پوسٹ تلاش کریں

مہدی العبقری (عبقری مہدی) جو اپنے زمانے سے آگے ہے اور لوگوں کو حیران کر دیتا ہے۔

اللہ آپ کے اوقات کو خیر اور محبت سے معمور کرے۔ عنقاء مغرب چینل میں آپ کا خیرمقدم ہے۔ آج کی ہماری قسط کا عنوان ہے

مہدی العبقری (عبقری مہدی) جو اپنے زمانے سے آگے ہے اور لوگوں کو حیران کر دیتا ہے۔

فطرتاً لوگ اُس چیز سے ڈرتے ہیں جسے وہ نہیں سمجھتے۔ جب وہ پہلی بار مہدی سے ملتے ہیں تو اُس کی موجودگی سے ایک عجیب سا احساس اُن پر طاری ہوتا ہے، ایک ایسا احساس جسے وہ الفاظ میں بیان نہیں کر پاتے۔ اُس میں راحت بھی ہے اور بےچینی بھی، اُس میں ہیبت بھی ہے اور سادگی بھی، اُس میں قوت بھی ہے اور خاموشی بھی۔ وہ ہرگز پاگل نہیں ہے، مگر وہ اُنہیں اس قدر حیران کر دیتا ہے کہ وہ اپنی حیرت کو پاگل پن کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں تاکہ اپنے دل کو تسلی دے سکیں۔ انسان جب کسی چیز کی عقلی توجیہہ نہ پائے تو اُسے پاگل پن کا نام دے دیتا ہے تاکہ خود اپنے حواس پر قابو رکھ سکے۔

لوگ دیکھتے ہیں کہ وہ غیر معمولی انداز میں زندگی گزارتا ہے۔ وہ اپنے وقت سے آگے بڑھا ہوا لگتا ہے۔ وہ ان چیزوں پر بات کرتا ہے جو ابھی آنے والی ہیں، گویا وہ آنے والے کل میں جی رہا ہے جبکہ باقی سب لوگ آج میں اَٹکے ہوئے ہیں۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ اس زمانے کا آخری سانس ہے، سورج غروب ہونے سے پہلے کی آخری روشنی۔ کبھی کبھی وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ اِس دنیا کو اُس کی انتہا کی طرف بڑھتا دیکھنے والا واحد شخص ہے۔

اس سب کے باوجود وہ معاملات کو سمجھنے میں عبقری (ذہین) ہے۔ وہ حالات کو فوراً پڑھ لیتا ہے، اور بغیر پوچھے لوگوں کی حقیقت پہچان لیتا ہے۔ وہ باتوں کے درمیان چھپے اشاروں کو سمجھ لیتا ہے، اور چہروں کے پیچھے کی حقیقت پڑھ لیتا ہے۔ اللہ اُس پر ایسے راز کھول دیتا ہے جو باقی لوگ نہیں سمجھ سکتے۔

یہ عبقری شخص دوسروں کے ساتھ ایک متوازن تعلق میں نہیں رہ پاتا۔ اگر وہ محبت کرے تو دل کی گہرائی سے کرتا ہے، حتیٰ کہ اپنی جان جلا دینے تک دے دیتا ہے، مگر دوسرا فریق اُس شدید محبت سے گھبرا جاتا ہے، کیونکہ وہ ایسی سچی محبت کا عادی نہیں ہوتا۔ اور اگر وہ کسی سے خلوص دکھائے تو اپنی روح تک نچھاور کر دیتا ہے، مگر لوگ اس قربانی کو سمجھ نہیں پاتے اور اُس سے دور ہو جاتے ہیں۔

جب وہ کسی مجلس میں بیٹھتا ہے تو دوسروں کے ساتھ گھل نہیں پاتا۔ وہ دیکھتا ہے کہ اُن کے خواب بہت چھوٹے ہیں، حالانکہ وہ اُن سے محبت کرتا ہے، مگر یہ سوچ کر تڑپتا ہے کہ وہ اُن کے دلوں کو بدل نہیں سکتا۔ اسی لیے مہدی کو اکثر لگتا ہے کہ وہ معاشرے میں نظرانداز کیا جا رہا ہے، حالانکہ وہ معاشرے کا سب سے بڑا عبقری ہے۔ وہ خود کو ایک اجنبی محسوس کرتا ہے، چاہے ہزاروں لوگ اُس کے گرد کیوں نہ ہوں۔ وہ اُن کے دلوں میں رہتا ہے مگر اُن جیسا نہیں ہے، اور یقین کے ساتھ جانتا ہے کہ وہ اکیلا ہے، چاہے اُس کے ہزار دوست اور ہزار رشتے دار ہی کیوں نہ ہوں۔

وہ ایک ایسا مرد ہے جو اپنے زمانے سے آگے ہے، لیکن اُسے لگتا ہے کہ وہ بہت دیر سے آیا ہے تاکہ اُس ٹوٹی ہوئی چیز کو درست کرے جو صدیوں پہلے ٹوٹ گئی تھی۔ اور اُسے یہ بھی معلوم ہے کہ اُسے دوسروں کی طرح پیدا نہیں کیا گیا بلکہ وہ وہ کچھ دیکھتا ہے جو باقی لوگ نہیں دیکھ سکتے، اور وہ بوجھ اُٹھاتا ہے جو باقی لوگ نہیں اُٹھا سکتے۔

یہ گہرا تضاد — کہ وہ سب سے آگے بھی ہے اور سب سے آخر بھی — اُس کے اندر ایک خاموش جنگ پیدا کرتا ہے۔ یہ جنگ کبھی کبھی اُس کی لمبی خاموشی اور دور اُفق کی طرف اُس کی گہری نظریں ٹکائے رکھنے میں نظر آتی ہے۔ وہ عام زندگی نہیں گزار سکتا کیونکہ اُس کا دل غیرمعمولی حقیقتوں سے جڑا ہے، وہ اللہ کے راز سے جڑا ہے، اور ایک ایسے زمانے سے جڑا ہے جو ابھی آیا نہیں۔ اگر آپ اُس کے قریب جائیں تو یہ حقیقت آپ پر عیاں ہو جائے گی۔

لوگ اُس کو نہیں سمجھتے اور کہتے ہیں کہ وہ پاگل ہے، مگر اگر وہ اُسے سچ میں سمجھ لیں تو اپنی عقل کھو بیٹھیں۔ یہی مہدی کی شخصیت کا سب سے بڑا راز ہے:

وہ ایک ایسا مرد ہے جو عبقریت کو درد کی طرح جیتا ہے، نبوت کو ذمہ داری کی طرح جیتا ہے، صبر کو امتحان کی طرح جیتا ہے، اور تنہائی کو مقدر کی طرح۔

وہ ایک ایسا شخص ہے جسے یہ دنیا سمیٹ نہیں سکتی اور نہ ہی لوگ اُسے سمجھ سکتے ہیں۔

وہ ہمیشہ لوگوں کے درمیان ہوتا ہے مگر اُن میں سے نہیں۔ وہ اُن کے ساتھ ہوتا ہے مگر اُن کے لیے نہیں۔ وہ اُن سے محبت کرتا ہے، حالانکہ وہ اُسے نہیں سمجھتے۔ وہ اُن کا بوجھ اُٹھاتا ہے، حالانکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اُنہیں محسوس نہیں کرتا۔

جو شخص مہدی سے قریب ہوتا ہے وہ کبھی بھی ویسا نہیں رہتا جیسا پہلے تھا، کیونکہ یہ شخصیت بڑی خاموشی سے روحوں کا راستہ بدل دیتی ہے اور یادداشت میں ایک ایسا نقش چھوڑ دیتی ہے جو کبھی مٹ نہیں سکتا۔ اور یہی مہدی کی شخصیت کا سب سے بڑا راز ہے: وہ ایک مرد ہے جو عبقریت کو درد کی طرح، نبوت کو ذمہ داری کی طرح، صبر کو امتحان کی طرح، اور تنہائی کو مقدر کی طرح جیتا ہے۔ وہ ایسا شخص ہے جسے دنیا اپنی حدود میں قید نہیں کر سکتی، اور نہ ہی لوگ اُس کی اصل حقیقت سمجھ سکتے ہیں۔

اسی لیے تم ہمیشہ اُسے دیکھو گے کہ وہ لوگوں کے درمیان رہتا ہے مگر اُن میں سے نہیں ہوتا، اُن کے ساتھ ہوتا ہے مگر اُن کے لیے نہیں۔ وہ اُن سے محبت کرتا ہے مگر وہ اُسے سمجھ نہیں پاتے، وہ اُن کا بوجھ اُٹھاتا ہے مگر وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اُنہیں محسوس نہیں کرتا۔

گہری کھائی میں چلنے والا انسان:

جب تم مہدی کو دیکھتے ہو تو تمہیں لگتا ہے کہ اُس نے سب کچھ جھیل لیا ہے — سخت آزمائشیں، بار بار کی ناکامیاں، دل کو چیر دینے والی جدائیاں، بھاری تنہائی، ایسے صدمات جو کسی انسان کے لیے ناقابلِ برداشت ہوں، اور قریبی لوگوں کی غداریاں۔ تم سوچتے ہو کہ وہ سب کچھ سہہ کر اور مضبوط ہو کر باہر نکلا ہے، زیادہ باشعور ہو گیا ہے، زیادہ پاکیزہ ہو گیا ہے۔

مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ کسی بھی چیز سے باہر نہیں نکلا۔ وہ آج بھی ان سب چیزوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ لوگوں کی نظر میں وہ ایک پہاڑ کی طرح مضبوط لگتا ہے، لیکن اپنی نظر میں وہ کھائی کے سب سے نچلے حصے میں کھڑا ایک شخص ہے جو آسمان کو دیکھ رہا ہے، اور جانتا ہے کہ وہاں نہیں پہنچ سکتا جب تک اللہ نہ چاہے۔

ہر تجربہ جو اُس نے گزارا، اُس کے شعور کو بڑھاتا رہا، مگر اُس کے اندر یہ احساس بھی بڑھتا گیا کہ وہ سب سے زیادہ دور ہے، سب سے زیادہ اکیلا ہے۔ وہ انسانوں میں رہتا ہے مگر اُن کا نہیں لگتا، گویا یہ زندگی بس گزر رہا ہے مگر پکڑ نہیں رہا۔

وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ مسلسل اس کھائی کی طرف بڑھ رہا ہے، بلکہ یوں کہو کہ وہ پہلے ہی کھائی میں رہ رہا ہے۔ وہ اندھیروں کو بار بار دیکھتا ہے، چاہے کتنی بھی اصلاح کی کوشش کرے۔ وہ دلوں کو بند دیکھتا ہے، چاہے کتنی ہی نرمی اور سچائی سے اُنہیں کھولنے کی کوشش کرے۔ وہ رات کو حد سے زیادہ طویل محسوس کرتا ہے، چاہے اُمید کے کتنے ہی چراغ جلائے۔

مہدی کی اندرونی کیفیت:

وہ محسوس کرتا ہے کہ اپنی تمام کوششوں کے باوجود آخر میں وہ وہیں آ کر رک جاتا ہے —
ایک گہری تنہائی، ایک خاموش غم، ایک جلتا ہوا دل جسے کوئی نہیں دیکھ پاتا۔
وہ کسی سے شکوہ نہیں کرتا، مگر وہ اس بوجھ کو ہمیشہ محسوس کرتا ہے۔
یہ بوجھ اُس کی خاموشی میں، اُس کی آنکھوں میں، اور اُس کی لمبی دعاؤں میں چھپا رہتا ہے جب وہ رات کے آخری پہر اپنے رب سے ہمکلام ہوتا ہے۔

وہ جانتا ہے کہ چاہے وہ کچھ بھی کرے، وہ ہمیشہ اس درد کا قیدی رہے گا، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اُس کا مشن اُس کی طاقت سے بڑا ہے اور اُس کے پاس اپنی ذات پر کوئی اختیار نہیں۔ اُس کے پاس اگر کچھ ہے تو وہ اُس کا صبر اور اللہ سے تعلق ہے۔

مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ جب لوگ اُسے دیکھتے ہیں تو اُنہیں ایک عجیب سا احساس ہوتا ہے۔ حالانکہ وہ خود کھائی (گہری اندھیروں) میں رہتا ہے، مگر دوسروں کو امید دیتا ہے۔ جیسے کہہ رہا ہو:

کھائی میں بھی اللہ موجود ہے۔

لوگ حیران ہوتے ہیں کہ یہ شخص اندر سے ٹوٹا ہوا ہے، پھر بھی اس کے پاس اتنی طاقت کہاں سے آتی ہے؟ یہ اتنا مجروح ہے، پھر بھی اس میں اتنی رحمت کیسے ہے؟ یہ خود اندھیروں میں ڈوبا ہے، پھر بھی دوسروں کو امید کی روشنی کیسے دیتا ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ مہدی اس تضاد کو مسلسل جیتا ہے —
وہ درد جھیلتا ہے تاکہ دوسروں کو رحمت دے سکے،
وہ تنہائی جھیلتا ہے تاکہ دوسروں کو رفاقت دے سکے،
وہ خاموش رہتا ہے تاکہ دوسروں کو کلمۂ حق دے سکے،
وہ کھائی میں رہتا ہے تاکہ دوسروں کو اوپر اٹھنے کی امید دے سکے۔

اور جب لوگ اُس سے ملتے ہیں تو اُنہیں اُس کی نظروں میں یہ جنگ نظر آتی ہے، اُس کی ہلکی سی مسکراہٹ میں وہ چھپے آتش فشاں دیکھتے ہیں، اور اُس کی مختصر باتوں میں وہ سالوں کے دکھ محسوس کرتے ہیں جو اُس نے کسی سے بیان نہیں کیے۔

مہدی کی اصل طاقت:

وہ ایسا شخص ہے جو کھائی میں رہتے ہوئے بھی نہیں گرتا، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اللہ اُس کے ساتھ ہے، چاہے وہ کھائی کے سب سے نچلے مقام پر کیوں نہ ہو۔
جو بھی اُس کے قریب آتا ہے، سمجھ لیتا ہے کہ مہدی کوئی عام شخص نہیں ہے، وہ عام زندگی نہیں گزارتا۔
وہ ایک ایسے کنارے پر چل رہا ہے جہاں ہر دن فنا کی طرف ایک قدم ہے، لیکن وہ پھر بھی مسکراتا ہے کیونکہ اُس کا دل صرف اللہ سے جڑا ہے۔
وہ جانتا ہے کہ یہی کھائی اُس کا واحد راستہ ہے جو اُسے اللہ کے وعدے تک لے جائے گی جو اُسے آخرکار نصیب ہونا ہے۔

مہدی کی باطنی کیفیات اور تضاد:

مہدی کی شخصیت ایک مسلسل تغیر (تبدیلی) میں رہتی ہے۔
وہ عام لوگوں کی طرح ایک ہی فطرت یا رویے پر جم نہیں جاتا۔
کبھی تم اُسے دیکھو گے تو وہ نرم دل اور معاف کرنے والا ہوگا، کسی سے ٹکراؤ نہیں چاہے گا، سب کو رحمت کی نظر سے دیکھے گا۔
اور کبھی تم اُسے دیکھو گے تو وہ تلوار کی طرح سخت ہوگا، غلطی برداشت نہیں کرے گا، حق قائم کرے گا اور کسی کی پرواہ نہیں کرے گا۔

یہ تبدیلیاں کسی نفسیاتی کمزوری کی وجہ سے نہیں ہوتیں، بلکہ یہ اُس کی روح کے آئینے کی عکاسی ہیں۔
وہ ہر لمحے حق کی عکاسی کرتا ہے۔
جب خیر دیکھتا ہے تو اُس کے ساتھ مہربان ہو جاتا ہے،
اور جب ظلم دیکھتا ہے تو اُس کا دل شعلہ بن جاتا ہے۔
وہ ہر لمحے کو صدقِ دل سے جیتا ہے، کوئی مصنوعی کردار ادا نہیں کرتا بلکہ دل میں جو ہے اُسے سچائی سے ظاہر کرتا ہے۔

اسی لیے لوگ اُس کے بارے میں حیران رہ جاتے ہیں:
کیا وہ رحم دل انسان ہے یا سخت؟
کیا وہ سادہ ہے یا گہرا اور پیچیدہ؟

مہدی کی شخصیت میں یہ دونوں کیفیتیں — نرمی اور سختی — ساتھ ساتھ موجود ہیں، اور یہی بات لوگوں کو الجھا دیتی ہے۔
کبھی وہ انتہائی سادہ اور عاجز لگتا ہے، جیسے ایک عام آدمی، اور کبھی وہ اتنا پیچیدہ نظر آتا ہے کہ لوگ اُس کی گہرائی کو سمجھ نہیں پاتے۔
یہ سب اُس کی روح کی حقیقت کا عکس ہے۔ وہ انسان نہیں بلکہ ایک آئینہ ہے جو ہر وقت حق اور باطل کی حقیقت کو ظاہر کرتا ہے۔

مہدی کا درد اور مشن:

مہدی جانتا ہے کہ اس دنیا میں اُس کے لیے سکون ممکن نہیں، کیونکہ اُس کا دل اللہ کے راز سے جڑا ہے اور اُس کی جان ایک ایسے بوجھ سے بندھی ہوئی ہے جو عام لوگ اٹھا نہیں سکتے۔
وہ صبر کو اپنی ڈھال بنائے رکھتا ہے، کیونکہ اُس کے پاس اپنی ذات پر اختیار نہیں۔
لوگ جب اُسے دیکھتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں کہ وہ کس طرح مسکرا سکتا ہے، حالانکہ اُس کا دل دکھ سے بھرا ہوتا ہے۔
وہ دوسروں کے لیے امید کا چراغ بنتا ہے، حالانکہ وہ خود اندھیروں میں جل رہا ہوتا ہے۔

مہدی کا اثر:

جو بھی مہدی کے قریب آتا ہے، اُس کی زندگی بدل جاتی ہے۔
وہ انسانوں کے دلوں کی سمت بدل دیتا ہے، چاہے وہ خود اس بات سے واقف نہ ہوں۔
وہ روحوں کے راستے پر ایک ایسا نشان چھوڑتا ہے جو کبھی مٹتا نہیں۔
لوگ اُس کے الفاظ بھول سکتے ہیں، لیکن اُس کی آنکھوں اور سکوت کا اثر نہیں بھولتے۔

آخری حقیقت:

مہدی کی زندگی درد اور قربانی کی ایک طویل کہانی ہے۔
وہ اپنے زمانے سے آگے بھی ہے اور پیچھے بھی،
وہ آخری لمحے کی آواز بھی ہے اور آنے والے زمانے کا پیامبر بھی۔
دنیا کے لوگ اُسے پوری طرح کبھی نہیں سمجھ سکیں گے۔
وہ اُن کے ساتھ ہوگا، مگر اُن میں سے نہیں۔
وہ اُن کے لیے دعا کرے گا، حالانکہ وہ اُس کے دل کو نہ پہچانیں گے۔
وہ اُن سے محبت کرے گا، حالانکہ وہ سمجھیں گے کہ وہ اُنہیں نہیں دیکھتا۔

گزشتہ سال امام مہدی کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا خلاصہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم، والصلاۃ والسلام علی رسولہ الأمین سیدنا محمد و علی آلہ و صحبہ أجمعین۔

خلاصہ اس بات کا کہ امام مہدی کے ساتھ اس سال کیا واقعہ پیش آیا— یہ ہم نے خوابوں، رؤیاؤں اور زمینی حقائق کی پیش رفت سے اخذ کیا ہے۔ ہمیں امام مہدی کی ذاتی حیثیت سے کوئی معرفت حاصل نہیں، نہ ہی کسی اور کو ہے۔ وہ ایک عام انسان کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ لیکن یہ وہی مہدی ہیں جن کے بارے میں کوئی یقینی طور پر اس وقت تک نہیں جانتا۔

سال 2024 میں جو کچھ ہوا، اس کی جھلک کچھ یوں ہے:

جو کچھ بھی امام مہدی کے ساتھ اس سال میں پیش آیا، وہ زیادہ تر رؤیاؤں اور زمینی حقائق کو ایک مخصوص منظرنامے کے ساتھ جوڑ کر اخذ کیا گیا۔ یہ سب ان کی بیعت اور اصلاح کی طرف قدم بہ قدم پیش رفت کا حصہ ہے۔

ابتدائی آزمائشیں:

امام مہدی کو شدید آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا، جن میں سے ایک ایسی بھی تھی جس نے بظاہر انہیں اللہ تعالیٰ کے راستے سے دور کر دیا۔ تاہم ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی خاص نگہداشت میں ہیں۔ ان کی ہر ایک قدم اللہ کے حکم سے طے شدہ ہے۔

اللہ تعالیٰ کے اولیاء کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے— اگر وہ دور کیے جائیں، تو کسی حکمت کے تحت، اور اگر قریب کیے جائیں، تو محض محبت اور شفقت کے تحت۔ اللہ انہیں اپنی نگرانی میں پرورش دیتا ہے، کبھی قریب کرتا ہے، کبھی دور، حتیٰ کہ ان کے لیے ایک خاص وقت آ جائے— اور وہ وقت ہے اصلاح کا۔

اصلاح کی ابتدا:

جس وقت امام مہدی کی اصلاح ہوگی، ان کا ظہور ہوگا، اور بیعت قریب آ جائے گی۔ جو آزمائش ان پر آئی، اس نے انہیں بظاہر اللہ سے دور کر دیا، اور ان کے اور رب کے درمیان ایک قسم کی دوری پیدا ہوئی۔ شاید وہ کسی خاص عنایت کے منتظر تھے، یا اس آزمائش کے ہونے کی توقع نہیں رکھتے تھے۔

لیکن وقت گزرنے کے ساتھ، انہیں سمجھ آیا کہ اللہ کا جو بھی فیصلہ ہوتا ہے، وہی خیر پر مبنی ہوتا ہے۔ انہوں نے صبر کیا، دل سے اعتراض نہیں کیا، اور نہ ہی گناہ گاروں کی طرح رب سے دور ہوئے، بلکہ محبوب کی ناراضگی کی طرح، ایک شکوے اور عتاب کی کیفیت میں رہے۔

اللہ سے تعلق کی گہرائی:

اللہ کے خاص بندوں کے اور بھی طریقے ہوتے ہیں، جو نہ دل سمجھ سکتا ہے، نہ عقل۔ یہ ایک ذوقی، روحانی راہ ہے۔ وہ اللہ سے ایسے تعلق میں ہوتے ہیں جیسے محبوب سے، ایک ایسا تعلق جس میں وہ ہر نظر میں، ہر مخلوق میں، ہر چیز میں اللہ کی جلوہ گری دیکھتے ہیں۔

ایسا یقین کہ گویا وہ اللہ کو دیکھ رہے ہوں۔ اگر وہ دنیا سے رخصت ہو کر آخرت میں پہنچ بھی جائیں، تو اللہ پر ان کا یقین ویسا ہی رہے گا جیسے دنیا میں تھا، کیونکہ یہ تعلق محض عقلی نہیں، بلکہ دید کی کیفیت میں ہوتا ہے۔

آزمائش کے بعد تقرب:

اس آزمائش نے انہیں بظاہر رب سے دور کیا، لیکن دل کے اعتبار سے وہ پختہ یقین اور استقامت پر قائم رہے۔ وہ رب سے صرف محبت کی بنیاد پر ناراض تھے، نہ کہ گناہ کی بنیاد پر۔

کچھ لوگ اس پر اعتراض کریں گے، لیکن اللہ کے اولیاء کا رب سے تعلق غلام اور آقا کا نہیں ہوتا، بلکہ ایک شفیق باپ، دوست، رفیق اور محبوب کا ہوتا ہے۔ وہ رب سے انس رکھتے ہیں، دنیا سے وحشت کرتے ہیں۔

اگر ان میں سے کسی کو خلوت سے نکال کر باہر لایا جائے، تو گویا جنت سے نکال کر دوزخ میں لے آئے ہوں۔ جب عام لوگ تنہا ہوں تو وہ پریشان ہو جاتے ہیں، لیکن یہ اولیاء خلوت کو نعمت جانتے ہیں۔

ذکر میں لذت:

یہ خلوت اللہ سے انس کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ وہ تنہائی میں اللہ کے ذکر، تسبیح اور نماز سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اگر کوئی شخص صرف ایک گھنٹے کے لیے کسی انتظارگاہ میں بیٹھے تو بیزار ہو جاتا ہے، لیکن اولیاء کو اس ذکر میں ایسی لذت ملتی ہے جس کا کوئی بدل نہیں۔

جس نے یہ لذت چکھی ہے، وہی اس کی حقیقت جانتا ہے۔ اسی لیے بعض صالحین کہتے تھے: "ہم ایک ایسی لذت میں ہیں، اگر بادشاہوں کو اس کا علم ہو جائے تو وہ تلواروں سے ہم پر حملہ کر دیں۔”

مزید تقرب اور پختگی:

2024 کی آزمائش کے بعد امام مہدی کا اللہ سے قرب مزید بڑھا، ان کی معرفت وسیع ہوئی۔ پہلے وہ اللہ کو صرف ایک پہلو—رحمت، محبت، شفقت، باپ جیسی مہربانی—سے جانتے تھے، مگر اب ان کا فہم بڑھا۔

اگر کوئی اس پر اعتراض کرے تو اللہ تعالیٰ نے خود کو "الحنان”، "المنان”، "الودود” کہا ہے۔ اگر یہ صفات ہمارے ساتھ اس کے سلوک میں ظاہر نہ ہوتیں، تو وہ ان سے متصف کیوں ہوتا؟

تجربات اور عملیت:

امتحانات نے ان کی شخصیت کو نکھارا، تجربات نے ان کا وزن بڑھایا۔ اب وہ ایک مجرب، عملی انسان بن چکے ہیں۔ اصلاح کے قریب آ چکے ہیں، حالانکہ مکمل اصلاح ابھی نہیں ہوئی۔

ان کی مالی حالت میں بہتری آئی ہے، گو کہ ابھی مکمل مالی تحفظ حاصل نہیں۔ اللہ کے اولیاء کے نزدیک مال محض ایک ذریعہ ہے۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو دنیا کی تمام دولت رکھتے ہیں مگر اللہ کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔

مال اور اللہ کے تعلق کی نوعیت:

اللہ جانتا ہے کہ اس کے بعض اولیاء کی اصلاح صرف مال کے ساتھ ہی ممکن ہے، کیونکہ وہ جب مال کی حالت میں ہوتے ہیں تبھی اللہ کے ساتھ ان کا تعلق مکمل ہوتا ہے۔ یہ سب اللہ کی حکمت کے تحت ہوتا ہے۔

دنیا میں عام لوگوں کا رزق ان کی محنت سے ہوتا ہے، چاہے وہ چوری، فریب یا محنت سے حاصل ہو، مگر اولیاء کی دنیا الگ ہوتی ہے۔

خاتم الاولیاء اور خلیفہ:

امام مہدی نہ صرف مہدی ہیں بلکہ خاتم الاولیاء اور خلیفہ بھی ہیں۔ خلیفہ دنیا اور دین دونوں کے معاملات سنبھالتا ہے۔ دینی امور میں، ہم سمجھتے ہیں، کہ وہ فارغ ہو چکے ہیں، اب صرف دنیاوی پہلو کی اصلاح باقی ہے۔

یہ اصلاح انہوں نے اپنی خواہش اور اللہ کے حکم سے مؤخر کی تھی، لیکن اب ان کے پاس وہ تمام صلاحیتیں موجود ہیں جو کسی بھی اعلیٰ درجے کے عالم، تاجر یا کاروباری شخص کے پاس ہو سکتی ہیں۔

حکمت اور قیادت کی صلاحیت:

اب وہ خود پر اعتماد رکھتے ہیں، مسائل کو سنبھالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ان کے اندر جذباتی استقامت آ چکی ہے، وہ زیادہ سمجھدار، بردبار اور عاقل ہو چکے ہیں۔

جوانی کی بے احتیاطی پیچھے رہ گئی، اور اب وہ عمرِ حکمت—چالیس سال—کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اب وہ نہ ماضی کی آزمائشوں سے پریشان ہوتے ہیں، نہ مستقبل کے خدشات سے۔

وہ جان چکے ہیں کہ سب کچھ اللہ کے حکم سے ہوتا ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ سستی اختیار کرتے ہیں، وہ اپنی تمام ذمہ داریاں پوری کرتے ہیں، اسباب اختیار کرتے ہیں، پھر نتیجے کو اللہ پر چھوڑتے ہیں۔

مالی استحکام:

مالی اعتبار سے ان کی حالت بہتر ہو گئی ہے، اب ان کے پاس آمدنی ہے۔ شاید وہ آمدنی کافی نہ ہو، مگر پہلے سے بہتر ہے۔ اگرچہ یہ درمیانے طبقے کی آمدنی نہیں، مگر ان کے سابقہ حالات کے مقابلے میں یہ ایک نعمت ہے۔

اصلاح کے قریب:

اب وہ اصلاح کے بہت قریب ہیں۔ ان کی دنیاوی شخصیت مکمل ہو چکی ہے، وہ اب خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے قابل ہو چکے ہیں۔ روحانی طور پر وہ خاتم الاولیاء بن چکے ہیں، اب صرف اصلاح باقی ہے۔

یہ اصلاح دونوں پہلوؤں—مادی اور روحانی—سے ہوگی، تاکہ ان پر الٰہی فتح اور کشفِ شہودی نازل ہو، اور ساتھ ہی وہ ایک خلیفہ کے طور پر دنیا کے امور، فوج، معیشت، جنگ، حکمتِ عملی، حکمرانی اور بین الاقوامی تعلقات کو اللہ کے احکام کے مطابق سنبھال سکیں۔

اختتامیہ:

یہی وہ فرق ہے جو امام مہدی اور کسی عام حاکم کے درمیان ہوتا ہے۔
واللہ المستعان، اور اسی پر ہمارا بھروسہ ہے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاته۔

یوٹیوب پر مفتی طارق مسعود کی ویڈیو پر تبصرہ

تبصرہ:

مرد کی غیرت یہ ہے کہ بیوی کے ساتھ کسی کو دیکھ لے تو قتل کرسکتا ہے لیکن اللہ نے منع کیا ہے اور لعان کا حکم دیا ہے مولوی اتنا بے غیرت ہوتا ہے اور بناتا ہے کہ حلالہ کی لعنت سے معاشرے کو بے غیرت بنادیتا ہے

 

نمبر 1

مہدی کیسے دوستوں ،ارد گرد والوں میں کیسے ظاہر ہوگا؟ اور اس پر تہمت کی وجہ کیا ہوگی؟۔ پہلی بار راز افشاء۔ عنقاء مغرب :30جولائی

ہمار ی آج کی قسط کا عنوان :” امام مہدی اپنی الجھن میں ڈالنے والی شخصیت کیساتھ اپنے دوستوں اور ارد گرد کے سامنے کیسے ظاہر ہوتے ہیں؟۔اور وہ ان پر غفلت کا الزام کیوں لگاتے ہیں؟”۔

ابن عربی امام مہدی کی وضاحت کرتے ہیں کہ لوگ اس کی مخالفت کیوں کرتے ہیں۔وہ اجنبی جو ان جیسا ہے بھی اور ان جیسا نہیں بھی ہے۔ جب لوگ امام مہدی کے قریب آتے ہیں تو وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ ایک سادہ سا آدمی ہے۔ نہ وہ اپنی آواز بلند کرتا ہے ، نہ فخرکرتا ہے، نہ اپنی انفرادیت ظاہر کرتا ہے۔ اگر وہ مسکراتے ہیں تو وہ بھی مسکراتا ہے اور وہ غم گین ہوتے ہیں تو وہ بھی غمگین ہوتا ہے مگر جب وہ طویل وقت تک اس کی مجلس میں بیٹھتے ہیں تو اس کی اجنبیت ظاہر ہونے لگتی ہے۔ جیسے اس کی باتیں وقت سے آگے ہوں۔ جیسے اس کی نگاہیں وہ کچھ دیکھ رہی ہوں جو لوگ نہیں دیکھ سکتے۔ اور جیسے اس کی خاموشی ایسے راز بیان کررہی ہوں جنہیں وہ برداشت نہیں کرسکتے۔ وہ اسے اپنا جیسا سمجھتے ہیں لیکن جلد ہی دریافت کرلیتے ہیں کہ وہ ان جیسا نہیں ہے۔ وہ کم بولتا ہے لیکن اسکے الفاظ ذہنوں میںتکلیف دہ سوالات کھول دیتے ہیں۔ اور وہ ایسے سوال کو پسند نہیں کرتے جو ان کے دوہرے چہرے کو ظاہر کرکے ان کو ہلا ڈالے۔ اس کیلئے ممکن نہیں کہ اس تقدیر سے فرار حاصل کرلے۔ کیونکہ یہ اس پر لکھ دیا گیا ہے کہ وہی ہوگا۔ اس وجہ سے وہ دو خوفناک داخلی نفسیاتی کشمکش کے درمیان زندگی گزاررہا ہے۔

پہلی کشمکش اس انسان کی ہے جو چاہتا ہے کہ وہ ایک عام آدمی کی زندگی گزارے۔اور دوسری کشمکش وہ عجیب چیز ہے جو بچپن سے اس کے ساتھ ہے۔اور جو اس پر غالب آنا چاہتی ہے اور اس کے ذریعے ظاہر ہونا چاہتی ہے۔ لیکن جتنی بھی وہ کوشش کرے یہ چیز ظاہر نہیں ہونا چاہتی جب تک کہ اس کا مقررہ وقت نہ آجائے۔ بس مہدی ایک عام شخص نہیں بلکہ وہ ایک غیرمعمولی انسان ہے جو اپنی سادی زندگی گزاررہاہے اور جانتا بھی نہیں ہے کہ وہ کون ہے؟۔

مہدی دو چہروں کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے۔

1:رحمت کا چہرہ۔اس کی موجودگی میں لوگ سکون محسوس کرتے ہیں۔ بچہ اس کے چہرے میں باپ کو دیکھتا ہے۔مظلوم اس کی خاموشی میں وعدہ دیکھتا ہے۔ فقیر اس کی سادگی میں تسلی پاتا ہے۔

2: سختی کا چہرہ۔جب ظلم دیکھتا ہے تو اس کا چہرہ بدل جاتا ہے۔ اسکے الفاظ تلوار کی طرح واضح ہوتے ہیں۔ ایسے لہجے میں بولتا ہے جس میں کوئی سودے بازی نہیں ہوتی ۔

لوگ اس تضاد کو سمجھ نہیں پاتے۔ ایک شخص نرم ہوا کی طرح رحیم ہو، اور طوفان کی طرح سخت بھی ہوتووہ سختی سے ڈرجاتے ہیںاور رحمت سے بھاگتے ہیں۔کیونکہ وہ ان کی سنگدلی کو بے نقاب کرتی ہے۔ لوگ مہدی کو خاموش دیکھتے ہیں ،وہ مجلس میں کسی کی بات نہیں کاٹتا،اس کی آنکھیں سب کچھ نوٹ کررہی ہوتی ہیں جیسے وہ لمحے کی تاریخ اپنی یاد میں لکھ رہاہو۔جب وہ دیر تک خاموش رہتا ہے تو لوگ پریشان ہونے لگتے ہیں : کیا وہ ان میں کچھ دیکھ رہاہے جو وہ خود نہیں دیکھ سکتے؟۔ کیا وہ دل میں ان پر کوئی فیصلہ کررہا ہے؟۔کیا وہ ایسا سوچ رہاہے جو وہ نہیں جان سکتے؟۔ وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ انکے سامنے کھل گئے ہیںاور لوگ نہیں چاہتے کہ وہ کسی کے سامنے بے بس محسوس کریں۔

لوگ مہدی جیسا نہیں سوچتے لوگ ان سے محبت کرتے ہیںجو ان جیسا سوچیں کیونکہ ایسے لوگ انہیں تسلی دیتے ہیں مگر مہدی مختلف انداز سے سوچتا ہے۔ وہ انکے مسائل کا ایسا حل دیکھتا ہے جو انکے ذہن میں نہیں آتا۔ ان کی باتوں اور عملوں کے پیچھے نیتوں کو سمجھتا ہے بغیر کہ وہ کچھ کہیں۔ وہ ایک ہلکی سی نصیحت دیتا ہے اگر وہ مان جائیںتو زندگی بدل دیتی ہے۔ ایک مسکراہت دیتا ہے جس کا مطلب مہینوں بعد سمجھ میں آتا ہے۔ یہ عبقریت انہیں پریشان کرتی ہے۔ کیونکہ یہ انہیں ان کی حقیقت کے سامنے لاکھڑا کرتی ہے۔ اور لوگ اپنی حقیقت سے فرار چاہتے ہیں۔ لہٰذاوہ مہدی پرالزام لگاتے ہیں تاکہ حقیقت سے بچ سکیں۔ کہتے ہیں کہ وہ پاگل ہے تاکہ اپنی عقل کو جھٹکا نہ لگے۔ وہ متکبر ہے تاکہ ان کا احساس کمتری چھپ جائے۔ وہ پر اسرار ہے تاکہ وہ اپنی ناکامی کو جواز دے سکیں کہ سمجھ نہ سکے۔

تعلقات میں الجھن:

لوگ سادہ تعلقات چاہتے ہیں : باتیں، ہنسی، مفاد، چاپلوسیاں۔ مگر مہدی ان کو ایک ایسی سچائی دیتا ہے جو وہ برداشت نہیں کرسکتے۔ دوستی میں کوئی منافقت نہیں کرتا۔ سچائی سے نصیحت کرتا ہے۔ غلطی کا دفاع نہیں کرتاتو لوگ اسے چھوڑ دیتے ہیںاور کہتے ہیں کہ یہ تو پیچیدہ انسان ہے۔ نکاح میں ظاہری زندگی نہیں چاہتا بلکہ اسی روحانی گہرائی مانگتا ہے جو عام دلوں کے بس کی بات نہیں۔معاشرے میں دکھاوے سے دور رہتاہے۔ شہرت اور طاقت سے گریز کرتا ہے تو لوگ اس کیلئے جگہ نہیں پاتے اور اس کو اجنبی سمجھتے ہیں۔ لوگ مہدی کیساتھ نہیں چل سکتے نہ اسلئے کہ مہدی ناکام ہے بلکہ اسلئے کہ وہ سچائی کا ساتھ نہیں دے سکتے۔

مہدی کا احساس:

مہدی محسوس کرتا ہے کہ وہ زمانے کا آخری انسان ہے وہ اپنے کندھوں پر ایک امت کی ذمہ داری اٹھائے ہوئے ہے۔ وہ دنیا میں پھیلے ظلم کو دیکھتا ہے لیکن وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اپنے وقت سے آگے ہے۔اس کی نگاہیں ان سچائیوں کو دیکھتی ہیںجو لوگوں سے اوجھل ہیں۔ وہ ایک ایسے وقت میں زندہ ہے جو ابھی آیا نہیں۔ یہ دوہرا احساس اس کو جلا دیتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو ایک گہری کھائی میں دیکھتا ہے۔وہ اپنے آپ کو عظیم نہیں سمجھا جیسا کہ لوگ سمجھتے ہیں بلکہ وہ خود کو ایک عاجز بندہ سمجھتا ہے جو درد ، تنہائی اور اجنبیت میں گرا ہوا ہے۔مگر اللہ اسے ایک ایسا نور عطا کرتا ہے جو کبھی بجھتا نہیں۔ وہ لوگوں کو ہنستا دیکھتا ہے خود انجام کو دیکھتا ہے۔لوگ ظلم کرتے ہیں وہ حساب کو دیکھتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں تو پہلے ہی کھائی میں ہوں، میرا ہرقدم اللہ کی طرف ہے۔ لوگ نہیں سمجھتے کہ مہدی کے صبر اور طاقت کا راز کیا ہے؟۔وہ اس کا رب سے تعلق ہے۔

لوگ حق کو نہیں پہچانتے جب وہ ان کی عادت کے خلاف ہو

اگر وہ عاجز ہے تو کہتے ہیں کہ قیادت کے لائق نہیں۔ اگر سخت ہو تو کہتے ہیں کہ اس میں رحم نہیں۔ اگرزاہد ہو تو کہتے ہیں کہ دنیا کے قابل نہیں۔ اگر خاموش ہو تو کہتے کہ علم نہیں۔ لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ حق کو عادت سے نہیں ناپا جاسکتااور مہدی اسلئے آتا ہے کہ لوگوں کی مردہ روحوں میں حق کو زندہ کرے۔ اور جو اس کو حق نہیں سمجھتے تو دراصل وہ اپنے اندر کے حق کو جھٹلاتے ہیں۔ لوگ مہدی کو متضاد شخصیت والا سمجھتے ہیں کیونکہ سچ برداشت نہیں کرسکتے اور عدل سہہ نہیںسکتے۔اور اپنی حقیقت کا سامنا نہیں کرنا چاہتے ۔تو اس پر الزام لگاتے ہیں ،اس سے بھاگتے ہیں، اسے دایونہ کہتے ہیں۔ جبکہ وہ اللہ کی خاموشی میں جیتا ہے۔ اللہ کے فیصلے پر چلتا ہے ۔ تنہائی کی کھائی میں مسکراتاہے اور جانتا ہے کہ فتح کا دن قریب ہے۔ اور اللہ اسکے ساتھ ہے چاہے سب چھوڑ جائیں۔ مہدی کی تنہائی کوئی انتخاب نہیں بلکہ الٰہی مجبوری ہے۔یہ کوئی روحانی شوق یا صوفیانہ فرار نہیں بلکہ ایک الٰہی منصوبہ ہے۔ ایک حکم ہے ایک سخت شرط ہے جس کو توڑا نہیں جاسکتا ۔ یہ تنہائی ویسے ہی ہے جیسے سونے کو پگھلا کر خالص کیا جائے۔ یہ ایک آپریشن تھیڑ ہے جہاں آخری زمانے کے خلیفہ کی تیاری ہورہی ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اگست 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

یہود امام مہدی کی تلاش میں کیوں ہیں؟

پہلے ہمیں امریکہ اور یورپ میں یہ خطرناک نفسیاتی تصورکو سمجھنا ہوگا کہ ” جب کوئی جماعت کسی پیشین گوئی پر یقین رکھتی ہے اور اسکے پورا ہونے کا شدت سے انتظار کرتی ہے تو کائنات میں ایک توانائی حرکت میں آتی ہے جو اس پیشگوئی کو حقیقت میں بدل دیتی ہے”۔ چاہے یہ پیشین گوئی سچ ہو یاجھوٹ ؟ انکے خیال میں یہ توانائی اتنی طا قتور ہوتی ہے کہ وہ حقیقت کو جنم دے سکتی ہے۔ ….. عنقاء مغرب

چینل قناة ”عنقاء مغرب”میں خوش آمدید ۔ آج ہماری قسط کا عنوان ہے : ” یہودی امام مہدی کو تلاش کررہے ہیں”۔

سوال یہ ہے کہ کیوں امام مہدی کا نام عالمی خفیہ ایجنسیوں کی میز پر موضوع بنا ہوا ہے؟۔ کیا خطرناک معلومات ان کے بارے میں حاصل کی جاچکی ہیں؟۔ امام مہدی کیوں دنیا کی خفیہ ایجنسیوں کے ریڈار پر ہیں ؟۔ اے اللہ کے پیارو! آئیے ہم صدق دل اور سکون کیساتھ اس نازک اور حساس باب میں داخل ہوتے ہیں۔ کیوں امام مہدی کا نام خفیہ ایجنسیوں کے دفاتر میںزیر بحث ہے ؟، کیوں وہ ہر اس سراغ یا اشارے کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کی شناخت کی طرف جائے؟۔ پہلے ہمیں امریکہ اور یورپ میں موجود ایک بہت خطرناک اور نفسیاتی تصور کی حقیقت جاننا ہوگی۔ یہ نظریہ کہتا ہے :”جب کوئی جماعت کسی پیشین گوئی پر مکمل یقین رکھتی ہے اور اس کو پورا ہونے کا شدت سے انتظار کرتی ہے تو پھر اس کی وجہ سے اس کائنات میں وہ خودکار توانائی حرکت میں آتی ہے جو اس پیشین گوئی کو حقیقت میں بدل دیتی ہے”۔ چاہے یہ پیشین گوئی سچ ہو یا جھوٹ ۔ان کے خیال میں یہ توانائی اتنی طاقتور ہوتی ہے کہ وہ حقیقت کو جنم دے سکتی ہے۔

( مولانا عبیداللہ سندھی نے شاہ ولی اللہ کے حوالہ سے یہی نظریہ نقل کیا کہ اہل حق کا عزم مضبوط ہو یا اہل باطل کا تو اس کا اثر خطیرة القدس پر پڑتا ہے۔اور پھر دنیامیں غلبے کی بنیاد عزم کی مضبوطی پر ہوتی ہے)۔

مغرب مہدی کی صرف کہانی سے نہیں ڈرتا بلکہ اس کو خطرہ محسوس ہوتا ہے۔کیونکہ انکے نزدیک اجتماعی پر جوش سوچ چیزوں کو حقیقت میں بدل دیتا ہے۔ یہ ”قانون کشش” (Law of Attraction) کہلاتا ہے جس پر آپ توجہ دیتے ہیں وہی آپ کو حاصل ہوتا ہے۔

مغرب امام مہدی کو عدل کا منتظر نہیں نجات دہندہ سمجھ کر نہیں بلکہ اپنے نظام کیلئے ایک خطرہ سمجھ کر تلاش کررہا ہے۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ مہدی محض ایک خرافہ ہے تو پھراگر ایسا ہے تو مغرب یہ معاملہ اتنا سنجیدہ کیوں لیاہے؟، کیوں اس پر بجٹ بنتے ہیں؟،خفیہ فائلیں اور رپورٹ اس پر مبنی ہیں؟۔ جواب بالکل واضح ہے کہ

مغرب جانتا ہے کہ دنیا کو اصل میں خیالات ہی چلاتے ہیں۔ ایک ”خیال” ہی زمین کی کایا پلٹ سکتا ہے۔ اسلئے وہ عوام کو سطحی چیزوں میں مصروف رکھتے ہیں۔ وہ انہیں ہر چیز سکھاتے ہیںمگر سوچنا نہیں سکھاتے۔ وہ انہیں آزادی کا دھوکہ دیتے ہیں مگر اصل میں انہیں صرف خواہشات اور لذتوں میں بند رکھتے ہیں ۔ گہری سوچ انکے منصوبوں کی سب سے بڑی دشمن ہے۔عالمی خفیہ ایجنسیاں جانتی ہیں کہ اگر کسی خاص شخص کا چرچا عام ہوجائے اگر ایک ارب سے زائد مسلمان اس پر یقین رکھتے ہوں تو یہ صرف خیال نہیں رہتا بلکہ ایک ایسی تونائی بن جاتی ہے جو حقیقت بن سکتی ہے۔ اسلئے جب کوئی انٹیلی جنس آفیسر اس حقیقت کو جان لیتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ مہدی ایک نام نہیں بلکہ نظریہ ہے جو ان کے نظام کو ہلا دینے کی طاقت رکھتا ہے۔مغرب سویا ہوا نہیں بلکہ بیدار ہے ۔انہیں معلوم ہے کہ مسلمان ایک دن یا سال نہیں بلکہ صدیوں سے مہدی کا انتظار کررہے ہیںاور جتنایہ انتظار بڑھتا ہے اتنا ہی اس کو پورا ہونے کی طاقت بڑھتی ہے اسلئے جب وہ مہدی کا نام سنتے ہیں تو انہیں خطرہ محسوس ہوتا ہے ۔

مغرب میں ”تاریخ کے خاتمے کا نظریہ ” رائج ہے۔ جو بالواسطہ یہ اعتراف ہے کہ جب ان کی تہذیب ترقی کی آخری حد کو چھولے گی تو وہی ان کے زوال کی ابتداء ہوگی۔ یہی ابن عربی کا فتیٰ ساحل ہے۔ وہ مشرقی نوجوان جس کا انتظار اہل مشرق کررہے ہیں۔یہ پیشین گوئیاں صرف مسلمانوں نے کیں بلکہ مغربی نجومیوں نے بھی کیں۔

جین ڈکسن مشہور امریکی نجومی نے مشرق سے عظیم نوجوان کی آمد کی پیشین گوئی کی ہے

1:جو دنیا کا نقشہ بدل دے گا۔
2:مسلمانوں کو غیر معمولی فتوحات دے گا۔
3:مشرق وسطیٰ اور دنیا پر حکومت کرے گا۔
4:اس کی آنکھیں گہری بھوری ، رنگ سانولا، چہرہ لمبوترا،مضبوط جسم اورگھنگھریالے بال ہونگے۔
5:اس کا نام ”میم” سے وابستہ ہوگا۔
6:وہ پردے کے پیچھے کام کرے گا۔
7:اور اللہ کی طرف سے محفوظ ہوگا۔

یہ خواب 1962ء سے چھپائے رکھا کیونکہ دھمکیاں دی گئیں۔ ہم نجومیوں کی تصدیق یا تکذیب نہیں کرتے مگر جب20 ویں اور 21ویں صدی میں یہ پیشین گوئیاں بار بار سامنے آئیں۔ جب مسلمان ایک ارب امام مہدی کے منتظر ہوںتو یہ محض اتفاق نہیں ہوسکتا ہے۔

نوسٹرڈیمیس نے بھی 1556میں ایک مسلم نوجوان کی آمد کی پیشین گوئی کی تھی۔ جو مشرق سے ابھرے گا ، بادشاہتوں کو گرائے گا اور تاریخ کا دھارا بدل دے گا۔ تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مغرب ان پیشین گوئیوں کو نظر انداز کرسکتا ہے؟۔ ہرگزنہیں بلکہ وہ ان پر تحقیق کرتا ہے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ یہ پیشین گوئیاں ذہنوں اور جذبات پر نظر انداز ہوتی ہیں۔

مغرب اسلام سے خوفزدہ ہے نہ کہ عیسائیت یہودیت سے کیونکہ اسلام صرف عبادت نہیں ایک مکمل نظام حیات ہے۔ اسلئے : صلیبی جنگیں ہوئیں۔ خلافت عثمانیہ گرائی گئی۔عراق پر حملہ ہوا۔ مشرق وسطیٰ میں فتنہ بھڑکایا گیا۔یورپ میں مسلمانوں کے خلاف پالیسیاں بنائی گئیں۔اسلامی شعار کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ سب اس خوف کا اظہار ہے۔کہ امام مہدی کا ظہور کہیں ان کے نظام کو نہ گرادے۔ اے اللہ کے پیارو! جب آپ سچے دل سے دنیا کا جائزہ لیتے ہیںتو آپ کو ایک ایسا عالم نظر آتا ہے۔جو انتشار میں ڈوبا ہوا ہے۔ ایک ایسا نظام جو بظاہر ترقی یافتہ ہے مگر پس پردہ ایک خفیہ ہاتھ اسے کنٹرول کر رہاہے۔ یہ قوتیں ہمارے سامنے اسکرینوں پر نظر آتی ہیں مگر عوام کو موبائل اسکرینز اور روزمرہ کے شور میں مصروف رکھ کر غافل کردیاگیا ہے۔ ان کے درمیان فکری انتشار پھیلادیا گیا ہے تاکہ وہ نہ جان سکیں کہ ان کے ساتھ کیا ہورہا ہے؟۔ خفیہ ایجنسیوں کے سائے دار کمروں میں جہاں اندھیرے اور اسرار چھائے رہتے ہیںوہاں مہدی کا نام بار بارگونجتا ہے ، وہ خاموشی سے اس کا مطالعہ کرتے ہیں۔ خوابوں، اشاروں اور علامتوں کی تعبیرات پر اس کی تحقیق کرتے ہیں۔حتیٰ کہ ایماندار دلوں کی کیفیات کو بھی دیکھتے ہیں۔کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ جب کوئی سچی اور زوردار ”فکر” جنم لیتی ہے تو کوئی رکاوٹ اور دیوار اس کا راستہ نہیں روک سکتی ہے۔

تو پھر مغرب کو امام مہدی کے تصور کا اتنا خوف کیو ں ہے؟۔ کیونکہ انہیں علم ہے کہ ایک ارب سے زائد مسلمان اس ایک شخص کے منتظر ہیںاور ہر گزرے دن یہ انتظار شدید تر ہوتا جارہاہے۔انہیں معلوم ہے کہ یہ مہدی کا تصور دماغی وہم نہیں، بلکہ یہ عقیدہ ہے جو انسان کے ایمان کی گہرائیوں میں پیوست ہے۔یہ تصور بچے کو ماں کے دودھ کے ساتھ پلایا جاتا ہے ، یہی تصور اسے ظلم سے آزادی دیتا ہے۔ اس عقیدے نے مغرب کو ہمہ وقت چوکنا کررکھا ہے اسلئے کہ وہ جانتے ہیں عظیم خیالات کبھی نہیں مرتے۔ اور وہ امت جو ایک زبردست خیال کی وارث ہو ،وہ کبھی ختم نہیں ہوسکتی ۔ چاہے وہ کمزور کیوں نہ نظر آئے۔

ان کا خوف صرف امام مہدی کی ذات سے نہیں بلکہ اس فکر سے ہے جو وہ مجسم کرتا ہے ۔کیونکہ امام ان کیلئے صرف ایک شخص نہیں بلکہ ایک عالمی نظام ظلم کے زوال کی علامت ہے۔

نظام پر مغرب کا تسلط ہے

1:ظلم پر قائم ہے۔
2:عوام کی محنت کو لوٹتا ہے۔
3:انسان کو شہوت پرست صارف (cosumrer) میں بدل دیتا ہے ۔
4:روحانی اقدار کو مٹاتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ جب امام مہدی آئیگا تو یہ سب کچھ زمین بوس ہوجائے گا۔یہ وہ کونیاتی قانون (UnivrsalLaw) ہے جس سے وہ ڈرتے ہیں۔”قانون کشش” یعنی جس خیال پر ایک گروہ خلوص نیت اور یقین کے ساتھ توجہ دے تو وہ خیال بالآخر طاقتور حقیقت میں تبدیل ہوجاتا ہے۔

سوچنے کی بات ہے کہ جب وہ خود ہمیں میڈیا میں باور کراتے ہیں کہ امام مہدی ایک افسانہ ہے تو پھر وہ خود کیوں اربوں ڈالر اس پر خرچ کررہے ہیں؟۔ کیوں وہ مشرق ومغرب میں جاسوس بھرتی کرکے ہر حرکت ، ہرخواب اور ہر اشارے کی نگرانی کرتے ہیں؟۔ جواب واضح ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ افسانہ نہیں بلکہ ایک ایسی ”زندہ فکر”ہے ان کے نظام کیلئے زہر قاتل ہے۔ ان کو معلوم ہے کہ یہ امت اگر کمزور بھی ہو تب بھی اس کے دل میں ایک بیج ہے ۔ مہدی کا بیج۔ جو کبھی نہیں مرتا۔ یہ وہ شخص عدل کا توازن واپس لائے گا۔جو ظلم کے ستونوں کو گرائے گاجو حق کو اس کے مقام پر رکھے گا۔ وہ جانتے ہیں کہ تاریخ اس لمحے کا انتظار کررہی ہے۔ اے اللہ کے پیارو!

نجومیوں کی رویائیں محض کھیل تماشا نہیں، جین ڈکسن جس نے فتیٰ مشرقی کی رؤیا دیکھی نہ صرف اس کا چہرہ دیکھا بلکہ :رنگ، آنکھیں،بالوں کی ساخت اور یہاں تک کہ اس کا نام ”میم” سے متعلق یہ بھی بتایا۔اور کہا کہ وہ پردے کے پیچھے کام کرے گا۔اللہ کے محفوظ منصوبے کا حصہ ہوگا۔ مشرق اور مغرب کو بدل ڈالے گا۔ یہی بات نوسٹر ڈیمس نے بھی کہی تھی کہ وہ مشرق سے آئے گا۔فتح کرے گا ، بادشاہتیں گرائے گا اور تاریخ کا دھارا بدل دے گا۔

تو کیا مغرب جو دنیا کی ہر چھوٹی بڑی بات پر نظر رکھتا ہے ، ان پیشین گوئیوں کو معمولی سمجھ کر چھوڑ دیتا ہے؟۔ نہیں ! بلکہ وہ تحقیق کرتاہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ باتیں اگرچہ مذہبی عقائد میں لکھی ہوں مگر پھر بھی قوموں کے شعور پر گہرے اثرات ڈالتی ہیں۔کیونکہ وہ امام مہدی کے تصور سے خوفزدہ ہیں اسلئے کہ وہ جانتے ہیں کہ اسلام صرف عبادت کا دین نہیں بلکہ ایک مکمل نظام زندگی ہے۔ اگر کوئی شخص آیا جس نے دلوں کو بیدار کردیا۔دین کو زندہ کردیا۔عدل کا نظام قائم کردیا تو ان کی ظالمانہ تہذیب جو ظلم ، حرص اور شہوت پر قائم ہے زمین بوس ہوجائے گی۔ اسلئے وہ حجاب کو روکتے ہیں۔اسلامی شعار پر حملہ کرتے ہیں ۔امت کو تقسیم کرتے ہیں۔خانہ جنگیاں کرواتے ہیں۔ گروہ بندیوں کو بھڑکاتے ہیں۔ تاکہ امت بیدار نہ ہو۔

وہ مہدی کے منتظر ہیں تاکہ اس سے لڑسکیں اور ہم منتظر ہیں تاکہ نجات پا سکیں۔ آج کا عالمی منظر عجیب تضاد سے بھرا ہوا ہے ۔ سائنسی ترقی عروج پر ہے مگر اخلاقی پستی انتہا پر۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا : فلسطین پر دنیا خاموش رہی ظالم کو بچایا گیا اور مظلوم کو مجرم ٹھہرایا گیا۔ یہ انحطاط، یہ زوال محض اتفاق نہیں ،یہ سب اس بات کا اشارہ ہے کہ

حق کی آمد قر یب ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقًا(حق آگیا اور باطل مٹ گیا ،بیشک باطل مٹنے والاہی تھا)اسلئے مغرب کا خوف امام مہدی کے حوالے سے محض ایک سیاسی معاملہ نہیں بلکہ یہ ان کی پالیسی کا بنیادی ستون ہے۔اس خوف میں صلیبی جنگیں ہوئیں۔خلافت گری۔ عراق پر حملے۔مشرق وسطیٰ کی آگ۔ اسلامی علامات پر پابندیاں۔ یہ سب ایک فکر کے خلاف ہے ۔ مہدی کی فکر کیوں؟۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ امت اگر بیدار ہوجائے تو زمین کا چہرہ بدل سکتی ہے۔ یہ عام دور میں نہیں جی رہے بلکہ نقابوں کے گرنے اور حقیقتوں کے ظاہر ہونے کا دور ہے۔ یہ عالمی توجہ امام مہدی پر محض اتفاقی نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے ہمیں بیدار کرنے کا اشارہ ہے۔ جب دنیا ظلم سے بھر جائے تو اللہ کی یہ سنت ہے کہ ایک نجات دہندہ بھیج کر حق کو غالب کرتا ہے۔ امام مہدی وہی شخص ہے جس کو اللہ نے چن لیا ہے۔جو عدل کو زمین میں واپس لائے گا جو ظالموں کا تخت گرائے گا۔ خفیہ ایجنسیاں کیوں نہیں سوتیں؟۔ کیونکہ انکے بند کمروں میںاور خفیہ فائلوں میں مہدی کا نام موجود ہے۔ وہ میڈیا میں اسے جھٹلاتے ہیں مگر اندرون خانہ مہدی کی حقیقت کو مانتے ہیں۔ وہ اسے مشرق میں، مغرب میں، شہروں ، دیہاتوں میں اور خوابوںاور مختلف زبانوں میں تلاش کرتے ہیں۔ کیونکہ ایک سچی فکر جب یقین بن جائے تو حقیقت بن جاتی ہے۔ اب مہدی ایک خیال نہیں بلکہ ایک ارب مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن ہے۔ یہ انتظار وقت ضائع نہیں کرتا بلکہ ایک زور دار توانائی پیدا کرتا ہے جو کائنات کو ہلا سکتی ہے۔

کیوں اتنا شدید خوف؟۔ اسلئے کہ وہ جانتے ہیں کہ رؤیا محض خواب نہیں بلکہ ”اللہ کے نظام کی علامتیں” ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ مہدی محض ایک واقعہ نہیں بلکہ عالمی زلزلہ ہوگا جو ظالم نظام کو گرادے گااور انسانیت کو آزادی دے گا۔ اور اگر امت ایک دل کی طرح بیدار ہوجائے تو کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی ۔ امام مہدی ایک فوجی نہیں بلکہ فکر نجات ہے۔ اسے مارا ،اسے روکا نہیں جاسکتا۔کیونکہ وہ ایک وعدہ ہے اور ”وعدہ الٰہی” کبھی جھوٹا نہیں ہوتا ۔ وکان وعداللہ مفعولًا ” اللہ کا وعدہ تو گویا پورا ہوچکا”

فلسطین کے بچے، مائیں، مظلوم یہ سب قربانیاں اس دن کی تیاری ہے۔ جب مہدی آئے گا اور امت کو عزت واپس دے گا۔انسانیت میں معنویت کو لوٹائے گا۔ اور عدل کو زمین پر غالب کردے گا۔ تو اے بھائی ! ہمیں صرف انتظار نہیں کرنا بلکہ اپنے دل کو پاک کرنے میں اس وقت کیلئے تیار ہونا ہے کہ جب مہدی وہ شخص ہوگا جس پر مظلوموں کے دل متفق ہوجائیںگے۔ یہ محض ایک قیاس نہیں بلکہ ایک یقینی وعدہ ہے جس کی گھڑی صرف اللہ جانتا ہے۔ اور جب وہ گھڑی آئے گی تو انسانیت کی ایک نئی کہانی کا آغاز ہوگا جہاں ظلم ہارے گا اور حق جیتے گا۔ آخری پیغام یہ ہے کہ اے اللہ کے بندو!

آپ نے آج کے اس مبارک قسط میں وہ حقائق سنے جو عام لوگوں سے چھپائے گئے۔آپ کومعلوم ہوا کہ وہ امام مہدی سے کیوں خوف کھاتے ہیں؟،کیوں دن رات اس کی نگرانی کرتے ہیں ؟اور کیوں نیند ان کی آنکھوں سے غائب ہے؟۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہرظالم نے کہا کہ ہم ناقابل شکست ہیں مگر جب اللہ کا وعدہ آیا، وہ سب گر پڑے اور صرف حق باقی رہ گیا۔ جس نے یہ گمان کیا کہ یہ امت ابھی کبھی نہیں اٹھے گی ۔ وہ دیکھے کہ یہ امت ابھی جاگ رہی ہے۔ یہ وعدہ الٰہی ہے اور اللہ اپنا وعدہ کبھی نہیں توڑتا۔ وکان وعد اللہ مفعولًا

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اگست 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

آذان کی تعریف میں ایسی نظم کہی کہ مودی اور یوگی شرمندہ ہوگئے

لتا حیاء: سنئے گا

یہ بھی تو ہیں آثار قیامت کے اے حیا !
جاہل اگرچہ ملک کے سردار ہو گئے
ابھی تلک تو یہی سنا تھا بڑی سیاست گندی ہے
لیکن اب ایسا لگتا ہے یہ بالکل ہی اندھی ہے
خوب بولتی ہے لیکن آنکھوں پر کالا چشمہ ہے
ایک ہاتھ میں لڈو ہے اور دوجے ہاتھ تمنچا ہے
اگر یہ مسلم عورت کے حق کی آواز اٹھاتی ہے
اور نجیب پہلو کی امی نظر نہیں کیوں آتی ہے
کتنی سازش کر لے انسان اس کی پلاننگ بہتر ہے
اذاں یہی کہتی ہے سن لے کہ اللہ ہی ہے اکبر
آنکھیں اندھی ہو یا نہ ہو دل تو ان کا اندھا ہے
اسی لیے سب کو بھڑکانا ان کا گو رکھ دھندھا ہے
مسجد سے آتی آوازیں ان کو نہیں سہاتی ہیں
اس سے بھی اونچی آوازیں لیکن ان کو بھاتی ہیں
چیخ سنائی دیتی ہے کیا ان کو لٹتی بچی کی
اک کسان کے بچے کی سینک کی بیوہ بیوی کی
ان کے دل کی دھڑکن خود نفرت کا لاؤڈ سپیکر ہے
اذاں یہی کہتی ہے سن لے کہ اللہ ہی ہے اکبر
اب جو ہم لوگ محسوس کرتے ہیں جو آپ نے کہا ہے
اذاں آڑھتی شبد کیرتین بھارت کی جاگیریں ہیں
صبح شام کے ورق پہ لکھی پاکیزہ تحریریں ہیں
یہی ایکتا اور محبت اپنی ہے پہچان مگر
ہندو مسلم سکھ عیسائی رہتے ہیں سب مل جل کر
اپنے گھر کی دیواریں جو ساؤنڈ پروف بنواتے ہیں
AC میں سونے والے جانے کیسے جگ جاتے ہیں
غنڈا گردی کرتے ہیں آوارہ لوفر اور جوکر
اذاں یہی کہتی ہے سن لے کہ اللہ ہی ہے اکبر
گھر میں تو جو اپنی ماں کی سیوا نہ کر پاتے ہیں
باہر جا کر گائے ماں کی خاطر لہوبہاتے ہیں
معصوموں کا لہو بہا ئے وہ غنڈا کہلاتا ہے
کوئی سونو کو سمجھاوے سر کب مونڈ ا جاتا ہے
سب سے پہلے دی بلال نے اذاں اسی کو کہتے ہیں
جو رسول کی کرے گواہی بیاں اسی کو کہتے ہیں
جس کو مذہب سے نفرت وہ شیطان سے بھی بدتر ہے
اذاں یہی کہتی ہے سن لے کہ اللہ ہی ہے اکبر
یہ ہے کچھ خود غرض لوگ جو اب چمچے کہلاتے ہیں
خبروں میں رہنے کی خاطر یہ کچھ بھی کر جاتے ہیں
ان کو جب کوئی نہ پوچھے ٹوئٹر پہ یہ آ جاتے ہیں
جو بھی نیتا بولے اس کی ہاں میں ہاں کر جاتے ہیں
جو کیول رب کو پوجے وہ اصل بھگت کہلاتا ہے
پر جو انساں کو پوجے وہ اند بگت کہلاتا ہے
دے دیتے نیتا ان کو اونچے عہدے پھر خوش ہو کر
اذاں یہی کہتی ہے سن لے کہ اللہ ہی ہے اکبر
خواب دکھایا تھا اللہ نے کیسے ہمیں جگانا ہے
تمہیں کامیابی کی جانب کس طرح بلوانا ہے
صبح عبادت کرنے جانا کیا یہ غنڈا گردی ہے
اپنے رب کی طرف بلانا کیا یہ غنڈا گردی ہے
پشو پرندے جگ جائیں تب کوئی سونے جاتا ہے
نیند سے بہتر فجر نماز ہے یہ اسلام سکھاتا ہے
تم بھی جاؤ مندر میں کچھ پن کماؤ منہ دھو کر
اذاں یہی کہتی ہے سن لے کہ اللہ ہی ہے اکبر

خود بت پرست لوگ بت کو توڑ رہے ہیں حیرت کی بات ہے بت پرست بتوں کو توڑ رہے ہیں۔ اپنے آئیڈیل کو توڑ رہے ہیں تو اذان پہ پابندی لگانا تو دور کی بات ہے۔ اذان اور آرتی کی آواز سن کے ہمیں اچھا لگتا تھا ہماری نیند کھلتی تھی ، سکون ملتا تھا ۔جب پابندیوں کی بات آتی ہے تب میں نے ایک نظم کہی ہے۔ آپ لوگوں کی بات کرتی ہوں مجھ پر بہت سارے الزامات لگے۔ میں آج یہاں سے یہ اناؤنس کر رہی ہوں کہ جس ہندوستان میں ایک نیتا یہ کہتا ہے کہ میں صرف ہندو ہوں فخر ہے ہندو ہونے پہ میں عید نہیں مناتا وہاں ایک ہندوستانی یہ کہتی ہے کہ انشااللہ اگر میری حیات رہی تو میں ایک مسجد بنواؤں گی ۔ یقین جانئے بہ خدا میں بات آپ لوگوں کی محبتیں لینے کیلئے نہیں کہہ رہی یہ بات میرے دل سے نکلی ہے میں جو بھی کہتی ہوں دل سے کہتی ہوں ۔میں نے اپنا تعارف بھی جو کروایا تھا کہ

نام حیا ہے میرا لوگوں کی ہائے سے ڈرتی ہوں
ہیلو تو اچھا لگتا ہے پر بائے سے ڈرتی ہوں
حق گوئی سے خوف نہیں ہے اسی لیے سچ کہتی ہوں
پہلے چاہت سے ڈرتی تھی اب چائے سے ڈرتی ہوں
جو دل کہتا ہے کہتی ہوں تم اپنی اپنی سوچو
شعر و سخن پہ میں استادوں کی رائے سے ڈرتی ہوں
اور اب تو اس کا نام بھی لوں تو یہ طبیعت گھبراتی ہے
راستے میں بھی دکھ جائے تو میں گائے سے ڈرتی ہوں
اُف وہ شخص کتنا بولتا ہے اب اس سے خوف سا آنے لگا ہے
اگر فرعون کب کا مرچکا ہے تو پھر یہ سامنے کیسے کھڑا ہے
یہ سوچا تھا کہ سب اچھاہی ہوگا یہ اچھا ہے برا پھر کیا بلا ہے
وہ جس کے ہاتھ میں ہونا تھا کاسا مقدر سے سکندر ہو گیا ہے
ابھی دجال کا آنا ہے باقی ابھی کیوں ظلم اتنا بڑھ گیا ہے
اسے کب فکر گھر اور اہل گھر کی جو دنیا بھر میں ڈولا گھومتا ہے
کبھی جنگل میں جو ہوتا رہا وہ سب تو شہر میں اب ہو رہا ہے
میں جب سوچتی ہوں اس کو تو پھر حیا سے سر میرا جھکنے لگا ہے
اُف وہ شخص کتنا بولتا ہے اب اس سے خوف سا آنے لگا ہے

ایک نظم نفرتوں کے دور میں سناؤں گی لیکن اس سے قبل یہ بھی کہنا چاہوں گی کہ ذمہ دار ہم لوگ بھی ہیں ہماری تباہی کے تین چار اشعارآپ تک سنا رہی ہوں کہ

خدا کی راہ پر چلتے تو یوں برباد نہ ہوتے
اگر فرقوں میں نہ بٹتے تو یوں برباد نہ ہوتے
خدا کی ایک رسی کو پکڑ کر ساتھ جو چلتے
تو شیطان راج نہ کرتے تو یوں برباد نہ ہوتے
ہمارے ایک ہی ماں باپ آدم اور حوا تھے
یہ دھرم و ذات نہ ہوتے تو یوں برباد نہ ہوتے
یہ دنیا چار دن کی ہے تو پھر کیوں قتل خون ریزی
فقط اتنا سمجھ لیتے تو یوں برباد نہ ہوتے
سبھی کا حق ہے دنیا پہ سبھی کی ہے حیا دنیا
اگر نیتا نہیں ہوتے تو یوں برباد نہ ہوتے

ابھی بھی جب میں نے یہ نظم کہی تھی لیکن جو ریپ ہیں وہ رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں اب تو8مہینے کی بچی کو نہیں چھوڑا جاتا ہے 80 سال کی بزرگ مہلا(عورت) کو نہیں چھوڑا جاتا ہے۔ دلی میں جب ایک عورت مہلاآیوب کی ریپ روکو اندولن شروع کرتی ہے اور پی ایم سے ملنے کی کوشش کرتی ہے تو یوم خواتین کے دن اس پر لاٹھی برسائی جاتی ہے ۔ تب میں یہاں سے کہہ رہی ہوں کہ ہمیں بھی مل کر ساتھ دینا چاہیے صرف دلی سے نہیں ممبئی سے بھی آواز اٹھنی چاہیے جتنے بھی ادارے ہیں میں ان سے التجا کر رہی ہوں کہ یہ میری نظم صرف آپ کو سنانے کی خواہش نہیں ہے میں چاہتی ہوں کہ یہاں سے بھی آواز اٹھے سب لوگ جڑیں اور قانون بنانے پر مجبور کریں سرکار کو کہ کسی طرح سے ریپ رکیں اور اس کی سزا صرف پھانسی ہونا چاہیے اور کوئی اس کا دوسرا راستہ نہیں ہے۔ تو میں ایک بات کہنے کی کوشش کر رہی ہوں۔

پوچھ رہی ہوں ہندوستاں کی طاقتور مہلاؤں سے
دولت ستہ اور سیاست کے اعلی آقاؤں سے
کب تک عورت کی عزت سڑکوں پر لوٹی جائے گی
ایک بچی گھر میں اپنے محفوظ نہیں رہ پائے گی
بھول گئے ہم ہندوستانی ہر تعلیم شرافت کی
سیکھ رہے ہیں مغرب کی ہم الٹی سیدھی اے بی سی
اب نا کوئی شرم نہیں رشتوں میں اور نہ مریا دا
بیٹی کو لوٹے والد اور پوتی کو لوٹے دادا
اور بہن پر بھائی کی نظروں کے چلتے وار ہیں
اس ساری بے شرمی کے ہم خود بھی ذمہ دار ہیں
یہ وہ دھرتی ہے جس میں عورت کو کہتے ہیں دیوی
آج مگر اس دیوی کی خودبھگتوں نے عزت لوٹی
جس بھارت میں گنگا ہے میا اور گائے ماتا ہے
آج وہاں ایک بیٹا خود اپنی ماں کو مرواتا ہے
گاؤں شہر ہو ،ہوٹل ہو مندر ہو یا سکول ہو
ہر جگہ بھدے فقرے کیا مال مست ہوکول ہو
اس سے بھی بڑھ کر بھدے الفاظ سنائی دیتے ہیں
بیٹے تک اپنی ماں کو ہائے جانو کہتے ہیں
یہ کیسی تہذیب شرافت کیسے ششٹہ چار ہیں
اس ساری بے شرمی کہ ہم خود بھی ذمہ دار ہیں
اب کیول انجان نہیں اپنوں سے بھی ڈر لگتا ہے
چاچا، تا ؤ، ما ما، موسا، جیجا تک سے خطرہ ہے
عمر کوئی بھی ہو کیول بس عورت ہو نا کافی ہے
جس کو دیکھو نیت کھوٹی نظروں میں ناپاکی ہے
ہر رشتہ ایک داغ بنا ہے خون ہوا ہے اب پانی
یہ تو سب ہونا ہی تھا جب ساتھ نہیں دادی نانی
ٹوٹ رہے پریوار یہاں اب بچے تنہا رہتے ہیں
نوکر اور پڑوسی کی سب اوچھی حرکت سہتے ہیں
ہر جگہ صیاد کھڑے ہیں اور کلیاں لاچار ہیں
اس ساری بے شرمی کے ہم خود بھی ذمہ دار ہیں
فلمیں ہوں موبائل ہو یا کہ پھر انٹرنیٹ ہو
نان ویج میسج چلتے سب چاہیں ولگر چیٹ ہو
یہ کیسا مینر کلچر ایڈوانس ہوئی ہے ایجوکیشن
کم کپڑوں میں فخر کریں گالی دینا مانیں فیشن
فلموں سے لے کر خبروں تک صرف مصالحے بکتے ہیں
جسم جلے ایک عورت کا تب ان کے چولہے جلتے ہیں
عورت کو ایک چیز بنا بازار یہاں پر سجتے ہیں
ان کو دیکھ جواں ہوتے بچوں میں مجرم پلتے ہیں
سب دولت شہرت کی خاطر بکنے کو تیار ہیں
اس ساری بے شرمی کے ہم خود بھی ذمہ دار ہیں
ایسا لگتا ہے کہ اب یہ اپنا بھارت دیش نہیں
بس کیول شکشہ ملتی ہے پر اچھا سندیش نہیں
کب بچوں کو ایک بھی نیتک پاٹ پڑھایا جاتا ہے
بس کیسے آگے بڑھنا ہے یہ سمجھایا جاتا ہے
جہاں برائی ہیروئن ہو پاپ جہاں پر نائیک ہو
اس کو اتنی شہرت ملتی جو جتنا نالائق ہو
پاپ پنے کا فرق انہیں جب نہیں کوئی سمجھائے گا
خوف کہاں او پروالے سے پھر یہ انسا کھائے گا
جب ان کے آدرش بھی غنڈے ڈاکو سے کردار ہیں
اس ساری بے شرمی کے ہم خود بھی ذمہ دار ہیں
سنبھل سکو تو ابھی سنبھل لو اگر سنبھلنا آتا ہے
یاد مجھے اقبال صاحب کا شعر یہ اکثر آتا ہے
اب نہ سنبھلے تو ہندوستاں والوں تم مٹ جا ؤگے
دنیا کی تاریخ میں اپنا نام کہاں لکھوا ؤگے
اب بھی ہے کچھ وقت نہیں بدلا اب بھی سب کچھ بھائی
ہم چاہیں تو کر سکتے ہیں اس گھٹنا کی بھرپائی
سوچ بدل جائے اپنی قانون فٹافٹ مل جائے
اور سزا ایسی کہ جس کو دیکھ کے مجرم تھر ائے
کیا مجرم کی ماں بہنیں بھی لڑنے کو تیار ہیں
اس ساری بے شرمی کے ہم خود بھی ذمہ دار ہیں
کب مجرم کی ماں نے یہ پوچھا ہے بیٹے سے جا کر
کوکھ پہ لعنت بھیجی ہے دنیا کے آگے کب جا کر
کب مجرم کی بہنا نے بھائی کو تھپڑ مارا ہے
اور بیٹے کے کرتوتوں کو ابا نے دھتکارا ہے
جب تک ان کے گھر والے نہ سبق انہیں سکھلائیں گے
سرعام جوتے مارے عریاں کر کے گھموائیں گے
کیوں عربی قانون یہاں پر نہیں چلایا جا سکتا
سات دنوں میں مجرم پھانسی پرلٹکایا جا سکتا
جب جنتا ہے راضی پھر کیوں قاضی جی بیزارہیں
اس ساری بے شرمی کے ہم خود بھی ذمہ دار ہیں

تبصرہ : نوشتۂ دیوار

محترمہ لتا حیا ہندو شاعرہ ہیں اورنسل، ملکوں و مذاہب کی بنیاد پر نفرتوں کے خلاف مودی سرکار کے اقتدار میں صف آراء ہیں۔ ہمیں مسلمان ہوکر تعصبات پھیلانے میں شرم نہیں آتی ہے۔آج ہماری ضرورت ہے کہ سیاسی بنیاد پر ایک ایسی فضا قائم کریں کہ اس خطے میں امن وامان قائم ہو اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہندوستان نے پاکستان پر ناجائز حملہ کیا اور منہ کی کھائی ہے لیکن اس کو ڈھول بناکر ہم بجاتے رہیں گے تو آخر میں پاکستان کی بج جائے گی۔

ایک وقت وہ تھا کہ ہماری طرف سے کھلی مداخلت تھی اور جہادی تنظیموں کی طرف سے حملے ہوتے تھے اور آج یہ حال ہے کہ ان کو بہانہ چاہیے ہم پر حملہ کرنے کیلئے اور جب ہم نے کچھ کیا بھی نہیں تھا اور پھر ہم نے مذمت بھی کردی۔ پھر بھی انہوں نے ہم پر جنگ مسلط کردی تھی۔ جبکہ ہماری حالت یہ ہے کہ بلوچستان، پختونخواہ اور پنجاب میں کھلی مداخلتوں کے خلاف چیخ وپکار کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے مگر حملہ کرنے کی ہمت نہیں کرتے۔ جس کا نتیجہ بالکل واضح ہے کہ کل ہم جو کچھ کرتے تھے آج وہ کررہے ہیں یا نہیں ؟ لیکن وہ کہتے ہیں کہ ہم کررہے ہیں۔ مولانا سلمان ندوی کا بیان دیکھ لیں۔ ان کے پیشرو مولانا سید سلیمان ندوی پاکستان کے حامی اور مسلم لیگی ذہنیت سے تعلق رکھتے تھے اور جب اس کی یہ حالت ہے تو جمعیت علماء ہند اور دوسروں کی حالت کیا ہوگی؟۔ امریکہ نے ڈبل گیم بھی خود کھیلی اور موردالزام بھی پاکستان کو ٹھہرایا۔ اقوام متحدہ میں امریکہ و اسرائیل نے افغان طالبان کے خلاف جرمنی کی قرار داد کو مسترد کیا اور 116ممالک سمیت پاکستان نے حمایت کی اور چین، بھارت، روس اور ایران غیر جانبدار بن گئے۔ اگر ہم نے ایران ، چین ، بھارت ، افغانستان کے درمیان تجارت و سپلائی شروع کردی تو خوشحالی آئے گی۔ انشاء اللہ

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اگست 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

غزوۂ ہند سندھ اور پنجاب میں ہوگا۔ مولانا سید سلمان ندوی

ہندوستان کے مولاناسلمان ندوی نے کہا کہ

پاکستان کی حکومت خاص طور پر ظالم بھی ہے فاسق بھی ہے کافر بھی ہے قرآن کہہ رہا ہے۔ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاؤلٰئک ھم الکافرون(المائدہ:44)۔ھم الظالمون (المائدہ:45)ھم فاسقون(المائدہ:47)

پہلے دن سے لادینی ہے، کلمے کا استحصال کیا گیا پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ لیکن عملًا حکومت کا جو نظام بنایا گیا وہ لا الہ الا امریکہ، لا الہ لابریطانیہ، لا الہ الافرنسا، لا الہ الا اوربا۔ زبان پر کلمہ مجبوراً تھا لیکن اللہ کی الوہیت وربوبیت کے نظام کو نافذ کرنے کیلئے وہ مجرم تیار نہیں تھے ،30لاکھ انسانوں کو ذبح کروایا۔ ایک ملک توڑ کر ایک ملک ان کی لاشوں پر بنایا اسکا نام جھوٹا،نسبت جھوٹی رکھی اور اس پر انگریز کی صہیونی صلیبی فوج مسلط کر دی گئی، پورے ملک پر اسکے جنرل اسکے کمانڈر صہیونی کتے رہے پہلے دن سے۔ سوائے ایک ضیاء الحق ، اللہ غریق رحمت کرے مستثنیٰ تھے اور واقعتا وہ دین کا نفاذ چاہتے تھے لیکن مجرموں، بدمعاشوں، منافقوں نے امریکہ کیساتھ مل کر سازش کر کے ان کو شہید کیا ۔جیسے فیصل کو شہید کیا گیا۔ پاکستان والے یہ بات سن لیں کہ وہ شریعت کے نفاذ کیلئے تیار نہیں ان کی تعلیم لادینی، سیاست لادینی، عدالت لادینی، نظام لادینی، مسلط صہیونی کتے، جرنیل صہیونی، حکومت جعلی فراڈی مجرموں سؤروں کی ،سارے ادارے کتوں کے جو صہیونی نظام کے پرستار ہیں جھوٹے اعلان کرتے ہیں، ان کا میڈیا صبح شام جھوٹ بولتا ہے اس پر جو بیٹھے ہیں وہ کتے کتیاں ہیں ان کو بھونکنے کیلئے لگا دیا گیا ا ن کو گوشت کھلایا جاتا ہے چھیچڑے کھلائے جاتے ہیں ۔

آج اسی ضمن میں کہہ دوں کہ بڑی باتیں کی جاتی ہیں، جاہل اور احمق آخری درجے کے گدھے غزوہ ہند کی باتیں کرتے ہیں۔ یہ نہیں سمجھتے کہ نبی ۖ نے ہند کا لفظ استعمال فرمایا تھا تو افغانستان کے جنوبی بارڈر سے دکن تک اور اسکے نیچے تک اورخاص طور پر خراسان کے نیچے کاعلاقہ ہند تھا ۔ ایران کا مشرقی شمالی اور افغانستان کا مغربی شمالی علاقہ اور پھروسطی علاقے تک یہ خراسان تھا اور اس میں ازبکستان ، ترکستان شامل تھا اسکے بعد سندھ، بلوچستان اور پختونستان سب ہندوستان کا حصہ تھے تو نبیۖنے جب بات کی غزوہ ہند کی تو اس کا تعلق دلی ، حیدرآباد، کیرالہ سے نہ تھا پہلے نمبر پر اس کا تعلق سندھ، پنجاب سے تھا ۔ حدیثیں پڑھ لو سنتے ہی رہتے ہو گے اپنے مولویوں سے جو زبانیں چبا چبا کر جھوٹ بھی بولتے ہیں کچھ سچ بھی بولتے ہیں۔ تو خراسانی لشکر حضرت مہدی کیساتھ نکلے گا یہی وہ لشکر مدینہ منورہ، مکہ مکرمہ اور بیت المقدس پہنچے گا اورجو کاروائی کرے گا بلوچستان ، بختونستان ، سندھ میں، یہاں کے جو مظلوم انسان ہیں جن کو ایک لال ٹوپی والا بدمعاش خبیث مجرم جہنم کے کتے کہتا ہے خوارج کہتا ہے حکومت کے کتوں کی زبان میں بات کرتا ہے بے شرم اور بے حیا ۔ جوصہیونی کتوں کی بات ہے۔

یاد رکھو کہ وہ جو ظلم کے خلاف اٹھے ہیں چاہے وہ پختونستان میں اٹھے ہیں، یا بلوچستان میں اٹھے یا کہیں بھی اٹھیں یہی ہیں جو اسلام کے نمائندے ہیں یہی ہیں جو مہدی کے ہراول دستہ ہیں۔ جو اسرائیل جو صہیونیوں سے مقابلہ کریں جو ان کیلئے میدان میں آئیں ۔یہ ہیںسچے مسلمان اسلام کا کام کرنیوالے اور حضرت مہدی کا استقبال کرنیوالے ہوں گے۔ تو وہ خراسانی لشکر اور یوں کہہ سکتے ہو تم کہ وہ طالبان ہوں گے جو آزاد کریں گے پختونستان کو اور وہ خراسانی ہوں گے جو آزاد کریں گے بلوچستان کو۔ تمہاری خیریت اسی میں ہے تم امارات عربیہ متحدہ UAE کے غلام ہو اسکے تلوے چاٹتے ہو اس کا پیخانہ صاف کرتے ہو وہیں جا کر جائیداد بناتے ہو بار بار وہاں بھاگتے ہو تو اسکے طریقہ کار کو اختیار کرو تو ترقی ہوگی معاشی خوشحالی ہوگی بڑی بڑی بلڈنگیں بنیں گی ہر طرح کی راحت ہوگی۔ یعنی یونائیٹڈ عرب امارات انہوں نے بنایا تو تم یونائیٹڈ پاکستانی اسٹیٹس بنا لو ۔یہ اختیار دو ہر صوبے کے لوگوں کو کہ وہ جس کو چاہیں اپنا حاکم منتخب کریں اور جس آزادی سے رہنا چاہے رہیں۔ تو بلوچستان ایک امارت اور پختونستان ایک امارت ہو اور پھر سندھ کی ایک امارت ہو اور پنجاب کی ایک امارت ہو اور کشمیر کی امارت ہو۔ یہ زیادہ بہتر ہے خوشحالی زیادہ ہوگی لڑائیاں نہیں ہوں گی کوئی خوارج میں شمار نہیں کیا جائے گا ۔ اسلام کسی مذہب کے خلاف حملہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا اسلام کی لڑائی کسی مذہب سے نہیں ہے اسلام کی لڑائی صرف ظلم سے ہے۔لا ینہام اللہ عنِ الذِین لم یقاتِلوم فِ الدِینِ ولم یخرِجوم مِن دِیارِم ان تبروہم وتقسِطوا اِلیہِم اِن اللہ یحِب المقسِطِین (الممتحنہ: 8)

قرآن یہ کہتا ہے کہ جنہوں نے تم پر ظلم نہیں کیا، جنہوں نے تم کو گھر سے بے گھر نہیں کیا، جنہوں نے تمہارے ساتھ دین کی بنیاد پر لڑائی نہیں لڑی ہے تم ان کیساتھ زیادتی نہیں کر سکتے تم ان کیساتھ اچھا سلوک کرو اللہ تعالی تم کو ان کیساتھ حسن سلوک سے منع نہیں کرتا اور مسلمانوں نے جو ملک بھی فتح کیا وہاں غیر مسلموں کو زیادہ حقوق دئیے ان کو آزادی دی ان کو شہریت کے سارے حق دیے ان کے کسی انسانی حق کو نہیں مارا جو ٹیکس مسلمانوں سے لیا اس سے کم ٹیکس غیر مسلموں سے لیا جو حفاظت مسلمانوں کی کی اس سے زیادہ حفاظت غیر مسلموں کی زمیوں کی کی۔ یہ جو صحیح مسلمان تھے ان کا یہ رویہ رہا لیکن جب دور ملک عبود کا اور جبریہ کا اور عدو کا آیا ہر طرح کی بدمعاشی ہر طرح کا ظلم ہر طرح کا استحصال کیا گیا ثابت ہے قطعی طور پر حوالوں سے ثابت ہے۔ پاکستان بھی اسی جبریہ اور عدو کی حدیث کا مصداق بنا ہوا یہاں ایک جابرانہ، مستبدانہ ،طاغیانہ، طاغوتی صہیونی صلیبی نظام نافذ ہے اور یہی صورتحال عرب ملکوں کی ہے وہ مستثنیٰ نہیں ہیں۔ جس UAE میں تم جا کے پناہ لیتے ہو دولت بناتے ہو عیاشی کرتے ہو وہ سب سے بڑا صہیونی اڈاہے اور جس ملک میں جاتے ہو حرمین نے وہ دوسرا سب سے بڑا صہیونی اڈا ہے۔ اردن صہیونی اڈا ہے مصر صہیونی اڈا ہی نہیں ہے بلکہ صہیونی خادم ہے چپراسی ہے نوکر ہے۔ اور پاکستان بھی اسی فہرست میں ہے اور بہت آگے بڑھ کر ہے کہ یہ حکومتیں گراتا بھی ہے اور یہ ووٹ عوام کے کھاتا بھی ہے یہ خبیث پاخانہ کھانے والا مجرم یہ جرنیل جو قرآن پڑھتا ہے اسی قرآن کے خلاف عمل کرتا ہے کہ جو آیتیں بھی ہیں اللہ ورسول سے جنگ کی وہ اس پر منطبق ہوتی ہے یہ سودی نظام کے خلاف نہیں ہے یہ شریعت کے نفاذ سے متفق نہیں ہے یہ اللہ کا حکم جاری اپنے اوپر نہیں کر سکتا تو دوسروں پر کیا کرے گا؟۔ اس نے کتنی بے گناہ عورتوں کو قید کر رکھا ہے کتنے بے گناہ مردوں کو کتنے بچوں کو ظلم کا نشانہ بنایا ہے یہ خبیث اور مجرموں کا ایک ٹولہ ہے حکومت مجرم فوج مجرم اور وہاں کے ادارے مجرم ہیں اور علما کو سب سے پہلے وہ حدیث یاد کرو حضرت ابو ہریرہ کی کہ عذاب جب ہوگا تو سب سے پہلے عالم کو اور بڑے بہادر کو اور بڑے سخی کو پکڑا جائے گا کہ جہنم میں انہیں پہلے ڈالو کیونکہ انہوں نے مقابلہ نہیں کیا ظلم کا۔ مقابلہ نہیں کیا طاغوتی نظام کا۔ انہوں نے مقابلہ نہیں کیا ان لوگوں کا جن کی حکومت ظالمانہ تھی۔ فوج کے وہ جرنیل وکرنیل جو صہیونی کتے تھے ان کا مقابلہ نہیں کیا ۔ اپنے درس و تدریس میں لگے رہے حکم ہوگا اللہ کا فرشتوں کو کہ ان سے آغاز کرو۔

پاکستانیو! عذاب کا انتظار کرو تم بدمعاش ہو تم ظالم حکومتوں کیساتھ کھڑے ہو تم اہل بیت کے قاتلوں صحابہ کے قاتلوں تابعین کے قاتلوں کے لشکر میں ہو اسلئے سب سے پہلے لشکر مہدی تمہارا صفایا کرے گا پھر دوسروں کا نمبر آئے گا۔ کیونکہ وہ علی کا بیٹا ہوگا اور وہ انصاف قائم کرے گا جو ظلم کر لیا گیا تھا علی کے دور سے اس ظلم کیساتھ جو بھی کھڑے ہوں گے وہ ظاہر ہے پہلے ظالم تھے پکڑے جائیں گے اور جو ظلم کیساتھ آج بھی ہوں گے قیامت تک ہوں گے ان سب کا صفایا حضرت مہدی علیہ السلام پہلے کریں گے۔ تو اے لوگو! تم تو دجال کے منتظر ہو تو کیونکہ آل سعود ، آل نہیان اور اردن کا بادشاہ بھی دجال کا انتظار کر رہا ہے اور ظاہر ہے کہ تم ان کے نوکر چا کر ان کے بھکاری حرام خور ہو تو تم بھی اس کا انتظار کر رہے ہو لہٰذا دجال تم پر حکمرانی کرنے آنے والا ہے، تمہیں خوشی ہونا چاہیے کہ تمہارا جو رہبر ہے تمہارا جو قائد ہے وہ جلدی آنے والا ہے اور پھر جب مہدی آئیں گے تو تمہارا صفایا ہونا ہے تو غزوہ ہند تمہارے ہاں ہوگا اسلئے فکر کرو اور حدیثوں کی غلط تشریح نہ کرو کہ نبی پاک علیہ السلام نے جس دور میں ہند کا تذکرہ کیا تو پھر سندھ، کراچی، لاہور اور پشاور اور اس سے اوپر اور نیچے کے سارے علاقے ہند میںشمار ہوتے تھے۔ تو ظاہر ہے کہ لشکر خراسان سے چلے گا پہلے تم سے نمٹے گا کیونکہ اس کو ظالموں سے نمٹنا ہے اصلاً اور کافروں کی حکومت منظور ہوتی ہے اللہ تعالی کافروں کو موقع دیتا ہے اگر وہ ظلم نہ کرے اور مسلمان اگر ظلم کرے تو اس کی بخشش نہیں ہے۔ پھر وہ مثل کافروں کے ہوتا ہے لہٰذا اللہ نے قرآن میں فرمایا :و من یقتل ممِنا متعمِدا فجزآہ جہنم خلِدا فِیہا و غضِب اللہ علیہِ و لعنہ و اعد لہ عذابا عظِیما(النسائ: 93)جو ایک بھی مسلمان کو ظلماً قتل کرے گا ایک بھی تو وہ ہمیشہ ہمیش کیلئے جہنمی ہوگا۔ یہ قرآن اور حدیثوں میں ہے میں نے اپنی کتاب ”الامارة والقضائ” اور ”کتاب الحدود” میں جو مشکوٰة کی شرح ہے تفصیل کے ساتھ وہ صحیح حدیثیں بھی پیش کی ہیں جن میں کسی بھی ایک مسلمان کے قاتل کو مشرک و قاتل کا درجہ دیا گیا۔

تبصرہ : سید عتیق الرحمن گیلانی

مولانا سید سلمان ندوی سورہ مائدہ کی آیات کے سیاق وسباق کو دیکھ لیں۔ اللہ نے کفر کا فتویٰ علماء ومشائخ پر لگایا ہے جو دین فروش ہوں اور تھوڑے مفاد کیلئے دین کو بدل دیں۔ ظالم کا فتویٰ حکمران پر لگایا ہے جو عدل نہیں کرتا اور فاسق کا فتویٰ عوام پر لگایا ہے جو اپنا اختیار رکھتے ہیں۔

نوٹ: مولانا سید سلمان ندوی کے بیان پر نوشہ دیوار کا مکمل تبصرہ اس ماہ اگست 2025کے شمارے میں لتا حیا کے اشعار کے بعد پڑھ لیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اگست 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

بہادربلوچ نوربی بی شیتل بانوک نے بہت بڑاانقلاب کردیا

مشکل ہیں اگر حالات وہاں دل بیچ آئیں جاں دے آئیں
دل والو کوچۂ جاناں میں کیا ایسے بھی حالات نہیں
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی توکوئی بات نہیں

ایک طرف تہمینہ شیخ نے اس بات کو مسترد کیا ہے کہ بلوچ عورت کسی غیر مرد کیساتھ بھاگ گئی تھی اور پھر شوہر نے اس کو معاف کردیا۔ وہ کہتی ہیں کہ میں کوئٹہ کی رہائشی تھی۔ میرا بچپن کوئٹہ میں گزرا۔ میرا والد 72 سال کا ہے۔ جب ہم چھوٹے تھے تو گھر چھوڑنے کی دھمکی پر لاہور منتقل ہوگئے۔ میرے والد نے بتایا کہ کوئٹہ کے 70سال پہلے بھی حالات یہی بدامنی کے تھے۔ ہم پنجابی ہیں اور ہم سب پاکستانی ہیں۔ پنجاب میں پھر بھی عورت کو آزادی ہے اور میں بلوچ قوم کی تعریف کرتی ہوں اور ان کے پردے کا نظام اچھا لگتا ہے اور بلوچ دوسروں کی بہ نسبت زیادہ پابند اور عزت دار ہیں جو کہانی بعد میں بنائی گئی ہے میں نہیں مان سکتی ہوں۔

جبکہ وقت اپڈیٹ پر احمد کاشف کے تأثرات بالکل مختلف ہیں اور سندھ اور بلوچ قوم کے بارے میں کہتے ہیں کہ میں نے کہیں پڑھا کہ مسجد کو ہاتھ لگانے سے نکاح ہوجاتا ہے اور ان کے بڑے بڑے بچے ہوتے ہیں اور نکاح نہیں ہوتا۔ شیتل بانو نے پہلا شوہر چھوڑ دیا اور اس کے نکاح میں تھی۔ پھر دوسرے سے نکاح کیا یا نہیں؟۔ پہلے نے خلع دی یا نہیں؟۔ دوسرے کے ساتھ بغیر نکاح کے رہی۔ پھر جب پہلے کے پاس آئی تو ایک بچے سے اس کا حلالہ کروادیا۔ تم لوگ شکر کرو کہ پنجاب میں ہو بلوچ اور سندھی قوم کی جہالت فرعون اور دورِ جاہلیت کی طرح ہے اور احمدکاشف عربی زبان پر بھی عبور رکھتا ہے جس کاایک دوسرے ولاگ سے پتہ چلتا ہے کہ ایک عورت نے عربی کی عدالت میں اپنا مقدمہ درج کیا کہ میں اس کے نکاح میں تھی اور اب یہ مجھے اپنا حق نہیں دیتے۔ جب شوہر اور سب لوگوں نے گواہی دی کہ یہ اس کی بیوی نہیں ہے تو قاضی نے کہا کہ ”میں گاؤں میں فیصلہ سناؤں گا”۔ پھر وہاں پوچھا کہ گھر کہاں ہے؟۔ بتایا کہ قریب ہے۔ پوچھا کتے ہیں؟۔ بتایا کہ ہاں کتے ہیں۔ قاضی نے کہا کہ عورت گھر جائے گی ،اگر کتوں نے بھونکا تو عورت جھوٹی ہے لیکن اگر کتے مانوس تھے تو پھر تم سب جھوٹے ہو۔ ان سب کی حالت خراب ہوگئی اور کتے نہیں بھونکے تو قاضی نے عورت کو اس کا حق دلوایا اور گاؤں والوں سے کہا کہ تم سب سے کتا اچھا ہے۔

سوال یہ ہے کہ عورت کا نام نور بی بی، شیتل ،بانو اصل میں کیا ہے ؟ تو نور بی بی کے شہور کا نام بھی نور تھا اسلئے شیتل کہتے ہوں گے اور بانوک بلوچ عزت سے کہتے ہیں جیسے بانوک کریمہ ۔اسلئے بانو سمجھ لیا ہوگا۔

اب اصل کہانی کیا ہے؟۔ جس کے تانے بانے آپس میں ملانے سے بھی نہیں ملتے ہیں؟۔ نور محمد سے خلع لیا اور احسان اللہ سے نکاح ہوا۔ پھر احسان اللہ سے جدائی ہوئی اور پھر حلالہ کرنے کے بعد نور محمد نے وہ بچوں کی خاطر پھر قبول کرلی۔ اب سوال یہ بنتا ہے کہ حلالہ کا توسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پھر کیسے حلالہ کردیا؟۔ ہوسکتا ہے کہ خلع کے بعد کسی نے کہا ہو کہ احسان اللہ سے بھی طلاق ہوگئی ہے تو اب آپ شادی کرلو۔ اور نور محمد نے کہا ہو کہ اب یہ مجھ پر تین طلاق ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ خلع اور دوسری جگہ نکاح اور طلاق کے بعد تین طلاق دینے سے تین طلاقیں واقع ہوتی ہیں یا نہیں؟۔ علماء کے نزدیک تو دس جگہ نکاح کے باوجود بھی سابقہ شوہر طلاقوں کا مالک رہتا ہے۔اسلئے طلاق بھی ہوسکتی ہے اور حلالہ بھی اور پھر رجوع بھی ہوسکتا ہے۔

اگر معاملہ جوں کا توں رہتا تو مسئلہ نہیں تھا لیکن ایک طرف عورت کو اپنے بچوں کے روشن مستقبل کیلئے اور طعن و تشنیع سے بچانے کیلئے نور محمد نے کوئٹہ منتقل کردیا ہو اور دوسری طرف احسان اللہ سے یہ معاہدہ ہوا ہو کہ نکاح کے بعد اس نے دوبارہ اس علاقہ میں نہیں آنا ہے اسلئے کہ اس کا بچوں اور عورت کے خاندان والوں پر برا اثر پڑتا ہے۔ احسان اللہ کی سمجھ میں یہی بات آئی ہو کہ جب اس نے طلاق دیکر چھوڑ دیا اور عورت اپنے شوہر کے پاس دوبارہ چلی گئی تو مجھ پر پابندی نہیں بنتی ہے۔

آپس میں دھمکی اور طعنوں تک بات پہنچی ہو۔ احسان اللہ سے اس کے خاندان نے لاتعلقی کا اعلان پہلے کیا ہو۔ شیتل کے بھائی نے قتل کی دھمکی دی ہو تواحسان اللہ نے کہا ہو کہ پہلے اپنی بہن کو قتل کرو لیکن معاملہ عزت پر ہاتھ ڈالنے کا نہیں محض طعن وتشنیع کا ہو۔ احسان اللہ کے قبیلے نے کہا ہو کہ اگر تم احسان اللہ کو قتل کروگے تو ہم تجھے بھی قتل کریں گے۔

نوربی بی بانوک شیتل نے کہا ہو کہ میرا بھائی احسان اللہ کو قتل کرے اور بدلے میں بھائی قتل ہو تو میں خود کشی کرتی ہوں یا خود کو قتل کیلئے پیش کرتی ہوں۔ دونوں قبائل نے طعن وتشنیع اور آئندہ قتل وغارت گری اور دشمنی کا راستہ روکنے کیلئے ان دونوں کے قتل پر اتفاق کیا ہو اور سردار نے بھی اس کی توثیق کردی ہو۔ خالی طعن وتشنیع سے بچنے کیلئے دوافراد کے قتل کو چھپانے کیلئے کہانی کو مختلف رنگ دینے کی کوشش کی گئی ہو۔

ایک عورت خلع لے اور پھر دوسرے سے نکاح کے بدلے دونوں کو علاقہ بدر ہونا پڑے تو یہ ممکن ہے۔ عمران خان نے ریحام خان سے جو نکاح کیا تھا وہ بھی دو مرتبہ تھا۔ ایک مرتبہ محرم کے عاشورے میں جس کو اپنے اہل تشیع ورکروں ،ہمدردوں اور محبت کرنے والوں سے چھپا دیا۔ وہ پہلے سے بھی بچوں کی ماں اور میڈیا میں کام کرنے والی عورت تھی مگر جب اس کو طلاق دیدی تو ریحام خان کو دھمکیاں ملیں کہ پاکستان واپس آئی تو قتل کردیںگے اور یہ اس وقت کی خبروں کا حصہ ہے۔ ریحام نے کہا تھا کہ پختون ہوں اور گولی سے نہیں ڈرتی۔ اگر وہ عمران خان کے کسی مخالف سیاستدان مولانا فضل الرحمن، زرداری یا شہباز شریف سے شادی کرتی تو پاکستان ڈیگاری بلوچستان بن سکتا تھا۔

سندھ، خیبرپختونخواہ اور بلوچستان کے مقابلے میں پنجاب کا مزاج تھوڑا بہت مختلف ہے لیکن جب پرویزمشرف کی جلاوطنی کے بعد شہباز شریف اور غلام مصطفی کھر اور نوازشریف ایک ساتھ بیرون ملک سے آئے تھے تو پنجاب کے ایک جیالے صحافی اطہر عباس نے شہباز شریف اور غلام مصطفی کھر کے درمیان ایک رشتے کا بہت سخت طعنہ دیا تھااسلئے کہ تہمینہ کھر کو بہت پہلے طلاق دی گئی تھی اور شہباز شریف نے اس کے ساتھ نکاح کیا تھا۔ عمران خان میں پھر میانوالی پنجابی پٹھان کا امتزاج تھا اور اس کی ماں بھی پنجاب کی برکی مگر نسلی اعتبار سے وزیرستانی قبائل سے تعلق رکھتی تھی۔ معاشرے کی اصلاح کیلئے بہت کچھ کرنا ہوگا۔

ایک کہانی ”گاؤں کا چوہدری مجھے رکھیل بناکر رکھتا ہے ”۔ثمینہ کی مجاہد نایاب نے MN Point پر بیان کی ہے جو ہزار گنا شیتل بانونک کی کہانی سے زیادہ مظلوم ہے اور 7بار نکاح اور رکھیل اور کسی کے نکاح میں ہونے کا الزام لگاتی ہے جس کا ایک 4سالہ بچہ بھی ایک شوہر کے پاس رہ گیا ہے۔ کیا کسی کو انصاف ملنے کیلئے ویڈیو بناکر موت کے گھاٹ اتارنا ضروری ہے تب اس کو انصاف ملے گا؟۔ جبکہ دوسری طرف وقت Waqt Update پر احمد کاشف نے ”بانو آخری وقت میں کس کی بیوی تھی؟” کے عنوان سے ولاگ میں سندھی اور بلوچ سماج پر جو شرمناک الزامات لگائے ہیں وہ بھی دیکھنے کے قابل ہیں۔ ثمینہ اور شیتل کی کہانی کا موازانہ کرکے بڑا فیصلہ دینا بھی ضروری ہے۔

پورے ملک میں جس طرح کے حالات ہیں۔ پنجاب اور پشاور میں باپ کا بیٹیوں سے زیادتی پر ولاگ موجود ہیں اور اسکے علاوہ دن میں کئی چینلوں پر مختلف کہانیاں شائع ہوتی ہیںاگر ہم نے اصلاح احوال کی طرف توجہ دینے کے بجائے تعصبات کو بھڑکایا تو پھر اللہ کی عدالت میںہماری حیثیت جانوروں سے بھی بدتر ہوگی۔ اوکاڑہ میں سرعام بدکاری کو فروغ دینے والے میاں بیوی جنہوں نے بچیوں کا بھی خیال نہیں رکھا۔

فوجی کالونی راولپنڈی میں یتیم سدرہ کا دوسری جگہ نکاح پر گلا دباکر قتل کرنا اور چھپاکر دفن کرنا ایک ایک ولاگ بہت بڑا المیہ ہے۔ پشاور میں تین بھائیوں کا بیرون ملک سے آنے کے بعد قتل اور تیرہ خیبر ایجنسی میں مظاہرین کی شہادت اور فوج کی طرف دنبوں کی نیناواتی سے لیکر ایکسیڈنٹ میں مرنے والوں تک ایک ایک چیز المیہ ہے لیکن شیتل بانو کی بہادری نے جو شہرت حاصل کی یہ اس کے نصیب کی بات ہے۔ اس حوالہ سے کچھ اہم ترین اقدامات کی بہت ضرورت ہے۔ سیاسی ، ریاستی اور معاشرتی معاملات جس بے چینی سے بڑھ رہے ہیں اور ایک ایک واقعہ جس طرح کا دلخراش ہے تو کون کس کو کیا ذمہ دار ٹھہرائے؟۔ کون ہے جو ان معاملات سے خود کو بری الذمہ کہہ سکتا ہے؟۔

کنزہ فاطمہ ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی۔ کزن سے رشتہ طے ہوگیا۔ جب اس کے ماں باپ ان کے گھر پر گئے تو انہوں نے انکار کردیا۔ پھر بھی اس کا کزن اصرار کررہاتھا اور گھنٹوں مسلسل تشدد کے بعد اس کو شہید کرکے اس کی لاش سڑک پر پھینک دی۔ دن میں کتنے چینلوں پر کیا کیا خطرناک واقعات رپورٹ ہوتے ہیں لیکن ہمارے کان پر جوں نہیں رینگتی ہے اور ڈھیٹ بن گئے ہیں۔ جس اسلام نے عورت کو تحفظ دیا تھا تو اس کا سارا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے۔ جب عورتوں پر معاشرے میں رحم نہیں ہوگا تو کیا اس ملک کی عوام اور حکمرانوں پر اللہ رحم کرے گا؟۔

میں نے کئی کتابیں لکھ دیں۔ اخبار میں بہت مضامین لکھ دئیے ہیں اور بہت سارے مسائل کا قرآنی آیات میں واضح حل بتایا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف مسلمانوں کی معاشی، معاشرتی، مذہبی اور سیاسی حالت ٹھیک ہوجائے گی بلکہ مغرب کی خواتین سمیت دنیا کی بڑی طاقتیں بھی اسلام کے نفاذ پر متفق ہوجائیں گی۔ قرآن کی ایک ایک آیت اور اللہ کا ایک ایک حکم ہدایت کی روشنی پھیلانے کیلئے زبردست ہے لیکن جب علماء ومفتیان کا نصاب تعلیم ہی درست نہیں ہوگا تو پھر کس کو کیا ہدایت مل سکتی ہے؟۔ لوگ سوشل میڈیا پر کمائی اور عوام میں اپنا مقبول بیانیہ پیش کرنے کیلئے بہت کچھ کرتے ہیں لیکن قرآن کی طرف توجہ نہیںہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اگست 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

عابد شاہ! آپ کے کچھ اہم نکات درج ذیل ہیں۔ سید عتیق گیلانی کا جواب

سوال گندم جواب چنا: پیر عابد

سوال گندم جواب چنا جواب شکواہ میں گناہوں کی معافی اور ابراہیم علیہ سلام کی بات ہوئی دادی بختاور کو جس الفاظ سے یاد کیا ہے۔ جٹہ میں انجام کو پہنچ جاتے سو اونٹوں کا صدقہ کرتا ۔ تمہاری گندی ذہنیت گندی سوچ و گندہ نطفہ دجال کا ہے ۔تم دنیا کی خاطر اپنی ماں پر تہمت لگانے والے ہو۔ اللہ کی پکڑ سے ڈرو مردہ کا معاملہ اللہ کے دربار میں ہے۔ تم کس باغ کی مولی ہو۔ بچپن میں ملا کو انتی دی ہے کہ کیڑا پیدا ہوا ہے خارش کا میں ابھی بتاتا ہوں کس نے کیا ہے تو تمہاری گیلی شلوار بیٹوں سمت گیلی ہو جائے گی، عزت راس نہیں آتی۔کا لا جادوگر کی طرح من کے کالے ہو۔ ابلیس لعین کے پیرو کار شہید جٹہ کو گالیاں دیتے ہو۔ اگر غیرت تھی تو نقاب پہن کر برقعہ میں جنازہ چھوڑ کے روپوش نہ ہوتے۔ جبکہ مارنے والے نے ہی جنازہ پڑھایا وہ بھی دیوبندی مسلک کا ہے اور مارنے والے بھی ایک شیعہ کو کافر کہتے ہیں اور دوسرے ماتم میں ساتھ دینے تک نرم ہیں۔ شیعہ کا ماتم نہیں بلکہ حسین کا ماتم ہے کبھی بھائی پر خیرات کی ہے ۔ عرس کا پروگرام بناؤ علاقہ گومل میں اور اتنی جرأت کرو کہ اعلانیہ اسلحہ اورتمہارے ہینڈلرز کیساتھ تو قاتل تمہاری خیرات کی دیگ پر کھڑا ہوگا شرط لگاتا ہوں ہمت ہے تو اسی جگہ پر شوٹ کرو ورنہ چلو بھر پانی میں ڈوب مرو بے گناہ کو مروانے اور کس کس کے ہاتھ پیسہ تقسیم ہوا کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ اب تک قاتل کا تعین نہ کرسکے اور دعوی ہے۔ واقعہ میں جتنے شامل افراد تھے جسکی لسٹ ادارے نے آپ کو دی ویڈو تک بھی دی پھر سارے کو ٹھکانہ لگانے کا دعوی بھی ہے۔ اب ملوک بی بی فتح خاتوں بختاورہ دادی قاری حسین کی ماں اور بیٹی سے زیادہ عزتدار ہے اور چھودو قاری حسین کی بیوی و بیٹی کو سبخان ویل نے جب ڈالنا شروع کیا تو وہ کیڑا جو کراچی مدرسہ میں گانڈ دیتے ہوئے پیدا ہوا ہے مر جائے گا۔ منہاج کا لن بہت بڑا ہے عمر کے اس حصہ میں ہے کہ اللہ کی ذات کی طرف مکمل رجوع میںہے واری وٹہ پر عادی تھے اب اس آدمی کا پتا بتاؤتو ہم حاضر کر سکتے ہیں۔ نہیں تو اسرار تیار ہے۔ لیکن تمہاری پھکی گانڈ کو میر محمد کی اولاد سے چھودنا چاہتا ہوں تاکہ جس انجکشن سے پیداہوا ،اسی حکیم سے دوا کرو، آجکل خوبصوت لڑکوں میں جسکا لن بڑاہوتاہے اس کی مناپلی ہوتی ہے، عثمان تو گانڈ میں تیس بور پستول سے سوراخ کرے گا، ویسے آپکا پرانا استاد وہ کتا اب بھی آپ پر عاشق ہے ۔ علی امین کا گھوڑا بھی آپکو ٹھنڈا نہیں کر پائے گا ورنہ ڈگری کالج کے ہاسٹل میں روز مجلس لگتی ہے۔ اکبر علی داؤد اورشپو میں کون تمہارا پرانا عاشق تھا وہ بھی ایکسپائر ہے مصر سے فرعون کے غلام جان کو کاٹ کر تمہارے منہ میں دیدیں تو گالی کی تاثیر ختم ہو جائے گی۔ سبحان تیری قدرت کانی گرم میں دو قدم زمین نہیں اور دعوی ہے حسین کا اس پاک طینت امام کا نام زبان پر نہ لاؤتمہارا کھیل ختم ہے اور ڈالروں کا حساب باقی ہے ۔ تمہارے ہاتھ خود خنجر آلودہ ہے اسامہ کی ماں کو گالیاں دو گے تو رد عمل میں پھول نہیں گولیاں ملیں گی۔ دادا گالیاں دیتا تھا اور اسکی گالیوں پر قوم ہنستی تھی وہ محفل کو کشت و زعفران بنا دیتا تھا۔ حقانیہ دارلعلوم پر کوئی تعزیتی الفاظ ادا نہیں ہوتے، خیر کے کلمات آپکی گندی زبان سے آج تک کسی نے نہیں سنے، دادا کی تربیت میں کمی نہیںبلکہ آپکے منحوس چہرے سے شقاوت و بدبختی عیاں ہے۔ آپکے ہاتھ آزاد ہے تلوار تیز کرو میدان میں آو تاکہ قصہ کو مختصر کر دیں عورتوں کی طرح دماغی باتوں میں نہ اُلجھویا تو رواج میں دعوی ثابت کرو یا پھر میدان میں آجاؤ تاکہ حق و باطل عیاں ہو سبحان ویل قوم اس وقت رد عمل نہ دے، گالی کا جواب گالی سے نہ دے بلکہ اکھٹا ہو کر اپنا فیصلہ سنا دے۔سردار اعلیٰ فیصلہ کر لے سر لے آنا پھر اولاد سبحان شاہ کاکام ہے۔ ڈاکٹر نجیب کے کان و ناک میں گولڈ لیف کی سگریٹ تھی اور چوراہے پر لٹکا۔ اب بھی موقع ہے رجوع کرو اور معافی مانگو ۔شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات پیران پیر

جواب :سید عتیق گیلانی

عابد شاہ ۔آپ کے کچھ اہم نکات درج ذیل ہیں۔

1:”جس خوبصورت لڑکے کا لن جتنا بڑا ہو ،اس کی مناپلی ہوتی ہے ”۔۔ ” منہاج کا لن بہت بڑا ہے اور اللہ سے رجوع ہوا ہے۔واری وٹہ پر عادی تھے”۔ اسرار کا بھی آزماچکے ہو۔ سردار اعلیٰ کا معیار؟۔گنزبک کا ریکارڈ۔

2: واقعہ کی ویڈیو اور پیسہ کسی کے ہاتھ تقسیم ہوا ہے؟۔

3: مولانا نے خراسان کا دجال قرار دیا تو نشانہ بنالیا۔

4: دیگ پر الیاس مرحوم کا بدلہ لوں؟۔ ساجد لوگ بھی یہی بے شرمی کے مرتکب ہورہے تھے۔

5: ڈاکٹر ظفر علی پر جھوٹے الزام لگانے سے دل ٹھنڈا نہیں ہوا؟۔ اچھا ہے خوب چالاکی دکھاؤ۔ مگر کب تک؟۔

6:آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا بلکہ بات بہت آگے نکل گئی۔ میں نے مظفرشاہ کی اولاد پر مظالم کو بیان کیا لیکن معاملہ مناپلی تک پہنچ گیا تو بہت برا ہوگیا ہے۔

7: میں نے اسلئے فاصلہ پیدا کیا کہ مناپلی والوں کے کرتوت ہماری طرف منسوب نہیں ہوں۔ سبحان شاہ بہت اچھے تھے لیکن بعض نے بعض پر زیادتی کرکے یہ کیا کیا؟۔

8:پیرسمیع اللہ ایڈوکیٹ نے ڈاکٹر آفتاب کے بیٹے سالار کی شادی کے موقع پر عالم زیب سے کہا کہ ”اگر ہم نہ ہوتے تو طالبان تمہیں چودھ دیتے”، عالم زیب نے کہا کہ میں تجھے ابھی چودھتا ہوں تو پھرمعافی مانگ لی۔

اگر بات کثرت کی ہو تو پھر ڈاکٹر آفتاب کی زمین خود دی تھی اور جھوٹ سے بول دیا کہ بدمعاشی سے قبضہ کیا۔ جس کی وجہ سے ڈاکٹر آفتاب لوگوں پر موت اور زندگی کے وہ لمحات گزرے جس سے ہرانسان کو اللہ امان میں رکھے۔ یہ لوگ صرف اتنا نہیں بول سکتے تھے کہ ہم نے دیدی تھی۔ اخلاقیات کا تقاضا تو یہ تھا کہ کہتے تھے کہ تم آرام سے بیٹھ جاؤ ۔ ہم زیادہ ہیں اور ہم نے زمین دی ہے اور ہم لیکر دیں گے مگر جب اپنی تاریخ اور اصلیت کا پتہ نہیں ہو تو بندہ گالی دیتے وقت شرم نہیں کھاتا ہے کہ اس کی اوقات کیا ہے؟۔

9: قربان علی ہوتک کا تعلق میر وائس خان ہوتک اور ملا عمر سے ہے اور بادشاہ خان درانی کا خاندان احمد شاہ ابدالی کا شاہی خاندان ہے اوروہ ہمارا ساتھ دیتے ہیں۔تمہاری اصلیت تم نے خود بھی بتادی لیکن کردار بہت اہم چیز ہے۔

10: میں نے کسی خاتون کو گالی نہیں دی ہے۔ قاری حسین کے گھر کی خواتین کیا یہود ونصاریٰ اور اسرائیل کی خواتین بھی قابل عزت ہیں۔ تم نے تصویر لڑکی کی لگائی اور مناپلی کوئی اور بتائی ہے؟۔ کانیگرم میں ہماری زمین ہے۔ لیکن تجھے کیا پتہ ؟۔قبرستان کی کچھ قبریں بھی ہماری زمین کا درمن ہے جہاں پر گندم بھوسے سے نکالی جاتی ہے۔

نہ تم صدمے ہمیں دیتے نہ ہم فریاد یوں کرتے
نہ کھلتے راز سربستہ نہ یوں رسوائیاں ہوتیں

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اگست 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv