پوسٹ تلاش کریں

اب توپاکستان کے ایک نئے دور کا آغازہواچاہتا ہے! سید عتیق الرحمن گیلانی

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

زرداری چور کو پکڑنے والے شہباز شریف اور نوازشریف خود چور نکلے لیکن ان دونوں چوروں کو پکڑنے والے تحریکِ انصافی بھی چور بن گئے ہیں۔ کیا یہ سلسلہ جاری رہے گا؟۔ ریاستِ پاکستان سود تلے آئی ایم ایف اور دوسرے ممالک کی اب لونڈی بن چکی ہے اور اس کو لونڈی بنانے تک پہنچانے والے مقدر طبقات کی گرفت موجودہ عدالتی ، مارشل لائی اور پارلیمانی نظام سے بالکل بھی ممکن نہیں ہے۔
آئینِ پاکستان میں قرآن وسنت کا نظام ہے۔ قرآن میں چوروں کے ہاتھ کاٹنے کی سزا ہے۔ فقہاء کا اس بات پر اختلاف ہے کہ ہاتھ کہاں سے کاٹے جائیں تو منتخب حکومت پارلیمنٹ کے ذریعے سے یہ متفقہ قانون پاس کرے کہ چوروں کی کیٹہ گری کا تعین کیا جائے۔ 7سٹار چوروں کے ہاتھ کاندھوں تک کاٹے جائیں اور 5سٹار چوروں کے ہاتھ کہنیوں تک کاٹے جائیں اور 3سٹار چوروں کے ہاتھ کلائی سے کاٹے جائیں اور ان کے خاندانوں کو بھی اس سزا میں برابر کا شریک کیا جائے۔
البتہ ساری دولت بمعہ منافع لوٹائی جائے تو پھر ان کو اس شرط پر معاف کرلیا جائے کہ آئندہ تمہاری نسلیں بھی اس فیلڈ میں خدمات انجام نہیں دیںگی اور پہلے کا جس طرح کفر معاف ہے اسی طرح چوروں کیلئے اسلامی جمہوری تعزیر بھی معاف۔ لوگ بھوک وافلاس سے مررہے ہیں اور یہ لوگ مسائل کی طرف توجہ نہیں دیتے ہیں بلکہ وسائل پر لڑرہے ہیں۔ حکمران کوئی بھی ہو ،اس سے فرق نہیں پڑتا لیکن عوام اب عدل وانصاف چاہتے ہیں جو ان کو جی کر بھی نہیں ملتا ہے اور مرکر بھی نہیں ملتاہے۔
دنیا بھر سے لوٹی ہوئی دولت واپس لائے بغیر پاکستان کے قرضے ختم نہیں ہوسکتے ہیں۔ جب تک قرضوں کے سود سے چھٹکارا حاصل نہیں کیا جائے تو بھاری بھرکم ٹیکسوں اور مہنگائی سے عوام کی جان نہیں چھوٹ سکتی ہے۔ پاک فوج میں اکثر اچھے ہی لوگ ہیں، سیاستدانوں میں بھی اکثر اچھے لوگ ہیں ، مذہبی طبقات میں بھی اکثر اچھے لوگ ہیں اور عوام میں بھی اکثر اچھے لوگ ہیں۔ ایک خوشحال انقلاب کیلئے کچھ کرپٹ عناصر کی قربانی اب مجبوری بن گئی ہے۔ ان لوگوں سے شرم وحیاء نکل گئی ہے اور حدیث میں آتا ہے کہ جب حیاء چلی جائے تو جو مرضی کرو۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندرمودی سے عمران خان بھی کم نہیں ہے لیکن زردای، نوازشریف، فضل الرحمن، پرویز الٰہی ، بھائی لوگ ایم کیوایم والے اور بلوچستان کی سیاسی لیڈر شپ کے نمونے بھی کوئی غنیمت نہیں ہیں۔ اگر محمود خان اچکزئی ایک غریب ٹریفک اہلکار کی موت پر عدالت کے اس فیصلے کے حوالے سے آواز اٹھاتا جو دن دیہاڑے مجید اچکزئی نے کچل دیا تھا تو انقلاب کیلئے اس کے نعرۂ تکبیر میں بڑی جان ہوتی اور فضل الرحمن کی امامت میں ایک بہت بڑا انقلاب برپا ہوجاتا مگر بے عملی سے منافقین کا ٹولہ نااہل ہونے کا ثبوت دے رہاہے۔ مولانا فضل الرحمن نے طالبان کے خلاف ریاست کا ساتھ دے کر کوئی احسان نہیں کیا بلکہ پختونخواہ کی پوری حکومت، بلوچستان کی آدھی حکومت اور کشمیر کمیٹی کی چیئرمینی کا اپنا مفاد حاصل کیا اور طالبان کیساتھ جان گنوانے کی قیمت پر حکومت بھی زبردستی سے دھکیلتی تو نہیں جاسکتا تھا۔ اس کا تویہ پتہ بھی کسی کو نہیں چلتا تھا کہ طالبان کیساتھ ہے یا ریاست کے ساتھ ہے؟۔ لیکن ریاست کا خود بھی یہ پتہ نہیں چلتا تھا کہ وہ طالبان کو پیدا کررہی ہے یا ختم کررہی ہے۔
صلاح الدین ایوبی کا تعلق کردستان سے تھا جہاں پر ترکی، ایران اور عراق اپنے اپنے مفادات کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ کرد قبیلے کا ایک شہر کانیگرم وزیرستان کی سرزمین پر بھی آباد ہے۔ سلمان فارسی اصل میں کرد تھے۔ سید عبدالقادر جیلانی کے شہر گیلان کا تعلق بھی ایران کے کردستان سے تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام عجم تھے اور نبیۖ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی وجہ سے بعد میں عرب بن گئے تھے۔ اس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی کرد تھے اور نبیۖ نے حضرت سلمان فارسی کو اپنے اہلبیت میں شمار کیا تھا۔ عربی میں مدینہ شہر کو کہتے ہیں۔ وزیرستان کا مرکزی شہر کانیگرم بھی شہر کے لفظ سے مشہور ہے۔ افغانستان کے بادشاہ نے کانیگرم میں اپنے لئے جس جگہ قلعہ کیلئے جگہ مانگی تھی مگرہمارے آباء واجداد نے دینے سے انکار کیا تھا، اب وہی جگہ کانیگرم کے باشندگان نے اپنی پاک فوج کو اپنے افسران کے کہنے پر دی ہے۔ آئی ایس آئی کے اس افسر کے بھائی گلشاہ عالم کو طالبان نے اپنے ابتدائی دور میں لاپتہ کیا تھا اور آج تک اس کا کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے لیکن جب طالبان نے انگریزوں کو اسامہ بن لادن کی تلاش میں کانیگرم تک لانیوالے گائیڈ ہمارے عزیز پیر زبیر شاہ کو پکڑ لیا تو TV چینلوں پر خبر کی سلائیڈ چلنے کے 5منٹ بعد طالبان کے ترجمان نے خبر جاری کردی کہ پیر زبیرشاہ اور ایک سومرو صحافی کو رہا کردینگے۔
ہم نے طالبان کی منافقانہ جنگ اور قوم کی منافقانہ پالیسوں کی ایک ایک چیز کادیکھ لی ۔ فوج کے جوانوں اور افسران سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں لیکن سب چیز کا موردِ الزام انہی کا ٹھہرانا انتہائی بھونڈی حرکتیں ہیں۔ پوری محسود قوم میں طالبان کے ہم سے زیادہ سپوٹر کوئی نہیں تھے اور ہم سے زیادہ طالبان کے کوئی شکار بھی نہیں ہوئے اور ہم سے زیادہ منافقانہ اور بے غیرتی کا کردار بھی کسی نے ادا نہیں کیا ہے۔
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق نے ابلہ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
بہت ہی قابلِ احترام بزرگ سیاسی رہنما محمود خان اچکزئی نے اپوزیشن کے جلسے میں کہا کہ افغانستان وپاکستان کے درمیان باڑ کو اکھاڑ پھینک دیںگے تو تاجر سے زیادہ اسمگلر طبقہ بڑا خوش ہواکہ پورے پاکستان میں کسٹم کے بغیر اسمگلنگ کا راستہ کھل جائیگا۔ لیکن جب چمن بارڈر پر سختی شروع ہوگئی اور بلوچوں کے راستے سے اسمگلنگ کا مال آنا شروع ہوگیا تو پختون تاجروں کا راستہ بند ہوا۔کوئٹہ جلسہ میں محمود اچکزئی اور اختر جان مینگل نے ایکدوسرے کی کاٹ کی اور ملتان جلسے میں اختر جان مینگل کی محمود خان اچکزئی نے تائید اور توثیق کی۔ حالانکہ تحریک انصاف کی حکومت چھوڑنے کی عدت بھی اختر جان مینگل نے ابھی پوری نہیں کی ہے اور بلوچوں کی جو اجتماعی قبریں دریافت ہوئی ہیں اور آواران میں پختون ایف سی اہلکاروں نے جو انکے گھروں کو جلایا ہے تو اس کی ساری ذمہ داری مریم نواز کے بابا نوازشریف پر ہی پڑتی ہے۔ گوادر کو بلوچستان کے دارالخلافہ کوئٹہ سے چھین کر پنجاب کے تختِ لاہور تک پہنچانے والانوازشریف نے ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کے علاقہ سے موٹر وے گزارنے کا کام کیا تو مزاحمت کاروں کے گاؤں فوج کو مسمار کرنے پڑے ۔ڈاکٹر اللہ نذر نے غدار سیاسی قیادت کی وجہ سے مزاحمت کا فیصلہ کیا۔ محمود اچکزئی، مولانا فضل الرحمن اور اختر جان مینگل نوازشریف کیلئے سہولت کار نہ ہوتے تو پاک چین دوستی میں گوادر سے کوئٹہ اور پشاور مالا مال ہوتے۔ سرائیکیوں کو صوبہ دینے میں بہاولپور کے نام پر ن لیگ نے ہی منافقت کا بازار گرم کیا تھا لیکن اس نوازشریف کی مکار بیٹی مریم نواز بھٹو سے لیکر یوسف رضا گیلانی تک اپنے باپ کا سارا کردار بیان کرتے ہوئے شرم بھی محسوس نہیں کرتی ہے۔ قارئین اعتدال کا راستہ صراط مستقیم ہے جو پلِ صراط سے زیادہ مشکل ہے۔ گرتے پڑتے خود کو اس پر چلانے کی کوشش کرنی ہے اور بلند بانگ دعوے اور نعرے نہیں لگانے ہیں ۔ دوسری طرف منافقت کا بدترین راستہ ہے جو کفر اور اسلام کے درمیان ادھر ادھر دونوں کے درمیان بہت ہی قابل مذمت ہے۔

وزیرستان کی عوام میں اسلام کو نافذ کرنے کی صلاحیت۔ سید عتیق الرحمن گیلانی

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

جب پاکستان اور ہندوستان کو انگریز نے آزاد کردیا تو افغانستان کے بادشاہ امیر امان اللہ خان کا بیٹا مدراس بھارت کی جیل سے آزاد ہوا۔ حالانکہ افغانستان میں اسکے کزن نادر شاہ اور ظاہر شاہ کی حکومت تھی۔ اس بات سے افغانی یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ ان کا دشمن دوسرا نہیں، جب تک خود ایکدوسرے کی دشمنی اختیار نہ کریں۔ جب پاکستان کی آزادی کے بعد بھی انگریز کی باقیات نے امیر امان اللہ خان کے خاندان کو مجرم سمجھا تو پاکستان کے سیاستدانوں اور بیوروکریسی کو بھی اپنے گریبان میں جھانکنے کی سخت ضرورت ہے۔امیرامان اللہ خان کا بیٹا جنڈولہ فقیر بیٹنی کے پاس پہنچا لیکن اس نے کہا میں پاکستان کی حکومت سے تمہیں نہیں بچا سکتا ہوں اور یہ مشورہ دیا کہ محسود قبائل میں یہ طاقت ہے کہ وہ افغانستان اور پاکستان سے آپ کو پناہ دے سکتے ہیں ، چنانچہ عبدالرزاق بھٹی آف شیخ اُتار علاقہ گومل ضلع ٹانک ڈیرہ اسماعیل خان امان اللہ خان کے بیٹے کو سردار امان الدین کے دادا رمضان خان کے پاس لے گئے۔ رمضان خان نے اس کو پناہ دیدی۔ پھر جب وہ اپنی مرضی سے کسی وقت پاکستان کے سیٹل ایریا میں آئے تو حکومت نے اس کو گرفتار کرلیا۔ جیل ہی میں عبدالرزاق بھٹی نے کیمونسٹ نظریہ سے توبہ کرکے جماعت اسلامی میں شمولیت بھی اختیار کرلی۔ پاکستان کی ریاست کا اس امیر امان اللہ خان کے بیٹے سے یہ سلوک تھا جس کی حکومت کی بحالی کیلئے علامہ اقبال نے چندہ مہم سے باقاعدہ کوشش کی تھی۔
جب افغان جہاد سے لوگ امریکی ڈالر کما رہے تھے تو وزیرستان اور قبائل نے اس میں کوئی حصہ نہیں لیا تھا۔ کچرہ چننے والے افغانیوں کی جانوں پر رقم بٹورنے والے مجاہد علماء ، رہنما اور جرنیل کوئی اور ہی تھے۔ اگر ہمایون اختر اور اسکے بھائی کی دولت کچرہ چننے والے افغانیوں میں بانٹ دی جائے تو ہمارا افغانستان کیساتھ بھائی چارہ بحال ہوگا۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو حوالے کرنے والی ہماری پاکستانی ریاست اس بات کو سمجھ لے کہ تحریک انصاف کے سابق رکن اسمبلی جناب داوڑ کنڈی کا والد ہیروئن کیس میں کراچی سے پکڑاگیا اور جیل سے وزیرستان پہنچا تو امریکہ اور دنیا بھر کے دباؤ پر فوج کو استعمال کرنے کی دھمکی پر بھی وزیرستان کی عوام نے اس کو حوالہ کرنے سے انکار کیا تھا، اسی طرح جب ایمل کانسی نے وزیرستان کی سرزمین پر پناہ لی تو اس پر آنچ نہیں آئی لیکن مقتدر طبقات نے دھوکہ کرکے اس کو بھی امریکہ کے حوالے کیا تھا۔ افغان حکومت پر ہماری ریاست کے کٹھ پتلی صحافیوں نے ہمیشہ سخت تنقید کی ہے لیکن یہ نہیں دیکھا ہے کہ ہمارے اپنے کرتوت کیا ہیں؟۔
27اکتوبر یوم طلبہ یونین آزادی کے موقع پر ان عمر رسیدہ خواتین کو دکھایا گیا جو طلبہ یونین سے لاعلمی کا اظہار کررہی تھیں لیکن وہ ریاست سے شکایت کررہی تھیں کہ ہیروئن پر قابو نہیں پایا جارہاہے جس سے ہماری نوجوان نسل تباہ ہورہی ہے۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ افغان طالبان کو بینظیر بھٹو نے امریکہ کے کہنے پر بنایا تھا اور اس کیلئے پختون جنرل نصیراللہ بابر استعمال ہوا۔ امریکہ کا مقصد وہاں ہیروئن کی کاشت تھی اور جب طالبان نے ہیروئن کی کاشت بند کردی تو امریکہ کے ڈرگ اور اسلحہ مافیا نے افغانستان کے بعد عراق ، لیبیا اور شام پر جنگوں کو مسلط کیا تھا اور جس شدت پسندی کو بلیک واٹر کے ذریعے کھڑا کیا وہ دنیا کیلئے ڈراؤنا خوب بن کر رہ گیا۔ امریکہ اس دہشت گردی کے مقابلے میں ایک طرف صوفیت کو لایا تو دوسری طرف توہین رسالت کے حوالے سے پارہ چڑھادیا، جسکے پیچھے جو یہودی لابی کام کررہی ہے ،اس کا توڑ صرف اور صرف وزیرستان کے لوگ ہی کریں گے۔ مولانا اکرم اعوان نے قسم کھاکر کہا تھا کہ ” وزیرستان کے لوگوں سے اللہ نے دنیا کی امامت کا کام لینا ہے”۔ علامہ اقبال نے بھی محراب گل افغان کے تخیلاتی نام سے وزیرستان کے محسود اور وزیر کا ذکر کرکے ان سے شکایت کی ہے کہ ابھی یہ خلعت افغانیت سے عاری ہیں لیکن ان میں کوئی نہ کوئی ایک مرد قلندر ضرور پیدا ہوگا۔
ایک فرد سے کچھ نہیں ہوتا بلکہ فرد کی قوم میں ایسی صفات کا ہونا ضروری ہے جو امامت پراکثریت میں صادق آتی ہوں۔ وزیرستان کے لوگ ہی تھے کہ جب دنیا طالبان اور افغانستان کے خلاف جنگ کررہی تھی تو بھگوڑوں کو محسود اور وزیر پناہ دے رہے تھے۔ امریکہ کو شکست دینے کے بدلے ہر قسم کی قربانی کیلئے یہ قوم تیار تھی لیکن بد قسمت قوم کی قیادت ایک طرف آلتو ،فالتو اور پالتو طالبان کے ہاتھ میں تھی اور دوسری طرف انگریز کا کچرہ قبائلی عمائدین قوم کی نمائندگی کررہے تھے۔ جس کی وجہ سے وزیرستان کے لوگ فوج اور طالبان کے درمیان چکی کے دوپاٹوں میں پیس کر رکھ دئیے گئے۔ فوج اور طالبان کے درمیان سیاسی اور مذہبی دلالی کرنی والی قیادت نے عوام کو ریلیف دینے کیلئے کوئی کردار ادا نہیں کیا تھا۔ جب نقیب شہید کے مسئلے پر محسود قبائل کا لشکر اسلام آباد پہنچا تو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ملاقات میں ان کو ڈرا دھمکا کر بھیج دیا کہ ” ہماری دوتہائی اکثریت تھی، وزیراعظم نوازشریف کو فوج نے وزیراعظم ہاؤس سے پکڑ لیا تو عام لوگوں کی کیا اوقات ہے کہ فوج سے لڑسکے”۔ محسود قبائل کالشکر سرکاری ملکان کیساتھ راتوں رات دھرنے کو چھوڑ کر بھاگ گیا۔ ہم نے نوجوانوں کا درد محسوس کیا اور شام غریباں میں حوصلہ دیا کہ وزیراعظم نے تم سے گیم کرلیا۔ فوج پر تنقید سے بھی کچھ نقصان نہیں پہنچے گا۔ ریاست کو ایسے مخلص لوگوں کی ضرورت ہے کہ جو ملک وقوم کیلئے کام کریں۔ یہ جو دہشت گردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے کا نعرہ لگانے میں بھی حرج نہیں۔ اپنی تحریک کی بنیاد دوچیزوں پر رکھ لو۔ ایک دل کا درد اور دوسرا تعصبات سے پرہیز۔ فوج کے خلاف کیا سے کیا کچھ بولنے والے اقتدار کی دہلیز پر پہنچ سکتے ہیں لیکن تعصبات ابھارنے والے ناکام ہی ہوتے ہیں اور ان کی آخری منزل دلالی کے سوا کچھ نہیں ہوتی ہے۔
PTMکے دھرنے میں اسٹیبلیشمنٹ کے مہروں کو تقریر کی اجازت مل گئی۔ ن لیگ، تحریک انصاف ، مولانا فضل الرحمن، سپاہِ صحابہ کے رہنما مگر پیپلزپارٹی کو جذبہ خیر سگالی کی اجازت بھی نہیں دی جارہی تھی۔ آج محسن داوڑ کہتا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کا مشکور ہوں جس نے کراچی، کوئٹہ اور ملتان کے جلسے میں مدعو کیا تھا۔ ن لیگ کی مریم نواز نے PDMمیں شامل ہونے کے باوجود PTMکو گجرانوالہ میںنہیں بلایا تھا جس کا PTMوالوں نے شکوہ بھی کیا تھا۔ پشاور جلسے میں PDM کی میزبان جمعیت علماء اسلام اور ANPتھے۔ یہ دونوں بھی ن لیگ کے دلال ہیں اور ان کی وجہ سے PTMکو پشاور کے جلسے میں آنے نہیں دیا گیا۔ اگرمولانا فضل الرحمن اور اسفندیار ولی کو پختونوں سے باہر کیا جائے تو پختونوں کی اکثریت بالکل بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے اسلئے منظور پشتین نے مولانا فضل الرحمن اور محسن داوڑ نے ANPکے دامن کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا ہے۔ البتہ قبائل میں بالخصوص اور سیٹل ایریا میں بالعموم PTMہی جمعیت علماء اسلام اور اے این پی کیلئے ایک نئی سوکن ہے ،اسی وجہ سے ایکدوسرے پر اسٹیبلیشمنٹ کے ایجنٹ ہونے کے الزامات بھی شروع ہوگئے ہیں۔ دنیا بھر سے ہیروئن کا خاتمہ نہیں ہوسکتا لیکن وزیرستان کی عوام کو اللہ نے یہ طاقت دی ہے کہ ہیروئن کا خاتمہ کرسکتے ہیں،اس طرح اسلام کیلئے بھی یہ لوگ زبردست کردار ادا کرسکتے ہیں۔ منظور پشتین نے عورت کے حقوق کیلئے آواز اُٹھاکر آغاز کردیا اور عوام بھی بڑے پیمانے پر حقائق کی طرف جاسکتے ہیں۔

موجودہ گھمبیر صورتحال میں مملکت کی درست رہنمائی!سید عتیق الرحمن گیلانی

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

پاکستانی عدلیہ کے مایہ ناز، قابلِ فخر ایماندار چیف جسٹس سیٹھ وقار کی وفات اور دیوبندی سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی طرح بریلوی کی شاندار شخصیت علامہ خادم حسین رضوی کا ایک ایسا خلاء ہے جو برسوں پورا نہیں کیا جاسکے گا۔ چیف جسٹس سیٹھ وقار اور علامہ خادم حسین رضوی سے ہزار اختلافات کے باوجود انکے خلوص، ایمانداری اور عوامی مقبولیت سے انکار کرنا سورج کو انگلیوں سے چھپانا ہے۔ فوج وسول اعلیٰ قیادت کی طرف سے دونوں کیلئے ایک یادگاری تقریب میں خراج عقیدت پیش کیا جائے۔
ڈاکٹر شاہد مسعود صحافی نہیں ڈاکٹر ہیں اور ڈاکٹراسرار عالمِ دین اور پی ایچ ڈی نہیں ایم بی بی ایس ڈاکٹر تھے۔ پنجاب کو خطابت کا فن قدرت نے دیا ہے۔ مسخروں سے لیکر سنجیدہ افراد تک ایک سے ایک خطیب پنجاب کی زر خیزمٹی سے مل سکتا ہے، زبان کی فصاحت انکے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے لیکن خلوص کا پایا جانا جس کی تصدیق اپنے اور پرائے سب کریں، سیدعطاء اللہ شاہ بخاری کے بعد علامہ خادم حسین رضوی نے بڑی عوامی مقبولیت پائی ہے ۔قادیانیوں کو ڈاکٹراسرار نے اپنی جہالت سے قتل کا فتویٰ دیا تھا۔ مفتی محمود ، مولانا مودودی اور علامہ شاہ احمد نورانی نے یہ فتوی نہیں دیا تھا۔
رسول اللہ ۖ سے سچا عشق تمام مسلمانوں میں ہے۔جب تک انسان اپنے والدین، عزیز واقارب اور اپنی جان سے زیادہ رسول اللہ ۖ سے محبت نہ کرے تووہ مؤمن نہیں ہوسکتا ہے۔ البتہ محبت کے جذبات کو اپنے اپنے ماحول کے مطابق بھڑکانا بھی ایک فن ہے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ” بیشک بعض بیان سحر ہوتے ہیں”۔
اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضاخان بریلوی قندھار کے پٹھان تھے اور ہندوستان میں بریلی دو مقامات ہیں۔ ایک رائے بریلی اور دوسرا اُلٹا بانس بریلی۔ رائے بریلوی ہندوستان میں علمی مرکز تھا۔ شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید کے مرشد سید احمد بریلوی سے لیکر حقیقی معنوں میں شیخ العرب والعجم سید ابوالحسن علی ندویکا تعلق رائے بریلوی سے تھا۔ ادب اور علم کے لحاظ سے ہندوستان کا کوئی دوسرا شہر اس کا ثانی نہیں تھا۔ الٹا بانس بریلی تو بالکل جاہل، ان پڑھ اور لٹھ ماروں کا شہر تھا۔ ایک قندھاری پٹھان کو ماحول بھی جٹوں کا مل جائے تو سونے پر سہاگہ ہونا چاہیے تھا۔ تاہم مولانا احمد رضا خان بریلوی کے اندر عشق رسول ۖ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ شاہ ولی اللہ کے علمی خانوادے سے تصادم کا رسک ہر ایرے غیرے کا کام نہیں تھا۔ علماء دیوبند نے شاہ اسماعیل شہید کی تحریک اور کتابوں کو اس طرح سے قبول کیا جس طرح ملاعمر کی تحریک طالبان اور اقدامات کو اہمیت دی تھی لیکن پھر جس طرح طالبان نہ صرف اپنے پر تشدد مؤقف سے پیچھے ہٹے ہیں بلکہ علماء دیوبند کی بھی اب آنکھیں کھل گئی ہیں۔
اکابر دیوبند نے مولانا احمد رضاخان بریلوی کی وجہ سے تقلید کو دوبارہ قبول کیا بلکہ چاروں مسالک اور چاروں سلاسل سلوک کو شریعت کے مطابق قرار دیا۔ امام ابن تیمیہ نے چاروںفقہی مسالک کو دین میں تفرقہ قرار دیا تھا لیکن ان کی تحریک کامیاب نہ ہوئی ۔ شاہ اسماعیل شہید اور علماء دیوبند کی تحریک پر مولانا احمد رضا خان بریلوی نے گستاخانہ عبارات کے حوالے سے بھی گرفت کی جسکے بعد علماء دیوبند نے دوسروں پر بھی اپنی گرفت کا سلسلہ جاری رکھ کر مولانا احمد رضا خان بریلوی کی توثیق فرمائی ہے۔
پنجاب میں دیوبندی بریلوی فسادات کیلئے آگ کی چنگاریاں اورپیٹرول کا ذخیرہ موجود ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی کے پیروکار شیعہ سنی ،بریلوی دیوبندی اور حنفی اہلحدیث فرقہ وارانہ آگ بھڑکانے کی کوشش کرینگے تو پنجاب سے قادیانیت کا مرکز ربوا چناب نگر بھی اس آگ کی لپیٹ سے بچ نہیں سکے گا۔ محرم میں شیعہ سنی آگ بھڑکانے کی کوشش میں ناکامی کے بعد حنفی اہلحدیث اور بریلوی دیوبندی فسادات کی کوشش کامیاب ہوگئی تو پھر وہ خون خرابہ ہوگا جس سے ریاست اور حکومت بھی نہیں بچ سکے گی۔ ٹریک ریکارڈ یہ ہے کہ پہلے بھی فرقہ وارانہ فسادات کروائے گئے تھے۔
پاکستان خوش قسمت اسلئے ہے کہ سوشل میڈیا پر ناپاک عزائم رکھنے والے بھی اپنے خبثِ باطن کا پورا پورا اظہارِ خیال کرسکتے ہیں تو دوسری طرف غلط پروپیگنڈے سے ان کا چہرہ بھی بے نقاب ہوجاتا ہے۔ کچھ زر خرید یا جن کی سرشست میں خباثت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے انہوں نے پلاننگ کے تحت شوشہ چھوڑ دیا کہ جسٹس سیٹھ وقار اورعلامہ خادم حسین رضوی کو قتل کیا گیا ہے لیکن جنہوں نے علامہ خادم حسین رضوی کا کلپ چلادیا تو وہ اتنی عقل بھی نہیںرکھتے تھے کہ پوری بات بھی سوشل میڈیا پر ہے اور اسکے بعد ان کا خبثِ باطن بے نقاب ہوگایاپھر بھی شاید پیسوں کی خاطر کسی کی وکالت کرنے کا حقِ نمک ادا کرلیا۔ حکومت بہت بیکار ہے ورنہ ان نامی گرامی نام نہاد صحافیوں کو عوامی کٹہرے میں لاکھڑا کیا جاتا تاکہ آئندہ اس قسم کی حرکت نہ کرتے۔
جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر جاویدباجوہ سے پہلے دہشت گردی کا راج تھا۔ سلمان تاثیر کے بیٹے شہباز تاثیر اور یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کو لاہور اورملتان سے اغواء کرکے افغانستان پہنچایا گیا لیکن کسی میں آواز اُٹھانے کی جرأت نہیں تھی اور اب سیٹھ وقار اور علامہ خادم حسین رضوی کی طبعی موت کو بھی کھلم کھلا قتل قرار دیا گیاہے اور اس کا الزام فوج کے سر ڈالنے کی بہت ناکام کوشش کی گئی ہے۔
ڈاکٹر شاہد مسعود نے ان حالات میں فاطمہ جناح کے قتل پر اپنا پروگرام ریکارڈ کرایا ہے جس سے فوج کے بارے میں شکوک وشبہات کو عام کیا جارہاہے اور عمران خان سے کاشف عباسی نے انٹرویو لیا تھا جس میں وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ”سپاہِ صحابہ کے لوگ میرے پاس آئے کہ شیعوں سے ہماری صلح کراؤ، ایجنسیوں کے لوگ ہمیں استعمال کرکے ان کا دشمن بنادیتے ہیں”۔ اب آئی ایس آئی کے دفتر میں وزیراعظم عمران خان اورفوج کے سربراہوں کا اجلاس ایسے وقت میں جب اپوزیشن کے ملتان کا جلسہ روکنے کی تیاری تھی اور اسکے خراب نتائج نکلتے تو حکومت کیساتھ اپوزیشن ریاست کو بھی نشانہ بناتی۔ کیا یہ دانشمندی ہوسکتی ہے؟۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اپوزیشن فوج کو دھائی دے رہی ہے کہ ہمارا ساتھ دو، ورنہ ہم ریاست کے خلاف آواز اٹھائیںگے، اس کی وجہ سے حکومت اور ریاست کو ایک طرف دھکیلا جارہاہے ، تو دوسری طرف فوج کی منطق کہ حکومت کی تبدیلی پارلیمنٹ کے ذریعے سے ممکن ہے ،اگرچہ یہ منطق بالکل درست ہے لیکن جب سینٹ کے الیکشن کے نتائج دیکھے جائیں تو سب ایک ڈرامہ سے زیادہ کوئی سنجیدہ بات نہیں لگتی ہے۔ ریاست، حکومت اور اپوزیشن اپنی اپنی جگہ پر مجبور اور درست بھی ہیں اور غلط بھی ہیں ۔ سوشل میڈیا کا طوفان عوام الناس کے ذہنوں کو متأثر نہ بھی کرے تو بھوک وافلاس اور جبری نظام تنگ آمد بہ جنگ آمد کی طرف دھکیل رہاہے۔ عوام کی نظرمیں یہ گر چکے ہیں اور پاکستانی ریاست اور عوام کو ایک پیج پر لانے کیلئے اسلامی انقلاب ناگزیز ہوچکا ہے۔
اسلامی انقلاب سول وملٹری بیوروکریسی اور عوام کی ملی بھگت سے بھی اسلئے آیا چاہتا ہے کہ ریاستی قوت سے نہتے عوام طاقت کے زور پر لڑ نہیں سکتی ہے اور مقتدر طبقہ اپنے لئے اخلاقیات کا کوئی معیار بنانے کیلئے تیار نہیں جسکے نتیجے میں طبقات کی جنگ پر بیچاری عوام خوشیوں کے شادیانے بجائے گی اور آخر کار مقتدر طبقات بھی لڑمر کر آخری حد تک پہنچنے سے پہلے پہلے اقتدار کی نکیل کسی ایسے فرد کے سپرد کردینے میں عافیت سمجھیںگے جو کسی کا بھی کٹھ پتلی نہ ہو۔ اسلام کو عالم اسلام نہیں پوری دنیا ہی قبول کرے گی اور وہ اسلام ملا کا اسلام نہیں ہوگا بلکہ اللہ اور فطرت کا اسلام ہوگا۔

مذہبی مدارس میں سمجھ بوجھ کے باوجود حلالہ کرنے اور کروانے والے علماء و مفتیان لعنت کے مستحق ہیں

اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنَاتِ وَالْہُدٰی مِنْ بَعْدِ مَا بَیَّنَّاہُ لِلنَّاسِ فِی الْکِتَابِ اُولٰئِکَ یَلْعَنُہُمُ اللّٰہُ وَیَلْعَنُہُمُ اللَّاعِنُوْنَ (159) اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَبَیَّنُوْا فَاُولٰئِکَ اَتُوْبُ عَلَیْہِمْ وَاَنَا التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ (160)
بے شک جو لوگ ان کھلی کھلی باتوں اور ہدایت کو جسے ہم نے نازل کر دیا ہے اس کے بعد بھی چھپاتے ہیں جو ہم نے لوگوں کیلئے کتاب میں واضح کر دیاہے، یہی وہ لوگ ہیں کہ ان پر اللہ لعنت کرتا ہے اور لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں۔مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ کرلی اور اصلاح کر لی اوراس کا اعلان بھی کر دیا پس یہی لوگ ہیں کہ میں ان کی توبہ قبول کرتا ہوں، اور میں بڑا توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم والا ہوں۔سورہ بقرہ آیات 160-159

کتاب ”عورت کے حقوق” میں قرآن کی آیات اور احادیث اور اصولِ فقہ کے مسلمہ قواعد اور درس نظامی کے حوالے سے بالکل واضح کردیا ہے کہ اسلام نے جاہلیت کا حلالہ بالکل ختم کردیا تھا لیکن صحابہ کرام اور ائمہ اربعہ کے بالکل برعکس اسلام اجنبی بنادیا گیا۔ پھر بہت بعد کے فقہاء نے نہ صرف حلالہ کا جواز نکالا ، بلکہ اس کو کارِ ثواب بھی قرار دے دیا ۔ آج مدارس قرآن وسنت کی تعلیمات کے خلاف میاں بیوی میں تفریق اور حلالہ سینٹر بن چکے ہیں۔ جناب سینٹر مشاہداللہ خان ن لیگ کے رہنما سینٹ اور قومی اسمبلی میں یہ مسئلہ اٹھائیں۔ مولانا فضل الرحمن کو ہمارے ساتھ میڈیا پر بٹھائیں۔ مدارس کے علماء ومفتیان نے بھی حقائق کو سمجھ لیا ہے لیکن بعض اپنے مفادات کی وجہ سے مجبور ہیں اور بعض حلالہ کی لذت آشنائی سے محظوظ ہیں۔ جب تک ان کو بلڈوزر کے نیچے کچلنے کا خوف نہ ہو ، یہ ملعون اللہ کے احکام کو ماننے کیلئے کبھی آمادہ نہیں ہونگے۔ عورت جہالت کی وجہ سے قرآن وسنت کی غلط تشریح وتعبیر کی وجہ سے ہی حلالہ کی لعنت کا شکار ہورہی ہے۔ مدارس کے دارالافتاء کی حالت دیکھی جائے تو خواتین نے ایک ساتھ تین طلاق کی وجہ سے فتوؤں کی لائن لگارکھی ہوتی ہے۔ بڑے مدارس کا باشعور طبقہ اور مفتی صاحبان اس گھناونے کھیل کو سمجھ چکے ہیں لیکن سانڈ قسم کے مفتیوں کی دارالافتاؤں میں حکمرانی ہے۔ ریاست جس طرح پیپلزپارٹی اور ن لیگ سے نہیں ڈرتی لیکن مولانا فضل الرحمن کے مذہبی فتوؤں سے خائف ہے، اسی طرح مدارس کے شریف علماء ومفتیان بھی اپنے بدمعاش اور بدقماش طبقے سے عاجز نظر آتی ہے۔ ہماری مولانا فضل الرحمن سے استدعا ہے کہ دیگر سیاسی جماعتوں کیلئے اقتدار کی راہیں ہموار کرنے کے حوالے سے مذہبی کارڈ کو استعمال کرنے کے بجائے دین کی حقیقت سے حقیقی انقلاب کی طرف رجوع کریں۔ حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کی کتاب” عصر حاضر حدیث نبوی علی صاحبہا الصلوٰة والسلام کے آئینہ میں” مدارس کے جاہل علماء ومفتیان اور سیاست میں دین کی پاسبانی کی جگہ دنیا داروں سے مل کر خیانت کا ذکر ہے۔ اپوزیشن اور حکومت دونوں اقتدار کا کھیل کھیل رہی ہیں۔ علماء ومفتیان نے سودی نظام تک کو جائز قرار دیا ہے۔ مولانا مفتی محمود ، شاہ احمد نورانی اور مولانا مودودی موجود ہوتے تو ”عورت کے حقوق” کتاب کی وضاحتوں کے بعد یقینا حقائق کو مانتے اور سودی نظام کو جواز فراہم کرنے کو اسرائیل کی تسلیم سے بھی بدتر قرار دیتے۔ جن کو دیکھ کرشرمائے یہود نے اسرائیل اور مسئلہ کشمیر کو اپنے جرائم چھپانے کیلئے ڈھال بنایا ہوا ہے۔ ان لوگوں کو پیرا شوٹ کے ذریعے وہاں پہنچایاجائے تاکہ جہاد کا حق اداکریں اور یہاں فضول کی قوالیاں نہ گائیں۔

اگر رحمت للعالمینۖ کا یہ اسلام پیش کیا ہوتا تو سیاسی اور اسلامی انقلاب آچکا ہوتا۔

جاگیردارانہ نظام غربت، غلامی اور انسانی حقوق کی پامالی کیلئے بنیادی نرسری ہے اسلام کاشتکار کو زمین دینے کا حکم دیتا ہے اور مزارعت کو سود قرار دیتاہے

سیاستدان، جرنیل، جج اور جاگیردار طبقہ مزارعین کو مفت میں زمین کاشت کیلئے دیں یا پھر خود ہی کاشت کرنا شروع کریں تو غریب امیر کا فرق ختم ہوگا

اسلام میں غریب امیر کی خواتین پر بہتان لگانے کی ایک سزا ہے، سورۂ نور کی آیات سے دنیامیں رحمة للعالمینۖ کا دین پھیل کر انقلاب آجائے گا۔

انسانی حقوق کی علمبردار طلبہ تنظیموں تک ہماری کتاب ”عورت کے حقوق ” پہنچائی جائے تو مدارس کی جان حلالہ کی لعنت سے چھڑائی جائے۔ مدارس رشد وہدایت کی جگہ گمراہی کے قلعے بن چکے ہیں۔ اسلام بنیادی حقوق کے تحفظ کا ضامن ہے۔ اسلامی جذبہ ہے تو اپوزیشن کی ساری قیادت مولانا فضل الرحمن کے پیچھے کھڑی ہیں۔ درست اسلامی تعلیم کے کچھ نکات بھی منبر و محراب سے اُٹھنے شروع ہوگئے تو لیفٹ اور رائٹ ایک صف میں کھڑے ہونگے۔ علامہ خادم حسین رضوی نے اگر سورۂ نور کی آیات سے اپنی قوم کی رہنمائی کردی ہوتی تو بہت آسانی کیساتھ انقلاب آسکتا تھا۔ حضرت عائشہ پر بہتان کی سزا قرآن وسنت میں80کوڑے تھے اور عام غریب خاتون پر بھی بہتان لگانے کی سزا80کوڑے ہیں۔ اگر محمود خان اچکزئی نے ہماری بات مانی ہوتی اور مولانا فضل الرحمن کے اسلام آباد دھرنے میں رحمت للعالمینۖ کا یہ اسلام پیش کیا ہوتا تو سیاسی اور اسلامی انقلاب آچکا ہوتا۔ لیکن نعرۂ تکبیر اللہ اکبر کے نعرے عوام کو دھوکا دینے کیلئے ہیں۔ سیاسی اشرافیہ کبھی بھی عوام کی عزت وناموس کو اپنے برابر تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ عمار علی جان اور منظور پشتین جیسے جوانوں کو چاہیے کہ زرخرید صحافیوں کو متنبہ کریں کہ اسٹیبلشمنٹ کے علاوہ حکومتوں کے مزے اڑانے والے اشرافیہ کا بھی آلۂ کار نہ بنیں۔ ہرقسم کی طبقاتی تقسیم سے بالاتر ہوکر قوم کے مسائل کا اجتماعی حل نکالیںگے تو غریب کے مسائل حل ہونگے۔ اسلام کا زرعی نظام غربت کی لیکر سے نکالے گا۔

پاکستان میں ایک حقیقی انقلاب کی سخت ضرورت ہے!!

اداریہ: چوتھا کالم

تحری: سید عتیق الرحمن گیلانی

مریم نواز اور نوازشریف کا انقلاب یہ ہے کہ فوج عمران خان کی حمایت چھوڑ کر ہمارا ساتھ دے تو سب اچھا ہے۔ کچھ بے شرم ، بے غیرت، بے حیا، بے ضمیر اور بکاؤ مال قسم کے صحافی جن میں سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے کئی افراد شامل ہیں وہ فوج کی کردار کشی کرکے نوازشریف کو ایسا پیش کرتے ہیں جیسے بھوسہ سے گندم یا چاول کو نکالا جائے۔ شاہ زیب خانزادہ ، سید عمران شفقت اور راشد مراد وغیرہ کویہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ فوج میں جرنیل بدلتے ہیں اور ان کی پالیسیاں بھی بدلتی ہیں۔ ایوب خان ، یحییٰ خان ، ضیاء الحق،اسلم بیگ،وحیدکاکڑ،شیخ جہانگیر،ضیاء بٹ، پرویز مشرف، اشفاق کیانی، راحیل شریف اور قمر جاوید باجوہ سب ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ نوازشریف وہی نوازشریف ہے بدلا نہیں ہے۔ عدالت کے سامنے پارلیمنٹ کے بیان پر قائم نہیں تھا اور قطری خط سے بھی مکر گیا۔ پیسے لیکر جتنے مرضی تجزئیے پیش کرو لیکن گدھے کو گھوڑا بنانا ممکن نہیں ۔ میڈیا بکاؤ مال بن گیاہے۔
عمران خان وزیراعظم اسلئے بناتھاکہ وہ اداروں کوسدھارنے کی بات کرتا تھا مگر جو تحریک انصاف کو بگاڑگیا وہ اداروں کو بھی بگاڑ رہاہے۔ سندھ پولیس اہلکار نے کارنامہ انجام دیا ،تو وزیراعظم زبان کی حد تک نہ کہتاکہ چومنے کو جی چاہتا ہے بلکہ جس طرح بی بی بشریٰ کے کہنے پر پاک پتن کے مزار پر عملیات کا مظاہرہ کیا اس سے زیادہ حاضری دیکر عمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔ انٹریو میں کس قدر تضادات ہیں کہ باپ سے پیسہ نہیں مانگا ، ماں زبردستی سے پیسہ دیتی تھی ،خود کمایا، زندگی بھر پہلی مرتبہ ملک کی خاطر بھیک مانگی جس پر شرمندگی ہے۔ شوکت خانم کیلئے غیرملکیوں سے نہیں اپنوں سے بھیک مانگی۔ عوام اتنی بیوقوف نہیں ہے جتنا یہ لیڈر لوگ سمجھتے ہیں۔
عمران خانی دور میں ریاستی اہلکار رشوت کے ریٹ بڑھا کر کام کرتے ہیں۔ گورنر سندھ، وفاقی وزیرعلی زیدی،صوبائی رہنما علیم عادل شیخ اور سبھی لگے تھے کہ صفدر اعوان پر قائداعظم کے مزار کی بے حرمتی کا مقدمہ درج ہو۔ آخر کار رات گئے رینجرز اور آئی ایس آئی کو بھی استعمال کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آئی جی و پولیس کے اعلیٰ افسران سب چھٹی پر گئے۔ بلاول بھٹو نے آرمی چیف سے احتجاج کیا اور آرمی چیف نے نوٹس لیا۔ پولیس نے اطمینان کا سانس لیا۔ عمران خان اور اس کی حکومت کا یہ حال تھا کہ مفرور ملزم کے نام جھوٹی ایف آئی آر درج کرائی تھی۔ جو عمران خان خود کو صادق کہتا ہے ،اس کی پوری ٹیم نے جھوٹ بول کر اپنے لئے لعنت کا اہتمام کرلیا۔ پاک فوج کی بھی شلوار اتاردی اسلئے کہ نواز شریف نے کہا کہ” ثابت ہوگیا کہ حکومت کے اوپر کسی اور کی حکومت ہے”۔ پھر شبلی فراز نے کہا کہ پولیس کو اپنی نااہلی پر ایکشن لینا چاہیے۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ اس تحریک انصاف کی جماعت اور حکومت کا کیا کردار ہے جس نے یہ سارا فتنہ برپا کیا تھا؟۔ اس کا بس چلے تو ابھی مزیدپاک فوج کی قمیص بھی اتارکر ننگا کردے کیونکہ یہ اس کا وطیرہ ہے۔ صحافی صابر شاکر نے گجرانوالہ جلسے کے بعد بتایا تھا کہ حکومت اور فوج کے درمیان اعلیٰ سطح کے اجلاس میں فیصلہ ہوگیا ہے کہ آئندہ ہم نے نمٹناہے اور عمران خان نے منہ پر ہاتھ پھیر کرکہا تھا کہ ایک نیا عمران خان دیکھوگے۔ پھر ایکشن ہوگیا تو عمران خان چھپ کر ایسے بیٹھا جیسے کھڑک مرغی انڈوں پر بیٹھی ہو۔ پھر ایکشن سے لاتعلقی کا اظہار بھی کردیا۔ پشاور ہائیکورٹ میں اس کی بیٹی کو چھپانے کا کیس زیرسماعت تھا، اطلاع کے مطابق اگلی پیشی پر سیٹھ وقار احمد نے فیصلہ کرنا تھا جس کو خاموشی میں کورنا نے نگل لیا۔ علامہ خادم حسین رضوی مولانا سمیع الحق کی طرح مارے نہ گئے ہوں۔ الطاف حسین، نواز شریف کو برطانیہ سے لایا جائے لیکن عمران خان کی بیٹی بھی لائی جائے تاکہ جھوٹے لیڈر عوام کے سامنے ایک دم بے نقاب ہوجائیں۔ صحافیوں کو بھی الٹی سیدھی صحافت کی پرواہ نہیں بلکہ لفافوں سے بھتے وصول کرکے اپنی خدمات انجام دیتے ہیں لیکن ایک بڑا طبقہ بہت اچھے صحافیوں کا بھی ہے اور وہ بالکل غیرجانبدار صحافت کرتاہے۔
ریاست کی بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ شروع سے بیکار قیادت سے واسطہ پڑا۔ انگریز کی سول اور ملٹری بیوروکریسی نے بیجا ترقی پائی تو نابالغ مرغے وقت سے پہلے آذان دینے لگے۔ پہلے بھی جمہوریت نہ تھی۔صدر سکندر مرزا کو ایوب خان نے گرفتار کرکے مارشل لاء لگایا تو استقبال مادر ملت نے کیا جنرل ایوب نے جمہوریت کی بنیاد رکھی تو مادرملت فاطمہ جناح مقابلے میں آئیں۔ ذوالفقار علی بھٹو غیر جمہوری عمل سے اقتدار کی دہلیز پر پہنچے تو اپوزیشن کی قیادت کو پھانسی گھاٹ تک پہنچایا۔ پھر اس ریاست گردی کا شکارہوگئے جس کو آلۂ کار بناکر دوسروں پر راج کیا۔ عدالت نے اپوزیشن قیادت کو چھوڑ کر اسی کو پھانسی دی۔ ریاست نے پھرنوازشریف کو پالا۔ زیادہ دن نہیں ہوئے کہ نوازشریف اور اس کی انقلابی بیٹی کڑک مرغی بن کر خاموشی سے انڈوں پر بیٹھے تھے۔ جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن بھی کردی مگر اچانک کڑک پن ختم ہوگیا اور سیاست کے میدان میں انقلابی بن گئے۔ خدا کا نام مانو،بس کروبس۔
تبلیغی جماعت نے حاجی عثمان کے خلاف شخصیت پرستی کا پروپیگنڈہ کیا لیکن خود صاحبزادگی کا شکار ہوگئی، مولانا انعام الحسن کے بیٹے زبیرالحسن اور مولانا الیاس کے پڑپوتے مولانا سعد کے درمیان کسی ایک کو نامزد کرنے پر جماعت دولخت بننے کے خطرے سے نہیں نمٹ سکتی تھی۔ جو جماعت چند منٹ کے گشت کیلئے امیر بنالیتی ہے وہ اپنا امیر بنانے سے بھی قاصر ہے ، یہ کسرِ نفسی نہیں شیطانی غلبے کی نشانی ہے۔ انصار ومہاجرین اور قریش واہلبیت میں خلافت پر اختلافات اور شدید تحفظات تھے مگر امیر پر متفق ہوگئے۔ ابوسفیان نے حضرت علی سے کہا تھا کہ ابوبکر سے خلافت چھین کر آپ کو حوالہ کرنے کیلئے مسلح جوانوں سے مدد کرسکتا ہوں مگر حضرت علی نے پیشکش حقارت سے ٹھکرادی تھی۔ مولانا فضل الرحمن نے امارت پر قبضہ کرنے کیلئے سیکرٹری جنرل کے عہدے سے چھلانگ لگائی تو حافظ حسین احمد کے خلاف منصوبہ بندی سے عبدالغفور حیدری کو جتوایا۔ جس کا بروقت ہم نے اظہار کیا تھا۔ اب شیرانی صاحب کو بلوچستان کی امارت سے ہٹادیا گیا تو شیرانی کو سازشیں یاد آنے لگیں۔ مولانا مودودی نے بھی میاں طفیل محمد کو منتخب کرواکر جماعت اسلامی کو طفیلی بنادیا تھا۔ پھر سید منورحسن کو ہٹاکر سراج الحق کو طفیلی بن کر اپنا فریضہ ادا کرنا ہے۔
ریاست نے طفیلی سیاستدان بنائے اور سیاسی جماعتوں نے طفیلیوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ ہر چیز دوسروں پر ڈالنے کی بجائے اپنی خامیوں کا اعتراف کرنا ہوگا۔ مولانا الیاس قادری کے فرانس میں مراکز ہونگے جسکا احتجاجی طریقہ یہ ہے کہ مزید مدرسے بناؤ۔ تحریک لبیک کے کارکن ہم مسلکوں کیساتھ فیصلہ کریں کہ تعلقات خراب کرنے یا مزید بڑھانے ہیں؟۔اگر صحافی عمران خان نے فرانس کی امداد کو بچانے کیلئے ویڈیو بنائی تو یہ زیادہ خطرناک کھیل ہے ۔ قادیانیوں کو پنجاب بدرکیا گیا تو اسرائیل ویورپ میں خوش ہونگے۔پختون ہاتھ صاف کردینگے کہ شاہ نعمت اللہ ولی کی پیش گوئی پر عمل ہوگا لیکن اگر مغربی بارڈر افغانستان سے مشرقی بارڈر کشمیر کیلئے بین الاقوامی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے پنجاب میں فساد کھولا گیا تو بہت خون خرابہ ہوگا۔ یہودی سازشوں سے پہاڑ بھی ہل سکتے ہیں۔ ریاستی اداروں کو حکمت عملی کا بھرپور مظاہرہ کرنا ہوگا ۔قادیانی مذہب کم مافیا زیادہ ہے مگر مسلم فرقوں کا بھی یہی حال ہے۔ اسلام سے ہی پاکستان عالمِ انسانیت کا دل جیت سکتاہے ۔ سید عتیق الرحمن گیلانی

www.zarbehaq.com

پاکستان کو مشکلات سے نکالنے کابڑا بہترین راستہ ہے

اداریہ: تیسر کالم

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

پاکستان واضح اعلان کرے کہ اگر اسرائیل نے ایران ، ترکی، سعودی عرب سمیت کسی بھی مسلم وغیرمسلم ملک پر حملہ کیا تو پاکستان اس کو نیست ونابود کرنے میں دیر نہیں لگائے گا۔ قرآن نے مذہبی عبادت گاہوں کے تحفظ کیلئے قوت مدافعت کے فطری قانون کو ایک ایسی بنیاد قرار دیا ہے کہ اگر قوت مدافعت نہ ہوتی تو پھرمجوسی، عیسائی ،یہودی اور مسلمانوں کی عبادت گاہوں کا تحفظ بھی نہ ہوسکتا تھاجن میں اللہ کا ذکر کثرت سے کیا جاتا ہے۔ قرآن نے مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن یہودی اور مشرکین کو قرار دیا، بھارت اوراسرائیل پاکستان کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔
پاکستان بہت واضح اعلان کرے کہ علامہ اقبال نے فرشتوں کے گیت میں سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے خلاف انقلاب برپا کرنے کی دعوت دی تھی لیکن آج پاکستان کے سفیدوسیاہ کے مالک جاگیردار اور سرمایہ دار بن گئے ہیں۔
اُٹھو! میری دنیا کے غریبوں کو جگادو کاخ امراء کے درودیوار ہلادو
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو
ہمارے مقتدر طبقات سرمایہ داروں اور جاگیرداروں سے رشوت لیکر کھربوں کی سبسڈی غریبوں کے نام پر گندم ، چینی اور بجلی وغیرہ کے حوالے سے دیتے ہیںمگر مہنگائی کا سارا بوجھ غریب طبقے کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ پہلے ایم کیوایم کے کارکن اور لیاری امن کمیٹی کے بدمعاش بھتہ لیکر بڑوں کو پہنچاتے تھے اور اب پولیس اور رینجرز کے سپاہیوں پر تحفظ کے بدلے بھتوں کے چرچے عام ہیں۔ CPLCایک غیرحکومتی تنظیم اور پرائیویٹ NGOہے لیکن PECHSمیں دفاتر سے بھتہ لے رہی ہے۔ اگر ریاست اور حکومت اسکے پیچھے نہ ہو تو عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے نام باعزت شہریوں سے بھتہ کیسے لے سکتے ہیں؟۔ رہائشی مکانات میں سکول ، دفاتر اور مساج سینٹر بنانے والوں کو پہلے قانونی نوٹس جاری کرتے ہیں اور پھر عدالت کے ذریعے فریق بن کر کام بند کروانے کی کوشش کرتے ہیں اور متاثرہ فریق بھتہ دینے پر آمادہ ہوجاتا ہے تو عدالت میں اپنا کیس واپس لیتے ہیں۔
قومی ، لسانی،سیاسی ، سماجی، مذہبی اور امن کمیٹیوں کے نام پر بدمعاش طبقے کا راج ہوگا اور عدالت ، پولیس اور سیکیورٹی اداروں کی طرف سے شریفوں کی داد رسی کے بجائے بدمعاشوں کی پشت پناہی ہوگی تو اس کا نتیجہ خونی انقلاب اور ملک ٹوٹنے کے علاوہ کچھ نہیں نکلے گا۔ اگر ہر ادارے کے لوگ نچلی سطح سے لیکر اوپر کی سطح تک اپنا احتساب کریں اور کھاؤ پیو ، عیش اُڑاو کا راستہ روکیں تو پاکستان کی ریاست کیلئے عوام جان، مال اور عزت سب کچھ کی قربانی دے سکیںگے۔ ایک طرف بین الاقوامی طور پر ہمیں پراکسی جنگ میں جھونکا جارہاہے، دوسری طرف خطے کے ممالک نے پراکسی جنگ میں ڈالا ہوا ہے اور تیسری طرف ہم آپس میں بھی پراکسی جنگ لڑرہے ہیں۔
وزیرداخلہ بریگڈئیر اعجازشاہ کا بیان آیا کہ ” ANPنے ریاست کے خلاف بیانیہ پیش کیا تو پشاور کے بلور برداری اور میاں افتخار حسین کے اکلوتے بیٹے کو مار دیا، اب ن لیگ نے وہی بیانیہ اپنایا ہے تو طالبان ان کو مار ینگے”۔ جس پرANP نے اسلام آبادتک احتجاجی لانگ مارچ کا اعلان کیا۔ اپوزیشن نے بھرپور طریقے کہا کہ ماراماری کے پیچھے ریاست کے جرم کا اعتراف ہورہاہے۔ منظور پشتین کے نعرے کو تقویت مل گئی کہ ”یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے”۔ اعجازشاہ نے باچا خان مرکز جاکر معذرت کرلی اور ANPنے وزیرداخلہ کو معاف کردیا۔
ANPمیں ہزاروں خوبیاں ہیں مگر پشتو نام کی چیز نہیں۔ ANP کہتی ہے کہ گلبدین حکمت یار کو ویلکم کرنے والے جماعت اسلامی، سراج الحق اور مولانا سمیع الحق کا بیٹا،عثمان کاکڑ پختونوں کی قاتل ریاستی دہشتگردی کو سپورٹ کررہے ہیں۔ پھر تو اعجاز شاہ کے بیان کا خیرمقدم کرنا تھا کہ یہ تو ANPاور بہت سے لوگوں کا بیانہ ہے۔ جنرل راحیل اور جنرل باجوہ سے پہلے یہ بیانیہ زبانِ زد عام تھا۔ الیکشن میں بعض جماعتوں کو کھلی چھوٹ تھی جیسے PTI اور مسلم لیگ اور بعض پر خودکش حملے ہوتے تھے جیسے پیپلزپارٹی اور ANP۔ اگر اسفندیار ولی اور ایمل ولی میں تھوڑی غیرت ہوتی جس کو وہ پشتو کلچر کی بنیاد سمجھتے ہیں تو وزیرداخلہ برگیڈئیر اعجازشاہ کے بیان پر احتجاج کی بجائے خیرمقدم کرتے۔اپوزیشن سمجھ رہی ہے کہ اعجازشاہ کے بیان سے لیکر پشاور بم دھماکے اور آئی ایس پی آر کے بیان تک تسلسل سے اپوزیشن کا راستہ روکنے کا بیانیہ ہے لیکن یہ ریاست وسیاست ملک وقوم کیلئے بہت تباہ کن ہے۔
منظور پشتین ہر تقریر میں قسمیں اٹھاکر کہتا ہے کہ ”میں نہ بکا ہوں اور نہ بکوں گا اور نہ میں ڈرتا ہوں اور نہ ڈروں گا”۔ ہمارا یہ وطیرہ ہے کہ جو بہادری کی داستان سناتا ہے اس کو لیڈر ماننا شروع کردیتے ہیں۔ نبیۖ نے ہجرت کرکے وطن مکہ چھوڑ ا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون سے بھاگ کر چلے گئے۔ پیغمبری اور معجزات ملنے کے باوجود جب دریا نے راستہ دیا تووہ لڑنے کیلئے نہیں رُکے،البتہ فرعون کو لشکر سمیت پیچھا کرنے پر اللہ نے غرق کیا۔ جو بکتے ہیں وہی نہیں ڈرتے۔ خوف انسان کے بس کی بات نہیں ۔تبلیغی جماعت نے شیروںسے ملنے کی جھوٹی کہانیاں گھڑیں۔ مستقبل کی خبر کوئی نہیں جانتا ہے۔ اگر کوئی بکنے اور ڈرنے والا نہ ہو تو عوام کو یقین دلانے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ جب نوازشریف اور اپوزیشن سمیت پورا ملک اس بیانیہ کیساتھ کھڑا ہوگیا ، وکیلوں نے بھی وہ نعرے لگانے شروع کردئیے جو منظور پشتین کی شناخت تھے تو پشتین نے مسکین بن کر وہ نعرے لگانے کے بجائے قوم کی اصلاح شروع کردی۔ مانا کہ نہ بکے ہو اور نہ جھکے ہو لیکن قسمیں مت کھاؤ اور بس!۔
باچا خان سے ایمل ولی تک اس پختون قوم کے مایہ ناز خاندان کی ہزاروں خوبیان مسلمہ ہیںمگر جب امیر حیدر خان ہوتی وزیراعلیٰ تھے تو جمعیت علماء اسلام کے مفتی کفایت اللہ نے پانچ اضلاع پشاور ، چارسدہ،مردان، سوات، بنیر کے بارے میں قرار داد پیش کی کہ عورتوں کو نکاح کے نام پر بیچا جارہاہے ، پابندی لگائی جائے۔ جو متفقہ طور پر منظور ہوئی۔ کیا خدائی خدمتگاروں سے لیکر موجودہ دور کی ANP تک کسی نے پشتون عورت کے حقوق کیلئے کبھی آواز اٹھائی ؟۔ پشتوغیرت کی تعبیر عورت سے زیادہ کوئی چیز نہیں اور عورت کے معاملے میں بے غیرتی برتی جائے تو پھر کچھ بھی باقی نہیں رہتا ہے۔ منظور پشتین نے بہت اچھا کیا کہ عورت کے حق پر آواز اُٹھائی لیکن جب پیسوں کی بنیاد پر کوئی قوم عورت کے معاملے میں غیرت نہیں کھاتی ہو تو اسکے جوان پیسوں کیلئے نہ بکتے ہوں تو یہ کیسے ممکن ہے؟۔جب وزیرستان میں PTM کی لال ٹوپیوں کو جلاگیا تو منظور پشتن کو اپنی قوم کی اصلاح یاد آگئی مگر تعصبات ایک ایسا کینسر ہے جس کو سرحدات تک محدود رکھنا بالکل بھی ممکن نہیں ہے۔
مولانا بجلی گھر بڑے خطیب تھے ،ان کی تقریر مولانا فضل الرحمن کی حمایت اور مخالفت میں مریم نواز کیساتھ ویڈیو میں پیش کی جاتی ہے لیکن تہبند کی مخالفت کی واحد وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ مولانا نے احرام میں تہبند پہنا ہوگا۔ حجراسود کو چومنے کے دوران ہجوم میں ان کی بیگم سے کوئی بدتمیزی ہوئی ہوگئی جس پر صاحبہ نے مولانا کو انگلی چڑھائی ہوگئی کہ بے شرم مجھے کہاں لائے ہو؟۔ اس وجہ سے وہ زوردار انداز میں کہتا ہے کہ ”بے شرم تہبند پہن لو”۔ وزیرستان میں طالبان نے جب بچہ بازی پرباقاعدہ ایک دوسرے کو قتل کیا تو بھی ان کو روکنے اور ٹوکنے والا کوئی غیرتمند نہیں تھا۔

www.zarbehaq.com

اپنی قوم، اپنے ملک، خطے اورعالمِ انسانیت پر رحم کرنا!

اداریہ: دوسر اکالم

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

میرے مرشدحاجی محمد عثمان نے زندگی تبلیغی جماعت میں گزاری۔ بڑی خوبی یہ تھی کہ مریدوں کا دسترخوان لگتا تو اسی دسترخوان پر کھاتے۔ تبلیغی جماعت کے اسٹیج سے وعظ کرتے تو اکابر میں ہوتے مگراجتماع میں عوام کیساتھ بیٹھتے۔رائیونڈ میں کھانا بھی اکابر کیساتھ نہیں عوام کیساتھ بیٹھ کر کھایا کرتے۔ اکابر کی طرح مرکز میں بیٹھ کر چلے سے گریز کرنے کے بجائے بستر اٹھاکر سالانہ چلے بھی لگاتے۔ فرماتے تھے کہ جب تک ہم خود بستر اُٹھاکر عوام کیساتھ گلی کوچوں میں قریہ قریہ نہیں گھومیںگے تو ہماری اصلاح نہیں ہوسکتی۔ ان کی یہ ادا تبلیغی جماعت کے امیر مولانا محمد یوسف نے بڑی پسند کی تھی، ان کی طرف سے خصوصی اجازت تھی کہ حاجی عثمان چھ نمبروں وعظ کے پابند نہیں تھے۔ مولانا یوسف کی وفات کے بعد مولانا انعام الحسن کو امیر بنایا گیا تو حاجی عثمان سے جان چھڑانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ منظم پروپیگنڈہ کیا گیا کہ حاجی صاحب کی وجہ سے جماعت میں توڑ پیدا ہورہاہے، جماعت شخصیت پرستی کا شکار ہورہی ہے اور جماعت کے اسٹائل اور ماڈل میں امتیازی صورت پیدا ہورہی ہے۔
حاجی عثمان کے بیان پر اجتماع و مراکز میں پابندی لگی مگر منبر تک حاجی عثمان کی رسائی تھی۔ ایک مرتبہ ایک تبلیغی نے خواب سنایا کہ مفتی محمود نے کہا کہ ”اگر مجھے تبلیغ کی افادیت کا دنیا میں پتہ ہوتا تو سیاست اور دیگر خدمات کی بجائے زندگی تبلیغی جماعت میں گزارتا” ۔ حاجی عثمان نے منبر پر چڑھ کر ڈانٹ پلائی اور فرمایا کہ ” مفتی محمود نے ختم نبوت کیلئے قربانی دیکر جیل میں انگلی سڑائی تھی ۔ سارے تبلیغی جماعت والے مل کر بھی مفتی محمود کی اس خدمت کو نہیں پہنچ سکتے ہیں جو انہوں نے ختم نبوت کیلئے دی ہے۔ مفتی محمود نے رسول اللہۖ کی جوارِ رحمت کے فیضان میں جگہ پائی ہے،ہم تبلیغی جماعت کی یہ اوقات نہیں کہ جھوٹے خواب بیان کرتے پھریں” ۔
حاجی عثمان کی خانقاہ میں بیان صرف مریدوں کیلئے ہوتا تھا، ایک بیان کیلئے اس وقت کے مرکز مکی مسجد کراچی کے اجتماع میں اعلان کروادیا کہ تبلیغی جماعت والے بھی اس بیان میں شرکت کرسکتے ہیں۔ جس میں اس پر زور تھا کہ رسول ۖ نے جماعت میں شخصیات پیدا کئے اور شخصیت کے بغیر جماعت بھیڑ ہے۔ وہ آڈیو کیسٹ شیخ الحدیث مولانا زکریا کوبھیج دی۔ مولانا زکریا نے تبلیغی اکابر کو بٹھاکر کیسٹ سنائی اور ان کو سختی کیساتھ حاجی عثمان کیخلاف سازشوں سے روک دیا۔ مدینہ میںحاجی عثمان کے وعظ میں مولانا اشرف علی تھانوی کے خلیفہ مولانا فقیر محمد رو روکر گھومنا شروع کردیتے۔ مولانا فقیرمحمد نے کہا کہ ”مجھے الہام ہوا کہ حاجی امداداللہ مہاجرمکی کی نسبت سے باطنی خلافت آپ کو پیش کردوں”۔ حاجی عثمان نے فرمایا کہ ”مجھے تو الہام نہیں ہوا ۔ مجھے یہ اجازت مل جائے تو”۔ مولانا فقیر محمد نے مدینہ منورہ مسجد نبویۖ میں 27رمضان لیلة القدر کو اپنے ورود کا بتایا تو حاجی محمد عثمان نے قبول کرلیا ۔ مولانا فقیرمحمد نے جس انداز میں خلافت نامہ لکھ دیا اور قبول کرنے پر شکریہ ادا کیا تو ایک ایک جملہ حقائق کی وضاحت کرتا ہے۔ عرصہ بعد مولانا فقیرمحمد نے اعلان کیا کہ ”میں نے خلافت واپس لی ہے ” لیکن اسکا حاجی عثمان کی ذات اور مریدوں پر کچھ اثر نہیں پڑا۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کے مفتی احمد الرحمن اور مفتی ولی حسن نے مولانا فقیرمحمد سے کہا کہ یہ خلافت درود سے دی تھی یا کسی کی مشاورت سے؟۔ کہنے لگے کہ خلافت ورود کی وجہ سے دی تھی لیکن سلب مشاورت کی وجہ سے کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شرعی اعتبار سے یہ درست نہیں کہ ورود کی خلافت مشاورت سے سلب کی جائے۔ پھر جامعہ بنوری ٹاؤن کے لیٹر پیڈ پر مولانا فقیر محمد نے لکھ دیا کہ ”میں نے حاجی محمد عثمان کو خلافت ورود سے دی جو تا حال قائم او ر دائم ہے”۔ مفتی احمد الرحمن ، مفتی ولی حسناور مفتی جمیل خان کے بطور گواہ دستخط ہیں۔تبلیغی جماعت اور حاجی محمد عثمان کے مریدوں میں جھگڑے ہونے لگے تو حاجی عثمان نے اعلان کیا کہ جو مرید تبلیغی جماعت میں کام کرنا چاہیں تو خوشی سے اجازت ہے مگر جو مرید بن کر رہیں وہ جماعت میں نہ جائیںاسلئے کہ انتشار کی فضاء بن رہی ہے۔
تبلیغی جماعت نے طوفان برپا کرنے کی کوشش کی مگر مولانا خان محمد کندیاں امیر تحفظ ختم نبوت نے تبلیغی اکابر کو سمجھایا کہ قادیانی اس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔مفتی محمد تقی عثمانی ،مفتی محمد رفیع عثمانی، مفتی رشید احمد لدھیانوی نے تبلیغی جماعت کیخلاف فتویٰ داغ دیا کہ اکابرین اس جماعت کو کشتی ٔ نوح قرار دیکر گمراہی پھیلارہے ہیں۔ فتویٰ لینے والے تبلیغی جماعت کراچی کے امیر بھائی یامین کے صاحبزادے مولانا زبیر تھے، عبداللہ کے نام سے فتویٰ لیا۔ شرپسنداس محاذ پر مکمل ناکام ہوگئے مگر مخصوص افراد سازش کا حصہ ہوتے تھے لیکن مولانا زکریا کے خلفاء اور تبلیغی جماعت کا مخلص طبقہ اس کا شکار نہیں تھا۔ بلکہ وہ اس مہم جوئی کی اندرونِ خانہ مزاحمت بھی کرتا تھا۔ حاجی عثمان کے مرید حاجی شفیع بلوچ نے بتایا کہ” ایک مرتبہ پیپلزپارٹی کے رہنما شفیع جاموٹ نے کہا کہ تمہاری خانقاہ میں قادیانی گھسے ہیںجو اندر بیٹھ کر سازش کررہے ہیں تو میں نے کہا کہ غرق ہوجاؤ ،قادیانی کیا سازش کرینگے مگر جب اندر سے سازش ہوئی اور فتویٰ لگا تو معلوم ہوا کہ وہ درست کہہ رہا تھا”۔ فوج کے اعلیٰ افسران خانقاہ سے نہ صرف بھاگے تھے بلکہ ایک بریگڈئیر نے دھمکی آمیزفون کیا تو حاجی شفیع بلوچ نے جواب دیا کہ ”جو رات قبر میں لکھی ہوئی ہے وہ باہر ویسے بھی نہیں ہوسکتی ہے”۔
حاجی عثمان کیخلاف فتوؤں میں اپنے خلفاء استعمال ہوگئے۔ علماء نے بہت گھٹیا کردار صرف پیسوں کیلئے ادا کیا۔ زیادہ تفصیل کی ضرورت نہیں لیکن چشم فلک نے یہ تماشا دیکھا ہے کہ ایمان والوں کی شمعیں کس طرح بجھ رہی تھیں۔جب موقع تھا کہ فتویٰ لگانے والے اکابر علماء ومفتیان سے بدلہ لے سکتے تھے کیونکہ حاجی عثمان کی حسد میں سیدعبدالقادر جیلانی، شاہ ولی اللہ،مولانا یوسف بنوری اورشیخ الحدیث مولانا زکریا پر بھی کفر والحاد اور قادیانیت کے فتوے لگا چکے تھے لیکن حاجی عثمان نے منع کردیا کہ بدلہ نہیں لینا ہے، حالانکہ مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ چھرا تمہارے ہاتھ میں ہے، بکروں کو ذبح کردینا ، ٹانگیں ہلائیںگے تو ہم پکڑ لیںگے۔
حضرت آدم کے بیٹے ہابیل اور قابیل میں مذہبی، لسانی، قومی، ملکی تعصبات کی نہیں شیطانی اور نفسانی جنگ تھی۔ ہابیل کی قربانی اللہ نے قبول کی تو قابیل کو قتل کی پڑی۔ ہابیل نے کہا کہ میرا ہاتھ آپ کو قتل کرنے کی طرف نہیں بڑھے گااسلئے کہ مجھے اپنے اللہ اور اپنی آخرت کا خوف ہے۔ حضرت یوسف نے بھائیوں کو معاف کیا اور نبیۖ نے اپنی دشمن مشرک قوم کو مکہ میں معاف کیا۔میثاق مدینہ اور صلح حدیبیہ کا مذہبی تعصبات کے خاتمہ میں بنیادی کردار تھا۔ طالبان و ریاستی اہلکاروں نے ہم پر باہمی مشاورت سے حملہ کیا تو مہمان اور خواتین سمیت 13افراد شہید ہوگئے تھے اور فرانس نے اس خبر کوبڑی اہمیت دیکر شائع کیا۔ مجھے پیرس جانے کا موقع ملا، اس وقت چاہت کے باوجود سیاسی پناہ اسلئے نہیں لی کہ امریکہ کیخلاف جنگ میں اپنوں کو نقصان نہیں پہنچے۔ آج ہندوستان اور اسرائیل سمیت ایک ایسا نظام تشکیل دینے کی ضرورت ہے کہ شیطان کا تباہ کن منصوبہ ہار جائے اور انسانیت اور اسلام کو فتح ملے۔
قرآن انسانیت کو بچانے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن انگریز کی باقیات کا نظام پختون، سندھی، بلوچی، پنجابی اور مہاجر کلچر اور اعلیٰ ترین روایات کو بھی تباہ وبرباد کر رہاہے۔ جب پاکستان کا ریاستی نظام ٹھیک ہوگا تو پوری دنیا پر ہم امامت کرینگے۔

www.zarbehaq.com

بقول اقبال مسلماں کو مسلماں کردیا طوفان مغرب نے

اداریہ، پہلا کالم

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

علامہ اقبال نے طلوع اسلام کی خبر دی ۔ مرزا غلام احمد قادیانی لعنت اللہ علیہ کو علامہ اقبال نے مجذوب فرنگی قرار دیتے ہوئے کہاکہ جانِ فرنگ پنجۂ یہود میں ہے اور اس بات کو دنیا اچھی طرح سے سمجھ رہی ہے کہ جس طرح یہود کیساتھ عیسائیوں کی نہیں بنتی ،اسی طرح سے مسلمانوں کی مرزائیوں کیساتھ نہیں بنتی۔ البتہ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کی جان فوج میں ہے ،عالم اسلام کی جان پاکستان میں ہے ، پاک فوج کی جان پنجاب میں ہے اور پنجاب کی جان مرزائیت میں ہے۔
پرویزمشرف کے دور میں ق لیگ کے چوہدری پرویز الٰہی و چوہدری شجاعت سیاست کے محور تھے۔ دوسری طرف مولانا فضل الرحمن اپوزیشن لیڈر تھے جس کو ن لیگ اور عمران خان نے بھی سپورٹ کیا تھا۔ مولانا فضل الرحمن کے دل کے وال چوہدری برادران نے امریکن پاکستانی نژاد قادیانی ڈاکٹر مبشر سے تبدیل کروائے۔ ہوسکتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے زندگی اور موت کا مسئلہ سمجھ کر اپنی غیرت ایمانی پر مٹی ڈال کر قادیانی ڈاکٹر سے علاج کرنے میں عافیت سمجھی ہو کیونکہ مولوی سمجھتاہے کہ ”جان ہے تو ایمان ہے” اور اس کی ساری زندگی ایمان بنانے پر نہیں جان بنانے پر ہی لگتی ہے۔ ہر ملک ، ہر فرقے ، ہر مسلک اور ہر ماحول میں مولوی زندگی کی معمولی آسائش کے بدلے ایمان کی قربانی دیتا رہتا ہے۔ جس سود کو قرآن نے اللہ و رسول کے ساتھ اعلانِ جنگ قرار دیا ہے ، علماء کے شیخ الاسلام اور مفتی اعظم پاکستان اس پر معاوضہ لیکر اسلام بیچ رہے ہیں۔ مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی نے اکبر بادشاہ کے سامنے تعظیمی سجدہ سے انکار کرکے خود کو تاریخ میں امر کردیا تھا۔ دوسرے مولوی اس بحث میں پڑگئے تھے کہ سجدہ تعظیمی کفر ہے یا حرام ہے۔جو کفر قرار دے رہے تھے تو ان پر حرام والوں کا علمی وزن بھاری تھا اسلئے کہ قرآن میں حضرت آدم علیہ السلام کو فرشتوں اور حضرت یوسف علیہ السلام ، بھائیوں اور والدین کے سجدوں کا ذکرہے۔
مشکل یہ ہے کہ بریلوی دیوبندی مکاتبِ فکر کے مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن وشیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی سود کو جواز فراہم کررہے ہیں جن کو منصب سے علماء اتارتے بھی نہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے باپ مفتی محمود کہتے تھے کہ امریکی کیپٹل ازم کے مقابلے میں کمیونزم اسلام کے زیادہ قریب ہے اور مولانا مودودی کہتے تھے کہ کمیونزم کے مقابلے میں کیپٹل ازم اسلام کے زیادہ قریب ہے۔ مفتی محمود اور اس کی جماعت پر اسی وجہ سے علماء دیوبند نے کفر وگمراہی کے فتوے لگائے تھے۔ اس فتوے کا سرغنہ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی و شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کے والد مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع تھا جس کی روحِ رواں جماعت اسلامی تھی۔ پھر مفتی تقی عثمانی و مفتی رفیع عثمانی نے سودی زکوٰة پر ہاتھ مارالیکن مفتی اعظم پاکستان مفتی محمود اور اسکے بیٹے مولانا فضل الرحمن نے مخالفت کی۔ اب تو مفتی اعظم پاکستان مفتی محمدرفیع عثمانی وشیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے سودی نظام کو جواز عطاء کرکے جب عالمی کفر کے نظام میں چاروں شانے چت ہوگئے تو مولانا فضل الرحمن نے اس کو اپنا براق سمجھ کر سوار ہوگئے اورترقی وعروج کے اس سفر میں معراج پرپہنچ گئے ہیں۔
علماء ومفتیان کا کام دینِ حق کی پاسداری تھی لیکن کبھی پاسبان ملتے تھے بت خانے سے اور اب عالمی سودی اور یہودی نظام کو پاکستان سے سواری اورشہسوار مل گئے ہیں۔ جب اسلام نازل ہوا تھا تو کافر سے نفرت نہیں تھی بلکہ کفر سے نفرت تھی۔ یہود سے نفرت نہیں تھی بلکہ یہود کے مسخ شدہ مذہب اور سودی نظام سے نفرت تھی۔ آج ہمیں یہود کے مسخ شدہ مذہب اور سودی نظام سے نفرت نہیں بلکہ یہودیوں سے نفرت ہے، مرزائیوں کے نظام سے نہیں بلکہ مرزائیوں کی ذات سے نفرت ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور PDMکے چیئرمین مولانا فضل الرحمن دونوں مفتی محمد تقی عثمانی کے آستانے سے عقیدت ومحبت رکھتے ہیں جو زیب وزینت کیلئے خواتین کیلئے تھوڑے سے بال کاٹنے کو بھی جائز نہیں سمجھتا لیکن اپنے بدنمادانت نمائش کیلئے نکال باہر کئے ہیں۔ حالانکہ حج وعمرے میں خواتین تھوڑے سے بال کاٹتی ہیں، حضرت عائشہ نے نبیۖ کے وصال کے بعد اپنے بال اسلئے کاٹ دئیے تھے کہ نبیۖ کے بعد زینت کی ضرورت نہیں ۔ قرآن میں نابینا ،لنگڑے اور مریض کیلئے حرج نہیں کہ اس کو اپنے ساتھ اپنے گھر میں کھانا کھلایا جائے، اسی طرح ماں، باپ، بھائی اور بہن کے علاوہ چاچا، ماما، پھوپھی، خالہ اور دوست کے گھر میں بھی کھانا کھانے کی اللہ نے اجازت دی ہے، چاہے الگ الگ کھائیں یا اکٹھے کھانا کھائیں۔ صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ نبیۖ اور صحابہ کرام کی دعوت ولیمہ میں دلہے اور دلہن نے خدمت کی تھی۔ قرآن وحدیث میں شرعی پردے کا وہی تصور ہے جو پختون، پنجابی، سندھی اور بلوچ کلچر کے علاوہ دنیا کے تمام انسانوں میں پہلے سے موجود تھا۔
نالائق علماء طبقے نے پہلے شاہ ولی اللہ پر کفر کے فتوے لگائے کہ قرآن کا فارسی میں ترجمہ کیوں کیا ہے؟۔ واجب القتل کے فتوؤں نے دو سال تک روپوش ہونے پر مجبور کیا۔ حالانکہ سندھی زبان میں اس سے بہت پہلے قرآن کا ترجمہ ہوچکا تھا۔ سندھی علماء مساجد میں جمعہ کے خطبات بھی عربی کے بجائے سندھی میں پڑھتے تھے اور یہ روایت سندھ میں اب بھی موجود ہے۔ پھر شاہ ولی اللہ کے بیٹوں نے اردو میں قرآن کا ترجمہ کیا تو فقہی مسالک میں الجھاؤ کی وجہ سے قرآن کی تفسیر بھی بالکل غلط لکھ ڈالی اسلئے کہ قرآن میں اجنبی اور نامحرم نابینا، لنگڑے اور مریض کو گھروں میں کھلانے کی اجازت کی وضاحت تھی مگراس کی تفسیر یہ لکھ دی کہ ” جمعہ کی نماز اور جہاد میں رخصت مراد ہے”۔ حالانکہ اس کا کوئی تُک نہیں بنتا ہے۔ اسلام کا بالکل حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا گیا ہے۔ اگر مسلمانوں نے بروقت اقدام نہیں کیا تو مغرب سے نکلنے والا طوفان ہمیں مسلمان ہونے پر مجبور کردے گا۔ اسٹیج پر مسلم لیگ کی عابدہ اور تہمینہ کی مخالفت کرنے والی جمعیت علماء اسلام مریم نواز کی حمزہ شہباز سے جھپی اور پپی کو درست قرار دے دیگی اسلئے کہ خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں۔
جب مسلم لیگ کی حکومت کیساتھ مولانا فضل الرحمن شریک اقتدار تھے تو پھر مذہب کے خانے میں حکومتی سطح پر سازش کرنے والوں کے خلاف شیخ رشید نے آواز اٹھائی اور سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی طرف سے ختم نبوت کیلئے قربانی کی یاد دلاکر اس سازش کے خلاف جمعیت علماء اسلام کو اٹھنے کی دعوت دی گئی۔ شیخ رشید کہتا ہے کہ ”علماء نے دو دفعہ مجھے مارنے کی کوشش کی ”۔ جب فیض آباد دھرنے کی وجہ سے کسی وزیر کو سازش کا مرتکب قرار دیکر فارغ کیا گیا تھا تو یہ پرانی بات نہیں ہے۔ حکومت ہی نے پاک فوج سے کہا تھا کہ علامہ خادم حسین رضوی سے مذاکرات کرکے دھرنا ختم کیا جائے۔ جب مذاکرات کی کامیابی کے بعد دھرنا ختم ہوگیا تو پاک فوج کے اہلکار نے ایک ایک ہزار کے لفافے کارکنوں میں واپسی کے کرایہ کیلئے دئیے۔ اب عدالتی سطح پر یہ تأثر دیا جارہاہے کہ یہ فوج کی سازش تھی ، دھرنے والوں کو پیسہ دیا گیا لیکن دوسری طرف حامدمیر کہتا ہے کہ موجودہ حکومت میں قادیانیوں کو بہت سپورٹ مل رہی ہے۔ ترکی اور ایران کے خلاف عرب ممالک اسرائیل کی سپورٹ لینے پر مجبور ہیں اور اسرائیل کی فوج میں پاک فوج کے لوگ بھرتی ہیں۔ اسرائیل کی پشت پر امریکہ ہے اور امریکہ کی گود میں ہماری فوج اور سیاستدان کھل کر کھیلتے ہیں۔ اب اس طوفان مغرب سے کیا ہم مسلمان بننے کیلئے تیار ہیں یا نہیں ہیں؟۔

www.zarbehaq.com

بہنوں کی شادی پر ایک روپیہ نہ لوں گا۔ منظور پشتین کا اعلان

دنیا کی کوئی قوم نہیں جو کسی گناہ پر متفق ہو لیکن پشتون قوم نے عورتوں کو حق نہ دینے پر متفق ہے سب سے پہلے میں گھر سے ابتداء کر کے بہنوں کی شادی پر ایک روپیہ نہ لوں گا۔ منظور پشتین کا اعلان

دوستو! ہمارا یہ مسئلہ ہے کہ خیلوں کے درمیان لڑائی ہے، خاندانوں کے درمیان لڑ ائی ہے ۔ خدا قرآن کا واسطہ کہ سو سال سے ہزاروں لاکھوں افراد ایک دوسرے کے قتل کئے تمہیں اس کا کیا صلہ ملا ؟ کیا خیر پہنچاہے؟۔ کوئی خیر نہیں پہنچا ۔ پنجابیوں نے کلومیٹروں کی زمین لے لی لیکن تم نے کچھ نہیں کہا اور اپنے عزیزوں کو اپنی زمین پر نہیں چھوڑتے ۔ یہ غیرت نہیں اپنے عزیز کو اپنی زمین پر قتل مت کرو ، اپنے بھائی کو قتل مت کرو۔ وہ معاشرہ اور وہ سوسائٹی جو عزیزانہ مخاصمت کی بنیاد پر کھڑی ہو وہ کبھی ترقی نہیں کرسکتی ہے۔ یہاں اگر کوئی اسلام لاتا ہے شریعت لاتا ہے تو وہ بھی اسی مخاصمانہ تکبر کی بنیاد پر کامیاب نہیں ہوسکتا اگر کوئی سوشلزم لاتا ہے تو بھی مخاصمانہ تکبر کی بنیاد پر کامیاب نہیں ہوسکتا ۔ یہاں کوئی بھی نظام کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اسلئے کہ ہمارا معاشرہ اسی عزیزانہ مخاصمت کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ آج سے یہ عہد کرنا ہے کہ عزیزانہ مخاصمت نہیں بلکہ آپس کا بھائی چارہ ہے۔ ہم ایکدوسرے کے بھائی ہیں پختون ایکدوسرے کے ساتھ کسی صورت میں نہیں لڑینگے۔ جنگوں سے نکلنا ہے اور عورتوں کے حقوق دینے ہیں۔ ایک بھی دنیا میں ایسی قوم نہیں جس نے کسی گناہ پر اتفاق کیا ہو کہ اس کو بہر صورت کرنا ہے۔ ہم نے اپنی بہنوں اور بیٹیوں پر بحیثیت قوم اتفاق کیا ہے کہ ہم نے کسی کو پیسوں کے بغیر نہیں دینا ہے۔ یہ کام بند کرو۔ اپنی بہنوں اور ماؤں کے حقوق کی تلفی ہمیں تباہ کریگی۔ یعنی بیٹیوں اور بہنوںکی شادی کرانے پر زیادہ زیادہ پیسے وصول کرنا ۔ سب سے پہلے میں نے گھر سے یہ ابتداء کی کہ جب بھی میری بہن کی شادی ہوگی تو اس پر میں ایک روپیہ بھی نہیں لوں گا۔ میں نے ابھی بھی ایسا کیا ہے ۔اگر میری بہن میرے گھر سے جاتی ہے تو میں کیا اتنا بھی نہیں کرسکتا کہ اس کیلئے جہیز لوں۔ عورتوں کے حقوق کا خیال رکھنا ہے ۔ اپنے پڑوسیوں اپنے بھائیوں اور عزیزوں سے لڑنا جھگڑنا چھوڑ دو۔ میں اپنی قوم کا دل کیسے جیتوں؟۔ ایک طرف میری قوم کہتی ہے کہ انقلاب لاؤ دوسری طرف خیلوں میں معمولی زمینوں پر جھگڑے ہیں۔ کیسے انقلاب لائیں ان سب میں نا اتفاقی ہے۔ ہمیں ایک کام بتاؤ کہ اپنی قوم کو متحد کریں یا دشمن سے ٹکر لیں؟۔ دشمن ہمارے گھر میں گھسا ہے ہم اس کیلئے کھڑے ہوں یا جو اپنے بھائی آپس میں لڑ رہے ہیں ان کو دیکھیں PTMسے کون ناراض ہے اور کس لئے ناراض ہے؟۔ صرف اسلئے ناراض ہے کہ وہاں پر پکوڑے کھارہے ہیں۔ یہ بہت چالاک ہیں۔ گاؤں علاقے میں ایک آدمی کو ٹھیکہ دیتے ہیں ، پھر اس کو پکوڑے کھلاتے ہیں اور پھر اس کو چند میٹھی میٹھی باتیں کرتے ہیں ۔ پھر اس کو قوم کی دشمنی کیلئے کھڑا کردیتے ہیں۔ یہ کام وہ چھوڑ دیں۔ قسم سے اس وقت تک یہاں کے حالات کی درستگی نہیں ہوسکتی کہ جب تک ہم آپس میں لڑنا جھگڑنا نہ چھوڑیں۔ دوستو! میں ہمیشہ دشمن کو مخاطب کرتا تھا اور آج اپنی قوم کو سمجھارہا ہوں۔ یہ لڑنے والا کام چھوڑ دیں جس کے جھگڑے ہوں وہ ایکدوسرے کو معاف کریں۔ ہم ایک ایک گھر کے پاس کھڑے ہوکر ان کو نہیں سمجھاسکتے ہیں تاہم ایک مصالحتی کمیٹی بنالیتے ہیں جو ہر جگہ پر پہنچے اور وہ جھگڑوں کا خاتمہ کردے۔ ان جھگڑوں نے بہت رکاوٹ کھڑی کردی ہے۔ ان کو بند کردیں۔ آپس میں بھائی چارہ بنالیں۔