Author: zarbehaq
پاکستانی امام مسجد کی پادری پوتی کا کینیڈا میں انٹرویو : بہت ہی جاندار تجزیہ کیساتھ
پاکستانی مسجد امام کی عیسائی پوتی: پاکستان مسلم ملک ہے جس کی آبادی دو سو ملین سے زیادہ ہے، جہاں 1.2فیصد مسیحی ہیں۔ان کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے، اکثر اوقات انہیں وہ مواقع نہیں ملتے جو اکثریت کو حاصل ہیں۔ میرا دادا ایک مسلمان امام تھا، مذہبی پیشوا۔ پھر خدا نے بہت چھوٹی عمر میں انکے دل میں تبدیلی پیدا کر دی، وہ مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان مناظرے کرتے تھے اور مسیحیوں کو اسلام قبول کرانے کی کوشش کرتے۔ خدا نے انکے دل میں بیج بویا،اسکے بعد وہ پادری بن گئے پھر سیاست میں بھی آئے۔یوں دونوں صلاحیتوں کو ساتھ رکھا، بہت لوگوں کو مسیحیت کی طرف لائے۔
میزبان: واقعی غیر معمولی ورثہ آپ کو ملا ہے۔ آج کے دور میں اسلام سے مسیحیت اختیار کرنا بہت دشوار ہے، بعض جگہوں پر اسے موت کی سزا کے قابل جرم سمجھا جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ کے دادا کے وقت میں یہ اور بھی خطرناک ہوگا۔
مسجد امام کی پوتی: جی ہاں!
سوال: اس فیصلے نے آپ کے والد پر اثر ڈالا۔ آپ کے والدین کی خدماتِ کلیسا میں تھیں۔ اس بارے میں بتائیں۔
جواب: میں تیسری نسل کی مسیحی ہوں۔ میرے دادا بہت کم عمر میں انتقال کر گئے، وہ45 کے لگ بھگ تھے۔ پھر میرے والد نے اس وراثت کو سنبھالا۔ اس نے کم عمری کی زندگی میں یسوع کو قبول کیا اور جان لیا کہ انہیں پادری بننا ہے۔ اس نے بائبل کو سیکھا اور اٹھارہ برس کی عمر میں اپنی پہلی کتاب لکھی، جو آج پاکستان کی جامعات اور اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہے۔ یعنی بہت جلد اپنی صلاحیت پہچان لی اور یہ بھی جان لیا کہ اپنے والد کی چھوڑی ہوئی میراث کو آگے بڑھانا ہے۔ پھر امی اور ابو کی شادی ہوئی اور وہ لاہور منتقل ہو گئے، جو پاکستان کے بڑے شہروں میں سے ایک ہے اور وہیں سے انہوں نے اپنی خدمت کا آغاز کیا۔ پاکستان میں واقعی بہت سا جبر اور ایذا رسانی ہے، اسلئے میرے دادا اور والد کا یہ قدم بڑا جری اور بے خوف تھا کہ انہوں نے مسیح کا پیچھا کیا اور وہی بنے جو خدا نے انہیں بنایا تھا۔
سوال: کیا انہوں نے اس راہ کی کوئی خاص قیمت ادا کی ہے، یا زیادہ تر سماجی ردعمل اور دبا کی نوعیت کی بات تھی؟۔
جواب: سماجی ردعمل بہت زیادہ تھا، میرے دادا کیساتھ تو یہ ہوا کہ ان کا اپنا گھرانہ انہیں چھوڑ گیا، ان کے والد نے انہیں قبول نہ کیا، لہٰذا انہیں الگ رہنا پڑا، انہیں اپنے ہی خاندان نے عاق کر دیا۔ میرے والد کے معاملے میں چونکہ پورا قریبی خاندان مسیحی تھا، اسلئے خاندان میں ایسی اذیت نہیں ملی، لیکن معاشرے کی طرف سے بہت اذیت تھی، خاص طور پر جب ہم کھلے عام اپنے اجتماعات کرتے، تو لوگ، سیاست دان، حتی کہ ہمارے کچھ قریبی لوگ بھی ہمارے خلاف ہو جاتے۔
سوال: پاکستان میں اکثر سننے میں آتا ہے کہ لوگوں پر مذہب تبدیل کرنے کیخلاف قوانین کے تحت مقدمے بنا دیے جاتے ہیں، یا انہیں آگ لگا کر مار دیا جاتا ہے، افواہیں اڑتی ہیں اور پھر ہجوم قتل کر دیتا ہے۔ اس طرح کے خطرات دیکھ کر بھی آپ کے دل میں یہ بات جاگی کہ ضرور یسوع میں کچھ ایسا ہے جس کیلئے لوگ جان تک کا خطرہ مول لے لیتے ہیں۔
جواب: سب سے پہلے تو میں اپنے والدین کی وہ جرأت دیکھتی تھی کہ ہر اتوار کو، یہ جانتے ہوئے بھی کہ کلیسا کے باہر فائرنگ ہو سکتی ہے، ایذا رسانی ہو سکتی ہے، لوگ انہیں نشانہ بنا سکتے ہیں، پھر بھی بغیر کسی رکاوٹ کے اتوار کی عبادت کرتے۔ وہ ہمیں ہر اتوار صبح تیار کرتے اور کہتے کہ ہم کلیسا جائیں گے اور خدا کیلئے اپنی زندگیاں پیش کریں گے، چاہے کچھ بھی ہو۔ یہی بات میرے دل میں بیج بن کر پڑ گئی کہ میں اپنے ایمان سے کبھی پیچھے نہیں ہٹوں گی۔ پاکستانی مسیحیوں کا وہ جوش بھی میں نے دیکھا کہ وہ ہر قیمت دینے کو تیار ہیں۔ میرے والد ایک واقعہ سنایا کرتے ہیں کہ ایک خاتون دلہن کے لباس میں کلیسا آئیں اور کہا کہ اگر ابھی میری موت بھی ہو جائے تو میں یسوع، اپنے دولہا، کے پاس سیدھی جاؤں گی۔ ایسی باتوں نے مجھے اور میرے بہن بھائیوں کو گہرائی سے چھوا اور ہم نے ٹھان لیا کہ اگر یہ لوگ ایسا کر سکتے ہیں تو ہم بھی کر سکتے ہیں۔
سوال: آپ تیسری نسل کی مسیحی ہو کر پروان چڑھیں۔ گھر پر خدمتِ کلیسا کا ماحول تھا، پادری آپ کے ہاں ٹھہرتے تھے، آپ سب کچھ دیکھتی تھیں، مگر آپ کے دل میں کہیں نہ کہیں وہ بات پوری طرح نہیں اتر رہی تھی، جیسا کہ شاید آپ کے والدین چاہتے تھے۔ آپ کے اندر کیا چل رہا تھا؟
جواب: جب میرے والدین پاکستان میں اپنا کلیسا تعمیر کر رہے تھے جو تیزی سے بڑھتی ہوئی کلیساؤں میں سے ایک تھا۔ اب کلیسا کے30 ہزار ارکان اور 47 شاخیں ہیں۔ خدا Church of Pentecost کو بہت برکت دے رہا ہے۔ مگر اسی ماحول میں بہت اذیت تھی، لوگ آپ کے خاندان کو نشانہ بناتے ہیں۔ والدین نے ہمیں تحفظ کیلئے ایک طرح کے حجاب میں بہت محفوظ رکھا۔ اس سب کے درمیان میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ میں انکے پیشے کو اختیار نہیں کرنا چاہتی۔ اس وقت میرے لیے یہ بس پیشہ تھا۔ میں ایسی زندگی چاہتی تھی جس میں آزادی ہو، جو میں چاہوں وہ کر سکوں، چار دیواری میں مقید نہ رہوں، اسکول جاؤں تو سکیورٹی گارڈز کے ساتھ نہ جانا پڑے، اور یہ خوف نہ ہو کہ شاید واپس نہ آ سکوں۔ یہی باتیں ایک عرصہ تک مجھے دور دھکیلتی رہیں۔
سوال: آپ 2018میں کینیڈا آئیں۔ کلیسا جوائن کیا مگر بزنس اسکول میں داخلہ لیا، CEOبننے کیلئے آپ کے کلیسا نے انٹرن شپ کی پیشکش کی۔ اس کا بتائیں۔
جواب: یہ ہمارا مقامی کلیسا Lake Mount Worship Center ہے جو Grimsby میں ہے۔ میں کینیڈا آئی تو گریڈ 12تھا، یونیورسٹی دیکھ رہی تھی۔ میں کاروباری تعلیم چاہتی تھی اسلئے میں نے Toronto Metropolitan منتخب کیا تاکہ اچھی تعلیم لے سکوں، صحیح لوگوں سے جڑ سکوں اورتعلیم کے بعد اپنا بزنس شروع کروں۔ پھر COVIDآگیا، اور مجھے وہاں منتقل ہونے کا موقع نہ ملا، تمام کلاسیں آن لائن ہو گئیں۔ اس دوران والدین نے دیکھا کہ ہم نئے ملک میں تنہا ہو گئے ، کوئی کمیونٹی نہیں بنی، کمرے میں اسکرین کے سامنے رہتے ہیں۔ پھر میرے والد کی Lake Mount Worship Center سے شراکت شروع ہوئی۔ لیڈ پادری Pastor Matt Tapley ہیں ، انہوں نے والد کو انٹرن شپ پروگرام کے بارے میں بتایا۔ یہ گہرا discipleship پروگرام ہے، کردار سازی اور discipleship کیساتھ بائبل اسکول کورسز شامل ہیں، میں نے سمجھا کہ یہ paid internship ہوگی اور میں کما بھی لوں گی، یعنی سی ای او والے کیریئر کی سمت قدم ہوگا۔ مگر جب میں نے انٹرن شپ لیڈر Pastor Lisa سے باتیں کیں تو معلوم ہوا کہ آپ اپنا وقت اور خدمت کلیسا کو دیتے ہیں۔ میں نے والدین کی اطاعت میں اسے شروع کیا۔ ایک ہفتہ، پھر دوسرا ہفتہ، بہت overwhelming تھا، مگر اسی بے آرامی کے بیچ خدا نے میرادل بدل دیا اور میں نے جان لیا کہ مجھے یہی کرنا ہے۔ یہ تبدیلی بتدریج آئی۔ میں خود کو ضدی کہتی ہوں، اب اسے عزم کہتی ہوں، مگر اس وقت وہ ضد مجھے سب سے دور دھکیل رہی تھی۔ اس کے باوجود میں والدین کی عزت کرتی رہی اور خدا کی مرضی کا احترام کیا۔
سوال: تو بتائیں دل میں کیا تبدیلی آئی، آپ کی سوچ کیوں بدلی، کیا چیز بدل رہی تھی؟۔
جواب: ان لمحات میں مجھے ایک طرح کی تنہائی ملی جس میں میں نے جانا کہ مسیحیت یا خدا سے وفاداری کوئی ایسی بات نہیں جو مجھے صرف اسلئے کرنی ہے کہ میرے والدین اسکے پیرو ہیں۔ اسلئے مسیحی نہیں ہونا کہ والدین مسیحی ہیں، نہ اسلئے پادری بننا ہے کہ والدین پادری ہیں۔ یہ ایمان کی تلاش کا سفر تھا۔ میں چیزیں خود دریافت کرنا پسند کرتی ہوں، سو میں نے کہا کہ میں خود سمجھوں۔ جب خود سمجھنے نکلی تو خدا نے نہایت خوبصورتی سے میرا دل نرم کر دیا۔ میں نے اپنی ضد چھوڑ دی اور اسے اختیار دے دیا کہ وہ میری زندگی میں جو چاہے کرے۔ میں مزاحمت کر رہی تھی، دل میں بڑی دیواریں تھیں، مگر خدا خدا ہے، وہ اپنا راستہ بنانا جانتا ہے، سو اس نے سب کچھ بدل دیا۔
سوال آپ اسکوurrendered obedience کہتی ہیں۔ یہ ایک بار ہونے والی بات نہیں ہوتی، ہے نا؟۔
جواب: ہرگز نہیں۔ خدا کے آگے سر جھکا دینا یہ ہے کہ اپنی خواہشات چھوڑ دوں، CEO بننے، بہت پیسہ کمانے ،5 سالہ منصوبے کا خواب چھوڑ دوں، کیونکہ وہ سب زورِ بازو اور مرضی پر بھروسہ تھا۔ سچا سرنڈر یہ ہے کہ دل ومرضی خدا کے سپرد کر دیں اور کہیں کہ تیری تلاش ہی میری تلاش ہوگی۔ میں نے یہی کیا اور کرتی آ رہی ہوںکیونکہ اسکے راستے بہتر ہیںہمیشہ بہتر۔
سوال: پھر جب آپ نے وہ خواب چھوڑے اور وہ کرنے لگیں جو خدا نے آپ کیلئے رکھا تھا، یعنی (مسیحیت کیلئے خدمت) ministry، تو وہ کیسا تجربہ رہا؟۔
جواب: جب میں اپنی خواہشوں کے پیچھے بھاگ رہی تھی تو دل میں خوف تھا، گھبراہٹ تھی، کوئی سکون نہ تھا۔ لیکن جب میں نے انہیں چھوڑ کر خدا کو مختار کیا تو غیر معمولی سکون، خوشی اور طمانیت ملی۔ یوں لگا جیسے کوئی پھل چکھا اور کہا کہ یہ تو ہمیشہ سے کہاں تھا۔ یہ ایسی تسکین تھی جس نے مجھے بھر دیا۔ تب میں نے کہا کہ میں اس میں اور گہرائی تک جانا چاہتی ہوں، جاننا چاہتی ہوں کہ یہ یسوع کون ہے جس نے میرا دل جیت لیا ہے۔
میزبان: یہ ہم سب جیسے ہیں کہ ہم اسی چیز سے لڑتے ہیں جو ہمیں خوشی دینے والی ہوتی ہے، مگر ہمیں خبر نہیں ہوتی۔
پاکستانی مسجد کے امام کی پوتی: بالکل۔
سوال: آپ کلیسا میں Alphaپروگرام میں مددگار تھی، جو لوگوں کو مسیحیت سے بغیر دھمکائے انداز میں روشناس کراتا ہے۔ ایک کتابچہ پاکستانی زبان اردو میں دیکھا۔ اس نے آپ کے دل میں کیا چنگاری بھڑکائی، وہاں سے کیا شروع ہوا؟۔
جواب: انٹرن شپ میں ایک انٹرن پادری سے جوڑا جاتا ہے تاکہ آپ ان کی خدمت کے شعبے کو قریب سے دیکھیں۔ میرا جوڑ Pastor Heatherسے ہوا جو Alphaکی پادری ہیں۔ میں انکے زیرِ سایہ Alpha کی مدد کر رہی تھی۔ اس وقت Alpha کا کچھ معلوم نہ تھاکہ کیا مدد کر رہی ہوں۔ وہ باورچی خانے میں کتابچہ دیکھ رہی تھیں۔ اسی زمانے میں Lake Mount میں بھی Alpha شروع ہو رہا تھا۔ وہ سمجھا رہی تھیں کہ Alpha کیا ہے، ہم سب اسے بہترین طریقے سے چلانے کا سوچ رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ یہ کتابچہ اردو میں ترجمہ شدہ تھا، یہی بات میرے سامنے چمک اٹھی، میں اسے بھلا نہ سکی۔ میں گھر گئی اور والد کو بتایا کہ Lake Mountمیں Alpha پروگرام ہے ۔ میرے دل میں تھا کہ خدا ہمیں یہ پاکستان میں کرنے کو کہہ رہا ہے۔ انٹرن شپ میں میرا دل بہت نرم ہو گیا، خاص طور پر پاکستان کیلئے۔ چونکہ وہاں مسیحیوں کیساتھ دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک ہوتا ہے، بہت نوجوان صرف اسلئے ایمان چھوڑ دیتے ہیں کہ انہیں اپنی کمیونٹی میں عزت اور مواقع نہیں ملتے۔ خواہشوں کی خاطر مذہب تبدیل کر تے ہیں۔ یہ بات میرے دل کو توڑتی تھی کیونکہ میں نے اپنی خواہشیں چھوڑ کر خدا کی دی ہوئی راہ پکڑی اور مجھے سچی تسکین ملی۔ میں نے کہا خدایا اگر تو نے یہ میرے اندر کیا تو یہ وطن کے نوجوانوں میں بھی ہو۔ پھر Church of Pentecost اور Lake Mount کی قیادت نے مل کر فیصلہ کیا کہ ہم اسے پاکستان میں کریں گے۔میں اس وقت 19برس کی تھی۔
سوال: آپ نے Alpha Pakistanشروع کرنے میں مدد دی۔کتنے لوگ پروگرام سے گزر چکے ہیں؟۔
جواب: 18 ہزار۔ جی ہاں، تین سال ہوئے ہیں۔
میزبان:3 سال! کمال ہے۔ اور آپ یہیں نہیں رکیں۔ مجھے آپ کی یہ بات پسند ہے کہ لوگ عموما آپ کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں، کبھی عمر، کبھی جنس، کبھی نسل یا زبان کی بنیاد پر، کہ یہ نہ کرو۔ آپ نے یقین کیسے کیا کہ آپ کر سکتی ہیں؟۔
جواب: مجھے معلوم تھا کہ اگر کوئی میرے ساتھ نہ ہو تو خدا ساتھ ہے۔ میں خدا کو نہیں کہہ سکتی کہ نہیں، میں اسکے ساتھ ضد نہیں کر سکتی۔ کم عمری میں ہی میں نے جان لیا کہ جب یسوع کے پیچھے چلتی ہوں تو مجھے نہیں کہنا چاہیے، کیونکہ اس کی آواز بہت واضح تھی کہ یہ کرنا ہے۔ والدین اور خاندان کی پشت پناہی بھی تھی جو کہتے تھے ہم جانتے ہیں تم کر سکتی ہو۔ Alpha کو پاکستان لے گئے، سخت اذیت کے خطرات تھے اور انجام معلوم نہ تھا۔ کلیسا میں بہترین رہنما اور پادری ساتھ تھے جو ہمیں سنوار رہے تھے۔ اچھے لوگوں کا ہونا بہت ضروری ہے۔ مجھے لگا تھا شاید یہ ایک چھوٹا سا کام ہوگا، دس پندرہ لوگ بیٹھ کر Alpha کریں گے۔ میرے ذہن میں بس یہی منظر تھا۔
سوال: آپ نے نہایت اہم نکتہ چھیڑا ہے۔ بائبل میں لوگ خدا سے کہتے ہیں کہ میں یہ نہیں کر سکتا، میں اچھا نہیں بولتا، میں قابل نہیں، تو خدا صرف یہ کہتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ وہ یہ نہیں کہتا کہ تم بہت اچھے ہو، بلکہ یہ کہ میری معیت کافی ہے۔ آپ نے بھی یہی کیا، جو بہت دانائی کی بات ہے۔ اب آپ Wycliffe Bible Translators کیساتھ شراکت بھی رکھتی ہیں۔ اس کے بارے میں بتائیں۔
جواب: پاکستان میں بہت سی زبانیں ہیں۔کئی میں بائبل کا ترجمہ نہیں ہوا، جو حیرت کی بات ہے۔ بہت سے نوجوان اور عام لوگ اپنی مادری زبان میں بائبل پڑھ ہی نہیں پاتے اور یوں خدا سے جڑ نہیں پاتے۔ ہم نے کلیسا کے طور پر جانا کہ اس پہ کام ضروری ہے، اس لیے ہم نے Wycliffe کے ساتھ شراکت کی اور مختلف بولیوں میں بائبل کا ترجمہ کیا۔ پاکستان میں ناخواندگی کی شرح بھی خاصی ہے، اس لیے ہمیں معلوم تھا کہ بہت سے لوگ پڑھ بھی نہ پائیں گے۔ چنانچہ ہم نے اسے زبانی یعنی oral ترجمے کی صورت دی، جو نہایت خوبصورت بات تھی۔ مترجمین پورے پاکستان کے مختلف قبائل اور علاقوں سے آئے، ہم نے ان کے ساتھ تربیت کی، Wycliffe کی ٹیم ہمارے ساتھ تھی، انہوں نے ہمیں اچھی طرح سکھایا۔ پھر ہم بائبل کو پاکستان کے مختلف علاقوں تک لے گئے، جو بہت مبارک قدم تھا کیونکہ ہمارے ہاں یہی ضرورت ہے۔
میزبان: جن لوگوں کے پاس ہمیشہ سے مادری زبان میں بائبل رہی ہے، وہ شاید اس کے اثر کی قدر نہ جانتے ہوں۔ اپنی دل کی زبان میں اسے پڑھنے کی قوت کیا ہے؟۔
جواب: جب آپ زخمی یا روتے ہیں تو اپنی مادری زبان میں بولتے ہیں، والدین سے بات کرتے ہیں تو بھی مادری زبان میں۔ خدا سے جڑنے کیلئے سچا اور اصل ہونا ضروری ہے، اسلئے اپنی مادری زبان میں بائبل جاننا نہایت اہم ہے۔ ہمارا دل یہی تھا کہ ہر شخص، ہر نوجوان کو یسوع تک اپنی زبان میں رسائی ہو۔ انہیں انگریزی یا قومی زبان اردو سیکھنے کی مجبوری نہ ہو، بلکہ جس طرح چاہیں یسوع سے جڑ سکیں۔ ہم نہیں چاہتے تھے کہ زبان ان کے اور خدا کے بیچ رکاوٹ بنے۔
میزبان: یہ محبت اور عزت دینے والا عمل ہے۔ آپ کے دل میں خواب ہے کہ کل کے رہنما نوجوانوں کو تیار کیا جائے اور انہیں مشن فیلڈ میں بھیجا جائے۔ اس بارے میں بتائیں۔
مسیحی خاتون: انٹرن شپ کے دوران میرے دل میں تبدیلی آئی تو میں چار سال کی انٹرن شپ کر چکی ہوں اور مختلف پادریوں کے زیرِ سایہ خدمت کر چکی ہوں۔ تیسرے سال میں میں Pastor Becky کے زیرِ سایہ تھی جو Lake Mount میں ہماری missions pastor ہیں۔ ان کے ساتھ رہ کر میں نے دیکھا کہ خدا دنیا بھر میں کیا کر رہا ہے، اس نے میرا دل بدل دیا۔ مجھے مشنز کیلئے دل ملا اور ساتھ ہی ایسے نوجوان قائدین کیلئے جو صلاحیت اور بلاہٹ رکھتے ہیں کہ دنیا میں جیسے ممکن ہو انجیل سنائیں۔ میں نے محسوس کیا کہ خدا مجھے انہیں ابھارنے، ان کیساتھ چلنے اور ان کی شناخت مسیح میں یاد دلانے کیلئے پکار رہا ہے۔ شناختی بحران نوجوانوں کا بڑا مسئلہ ہے۔ دنیا کی ثقافت ایک سمت، جبکہ بائبل کی ثقافت دوسری۔ لہٰذا کوئی تو ہو جو انہیں بتائے کہ وہ مسیحی کون ہیں۔ اسی لیے ہم نے نوجوانوں اور ینگ ایڈلٹس کی کانفرنسیں شروع کیں تاکہ انہیں بااختیار بنایا جائے ، بتایا جائے کہ وہ مسیحی کون ہیں۔
سوال: جب آپ یہ پیغام نوجوانوں تک لے کر جاتی ہیں، خاص طور پر جب انہوں نے پہلے یہ سنا ہو کہ ابھی انتظار کرو یا تم تیار نہیں، تو ان کا ردِعمل کیسا ہوتا ہے؟۔
جواب: پاکستان میں جب یہ پیغام ایک خاتون کی طرف سے آئے تو یہ خود بہت خوبصورت بات ہوتی ہے کیونکہ خواتین کو کم مواقع ملتے ہیں،جب یہ آواز ایک کم عمر خاتون سے آئے تو اثر اور بڑھ جاتا ہے، کیونکہ ہمارے ہاں اکثر سمجھا جاتا ہے کہ پادری بڑے اور نہایت تجربہ کار ہوتے ہیں۔ مجھے لگا کہ کوئی ایسا بھی ہو جو ان سے مربوط ہو سکے۔ علم الکلام کی زبان نہیں، بلکہ دل سے دل کی بات۔ میں جانتی تھی کہ خدا نے یہ میرے اندر کیا اور یہ کسی بڑے شوروغل سے نہیں، بلکہ چھوٹی سی ملاقات سے شروع ہوا۔ میں نے عورتوں کو یہ کہتے سناکہ اگر وہ کر سکتی ہے تو ہم بھی کر سکتے ہیں۔ ہم نے صرف نداسے بیشمار نجاتیں دیکھی ہیں۔ خواتین کو ہم نے کلیسا میں خدامت کرتے دیکھا۔ مرد بھی آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگرچہ ہم مرد ہیں مگر آپ ہمیں متاثر کرتی ہیں، جو خدا نے آپ میں کیا وہ ہم میں بھی کر سکتا ہے۔
میزبان: یہ بہت خوبصورت ہے، اور آپ تو ابھی آغاز ہی پر ہیں۔ آپ کی عمر 24 ہے۔ ابھی منگنی ہوئی ، مبارک ہو۔ آگے وہ کون سی باتیں ہیں جو خدا آپ کے دل میں ڈال رہا ہے، جو آپ دنیا میں اپنے وسیلے سے دیکھنا چاہتی ہیں؟۔
جواب: یہ تو گویا5 سالہ منصوبے کا سوال ہے۔ بہرحال، میں خود کو خدمتِ کلیسا میں ہی دیکھتی ہوں، خواہشات کے پیچھے نہیں دوڑنا چاہتی۔ اگر میں مستقبل کی طرف دیکھوں تو وہ وہی خدمت ہوگی جس کیلئے خدا نے مجھے بلایا ہے۔ میری تمنا ہے کہ نوجوان اور ینگ ایڈلٹس یسوع کو جانیں، خواہ منادی کے ذریعے، خواہ کلیسا کی خدمت کے ذریعے۔ وزارت صرف اسٹیج پر کھڑے ہو کر بولنے کا نام نہیں، بلکہ سب سے پہلے اپنی زندگی سپرد کرنا ہے کہ خدا تمہیں بدلے اور وہی اختیار سنبھالے۔ میرا پیغام نوجوانوں کیلئے یہی ہے کہ اس پر بھروسہ کرو، اور یہی پیغام میں دنیا کے ہر شخص تک، خاص طور پر ان علاقوں تک پہنچانا چاہتی ہوں جہاں مسیحیوں پر جبر ہے، جہاں نوجوان لڑکیاں زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کی جاتی ہیں، جن کے پاس آگاہی نہیں، جن کا کوئی محافظ نہیں۔ وہاں ایک آواز کی ضرورت ہے۔
میزبان: مسیحیت کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ یسوع ہمیں اختیار دیتا ہے کہ ہم اسے چنیں، وہ ہمیں مجبور نہیں کرتا، نہ کنجِ دیوار میں لاتا ہے، فیصلہ ہمیں کرنا ہوتا ہے۔ جب میں دنیا بھر میں آپ کے اثرات دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ بہت سے لوگ کلیسا جاتے ہیں، ہم یسوع پر ایمان رکھتے ہیں، اپنے ایمان کے پابند ہیں، مگر آپ میں تبدیلی لانے کی آگ ہے، اور یہ ایک مختلف بات ہے۔ جو لوگ خود کو معمول پر آتا ہوا محسوس کرتے ہیں لیکن چاہتے ہیں کہ خدا ان سے کچھ بڑا کام لے، وہ اس آگ کو کیسے پائیں؟
جواب: میں خود کو بار بار یاد دلاتی ہوں کہ خدا نے میری زندگی کیلئے ایک مقصد اور منصوبہ لکھ رکھا ہے جو میری پیدائش سے پہلے لکھا گیا۔ پھر میری زندگی کی آیت یہ ہے کہ میں مسیح میں سب کچھ کر سکتا ہوں جو مجھے قوت دیتا ہے۔ مجھے انسان پر بھروسہ نہیں کرنا، اپنی توقعات کسی اور میں نہیں رکھنی، بلکہ نگاہیں سیدھی اس پر رکھنی ہیں کہ وہ میری زندگی کا قائد ہو، وہی میرے لیے سی ای او ہو، اور وہی مجھے لے چلے، تب سب ٹھیک ہوگا۔ بس اسے ہاں کہو۔ اس کے راستے بہتر ہیں۔ اس کی تلاش کو اپنی تلاش بنا لو، اس کی ہاں کو اپنی ہاں بنا لو، اس کے آگے جھکنے پر آمادہ ہو جا، پھر خدا وہ کرے گا جو تم سوچ بھی نہیں سکتے۔ عجب بات یہ ہے کہ اس کے منصوبے میں زیادہ تسکین ہے، زیادہ سکون ہے، زیادہ خوشی ہے۔ جب تم دوسری طرف پہنچتے ہو تو کہتے ہو اوہ، یہیں تھا جو مجھے چاہیے تھا، اور مجھے خبر نہ تھی۔ میری خواہش ہے کہ سب یہ جانیں کہ نجات میں خوبصورتی ہے، اور اپنے دل میں اسے آنے دینے اور اپنی زندگی اس کے سپرد کرنے میں بے پناہ حسن ہے۔
میزبان: کیا کبھی آپ کو ڈر لگتا ہے جب وہ آپ کو آپ کے کمفرٹ زون سے باہر کچھ کرنے کو کہتا ہے، آپ ہزاروں کے سامنے منادی کر چکی ہیں، تو کیا دل میں یہ خیال آتا ہے کہ میں کیا کر رہی ہوں؟۔
جواب: ایسا بھی ہوا ہے، میں یہ نہیں کہوں گی کہ کبھی خوف نہ آیا ہو۔ مگر مجھے معلوم ہے کہ وہ ہمیشہ میرے ساتھ ہے۔ جب بھی میں ہزاروں لوگوں یا نوجوانوں کے سامنے بولنے جاتی ہوں، میں خود بھی صرف چوبیس برس کی ہوں۔ دل میں آتا ہے کہ اگر لوگ مجھے جانچیں گے تو کیا ہوگا، اگر میں ان کی نظر میں کافی کول نہ ہوئی تو، اگر میری زبان ٹھیک نہ رہی تو، اگر میری بات انکے دل سے نہ لگی تو یہ سب ذہن میں آتے ہیں۔ مگر میں نے یہ بھی سیکھا ہے کہ میرا کام بس وہ کرنا ہے جو خدا نے مجھے کہا ہے، اس کے بعد روح القدس کو اختیار دینا ہے کہ وہ کام کرے۔ میں اپنی قوت سے کچھ نہیں کر سکتی۔ میں خود کو ایک خالی برتن سمجھتی ہوں اور خدا کو اپنے اندر سے بہنے دیتی ہوں، اور یہی مجھے زندگی کے سارے خوف اور اضطراب پر غالب آنے کی قوت دیتا ہے، خواہ ہزاروں کے سامنے منادی ہو یا کسی غیر ایمان والے کے سامنے اپنے ایمان کی بات کرنا۔
ــــــــــ
امام مسجد کی پادری پوتی : تجزیہ!
اس انٹرویو میں چند اہم نکات ہیں جو نوٹ کرنا چاہیے۔
1: اس لڑکی نے بچپن میں سمجھا تھا کہ والدین کا یہ ایک پیشہ ہے جو خطرات اور پابندیوں سے جڑا ہوا ہے۔ جیسے کشتیوں پر رسک لینے والوں اور فوجی سپاہیوںکو جنگی محاذوں پرمشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ اس کو بطور پیشہ اختیار نہیں کرے گی۔
2: جب کینیڈا میں معلوم ہوا کہ اس کے پاس CEOبننے کا چانس نہیں ہے تو اس کو مجبوری میں پادری کیلئے وقف ہونا پڑا ہے۔ اگر اس کے پاسCEOبننے کا راستہ ہوتا تو وہی کرتی۔
3: اس کو بائبل کی تعلیم اور مذہب کی خدمت کے دوران یہ احساس نہیں تھا کہ وہ کیا خدمت کررہی ہیں لیکن ایک تنخواہ کیلئے گزارہ کرنا پڑتا تھا۔ صرف یہ بات اہم لگی کہ بائبل کا ترجمہ کسی اور زبان سے اردو میں ہوا اور دوسری زبانوں میں کرنا ہے۔
4: اس تعلیم میں ایک بنیادی بات مسیحی بنیاد پر مذہبی بننا ہے اور دوسرا دوسرا مسیحیوں کیساتھ امتیازی سلوک کا درد رکھنا ہے۔
5: مسیحیت کو پرانے مذہبی لبادے سے ایک ماڈل نوجوان لڑکی کی دلچسپ صورت میں تبدیل کرنا ہے۔ کیونکہ مذہبی تعلیم میں وہ دلچسپی نہیں جو جوان لڑکی جوانمردوں کو متاثر کرتی ہے۔
6: اس مجبوری میں ایک جوان لڑکی کو خطرات بھی لینے ہیں اور جس مذہب کی گوروں کے ہاں کوئی اہمیت نہیں ہے تو پاک وطن کی اپنی نسل کو اس میں قربانی کے کاروبار میں لگانا ہے۔
7: اگر آزادی دی جائے تو جنسی اشتعال انگیزی اورتشدد کیا جائے تو مذہبی اشتعال انگیزی کو فروغ ملے گا۔
دوسری طرف حریم شاہ بھی مدرسہ کی فارغ التحصیل مولانا ہیں۔ گل چاہت اور مہک ملک بھی ڈانس اور تبلیغ دنوں ہی کرتی ہیں۔ مفتی تقی عثمانی ومفتی رفیع عثمانی کو مفتی اعظم پاکستان مفتی شفیع نے دارالعلوم کراچی میں گھر خرید کر دئیے تو مفتی رشیداحمد لدھیانوی نے فتویٰ دیا کہ وقف کی خریدوفروخت جائز نہیں اور یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ خریدنے اور بیچنے والا ایک ہی شخص ہو۔ اس پر مفتی رشیداحمدلدھیانوی کی تاریخی پٹائی لگائی گئی۔اب سودی نظام کو معاوضہ کے تحت جائز قرار دیا گیا ۔ مفتی محمد شفیع دیوبندی سے عثمانی بھی جعلی بن گئے کیونکہ عجمی نسل کی لڑکیوں کو بھگانے اور ان کا ولی کی اجازت کے بغیر نکاح درست ہوتا ہے۔
حاجی محمد عثمان کی خانقاہ میں فوجی وپولیس افسران، علماء اور تمام طبقے شامل تھے۔ تھوڑی سی آزمائش پر ایسے بھاگے جیسے خدا کو پہنچانتے ہی نہ تھے۔ مسلمانوں کا بڑا المیہ قرآن کے محکم احکام کو مسخ کرنا ہے۔ جب تک مسلمان دین فطرت اسلام کی طرف توجہ نہیں دیںگے تو کل یہ مولوی پادری بن جائیں گے اور حلالہ سے خلاصی پر کہیں گے کہ مسیحی مذہب ہی فطری ہے۔
ــــــــــ
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ نومبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
آرتھر پاؤل کی افغانستان پر کی گئی حیران کن ریسرچ
جاوید چوہدری نے زیرو پوائنٹ میں افغان جہاد کے حوالہ سے انکشاف کیاکہ
آرتھر پال امریکن تھا۔ اکاؤنٹس، بجٹ ، آفس مینجمنٹ کا ایکسپرٹ تھا۔ امریکی سیکریٹری آف اکنامکس کا اسسٹنٹ اور اکنامک وارفیئر کا چیف رہا۔ وہ 1960 ء میں ایشیا فاؤنڈیشن میں شامل ہوا اور افغانستان کے آخری بادشاہ ظاہر شاہ کا اکنامک ایڈوائزر بن گیا۔ظاہر شاہ نے 40 سال 1933ء سے 1973 تک حکومت کی ۔آنکھوں کے آپریشن کیلئے روم گیا تواس کی غیر موجودگی میں اسکے کزن سردار داؤد نے اس کا تختہ الٹ دیا۔ جسکے بعد افغانستان میں وہ خونی کھیل شروع ہوا جو آج 52 سال بعد بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ آرتھر پال نے ظاہر شاہ کو آزاد معیشت کا ماڈل بنا کر دیا۔ اسکے مشورے پر خواتین کو حقوق دیے، یونیورسٹیاں اور زنانہ کالج بنائے اور معاشرے کو مزید لبرل کیا۔ آرتھر پال کی وجہ سے افغانستان روس سے دور اور امریکہ کے قریب ہونے لگا۔ یہ دوستی روس کو پسند نہیں آئی۔ چنانچہ اس نے سردار دؤاد سے سازباز کرکے تختہ الٹ دیا۔ داؤد خان افغانستان کا پہلا صدر بن گیا۔
تبدیلی کے بعد کشمکش شروع ہوئی۔1978میں سوویت یونین نے افغانستان میں داخل ہو کر داؤد خان کو قتل کر دیا۔ یہ بعد کی باتیں ہیں۔ آرتھر پال ان حادثوں سے کہیں پہلے کابل آیا اور ظاہر شاہ کا مشیر بن گیا۔ بادشاہ کی قربت نے افغان آرکائیو تک رسائی دی۔ وہ تاریخی دستاویز کی تصویر یا فلم بناتا یا اہم معلومات اپنے پاس لکھ لیتا اور پھر خود یا کسی کے ذریعے اسے پاکستان بھجوا دیتا اور یہ کراچی کے راستے پی آئی اے کے ذریعے امریکہ پہنچ جاتی تھی۔ وہ روز ڈائری لکھتا جس میں افغانستان کے سفر، قبائل کی عادتوں، محل کی اندرونی صورتحال، روس کی مداخلت اور افغان معاشرے میں پلنے والی بے چینی کی روداد لکھتا تھا۔ اس نے محسوس کیا: افغان معاشرے میں استاد کی بہت عزت ہے۔ افغان سماجی طور پر کٹر مذہبی اور تاجر لوگ ہیں۔ یہ سرمائے اور مذہب دونوں کو ساتھ ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ چنانچہ اس کا خیال تھا کہ اگر کسی نے افغانستان کو قابو کرنا ہو تو اسکے پاس تین کارڈ ہونے چاہئیں: مذہب کا کارڈ، اساتذہ کا کارڈ اور دولت کا کارڈ۔ پورا افغانستان پکے ہوئے پھل کی طرح اس کی جھولی میں گر جائے گا۔
آرتھر پال 5 سال افغانستان میں رہا۔ افغانستان کا چپہ چپہ چھان مارا۔ پوری افغان آرکائیو بھی کاپی کر لی۔ وہ 1965 میں کابل سے امریکہ واپس آ گیا۔اس کے پاس 20,000 دستاویزات تھیں۔ یہ افغانوں سے متعلق دنیا کا سب سے بڑا ذخیرہ تھا۔ اس نے اس خزانے کی مدد سے 1965 میں سی آئی اے کو بتا دیا تھا کہ روسی ظاہر شاہ کا تختہ الٹ دیں گے جسکے بعد افغانستان میں خون کا کھیل شروع ہو جائے گا اور یہ پورے سنٹرل ایشیا کو نرغے میں لے لے گا۔ روس افغانستان کے بعد ایران اور پاکستان کو قابو کرنے کی کوشش کرے گا۔ ایران کے پاس تیل اور گیس کے ذخائر ہیں، جبکہ پاکستان کی آرمی اور لوکیشن آئیڈیل ہیں۔ اگر یہ دونوں ملک روس کے ہاتھ آ گئے تو پھر یہ عربوں کو نگل جائے گا اور یورپ کو تین سائیڈ سے گھیر لے گا، جس کے بعد یہ دنیا کی واحد سپر پاور ہوگا۔
اس کا کہنا تھا کہ ہمیں فورا افغانستان، ایران اور پاکستان پر توجہ دینی ہوگی۔ خوش قسمتی سے تینوں ملکوں کے درمیان شیعہ اور سنی اختلافات ہیں۔ اختلافات کی یہ لکیر گہری کرنی ہوگی تاکہ اگر ان ملکوں میں انقلاب آ جائے تو بھی یہ مخالف فرقوں کی وجہ سے ایک دوسرے کے دست و بازو نہ بن سکیں۔ افغانستان کے اساتذہ کو ہاتھ میں لینا چاہیے۔ یہ مستقبل میں ہمارا بہت بڑا سرمایہ ثابت ہوں گے۔ آرتھر پال 1976 ء میں فوت ہو گیا۔ لیکن وہ 1970 کے شروع میں 20,000 کلیکشنز پر مشتمل یہ سارا خزانہ یونیورسٹی آف نیبراسکا کے حوالے کر گیا۔
یونیورسٹی نے سی آئی اے کی مدد سے 1972 میں اپنے کیمپس میں سینٹر فار افغانستان اینڈ ریجنل اسٹڈیز کے نام سے افغانستان پر دنیا کا سب سے بڑا تحقیقی سینٹر بنا دیا۔ یہ سینٹر آج تک قائم ہے اور اس میں افغانستان کی تمام خفیہ ، ظاہری دستاویزات ہیں۔ ان میں کابل دربار 1842، لارڈ لیتن1879 کی افغان وار ، لارڈ کرزن کی 1883 افغان جنگ میں برطانوی سپاہیوں کی قربانیاں،1895 کابل دربار، پٹھان بارڈر لینڈ، 1921 میں چترال سے لے کر ڈیرہ اسماعیل خان تک کے حالات، ہرات سے لے کر خیوہ، خوارزم شاہ کا دربار، خیوہ پر روس کا قبضہ، غزنی سے کابل تک کی سیر، دوست محمد کا دربار، راجہ رنجیت سنگھ کے افغانستان سے متعلق نوٹس اور روس کی خیوہ پر 1840 کی مہم تک شامل ہے۔
آرتھر پال کی تحقیق اس حد تک سالڈ تھی کہ اس نے 1965 میں لکھاتھا کہ افغان 39 کے ہندسے کو پسند نہیں کرتے۔ ان کے خیال میں یہ ماضی میں طوائفوں کے جتھے کا نمبر تھا۔ چنانچہ اگر بد قسمتی سے آپ کی پراپرٹی یا گاڑی کے نمبر میں 39 آ گیا تو پھر یہ افغانستان میں نہیں بکے گی۔ آرتھر پال کی دستاویز پر مشتمل سینٹر نے افغانستان پر امریکی اثر و نفوذ میں اہم کردار ادا کیا۔ امریکہ کی ہدایت پر ذوالفقار علی بھٹو نے افغانستان کی مختلف یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کے 16 اساتذہ کا انتخاب کیا۔ پاکستان بلایا اور جہاد کی ٹریننگ شروع کر دی۔ افغان جہاد کا بانی جنرل ضیا الحق نہیں ذوالفقار علی بھٹو تھا۔ میجر جنرل نصیراللہ بابر ابتدائی مجاہدین کے ٹرینرز تھے۔ یہ 16 اساتذہ افغانستان میں امریکہ کے کمانڈر ثابت ہوئے اور انہوں نے وہاں ایسی آگ لگائی جو آج تک نہیں بجھ سکی۔ نصیراللہ بابر پکے امریکہ نواز تھے۔ یہ بھٹو صاحب کے دور میں بھی گورنرKP اور بینظیر بھٹو کی پہلی اور دوسری حکومت میں وفاقی وزیرِ داخلہ رہے۔ بینظیر بھٹو انکے بیک گرانڈ سے واقف تھیں، چنانچہ وہ انتہائی اہم معلومات ان سے خفیہ رکھتی تھیں۔
مجھے جنرل حمید گل نے ایک بار بتایا کہ میں وزیرِ اعظم کی گاڑی میں انکے ساتھ بیٹھا تھا۔ نصیراللہ بابر اگلی نشست پر ڈرائیور کے ساتھ تھے۔ میں محترمہ کو افغانستان سے متعلق کچھ بتانے لگا تو بی بی نے اگلی نشست کی طرف اشارہ کرکے مجھے روکا۔ میں سمجھ گیا محترمہ اپنے وزیرِ داخلہ کی وفاداری سے مطمئن نہیں ہیں۔ اس کی تصدیق میجر عامر نے بھی کی۔ یہ ماشااللہ حیات ہیں، آپ ان سے پوچھ سکتے ہیں۔ 1978 میں سوویت یونین افغانستان میں داخل ہوا۔ امریکی روس سے براہِ راست جنگ نہیں چاہتے تھے۔ جنرل ضیا الحق ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قابض ہو چکے تھے اور انہیں بھی دوسرے آمروں کی طرح بڑی جنگ چاہیے تھی۔ چنانچہ انہوں نے بھٹو صاحب کے ٹرینڈ کیے ہوئے 16 اساتذہ، گلبدین حکمت یار، برہان الدین ربانی، احمد شاہ مسعود، عبد الرشید دوستم اور عبد الرسول سیاف کی مدد سے افغان وار شروع کر دی۔ پھر سینیٹر چارلی ولسن کی وجہ سے امریکہ اور عرب بھی اس جنگ میں شامل ہو گئے۔
امریکہ آج بھی افغان جنگ کو چارلی ولسن وار کہتا ہے۔ وقت نے ثابت کیا کہ افغان جہاد کوئی اسلامی جہاد نہیں تھا۔ یہ روس اور امریکہ کے مفادات کی جنگ تھی، جس میں نیبراسکا یونیورسٹی کے سینٹر فار افغانستان اینڈ ریجنل اسٹڈیز اور آرتھر پال کی دستاویزات کے ذریعے اسلام کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ امریکی مفادات کی کاشت کاری میں مصر، سعودی عرب اور کینیا کے جذباتی مسلمان نوجوانوں کو بطور کھاد استعمال کیا گیا۔ یہ کھیل سوویت یونین کی واپسی تک جاری رہا۔ روس کی واپسی کے بعد افغانستان کے نام نہاد مجاہدین آپس میں لڑ پڑے اور امریکی اسلحہ سے اپنے ہی ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ افغانستان میں اتنا خون بہا کہ چھینٹے امریکہ تک پہنچنے لگے۔
بینظیر بھٹو اور نصیراللہ بابر کو دوسری بار اقتدار میں لایا گیا اور انکے ذریعے آرتھر پال کا دوسرا مذہبی کارڈ کھیلا گیا۔ پاکستانی مدارس میں پڑھنے والے طلبہ کو افغانستان میں دھکیل دیا گیا۔ انہیں یہ بتایا گیا تھا کہ امام مہدی کا ظہور قریب ہے۔ یہ خراسان میں تشریف لائیں گے، انکی آمد کیلئے فضا ہموار کرنی ہے۔ یہ اسے حکمِ ربانی سمجھ کر چل پڑے۔ افغان وار لارڈز اس وقت تک لڑ کر تھک چکے تھے۔ طالبان آئے تو یہ چپ چاپ پیچھے ہٹنے لگے۔ یوں 1996 تک افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہوا جسکے بعد امریکہ و پاکستان نے سکھ کا سانس لیا۔ لیکن یہ سکھ بعد ازاں عارضی ثابت ہوا۔ طالبان اپنے انقلاب کو واقعی حقیقت سمجھ بیٹھے تھے۔ یہ اس غلط فہمی کا شکار ہو گئے تھے کہ ہمیں قدرت نے پوری دنیا کی قیادت کیلئے منتخب کیا ۔ یہاں سے نیا تنازع شروع ہو گیا۔ وہ کیا تھا؟ یہ میں اگلے کالم میں عرض کروں گا۔
ــــــــــ
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ نومبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
انقلاب کیلئے پیش خیمہ حقائق
عشق ناپید و خرد میگردش صورت مار
عقل کو تابعِ فرمان نظر کر نہ سکا
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کرنہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلۂ نفع و ضرر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا
جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کا طالب علم تھا ،بوہری بازار صدر میں بونا اچانک بڑی مہارت سے سینے پر چڑھ گیا، میں دراز قد شرارت نہ سمجھ سکااور پٹخ دیا جوپڑاہوا شکایتی نظروں سے دیکھنے لگا ، شرمندہ تھا کہ اس کا اور میرا کیا مقابلہ؟۔ پھر پتہ چلا کہ بہروپیہ کئی لوگوں کا پیسہ اور چیخیں نکال چکا ہے۔ ہم نماز پڑھتے نہیں پٹختے ہیں اور کسی کے حلق سے ذوالخویصرہ کی طرح قرآن نہیں اُترتالیکن
نماز میری نماز ہے نہ وضو کوئی وضو آتی ہے انقلاب کی مسلسل کوئی خوشبو
آج گھر کے ماحول سے عالمی سطح پر دنیا جہاں کھڑی ہے اللہ خیر کرے یا تو پوری دنیا میں امن و امان کا قیام عمل میں آئے گا یا پھر گھریلو، معاشرتی، معاشی ، علاقائی، ملکی اور بین الاقوامی سطح پر عالم انسانیت کو بہت گھمبیر صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ آدھی سے زیادہ دنیا غزہ کے ساتھ کھڑی تھی لیکن ان کے دکھ درد کا کسی نے ساتھ نہیں دیا۔ افغانستان اور عراق پر جس قسم کے حالات گزرے، شام اور یمن کے لوگ جہاں سے گزرے اوریوکرین میں جو کچھ ہورہا ہے یہ حالات کسی پر بھی کسی وقت آسکتے ہیں۔ ہمیں اپنی حد تک درست کوشش کرنی ہوگی کہ عالم انسانیت کو مشکلات سے نکالنے میں کردار ادا کریں۔
سکول ،تبلیغی جماعت،مدارس ،خانقاہ ،سیاست ،جہاد اور تنظیم سازی کے عمل سے مختلف ادوار میں گزرا۔ ضرور ت پڑی تواپنی جدو جہد پر ایک کتاب بھی شائع کروں گا۔ انشاء اللہ
میری چاہت ہے کہ مدارس کے نصاب کو تشکیل دیا جائے اور مختلف مکاتب فکر کی کمیٹی تشکیل دیں جو قرآن و احادیث کے حوالے سے اسلام کی درست تصویر دنیا کے سامنے پیش کریں۔ مولانا مناظر احسن گیلانی نے تدوین القرآن، تدوین الحدیث اور تدوین الفقہ کتابیں لکھی ہیں، بہت اہم معاملات کی نشاندہی بھی کی ہے مگر ان میں مسائل سلجھنے سے زیادہ الجھ گئے ہیں۔
مکینِ گنبد خضریٰ ۖفقط مرکز رشد وہدایت، منبع انوارِحق ہی نہیں بلکہ قیامت تک آنے والے مسائل کا حل بھی ہے۔
مشکوٰة میں ایک حدیث ہے کہ ”ایک عورت دونوں ہاتھوں اور پیروں سے ناچ رہی تھی تو رسول اللہۖ اور صحابہ کبار نے نظارہ دیکھا، حضرت عمر کی آمد پر عورت بھاگی تو نبیۖ نے فرمایا کہ ”عمر سے شیطان بھاگتا ہے”۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے نبی ۖ کا ذاتی طرزِ عمل نہیں دیکھا بلکہ عمر سے شیطان کے بھاگنے پر توجہ دی۔ حالانکہ دونوں چیزوں میں اعتدال تھا۔
عن عائشہ دخل ابوبکر و عندی جاریتان من جواری الانصار تغنیان بما تقاولت الانصار یوم بعاث قالت ولیستا بمغیتین فقال ابوبکر امزامیر الشیطان فی بیت رسول اللہ ۖ، و ذلک فی یوم عیدٍ فقال رسول اللہۖ یا ابابکر ان لکل قوم عیدًا و ھذا عیدنا
ترجمہ ” حضرت عائشہ نے کہا کہ ابوبکر میرے گھر میں داخل ہوئے ۔ میرے پاس انصار کی دو لڑکیاں وہ اشعار گارہی تھیں جو انصار نے بعاث کے دن گائے۔یہ گانے والیاں نہ تھیں۔ حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ رسول اللہ ۖ کے گھر میں یہ شیطانی باجے ؟۔ اور وہ عید کا دن تھا۔(صحیح بخاری کتاب العیدین۔ 3: باب سنة العیدین لاھل اسلام : مسلمانوں کیلئے عید کی سنت کیا ہے؟۔ حدیث952اور کتابی لحاظ سے7563) ۔
جاویداحمد غامدی نے غلط ترجمہ کیا کہ وہ انصار کی لونڈیاں تھیں اور لونڈیاں ہی گانے گاتی تھیں۔ حدیث میں واضح ہے کہ یہ گانے والیاں نہیں تھیں۔ ہرقوم کے کلچرل میں خوشی کے موقع پر جس طرح تقریبات ہوتی ہیں تو حضرت عائشہ جب صاحب اولاد بھی نہیں تھیں اور انصار کی لڑکیوں نے خوشی کے موقع پر اپنے ذوق کا مظاہرہ کیا اور حضرت ابوبکر نے اسلئے برا سمجھا کہ نبیۖ کے گھر میں تھا تو رسول اللہۖ نے اجازت دی اور ایک اعتدال اور میانہ روی کا زبردست درس دیاتھا۔
علماء نے گانے ، تصویر اور شرعی پردے کے علاوہ کئی ساری چیزوں میں اعتدال سے ہٹ کر خود ساختہ تصو ر قائم کیا تھا۔ میرا ماحول ان سے عقیدت کا تھا تو اس پر عمل بھی کیا لیکن جوں جوں اپنی جہالت کا پتہ چلا تو پیچھے ہٹنے میں شرم نہیں کھائی۔ ہم اسلام کو عام کریں نہ کہ اپنی انانیت اور جھوٹ کے تصورات کو۔
فرقہ واریت نے بہت نفرتیں سکھائی ہیں۔ شیعہ تراویح کی نماز کو بدعت کہتے ہیں اور قمیص نکال کر اپنوں اور دوسروں کو کسی عذاب میں ڈال کر زنجیر زنی کو فرض سے بڑا درجہ دیتے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی نے سود کو جواز بخش کر کتنی بڑی بدعت ایجاد کرلی مگر میلادالنبیۖ کے جلوس کو بدعت کہتا ہے ؟۔ اسلام کے درست احکام واضح کرنے ہوں گے ۔علماء جائیں بھاڑ میں۔
میں اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا تو شرعی پردے کے غلط تصور نے گھر اور معاشرے میں ایک بدعت ڈال دی۔ بھائی نے والدہ سے کہا کہ ”دوسروں کے بڑے بیٹے پہلے الگ ہوجاتے ہیں اور تمہارا چھوٹا بیٹا الگ ہوا ہے”۔ میں نہ صرف خود الگ ہوا ہوں بلکہ دونوں بیگمات کے بچوں کو بھی الگ الگ گھروں میں رکھا ہے۔ میرے ساتھی منیر داؤد کا پروگرام تھا کہ ”گھر پر بالاخانہ بناکر ایک اور شادی کرکے اس کو رکھے لیکن میں نے منع کردیااسلئے کہ ماحول میں مزید بگاڑ آسکتا تھا”۔
اسلام میں دو شادیوں کی نہیں چار کی اجازت ہے۔ صحافی اقرار الحسن اور مفتی طارق مسعود نے زیادہ شادیاں کی ہیں لیکن ماحول کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ حضرت علی نے حضرت فاطمہ کی موجودگی میں ابوجہل کی بیٹی سے شادی کرنا چاہی اور حضرت فاطمہ نے شکایت کی تو نبیۖ نے فرمایا کہ میری بیٹی کو پھر طلاق دو، کیونکہ نبی اور اسکے دشمن کی بیٹی جمع مت کرو۔
اقوام متحدہ کے مشن میں یہ بھی ہے کہ دنیا میں خاندانی نظام کو پھر بحال کیا جائے۔ خاندانی نظام میں سب ایک دوسرے کا سہارا بنتے ہیں۔ جوں جوں بچوں کے بچے بڑے ہوتے ہیں تو وہ الگ ہوتے جاتے ہیں اور یہ ایک فطری طریقہ ہے۔ جب ماں سمجھ رہی ہوتی ہے کہ میرا بیٹا ہے اور بیوی سمجھ رہی ہوتی ہے کہ میرا شوہر ہے تو پھر شادی کی خوشیاں غم میں اور سکون بالکل بے سکونی میں بدل جاتا ہے۔ اس کشمکش میں گھر بھی تباہ ہوتے ہیں اور فطری مقاصد کی جگہ شیطانی سازشوں کا بسیرا بنتا ہے۔
کسی کی اچھی کمائی ہو یا نقصان لیکن گھرانہ خوشحال رہتا ہے اور مل بیٹھ کر غمی خوشی بانٹتے ہیں تو دنیا جہنم بننے کی جگہ جنت نظیر بن جاتی ہے لیکن جب عورت کے دماغ پر بھوت سوار ہوتا ہے کہ میرا شوہر اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کا نہیں تو سکون کی نعمت چھن جاتی ہے۔ مذہبی بے غیرت طبقہ نے حلالہ کی لعنت سے چھٹکارا نہیں دلایا لیکن عورت کو اسلامی حق دیا کہ شوہر اور گھر کی خدمت تم پر نہیں۔ اگر عورت ڈاکٹر ہو تب بھی اس نے اپنی فطرت کے تقاضے کے مطابق خدمت کرنی ہوتی ہے۔ کوئی فارغ بیٹھی ہو تو اس کے دماغ پر شیطان ہی راج کرے گا۔
رسول اللہۖ سے محبت کا تقاضا ہے کہ اصحاب و اہل بیت سے بھی محبت کی جائے۔ شوہر اور بیوی سے محبت کے تقاضے یہ ہیں کہ ایک دوسرے کے رشتہ داروں سے بھی محبت کی جائے۔ سلیم الفطرت انسانوں میں یہ تعلیم وتربیت کی ضرورت نہیں مگر کچھ کم عقل جاہل اور بدفطرت لوگوں کو رحجان ٹھیک کرنا ہوگا۔
حضرت عائشہ کے حجرے میں حضرت فاطمہکی میراث نہیں تھی۔ باپ بیٹوں کیلئے 120گزکا مکان چھوڑتا ہے جس میں 6بیٹے بال بچوں سمیت رہتے ہیں۔ داماد اور بیٹی کیس کرتے ہیں کہ ہماری وراثت دو۔ حالانکہ ان کمروں کے مالک بیٹے بھی نہیں بلکہ بہو ہوتی ہے۔ زندگی میں بیٹی کو جو دیا تو وہ اس کا ہے اور جو بیٹوں کو دیا تو وہ ان کا ہے۔ زندگی میں داماد بیٹے نہ چاہیں تو گھر میں داخل نہیں ہوسکتے اور باپ کی موت کے بعد وارث بن گئے؟۔ قرآن میں باپ، ماں، بھائی، بہن، چچا، پھوپھی، ماموں، خالہ ، دوست اور جن کی چابیاں تمہارے لئے کھلی ہوں تو ان کے گھر میں اکیلے اور مشترکہ کھانے کی اجازت ہے۔
جس سے ایک تو شرعی پردے کا درست تصور قائم ہوتا ہے جو علماء ومفتیان نے بگاڑ دیا ہے اور دوسرا وراثت کا بھی درست مفہوم سمجھ میں آتا ہے۔ جو گھر باپ کا الگ ہوگا تو اس کی وفات کے بعد وہ لاوارث نہیں ہوگابلکہ ورثا میں تقسیم ہوگا۔ مفتی محمد شفیع نے دارالعلوم کراچی کے وقف مال میں بیٹوں اور بیٹی کی جو بھی وراثت رکھی ہے تو وقف مال پر وراثت نہیں ہوسکتی ہے ،ان کو نکال باہر کرنا چاہیے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے وارث بیٹا سلیمان علیہ السلام بن گئے لیکن بیٹے نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا تھا۔ سعودی شہزادے نے ریاست کو موروثی سمجھ کر غلط کیا ہے۔ بنوامیہ، بنوعباس اور خلافت عثمانیہ کو بھی حق نہیں پہنچتا تھا۔
رسول اللہۖ اور خلفاء راشدین نے مسلمانوں کا اقتدار موروثی قرار نہیں دیا۔ جاویداحمد غامدی رسول اللہۖ کے چچا زاد بھائی اور داماد حضرت علی کے اہل بیت ہونے پر فضول بکتا ہے لیکن یزید کا اہلبیت مروان کو درست قرار دیتا ہے ۔ حالانکہ حضرت عبداللہ بن زبیر نے مروان کو بیعت کرنے سے انکار کیا تھا۔ قرآن نے اسلام کو زبردستی سے مسلط کرنے کا تصور نہیں دیا ہے بلکہ اہل کتاب کو دعوت دی ہے کہ” آؤاس بات کی طرف کہ جس میں ہم ایک ہیں۔ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور نہ کسی کو اس کا شریک ٹھہرائیں۔ اور نہ بعض بعض کو ہم اللہ کے علاوہ اپنے رب بنائیں”۔ (سورہ آل عمران :64)
یہود ونصاریٰ نے اپنے بڑوں کو حلال وحرام کا رب قرار دیا تھا اور مسلمانوں نے اپنے مذہبی طبقات کو اپنا رب بنالیا ہے۔
اور اللہ نے فرمایا:” اور ہم نے نازل کی (اے نبی مکرم!) تیری طرف کتاب حق کیساتھ۔ جو تصدیق کرتی ہے اس کتاب کی جو ان کے درمیان ہے اور اس پر نگہبان ہے۔ پس آپ ان کے درمیان اسی سے فیصلہ کریں جو اللہ نے نازل کیا اور ان کی خواہشات کے پیچھے مت چلیں حق سے ہٹ کر۔ہم نے تم میں سے ہرایک کیلئے شریعت اور راستہ بنایا ہے۔ اور اگر اللہ چاہے تو تمہیں ایک جماعت بناتا لیکن تاکہ تمہیں آزمائے کہ جو تمہیں اللہ نے دیا ہے۔ پس تم ایک دوسرے سے اچھائی میں پہل کرو جس میں تم اختلاف کررہے ہو”۔ (سورہ المائدہ :48)
توراة ،انجیل ،ویدوں کی تفسیر پر قرآن مھیمن نگران ہے مگرمسلمان معنوی تحریف کا شکار ہیں قرآن کا درست ترجمہ ہو تو دین فطرت پر عمل ہوگا، جو درست اعمال کریں تو دنیا میں وہی قوم ترقی کر سکتی ہے۔ اللہ نے بیوہ و طلاق شدہ اور غلام ولونڈیوں کے نکاح کا حکم دیا۔ غلام نکاح کیلئے لکھت کا معاہدہ کرسکتا ہے۔کنواریاں نکاح چاہتی ہوں تو بغاوت پر مجبور کرنا غلط ہے مگرقرآن کا مفہوم مسخ کردیا گیا ۔ مذہبی طبقات کا رویہ خوارج والا ہو کہ قرآن کا درست مفہوم حلق سے نہیں نہ اترے تو دنیا میں مسلمانوں پر اللہ نہ کرے بڑی آزمائشیں آسکتی ہیں۔
مفتی محمد تقی عثمانی نے کہا ہے کہ مجھے کوئی حج بدل پر بھیج رہا تھا لیکن میں والد صاحب کی بیماری کی وجہ سے نہیں گیا۔ اللہ نے اس کی بدولت مجھے اتنا نوازا کہ آج میرے پاس بہت کچھ ہے اور اس نے بیرون ملک کا سفرنامہ ”دنیا میرے آگے” لکھا۔
1981-80 میں مولانا فضل الرحمن، فیض محمد شاہین لائن مین (بعد میں سپرنڈنٹ واپڈا کیلئے ترقی کی) کی دعوت پر جمن شاہ لیہ آئے تھے اور پبلک ٹرانسپورٹ کا کرایہ بھی انہوں نے دیا 1982میں جب میں کراچی آیاتو دار العلوم کراچی میں مفتی تقی عثمانی و مفتی رفیع عثمانی وغیرہ کے حالات بنگالی پاڑہ سے مختلف نہیں تھے۔ یہی احوال جامعہ بنوری ٹاؤن اور جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کراچی اور دیگر علماء کے تھے۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی جب لالو کھیت سے مدرسہ میں آتے تھے تو ایک دن مہمان نے چائے پلانے کا مطالبہ کیا۔ جس پر انہوں نے کہا کہ میری والدہ روز کا ایک روپیہ دیتی ہیں اور ایک طرف کا کرایہ آٹھ آنے ہے مجھے آنے جانے میں ہی روپیہ لگتا ہے اور خود بھی مدرسہ سے جو چائے ملتی ہے وہ پیتا ہوں۔ مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید بھی پبلک ٹرانسپورٹ میں آتے تھے اور علماء کے پاس غربت کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔
1983میں جب سواد اعظم اہل سنت کے نام سے شیعہ کے خلاف تحریک شروع ہوئی تو مولانا سلیم اللہ خان نے مولانا اعظم طارق شہید کے سوتیلے والد مولانا زکریا لنگڑا جامعہ انوار العلوم فیڈرل بی ایریا نزد گلبرگ کراچی کی ڈنڈے سے پٹائی لگائی۔ پھر مولانا زکریا نے اخبارات میں بیان دیا کہ مولانا سلیم اللہ خان نے سواد اعظم کیلئے عراق کے پیسوں سے گھر میں فریج اور دیگر مراعات کی چیزیں خریدی ہیں۔ دار العلوم الاسلامیہ واٹر پمپ ایف بی ایریا سے میں مولانا یوسف لدھیانوی کے درس کو سننے جاتا تھا۔ مولانا نے کہا کہ مصحف اللہ کی کتاب نہیں اگر قرآن کے مصحف پر قسم کھائی جائے تو کفارہ نہیں اسلئے کہ تحریری شکل میں قرآن اللہ کی کتاب نہیں۔ مجھے حیرت ہوئی کہ عوام اللہ کی کتاب کے نام پر زبانی قسم کھاتے ہیں لیکن مصحف پر سچی قسم سے بھی گھبراتے ہیں۔ اور مسئلہ علماء کے نزدیک بالکل الٹ ہے۔ پھر پتہ چلا کہ یہ صرف عوام ہی نہیں علماء کو بھی اس علم کا پتہ نہیں۔ جامعہ بنوری ٹاؤن میں پہلے سال مفتی عبد السمیع شہید سے بحث ہوئی تو ان کو بھی پتہ نہیں تھا۔ پھر نور الانوار میں وہی پڑھا جو مولانا یوسف لدھیانوی صاحب نے بتایا تھا لیکن تعجب اسلئے نہیں ہوا کہ پہلے سے معلوم تھا ۔ جب مفتی تقی عثمانی کی کتاب میں دیکھا کہ سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز قرار دیا ہے اور اسکے خلاف پہلے بنوری ٹاؤن سے فتویٰ لیا اور پھر یہ مسئلہ شہہ سرخیوں کے ساتھ اخبار میں شائع کیا تو مفتی تقی عثمانی نے اپنی کتابوں سے اس کو نکالنے کا روزنامہ اسلام اور ضرب مؤمن میںاعلان کردیا۔ پھر دھیان اس سائڈ پر گیا کہ آخر اتنی بڑی غلطی فقہاء نے کیسے کی ہے؟۔ تو پتہ چلا کہ جب تحریری شکل میں قرآن کو اللہ کی کتاب نہیں مانتے تو اس کا یہی نتیجہ نکلے گا۔
پھر بہت ساری آیات میں یہ وضاحت دیکھی کہ لکھائی میں بھی قرآن اللہ کی کتاب ہے۔ علماء کے سامنے بالمشافہ معاملہ اٹھایا اور تحریروں میں بار بار اس کا ذکر کیا لیکن ڈھیٹ مخلوق اس پر گدھوں کی طرح کان دھرنے کو تیار نہیں ہے۔ پھر قرآن کی جو تعریف لکھی ہے وہ بھی انتہائی گمراہ کن اور خطرناک ہے۔ ایک طرف یہ کہنا کہ قرآن وہ ہے جو مصاحف میں لکھا ہوا ہے لیکن لکھے ہوئے سے پھر لکھا ہوا مراد نہیں۔ دوسری طرف یہ کہنا کہ جو متواتر نقل ہو بلاشبہ اور متواتر سے غیر متواتر آیات نکل گئیں جو بذات خود تحریف قرآن کے مترادف ہے۔ اور بلاشبہ سے بسم اللہ نکل گئی کیونکہ صحیح بات یہ ہے کہ بسم اللہ قرآن ہے لیکن اس میں شک ہے۔ اور شک اتنا مضبوط ہے کہ عام آیت کے انکار سے بندہ کافر بن جاتا ہے لیکن بسم اللہ کے انکار سے کافر نہیں بنتا۔ اس پر بھی بس کرتے لیکن اس تعریف کے باوجود یہ پڑھایا جاتا ہے کہ امام شافعی کے نزدیک قرآن سے باہر آیت کا عقیدہ کفر ہے کوئی غیر متواتر آیت نہیں۔ احناف کے نزدیک غیر متواتر آیت بھی آیت ہے۔ جس کو قرآن کی تعریف سے نکال دیا اس کو چور دروازے سے پھر داخل کردیا۔
ٹانک ڈیرہ اسماعیل خان کا لکھا پڑھا طبقہ اور علماء کرام بیٹھ جائیں اورحقائق پر غور کریں۔ پاکستان بلکہ مدینہ یونیورسٹی کے اساتذہ کے پاس بھی اس کا معقول جواب نہیں ہے۔ کہیں ہم پر عذاب کے فیصلے کی وجہ قرآن کی حفاظت کے نام پر قرآن کے خلاف یہ سازشیں تو نہیں ہیں۔ جب قرآن نازل ہوا تھا تو جو معاشرتی اور معاشی مسائل یہود و نصاریٰ اور مشرکین نے اپنی جہالت کی وجہ سے دین ابراہیمی میں تحریف کرکے کھڑے کئے تھے جن کی قرآن نے واضح الفاظ میں اصلاح کی تھی آج ہمارا مسلمان معاشرہ اسلام کو پھر اسی مذہبی جہالتوں کی طرف دھکیل چکا ہے۔ پہلے ائمہ اربعہ اور حدیث کے خلاف مزارعت کو جواز بخشا گیا اب عالمی سودی نظام کو بھی جواز بخشا گیا ہے۔ نماز اور غسل و وضو کے مسائل سے لیکر نکاح و طلاق اور خواتین کے حقوق تک ساری چیزیں غیر منطقی اور غلط رائج کی گئی ہیں۔
حضرت ابوبکر نے حکومت کی رٹ قائم کرنے کیلئے فرمایا تھا کہ جس نے رسول اللہ ۖ کو زکوٰة دی ہو تو اس سے ہم جبراً ہی لیں گے۔ ایک شخص نے رسول اللہ ۖ کو زکوٰة نہیں دی تھی تو حضرت ابوبکر نے اس کی زکوٰة لینے سے انکار کردیا۔ چاروں ائمہ کا متفقہ مسلک ہے کہ زکوٰة کیلئے قتال نہیں ہوسکتا۔ لیکن ان کی کم عقلی یہ ہے کہ دو امام بے نمازی کو واجب القتل قرار دیتے ہیں ایک کہتا ہے کہ بے نمازی مرتد ہے اور دوسرا نماز نہ پڑھنے کی سزا قتل سمجھتا ہے۔ تیسرے کے نزدیک کوڑے اور چوتھے کے نزدیک زدوکوب اور قید ہے۔ مفتی شفیع نے سیاق و سباق کا لحاظ رکھے بغیر معارف القرآن میں مشرکوں کو قتل کرنے کا شرعی حکم جاری کیا اور نماز و زکوٰة کیلئے حضرت ابوبکر کے فعل کو دلیل بنایا۔ علامہ غلام رسول سعیدی نے تبیان القرآن میں اس پر رد لکھا۔ شدت پسندی کی لہر میں مدارس کا کردار دیکھنا ہوگا۔
ــــــــــ
بے عمل کو دنیا میں راحتیں نہیں ملتیں
دوستو ! دعاؤں سے جنتیں نہیں ملتیں
اس نئے زمانے کے آدمی ادھورے ہیں
صورتیں تو ملتی ہیں سیرتیں نہیں ملتیں
اپنے بل پہ لڑتی ہے جنگ ہر پیڑھی
نام سے بزرگوں کے عظمتیں نہیں ملتیں
جو پرندے آندھی کا سامنا نہیں کرتے
ان کو آسمانوں کی رفعتیں نہیں ملتیں
اس چمن میں گل ہونے خون سے نہاتے ہیں
سب کو ہی گلابوں کی قسمتیں نہیں ملتیں
شہرتوں پہ اترا کر خود کو جو خدا سمجھیں
منظر ایسے لوگوں کو تربتیں نہیں ملتیں
بے مقصد لوگوں کو عداوتیں نہیں ملتیں
بلا قیمت لوگوں کو شوکتیں نہیں ملتیں
ناڑے پکڑتے ہیں ہمیشہ اوروں کے
چھپے واروں سے شجاعتیں نہیں ملتیں
پہلے کنویں میں ڈالا پھر چور بنا ڈالا
قصہ یوسف ہے وہی ظلمتیں نہیں ملتیں
حمزہ کا کلیجہ حضرت ہند نے چبا ڈالا
واہ فتح مکہ آہ کربلا رُتیں نہیں ملتیں
مل جاتی ہے شہرت دولت حکومت
باطل کو حق سے نسبتیں نہیں ملتیں
نہیں بدلی کسی زمانے میں اللہ کی سنت
شیوۂ حق پرستی میں بدعتیں نہیں ملتیں
زہر کا پیالہ پی لیا سقراط نے آخر
زمانے کو بدلو تو شربتیں نہیں ملتیں
کڑیاں ملتی ہیں نئی نئی سازشوں کی
زہے نصیب کہ شیطنتیں نہیں ملتیں
آدم حواء کے بیٹے تھے ہابیل قابیل
عتیق بدبخت کو خدا کی رحمتیں نہیں ملتیں
ــــــــــ
دل پر جو جبر کرنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے
شریر کرلیں جو شر کرنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے
متٰی نصراللہ اب کے بار تم پکاروگے
ضبط اس قدر کرنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے
حق باطل سے ہوچکا ہے جدا یہ ہوچکا ہے فیصلہ
بس تم کو خبر کرنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے
سمندر سے راستہ دینے والا رب راستہ دے گا
اللہ ہی کا امر کرنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے
تم سے جو رہ گیا اس کا دُکھ نہیں جو کرگئے تم
اس پر شکر کرنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے
اللہ تیرا ناصر ہو اللہ تیرا حامی ہو اے مجاہد
جہاد تو تا عمر کرنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے
ابھی تو عبد کو حقوق العباد ہے گھیرے ہوئے
دعا کو ابھی اثر کرنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے
خدا غضبناک ہوا پیچھے بیٹھ رہنے والوں پر
زندگی رب کی نذر کرنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے
ابھی تو فقط آغاز ہوا ہے ابھی سے تھکان کیسی
ابھی تو آگے سفر کرنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے
کوئی نقصان پہنچا نہ سکے اگر اللہ نہ چاہے
کرلے اے بشر جو کرنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے
اور ابھی تو تمہارا حساب وکتاب باقی ہے
تم نے این مفر کہنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے
جو تیرے دشمنوں پر ناگوار گزرتی ہے سو گزرے
تم نے حق کا ذکر کرنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے
رب کی نظر ہے سب پر کہ اب رب نے غم رات کی
بس اب سحر کرنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے
مشکل میں صبر و نماز سے کام لو فرمان الٰہی ہے
رب سے سمر کرنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے
سب رضائیں رب کی تو بندوں سے گلے کیسے
ہر گلہ رب کے در کرنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے
ــــــــــ
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ نومبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
شیعہ سنی، ایران سعودی، پاک افغان کشیدگی کا وہ حل جوبھارت، چین ، امریکہ، روس اوراسرائیل وفلسطین سب کیلئے بڑا آغاز ہوگا
اکائی کے بارے میں سادہ زبان میں کہہ سکتے ہیں کہ قطرہ، قطرہ سمندرہے یعنی پانی کی اکائی قطرہ ہے۔ پانی میں H2O دو ہائیدروجن اور ایک آکسیجن ایٹم ہیں۔ حضرت آدم وحواء سے ہابیل، قابیل اور شیث علیہ السلام تھے۔ نوح علیہ السلام کے بیٹے حام، سام، یافث تھے۔ مشرک، یہود و نصاریٰ کے دعویٰ کو قرآن نے جھوٹا کہا۔ ماکان ابراہیم یہودیًا ”نہیں تھا ابراہیم یہودی اور نہ نصرانی اور نہ وہ مشرکوں سے تھا”۔
ابراہم اکارڈ یہودی ، عیسائی اور عرب اسماعیل و اسحاق کی نسبت سے شروع کیا۔ بنی اسرائیل کے انبیاء اور محمد مصطفی خاتم الانبیائۖ ۔ یہ اکائی ہے۔ برصغیر پاک وہند اکائی تھی اور پھر پاکستان وبھارت میں تقسیم ہوا۔ علامہ اقبال کاترانہ آج بھارت پڑھتا ہے ”ساری دنیا سے اچھا ہندوستاں ہمارا”۔
1947کا پاکستان 1971 میں تقسیم ہوا۔اکھنڈ بھارت کا نظریہ ڈھاکہ سے کابل تک ہے۔ کشمیر متنازع تھا۔ ڈیورنڈلائن کو افغانی نہیں مانتے ۔ افغانستان ایران اور ڈیرہ اسماعیل خان ملتان کا حصہ تھا۔ دنیا میں زر، زمین اور زن کے نام پر لڑائیاں اور اکائیاں ہیں ۔دوسری جنگ عظیم 1945ء کے بعد جرمنی امریکہ، برطانیہ، فرانس اورسویت یونین میں تقسیم ہوا۔ دو بلاک مشرقی ومغربی 1949ء بن گئے۔تقریباً30لاکھ افراد سویت یونین سے بھاگ گئے توباہمی اشتراک سے 1961ء دیوار برلن بنی۔جو1989میں توڑ دی گئی ۔ہمارے پاکستان کا خطہ ہزاروں سال کسی اور بر اعظم سے چل کر یہاں پہنچا اور قرآن میں واضح ہے کہ پہاڑ بادلوں کی طرح چل رہے ہیں۔ کبھی بادلوں کا چلنا واضح لگتا ہے اور کبھی ٹھہرے ہوئے لگتے ہیں۔
جب پاکستان بن رہا تھا تو ہندوستان کے مہاجرین نے اپنا وطن اور اپنے خاندان اور نسلیں قربان کردیں۔ پنجابی، سندھی، پشتون، بلوچ اور سرائیکی اپنے وطن ، نسل اور زبان کی حساسیت کو سمجھتے ہیں۔ تقسیم ہند کے وقت سب سے زیادہ تکلیف پنجابی بولنے والوں کو اٹھانی پڑی۔ اس طرح دوسرے صوبوں سے ہجرت کرنے والوں کے خاندان ٹوٹ کر تہس نہس ہوگئے اور جس ریاست کیلئے قربانی دی تو اس میں اسلام اور فلاح وبہبود اور آزادی کا تصور تھا۔ محلاتی سازشوں نے پاکستان کو ایک بڑی مثالی ریاست بننے سے روک دیا۔ لیکن آج اسلام کی آزادانہ تشریح کا راستہ کسی نے نہیں روکا ۔ کیا مشرقی و مغربی پاکستان صلح کریں تو حلالہ کرنا پڑے گا؟۔ ہرگز ہر گز نہیں!
مشرقی اور مغربی جرمنی اسلئے ایک ہوگئے کہ وہاں حلالہ کی لعنت کا تصور نہیں تھا۔ مغربی اور مشرقی پاکستان میں حلالہ کا تصور ختم ہوگا تو دونوں پاکستان پھر ایک اور نیک ہوسکتے ہیں۔
وزیرستان واحد ایک ایسی سرزمین تھی جس پر کسی کی حکومت نہیں تھی۔ کرم ایجنسی پارہ چنار میں کابل افغانستان کا سرکاری پٹوار سسٹم تھا۔ جس کی باقاعدہ رجسٹریشن تھی۔ 1833ء میں افغان معزول بادشاہ شجاع درانی نے راجہ رنجت سنگھ کے ساتھ سرحدات کا معاہدہ کیا لیکن پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکا تھا۔ انگریز نے افغانستان کو بفر زون بنایا تھا۔ ڈیورنڈ لائن معاہدہ1893 میں ہوا تھا اورلاہور کے پٹوار سٹم کے تحت جتنا علاقہ کرم سے باجوڑ تک افغانستان سے لیا تو اتنا واخان کا ناپ کردیا تھا تاکہ تاجکستان روس اور برطانوی ہند میں بفرزون قائم ہوجائے۔
امیر عبدالرحمن خان افغان بادشاہ برطانیہ سے سالانہ 18 لاکھ روپے گرانٹ لیتا تھا۔ اسکے بیٹے امیر حبیب اللہ خان کے قتل کے بعد اس کا پوتا امیرامان اللہ خان تخت پر بیٹھا، 1919 کو انگریز سے آزادی کا اعلان کیا۔ 1920ء میں ہندوستان سے 50ہزار سے زیادہ لوگوں نے ان کے بلاوے پر ہجرت کی ۔ مولانا احمد علی لاہوری اور عبدالغفار خان شامل بھی تھے۔ لیکن پھر آنے والوں کو ڈنڈوں اور گولیوں سے روکا گیا تھا۔
جب1947ء میں تقسیم ہند کا فیصلہ ہوگیاتھا تو باچا خان اپنا مؤقف واضح کررہے تھے کہ اپنے گھر بار چھوڑ کر مت جاؤ ۔ ان کا پہلے بڑا تلخ تجربہ ہوچکا تھا۔ رسول اللہ ۖ نے یہود سے ہی میثاق مدینہ کیا تھا اورمشرکین مکہ سے صلح حدیبیہ کا معاہدہ کیا تھا لیکن جب مسلمانوں نے میاں بیوی کے درمیان صلح کیلئے بھی حلالہ کو خراج بنالیا تو دوسری قوموں سے نفرت کیوں نہ بڑھتی؟ اور قرآن طلاق کے مقدمہ میں کہتا ہے کہ ”اللہ کو ڈھال مت بناؤ ، اپنے عہدوپیمان کیلئے کہ تم نیکی ، تقویٰ اور لوگوں میں صلح نہ کراؤ”۔( آیت224البقرہ) فلسطین و اسرائیل کی صلح میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتے لیکن میاں بیوی کو ملنے نہیں دیا جاتا ہے اور یہ قرآن وسنت اور انسانی فطرت سے بالکل انحراف ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” اور کوئی بستی نہیں ہے مگر ہم قیامت سے پہلے اس کو ہلاک کریں گے یا عذاب دیں گے سخت ترین اور یہ اللہ کے پاس کتاب میں لکھا ہوا ہے”۔ (الاسراء :58)
قرآن کے بعد تاریخ کے ہر موڑ پر مدینہ کے واقعہ حرہ اور عبداللہ بن زبیر کے وقت مکہ مکرمہ سے لیکر کہاں کہاں کیا کیا نہ ہوا؟۔ بنوامیہ کا بنوعباس کے ہاتھ اور بنوعباس کا چنگیزیوں کے ہاتھ سکوت بغداد ، جاپان کے شہروں پر ایٹم بم، افغانستان اور عراق کی تباہی موٹی موٹی مثالیں ہیں۔ غزہ کا قتل عام ہو یا پھر ڈیرہ اسماعیل خان کا سیلاب سے بہہ جانا ، بونیر میں پتھروں کا سیلاب اور آنے والے وقت میں کیا ہوگا؟۔ پہلی ،دوسری جنگ عظیم میں کتنے لوگ مارے گئے؟۔ یوکرین میں لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ لبنان، شام اور یمن میں بڑی تباہیاں آئی ہیں۔ قرآن نے عورت کو خلع کا حق دیا اور مالی تحفظ بھی دیا لیکن مذہبی طبقات نے چھین لیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو قرآن کو مانتا ہے عملی طور پر وہ مسلمان ہے یا نہیں مانتا وہ ہے؟ اور قرآن نے باہمی صلح سے رجوع کی اجازت دی ہے تو کافر مانتا ہے اور مسلمان نہیں مانتا ہے پھر مسلمان کون ہوا؟۔
مولانا عتیق الرحمن سنبھلی نے پوچھا تھا کہ ”حق مہر” کی کیا حیثیت ہے؟۔ جو مفتی تقی عثمانی سے بڑے عالم تھے اورمفتی تقی عثمانی نے جواب دیا کہ ”یہ اعزازیہ ” ہے۔ حالانکہ حق مہر عورت کی سیکیورٹی اور انشورنس ہے ۔ وہ گھر سے کشتیاں جلاکر آتی ہے اور قرآن و حدیث میں اس کی کوئی معین مقدار نہیں ہے لیکن یہ واضح ہے کہ مرد کی استطاعت کے مطابق عورت کو حق مہر ملے۔ عورت جب کسی سے نکاح کیلئے راضی ہوتی ہے تو اس کے مال واسباب کو دیکھتی ہے۔ بھلے اس کی شکل و صورت اور عمر کیسے ہی کیوں نہ ہو۔ مولانا محمد خان شیرانی نے 92سال کی عمر میں اگر شادی کی ہے تو عورت کسی فقیر کیلئے راضی کیوں نہیں ہوتی؟۔ پیپلزپارٹی کے تاج حیدر نے بھی بڑی عمر میں شادی کی تھی اور اس میں اسلامی قانون کے مطابق ایک ویلیو نکال کر حق مہر ہونا چاہیے۔غریب پر بوجھ ڈالیں گے تو شادی میں مشکل ہوگی مگر عورت کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
ــــــــــ
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ نومبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
خدارا سنی اور جاوید غامدی حضرت عمر پر حلالہ کی لعنت جاری کرنے کی تہمت نہیں لگائیں
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: والمطلقات یتربصن بانفسھن ثلاثة قروئٍ ولا یحل لھن ان یکتمن ما خلق اللہ فی ارحامھن ان کن یؤمن باللہ والیوم الاٰخر وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحًا ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف وللرجال علیھن درجة واللہ عزیز حکیم (سورہ البقرة آیت228 )
” طلاق والی عورتیں خود کو انتظار میں رکھیں تین ادوار تک اور ان کیلئے حلال نہیں کہ چھپائیں جو اللہ نے انکے رحموں میں پیدا کیا اگر وہ اللہ اوریوم آخر پر ایمان رکھتی ہیں اور انکے شوہر اس میں اصلاح کی شرط پر ان کو لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں۔ اور ان کیلئے بھی معروف حق ہے جیسا کہ ان پر ہے اور مردوں کا ان پر ایک درجہ ہے اور اللہ زبردست حکمت والا ہے”۔
عورت کی عدت حیض آتا ہو تو تین ادواراور حمل ہو تو بچے کی پیدائش ہے۔ اور اگر نہ حمل ہو اور نہ حیض آتا ہو یا حیض میں گڑ بڑ ہو تو پھر تین ماہ کا اانتظار ہے۔ عدت میں عورت انتظار کی پابند ہے اور شوہر اصلاح کی شرط پر معروف طریقے سے باہمی رضا مندی کی بنیاد پر رجوع کرسکتا ہے۔ دورِ جاہلیت میں اکٹھی تین طلاق پر حلالہ کا غیر فطری مذہب تھا اور دوسری طرف عورت کی رضامندی کے بغیر رجوع کی جہالت تھی۔قرآن کی آیات نے ان دونوں جہالتوں کو ختم کردیا۔ حضرت عمر کے دور میں پہلی بار ایک عورت تین طلاق کے بعد رجوع کرنے پر راضی نہیں تھی تو حضرت عمر نے عورت کے حق میں فیصلہ دیا ۔ کچھ نے طلاق بدعت کہا اورکچھ نے طلاق سنت ۔لیکن فیصلے کی روح کی طرف نہیں دیکھا کہ جب عورت راضی نہ ہو تو رجوع نہیں ہوسکتا ۔
حضرت علی کے دور میں ایک شخص نے بیوی کو حرام کہا جب عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی تو حضرت علی نے فیصلہ دیا کہ رجوع نہیں ہوسکتا۔ رسول اللہ ۖ نے ازواج سے ایلاء کیا۔ آیت226البقرہ میں طلاق کے عزم کا اظہار نہیں کیاتو عدت تین ماہ کی جگہ چار ماہ ہے اور جب نبیۖ نے ایک ماہ بعد اپنی ازواج سے رجوع کیاتو اللہ نے ان کو علیحدگی کا اختیار دینے کا حکم فرمایا۔تاکہ عورت کا اختیار واضح ہو۔طلاق کا عزم ہو تو پھر اظہار نہ کرنا دل کا گناہ ہے اسلئے کہ عدت ایک ماہ بڑھتی ہے۔
وزیرستان کی آزاد منش عوام نے اگر قومی بنیاد پر فیصلہ کیا کہ البقرہ 222سے 237کے مطابق اور سورہ النساء 19اور 20و21کے مطابق عورتوں کو حقوق دینے ہیں جس میں ایک صحافی رضیہ محسود اور ایک ایازوزیر کی بیٹی کو علماء اور لکھے پڑھے طبقے کی کمیٹی میں شامل کیا جائے تو پاکستان وافغانستان، عرب و ہندوستان اور عالم انسانیت میں بہت بڑا انقلاب آجائے گا۔
روس اور اس سے آزاد ہونے والے ممالک میں طلاق کی قانونی عدت ایک سال ہے جس کے بارے میں امریکی جہاد کیلئے غلط پروپیگنڈہ کیا گیا کہ وہ وہاں نکاح نہیں بلکہ جانوروں کی طرح والدین اور بہن بھائیوں کی حرمت ختم کی گئی ہے۔
قرآن خود بعض آیات کی بعض سے تفسیر کرتا ہے اور اس کی آیات میں کوئی بھی تضادات اور اختلافات بالکل نہیں ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان ولا یحل لکم ان تأخذوا مما اٰتیموھن شیئًا الا ان یخافا الا یقیما حدوداللہ فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ تلک حدود اللہ فلا تعتدوھا و من یتعد حدوداللہ فاولٰئک الظالمون O سورہ البقرہ آیت:229)
ترجمہ :” طلاق دو مرتبہ ہے پھر معروف طریقے سے روکنا ہے یا احسان کیساتھ چھوڑ دینا ہے اور تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے کہ اس میں سے کچھ بھی واپس لے لو مگر یہ کہ جب دونوں کو خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیںگے۔ اور اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو دونوں پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں۔ یہ اللہ کی حدود ہیں تو ان سے تم تجاوز نہ کرواورجو حدوداللہ سے تجاوز کرے تووہی ظالم ہیں”۔
یہ آیت باہمی اصلاح یا صلح کی تفسیر ”معروف طریقے” سے کرتی ہے۔ جب معروف طریقے سے دونوں راضی ہوں گے تو پھر رجوع ہوسکتا ہے ورنہ رجوع نہیں ہوسکتا۔ مسلک حنفی یہ ہے کہ ”اگر رجوع کی نیت نہیں ہے اور عورت پر عدت میں نظر پڑگئی اور شہوت آگئی تو رجوع ثابت ہوگیا ”۔ مسلک شافعی یہ ہے کہ ”اگر رجوع کی نیت نہیں ہو تو مسلسل جماع جاری رکھیں تو بھی رجوع نہیں ہوگا”۔ یہ معروف کے مقابلہ میں منکر ہے۔
دلوں اور دلالوں سے بے غیرتوں اور منہ کالوں سے کون یہ توقع رکھے کہ قرآن، معروف اور فطرت پرتوجہ دیںگے ؟۔ یہ مذہب سے پیٹ اور نفس پالتے ہیں اور بس!۔ مفتی تقی عثمانی نے سود کو جواز بخش دیا اور علماء نے پہلے سخت مخالفت کی اور پھر مقدس گائے کی دم پکڑلی کہ یہ ہماری نجات کا ذریعہ ہے۔ یورپ کے دورے پر نکلا ہے کہ اور صرف وہ لوگ مجلس میں شرکت کرسکتے ہیں جن کو کارڈ جاری ہوگا اور عوام سے خوف تھا کہ کوئی سوال پوچھ لیں تو؟ اسلئے سب کو روک دیا گیا۔
سورہ النساء آیت 19میں خلع کا ذکر ہے اور 20،21میں طلاق کا ذکر ہے۔ پہلے عورت کو خلع کا حق دیا گیا ہے اور اس کو مالی اور اخلاقی تحفظ بھی دیا ہے اور پھر مردکو طلاق کا حق دیا گیا ہے اور عورت کو خلع کے مقابلے میں زیادہ مالی حقوق کا تحفظ دیا گیا ہے۔ مفتی سعید خان نکاح خواں عمران خان کو بالمشافہہ بھی آیات کا درست مفہوم سمجھادیا تھا اور وہ مان بھی گئے تھے۔
آیت 230سے پہلے آیت 229البقرہ میں اللہ نے تین شرعی حدود کا ذکر کیا ہے۔ نمبر 1: عدت کے تین مراحل میں ہی تین مرتبہ طلاق کی وضاحت ہے۔ پاکی کے ایام یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر پاکی کے ایام یہاں تک کہ حیض آجائے اور پھر پاکی کے ایام میں رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ یہی وہ عدت ہے جس میں اللہ نے اس طرح تین مرتبہ طلاق کا امر کیا ہے اور تسریح باحسان ہی تیسری طلاق ہے۔ آیت واضح ہے کہ جب رجوع کرنا ہے تو معروف طریقے نہ کہ منکر طریقے سے۔ ایک شخص نے بنوں میں مولوی کے ذریعے زبردستی حلالہ کروایا اور پھر مولوی جیل بھی گیا۔ اگر آیت کا درست مفہوم معلوم ہوتا تو یہ بے غیرتی نہیں ہوتی۔ عورت راضی تو بغیر حلالہ کا رجوع ہے اور راضی نہیں تھی تو پھر حلالہ کے باوجود رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔
نمبر2: دوسری حد یہ ہے کہ جب عدت کے تیسرے مرحلہ میں تیسری فیصلہ کن طلاق دیدی تو تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی عورت کو دیا ہے کہ اس میں سے کچھ بھی واپس لے لو۔ آیت229میں آیت230سے پہلے یہ بہت اہم حد ہے اور اسی کی وضاحت آیت20اور 21سورہ النساء میں بھی ہے۔
نمبر3: تیسری حد یہ ہے کہ تیسری فیصلہ کن طلاق کے بعد کوئی بھی دی ہوئی چیز واپس لینا حلال نہیں لیکن اگر دونوں اور فیصلہ کرنے والوں کو یہ خوف ہو کہ اگر وہ چیز واپس نہیں کی گئی تو دونوں اللہ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے۔جس کا مطلب ہے کہ جدائی کے بعد شوہر کی دی ہوئی چیز رابطہ کا ذریعہ ہو اور جنسی تعلقات سے اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں تو عورت کی طرف سے اس چیز کو فدیہ کرنے میں کوئی حرج نہیں جس سے اس کی عزت ہی محفوظ ہوگی لیکن اس سے خلع مراد لینا عورت کا بدترین استحصال ہے جو کسی صورت میں مراد لینا انتہائی غلط ہے۔
اس آیت229میں معروف کیساتھ رجوع کی بھی بھرپور وضاحت کردی گئی اور احسان کیساتھ رخصت کرنے کی بھرپور وضاحت کرتے ہوئے مزید یہ بھی واضح کردیا کہ شوہر کیلئے دی ہوئی چیز واپس لینا حلال نہیں مگر اس صورت میں جب دونوں کو اور فیصلہ کرنے والوں کو یہ خوف ہو کہ پھر اللہ کی حدود کو دونوں ڈھبر ڈوز کردیں گے۔ جیسے خود کش فدائی حملہ کرتا ہے اسی طرح سے عورت سے وہ چیز واپس لینا اگرچہ حلال نہیں تھا لیکن عزت بچانے کیلئے اس چیز کو فداء کرنے میں حرج نہیں ہے۔
ایک شخص سے کہا جائے کہ میری جیب میں ہاتھ ڈالو لیکن اس کیلئے تین شرائط یا تین حدود ہیں۔ پہلی یہ کہ میں اندھا ہوں دوسری یہ کہ میرے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور تیسری یہ بھی کہ جب میری دونوں ٹانگیں ٹوٹ جائیں تو میری جیب میں سے وہ پیسہ نکال سکتے ہو جو تم نے مجھے دیا تھا۔ جب تک تینوں شرائط نہیں پائی جائیں گی تومیری جیب سے دئیے ہوئے پیسے واپس نہیں لے سکتے۔ اندھے ہونے کی صورت میں بھی اور پھر ہاتھ ٹوٹنے کی صورت میں بھی جب تک کہ ٹانگیں بھی نہ ٹوٹیں۔
یہی وہ صورت ہے کہ جس میں باہمی اصلاح اور معروف طریقے سے رجوع کا کوئی امکان نہیں ہے لیکن شوہراس عورت کو اپنی مرضی سے شادی نہیں کرنے دیتا۔ اس کی ایک مثال انصار کے سردار حضرت سعد بن عبادہتھے اور دوسری مثال برطانوی خاندان کا شہزادہ چارلس کی طلاق کے بعد لیڈی ڈیانا کا قتل ہے اور تیسری مثال ریحام خان کو طلاق دی تو تحریک انصاف کے کارکنوں نے پاکستان آمد پر قتل کی دھمکی دی اور چوتھی مثال خاور مانیکا جیسے بے غیرت انسان کا بشریٰ پر عدت کے نکاح کا کیس ہے۔ حالانکہ عمران خان بشریٰ بی بی کیساتھ شادی کے بعد عمرہ کی ادائیگی کیلئے بھی ساتھ گیا تھا۔
فان طلقہا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ ( البقرہ :230 )” پس اگر اس نے طلاق دی تو اس کیلئے حلالہ نہیں یہاں تک کہ کسی اورشوہر سے نکاح کرلے”۔
امام ابوحنیفہ کا مسلک اصول فقہ میں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ فان طلقہا کا تعلق اس سے قبل متصل فدیہ سے ہے ۔ اسلئے کہ ف تعقیب بلامہلت کیلئے آتا ہے (نورالانوار :ملا جیون)۔
حنفی مسلک کی یہ کتاب اور اصول الشاشی ہم نے حضرت مولانا بدیع الزمان سے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں پڑھی تھی اور انہوں نے طلبہ کو تلقین کررکھی تھی کہ روزانہ قرآن کا ایک ایک رکوع ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ سمجھنے پر غور وتدبر کریں۔ مفتی محمد تقی عثمانی اور مولانا فضل الرحمن کے بھائی مولانا عطاء الرحمن کے بھی مولانا بدیع الزمان ہی استاذ تھے۔ بریلوی مکتب میں بھی اصول فقہ اور یہی حنفی مؤقف درس نظامی کا حصہ ہے۔
اگریہ حنفی مؤقف تسلیم کیا تو قرآن کی طلاق سے متعلق تمام آیات سیدھے سادے طلبہ کو بھی سمجھ میں آجائیںگی اسلئے کہ جب یہ فدیہ والی صورت نہیں ہو تو پھر آیت 228کے مطابق اکٹھی تین طلاق دی جائے یا مرحلہ وار عدت کے تین مراحل میں تین مرتبہ طلاق دی جائے تو پھرکسی صورت میں حلالہ کی ضرورت نہیں پڑے گی جب عورت رجوع کیلئے باہمی اصلاح سے راضی ہو۔ آیت229میں معروف طریقے سے رجوع کا یہی مطلب ہے کہ عورت راضی ہو۔ آیات 231 اور 232 البقرہ میں عدت کی تکمیل کے بعد معروف طریقے سے رجوع کی اجازت ہے اور یہی چیز سورہ طلاق کی پہلی دو آیات میں ہے ۔ افسوس کہ پیٹ کی خاطر منکر رجوع کی تشہیر ہورہی ہے مگر قرآنی آیات میں معروف رجوع کی جرأت نہیں کرتے ہیں۔
امام ابوحنیفہ ، امام مالک ، امام جعفر صادق ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل پر حکمرانوں کی سختیاں تھیں لیکن اب حق پر کوئی ناجائز پریشر نہیںہے پھریہ کم عقلی ہے یا مفاد پرستی ہے ؟ اسلئے حقائق سمجھنے کے باوجود بھی لوگ ماننے کو تیار نہیں ہیں!۔
حنفی اصول فقہ کا مؤقف یہ ہے کہ حتی تنکح زوجًا غیرہ سے مراد ”عورت کی خود مختاری اور آزادی” ہے۔ جس کا واضح مطلب یہی ہے کہ اس سے ”حلالہ ” مراد نہیں ہے کیونکہ اس سے پہلے کی آیات میںعدت کے اندر باہمی اصلاح اور عدت کی تکمیل کے بعد معروف طریقے سے حلالہ کے بغیر بھی رجوع کی کھلی وضاحت ہے اور سورہ الطلاق کی پہلی دو آیات میں عدت کے اندر ، عدت کی تکمیل کے بعد اور عدت کی تکمیل کے کافی عرصہ بعد بغیر حلالہ کے رجوع کی کھلی وضاحت ہے۔
جب میں نے مولانا بدیع الزمان سے درسگاہ میں عرض کیا کہ حتی تنکح زوجًا غیرہ سے مراد طلاق شدہ عورت ہے اور اس سے متصادم حدیث کو غلط پیش کیا گیا ہے کہ ایما امرأة نکحت بغیر اذن ولیھا فنکاح باطل باطل باطل ” جس عورت نے بھی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے باطل ہے باطل ہے”۔حالانکہ آیت میں طلاق شدہ عورت کو مرضی کا مالک قرار دیا ہے اور حدیث سے کنواری مراد ہوسکتی ہے تو استاذ کا روشن چہرہ خوشی سے دمک اٹھااور فرمایا کہ ”جب اگلی کتابیں پڑھ لوگے تو مسائل کا حل نکالوگے”۔
مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی کے پاس بھی سوال کا جواب نہیں ہوتا۔ قاری مفتاح اللہ صاحب مدظلہ العالی ملاجیون کی کم عقلی کے لطیفے سنانے لگے ۔میرے بارے میں فرمایا کہ ”امام ابوحنیفہ وامام مالک جیسے درجہ کا ذہن رکھتا ہے ۔ایک دن تم طلبہ اس پر فخر کروگے کہ ہم نے عتیق کیساتھ پڑھا ہے”۔
محسود قوم میں حق مہر پر بحث ہے تواس سے بڑا مسئلہ حلالہ کی لعنت ہے۔ کچھ محسود منٹوں میںمعاملہ سمجھے ،کچھ گھنٹوں بعد بھی آمادہ نہ تھے۔ مولانا طاہر مسجدشین مینارٹانک، مولانا عصام الدین، ہاشم خان جانشین خیر محمد کا کا ٹانک ڈیرہ اسماعیل خان کے محسود، برکی ،وزیر،بیٹنی، کنڈی ،گنڈاپور،مروت، مہاجرین، سرائیکی قائدین اور علماء کا جرگہ بلائیں تو انقلاب کا آغاز ہوگا۔
ــــــــــ
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ نومبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
مسلمان سے عیسائی بننے کاسفر ؟ اور مسلمانوں کیلئے اس میں بڑی عبرت اور اصلاح کا عظیم سبق!
سوال :جمان قویسمی، آپ کبھی غزہ میں حماس کے ایک رکن سے شادی شدہ تھیں۔
جمان: جو کچھ اسکے بعد ہوا، وہ ایک ایسی کہانی ہے جس پر یقین کرنا سننے کے بغیر مشکل ہے۔
سوال: شروع کرنے سے پہلے، میری دوست، میں جاننا چاہتا ہوں کہ بچپن میں عیسائیوں اور یہودیوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے تھی؟۔
جواب:اچھا، میں قطر میں پیدا ہوئی اور وہیں پلی بڑھی۔ میرے والد حماس کے بانی ارکان میں سے ایک ہیں۔میرے والد اور والدہ نے ہمیں اسرائیل، یہودیوں، عیسائیوں بلکہ شیعہ مسلمانوں سے بھی نفرت کرنا سکھایا۔ہمیں بتایا جاتا تھا کہ جو بھی حماس سے تعلق نہیں رکھتا، وہ ہمارا دشمن ہے، اور ہمیں ان پر لعنت کرنی چاہیے!
مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم واقعی عیسائیوں اور یہودیوں پر لعنت کرتے تھے،ہمیں یقین دلایا گیا تھا کہ انہیں قتل کرنا ہمارا فرض ہے کیونکہ قرآن یہی کہتا ہے۔میں جانتی ہوں کہ یہ پاگل پن لگتا ہے، مگر ہم واقعی اسلام پر اس طرح ایمان رکھتے تھے کہ تمام یہودیوں کو قتل کرنا ضروری ہے۔ ہمیں بتایاگیا کہ حضرت عیسی واپس آئیں گے تو وہ ہمارے ساتھ لڑیں گے، وہ صلیب کو توڑ یں گے، سور کو قتل کریں گے اور درخت اور پتھر مسلمانوں کو پکاریں گے:”اے مسلمان، میرے پیچھے ایک یہودی چھپا ہوا ہے، آ ؤاور اسے مار دو۔”
اب سوچتی ہوں تو یہ سب کتنا جنون آمیز تھا۔
سوال:واہ تو آپ کے والد حماس کے بانی ارکان میں سے تھے۔آپ نے بعد میں غزہ میں ایک حماس کے رکن سے شادی کی۔آپ حضرت عیسی(یسوع )کو کیسے جاننے لگیں؟۔
جمان: اچھا، میں غزہ میں تقریباً تیرہ سال تک شادی شدہ رہی۔میری شادی2002میں ہوئی تھی اور میں اس وقت غزہ منتقل ہوئی۔2012 کے بعد میرے ذہن میں سوالات پیدا ہونے لگے کیونکہ میں نے دیکھاکہ حماس نے غزہ میں کیا کیا ۔ جب وہ اقتدار میں آئے تو انہوں نے کہا کہ وہ مساوات لائیں گے، لوگوں سے وعدے کیے، مگر کچھ بھی پورا نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ وہ فتح تنظیم سے نفرت کرتے ہیںجو حماس سے پہلے غزہ پر قابض تھی۔ انہوں نے عوام سے ووٹ مانگے، میں نے بھی حماس کو ووٹ دیا مجھے اس پر افسوس ہے، لیکن میں نے ایسا 2006-7 میں کیا تھا۔مگر انہوں نے غزہ کو پہلے سے بدتر بنا یا، اور فلسطینیوں کو ہی قتل کرنا شروع کر دیا۔انہوں نے ہمیں یہ احساس دلایا کہ اگر آپ حماس سے تعلق نہیں رکھتے، تو آپ کو خوفزدہ رہنا چاہیے۔ میں سوچتی رہی، اور اسی دوران داعش کا ظہور ہوا، جو مسلمانوں کو بھی بڑی تعداد میں قتل کر رہی تھی۔ مجھے لگا کہ اس مذہب میں کچھ نہ کچھ غلط ہے۔
میں اسلام میں پلی بڑھی تھی لیکن میں کبھی خدا سے مطمئن نہ تھی۔ مجھے ہمیشہ لگتا تھا کہ خدا مجھ سے ناراض ہے۔ مجھے کبھی یہ یقین نہ تھا کہ میں جنت میں جاؤں گی۔ ہمیشہ جہنم کا خوف رہتا اورقبر میں سانپوں کے عذاب کا تصور رہتا۔ اسلام ہمیں سکون نہیں دیتا، ہمیشہ یہ خوف رہتا کہ شاید میری عبادت قبول نہیں ہوئی، مجھے مزید کچھ کرنا ہے تاکہ خدا خوش ہو۔ اسی سوچ میں ایک شخص جو میرے قریب تھا میں اس کا نام حفاظتی وجوہ سے نہیں لینا چاہتی وہ لاادری ہے۔اس نے کہا کہ قرآن کو مذہبی عقیدت کے بغیر ایک عام کتاب کی طرح پڑھو۔ میں نے ایسا کیا تو دیکھا کہ قرآن میں زیادہ تر باتیں قتل و قتال کی ہیں، محمد کی کہانیاںہیں، مثلا جب اپنے منہ بولے بیٹے کی بیوی سے شادی کی۔ قرآن میں کہا گیا کہ اللہ نے آیت نازل کی کہ بیٹے کو کہو وہ اپنی بیوی کو طلاق دے تاکہ محمد اس سے نکاح کر سکیں۔
مجھے لگا کہ قرآن کی یہ باتیں سمجھ میں نہیں آتیں۔میں نے محسوس کیا کہ قرآن کا خدا حقیقی خدا نہیں ہو سکتا۔ یہ سب میرے لیے بے معنی تھا۔ مجھے اس کے بعد بھی یہ احساس ہوتا رہا کہ میں خدا کو نہیں جانتی۔ میں لاادری نہیں بنی تھی، مگر میں ہر روز دعا کرتی تھی کہ خدا، اگر توموجودہے تو میں تجھے جاننا چاہتی ہوں، تجھ سے ملنا چاہتی ہوں۔ میرے دل کے اندر یقین تھا کہ کوئی خدا ہے، میں یہ نہیں مان سکتی تھی کہ یہ کائنات بغیر کسی خالق کے ہے۔ میں دعا کرتی تھی اور جب میں نے خدا سے اپنے بچوں کی شفا کے لیے مانگا اور وہ بچ گئے ۔حالانکہ وہ موت کے قریب تھے تو مجھے یقین ہو گیا کہ خدا موجود ہے۔
میں نے2012 سے لے کر 2014 تک مسلسل دعا کی۔ 2014 میں جب حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ شروع ہوئی،تو میں نے ایک واقعہ دیکھا: اسرائیلی فوج (IDF) نے میرے سابق شوہر کو فون کیا اور کہا کہ اپنے پڑوسیوں کو اطلاع دو کیونکہ ہم ان کے گھر پر بمباری کرنے والے ہیں۔
میرے شوہر نے جواب دیا کہ گھر میں کوئی نہیں ہے۔مجھے حیرت ہوئی کہ اسرائیل عام شہریوں کو خبردار کر رہا ہے تاکہ وہ محفوظ رہیں۔ انہوں نے کبھی اندھا دھند بمباری نہیں کی۔
اسی رات میرے پڑوسیوں کا گھر تباہ ہو گیا۔ میں بہت خوف زدہ تھی، مجھے لگا کہ اب میری موت قریب ہے۔ میں نے روتے ہوئے دعا کی: خدا، اگر تو موجود ہے، میں تجھے جاننا چاہتی ہوں، میں تیرا نام پکارنا چاہتی ہوں، مجھے بچا لے۔
اسی رات میں نے ایک خواب دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ میں اپنی والدہ کیساتھ بیٹھی ہوں میری والدہ کا انتقال 2005 میں ہوا تھا۔ہم دونوں بالکونی میں بیٹھے تھے ۔ چاند بہت بڑا اور روشن تھا، پھر وہ قریب آتا گیا۔ میری والدہ نے کہا، چاند کو دیکھو۔جب میں نے دیکھا تو چاند سے یسوع کا چہرہ ظاہر ہوا۔انہوں نے عربی میں مجھ سے کہا: انا یسوع۔یعنی میں خدا یسوع ہوں۔انہوں نے مجھ سے بات کی، اور مجھے یاد ہے کہ انہوں نے کہا:تم میری بیٹی ہو، خوف نہ کرو۔
جب میری آنکھ کھلی تو مجھے لگاکہ شاید یہ لمحہ صرف چند سیکنڈ کا تھا، لیکن کمرے میں روشنی سی پھیلی ہوئی تھی۔ مجھے لگا یہ کوئی خواب نہیں یہ حقیقت تھی۔ میں نے پہلے کبھی یسوع (یوشع) کا نام نہیں سنا تھا، کیونکہ قرآن میں انہیں عیسی کہا جاتا ہے۔ میں نے کبھی عیسائیوں سے میل جول نہیں رکھا تھا۔ میری ساری زندگی قطر کے اسکول، اسلامی مراکز، قرآن حفظ کی کلاسیں سب کچھ صرف اسلام کے گرد گھومتا تھا۔ میں نے کبھی کسی عیسائی سے نہیں سنا کہ وہ یسوع کے بارے میں بات کرے۔ مگر جب میں نے پہلی بار یشوعا کا نام سنا، تو وہ نام مجھے خوبصورت لگا۔ مجھے لگا کہ وہ خوبصورت خدا ہیں۔
میرے دل میں عجیب سا سکون اتر آیا۔زندگی میں پہلی بار میں نے محسوس کیا کہ کوئی مجھ سے محبت کرتا ہے۔ کیونکہ میں نے اپنے خاندان سے بھی کبھی حقیقی محبت محسوس نہیں کی تھی، ان سے نفرت نہیں، محبت کرتی ہوں، لیکن مسلمان ہونے کا مطلب ہے ہمیشہ بے سکونی۔ ہمیشہ یہ احساس کہ خدا ناراض ہے۔ اس دن پہلی بار میں نے محسوس کیا کہ کوئی مجھ سے محبت کرتا ہے۔ میں نے انٹرنیٹ پر جا کر یشوعا کے بارے میں تلاش کیا۔ مجھے ایک مصری عیسائی کا صفحہ ملا۔ میں نے وہ صفحہ کھولا تو سب سے پہلا جملہ میرے سامنے آیا: اپنے دشمنوں سے محبت کرو۔ میں حیران رہ گئی کون کہتا ہے دشمنوں سے محبت کرو؟ قرآن تو کہتا ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کو قتل کرو یا انہیں جزیہ پر مجبور کرو۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی کہے اپنے دشمنوں سے محبت کرو؟
یہ تو بالکل نیا تصور تھا۔ میں نے اس صفحے پر پیغام بھیجا۔ منتظم مجھے آج تک نہیں معلوم وہ مرد تھا یا عورت ؟ مجھے بتایا کہ میں بائبل پڑھوںاور کہا کہ آج ہزاروں مسلمان خوابوں میں یسوع کو دیکھ رہے ہیں اور مسیحیت قبول کر رہے ہیں۔ اس نے کہا: تم پہلی نہیں ہو۔ مجھے اطمینان ہوا، کیونکہ مجھے لگا تھا شاید صرف میرے ساتھ ایسا ہوا ۔ سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ یسوع کو دیکھنے سے پہلے، جب بھی میں سنتی کہ کوئی مسلمان عیسائی بن گیا ہے، تو میں سوچتی تھی کہ وہ ضرور جہنم میں جائے گا۔ اور اب وہ میں خود تھی جس نے یسوع کو قبول کر لیا، اور اپنی نئی زندگی کا آغاز کیا۔ واہ، کیا حیرت انگیز گواہی ہے۔
سوال: واقعی قابلِ ذکر تجربہ۔ یسوع کی حمد ہو، زندہ باد بادشاہ یشوعا کی۔میں آپ کی بات سن کر جذباتی ہو گیا ہوں یہ گواہی بہت طاقتور ہے۔ ہمیں آپ کو دوبارہ پروگرام میں بلانا پڑے گا کیونکہ آپ کے پاس بانٹنے کیلئے بہت کچھ ہے۔ اب چند مزید سوالات کرنا چاہوں گا۔ آپ نے بتایا کہ آپ کے والد حماس کے بانی ارکان میں سے ہیں۔ان کا نام کیا ہے؟
جمان: ان کا نام ابو جعفر ہے۔ لوگ ابو جعفر کہتے ہیں۔ ان کا اصل نام محمد قواسمی ہے۔چونکہ میرے بڑے بھائی کا نام جعفر ہے، اسلئے لوگ میرے والد کو ابو جعفر قواسمی کہہ کر پکارتے ہیں۔
سوال: اچھا جب آپ نے نجات پائی،جب یشوعا آپ پر ظاہر ہوئے اور آپ کی زندگی بدل گئی، تو آپ نے اپنے سابق شوہر، جو حماس کا رکن تھا، اور اپنے والد، جو بانی رکن تھے، ان سب کو کس نگاہ سے دیکھا؟ آپ کا غزہ کے حالات کے بارے میں نظریہ کس طرح بدل گیا؟۔
جمان: دیکھیں، جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے اسکے پیچھے سب کچھ حماس ہی ہے۔ حماس ہمیشہ مسائل پیدا کرتاہے۔ جب وہ خاموش رہتے ہیں، امن رہتا ہے۔ لیکن جیسے ہی موقع ملتا ہے، وہ اشتعال پھیلاتے ہیں۔ میں خود فلسطینی ہوں، میرے پاس فلسطینی شناختی کارڈ ہے، لیکن اب میںسمجھتی ہوں کہ یہ زمین درحقیقت بنی اسرائیل کو وعدے کے طور پر دی گئی تھی۔ میں نے بائبل میں یہ پڑھا ہے۔ یہاں تک کہ قرآن میں کہیں فلسطین کا نام نہیں ۔اسے بنی اسرائیل کی سرزمین کہاگیا ۔لیکن ہمیں بچپن سے یہ سکھایا گیاکہ یہ ہماری زمین ہے اور ہمیں تمام یہودیوں کو یہاں سے نکال دینا ہے۔ لیکن میں نے اپنی دادی سے سنا کہ وہ اپنے یہودی پڑوسیوں کیساتھ امن اور محبت سے رہتی تھیں۔ یعنی کبھی ہم سب امن میں رہتے تھے۔ لیکن جب سے حماس نے فتنے شروع کیے، ہر بار جب امن قائم ہونے لگتا ہے، وہ اسرائیل پر راکٹ داغنا شروع کر دیتے ہیں۔ پھر اسرائیل جوابی کارروائی کرتا ہے۔ ورنہ اس سے پہلے ایسا کچھ نہیں تھا۔
مجھے یاد ہے 2008 کی جنگ کے بعد اسرائیل نے غزہ کی تعمیرِ نو کیلئے پیسہ بھیجا تھا اور وعدہ کیا تھا کہ اگر امن رہا تو غزہ کو سنگاپور جیسا خوشحال بنا دیا جائے گا مگر حماس نے امن نہیں چاہا، انہوں نے تباہی کو ترجیح دی۔ انہیں لوگوں کے دکھ درد سے کوئی غرض نہیں، بس اقتدار اور طاقت کی ہوس ہے۔ میرے سابق شوہر اکثر اپنے رشتہ داروں سے بات کرتے ہوئے کہتے تھے: اب ہم ایک شہر کے نیچے دوسرا شہر بنا رہے ہیں۔ یعنی تمام پیسے جو عوامی تعمیر کیلئے آتے تھے، وہ زمین کے نیچے سرنگیں بنانے پر لگا دیتے تھے۔ انہوں نے عوام یا بچوں کیلئے کبھی پناہ گاہیں نہیں بنائیں۔ غزہ میں ایک بھی عوامی پناہ گاہ نہیں ہے، سب کچھ حماس کیلئے ہے۔ اب وہ انہی سرنگوں میں چھپے بیٹھے ہیں اور عام شہریوں، عورتوں اور بچوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔انہیں ہماری جان کی پرواہ نہیں۔ان کیلئے صرف ان کی طاقت اور اقتدار ہی سب کچھ ہے۔
سوال: آپ کی بات میں سچائی ہے، کئی بار بلانا پڑے گا کیونکہ آپ کی کہانی میں بہت کچھ ہے جو سمجھنے اور سیکھنے کے قابل ہے۔ اگر کوئی شخص یہ ویڈیو دیکھے، جس کااسلامی پس منظر ہے، اور اپنے ایمان کے بارے میں سوال کرنے لگا، یا پھر کوئی ایسا شخص ہے جو حماس کے بارے میں غلط تصورات رکھتا ہے تو آپ اس سے کیا کہیں گی؟ اس کیلئے آپ کا پیغام کیا ہوگا؟۔
جمان: میرا پیغام یہ ہے: اپنا دماغ استعمال کرنے سے مت ڈریے۔ سوچیے، سوال کیجیے۔ جو کچھ آپ کو بتایا گیا ہے، اسے اندھا دھند سچ نہ مان لیجیے۔ ہم سب سے بڑی غلطی یہی کرتے ہیں کہ جو بات ہمیں بچپن سے بتائی جاتی ہے، ہم اسے حقیقت سمجھ لیتے ہیں۔ مگر ضروری ہے کہ انسان تحقیق کرے، تاریخ پڑھے، حقائق جانے، اور اپنے جذبات سے اوپر اٹھ کر سوچے۔ یہ مت سمجھئے کہ حماس غزہ کی محافظ ہے۔ نہیں حقیقت یہ ہے کہ غزہ کے سب سے بڑے دشمن خود حماس ہیں۔ حماس ظالم ہے۔ انہیں فلسطینیوں کی پرواہ نہیں۔ وہ صرف مارنے اور اقتدار میں رہنے پر یقین رکھتے ہیں۔ انکے ذہن میں یہ عقیدہ بٹھایا گیا کہ اگر ہم قتل ہو جائیں تو جنت میں جائیں گے، جہاں بہتر حوریں ہمارا انتظار کر رہی ہیں۔ وہ چار یا پانچ سال کے بچوں کو قرآن یاد کرنے کے بہانے نفرت سکھاتے ہیں ۔ ہتھیار چلانا سکھاتے ہیں، انہیں یہود اور اسرائیل سے نفرت کرنا سکھاتے ہیں۔یہ بہت کم عمری سے شروع ہو جاتا ہے۔ میں جانتی ہوں کہ یہ آسان نہیں، کیونکہ جب آپ ایک خاص عقیدے میں پلتے ہیں، اور آپ کے والدین، خاندان سب اسی پر یقین رکھتے ہیں، تو سوال اٹھانا بہت مشکل ہوتا ہے۔
لیکن میرا مشورہ ہے خوف نہ کریں۔ سوچنے ، سوال کرنے سے نہ رکیں۔ اسلام میں سوچنے اور سوال کرنے کی اجازت نہیں۔ صرف فرمانبرداری کی توقع کی جاتی ہے۔ مگر خدا نے ہمیں دماغ اورسوچنے کی صلاحیت دی۔ اپنے روحانی احساس کے ذریعے سچائی تک پہنچنے کی دعوت دی ۔ میں خود اسرائیل اور فلسطینی علاقوں میں کئی بار جا چکی۔ لوگ پوچھتے ہیں: اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ امن کیسے ممکن ہے؟، میرا جواب ہمیشہ ایک لفظ ہوتا ہے یشوعا (یسوع)۔ کیونکہ وہی حقیقی امن دینے والا ہے۔ یسوع واحد راستہ ہیں۔ جس نے زندگی قربان کی تاکہ انسان گناہوں اور خوف سے آزاد ہو سکے۔ یہ صرف میرا عقیدہ نہیں یہ سچ ہے۔ یسوع واقعی مصلوب ہوئے، انہوں نے واقعی جان دی اور تیسرے دن زندہ ہوئے۔انہوں نے ہمیں گناہ اور موت سے آزاد کیا۔ میں جانتی ہوں کہ وہ آج بھی مسلمانوں سے محبت کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم خوف سے آزاد ہوں، اور سچائی کو پہچانیں۔ ہمیں ڈرنے کی ضرورت نہیں۔
بس اپنی نظریں یسوع پر جمائیں کیونکہ وہی راستہ ہیں، وہی سچ ہیں، اور وہی زندگی ہیں۔ ان جیسا کوئی نہیں۔آمین۔
ــــــــــ
جمان قواسمی کی حقیقت کیا ہے؟
یہ نہیں پتہ کہ جمان قواسمی کا کیا ماجراء ہے؟۔ اسکا سچ جھوٹ خدا کو معلوم ہے لیکن جب ہندوستان میں ایک بی بی کا شوہر گم ہوگیا تھا تو حنفی مسلک کے مطابق اس کو 80سال انتظار کا حکم تھا اسلئے اس نے اسلام چھوڑ کر عیسائی مذہب اختیار کرلیا تھا۔
مولانا اشرف علی تھانوی نے پھر مالکی مسلک سے چار سال انتظار کا فتویٰ ”حیلہ ناجزہ ”کتاب لکھ کر جاری کیا۔ جس میں یہ مسئلہ بھی لکھ دیا کہ ”اگر شوہر تین طلاق دیکر مکر گیا اور عورت کے پاس گواہ نہیں تھے تو خلع لے اور اگر خلع نہیں ملے تو حرام کاری پر مجبور ہے مگر جب شوہر جماع کرے تو وہ لذت نہ اٹھائے”۔
شور ہے ہوگئے دنیا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
علامہ اقبال نے یہ زیادتی کی ہے۔ کیا ہندواور عیسائی حلالہ کی لعنت پر عورت کو اس طرح مجبور کرسکتے ہیں؟۔ پہلے یہود کی طرح حلالہ کی لعنت جاری کی اور اب 2%سود کے اضافے کو اسلامی بینکاری کا نام دے دیا؟۔ جس کی حیثیت ایسی ہے کہ جیسے بیٹوں سے ماؤں کا حلالہ کروایا جائے۔ علامہ اقبال یہ نہیں جانتا تھا کہ مولوی اس قدر حدود کو بھی کراس کریںگے اور ہمارا تاجر طبقہ پہلے حلالہ کرواتا تھا اور سودی حلالے پر خوش ہوگا۔
قرآن سورہ النساء میں اللہ نے عورت کو خلع کی اجازت دی ہے اور ساتھ میں مالی تحفظ بھی دیا ہے۔ جو ترقی یافتہ دنیا میں بھی اس پر کچھ نہ کچھ عمل ہے لیکن مسلمانوں نے خلع کے حق کا انکار کرکے معاملہ جبری جنسی زیادتی کو بھی شریعت کا نام دینے تک پہنچادیا ہے۔ حقائق آئیںگے تو ہٹ دھرم مولوی کے چوتڑ سے محض ہوا نہیں خارج ہوگی بلکہ شعلہ اوردھواں نکلے گا۔
اللہ نے خلع کی نسبت طلاق میں عورت کا زیادہ مالی حق رکھا ہے اسلئے اگر شوہر مذاق میں طلاق دے تو عورت کی رضامندی کے بغیر رجوع نہیں کرسکتا ہے۔ مولوی نے طلاق رجعی کا جھوٹا تصور رکھ کر ایک مرتبہ طلاق کے بعد بھی رجوع کی یکطرفہ جھوٹی شریعت جاری کی ہے اور دومرتبہ طلاق کے بعد بھی رجوع کے غلط تصور سے شریعت اور قرآن وسنت اور انسانی فطرت کا بیڑہ غرق کیا ہے۔ یہ تو شکر ہے کہ حضرت عمر نے اکٹھی تین طلاق پر حادثاتی طور سے فیصلہ دے دیا ورنہ تو عیسائیوں کی طرح طلاق کا تصور بھی ختم ہوجاتا۔ لیکن دوسری طرف یہود کی طرح حلالہ کی لعنت میں مبتلا ء ہوگئے۔ 3 سو سال قبل اپنے عیسائیت سے بغاوت کرکے پروٹیسٹن نے اسلام کی طرح طلاق کی اجازت دی جسکے بعد برطانیہ کی حکومت پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا اور فرانس میں مذہبی طبقہ کے خلاف بغاوت ہوئی اور اٹلی میں رومن چرچ عجائب گھر بن گیا۔یہ اسلام ہی کی تو برکت تھی۔
اگر قرآن کے معاشرتی اور معاشی احکام کو دنیا کے سامنے رکھا جائے اور مسلمان اس پر خود عمل پیرا ہوں تو جمان جیسی کئی خواتین کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام خواب میں فرمائینگے کہ اسلام کی طرف لوٹ جاؤ۔ نبیۖ نے طلاق شدہ وبیوہ سے نکاح کی راہ ہموار کرکے قیامت تک انسانیت پربڑا احسان کیاہے۔
ــــــــــ
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ نومبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
حضرت مولانا عصام الدین مدظلہ اور صحافی ظفر اقبال جتوئی کے تاثرات
مولانا عصام الدین مدظلہ
پیر عتیق الرحمن صاحب کی باتیں بہت وزنی اور حقیقت پر مبنی ہوتی ہیں کیونکہ محترم تحقیقات کی روشنی میں اور مثبت دلائل کی بنیاد پر بات کرتے ہوئے مخالف کا منہ بند کرتے ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سے میری دعا ہے کہ پیر صاحب کی عمر، عمل اور علم و معرفت میں دن دگنی رات چوگنی ترقی نصیب ہو حضرت مولانا عصام الدین مدظلہ
ــــــــــ
سید عتیق الرحمن گیلانی
میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمیں مل بیٹھ کر ، چاہے وہ فوجی ہو، سیاستدان ہو مذہبی طبقہ ہو غلط رنگوں سے نکلو، اچھائی پر آؤ تاکہ پاکستان دنیا کیلئے بنے اور انشاء اللہ بنے گا۔ یقین ہے کہ سورہ دھر میں پاکستان کیلئے ملک کبیرکا ذکر ہوا۔ جس کی مسافت مشرق سے مغرب تک پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہوگی۔ ٹانک ڈیرہ اسماعیل خان سے حلالہ کا خاتمہ ہو تو فرقہ واریت اور سیاست بدلے گی۔
ــــــــــ
بیداری کی تحریک: نوشتہ دیوار
تحریر: ظفر اقبال جتوئی
نوشتہ دیوار کوئی عام ماہنامہ نہیں، یہ ایک ایسی فکری تحریک ہے جس نے شعور کی شمعیں جلانے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ اس کا مقصد خبروں کی دوڑ میں شامل ہونا نہیں بلکہ ایک ایسی فکر عام کرنا ہے جو قاری کو صرف پڑھنے والا نہیں، سوچنے، سمجھنے اور معاشرے میں تبدیلی لانے والا انسان بنا دے۔ یہ اخبار کسی طاقتور سرپرستی، اشتہار یا تجارتی مقصد کے بغیر صرف علم بانٹنے کے جذبے سے نکلتا ہے، اور یہی اس کی اصل قوت ہے۔
عتیق گیلانی کی قیادت میں نوشتہ دیوار نے یہ ثابت کیا ہے کہ جب فکر مضبوط ہو تو کسی بڑے مالی سہارے کی ضرورت نہیں رہتی۔ وہ ہمیشہ کہتے ہیں اگرآپ مجھے پڑھ رہے ہیں تو کل کوئی دوسرا آپ کو پڑھے گا۔ یہی جملہ اس تحریک کا محور ہے۔ یہاں قاری محض سامع نہیں رہتا، بلکہ قافلے کا حصہ بن جاتا ہے، یہی وہ سوچ ہے جس نے خانپور اور وسیب کے درجنوں نوجوانوں کے اندر نئی روح پھونک دی ۔
خان پور کا نوجوان شاہ نواز اسی فکر کا روشن چراغ ہے۔ وہ کبھی خاموش قاری تھا، مگر نوشتہ دیوار سے جڑنے کے بعد اس نے اپنی سوچ بدل ڈالی۔ آج وہ خود اپنے علاقے میں بیداری کا پیغام پھیلا رہا ہے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ تحریک کسی ایک فرد کا قصہ نہیں، یہ ان سب نوجوانوں کا سفر ہے جنہوں نے اس اخبار سے فکر کی غذا لی اور پھر اسے دوسروں تک پہنچایا۔
نوشتہ دیوار کی سب سے بڑی خوبی اس کا غیر روایتی مزاج ہے۔ یہاں کوئی طاقتور اشتہار بازی نہیں، کوئی خالی نعرہ نہیں صرف علم، دلیل اور شعور ہے۔ یہ اخبار قاری کو یہ احساس دلاتا ہے کہ اس کا وجود اہم ہے، اس کی آواز معنی رکھتی ہے، اور اس کے خیالات دنیا بدل سکتے ہیں۔ یہی سوچ ہر اس نوجوان کو حوصلہ دیتی ہے جو اپنے آپ کو کمزور سمجھتا ہے۔
خان پور کے گلی کوچوں میں اب یہ نام اجنبی نہیں رہا۔ نوجوانوں کی محفلوں میں جب نوشتہ دیوار کا ذکر آتا ہے تو ساتھ ہی بیداری کا لفظ بھی گونجتا ہے۔ یہ اخبار اب صرف ایک مطبوعہ رسالہ نہیں بلکہ فکری روشنی کا چراغ بن چکا ہے، جو ایک ایک ذہن کو جگا رہا ہے۔شاہ نواز جیسے نوجوانوں کی زندگیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ نوشتہ دیوار نے سوچ بدل دی ہے۔ یہ اخبار اپنے قاری کو خبر نہیں دیتا بلکہ اسے خود ایک زندہ خبر بنا دیتا ہے۔ وہ شخص جو کل تک قاری تھا، آج مبلغ، راہ دکھانے والا اور روشنی پھیلانے والا ہے۔یہ تحریک کسی وقتی جوش کا نام نہیں بلکہ ایک مسلسل فکری سفر ہے۔ نوشتہ دیوار یہ پیغام دیتا ہے: پڑھو تاکہ تم بدل سکو، بدلو تاکہ معاشرہ بدلے۔ یہی وہ فکر ہے جو ایک فرد کو قوت دیتی ہے اور پھر اسی قوت سے پورا قافلہ اٹھتا ہے۔
نوشتہ دیوار نے یہ بات منوا لی ہے کہ اگر اخبار کا نظریہ صاف، فکر مضبوط اور سمت واضح ہو تو وہ معاشرتی انقلاب کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ یہی وہ بیداری کی تحریک ہے جو آج خان پور میں ہے، کل وسیب کے ہر گوشے میں ہوگی۔
ــــــــــ
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ نومبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
نوشتہ دیوار اکتوبر ایڈیشن 2025
امام مہدی کا زمانہ:شیخ تامر ابراہیم
السلام علیکم بڑی ریاستوں کی خفیہ ایجنسیاں امام مہدی کی تلاش میں ہیں۔ وہ خوابوں پر ایمان رکھتے ہیں ۔ صدر جمال عبدالناصر نے خواب سناکہ مشرقِ وسطی سے جوان اٹھے گا تو تعبیر والوں سے پوچھا کہ میں ہوں؟ جواب ملا: نہیں، وہ ابھی پیدا نہیں ہوا۔ یہ بات 50 کی دہائی 1960ء سے پہلے کی ہے۔ہولناک خواب کو حالات کی سنگینی کے پیشِ نظر دہراتا ہوں۔1979ء میں شامی صدر حافظ الاسد نے خواب دیکھا کہ ننھا بچہ پیدا ہوگا ، یہ خواب فرعون کے خواب جیسا تھا جب اس نے دیکھا ایک بچہ اس کی سلطنت کو ختم کرے گا۔وہ معبروں کے پاس گیا،جیسے یوسف کے دور میں سات موٹی گائے کو سات دبلی گائے کے کھا جانے کی تعبیر پریشان خواب کی گئی، مطلب نہیں۔ مگر اس نے خواب کو سنجیدگی سے لیا اور بچوں کو قتل کرنا شروع کیا۔1979 کے بعد وہ نومولود بچوں کو قتل کراتا رہا ، حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کیے۔ یہ شام کی عوام اچھی طرح جانتی ہے۔ لوگ پوچھتے کہ آخر کیوں نومولود بچوں کو قتل کرتے ہو؟ تو وہ جواب دیتا: یہ مخالفین اور دہشتگردوں کے بچے ہیں لیکن وہ جانتا تھا کہ اس کی حکومت کا خاتمہ اسی بچے کے ہاتھوں ہوگا۔ یہ عرب بادشاہت کا خاتمہ کرے گا۔
رسول اللہ ۖ نے خبر دی کہ عربوں کی بادشاہت کا اختتام مہدی کے ظہور پر ہوگا۔ حیران ہوں کہ حکمران ،بادشاہ حقیقت سے کیوں گھبراتے ہیں؟ ہم نہ برا بھلااور گالی دے رہے ہیں، نہ زبردستی کرسیوں سے اتارنے جا رہے ہیں،اگر اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور نبی ۖ کی احادیث پر یقین رکھتے ہیں تو جان لیجیے کہ مہدی حق ہیں۔ حرمین کے حکمران لاکھوں کروڑوں خرچ کر رہے ہیں تاکہ ڈرامہ بنا کر یہ ثابت کریں کہ امام مہدی کا تصور دھوکہ ہے، یا یہ کہ جو مہدی کے دعوے دار سب فتنہ پرور ہیں۔ وہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ مہدی کا تصور پاگل لوگوں کا دھوکہ ہے یا مجرموں کا بہانہ۔ صحیح احادیث ہیں کہ آخری زمانے میں امام مہدی آئیں گے۔یہ کہنا کہ آخر الزمان نہیں آیا اور مزید ہزاروں سال باقی ہیں، بالکل بے بنیاد بات ہے۔ چودہ سو سال بعد بھی اگر آپ نہیں مانتے تو کب مانیں گے؟ کیا یہود کی طرح مزید دو تین ہزار سال زندہ رہنے کی امید لگائے بیٹھے ہیں؟ یہ بالکل غیر منطقی ہے۔اللہ آپ سب کو برکت دے۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اکتوبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv