق میں دریائے دجلہ و فرات سوکھ گئے ہیں اگر برصغیر پاک و ہند کو ان مشکلات کا سامنا ہوا تو پھر یہاں کی آبادیاں ویرانیوں میں بدل جائیں گی۔

عرب کے خلیجی ممالک یمن، عرب امارات، عمان، کویت، قطر اور بحرین مقبوضہ برطانوی ہند کا حصہ تھے جن کو خفیہ انداز میں انتظامی اعتبار سے آزادی ہندسے تین ماہ قبل پردے میںالگ کردیا گیا تاکہ تیل اور سمندری راستوں پر قبضہ برقرار رکھاجائے اسلئے 1971ء میں خلیج سے برطانیہ نکلاتھا۔

جمہوریت اور مقبولیت میں فرق

رسول اللہ ۖنے اپنے چند صحابہ کرام سے جس تحریک کا آغازکیا تو اکثریت مخالف تھی لیکن پھر ایسی مقبولیت مل گئی کہ اپنے دور کی دونوں سپرطاقتیں روم اور فارس اس قبولیت کے آگے سر نگوں ہوگئی تھیں۔

فرمایا: وان تطع من فی الارض یضلوک عن سبیل اللہ ان یتبعون الا الظن وان ھم یخرصون (انعام :116)

” اور اگر آپ نے اطاعت کی جو زمین میں اکثر ہیں تو اللہ کی راہ سے تجھے گمراہ کردیںگے۔وہ گمان پر چلتے ہیں اور چالیں چلتے ہیں”۔

لوگ حق اور باطل کو نہیں دیکھتے بلکہ جہاں اکثریت دیکھتے ہیں تو اس کی وکالت شروع کردیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے لوگ ان کو لیڈر سمجھ لیتے ہیں اور پیچھے چلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ پختونخواہ کے حالات بہت خراب ہیں لیکن پنجاب کا موازنہ کیا جائے تووہ اس سے بھی بدتر ہیں۔ جہاں روزانہ کے اعتبارسے انتہائی ظالمانہ واقعات رپورٹ ہوتے ہیں اس طرح بلوچستان کے حالات واقعی خراب ہیں لیکن سندھ کے حالات بلوچستان سے بھی زیادہ خراب ہیں۔ چلو دوصوبوں میں جنگ کی حالت ہے لیکن باقی دو صوبوں میں پھر کیا ہے؟۔ ہم نے اپنے گھر، محلہ، گاؤں، شہر ، تھانہ ، تحصیل ، ضلع اور ڈویژن کی سطح سے ملک ، خطے اور بین الاقوامی حالات کو ٹھیک کرنے کا تہیہ کرنا ہوگا۔ پھر حالات بدلنے میں دیر نہیں لگے گی۔قرآن وسنت مسائل الجھانے کیلئے نہیںسلجھانے کیلئے تھے۔ واضح آیات کو معروف تعمیر کی جگہ منکر تخریب بنانے والے شرم کریں۔

رسول اللہ ۖ سے ایک اعرابی نے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ عرب اپنے آباء واجداد کے دین کو چھوڑ دیں گے اور آپکا دین قبول کرینگے؟ اور یہ بات بالکل سمجھ سے بالاتر ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ آپ کے کمزور ساتھی فارس وروم کو شکست دے دیں گے۔یہ کوئی ماننے والی بات ہے؟ اور آپ کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد قیامت کے دن سب زندہ ہوں گے تو آج تک کبھی کوئی زندہ ہواہے؟۔ میری سمجھ میںیہ کیسے آسکتا ہے؟۔ جس پر نبیۖ نے فرمایا کہ ”پہلی دو چیزیں تم اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے۔ قیامت کے دن میں تمہارا ہاتھ پکڑ کر بتاؤں گا کہ ہوا کہ نہیں مانتے؟۔

جب مکہ فتح ہوا اور عرب جوق در جوق مسلمان بن گئے تو اعرابی نے دوڑ لگائی اور کسی دوسرے ملک میں چلا گیا۔ پھر جب حضرت عمر کے دور میں فارس وروم فتح ہوگئے تو اس نے مدینہ میں آکر اسلام قبول کیا۔ جس پر حضرت عمر نے بہت پروٹوکول دیا تو لوگ حیران ہوگئے کہ اس کی شکل تو پرٹو کول والی نہیں لگتی۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ ” جب نبیۖ سے سوال جواب ہورہے تھے تو میں بھی موجود تھا۔ نبیۖ نے اس کو ہاتھ سے پکڑ کر جنت لے جانا ہے اور پھر میری بھی یہ وہاں سفارش کرے گا”۔

جب پاکستان کی ہاں اور ناں میں دنیا کے فیصلے ہوں گے تو پھر صوفی برکت علی لدھیانوی کے دارالقرآن فیصل آباد میں لوگ حاضری دینگے کہ بابا نے بالکل سچ فرمایا تھا اور لوگ اللہ کے ولیوں کو مان لیںگے۔
٭٭

برصغیرپاک وہندسے دنیا خوشحال

پرتگال ، فرانس اور برطانیہ کوہِ ہمالہ کی طرح ہیبت رکھتے تھے مگرآج سمٹ کر رائی بن گئے۔ پرتگال کا واسکو ڈیگاماہندوستان کے یورپ سے سمندری راستے کی تلاش میں نکلا اور امریکہ دریافت کرلیا۔ جب سمندر سے ہندوستان تک پہنچنے میں کامیابی مل گئی تو اس سفر میں بھی بہت لوگ قربان ہوگئے مگر کچھ زندہ بچے تھے اور اس دریافت پربڑا جشن منایا گیا ۔

برطانیہ نے جاتے جاتے نہ صرف کشمیر کا چھرا مسلمانوں کی پشت میں گھونپا بلکہ تقسیم پنجاب کے فارمولہ کے مطابق مسلم اکثریتی اضلاع گورداسپور اور فیروز پور بھی پاکستان کا حصہ بنتے۔ جس کی وجہ سے پھر کشمیر اور دریائے ستلج، راوی اور بیاس پر بھی بھارت قبضہ نہیں کرسکتا تھا اور بھارت کا کشمیر اور ان دریاؤں سے راستہ منقطع ہوجاتا۔ پھریکم ایریل 1948ء میں ہی بھارت نے ستلج، راوی اور بیاس کا راستہ بند کردیا۔

دریاؤں کے بہاؤ کا قدرتی نظام متاثر ہوتو خشک سالی اور برف کے ذخائر پگھلنے سے سیلاب آتے ہیں اور زندگی اجیرن بن جاتی ہے۔ آبی ماہر حسن عباس نے بتایا دنیا کی سب سے بڑی دولت یہ دریائے سندھ کی شاخیں ہیں جو نہ صرف برصغیر پاک وہندبلکہ دوسرے علاقوں میں بھی اس سے بڑے ڈیم بن سکتے ہیں اور ہم امیر ترین ممالک بن سکتے ہیں۔ ہندوستانی و پاکستانی بھائی چارہ سے نہ صرف پانی کا قدرتی نظام بحال ہوکر خطہ رشک قمر بن جائے گا بلکہ تیز رفتار ریلوے لائن اور بسوں کے ذریعے فلپائن ،تائیوان،میانمار ، تھائی لینڈ، نیپال ، ہندوستان کو براستہ پاکستان ، ایران اور ترکی یورپ سے ملا سکتے ہیں۔ یورپ اور امریکہ کے برعکس ہمارا طرزِ عمل جابرانہ ،غاصبانہ اور ظالمانہ نہیں ہوگا بلکہ باہمی رضا مندی سے یورپ اور ایشاء کے درمیان سستی اور منافع بخش تجارت ہوگی اور انسانیت کو جنگ کی تباہ کاری اور فضائی آلودگی سے نکال کردنیا میں سبھی کیلئے جنت کو یقینی بنائیںگے۔ انسانی اور مذہبی آزادی کا ماحول اور انسانیت کو فروغ ملے گا۔ دشمنی، بغض وعناد، حسد، ظلم وجبر ، نا انصافی اور نسلوں اور زبانوں کی بنیاد پر حقارت و فضیلت کے معیارات ختم کرنے ہوںگے۔ اچھے کو جزا اور زیادتی کے مرتکب کو سزائیں ملیں گی۔

جس طرح ہم میں مختلف فرقے مشرک وبدعتی ہیں، یہودونصاریٰ میں بھی اسی طرح سے تھے۔ قرآن میں اللہ نے سچا حکم دیاکہ” کہہ دو کہ اے اہل کتاب آؤ اس بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے۔ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔ اسکے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریںاور ہم اپنے بعض کو بعض کا اللہ کے سوا رب نہ بنائیں، پس اگر وہ منہ پھر لیں تو کہو کہ تم گواہ رہو کہ ہم بیشک مسلمان ہیں”۔

اگر سود کو جواز فراہم کرنے والے مفتی تقی عثمانی ومفتی منیب الرحمن کو اللہ کے علاوہ رب نہیں بنایا ہے تو پھر قرآنی آیت کا کوئی مصداق نہیں۔ سارے مذاہب والے ایک خدا کو مانتے ہیں اور اسی کی عبادت کرتے ہیں مگر اپنے مذہبی طبقات نے اللہ کے علاوہ رب بناکر کام خراب کیا ہے
٭٭

جو تمہیں محروم کرے تم اسے عطا کرو

نبیۖ نے فرمایاکہ ”جو تجھے محروم کرے تو اسے عطا کر ، جو تجھ پر ظلم کرے تو اسے معاف کر اور جو تجھ سے تعلق توڑے تو اسے جوڑ”۔

سود کی حرمت کا حکم نازل ہوا ،نبیۖ نے مزارعت کو سود قراردیا۔ لونڈی اور غلام مزارعت سے بنتے تھے ۔ غزوہ بدر میں 70قیدیوں میں کوئی غلام نہیں بنایا گیا اور جنگی قیدی کو غلام بنانا ممکن نہیں۔ ابھی نندن کو مفتی طارق مسعود اپنی بیگم کا غلام بناتا؟۔ اگربیوی کہتی کہ مجھے گفٹ کرو تو مفتی طارق مسعود پر کیا گزرتی؟۔ مفتی طارق مسعود نے جنگی قیدیوں کیلئے فدیہ لیکر آزاد کرنے یا احسان کرکے چھوڑ دینے کا حکم قرآن سے اخذ کیا ہے۔ لیکن تیسرا حکم من گھڑت بتایا ہے کہ غلام اور لونڈی بناؤ۔

قرآن میں کہیں بھی غلام اور لونڈی بنانے کا حکم نہیں ۔ مفتی طارق مسعود کہتا ہے کہ” اسلام کا احسان ہے کہ عورتوں کو لونڈی اور مردوں کو غلام بنانے کا حکم دیا۔ اگر یہ نہ ہو تو مجاہدین بھی نہیں مانیںگے کہ ہم نے ملک فتح کیا تولوگوں کو لونڈی و غلام کیوں نہیں بنائیں؟۔ اگر عورتوں کو لونڈی بنانے کے بجائے آزاد چھوڑ یں تو بے راہ روی پھیل جائے گی”۔ کیا اسرائیل غزہ وفلسطین کی مسلمان خواتین کو لونڈیاں بنائیں یا پھر جیسے امریکہ ونیٹو نے افغانستان اور عراق کو فتح کیا تو لونڈیا ں بناتا؟۔

قرآن نازل ہونے سے پہلے یہ مذہبی مسائل تھے کہ شوہر اکٹھی 3 طلاق دیتا تو حلالہ کے بغیر رجوع نہیں کرسکتا تھا لیکن ایک طلاق دیتا تھا تو رجوع کا سلسلہ جاری رکھ کر عورت کو عذاب میں ڈالتا۔ اللہ نے دونوں طرح کے مسائل کا ایک ہی آیت البقرہ228میں خاتمہ کردیا کہ عدت میں صلح کی شرط پر انکے شوہر ان کو لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں۔ اصلاح اور معروف کے بغیر طلاق رجعی کا خاتمہ کردیا اور اکٹھی تین طلاق میں عدت کے اندر رجوع کا حکم واضح کرکے حلالہ کی لعنت کا خاتمہ کردیا۔

سورہ بقرہ آیت228سے پہلے اور بعد کی آیات اور سورہ طلاق کی پہلی دو آیات میں عورت کے مسائل کا جس طرح سے حل نکالا ہے ۔ پھر علماء ومفتیان نے جس طرح قرآن کی بوٹیاں بناکر ٹکڑے کیا ہے تو کسی اور معاملے میں ان کی سمجھ میں آسانی سے بات نہیں آئے گی ۔ البتہ شعور و آگہی آجائے گی تو پھر بچہ بچہ سمجھے گا اور دنیا میں اسلام کا ڈنکا بجے گا۔

جب علماء قرآن وسنت کے منافی رسم جاہلیت پر میاں بیوی کے درمیان صلح کا راستہ روکیںگے ، حلالہ کی لعنت کو شرط قرار دیںگے اور اس راہداری پر لذت آشنائی کا خراج وصول کریںگے اور ملکوں کو فتح کرکے دوسروں کی ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کو لونڈی بنانے کے خواب دیکھیںگے تو اللہ اپنی مخلوق پر اس فرعونیت کو مسلط کرے گا؟۔ نہیں ہرگز بھی نہیں۔ قرآن میں نکاح کے حقوق ہیں، نکاح کی استطاعت نہ رکھنے والوں کیلئے ایگریمنٹ کی ا جازت ہے اور اس سے مراد لونڈیاں یا متعہ نہیں ۔عمران خان کا ریحام خان سے نکاح نہیں ایگریمنٹ تھا جیسا کہ ہرپاکستانی کا ہوتا ہے۔ اگرنکاح ہوتا تو بنی گالہ گھر کی وہ مالک بن جاتی۔
٭٭

مجادلہ اور مکالمہ اسلام کی روشنی میں

مجلس احراراسلام کے پہلے صدر سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور جنرل سیکرٹری اہلحدیث مولانا داؤد غزنوی تھے ۔دوسری بار سیدالاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی صدر ،شیعہ مولانا مظہر علی اظہر ایڈوکیٹ جنرل سیکرٹری تھے۔ جس طرح ایران سے تیل وگیس لینے پر مشکلات ہیں، اسی طرح پاکستان اور ہندوستان کے درمیان نفرت کے بیج بوئے گئے۔ مجلس احرار الاسلام کامنشور ” حکومت الٰہیہ” کا قیام تھا۔بخاری نے قائد اعظم سے مطالبہ کیا کہ” بنگال کو الگ آزاد ملک بننے دو اور پنجاب پورا لو اور کشمیر کو متنازعہ مت چھوڑو۔ میں سپاہی بن کر پاکستان کیلئے لڑوں گا”۔

اگر خطے کی حالت درست ہوئی تو بھارت کشمیر اور پنجاب کے مسلم اکثریتی ضلعے جہیز میں دے گا۔فوجی کیپٹن بھرتی ہوتا ہے تو ڈسپلن کے بندھن میں جکڑا رہتا ہے۔جب آرمی چیف بنتا ہے تو پھر آزادی ملتی ہے اور تین سال تک تو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوتا ہے۔ پھر جب مدت ملازمت بڑھ جاتی ہے تو ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل ایوب خان تخلیق کرتا ہے اور نوازشریف کی کشیدہ کاری کا پھر جنرل ضیاء الحق آرکیٹیکٹ بنتا ہے اور عمران خان کو جنرل پرویز مشرف گلے کا ہار بناتا ہے۔ پھر سب اپنے بنائے ہوئے زنداں میں محبوس رہتے ہیں۔ محمود خان اچکزئی کی یہ بات درست ہے کہ ” کم بخت لیڈر بنائے نہیں جاتے بلکہ پیدا ہوتے ہیں”۔ قرآن میں سورہ مجادلہ کے اندر پہلے عورت کے اپنے حق مانگنے کو مجادلہ قرار دیا ہے اور پھر اس مکالمے میں اللہ نے رسول اللہۖ اور مذہبی ماحول کے مقابلے میں عورت کی تائید فرمائی گئی ہے۔

حق مانگنے والوں کو کچلا نہیں جاتا ہے بلکہ حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ انصار کے جوانوں نے اپنے حق کیلئے چہ مگوئیاں کیں تو رسول اللہۖ نے مطمئن کردیا۔ یہود سے میثاق مدینہ اور مشرکین مکہ سے صلح حدیبیہ کو دشمنوں سے سلوک کا بہترین نمونہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ ”اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہوسکتے۔ ٹال دو احسن انداز سے تو آپ اور جس میں دشمنی تھی وہ بیشک ایسا بن جائیگا کہ گویاگرم جوش دوست تھا”۔

قرآن نے کسی مذہبی ، لسانی ، قومی، ملکی اور خاندانی تشخص کے بغیر کہا ہے کہ ”جس نے ایک جان کو قتل کیا توبغیر کسی جان یا فساد کے تو اس نے گویا تمام لوگوں کو قتل کردیا” (سورہ المائدہ آیت32) جب قرآن سے ہٹ کر ایک پختون پر پنجابیوں کو قربان کرنے کی بات ہوگی یا پاکستانی پر افغانیوں کے قربان کرنے کی بات ہوگی تویہی فتنہ و فساد کا باعث بنتا ہے جب فوجی، غیرفوجی، پختون، بلوچ، پنجابی،سندھی ، مولوی ،عوام اورکافر ومسلم کی جان کا فرق رکھا جائے گا تو یہ فتنہ فساد اور اللہ اور اسکے رسول ۖ سے جنگ ہے جس کا اگلی آیت میں ذکر ہے۔ غزہ کے لوگ جنگ بندی کیلئے ترستے ہیں لیکن یہ نہیں سمجھتے کہ طوفان اقصیٰ میں یہود کی ننگی عورتوں کو لپیٹ کر لایا گیاتو وہ چھوڑیںگے؟ 2005ء میں غزہ کی پٹی سے یہود کا انخلاء اسرائیل کا بہترین اقدام تھا۔ اگر خورشید قصوری نے اسرائیل سے تعلق بہتر بنایا ہوتا تو غزہ کی عوام مشکل کا سامنا نہ کرتی ۔جرمنی نے افغان طالبان کیخلاف قرارداد پیش کی، جس کی پاکستان سمیت 116 ممالک نے حمایت کی مگر امریکہ و اسرائیل نے مخالفت کی۔حدیث میں عسقلان کو رابطہ اور صلح کیلئے بہترین بنیاد بنایا جاسکتا ہے مگر ہم خود جنگ کے شکارہیںاور بڑی سازش کی لپیٹ میںآ سکتے ہیں۔
٭٭

تاریخ سے سبق اور جدا جدا مزاج

امیر معاویہ کو حسن و حسین کی بدولت اقتدارملا اوریزید کو اقتدار اور خلافت کو موروثیت سے روکنا حسین کی فرض شناسی کا بہترین نمونہ تھا۔

یزید ی فوج نے مدینہ پر حسین کی شہادت اور مظالم کے پہاڑ توڑنے کے بعد مکہ مکرمہ کا رُخ کیا تو راستہ میں سربراہ مسلم بن عقبہ مرگیا اور حصین بن نمیر سربراہ مقرر ہوا ۔ جس نے 64دن تک مکہ کا محاصرہ جاری رکھا اور پھر یزید کے موت کی خبر آئی۔ اس وقت عبداللہ بن زبیر بہت معروف ہستی تھی اور حصین بن نمیر نے عبداللہ بن زبیر سے بیعت اور خلیفہ بنانے کی خواہش ظاہر کی۔ا بن زبیر نے کہا کہ ”جب تک ایک ایک حجازی کے بدلے میں دس دس شامیوں کو قتل نہ کردوں تو یہ نہیں ہوسکتا”۔یہ جواب سن کر ابن نمیر نے کہا کہ ” جو آپ کو عرب کا مدبر کہتا ہے وہ غلطی پر ہے۔ میں خفیہ راز کی بات آپ سے کہتا ہوں اور آپ چلا کر اس کا جواب دیتے ہیں۔میںخلافت دلانا چاہتا ہوں اور آپ جنگ اور خونریزی پر آمادہ ہیں”۔ معاویہ بن یزیدنے زین العابدین کو خلافت دینا چاہی پھر مروان خلیفہ بنایا۔ ا بن زبیر کومروان شکست نہیں دے سکا ۔عبدالملک بن مروان کے گورنر حجاج نے ابن زبیرسے جنگ کی تو ابن زبیر نے اپنی ماں سے کہا کہ ہتھیار ڈال دیتا ہوں، میری لاش کیساتھ بہت برا ہواتوآپ کو دکھ ہو گا۔ ماں ابوبکر کی بیٹی اسماء نے کہا کہ ”بیٹا! مجھے ہتھیار ڈالنے پرزیادہ تکلیف ہوگی۔ جب تجھے قتل کیا جائے تو تیری لاش کیساتھ جو بھی ہو تجھے کوئی تکلیف نہ ہوگی”۔ مولانا طارق جمیل کی زبان سے قصہ سن لیں۔ کہاں حجاج اور عبدالملک ،کہاں صحابی عبداللہ ابن زبیر کی المناک شہادت؟۔ مولانا طارق جمیل کی مخالفت میں زمین اور آسمان کی قلابیں ملانے والے صحابہ سے محبت نہیں رکھتے بلکہ مروان بن حکم اور حجاج بن یوسف کی ہی ناجائز اولاد ہیں۔ مروان حاکم تھا ،عبداللہ بن زبیر نے اس کا اقتدار تسلیم نہیں کیا ۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی ، مولانا آصف جلالی یزید، مروان، عبدالملک کے مقابلے میں امام حسین اور عبداللہ بن زبیر سے عقیدت رکھتے ہیں انہی کو خلیفہ مانتے ہیں۔ منتشر مذہبی و سیاسی قیادت کو مذہبی حساسیت کا ادراک نہیں۔مولانا مسعود اظہر سے مجاہدین یا خوارج عقیدت رکھتے ہیں؟۔عبداللہ بن زبیر فتنہ تھے یا عقیدت کے مستحق؟۔ ریاستیں پرائیوٹ جہاد کو استعمال کریں اور پھر کہاجائے یہ جہاد نہیں،تو اس کا وزن کیا ہوگا؟۔

اگر مجھے موقع ملا تو سب سے پہلے تبلیغی جماعت کے دو گروپوں میں صلح کراؤں گا۔ بریلوی دیوبندی،حنفی اہلحدیث، شیعہ سنی مذہبی و سیاسی جماعتوں اور پھر پڑوسی ممالک اور سارے تنازعات کو خوش اسلوبی اور عدل وانصاف کیساتھ حل کروں گا اور تاریخ کی بدگمانیوں کے پردے چاک کروں گا۔اسلئے کہ اس میں میرا اور سبھی کا مفاد ہے۔ انشاء اللہ

حسین شہید ہوگئے تو جنگ بندی پر زین العابدین کا راضی ہوناباقی لوگوں کو بچانے کیلئے بزدلی نہیں فطرت تھی۔ پھر دمشق میں جمعہ کا خطبہ امام زین العابدین نے دیا تھا۔ اگر سعودی، ایرانی، پاکستانی اورافغانی حکمران ہوتے توکیا امام زین العابدین کوخطبہ جمعہ کیلئے چھوڑتے؟۔

ایران نے ساری زندگی اپنی پروکسی کو لڑایا لیکن اسرائیل و امریکہ کا براہِ راست حملہ بہت برا لگا۔ اور فوری جنگ بندی پر بھی آمادہ ہوگیا۔ ایران عالمی ایٹامک انرجی کے سامنے سرنڈر ہے۔

عرب اپنی شاعری میں لوگوں کے ذوق کاکہتے ہیں کہ
تعشتھا شمطاء شاب ولیدھا
و للنا س فیما یعشقون مذاہب
” میں نے بڑھیا سے عشق کیا جسکے بچے تک اب جوان ہوگئے اور لوگوں کے عشق میں اپنی اپنی راہیں ہوتی ہیں”۔ ایک مصرع باربارآیا۔

و من مذہبی حب الدیار لأھلہا
” اور میرا راستہ اپنے دیس کے ہم وطنوں سے محبت ہے ۔….

لک مذہب حب الکفاح وانما
” تیراراستہ تو صرف جدوجہد سے محبت ہے۔………..

و لی مذہب عشقت مھذب
” اور میرا راستہ ہے کہ مہذب عشق کرتا ہوں ۔…………

و للنا س فیما یعشقون مذاہب
وحکمة ربی فی اختلاف المذاہب
” اور لوگ کے عشق میں اپنے اپنے مذاہب ہیں اور میرے رب کی حکمت مذاہب کے اختلاف میں رکھی ہوئی ہے”۔

و للنا س فیما یعشقون مذاہب
شتی، ولکن حب طٰہ مذہبی
” اور لوگ اپنے عشق کی راہوں میں الگ الگ منتشر ہیں لیکن صرف طہ (رسول ۖ )کی محبت ہی میرا مذہب ہے”۔

دوسروں کو چھوڑدو ،اپنی اصلاح احوال سے ابتداء کرو۔
بڑھیں گے اور بھی سلسلے حجابوں کے
کر اپنی بات حوالے نہ دے کتابوں کے
ہٹایا رنگ کا پودا تو زخم زخم تھا
چمن چمن تھے وہی سلسلے سرابوں کے
ابھی وہ حبس ہے خاور کہ دم الجھتا ہے
ابھی کھلے رکھو دروازے اپنے خوابوں کے

ایک دور تھا کہ حیرہ عراق کے عیسائی عرب بادشاہ کی خوبرو شہزادی ہند بنت نعمان بن منذرجو علم واداب کے زیو ر سے بھی آراستہ تھی ۔کسریٰ کے بادشاہ نے رشتہ مانگا۔ ایک عرب لڑکی کو اپنی چھوٹی سی مملکت کے باوجود ایک عجمی شہنشاہ کا رشتہ قبول نہیں تھا تو مجوسی ایرانی مملکت پر چڑھ دوڑا ۔ باپ اور بھائیوں کو قتل کیا اور ہند جان بچاکر شیبان قبیلہ میں پناہ لینے پہنچ گئی۔ پیچھاہوا مگرعرب نے جان پر کھیل کر عجم کو شکست دی اور اس جنگ کو ”ذی وقار” کا نام دیا۔ پھر اسلام نے روم وفارس کو شکست دی اور خالد بن ولید نے ہند بنت نعمان کو شادی کی پیشکش کی لیکن اس نے قبول کرنے سے انکارکیا۔ کچھ مراعات کی پیشکش کی تو اس نے کہا کہ ”میرے دو غلام ہیں جو میرے لئے کھیتی باڑی کا کام کرتے ہیں اسلئے ضرورت نہیں۔ عیسائیوں نے پوچھا کہ کیا بات اس نے تم سے کی؟ تو ہند بنت نعمان نے کہا کہ

صان لی ذمتی واکرم وجھی …انما یکرم الکریم الکریما
” اس نے میری ذمہ داری کا احساس کرکے مجھے عزت بخشی دی اور باعزت شخص ہی باعزت کا احترام کرتا ہے”۔

آخر میں مغیرہ ابن شعبہ نے شادی کی دعوت دی تو اس نے کہا کہ میں بوڑھی نابینا ہوں ۔مجھ سے کیوں ؟۔مغیرہ نے کہا کہ تیری شہرت بھی میرے لئے اعزاز ہے۔ اسلام کے اس امتیاز نے مجوسیت کو نیست و نابود کیا اور اسلام کا یہی امتیازدنیا کی سپر طاقتوں کی شکست کا سبب بنا۔ جب تک ہم مسلمان اپنے معاشرے اور دنیا کو اسلام کا درست تصور نہیں دیں گے تونہ دجال اکبر آئے گا اور نہ مہدی اور نہ عیسیٰ علیہ السلام۔

لوگوں کے عشق ومحبت میں اپنے اپنے راستے ہیں لیکن ہم نے صراط مستقیم پر چلنا ہوگا ، جیسا کہ ہر نماز کی ہر رکعت میں اللہ سے مانگتے ہیں مگر نہ سمجھتے ہیں نہ تلاش کرتے ہیں اور نہ عمل کرتے ہیں اور یہی نفاق ہے۔ اپنی ذات اور اپنے طبقے سے اصلاح کا آغاز حقائق کی بنیاد پر کرنا ہوگا۔
٭٭

پاکستانی جمہوریت اور تاریخی حقائق

1951ء میں مغربی پاکستان کے صرف پنجاب میں الیکشن ہوئے اور یہ محدود بالغ رائے دہی کے تحت ہوئے۔ مسلم لیگ اکثریت سے جیت گئی مگر دھاندلی کے الزامات لگے۔ پاکستان بننے سے پہلے بھی مسلم لیگ پنجاب میں الیکشن ہار گئی تھی۔ پنجاب کے صوبے میں الیکشن 1951 ء کا بنیادی مقصد مشرقی پاکستان کی اکثریت کو برابر کی سطح پر لانا تھا۔ جسکے بعد ون یونٹ کا بدنام زمانہ قانون رائج کردیا گیاتھا ۔ 1955 میں ون یونٹ لایا گیا ،جس میں مشرقی پاکستان کو صوبہ کا درجہ دیا گیا۔

1954ء میں صرف مشرقی پاکستانی میں صوبائی الیکشن ہوئے تھے اور مسلم لیگ کو309میں سے صرف 9نشستیں ملی تھیں۔ جبکہ متحدہ محاذ کو جن میں عوامی لیگ (شیخ مجیب ، مولوی فضل الحق ) نظام اسلام پارٹی اور نیزا ملا جماعتیں شامل تھیں کو 223نشستیں ملیں۔ جن کا مشترکہ ایجنڈا 21 نکاتی تھا۔جن میں بنگلہ زبان کو قومی زبان کا درجہ دینا،آبادی کے تناسب سے اختیارات،کسانوں و مزدوروں کے حقوق ، تعلیم و صحت کی سہولیات شامل تھے۔ عوامی فتح کے باوجود گورنر جنرل غلام محمد نے اس اسمبلی کو صرف دو ماہ بعد توڑ دیا۔ مرکزی حکومت کو یہ برداشت نہیں ہوسکا اور صدارتی فیصلے کے ذریعے عوامی امنگوں اور منتخب نمائندوں کو پامال کیا گیا۔ مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کو دھکا اس اقدام سے لگایا گیا تھا۔

یہ پہلا موقع تھا جب انتخابات کے ذریعے اشرافیہ کو مسترد کیا گیا تھا لیکن اس میں صرف فوج کو ہی ملوث قرار دینا زیادتی ہوگی۔ اشرافیہ اور سول بیوروکریسی بھی اس میں برابر کی شریک تھی ۔

سوال یہ ہے کہ جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کی آمریت کو آج یاد کیا جاتا ہے لیکن جنرل ایوب سے ذوالفقار بھٹو نتھی تھا۔ جنرل ضیاء الحق سے نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف کا ریفرینڈم عمران خان لڑرہاتھا، جنرل قمر جاوید باجوہ کو سب نے ملکر آئین میں20منٹ کے اندر تبدیلی کرکے ایکسٹینشن دیدی تھی۔ پارٹیاں اور ان کے کارکن جو بھی کریں لیکن عوام کو حقائق سے آگاہ رکھنا ضروری تھا۔ کون کون مرغا بننے کو تیار ہے کہ اس نے بہت بڑی غلطی کی تھی؟۔

پاکستان میں 1947ء سے 1955ء تک عبوری نظام تھا۔ الیکشن کا براہِ راست کوئی تصور نہیں تھا۔ صوبائی حکومتیں زیادہ تر گورنر بناتی تھیں اور پھر سول و ملٹری بیوروکریسی کی مشترکہ کاوش کے نتیجے میں 1958ء میں جنرل ایوب خان کا مارشل لاء آیا۔ باجی جمہوریت معطل ہوگئی تو پھر عوام کا اس میں آخر نقصان کیا تھا؟۔ جمہوری نفاق سے یہ کفر بہتر تھا۔

1956ء میں 9سال بعد پاکستان کا پہلا آئین آیا مگر الیکشن نہیں ہوسکے۔ جنرل ایوب نے مارشل لاء کے بعد سیاسی جماعتوں کا خاتمہ کیا اور بنیادی جمہوریت سسٹم متعارف کرایا۔ سیاسی سرگرمیاں بند کی گئیں۔ 1960میں BDسسٹم کے تحت الیکشن ہوا۔ 80ہزار یونین کونسل ممبر عوام نے منتخب کئے ۔40ہزار مغربی اور 40ہزار مشرقی پاکستان سے اور جنرل ایوب خان نے کہا کہ ریفرینڈم میں 95%نے ووٹ دیا۔ 1984ء میں جماعت اسلامی اور مذہبی طبقات کی اکثریت نے جنرل ضیاء الحق کے ریفرینڈم کو ووٹ دیا ۔ انگریز کے دورِ غلامی میں عورتوں کو ووٹ کا حق نہیں تھا اور ووٹ کی بنیادی شرطین تھیں۔ تعلیم ، 21سال عمر، جائیداد ٹیکس شرائط کی بنیادپر 2سے 12% تک ووٹ ڈال سکتے تھے۔ جنرل یحییٰ نے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر قومی وصوبائی ممبران کے ووٹ کا حق دیا اور آج جتنی آزادی اور شعور ہے اس میں دسمبر1970ء کے الیکشن کا بڑا بنیادی کردار ہے ۔ نگران وزیراعظم معین قریشی نے قبائل کو بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر 1997ء میں ووٹ کا حق دیا تھا۔
٭٭

عالمگیر انقلاب کا طرز منہاج النبوة

قرآن میں مسلمانوں کے بدترین دشمن یہود اور مشرکین مکہ کو قرار دیا گیا ہے لیکن رسول اللہ ۖ نے میثاق مدینہ میں یہود کیساتھ برابری کی سطح پر معاہدہ کیا۔ مسلمانوں کی طرح انکے خون، عزت اور مالی حرمت کو مقدس قرار دیا۔ مشرکین مکہ سے صلح حدیبیہ کا وہ معاہدہ کیا جس کی نظیر آج تک دنیا لانے سے قاصر ہے۔ کچھ عورتیں مسلمان بن کر بھاگ کر آئیں تو اللہ نے امتحان لینے کا حکم دیا تاکہ دھوکہ سے بچ جائیں۔ پھر ان کو واپس لوٹانے سے اس صورت میں منع کیا کہ جب وہ سازش کے تحت نہیں بھیجی گئی ہوں۔ اور یہ واضح کیا کہ وہ ان کیلئے حلال نہیں ہیں اور یہ ان کیلئے حلال نہیں ہیں۔ اسلئے کہ واپس بھیجنے کی صورت میں ان پر بڑا تشدد بھی ہوسکتا تھا اور ان کی جان عزت کی جگہ جنسی تشدد کیلئے رہ جاتی۔

اللہ تعالیٰ نے ان کی عورتوں کو ان کے مظالم سے بچانے کی تدبیر کردی کہ ان کا حق مہر ادا کرکے ان سے شادی کرسکتے ہیں۔ اللہ نے لونڈی اور ایگریمنٹ والی کیلئے بھی حق مہر کو فرض قرار دے دیا ہے۔

انسانی غیرت کے احساسات کا اتنا خیال رکھا ہے کہ جب مشرکین کی بیویاں بھاگ کر آئی ہیں تو تم بھی اپنی کافرات عورتوں سے مت چمٹو اور ان کو انکے پاس بھیج دو۔ بے غیرت اور بے ضمیر لوگ اس ادلہ بدلہ کی تفسیر کو کہاں سمجھ سکتے ہیں؟۔ مگر غیرتمند وںکی روح میں اترجاتی ہے۔

اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر لالچی طبقات کیلئے قرآن نے یہ اصول وضع کردیا کہ ”مشرکین مکہ نے ان بھاگی ہوئی خواتین پر جو خرچہ کیا ہے تو وہ ان کو واپس کردو اور جو تم نے خرچ کیا ہے وہ بھی لے لو”۔

یہ دورِ جاہلیت کا اصول تھالیکن اس سے بھی چار قدم آگے بڑھ کر اللہ نے فرمایا کہ ” اگر تمہاری کافر خواتین تمہیں اپنا خرچ کیا ہوا مال نہیں دیں اور تم ان سے بدلہ لینا چاہو تو پھر ایسا مت کرو کہ بدلے میں دوسری خواتین کا حق روک لو۔نہیں نہیں ہرگز نہیں۔تم ان کو پورا پورا مال واپس کرو اور اللہ سے خوف کھاؤ۔ اللہ پر ایمان کا یہ نتیجہ ہونا چاہیے”۔

مترجمیں اور مفسرین نے واضح آیات کے بالکل برعکس الٹا معنی لیا ہے کہ اگر تمہاری چھوڑی ہوئی عورتیں تمہیں خرچ کیا ہوامال واپس نہ کریں تو تم بھی بدلے میں دوسروں کو یہ سزا کے طور پر کرو۔ جب حماس کے مجاہدین نے یہودی عورتوں اور بچوں کیساتھ حسن سلوک کیا تو سب مسلمانوں کے سر فخر سے بلند ہوگئے۔ جان، مال اور عزتوں کا تحفظ کسی جنس، مذہب ، دین ، قوم، سیاسی پارٹی ، دوست اور دشمن سب کیلئے برابر ہے۔ جب کسی کی انا کو قربان کیا جاتا ہے تو عرش لرز جاتا ہے۔ ظلم وجبر سے روکنا ایک بالکل الگ بات ہے اور کسی پر ظلم وجبر کرنا الگ بات ہے اور جن لوگوں کو اس کی تمیز نہیں ہوتی ہے تو وہی لوگ غلط کرتے ہیں۔

ایک مرتبہ تحریک انصاف کا جلسہ نرسری شارع فیصل کراچی میںختم ہوا توسڑک کی دوسری طرف پختون لڑکے نے دوسروں سے کہا کہ جیو والے عمران خان کے خلاف ہیں اور ان کی گاڑی کھڑی ہے۔ میں نے اپنے دوست اشرف میمن سے کہا کہ صحافیوں کو بچاتے ہیں۔ مظہر عباس اور ماریہ میمن وین کی چھت پر تھے۔ جب انکے خلاف نعرے لگے تو ہم نے ان کے حق میں آزاد صحافت کے نعرے لگائے اور مظہر عباس سے گرم جوشی کیساتھ ہاتھ ملایا۔ پھر دوسرے لوگوں نے بھی ملایا اور ان شر پسندوں کے عزائم ناکام ہوگئے۔ آج وہی صحافی تحریک انصاف کیلئے سب سے مؤثر آواز ہیں۔ مظہرعباس کا عمران خان کے بارے میں کوئی مؤقف نہیں بدلا ہے لیکن اپنی پسندوناپسند کی بنیاد پر اور ڈالر کمانے کیلئے صحافت نہیں کی جاتی ہے۔ صحافت کا بلند معیار ہے تو آسمانی صحائف پر ایمان والوں کا کیا معیار ہونا چاہیے؟۔ یہ انقلاب سے معلوم ہوگا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جولائی 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv