پوسٹ تلاش کریں

پختون ، بلوچ،سندھی، کشمیری،پنجابی، سرائیکی،ہزارے وال اور مہاجر سبھی یاد رکھو !اللہ نے غلو سے منع کیاہے

پیر آف واناجنوبی وزیرستان سے22 اپریل 1948 کو پشاور میں قائد اعظم محمد علی جناح کی ملاقات ہوئی اور پوچھا پیر صاحب آپ ایک آزاد ملک کے رہنے والے آزادی اور غلامی میں کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟۔ آپ نے فرمایا 1938 میں صوبہ سرحد کے انگریز گورنر سے ملاقات ہوئی وہ نہایت متکبرانہ انداز میں فرعون وقت کی طرح گفتگو کرتا تھا آج جب آپ سے ملاقات کے واسطے اندر آنے لگا تو صوبہ سرحد کا موجودہ انگریز گورنر کھڑا تھا مجھے دیکھتے ہی ٹوپی اتار کر سلام کیا اور دروازے سے چک اٹھائی۔ اس وقت انگریزوں کی حکمرانی تھی اور ہم غلام تھے آج ہم آزاد ہیں اور وہ ہمارا ملازم ہے یہ آزادی اور غلامی کا فرق ہے اور شاید یہی ہے حقیقی آزادی ۔(یوٹیوب :ان سنی باتیں Batain Ansuni :جواد رضا خان)

پاکستان کی تمام اقوام کو غلو سازی کے اُتار چڑھاؤ سے اعتدال پر آنا ہوگا۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخواہ علی امین گنڈاپور نے الزام عائد کیا ہے کہ دہشت گردی کی بنیاد ہمارے ہی ریاستی ادارے ہیں، پولیس دہشت گردوں کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیتی ہے تو یہ لوگ چھڑالیتے ہیں۔ سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخواہ امیر حیدر خان ہوتی نے کہا ہے کہ اس الزام کی صحیح تحقیق ہونی چاہیے اور الزام عائد کیا ہے کہ گنڈاپور خود طالبان کو بھتہ دے رہا ہے۔

یہ الزام تراشی کی ایک ادنیٰ مثال ہے۔ گروہ بندی اور سیاسی جماعتوں سے لیکر لسانی جماعتوں اور فرقہ پرستوں تک یہ قوم الزام تراشیوں کی بحرانوں میں غرق ہے۔ اب تو معاملہ انتہا کو پہنچ گیا ہے حالانکہ جنرل قمر جاویدہ باجوہ کے دورمیں ایک صحافی نے کھلے عام کالے ویگو ڈالے اور کچھ طالبان پر ایک کروڑ تاوان کے مطالبے کا الزام لگادیا تھامگر کسی سیاسی ومذہبی جماعت نے اس پر آواز نہیں اٹھائی۔

قل یااہل الکتٰب لاتغلوا فی دینکم غیر الحق ولا تتبعوا اھواء قوم قد ضلوا من قبل واضلوا کثیرًا و ضلوا عن سواء السبیل ۔ ترجمہ ” آپ فرماؤ ۔ ائے اہل کتاب اپنے دین میں ناحق غلو مت کرو اور ان لوگوں کی خواہشات پر مت چلو ،جو پہلے خود بھی گمراہ ہوچکے ہیں اور بہت سارے لوگوں کو بھی گمراہ کرچکے ہیں۔ اور سیدھی راہ بھٹک چکے ہیں۔ ( سورہ المائدہ ، آیت77)

مصیبت یہ ہے کہ ہر ایک غلو کا شکار ہے چاہے وہ سیاسی، مذہبی، جہادی ، سرکاری اور حکومتی مشن سے تعلق رکھتا ہو یا پھر قوم پرستی اور انفرادی معاملات سے تعلق رکھتا ہو۔ اللہ کی زمین میں خلافت کا تعلق ان ذمہ داریوں سے ہے جن میں انسان اپنی وسعت کے مطابق طاقت رکھتا ہے۔

ذمہ داریاں اور منصب مانگنے کے نہیں ہوتے مگر جب انسان کے متھے لگ جائیں تو اس کو احسن انداز سے پورا کرنا خلافت ارضی کا فریضہ ہے۔ دنیا میں ہر شخص اپنی اپنی وسعت کے مطابق زمین میں اللہ کا خلیفہ ہے۔ خواہشات کی تابعداری سے بچنا بھی خلافت ہے۔ حضرت آدم و حواء سے اللہ نے فرمایا کہ لاتقربا ھذہ الشجرة ”اس درخت کے قریب مت جاؤ”۔جب انسان اپنے نفس ہی کا مالک ہو تو اس کی ذمہ داری اور خلافت نفس تک محدود ہے۔ اس طرح بال بچوں اور جہاں تک وسعت پائے۔

فیلڈ مارشل، وزیراعظم ، چیف جسٹس، پارلیمنٹ، علمائ، صحافی ، مجاہدین اور سبھی حضرات کی ذمہ داریاں اپنے اپنے دائرہ کار تک محدود ہیں اور تجاوز کرنا بالکل غلط ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم تجاوز نہیں کرتے بلکہ اعتدال پر چلتے ہیں تو یہ سچ بھی ہوسکتا ہے اور بہت بڑا مغالطہ بھی ہوسکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ” اے ایمان والو! تم ان لوگوں کی طرح مت ہوجاؤجنہوں نے کفر کیا اور اپنے بھائیوں سے کہا جب وہ سفر پر نکلیں یا جہاد پر جائیں کہ اگر یہ ہمارے پاس ہوتے تو نہیں مرتے اور نہ قتل ہوتے ۔ تاکہ اللہ انکے دلوں میں ایک افسوس ڈالے۔اور اللہ ہی زندہ رکھتا ہے اور مارتا ہے ۔اور اللہ سب کاموں کو دیکھنے والا ہے۔ اور اگر تم اللہ راہ میں مارے جاؤ یا مرجاؤ تو اللہ کی طرف سے مغفرت اور رحمت بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔ اور اگر تم مرگئے یا قتل کئے گئے تو تم سب کا اللہ کی طرف حشر ہوگا۔ پس اللہ کی رحمت کے سبب آپ ان کیلئے نرم ہوگئے۔ اور اگرآپ تند خو اور سخت دل ہوتے تو ضرور یہ لوگ آپ کے ارد گرد سے بھاگ جاتے۔ پس ان کو معاف کردیں اور ان کیلئے بخشش مانگیں۔اور ان سے خاص بات میں مشورہ کریں۔ پھر جب عزم کرو تو اللہ پر بھروسہ کرو۔ بیشک اللہ توکل رکھنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو کوئی بھی تم پر غالب نہیں آسکتا ہے۔ اور اگر وہ دھکا دے تو پھرکون ہے جو تمہاری اس کے بعد مدد کرسکے؟۔ اور مؤمنوں کو اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ (آل عمران آیات156تا160)

ماکان لنبییٍ ان یغل و من یغلل یأت بما غل یوم القیامة ثم توفیٰ کل نفسٍ ما کسبت و ھم لایظلمون…. ”اور کسی نبی کے لائق نہیں کہ غلو کرے اور جو کوئی غلو کریگا تو قیامت کے دن اس غلو کوساتھ لائے گا ۔ پھر ہر کوئی پوراپالے گا جو اس نے کمایا ہے اور ان پر کوئی زیادتی نہیں ہوگی۔ آیا وہ شخص جو اللہ کی رضا کا تابع ہے وہ اس کی طرح ہے جس پر اللہ کا غضب ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور برا ٹھکانہ ہے۔ اللہ کے ہاں لوگوں کے مختلف درجات ہیں۔ اور اللہ دیکھتا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں۔ اللہ نے ایمان والوں پر احسان کیا ہے جب ان میں سے ایک رسول بھیجاجو ان کی جانوں میں سے ہے۔ ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے اور اگرچہ وہ اس سے پہلے کھلی ہوئی گمراہی میں تھے۔ کیا جب تمہیں ایک تکلیف پہنچی ،حالانکہ تم ان کو اس سے دگنی تکلیف پہنچا چکے ہو۔ تو تم کہتے ہو کہ یہ کہاں سے آئی۔ کہہ دو کہ یہ تمہاری اپنی جانوں کی طرف سے ہے۔ بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اور کچھ تمہیں اسکی تکلیف پہنچی جب دونوں جماعتیں ٹکرائیں۔یہ سب اللہ کی اجازت سے ہوا۔تاکہ ایمان والوں کو اللہ ظاہر کردے اور تاکہ منافقوں کو ظاہر کردے۔ اور ان سے کہا گیا کہ آؤ اللہ کی راہ میں لڑو یا دشمنوں کو دفع کرو۔ تو انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں علم ہوتا کہ آج جنگ ہوگی تو ہم ضرور تمہارے ساتھ چلتے۔ وہ اس وقت بہ نسبت ایمان کے کفر کے زیادہ قریب تھے۔ وہ اپنے منہ سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے۔ اور جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اللہ اس کو خوب جانتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے بھائیوں سے کہتے ہیں حالانکہ خود بیٹھے رہتے اگر وہ ہماری بات مانتے تو قتل نہ کئے جاتے۔ کہدو ! اگر تم سچے ہو تو اپنی زبانوں سے موت کو ہٹاؤ اور تم مت سمجھو کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے مردہ بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے ہاں ان کو رزق دیا جاتا ہے۔ وہ خوش ہیں جو اللہ نے اپنے فضل سے ان کو دیا ہے۔ اور ان کی طرف سے بھی خوش ہوتے ہیں جو ابھی تک انکے پاس ان کے پیچھے نہیں پہنچے ہیں۔ خبردار ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہیں۔ (آل عمران:161تا 170)

ان آیات میں غلو کا ترجمہ غلط کیا گیا ہے۔ انبیاء کرام کی طرف اس کی نسبت اسلئے کی گئی ہے کہ کوئی طبقہ خود کو مستثنیٰ نہیں سمجھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے قتل ہوا،حضرت ہارون علیہ السلام کو داڑھی سے کھینچا۔ نبیۖ نے حضرت امیرحمزہ کی شہادت پر سخت انتقام کا فرمایا تو اللہ نے معاف کرنے کا حکم دیا۔ بیوی سے ناراضگی کی مدت قرآن نے 4 ماہ رکھی ہے۔ نبیۖ حضرت زینب سے ناراض رہے۔

ام المؤمنین عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ سفر میں تھے ،سیدہ صفیہ کی سواری کا اونٹ بیمار ہوااور سیدہ زینب کے پاس وافر سواری تھی۔ رسول اللہ ۖ نے سیدہ زینب سے فرمایاکہ صفیہ کی سواری کا اونٹ بیمار ہوگیا ، آپ اپنے اونٹوں میں سے ایک اونٹ سواری کیلئے دے دیں۔ تو سیدہ زینب نے جواب دیا کہ میں اس یہودی عورت کو اپنا اونٹ دوں؟ تو رسول اللہۖ نے سیدہ زنیب کے پاس اپنی آمد ورفت چھوڑ دی۔ ذی الحجہ اور محرم یہ دو مہینے یا تین مہینے آپۖ انکے پا س نہ آئے۔ سیدہ زینب فرماتی ہیں کہ میں پوری طرح آپ ۖسے ناامید ہوگئی اور اپنی چارپائی وہاں سے ہٹاکر رکھ دی۔ پھر سیدہ زینب نے فرمایا کہ اچانک ایک دن دوپہر کے وقت کھڑی اپنے آپ کو رسول اللہ ۖ کے سایہ مبارک میں پاتی ہوں۔یہ واقعہ ذی الحج کے سفر کا ہے۔( مسنداحمد ج6صفحہ231)

یہودی سخت جملہ اور مدد سے انکار ؟۔ نبیۖ کچھ عرصہ ناراض رہے۔ تحریک انصاف اور سیاسی وجہادی کارکن بھی اعتدال پر آجائیں اور علم وشعور کی شمعیں جلائیں۔ اپنے آپ کو 100% فیصد اعتدال پر سمجھنے کا دعویٰ یا گمان رکھنا ہی بہت بڑی گمراہی ہے اور اس کے مذہبی وسیاسی لوگ اور سرکاری حضرات کی اکثریت شکار ہے ۔ اگر پاکستان کے تمام لوگ اپنی اپنی بے اعتدالیوں کا اقرار اور توبہ کرکے راہ اعتدال پر نہیں آئے تو اس معاشرے کی تباہی وبربادی کے اوقات خدانخواستہ آن پہنچ گئے ہیں۔

تہمینہ شیخ ودیگر کے ویلاگ میں کیا خبریںہیں؟۔ فوج کے شہدائ، طالبان اور بلوچ قوم پرستوں کے احوال جس کو دیکھ مصائب وآلام کا شکارہے۔ عورتیں بیوہ، بچے یتیم اور انسانیت اجھڑ رہی ہے۔ بیٹا ماں باپ اور بیوی کو قتل ، ماں بچوں کو قتل کررہی ہے جو رپورٹ نہیں ہوتا تو وہ کیا ہوگا؟۔

نہ تو ریاست و حکومت اپنی ذمہ داری پوری کررہی ہے ، نہ ہی عوام کی حالت ٹھیک ہے۔ اس حالت میں امید کی شمع جلانا اور بنیادی کردار ادا کرنا فرض ہے۔ قرآنی آیات کا ترجمہ غلط ہوگا تو معاشرے میں اصلاح کا باعث کیسے بن سکتا ہے؟، قرآن کی رہنمائی مردہ امت کو زندہ کرسکتی ہے۔

قرآن کہتا ہے کہ نبی کیلئے غلو یعنی بے اعتدالی مناسب نہیں اور جو بے اعتدالی کرے گا تو قیامت کے دن جو بے اعتدالی کی ہوگی تو اسکے ساتھ آئے گا۔ قرآن کا مقصد انبیاء کرام علیہم السلام کی بے اعتدالیوں کو اجاگر کرنا نہیں کیونکہ وہ اللہ کی طرف سے ہدایت پر ہیں لیکن لوگوںکو خوش فہمیوں سے نکالنا ہے۔ بدر کے قیدیوں سے نبی اکرم ۖ نے اکثریت اور خاص طور پر حضرت ابوبکر کے مشورے پر فدیہ لینے کافیصلہ فرمایا تو اللہ نے واضح الفاظ میں فرمایا ہے کہ ”نبی کیلئے مناسب نہیں کہ اسکے پاس قیدی ہوں یہاں تک کہ خوب خون بہاتے۔ تم دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے۔…..”۔ ماکان للنبیٍ ان یکون لہ اسری

علماء نے اس آیت کی عجیب و غریب قسم کی تفاسیر کی ہیں جن میں علامہ رسول سعیدی کی تبیان القرآن میں کچھ دیکھ سکتے ہیں۔ حالانکہ آیات کے ترجمہ و حالات کی حقیقت سے تفاسیر بالکل واضح ہیں۔حضرت ابوبکر نے اپنے بیٹے کیلئے نہیں بلکہ رسول اللہۖ کے چچا عباس کیلئے فدیہ لیکر معاف کرنے کا مشورہ دیا اور نبیۖ کا ایک داماد بھی ان قیدیوں میں شامل تھا۔ تاکہ نبیۖ کو اقارب کی وجہ سے فطری رنج و غم نہیں پہنچے۔ لیکن اللہ کو معلوم تھا کہ یہ فطری محبت حد اعتدال سے ہٹ جائے تو معاشرے کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ جب حضرت نوح علیہ السلام نے دیکھا کہ بگڑا ہوا لاڈلہ بیٹا غرق ہورہاہے تو اللہ سے فریاد کی اور اللہ نے فرمایا کہ وہ چیز مت مانگو جس کا تجھے علم نہیں ہے اور حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ سے معافی مانگ لی۔

ایک طرف تو بدری صحابہ کے دلوں کو اللہ نے چمکادیاجو فتح کا جشن منانے کے بجائے رونے دھونے ، معافی تلافی میں لگ گئے اور دوسری طرف حضرت عمر و سعد نے قتل کا مشورہ دیا تھا جس سے اقلیت کی رائے کی عظمت بڑھ گئی۔ یعنی عمل تو اکثریت کے مشورے پر ہوا لیکن ٹھیک اقلیت کی رائے قرار پائی۔ یہی تعلیم وتربیت تھی ۔ مقصد قیدیوں کو قتل کرنا نہ تھا بلکہ اقارب کی جنگ میں رعایت پر تنبیہ تھی اور صحابہ نے اپنے لئے رعایت نہیں رکھی بلکہ نبیۖ کے اقارب کی رعایت رکھی تو اللہ نے یہ رعایت سے بھی ناپسند فرمائی۔ اور اس میں حکمت کی بھی زبردست تعلیم یہ تھی کہ جن کافروں کو فدیہ دیکر چھوڑ دیا تو ان کے دلوں میں بٹھا دیا کہ اگر آئندہ غلطی کروگے تو معافی نہیں ملے گی۔ صحابہ کی ڈانٹ سے اصل مقصد ان لوگوں کو خوف دلانا تھا۔

اس تزکیہ کا اثر یہ تھا کہ خلافت راشدہ میں نبیۖ اور اپنے اقارب کی رعایت نہیں تھی۔ حضرت ابوبکر، عمر ، عثمان اور علی کی خلافت اعتدال کے اعلیٰ ترین درجہ پر تھی۔ قرآن میں فتح مکہ سے پہلے اور بعد والوں کے درجات میں فرق ہے۔ حضرت علی کے بعد حادثے کے طور امام حسن نے منصب خلافت کا عہدہ سنبھال لیا مگر خلافت سے دستبردار ہوکر حضرت امیر معاویہ پر امت کا اتفاق کردیا تھا۔

اپنے نااہل بیٹوں اور دامادوں کو راستہ دینے کیلئے یزید کی حمایت کرنے والے انتہائی بے شرم اور بے غیرت قسم کے لوگ ہیں۔ شیعہ سے کہتا ہوں کہ امیر معاویہ پر اعتراض امام حسن و حسین پر اعتراض ہے جن کی رعایت و مصالحت سے اقتدار کررہے تھے لیکن یزید کی حمایت اور امام حسین کی مخالفت میں آسمان و زمین کی قلابیں ملانے پر جاوید احمد غامدی اور دوسرے بدشکلوں سے کہتا ہوں کہ اٹھو اپنا گندہ منہ ذرا دھو لو۔ آذان کی مخالفت کرنے والے ہندؤوں سے شاعرہ لتا حیا کہتی ہیں کہ ” تم بھی صبح اٹھو اور منہ دھولو”۔

رسول اللہۖ اور صحابہ کرام نے اسلئے قربانیاں نہیں دی تھیں کہ خلافت کو بنوامیہ وبنو عباس اپنی اپنی لونڈیاں ہی بنالیں، اگر بدر کی جنگ میںامیرحمزہ و علی نے حضرت عباس کی گردن اڑائی ہوتی تو حضرت علی کی اولاد کو اسلئے محروم اور ظلم وستم کا نشانہ نہیں بنایا جاتا کہ رسول اللہۖ کے چچازاد علی کی بہ نسبت چچا عباس کی اولاد خلافت کی زیادہ حقدار ہے۔ اگر یہ شریعت ہوتی تو پھر خلافت راشدہ کس کھاتے میں جائے گی؟۔ پھر حضرت عباس کی نسبت سے حضرت عمر بارش کیلئے دعامانگنے کے بجائے خلافت پر بٹھادیتے۔

حضرت علی سے زیادہ حضرت امیر معاویہ کی اہلیت پر سستی شہرت اور حمایت کمانے والے بے شرم جاوید غامدی کو پتہ ہونا چاہیے کہ امیر معاویہ کے باپ حضرت ابوسفیان نے حضرت علی کو حضرت ابوبکر سے بھی زیادہ اہل قرار دیا تھا اسلئے مدعی سست گواہ چست کی ڈرامہ بازی غلط ہے۔ لوگ جاویداحمد غامدی کا فتنہ نہیں سمجھ رہے ہیں۔ قرآن کی آخری دو سورتوں کے علاوہ قرآن کی بہت ساری سورتوں کا میں نے خود کلپ سنا ہے جو پھر مل نہیں سکا ہوسکتا ہے کہ ڈیلیٹ کردیا ہو کیونکہ میں نے بہت ڈھونڈلیا۔ جس میں وہ قرآن کی سورتوں کے بارے میں کہتا ہے کہ یہاں تک قرآن ہے اور باقی مضمون قرآن نہیں ہے ۔ آخری دوسورتیں بھی قرآن نہیں ہیں۔ ایک طرف احادیث صحیحہ کا بے عقلی سے انکار اور دوسری طرف من گھڑت آثار کو ثابت سمجھتا ہے۔

اللہ کے فضل وکرم سے مدارس کا نصاب بھی ہم نے غلط قرار دیا ہے اور طالب علمی کے زمانے میں اساتذہ کرام نے تائید بھی کی ہے ۔ جس میں ہمارا کوئی کمال نہیں ،قرآن اتنا واضح ہے کہ قرآن کی وضاحتوں کو نہیں سمجھنا کم عقلی ہے اور علماء کرام نے کوشش کی ہے کہ جس معاملے کو نہیں سمجھا تو اپنی طرف سے ڈنڈی نہیں ماری ہے لیکن جب بھی درست بات سامنے آئی ہے تو اس کی تائید کردی۔ بریلوی دیوبندی اہل حدیث جماعت اسلامی اور شیعہ میں بہت لوگ قرآن کے متن کی طرف رجوع کررہے ہیں اور اس کی وجہ سے ہم امت مسلمہ اور پوری دنیا کو بحران سے نکال سکتے ہیں اور یہی ہمارا اصل مشن بھی ہے جس کی سب نے تائید کی ہے۔

اپنی ذمہ داری کا فرض کو پورا کرنا خلافت ہے۔ ایک چڑیا کو پانی پلانے کیلئے ضرورت ہو گی تو فرشتہ نہیں اترے گا اور انسان کی پکڑہوگی۔جس کی جتنی بڑی ذمہ داری اتنا بڑا مواخذہ ہوگا۔سورہ البقرہ کی آخری آیت میں یہی ہے۔

محسود مجاہد کی ہندو بیوی کا واقعہ

پیر بغدادی پیر آف وانا نے آزادی کے بعد وانا جنوبی وزیرستان میںآزادی کا جھنڈا لہرایا اور ان کی قیادت میں قبائل کا لشکر کشمیر کے جہاد میں گیا، ایک محسود مجاہد سے اس کی ہندو بیوی بھی چھین لی ۔ میرے والد پیرمقیم شاہ نے بتایا کہ اس نے مجھ سے مدد مانگی تو اس کو پسٹل دیا کہ اس کو قتل کردو اور میرے پاس آجاؤ مگر بے غیرت نے نیناواتی میں جانور ذبح کئے حالانکہ کافی سارے سانڈھ جیسے اسکے بھائی تھے۔

وزیرستان کی عوام غیرت مند ہیں مگر بے غیرت بھی ہر جگہ ہوتے ہیں ۔ پیر صاحب کا ہندو لڑکی پر دل آیا ہوگا یا پھر سوچا ہوگا کہ نازک اندام لڑکی پر لکڑیاں، پانی اور مزدوری کے مشکلات پڑسکتے ہیں اسلئے چھین لی ہوگی اور مولوی نے فتویٰ دیا ہوگا کہ امیر جہاد کا زیادہ حق بنتا ہے …..ہاہاہا

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اگست 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مفتی محمود پر1970میں ، مولانا فضل الرحمن پر1985 میں کفر کا فتویٰ لگا۔ کیااب حق کا علم مولانا بلند کریں گے؟

قرآن کے احکام اور مسائل کاحل

قرآن کی تعریف : ”جو رسول ۖ پر نازل ہوا،جو مصاحف میں لکھا ہوا ہے، جو آپ ۖ سے منقول ہے تواتر کیساتھ بلاشبہ”۔

اس کی تشریح:” اس سے پانچ سو آیات مراد ہیں۔ باقی قرآن قصے اور مواعظ ہیں۔ لکھے سے مراد لکھا ہوا نہیں کیونکہ یہ محض نقش ہے۔متواتر کی قید سے غیر متواتر آیات نکل گئیں جیسے اخبار احاد اور مشہورآیات اور بلاشبہ کی قید سے بسم اللہ نکل گئی ، اگرچہ صحیح بات یہ ہے کہ بسم اللہ قرآن ہے لیکن اس میں شک ہے اور اس وجہ سے اس کا منکر کا فر نہیں بنتا ہے”۔

یہ تعریف حنفی مسلک کی ہے جس میں صحیح احادیث سے زیادہ اہمیت قرآن کی اخبار احاد کی ہے لیکن امام شافعی کے نزدیک یہ عقیدہ کفرہے۔ جب قرآن سے باہر بھی آیات مان لی جائیں اور شبہ بھی ثابت کیا جائے تو پھر عوام کو بھی آگاہ کرنا چاہیے کہ علماء قرآن کیساتھ کیا کرتے ہیں؟۔

جب معاملہ 500آیات کا تھا تو پھر فضول کی بکواس کی ضرورت کیا ہے اور اگر لکھا ہوا قرآن اللہ کا کلام اور کتاب نہیں ہے تو اسلئے فقہ کی جن کتابوں فتاوی قاضی خان سے فتاویٰ شامی تک سورہ فاتحہ کو علاج کیلئے پیشاب سے لکھنا جائز ہے ۔تاکہ اس توہین کو تحفظ دیا جائے؟۔

امام شافعی بسم اللہ میں شک نہیں کرتے تھے اور جہری نماز میں جہری بسم اللہ پڑھتے تھے تو ان پر رافضی کا فتویٰ لگادیا۔ علماء خود قرآن کیخلاف تعلیمات دے رہے ہیں۔ پارلیمنٹ ، سینیٹ اور عدالتوں میں جب تک ان کا مؤاخذہ نہیں ہوگا تو یہ اپنے غلط نصاب کو تبدیل نہیں کریںگے۔ امام ابوحنیفہ کی شہادت کے بعد امام شافعی نے حق کا پرچم بلند کیا تھا۔

اللہ نے فرمایا کہ ” رسول شکایت فرمائیںگے کہ اے میرے رب ! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا”۔(الفرقان: 30)

اور یہ بھی واضح فرمایا کہ ” جیسا ہم نے ان بٹوارہ کرنے والوں پر نازل کیا ہو جنہوں نے قرآن کو بوٹیاں بوٹیاں کردیا۔ تیرے رب کی قسم ہم ان سبھی سے ضرور پوچھیںگے”۔(سورہ الحجر: 90،91،92)

قرآن نے مسائل کا بالکل واضح حل پیش کیا ہے جو اپنی مثال دینا آپ ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ ” اور جس دن ہر گروہ میں سے ان پرانہیں میں سے ایک گواہ کھڑا کریںگے۔اور تجھے ان پر گواہ بنائیںگے۔ اور ہم نے تجھ پر وہ کتاب نازل کی ہے جو ہر چیز کو واضح کرتی ہے۔اور مسلمانوں کیلئے ہدایت، رحمت اور خوشخبری ہے”۔ (النحل:89)

فرقہ پرستی، سیاست، قوم پرستی اور مختلف حوالہ جات سے لوگ اپنے کمالات کے جوہر دکھارہے ہیں لیکن اصل مسائل کے حل کی نشاندہی کا تصور نہیں رکھتے۔ جب تک معاشی اور معاشرتی بنیادوں پر ہمارے اپنے اقدار درست نہیں ہوں گے تو مسائل حل کے بجائے گھمبیر ہوں گے اور قرآن وہ کتاب ہے جس سے دنیا کی قوموں کو عروج ملتا ہے اور اس کے چھوڑنے سے مسلمان تنزلی کا شکار ہوگئے ہیں۔ دنیا میں میاں بیوی کی صلح پر پابندی نہیں اور اس کا سہرا قرآن کے سر جاتا ہے۔

قرآن کی صلح واصلاح کا منکر کون؟

دور جاہلیت میں طلاق کی عدت تھی اور طلاق رجعی کے بعد شوہر عورت کی رضامندی کے بغیر اس کو لوٹانے کا حق رکھتا تھا مگر تین طلاق کے بعد حلالہ کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا تھا۔ طلاق کے الفاظ کے اقسام اور مختلف احکام تھے۔ اگربیوی کی پیٹھ کو ماں کی پیٹھ کہا تو حلالہ سے بھی رجوع نہیں ہوسکتاتھااور حرام کے بعد بھی رجوع نہیں ہوسکتا تھا۔

قرآن نے تمام مسائل کا عام فہم عوامی حل پیش کردیا۔ سنت نے اس کو مزید واضح کردیا اور خلفاء راشدین نے ان کے مطابق فیصلے کئے لیکن پھر رفتہ رفتہ مذہبی طبقات اور اختلافات نے دین کے اصل چہرے کو مسخ کردیا ۔ اب بڑے بڑے علماء ومشائخ بات کو نہیں سمجھتے یا تجاہل عارفانہ سے اپنا ایکسپائر شدہ اسلحہ چلاکر قوم وملت کو برباد کررہے ہیں۔ ہم نے اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی اور قبلہ ایاز سے ملاقاتیں کرکے بات سمجھا دی اور وہ سمجھ بھی گئے لیکن اپنی نوکریاں بچانے یا بڑے علماء کیساتھ الجھن سے بچنے کیلئے یہ معاملہ آگے نہیں بڑھایا۔

1: سورہ بقرہ آیت 228میں حلالہ اور طلاق رجعی کی جاہلیت کے مسائل کو اللہ نے بہت آسان الفاظ میں حل کردیا۔ وبعولتھن احق بردھن ان ارادوا اصلاحًا: ”اور ان کے شوہر اس(عدت) میں ان کو صلح کی شرط پر لوٹانے کا حق رکھتے ہیں”۔(البقرہ آیت228)

جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اکٹھی طلاق پر حلالہ کی لعنت کا خاتمہ اور شوہر عورت کی رضامندی کے بغیر رجوع نہیں کرسکتا ہے۔

حضرت عمر کے پاس اقتدار تھا ۔آپ نے دارالفتویٰ نہیں کھولا تھا۔ شوہر نے بیوی سے کہا کہ تجھے تین طلاق۔ اور اپنا حق یہ سمجھا کہ وہ عدت میں رجوع کرسکتا ہے اور بیوی رجوع کیلئے راضی نہیں تھی۔ حضرت عمر نے قرآن کے مطابق فیصلہ دے دیا کہ شوہر کو رجوع کا حق نہیں ۔ اس سے پہلے کوئی اکٹھی تین طلاق دیتا تھا تو باہمی رجوع کرلیتے تھے لیکن یہ فیصلہ قرآن کی بنیاد پر تھا اور حضرت عمر نے عورت کے حق کو بھرپور تحفظ دیا اور اگر ایک طلاق کے بعد بھی عورت رجوع کیلئے راضی نہ ہوتی تو عمر نے قرآن کے مطابق یہی فیصلہ دینا تھا کہ رجوع نہیں ہوسکتا۔ حضرت عمر ہی کے دور میں ایک شخص نے بیوی کو حرام کہہ دیا اور پھر تنازع حضرت عمر کے پاس پہنچ گیا۔ پھر وہ دونوں میاں بیوی رجوع پر رضامند ہوگئے تو یہ فیصلہ دے دیا کہ رجوع کرلو۔ پھر حضرت علی کے دور میں حرام کے لفظ پر دربارِ خلافت میں تنازعہ آیا۔ عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی تو علی نے فیصلہ دے دیا کہ رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ قرآن نے بار بار واضح کیا ہے کہ باہمی اصلاح معروف طریقے سے جب دونوں راضی ہوں تو اللہ نے صلح کی اجازت دی اور حکم دیا ہے کہ صلح میں رکاوٹ مت بنو۔

عورت فحاشی کی مرتکب ہو تو عدت ہی میں اس کو گھر سے نکال سکتے ہیں اور وہ خود بھی نکل سکتی ہے۔ لیکن اگر مالی حقوق کے مسائل ہوں یا پھر غیرت کے نام پر سزا کی بات ہو تو دونوں کے درمیان لعان کا حکم ہے۔ پھر اگر شوہر سچا ہواور عورت جھوٹی ہو تب بھی عورت کو سزا نہیں دیںگے۔ اور قرآن نے واضح کیا ہے کہ بدکارمرد اور عورت کا آپس میں یا مشرک سے نکاح کرایا جائے گا۔ شیتل بی بی کا مسئلہ علماء کے غلط مسائل نے ہی بگاڑ دیا ہے جس میں کہانی کے جس رنگ کو دیکھا جائے یہی نکلے گا۔

قرآن میں بالکل کوئی تضادات نہیں ۔ آیت228البقرہ کے بعد آیت229میں مزید وضاحت ہے کہ عدت کے تین مراحل میں تین مرتبہ طلاق دی جائے۔ رجوع کیلئے معروف کی شرط ہے۔ صلح ، اصلاح اور معروف ایک ہی چیز ہیں اور قرآن نے بار بار اس کی وضاحت کی۔ رسول اللہۖ نے بھی وضاحت فرمائی کہ پاکی کے دن پھر حیض، پاکی کے دن پھر حیض پھر پاکی کے دن ۔ یہی وہ عدت ہے جس میں اللہ نے قرآن میں طلاق کا امر کیا ہے۔ بخاری نے باربار یہ حدیث نقل کی ہے۔

بخاری نے اکٹھی تین اور حلالہ کیلئے غلط حدیث نقل کی ہے اور قرآن کی آیت کا بھی بالکل غلط حوالہ دیا ہے۔ کہ رفاعہ القرظی نے بیوی کو تین طلاق دی اور پھر اس نے عبدالرحمن بن زبیرالقرظی سے نکاح کیا اور پھر نبیۖ کو دوپٹے کا پلو دکھایا کہ اسکے پاس ایسی چیز ہے ۔ نبیۖ نے فرمایا : کیا رفاعہ کے پاس جاناچاہتی ہو ؟،نہیں جاسکتی ،یہاں تک وہ تیرا شہد چکھ لے اور تو اس کا شہد چکھ لے(صحیح بخاری) حالانکہ صحیح بخاری نے یہ حدیث نقل کی ہے کہ رفاعہ نے الگ الگ مراحل میں طلاق دی تھی مگر اس فراڈ کی وجہ سے امت مسلمہ کی عزتیں لُٹ رہی ہیں۔ اور اس سے یہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ نبیۖ نے قرآن کے منافی اکٹھی تین طلاق پر حلالہ کا حکم جاری کیا تھا اور نامرد سے حلالہ پر مجبور کرنا بھی بہتان ہے۔

جہاں تک عویمر عجلانی نے لعان کے بعد تین طلاقیں دیں تو اس سے قرآن کی آیت کو منسوخ کرنا اور حلالہ پر مجبور کرنا انتہائی درجہ کی جہالت تھی لیکن افسوس کہ اس ماحول میں بھی اسلام اجنبی بن چکا تھا۔ حنفی فقہاء کے نزدیک اکٹھی تین طلاق بدعت، ناجائز اور حرام تھیں۔ شافعی فقہاء کے نزدیک اکٹھی تین طلاق سنت، جائز اور مباح تھیں۔ بخاری نے حنفی مسلک کی مخالفت میں شافعی مسلک کو سپورٹ کرنے کیلئے ایسا کیا تھا۔

امام شافعی نے حضرت عمر کی سپورٹ کیلئے اکٹھی تین طلاق کو سنت قرار دیا۔ جس کی دلیل عویمر عجلانیکے لعان کا واقعہ تھا اور حنفی فقہاء و مالکی فقہاء کے نزدیک محمودبن لبید کی حدیث دلیل تھی کہ جب ایک شخص نے خبر دی کہ فلاں نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی تو رسول اللہۖ غضبناک ہوکر کھڑے ہوگئے اورفرمایا کہ میری موجودگی تم اللہ کی کتاب کیساتھ کھیل رہے ہو۔ ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اس کو قتل نہ کردوں؟ ۔

محمود بن لبید کی روایت صحیح بخاری و صحیح مسلم میں نہیں ہے۔ صحیح بخاری میں واقعہ کی تفصیل اورنبیۖ کے غضبناک ہونے کی وضاحت ہے اور صحیح مسلم میں عبداللہ بن عمر کی اکٹھی تین طلاق کی وضاحت ہے۔ روایات میں یہ بھی واضح ہے کہ طلاق دینے والا عبداللہ اور خبردینے اور قتل کی پیشکش کرنے والے حضرت عمر تھے۔خلافت راشدہ میں یہ بحث نہیں تھی کہ طلاق سنت وبدعت کیا ہے؟۔حضرت عمر اور حضرت علی نے قرآن کے مطابق عورت رجوع کیلئے راضی نہیں ہو تو رجوع کا فیصلہ نہیں دیا ۔ چاہے اکٹھی تین طلاق کے الفاظ ہوں یا ایک بار حرام کا لفظ ہو۔ اور ظاہر ہے کہ عورت رجوع کیلئے راضی ہوتی تو نہیں روک سکتے تھے۔ ایک طرف رسول اللہۖ کی زندگی میں سخت ترین طلاق بیوی کو ماں قرار دینے کا معاملہ سورہ مجادلہ میں واضح تھا اور دوسری طرف جب نبیۖ نے طلاق نہیں دی تھی بلکہ ناراضگی وایلاء میں بھی ایک ماہ بعد رجوع کیا تو اللہ نے واضح کیا کہ پہلے تمام عورتوں کو علیحدگی کا اختیار دو۔ اگرساتھ رہنا چاہتی ہوں تب رجوع کرسکتے ہیں۔ قرآن وسنت کی عظیم الشان رہنمائی اور وضاحتوں کے باوجود بھی اختلافات اور قرآن وسنت سے بغاوت کرنا اانتہائی درجہ کی گراوٹ ہے۔ قرآن نے بار بار اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ اصلاح، معروف طریقے اور باہمی رضامندی کی بنیادپر عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل پر اور عدت کی تکمیل کے عرصہ بعد رجوع ہوسکتا ہے بلکہ رجوع میں رکاوٹ مت ڈالو۔ اسی میں تمہارا باطنی تزکیہ اور ظاہری پاکیزگی ہے۔ لیکن ایک طرف صلح کے بغیر شوہر کو رجوع کی اجازت دیکر لاتعداد پیچیدہ مسائل کھڑے کردئیے اور دوسری طرف باہمی رضامندی میں حلالہ پر مجبور کرکے بیڑہ غرق کیا ہے اور آیت230البقرہ کا تعلق طلاق کی اس صورت سے ہے کہ جب اس سے پہلے آیت229البقرہ کے مطابق دونوں اور فیصلہ کرنے والے ایسی علیحدگی پر متفق ہوں کہ آئندہ رابطے کا بھی کوئی ذریعہ نہیں رہے اور یہ صرف اس مشکل مسئلے کا حل تھا کہ عورت کو طلاق کے بعد بھی شوہر اپنی مرضی سے کسی اور سے نکاح کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ جو لیڈی ڈیانا کیساتھ ہوا اور جس طرح ریحام خان کو طلاق کے بعد پاکستان واپس آنے سے روکنے کی کوشش کی گئی۔ حالانکہ آیات231،232البقرہ میں اور سورہ طلاق کی پہلی دوآیات میںرجوع کا مؤقف واضح کیا۔

حنفی اور شافعی میں یہ اختلاف تھا کہ حرمت مصاہرت نکاح سے ثابت ہوتی یا زنا سے بھی۔ امام شافعی کے نزدیک حرمت مصاہرت ایک مقدس رشتہ ہے جو زنا سے ثابت نہیں ہوتا۔ حنفی فقہاء نے زنا اور نکاح کو ایک قرار دیا۔ پھر اس میں مزید وقت کیساتھ ساتھ ایکسٹینشن جاری رکھی۔ یہاں تک بھی معاملہ پہنچا دیا کہ شہوت کیساتھ چھونے سے بھی حرمت مصاہرت ہوجاتی ہے۔ لوگوں کو ذہنی مریض بنادیا کہ ساس یا بہو سے ہاتھ ملانے پر شہوت تو نہیں آئی؟۔ آئی تھی تو ساس اور بہو بیوی بن گئی ، اپنی بیوی حرام ہوگئی۔ مولوی پکڑا گیا جو بہو کے سینے کو ہاتھوں سے سہلا رہاتھا تو اس نے اپنے لئے حیلہ تلاش کیا اور عام لوگوں کو فتویٰ دیا کہ لامحالہ شہوت آگئی اسلئے والد پر اس کی بیوی اور بیٹے پر اس کی بیوی حرام ہوگئی۔ پھر معاملے کو مزید ایکسٹینشن دیدی اور مسئلہ بنایا کہ اگر ساس یا بہو کی شرمگاہ کو باہر سے دیکھا تو پھر حرمت مصاہرت نہیں ہوگی اسلئے کہ عذر ہے اور شہوت آجاتی ہے اسلئے کہ شیح الحدیث مفتی عزیز الرحمن کی طرح کوئی ننگا پکڑا گیا تھا جس میں پرائیویٹ پاٹ منتشر تھے۔ لیکن شرمگاہ کو اندر سے شہوت کیساتھ دیکھاتو حرمت مصاہرت ہوگی۔ پھر مزید کچھ مولوی رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تو ایک نیا مسئلہ نکالا کہ اگر شہوت کیساتھ ننگا ساس یا بہو، یا بیٹی یا ماں کو دبوچ لیا اور انزال ہوگیا تو پھر حرمت مصاہرت نہیں ہوگی اوراگر خارج نہیں ہوا تو حرمت مصاہرت ہوگی۔ سوشل میڈیا پر بے راہ روی اور جامعہ بنوری ٹاؤن کی ویب پر مسائل کا حل اس بدمعاشی کا نتیجہ ہے۔

fatwa-against-mufti-mahmood-and-fazlur-rehman-will-maulana-raise-banner-of-truth

چلتے پھرتے ہوئے مہتاب دکھائیں گے تمہیں
ہم سے ملنا کبھی پنجاب دکھائیں گے تمہیں
چاند ہر چھت پہ ہے سورج ہر آنگن میں
نیند سے جاگو تو کچھ خواب دکھائیں گے تمہیں
پوچھتے کیا ہو کہ رومال کے پیچھے کیا ہے؟
پھر کسی روز یہ سیلاب دکھائیں گے تمہیں
جھک کے پیار سے سر رکھ دیا جو کاندھے پر
درگاہ بھی مہرباں ہوگئی اپنے راندے پر
حلالہ لعنت ہے دورِ جاہلیت کی بڑی یاد گار
لعنت بھیجو اب کرائے کے سانڈھے پر
حرمت مصاہرت کے نام پر ڈھکوسلہ ہے
قربان جاؤ جاکے اب اپنے چاندے پر
وقت کے جو ظروف ٹوٹ گئے ان کی خیر
رحم کرو زندگی کے لمحات باقی ماندے پر
دین کے لاوزال اور بہترین احکام ہیں
اقتدار دیاں گل بات آندے جاندے پر
روس و امریکہ میں ہم سینڈوچ بن گئے
خدا را اب بوجھ مت لادو اپنے پانڈے پر
مشرقی روایت اور اسلام کا ہے حسین امتزاج
چھڈ دے ہونڑ نہ لکھ اپنی پوندی پاندے پر

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اگست 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

پاکستان کے زوال کا سبب کیا؟، تصاویر سے عکاسی!

عوامی جمہوریہ چین کا قیام سوشلزم نظریہ کے ماوزے تنگ کی قیادت میں یکم اکتوبر1949کو عمل میں آیا۔20سال میں تیز ترین ترقی ہوئی۔ نواز شریف ، عمران خان، بلاول زرداری، مریم ، حسن ،حسین نواز کی طرح لوگ پڑھتے ہیں جنکے پاس دماغ نہیں ہوتااور جنکے پاس دماغ ہوتا ہے تو وہ مزارع، مزدور اور متوسط طبقے کے بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ہم پیچھے رہ گئے اور ترقی نہ کرسکے۔ ملک فوج کی طاقت اور ڈسپلن سے چلے مگر اسکے پاس دماغ نہیں ہے۔

ایوب نے بھٹو کو جنا جو اسلامی سوشلزم کا دھوکہ تھا، ضیاء نے نواز شریف کو جنا جو طاہر القادری کو کندھے پر لیکر غارِ حرا چڑھا ، مشرف نے عمران خان کو جنا جو پورے نظام کو سرپر چڑھا چکا ہے۔ اسلام میں سود ،مزارعت گدھے سے زیادہ حرام تھے۔ جاگیردارانہ وسرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ہوتو آج قوم، ملک ،سلطنت پڑوسی ممالک سے تجارت کے باعث زندہ باد پائندہ باد۔ یزیدی موروثیت نے خلافت کو تباہ کیا اور مولوی کی جانشین یزیدیت نے اسلام ہی کو تباہ کیا۔ اسلام معاشی، معاشرتی ، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر ترقی کا ذریعہ ہے جو اجنبی بن چکا ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اگست 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

یہ جنگ امریکہ چین ، اسٹیبلیشمٹ، پنجاب کس کی؟ لیکن یہ پختوں کی نسل کشی ہے۔ اخونزادہ چٹان

پیپلزپارٹی رہنما اخونزدہ چٹان نے کہا:2021 سے یہ جنگ ہم پہ کیوں مسلط کی گئی ؟۔ کچھ کہتے ہیں کہ یہ امریکہ اور چائنہ سی پیک کی لڑائی ہے، کچھ کہتے ہیں کہ یہ ڈالروں کی ہے، کچھ کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے، کچھ کہتے ہیں کہ پنجاب کا ہاتھ ہے ۔مقاصد جو بھی ہیں۔ ہمیں دو چیزوں کا پتہ ہے سب سے پہلا یہ کہ یہ جنگ اس ریاست کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے مسلط ہوئی ہے۔ دوسرا ہم یہ جانتے ہیں کہ یہ جنگ ہے نہ یہ دہشتگردی، اگر یہ دہشتگردی ہے تو صرف پختونخواہ میں کیوں ہے؟۔ پورے ملک میں کیوں نہیں ؟۔ کچھ کہتے ہیں کہ جنگ تو فریقین کے درمیان ہوتی ہے یوکرین میں لڑائی ہے اس میں یوکرین کے لوگ بھی مرتے ہیں رشیا کے لوگ بھی مرتے ہیں فلسطین میں لڑائی ہے وہاں پہ غزہ کے لوگ بھی شہید ہوتے ہیں لیکن کچھ نہ کچھ اسرائیل کے لوگ بھی مرتے ہیں۔ یہ جنگ نہیں اس کو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ نسل کشی ہے۔ اس جنگ میں جو لوگ مرتے ہیں چاہے وہ فوجی ، مَلک، صحافی اور سیاسی نام سے ۔ ایک چیز اس میں مشترک پختون ہے ۔ بیوہ ، یتیم بچے پختون ہیں۔

ہم ایک چیز اور سمجھ گئے کہ یہ پختون کی جو نسل کشی ہو رہی ہے اس میں مفادات تو کچھ اور لوگوں کے ہو سکتے ہیں کیونکہ ایک باجوڑی کے باجوڑی کے مارنے پر ایک نوشہرہ کے بندے کے نوشہرہ کے بندے کو مارنے پر اس کا کیا مفاد ہو سکتا ہے؟۔ مفاد چائنہ، امریکہ، اسٹیبلشمنٹ اور پنجاب کا جس کا ہمیں نہیں پتہ، شاید ان سب کے مفادات ہوں۔ شاید اس میں کسی کا بھی مفاد نہیں ہو شاید ایک فریق کا مفاد ہو لیکن جتنے لوگ ہمارے مر گئے وہ پختونوں نے مارے ہیں باہر سے کوئی بندہ نہیں آیا۔ اگر باجوڑ کا بندہ شہید ہوا تو اس کو باجوڑ کے بندے نے مارا ۔اگر مہمند کا کوئی بندشہید ہوا تو مہمندکے بندے نے مارا۔ باہر سے کوئی آیا نہیں۔

اب میں حل کی طرف آرہا ہوں ہم سمجھتے ہیں کہ یہ تین کام اگر ہو جائیں جس کیلئے ہم نے 2021سے کوشش کی۔ دھرنے دئیے ، امن پاسون کی، شہادتیں دیں۔ پہلا کام یہ ہے کہ یہ حکومت و ریاست اپنی اندرونی و بیرونی پالیسیوں کو درست کرے۔ جب تک ریاست اپنی اندرونی اور بیرونی پالیسیوں کو درست نہیں کرے گی ہماری خطے میں امن نہیں آ سکتا کیونکہ یہ بدامنی ان کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہے نمبر ایک۔ دوسرا ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ اس دہشتگردی کے خاتمے کیلئے پشاور میں ریاست پورے ملک ہماری تمام قوموں نے ایک پلان نیشنل ایکشن پلان بنایا تھا جس پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوا۔ جب تک نیشنل ایکشن پلان کی تمام شقوں پر مکمل طور پر عمل درآمد نہ ہوگا ہمارے خطے میں امن نہیں آسکتا۔ نمبر تین فاٹا جو مرجر میں سرتاج عزیز کمیٹی کے سفارشات پہ عمل درآمد نہیں ہوگا ہمارے فاٹامیں یہ بدامنی اور دہشتگردی ختم نہیں ہو سکتی ہے۔ جتنی جدوجہد ہم کر سکتے تھے ہم نے کرلی ہم ناکام ہو گئے۔

اب ہم نے ایک فیصلہ کیا ہے کہ ہم کامیاب کیسے ہو سکتے ہیں؟۔ جب تک ہم اپنے منتخب پختونخوا کی اور خصوصا قبائلی علاقوں کے منتخب نمائندوں پہ عوامی پریشر نہیں ڈالیں گے کہ وہ اس کو اپنا مقدمہ نمبر ون سمجھیں۔ابھی تک ہوا یہ کہ سیاسی اتحادی امن کمیٹیاں ہم لوگوں کو اکٹھا کرتی ہیں یہ لوگ آکر تقریر کر کے پھر واپس چلے جاتے ہیں۔ پھر پیچھے نہیں مڑتے ہیں۔ نمبر دو ہمارے گھر میں آگ لگی ہوئی ہے میں نے بتا دیا کہ یہ پورے ملک کی لڑائی نہیں ہے نہ دہشت گردی ہے یہ صرف پختونوں کی لڑائی ہے۔ جب تک ہماری پختون لیڈرشپ پہ ہم عوامی پریشر نہیں ڈالیں گے اس کو نہیں اٹھائیں گے وہ اس کو اپنا مقدمہ نمبرون نہیں سمجھے گاتو امن نہیں آسکتا اور یہ کام ہم نے شروع کیا ہے۔ ہم مطمئن ہیں۔ باچا خان مرکز میں جو جرگہ ہوا تھا اس میں ہماری تمام سیاسی پارٹیوں میں جس میں ہر پارٹی کا صوبائی صدر شامل ہے ان کی ایک کمیٹی بنی ہے۔

آج اجلاس ہے باچا خان مرکز میں، مطالبات کو منوانے کیلئے پختونخواہ کی لیڈرشپ کب جائے گی اسلام آباد میں اور وہاں پر احتجاج کرے گی ریاست کے سامنے پارلیمنٹ کے سامنے کہ ہمارے ان مطالبات کو تسلیم کریں۔ تو ہماری پہلی خواہش یہی ہے پہلا مطالبہ بھی یہی ہے میں یہ نہیں کہتاکہ ہماری پختون لیڈرشپ نے کچھ نہیں کیا۔ سیاسی پارٹیوں نے کچھ نہیں کیا اور پارلیمنٹیرین نے کچھ نہیں کیا لیکن ہر ایک نے علیحدہ علیحدہ کوشش کی اور یہ علیحدہ علیحدہ کوشش سے نہیں ہوگا۔ اگر یہ کرنا ہے تو پختونخواہ کے جتنے پارلیمنٹیرین ہیں کراس دی بورڈ اس کا تعلق جس پارٹی سے بھی ہے وہ MPA، MNA سینیٹر ہیں۔ ایک پیج پہ آنا پڑے گا۔ اگر یہ ہمارے لیے علیحدہ علیحدہ آواز اٹھائیں گے علیحدہ علیحدہ اعلانیہ جاری کریں گے تو مسئلے کا حل نہیں نکلے گا۔ آپ نے دیکھ لیا سینٹ کے الیکشن میں وہ لوگ جو کہہ رہے تھے کہ ہم ہاتھ نہیں ملائیں گے ہم مل کے نہیں بیٹھیں گے ہم مل کے نہیں چلیں گے اپنے مفاد کی خاطر آکربیٹھ گئے کہ نہیں بیٹھے؟۔ تو اگر اپنے مفاد کیلئے آپ لوگ بیٹھ سکتے ہیں تو ہمارے امن کیلئے کیوں نہیں بیٹھ سکتے؟۔ اگر خدانخواستہ آج باچا خان مرکزسے اعلان ہوگا کہ ہم امن مارچ کس تاریخ کو کر رہے ہیں لیکن اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر ہمیں سیاسی پارٹیوں کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم قبائل اپنی خود کمیٹی بنائیں گے اور خود اپنے لئے جدوجہد کریں گے۔ بہت بہت مہربانی۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اگست 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

بیشک جو لوگ اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں اور انبیاء کو بغیر حق کے قتل کرتے ہیں اور قتل کرتے ہیں لوگوں میں سے ان کو جو انصاف کا امر کرتے ہیں تو ان کو بشارت دو المناک عذاب کی۔ آل عمران21

امریکہ کا روس کے خلاف جہاد سے لیکر دہشت گردی کے خلاف ڈبل گیم کھل چکاہے ۔ سلیم صافی نے اِن کیمرہ اجلاس کا بتایا تھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ ”افغان طالبان اور TTPایک سکہ کے دو رُخ ہیں”۔ ایک طرف اشرف غنی کی فورسز کی تنخواہیں بند کیں ، دوسری طرف طالبان کیلئے ڈالروں کی مدد جاری رکھی ، تیسری طرف افغانستان کے فنڈز منجمد کردئیے۔ جرمنی نے لڑکیوں کی تعلیم اورافغانستان میں دہشت گردوں کی موجودگی کے خلاف اقوام متحدہ میں قرارداد پیش کی۔ پاکستان سمیت 116ممالک نے حمایت صرف امریکہ اسرائیل نے مخالفت کی۔ چین، روس، بھارت اور ایران غیر جانبدار تھے۔ امریکہ معدنیات کیلئے خطے کو عدمِ استحکام کا شکار بنانا چاہتاہے۔ پاکستان نے ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل انعام کیلئے نامزدکیا تو پھر امریکہ پاکستان کیخلاف کیوں ؟۔ پاکستان ،بھارت، چین، ایران اور افغانستان کے درمیان صلح اور تجارت کا فروغ ہی امریکہ کی موت ہے۔

امریکہ چاہتا ہے کہ مزاحمت کرنے والی تمام قوتوں کی آبیاری نہیں ہو اور آپس میں لڑ مر کر کمزور ہوجائیں اور اس کے نزدیک افغان طالبان ، پاک فوج، مزاحمتی تحریکیں اور باشعور سیاستدان سب کا خاتمہ ضروری ہے۔ وہ بھارت اور چین کا بھی دشمن ہے اور افغانستان، ایران اور پاکستان کا بھی دشمن ہے۔ اگر اس خطے کے لوگوں نے صرف صلح اور آپس میں آزاد تجارت شروع کردی تو ہم ایران کے تیل و گیس کی بھارت وچین کو سپلائی اور بھارت سے گائے کے گوشت ، دال اور چاول کی افغانستان وایران کو سپلائی سے اپنی عوام اور ریاست کی غربت ختم کرسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا اور طالبان بھی اسلام کے نفاذ کی بات کرتے ہیں۔ وزیرستانی کہتے ہیں کہ ”گدھے کی محبت لات مارناہے”۔ حدیث ہے کہ ”یہ امت بھی سابقہ اقوام کے نقش قدم پر چلے گی”۔ دنیا بہت آگے نکل چکی ہے اور ہم صدیوں پیچھے اقوام کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلام کی نشاة ثانیہ ہورہی ہے اور یہ حقیقت ہے لیکن نشاة اول کیا تھی؟۔ یہی سمجھنا ہوگااور اسلام کی نشاة ثانیہ کیلئے تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء نے ہماری تائید کی تھی جن میں ایک استاذ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر پرنسپل جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی ،صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر مرکزیہ بھی تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے لیٹر پیڈ پر تائیدمیں لکھاکہ ”امام مالک نے فرمایا کہ اس امت کی اصلاح نہیں ہوسکتی مگر جس چیز سے اس کی اصلاح پہلے ہوئی تھی۔ جو لوگ اسلام کی نشاة ثانیہ چاہتے ہیں تو ان کو پہلے تعلیم وتربیت اور پھر اس کے نفاذ کیلئے حکومتی سطح پر تحریک چلانے کی طرف توجہ کرنا چاہیے”۔ استاذ محترم کی تحریر کا لب لباب اور خلاصہ میں نے لکھ دیا ہے ۔

رسول اللہ ۖ کے بعد حضرت ابوبکر و عمر اور عثمان نے دنیا کو شکست دی اسلئے کہ اسلام کا معاشی ، معاشرتی، مذہبی ، علاقائی اور بین الاقوامی نظام اس قابل تھا کہ تمام لوگوں نے اسکو قبول کیا۔ سب سے بنیادی چیز شخصی، مذہبی اور سماجی آزادی تھی۔ لونڈیوں کا لباس موجودہ مغربی دنیا کی خواتین سے بھی زیادہ ننگ تڑنگ والا اور انتہائی بیہودہ تھا۔ قرآن و حدیث اور اسلام وفقہ کا کہیں یہ حکم نہیں تھا کہ جبری پردہ دار لباس پہناؤ۔

مؤمنین اور مؤمنات کو غضِ بصر کا حکم ہے۔جس کا معنی یہ ہے کہ جس طرح بجلی تیز اور مدھم ہوتی ہے۔ تیز روشنی دوسرے پر سخت پڑتی ہے اور مدھم کی نرم پڑتی ہے۔ راتوں کو گاڑیاں چلتی ہیں تو سامنے والی گاڑی کی وجہ سے لائٹ ڈِ م کی جاتی ہے تو اس ٹریفک کے اصول کی طرح چودہ سو سال پہلے قرآن نے عورتوں اور مردوں کو یہ حکم دیاتھا۔

معاذ خان لکھا پڑھا نوجوان ہے جو Voices&Visions یوٹیوب چینل پر فاطمہ شہزاد سے انٹرویو لے رہا ہے اور موضوع بحث لبرل ازم اور سوشلزم کی مزاحمتی سیاست ہے۔ معاذ خان اپنی فطرت کی بنیاد پر اپنی آنکھوں سے جس شرافت کا مظاہرہ کرتا ہے تو اس سے قرآن کی تعلیمات جھلک رہی ہیں۔حنفی مسلک میں اگر عورت پر شہوت کی نگاہ پڑگئی تو نیت نہ ہونے کے باوجود بھی طلاق سے رجوع ہوجائیگااور شافعی مسلک میں نیت نہ ہو تو جماع سے بھی نہیں ہوگا۔ فقہاء نے دین اسلام کو اسلئے اجنبیت اور منکرات کی طرف دھکیل دیا ہے کہ قرآن میں اللہ نے طلاق سے رجوع کیلئے صلح اور معروف کی شرط کو واضح کیا ہے اور انہوں نے قرآن کے واضح احکام کو پس پشت ڈال کر معروف کو منکر بنادیا ۔

مولانا فضل الرحمن کے کندھے پر مریم نواز نے بہت پیار سے اپنا سر رکھ دیا اور بینظیر بھٹو بھی مولانا سے مانوس تھیں۔ اگر مولانا نے کسی کو ہراساں کیا ہوتا تو فاصلہ بڑھ جاتا ۔ اقبال نے”ایک آرزو” میں کہاکہ

مانوس اس قدر ہو صورت سے میری بلبل
ننھے سے دل میں اس کے کھٹکا نہ کچھ مرا ہو

نظروں میں شہوت اور عدم شہوت کیا ہے؟۔ انسان کو اس کا فطری مطلب معلوم ہے۔ پاکستان کی سیاحت سے غیرملکی اسلئے رک گئے کہ ان کی خواتین کو احساس ہوتا ہے کہ شہوت کی نظروں تاڑا جاتا ہے۔ یہی شہوت کااحساس جب خانہ کعبہ میں عورتوں اور مردوں میں نہیں ہوتا تو حجرِ اسود چومتے وقت اچھے بھلے مسلمان بھی ایک دوسرے سے اجنبی مرد اور عورتوں کے باوجود ہڈی پسلی اتنی ایک کرلیتی ہیں کہ جتنا میاں بیوی کے درمیان بھی ایکدوسرے سے الحاق ممکن نہیں ہوسکتا ہے۔

دنیا میںایک کمیونزم و سوشلزم ہے ،دوسرا کیپٹل ازم وسیکولر ازم ہے اور تیسرا اسلام ہے۔ اسلام دین ہے اور قرآن کا اعلان ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔ شاہ ولی اللہ نے لکھا کہ رسول اللہۖ کا دوراور حضرت ابوبکر و عمر کا دور اور حضرت عثمان کا دور خیرالقرون ہیں اور حضرت علی کے دور میں فتنے شروع ہوگئے اسلئے اس پر خیرالقرون کا اطلاق نہیں ہوسکتا ہے۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھا کہ رسول اللہۖ اور حضرت ابوبکر کا دور ایک تھا اسلئے کہ اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ حضرت عمر کے دور میں مالیاتی طبقاتی تقسیم کی بنیاد رکھ دی گئی اسلئے یہ دوسرا دور تھا ، حضرت عثمان کے دور میں خاندانی نظام کی بنیاد پڑی اسلئے خیرالقرون کا تیسرا دور تھا اور حضرت علی کے دور میں فتنوں کا آغاز ہوگیا اسلئے وہ شامل نہیں لیکن شاہ ولی اللہ نے حضرت علی کے دشمنوں کو مایوس کیا اسلئے کہ ان کے دور کو قیامت تک فتنوں میں رہنمائی کیلئے بہترین بنیاد قرار دیا ہے۔

شاہ ولی اللہ نے لکھا کہ قرآن میں خلافت کا وعدہ جمع کیساتھ ہے۔ عربی میں کم ازکم تین پر جمع کا اطلاق ہوتا ہے اور مسلمانوں کیساتھ اللہ نے وعدہ پورا کیا اور تین خلفاء کو خلافت کی دولت عظیمہ سے نواز دیا۔

شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے لکھا کہ خیرالقرون کا صحابہ کرام ، تابعین اور تبع تابعین کے تین ادوار پہلی صدی ہجری، پھر دوسری صدی ہجری اور پھر تیسری صدی ہجری پر اطلاق ہوتا ہے۔ اور چوتھی صدی ہجری اس میں شامل نہیں اور تقلید کو چوتھی صدی ہجری میں ضروری قرار دیا گیا ہے اسلئے تین سو سال تک جو چیز بھی رائج ہوئی ہے وہ دین ہے لیکن اسکے بعد ہر چیز بدعت ہے۔ بدعت کی حقیقت ۔ جس کی تائید میں علامہ یوسف بنوری نے تقریظ بھی لکھ دی ہے۔

شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے تقلید کی شرعی حیثیت میں ائمہ مجتہدین کے بعد وہ حدیث نقل کی ہے جس میں علماء کے اٹھ جانے کی خبر ہے اور لوگ جاہلوں کو پیشوا بنالیںگے ۔ ان سے فتویٰ پوچھیںگے اور وہ جانے بوجھے بغیر جواب دیںگے اور خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریںگے۔ متفق علیہ عصر حاضر حدیث نبویۖ کے آئینہ میں۔

علامہ اقبال کی طرف شعر منسوب ہے جو شاید کسی اور کا ہے کہ
توحید ہستی ہم ہیں محافظ خدا ہمارا
ہم کافروں کے کافر کافر خدا ہمارا

جس میں ترمیم کی ضرورت ہے کہ
توحید ہستی ہم ہیں محافظ خدا ہمارا
ہم جاہلوں کے جاہل جاہل رہنما ہمارا

غسل ، وضو اور نماز کے فرائض اور ان میں اختلافات کا پتا قرآن و سنت ، خلفاء راشدین، صحابہ کرام، تابعین ، مدینہ کے سات فقہاء قاسم بن محمد بن ابی بکر ، عروہ بن عبداللہ بن زبیر ……وغیرہ جنکے بارے میں مولانا انورشاہ کشمیری نے لکھا ہے کہ ” اگر انکے نام لکھ کر پانی میں ڈالے جائیں اور اس کا چھڑکاؤ کیا جائے تو چھت لکڑی کو دیمک نہ لگے گی”۔ سلیمان کے دور میں یہ نعمت میسر نہیں تھی ورنہ اپنی عصا پر چھڑکتے۔

شاہ ولی اللہ کے بیٹے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے عذاب قبر کے انکار کی بنیاد رکھ دی۔ شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے پہلی صدی ہجری کو رسول اللہۖ کا دور قرار دیا، دوسری صدی ہجری کو صحابہ کرام اور تیسری صدی ہجری کو تابعین کا دور قرار دیا۔ جس میں فقہ و حدیث کی بنیادرکھ دی گئی اور چوتھی صدی ہجری میں تقلید کو بدعت قرار دیا تھا۔ ان کی کتاب کا اردو ترجمہ ”بدعت کی حقیقت” پرحضرت علامہ محمدیوسف بنوری نے تقریظ بھی لکھی ہے جس میں ان کی ایک دوسری کتاب ”منصب امامت” کی تائید بھی کی ہے۔ سیداحمد بریلوی کے خلیفہ اجل میاں نور محمد جھنجھالوی سے حاجی امداداللہ مہاجر مکی بیعت ہوئے۔ اور اکابر دیوبندمولانا قاسم نانوتوی، مولانا رشیداحمد گنگوہی اور مولانا اشرف علی تھانوی ان کے مرید اور خلفاء عظام تھے۔

ہمارے مرشد حاجی محمد عثمان نے تبلیغی جماعت میں بہت وقت لگایا تھا اور سلسلہ قادریہ کے شیخ بھی تھے۔ مولانا فقیر محمد خلیفہ مولانا اشرف علی تھانوی ان کی مجالس میں بیٹھتے تھے اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی طرح سمجھتے تھے۔ حالانکہ کہاں حضرت حاجی محمد عثمان اور کہاں حاجی امداد اللہ؟ بہت فرق تھا۔ حاجی امداداللہ مہاجرمکی پر حکایات رومی کی وجہ سے کیفیت طاری ہوجاتی تھی اور حاجی محمد عثمان نے قرآن وسنت کو اہمیت دی تھی۔ البتہ دونوں عالم دین نہیں تھے اور امام غزالی جیسے علماء بھی صوفی بن گئے تو اصول فقہ اور فقہ کے علوم کو بدترین گمراہی سے تعبیر کیا تھا اور دوسروں کی ہدایت کیلئے بھی ”المنقذ من ضلال ” کتاب لکھ دی ۔جس کا ترجمہ ”گمراہی کے اندھیرے سے ہدایت کی روشنی ” کے نام سے کیا گیاہے۔

تبلیغی جماعت اور علماء کا اختلاف

تبلیغی جماعت والے اپنے کام کو فرض اسلئے سمجھتے ہیں کہ امت اپنی روز مرہ کی زندگی میں بھی غسل، وضو، نماز کے فرائض سے آگاہ نہیں اور جب غسل کے فرائض کا پتہ نہیں ہوگا تو نماز اور قرآن کوہاتھ سے چھونے کا معاملہ بھی خطرناک ہوگا اسلئے کہ جنابت سے طہارت ضروری ہے۔ اس طرح بغیر وضو کے نماز نہیں ہوتی اور قرآن کو ہاتھ نہیں لگایا جاسکتا تو پھر وضو کے فرائض بھی ضروری ہیں اور نماز کے فرائض بھی ضروری ہیں۔

علماء کرام کہتے ہیں کہ غسل ، وضو اور نماز کے فرائض ضروری ہیں مگر لوگوں کا فرض بنتا ہے کہ علماء سے فرائض ، واجبات اور سنن اور مستحبات سیکھ لیں۔ لوگوں کے پیچھے گھومنے میں علماء کرام کی بے توقیری ہے۔

اب پہلا سوال یہ ہے کہ غسل، وضو اور نماز کے فرائض نبیۖ نے صحابہ کرام یا خلفاء راشدین و صحابہ نے تابعین کو سکھائے تھے؟۔ مدینہ کے مشہور سات فقہاء کو ان فرائض کا پتہ تھا؟ ۔ تو جواب نفی میں ہے۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب رسول اللہۖ، صحابہ کراماورتابعیننے یہ فرائض نہیں سیکھے اور ان کی نماز ہوجاتی تھی تو پھر یہ کیوں ضروری ہیں؟۔

جب غسل، وضو اور نماز کے فرائض اور واجبات کو حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی مسالک میں الگ الگ تقسیم کیا جائے اور سب کے فرائض ایک دوسرے سے مختلف ہوں اور اس وجہ سے تقلید بھی فرض بن گئی ہو تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟۔ جس کا جواب یہ ہے کہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز بھی نہیں ہوگی اور اسلئے حرم کعبہ میں چار اماموں کے چار جائے نماز تھے اور مسجد نبوی ۖ میں تو محراب تک بھی الگ الگ بنائے گئے تھے۔

محراب نبویۖ سے الگ محراب حنفی بھی بنایا گیا تھا۔ علامہ ابن تیمیہ نے چار مسالک کو چار الگ الگ فرقے قرار دیا لیکن ان کو ختم نہیں کیا بلکہ پانچواں مذہب بھی ایجاد کیا جیسے اہل حدیث کا اپنا مسلک ہے۔

مسلک اور نصاب فتویٰ لگانے اور حکومتی جبر سے ختم نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کیلئے ایسی دلیل کی ضرورت ہے جس کی حقانیت سے باطل اپنی موت آپ مرجائے۔ اصول فقہ میں پہلا اصول قرآن، دوسرا حدیث، تیسرا اجماع اور چوتھا قیاس ہے۔ جس کا مطلب ایسا اجتہاد ہے جس کو قرآن، حدیث اور اجماع سے استنباط کرکے اخذ کرلیا جائے۔

مجتہدین کے سات طبقات ہیں۔

1: پہلا طبقہ مختلف مسالک کے ائمہ حضرات کا ہے۔ جن کو مجتہد مطلق کہا جاتا ہے۔
2: دوسرا طبقہ ان کے بہت مشہور شاگردوں کا ہے جن کو مجتہد فی المذہب کا درجہ حاصل ہے۔
3:تیسرا طبقہ مجتہد فی المسائل کا ہے جو ائمہ اور ان کے شاگردوں کی تقلید کے پابند ہیں لیکن کچھ مسائل میں اجتہاد کرسکتے ہیں۔
4: چوتھا طبقہ اصحاب تخریج کا ہے۔ جو مجتہدین کے اجہتادات سے مسائل نکال سکتے ہیں۔
5: پانچواں طبقہ اصحاب ترجیح کا ہے جو اختلافی مسائل میں ایک قول کو ترجیح دے سکتے ہیں کہ یہ صحیح اور یہ غلط ہے۔
6: چھٹا طبقہ اصحاب تمیز کاہے جو کسی کے اولیٰ یعنی بہتر اور غیراولیٰ نامناسب کی صلاحیت ہی رکھتے ہیں۔
7: ساتواں طبقہ مقلدین محض کا ہے جن کا کام دوسروں کی صرف تقلید کرنا ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں۔

علماء دیوبند وعلماء بریلوی مقلد محض

شاہ اسماعیل شہید کی کتاب ”بدعت کی حقیقت” سے متاثر ہوکر کچھ علماء نے تقلید محض سے انحراف کیا ۔ علامہ عبدالحی لکھنوی نے روایت کی بنیاد پر اکٹھی تین طلاق کو ایک قرار دیا جس کو مولانا رشیداحمد گنگوہی نے فتاویٰ رشیدیہ میں نقل کیا اور پھر حنفی فتویٰ بھی نقل کیا ہے کہ اکٹھی 3طلاق واقع ہوجاتی ہیں۔ تاکہ دونوں طرح کی راہیں کھل جائیں۔ علامہ ابن تیمیہ نے بھی ایک طلاق قرار دی اور ان سے گنگوہی متأثربھی تھے۔

پھر جب علماء دیوبند نے قرآن وسنت سے اپنا لگاؤ بڑھایا اور تقلید کو بدعت قرار دینے کی طرف رحجان بن گیا تو مولانا احمد رضا خان بریلوی نے حرمین شریفین کے علماء سے ان کے خلاف مختلف عبارات نقل کرکے فتویٰ لیا جس کو ” حسام الحرمین ” کا نام دے دیا۔ پھر علماء دیوبند نے اپنی کتاب ” المہند علی المفند” میں اس کی تردید کردی اور خود کو مسلکاً حنفی اور مشرباً چشتی بتایا اور علامہ ابن تیمیہ کی گمراہی کے فتوے جاری کئے۔ اور محمد بن عبدالوہاب نجدی سے مکمل طور پر اپنی برأت کا اعلان کردیا۔

پھر اس کے کچھ عرصہ بعد حجاز میں وہابیوں کی حکومت آگئی اور علامہ ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوہاب کے عقائد پر دوبار ہ ایمان لایا تھا۔ ایک قندھاری افغانی عالم مولانا احمد رضا خان بریلوی نے اکابرعلماء دیوبند کی شکست میں نہ صرف زبردست کردار ادا کیا بلکہ تذبذب کی ایسی کیفیت سے دوچار ہوگئے جیسے آج پختونخواہ اور پنجاب کے ہر نکڑ پر کتوں کے پلوں کی طرح ایک دوسرے پر کفر کا فتویٰ لگاتے نظر آتے ہیں۔

مقلد محض مولانا احمد رضا خان بریلوی نے فتاوی شامی میں بہت ہی بڑی گستاخانہ عبارت جس میں ”علاج کیلئے سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے اگر یقین ہو کہ علاج ہوجائے گا”کی تأولیل لکھ دی ہے کہ ”چونکہ وحی کے بغیر علاج کا یقین نہیں ہوسکتا ہے اسلئے سورہ فاتحہ کو پیشاب لکھنا جائز نہیں قرار دیا ہے”۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ بچپن میں مولانا احمد رضا خان بریلوی نے لمبی قمیص پہنی تھی اور شلوار نہیں پہنی تھی تو سامنے سے عورتوں کو آتے ہوئے دیکھا جنہوں نے اس کو بچہ سمجھ کر اپنا چہرہ نہیں چھپایا۔ مولانا احمد رضا خان نے اپنی قمیص کے دامن سے اپنا چہرہ چھپایا تو نیچے اواز دکھنے لگے جس پر عورتیں مسکرائیں۔

مفتی تقی عثمانی نے علامہ شامی سے نقل کرکے لکھ دیاکہ ” میں نے امام ابویوسف کی کتابیں چھان ماریں مگر کہیں بھی علاج کیلئے یقین کی شرط نظر نہیں آئی”۔ یہ مولوی حضرات کچھ بھی لکھتے ہوئے دوسروں سے استفادہ بھی کرتے ہیں اور جہاں موقع ملتا ہے تو ان کی تردید کرتے ہیں اسلئے مولانا احمد رضا خان اور مفتی تقی عثمانی کا معاملہ مختلف لکھا گیا ہے۔

شروع میں علماء دیوبند اور علماء بریلوی نے لاؤڈاسپیکرپر نماز،آذان اور اقامت کو ناجائز قرار دے دیا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مقلد محض کا یہ مقام نہیں تھا تو ایسی بکواس کی آخر کیا ضرورت تھی جس کی وجہ سے مدتوں تبلیغی جماعت اور پھر مدتوں بعد دعوت اسلامی بھٹک رہی تھی؟ ۔

نماز کے 14فرائض کا شیشہ ٹوٹا؟

ہمیں کانیگرم جنوبی وزیرستان کے سکول میں بھی نماز کے فرائض یاد کرائے گئے تھے ۔ آخری فرض 14: اپنے ارادہ سے نماز سے نکلنا۔

جب بنوری ٹاؤن کراچی میں داخلہ لیا تو مفتی عبدالسمیع سے بحث ہوئی۔ قرآن لکھائی کی شکل میں اللہ کا کلام ہے یا نہیں؟۔ جس پر وہ اپنی بحث ہار گئے اور طلبہ نے مجھے علامہ تفتازائی کے لقب سے مشہور کردیا۔

پھر جب میں نے مختلف مواقع پر مختلف سوالات اٹھائے تو ایک یہ بھی تھا کہ اپنے ارادے  کیساتھ نماز سے نکلنا فرض ہے بھلے ریح خارج کی جائے اور سلام سے نکلنا واجب ہے۔ تو واجب کیلئے سجدہ سہو ہے اور وضو کے بغیرسجدہ سہو نہیں ہوسکتا۔ پھر ایسے فرض کی ضرورت کیوں پیش آئی؟۔

جب بڑے اساتذہ مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن تک جواب دینے سے قاصر ہوتے تھے تو طلبہ نے کہا کہ ہمارا وقت ضائع ہوتا ہے۔ استاذ قاری مفتاح اللہ صاحب مدظلہ العالی نے فرمایا کہ ” عتیق کو ایک عام طالب علم مت سمجھو ۔ جس طرح امام ابوحنیفہ اور امام مالک بڑے درجہ کے امام تھے اس طرح یہ بھی ایک امام ہیں”۔اور مجھ سے فرمایا کہ ”آپ محنت جاری رکھو اورنصاب کی غلطیوں کو خود ٹھیک کرلوگے”۔

قاری مفتاح اللہ صاحب قلندر ہیں۔ قلندر ہر چہ گوئید دیدہ گوئید۔

احناف نے یہ فرض ایک روایت سے لیا ہے کہ ” جس نے نماز کے آخری قاعدہ میں ریح خارج کردی تو اس کی نماز مکمل ہوگئی”۔

میں نے اس پر متعدد مرتبہ لکھا کہ ”ریح کا خارج ہونا یا ریخ کا خارج کرنا ” زبان اور لہجے میں فرق ہے لیکن اس سے حقیقی فعل فاعل مراد نہیں ہیں۔ جیسے فلاں شخص کا انتقال ہوگیا یا انتقال کرگیا زبان ، لہجے اور الفاظ کا فرق ہے۔ مرنے والا جب مرتا ہے تو لفظ کی حد تک مرگیا یا دنیا چھوڑ گیا لیکن حقیقت میں دونوں ایک ہیں۔ میری اس کاوش کا نتیجہ یہ نکل گیا ہے کہ رائیونڈ والوں نے اپنی ویپ سائٹ پر نماز کا 14فرض نہیں لکھا۔

جب علماء نے کھلے الفاظ میں لاؤڈ اسپیکر پر نماز کا کہا کہ نہیں ہوتی تو عمل کرنے والوں نے عمل شروع کردیا لیکن پھر علماء نے کھلے عام اپنی غلطی تسلیم کرنے کے بجائے بات اولیٰ اور غیراولیٰ پر ڈال دی۔ لوگوں کو یہ تأثر دیا کہ علماء جو بات کہیں وہ مانو اور جوعمل کریں وہ نہیں کریں۔

تزکیہ بھی ایک اہم شعبہ ہے۔ علماء ومفتیان اپنی تزکیہ کیلئے کسی اللہ والے سے بیعت کرلیتے تھے۔ غسل اور وضو کے فرائض اوراختلافات بھی بالکل لایعنی اور فضو ل ہیں۔ جن پر کئی مرتبہ وضاحت کی ہے لیکن جب قرآن کی تعریف میں ڈنڈی ماری گئی ہے تو کس چیز پر اتفاق ہوسکتا ہے؟۔علماء کرام اپنے نصاب کی تبدیلی میں وقت ضائع نہیں کریں۔

تسخیرکائنات اور قرآن وحدیث

قرآن میں تسخیر کائنات اور نفع بخش چیزوں کی بقاء کو واضح کیا گیا۔ رسول اللہۖ نے فرمایا :”علم حاصل کرو، خواہ تمہیں چین جانا پڑے”۔

ایک طرف قرآن و سنت کے احکام کی غلط تعبیرات، تاؤیلات اور تسخیرات سے نصاب کا ایسا ملیدہ بنادیا ہے جس کو علماء ومفتیان خود بھی کارآمد نہیں سمجھتے ہیں لیکن وقت ضائع کرنے اور پیسہ بٹورنے کا ذریعہ ہے۔ جس دن مدارس کو پیسہ بند ہوجائے گا تو کوئی بھی فضولیات میں اپنا وقت ضائع نہیں کرے گا۔ شیخ الہند اور مولانا انور شاہ کشمیری نے آخری وقت میں اس سراب سے علماء کی جان چھڑانے کی ناکام کوشش کی تھی۔

اگر قرآن و سنت کے معاشرتی اور معاشی نظام کو امت مسلمہ اور دنیا کے سامنے پیش کیا جائے تو اس کیلئے کسی مزاحمتی تحریک کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔ ملک کا جوا شرافیہ حرمت مصاہرت اور حلالہ کی مصیبت بڑی پیچیدگی سے برداشت کرتا ہے اور عوام اس بدبودار تحریف سے پہلو تہی برت رہی ہے لیکن اگر ان کو قرآن وسنت کی حقیقی تعلیم سے آگاہ کیا گیا تو مسلمان اور کافر سب کے سب انسان اسلام کے ذریعے سے ایک اچھے نظام کی طرف مسخر ہوجائیںگے۔ قرآن وسنت نے جس جہالت سے عرب اور پوری دنیا کو نکالا ہے علماء اپنی غلط تشریحات کے ذریعے امت مسلمہ کو دنیا بھر میں پھر گمراہ کررہے ہیں۔ سراج الحق تقریر کرتا تھا کہ سود کا گناہ اپنی ماں سے خانہ کعبہ میں36مرتبہ زنا کے برابر ہے مگر جیسے کسی گدھے کو دیگ میں پکاکر اسکا نام اسلامی ٹٹو رکھا جائے اور گدھے کی لید اور پیشاب بھی اس میں شامل کیا جائے ویسے اسلامی بینک کا فراڈ ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اگست 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv