پوسٹ تلاش کریں

خلافت پاکستان سے شروع ہوگی دنیا کیلئے، امریکن پروفیسر آلان کیسلر

السلام علیکم ! میرا نام ہے آلان کیسلر۔ میں امریکہ میں بیٹھ کرہمیشہ پاکستان کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں۔ اور ہم آج خلافت راشدہ کے بارے میں بات کریں گے۔ انشاء اللہ۔ ایک دعا کریں گے حضرت محمد ۖ کو یاد کرتے ہوئے ۔ اللھم صل علیٰ محمد و علیٰ آل محمد ۔(درودِ ابراہیمی) ۔سب دعا کریں کہ پاکستان میں خلافت راشدہ قائم ہوجائے۔ کچھ لوگ کہہ رہے تھے آمین بہت اچھا۔ اور کچھ لوگ کہہ رہے تھے یہ ناممکن ہے فاطمہ علی کے کمنٹس تھے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ بنائیں گے خلیفہ۔ یہ بات مجھے بہت ہی اچھی لگی کہ یہ حقیقت ہے۔ کوئی سیاستدان نہیں بناسکتا ہے فوج بھی نہیں بناسکتی ہے صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ خلیفہ راشد کو بناسکتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا سسٹم ہوگا یہ فاطمہ علی آگے بتارہی ہے شیر اور بکری ایک جگہ پانی پی سکیں گے۔ یہ بھی مجھے بہت ہی اچھا لگااور وہ آگے بتارہی تھی کہ لوگوں کی ضرورت نہیں کوئی ڈر نہیں ہونا چاہیے یہ صرف اللہ تعالیٰ کرسکیں گے اور وہ کرے گا انشاء اللہ۔ وہ ایسا کرے گا جو ہمارے لئے سمجھنا تھوڑا سا مشکل ہے لیکن وہ سب کچھ کرسکتا ہے آسانی سے کرسکتا ہے۔ اس کیلئے کوئی چیز مشکل نہیں ہے۔ پاکستان میں خلافت راشدہ قائم کب ہوگی جب ہم سب پاکستانی لوگ خود پاک بن جاتے ہیں۔ جب ہم لوگ صراط مستقیم پر چلتے ہیں تو پھر کوئی سیاستدان نہیں بلکہ ہم سب عوام، جہاں تک میں سمجھتا ہوں خلافت پاکستان سے شروع ہوجائے گی لیکن یہ پوری دنیا کیلئے ہے۔ صرف مسلمانوں کیلئے نہیں بلکہ ہر ایک مذہب کے لوگوں کیلئے ہے۔ کیونکہ خدا ایک ہی ہے۔ آج جو سیاسی سسٹم ہے صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں ، جو سیاسی پارٹیاں ہوتی ہیں اس سے کبھی امن قائم نہیں ہوسکتا ہے۔ کیونکہ ان سیاسی پارٹیوں میں بہت کرپشن ہے اور کرپشن سے بچنا تقریباً ناممکن ہے۔ کیونکہ جو بڑے شیطانی لوگ ہیں انہوں نے یہ سسٹم بنایا ہے۔ یہ پولیٹیکل سسٹم جو آ ج ہم دیکھتے ہیں دنیا میں نام نہاد ڈیموکریسی عوام چن لیتی ہے کہ کون ہمارا لیڈر ہوگا نہیں یہ جھوٹ ہے۔ عوام نہیں چن لیتی ہے یہ الیکشن سب فکسڈ ہیں اور میں ان کو شیطان کے چمچے کہتا ہوں جو اپنے آپ کو ایلومنارٹی کہتے ہیں یہ سب سیاسی پارٹیوں کو اپنے قبضے میں رکھتے ہیں۔ اور اگر کوئی ان کے قبضے سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے وہ انکے خلاف بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ ان کے پاس بے حد پیسہ ہے وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں کسی بھی پارٹی کو ختم کرنے کیلئے۔ رشوت کھلاسکتے ہیں اسی پارٹی کے برے آدمیوں کو ، اسلئے میں یہ کہہ رہا ہے ہوں کہ آج جو دنیا میں یہ سیاسی سسٹم ہے اس سے خلافت راشدہ کبھی قائم نہیں ہوسکتی۔ ایک نئے سسٹم کی ضرورت ہے۔ اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ وہ کرے گا کوئی سیاسی پارٹی نہیں۔ اسلئے پاکستان کو مدینہ ثانی کہا گیا ہے۔ مدینے میں حضرت محمد ۖ نے خلافت کو قائم کیا تھا اور یہودی بھی تھے وہاں اور یہودیوں کو اپنے مذہب پر رہنے کی اجازت دی گئی وہاں ان کو مسلمان نہیں بنایا گیا تھا۔ ہاں جو بننا چاہتے تھے مگر جو نہیں بننا چاہتے تھے تو وہ اپنے مذہب میں رہے۔ یہی قائد اعظم کا بھی کہنا تھا جو کرسچن ہیں جو ہندو ہیں پاکستان میں وہ اپنے مذہب میں رہ سکتے ہیں۔ یہ نہیں کہ ان کو مسلمان بننا پڑے گا۔ خلیفہ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں سب کو مسلمان بناؤں گا۔ تو یہ وہی بات ہے جو میں بار بار بتارہا ہوں کہ مجھے یہ بتایا گیا تھا 1983ء میں پاکستان دا مطلب ہے او پاکستان جتھے حضور پاک اوڈے پاک مصاحف دے نال اسلام پاک پر قائم کریں گے۔ تو یہ خلافت راشدہ کا بھی جواب ہے۔ بیشک بہت سارے یزید ہیں یا دجال ہیں جو پوری دنیا کو اپنے قبضے میں کرنے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں اور کررہے ہیں اور جو خود خلیفہ بننا چاہتے ہیں لیکن وہ نہیں بن سکے گا۔ دجال کا یہی پروگرام ہے لیکن وہ فیل ہوجائے گا انشاء اللہ۔ اگر الیکشن ہوتے ہیں تو سب سے پہلی بات یہ ہے کہ الیکشن ووٹر لسٹ میں بہت دھوکہ دیا جاتا ہے۔ اور الیکشن میں بھی دھوکہ ہوتا ہے۔ الیکشن کام نہیں دے گا۔ الیکشن میں اتنے پیسے بھی خرچ کرتے ہیں پتہ نہیں کیا کیا کرتے ہیں دھوکہ دیتے ہیں لوگوں کو دھمکی دیتے ہیں لیکن اصلی جو خلیفہ ہوتا ہے وہ یہ چاہتا بھی نہیں کہ وہ خلیفہ بن جائے وہ کوشش کرتا ہے کہ اس کو یہ نہ کرنا پڑے لیکن جب اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے تو اس کو کرنا پڑتا ہے۔ یہی ہے خلافت کا راز۔ الیکشن نہیں چناؤ نہیں لیکن جو بنے گا وہ بننا بھی نہیں چاہتا ہے۔ یہ جو نام نہا د خلافت ہوتی ہے ISIS وغیرہ دہشت گردوں کی یہ بالکل خلافت کے برعکس ہے۔ یہ دجال کی نام نہاد خلافت ہے فتنہ ہے ۔ یہ ایک لڑائی ہے ابلیس کی۔ سب سے بڑا ہتھیار ہمارے دل میں ہے کہ فیصلہ کرنا ہے کہ جو کچھ اللہ چاہتا ہے وہی کروں گا۔ جو شیطان یا ابلیس غلط راستے پر لگانا چاہتا ہے ۔ ہم بس دعا کرتے ہیں کہ اھد نا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم غیر المغصوب علیھم ولا الضالین۔ تو جب ہم یہ حقیقت میں چاہتے ہیں تو اللہ ہماری مدد کرے گا کہ ابلیس سے ہمیں ایسے لڑنا ہے اور پھر سب کچھ ہوجائے گا۔ فکر نہیں کریں۔

خلع و طلاق کا درست تصور اجاگر ہوتا تو اجتماعی شعور نہ مرتا۔ سید عتیق الرحمن گیلانی

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

خلع کا حکم سورة النساء آیت 19میں واضح طور پر دیکھا اور سمجھا جاسکتا ہے۔ کند ذہن علماء نے اپنے نصاب میں آیت 229البقرہ سے خلع مراد لیا
فقہاء نے عورت کے حقوق کو نظر انداز کرکے قرآنی آیات کو تضادات کا آئینہ بنادیا۔ اس مرتبہ کے اخبار میں ادارئیے کے علاوہ زبردست علمی مواد ہے۔

عورت کو ترقی یافتہ ممالک نے مرد کے مساوی حقوق دئیے ہیں لیکن وہ عورت کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہے۔ جبکہ اسلام نے عورت کو مردوں سے کئی لحاظ سے بہت زیادہ حقوق دئیے ہیں۔ حق مہر اور خرچے کی ذمہ داری اسلام نے شوہر پر ڈالی ہے خلع اور طلاق کے جن مسائل کے بہت واضح اور ٹھوس حل قرآن وسنت میں نکالے گئے تھے،افسوس ہے کہ علماء نے عورت پر مظالم اور مسائل کے انبار ہی لگادئیے ہیں۔ قرآن وسنت بہت واضح ہیں مگر فقہاء نے بہت الجھاؤ اور مکڑی کے جالے بنالئے ہیں۔
عورت بڑی امیر کبیر ہو یا غریب غرباء ، اس پر بہتان کی سزا 80کوڑے ہیں۔ اگر جج کو یقین ہو کہ سچ بول رہی ہے تو جنسی طور پر ہراساں کرنے، زنابالجبر میں رسولۖ نے اکیلی عورت کی گواہی کو معتبر قرار دیا ۔ کئی بک اسٹالوں پر موت کا منظر نامی کتاب ملتی ہے جس میں زنابالجبر کی سزا سنگساری ہے۔ اسلام نے عورت کو وہ تحفظ دیاہے جس کا حق ہر ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کو ہونا چاہیے۔ مغرب کو حقیقی اسلام کا پتہ چل جائے تو عورت کو وہی حقوق کا قانون بنانے میں دیر نہیں لگائے گا۔

عورت کے مظالم پر سب لوگوں کا اجتماعی شعور کیوں چپ ہوتا ہے؟ ہدیٰ بھرگڑی

عورت کے مظالم پر سب لوگوں کا Collective Consciousnessاجتماعی شعور کیوں چپ ہوتا ہے؟ ہدیٰ بھرگڑی

محترمہ ہدیٰ بھرگڑی 5جولائی2020ئ( ویڈیو: بیان)
پاکستان وہ واحد ریاست ہے جس میں اسی سال مارچ کے اندر عورت آزادی مارچ میںدن دیہاڑے عورتوں پر پتھر برسائے گئے۔ کیونکہ انہوںنے اپنا سیاسی حق استعمال کیا۔ اور آج ہمیں یہ بھی سننے کو ملا ہے کہ جامشورو سندھ کے اندر ایک خاتون ہیں جن کے اوپر سنگباری کرکے اس کو قتل کردیا گیا۔ جس پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ ہم ہر طرح کی سیاسی بحث میں تو ضرور آتے ہیں اور ہم تیار رہتے ہیں کہ ہر مسئلے کے اوپر بات کریں چاہے وہ غربت کا مسئلہ ہو، مذہبی انتہا پسندی کا مسئلہ ہو، رجعت پسندی کا مسئلہ ہو، حکومت کی ناسازگار جو پالیسیاں ہیں اور طریقہ کارہیں ان کا مسئلہ ہو، چاہے وہ فیڈرل بجٹ کی بات ہو یا اس کے علاوہ جو دیگر مسائل ہیںاور اس طرح کی چیزیں ہیں جن کے اوپر ہم دیکھتے ہیں کہ اجتماعی شعور ہمارے ملک میں تو اس کے اوپر کچھ نہ کچھ بات کرنا بھی ضروری سمجھی جاتی ہے اور اس بات کو سیاسی انداز میں دیکھنا بھی ضروری سمجھا جاتا ہے ۔ لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب عورت کے اوپر مظالم اٹھتے ہیں اور جب عورت کا استحصال ہوتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جب دن دیہاڑے عورت کو سنگسار کردیا جاتا ہے چاہے وہ ایک مارچ کی صورت میں ہو جو اسلام آباد میں ہوا، یا آج کے دن میں جو جامشورو کے اندر خاتون پر مظالم ہوئے تو سوال ہم پر ہم سب کی نظر میں یہی اٹھتا ہے کہ عورت کے مظالم پر سب لوگوں کا (collective consciousness) اجتماعی شعور کیوں چپ ہوتا ہے؟ سب کے سب کیوں چپ کرکے بیٹھ جاتے ہیں۔ چاہے وہ اس ملک کے کسی بھی صوبے کا (national intellectual elite) قومی دانشور طبقہ ہی کیوں نہ ہو۔ چاہے وہ sexسے تعلق رکھنے والے لوگ ہی کیوں نہ ہوں؟ چاہے وہ بہت ہی زیادہ سیکولرازم کو پروموٹ کرنے والے لوگ ہی کیوں نہ ہوں، سمجھ میں یہ نہیں آتا ہے کہ یہ سب گروپ جو ہیں انکے تمام دانشور ان کی تمام کی تمام دانشوری اس وقت چپ کیوں ہوتی ہے جب عورت کا استحصال سر عام ہوتا ہے اور اس پر آواز کیوں نہیں اٹھائی جاتی۔ اس کے اوپر کسی مہم کا آغاز کرنے کا سوال کیوں نہیں اٹھایا جاتا؟۔ ہم عورتیں اور ہماری تنظیمیں تو یہ کام کرتی آرہی ہیں لیکن ہمیں آج تک ایک ہی مسئلے کا سامنا رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ عورتیں ہر قسم کے کلاس ایشو سے لیکر نیشنل ایشو تک ہر طبقے کے انسان کے ساتھ ضرورکھڑی ہوتی ہیں، Feminism Intersectionality پر یقین رکھتی ہیں اور Feministتنظیم اس پر مسئلے پر آگے آگے رہتی ہے۔ لیکن جب عورت کا استحصال ہوتا ہے تو یہ نیشنلسٹ پارٹیز کے رہنما کہاں چلے جاتے ہیں؟۔ سیکولر ازم کو پروموٹ کرنے والے لوگ کہاں چلے جاتے ہیں؟ نیشنلزم، صوبائی خود مختاری اور خود کو پروگریسو سمجھنے والے سب کا اجتماعی شعور عورت کے استحصال پر آخر چپ کیوں ہے؟۔ وہ لوگ اس مسئلے پر اپنی آواز کیوں بلند نہیںکررہے؟کیا Feminist تنظیموں کا یہ حق ہے کہ وہ ہر مسئلے پر ساتھ ساتھ کھڑی رہیں اور اپنی آواز بھی بلند کرتی رہیں چاہے وہ سیکولر ایشو کیوں نہ ہو، چاہے وہ نیشنل آپریشن کیوں نہ ہو، چاہے وہ کلاس آپریش کیوں نہ ہو، لیکن جب یہ جنس کے خلاف آپریشن ہو اور جب پدر شاہی کے خلاف کوئی بات ہو یا عورتیں پدر شاہی کے خلاف آواز بلند کررہی ہوں تو کیوں ہمارے معاشرے کے یہ عناصر چپ کی سادھ لیتے ہیں۔ یہی ابھی سندھ میں ہورہا ہے۔ اگر میں سندھ کی مثال دوں کیونکہ میں خود سندھ سے ہوں تو میں بھی یہ یقین کرنے پر بضد ہوں کہ سندھ کا کوئی بھی مسئلہ ہوتا ہے وہاں کے لوگوں کا اگر کسی قسم کا استحصال ہوتا ہے تو ہم نے دیکھا ہے کہ عورتوں کے حقوق کی تنظیمیں ہمیشہ قوم کے اجتماعی شعور کے ساتھ کھڑی رہی ہیں اور انہوں نے اپنی آواز کو بلند کیا ہے۔ لیکن اگر یہی بات مان لی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہم ان دانشوروں کو بھی خاموش پاتے ہیں یہ ہمارے معاشرے کا دوہرا معیار ہے۔ آپ کی جدوجہد اگر آپریشن کے خلاف ہے ، وہ اگر غلامی اور استحصال کے خلاف ہے تو آپ کی وہ جدوجہد اس وقت تک کامیاب نہیں ہوگی جب تک وہ پدر شاہی کی جدوجہد کے خلاف نہیں ہوتی۔ آپ کی وہ جدوجہد تب تک صحیح نہیں سمجھی جائے گی جب تک آپ اپنی آوازیں ، آپ اپنے ذرائع پدر شاہی کے خلاف نہیں اٹھاؤ گے ۔ یہ بہت کڑا وقت ہے اور ہمیں اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ اپنے اپنے بریکٹ میں رہ کر اپنی اپنی سیاست لڑنے سے آپ اس نظام کو آپ اس معاشرے کو تبدیل نہیں کرسکتے۔ اس نظام کی تبدیلی تبھی ممکن ہے جب اس ملک میں ہونے والے ہر طبقے اور ہر جنس کے اوپر جو جو پالیسیز، امتیازی سلوک اور عورتوں سے نفرت کا سلوک کیا جاتا ہے جب تک آپ ان کا بھی مقابلہ نہیں کریں گے تب تک کوئی بھی آزاد نہیں ہوگا۔ نسوانی جدوجہد کرنے والا طبقہ اس بات کو کافی حد تک مان چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عورتوں کے حقوق کی جدوجہد کرنے والی تنظیمیں یہاں اس بات کو مانتی ہیں کہ class struggle بھی ہمارا ایشو ہے، نیشنل آپریشن کے خلاف بھی بات کرنا ہمارا مسئلہ ہے۔
لیکن کیا یہ تمام تنظیمیں ، کیا یہ پاکستان کی تمام Leftist Progressive سیکولر تنظیمیں کیا وہ عورت کے سوال کو سینٹرل کرنے کی کوشش کریں گی؟ کیا وہ عورت کے اوپر ہونے والے استحصال کو بھی اپنی سیاسی جدوجہد کا حصہ مانتے ہیں؟۔ اگر مانتے ہیں تو اس کیلئے ایکشن کہاں ہے؟۔ اگر مانتے ہیں تو اس کیلئے کوئی ایک آرگنائزڈ مہم کیوں ہمارے سامنے نہیں آئی؟۔ ایک طرف تو آپ حقوق نسواں کی جدوجہد کرنے والی خواتین سے یہ امید رکھیں کہ وہ ہر مسئلے کے اوپر آپ کے ساتھ کھڑی ہوں جو کہ کسی کے اوپر احسان نہیں کررہی لیکن جب آپ خواتین کی تنظیموں سے اس طرح کی توقع رکھتے ہیں کہ وہ ہر استحصال کا مقابلہ کریں تو خواتین کی تنظیموں کا بھی یہ نظریہ ہوسکتا ہے کہ ہمارا سوال کیوںنمایاں نہیں ہوتا؟۔ ہمارے حقوق کی پامالی آخر کیوںنمایاں نہیں کی جاتی دوسری تمام جدوجہد کے ساتھ ساتھ؟۔
جب تک عورت کے اوپر ہونے والا استحصال ختم نہیں ہوتا ،جب تک اس کے اوپر سب کی آواز مرد ہوں یا عورتیں ہوں ایک دفعہ نہیں اٹھتی ایک دفعہ جب تک کوئی آرگنائز مہم کا آغاز نہیں کیا جائے گا تب تک اس ملک کے اندر کوئی قوم، کوئی طبقہ اور کوئی فرد آزاد نہیں ہوگا۔

پورے نظام کو بدلنے کیلئے ایک منظم تحریک کی ضرورت ہے۔ ہدیٰ بھرگڑی

ہدیٰ بھرگڑی 10جون : ویڈیو : میں اس موقع پر جبکہ ہم سب آج یہاں پر مزدوروں کی آواز کو لیکر اکھٹے ہوئے ہیں میں اپنی تنظیم کی طرف سے چند باتیں رکھنا چاہوں گی۔ ہم آج تک یہ دیکھتے آرہے ہیں کہ اس حکومت کے جو سربراہ ہیں ان کو جب آنا تھا اور اس الیکشن کی کمپئن لڑنی تھی تب انہوں نے غریب کے جو مسائل تھے غریبوں کا جو دکھ تھا غریبوں کا جو درد تھا اس درد کو سرمایہ بنایا اور سرمایہ کے طور پر اسے استعمال کیا اور اس کے بدلے میں کئی کئی ووٹ بٹورے۔ اور اس کے بعد جب وہ طاقت میں آکر بیٹھ گئے ہیں جب طاقت کا پانسہ پلٹ چکا ہے اور ان کے حق میں ہوچکا ہے تو وہی انسان جو تبدیلی کا پیغام لیکر آیا تھا وہی اس ملک کے ہر فرد اور ہر مظلوم طبقے کے خلاف ا س کے خون کے ساتھ ہولی کھیلنے پر اس تبدیلی کو برقرار رکھ رہا ہے۔ ہم نے یہ دیکھا کہ عمران خان کی حکومت کو تین سال ہونے والے ہیں اور اس پورے عرصے کے اندر ہم نے ایک بھی ایسی پالیسی نہیں دیکھی جو کہ کسی غریب اور مزدور کو فائدہ دے سکے۔ ہم نے دیکھا کہ انہوں نے ڈیلی ویجز جو کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کی آبادیوں میں رہتے تھے ان کی آبادیاں انہوں نے اجاڑیں ۔ ہم نے دیکھا کہ انہوں نے مزدوروں کو برطرف کیا۔ ہم نے کرپشن بھی دیکھی ہم نے یہاں پر عورت کا استحصال بھی دیکھا۔ ہم نے یہاں پر مزدور کا استحصال بھی دیکھا۔ ہم نے یہاں پر قوموں کا استحصال بھی دیکھا۔ تو ہمیں کوئی کیسے کہہ سکتا ہے کہ یہ جو خواب ہمیں اس ریاست کا دکھایا گیا تھا وہ مدینے کی ریاست ہوسکتی ہے۔ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ حکومت غریب کیلئے کام کررہی ہے؟ اس حکومت کو غریب کا احساس ہے؟ کیونکہ احساس صرف او رصرف ایک ناکارہ پالیسی کا نام دینے سے نہیں پیدا ہوجاتا۔ احساس ٹائیگر فورس بنانے سے نہیں آجاتا۔ احساس اس طرح کی تقریریں کر کرکے ہمارا ٹائم ضائع کرنے سے نہیں آسکتا۔ احساس کیلئے اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ احساس کیلئے سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے وہ ایکشن پلان کی ہوتی ہے اور جتنے ایکشن پلان آج تک ہمارے سامنے آئے ہیں وہ مزدور کے خلاف، وہ عورت کے خلاف، وہ قوموں کے خلاف جو ملک کے ہر طبقے کے خلاف ہی پالیسی پر مبنی ہیں۔ WDFکی طرف سے میں اپنے تمام وہ لوگ جو کہ مزدور عورت ہوں یا مرد ہوں، تمام قومیں جو کہ مظلوم ہیں اس کے بھی عورت ہوں کہ مرد ہوں ہم ہر اس طبقے کے ساتھ ہمیشہ کھڑے رہے ہیں ہم نے ہمیشہ ان کی آواز کو اپنی حقوق نسواں کی جدوجہد کی آواز مانا ہے۔ ہم نے عورت کی لڑائی اس وقت تک لڑنی ہے جب تک اس ملک کا ہر ہر مزدور طبقہ آزاد نہیں ہوجاتا۔ بیشک وہ طبقہ کوئی مظلوم مذہبی طبقہ کیوںنہ ہو۔ بیشک وہ طبقہ کسی particular religious سے جس کا تعلق ہو یا کسی کلاس سے تعلق ہو یا اس مظلوم طبقے کا تعلق ہماری مزدور برادری کے ساتھ ہو یا ان لوگوں کے ساتھ ہو جن کی بستیاں انہوں نے اجاڑ دیں جن کے روزگار انہوں نے برباد کردئیے۔ اور اس صورتحال میں وہ کیا کررہے ہیں کہ غریب جسکے پاس اس وقت اپنی روٹی کھانے کیلئے صرف جسم ہے اس جسم کو بھی بیماری کی وبا میں مبتلا کرکے اس وقت کا حکمران یہ چاہتا ہے کہ اب اس جسم کی جو وہ روٹی کھاتا ہے وہ بھی اسے نہ ملے۔ یہ کہتا ہے کہ لاک ڈاؤن میں نے اسی لئے کھولا ہے تاکہ مزدور کا پہیہ چلتا رہے لیکن جو پہیہ چل رہا ہے وہ سرمائے کا پہیہ چل رہا ہے مزدور کا پہیہ نہیں چل رہا۔ یہ صرف یہ چاہتا ہے کہ اس ملک کے انڈسٹریلسٹ ، ٹھیکیدار ، کنسٹرکشن بزنس کے اندر بیٹھنے والے اربن پلانرز بشمول CDA ان سب کے کاروبار چلتے رہیں۔ لیکن اگر کسی کی روزی روٹی بند ہو اگر کوئی بے گھر ہو تو وہ صرف اور صرف اس پورے معاشرے کا پسا ہوا طبقہ اور اس معاشرے کی عورت یا اس معاشرے کی مظلوم قومیں ہوں۔ میں WDFکی طرف سے اظہار یکجہتی کرتی ہوں اور اس چیز پرزور دیناچاہتی ہوں کہ اس پورے نظام کو بدلنے کیلئے اگر کسی ایک چیز کی ضرورت ہے تو وہ ایک منظم تحریک کی ضرورت ہے۔ اور یہ منظم تحریک میں آپ اپنے اپنے کارنرز میں جاکر نہیں لڑیں گے اس منظم تحریک کیلئے آپ سب کو ایک دوسرے کے ساتھ اور ایک دوسرے کے مسئلوں کو سمجھ کر جڑنا ہوگا۔ اور جب تک آپ جڑیں گے نہیں تب تک اس پورے طبقاتی نظام اس پورے استحصالی نظام سے ہماری آزادی ممکن نہیں ہوگی۔ بہت بہت شکریہ۔

 

PINCHING AND UNIQUE FATWAS, ISSUED IN EXCESS?

Allama Ashraf Jalali Barelvi v/s Pir Zulfiqar Deobandi: Syed Atiq-ur-Rehman Gilani

When Tablighee Jamaat faces hardships on account of Corona Virus, then Moulana Ashraf Jalali of Barelvi school of thought issued a video mentioned therein that Allama Ibne Sereen had refused to listen narrations and aayah quoted by evil creed persons. He said we Ahle Sunnah are correct on our footings and we need not to listen the preaching speeches on the subject "Quran and Sunnah” of Tablighi Jamaat and Devband personnel. Then Pir Zulfiqar of Deoband school of thought quoted in support a hadeeth that Prophet Muhammad (PBUH) narrated that after my departure you would see that persons who would not claim to be prophet or Shaheed but Prophet and Shaheed would also be proud of them and those persons would create a love of Allah in the hearts of public and after making efforts, they would be succeeded to remove sins from them and in such a way become the source to be beloved of Allah and these persons are identified as Tablighi. All such Ulmas and Mashaekh who are working the same specific job are included therein. God has never educated Muslims to act/adopt the route of Stubborn through the Quran and Sunnah. When decided after collective discussion regarding slaves of Ghazwa-e-Badar then God warned in Quran and in Ghazwa-e-Uhad when companions of Prophet Muhammad (PBUH) even ignored the orders and displayed/given priority to their emotions, God had given decision adverse to previous one and in Soorah Mujadilah, contrary to the general fatwa, the revelation was revealed. In Salah Hudebiya, Prophet Muhammad (PBUH) had demonstrated great enthusiasm. If Shura of Tablighee Jamaat would have decided and conveyed public through their spokesman that” we have been mistaken as we knew nothing about social bindings and religion as well. Further, initially, we have to agree with what the government announced regarding not organizing such gatherings. The formation of groups was also a major mistake from our side and an act of dictating behavior as well and due to which we sustained loss”. On account of this conduct, everyone would go in favour/appreciate Tablighee Jamaat but despite that Moulana Naeem Butt representing Tablighee Jamaat standstill on his negative attitude and proved his origin. Barelvi, Deobandi, Shia, Ahl-e-hadees, and Jamaat Islami require to review/push back their traditional dictating nature and follow the Quran and Sunnah:*Syed Atiq-ur-Rehman Gilani.

The matter concerning orders of Quran and Sunnah

While interpreting the Quran, except copying, a lot of irregularities and an act of incompetency has been detected/traced-out.

During interpreting Quran, Ulmaa, Fuqaha, and interpreters have displayed a vital role in deshaping the sense of the Quran. Similarly, Moulana Syed Abul-Aala Modoodi had camouflaged the facts on account of his lesser religious knowledge…Now, it had become more essential that all top religious group leaders of the various school of thoughts may sit together and correct the mistakes made by them. Prophet Muhammad (PBUH) would lodge complain before Allah( SWT) on the day of judgment that Oh God! "Of course my nation had forgotten the Quran”(al-Quran)

All representatives of the various school of thoughts including Moulana Fazal-ur-Rehman of JUI, Siraj-ul-Haq of Jamaat Islami, Allama Khadim Hussain Rizvi of Tehreeq Labaik, Allama Abtasaam Ellahi Zaheer of Ahl-e-Hadees; Allama Shahenshah Hussain Naqvi of Ahl-e-Tashuo and remaining others are required to arrange a meeting and settle issues regarding translation and Tafseer of Quran. The purpose of forgiveness would only be accomplished when the matters which have been misinterpreted by religious class in the Quran are got corrected/reforms made therein.

Contradiction on sectarianism on Qurani Aayah…Amazing event and minimum religious knowledge of Syed Modoodi (R.A)

Hazrat Mugherah bin Sheba (R.A) was when the ruler of Basrah, four persons submitted a witness statement against him that he had committed a crime of rape(their names are shown in Sahih-Bukhari), etc. and amongst them was a companion of Prophet Muhammad (PBUH) identified as Hazrat  Abubakar (R.A) and last witness Ziyad explained that "I have seen myself back portion of the nude body, They were wrapped each other and were breathing.

And the feet of that woman was touching the ears of Hazrat Mugherah (R.A) in such a direction that apparently it appears to be a donkey with two ears and I have not seen much more, he added. On completion of the statements, Hazrat Omer (R.A) announced that the witness process is not yet ended. The rest of the witnesses were awarded the punishment of 80, 80 whips and then they were also offered that if you all are agreed that all this was false/a lie then your statement would ve accepted. Hazrat Abubakar (R.A) had regretted/refused to accepted the offer and the rest of the witnesses accepted the same. According to the opinion of Hazrat Imam Malik (R.A), Hazrat Imam Shafaee (R.A), and Hazrat Imam Ahmed Bin Hambal (R.A), the offer presented by Hazrat Omer (R.A) was correct/appropriate in the light of Quran, as mentioned therein that after submitting statement based on the false and imposing limit of Qadaf, it has been identified that their witnesses would not be accepted for onwards period/forever, however, persons who pray for forgiveness/pardon are exempted accordingly. However, Imam Abu Hanifa (R.A)’s opinion is different as he defines that the offer given by Hazrat Omer (R.A) was incorrect as person/(s)  who has been proved to be lier in his witness, their witness would not be accepted forever and so for the question of pardon is concerned, the same is related to the doom of hereafter with forgiveness. The event on which religious sectarianism was formed/based upon on account of the occurrence of misinterpretation of Qurani Tafseer, Prophet Muhammad (PBUH) would place before  Allah (SWT) a complaint on the day of judgment Towards the first step.

We have to get out of sectarianism tussles/conflicts and then on the basis of facts, efforts are to be made for implementation of the Islamic system and initially we have to correct intellectual system and towards next step, Islam is to be implemented in words and in spirit whereas, Syed Abulaala Modoodi (R.A) had written "that woman was actually the wife of Hazrat  Mugherah Ibn Sheba. The fact on record is that Hazrat  Mugherah was deposed on account of this event. Moulana Modoodi (R.A) in fact was an educated illiterate person.

Usmani Caliph has kept 4500 bondwomen (bandiyan) as compared to One Girlfriend of the existing British Prime Minister

British Prime Minister alongwith his pregnant girlfriend are attacked by Corona Virus. Our religious class might be thinking that both are effected are facing the punishment on account of God’s disobedience. If Islamic Shareea system/Khilafat would have been enforced, then both have to face the punishment i.e married Prime Minister would have been lapidated and the median girlfriend has to be awarded the punishment of 100 whips including One-year exile imprisonment. If we may ask the same religious class that Usmani Khalifa has kept 4500 londiyan, so can we say that he was permissible for this much ?, then expected fatwa from them would come-up that in Quran, there are certain limitations/bindings of wives whereas the number of Londis are not mentioned anywhere.

In nowadays; this religious concept of Islamic Khilafat is beyond the imagination of un-believers but at the same time it is also not acceptable for the Muslim majority. Now, as it has been mentioned that in implementation of Khilafat both creations of Earth and Sky (angles) would feel pleasure, so which type Prophetism for khilafat can be imagined? .In Bukhari Shareef, Prophet Muhammad (PBUH) interpreted a Qurani aayah”La taharrimu amma ahlullah lakum minat-tayyibaat” and declared that "Mutta” is a valid process. The status of the British Prime Minister’s girlfriend needs to assessed in the light of the Quran and Sunnah whereas, God had considered the act of keeping Londi, as a practice/continuity of Ahl-e-Firoan which was a tough test for Bani Israel. Moulana Syed Modoodi had to quote hadees of Bukhari Shareef in Tafseer of above aayah but in Tafheem-ul-Quran, the concept of Christianity regarding religious isolation has been presented. In the Quran, Londi has been named "Umma” and slaves had been considered "Abdu” and therefore, the concept of marrying them and orders in this respect are highlighted. So for the question of this aayah that "ma malakat ayimanakum” is concerned, regarding what does it means? then it is disclosed that this is considered to be an agreement and this type of agreement can be related to free woman and with Londi and Slave as well. Muslims achieved/attained to a rising level in the world only on the basis of implementing human rights but the inherent kingdom had wasted/ruined all the theories. First of all, we have to highlight the facts of the Quran and Sunnah.

Quran and Sunnah protect a weaker person in the provision of his rights so that sooner he may get relief

In the light of the Quran and Sunnah, labour had essentially to pay wages exactly on discharging his assigned job, cultivators have to handover the entire harvest, and wife is bound to compromise within the period of "eddat”. In case of "Khulaa”, the eddat period according to Sahih hadees is only One menses, whereas, prior to intercourse, if she is being divorced, then whatsoever the Haq Mehr is fixed, the husband has to pay her half of the agreed amount and that particular woman is also exempted to go for eddat. God has imposed a ban to put obstruction on use of any type of junk words, Oath and mutual agreement in the name of Allah whether it would be between wife and husband or within any two classes of the nation but it is a misfortune that Muslim Umma is moving towards reverse and adverse to the orders of Quran only for the reason that very visible orders of Quran and related matters has extremely been de-shaped/ruined.

A problem was in existence during the dark era that "when the words of divorce were not being expressed before woman, then she would have to wait for an unlimited period”. In nowadays, in the judiciary system, a poor and weaker Victim has to sustain a lot but we do not feel a burden on our conscious that this type of behavior is in practice in the name of Islam. In case when the husband is unsatisfied with his wife, unless and until she is not being divorced, the wife has to wait for a long period until the decision is made in her favour.

Quran had settled/solved this issue of the dark era in chapter  "problems of divorce” on top priority basis. God describes that”persons who are not intending to continue with wife, then she would have to wait for  4 months and if both are agreed on a compromise, then God is merciful and forgiver and if he had intended to divorce his wife but did not disclosed it, then God is a good listener and possesses knowledge of everything”(al-baqar-226,227). Further, if his intention was to divorce wife but did not express then it would be considered as a sin of heart” because of the reason that when husband divorce wife, the time period to wait for eddat is 3 months instead of 4 months and this excess and extra One month is a matter of painful wait for wife regarding not disclosing timely for divorce so he should be asked for that or say gripped accordingly. Quran in this regard is quite clear.

In the name of Fiqah Sectarianism, defection/avoiding visible Qurani aayah had suffered with destruction

It had made very clear in aayah 225 to 228 of Surah Al-baqrah that if a person had not expressed about divorce before wife, then the period of eddat is 4 months and if he disclosed about divorce, then eddat period is in 3 stages or say 3 months and if he intended to divorce his wife but he had not expressed about his decision, then this is a sin of the heart and therefore he would be punished accordingly.

Islam is a religion of nature and this Qurani aayah is in accordance with nature, quite clear and are acceptable for everyone but unfortunately, in Tafseer, it is shown that this is not a matter of anger but comes within the jurisdiction of a type say Oath and this is a horrible abuse. Imam Malik (R.A) was the residence of Madina Shareef and he is also of opinion that Ailai is not related with Oath but without Oath, unhappiness is also to be called/considered as Ailai. Moulana Syed Modoodi (R.A) had also mentioned this much in Tafheemq-ul-Quran.In Quran the question does not arise about any type of confusion and contradiction but in the name of Jhamoor and Hanfi Maslak tasfeer had been interpreted in an unnatural way, which is a shocking one.

Therefore, according to Ahnaf, after the expiry of 4 months period, woman would automatically be divorced and the condition between them would not be permissible and as per jamhoor declaration if the matter regarding divorce is not expressed then divorce would not exist. Now on account of this act of opposing/difference of opinion, on one side woman would be no more his wife and to continue relations as usual would be considered as forbidden. On the other side, wife as previously would be considered to be his wife and if she would marry another one, it would be treated as an act of forbidden. Now in our prevailing social system, a woman after a prescribed time plays the role of a mother, wife, a sister and daughter of any person simultaneously, then she would feel inconvenient and would be in trouble as well so is it possible that this type of Islam would be acceptable for non-muslims? These Owl type Ulmaa and Muftiyaan who are playing the game of politics in the name religion shall be recommended for remand who had harmed Quran due to their unnatural education.They are still stubborn and are not ready to revert/learn from their mistakes.

What are the actual causes/reasons for interpreting false Tafseer of Qurani aayah? You would be surprised to learn

The Aims and Objects of any Law/rule are to protect a weaker person. In case of mutual unhappiness which results/conclude divorce, Almighty Allah had given orders for a woman to undergo the process of "eddat” and eddat merely relates to the woman and only to protect woman, God had ordered eddat for waiting for purpose but Jahil fuqaha who are waiting anxiously for the arrival of Hazrat Imam Mehdi (A.S) had excluded/neglected weaker woman straightaway from discussion/debate on this issue. According to the opinion of Hanfi fuqaha, the husband had already utilized his right so on expiry of 4 months she would be considered a divorced woman and as per the "Gamhoor” decision, the husband has not used his right so his wife as previous would remain in the same status. Now, is it so possible that God created a huge difference/contradiction in aayah? No! Never at all! but God had described all this much for eddat of a woman, whereas if a woman intends to marry with any other person after expiry of eddat then she had got the liberty to do it and even after passing eddat tenure if she is willing to compromise/patch-up at her own discretion, then there are no bindings on her from God.

These aayah and orders based on Law/Principles of the Quran can be implemented/enforced throughout the world. The religious class had not only played the vital/key role to deface the theories, ideas, and rules of Islam but they still stand on their negative attitude.

This is not a matter of a single issue but they have perished/ruined each and everything relates to social rights and its related matters. One one side God had provided relief to its last extend and at the extreme level to settle this issue and on the other hand, for more than once God had given opportunity to revert this matter during eddat by applying the method of mutual understanding after the expiry of eddat and even passing a long term of eddat. I have presented a lot of arguments on this topic to them, published so many books, and mentioned in the shape of articles but they still are not getting rid of the curse of halalah.

If our social system would have been based on the education of the Quran then it would be a matter of proud for the entire world but Fuqhaa had pushed back/ignored the Quran and due to which Muslim Ummah had to be proved and stand to be guilty in this world and hereafter.

SHOCKING ATTITUDE OF ULMAA DURING CORONA VIRUS

Though matter clearly defined in the Quran and Sunnah, even then Ulmaa and Mufteyan in this context are expressing the worst behavior.

While explaining the social problems, when God ordered clearly about”prayer of fear” that pay attention/protect praying especially mid-day prayer. If you are surrounded by fear then pray even if you are walking or riding. Now you feel that atmosphere around me had become peaceful then pray God(as you were usual in practice) as you have been taught whereas you were unknown about it earlier(Al Baqrah..238-239) Prophet Muhammad(PBUH) narrated that when you hear the voice /message for prayer, then offering prayer is not accepted and participation collectively for prayers becomes essential but in case of the fear condition, or in disease, offering individual prayer is valid/correct (Sunan Abu Dawood).

If this message of Quran and Sunnah would have been Public/widely circulated then apart from religious class, common educated persons in excess would be able to obtain guidance/benefitted from Quran and Sunnah. Ulama had inserted this thought in the brain of their followers(who possesses low I.Q) that”to avoid Regular and Jumma prayers are not correct.” We make efforts to find out the fatwa of old tenure Fuqhaa of Al-Azhar University but not a single evidence was traceable except about minimizing the prayers”.

They then changed their fatwa rapidly in such a way when someone changes his (tooth bridges of the mouth) before kids possessing low IQ and put them in surprise.

The donkey has nothing to do except dhenchoo dhenchoo? he has to content on this much.

When news listened regarding the existence of coronavirus in China, our Media started a debate that whether the government has to bring back the Pakistani students from China or otherwise? Than here Media persons quoted the hadith of the epidemic that arrival and depart from that particular area of China is also against Islamic Law. When it was aware that the virus has been spread in Pakistan, then the ban was imposed in Mecca and Madina with reference to offering 5 times prayer in mosque including Tawaaf and this news was public accordingly. Then after a Fatwa was issued/declared from Shaikh-ul-Islam Mufti Taqi Usmani and Mufti Azam, Mufti Muneeb-ur-Rehman regarding offering 5 times prayer in the masjid which includes Jumma prayer as well. Whereas, political leaders spread rumors that their exists conspiracy against Ulmaa and Stubborn Tablighi Jamaat.

Then, Mufti Taqi Usmani in his audio message conveyed (as in fact he was unable to appear before the public through a video recording)that "in existing circumstances/situation when the government had already banned public in respect of offering Jumma prayer in mosques so we have obtained evidence from books of Fuqhaa that in case a person misses offering Jumma prayer at mosque then he is not permitted to offer Jumma prayer at home for the purpose that parallel to Jumma prayer, the public would start offering prayer, collectively and also in separate shape/form and secondly, the prayers would be considered as repeated one، so persons shall offer prayers in a collective manner at homes with the plea/reason that in the present situation both the condition does not exist i.e. neither Comparision of Juma prayers nor dispute of collective prayer whereas prayer is not allowed to be offered at homes though few persons are in practice to offer Jumma prayer at homes, it is O.K.This problem is of unitary nature, so if there exists any mistake in explaining, it would be considered from my side and if the entire situation expressed is correct, then it would be kindness of God.

Now why Mufti Taqi Usmani and Mufti Muneeb-ur-Rehman hesitates to place here the reference of Quran and Hadith? why they flick their unit on this changed situation? As regards the missing of Jumma prayer is concerned, this does not relate at all, when here Jumma prayer has not been missed then to put here the reference is irrelevant/incorrect.

سورۂ مدثر میں ایک بڑے انقلاب کا اشارہ

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

اسلام کی نشاة ثانیہ کے آغاز کا وقت ہے کیا؟

قرآن کی طرف متوجہ ہوئے بغیر اسلام کی نشاة ثانیہ کے آغاز کا تصور نہیں ہوسکتا

روزنامہ مشرق پشاور میں سورۂ مدثر کی بعض آیات کا حوالہ دیا گیا کہ اس میں کورونا وائرس کا چین سے ہونے کا ذکر ہے۔ آیت8میں ناقور سے مراد کورونا اور آیت12،13میں مال کی کثرت اوراولاد کی حاضری سے مملکت چین مراد لیا گیا۔ کبھی پاکستان جرمنی جیسے ملک کو قرضہ دیتاتھا مگر اب قرضہ دیتا نہیں لیتا ہے۔ اگر دنیا سے سود کا نظام ختم ہوجائے اور پاکستان کا سود معاف ہوجائے تو پاکستان کیلئے اس سے زیادہ خوشخبری کیا ہوسکتی ہے؟۔ نوازشریف نے ڈھیر سارے سودی قرضے لئے اور پھر اپنی شوگر ملوں کیلئے اربوں کی سبسڈی لی۔ شوگر مافیاپکڑا گیا تو تحریک انصاف سے زیادہ ن، ق لیگ اور پیپلزپارٹی کے بکروں کو چھرا دکھائی دیتا ہے۔ اگر یہ لوگ وہ سبسڈی کا مال بھی غریب عوام کو اس مشکل میں دیدیں تو غریبوں کا بھلا ہوجائے۔
جاپان نے ایک کھرب امریکی ڈالر کورونا وائرس کے خلاف پیش کردئیے ہیں۔ ہمارے پھنے خان،ننھے خان اور منے خان لوٹی ہوئی دولت بھی واپس نہیں کرتے۔ کرونا کانقارہ بج چکا ہے۔ سورۂ مدثر میں سقر سے جہنم نہیں بلکہ شکرے کی نحوست مراد ہوسکتی ہے، قرآن میں نحوست کوپرندے سے تعبیر کیا گیا ۔ لاتبقی ولاتذرO لواحة للبشر”نہ رازباقی چھوڑے اورنہ کوئی معاملہ رہنے دے۔جھلساکر انسان کو بگاڑ کر رکھ دے”۔ علماء ،سیاستدان، صحافی اور سب طبقات کیلئے یہ بڑی وارننگ ہے جو آخرت میں نہیں دنیا میں انقلاب کے حوالے سے ہے۔ ومایعلم جنود ربک الا ھو”اور کوئی نہیں جانتا تیرے رب کے لشکر کو مگر وہ، اوربشر کیلئے نصیحت ہے”۔ یہ کرونا وائرس بھی اللہ کا لشکر ہے۔جب انقلاب آئیگا تو ہر شخص اپنے کئے میں گرفتار ہوگا مگر دائیں جانب والے( اچھے لوگ )وہ جنت نظیر دنیا میں مجرموں سے پوچھیں گے کہ اس سقر(کم بختی کی نحوست میں) کس چیز نے پہنچایا؟

 

سورۂ مدثر میں ایک بڑے انقلاب کا اشارہ؟

قرآن کے رموز اور حقائق کبھی ختم نہیں ہوتے بلکہ ہردور میںرہنما اصول ہیں!

قرآن وسنت میں دو انقلابات کا ذکر ہے۔ پہلا انقلاب رسول اللہۖ کے دورمیں آیا۔ جسکے اثرات خلافت عثمانیہ اور سلطنت مغلیہ تک قائم رہے۔ دوسرا انقلاب درمیانہ زمانے سے آخری دورحضرت عیسیٰ علیہ السلام اور دجالِ اکبر تک قائم رہے گا۔ پاکستان اسلام کے نام پر بن گیا مگر اسلام سے سیاستدان تو دور کی بات ہے علماء ومشائخ بھی ناواقف ہوگئے تھے۔ مسٹر جناح کوئی مذہبی شخصیت نہیں تھی بلکہ مذہب سے دور ہونا ہی اس کا سب سے بڑا کمال تھا لیکن اسلام اور مسلمانوں کیلئے اللہ تعالیٰ نے بہت بڑا کام اس سے لے لیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس میں شیاطین اپنا مکروہ جال بنارہے تھے لیکن بہرحال انہم یکیدون کیدا واکیدکیدا
کرونا وائرس کے نقارے نے انسانیت کے دل ودماغ سے انسان دشمنی کا انتقام نکال دیا ہے۔ جہاں سورۂ مدثر میں دورِ نبوتۖ کے انقلاب کاذکر ہے وہاں پاکستان میں بھی بڑے انقلاب کی خوشخبری دے رہاہے۔ سیاست،صحافت، علماء ، مذہبی طبقے، سول وملٹری اور عدالتی بیوروکریسی سے معاملات قابو میں نہیں آرہے ہیں۔ مجرم اپنے انجام کو پہنچ رہے ہیں اور بہت قریب ہے کہ لوگ اس اسلام کی طرف متوجہ ہوں، جو قرآن وسنت کا عین تقاضہ ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں ایک ایسی خلافت کا قیام عمل میں آئے کہ پوری دنیا اسکے سامنے سرنگوں ہو۔
روس، امریکہ اور چین سمیت بھارت واسرائیل بھی اسے قبول کرکے خوش ہونگے۔ جب یہ انقلاب برپا ہوگا تو کسی شخص اور اسکے حواریوں سے شیخ الاسلامی کا تاج اتریگا اور وہ اعتراف کر لیںگے کہ ہماری نمازیں ڈھونگ تھیں، ہم مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے، پھر ان کی کوئی سفارش بھی نہیں کرسکے گا اسلئے کہ ہر ایک اپنی بداعمالیوں کے سبب مشکلات میں گرفتار ہوگا۔ البتہ اصحاب الیمین ہر طبقے سے ہونگے اور وہ ان سے انٹرویو لیتے ہونگے۔

 

کیاسورۂ الدھر میں دنیاوی انقلاب کی خبر؟

اگر حدیث کی خوشخبری ایک عظیم انقلاب کی ہے تو پھر قرآن میں یہ خبر کیوں نہیں!

جب دنیا اس کورونا وائرس کے چیلنج سے نکل جائے گی تو پھر سائنسی تحقیق کے نتیجے میں ایسے گلاس اور کپ بنائے جاسکتے ہیں جن کا مزاج کافوری ہو ؟۔ قرآن میں سورۂ قیامت کے بعد سورۂ الدھر ہے، جس کا واضح مطلب یہی ہے کہ قیامت کا ذکر سورۂ قیامت میں ہے اور دھر کا ذکر سورۂ الدھر میں ہے۔ پاکستان واحد ایسا ملک ہے جس کو پانچ دریاؤں کے نہروں سے ہی آسانی سے سجایا جاسکتا ہے۔ وزیرستان کا بڑا قدیمی شہر کانیگرم صدیوں سے آباد ہے لیکن پہاڑ پر بنے ہوئے اس شہر کے نیچے ندی اور نالے کے شفاف پانی کو آج تک شہر کا گند آلودہ نہیں کر رہاہے۔ پاکستان کے دریاؤں کو بھی آلودہ کیا گیا ہے۔ صنعتوں کو بلوچستان منتقل کیا جائے اور تیز رفتار ٹرینوں کے ذریعے کراچی کولاہور، پشاور،کو ئٹہ اور گوادر سے ملایا جائے۔تو ہمارے سیاستدان اور بیوروکریٹ اپنا سارا جائز اور ناجائز سرمایہ واپس پاکستان لائیںگے۔
حکومت سندھ علاقہ وائز اعداد وشمار کے ذریعے امدادی رقم غریب غرباء اور مزدور طبقہ تک پہنچائے، لوٹ مار سے بچنے کیلئے رینجرز اور پاک فوج کے جوانوں کی مدد لے۔ دنیا بھر سے لوگ اس مشکل گھڑی میں انسانیت کی خدمت کررہے ہیں۔ ایسے بُرا دن کے دیکھنے سے قبل جس کا شر بہت وسیع ہے عام لوگ بھی اپنی مدد آپ کے تحت ضروتمند طبقے کو امدادپہنچاتے ہیں جو کسی قسم کی جزاء اور شکریہ ادا کرنے کی توقع نہیں رکھ رہے ہیں بلکہ خالص اللہ کی خاطر کرتے ہیں۔ سورۂ الدھر میں معاملات بالکل واضح ہیں۔ جب انقلاب آئیگا تو پاکستان سمیت دنیا پر نعمتوں کی ایسی بارش ہوگی کہ سورج کی تپش اور سردی کی ٹھٹر سے سب محفوظ ہونگے۔ نوجوان طبقہ بہت خوشی سے خدمت کا فریضہ انجام دے گا۔ پھلوں کی کوئی کمی نہیں ہوگی۔ خلافت کے قیام کے بعد جس قسم کی نعمتوں کا ذکر ہے وہ سورہ الدھر میں مذکور ہیں۔

کان چھدوانا ناجائز دانت تڑوانا جائز ہے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

بچی کے کان چھیدنے کو تخلیق میںمداخلت اور
ناجائز قرار دینے والے نے دانت تڑوا ڈالے

جنرل ضیاء نے سود سے زکوٰة کی کٹوتی شروع کی تو مفتی اعظم مفتی محمود نے انکار کیا۔ اگر 10لاکھ پر1 لاکھ سود ہو۔ 25ہزار زکوٰة کٹے، 75ہزار سود ملے ، اصل رقم محفوظ ہو تو زکوٰة ادا ہوگی؟۔ مفتی تقی عثمانی نے سودی زکوٰة کا فتویٰ دیا اور مدرسہ کیلئے جنرل ضیاء سے مالی مفاد لیا۔ مفتی محمود نے جامعہ بنوری ٹاؤن میں مفتی تقی و مفتی رفیع عثمانی کو چائے پر بلایا مگر دونوں نے انکار کرکیا کہ ہم صبح پیتے ہیں۔ مفتی محمود نے کہا کہ خود زیادہ پیتا ہوںمگر کوئی کم پیئے تو پسند کرتا ہوں۔ مفتی تقی نے کہا کہ حضرت ہمارے ساتھ یہ علت (پان) لگی ہے۔مفتی محمود نے کہا کہ ”یہ تو چائے سے بدتر ہے”۔ مفتی تقی عثمانی نے اصرار کرکے مفتی محمود کو پان کھلایا۔ مفتی محمود نے راکٹ سائنس کے دلائل نہیں دینے تھے مگر غش کھاکر گرے، مفتی رفیع عثمانی نے حلق میں دورۂ قلب کی گولی ڈالی، مفتی محمود جان سے گئے۔تبلیغی جماعت نے سودپر فتویٰ مانامگر رائیونڈ جوڑ پر فتویٰ نہ مانا۔ قرآن کی نہ مانیں تو گرگس کی آذان سے کام نہ چلے گا۔ سورۂ مدثر میں واضح معاملات کا پتہ اس وقت چلے گا جب اسلامی انقلاب برپا ہوگا۔

علماء ومفتیان اور مذہبی طبقے کے عجیب حیلے!!

مُلا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت نادان یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد

جب ہندوستان میں انگریز کا قبضہ تھا تو مولانا اشرف علی تھانوی کہتے تھے کہ مسلمان جب نماز اور عبادات کیلئے آزاد ہیں تو انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کی جہدوجد بیکار ہے۔ جس پر علامہ اقبال نے یہ شعر پڑھاتھا، یہی رویہ بریلوی واہلحدیث علماء کا بھی رہا تھا مگر مولانا تھانوی کے استاذ شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے تحریکِ ریشمی رومال میں بغاوت کردی تھی۔
ایک بڑی عمر کے کم عقل شخص نے جوانوں سے کہا تھا کہ ”میں روزہ توڑنا چاہتا ہوں مگر اس کا کفارہ ادا نہیں کرسکتا۔ تم لوگ مجھے زبردستی پکڑکر کچھ کھلادینا، اس طرح میرا روزہ بھی ٹوٹ جائیگا اور کفارہ ادا نہیں کرنا پڑیگا”۔ حالانکہ ہمارے یہاں کہاوت مشہور ہے کہ” اگر نہیں چلوگے تو اٹھاکر لیجاؤں گا لیکن اگر نہیں کھاؤگے تو پھر میں کیا کرسکتا ہوں”۔ بہرحال اس صاحب کے روزے کو شرارتی لڑکوں نے توڑ کر ایک مذاق کا تماشا بنالیاتھا۔ پہلے علماء ومفتیان نے فتویٰ دیا کہ ”مساجد میں باجماعت نماز پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی ہے”۔ پھر حکومت سے کہا کہ ” ہم تو نمازیوں کو نہیں روک سکتے، البتہ حکومت خود روک لے تو ہم مزاحمت نہیں بلکہ تعاون کرینگے”۔
اللہ واسطے اسلام کا ٹھیکہ چھوڑ دو۔ شوگر مافیا کی طرف سے اربوں کمانے کی جمہوریت میں اور تمہاری طرف سے اسلام کے نام پرتجارت کرنے میں کوئی فرق نہیں۔ تمہارا کام اسلام کی شیخی کرنا نہیں ہے بلکہ انبیاء کرام کے ذمے بھی صرف تبلیغ تھی۔ تم قرآن وسنت نہیں اپنی اجارہ داری کی تبلیغ کرتے ہو۔ مرضی ہو تو فتویٰ دیتے ہو کہ نماز باجماعت ترک نہیں کرسکتے اور مرضی ہو تو فتویٰ دیتے ہو کہ گھروں میں نماز پڑھو۔ یہ دھندہ چھوڑ دو، دنیا میں پیٹ پالنے کیلئے راستے اور بھی ہیں۔ پیٹ پالنے کیلئے دین کو ذریعہ معاش بنانے سے بہتر دنیاوی طریقے ہیں۔ دین کا کام گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والوں کے بس کی بات بالکل بھی نہیں ۔

مفتی تقی عثمانی اور تبلیغی جماعت کے معاملات

اسلام کو توبدل ڈالا۔ وائرس کیخلاف پروپیگنڈہ نہ کرکے عوام کو گمراہ نہیں کریں!

وائرس زائرین اور بیرونِ ملک آمد سے آیا۔ مفتی تقی عثمانی کا فتویٰ تھا کہ باجماعت نماز ، خطبۂ جمعہ کو مختصر کیا جائے مگر ترک نہیں کیا جاسکتا۔ قدیم فقہاء اور جامعہ ازہر ودیگر فتاویٰ ہیں، البتہ اجتماع پر پابندی میں حکومت کا حکم ماننا فرض ہے۔ تبلیغی جماعت رائیونڈ اجتماع سے منع نہ ہوئی۔ بارش نے بھگایا تو پھر بھی جماعتیں شکیل دیں۔ مفتی تقی عثمانی نے تبلیغی کا کورونا سے بچنے کا خواب بھی بتایا کہ رسول اللہۖ نے یہ وظیفہ بتایا تھا جو میڈیا پرخوب نشر کیا گیا تھا۔
نعمان مسجد لسبیلہ کراچی میں تبلیغی جماعت کابعدازمغرب گشت، عشاء کے بعد بیان تھا تو مفتی تقی عثمانی کو عصر کی نماز کے بعد درسِ قرآن سے روکا کہ تم اللہ کی راہ میںرکاوٹ بنے ہو۔ مفتی محمود، جمعیت علماء اسلام و دیگر مدارس کے برعکس مفتی تقی عثمانی نے سودی زکوٰة پر فتویٰ دیا، الائنس موٹرز سے تبلیغی جماعت کا اختلاف تھا تو مفتی تقی عثمانی و مفتی رشید لدھیانوی نے تبلیغی جماعت کیخلاف فتویٰ دیا۔ جب الائنس موٹرز اور حاجی عثمان میں اختلاف ہوا تو مفتی تقی عثمانی نے الائنس موٹرز کا ساتھ دیا۔ پھر مفتی تقی عثمانی نے سود کو اسلامی قرار دیا تو وفاق المدارس کے صدر مفتی تقی عثمانی کے استاذ مولانا سلیم اللہ خان نے مفتی زرولی خان اور دیگر علماء ومفتیان سے مل کر مفتی تقی عثمانی کو تنبیہ کی مگر مفتی تقی عثمانی نے کسی کی نہیں مانی۔ تبلیغی جماعت والے پہلے دو یا تین افراد میں بھی ایک کو امیر مقرر کرتے لیکن پھر امارت کے ہوس نے اکابر کو امیر مقرر کرنے کے شرعی حکم سے دستبردار کروادیا۔ پہلے عالمی امیر سے محروم تھے پھر پاکستانی امیر بھی نہیں رہا۔ اسلئے جب تک کرونا وائرس پھیلانے کے جرم میں گرفتار نہیں ہوئے، کسی کی بھی بات نہ مانی۔
انسان گناہ کی پیٹھ پر سوار ہو تو توبہ کوئی معنیٰ نہیں رکھتا ۔ قرآن کی طرف رجوع نہ کیا جائے تو اس سے بڑی اور کافری کیا ہے؟۔سودی نظام کے جواز سے توبہ کریں۔

مفتی تقی عثمانی کے بدلتے فتوؤں کی حالت!!

پہلے نبیۖ پر سودکھانے کی توقع کا حکم لگایا، نیوتہ کو سودکہا پھربینکنگ پراترآیا!

اللہ نے قرآن میں نبیۖ سے فرمایا: فلا تمنن تستکثر”احسان سے توقع نہ رکھو کہ قوم بھلائی کی تبلیغ کے بدلے زیادہ خیر کا مظاہرہ کریگی”۔ (سورہ ٔالمدثر) فطری بات ہے کہ جزاء الاحسان الا الاحسان” احسان کا بدلہ احسان ہے”۔جب جہالت کا معاشرہ ہوتا ہے تو بھلائی کی تبلیغ لوگوں کو بری لگتی ہے۔ نبیۖ کاتبلیغ کے بدلے خیرکثیر کی توقع فطرت تھی لیکن جاہلوں کی طرف سے غیر فطری ردِ عمل کا اندیشہ بھی تھا جس کو اللہ نے واضح کردیا تھا۔
مفتی تقی عثمانی نے بعض نادان مفسرین کی آراء سے یہ تفسیر کرڈالی کہ یہ سود تھا، نبیۖنے مال دینے کے بدلے نعوذباللہ زیادہ مال حاصل کرنے کی توقع رکھی تو اللہ نے روک دیا۔ مفتی تقی عثمانی نے کراچی میں شادی بیاہ کے موقع پر لفافوں کے لین دین کو بھی سود اور اسکے کم ازکم گناہ کو اپنی ماں کیساتھ زنا کرنے کے برابر قرار دیا۔ مفتی تقی عثمانی کے بہنوئی مفتی عبدالرؤف سکھروی کے وعظ چھپ کر بازار میں بک رہے ہیں۔نیوتہ کی رسم میں لفافے کے لین دین پر سود کا فتویٰ اور اپنی ماں سے زنا کے برابر گناہ قرار دینے والوں نے بینکنگ کے سودی نظام کو معاوضہ لیکر جائز قرار دیا۔ وفاق المدارس کے صدر اور اپنے استاذ مولانا سلیم اللہ خان سمیت کسی بھی دینی مدرسے کے فتوے اور مزاحمت کو خاطر میں نہیں لایا۔ حاجی عثمان پر فتوے لگائے گئے تو مفتی تقی عثمانی نے اپنے سے بڑے علماء ومفتیان اور اساتذہ کیلئے بھی خود کو سرپنچ بنالیا۔
پھراللہ نے عروج دیا: سنستدرجھم من حیث لایعلمون” ہم انکو ایسی ترقی دینگے کہ وہ سمجھیںگے بھی نہیں”۔ سارھقہ صعودا ”عنقریب میں اس کو چڑھا ؤں گا”۔ اس سے مفتی تقی عثمانی اسلام کی نشاة ثانیہ کے وقت مراد ہوسکتاہے۔ روزنامہ مشرق پشاور میں کسی نے کروناوائرس اور چین مراد لیاہے مگر شیخ الاسلام کوبھی اپنی ذات پر غور کرنا چاہیے۔

مفتی تقی عثمانی کے عروج وزوال کی داستان

ہم نے آسمان کو ستاروں سے مزین کیا:اور جب ستارے ٹوٹ جائیں گے

مولانا سید سلمان ندویاور مولانا ابوالکلام آزاد نے تصویر کے جواز کا فتویٰ دیا تومفتی شفیع کی جب کوئی حیثیت نہیں تھی تو دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ نے مضمون چھپوانے کی لالچ دی تو حق بات کو دبانے کی خدمت انجام دی۔ جوہری دھماکہ میں تفصیل سے حقائق موجود ہیں۔
مفتی تقی عثمانی ومفتی رفیع عثمانی کیلئے باپ مفتی شفیع نے دارالعلوم میں ذاتی مکان خریدے تو مفتی رشید احمد لدھیانوی نے اسلئے ناجائز قرار دیا کہ وقف مال خریدنے اور فروخت کرنے کی گنجائش نہیں۔ نیز ایک آدمی بیچنے اور خریدنے والا نہیں ہوسکتا۔ اس پر مفتی رشید لدھیانوی کی پٹائی لگادی، سودی زکوٰة کی کٹوتی پر مفاد حاصل کیا۔ حاجی عثمان کیخلاف الاستفتاء مرتب کرکے علماء ومفتیان کی غلط وکالت کی، دارالعلوم کراچی کی مسجد میں ہمارا چیلنج قبول نہیںکیا اور پھر سود ی بینکنگ کو اسلامی قرار دیا۔ مولانا یوسف لدھیانوی اور مولانا سلیم اللہ خاننے حاجی عثمان کی قبر اور مسجدالٰہیہ آکر درونِ خانہ معافی تلافی کرلی، مفتی تقی ورفیع عثمانی معافی مانگیں۔
ملا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور :کرگس کا جہاں اور شاہین کا جہاں اور

مفتی تقی عثمانی اور حاجی عثمان پر فتوے کامنظر!

منہاج الشریعت، سراج الطریقت ،عروج ملت حضرت حاجی محمد عثمان قدس سرہ

پندرھویں صدی کے مجددحضرت حاجی محمد عثمان ایک طرف تبلیغی جماعت کے بزرگ، علماء کے دلدادہ، اولیاء کے سرخیل تھے تو دوسری طرف خلافت علی منہاج النبوةکی تمنا رکھتے تھے۔ علماء ومفتیان آپ سے بیعت تھے۔ بڑے پیمانے پر فوجی وپولیس افسر اور مدینہ منورہ کے پولیس افسر تک بھی آپ کے حلقہ ارادت میں شامل تھے۔ اہلحدیث حضرات بھی آپ کے مرید تھے۔ جب آپ کے سرمایہ دار مریدوں نے علم بغاوت بلند کیا تو الاستفتاء کے نام سے دارالعلوم کراچی میں وہ الزام لگائے گئے جو عقل کے بھی بالکل منافی تھے۔پھر جب دوسرے علماء ومفتیان نے ہمارے جال میںپھنس کر اکابرین کے خلاف فتویٰ دیا تو دارالعلوم کراچی والے بچ گئے۔ وہ نہ تو فتویٰ کی حمایت اورنہ مخالفت کیلئے تیار تھے۔ ہفت روزہ تکبیر کراچی میں بھی وہ فتویٰ شائع ہوا،جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ سید عتیق الرحمن گیلانی نے یہ استفتاء لکھا ہے جو حاجی عثمان کے مرید خاص ہیں، اس قسم کے عقائد پر پابندی لگائی جائے۔ حالانکہ سب عقائد شیخ عبدالقادر جیلانی، شاہ ولی اللہ ، علامہ یوسف بنوری اور شیخ الحدیث مولانا زکریا کے تھے۔ پھر جب روزنامہ تکبیر کراچی کو اصل صورتحال سے ایک سال بعد آگاہ کیا گیا تو اس میں علماء ومفتیان کو دروغ گوئی سے کام لینے کے بجائے اپنی غلطی تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ ان حالات میں مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن کا کردار مجذوبانہ تھا، مفتی رشیدلدھیانوی کا کردار متشددانہ تھا اور مفتی تقی عثمانی ومفتی رفیع عثمانی کا منافقانہ تھا۔ نکاح کے معاملے پر بھی دوغلہ پن کا فتویٰ دیا تھا، جس کی تفصیلات دیکھ کر دانتوں کے بعد انکی ناک بھی کٹے گی،انشاء اللہ۔ ہمارا کوئی ذاتی عناد نہیں مگر طلاق کے مسئلے پر میرے استاذ مفتی محمد نعیم کے جرأتمند انہ بیان پر بھی مفتی تقی عثمانی اور اسکے حواریوں نے تنقید کا نشانہ بنایاتھا۔ اب جنگ ہوگی۔

علماء و مفتیان اپنی ہٹ دھرمی چھوڑیں

علماء ومفتیان اور مذہبی طبقات کی انتہائی بدترین اور بہت ہی قابلِ رحم حالت

مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمن نے علماء ومفتیان کا بڑا نمائندہ اجلاس طلب کیا اور ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے کیلئے کراچی پریس کلب میں میڈیا کے صحافیوں کے سامنے اپنے انتہائی بھونڈے پن کا مظاہرہ کیا۔ تحریری اعلامیہ مفتی تقی عثمانی نے پڑھ کر سنایا تو اس میں ایک مطالبہ رکھا گیا تھا کہ مساجد سے لاک ڈاؤن کی پابندی ختم کی جائے۔ مفتی منیب الرحمن نے کہا کہ آج سے لاک ڈاؤن ختم ہے۔ صحافی نے کھلے تضاد پر سوال اٹھادیا۔ مفتی تقی عثمانی نے مائک ہاتھ سے مفتی منیب الرحمن کی طرف کردیاتومفتی منیب الرحمن نے اپنی بات دہرادی کہ لاک ڈاؤن آج سے ختم ہے۔ پھر مفتی تقی عثمانی نے سوال کے جواب میں تحریری مطالبہ دہرایا لیکن جب صحافیوں نے ابہام ختم کرنے پر زور دیا تو علماء نے مزید گفتگو سے بھاگ کر جان کی امان پائی۔ پھر شاہ زیب خانزادہ نے کھینچ تان کر بہت اگلوانے کی کوشش کی کہ مفتی منیب کے بیان کی کیا حیثیت ہے؟ مگرمفتی تقی عثمانی نے آخری حد تک ٹال مٹول سے کام لیکر کہا کہ ہمارا حکومت سے معاہدہ ٹوٹ چکا تھا۔ البتہ آئندہ کیلئے ہم بات چیت کیلئے تیار ہیں۔

مفتی منیب الرحمن نے اپنے رویہ کو چھوڑ کر بہت ہی قابلِ تحسین اقدام اٹھایا ہے

جب مشترکہ اعلامیہ کے بعد مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمن ایکدوسرے سے کھلم کھلا تضاد رکھنے کے باوجودصحافیوں کو اطمینان بخش جواب دینے سے کنی کترا رہے تھے تو پھر کسی اور مؤقف پر ان سے واضح مؤقف رکھنے اور عوام کو رہنمائی فراہم کرنے کی کیا توقع رکھی جاسکتی ہے؟۔ افسوس کہ مذہبی طبقات پھر بھی سوشل میڈیا پر انکے دفاع کی خدمت کررہے ہیں۔
قرونِ اولیٰ اور قرون اُخریٰ کے ادوار کا تفصیل سے قرآنی آیات میں ذکر ہے لیکن فرقہ واریت کے رنگ بدلتے ہوئے گرگٹوں نے کبھی اس پر توجہ نہ دی اور آج بھی ان سے توقع نہیں کہ حقائق کو ایمان کے تقاضوں کے مطابق مان لیںگے۔قرآن میں صحابہ کرام کو واضح طورپر رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ کا تمغۂ امتیاز دیا گیا ہے مگر شیعہ سنی کا صحابہ پر اختلاف ہے۔ نبیۖ نے فرمایا: علیکم بسنتی وسنة الخلفاء راشدین المھدیین ” تم پر میری سنت کی اتباع لازم ہے اور خلفاء راشدین مہدیوں کی سنت کی اتباع لازم ہے”۔
جب حضرت ابوبکر ، حضرت عمر ، حضرت عثمان اور حضرت علی کے راشد ومہدی ہونے پرہی شیعہ سنی کا اتفاق نہیں تو آئندہ کے مہدیوں پر کیسے اتفاق ہوسکتا ہے؟۔بس اس بات پر اتفاق ہے کہ دنیا میں امام مہدی تشریف لائیںگے اور ایک عظیم انقلاب برپا ہوگا۔ کیا اس انقلاب کا ذکر بہت واضح انداز میں قرآن کریم میں نہیں ہوسکتا ہے؟۔ ہے اور بالکل واضح طور پر ہے!۔ نبیۖ نے امیر معاویہ کیلئے بھی دعا مانگی تھی کہ ” اے اللہ اس کو ہادی اور مہدی بنادے”۔ مگر اہل تشیع کا مؤقف یہی ہوسکتا ہے کہ یہ دعا قبول نہیں ہوئی تھی۔ جبکہ اہلسنت کے نزد ابوطالب کیلئے نبیۖ نے ہدایت کی دعا مانگی مگر اللہ نے فرمایاانک لاتھدی من احببت ۔ہمیں پہلوں کے بارے میں بحث چھوڑ کر اپنا مستقبل گمراہی سے بچانے کی فکر کرنا ہوگی۔

ڈاکٹر طاہرالقادری اور مفتی رفیع عثمانی بھی حدیث پراب غلطی کا ازالہ کریں

ہمارا ایمان ہے کہ جس طرح قرآن کریم قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی بڑی تعداد کیلئے بھی رشد وہدایت اور مقربین بارگاہ الٰہی کا ذریعہ بن گیا تھا،اس طرح قرون اُخریٰ میں کم تعداد ہی کیلئے سہی مگر مقربین بنانے کا ذریعہ بن جائیگا اور بڑی تعداد میں لوگوں کے رشدو ہدایت کا ذریعہ آخری دور میں بھی بنے گا۔ جسکا سلسلہ اس درمیانہ دور یانصف آخر سے لیکر بالکل آخری دور تک چلتا رہے گا۔ نبی ۖ نے بارہ خلفاء کا ذکر فرمایا جن پر امت نے متفق ہونا ہے۔ علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب ” الحاوی للفتاویٰ” میں اس حدیث کی یہ تشریح لکھ دی کہ ” ابھی تک یہ بارہ خلفاء آئے نہیں ہیں جن پر امت کا اتفاق ہوا ہو”۔ ڈاکٹر طاہر القادری و مفتی رفیع عثمانی نے علامہ جلال الدین سیوطی کی اس کتاب کے حوالہ جات نقل کرکے بہت بڑی خیانت کا مظاہرہ کیا ہے۔ علامہ سیوطی نے لکھا ہے کہ نبیۖ نے فرمایا کہ مہدی کے بعد پھر قحطانی امیر ہوگا۔ ایک روایت میں ہے کہ مہدی چالیس تک رہیں گے۔ پھر قحطانی امیر منصور ہوگا، جسکے دونوں کان میں چھید ہوگا۔ وہ مہدی کی سیرت پر ہوگا۔ پھر نبیۖ کے اہل بیت میں سے آخری امیر ہوگا جو نیک سیرت ہوگا”۔ڈاکٹر طاہرالقادری اورمفتی رفیع عثمانی نے ان روایات کے اندراصلی روایت مہدی اور قحطانی کو چھوڑ کر پھر تشریحی روایت سے صرف آخری امیر کا ذکر لے لیا۔ ہم نے اپنی کتابوں میں مسلسل احتجاج کیا کہ اس خیانت سے اعلانیہ توبہ کی جائے مگر یہ لوگ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ علامہ یوسف بنوری کے شاگرد نے اپنی کتاب میں مہدی کے حوالہ سے بہت تفصیل سے روایات کا ذکر کیاہے جہاں مہدی اور قحطانی امیر منصور کے درمیان بھی کافی واقعات ،انقلابات اور امیر مقرر کرنے کا ذکر ہے مگر پھر ملاعمر سے مہدی و منصوربھی مراد لیا ہے۔ علماء ومفتیان اور دانشور مل بیٹھ کر اچھے نتیجے پر پہنچ جائیں۔

ریاست مدینہ کرونا حقائق کے تناظرمیں

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ” جہاں وبائی مرض ہو تو وہاں سے کوئی دوسری جگہ نہ جائے اور نہ کوئی وہاں جائے”۔ چین کو پتہ چلا کہ ”ووہان میں وبائی مرض کرونا پھیل گیا ہے تو وہاں سے نکلنے اور وہاں جانے پر پابندی لگادی”۔ ساڑھے چودہ سو سال پہلے ریاستِ مدینہ نے جس کی نشاندہی کی تھی چین نے موجودہ دور میں اس پر عمل کرکے نجأت حاصل کرلی۔ ایران نے اپنی زیارات کو شفاء کا ذریعہ سمجھا اور حدیث کو نظر انداز کردیا تو تباہی مول لے لی ۔ ٹرمپ کو مذاق سوجھا تو اس کی شلوار بقول عمران خان نیازی کے گیلی ہوگئی ہے۔ اٹلی،اسپین، فرانس اور جن ممالک نے اس کو سنجیدہ نہیں لیا تو اس کی بہت بڑی سزا بھی بھگت رہے ہیں۔
قرآن نے سود کو اللہ اور اسکے رسولۖ سے اعلانِ جنگ قرار دیا ۔ کافرممالک میںشرح سود بالکل زیرو ہورہی ہے اور مسلم ممالک میں شرح سود خاص طور پر پاکستان میں سب سے زیادہ ہے۔ یہ عمران خان مسلمان ہے جسے دیکھ کر شرمائے ریاستِ مدینہ کا یہود؟۔پاکستان میں جس طرح سیاست میں سرمایہ کاری کرکے بہت زیادہ شرحِ سود اٹھایا جاتا ہے اس کی مثال ہماری پیشہ وارانہ جمہوریت ہے۔ پہلے ہندو بنیے کا سود مشہور تھا۔ اسی طرح مشرکینِ مکہ بھی سودخوری میں مبتلا تھے۔ریاستِ مدینہ میں یہود کا سود اپنی انتہاء کو پہنچا ہوا تھا۔ آج ریاستِ مدینہ میں صادق وامین رسول اللہ ۖ کی نہیں بلکہ ریاستِ مدینہ کے یہودکی یاد تازہ کی جارہی ہے۔
اسلامی انقلاب عقائد نہیں نظام کیخلاف تھا۔ مدینہ میں رسول اللہۖ پر سود کی حرمت والی آیت نازل ہوئی تو آپۖ نے زمین کو مزارعت اور کرایہ پر دینا سود قرار دیا۔ مکہ فتح ہوا تو پہلے اپنے چچا عباس کا سود، جاہلیت کے خون میں پہلے چچا کا خون معاف کردیا۔پاکستان میں اسلامی انقلاب جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کیخلاف آئیگا اور محنت کشوں کی چاندنی ہوگی۔

کورونا خودکش حملے کی طرح دہشتگردی ہے ؟

جب نبیۖ نے فرمایا کہ متعدی مرض وبا سے ایسے بھاگو جیسے جنگلی شیر سے بھاگتے ہو تو پھر کورونا وائرس میں غفلت کا مظاہرہ کرنا خود کش حملوں کی طرح دہشت گردی ہے۔ امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو امت مسلمہ کے جذبات طالبان کے حق میں اور امریکہ کے خلاف تھے۔جنرل پرویزمشرف نے مجبوری میں امریکہ کا ساتھ دیا تو پاک فوج کی اکثریت کا جذبہ عوام کی طرح امریکہ کے خلاف اور طالبان کی حمایت میں تھا۔ ریاست کا حکم امریکہ کیساتھ تھا اور ریاست کا جذبہ طالبان کیساتھ تھا۔ جس کی وجہ سے جی ایچ کیو پر قبضہ سمیت پورے ملک کو بہت نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ 70ہزار سے زیادہ پاکستانی لوگ جان سے گئے۔
آج پاک فوج کورونا وائرس کے خلاف دل وجان سے عوام کیساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ کورونا وائرس دہشتگردی سے زیادہ مہلک و خطرناک ہے۔ امریکہ نے افغانستان، عراق اور لیبیا کا بیڑہ غرق کیا تو دنیا کو دہشت گردی نے اپنی لپیٹ میں لیا۔ دہشت گردی ظلم وجبر کانتیجہ تھی اور کورونا وائرس کے خلاف دہشتگردی نہیں ہمدردی کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ عالمِ انسانیت کو اس زریںموقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شَر کی قوتوں کو شرمندہ کرنا چاہیے۔اگر پاکستان میں کوئی اچھا حکمران ہوتا تو سب سے پہلے تمام گھروں کو راشن اور علاج کی سہولت فراہم کرکے اپنی حدود میں رہنے کی تلقین کرتالیکن لگتاہے کہ پاکستان میں وائرس پھیلانے کی دانستہ کوشش ہورہی ہے اور خاندانی منصوبہ بندی کی جگہ کرونا وائرس سے آبادی کم کرنے کا منصوبہ زیرِ غور ہے۔ چین سے طلبہ واپس لائے جاتے مگر چین نے خود واپس نہیں کئے۔ ایران میں زائرین کو رکھا جاسکتا تھا مگر زائرین کو واپس لایا گیا۔جب تک وائرس پھیل نہ جائے عمران خان اطمینان کا سانس نہ لے گا اسلئے قرضہ معاف کرانے اور چندہ بٹورنے کا یہ واحد ذریعہ ہے۔

 

علماء کے انوکھے اور نوکیلے فتوؤں کی یہ بھرمار؟
علامہ اشرف جلالی بریلوی بمقابلہ پیر ذوالفقاردیوبندی

جب کوروناوائرس کیوجہ سے تبلیغی جماعت مشکل میں آئی تو بریلوی مکتب کے مولانا اشرف جلالی کی ویڈیو سامنے آئی کہ علامہ ابن سرین نے بدعقیدہ افراد کی طرف سے روایت و آیت کو بھی سننے سے انکار کردیا تھا، ہم اہلسنت ٹھیک کرتے ہیں کہ تبلیغی جماعت اور دیوبندیوں سے قرآن وسنت کی تبلیغ نہیں سنتے۔ دیوبند مکتب کے پیرذوالفقار نے ایک حدیث تبلیغی جماعت پر چسپاں کردی کہ نبیۖ نے فرمایا کہ ایسے لوگ ہونگے جو انبیاء اور شہداء نہیں ہونگے مگر ان پر انبیاء اور شہداء بھی رشک کرینگے۔ یہ وہ ہونگے جو عوام کے دلوں میں اللہ کی محبت ڈالیںگے اور اللہ میں لوگوں کی محبت ڈالیںگے، ان کو معاصی ترک کرنے کی دعوت دیکر۔ یہ تبلیغ والے ہیں اور وہ سب علماء ومشائخ بھی اس میں داخل ہیں جو یہ کام کررہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن وسنت کے ذریعے مسلمانوں کو ہٹ دھرمی کی تعلیم نہیں دی ۔ بدر کے قیدیوں پر مشاورت کے بعد فیصلہ ہوا تو اللہ نے قرآن میں تنبیہ فرمائی، احد کے بعد جذباتیت کے مظاہرے پر اللہ نے برعکس فیصلہ دیا۔ سورۂ مجادلہ میں عام فتوے کے برعکس وحی نازل ہوئی ۔ صلح حدیبیہ میں نبیۖ نے زبردست حوصلے کا مظاہرہ کیا۔ اگر تبلیغی جماعت کی شوریٰ فیصلہ کرتی اور اپنے ترجمان کے ذریعے عوام کو مطلع کرتی کہ” ہم سے غلطی ہوئی ہے، دین اور دنیا سے ہم جاہل ہیں۔ حکومت کی بات مان کر ہمیں اجتماع نہیں کرنا چاہیے تھا اور پھر اجتماع کے بعد جماعتوں کی تشکیل ہماری غلطی اور ہٹ دھرمی تھی جس کا ہم نے خمیازہ بھگت لیا ”۔ تو سب لوگ تبلیغی جماعت کی تعریف کرتے لیکن مولانا نعیم بٹ نے ہٹ دھرمی سے ترجمانی کرتے ہوئے اپنی اصلیت واضح کردی۔ بریلوی، دیوبندی ،شیعہ،اہلحدیث اور جماعت اسلامی روایتی ہٹ دھرمی چھوڑ کر قرآن وسنت کے واضح احکام پر عمل کریں۔

 

پاکستان کی ریاست شوگر مافیا کی لونڈی ہے؟
کیا ہم اپنی حالت بدلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے؟

پاکستان نازک موڑ پر کھڑا ہے، کچھ لوگوں کو ن لیگ نے خرید لیا ہے جو یہ چاہتے ہیں کہ اس حکومت کو چلتا کرکے ن لیگ، ق لیگ اور تحریک انصاف کے لوٹے مل کر ایک بار پھر مشترکہ حکومت قائم کریں۔ چاہے نئے انتخابات کے ذریعے ہو یا اسی سیٹ اپ میں تبدیلی کا تقاضہ پورا کیا جائے۔ جب جہانگیر ترین اور عمران خان کو نکال باہر کیا جائیگا تو تختِ لاہور ، پنجابی اور اسٹیبلشمنٹ کی تثلیث کو وہ لوگ صلیب کی طرح پوجنا شروع کردینگے جو فوج کی سخت مخالفت کرکے نوازشریف کیلئے کام کررہے ہیں مگر دوسری طرف پاکستان توڑنے کیلئے یہ سازش کافی ہوگی اسلئے کہ عمران خان نیازی اور جہانگیر ترین کوسائیڈ لگانے پر لسانی طاقتوں کو تقویت ملے گی۔ جب الیکشن کی سیاست کرنے والوں کی اکثریت مفادپرست ہے اور فوج کے کندھے پر چڑھ کر سب حکومت میں آتے ہیں تو ایک ایمرجنسی حکومت کے ذریعے سے مخلص عوام کو ہی اعتماد میں لیا جائے۔ قرآن وسنت کی طرف توجہ کی جائے، مساجد سے نیک لوگوں کو اسلام کی درست تعلیم سمجھائی جائے ، علماء ومفتیان کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے۔ سماجی کارکنوں کی زبردست سرپرستی کی جائے اور ملک کی تقدیر بدلی جائے۔
کسی کا کوئی ذاتی ایجنڈہ کامیاب نہیں ہوسکتا ہے۔ سول وملٹری اور عدالتی بیوروکریسی کے علاوہ صحافت اور سیاست کے میدان سے اچھے لوگوں کو پاکستان میں نظام کی تبدیلی پر لگانے سے ہی انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔ کورونا وائرس ہمیں ایک قوم اور جماعت بن کر رہنے کیلئے ہی رحمت بن کر آیا ہے۔ وحی کا سلسلہ بند ہوچکا ہے، سب میں خوبیاں اور کمزوریاں ہیں اورسب کو ایک پلیٹ فارم سے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ عمران خان اپنی پارٹی کو خوش رکھنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا ہے تو نالائق قوم کو کس طرح متحد کرسکتا ہے؟۔

علماء ومفتیان کابدترین تجاہل عارفانہ

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

مفتی منیب الرحمن کا جہالت پر مبنی بیان اور مفتی تقی عثمانی کی بڑی ہٹ دھرمی!

مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن چیئرمین ہلال کمیٹی نے صحافی عامر ضیاء کو”ہم نیوز” پرانٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ عین جنگ کی حالت میں بھی نمازباجماعت پڑھنے کا حکم ہے۔ اگر پاک فوج مفتی صاحب کو اپنے پاس رکھے اور کسی کاروائی میں میدانِ جنگ کے اندر آزمالے اور جب دونوں طرف لاشیں گررہی ہوں اور مفتی صاحب انفرادی نماز پڑھ کر دکھائے۔ عوام بہت غلط سمجھ رہی ہے کہ صحابہ کرام نے عین لڑائی کے وقت بھی باجماعت نماز میں رکوع وسجدہ نہیں چھوڑا۔ پاک فوج کے جوان سمجھتے ہونگے کہ ان کا ایمان مضبوط تھا، ہم ایسا نہیں کرسکتے ہیںلیکن عین لڑائی میں نماز باجماعت کی بات انتہائی لغو اور غلط ہے۔ جنگ خندق میں لڑائی تو شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ خندقیں کھودنے میں بھی کئی نمازیں قضاء ہوگئیں۔ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے خاتون پولیس کو معطل کرنے کا مطالبہ کیا اور لوگوں کے مجمع کو نہیں دیکھا۔ جب مفتی تقی عثمانی نے حکومت کے حکم پر عمل کا کہا اور گھر میں نماز ظہرباجماعت پڑھنے کا فتویٰ دیا توپھر مساجد کے ائمہ کو اپنی جھوٹی حمایت کے نام پر حکومت سے لڑانا بہت غلط ہے۔

 

مولانا فضل الرحمن نے اپنا مؤقف بہتر پیش کیااور اس پیغام کو سمجھنا ضروری ہے!

مولانا فضل الرحمن نے بہت اچھا کیا کہ ہوشیاری سے مؤقف واضح کیا۔ مذہب کیخلاف حکومت کی سازش کامرثیہ پڑھنے کے بجائے کورونا وائرس کو انسانی مسئلہ قرار دیا۔ یہ نہیں فرمایا کہ خاتون پولیس اہلکارنے کچھ غلط کیا بلکہ حکومت کے فیصلے پر نہ صرف بھرپورتعاون کو واضح کیا بلکہ یہاں تک کہا کہ جس طرح مساجد کے ائمہ تعاون کررہے ہیں، اسی طرح سے بازاروں و دیگر مقامات پر بھی لوگوں کو ہماری اقتداء کرنی چاہیے۔ جب ہم فرض باجماعت نمازوں میں عوام کو بھیڑ بنانے سے منع کررہے ہیں تو عوام کو بھی تمام معاملات میں عمل درآمد کرنا چاہیے۔
مولانا فضل الرحمن کو پتہ ہے کہ مساجد میں ان کی ایسی اوقات نہیں کہ وہ فتویٰ جاری کردیں اور مساجد کے ائمہ اور نمازی اس پر عمل کرنا شروع کردیں اسلئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ جب دیگر مقامات سے آپ عوام کی بھیڑ نہیں روک سکتے تو مساجد کے ائمہ پر بھی مقدمات قائم کرنا درست نہیں ہے۔ ہم نہیں کہتے کہ دوسری جگہوں پر بھیڑ ہے تو مساجد میں بھی اجازت ہو بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ جب ہم حکومت کی بات مان رہے ہیں تو عوام کو مان لینی چاہیے۔ البتہ جب ہم تعاون کررہے ہیں تو مساجد کے ائمہ پر مقدمات درج کرنے سے زیادتی کا تأثرہی ابھرے گا۔ خصوصاً سندھ میں ایسا بہت ہوا ۔ ہم اس کو فرقہ وارانہ رنگ نہیں دیتے بلکہ اس میں تمام مذاہب کیساتھ انسانی بنیادوں پر تعاون کررہے ہیں۔ہم اہل تشیع کے امام بارگاہوں اور عیسائی کے گرجوں،ہندوؤں کے مندروں میں اسپرے کرنے گئے۔ البتہ ہماری مساجد دیگر مذاہب کی عبادتگاہوں کی طرح نہیں بلکہ اس میں پنج وقتہ نمازیں ہوتی ہیں۔
مولانا فضل الرحمن مساجد کے ائمہ کا مزاج سمجھتے ہیں اسلئے مفتی تقی عثمانی کے فتوے کا حوالہ نہیں دیامگر حکومت جب تک زبردستی سے کام نہیں لے تو وہ کنٹرول نہیں کرسکتی ہے

 

مولانا فضل الرحمن کو اپنا مؤقف مزید بہتر انداز میں پیش کرنے کی ضرورت ہے

جس طرح حکومت دکان پر پابندی لگانے کے بعد بھیڑ لگانے پر دکاندار کو پکڑنے میں ہی آسانی محسوس کرتی ہے،اسی طرح مساجد میں بھیڑ لگنے پر ائمہ کیخلاف مقدمات بنانے سے ہی معاملات کنٹرول کرسکتی ہے۔ مساجد بھی عبادتگاہوں کے علاوہ دکانیں بھی بن چکی ہیں۔
مولانا فضل الرحمن علماء ومفتیان کے ایک نمائندہ اجلاس میں مجھے بھی شرکت کا موقع دیں تو قرآن وسنت کے بہت سے مسائل میڈیا پر آجائیںگے اور اللہ تعالیٰ عذاب ٹال دے گا۔ مفتی منیب الرحمن نے انتہائی جہالت کا مظاہرہ کیا جس پر دیگر علماء ومفتیان کو گرفت کرنی تھی مگر وہ خود بھی تو اسی طرح سے بے حال ہیں۔جاہلوں کا ایک ہجوم ہے جس نے علماء ومفتیان کا لباس اوڑھ رکھا ہے۔ مساجد کے ائمہ اور مدارس کے مفتیان کا حال حضرت مولانا یوسف لدھیانوی شہید کی کتاب ” عصر حاضر حدیث نبویۖ کے آئینہ میں” میں دیکھ سکتے ہیں جبکہ دوسرے طبقات علماء وحکام اور عوام کے بارے میں بھی انتہائی زبوں حالی بیان کی گئی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورۂ النساء کی آیت102میں حالتِ جنگ میں نماز باجماعت کے اہتمام کا اس طرح سے حکم بالکل بھی نہیں دیا جو مفتی منیب الرحمن نے اپنی جہالت کا مظاہرہ کیاہے بلکہ سفر میں جب خوف کا عالم اور پھر نبیۖ بنفس نفیس موجود ہوں تو خوف کی اس حالت میں نماز باجماعت کا اس طرح سے حکم دیا ہے کہ آدھے نماز پڑھیں اور آدھے اسلحہ لیکر پیچھے سے کھڑ ے ہوںاور سجدوں کے بعد نمازی پیچھے کھڑے ہوجائیں اور محافظ گروہ نبیۖ کیساتھ نماز پڑھے۔ اسلئے کہ کہیںتاک میں بیٹھے کفارحملہ نہ کردیں اور صحابہ رسولۖ کے پیچھے نماز پڑھنے اور حفاظت کا فریضہ انجام دینے میں کسی ایک بات سے بھی محروم نہ ہوجائیں۔ قرآن انسانی فطرت کا ترجمان ہے ۔علماء ومفتیان کو حقائق کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔

 

اللہ تعالیٰ نے سفرکی نماز اور نمازِ خوف کی زبردست وضاحت فرمائی ہے مگر…….

قرآن میں قتال فی سبیل اللہ کے بعد ہجرت فی سبیل اللہ کا ذکر ہے اور پھر زمین میں عام سفر کی حالت کے احکام ہیں۔ یہاں تفصیل کی زیادہ گنجائش نہیں ہے اسلئے مختصر لکھ دیتا ہوں۔
فرمایا:واذا ضربتم فی الارض فلیس علیکم جناح ان تقصروا من الصلوٰة، ان خفتم ان یفتنکم الذین کفروا،ان الکٰفرین کانوا لکم عدوا مبینًاOواذا کنت فیھم فاقمت لھم الصلوٰة فلتقم طائفة منھم معک ولیأخذوا اسلحتھم فاذا سجدوا فلیکونوا من ورائکم،ولتأت طائفة اُخرٰی لم یصلوا فیصلوا معک ولیأخذواحذرھم واسلحتھم ودّ الذین کفروالوتغفلون عن اسلحتکم وامتعتکم فیمیلون میلة واحدة ولاجناح علیکم ان کان بکم اذًی من مطرٍاو کنتم مرضٰی ان تضعوا اسلحتکم وخذوا حذرکم ان اللہ اعدّ للکٰفرین عذابًا مھینًاOفاذا قضیتم الصلوٰة فاذکروا اللہ قےٰمًا وقعودًا و علی جنوبکم فاذااطمأنتم فاقیموا الصلوٰة ،انّ الصلوٰة کانت علی المؤمنین کتٰبًا موقوتًاO ”جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے اوپر کوئی حرج نہیں کہ نماز کو مختصر کرو۔ (یہ سفر کی نمازکاحکم ہے) اگر تمہیں خوف ہو کہ کفار تمہیں آزمائش میں ڈالیںگے، بیشک کفار تمہارے کھلے دشمن ہیں اورجب آپ ان میں موجود ہوں ،تو آپ ان کو نماز پڑھائیں تو ان میں ایک گروہ آپ کے ساتھ ہو اورضرور اپنا ا سلحہ بھی پکڑ کر رکھیں۔ جب سجدہ کرلیں تو آپ کے پیچھے چلے جائیں اور دوسرا گروہ آجائے جس نے نماز نہیں پڑھی تو آپ کیساتھ نماز پڑھے اور بیداری میںچوکنا بنے اور اپنااسلحہ اٹھائے پکڑے رکھے۔ کافروں کی چاہت ہے کہ تمہیں اپنے اسلحے اور سامان سے غافل دیکھ کرایک دفعہ میں آپ لوگوں پر ٹوٹ پڑجائیں۔

 

علماء ومفتیان کو قرآن کی آیت کا متن دیکھ کر سفر اور خوف کی نماز کو سمجھاپڑے گا!

اور تم پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ اگر تمہیں کوئی اذیت ہو بارش سے یا تم مریض ہو کہ تم اپنااسلحہ رکھ لو۔مگر اپنی بیداری برقرار رکھو۔ بیشک اللہ نے کافروں کیلئے رسوا کن عذاب مقرر کررکھا ہے اور جب تم نماز پڑھ چکو تو اللہ کا ذکرکرو کھڑے ہوکراور بیٹھ کر اور اپنی کروٹیں لیتے وقت۔ پھر جب تم اطمینان کی حالت میں آجاؤ تو نماز قائم کرو، بیشک نماز وقت کی پابندی کیساتھ مؤمنوں پر فرض کی گئی ہے”۔ سورہ النساء آیت102،103۔ مفتی منیب الرحمن اچھی طرح دیکھ لے۔
سب سے پہلی بات آیت میں سفر کی نماز کا حکم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” جب زمین پر چل (سفرکر)رہے ہو توتمہارے لئے کوئی حرج نہیں کہ نماز کو مختصر کرو”۔ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ نبیۖ نے سفر میں قصر بھی کیا ہے اور پوری نماز بھی پڑھی ہے۔ قرآن میں بھی دونوں صورتوں کی اجازت ہے۔ جب امام مسافر اور مقتدی مقیم ہوں تو امام مقتدیوں کو پوری نماز پڑھاسکتا ہے لیکن امام مسلکی بنیاد پر اس کو ناجائز سمجھ کر گریز کررہے ہیں۔ حضرت عائشہ کی روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کبھی نبیۖ نے سفر میں اکیلی نماز بھی پڑھی ہے۔
آیت میں پھر خوف کی حالت کا ذکر ہے۔ فرمایا:” اگر تمہیں خوف ہو کہ کافر آزمائش میں ڈال دیںگے ۔ بیشک کافر تمہارے کھلے دشمن ہیں”۔ خطرناک خوف کی حالت میںقصر نماز پڑھنے کا بھی حکم نہیں ہے کیونکہ صحابہ کرام جاہل نہیں عالم باعمل تھے۔ اللہ نے خوف کی صورت میں پہلے ہی حکم واضح کیا تھا کہ ” نمازوں کی حفاظت کرو اور بیچ کی نماز کی اور اللہ کیلئے عاجزی سے کھڑے ہوجاؤ۔ اگر تمہیں خوف ہو تو چلتے چلتے یا سورای پر اللہ کو یاد کرو۔ جب امن میں آؤ توپھر اللہ کو یاد کرو(نماز پڑھو) جس طرح تمہیں سکھایا گیا جو تم پہلے نہیں جانتے تھے”۔البقرہ کی آیات238،239میں حالتِ جنگ نہیں خوف کی حالت میں یہ واضح حکم تھا۔

 

پاک فوج کے سپاہی اورمجاہد ہی حالت جنگ کی صورتحال میں نماز کو سمجھ سکتے ہیں

فرمایا:”اور جب آپ( ۖ) ان میں موجود ہوں تو ان کو نماز پڑھائیں تو ایک گروہ ان میں سے آپ کے ساتھ کھڑا رہے اورضروراپنا اسلحہ بھی اُٹھارکھیں۔ جب یہ سجدہ کرلیں تو آپ کے پیچھے ہوجائیں اور وہ گروہ آجائے جس نے نماز نہیں پڑھی ہے تووہ آپ کے ساتھ نماز پڑھیںاور بیدارو چوکنا رہیں اور اسلحہ پکڑکر رکھیں اور کافرچاہتے ہیں کہ اگر غافل دیکھ لیں تمہارے اسلحہ سے تمہیںاور تمہارے سامان سے تو ایک دم تم پر جھپٹ پڑیں”۔
یہاں اس بات کی بخوبی وضاحت ہے کہ قرآن میں زور اسلحہ پر ہے نماز پر نہیں ہے۔ اگر نبیۖ باجماعت نماز پڑھانا چاہیں تو ایک گروہ کو اسلحہ سمیت چوکنا ہوکر نماز پڑھنے کا حکم ہے اور جب وہ ایک رکعت (سجدوںتک) پڑھ لیں تو پیچھے چلے جائیں اور دوسرا گروہ جس نے نماز نہیں پڑھی ہے وہ لوگ آپۖ کیساتھ نماز پڑھیں لیکن نماز کی حالت میں بھی اسلحہ ساتھ ہی رکھیں اور بالکل چوکنابیدار رہیں۔ اسلئے کہ کافر تاک میں رہتے ہیں اور غفلت پاکر کسی وقت بھی حملہ آور ہوسکتے ہیں۔ آیت میں اسلحہ بہرحال رکھنے کی ترغیب ہی ہے۔چونکہ نماز پڑھنے کیلئے خوف کی حالت میں پیادہ اور سوار ہونے کی گنجائش واضح تھی اور جب سفر میں قصر نماز پڑھنے کی اجازت مل گئی اور پھر خوف کی حالت کا بیان ہوا۔ جس میں پیادہ وسوار ہوکر نماز پڑھنے کی واضح گنجائش ہے اور اس میں باجماعت نماز پڑھنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔
نبیۖ اگر ان میں موجود ہوں اور نماز پڑھانا چاہیں تو احتیاط کا تقاضہ پورا کرنے کیلئے یہ حکم دیا گیا کہ سب نماز میں شریک نہ ہوں اور جو نماز میں شریک ہوں وہ بھی چوکنا ہوں اسلحہ ساتھ رکھیں۔پاک فوج کے سپاہی اور مجاہدین فی سبیل اللہ اس آیت کی اہمیت اور مقاصد سمجھ سکتے ہیں،خیال ہے کہ فقہاء وعلماء اور ملاحضرات ان آیات کو سمجھنا بھی نہیں چاہتے ۔

 

علماء ومفتیان اور شاعروں کو حالت جنگ میں نماز کی کیفیت سمجھ نہیں آسکتی!

فرمایا” اور تم پر کوئی گناہ نہیں کہ اگر تمہیں کوئی تکلیف درپیش ہو ،بارش سے یا بیماری کی وجہ سے کہ آپ لوگ اپنا اسلحہ رکھ لیں اور بیدار وچوکنا رہیں۔ بیشک اللہ نے کافروں کیلئے رسواکن عذاب تیار کرکے رکھا ہے ”۔ چونکہ آیت میں نماز کی حالت میں بھی اسلحہ پکڑکر رکھنے کا حکم ہے تو تکلیف کی صورت میں جب بارش سے یا بیماری کی وجہ سے ہو تو اسلحہ رکھنے کی اجازت دی ۔ مگر پھر بھی بیداری پر زور دیا گیاہے۔ قرآنی آیات کا متن سمجھنے کی سخت ضرورت ہے۔ اسلام جاہلانہ جذبات کا دین نہیں ہے۔ علماء وفقہاء اپنی روٹی کیلئے بھی اللہ پر توکل نہیں کرسکتے ہیں۔ جب کبھی دشمن کے ساتھ عین لڑائی میں نماز کا وقت ہو تو سجدہ کرنا جہالت ہے۔ اسلام کو جنگ کی حالت میں جتنا مجاہد اور فوجی سمجھ سکتا ہے اتنا کوئی ملا اور شاعر نہیں سمجھ سکتا۔ یہ بکواس ہے کہ
آ گیا عین لڑائی میں اگر وقتِ نماز قبلہ روہوکے زمیں بوس ہوئی قوم حجاز
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود ویاز نہ کوئی بندہ رہا اورنہ کوئی بندہ نواز
لڑائی کے وقت صف میں کھڑا ہوکر نماز پڑھی جائے تو واقعی بندہ اور بندہ نواز نہ رہے گا۔ یہ المیہ ہے کہ مدارس کے فارغ التحصیل قابل ہونے کے باجود نالائق صاحبزادگان کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ جدید تعلیم یافتہ سید ابوالاعلیٰ مودودی عالم اورپروفیسر منیب الرحمن مفتی بن گئے تو قرآن وسنت کی تعلیمات کی رہی سہی ساکھ بھی انہوں نے بگاڑ کر رکھ دی۔ جن علماء وفقہاء کے غلط افسانوں کو عوام نہیں سمجھ رہی تھی ،ان لوگوں کی بدولت جدید تعلیم یافتہ طبقہ بھی گمراہ بن گیا۔ اسی طرح تبلیغی جماعت نے اپنی سرسری محنت سے ایمان واسلام کا غلط مفہوم ذہن میں بٹھالیا۔ جب تھوڑی سی مشکل آگئی تو اللہ سے سب کچھ ہونے کے ایمان کا پتہ چل گیا۔ قرآن وایمان کی درست تشریح نہ ہوتو ہمارا لکھا پڑھا ،مولوی اور شاعر طبقہ گمراہ رہے گا۔

 

قرآنی آیات کا درست مفہوم ”ہم نیوز” کی بھی خاص طور پر ذمہ داری بن گئی!

فرمایا:”اورجب تم نماز پڑھ چکو تواللہ کا ذکرکرو کھڑے ہوکراور بیٹھ کر اور اپنے پہلوؤں پر۔پھر جب تم اطمینان کی حالت میں آجاؤ، تو نماز قائم کرو۔ بیشک نماز مؤمنین کیلئے فرض کی گئی ہے وقتوں کے مطابق”۔( النساء آیت103) مفتی منیب الرحمن کا انٹرویو نشر کرنیوالے صحافی ”ہم نیوز” کے عامر ضیاء کا فرض بنتا ہے کہ قرآن کا اصل مؤقف لوگوں کو پہنچادے۔
آیت کا یہ آخری حصہ بھی بالکل واضح کرتا ہے کہ خوف یابارش کی صورت میں اسلحہ رکھنے کی گنجائش تکلیف کی وجہ سے ہے مگر پھر بھی گھمبیر صورتحال میں بہرحال چوکنا رہنے کا حکم ہے۔
ایسی صورت میں نمازِ خوف پیادہ اور سوارہوکر بھی پڑھی جاسکتی ہے اور اشارے کنایہ سے بھی۔ اسلئے اللہ نے فرمایا کہ جب تم نماز پڑھ چکو تو اللہ کا ذکر کرو، کھڑے کھڑے، بیٹھے بیٹھے اور کروٹیں بدلتے ہوئے۔ کیونکہ قیام، رکوع اور سجود کا یہ متبادل عمل ہے۔ پھر جب اطمینان مل جائے تو نماز قائم کرلو۔ اسلئے کہ اللہ نے مؤمنوں پر اوقات کے مطابق فرض کی ہوئی ہے۔
سیدابوالاعلی مودودی بہت ذہین تھے اسلئے آیت کے دوسرے الفاظ پر مختلف مفسرین سے مختلف مواد نکل کیا مگر اس آخری جملے پر بالکل بھی کچھ نہیں لکھا ہے۔ حالانکہ اس بات کی سخت ضرورت تھی کہ جب نماز پڑھ لی تو پھر قیام، قعود اور جنوب پر اللہ کا ذکر کرنے کا مقصد کیا ہے؟ اور اطمینان کے بعد پھر کس طرح نماز قائم کرنے کا حکم دیا جارہاہے۔ قرآن میں کسی تضاد کا تو بالکل سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے لیکن جب مسجد میں پنج وقتہ نماز عبادت کے علاوہ پیٹ پالنے کا بھی ایک واحدذریعہ بن جائے تو علماء ومفتیان اور تبلیغی جماعت ودعوت اسلامی کے کارکن بہت حیران ہونگے کہ نبیۖ و صحابہ کرام سے غزوہ خندق میں نمازیں کیسے قضاء ہوگئیں؟۔ اُمید ہے کہ مفتی منیب الرحمن جہالت سے اعلانیہ توبہ کرنے میں عار نہ سمجھیںگے۔

 

اگر اسلام کا درست مفہوم سمجھ میں آتا تو مذہبی طبقہ ہی کورونا کیلئے بڑا کام کرتا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ولاتقف مالیس لک بہ علم ان السمع والبصروالفواد کل اُلٰئک کان عنہ مسئولًاO”اور ایسی بات پر اپنا مؤقف پیش نہ کرو، جس کا آپ کو علم نہ ہو۔ بیشک کان ، آنکھ اور دل کے بارے میں پوچھا جائے گا”۔ بنی اسرائیل آیت:36
پوری دنیا میں کورونا سے لوگ مررہے ہیں لیکن مذہبی طبقات سمیت جاہل طبقات بکواس کا طبل بجارہے تھے کہ” سازش ہے اور کچھ نہیں”۔ میرے ساتھ ایک بھتیجاتھا توخیبرپختونخواہ کی پولیس کے اہلکار کو سمجھایا کہ لوگوں سے ہاتھ مت ملاؤ۔ اس سے بیماری پھیل سکتی ہے لیکن وہ کہہ رہاتھا کہ یہ کافروں کیلئے ہے جو گندی چیزیں کھا رہے ہیں۔ پھر دوسری مرتبہ دوسرا بھتیجا ساتھ میں تھا اور خیبر پختونخواہ پاک فوج کا سپاہی کہہ رہاتھا کہ ماسک کیوں نہیں پہنے ہیں؟۔ ہم پر احتیاط کرنے کیلئے زور ڈال رہاتھا۔ جب پاک فوج کی طرف سے لاک ڈاؤن پر زور دیا گیا ہے اور وزیراعظم ڈھیلے پن کا مظاہرہ کررہاہے تو پولیس اور فوجی اہلکاروں پر بھی اسکے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اگر تمہیں خوف ہو تو چلتے چلتے اور سواری پربیٹھ کر بھی نماز پڑھ سکتے ہو لیکن جاہل مولوی طبقہ نماز کو خوف کا تریاق بتارہاہو تو یہ علم کا فقدان اور بہت بڑی جاہلیت ہے۔ اگر مساجد کے ائمہ اور مذہبی طبقات میں اسلام وایمان کا درست تصور ہوتا تو کورونا وائرس سے آگاہی کیلئے سب سے زیادہ کام یہی طبقہ آتا لیکن یہ اپنے ساتھ جاہل تعلیم یافتہ عوام کو بھی لے ڈوبے ہیں۔ مفتی منیب الرحمن کہتا ہے کہ یہاں کورونا کی وجہ سے صرف خدشہ ہے مگر حقیقت میں اس کا کوئی وجود نہیںہے۔ جبکہ جنگ کی حالت میں نماز پر حملہ کرنے کا حقیقی اور سوفیصد خطرہ ہوتا ہے اور پھر بھی نماز معاف نہیں ہے۔ میڈیا پر حقائق کی تبلیغ ہوجائے تو بہت کم دنوں میں جلدہی اسلام کا حقیقی چہرہ علماء ومفتیان کو سمجھ بھی آجائے گا۔