پوسٹ تلاش کریں

سیاسی نظام کی اصلاح

سب سے زیادہ قابلِ داد وہ سیاسی ورکر ہوتاہے جو غریب کی ہر مشکل میں کام آتاہے، ڈکٹیٹر شپ قوم پر مسلط ہوتی ہے تو یہی ورکر اور رہنما جیلوں کی صعوبت برداشت کرتے ہیں۔قربانیاں دیتے ہیں، عوام کے درمیان رہتے ہیں، جینے مرنے میں ساتھ ہوتے ہیں، باغی کہلاتے ہیں، جیالا اور جنونی کہلانے پر فخر کرتے ہیں ، مخالفین کی طرف سے آسائشوں کی پیشکشوں کوٹھکراتے ہیں اور اپنا سب کچھ داؤ پر لگاکر نظرئیے ، تبدیلی اور عوامی خدمت کو اپنا مشن بناکر رکھتے ہیں، دوسری طرف سیاسی قیادت کے اپنے مسائل ہوتے ہیں، ان کا علاج ملک سے باہر ہوتاہے، ڈاکٹروں کی مبہم سی ہدایات پر دنیا بھر میں گھوم سکتے ہیں لیکن پاکستان نہیں آسکتے۔ جھوٹی بیماریاں جھوٹے علاج کرنے والے قائدین کے چاہنے والے غریبوں کو سچ کی بیماری اور سچ کا علاج بھی نصیب نہیں ہوتاہے۔
ایں خیال است و محال است کہ قومی اسمبلی میں قانون سازی کے ذریعے سے کوئی مثبت اور بنیادی تبدیلی آئے گی۔ قانون بنایا گیا کہ قومی اسمبلی کے الیکشن میں 15لاکھ سے زیادہ رقم خرچ نہ ہوگی لیکن کیا اس پر عمل درآمد ہوا؟۔ ایاز صادق اسپیکرقومی اسمبلی اسپیکر اور تحریک انصاف کے علیم خان نے15لاکھ کے بجائے 15,15کروڑ کا خرچہ نہیں کیا بلکہ نجم سیٹھی کی بیگم جگنو محسن کے جیو کا پروگرام تھا جس میں50,50کروڑ سے زیادہ خرچہ کرنے کی بات عوام کے سامنے لائی گئی۔ اور جہانگیر ترین کو اس حلقے والے جانتے بھی نہ تھے جہاں سے الیکشن لڑا ، ایک ارب کا خرچہ میڈیاپر بتایا گیا۔ جسکے پاس الیکشن لڑنے کیلئے 15لاکھ روپے ہوتے ہیں وہ غریب اور پسے ہوئے طبقات کا دکھ درد نہیں سمجھ سکتاہے اور جہاں طلال چوہدری دانیال عزیز، جہانگیرترین اور دیگر لوٹے شوٹے قیادت کی آنکھ کا تارا ہوں، ان موتیا کے مریضوں کو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے کبھی نظر نہیں آسکتے ہیں۔ ایک ایسی سیاسی قیادت کی ضرورت ہے جو غریب ، قوم اور جمہوریت کی آواز بن کر اُبھرے۔ بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری کے انتظار میں عمران خان نے اپنا لائحۂ عمل بعد میں دینے کا اعلان کیا،حالانکہ جب پنڈی میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے جلسہ کیا تھا اس کا بھی عمران خان نے انتظار کیا تھا، ڈاکٹر طاہرالقادری کے بعدہی رائیونڈ جانے کا اعلان کیا لیکن فسٹ کزن نے سرخ بتی دکھادی، جب عمران خان نے 2نومبر کا اعلان کیا تھا اور فضا گرم تھی تو پھر بلاول بھٹو نے بھی 7نومبر کا اعلا ن کردیا تھا۔ اللہ خیر کرے کہ چوہدری اعتزاز احسن کو بلاول بھٹو حکم نہ دے کہ پانامہ لیکس میں نوازشریف کے وکیل بن جاؤ، زرداری کو بھی قابل وکیلوں نے بچایا تھا۔
بلاول بھٹو زرداری کو اردو صحیح نہیں آتی ورنہ اور کچھ نہیں تو نواب شاہ اور لاڑکانہ کے الیکشن کو جیتنے کیلئے شہبازشریف کو پرجوش تقریروں کا حوالہ دیتا کہ ’’ تم نے کہا تھا کہ صدر زرداری کو لٹکا دونگا، اب آؤ، تم زیادہ پکے مسلمان ہو، وعدہ کو قرآن و حدیث کی رو سے پورا کرنا ضروری سمجھتے ہو، پانامہ لیکس سے آلودہ نہیں دامن صاف ہے تو اس جوش کیساتھ خالی تقریر ہی کرکے دکھادو، کہ زرداری کو میں گھسیٹوں گا، پیٹ چاک کرونگا، چوکوں پر لٹکاونگا۔ میں بھی کہتا ہوں کہ کراچی سے جو پائپ لائن قطری گیس کی جارہی ہے، ایران کی سستی گیس کو چھوڑدیا ہے، جس سے عوام کو ریلیف مل جاتی تو اسی پائپ لائن کے اندر دونوں بھائیوں کو ڈال دونگا، بھلے نون لیگی مجھے شائستگی سکھادیں‘‘۔
عبدالحکیم بلوچ نے پیپلزپارٹی چھوڑ دی، پھر ن لیگ میں وزیرِ مملکت برائے ریلوے بن گئے اور پھر وزارت کو لات مارکر پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے۔ انکے حلقہ صالح محمد گوٹھ میں ویرانے کی طرف میمن گوٹھ جاتے ہوئے ایک پرانا کھمبا پڑا ہے، جس کو قانون کے خوف سے چور نہیں لے جاتے مگر ٹانک سے بنوں تک پورا ریلوے ٹریک نوازشریف نے اتفاق کی بھٹی میں ڈال دیا۔ بڑے چوروں نے سیاست کو تجارت بنالیاہے۔درباری ملا دوپیازے ہر دور کے بادشاہوں کو میسر آجاتے ہیں، پاکستان کی سیاست کے فیصلے لندن میں ہوں، لندن میں رہنے والے کریں تو قوم کو کبھی درست سمت نہیں لے جاسکتے۔ جبتک جنرل راحیل شریف سے اہل اقتدار خوفزدہ تھے تو بھارت نے ہمارے معصوم لوگوں کو سرحد پر مارنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ ہندوستان سے دوستی ہونی چاہیے لیکن اسلئے نہیں کہ سرحدوں پر بھی دوستی نبھانے کیلئے ٹینشن کا کام لیں۔
پنجاب حکومت نے عوام کو گدھوں کا گوشت کھانے سے بچانے والی عائشہ ممتاز اور سندھ نے ایماندار پولیس آفسر اے ڈی خواجہ کو ہٹادیا۔ پانی سے مالامال اور سستی بجلی پیدا کرکے عوام کو سہولت فراہم کرنے کے بجائے سوئس اکاونٹ اور پانامہ لیکس سے بھی سیاستدانوں کے پیٹ نہیں بھرے اور مخلص ورکروں اور رہنماؤں کا فرض بنتاہے کہ خودہی اپنی اپنی قیادتوں کے خلاف بھی آواز بلند کر دیں۔ سیاست ملازمت کی طرح بن جائے تو پاکستان میں جمہوری کلچر کبھی پروان نہیں چڑھے گا۔

ریاستی نظام کی اصلاح

ہماری سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں بافی قوم کی طرح اچھے برے لوگ ہیں مگرکوئی اپنے اہل و نااہل بیٹے یا بیٹی کو آرمی چیف نہیں بناسکتا اور جس سیاسی ، جمہوری اور آئینی نظام کے ماتحت ہماری سول وملٹری بیوروکریسی ہے وہاں موروثی نظام کے تحت بیٹا، بیٹی، پوتا اور نواسہ عوام پر مسلط کردیا جاتا ہے۔ میڈیا سکرین پر راج کرنیوالے صحافی نظام کی تبدیلی کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کے مقابلہ میں موروثی جمہوریت کو سپورٹ کرکے جمہوریت کی خدمت سمجھتے ہیں اور جمہوریت کو تین طلاق دینے کے درپے آصف زرداری اور بلاول بھٹو سے توقع رکھتے تھے کہ 27 دسمبر کو بڑا اعلان ہوگا۔ باپ بیٹے نے اچھا کیا کہ ’’ جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی تمنائیں رکھ کر جینے والوں کی خواہش پر ٹھنڈا پانی ڈال دیا کہ اسی اسمبلی کا حصہ بنیں گے جس پر کرپشن کا شاہسوار ہی حکومت کرنیکی اہلیت رکھتاہے‘‘۔ یہ کھیل بالکل ختم ہونا چاہیے کہ جمہوری حکومت پردباؤ ڈال کربیوروکریسی کے کرتے دھرتے اپنا الو سیدھا کرکے بیٹھ جائیں۔جنرل راحیل کے مداح سراؤں نے نیا موڑ لیا کہ’’ عمران خان بڑی چیز ہے،راحیل کی بات نہیں مانی ورنہ معاملہ بدلتا‘‘۔ عمران کہے گا کہ یہ کیا بکواس ہے؟۔
ڈاکٹر طاہرالقادری سے انقلاب کی کیاتوقع ہوگی کہ رائیونڈ مارچ کا اعلان کیا ، پھر اسکی طرف جانیوالی راہ پر بھی احتجاج جمہوریت و اسلام کیخلاف قرار دیا۔ عمران خان نے بھی دس لاکھ لوگوں کو سڑکوں پر لانے کا اعلان کیا لیکن اس خوف سے کہ اس کو بنی گالہ سے نہ نکالا جائے ، اپنے کارکنوں اور رہنماؤں کو اپنی حفاظتی حصار کیلئے پاس بلالیا اور کارکنوں کو مار کھلانے کے بعد خود کو بچانے کیلئے مبارک ہو، کا اعلان کردیا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ عمران خان نے یوٹرن لے کر بڑی غلطی کی اور عمران کہتاہے کہ تم اپنے یوٹرن کو کیا بھول گئے؟۔ یہ طے ہے کہ کوئی مرتاہے تو آس پاس والے کفن دفن اور جنازہ پڑھنے کیلئے پہنچتے ہیں، شادی کے موقع پر بھنگڑے ڈالنے لوگ آتے ہیں۔ موجودہ سیاسی لیڈر شپ میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہے، ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کے علاوہ عمران خان نے بھی نہ صرف پرویزمشرف کی حمایت کا کردار ادا کیا تھا بلکہ دھرنے میں لمبے عرصہ سے امپائر کی انگلی اٹھنے کیلئے التحیات للہ والصلوٰ ت والطیباتپڑھنے کا ورد سلام پھیرنے تک جاری رکھا، طالبان کیلئے ایاک نعبد و ایاک نستعین اور اب امام ضامن بھی باندھا۔
مولانا فضل الرحمن کی بات ٹھیک ہوگی کہ مدارس سے ایک دہشت گرد نہ پکڑا گیامگر جے یوآئی (ف) کے رہنما مولانا سید محمد بنوریؒ کو جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں امریکہ نے ڈرون حملے سے تو شہید نہیں کیا؟۔خود کشی کا الزام لگایا تو خود کشی کرنیوالے کو مسجد کے احاطہ میں دفن کیا؟۔ جنرل ضیاء اور جنید جمشید کی باقیات کو عزت ملی، جنرل مشرف نے خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھنے کو اعزاز قرار دیا، اور موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو خانہ کعبہ میں داخل ہونے کا اعزاز مل گیا۔ خانہ کعبہ میں رہائش پذیر ہونے کا اعزاز لات،منات سمیت 360 بتوں کو بھی ملا تھا، ظالم جابر بادشاہوں کو تاریخ کے ہردور میں خانہ کعبہ کے غلاف میں منہ چھپانے کا اعزاز ملتا رہا مگر حقیقی اعزاز توکردار کا ہوتاہے۔ صحافی سلیم بخاری نے کہا :جمعیت علماء ہند کے ایک عالم نے بتایا کہ ’’باجوہ کا خاندان سنی ہے‘‘۔ مجھ سے بڑے بھائی پیرنثار احمد شاہ سے کہا گیا تھا کہ اگر انٹرویو میں کہہ دو کہ احمدی ہوں تو فوج میں سلیکٹ ہوگے، بھائی نے یہ تو نہ کیا البتہ سیدعطاء شاہ بخاریؒ کو اپنی محبوب شخصیت قرار دیا، ہوسکتا ہے کہ باجوہ نے بھی سلیکشن کیلئے کہہ دیا ہو کہ احمدی ہوں اور پھر ترقی کیلئے برأت کا اعلان بھی کیا ہو، مجھے زیادہ معلومات ہیں اور نہ دلچسپی۔ کسی نے بتایا کہ جنرل رحیم اچھا انسان اور قادیانی تھا جو جنرل ضیاء الحق نہیں اعجازالحق کا سسر تھا۔ قادیانیوں نے بھی مذہب کو پیشہ بنایاہے اور دوسروں سے زیادہ ان پر مذہبی خبط سوار ہے۔ ہماری فوج، عدلیہ،انتظامیہ اور سیاسی قیادت بنانا انگریزہی کا کارنامہ تھالیکن مدارس اور مذہبی لوگوں نے اسلام کا ایسا بیڑہ غرق کردیاہے کہ اگر انگریز کے ہاتھ میں یہ مدارس ہوتے تو شاید دنیا کی سطح پر ابھی اسلامی خلافت کا نظام بھی عمل میں آجاتا۔
ہماری ریاست نے امریکہ کی سرپرستی میں اہل مدارس، فرقہ پرستی ، جہادی سرگرمی اور شدت پسندی کو رواج دیکر اسلام کا حلیہ مزید بگاڑا، مسلمان کو بدنام ہوا،ریاست کو لے پالک مذہبی اور سیاسی رہنماؤں سے نجات حاصل کرے۔ محنت کش عوام جانوروں کی زندگی گزار رہی ہے، غریب تنگ آمد بجنگ آمد کی حد تک پہنچے توواقعی اینٹ سے اینٹ بج جائیگی ،زرداری والی دھمکی نہ ہوگی۔
چوہدری نثار نے جسٹس کو بدنام کرنے پر ایکشن لیایا رام کرناچاہا ؟ایکشن کی منتظر لمبی فہرست تھی،غلط پروپیگنڈے سے زیادہ وزیرداخلہ کی اپنی پریس کانفرنس قابلِ گرفت تھی ۔ حکیم اللہ محسود کی روح تڑپی ہوگی کہ ’’ہم جان اور خاندان سے گزرگئے اورتم نے کھدڑے چوہدری سے ملادیا؟‘‘۔

عدالتی نظام کی اصلاح

پاکستان اسلام کے نام پر بنا ، آئین میں قرآن وسنت کو بالادستی حاصل ہے اسلام ہی نہیں ہر ریاست کا بنیادی فریضہ عدل وانصاف کا قیام ہوتاہے۔ اسلام کا ایک پہلو یہ ہے کہ توحید کے عقیدے کے مطابق نبیﷺ کی سنت کو لائحہ عمل بناکر بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکالا جائے۔ دین میں جبر وزبردستی نہیں ۔ مشرک وکافر مسلمان پر جبروظلم کرکے اسکے ایمان میں رکاوٹ ڈالے تو اللہ نے قرآن میں زبردستی کے کلمۂ کفر کو بھی معاف کیاہے،اسلام جہالت کا جواب جہالت سے نہیں دیتا کہ وہ مسلم کو زبردستی سے کافر بنائیں تو تم بھی زبردستی کرکے ان کا مذہب بدل ڈالو۔ صلح حدیبیہ رسول اللہﷺ کی مجبوری نہ تھی بلکہ یہ معاہدہ اسلام کی روح کے مطابق تھا کہ ’’کوئی مسلمان اسلام چھوڑ کر مکہ جائے تو اس کو واپس نہ کیا جائے اور کوئی مشرک مسلمان ہوجائے اور مدینہ میں مسلمانوں کے آغوش میں آجائے تو اس کو پھر واپس لوٹا دیا جائے‘‘۔ جو دل سے مسلمان ہوں اور ان کو پابند کیا جائے کہ والدین کی آغوش میں رہو تو یہ اسلام کی خلاف ورزی نہیں بلکہ یہ تلقین ہونی چاہیے کہ اسلام نے والدین سے حسنِ سلوک کا حکم دیا ، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بچپن، جوانی ادھیڑ عمر اور ایک حد تک بڑھاپا بھی اپنے مشرک باپ آزر کے سایہ میں گزارا، بت فروش باپ سے تلخ بات کی نوبت بھی نہ آئی، باپ کے آنجہانی ہونے کے بعد اس کی مغفرت کیلئے دعا بھی کی۔
مولانا منیراحمد قادری نے پچھلابیان دیا کہ ’’رسول اللہﷺ کو گالی دینے پر حضرت ابوبکرؓ نے اپنے باپ کے منہ پر تھپڑ مارا تھا‘‘۔ ہوسکتاہے مگر عائشہ صدیقہؓ پر جو بہتان لگا تو نبیﷺ کیلئے اس سے زیادہ اذیتناک واقعہ نہیں تھا، اللہ نے فرمایا کہ ’’مؤمنوں کی یہ شان نہیں کہ جنکو اللہ نے مالامال کیا ہو، وہ قسم کھائیں کہ مستحق لوگوں سے ہم مالی تعان نہ کرینگے، اپنا احسان جاری رکھو‘‘۔ کیونکہ ابوبکرؓ نے قسم کھالی تھی کہ وہ حضرت عائشہؓ پر بہتان لگانے والوں کیساتھ احسان نہ کرینگے، جن میں اپنا قریبی رشتہ دار حضرت مسطحؓ اور معروف نعت خواں حضرت حسانؓ بھی شامل تھے۔ابن ماجہؓکی روایت ہے کہ ’’نبیﷺ نے حضرت ابوبکرؓ کے والد حضرت ابوقحافہؓ کو خضاب لگانے کا حکم دیا تھا‘‘۔
اسلام کے عادلانہ نظام کی اس سے بڑی کیا مثال ہوسکتی ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ پر بہتان لگانے اور ایک عام عورت پر بہتان لگانے کی سزا ایک ہی ہے۔ عدالت میں کس اسلام کے قانون کے تحت امیر کی ہتک عزت اربوں اور کھربوں میں ہے اور غریب کی عزت ٹکے کی نہیں؟۔ حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے دوواقعے قرآن و حدیث میں موجود ہیں جن میں عدالت عظمیٰ سے انصاف میں غلطی ہوئی اور نچلی عدالت نے انصاف کا تقاضہ پورا کیا۔ اگر انور ظہیر جمالی کو پانامہ لیکس پر انصاف کی سمجھ نہ آتی تو لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس منصور علی شاہ یا بلوچستان کے جسٹس فائز عیسیٰ کو معاملہ سپرد کردیتے۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے دو فریقوں کے درمیان فیصلہ کیا ، ایک کے جانور نے دوسرے کی فصل کو نقصان پہنچایا ۔ فصل و جانور کی قیمت ایک جتنی تھی اسلئے حضرت داؤد علیہ السلام نے فصل والوں کو نقصان میں جانور دیدئیے، حضر ت سلیمان علیہ السلام نے کہا کہ اس طرح سے ایک قوم محروم ہوجائے گی، اس کا فیصلہ میں کرتا ہوں۔ چنانچہ فصل کو اپنی جگہ تک پہنچانے کی ذمہ داری جانور والوں کے ذمہ لگادی اور جانور انکے حوالہ کئے جن کی فصل کو نقصان پہنچا تھا کہ جب تک اس کا فائدہ اٹھائیں، ایک پر محنت ڈال دی اور دوسری کے نقصان کا ازالہ کردیا۔ سپریم کورٹ کے ججوں نے سوفیصد درست کہا کہ ’’نیب کرپشن کی سہولت کار کا کردار ادا کررہا ہے‘‘ لیکن اگر عدالتی نظام جلد انصاف فراہم کرتا تو نیب کی ضرورت نہ ہوتی۔ عدالت کا کام قانون کے مطابق طاقتور اور مجرم کو تحفظ فراہم کرنا بن جائے تو اس سے ملک کا نظام نہیں چل سکتا۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے سامنے دو خواتین نے مقدمہ پیش کیا جن کا ایک بچے پر دعویٰ تھا، حضرت داؤد علیہ السلام نے اپنی صوابدید و ضمیر کیمطابق فیصلہ کیا جو غلط مگر قابلِ گرفت نہ تھا حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہا کہ اس کا فیصلہ میں کرتا ہوں۔دونوں کی بات سن کر فیصلہ کیا کہ ’’بچے کو دو ٹکڑے کرتا ہوں‘‘ ، جو مقدمہ جیت چکی تھی کہہ رہی تھی کہ بچے کو دو ٹکڑے کردو، مجھے قبول ہے اور جو خاتون مقدمہ ہار چکی تھی وہ کہہ رہی تھی کہ ’’میں دستبردار ہوں بچہ سلامت رہے، میں نے جھوٹ بولا تھا، یہ میرا بچہ نہیں، اسکا ہے جو اس کو ٹکڑے کرنیکی بات کررہی ہے‘‘۔ فیصلہ اسکے حق میں ہوا، جو دستبردار ہوئی۔ قانون کیاہے، وزیراعظم اپنے باپ اور بچوں سے انصاف کی خاطر دستبردار ہیں یا معاملہ کچھ اورہے؟۔نوازشریف نے عمران خان کا باپ نہیں مارا ، عدالت عمران خان کا وکیل ہی بھگادے، اگر عدالت کو خوف ہو تو دہشت گردوں کی طرح فوجی عدالت قائم کی جائے اور عدالت کو خوف نہ ہوتو پوری قوم کی خاطر نوازشریف سے ابتداء کرکے کسی کو بھی نہ چھوڑے۔

ملیر اور لیاری ندی شفاف پانی سے بہہ سکتے ہیں. ابرار صدیقی

K4منصوبے پر اربوں روپے خرچ کرنے کے بجائے حیدر آباد کے پاس ڈیم بنا کر سندھ کے دار الخلافہ کراچی کو نہری سسٹم سے آباد کیا جائے

سیلابوں، طوفانوں، بارشوں اور دریائے سندھ پر ڈیموں کے ذریعے اتنا پانی جمع ہوسکتاہے کہ کراچی میٹھے پانی سے بہت مالا مال ہوگا پاکستان میں اللہ کی بہت بڑی نعمت پانی کا بہاؤ ہے لیکن حکمرانوں کی نااہلی کے سبب عوام کبھی طوفانِ نوح میں غرق اور کبھی کربلا کی پیاس مرتے ہیں

کراچی (پ ر) نوشتۂ دیوار لانڈھی کراچی کے نمائندے ابرار صدیقی نے کہاہے کہ ہمارا ملک وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود مسائل کا شکار اسلئے ہے کہ حکمران جھوٹے، مفاد پرست اور بہت نااہل ہیں۔سندھ میں طوفانی بارشوں اور سیلابوں سے بچنے کیلئے بھی ڈیموں کا سلسلہ شروع کیا جاتا تو آج ہمارے ملک کا نقشہ ہی مختلف ہوتا۔K4 پر اربوں روپے خرچ ہورہے ہیں اور بجلی کے ذریعے سے کراچی کو پانی کی سپلائی ہوگی۔ اگر سمجھدار دیہاتی ملک کے حکمران ہوتے تو حیدر آباد سے مغرب کی طرف قدرتی ڈیم کو دریائے سندھ سے مصنوعی کنکشن دیدیتے اور کراچی کو پانی کے قدرتی بہاؤ سے مالامال کردیتے۔ حکمرانوں کی ہر منصوبے میں زیادہ سے زیادہ کرپشن پر نظر ہوتی ہے۔ کالاباغ ڈیم کے علاوہ ہمارے ملک میں بہت سارے ڈیموں کا سلسلہ ہونا چاہیے تھا،پہاڑی علاقوں سے سستی بجلی پیدا کرتے تو دنیا بھر کے مارکیٹوں پر ہماری اندسٹریوں کا قبضہ ہوتا۔پانی کے ذخائر سے انواع و اقسام کے باغ سبزیاں اور اناج اگاسکتے تھے، افغانستان اور نوآزاد مسلم ممالک کی مارکیٹ بھی ہمارے پاس تھی۔
سندھ کے تھرپارکر میں انسان اور پرندوں کے بادشاہ جنگلی مور پانی نہ ہونے کی وجہ سے موت کا شکار ہورہے ہیں۔ پنجاب وسندھ اور بلوچستان میں پانی کی قلت سے زمینیں بنجر ہیں اور حکمرانوں کے بچے پاکستان کو لوٹ کر اپنے بچوں کو بیرون ملک آباد کررہے ہیں۔علاج و تعلیم ، رہائش وآسائش اور بال بچے باہر ہوں تو ان کو اس ملک کے باسیوں کی کیا فکر ہوگی؟۔
ملک ریاض ایک شخص ہے اور کراچی سے دبئی بنانے میں پیسہ بھی کمارہا ہے اور پاکستان کو ترقی کی راہ پر بھی ڈال رہاہے۔ ہمارا حکمران طبقہ کام کا ہوتا تو کراچی سے حیدر آباد تک پورا علاقہ بحریہ ٹاؤن سے زیادہ ترقی یافتہ بن جاتا۔ کراچی کی آبادی خستہ حالی کا شکار ہے ، پانی کی قلت سے بے حال کراچی کے مکین میٹھے پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ حیدرآباد سے جو نوری آباد کے مغربی جانب بارش کیلئے ڈیم بنایا گیاہے ، یہ بھی بڑا کارنامہ ہے لیکن اس کو دریا کے پانی سے کنکشن دیا جاتا اور سیلاب کے پانی سے بھر دیا جاتا تو پائپ لائن اور بجلی کے ذریعہ نہیں بلکہ نہروں کے ذریعہ سے کراچی میں پانی داخل ہوتا۔ جب بہترین منصوبہ بندی سے نہر کے ذریعے پانی آتا تو لیاری اور ملیر ندی صاف اور شفاف پانی سے بھرے رہتے۔ پنجاب کے اندر زمینوں کیلئے دور دراز علاقوں میں نہروں کا سلسلہ موجود ہے تو ملک کے پرانے دارالخلافہ اور سندھ کے صدرمقام کراچی کیلئے بھی ایک نہر بنادی جاتی۔ اب بھی یہ سب کچھ ہوسکتاہے لیکن نیت اور ہمت کی ضرورت ہے۔

بلوچستان ایران سے گیس خرید کر باقی صوبوں کو سپلائی شروع کردے، اجمل ملک

وزیراعظم نوازشریف نے پاکستان کے مفاد میں ایران سے گیس لینے کے بجائے قطر سے اپنے ذاتی مفاد کیلئے معاہدہ کیا جس سے ملک پھر گیس کے بحران کا شکارہوگا

ن لیگ کے وزیراعلیٰ ثناء اللہ زہری اور محمود اچکزئی کے بھائی گورنر بلوچستان اپنے صوبے کی پسماندگی دور کرنے کیلئے ایران کی گیس سے پاکستان کو فائدہ پہنچاسکتے ہیں

پنجاب چین،ترکی اور دیگر ممالک سے صوبائی مفاد میں معاہدے کرسکتاہے تو بلوچستان اپنے صوبے اور قومی مفاد کی خاطر فیصلے کرنے میں کسی دوسرے کا غلام کیوں؟۔

نوشتۂ دیوار کے ایڈیٹر محمداجمل ملک نے پاکستان کی تعمیر وترقی، بلوچستان کومحرومی سے نجات دلانے کیلئے تجویز پیش کی ہے کہ جنرل راحیل شریف کے کردار سے اسلئے ملک و قوم کو فائدہ پہنچاہے کہ اختیارات کو اپنے ہاتھ میں لینے کے بجائے قومی مفادات کو ملحوظ خاطر رکھا ۔ بلوچستان حکومت اگر ایران سے گیس خرید کر صوبوں کو فروخت کرے تو پاکستان تیزی کیساتھ ترقی کا سفر طے کریگا،شریفوں کی رشتہ داری پر بھی اثر نہ پڑیگا۔ پاکستان میں مارشل لاؤں کی بہتات سے بڑی گندی ذہنیت کے لوگ کرپشن کے ذریعے سے ملک کے سیاسی نظام پر قابض ہوچکے ہیں۔جنرل راحیل شریف کا سب سے بڑا کارنامہ یہی تھا کہ مزید کرپٹ لوگوں کو اپنی پیداوار نہیں بنایا۔ عمران خان اور علامہ طاہرالقادری وغیرہ نے بہت دم ہلائے لیکن جنرل راحیل نے کوئی لفٹ نہ دی۔ یہی وجہ ہے کہ احتجاجی دھرنوں میں جتے ہوئے فسٹ کزن ایک دوسرے پر بروقت احتجاج نہ کرنے کا الزام لگارہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ کتا کچھ تو مالک کیلئے بھونکتاہے اور کچھ اپنے لئے بھی بھونکتاہے۔ سیاستدان ہر اسی ایشو پر ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے اور اپنے قدم جمانے کی کوشش کرتے ہیں جس میں قوم کیساتھ ساتھ اپنا مفاد بھی ہو۔
قوم گلی محلوں ، شہروں اور دیہاتوں میں کتوں کے بھونکنے کی طرح سیاستدانوں اور صحافیوں کا گلہ پھاڑ پھاڑ کر آواز یں سننے کی عادی بن چکی ہے۔ جنرل ایوب خان کا قوم کیلئے بڑا تحفہ ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق کا نوازشریف، جنرل پرویزمشرف کا ق لیگ کے علاوہ چھوٹی بڑی خوبی و خامی اپنی جگہ پر ہیں،سب ہی میں انسان ہونے کے ناطے اچھائیاں اور برائیاں ہوتی ہیں۔ اب اس ملک خداداد پاکستان کیلئے بھی کچھ کرنے کا وقت آگیاہے۔ قوم پرستوں کو بلوچستان میں دبایا گیاہے تو یہ مسئلے کا بنیادی حل نہیں ہے۔ مسلمان مکہ سے حبشہ اور مدینہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے لیکن ایک دن ایسا بھی آیا کہ دبے ہوئے مسلمان پھر ابھر کر نہ صرف مکہ کو فتح کرنے میں کامیاب ہوئے بلکہ جزیرہ نما عرب کے بعد دنیامیں اپنے دور کی سپر طاقتوں کو بھی شکست سے دوچار کردیا۔
بلوچ اور پٹھان ایک باعزت اور غیرتمند قوم ہے، بلوچستان سے افتخار چوہدری، جاوید اقبال اور دیگر پنجابی بیورکریٹ کو عزت ملنے سے بلوچستان کی پسماندگی کا حل نہیں ہے اور بلوچ رجمنٹ سے آرمی چیف کا انتخاب بھی اطمینان کا باعث نہیں بن سکتاہے۔ کرپٹ بلوچ قیادت کو کرپشن کی آزادی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف ترکی اور چین کیساتھ صوبہ کی سطح پر معاہدے کرسکتا ہے تو ن لیگ کا وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری اورمحمود خان اچکزئی کے بھائی گورنر بلوچستان کو بھی صوبائی سطح پر بڑے معاہدوں کی اجازت ہونی چاہیے۔ بلوچستان حکومت کی اپوزشن جمعیت علماء اسلام ف بھی اس کارِ خیر میں بھرپور طریقے سے مدد فراہم کرے گی اور بلوچوں کی قوم پرست پارٹیاں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گی جس سے اٹھاروین ترمیم پر بھی عمل کرنے میں زبردست مدد ملے گی۔ صوبائی خود مختاری کو قومی یکجہتی اور مرکز کو کمزور کرنے کیلئے سازش کے طور پر استعمال کیا جائے تو یہ پاکستان سے غداری کے مساوی گردانے جانے میں حرج نہیں ہے۔
پورے پاکستان میں گیس کی شدید قلت ہے، قطر سے گیس لانے میں ملک وقوم دونوں کے مفادات کو بہت نقصان پہنچ رہاہے۔ پنجاب کی سرحد سے ایران ملتا تو پنجاب اپنے اور ملک کیلئے ضرور گیس پائپ لائن کے معاہدے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کرتا لیکن بلوچستان کی سرحد پر موجود ایران کی طرف ن لیگ کی سیاسی لیڈر شپ کا دماغ نہیں جاتاہے، پرویزمشرف سے پہلے نوازشریف دومرتبہ وزیراعظم رہ چکے تھے لیکن گوادر اور سی پیک کی طرف اس کا دماغ نہیں گیاتھا، ایران سے گیس لانے کیلئے بھی کیا کسی جرنیل کی ضرورت ہوگی جو وزیراعظم نوازشریف کو جلاوطن کرکے سعودی عرب بھیج دے ؟۔بلوچستان ایران سے گیس اپنے لئے بھی خرید لے ، کسی کو ضرورت نہ بھی ہو تو سستے گیس کی وجہ سے پاکستان اور بیرون ملک سے بڑے پیمانے پر سرمایہ کار اپنے مفاد کی خاطر انڈسٹریاں لگانے میں دیر نہیں لگائیں گے۔
بلوچستان کے خزانہ میں گیس کے ذریعہ سے اتنی آمدن آئے گی کہ وہ اپنے سیکیورٹی کیلئے بھی مرکز سے کچھ لینے کے بجائے بہت کچھ دینگے۔ چین کے علاوہ روس سے آزاد ہونیوالی ریاستوں کو بھی اپنی مدد آپ کے تحت گوادر کی بندرگارہ سے ملادینگے۔ جنرل راحیل شریف نے قومی خدمت کی ہے لیکن اختیارات پر قبضہ نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے قوم مثبت رحجانات کی جانب بڑھی ہے۔ سیاسی قیادت کو بھی ہوش کے ناخن لیکر دوسرے کے اختیارات پر ناجائز قبضے کے خواب ترک کرنا ہونگے۔ بلدیاتی انتخابات کے حوالہ سے قومی سیاسی پارٹیوں کا کردار انتہائی قابلِ نفرت رہاہے۔
بلدیات اور صوبوں کو اختیارات دینے سے ہی پاکستان بہت مضبوط ہوگا۔ وزیراعلی پنجاب شہبازشریف اور وزیراعظم نوازشریف کی پوری توجہ لاہور ہی پر مرکوز ہے۔ پورا ملک تو دور کی بات پورے پنجاب کا بھی خیال نہیں ہے۔ یہ شکرہے کہ فوجی قیادت کے چناؤ میں انکے پاس بڑے ہی محدود اختیارات ہیں ورنہ صدرمملکت ممنون حسین، گورنر سندھ سعیدالزمان صدیقی ، گورنر پنجاب رفیق رجوانہ اور گورنر پختونخواہ اقبال ظفر جھگڑا کی طرح چہرے اور کردارتلاش کئے جاتے۔ صدر کو دوسروں کے چہرے منحوس اور اپنے معصوم لگتے ہیں تو یہ ان کا جمہوری حق ہے لیکن جمہوری ماحول میں اختلاف رائے کی گنجائش ہوتی ہے۔ کسی ذوالفقار بھٹو اور کسی کو جنرل ضیاء کا چہرہ اچھالگتا تھا اور اب اللہ کرے کہ جنرل راحیل شریف اور ان کے بعد آنے والے جرنیلوں کے چہرے اچھے ہی لگیں۔ جب پنجاب میں گیس کی قلت کے خلاف احتجاج ہو تو ایران سے گیس لیکر مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ اصحابِ اقتدار ملک کو مالامال کرنے میں بالکل کوئی دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔

فرقہ واریت کا خاتمہ ایک بنیادی ضرورت. عتیق گیلانی

شیعہ سنی، بریلوی دیوبندی اور حنفی اہلحدیث مسلکوں اور فرقوں کی اصلاح موجودہ دور کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ یہ کلیہ بہت پرانا اور ناکام ہوچکا ہے کہ ’’اپنا مسلک چھوڑونہیں اور دوسروں کا چھیڑو نہیں‘‘۔ شیعہ فرقے کی بنیاد اسلام سے صحابہؓ کی محبت نہیں بغاوت پر ہے تو وہ کیسے اپنے مسلک پر قائم رہ کر اہلسنت کی دل آزاری سے باز آسکتے ہیں؟۔ دیوبندی خودکو توحیدی ،بریلوی کو مشرک سمجھتے ہیں اور بریلوی خود کو محبان رسول اور دیوبندی کو گستاخ سمجھتے ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ ان کی نفرت پیار میں بدل جائے۔ اہلحدیث کے نزدیک حنفی مسلک والے احادیث سے منحرف اور حنفیوں کے نزدیک وہ تقلید ہی نہیں قرآن سے بھی منحرف ہیں تو کیسے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہونگے؟۔
پاکستان کے بریلوی، دیوبندی ،شیعہ اور اہلحدیث کے جنرل ہیڈ کواٹرز اپنے پڑوسی دشمن ملک بھارت میں ہیں۔جب یہ سب ہندودیش میں ہندؤں کیساتھ گزارہ کرسکتے ہیں تو یہاں ان کی دُموں کو مروڑ کر کون لڑاتاہے؟۔ کیا یہ ہماری ریاست کی بہت بڑی کمزوری نہیں کہ جو لوگ دوسرے ممالک میں تو بہت سکون سے رہتے ہیں مگریہاں ایکدوسرے کیخلاف شر پھیلارہے ہیں؟، یہ سوالات بھی کھڑے کئے گئے مگر ان سوالات سے بھی حل نکلنے والا نہیں ہے۔ علامہ اقبالؒ کی شاعری پر عوام کا ایک طرح سے اعتماد ہے مگرفرقہ واریت کے خلاف انکے اشعار نے بھی فرقہ بندی سے روکنے میں کردار ادا نہیں کیاہے۔
فرقہ واریت کا اصل مسئلہ حل کرنے میں عقیدے ، نظریے اور مسلک کے اختلافات کو احسن انداز میں پیش کرناہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وجادلہم بالتی ھی احسن ’’اور ان سے لڑو،اس طریقہ سے جو بہترین راستہ ہے‘‘۔ اس انداز تکلم سے فرقہ واریت کا نہ صرف خاتمہ ہوسکتا ہے بلکہ قرآن نے ایک دوسری جگہ یہ نشاندہی بھی کردی ہے کہ ’’ برائی کا بدلہ اچھائی کے انداز میں دو ،تو ہوسکتاہے کہ صورتحال ایسی بدل جائے کہ گویا وہ دشمن تمہارا گرم جوش دوست بن جائے‘‘۔ کالعدم سپاہ صحابہ کے قائد مولانا اعظم طارق کو شہید کرنے والے محرم علی کی قبر پر جیونیوز کے طلعت حسین نے شیعہ رہنما علامہ امین شہیدی کی عقیدت بھری تصویر دکھائی اور علامہ شہیدی سے سوالات بھی کرلئے مگر مسئلے کا حل نہیں نکلا۔ فرقہ واریت کے حوالہ سے سخت زبان استعمال کرنے والوں پر پابندیاں لگ گئیں، ن لیگ اور سابقہ ق لیگ کے شیخ وقاص کے مقابلہ میں پھر بھی اہلسنت کے حمایت یافتہ مولانا جھنگوی جیت گئے۔ مولانا مسرور جھنگوی کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر ہے جس میں کلمہ کی طرح سپاہ صحابہ میں شامل ہونے کیلئے ’’کافر کافر شیعہ کافر ‘‘ ضروری ہے۔ سعودیہ نے یہ نعرہ قانونی طور پر اپنے ملک میں رائج نہیں کیا ، قادیانیوں کو بھی پہلے کافر نہیں کہا جاتا تھا۔ پارہ چنار کے ایک سنی نے کہا کہ اگر سنی حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کے ماننے سے انکار کریں تو شیعہ علیؓ کو بھی کافر کہیں گے، یہ ایرانی مجوسی ہیں۔ہمارا کام اتحاد و اتفاق اور وحدت ہے اور کبھی موقع ملے گا تو کمیونسٹ ذہنیت کے اہل تشیع کی الجھی ہوئی ذہنیت کو ٹھیک کرینگے جو ایران کے بادشاہ مزدک سے نبی علیہ السلام ، اہلبیت اور حضرت ابو ذر غفاریؓ کو جوڑتے ہیں۔ تشدد و پابندی مسئلے کا حل نہیں ، صحابہ کرامؓ کا ذکر قرآن میں ہے اور قرآن سے نا واقفیت ہے۔ سیدعتیق گیلانی

اسلامی دنیا کو خلافت علی منہاج النبوۃ قائم کرنا ہوگی. عتیق گیلانی

عالم اسلام میں بادشاہت، جمہوریت، ڈکٹیٹر شپ اور فرقہ واریت کا دور دورہ ہے۔ القاعدہ، طالبان، داعش اور فرقہ واریت کے علاوہ ہمارے ریاستی نظام بھی عوام کیلئے قابلِ قبول نہیں ہیں۔ افغانستان،عراق، لیبیا، شام کے بعد ایران، سعودیہ اور پاکستان کی باریاں بھی آسکتی ہیں، ہم سے زیادہ خوش فہمی کا شکار تباہ ہونے والے وہی ممالک تھے۔ ہم پرچاروں طرف سے دشمن کا گھیراؤ ہے۔ ایران، افغانستان اور عرب ممالک کی پاکستان سے زیادہ بھارت سے دوستی ہے۔ چین کے ترقی یافتہ علاقے سمندرکے ذریعہ سے دنیا میں ملے تھے تو دنیا میں کونسی تبدیلی آئی ہے؟۔ گوادر سی پیک کے ذریعہ چین کاپسماندہ ایریا دنیا سے مل جائیگا تب بھی دنیا میں کونسا بڑا انقلاب آئے گا؟۔ روس کے خلاف جب دنیا افغانستان میں جنگ لڑرہی تھی تو بھی راہداری پاکستان کے ذریعہ تھی اور جب نیٹو نے طالبان کیخلاف جنگ لڑی تب بھی راہداری کی یہی راہ تھی۔ البتہ پاکستان نے اب راہداری کے ذریعہ دوسروں کی جنگ لڑنے کے بجائے مثبت راستے کا سفر شروع کیا ہے اور اللہ کرے کہ خیر سے تبدیلی آئے۔
بھارت کے پیٹ میں مروڑ اٹھ چکا ہے، اسلئے تسلسل کیساتھ بلا اشتعال فائرنگ کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، جنرل راحیل شریف کے دور میں ملک کی داخلی صورتحال بہت بہتر ہوئی۔ طالبان، بلوچستان اور کراچی کے حوالہ سے جو کامیابی ریاست کی رٹ بحال کرنے میں ملی اس کا انکار کوئی بھی نہیں کرسکتا۔ پاکستان بدریج بد سے بد حال تک جیسے پہنچ چکا تھا، اس میں قوم کے کسی ایک فرد یا ادارے کا کردارنہ تھا بلکہ پوری قوم زوال کی انتہا پر پہنچ چکی تھی۔ جنرل پرویز مشرف نے جمہوری جماعتوں پیپلزپارٹی اور ن لیگی قیادتوں کو جبری جلاوطن کر دیاتھا، عدالتوں کو پرغمالی بنالیالیکن فوجی قیادت عوام کی اصلاح نہ کرسکی تھی۔
جمہوریت اور عدالتیں بحال ہوئیں تو عدالت نے سیاست شروع کردی اور پیپلزپارٹی کی حکومت کو ٹف ٹائم دیا، اگر اصغر کیس کے ذریعہ انصاف کے تقاضے پر عمل پیرا ہوکر یوسف رضا گیلانی کی طرح نوازشریف کو بھی نااہل قرار دیا جاتا تو قوم کا عدلیہ پر بے انتہااعتماد بڑھ جاتا۔ ریاست کی رٹ صرف فوجی طاقت سے ہمیشہ کیلئے بحال نہیں رہ سکتی ہے۔ عوام کے اعتماد کیلئے زیادہ اہمیت عدل و انصاف کے نظام کی ہوتی ہے۔پختونخواہ کے طالبان، بلوچستان کے قوم پرست اور کراچی کی ایم کیوایم سے زیادہ معاشرتی ظالمانہ نظام کا پنجاب میں راج ہے۔وزیردفاع وپانی وبجلی خواجہ آصف اور اقبال کے شہرسیالکوٹ کا تازہ واقعہ ہے کہ’’ دلہن کو اجتماعی زیادتی کا شکار بنایاگیا، شور مچانے پر تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ پولیس مجرموں کی پشت پناہی کررہی ہے‘‘۔ شور مچانے اور تشدد کا نشانہ بننے سے ڈر کر چپ کی سادھ لینے والوں کی کتنی ان گنت کہانیاں ہوں گی؟۔ یہ اس وقت پتہ چلے گا جب مظلوموں کا ظالموں کیخلاف انقلاب آئیگا۔ سیاسی جماعتیں عوامی نہیں بلکہ آشیرباد رکھنے والوں کی داشتائیں ہیں۔
القاعدہ، طالبان داعش کے علاوہ کراچی کی ایم کیوایم، بلوچی قوم پرست اور اندرون سندھ کی پارٹیاں زمانے کے جبر سے وجود میں آئی ہیں۔ امریکہ کا مجاہدین کو استعمال کرنے کے بعد پھینک دینے سے القاعدہ بن گئی، افغانستان میں مجاہدین تنظیموں کی بدمعاشی سے مجبوری میں طالبان آگئے، امریکی حملے کی وجہ سے پاکستانی طالبان وجود میں آگئے، عراق پر حملے بعد شام میں کاروائی کی وجہ سے سنی مکتبۂ فکر کو ریلف مل گئی تو دولت اسلامیہ عراق وشام تشکیل پائی ،جو داعش کے نام سے دنیا میں پھیل گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بقول امتیاز عالم کے پنجابی اسٹیبلشمنٹ سے اردو اسپکینگ مہاجروں کو کاٹ کر سند ھیوں سے ملا دیا تو ایم کیوایم کیلئے بنیاد بن گئی۔نجم سیٹھی نے پنجاب کے ظلم کی داستان نہری نظام کی شکل میں بیان کی ہے جس سے سندھ بنجر بن گیا اور احساسِ محرومی کالا باغ ڈیم میں رکاوٹ کا سبب بنا۔ بلوچستان کے وسائل کے باوجود عوام کی غربت کا مسئلہ بغاوت تک لے گیا۔ پاکستان سے عالمی اسلامی خلافت علی منہاج النبوۃ کا آغاز ہوجائے تو دنیا بھر کے مسلمانوں کے تمام مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
مدارس کے نصاب کی اصلاح سے کم عقل لوگوں کے چنگل سے اسلام کی تعبیرو تشریح پر اجنبیت کے پردے ہٹ جائیں گے۔ لونڈی بنانے کے نظام کو قرآن نے آلِ فرعون کا اختراع قرار دیاہے، امریکہ نے عافیہ صدیقی کو قید کرکے لونڈی بنانے سے بھی بڑی سزا دی ہے۔ طویل المدت قید انسانیت کی بہت بڑی تذلیل، انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور شرافت پر بڑا دھبہ ہے۔

کیا مغربی جمہوری نظام کفر ہے یا نہیں؟ عتیق گیلانی

قرآن میں اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کو خلافت کا حقدار قرار دیاہے، ابلیس اپنے تکبر کے باعث راندۂ درگاہ ہواتھا، فرشتوں نے اللہ سے اختلاف کرکے اعتراض اٹھایا کہ ’’یہ خلیفہ زمین میں فساد پھیلائے گا، خون بہائے گا اور قتل و غارتگری کریگا‘‘ لیکن اللہ کے فرمان پر سب نے سجدہ بھی کرلیا مگر ابلیس نے سرتابی کی۔ حضرت آدمؑ نے جنت میں اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کی اور پھر ان کو زمین میں اتارا گیا تو بڑے بیٹے قابیل نے چھوٹے بھائی کو قتل کردیا۔ حضرت ابراہیمؑ کی اولاد میں بنی اسرائیل میں نبوت وخلافت کا سلسلہ جاری رہا، پھر اللہ نے آخری نبیﷺ کی بعثت فرمائی۔ انصار ومہاجر اور قریش واہلبیت میں خلافت کے مسئلہ پر اختلاف واعتراض بالکل صحیح تھا۔ رسول اللہ ﷺ اپنی شخصیت میں بڑے جامع تھے۔ بشریت، رسالت اور اولی الامر کے حوالہ سے آپﷺ کا اسوہ حسنہ انسانیت کی رہنمائی کیلئے بہترین نمونہ تھا۔ شادی، طلاق، اولاد، رشتہ داری اور معاشرے میں انسانی ضروریات کے تمام معاملات سے آپﷺ کی بشریت اعلیٰ صفات سے مالامال اور بہترین نمونہ تھی۔ رسالت کا تقاضہ تھا کہ آپﷺ کی وحی کے ذریعے رہنمائی ہو، مذہبی ماحول نے جو گہرے اثرات معاشرے پر ڈالے تھے اس کا نتیجہ تھا کہ جب ایک خاتون نے اپنے شوہر کی طرف سے شدید ترین طلاق ظہار کے مسئلہ پر مجادلہ کیا تو اللہ نے وحی کے ذریعے رہنمائی فرمائی جس کی تفصیل سورۂ مجادلہ کی آیات اور تفسیرو احادیث کی کتابوں میں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو مشاورت کا حکم بھی دیا تھا اور غزوہ بدر میں اکثریت کی مشاورت کے باوجود فدیہ کا فیصلہ ہوا،تو اللہ کی طرف سے تنبیہ ہوئی۔ غزوہ احد کا فیصلہ اپنی منشاء کے خلاف شہر سے نکل کر باہر لڑنے کا فیصلہ کیا اور حدیث قرطاس کی وصیت سے مزاحمت پر دستبردار ہوئے۔ اس تعلیم و تربیت کا عملی نتیجہ یہ تھا کہ صحابہؓ اختلاف کے باوجود بھی نظامِ خلافت پرمتحد ومتفق رہے۔نبیﷺ نے انفرادی طور پر فرمایا: ’’امام قریش میں ہونگے‘‘ اور ’’بارہ خلفاء قریش سے ہونگے جن پر امت اکٹھی ہوجائے گی‘‘۔ یہ احادیث مستقبل کی پیش گوئی اور اخبار تھے۔ خلافت عثمانیہ عرصۂ دراز تک قائم رہی لیکن وہ قریشی نہیں تھے۔ ذیل کے نقشہ میں احادیث کا آرٹ دیا گیاہے۔ اور مغربی جمہوریت پر لوگ متفق ہوں تو یہ کفر نہیں بلکہ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ ’’ اہل مغرب ہمیشہ حق پر رہیں گے‘‘۔ اس حدیث سے مغربی جمہوریت ہی مراد ہوسکتی ہے۔ انتقال اقتدار کا سب سے پرامن اور عوام کے اختیار کا بہترین راستہ جمہوری نظام ہے، یہ الگ بات ہے کہ جمہوریت کی روح مفقود ہے، حضرت امام حسنؓ نے اکثریت کے حق میں خلافت سے دستبرداری اختیار کی تو حدیث میں بھی آپؓ کی تائید ہے کہ ’’میرے اس فرزند کے ذریعے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کا اتحاد ہوگا‘‘۔ رسول اللہ ﷺ سے اولی الامر کی حیثیت سے صحابہ کرامؓ نے اختلاف کیا، خلفاء راشدینؓ نے اپنی رائے سے اختلاف کیلئے روڑے نہیں اٹکائے مگراب جمہوری پارٹیوں کے قائدین و رہنما ڈکٹیٹر شپ اور موروثیت کی پیداوار کی وجہ سے خچروں اور تیسری جنس کی طرح لگتے ہیں۔
روزنامہ جنگ میں یہ شہ سرخی لگی کہ ’’حامد سعید کاظمی نے اقرار جرم کرلیا‘‘ مگر شام کو حلف دیکر حامد کاظمی انکار کررہاتھا۔ حامد میر نے کہاتھا کہ شہباز شریف ڈان کی خبر پر پریشان تھا، پھر راحیل شریف پر توسیع کا الزام لگادیا ، کل یہ نہ کہے کہ راحیل شریف کو شہباز نے جھاڑدیا ، جیسے عرفان صدیقی نے حامد میر کے پروگرام میں صدر تارڑ کی جرنیلوں کے سامنے بہادری کا ذکر کیا ۔ صحافت مقدس پیشہ ہے، فواد چوہدری پرویزمشرف ، پیپلزپارٹی کے بعد تحریک انصاف میں آیا، کیایہ جائز صحافت ہے؟۔اگر صحافت کا پیشہ ٹھیک ہوجائے تو انقلاب آسکتاہے۔باقی دھرنے کے دوران حامد میر لیگیوں کا مذاق اڑا رہا تھا کہ میرے پاس پناہ لے رہے تھے۔ ڈان کی خبر پر بھی پیروں کو پکڑنے کی باتیں میڈیا پر ہورہی تھیں۔ حکمرانوں کے پاس حکومت کرنیکی اخلاقی قدریں نہیں، اسلئے کہ ڈکٹیٹر ، موروثیت اور کرپشن کی پیداوار ہیں۔بس چلے تو گردن کو بھی پکڑ لیتے ہیں :بے بسی میں ٹانگیں بھی جکڑ لیتے ہیں۔

Naqsh-e-Inqalab-October-special2016

داعش کے پیچھے مغرب یا نظریہ خلافت؟ عتیق گیلانی

کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں الماوردی کی کتاب’’ الاحکام السلطانیہ‘‘ کا تذکرہ ہے، علماء کا طبقہ اس کتاب کے نام اور احکام سے بالکل بے خبر ہے۔ ہزارسال سے زیادہ عرصہ پہلے لکھی گئی یہ واحد کتاب تھی جو اس موضوع پر معروف و مشہور ہے۔ اس کتاب میں مسلم اُمہ کا اجتماعی فریضہ لکھا گیاہے کہ ’’ ایک خلیفہ مقرر کرنا ضروری ہے‘‘۔ یہ بھی واضح کیا گیاہے کہ ’’ ایک ، دو یا چند افراد کے پہل کرنے سے خلیفہ مقرر ہوجائیگا اور پھر تمام مسلمانوں پر اس کی اطاعت فرض ہے‘‘۔ کتاب میں خلیفہ کے شرائط و صفات کا بھی ذکرہے۔ جن میں قریشی ہونا اور اعضاء کی سلامتی شامل ہے۔ جیو کے پروگرام جرگہ میں سلیم صافی سے داعش کے امور پر مہارت رکھنے والے نے بتایا کہ ’’ داعش نے ملاعمر کے امیر المؤمنین بننے کو اسلئے مسترد کیا کہ وہ قریشی نہ تھے اور آنکھ سلامت نہ تھی‘‘۔
جس طرح کسی ملک میں بادشاہ یا وزیراعظم کی تقرری کے بعد عام باشندوں کیلئے رمضان کے روزے رکھنااور بقرہ عید کی قربانی ذبح کرنا بھی حکمران کے مقرر کردہ ہلال کمیٹی کے چیئرمین کے تابع ہوجاتا ہے اور سودی نظام بھی علماء ومفتیان کے فتوے سے حلال ہوتاہے،اسی طرح داعش کے خلیفہ اور انکے علماء ومفتیان جس قسم کے احکام بتاتے ہیں اور جو فتوے دیتے ہیں دنیا بھر میں ابوبکر البغدادی کی تقرری اور مقرر کردہ امیروں کا حکم چلتاہے اور اس کو سمجھنے کیلئے اتنی بات کافی ہے کہ جیسے اسماعیلیہ آغا خانیوں کا اپنا امام ہے، داودی بوہرہ کا اپنا امام ہے، میرا خیال ہے کہ اہل تشیع نے بھی ایرانی انقلاب اور امام خمینی کے بعد ہی پاکستان میں جمعہ پڑھنا شروع کردیا۔ ترکی کے صدر طیب اردگان سے پہلے سپیکر قومی اسمبلی نے پاکستانی قوم کی طرف سے سپاسنامہ میں خلافت موومنٹ اور کمال اتاترک کا تذکرہ کیا ، علامہ اقبال ، خلافت موومنٹ اور پاکستان کا حوالہ دیا لیکن اس کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کن متضاد پگڈنڈیوں پر چل کر قدم ڈگمگارہے ہیں اور نہ ہی زبان لڑکڑارہی ہے، جاہل تو ہوتے ہی لٹ مار ہیں، قومی اسمبلی کا سپیکر غیر جانبداری کا حلف اٹھاتاہے مگر ہمارے سپیکر صاحب غیر جانبداری کے فرض سے ناواقف۔
بہرحال طیب اردگان نے مسلم امہ کو قریب کرنے کی بات کرکے داعش کو مغرب کے کھاتہ میں ڈال دیا تو بھی حقائق کا ان کو پتہ ہوگا مگر جس طرح اپنے سیاسی حریفوں کے سکول پاکستان میں بند کرادئیے جن میں تشدد اور دہشت گردی کی کوئی تعلیم نہیں تھی، فوجی بغاوت پر بھی فتح اللہ گولن نے کہا تھا کہ ’’ہم خود ہمیشہ فوجی بغاوت کے خلاف رہے ہیں اور ہم نے ان کے تشدد کا خود بھی سامنا کیاہے تو ہمارا ہاتھ کیسے ہوسکتاہے؟‘‘۔ پاکستان ، ترکی ، امریکہ اور دنیا بھر میں مغربی جمہوریت سے الزام تراشیوں کے سلسلے جاری ہیں۔داعش کے سخت ترین حریفوں کا داعش میں شمولیت کو امریکہ اور مغربی سازش قراردینا نادانی ہے، یہ درست ہے کہ القاعدہ اور طالبان میں بھی گڈ اور بیڈ کا تصور تھا،ایک نمبر اور دونمبر والوں کی عام شہرت تھی لیکن داعش ایک سازش نہیں بلکہ خلافت کا فلسفہ و نظریہ ہے ۔مولانا فضل الرحمن نے جمعیت علماء کے ایک بہت بڑے پروگرام میں خلافت کی احادیث کو اپنی جماعت پر فٹ کیا اور تسلسل کیساتھ اپنے مشن کی اس طرح سے تشہیر بھی کرتے رہے۔ مولانا نیاز محمد قریشی (جو سینٹر مولانا صالح شاہ قریشی کے کزن ) نے یہ تقریر ’’آذانِ انقلاب‘‘ کے نام سے شائع کی۔ بریلوی مکتبۂ فکر علامہ عطاء محمد بندھیالویؒ نے خلافت کو شرعی فریضہ قرار دیتے ہوئے لکھا تھا کہ جنرل ضیاء الحق بھی قریشی نہیں، مسلمانوں خلیفہ کا تقرر شرعی فریضہ ہے جو قریشی ہو۔ ڈاکٹرا اسرار کے ایک پروگرام میں علامہ طاہرالقادری اور دوسرے میں حزب التحریر اور المہاجرون تنظیم کے نمائندوں نے شرکت کی تھی۔ خلافت کیلئے امام کا تقرر ہے اور امام کاتعلق سرحدوں سے بالاتر زمانہ کیساتھ ہے۔ تبلیغی جماعت، دعوتِ اسلامی ، جماعتِ اسلامی اور دیگر مذہبی و سیاسی جماعتوں کے علاوہ قادیانی بھی اپنے امیر وامام کی تقرری پر یقین رکھتے ہیں۔پاکستان کی ریاست کو خلافت کا اعلان کرنا ہوگا۔ زندگی آساں گر حوصلہ بڑا ہے، منزل بڑی ہے تو امتحان کھڑا ہے ۔ خلافت سے آسمان و زمین والے خوش ہونگے۔

اسلاف ہمارے لئے سرمایہ افتخار کیوں؟ عتیق گیلانی

اللہ تعالیٰ نے فرمایا : لااکراہ فی الدین ’’دین میں جبر کا کوئی تصور نہیں ‘‘۔ کسی کوزبردستی سے منافق تو بنایا جاسکتاہے لیکن مؤمن نہیں۔ منافق کادرجہ فی درک الاسفل من النار’’جہنم کا نچلا ترین ہے‘‘۔ایسا کوئی ماحول بنانا جس سے تشدد کے ذریعے منافقت کی راہ ہموار ہو اسلامی تعلیمات، فطرت اور انسانیت کے بالکل منافی ہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام، صدیقین، شہداء اور صالحین کا راستہ ظلم وجبر، تشدد وزبردستی کا ہر گز نہیں۔ اسلام سے پہلے بھی فرقہ واریت کا شدید ترین مسئلہ رہاہے لیکن اسلام نے اس کا حل قتل وغارت اور ظلم وتشدد سے پیش نہیں کیا بلکہ تمام مذاہب کی عبادتگاہوں کو قرآن میں تحفظ دینے کی تعلیم دی۔ صوامع، بیع، صلوٰت اور مساجد میں اللہ کے نام کا کثرت سے ذکر کی سند جاری کرکے مجوس،یہود ونصاری اور مسلمانوں کی عبادتگاہوں کو تحفظ فراہم کیاہے۔ یہ کسی مخصوص وقت کیلئے نہیں بلکہ قیامت تک کیلئے آیات ہیں اور جب یہ آیات نازل ہوئی تھیں تو اس وقت کے یہود ونصاریٰ ، مجوس و صابی موجودہ دور کے مقابلے میں زیادہ گمراہ تھے۔ دنیا میں عذاب کے بھی مستحق اسلئے تھے کہ اس وقت انبیاء کرام کی بعثت کا سلسلہ جاری تھا، جن سے اتمام حجت بھی ہوجاتی تھی۔ اللہ نے فرمایا : وماکنا معذبین حتی نبعث رسولا ’’ اور ہم عذاب نہیں دیتے ہیں یہاں تک رسول کو مبعوث نہ کردیں‘‘۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت ہوئی، یہود نے بے انتہا مظالم کردیے، گستاخانہ ذہنیت کی انتہا کری مگر جب اسلام نازل ہوا تو عیسائیوں کو مشرکانہ اور یہود کو گستاخانہ ذہنیت کے باوجود برداشت کرنے کی تعلیم دی اور اللہ نے فرمایا: ان الذین اٰمنوا والذین ہادووالنصٰری والصٰبئین من امن باللہ والیوم الاٰخر لھم اجر فلاخوف علیھم ولاھم یحزنون ’’بیشک جو لوگ ایمان لائے، اور جولوگ یہودی ہیں اور نصاریٰ ہیں اور صابئین ہیں، جو اللہ اور آخرت کے دن پرایمان لائے تو ان کیلئے اجرہے ، نہ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہونگے‘‘۔
جس اسلام نے صحابہ کرامؓ اور اہلبیتؓ کے دل ودماغ میں بے پناہ وسعتیں پیدا کردیں، اسکے نام سے ہم نے جبروتشدد کی ایسی پگڈنڈی بنائی کہ دنیا کے مختلف ومتضاد مذاہب تو بہت دور کی بات ہے، اگر آیت میں انکی جگہ دیوبندی ، بریلوی، اہلحدیث اور اہل تشیع کو رکھا جائے تب بھی فرقہ بندی کے خوگر اس ایمانی مٹھاس سے اتنا ہی پرہیز ضروری سمجھتاہے جتنا شوگر کا مریض قدرت کی عظیم نعمت مٹھاس سے۔ یہی حال رہا تو بعیدنہیں کہ جنت میں انواع واقسام کے مٹھاس سے دوسرے تو مانوس ہوکر خوف وغم سے آزاد بھی رہیں، تعصب سے قرآنی آیات کا کھل کر انکار کرنیوالوں کی قسمت میں جہنم کا شجرہ زقوم ہو۔ اللہ و آخرت پر بھی ایمان کے بعد اچھا عمل صدیقین، شہداء اور صالحین کی صف میں شامل کرتا ہے اور اچھے اعمال کے بغیر دوسروں کے خلاف تشدد کی آگ بھڑکانے والے ان لوگوں کی اکثریت ہوتی ہے جو مرد ہوکر بھی ایکدوسرے کیساتھ جنسی عمل کے عادی ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ’’ ان دونوں( فاعل مفعول) کو اذیت دو، اگر توبہ کریں تواللہ در گزر کرنے والاہے‘‘۔
صحابہ کرامؓ اور اہلبیت عظامؓ نے تشدد اور نفرت کی ایسی آگ نہیں بھڑکائی تھی جس کی وجہ سے فرقہ وارانہ بنیادوں پر دوسروں کے خلاف قتل وغارتگری اور جنگ وجدل کا بازار گرم ہو۔ اسلام افہام و تفہیم اور اچھے انداز کی تعلیم وتربیت سے جانی دشمن کے سامنے بھی ایسے انداز میں بات کرنے کی تلقین کرتاہے کہ جس سے وہ گرم جوش دوست بن جائے۔ انبیاء کرامؑ ،صدیقین، شہداء اور صالحین کی راہوں پر چل کر صحابہ کرامؓ اور اہلبیت عظامؓ نے اختلاف کو تشدد میں بدلنے سے بچنے کیلئے جو راستہ اختیار کیا وہ مثالی تھا۔ حضرت عثمانؓ نے مسند پر شہید ہونا قبول فرمایالیکن فساد نہیں پھیلایا، حضرت علیؓ نے منصب سے دستبردار ہونے کی بات قبول کرلی مگر خوارج نے بغاوت کردی۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ ’’رسول اللہﷺ نے رسول اللہ کے لفظ کو بھی صلح حدیبیہ میں قلم زد کیا‘‘ ۔ مگروہ نہ مانے اور کہا کہ ’’قریش بحث کرنے کے عادی ہیں‘‘۔اللہ نے میاں بیوی کے درمیان ایک ایک حکم دونوں طرف سے مقرر کرنے کاحکم دیالیکن تحکیم کو کفر قرار دیاگیا۔ صلح حدیبیہ پر مشرکینِ مکہ قائم رہتے تو حضرت عمرؓ کے دور تک مسلمان اسی پر کاربند رہتے۔ دنیا میں عدل کے قیام کیلئے اسلام سے زیادہ پرامن جدوجہد کی مثال نہیں ملتی ہے۔