پوسٹ تلاش کریں

مختلف ادوار میں شہید کئے جانے والے مسلم سائنسدانوں کیخلاف سازشیں

مختلف ادوار میں شہید کئے جانے والے مسلم سائنسدانوں کیخلاف سازشیں جس سے عافیہ صدیقی پر دہشتگردی کے الزام کی جھوٹی کہانی اور ڈاکٹر سلام مرزائی کو نوبل انعام کی بات عیاں ہوگئی ۔

سمیرہ موسیٰ:ایٹمی طاقت کو میڈیکل کے کام میں لانے اور ایٹمی بجلی پیدا کرنے پر ایجادات کیں مصر سے تعلق تھا 1952 میں امریکہ کے دورے کے دوران شہید کیا گیا۔

سمیر نجیب: ایٹمی سائنسدان تھے۔امریکہ میں کام کیا، مصر جانے کا فیصلہ کیا تواس کی سائنسی تحقیقات کے مسودات کو چوری کرلیاگیا، پھر 1967ء میں انہیں قتل کردیا گیا۔

سعید بدیر: مصر کے تھے میزائل ٹیکنالوجی میں ماہر، بطور خاص Rocket Engineering کے شعبے میں قابل قدر علمی تحقیقات بہم پہنچائی ہیں۔کافی عرصہ جرمنی میں سیٹلائٹ فیلڈ میں خدمات انجام دیتے رہے۔ انہیں بھی 1989ء میں قتل کردیا گیا۔

سلویٰ حبیب: یہ کویت کی خاتون محققہ،جس نے صیہونیوں کی جانب سے عالم عرب اور افریقہ کے خلاف تیار کئے گئے خفیہ سازشوں اورکئی منصوبوں کو طشت از بام کیا، نیز تاریخ یہود اور Rothschildکے بارے میں متعدد کتابیں بھی لکھی ہیں۔ انہیں ان کے رہائشی فلیٹ میں ذبح کردیا گیا۔

حسن کامل الصباح: لبنان سے تعلق ماہر انجینئر تھے (انہیں عالم عرب کا ایڈیسن بھی کہا جاتا ہے) الیکٹریکل انجینئرنگ شعبے میں 173 ایجادات ہیں۔1935ء میں امریکہ میں قتل کردیا گیا۔

ڈاکٹر سامیہ میمنی: سعودی عرب سے تعلق رکھنے والی میڈیکل ڈاکٹر۔ ان کی علمی تحقیقات نے ہارٹ آپریشن کے زاویے بدل کر رکھ دیے۔ آپریشن کے اس نہایت پیچیدہ پروسس کو سہل اور آسان تر بنانے کیلئے ایک آرام دہ عصبی آلہ ایجاد کیا۔ انہیں 2005ء میں قتل کرکے ان کے ایجاد کردہ آلے اور علمی تحقیقات کے مسودات کو چرالیا گیا۔

مصطفی مشرفہ: یہ مصر سے تعلق رکھنے والے فزکس کے ماہر سائنسدان تھے، عرب کا آئن سٹائن کہلاتا تھا، 1950 ء میں انہیں موساد نے زہر دے کر قتل کروادیا۔

حسن رمال: لبنان کے یہ سائنسدان فزکس کے شاہسوار تھے، 119سے زائد سائنسی ایجادات اور سائنسی تحقیقات کی ہیں۔ 1991ء میں انہیں فرانس میں قتل کردیا گیا۔

یحییٰ المشد: مصر ی ایٹمی سائنسدان مصر کے جوہری پروگرام کے مؤسسین کے سرخیل تھے، نیز انہیں عراق کے ایٹمی پروگرام کا بابا بھی کہا جاتا ہے۔ ایٹمی ری ایکٹر کے بارے میں انکے تقریباً 50 تحقیقی مقالے ہیں۔ انہیں 1980ء میں فرانس کے شہر پیرس میں قتل کردیا گیا۔

اے ایس آئی محمد بخش کی بہادری اور 13 سالہ آرزو راجہ کی شادی

پولیس والے کے گھروالوں نے مظلوم عورت اور اس کی یرغمال بچی کوبازیاب کرانے کیلئے جو کام کیا اس کا کریڈٹ سندھ پولیس ، کلچر اور دھرتی کو یقینا جاتا ہے لیکن اصل کردار محمد بخش کے گھر والوں کا ہے۔ اگرعورت مضبوط کردار ادا کرے، خواتین کو مضبوط کیا گیا اور معاشرے میں مواقع دئیے گئے تو ہماری پاک دھرتی پاکیزہ بن سکتی ہے۔ لودھراں سے آئی ہوئی مہمان دلہن کو قائداعظم کے مزار پر زیادتی کا نشانہ بنانے والے بھی سزا سے چھوٹ گئے۔ وزیرستان کا مقولہ ہے کہ ”میرے باپ مرجائیں اور میں اچھل کود کیلئے فارغ ہوجاؤں” انگریز کے جانے کے بعد یتیم انتظامیہ نے دھرتی کے اخلاقیات کا کباڑہ کردیا۔ قائداعظم نے اپنی دختر کو غیرمسلم کزن کیساتھ جانے دیا ، اسکے مزار کے اندر کا حصہ قائداعظم کے باغی نہیں چہیتے استعمال کرتے تھے۔ مجرم کا یہ کہنا زیادہ گھناونی بات ہے کہ اس نے عورت کو 11ہزار میں خریدا لیکن یہ روش تو چل رہی ہے۔ 13سالہ آرزو سے ناجائز تعلق بڑا جرم ہے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ”جس نے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے ،باطل ہے ،باطل ہے”۔ آرزو کو اسلام مبارک ہو لیکن حدیث پر عمل کرکے والدین کے پاس چلی جائے۔ مسلمان دوسرے مسلمان کی لڑکی کو ورغلائے تو جرم ہے، اگر اسلام کو ڈھال بناکر استعمال کیا جائے تو یہ مزید بڑا جرم ہے۔آرزو حدیث کی بنیاد پر شوہر کو چھوڑ کر والدین کے پاس جائے تو عیسائی دنیا اسلام کو سلام کرے گی۔

کہاوت ہے کہ” پشتو نیم کفر دا” پشتو نیم اسلام بھی ہے. تحریر: عتیق گیلانی

پشتو کی مشہور کہاوت ہے کہ پشتو آدھا کفر ہے۔ جس کا مطلب پشتو زبان نہیں بلکہ پشتون کلچر ہے۔یہ کہاوت پختون اقدار اور رسم وروایات کے حوالے سے ہے۔ جس طرح جاہل عرب بیٹیوں کو زندہ دفن کرتے تھے اسی طرح پختون روایات میں کچھ باتوں کو محض غیرت کا مسئلہ سمجھ کر اس پر عمل کیا جاتاہے ۔ اس روایت کی بڑی مثال یہ ہے کہ ” ایک پڑوسی کی دوسرے پڑوسی سے کوئی ناچاقی ہو تو پڑوسی کو اپنی ہی زمین پر چیلنج کردیتا ہے کہ تم کوئی تعمیر نہیں کرسکتے۔ جب دونوں غیرتمند بن کر اپنا اپنا ہدف حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور قتل وغارتگری ہوجاتی ہے تو اس کو پختون روایات سمجھا جاتا ہے اور اس کو نیم کفر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ طالبان نے دہشت گرد کاروائیوں سے جہاں اپنی قوم کا بہت نقصان کرلیا ہے لیکن کافی حد تک اس نیم کفر کا جنازہ بھی نکال دیا ہے۔ خود کش حملوں کے آگے نیم کفر اور اسلام سب بیکار تھا۔ اس کی ساری ذمہ داری ریاست پر ڈالنا بھی بہت بڑی حماقت ہے۔ دہشت گردوں کی کاروائیوں سے نیم کفر پورے کفر میں بدل گیا تھا کیونکہ نیم اسلام کیلئے بھی غیرت کا عنصر عوام میں نہیں رہاتھا۔ وزیرستان میں جن لوگوں کے گھر تک نہیں تھے وہاں ایک شناختی کارڈ پر لوگوں نے فوج کی وجہ سے بڑے پیمانے پر رقم بٹور لی جبکہ کراچی میں لیاری ایکسپریس وے کے لیز شدہ مکانات مسمار کئے گئے مگر ایک روپیہ بھی لوگوں کو نہیں ملا ہے۔ اگر فوج کا کردار نہیں رہا ہے اور بے غیرت سیاستدانوں کے رحم وکرم پر بے چارے عوام کا دارومدار ہوا تو بہت مشکل ہوگی۔ کوئٹہ جلسے میں کوئی مرد کا بچہ یہ کہنے کی جرأت کرتا کہ ” مجید اچکزئی نے دن دیہاڑے غریب ٹریفک پولیس اہلکار کو کچل دیا ، کیمروں کی آنکھ نے محفوظ کرکے میڈیا میں دکھایا مگر عدالت نے بری کیا۔ کیا پہاڑوں میں چھپ کر وار کرنے والوں کویہ عدالتیں سزائیں دے سکتی ہیں؟”۔
کراچی میں رینجرز اہلکار نے رنگے ہاتھوں پکڑنے والے ڈکیٹ کو غلطی سے ماردیا لیکن عدالت نے اس کو سزا دیدی۔ ہماری ریاست، ہمارا مذہب اور ہمارا کلچر سب کے سب نیم کفر کے مترداف ہے۔ ہونا یہی چاہیے تھا کہ قتل عمد اور قتل خطاء میں فرق روا رکھا جاتا۔ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے میڈیا پر واضح کیا ہے کہ زنا بالجبر اور زنا بالرضا میں فرق نہیں ہے۔ دونوں کی سزا ایک ہے۔ اگر کوئی شخص کسی کے گھر میں گھس کر اس کی بیوی پر چڑھ جائے تو انسانی فطرت اور اسلام میں اس کی سزا قتل ہے لیکن مفتی تقی عثمانی کے نزدیک اس کیلئے چار گواہوں کی ضرورت ہے۔ اسلئے شیخ الاسلام کا اسلام بھی نیم کفر ہے۔ شادی کی رسم میں لفافے کی لین دین کو مفتی محمد تقی عثمانی نے سود قرار دیا اور بینک کے سود کو اسلام قرار دیدیا۔ سود خور پختون اوران کے بعض علماء بھی حیلہ سازی کے کرتب میں مبتلاء تھے۔
پنجابی لوگ پتہ نہیں کہاں سے کہاں نکل جائیںگے؟۔ مرزا غلام قادیانی پنجابی تھا۔ مرزائیوں کا مرکز ربوہ بھی پنجاب میں ہے۔سرکاری اور تجارتی سطح پر بھی قادیانی معاشرے کا حصہ ہیں۔ جب ان کو سرکاری سطح پر کافر قرار دیا جارہاتھا تب بھی مرزا طاہر غلام احمد قادیانی کا پوتا اسمبلی میں بحث کرنے کیلئے آتا تھا۔ جب مولانا فضل الرحمن اپوزیشن لیڈر تھے تو پنجاب کے چوہدری برادران نے انکے دل کے وال بھی امریکہ سے قادیانی ڈاکٹر مبشر کو بلاکر بدلوائے تھے۔ اگر بینک منیجر قادیانی بھی ہوتا تو کیا اس کے قتل پر کوئی قاتل عاشق رسول بن سکتا تھا؟۔ اگر یہ بینک منیجر اس گارڈ کی بیگم پر زبردستی چڑھتا تو پھر اس کو قتل کرنا غیرت ، ایمان اور اسلام کا تقاضہ تھا لیکن یہ بہت افسوسناک بات ہے کہ قادیانی سمجھ کر قتل کو عشق کا تقاضہ سمجھا جائے۔ پھر جنہوں نے مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے پیروکاروں کو قتل نہیں کیا وہ سب بے ایمان اور بے غیرت تھے؟۔ اگر یہی مذہبی مزاج رہا تو پھر کسی کا ایمان بھی معتبر نہیں ہوگا۔
پھر تو سمجھا جائیگا کہ جنرل باجوہ، مولانا فضل الرحمن، عمران خان، نوازشریف اور سارے فوجی جرنیل، سیاسی لیڈر اور علماء بھی قادیانی ہوسکتے ہیں۔ جان بچانے کی خاطر ڈر سے قادیانی ہونے کا اظہار نہیں کرتے۔ پاکستان نازک موڑ پر کھڑا ہے اور کسی بڑے دھماکے سے پہلے ہمارے ریاستی اداروں ، سیاسی لیڈر شپ اور علماء کرام کو مثبت کردار ادا کرنا ہوگا ورنہ تو طالبان کے خوف سے سرکاری نمبر پلیٹ اسلام آباد میں گاڑیوں پر نہیں لگائی جارہی تھیں اوراب حالات نے پلٹا کھایا تو بہت مصیبت کھڑی ہوسکتی ہے۔ ن لیگ کے خلاف قادیانی ہونے کی مہم چلائی گئی، عمران خان کو بھی وضاحت دینا پڑی۔ جنرل ضیاء الحق نے قادیانی کے فتوے کے خوف سے ایک سخت آرڈنینس جاری کیا تھا۔ صابر شاکرنے ویڈیو میں بتایا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے مولانا فضل الرحمن کے سامنے واضح کیا کہ وہ قادیانی نہیں راسخ العقیدہ مسلمان ہیں لیکن جب پروپیگنڈہ پھیلانے والے اپنا کام دکھاتے ہیں تو معاملہ مشکل بن جاتا ہے۔ اوریا مقبول جان نے کہا تھا کہ ”نبیۖ نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایک تحفہ دیا تو جنرل قمر باجوہ نے بائیں ہاتھ سے لیا پھر حضرت عمر نے دائیں ہاتھ سے لینے کا کہا تھا”۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کو نوازشریف نے آرمی چیف بنایا تھا اور اب تو ایکسٹینشن میں نوازشریف، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف سب شامل ہیں۔ جمہوری لوگوں نے غلط کیا یا درست کیا لیکن اب فوج میں دراڑ ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے۔
جب نوازشریف کے دور میں ماڈل ٹاؤن کے قتل کی ایف آئی آر درج نہیں ہورہی تھی اور جنرل راحیل شریف کو نوازشریف نے کردار ادا کرنے کا کہا تو ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان سے جنرل راحیل شریف نے ایف آئی آر درج کرانے کا وعدہ کیاتھا۔ پھر ایف آئی آر درج ہونے کے بعد اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔جب عمران خان نے دھمکی دی ،پھر وفاق کے زیر کنٹرول آئی ایس آئی اور رینجرز کو سندھ پولیس کیخلاف استعمال کرکے جناح کے مزار کی بے حرمتی کے ایکشن پر مجبور کیا گیا تو بلاول بھٹو زرداری اور آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کے درمیان گفتگو میں ایکشن لینے کی بات ہوئی۔ اس کا بھی بظاہر کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔نیشنل میڈیا اور سوشل میڈیا بہت تیزی سے عوام کا ریاست پر سے اعتماد اُٹھارہے ہیں مگر کسی بڑے خونی انقلاب سے پہلے ایک ایسے انقلاب کی ضرورت ہے کہ موجودہ ریاستی ڈھانچہ اور عوام مل بیٹھ کر ایک اچھے سیٹ اپ سے اپنے حالات بہتر کرلیں، غریب کی زندگی اجیرن ہے کسی وقت بھی کوئی ایشو بہانہ بن جائے تو پیٹرول کا سمندر آگ پکڑنے میں دیر نہیں لگائے گا۔
حضرت ابوبکر و عمر کی خلافت کو انصار کے سردارسعد بن عبادہ اور حضرت علی و ابن عباس نے دل سے قبول نہیں کیا۔تو نتیجے میں حضرت سعد بن عبادہ کو جنات نے قتل کردیا اور حضرت عثمان مسند خلافت پر شہید کردئیے گئے۔ پھر حضرت علی نے اپنا دارالخلافہ کوفہ منتقل کیا مگر وہاں بھی شہید کردئیے گئے۔ حضرت امام حسن کو دستبردار ہونا پڑا اور حضرت حسین کیساتھ واقعہ کربلا پیش آیا۔ خلافت بنوامیہ اور پھر بنوعباس کی لونڈی بن گئی اور پھر ارتغل غازی نے اس کو اپنے خاندان کی لونڈی بناکر دم لیا۔ اہل تشیع اپنے تین اماموں کے بعد باقی 9اماموں کی زندگی پر غور کریں۔ اپنی حدود سے تجاوز کریںگے تو خلافتِ راشدہ سے عقیدت رکھنے والوں کی طرف سے ردِ عمل آئیگا۔ حضرت عثمان کیلئے نبیۖ نے صلح حدیبیہ سے پہلے بیعت رضوان لیا تھا لیکن حضرت عثمان کی حقیقی شہادت ہوئی تو اس بیعت کی پاسداری کا کچھ نہیں کہاجاسکتا ہے۔اب امت میں انتشار نہیں اتحاد کی سخت ضرورت ہے۔سید عتیق الرحمن گیلانی

اپوزیشن کی سیاست ، میڈیا کا کردار،مذہب کی پاسبانی. تحریر: عتیق گیلانی

مریم نواز نے کہا کہ ”بلوچستان میں راتوں رات باپ پارٹی بنی اور دوسرے دن صبح اوزیر اعلیٰ کو جنم دیا”۔ نواز شریف کو بھی جنرلوںنے جنم دیا اور اسلامی جمہوری اتحاد سے آبیاری ہوئی ۔ مولانا اویس نورانی نے محفل کو جوش دلانے کی غرض سے کہا کہ ”بلوچستان کو آزاد ریاست دیکھنا چاہتے ہیں”۔پھر اس کو زبان کی پھسلن قرار دیا۔ بلاول بھٹو زرداری اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنے کیلئے جلسے میں نہیں آیا پھر اس نے اسٹیبلشمنٹ کو ناراض کرنے والی بات مسنگ پرسن کا ذکر جوش و خروش سے کیا۔
حکومتی اتحادی اختر مینگل نے اپوزیشن کے جلسے میں کراچی کے بعد کوئٹہ میں بھی شرکت کی اور محمود اچکزئی کے نظرئیے پر کاری ضرب لگاکر کہا کہ افغان سے آئے لوگوںکو بے دخل کیا جائے۔ اچکزئی نے پاکستان و افغانستان میں پاسپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے ڈیورنڈ لائن پر باڑاکھاڑ پھینکنے کی بات کی۔ منتشر ذہنیت کے جلسے کو گرمانے کی کوشش ہر سیاسی خطیب اور نظریاتی رقیب نے کی اور ساتھ ساتھ اسٹیج پر شور و غل کو خاموش کرنے پر بھی برہمی کے اظہار تک پہنچے۔ اے این پی کے میاں افتخار حسین نے پی ڈی ایم کی قرار داد پیش کی اور امیرحیدر خان ہوتی نے محمود خان اچکزئی چچا کو جواب دیا کہ کراچی کے جلسے میں گلہ تھا کہ سلیکٹڈ کا نام لیا مگر سلیکٹر کا نام نہیں لیا۔ مولانا فضل الرحمن نے کراچی کے جلسے میں بھی حکومت کیساتھ اپوزیشن کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا کہ ”جن کو لوگ چور اور کرپٹ کہتے تھے اس حکومت کی وجہ سے لوگ پھر انہی چوروں اور کرپٹوں کی طرف مائل ہوگئے ”۔ اور عمران خان پربھی وار کیا کہ ”عمران خان نے جنرل قمر جاوید باجوہ کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ آصف نے فون کرکے اپنی ہار جیت میں تبدیل کی۔ یہ نادان دوستوں کا کام ہے”۔
مذہب کی دھاک پر اچکزئی نے نعرہ تکبیر اللہ اکبر کا فلسفہ اپوزیشن کو سمجھایا۔ آذان دینے والا مؤذن تنخواہ دار ہوتا ہے اور آذان بھی کسی کی اجازت سے دیتا ہے اسلئے اس کی آذان میں طاقت نہیں ہوتی۔ مریم نواز کا کردار اپوزیشن کی آذانوں کیلئے متولی (خاکم بدہن مسجد کے زمینی مالک) کی حیثیت رکھتا ہے۔ نواز شریف کو کسی کے گریبان میں ہاتھ ڈالتے ہوئے دیر نہیں لگتی لیکن گریبان میں ہاتھ ڈالتے ڈالتے اسکے ارادے بدل کر پیروں کو پکڑنے تک پہنچنے میں بھی وقت نہیں لگتاہے۔
پی ڈی ایم کا اصل ہدف فوج کا حکومت سازی میں کردار کا خاتمہ ہے۔ باقی جماعتیں شروع سے اس کردار کے خلاف ہیں مگرنوازشریف کے بعد جب سے فوج نے ایک نیا بچہ پال لیا ہے اور ن لیگ کو گائے نے دودھ چھڑادیا ہے تو بچھڑا روتا پھر رہاہے کہ مجھے کیوں نکالا؟۔ ووٹ کو عزت دو۔ شہبازشریف نے جمعیت کے اسلام آباد دھرنے میں بھی واضح طور سے کہا تھا کہ ” فوج کی جتنی مدد عمران خان کو حاصل ہے ،اگر اس کا 10%بھی مجھے مل جائے تو ہر خدمت کروں گا”۔ اب فوج کو اپنے دونوں بچھڑوں سے ہی سب سے زیادہ خطرہ ہے اسلئے کہ گائے کا بچہ بیل بن کر اپنی ماں پر بھی چڑھ دوڑتا ہے۔ باقی صوبوں میں فوج سے بغاوت کے جذبات کسی کام کے نہیں لیکن پنجاب سے بغاوت اُٹھ گئی تو فوج کو سرحدات پر جانے کی نہیں بلکہ بڑا خونی انقلاب آسکتا ہے۔ پاکستان کی ریاست کا دارمدار صرف اور صرف فوج ہی کی طاقت پر منحصر ہے۔ اگر پنجاب میں ن لیگ اور ق لیگ نے حکومت بنالی اور مرکز میںاتحادی بدل گئے تو عمران خان نوازشریف سے زیادہ بڑا باغی بچہ ہوگا۔ پی ڈی ایم کی روحِ رواں مریم نواز شریف سے جان چھوٹ سکتی ہے اور بعید نہیں کہ ن لیگ پھر فوج سے زیادہ وفاداری کا ثبوت دے اسلئے کہ یہ شرماتے ہیں نہ گھبراتے ہیں۔
اصل مسئلہ سوشل میڈیا اور پنجابی قوم ہے، بھوکے ننگے عوام ہیں، سودی قرضہ اور مہنگائی ہے۔ مہنگی گیس اور بجلی ہے۔ وسائل پر لڑنے والے مسائل حل نہیں کرسکتے ہیں۔ جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر جاویدباجوہ نے دہشتگردی پر جیسے تیسے مگر قابو پالیا۔ جنگ کے کالم نگار ارشاد احمد حقانی حکومت ساز تھے، اسی نے پرویزمشرف اور مقتدر قوت کو مشورہ دیا کہ ” اگر امریکہ کی مدد ہم نہ کریں تو یہ کام بھارت کرلے گا”۔ ہم نے اس وقت بھی شدید الفاظ میں حقانی کی مخالفت کی تھی۔پھر پاکستان میں جس طرح دہشتگرد کاروائیوں کے باجود طالبان کی حمایت کا سلسلہ جاری رہاتھا۔ مولانا فضل الرحمن نے 2007ء میں ان کو خراسان کے دجال کا لشکر قراردیا مگر میڈیانے یہ خبر نہیں دی۔ پورا پختونخواہ دہشت گردوں کی لپیٹ میں تھا مگر خونی انقلاب نہیں آیا اور سارے پختون طالبان بن گئے تھے لیکن بہت سے غیرتمند ان کی حمایت سے بھی پیچھے ہٹ گئے۔ پختونوں میں بے غیرت لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ جب ہمارے ساتھ بڑا واقعہ ہوا تب بھی ہمارے عزیز طالبان کو پراٹھے کھلاتے تھے ۔ آئی ایس آئی نے میرے ماموں کے گھر سے طالبان کی پک اپ برآمد کرکے بارود سے اڑادی۔ پاک فوج نے سہولت کاروں کو پکڑا تو ہمارے والوں کی ہمدردیاں سہولت کاروں ہی کے ساتھ تھیں۔ پنجابی ایسے نہیں ۔ پختونوں کے دل ودماغ میں جب طالبان بہت برے ٹھہرے تب بھی خوف کے مارے ان کو عزت دیتے رہے۔ طالبان نے اقرار کیا کہ مجرم ہمارے لوگ ہیں لیکن پوری محسود قوم اور ہمارے اکثر عزیزوں نے ہمارا ساتھ نہیں دیا۔ نامعلوم کوہم نے معلوم کرنے کا اسٹینڈ لیا مگر قوم نے ہمت نہیں کی۔
مولانا فضل الرحمن نے یورپ کو بھی پاکستانی ووٹر سمجھ رکھا ہے تو اپنے خیالات پر نظر ثانی کرے۔ فرانس کا ملعون حکمران یہ کہہ سکتا ہے کہ” مولانا ! جب میں بامیان کے آثار قدیمہ کیلئے دست بستہ رعایت مانگ رہا تھا تو میں عیسائی ہوں ، بدھ مت کے مجسموں سے کوئی سروکار نہیں رکھتا مگر آپ نے دنیا بھر کے جذبات کو محض اسلئے ٹھکرادیا کہ یہ تمہارا مذہبی جذبہ تھا۔ دوسری طرف مولانا سمیع الحق کہتا تھا کہ پیسے لیکر ان آثار قدیمہ کو فروخت کردیا جائے تو آپ اس کو بت فروش کہتے تھے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جن مسلمانوں کے جذبات کا یہ عالم ہو کہ دوسروں کو ٹھیس پہنچا کر اس کی شریعت مکمل ہوتی ہو اور پھر یہ جذبہ کرائے پر استعمال بھی ہوتا ہو اور رکتا بھی ہو تو بڑا خطرناک ہے۔ ہم نے سوچ سمجھ کر اس کا جڑ سے خاتمہ کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔ کرائے کے جہادی اور جذباتی سے ہم نے دنیا کو نہیں تو کم از کم اپنے اپنے ملکوں کو صاف کرنا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب ہماری استدعا کو آپ نے نہیں سنا تو مجھ سے کیوں اور کس بنیاد پر رعایت کی بھیک مانگ رہے ہو؟۔ تیسری بات یہ ہے کہ آپ کو اپنا مذہب اتنا ہی پیارا ہے تو ترقی یافتہ ممالک سے جہاں لوگوں کے ہاں اپنے مذہب کا معاملہ بھی اتنا حساس نہیں ہے مسلمان بلا کیوں نہیں لیتے ؟جو ہمارے سروں پر پڑا ہوا ہے۔ چوتھی بات یہ ہے کہ آپ کے شر سے بچنے کیلئے جن مرزائیوں نے بڑے پیمانے پر ہمارے ہاں پناہ لی ہے ان کا قصور یہ ہے کہ وہ ختم نبوت کے منکر ہیں تو ہمارے نزدیک حضرت عیسیٰ کے بعد مسلمان بھی منکرختم نبوت اور جھوٹے دعویدار ہیں اسلئے حقائق کو سمجھو۔چھٹی بات یہ ہے کہ مسلمان زیادہ بچے پیداکرتے ہیں، اگر ہم نے ان کو نہیں نکالا تو کچھ عرصہ بعد ہم اقلیت میں بدل جائیںگے اسلئے توہین کا بہانہ کرکے مسلمانوں کو یورپ بدر کرنا چاہتے ہیں۔ساتویں بات یہ ہے کہ جب تمہارا مفاد ہوتا ہے تو کرپشن بھی جائز اور سودی بینکاری بھی اسلامی تو ہمارے لئے کیوں غلط جذبہ رکھتے ہو؟۔ جب ہم بھی اپنے مذاہب سے کھلے عام دستبردار ہیں تو تم کیوں سرِ عام منافقت کرتے ہو؟”۔یہ اسلامی دنیا کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔

مغرب کے اعتراض اور مثبت اقدام کی ضرورت ہے. تحریر: عتیق گیلانی

مغرب اس بات پر حیران ہے کہ مسلمان اتنا حساس کیوں ہے کہ انبیاء کرام کی تصاویر، خاکے اور کارٹون پر مرنے مارنے پر اُتر آتا ہے؟۔ مغرب کو اس پر حیرانی کا سامنا ہے کہ نبیۖ نے6 سالہ بچی سے منگنی ، 9سالہ بچی سے شادی کیسے کی؟۔ مغرب اس بات پر حیران ہے کہ قرآن جنگ میں قید ہونے والوں کو لونڈی اور غلام بنانے کی اجازت کیسے دیتا ہے؟۔جب یورپ وامریکہ کے مسلمانوں کو قرآنی آیت اور احادیث کا حوالہ دیا جاتا ہے تو ان کے پاس کوئی معقول جواب نہیں ہوتا ہے۔ پھر مغرب ان تصورات کو کارٹونوں کے ذریعے سے اجاگر کرتے ہیں تو مسلمان بہت پریشان ہوجاتے ہیں کہ ان باتوں کا کیا جواب دیا جائے۔ بعض مسلمان مشتعل ہوکر ردِ عمل دیتے ہیں تو مغرب اس کو چوری اور سینہ زوری سمجھنے لگتاہے۔ عرب میں اقامہ مشکل سے ملتا ہے مگر مغربی ممالک میں نیشنلٹی بھی آسانی سے مل جاتی ہے۔شامی پناہ گزینوں کو پناہ دیدی ۔ہمارے وزیراعظم عمران خان نے اعلان کے باوجودان بنگالیوں اور برمیوں کو شہریت نہیں دی ہے جن کی کئی نسلیں یہاں پیدا ہوئی ہیں۔
ہم نے یہود ونصاریٰ کو درست جواب دینے کیلئے قرآن وسنت کی طرف ہی رجوع کرنا ہوگا۔ آج مسلمان جس طرح اپنے دین،ایمان اور علم سے نابلد ہیں آج سے ساڑھے چودہ سوسال پہلے جب اسلام نازل ہوا تھا تو یہودونصاریٰ اسی طرح اپنے اصل دین سے نابلد تھے۔ یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں گستاخانہ ذہنیت رکھتے تھے کہ وہ ولد الزنا ہیں، نعوذباللہ۔ عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا اور حضرت مریم کو خدا کی بیوی سمجھتے تھے، ایکدوسرے پرمظالم کی انتہاء کرتے تھے۔ کوئی شک نہیں کہ کارٹون بنانے سے بھی زیادہ یہ گستاخانہ عقائد تھے۔
اسلام نے کسی ایک کے خلاف بھی مہم جوئی کی دعوت نہیں دی۔ دلیل برہان سے بات کی۔ دونوں کو اہل کتاب قرار دیا۔ دونوں مذاہب کی خواتین سے نکاح کی اجازت دی۔ ایک مسلمان کی ایک بیوی یہودن اور دوسری عیسائی ہو۔ ایک کا عقیدہ عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اولادالزنا اور دوسری کا عقیدہ خدا کے بیٹے ہونے کا ہو اور مسلمان بچے اپنی ان ماؤں کے قدموں میں جنت سمجھتے ہوں تو اس سے زیادہ تحمل وبردباری کا درس کیا ہوسکتا ہے؟۔ اسلام نے دنیا کو جس طرح کا تحمل سکھایا ہے اور اسلامی تعلیمات میں جو مساوات ہے اسی نے دنیا کو انسانیت سکھا د ی ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن نے مسلمانوں کو یہودونصاریٰ کے انبیاء کرام پر تو تحمل کا سبق سکھایا ہے لیکن اپنے نبیۖ کے بارے میں بہت حساسیت کا درس دیا ہے؟۔ اسلئے تو مسلمان اپنے نبیۖ کیلئے برداشت کا قطعی طور پر مادہ نہیں رکھتے۔
جواب یہ ہے کہ قرآن کی سورۂ نور میں بہتان عظیم کا ذکر ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ پر بہتان سے بڑھ کر نبیۖاور مسلمانوں کیلئے کوئی اذیت ہوسکتی ہے؟۔ کسی کا کارٹون بنایا جائے ،اس سے زیادہ اذیت ہوگی ؟،یا کسی کی محترمہ پر بہتان لگایا جائے تو اس سے زیادہ اذیت ہوگی؟۔ ظاہر ہے کہ کارٹون کے مقابلے میں جس پاکباز انسان کی پاکباز بیگم پر بہتان لگایا جائے اس سے بہت زیادہ اذیت ہوگی۔
رسول اللہۖ اور جلیل القدر صحابہ کرام چاہتے تو بہتان لگانے والوں کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس بہتان عظیم پر بھی 80،80کوڑوں کی سزا کا حکم دیدیا۔ اوریہ سزا صرف اُم المؤمنین پربہتان لگانے کیساتھ خاص نہیں تھی بلکہ قیامت تک آنے والی ادنیٰ سے ادنیٰ عورت پر بہتان کی یہی سزا ہے۔ رسول اللہۖ نے اپنی زوجہ محترمہ پر بہتان کی سزا میں جذبات سے کام نہیں لیا اور نہ مسلمانوں کو انتقام پر اُبھارا تھا اور نہ نکاح ٹوٹنے کے فتوے جاری کئے۔ تو آج مسلمان قرآن وسنت کی تعلیمات پر نہیں چل رہے ہیں۔ یہود کے احبار ،نصاریٰ کے رہبان کے نقشِ قدم پر چلنے والے علماء ومشائخ کو رب بنالیا ہے، جن کے پاس تعصبات کے چولہوں کو ہواد ینے کے علاوہ دین، ایمان اور علم کی روشنی نہیں ہے۔ اپنوں کے خلاف بھی تعصبات کے ایندھن پر یہ زندگی بسر کرتے ہیں۔
سلیم صافی نے بتایا کہ ”پشاور دھماکہ جس مدرسے میں ہوا ، وہ طالبان کے حامی ہیں، طالبان نے کھل کر اس کی مذمت بھی کی ہے۔ داعش خاموش ہے، داعش نے کیا ہے”۔ مدرسہ مہتمم نے تکفیری گروپ داعش کا نام لیا اور جماعت اسلامی کے سراج الحق اور مشتاق بھی ساتھ تھے لیکن اسکے باوجودسینٹ میں سراج الحق اور مولانا عطاء الرحمن نے پاک فوج کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے، جو افسوسناک بات ہے۔
میں نے اپنی کتاب” عورت کے حقوق” میں حضرت عائشہ کی عمر اور لونڈی و غلام کے تصور کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔حضرت عائشہ کی عمر منگنی کے وقت16سال اور رخصتی کے وقت 19سال تھی۔ اگرجمعیت علماء اسلام ،جماعت اسلامی و دیگر مذہبی طبقے اپنی روایتی منافقانہ روش کو چھوڑ کر حقائق کی تبلیغ کریں توبات بن جائے گی۔
اسلام نے مزارعت کو سودی نظام قرار دیا تھا، جس کی وجہ سے خاندان و افراد غلامی ولونڈی بننے کا شکار ہوتے تھے۔ احادیث صحیحہ اور فقہی اماموں کا مسلک چھوڑ کر علماء وفقہاء مزارعت کو جائز نہ قرار دیتے تو کمیونزم کا نظام دنیا میں کامیاب نہیں ہوسکتا تھا۔ جب شریعت کے برعکس جاگیردارانہ نظام سے مسلمانوں نے دنیا میں غلام ولونڈی کے نظام کو دوام بخشا تو نام نہاد اسلامی خلافت کا خاتمہ ہوگیا۔ آج سودی نظام سے ریاستوں کو غلام بنایا جارہاہے تو پاکستان ایٹمی صلاحیت رکھنے کے باجود اپنی آزادی کھو بیٹھا ۔ اس میں سیاستدانوں اور ریاستی اداروں کے علاوہ شیخ الاسلام اور مفتی اعظم پاکستان کہلانے والے دیوبندی بریلوی بھی شریک ہوگئے ہیں۔
سودی قرضے سیاستدان اور جرنیل مل بیٹھ کر کھا جاتے ہیں اور مہنگائی و ٹیکس کی صورت میں بھگتتے عوام ہیں۔ وسائل پر لڑنے والے مقتدر طبقات مسائل حل کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ فرانس کے حکمران دانستہ یا نادانستہ مسلمان عوام کے جذبات بھڑکا کر انسانیت کو ملیامیٹ کرنے کے چکر میں ہیں۔ کرکٹ کے کھلاڑی عمران خان نے سیاستدانوں کو کوڑا کرکٹ بنادیا مگر اب وہ خود بھی اسی نہج پر پہنچ گیا۔ افغانستان میں طالبان و القاعدہ کے بعد داعش و طالبان کا کھیل پاکستان میں کھیلنے کی تیاری ہے۔ سندھی، مہاجر،بلوچ، پشتون کے بعد فوج سے پنجاب کا یقین بھی متزلزل ہے۔ پاکستان کے ہر ادارے میں رشوت اور بھتہ عام ہے۔ افغانستان اور ایران کی اسمگلنگ میں اداروں کے افسران واہلکار ملوث ہیں۔ پنجاب میں بھتہ نہ دینے پر فوجی اہلکار کی طرف سے گولی مارنے کا واقعہ پیش آیا یا پہلی مرتبہ سوشل میڈیا کی مہم جوئی کا محور بنادیا گیا؟۔ اگر فوج کو پنجاب کی عوام کے جذبات کا اندازہ نہیں تو قائدآباد خوشاب میں بینک منیجر کا قتل تازہ واقعہ ہے۔ جس میں تحقیق کے بغیر لوگ تھانے پر چڑھ گئے۔’علامہ اقبال نے ” پنجابی مسلمان” کے عنوان سے لکھا ہے کہ
مذہب میں بہت تازہ پسند اس کی طبیعت کرلے کہیں منزل تو گزرتا ہے بہت جلد
تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد
تأویل کا پھندہ کوئی صیاد لگادے یہ شاخِ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد
پاکستان سیاسی و مذہبی ہلڑ بازی کا متحمل نہیں اور عوام آخری حد تک تنگ آمد بہ جنگ آمد تک پہنچ چکے ہیں۔ مذہب اور سیاست کی ہلکی سی چنگاری کا تماشہ دنیا دیکھ لے گی۔ نظریات اور عقائد سے رشتہ ٹوٹ چکاہے۔ جذبات کا خوفناک منظر ہے۔

مسلمان تاریخ کے مشکل ترین دور کی آخری سرحد پر. تحریر: عتیق گیلانی

جب رحمة للعالمین محمد مصطفی احمد مجتبیٰ خاتم الانبیاء و المرسلین ۖ کی بعثت ہوئی تو دنیا جہالت سے گزر رہی تھی۔ ابراہیم علیہ السلام کی نسبت والے مشرکین مکہ، یہود اور نصاریٰ اصل دین سے ہٹ چکے تھے۔ مجوسی ، بدھ مت، ہندو اور دنیا بھر میں مختلف مذاہب اپنی اصل سے ہٹے تھے اور جاہلیت کی اندھیر نگری کا ڈیرہ لگا تھا۔
رسول اللہ ۖ کی 13سالہ مکی اور 10سالہ مدنی زندگی میں مسلم اُمہ بہت مشکلات سے گزر رہی تھی لیکن رسول اللہ ۖ مسلمانوں کیلئے اعلیٰ ترین رول ماڈل تھے۔ قرآن کریم وقتاً فوقتاً ہر مشکل و سہولت کی گھڑی میں نازل ہوتا۔ رسول اللہ ۖ نے اکیلے طائف میں تبلیغ کا مشکل فرض ادا فرمایا۔ کفار نے توہین آمیز رویہ اپنایہ اور پتھروں سے سرکارِ دو جہاں ۖ کو لہولہان کردیا۔ آپ ۖ نے ہتک آمیز رویہ اور پتھر مارنے والوں سے کوئی گلہ نہیں کیا۔ اللہ کی بارگاہ میں انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ ہاتھ اٹھائے اور عرض کیا کہ الٰہی تو مجھ سے ناراض تو نہیں کہ مجھے ان لوگوں کے حوالے کیا۔ اگر آپ مجھ سے ناراض نہیں تو مجھے اس سلوک کی کوئی پرواہ نہیں۔
آج امت کھڈے لائن لگائی جارہی ہے،ہماری آزادی چھین رہی ہے اور ہماری تباہی و بربادی پر دشمنوں کے دل ٹھنڈے نہیں ہوتے مگرہم لمحہ بھر کیلئے بھی سر جوڑ کر نہیں بیٹھتے کہ ہم سے بھول چوک تو نہیں ہوئی ؟۔ افغانستان ، لیبیا ، عراق اور شام تباہ ہوگئے لیکن ہم نے ہوش کے ناخن نہیں لئے۔ مسئلۂ فلسطین وکشمیر حل ہونے کے بجائے مزید الجھ گیا۔ اسرائیل کا پنجہ مضبوط تر ہوتا گیا۔ مٹھی بھر یہود نے امریکہ ، برطانیہ ، یورپ اور غیر مسلم و مسلم ممالک کو اپنے ہاتھ میں لیا ہے اور شکنجہ پاکستان پر بھی کسا جارہا ہے مگر ہم ہیں کہ اپنے مستقبل کا کوئی احساس تک بھی نہیں رکھتے ۔
بڑے دانشور طبقے کی رائے ہے کہ ”یہود و نصاریٰ اور ترقی یافتہ ممالک نے عروج اسلئے حاصل کیا کہ مذہب سے جان چھڑالی ”۔ لا مذہب روس سے دنیا کو غلبے کے خطرات لاحق ہوئے۔ عالمی طاقتوں نے جہاد سے اس کا بیڑہ غرق کیا۔ چین کی ترقی کے پیچھے ماؤزے تنگ کا ہاتھ تھا ۔ شمالی جنوبی کوریا، جاپان کی ترقی بدھ مت کی مرہون منت نہیں۔ گاؤ کے پجاری بھارت کی ترقی سیکولر ازم کی مرہون منت ہے۔ سعودیہ تیل سے دنیا کا امیر ترین ملک بن سکتا تھا لیکن پابندشرعی سلاسل آل سعود کو بھی مذہب سے ہجرت کرنا پڑ ی۔ شیخ الحدیث و القرآن مفتی زر ولی خان نے فرمایا کہ ” مفتی محمد تقی عثمانی پر قاتلانہ حملہ ہوا ، بال بال بچ گئے، شکر ہے۔ دار العلوم کراچی میں کوؤں کی بھرمار تھی۔ شیخ الاسلام کو دار العلوم سے کوؤں کو بھگانے کی توفیق نہیں۔ میں نے احسن العلوم میں باقاعدہ ایک آدمی کوؤں کو بھگانے کیلئے رکھا ہے۔ یہاں پر آپ کو کوئی کوا نظرنہیں آئیگا۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ پانچ چیزیں فاسق ناپاک ہیں جن کو حرم کی حدود میں بھی قتل کیا جائے۔ سانپ، بچھو، کوا، باؤلا کتا اور چیل”۔
مفتی تقی عثمانی ومفتی رفیع عثمانی کا فتویٰ ہے کہ ”کراچی و حیدر آباد کے کوے حلال ہیں”۔ پابندِشرع تھے تو شاید کوے مرغوب غذا ہو، جب شریعت چھوڑ کر سُود کو جواز فراہم کردیا تو ترقی کرلی۔ علماء نے تصویر کی حرمت کو چھوڑا توویڈیو کی ترقی کرلی۔ عمران خان لوٹوں کی مخالفت کرتا تھا تو سیٹ مشکل سے جیتتا تھا اور جب اس نے اپنا نظریہ چھوڑ دیا تو وزیر اعظم بن گیا۔ کیا ان تمام باتوں سے یہی نتیجہ نکالا جائے کہ ہم اپنے دین اور نظرئیے کو چھوڑ دیں گے تو پھر ترقی کی راہیں ہموار ہوجائیں گی؟۔
پہلے توہین رسالتۖ کی خبر پر سلمان رشدی مغرب میں چھپتا پھرتا۔ پھر ڈینمارک کے کارٹوں سے جذبات کا سمندر اُبل پڑا۔ اب فرانس نے حکومتی سطح پر گستاخانہ کارٹونوں کی نمائش کرکے اُمت مسلمہ کو چیلنج کردیا مگر دھیمے لہجے میںآواز اُٹھ رہی ہے۔ آہستہ آہستہ یہ جذبہ کشمیر کی آزادی کی طرح خواب بن کر رہ جائیگا ۔ ہم نے دوسروں کی غلطیوں پر نظر رکھی۔ مولانا حسین احمد مدنی سے مولانامحمد یوسف لدھیانوی تک مولانامودودی کو علماء دیوبند نے انبیاء ، اُمہات المؤمنین اور صحابہ کاگستاخ لکھ دیا۔ ایک مودودی سو یہودی کا نعرہ لگانے کے بعد اتحاد کی ضرورت پیش آئی تو مولانا مودودی اور اسکے پیروکار بھی شامل کئے۔ جسکی وجہ سے ضمیر ڈھیٹ بن گئے اور نظریات کے ٹیٹ نکل گئے۔ مولانا منظور نعمانی کے استفتاء اور علماء دیوبند کے فتوے میں اہل تشیع کو تین وجوہات کی بنیادپر قادیانیوں سے بدتر کافر قرار دیا۔ 1:قرآن کو نہیں مانتے،2: صحابہ کو کافر کہتے ہیں،3: عقیدۂ امامت پر ختم نبوت کے منکر ہیں۔ پھر اتحاد تنظیمات المدارس، ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل کا حصہ بنایا۔ مذہبی طبقہ پتہ نہیں کونسے حکیم کے لونڈے سے دوا لیتاہے کہ متضاد نظریات ، عقیدے اور فتوے کے لکڑ پتھر ہضم کرلیتاہے۔ بریلوی دیوبندی،جماعت اسلامی اہلحدیث اور شیعہ سنی ایکدوسرے پر کفر، گستاخی، گمراہی انواع و اقسام کے فتوؤں سے فارغ نہیں ہوتے تو پھر کسی اور کی طرف توپوں کا رُخ کیسے ہوگا؟۔ شعور کی دنیا میں اسلام سے محبت کرنیوالا مذہبی طبقہ سب سے زیادہ اندھیر نگری اور بے شعوری کا شکار ہے۔
مذہبی طبقات کے مقابلے میں وہ لوگ زیادہ گمراہی کا شکار ہیں جنہوں نے مذہب کیساتھ جدید دانش کی شراب بھی پی ہوئی ہے ۔ اس سے پہلے کہ داعش طالبان کے نام سے دہشت گردی کی فضاء گرم ہو، فرقہ واریت کی بدبو دار لہروں سے ماحول آلودہ ہو،لسانی تعصبات کی آگ بھڑک اُٹھے، سیاستدانوں اور ریاستی اداروں کے درمیان جنگ و جدل سے پاکستانی قوم بے یقینی کی موت مر ے اور ہماری لاشوں پر عالمی طاقتیں ڈھول بجائیں ہمیں سب کیلئے قابل قبول حقائق کی طرف آنا ہوگا۔
ملحد جس انداز میں پیغمبراسلام ۖکی توہین فیس بک پر کررہے ہیں ، فرانس کے کارٹون تو اسکے سامنے کچھ بھی نہیں۔ سیاستدان اور علماء کو عوام کے مذہبی جذبات سے کھیلنا آتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن ، مریم نوازاور عمران خان اعلان کریں کہ فرانس میں انکے لوگ اثاثے بیچ کر نیشنلیٹی چھوڑ دیں تو مذہب سے حقیقی محبت کا پتہ چلے گا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ہوئی تو کئی جیالوں نے خود سوزی کرلی۔ کیا نبیۖ کے ناموس سے علامہ خادم رضوی، شاہ محمود قریشی، مولانا فضل الرحمن، مریم نواز، علامہ الیاس قادری ، علامہ شہنشاہ حسین نقوی وغیرہ کو اتنی محبت بھی نہیں کہ جتنی جیالوں کو بھٹو سے تھی اور جس طرح خود کش حملوں کو جائز قرار دیا جاتا تھا تو احتجاجاً خود کو آگ لگانے سے احتجاج کا صحیح حق ادا ہوجائیگا۔ اپنی ماچس کی تیلیوں سے اپنی رقم سے بنائے ہوئے مجسموں کو جلانا اللہ اور اسکے رسولۖ کی بارگاہ میں قبول نہیں۔
عمران خان جب اپوزیشن میں تھا تو کم ڈرامے کئے تھے؟ کہ اب اقتدار میں بھی اس کی ڈرامہ بازی ختم نہیں ہوتی ہے۔ ملاضعیف کوامریکہ کے حوالے کیا تھا اور پنجاب پولیس کے گلوبٹوںکو طالبان کے حوالے کرنے کی دھمکیاں دیتا تھا تو فرانس کے سفیر کو طالبان کے حوالے کیا جائے۔ ورنہ فرانس کے سفیر کو فرانس بھیج دیا جائے اور اپنا سفیر بلالیا جائے۔ نہیں تو عوام کو بھڑکانے اوراس ڈرامہ بازی کی کیا ضرورت ہے کہ” سارے مسلمان حکمرانوںکو آخری حد تک لیجانے کی کوشش کروں گا”۔
ایک ایسی سنجیدہ کوشش کی ضرورت ہے کہ مغرب کے مسلمان بھی افغانستان، عراق ،لیبیا ، شام ، فلسطین،بھارت اور کشمیر کے مسلمانوں کی طرح مشکلات کا شکار نہ ہوں۔ایک ایک مسئلے کا مدبرانہ حل اسلامی تعلیمات کے عین مطابق موجود ہے مگر مسلمان حکمران اور علماء ومفتیان اسلام کی حقیقت سے بالکل بہرہ مند نہیں ہیں۔

دہشتگردی اور سیاست گردی کا گٹھ جوڑ: ملک محمد اجمل ایڈیٹر نوشتہ دیوار

تحریر:ملک محمد اجمل ایڈیٹر نوشتۂ دیوار
پشاور میں نبوت کے دعویدار مرزائی کو قتل کیا گیا تو سوشل میڈیا سے لیکر عوامی جلسے جلوسوں تک ایمانی جذبوں کا ٹھاٹھے مارتا ہوا سمندر چشم فلک نے دیکھا۔یہ اس فرد کو اسلام سے نکلنے کی سزا دی گئی یااپنے مذہب مرزائیت سے ارتداد کی سزادی گئی؟۔ گند کی نالی میں کھڑا ہوا شخص یہ جرم کرلے کہ ایک بالٹی مزید گندا پانی اپنے اوپر ڈال دے تو کیا اس جرم کی سزا کیلئے خوشیوں کے شادیانے بجائے جاسکتے ہیں اور مجرم جب قادیانی تھا تو اس نے نبوت کا دعویٰ کرکے اپنی مرزائیت سے بغاوت کا ارتکاب کیا تھا؟۔
سیاستدان 72سالوں سے غلامانہ نظام کا حصہ ہونے کے باوجود جب تک حکومت کے اندر ہوتے ہیں تو سب ٹھیک نظر آتا ہے لیکن جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ان کو غلامانہ نظام کا غم کھاتاہے۔ پرویزمشرف اور نوازشریف ”دونوں میں بھی پاکستان ہوں تو بھی پاکستان ہے ”کا نعرہ لگانیوالے پاکستان کے عدالتی نظام سے بھاگے ہوئے ہیں۔ پاک فوج پہلے پرویزمشرف سے گزارش کرے کہ یہاں آکر اپنے اعمال کا حساب دے ۔ن لیگ نوازشریف سے گزارش کرے کہ یہاں آکر اپنے اعمال کا حساب دے۔
پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ لیکن حکمرانوں نے پارلیمنٹ میں کوئی بھی ایسی قانون سازی نہیں کی جس سے لگے کہ ہم نے انگریز کے نظام سے چھٹکارا حاصل کیا ہے۔ جنرل جیلانی نے نوازشریف کا بیج بویا۔ جنرل ضیاء الحق نے گود لیا۔ آئی ایس آئی نے اسلامی جمہوری اتحاد کے نام پر وزیراعظم بنایا۔ غلام اسحاق خان نے اس کو کرپشن کی بنیاد پر نکال دیا۔ لندن فلیٹ کا قصہ اسی وقت سے معرض وجود میں آیا مگر تیسری بارمنتخب وزیراعظم نوازشریف نے پوری قوم سے تحریری پارلیمنٹ میں جھوٹ بھونکا تھا۔ پھر قطری خط لکھ کر ملک اور قوم کو بین الاقوامی بدنامی سے دوچار کیا اور پھر قطری خط سے مکر کر ہٹ دھرمی کے ریکارڈ توڑ دیے لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ علامہ اقبال نے خود سومناتی قرار دیدیا ہے اور ہماری قوم سورج پرست ہے اسلئے کہ زمین سورج کا حصہ ہے اور انسان مٹی کی پیدوار ہے۔چڑھتے سورج کی پوجا عوام کی مجبوری الاصل ہے۔
پاک فوج اور اس کی ناپاک پیدا وار کا جھگڑا اس وقت تک جاری رہے کہ جب داعش اور طالبان کی لڑائی دوبارہ میدان میں لڑی جائے۔ کچھ لوگ طالبان کیساتھ اور کچھ داعش کیساتھ کھڑے ہونگے۔ پھر اس نظام سے تنگ عوام جس طرح ن لیگ اور فوج کی جنگ میں بٹے ہوئے ہیں اس طرح داعش اور طالبان میں بٹ جائیں گے۔ جب قوم خمیرہ بنے گی تو داعش اور طالبان کا بھی لڑتے لڑتے دم نکل جائیگا۔ پھر طالبانِ خیر اُٹھ کھڑے ہونگے اور اس ملک کو درست اسلامی نظام سے روشناس کرائیںگے۔ اب تو اگر داعش وطالبان کا نظام آبھی جائے تو درست نہیں ہوگا۔
ہاں ہم کہہ سکتے ہیں کہ خالد خان نے جس طرح مرزائی امت کے مرتد کو قتل کیا اور قوم نے خوشیوں کے شادیانے بجائے اور جس طرح اسٹیبلیشمنٹ اور ن لیگ کے وفادار خود کو تمام گناہوں سے پاک سمجھتے ہیں اور دوسرے کو ناپاک سمجھتے ہیں ، اسی طرح خالد جان اور اس کی حمایت کرنے والوں کا جذبہ پاکیزہ ہے اور اسی طرح طالبان اور داعش کا جذبہ بھی ایمانی ہے۔
کسی نے کہا کہ سید عتیق الرحمن گیلانی اپنے زمانہ سے دس سال آگے کی سوچ رکھتے ہیں اسلئے لوگ سمجھ نہیں پاتے اور دوسرے تو کیا ہماری سمجھ جواب دے جاتی ہے۔ زمانے کے رُخ کو بدلنا مشکل کام ہے۔ جب سورج کی طرف زمین کا رُخ ہوتا ہے تو دنیا کو دن دکھائی دیتا ہے۔
پاکستان کو اسلام ہی کی بنیاد پر بنایا گیا تھا اور اسلام ہی کی بنیاد پر بچایا جاسکتا ہے مگرمحمود خان اچکزئی کومولانا فضل الرحمن کے امام انقلاب کا نعرہ لگانے میں دیر لگ گئی ہے۔ اصل امامہ انقاب تو مریم نواز شریف ہیں۔ جسکے پاپا جانی نے ا س وقت بھی محمود اچکزئی ، عمران خان اور جماعت اسلامی کو دھوکہ دیا تھا کہ انتخابات سے بائیکاٹ کرواکے خود الیکشن لڑلیا تھا۔
یہ وہی نوازشریف ہیں جو لکھے ہوئے معاہدے سے ڈھٹائی کیساتھ مکر رہے تھے کہ کوئی معاہدہ ہے تو دکھاؤ۔ اور یہ وہی تو ہیں جو ائرپورٹ پر نوازشریف زندہ باد کا نعرہ لگانے پر جھاڑ رہے تھے کہ چپ کرو، تم نعرے لگاتے تھے کہ قدم بڑھاؤ، نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ جب مڑ کر دیکھا تو پیچھے کوئی بھی نہیں تھا۔ حالانکہ موصوف معاہدے کرکے جارہے تھے۔
عمران خان کے تضادات بھی بیشمار ہیں۔فوج کا بھی متنازعہ کردار تاریخ کا بڑا حصہ رہاہے۔ نوازشریف کا پیدا کرنا بہت بڑا جرم تھا۔ عمران خان کو سپورٹ کرنا بھی اس سے کم جرم نہیں۔ اگر سیاسی ڈائیلاگ شروع ہوجائے تو پہلے پہلے ملک سے باہر سیاستدانوں،ججوںاور جرنیلوں کو اولاد اور جائیداد سمیت ملک کے اندر بلانا ہوگا ۔
پارلیمنٹ میں سیاست نہیں تجارت کا بازار گرم ہے۔ عدالتوں میں انصاف مل نہیں رہا ہے بلکہ بِک رہا ہے۔ فوج ملک کی خدمت نہیں کررہی ہے بلکہ قیادت کی تشکیل اور اپنے کاروبار کا غم کھارہی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو ، نواز شریف ، عمران خان سب نے کٹھ پتلی بن کر کردار ادا کیا۔
قائداعظم محمد علی جناح اور نوابزادہ لیاقت علی خان سے لیکر غدارشیر بنگال کے پوتے سکندرمرزا تک مسلم لیگی قیادت نے سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کو غدار بنایاتھا اور مسلم لیگ کی نااہلیت کے سبب جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کرکے بھٹو کو تشکیل دیا۔ بھٹو نے قائدعوام کا خطاب پایا تو ساری اپوزیشن کو پھانسی گارڈ میں بھر دیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے اپوزیشن کی جان چھڑائی اور نوازشریف کو پرومٹ کیا کیونکہ محمد خان جونیجو اس فوجی کیفے ٹیریا میں مس فٹ تھا۔
جنرل ضیاء الدین خواجہ نے کہا کہ نواز شریف کے دور میں پرویزمشرف کا آرمی چیف بننے کا کوئی چانس نہیں تھا لیکن نواز شریف نے وہی کام کیا جو بھٹو نے جنرل ضیاء الحق کو کمزور اور عاجز سمجھ کر کیا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ کارگل میں پہلی باربھارت سے پاکستان نے بدلہ لیا۔ کرنل شیرخان کا نشانِ حیدر اس کا ثبوت ہے لیکن نسیم زہرہ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ نوازشریف نے انڈین سے کہا تھا کہ ہم پرویزمشرف سے حساب لیںگے۔ جب نوازشریف نے چھپ کر پرویزمشرف پر وار کردیا تویہ خطرہ لاحق ہوگیا تھا کہ فوج آپس میں ہی لڑلڑ کر تباہ ہوجائے لیکن نوازشریف کے مقررکردہ آرمی چیف نے ہتھیار ڈالنے کو ترجیح دیدی۔ جب نوازشریف نے آرمی چیف جنرل راحیل کو منتخب کیا تو پاک فوج نے پہلی مرتبہ اپنے اندر سے کرپشن کو ختم کرنے کے اقدامات اُٹھائے۔ عدالت نے نوازشریف سے حساب مانگا تو نواز شریف کو برداشت نہیں ہوا۔ حالانکہ جب عدالت میں کرپشن کے خلاف فوجی وردی کیساتھ کالا کوٹ پہن کر نوازشریف گئے تھے تو یہ ٹھیک تھا۔ یوسف رضاگیلانی اور زرداری کی جمہوریت پسندنہیں تھی لیکن اپنی کرپشن پاک لگتی تھی۔
کافی عرصہ خاموشی توڑنے کے بعد اس آرمی چیف کو موردِ الزام ٹھہرانے کی یہ وجہ معلوم ہے کہ کرپشن پر ڈیل نہیں ملی ہے اور اب طوفان برپا کردیا ہے۔ پنجاب پر ہمیشہ انگلی اُٹھتی تھی کہ ٹاؤٹ کا کردار ادا کیا جارہاہے لیکن اگر مریم نواز اس داغ کے دھونے کا نام لیکر اپنے باپ کی بڑائی بیان نہ کریں تو امامہ انقلاب کہلانے کی مستحق ہوگی۔ نوازشریف خود تو بیمارہیں لیکن اسکے فرزندوں کو تو ایسی بیماریوں کا سامنا نہیں؟ لیکن ان کو بھی بٹھارکھا ہے۔صحافت نے جانبداری کاریکارڈ توڑ کر وکالت کابازار گرم کررکھا ہے لیکن سوشل میڈیا کے دور میں جھوٹ کی دال گلانہ کسی کے بس کی بات بھی نہیں ہے۔ اب اسلامی انقلاب ہی واحد راستہ ہے لیکن اسلامی انقلاب معاشرے اور گھر کے نظام سے شروع ہوکر عالمی سطح تک حالات بدلنے کی صلاحیت کا نام ہے اور ہمارے خیال کے مطابق وہ صلاحیت سید عتیق الرحمن گیلانی میں موجود ہے،اس لئے نہیں کہ شخصیت کا کمال ہے بلکہ اسلئے کہ اسلام میں یہ کمال موجود ہے۔
مولانا فضل الرحمن کے دائیں طرف مریم نواز بائیں طرف بلاول بھٹو زرداری اور آگے اویس نورانی اور پیچھے محمود اچکزئی ہیں۔ حافظ حسین احمد نے کہاہے کہ مولانا عبدالغفورحیدری نے بریگڈئیر سے کہا تھا کہ مجھے وزیراعلیٰ بنا دیں۔ صادق سنجرانی کی طرح حیدری نے اسپیکر بننے کی کوشش بھی فرمائی تھی۔امام انقلاب اقتدار کی دہلیز پر اپنا حصہ بقدر جثہ نہیں مانگتا ہے۔ جن بیساکھیوں کیخلاف انقلاب لانا ہے ، انکے سہارے انقلاب نہیںلاسکتے۔ البتہ ہلچل مچاؤ۔ اجمل ملک: ایڈیٹرنوشتۂ دیوار

گستاخانہ کارٹونوں کے معاملے پر ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنا مؤقف بدلا اور علامہ خادم حسین رضوی نے چندوں کا حق ادا نہیں کیا

فرانس نے مسلمانوں کے جذبات مجروح کرکے گالی دینے کو آزادیٔ رائے کانام دیا ہے جو بہت قابلِ مذمت ہے ۔ جب بھی کسی مسلمان کو موقع ملے گا تو کاروائی کرکے دکھائے گا۔البتہ ڈاکٹر طاہرالقادری کو علامہ خادم حسین رضوی اسلئے گالیاں دیتا ہے کہ پہلے توہینِ رسالت پر پاکستان میں ایک مؤقف تھا اور اب کینیڈا کے شہری بننے کے بعد اپنا مؤقف یکسر بدل دیا ہے۔ اس سے تو اچھا کینیڈا کا حکمران ہے جس نے کسی طبقے کے جذبات کو آزادیٔ رائے نہیں قرار دیا ہے۔ جب آسیہ کو حکومت نے ملک سے باہر بھیج دیا تو ریاست کے خوف سے علامہ خادم حسین رضوی نے بھی چندوں کا حق ادا نہیں کیا ۔مولانا سمیع الحق کو قتل کیا گیالیکن علماء کا ردِ عمل نہیں آیا۔فرانس کے خلاف بھی توقع سے بہت کم ردِ عمل آیابلکہ فرانس کے خلاف احتجاج کرنیوالے بینک منیجر کو توہین رسالت کے بہتان پر شہید کیا گیا تو لوگوں کے جمِ غفیر نے تھانے پر قبضہ کرلیا۔ چھلانگیںلگاتے ہوئے مجاہد گارڈ کو عقیدت سے ایک استقبال کرنے والے شخص نے ہاتھ لگایا تو گارڈ زمین پر خوف کے مارے گرنے لگا تھا۔ جب اسلام کا نزول ہورہاتھا تو یہودونصاریٰ کے مذہبی عناصر اتنے شدت پسند تھے کہ اہل کتاب کا ایک طبقہ حضرت عیسیٰ کو زنا کی اولاد اور دوسرا طبقہ آپ کی ماں کو خدا کی بیوی کہتاتھا۔ اسلام نے دونوں طرح کے اعقتادات رکھنے والی خواتین سے نکاح کی اجازت دی اور مسلمانوں کی اولاد کو یہ تعلیم دی کہ ماؤں کے قدموں کے نیچے جنت ہے۔ اس سے بڑھ کر تحمل وبردباری کی تعلیم یہ تھی کہ اماں عائشہ پر بہتان لگانے والوں کو وہی سزا دی جو قیامت تک کسی ادنیٰ عورت پر بہتان لگانے کی ہے۔ اگر دنیا کو اسلام کی عظمت کا پتہ چل جائے تو فرانس سمیت پوری دنیا میں رحمة للعالمینۖ کو مسلمانوں سے زیادہ احترام کی نگاہوں سے دیکھا جائیگا۔ 20گریڈ کے افسر اور چوکیدار کی عزت برابر نہیں ہے اور قوم کی دولت لوٹنے والے سیاستدانوں کی عزت کھربوں میں ہوتی ہے لیکن کارکن کی عزت کوڑی کی نہیں۔ اسلام نے جو مساوات قائم کی تھی اس کی مثال دنیا کے کسی نظام میں نہیں ہے لیکن اسلام بیان کرنے سے مذہبی لوگ دُم گھسیڑنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ تھوڑی بہت تفصیلات ادارایہ صفحہ نمبر2پر دیکھ لیجئے گا۔

یہ غلط ہے کہ نبیۖ کا حضرت عائشہ سے نکاح ہوا تو 6 سالہ اور رخصتی میں 9سالہ بچی تھیں.

جبری نکاح کا تصور

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

1: حسن بصری و امام نخعی کے نزدیک عورت کا زبردستی سے نکاح کرایا جاسکتا ہے۔کنواری ہو بیوہ یا طلاق شدہ ۔ 2:ابن شبرمہ کے نزدیک عورت کا زبردستی نکاح صحیح نہیں 3: امام شافعی کے نزدیک کنواری کا نکاح زبردستی سے کرایا جاسکتا ہے مگر طلاق شدہ وبیوہ بچی ہویا بالغہ عورت کا نہیں۔ 4: حنفی مسلک میں بچی کا زبردستی سے نکاح کرایا جاسکتا ہے لیکن بالغہ کا نہیں کرایا جاسکتا۔ چار اماموں کا اتفاق ہے کہ کنواری بچی کا زبردستی سے نکاح کرایا جاسکتا ہے۔ (کشف الباری ج ٣ صفحہ٢٤٦:مولانا سلیم اللہ خان(
بچی کا زبردستی سے نکاح کرانے سے بہتر یہ ہے کہ اس کو زندہ زمین میں گاڑ کر دفن کیا جائے۔ پاکستان نے بہت بڑا احسان کردیا ہے کہ بچپن کی شادی پر پابندی لگادی ہے اور جب کوئی اس کی خلاف ورزی کرتا ہے تو پولیس گرفتار کرلیتی ہے۔ پاکستان کے آئین میں یہ بنیادی بات ہے کہ ” کوئی بھی قانون قرآن وسنت سے متصادم نہ ہوگا”۔
یہ غلط ہے کہ نبیۖ کا حضرت عائشہ سے نکاح ہوا تو 6 سالہ اور رخصتی میں 9سالہ بچی تھیں۔ عن عائشة ان النبیۖ تزوجہا وھی بنت ست سنین وادخلت علیہ وھی بنت تسع و مکثت عندہ تسعًا ”حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ آپۖ سے نکاح ہوا تو 6 سالہ لڑکی تھیں اوررخصتی ہوئی تو9سالہ لڑکی تھیں اور آ پ کیساتھ9سالوں تک رہیں”۔ (بخاری)
6 سالہ اور9سالہ ہو تو بجائے بنتکے طفلة ست سنین6 سالہ بچی ، طفلة تسع سنین 9سالہ بچی کے الفاظ استعمال ہوتے۔ یہ ترجمہ غلط ہے کہ 6 سالہ لڑکی تھی تو نکاح ہوا اور9سالہ لڑکی تھی تو رخصتی ہوئی۔دوسری روایت ہے کہ 9سالہ لڑکی تھی تو جماع ہوا ۔(بخاری )
نکاح سن11نبوی، رخصتی سن 1 ھ کو ہوئی۔ سن 11 نبوی کو اماں عائشہ کی عمر16 سال ہو تو 5سال قبل ازنبوت پیدائش بنتی ہے ۔ حضرت اسمائ کی وفات100سال کی عمر میں73ھ کو ہوئی۔ جو اماں عائشہ سے دس سال بڑی تھیں۔ 100 سے72سال نکالے جائیں تو حضرت اسماء کی عمر ہجرت کے وقت28 سال بنتی ہے اور 13 سال مکی دور کے نکالے جائیں توحضرت اسماء کی بعثت نبوی کے وقت15سال بنتی ہے۔ اس حساب سے اماں عائشہ کی عمر بعثت کے وقت عمر5سال اور11نبوی کوآپ کی عمر ٹھیک 16سال ہی بنتی ہے۔
یتیم لڑکوں کا اللہ نے فرمایا: ” مال انکے حوالہ کرو حتی اذابلغوا النکاح جب نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں” ۔ لڑکی کا نکاح کی عمر کو پہنچنا فطری بات ہے۔6اور9 سالہ بچی ہوتی ہے۔ بچی کا پردہ ہے اورنہ نکاح ۔ بنات کا پردہ اور نکاح ہے۔ مراھقہ کی عمر11، 12، 13سال ہوتی ہے بنات 14، 15سے 20،22 کی لڑکیاں ہیں۔
عربی میں عبدالقادر کو ” یاقادو” کہہ سکتے ہیں۔ کروڑوں کابنگلہ ہوتوخالی 10 کہنے سے 10کروڑاور لاکھوں کی گاڑی ہو تودس سے10 لاکھ مرادہوتے ہیں۔ عربی گنتی 11 سے19 تک احد عشرة، اثنا عشرة… ست عشرة… تسع عشرة کیلئے ست سے مراد 16 اورتسع سے مراد 19ہے۔ اسلئے کہ نکاح کیلئے بچی نہیں لڑکی کا ہونا ضروری ہے۔
چند سال پہلے اخبار ”عوام” جنگ میں خبر شائع ہوئی کہ کینیڈا میں 66سالہ شخص کا نکاح 36سالہ عورت سے ہوا۔ 30سال عمروں میں فرق ہے۔ 20سال معاشقہ چلااورآخرکار دونوں میںرشتہ ہوگیا۔ اگر اماں عائشہ سے متعلق درست معلومات ہوتیں تو گستاخانہ فلم کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا ۔جدید تحقیق کے مطابق بچے میں جنسی خواہش کا مادہ ہوتا ہے جبکہ بچی میں جنسی خواہش بالکل نہیں ہوتی۔
علماء کرام و مفتیان عظام آگے بڑھ کر اعلان کریں کہ جب تحقیق سے یہ ثابت ہے کہ حضرت عائشہ کی عمر رخصتی کے وقت19برس تھی تو پوری دنیا کو پیغام پہنچادیں کہ نبیۖ کے خلاف کارٹون کی مہم بنیاد ہی غلط ہے۔ جس میں اغیار سے زیادہ ہماری غفلت کا نتیجہ ہے۔جب اغیار نبیۖ کی سیرت کا مطالعہ کرینگے تو گرویدہ بنیں گے۔

مشکواة کیساتھ الاکمال فی اسماء الرجال کی کتاب میں واضح طور لکھا ہے کہ حضرت اسماء کا انتقال 100سال کی عمرمیں 73ھ کو ہوا اور آپ اپنی بہن ام المؤمنین حضرت عائشہ سے 10سال بڑی تھیں۔
ہم سے ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ مجھے خبر دی یوسف …نے۔ انہوں نے کہا کہ حضرت عائشہ اُم المؤمنین کے پاس تھا ۔ آپ نے فرمایا کہ جب یہ آیت اتری تھی: بل الساعة موعدھم و الساعة ادھٰی و امر تو اس وقت میں چھوکری تھی اور کھیلا کود اکرتی تھی۔( بخاری)
یہ سورة القمر ہجرت سے 5سال پہلے نازل ہوئی، جس میں شق القمر کا واقعہ ہے۔ اس وقت اماں عائشہ کی عمر 13 سال بنتی ہے۔ جب رسول ۖ نے نکاح کا پیغام بھیجا تو حضرت ابوبکر نے عرض کیا کہ میں پہلے جبیر بن مطعم کو ان کا رشتہ دے چکا ہوں۔ جب حضرت ابوبکر نے مطعم کے سامنے رشتے کی بات رکھی تو اس نے کہا کہ آپ لوگ اپنا دین بدل چکے ہو اسلئے میں اپنے بیٹے کیلئے تمہاری بیٹی نہیں لیتا ہوں۔حضرت ابوبکر بہت قریبی صحابی تھے ،یہ کیسے ممکن تھا کہ سن 5نبوی کو حضرت عائشہ کی پیدائش ہوئی اور 5 نبوی سے 11نبوی تک کے اس انتہائی کٹھن مرحلے میں ایک مشرک سے اپنی چھوٹی بچی کا رشتہ بھی طے کردیا ؟۔
5نبوی تک دارارقم میں چھپ کر تبلیغ ہوتی تھی۔ دار ارقم کے محدود افرادمیں اسماء بنت ابوبکر اور عائشہ بنت ابوبکر شامل تھیں۔ ابوبکر کی چار اولاد کی پیدائش نبوت سے قبل ہوئی ۔(طبقات ابن سعد)
آیت”جن عورتوں کو حیض نہیں آتا ”سے یہ دلیل غلط ہے کہ کم عمر بچیاں مراد ہیں حالانکہ وہ خواتین مراد ہیں، جن کا سلسلہ حیض ختم ہویا بانجھ ہوں۔ اگر کوئی بضد ہوکہ اماں عائشہ کی رخصتی اور جماع کا عمل 9سالہ عمر میں ہوا۔ عرب جتنا گرم پاکستان، بھارت ہیں تو کیاکوئی شریف انسان اپنی بچی کواس حدیث پر عمل کرتے ہوئے اس عمر میں نکاح کیلئے پیش کریگا؟۔
کیا عورت کے نکاح میں شریعت سازی کاحق تھا؟۔ بچی کا نکاح ہوتوپھر بلوغت کے بعد نکاح برقرار رکھنے یا توڑنے کے حق پر اختلاف ہوتو یہ شریعت ہوسکتی ہے؟۔ جس غلط مفروضے پر جعلی شریعت کی بنیاد رکھی گئی ہے اس کو ڈھانے کیلئے کسی مسیحا کے انتظار کا حکم ہے؟۔ مفتی اعظم پاکستان برادر شیخ الاسلام مفتی محمد رفیع عثمانی کہتے ہیں کہ ” ہم علماء کو معلوم نہیں ہے کہ کس کا مسلک حق اور کس کا غلط ہے۔ جب امام مہدی علیہ السلام کا ظہور ہوگا تو اس کی ہر بات حق ہوگی اور اس کا مخالف باطل ہوگا”۔ کیا امام مہدی تک بیٹھ کر گمراہی میں رہنا ہے؟۔
نبیۖ نے فرمایا” جسکے پاس بچی(لونڈی) ہو، پھر اس کی بہترین تعلیم کرے، بہترین تربیت کرے۔ پھر اس کو آزاد کرے ، پھر شادی کرے تو اس کیلئے دو اجر ہیں” بخاری۔فائدہ :لونڈی بچی ہو تو جنسی تعلق نہیں تعلیم وتربیت دینی ہوگی اور پہلے بلوغت، آزادی اور پھر شادی کا تصور دیا گیا ہے۔کم عمر بچوں کو جنسی زیادتیوں کا نشانہ بنانے والوں کا ضمیر کبھی اس بات پر نہیں جاگ سکتاہے کہ نبی پاکۖ کی توہین کاراستہ روکنے کیلئے حدیث کی زبردست تحقیق کو مان لیں۔ ان کا ضمیر جگانے کیلئے بڑی محنت درکار ہے۔