پوسٹ تلاش کریں

برہمن نول کشور اور قرآن کی عظیم خدمت

قرآن کے نسخے برصغیربلکہ چین سے ترکی تک مسلمانوں کے گھر گھر میں پہنچانے کا کام کسی عالم دین نے نہیں کیا بلکہ ایک برہمن نے کیا تھا ،جسے ہندوستان میں منشی نول کشور کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ اٹھارہویں صدی میں پرنٹنگ انقلاب کے دوران جب نول کشور نے لکھنو میں ہینڈ پریس کا آغاز کیا تو سب سے پہلے مختلف مذاہب کی مقدس کتابوں کی اشاعت کی تھی جن میں قرآن پاک کے نسخے بھی شامل تھے ۔ جس کے بعد نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کے بڑے حصے میں قرآنی نسخوں کو گھر گھر پہنچایا جاسکا جو اس سے قبل نادر تھے یا پھر شہر کے امرا یا اشرافیہ کے ہاتھوں میں تھے مگر نول کشور کے ایک روپیہ آٹھ آنے کے قرآنی نسخوں نے ناظرہ کو آسان بنایا اور ساتھ ہی ترجمہ مہیا کرایا جو مسلمانوں کیلئے بڑا تحفہ تھا۔

منشی نول کشور نے پرنٹنگ کے کاروبار کیساتھ مذہبی کتابوں کااحترام کیا،ہر کسی کے مذہبی جذبات کا خیال اورکام میں معیار کو اہمیت دیتے ۔ قرآن کے نسخوں کی پرنٹنگ سے قبل اعلیٰ ساکھ والے حفاظ اکٹھے کئے، ان کو زیادہ تنخواہوں پر ملازمت دی،قرآن کی چھپائی میں شامل اسٹاف مسلمان ہوا کرتاتھا۔ کتابت والے کیلی گرافرس یعنی خطاط و خوش نویس کو سخت ہدایت تھی کہ بلا وضو کتابت نہیں کریں گے۔ ملازمین کو کام سے قبل وضو کی سخت ہدایت تھی، چھپائی سے قبل پریس صاف کیا جاتا اور فرش پر صاف چادریں بچھائی جاتیں، تاکہ کوئی کاغذ زمین پر نہ گرے، جہاں قرآن کی بائنڈنگ ہوتی تھی وہاں کسی شخص کو جوتوں کیساتھ داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔اسلامی تصنیفات کے سلسلہ میں پاکیزگی و طہارت کا پورا خیا ل رکھا۔ شائع ہونے والی ادبی کتابوں کی فروخت کافی تھی ۔ ایک زمانے میں پاکستان سے جو وفد اجمیر شریف کے عرس پر آتاتو مطبع نول کشور کے کچھ حضرات ان کتابوں کے نمونے لے جاتے اور ان کو دکھاتے تھے اور پاکستان کے کتب فروش ان کتابوں کا آرڈر دیتے تھے ۔

منشی نول کشور3 جنوری 1836کومتھرامیں پیداہوئے، والد کانام پنڈت جمنا پرشاد تھااور علی گڑھ کے زمیندارتھے،نول کشورنے آگرہ کالج سے تعلیم حاصل کی، پھر اخبار سفیرآگرہ میں مضامین لکھے۔ مقبولیت ملی تو لاہور کے ہر سکھ رائے جی نے اپنے اخبار کوہ نور کیلئے طلب کرلیا ۔ 1853میں نول کشورکچھ کر دکھانے کے جذبہ سے لاہور پہنچے۔ ہرسکھ رائے جی کے اخبار اورپرنٹنگ پریس کی ملازمت کرلی۔ ہر سکھ رائے جی اس قدر متاثر ہوئے کہ چھاپہ خانے پرنٹنگ پریس کی تمام ذمہ داریاں انکے سپرد کر دیں ۔ رفتہ رفتہ منشی جی نے اس میدان کی باریکیوں کو بخوبی سمجھ لیا، آخر میں سکھ رائے جی سے اختلافات کے بعد آگرہ لوٹ آئے ۔

آگرہ میں سکون نہیں ملا ،کچھ کرنے کا جوش لکھنو لے گیا، جو غدر کے بعد سماجی و ثقافتی طور پر بکھرا ہوا تھا ۔ نول کشور کے پوتے کے پوتے لو بھارگو نے ایک انٹرویو میں کہا کہ جب دادا جی منشی نول کشورلاہور سے لکھنو آئے اور پیشہ طباعت سے وابستہ ہوگئے تو رکاب گنج لکھنومیں ایک چھوٹا موٹا چھاپہ خانہ مطبع نول کشور کے نام سے قائم کیا جس میں ہاتھ کا پریس استعمال ہوتا تھا پھر ترقی کرکے منشی جی کی پہچان ناشر کی حیثیت سے مستحکم ہوگئی ۔طباعت کا کام اس قدر بڑھا کہ پریس کی جگہ چھوٹی پڑگئی چنانچہ حضرت گنج میں بڑی جگہ پر چھاپہ خانہ کو توسیع دی۔ بعد میں یہ سڑک انہی سے منسوب ہوئی توجو اب منشی نول کشور روڈ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ منشی جی نے ہفت روزہ اخبار جاری کیا جس کو بعدمیں سر سید احمد خان کے مشورہ سے روزنامہ کر دیا۔92برس کی عمر پانے والا یہ روزنامہ اودھ اخبار کے نام سے مشہور ہوا۔پریس نول کشور برصغیر کے سب سے بڑے پبلشنگ ہاوس میں سے تھا۔ 37سا ل میں اردو، فارسی ، سنسکرت ہندی کی4 ہزار سے زیادہ کتابیں شائع کیں۔ ہندو ،مسلمانوں اور سکھوں کی مقدس کتابیں شامل تھیں، نول کشور پریس کا ملک بھر میں جال بچھایا۔ اس میں 1200 سے زیادہ ملازم تھے جبکہ3 سو پریس مین 3سو ہینڈ مشین چلاتے۔ جرمنی سے کاغذ تیار کرنے کیلئے مشین منگائی تاکہ کاغذ سستا اور قلت کا شکار نہ ہو، انہیں ہندوستان کا ولیمس کیسٹن کہا گیا جس نے چودھویں صدی میں پرنٹنگ پریس سے دنیا کو رو برو کرایا ۔

نول کشور پریس لکھنو کا تھا مگر اس کی شاخیں الہ آباد، کانپور، آگرہ، دہلی، لاہور، پٹیالہ، اجمیر اور جبل پور وغیرہ میں تھیں ۔ اس کی شہرت ہندوستان کے باہر دوسرے ممالک میں بھی تھی۔ اچھی طباعت سے افغانستان ، ایران ، مصر ، لندن، ترکی، برما، عراق اور افریقی ممالک سے بھی آرڈر ملتے تھے ۔ منشی جی نے فارسی کتابوں کی اشاعت میں خاص دلچسپی لی چنانچہ تفسیر، حدیث اور فقہ کی مستند کتابوں کے فارسی تراجم کرائے۔ شاہنامہ فردوسی بڑے سائز میں تین حصوں میں شائع ہوا۔ اس کا اردو ، ہندی ترجمہ کرایا۔ پیرہن یوسفی منظوم کا اردو ترجمہ چھ حصوں میں ، جواہر الاسرار تین جلدوں میں ، کلیات شمس تبریز (مولانا روم کا کلام) دیوان شمس تبریز ، کلیات عارفی اور کلیات غالب وغیرہ منشی نول کشور کے مطبع سے شائع ہوئے۔منشی جی کے وارث لو بھارگو کہتے ہیں کہ” ہمارے والد راجہ رام کمار بھارگو بتاتے تھے کہ پریس میں اشرف علی نسخ نستعلیق کے بہترین کاتب تھے۔ طغری نویسی میں نور خا ں کا جواب نہیں تھا۔ وہ فن کے استاد تھے۔ احمد علی معکوس نویس تھے (الٹی تحریر جسے مرر امیج کہتے تھے )اور اپنے فن میں انہیں مہارت حاصل تھی۔ مولوی سید تصدق حسین کنتوری اور مولوی سید مظفر حسین تصحیح کے کام پر مامور تھے ۔ منشی جی مذہبی معاملات میں حددرجہ احتیاط کرتے، اسلامی کتب کی طباعت میں کوئی غلطی نہ ہو اور مسلکی مسئلہ پیش نہ آئے ۔سنی کارکنان سے اہلسنت ، شیعہ ملازمین سے امامیہ کی کتابیں کافی احتیاط سے چھپواتے تھے۔سال 1895میں نول کشور کا انتقال ہوا تو بے اولاد تھے، چھوٹے بھائی سیوک رام کے لڑکے پراگ نارائن کو گود لیا۔ جو انکے وارث بنے۔ بقول لو بھارگو منشی پراگ نارائن کے انتقال کے بعد منشی بشن نارائن نے پریس کی ذمہ داری سنبھال لی۔ پریس نیز اخبار پوری توانائی کیساتھ جاری رہے لیکن اس میں منشی نول کشور اور منشی پراگ نارائن کے زمانے والی بات نہیں رہ گئی تھی چنانچہ 1944ء تک اودھ اخبار بند ہو گیا۔ منشی بشن نارائن کے انتقال کے بعد انکے بیٹوں یعنی ہمارے والد راجہ رام کمار بھارگو اور چچا تیج کمار بھارگو نے پریس سنبھالا لیکن دونوں بھائیوں میں زیادہ عرصہ تک نباہ نہ ہوسکا اور پریس نیز دیگر املاک دو حصوں میں تقسیم ہو گئیں جس سے تیسری پیڑھی میں پہنچ کر پریس پر زوال آگیا۔ یو ں سمجھئے کہ جس طرح تقسیم سے ملک کو نقصان ہوا ٹھیک اسی طرح اِس بٹوارے سے پریس کو نقصان پہنچا۔ منشی نول کشور کے نام سے مشہور چھاپہ خانہ کا نام تبدیل ہو ا۔ یہ راجہ رام کمار پریس اور تیج کمار پریس ہوگیا۔

دو نسلوں کے سفر کے بعد تیسری نسل تک پوری دنیا میں منشی نول کشور کے نام سے مشہور پریس کے دو ٹکڑے ہوئے ، جس کیساتھ ایک تاریخ دفن ہوگئی، لیکن حضرت گنج لکھنو میں واقع وہ سڑک اب بھی منشی نول کشور روڈ کے نام سے ہے۔نول کشور کی پبلیشر کی حیثیت سے جو تصویر پیش کی وہ ان کی خدمات کاایک باب ہے ۔ ان کی زندگی پر متعدد کتابیں ، ہزاروں مقالے لکھے جا چکے ہیں لیکن ان کی خدمات کا اعتراف اب بھی مکمل نہیں ہوا اور موجودہ حالات میں ان کی زندگی کا یہ پہلو اجاگر کرنا ضروری ہے جوکہ مذہبی رواداری کا پیغام اورایک دوسرے کے جذبات کی قدر کا سبق دیتا ہے ۔منصور الدین فریدی : نئی دہلی

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جولائی 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

علامہ شرف الدین شیعہ کے مفتی منیر شاکر شہید تھے

مفتی منیر شاکر سے قرآن پر بات ہوئی تو اس نے کہا کہ50سال بعد مجھے مسلمان کردیا۔ یقین ہے کہ علامہ علی شرف الدین سے ملاقات ہوتی تو انہوں نے کہنا تھا کہ70سال بعد مسلمان کردیا۔ قرآن سے سنی اور شیعہ مذہبی طبقات نے کھلواڑ کیا ہے!

مفتی منیر شاکر شہید ، علامہ شرف الدین خوش قسمت تھے کہ ولاتموتن الا و انتم مسلمون ” اور تم مت مرو مگر مسلمان ہوکر” کے قرآنی حکم پر عمل کیا۔ دونوںمشعل راہ اسلئے نہ بن سکے کہ قرآن وسنت کو ہی نہیں سمجھا۔ دنیا میں مذہبی افراط اور تفریط تھی ۔ یہودی حلالہ کی لعنت میں گرفتار اور عیسائیوں میں مذہبی طلاق نہیں تھی تو اسلام نے طلاق کو جواز بخشا اور حلالہ کی لعنت ختم کردی اور عورتوں کے تمام حقوق بحال کردئیے۔ مذہبی طبقے نے اسلام کو اجنبی بناکر عورت کے حقوق کو قرآن وسنت کے پیچھے چھپ کر غصب کردیاہے اور وہ قرآن جس نے صلح کی راہ کھول کر حلالہ کا تصور بھی ختم کردیااور طلاق کے بعد عورت کی رضا کے بغیر رجوع کا دروازہ بند کردیا تو شیعہ سنی نے پھر نصاریٰ و یہود کے نقش قدم کو زندہ کردیا۔ چراغ تلے اندھیرا کے مانند آج پوری دنیا قرآن وسنت کی واضح راہ پر ہے لیکن شیعہ سنی اندھیرے میں ہیں۔ برہمن نول کشور نے قرآن کے تراجم کو گھر گھر پہنچایا ۔بدقسمت مسلمانوں نے اس کا فائدہ نہیں اٹھایا تھا۔ اگر قرآن کو سمجھ لیا توانسانوں پر صلح کا دروازہ کھلے گا اورعورت حلالہ کی ذلت سے بچے گی اور میاں بیوی سے لیکر شیعہ وسنی، ہندو مسلمان، سکھ یہودی ، مشرق ومغرب کے تمام انسانوں میں صلح کروائیں گے۔

پختون ،بلوچ ، پنجابی، سندھی میں اشاعت التوحید والسنہ والے قرآن کی دعوت میں قربانی دیتے رہے لیکن نہ خود ہدایت پائی اور نہ ہی دوسروں کو ہدایت کا سبب بن سکے۔ جس طرح مفتی منیر شاکر اور علامہ علی شرف الدین موسوی تھے، اسی طرح وہ بھی ہیں۔ علامہ محمد حیدر نقوی شیعہ عالم خلوص و ایمان کیساتھ قرآن کی دعوت عام کرتا ہے لیکن نتیجہ وہی ہے جو بجلی کی جگہ چراغ کی دعوت دینے والوں کا ہوسکتا ہے۔ غالباً 2004میں ڈاکٹر پیر عبدالجبار کے ساتھ ایک محسود افسر آئے اور مجھ سے کہا کہ ” وزیرستان میں بجلی کی آمد سے پہلے مسجد کے مولانا نے تقریریں کیں کہ خبردار اپنے گھروں میں بجلی مت لگاؤ۔ یہ بلب نہیں شیطان کے خصیے ہیں لیکن جب بجلی آگئی تو مولانا نے شیطان کے خصے لگا دئیے ”۔

قرآن میں بجلی سے زیادہ نفع بخش ہونے کی صلاحیت ہے مگر جس قرآن نے دورِ جاہلیت میں لوگوں کی عزتیں حلالہ کی لعنت سے بچائی تھیں تو اب اسی کو توڑ مروڑ کر عزتیں لوٹنے کا ذریعہ بنایا جارہاہے۔ جس قرآن نے عورتوں کو حقوق دئیے تو اسی قرآن کے ذریعے عورتوں کے حقوق کو غصب کیا گیا اور جس قرآن نے عقل وشعور کی نعمت کو جگایا تھا تو اسی قرآن کی بنیاد پر لوگوں کے عقل وشعور کو جڑ سے ختم کیا جارہا ہے۔

علامہ علی شرف الدینبہت عظیم مخلص مسلمان تھے۔ ان کے علم سے اختلاف ہوسکتا ہے لیکن خلوص اور ایمانداری پر کوئی شک وشبہ نہیں ہوسکتا ہے۔ قرآن سے ٹکرانے کی بنیادپرانہوں نے احادیث کا انکار کیا مگر کون ہے، جس نے نہیں کیا ؟۔علامہ علی شرف الدین نے کہا کہ نبیۖ نے فرمایا کہ ”میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ۔ایک قرآن دوسری میری سنت” ۔ اللہ نے فرمایا:انا سنلقی علیک قولًا ثقیلًا ”بیشک عنقر یب ہم آپ پر بھاری بات ڈالیں گے”۔ سنت قرآن کی طرح بھاری چیز نہیں ہوسکتی ۔ اس طرح اہل بیت بھی بھاری چیز نہیں ہوسکتے۔ یہ شیعہ سنی نے گھڑ رکھی ہیں۔ نبیۖ نے صرف قرآن کو چھوڑ ا ہے، اہلبیت اور سنت چھوڑنے کی چیز نہیں ہوسکتی ہے۔ کاش علامہ سے ملاقات ہوتی تو نہ صرف مسلمان بناتا بلکہ پھر اچھا بھلا شیعہ بھی ۔

قرآن نے ذمہ دار طبقات کو مخاطب کیا ہے کہ سنفرغ لکم ایہ الثقلان ”عنقریب تمہارے لئے ہم فارغ ہوں گے اے دو بھاری گروہ”۔ مفتی منیر شاکر اور علامہ شرف الدین کے بیٹے پیروکاروں سمیت قرآن پر عمل کریں تو انقلاب ہے ۔ نبیۖ نے اپنا جانشین نامزد نہیں کیا تو ابوبکر، عمراور معاویہ نے غلط کیا؟۔ جس سے یزید و مروان بنوامیہ تک بات پہنچی؟۔علامہ شرف الدین نے کہا کہ قرآن میں اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کا حکم ہے۔ اولی الامر کی مشروط اطاعت کاحکم ہے اور مکہ میں نبیۖ رسول تھے اور مدینہ میں لوگوں نے حاکم بھی بنادیا۔ حاکم کی حیثیت سے اختلاف جائز تھا تو حدیث قرطاس سے انکار کی ضرورت نہیں تھی اور علی ولی اللہ کی بھی تأویل کرنا ضروری نہیں۔ نبیۖ نے علی کیلئے ایسے ماحول نہیں بنایا تھا جو یزید یا مروان کیلئے بنایا گیا ۔ یا جس طرح جاویداحمد غامدی نے اپنے داماد کیلئے بنایا ہے۔ نبیۖ رحمت للعالمین تھے اسلئے اپنا چچازاد بھائی اور داماد صلاحیت کے باوجود انصار ومہاجرین پر مسلط نہیں کیااور نہ اس کیلئے ایسا ماحول بنایا۔ جبری زکوٰة نے مسلمانوں کو ریاست کے سامنے کمزور کردیا تھا اسلئے ابوبکر نے عمر کے تسلط کا فیصلہ کیا تو سب نے قبول کیا۔ حضرت عمر نے پھر اعتدال کو ترجیح دیتے ہوئے شوریٰ نامزد کردی تھی۔ حضرت علی نے ہنگامی طور پرمنصب قبول کیا اور امام حسن نے وحدت کو ہی ترجیح دی اور اسی پر خلافت راشدہ کا 30سالہ دور ختم ہوگیا۔

آغا سید شرف الدین کی بات کو شیعہ سنی اپنا منشور بنائیں تو بھی ہمیں خوشی ہوگی کہ حضرت عائشہ بہت ہی قابل احترام اور دنیا وآخرت میں رسول اللہ ۖ زوجہ مطہرہ ام المؤمنین تھیں۔ البتہ حضرت علی کے مقابلے میں غلطی پر تھیں جس پرنادم تھیں۔ یہ شیعہ سنی اتحاد کیلئے مثبت اور بہت جاندار نکتۂ نظر ہے۔آغا شرف الدین کے نزدیک حضرت علی کے بعد حضرت ابوبکر سب زیادہ شاندار شخصیت تھی۔ سنیوں کیلئے یہ غنیمت ہے لیکن آغا شرف الدین پر سوال اٹھے گا کہ ابوبکر نے پھر علی کے ہوتے ہوئے حضرت عمر کی نامزدگی کیوں کی؟۔ اللہ نے فرمایا:

” اے اہل کتاب ! اپنے دین میں غلو مت کرو! اور اللہ پر کوئی بات مت بناؤ مگر حق۔ بیشک مریم کا بیٹا رسول اللہ ہے اور کلمہ ہے جس سے اللہ نے مریم کو القا کیا اور اللہ کی طرف سے روح ہے۔پس اللہ پر اور اس کے رسولوںپر ایمان لاؤ اور تین مت کہو۔ تم بس کرو تو تمہارے لئے بہتر ہے۔ بیشک اللہ اکیلا معبود ہے ۔ وہ پاک ہے اس سے کہ اس کا کوئی بیٹا ہو۔اس کیلئے ہے جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ ہی وکالت کے اعتبارسے کافی ہے”۔ (النساء آیت:171)

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تقدس اللہ کے کلام سے ثابت تھا اور قصہ حضرت یوسف پہلے تھا اور قصہ قرآن بعد میں بن گیا۔ یہود ونصاریٰ نے حضرت عیسیٰ کی شخصیت پر افراط وتفریط سے کام لیا تو دونوں گمراہ ہوگئے اور اس غلو سے اللہ نے منع فرمایا۔

ہر لحظہ ہے مؤمن کی نئی شان نئی آن
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
قہاری وغفاری وقدوسی وجبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
ہمسایۂ جبریل امین بندۂ مومن
ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشان
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مؤمن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے
دنیا میں بھی میزان قیامت میںبھی میزان
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
فطرت کا سرور ازلی اس کے شب وروز
آہنگ میں یکتا صفت سورۂ رحمن
بنتے ہیں مری کارگہ فکر میں انجم
لے اپنے مقدر کے ستارے کو تو پہنچان!

علماء کرام شیعہ ہوں یا سنی ،ان کا کوئی قصور نہیں اسلئے کہ وہ مدارس میں قرآنی تعلیمات کی جگہ کچھ اور ہی پڑھاتے ہیںاور میں خوش قسمت ہوں کہ مولانا بدیع الزمان شاگردوں کو خوب تلقین فرماتے کہ ایک رکوع قرآن کا روزانہ پڑھ کر سمجھواور قرآن کے معارف بتاتے تھے اور پیچیدہ سوالات بھی۔ پھر نصاب میں قرآن وسنت کے خلاف باتوں کے مقابلہ میںحق بات پر خوشی کا اظہار بھی فرماتے۔ علامہ علی شرف الدین نے وہ حدیث مسترد کی جو شیعہ و سنی کتب میں ہے کہ نبیۖ و علی ایک نور تھے۔ حضرت عبداللہ میں نور نبوت اور حضرت ابوطالب میں نور ولایت منتقل ہوا۔ اگر ہم مان لیں کہ حدیث صحیح ہے تو پھر شیعہ کے پاس اس کا جواب نہیں کہ ”نور ولایت حضرت علی کے بعد حضرت حسن میں منتقل ہوا تو حضرت حسین میں کیسے منتقل ہو؟”۔ رسول اللہۖ کے نوراور علی کے نور سے حفید سیدا شباب اہل الجنة بن گئے۔ حسن پر نور امامت کا اور حسین پر نورولایت کا۔ مجدد الف ثانی شیخ احمدنے حضرت حسین کی ولایت کا ذکر کیا ہے لیکن حضرت حسن کے نور امامت کا ذکر نہیں کیا ہے۔

جو کرے گا امتیاز رنگ و خوں مٹ جائے گا
ترک خرگاہی ہو یا اعرابی والا گہر
نسل کی اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہوگئی
اڑ گیا تو دنیا سے مانند خاک راہ گزر
تا خلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استوار
لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب وجگر
اے کہ نشناسی خفی را از جلی ہشیار باش
اے گرفتار ابوبکر و علی ہشیار باش

مشکوٰة کی شرح ”مظاہر حق ” میں بارہ خلفاء قریش کی تشریح میں یہ روایت لکھی ہے کہ ” مہدی کے بعد 5افراد حسن کی اولاد سے ہوں اور 5افراد حسین کی اولاد سے اور آخری فرد پھر حسن کی اولاد سے ہوگا”۔ اہل تشیع کی روایات میں بھی مہدی کے بعد گیارہ مہدیوں کو خلافت ملنے کا ذکر ہے۔ ان میں رجعت کا عقیدہ بھی ہے اور رجعت سے مراد یہ بھی ہوسکتی ہے کہ مہدی کا کردار حضرت علی جیسا ہو اور باقی گیارہ امام حسن، حسین، امام زین العابدین …………اور آخرمیں مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا سامنا دجال اکبر سے ہو۔ جب آئیں گے تو دیکھیں گے۔

اگر تبلیغی جماعت کے بانی مولانا الیاس کے ساتھی مولانا احتشام الحسن کاندھلوی امیر جماعت بنتے تو بہتر تھا۔ مولانا محمد یوسف بانی کے بیٹے تھے مگر جماعت میں وقت نہیں لگایا تھا پھر حاجی محمد عثمان امیر بنائے جاتے تو بھی بہتر تھا لیکن مولانا انعام الحسن داماد شیخ الحدیث مولانا زکریا امیر بنائے گئے ۔اگر ان کی جگہ حاجی عبدالوہاب امیر بنتے تب بھی بہتر ہوتا۔ ترجیحات کی وجہ مختلف ہوتی ہے۔ اگر علامہ عارف الحسینی شہید کے بعد علامہ علی شرف الدین ہی تحریک نفاذ جعفریہ کے صدر بنائے جاتے تو بہتر ہوتا۔ لیکن جو کچھ ہوا تو سب بہتر تھا اور اب حقائق کی طرف رجوع کیا جائے تو امت مسلمہ اس بدترین بحران سے نکل سکتی ہے۔ ہمیں ایک اچھے انقلاب اور اصلاح کی امید ہے۔

کاش! علماء و مفتیان، اسلامی سکالرز اور سیاسی جماعتوں کا رُخ قرآن کے انسانی حقوق پر آجائے تو عورت کے حقوق کو سمجھنے کے نتیجے میں عالمی ، علاقائی ، ملکی قوانین، ڈویژن، ضلع، تحصیل اور تھانہ کی سطح سے لیکر اقوام متحدہ تک سبھی معاملات سمجھ لیںگے بلکہ عمل درآمد بھی ہوگا۔

صرف نکاح وطلاق کے واضح مسائل، معاملات اور حقوق سے فرقہ واریت کی جنگ ختم ہوسکتی ہے۔ سیاسی میدان کارزار میں کربلا سے موجودہ دور تک کے سارے جھگڑے ختم ہوسکتے ہیں۔ خلافت راشدہ میں جنگ وفساد صرف اسلام کی سیاست کی حدتک تھا لیکن بعد میں سیاست سے بڑھ کر مذہبی مسائل کو بگاڑنے کا بھی سبب بن گیا۔ بگاڑ کا نام اصلاح رکھ دیا جائے تو اصلاح کیسے ممکن ہوسکتی ہے؟۔ ایک ملک میں قانون ہو کہ اگر شوہر نے تین طلاق دیدی تو حلالہ کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا ۔ دوسرے ملک میں حلالہ کے بغیر رجوع ہوسکتا ہو تو لوگ کس کا قانون پسند کریںگے؟۔ ظاہر ہے کہ حلالہ بدترین لعنت ہے۔

محمد خدابندہ ہلاکو خان کا پڑپوتا تھا۔ 1304ء سے1316 تک حکومت کی ۔ پہلے سنی تھا اور پھر حلالہ کی وجہ سے شیعہ بن گیا اور پوری سلطنت میں مذہب اہل بیت کی تبلیغ کی۔ پھر اسماعیل اول صفوی نے پہلی بار ایران میں ایک آزاد مملکت کی بنیاد رکھ دی جس میں موجودہ جمہوریہ ایران، آذر بائیجان ، آرمینیاکے ساتھ ساتھ جارجیا،شمالی قفقاز،عراق، کویت،افغانستان کے علاوہ موجودہ شام کے کچھ حصے، ترکی، پاکستان، ازبکستان اور ترکمانستان اس عظیم ریاست کا حصہ تھے۔ ان کے پوتے کا نام شاہ اسماعیل صفوی بھی اسی کے نام پر رکھا گیا۔جس نے شیعہ مذہب اختیار کیا اور وہ پہلا شیعہ صفوی حکمران تھا۔

آج کچھ لوگ شیعہ سے سنی اور سنی سے شیعہ بن گئے لیکن اس میں مذہبی طبقات کے مذہب سے زیادہ مفادات ہیں۔ اگر قرآن کی طرف فرقہ واریت سے بالاتر اہم ترین نصوص کی طرف توجہ دی گئی تو شیعہ سنی مسئلہ تحلیل ہوجائے گا اور اسلام کی حیثیت گھریلو سے لیکر عالمی اسلامی حقوق کی علمبرداری کے طور پر ہوگی۔ اس طرح شافعی اور حنفی اختلافات بھی بنیاد سے اکھڑ جائیںگے۔ دورِ جاہل میں عورت کے حقوق نہیں تھے۔ اسلام نے مذہبی جہالتوں کا خاتمہ کیا اور مذہبی طبقات نے جہالتوں کو پھر انسانی اور نسوانی حقوق پر ڈاکہ ڈال کر استعمال کیاہے۔

مولانا مودودی نے شافعی اور حنفی اختلافات کے دلائل کہ بالغ لڑکی کا ولی کی اجازت کے بغیر نکاح جائز یا نہیں؟عدالت پر معاملہ ڈالا ہے۔ اگر قرآن کے دئیے ہوئے حقوق متعارف ہوتے تو اس نکاح کو قانونی حقوق سے محروم کردیا جاتا اور نکاح کی جگہ اس پر معاہدے کا اطلاق ہوتا۔ جس کی ذمہ داری متاثرہ دونوں خاندانوں پر نہیں بلکہ دو افراد پر پڑتی۔ لیکن جب نکاح کے حقوق کا تصور ہی موجود نہیں ہے تو پھر معاملہ دنیا کو نہیں سمجھ میں آسکتا ہے۔ جیسے موبائل بچوں کو سمجھ آتا ہے لیکن جنہوں نے اپنی زندگی میں موبائل اور ترقی یافتہ دنیا نہیں دیکھی ہو تو پھر ان کو موبائل سمجھانا بہت بڑا مسئلہ ہے۔اللہ کرے کہ اسلام اپنے معاشرے میں اصلاح کی بنیاد بن جائے تو پارلیمنٹ میں بھی قوانین بنانے سمجھنے اور سمجھنانے کے مسائل نہیں آئیں گے۔

علامہ سید علی شرف الدین نے کہا کہ ” عقائد کا تعلق دنیاوی معاملے سے ہے جیسے خریدوفروخت کے عقود اور عقد نکاح۔ قرآن میں ایمانیات کا ذکر ہے اور جن جن چیزوں پر ایمان لانے کا حکم ہے وہ کافی ہے اور اس پر مزید اضافہ فرقہ واریت اور بدعات کے زمرے میں آتا ہے”۔

جب حضرت زبیر جنگ جمل میں میدان کے اندر آئے تو حضرت علی نے ان کے سامنے اس حدیث کا ذکر کیا جو حضرت علی کے حق ہونے پر دلیل تھی تو حضرت زبیر نے کہا کہ میں بھول گیا تھا اور جنگ چھوڑ گئے لیکن پیچھے سے ایک کم بخت نے وار کیا اور حضرت علی کے پاس آیا تو علی نے فرمایا میں تمہیں جہنم کی خبر سناتا ہوں۔ نبیۖ نے فرمایا تھا کہ زبیر کا قاتل جہنمی ہے۔ صحابہ کے ایمان کی بلندی صحبت نبویۖ تھی اور جب تک ایمان دل میں نہیں اترتا تو عقیدہ سے مؤمن نہیں مسلم بنتے ہیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جولائی 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مولانا خانزیب شہید کا یہ انٹرویو الیکٹرانک چینلوں پر نشر ہونا چاہئے ،خان زمان کاکڑ کو بھی سن لیں

قیام امن باجوڑ سےPPPکےاہم رہنمااخونزادہ چٹان کا خطاب

تم ہمیں کافر سمجھ کر مارو مگرہم تمہیں مسلمان ، پختون اور اپنے بچے سمجھتے ہیں

ہم خوف زدہ ہوکر امن کا نعرہ نہیں چھوڑیں گے۔ ہم مولانا فضل الرحمن ، محمود اچکزئی اور تمام پختون لیڈر شپ کے سامنے جھولی پھیلائیںگے کہ ہمارے ساتھ اسلام آباد چلو۔اخونزادہ چٹان

باجوڑ پیپلزپارٹی کے رہنما اخونزادہ چٹان نے قیام امن خطاب کا آغاز پشتو اشعار سے کیاکہ جب تم حق کی راہ پر چلتے ہو،100دفعہ آگے گرپڑو اور اُٹھو تومیں نے ہزار پر تمہیں قربان کیا اور صدقہ کیا جب تم موت کے منڈیر پر پڑے ہو ہلتے ہو۔ میرے بھائیو! جب ہمارے دوستو ں نے اپنی شہادتیں پیش کیں تو ہمیں موت سامنے نظر آرہی تھی مگر اسکے باوجود ہم ان کیساتھ کھڑے تھے اور ہم ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ میرے بھائیو ! آج میں اپنے شہداء کو مبارک باد پیش کرتا ہوںکہ تم نے اپنے خون کی قربانی دی مگر باجوڑ کی قوم کو جگادیا۔ مبارک ہو۔یہ تمہاری قربانی کی بدولت ممکن ہوا۔ بھائیو! مولانا خان زیب کیوں شہید ہوا؟ مولانا خان زیب اسلئے شہیدہوا کہ ہمیں وہ یہ پیغام دے رہا تھا باجوڑقوم کوکہ اگر تم امن کی بات کروگے تو تمہارا انجام یہ ہوگا جو مولانا خان زیب کا ہوا بھائیو ! یہ پیغام تھا ہمیں کہ نہیں ؟۔تم اپنی عوام اور اپنے بچوں کے امن کی بات کرتے ہوتو پھرتمہارا انجام وہی ہوگا جو آج مولانا خان زیب کا ہوا ہے۔ ہمیں آج یہی پیغام تھا ناں!۔ بھائیو!آج ہم باجوڑ کی قوم ان لوگوں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ اگر آج تم یہاں پر نہیں تو اپنے کان کاٹ لو!کہ میرے منہ کا احساس ٹھنڈا نہیں ہوا۔ ( تالیاں ، نعرے) بھائیو! ہم ان لوگوں کو پیغام دیں کہ تم مجھے قتل کرسکتے ہو لیکن خاموش نہیں کرسکتے۔ تم نے میرے متعلق بہت غلط اندازہ لگایا ہے۔ تم ہمیں ایک ایک کرکے مار سکتے ہو، ہم سے سینکڑوں، ہزاروں کو مار سکتے ہولیکن جس شعور کا سفر، جس امن کاسفر ، جس امن کا کاروان ہم نے جاری رکھا ہوا ہے ،اس کو تم نہیں روک سکتے ہو۔ (نعرے) بھائیو! اس روڈ پر اور اس مارکیٹ میں ہم سے100افراد کو شہید کیا گیاتو کیا ہم خاموش ہوگئے۔ ریحان زیب شہید ہوا۔ امن کا کاروان رک گیا؟۔ ہم سے اس روڈ پر مولانا خان زیب شہید کردیا گیا۔جس کی زندگی میں اس کاروان کو روکنے کی کوشش کی تھی تو آج یہ کاروان ہم نے پھر اس جگہ سے روانہ کیا۔ جن لوگوں نے خان زیب کو شہید کرکے ہمیں یہ پیغام دیا کہ یہ کاروان خوف کھائے گا ،یہ لوگ خاموش ہوجائیں گے،میں ان لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ تم نے یہ ہمارے بارے میں،ہماری قوم ، ہماری عوام کے بارے میںغلط اندازہ لگایا، باجوڑی بے غیرت نہیں،باجوڑی بزدل نہیں۔تم میرے باجوڑی کو مار سکتے ہو لیکن ڈرا نہیں سکتے۔ہم بزدلی کی زندگی پر لعنت بھیجتے ہیں۔ ہم بزدلی کی زندگی پر ….(لعنت …..)۔

ہم آج یہ آواز اٹھاتے ہیں ، کل بھی۔یہ اپنی جان، اپنے بچے کیلئے ہی نہیں،یہ جو تم ہمیں قتل کررہے ہو تیرے لئے بھی امن کی آواز اٹھاتے ہیں۔تیرے بچوں کیلئے بھی۔ میں مرتا ہوں تو تم کہتے ہو کہ کافر مردار ہوگیا، مجھے مسلمان نہیں مانتے۔مگر تم مرتے ہو تو مجھے دکھ پہنچتا ہے کہ آج ایک پختون کی بیوی بیوہ بن گئی۔جیسے اپنے اوپر غمزدہ ہوتا ہوں، ویسے تم پر ہوتا ہوںاسلئے کہ تم مجھے مسلمان نہیں سمجھتے لیکن میں تمہیں پختون سمجھتا ہوں۔تم مجھے مسلمان نہیں سمجھتے لیکن میں تمہیں باجاوڑی سمجھتا ہوں۔ تم مرتے ہو تو میں تم پر غمزدہ ہوتا ہوں جتنا اپنے بچے پر غمزدہ ہوتا ہوں۔جتنا اپنی جان پر غمزدہ ہوتا ہوں اسلئے کہ میں اس جنگ کو جہاد نہیں کہتا۔ جہاد تو فلسطین میں ہے اسرائیل اور مسلمانوں کے درمیان ، جہاد تو کشمیر میں ہے کافروں اور مسلمانوں کے درمیان۔جب مسلمان اور کافروں کے درمیان جنگ ہو تو اس کو جہاد کہا جاتا ہے۔میں نے مسلمانوں کے خلاف جہاد نہیں دیکھا ۔اس کو تو میں جنگ بھی نہیں کہتا، جنگ میں دونوں فریق کا نقصان ہوتا ہے۔ یوکرین میں یوکرین والا بھی مرتا ہے اور روسی بھی مرتا ہے۔فلسطین میں جنگ ہے ،اسلئے کہ اگر چہ فلسطینی زیادہ مرتے ہیں لیکن اسرائیلی بھی مرتے ہیں۔اسی طرح بھائی ! کل ہماری انڈیا سے جنگ ہوئی تھی۔ہم بھی مرتے تھے اور انڈین بھی مرتے تھے۔میں اس کو نسل کشی کے رنگ سے دیکھتا ہوں، تم مرتے ہو تو پختون ہو اور میں مرتا ہوں تو پختون ہوں۔ یہ نہ جنگ نہ جہاد ہے یہ نسل کشی ہے۔ یہ قوم کا خاتمہ ہے اور پختون کی بیخ و بنیاد کو اکھاڑنا ہے۔ آخری پیغام اپنے شہداء کو کہ وقت آگیا کہ ہم اسلام آباد کی طرف رُخ کریں مگر یہ اکیلے نہیں کرسکتے۔ یہ پختون قوم کا مسئلہ ہے لیکن شروع باجوڑ سے کریں۔ ہم گورنر کا گریبان بھی پکڑلیں،وزیراعلیٰ کا گریبان بھی پکڑلیں کہ اگر تم ہمارے صوبے کے گورنراور وزیراعلیٰ ہوتو تم نے آگے ہونا ہوگا۔مولانا فضل الرحمن، اسفند یار خان، محمود اچکزئی، آفتاب شیرپاؤ کے سامنے جھولیاں پھیلائیں ۔ ان کو آگے کریں گے اور پیچھے ہوں گے انشاء اللہ۔ ان اشعار پر اجازت کہ اگر میرا سر گرگیا تو یہ کوئی عرش معلی تو نہیں ہے۔اگر حق میں نے چھوڑ دیا تو ماں کا دودھ حرام پیا ہوگا۔ اگر میرا سینہ چھلنی ہوگیا تو کوئی کعبہ تو نہیں ہے۔اگر خون کے قطرے گر رہے ہیں کوئی کنبہ تو نہیں ہے۔ موت تو وہی ہے کہ زندوں کیلئے کسی طرح کی یاد گار رہ جائے۔ غلامی کی موت دنیا میں کوئی رعب ودبدبہ نہیں ہے۔ حق کی آواز کبھی ہم نے چوری چھپے نہیں اٹھائی ہے۔اگر میرا سر گرگیا تو کوئی عرش معلی نہیں ہے۔ پرواہ اپنے سر کی نہیں کرتے،موت کاخطر نہیں کرتے ، نعرہ لر و بر نہیں کرتے۔ یہ قسمیں پاک اللہ کے نام پر کھائی ہیں،اگر حق چھوڑا تو ماں کا دودھ حرام پیا ہوگا۔

مولانا خانزیب شہید اور خان زمان کاکڑ کی ویڈیوز دیکھنے کیلئے معاذ خان کے چینل کا لنک درج ذیل ہے۔

https://www.youtube.com/@voicesnvisions

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جولائی 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv