پوسٹ تلاش کریں

حاجی عثمان مجدد تھے اور ہم نے تجدیدی کارنامہ کردکھایا. عتیق گیلانی

haji-usman-tabligi-jamat-ke-akabir-or-tariqat-k-khalifa-thhe-mujjadid-thhe-hum-ne-tajdidi-karnam-kr-dikhaya

حاجی محمد عثمانؒ پر فتویٰ لگنے سے پہلے دیوبندی،اہلحدیث اور خاص طور پر تبلیغی بڑی تعداد میں بیعت تھے۔ حاجی عثمانؒ تصوف کو ولایت صغریٰ اور شریعت و تبلیغ علماء ونظام خلافت کو خلافت کبریٰ سے تعبیر کرتے۔ مسجدنور جوبلی کراچی میں بریلوی مکتب فکر کے مولانا شفیع اوکاڑی امام وخطیب تھے۔ ایک مرتبہ متولی نے ان کو منبر سے اُتارا، حاجی عثمانؒ کو منبر پر بٹھادیا اور مولانا اوکاڑی سے کہا کہ سنو، تقریر ایسی ہوتی ہے۔ حاجی عثمانؒ نے دین کو زندہ کرنیکا احساس جگایا۔ تصوف کے شہسوارکی زباں میں ایمان کی روشنی، یقین کا کمال، تقویٰ پرہیزگاری کا چراغ اور اللہ سے تعلق کی مضبوط رسی، دنیا سے بے نیازی اور بہت کچھ ہوتا ہے جو حال سے محسوس کیا جاسکتا مگر الفاظ میں اسے بیان کرنا ممکن نہیں ۔ہر صدی پر مجددآئیگا تو حاجی امداد اللہ ؒ نے تجدیدی کارنامہ انجام دیا ۔ مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ کے مرید مولانا الیاسؒ نے تبلیغ کا کام شروع کیا۔ مولانا احتشام الحسنؒ انکے ساتھی اور خلیفہ تھے۔اگر ان کو امیر بنایا جاتا تو آج حاجی عبد الوہاب اور مولانا الیاسؒ کے پڑ پوتے میں اختلاف نہ ہوتا۔ حاجی عثمانؒ حاجی عبد الوہاب سے بھی پہلے کے اکابرین میں شمار ہوتے تھے۔
تبلیغی جماعت کی بڑی خوبی یہ ہے کہ اسٹیٹس کو اس میں ٹوٹتی ہے۔ بڑے افسر، تاجر، حکمران، مولانا اور پیرطریقت کو اپنا بستر پیٹھ پر لاد کر گلی، کوچے، محلے، شہر، بستی، ملک و بیرون ملک سردی وگرمی میں گھومنا پڑتاہے۔ اصلاح کیلئے سہ روزہ، عشرہ ، چلہ اور چارماہ لگانے کی مشق کارگر ہے۔ دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث اس غیرمتنازعہ تبلیغی کام سے بڑی محبت رکھتے تھے۔ حضرت جی مولانا یوسفؒ کی یادگار تقریروں میں وفات سے 3 دن پہلے کی آخری تقریر’’ اُمت کے جوڑ‘‘پرکہاکہ’’ حضرت سعد بن عبادہؓ جو ایک جلیل القدر صحابی اور انصار کے سردار تھے مگرخلافت کے مسئلہ پر ناراض تھے اور امت کیلئے توڑ کا باعث بنے، اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی نہیں بخشا اور جنات نے ان کو قتل کردیا تھا‘‘۔
مولانا سید سلیمان ندویؒ کے خلیفہ مولانا اشرفؒ اسلامک ڈیپارٹمٹ پشاور یونیورسٹی کے چیئرمین تبلیغی جماعت کی سر گرمی میں حصہ لیتے تھے۔ ان کی3 باتوں سے حقائق کھلیں گے 1: کہا ’’ اب تو تبلیغی جماعت کے لنگر کی دال اچھی ہے۔ پہلے ایک من پانی میں ایک کلو دال ڈالتے تھے اور لوگ روٹیوں کے ٹکڑوں سے کشتیاں بناکر دانوں کا شکار کرتے تھے‘‘۔عوام وخواص کی اصلاح کیلئے اس لنگرکا کھانا بھی کافی تھا ،پھر خواص کیلئے الگ کھانے کا اہتمام کیا گیا۔ 2: مولانا اشرفؒ نے کہاکہ’’ ایک مرتبہ ہماری جماعت پنجاب میں بریلوی کی مسجد میں گئی۔ وہاں کے امام نے کچھ لوگ بٹھا دئیے اور جب میں رسول اللہﷺ کی شان بیان کررہاتھا تو امام صاحب کہہ رہے تھے کہ بندہ ٹھیک جارہا ہے۔طائف کے واقعہ کو بیان کیا اور جب یہ کہا کہ اللہ کو اپنا دین اتناپسند ہے کہ طائف میں نبیؐ کے خون کو بھی بہادیا۔ تو امام صاحب نے کہا کہ اب یہ پٹری سے اترگیااور انکو مسجد سے باہر پھینک دو، تو ہمیں بستروں سمیت مسجد سے باہر پھینکا گیا‘‘ یہ واقعہ دیوبندی بریلوی چپقلش کا شاخسانہ ہے۔ یہ نکتہ بھی بیان ہوسکتا تھا کہ کعبہ بتوں سے بھرا تھا، طائف کے لوگ شرک میں عرصہ سے ملوث تھے لیکن اللہ نے عذاب کا فیصلہ نہیں کیا مگر جب طائف والوں نے نبیﷺکا خون بہادیا تو اللہ نے طرح طرح کے عذاب نازل کرنے کیلئے فرشتے بھیج دئیے۔ شرک کی بات پر اللہ نے نہیں پکڑا مگر نبیﷺ کا خون بہانازیادہ برا لگا۔ حضرت حاجی محمد عثمانؒ فرقہ واریت کا ناسور زبردست اندازمیں ختم کرتے تھے۔ کہتے تھے کہ دیوبندی بریلوی توحیدو رسالت کو اس انداز سے بیان کرتے ہیں جیسے اللہ و رسولﷺ میں جھگڑا ہو رہاہے اور یہ وکالت کررہے ہوں۔ توحید کو اسطرح بیان کرنا کہ شانِ رسالت ﷺ میں گستاخی ہو ، غلط ہے۔ بے ادبی توحید نہیں اور شانِ رسالت ﷺ کو ایسا بیان کرنا غلط ہے کہ توحید میں شرک کی آمیزش ہوجائے،شرک کوئی ادب نہیں ہے۔ 3:مولانا اشرفؒ نے کہا ’’ تبلیغی جماعت میں وقت لگانے والا کہہ رہاتھا کہ میں نے چار ماہ میں وہ کمایا جوسید عبدالقادر جیلانی نے زندگی بھر میں نہیں کمایا، جو خواجہ معین الدین چشتی نے نہیں کمایا۔۔۔ ۔۔۔بڑے بڑے اولیاء اور علماء نے نہیں کمایا۔جب وہ یہ کہہ رہاتھا تو میں نے اس کو زبان سے کچھ نہیں کہا مگر دل میں سوچا کہ ان میں کسی نے اتنا تکبر نہیں کمایا جتنا تم نے کمایا‘‘۔ بس تبلیغی جماعت کو اس رویہ سے حاجی عثمانؒ روکتے رہے ہیں۔
ایک طرف انسان اپنی تدبیر کرتے ہیں اور دوسری طرف اللہ بھی اپنی تدبیر کرتاہے۔ جمعہ کے دن چھٹی تھی ، جمعرات کے دن تبلیغی جماعت کا شب جمعہ ہوتاتھا۔ حاجی عثمانؒ نے مریدوں کے اجتماع کیلئے اتوار کا دن رکھا، تاکہ مقابلہ کی بات نہ ہو۔ جمعہ کے دن مسجدنور جوبلی میں عوام سے وعظ ہوتا تھا جس میں لوگوں کو تبلیغی جماعت کی باقاعدہ دعوت دیتے تھے۔ پھر تبلیغی جماعت کے بعض افراد کی طرف سے غلط پروپیگنڈے کا نتیجہ تصادم کی صورت اختیار کرنے لگا تو حاجی عثمانؒ نے اعلان کردیا کہ اس کشمش سے بچنا ضروری ہے۔ جو تبلیغی جماعت ہی میں کام کرنا چاہے ، میری طرف سے مریدی کی بیعت توڑنے کی اجازت ہے اور میں ناراض نہ ہونگا تاکہ یکسوئی کیساتھ وہ وہاں اصلاح کا کام کرسکے۔ جو مرید بن کے رہے گا تو وہ وہاں نہیں جائیگا۔ میں کچھ لوگوں کو تیار کرکے رائیونڈ بھیج دوں گا تاکہ ان کو پتہ چلے کہ اصلاح کیسی ہوتی ہے۔ اس اعلان کے بعد کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو حاجی عثمانؒ کے بہت عقیدتمند مریدتھے مگر سخت مخالفت پر اُتر آئے۔ تبلیغی جماعت میں مخالف عناصر کو بڑا موقع ہاتھ آیا کہ حاجی عثمانؒ کے خلاف خوب کھل کرکھیل کھیلیں۔
اس سے پہلے حاجی عثمانؒ کے مریدوں طیب، جاوید اور ابراہیم نے 1500روپے سے مشترکہ چائے کا کیبن شروع کیا توحاجی عثمانؒ کی دعا سے کاروبار خوب چمک گیا،کچھ بیواؤں اور یتیموں کو بھی شریک کیا گیا توکاروبار میں مزید برکت ہوئی۔یہ دیکھ کر علماء ومفتیان نے بھی شرکت کی تمنا کردی۔ حاجی عثمانؒ نے کہا کہ علماء ومفتیان کی رہنمائی پر شرعی کاروبار کیا جائے اور کاروبار سے ملنے والے منافع کودین کیلئے وقف کرنے کی نیت کی جائے۔ ٹی، جے ، ابراہیم کے نام سے یہ مضاربہ کمپنی عوام وخواص میں بہت مقبول ہوئی۔ یہانتک کہ اس کاسودی نظام کے متبادل کے طور پر خواب دیکھا جانے لگا۔ تبلیغی جماعت نے اخبار میں اشتہار دیدیا کہ ’’ ہمارا اس کاروبار سے تعلق نہیں ‘‘۔ لیکن کراچی کے بڑے مدارس کے بڑے علماء ومفتیان بڑے پیمانے پر اس کیلئے کام کررہے تھے۔ جنکے نام پر کمپنی تھی ان کا بھی تبلیغی جماعت سے کوئی تعلق بھی نہ تھا۔
حاجی عثمانؒ نے اشتہار دیکھ کر حکم دیا کہ یہ کاروبار بند کردیا جائے، اسلئے کہ تبلیغی جماعت کی ناراضگی قبول نہ تھی اور کاروبار کیلئے سب اپنا اپنا راستہ ناپ سکتے تھے۔ یتیموں و بیواؤں کا اللہ رازق ہے ۔ علماء ومفتیان نے مشورہ دیا کہ تمہارا مرشد اللہ والا آدمی ہے، تبلیغی جماعت والے کون ہیں؟۔ نام کو بدل کر یہ کاروبار جاری رکھیں۔ چنانچہ کاروبار کا نام ’’الائنس موٹرز‘‘ رکھ دیا گیا۔ اللہ کا کرنا تھا کہ جب تبلیغی جماعت سے روکنے پر بعض تبلیغی عناصر نے زبردست پروپیگنڈہ شروع کیا تو علماء ومفتیان نے کھل کر حاجی عثمانؒ ہی کا ساتھ دیا۔ دارالعلوم کراچی اور مفتی رشید احمد لدھیانویؒ نے تبلیغی اکابر کی طرف سے کشتئ نوح قرار دینے وغیرہ پر بھی فتوے لگائے۔ مولانا حکیم اخترؒ نے 1986 ؁ء میں تبلیغی جماعت کے خلاف بنگلہ دیش میں تقریر کی تھی جو کتابی شکل میں شائع ہوچکی ہے۔جس میں تحریر ہے کہ علماء کرام حفظ کیساتھ تعلیم مکمل کرکے 13سال کا چلہ لگاتے ہیں، اگر تبلیغی یہ کہتے ہیں کہ اب اللہ کی راہ میں عملی طور سے نکلنا چاہیے تو یہ علماء کی توہین ہے اور اس پر کفر کا فتویٰ ہے۔ پھر اسی کتاب میں حکیم اختر ؒ نے خودبھی علماء کی توہین کی ہے۔ کہا کہ’’علماء بیعت ہوں میں شرماؤں گا بھی نہیں اور گھبراؤں گا بھی نہیں۔ قیمتی عطر کیلئے وہ بوتل نہیں لیا جاتا ، جس پر کتے بلی کی پوٹی لگی ہو‘‘۔حاجی عثمانؒ کی وجہ سے حکیم اخترؒ میں جرأت پیدا ہوئی تو علماء کی بجانے لگے۔
حکیم اختر ؒ باقاعدہ عالمِ دین نہ تھے اور حاجی عثمانؒ بھی عالم نہیں تھے۔ یہ فرق تھا کہ حاجی عثمانؒ ہر بات میں علماء کی رہنمائی ضروری سمجھتے تھے اور حکیم اختر خود ہی مولانا بن گئے تھے اور اس بنیادی وجہ سے حاجی عثمانؒ کے اندر کوئی ایسی بات نہ تھی جس کی وجہ سے ان پر گمراہی کا فتویٰ لگایا جاتا۔ حکیم اخترؒ کی اس کتاب میں ایک انتہائی گھناونی بات ہے، کسی جاہل کا شعر نقل کیاہے کہ ’’ اگر مجلس میں ایک بھی منافق ہو تو نبی کا فیض بھی نہیں پہنچتا ہے‘‘۔ حالانکہ نبیﷺ کے دور میں رئیس المنافقین اور منافقوں کی ایک فہرست موجود تھی۔ پشتو کے معروف عالم شاعر رحمان باباؒ نے پشتو میں ایک شعر کہاہے کہ’’ اگر علم کے بغیر فقیری (پیری مریدی) کروگے تواپنی کھوپڑی کو ہی آگ لگادوگے‘‘۔
اگرحضرت حاجی محمد عثمانؒ پر فتوؤں کی داستان سامنے لائی جائے تو علامہ اقبالؒ کے مشہور اشعار اس پر صادق آتے ہیں۔
اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خون صد ہزار سے ہوتی ہے سحر پیدا
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ کی ایک کتاب ’’عصر حدیث نبویﷺ کے آئینہ میں‘‘ عرصہ سے مارکیٹ میں دستیاب نہیں، اگر ناشر نے شائع نہ کی تو ہم اس کو بھی احادیث کے درست ترجمہ و مفہوم کیساتھ انشاء اللہ شائع کردینگے۔ کتاب کی حدیث نمبر4کا عنوان یہ ہے ’’ بدکاری عقلمندی کا نشان‘‘۔ عن ابی ھریرہؓ قال: قال رسول ﷺ یاتی علی الناس زمان یخیّر الرجل بین العجزوالفجور فمن ادرک ذٰلک الزمان فلیخیر العجز علی الفجور (مستدرک حاکم، کنزالعمال ج۱۴، ص۲۱۸)
ترجمہ:۔۔۔ ’’ لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا، جس میں آدمی کو مجبور کیا جائے گا کہ یا تو وہ احمق (ملا) کہلائے یا بدکاری کو اختیار کرے پس جو شخص یہ زمانہ پائے اُسے چاہیے کہ بدکاری اختیار کرنے کے بجائے ’’نکو‘‘ کہلانے کو پسند کرے‘‘۔
حدیث میں ایک طرف عجز اور دوسری طرف فجور کی بات ہے۔مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ نے کتاب پہلے لکھ دی تھی اور پھر جب علماء ومفتیان کی طرف سے بڑے دلیرانہ انداز طریقے سے الحاد، گمراہی ، زندقہ کے فتوے لگادئیے۔ پھر عقیدتمندوں کا آپس میں نکاح کرنے کو بھی ناجائز قرار دیا گیا اور لکھ دیاکہ اس نکاح کا انجام کیا ہوگا؟۔ عمر بھرکی حرامکاری اور اولادالزنا‘‘۔مگر مولانا یوسف لدھیانویؒ کو ان فتوؤں سے سخت اختلاف تھا۔ پھر بھی ان کی جانب بھی فتویٰ منسوب کیا گیا۔ انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ ’’ یہ سب مفتی رشیداحمد لدھیانوی کی خباثت تھی ، میں نے کوئی فتویٰ نہیں لکھا تھا، مفتی جمیل خان نے لکھ کر میری طرف منسوب کیا تھا‘‘۔ ہم نے عرض کیا کہ ’’ آپ اپنی طرف منسوب فتوے سے برأت کا اعلان کریں‘‘ تومولانا یوسف لدھیانوی کا کہنا تھا کہ ’’وہ مجبور اور معذور ہیں اسلئے یہ نہیں کرسکتے‘‘۔
حدیث کے الفاظ میں ایک طرف ان علماء ومفتیان کا چہرہ ہے جو طاقت اور پیسے کے نشے میں ایک مؤمن پر کفر گمراہی اور نکاح کی حرامکاری کے فتوے لگاکر فجور کے مرتکب تھے ، دوسری طرف مولانا یوسف لدھیانویؒ کے عاجز ہونے کی تصویرہے۔ حاجی عثمانؒ کی قبر پر بھی مولانا یوسف لدھیانویؒ جاتے رہے اور یہ بھی فرمایا تھا کہ امام مالکؒ کے خلاف فتوی دینے والوں کو جس طرح آج کوئی نہیں جانتا اور امام مالکؒ کو سب جانتے ہیں،اس طرح وقت آئیگا کہ حاجی عثمانؒ کا نام زندہ ہوگا اور مخالفت کرنے والے علماء ومفتیان کا تاریخ میں کوئی نام اور نشان نہ رہے گا۔
مجدد کا کام ہوتاہے کہ لوگوں میں دین کی تجدید کرے اور دین کی تجدید سے مراد ایمان کی تجدید ہے۔ کیفیت کے اعتبار سے ایمان میں اضافے کو تجدید کہہ سکتے ہیں۔ وقت کے مجدد تو ہمیشہ اہل اللہ رہے ہیں۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ وقت کے مجدد تھے اور اکابر دیوبند آپؒ کے مرید۔ سید احمدبریلوی ہی مجدد تھے اور شاہ اسماعیل شہید انکے مرید، حضرت شاہ ولی اللہؒ کے والد شاہ عبدالرحیم مجدد تھے ۔شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانیؒ کے پیر حضرت خواجہ باقی باللہؒ ہی دراصل مجدد تھے۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے تقلید کی باگیں ڈھیلی کردیں ۔ شاہ اسماعیل شہید نے تقلید پر وار کردیا، پہلے علماء دیوبند حامی تھے، پھر مولانا احمدرضا خان بریلویؒ نے ان پر ’’حسام الحرمین‘‘ سے وار کردیا اور پیچھے دھکیل دیا۔ وضاحت کیلئے المہند علی المفند (عقائد علماء دیوبند) کتاب لکھ دی۔قرآن وسنت کا احیاء نہیں ہوسکا تھا۔
آج دیوبندی بریلوی اتحاد،اتفاق اور وحدت کی فکر پیدا ہوگئی ہے۔مجدد اولیاء عظام کے مریدعلماء کرام کی تاریخ موجود ہے جنہوں نے حدیث کے مطابق ہمیشہ دین میں غلو کرنیوالوں اور دین کو باطل قرار دینے کا اپنے اپنے وقت میں بڑازبردست مقابلہ کیا۔ عمر بن عبدالعزیز ؒ سے سید عبدالقادر جیلانیؒ ،عبدالحق محدث دہلویؒ ، مجدد الف ثانیؒ ، شاہ ولی اللہؒ ، حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ اور حاجی محمد عثمانؒ تک اہل حق کا ایک سلسلہ موجود ہے ۔شاہ ولی اللہؒ نے قرآن کا ترجمہ کیا تو واجب القتل کے فتوؤں سے2 سال تک روپوش رہنا پڑا۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ نے مالٹاکی قید سے رہائی کے بعد اُمہ کے زوال کے 2اسباب قرار دئیے۔ ایک قرآن سے دوری ، دوسرا فرقہ واریت۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیعؒ نے لکھ دیا کہ قرآن سے دوری ہی فرقہ واریت کی بنیاد ہے، لہٰذا دراصل اُمہ کے زوال کاایک ہی سبب ہے۔اللہ نے قرآن میں بھی قیامت کے حوالہ سے نبیﷺ کی یہ شکایت بتادی ہے وقال الرسول رب ان قومی اتخذوا ہذالقرآن مھجورا ’’رسول کہے گا کہ اے میرے رب! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا‘‘۔ (القرآن)۔
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیعؒ نے مولانا انورشاہ کشمیریؒ کا لکھا کہ فرمایا:’’ میں نے ساری زندگی ضائع کردی‘‘ ہم نے عرض کیا کہ ’’ حضرت آپ نے ساری زندگی قرآن وحدیث کی خدمت کی، ضائع نہیں کی ‘‘۔ مولانا کشمیریؒ نے فرمایا:’’ میں نے قرآن وسنت کی کوئی خدمت نہیں کی بلکہ فقہی مسلک کی وکالت کی ہے اور اس کا کوئی فائدہ نہیں ‘‘۔ شیخ الہندؒ کے اکثر شاگرد بہت ممتاز تھے، مولانا اشرف علی تھانویؒ ، مولانا عبیداللہ سندھیؒ ، مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہؒ ، مولانا حسین احمد مدنیؒ ، مولانا شبیر احمد عثمانیؒ ، مولانا الیاس ؒ ، مولاناحفظ الرحمن سیوہاویؒ ، مولانا پیرمبارک شاہ گیلانیؒ ، مولانا خیل احمد انبیٹویؒ وغیرہ وغیرہ۔
جب میں ساتویں جماعت میں تھا تو پیرمبارک شاہ گیلانیؒ سے کانیگرم میں ملاقات ہوئی، معلوم تھا کہ دارالعلوم دیوبندکے فاضل ہیں، مجھ سے پوچھا کہ کیا بننے کا ارادہ ہے۔میں نے کہا کہ دارلعلوم دیوبند کا فاضل بننا چاہتا ہوں۔ مجھے آپکے چہرے پر توقع کے خلاف خوشی کے آثار نظر نہیں آئے۔ مجھے ہر نمازکے بعد 10مرتبہ درود شریف پڑھنے کے وظیفے کی تلقین بھی کردی۔
پیرمبارک شاہؒ نے 1923 ؁ء میں نوراسلام پبلک سکول کھولا تھا جو کانیگرم جنوبی وزیرستان میں پاکستان بننے کے بعد حکومت کو حوالہ کیا گیا تھا۔ جس میں رہنے کیلئے ہاسٹل بھی تھا اور گومل یونیورسٹی میں ڈیرہ اسماعیل خان میں جدید تعلیم کے حوالہ سے پیرمبارک شاہ گیلانیؒ کا دن منایا جاتاہے۔مولانا سندھیؒ زندگی بھر مولانا اشرف علی تھانویؒ ، مولانا انور شاہ کشمیریؒ ، مفتی کفایت اللہ ؒ اور مولانا حسین احمد مدنیؒ سے لڑتے رہے کہ درسِ نظامی اور فقہی مسلکوں کو چھوڑ کر قرآن کی طرف دعوت دی جائے مگروہ لوگ کہتے رہے کہ امام مہدی جب آئیگا تو اصلاح کا کام کرلے گا۔ مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے لکھ دیا کہ’’ آپ استاذ کی بات نہیں مان رہے ہو تو امام مہدی آئیں گے تو بھی مخالفین کی صفوں میں تم لوگ کھڑے ہوگئے‘‘۔
حضرت حاجی محمد عثمانؒ کے حلقہ ارادت میں بڑے علماء و مفتیان، فوجی افسران، پولیس افسر، سعودی عرب مدینہ اور شام وغیرہ سے تعلق رکھنے والے عرب بھی شامل تھے۔ آپ نے کہا تھا کہ ’’میرے کالے بال والے مرید امام مہدی کو دیکھ لیں گے اور میرے حلقے والے اس میں اپنا کردار ادا کرینگے۔ خانقاہ بھی امام مہدی کے حوالے ہوگی‘‘۔ جن لوگوں نے مشاہدات دیکھے تھے ان کو مشاہدات کھلے عام بیان کرنے کی اجازت دی گئی۔ ایک مرید نے بتایا کہ’’ شیخ الہندؒ نے مولانا الیاسؒ کو تاج دیا جو حاجی عثمانؒ کے سر پر رکھ دیا‘‘۔ تبلیغی جماعت کی وجہ سے مدارس آباد ہوگئے ہیں لیکن مدارس میں قرآن وسنت کے بجائے ایسی تعلیم دی جارہی ہے جس کو زندگی ضائع کرنے کے برابرہی کہا جاسکتاہے۔ حضرت حاجی محمد عثمانؒ کا پروگرام تھا کہ مدرسہ کو جدید خطوط پر استوار کیا جائیگا۔ فٹ بال وغیرہ کا کھیل بھی رکھا جائیگا۔ مدرسہ، مسجد، خانقاہ، خدمت گاہ اور یتیم خانہ کے نام ہی مسلم اُمہ کے جوڑ کیلئے رکھے گئے تھے۔
حاجی امداداللہ مہاجر مکیؒ کے مریدوں میں اختلا فات تھے اور آپ نے فیصلہ ہفت مسئلہ لکھ کرامت مسلمہ کے اختلافات ختم کرنے کی کوشش فرمائی۔مگر وہ پھر بھی اس قدر زوال کا دور نہیں تھا۔ حاجی عثمانؒ کے دوست علماء ومفتیان، مرید خلفاء و عوام اور ہمدردوں کی ہمدردیاں بھی عجیب تھیں۔ ڈاکٹر شکیل اوج شہیدؒ نے مجھے بتایا کہ ایک مرتبہ حاجی عثمانؒ کی صحبت میں بیٹھنے کا موقع ملا اور مصافحہ کرنے کی سعادت مل گئی۔ میرے مشکوٰۃ کے استاذ مولانا انیس الرحمن درخواستی شہیدؒ علماء ومفتیان کا فتویٰ لگنے کے بعد بیعت ہوگئے تھے۔ یہ داستان بھی لکھنے کے قابل ہے۔
مجدد ایمان کی تجدید کیسے کرتاہے۔ بس انسان کا حدیث کے مطابق وہ حال ہوجاتا ہے کہ گویا اللہ کو وہ دیکھ رہاہے اور یہ نہیں تو کیفیت یہ بن جاتی ہے کہ اللہ اس کو دیکھ رہاہے۔ احسان کا یہ درجہ مجدد کی صحبت سے بہت جلد مل جاتاہے۔جب حضرت حاجی محمد عثمانؒ کی مقبولیت ، عظمت اور توقیر کو لوگوں نے دیکھ لیا تو جو علماء ومفتیان پیر نہ بھی تھے مگرپیری کا لبادہ اُوڑھ بیٹھے ۔ جب میں نے بنوری ٹاؤن میں داخلہ لیا تو پیری مریدی کو توجہ دلانے کا باعث بن گیا۔ جب گھر میں بھابھی، مامی اور ماموں زاد اور خالہ زاد سے شرعی پردہ شروع کیا تو بھائی حیران تھے کہ کسی سے یہ پردہ نہیں سنا ہے مگر علماء نے تصدیق کردی کہ شریعت یہی ہے اور پھر ہمارے بڑوں کو میرے آگے بے بس ہونا پڑا تھا۔
مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے لکھاہے کہ معاشرے میں صرف نمائشی پردہ ہے جس سے قوم لوطؑ کے عمل میں لوگ مبتلا ہیں، اگر شریعت کی بات ہو تو شرفاء کے خاندانوں میں بھی شرعی پردے کا کوئی تصور نہیں ہے۔ آپؒ رسمی پردہ بھی ختم کرنا چاہتے تھے۔
ہم نے دین اس کو سمجھا جو علماء کی کتابوں میں تھا اور سب کا یہ حال عرصہ سے تھا۔ دین پر عمل کرنا اسلئے ہاتھ میں انگارے پکڑنے کی طرح سخت لگتاتھامگر حقائق بہت مسخ کئے گئے تھے ۔ اللہ نے قرآن میں پردے کے احکام کی سورۂ نور میں بہت واضح تفصیل سے بتادی ۔ پھر بتایا کہ ’’ اندھے پر حرج نہیں، نہ پاؤں سے معذورپر حرج اور نہ مریض پر حرج اور نہ خود تم پر حرج کہ کھاؤ اپنے گھروں سے یا اپنے باپ کے گھر وں سے،یااپنی ماؤں کے گھروں سے یااپنے بھائیوں کے گھروں،یا اپنی بہنوں کے گھر وں سے،یااپنے چاچوں کے گھروں سے یااپنے پھوپھیوں کے گھروں سے یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے یا جن کی کنجیاں تمہارے ہاتھ میں ہوں یااپنے دوستوں کے گھروں سے اور اس میں کوئی حرج نہیں کہ سب مل کر کھاؤ یا الگ الگ۔ اور جب تم گھروں داخل ہو جایا کرو،تو خود سے سلام کیا کرو، یہ اللہ کی طرف سے آداب بجالانے کا مبارک اور پاکیزہ طریقہ ہے۔ اس طرح اللہ اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کرتاہے‘‘۔
ان آیات میں شرعی پردے کا جو تصور بیان کیا گیاہے وہ مذہبی شدت اور فقہی جنون کا علاج کرنے کیلئے بہت کافی ہے۔ سارے رشتہ داروں کے علاوہ اندھے، لنگڑے اور مریض کیلئے بھی گھروں میں کھانے کے حوالے سے خصوصی گنجائش رکھ دی گئی ہے کیونکہ اجنبی افراد کسی کوگھر میں کھانا کھاتے نظر آئیں تو شکوک وشبہات جنم لے سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ پردے کے حوالے سے روشن تصور دنیا کے کسی خطے اور قوم میں ممکن بھی نہیں ہے۔ عام طور سے لوگ یہی کرتے ہیں جو قرآن میں لکھ دیا گیا مگر وہ دین فطرت کی تعلیم سے واقف بھی نہیں ہوتے۔ مذہبی طبقے کی جہالت کو داد اسلئے دینی چاہیے کہ ان کا جذبہ درست تھا اور ہم خود بھی نیک نیتی سے اسکے شکار بن گئے تھے۔
مجدد وقت حضرت حاجی محمد عثمانؒ نے ایمان کی تجدید نہیں کی ہوتی تو ہم شرعی پردے کی جھنجٹ میں بھی نہ پڑتے۔ اب ہمارا فرض ہے کہ درست راستہ مل جائے توخود کو غلط پگڈنڈیوں پر لگائے رکھنے کے بجائے اسی کو اپنالیں۔ ہر نماز کی ہر رکعت میں اللہ سے صراط مستقیم کی دعا مانگتے ہیں اور جب سیدھی راہ مل جائے تو اس پر عمل کرنا بھی شروع کردیں۔ تصویر، طلاق اور شرعی پردے کے علاوہ بہت سارے معاملات میں جو ہم نے حل کردئیے ہیں مگر اس میں ہمارا نہیں بلکہ قرآن وسنت کا کمال ہے ۔ اللہ نے فرمایا کہ ’’ جو میرے احکام میں جدوجہد کرتے ہیں ان کیلئے ضرور بضرور راستے کھول دینگے‘‘۔ حاجی محمد عثمانؒ کی ایک تقریر کا آغاز اسی آیت سے تھا۔ ہمیں موقع ملا توانشاء اللہ اپنے مرکز سے قرآن وسنت، دین ودنیا کے حسین امتزاج کا وہ تعلیمی نصاب متعارف کرائیں گے جس سے ایک بڑا انقلاب برپا ہوگا۔ مدارس کے طلبہ واساتذہ میں صلاحیت کی خوشبو آئے گی۔ مولانا آزادؒ وزیرتعلیم تھے تو علماء سے فرمایا کہ ’’ شکایت ہے کہ علماء میں استعداد نہیں، حالانکہ نصاب تعلیم ہی کوڑھ دماغ بنانے کیلئے کافی ہے، جو ان کتابوں پر مشتمل ہے جو زوال کے دور ساتویں صدی ہجری میں لکھی گئی ہیں‘‘۔ مفتی شفیعؒ نے کہاتھا کہ ’’ عرصہ سے مدارس بانجھ ہیں جو مولوی پیدا نہیں کررہے‘‘۔ نصاب ٹھیک ہوگا تو مدارس بانجھ نہیں رہیں گے ۔سید عتیق گیلانی

مرزا غلام احمد قادیانی اور تبلیغی جماعت کے بانی میں بہت فرق تھا

mirza-ghulam-ahmad-qadiani-aur-tablighi-jamaat-k-baani-mein-boht-farq-thha

غلام احمد قادیانی نے شاہ اسماعیل شہیدکی کتابیں’’منصبِ امامت‘‘اور ’’الاربعین فی احوال المہدیین‘‘سے امام و مہدی اور مجدد کا دعوی کیا ۔منصب امامت کے ترجمہ پر مولانامحمد یوسف بنوریؒ کامقدمہ موجود ہے ۔ تلاش کے باجود ’’احوال المہدیین‘‘ کا سراغ نہیں ملا۔ نیٹ پر قادیانیوں کے مرکزربوہ سے شاہ اسماعیل شہید کی کتاب کا عکس دیا گیاہے۔ کتاب کی چند سطریں پڑھنے سے معلوم ہوا کہ عجمی سازش سے عربی لکھ دی گئی ہے۔کتاب کی اصل تو صفحۂ ہستی سے غائب ہے ، نقل بھی موجود نہیں۔اس کتاب میں مشہور بزرگ شاہ نعمت اللہ ولی کی پیش گوئیاں بھی ہیں۔ جس کا ایک شعر یہ ہے کہ ’’ اس شخصیت میں مہدی اور مسیح دونوں جھلک رہے ہونگے‘‘۔
شاہ نعمت اللہ کی پیش گوئیاں دستیاب ہیں۔ یہ شعر بھی اس میں موجود ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے اس شعر کی بنیاد پر دعویٰ کیا تھا کہ وہ مہدی ومسیح ہے۔ بعض علماء نے فتویٰ دیا کہ ہندوستان دارالحرب ہے، جو ہجرت نہ کریگا، کافرہو گا اور بیوی بھی طلاق ہو گی۔ بانی خدائی خدمتگار عبدالغفار خان نے لکھاکہ ’’ ہم نے طلاق کے خوف سے ہی افغانستان ہجرت کی تو بیگمات آگے بھاگ رہی تھیں‘‘۔ ہجرت ناکام ہوئی تو طلاق کا فتویٰ زیر بحث آیا اور انگریز کے تسلط میں جہاد کرنا مشکل تھا۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجرؒ کے زیرِ امامت علماء نے جہاد کا ارادہ کیا مگر نہیں کرسکے ۔دارالعلوم دیوبندسے اسلامی علوم کی حفاظت کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوا۔ پہلے علماء کی سرپرستی حکمران کرتے تھے۔ اکبر بادشاہ کے دربار میں ہندوستان کے مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی نے کلمۂ حق بلند کیا، قبائلی علاقہ کانیگرم جنوبی وزیرستان کے بایزید انصاری عرف پیرروشان نے اکبر بادشاہ کے خلاف باقاعدہ جہاد کیا اور اپنے بیٹوں سمیت افغانی قبائلی علاقے جلال آباد میں 1601ء میں شہید ہوگئے۔ مغلوں سے بغاوت کا جذبہ انگریز کے خلاف جہاد کرنے میں بھی کام آیا۔ پاکستان کیلئے عملی جہاد قبائلی علاقوں سے ہوا۔
پاکستان کی آزادی کے بعد 1948ء میں آرمی چیف انگریزاور وزیراعظم کے خواہشمند نوابزادہ لیاقت علی خان کی کشمیر سے دلچسپی نہیں تھی تو قائداعظم محمد علی جناح نے قبائل سے کہا کہ ’’تم کشمیر کی آزادی کیلئے آؤ‘‘۔ بیگم راعنا لیاقت علی خان ہندو تھی۔ قبائل نے سرینگر تک کشمیر فتح کیا تھا۔ جیسے کلبھوشن کو بچانے کیلئے عالمی عدالت میں کیس لیجایا گیا، ویسے کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ کو حوالہ کردیا ،جماعت اسلامی کے مولانا مودودی نے فتویٰ دیا کہ ’’کشمیر میں جہاد نہیں ہورہاہے بلکہ کٹ مررہے ہیں ‘‘۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ مسلم لیگ کے مخالف و جمعیت علماء ہند کے حامی مگر فتویٰ دیا کہ ’’کشمیر میں شرعی جہاد ہے، اگرمولانا حسین احمد مدنی سے بھی کشمیر پر سامنا ہوا تو انکے احترام کے باوجود انکے سینے میں گولیاں اتار دوں گا‘‘۔ میرے خاندان کے پیرمحمد امین شاہ نے کشمیر کے جہاد میں حصہ لیا، جو وزیرستان سے تبلیغی جماعت کے پہلے فرد تھے۔ کانیگرم و علاقہ گومل کے اکثرپڑوسی تبلیغی جماعت کے خلاف تھے۔ مفتی کفایت اللہ مفتی اعظم ہند نے ’’سنت کے بعد دعا بدعت ‘‘پر کتاب لکھی۔ مولانا شاد زمان عرف مولوی شاداجان نے سنت کے بعد دعا کو بدعت کہا تو وہاں کے مشہور علمی گھرانے کے سربراہ مولانا محمد زمان نے ان پر قادیانیت کا فتویٰ لگایا۔ میرے والد انکے ساتھ کھڑے تھے۔ ہماری مسجد میں مناظرے کا اہتمام ہوا، نتیجہ فارسی میں سنایا گیا، دونوں طرف کے حامیوں نے ڈھول کی تھاپ پراپنی اپنی فتح کا جشن منایا۔ عمائدین میں مشہور شخصیت حاجی میرول خان مرحوم آخرتک تبلیغی جماعت کے سخت مخالف تھے۔ ہماری مسجد کو ’’ درس‘‘ اسلئے کہا جاتا کہ یہاں طلبہ علم سے استفادہ کرنے آتے ۔ مفتی محمود مفتی اعظم کہتے تھے کہ ’’ پٹھان مسلکاً دیوبندی اور طبعاً بریلوی ہوتے ہیں‘‘۔ سنت کے بعد دعا کو لازم کہا جاتا اور آذان میں صلوٰۃ و سلام نہیں پڑھی جاتی۔ سہراب گوٹھ میں جنت گل کی مسجد میں یہ حال اور میرا کردار تھا۔
انگریز ی دور میں مرزا غلام احمد قادیانی نے جہاد کو منسوخ کرنے فتویٰ دیا، علامہ اقبال نے مجذوب فرنگی قرار دیتے ہوئے کہا کہ’’ اس کا یہ فتویٰ بے اثر ہے۔ مہدی کے بدنام تخیل سے مایوس نہیں ہونا چاہیے‘‘۔ پاکستان بنا تو فوج پر مرزائیوں کا تسلط قائم ہوا۔ جہاد کو منسوخ قرار دینے والوں کی گرفت سے کشمیر کے بعد مشرقی پاکستان بھی گیا، ذوالفقار علی بھٹو نے قادیانی طاقت سے جان چھڑانے کیلئے کافر قرار دینے کی چھوٹ دیدی تو وہ لوگ بھی میدان آئے جو قادیانیوں کیساتھ مل کرختم نبوت سے تعاون نہ کرتے تھے۔ شورش کاشمیری ذوالفقار علی بھٹو کا سخت ترین مخالف تھا مگر قادیانیوں کو آئینی کافر قرار دینے پر بھٹو کی عظمت کو سلام کرنے لگا۔
چند سال پہلے اردو ڈائجسٹ میں دیوبند ی بزرگوں پاکستان و ہندوستان کے شیخ الاسلام کا مکالمہ شائع ہوا۔’’ کانگریس کے حامی نے کہا کہ مسلم لیگ کی حمایت انگریز سرکار کرتی ہے اور مسلم لیگ کے حامی عالمِ دین نے جواب دیا کہ انگریزسرکار تبلیغی جماعت کی بھی حمایت کر رہی ہے تو کیا اس وجہ سے تبلیغی جماعت کا کام غلط قرار دیا جائے؟‘‘۔ تبلیغی جماعت عملی جہادنہیں کررہی تھی مگر جہاد کو منسوخ نہ سمجھ رہی تھی۔ جب روس کیخلاف افغانستان میں جہاد کا سلسلہ جاری تھا تو قبائل، پٹھانوں اور تبلیغی جماعت نے اس میں کوئی حصہ نہیں لیا۔ جب نصیراللہ بابر نے امریکہ کے کہنے پر طالبان کی حکومت قائم کردی تو تبلیغی جماعت افغانستان جاتی تھی ، میرے دوست مولانا دین محمد گئے تھے اور یہ شکایت کی تھی کہ افغانستان میں کھلے عام مزارات پر شرک ہورہاہے۔تبلیغیوں کی نگاہیں نظام پر نہیں مسلک اور عقیدے پر تھیں، بعض لوگ ملا عمر کو خراسان کے مہدی سمجھتے تھے مگر جب امریکہ نے اسامہ کا بہانہ بناکر حملہ کیا تو طالبان کی مزاحمتی تحریک کو جہاد کہنے میں کسی کو شبہ نہیں رہاتھا، خود امریکہ بھی اسکا قائل تھا۔ تبلیغی جماعت نے اس قبولیت عامہ میں جہاد کا ساتھ دیا۔ طالبان اور تبلیغی بزرگ شیر وشکر ہوگئے۔ جرائم پیشہ عناصر جہاد میں جانے سے پہلے حلیہ بدلنے کیلئے رائیونڈ کا رخ کرتے تھے اور پھر داڑھی کیساتھ چوتڑ تک عورتوں کی طرح بال بھی رکھتے تھے۔ بد کاری و بے حیائی کے حدود پار کئے بغیرکوئی شریف یہ حلیہ اختیار نہیں کرسکتا تھا۔ جرائم پیشہ لوگوں نے جہاد کو خوب بدنام کیا اور بہت شریف بھی اسکی نذر ہوگئے۔
سلیم صافی نے جیو پر مولانا طارق جمیل سے خود کش حملوں کیخلاف جملہ کہلانے کی کوشش کی مولانا نے کہاکہ ’’ہماری راہیں جدا ہیں، منزل ایک ہے‘‘۔اب مولانا طارق جمیل نے بوہرہ داؤدی کے سربراہ سے پرجوش ملاقات کی ہے اور یہ معمولی بات ہے مگر جب پاکستان پر جہاد کا معاملہ آرہاہے تو میرے بیٹے محمدعمرنے بتایا کہ ’’کمپنی کا ملازم کہتا ہے کہ کشمیر اور ہندوستان کی لڑائی وطن کیلئے ہے جو جہاد نہیں، چاچا فوج میں ہیں اور ماموں مولوی ہیں‘‘۔ مدارس تک میں دہشتگردی ہورہی تھی تو مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی نے اس کو خلافِ اسلام قرار نہ دیا اور اب امریکہ اور انڈیا نے حملہ کیا تو یہ فتویٰ کہ ’’پاکستان کی طرف سے مدافعت جہاد نہیں ایک سازش ، جہالت اور بے غیرتی ہے‘‘۔
صلح حدیبیہ میں مسلمانوں کا حلیف قبیلہ بنو خزاعہ کافر تھا لیکن مشرکینِ مکہ نے بنوبکر کی مدد کرتے ہوئے بنوخزاعہ کو نقصان پہنچایا توصلح حدیبیہ کا معاہدہ بھی نبیﷺ نے توڑ کر مکہ کو فتح کرلیا۔ اگر برما کے بدھ مت پاکستان کو حلیف بنالیں اور بنگلہ دیش کے مسلمان یا بھارت کے ہندو برماکے بدھ مت پر حملہ آور ہوں تو یہ فرض ہوگا کہ ’’ہم برما کے بدھ مت کی مدد کریں‘‘۔
اقوام متحدہ نے سوڈان کے ٹکڑے کردئیے اور عراق کے کردستان میں ریفرینڈم کرادیا مگر 70 سال سے کشمیریوں کو حق سے محروم رکھا۔ کیا یہ انصاف ہے لیکن جب تک اقوام متحدہ کا خاتمہ نہیں ہوجاتا یا ہم اسکے معاہدے سے باہر نہیں نکلتے ، ہم اسکی تابعداری کے پابند ہیں۔ نبیﷺ نے جاہلیت کے’’ حلف افضول‘‘ کی تعریف میں فرمایا: ’’ مجھے سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ پسند ہے کہ میں اس میں شامل تھا‘‘۔
اسلام امن و سلامتی کا دین ہے، فتنے فساد کو رفع دفع کرتاہے مگر ظالم کے آگے لیٹنے کی تعلیم بھی نہیں دیتا۔ پاکستان ایک ریاست نہیں بلکہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا مرکز بھی ہے۔پاکستان کا مستقبل روشن بنانے کیلئے کوشش کی ضرورت ہے۔ ملاعمر مجاہد جس سازش کا شکار ہوا، وہ سمجھ سے بالاتر تھی۔ ایک ملا، مولوی اور مولانا کو آج دنیا کے اختیارات مل جائیں تو اسلام کا نفاذ اسکے بس میں نہ ہوگا اور یہ اسلئے نہیں کہ اسلام کاروبار بن گیا بلکہ اسلئے کہ اسلام اجنبی ہے۔ خلافت راشدہ کا آخری دور حضرت عمرؓ کے بعد فتنوں کا دور تھا۔ نبیﷺ کے خانوادہ کو اقتدار نہ دیا گیا لیکن بنی امیہ کے یزید اور بنی عباس وبنی فاطمہ کے بعد خلافت عثمانیہ اور مغل سلطنت خاندانی بنیاد پر رہی۔ علماء رکاوٹ نہ بن جائیں ، تبلیغی جماعت کے کارندے مثبت کردار ادا کریں تو پاکستان میں کب کااسلامی انقلاب آچکا ہے۔ بس حقائق کو قبول کرناپڑیگا ، ورنہ افراتفری پھیل گئی تو کوئی بھی کسی کی بات نہ سنے گا۔ امن کی فضاء سے فائدہ اٹھائیں۔
تبلیغی جماعت کے اکابر ، بزرگ اور علماء کا کردار اس وقت اہمیت اختیار کریگا کہ جب یہ اللہ کے احکام اور نبیﷺ کے طریقے کا ایک معاشرتی نظام اپنے کارکنوں اورعوام کو دیں۔

اہلسنت کے نظریۂ خلافت اوراہل تشیع کے عقیدۂ امامت کا فرق

ahl-e-sunnat-k-nazaria-e-khilafat-aur-ahle-tashi-k-aqeeda-e-imamat-ka-farq

درسِ نظامی کی کتاب ’’ شرح العقائد‘‘ میں ہے کہ ’’خلافت کا قیام واجب ہے ، سنی کے نزدیک خلیفہ کا تقرر مخلوق پر واجب ہے ، شیعہ کے نزد خلیفہ کا تقرر اللہ پر واجب ہے۔ درست عقیدہ ہے کہ اللہ پر کوئی واجب نہیں ۔ شیعہ کا عقیدہ غلط ہے کہ اللہ پر کوئی بات واجب ہے‘‘
علم الکلام کا دوسرا نام علم العقائد ہے جس کا تعلق فلسفہ سے ہے۔ امام ابوحنیفہؒ نے جوانی اس میں کھپادی ،آخر توبہ کی ،اس کو گمراہی قرار دیکر فقہ کی طرف توجہ کی۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمود بڑے قابل عالمِ دین تھے، مگر انہوں نے زیادہ تر توجہ سیاست کی طرف دی۔ شرح العقائداور دیگر چند کتابوں کے بارے میں وہ کہتے تھے کہ یہ شیعہ کی سازش ہے، ان کو اپنے نصاب سے الگ کرنے کی ضرورت ہے۔
اصول فقہ میں قرآن کی تعریف علم العقائد سے پڑھائی جاتی ہے۔ جس میں قرآن کی تحریر کومحض نقش قرار دیا گیاہے جو الفاظ ہیں اور نہ معنیٰ۔ حالانکہ قرآن کی بہت سی آیات سے یہ ثابت ہے کہ قلم کے ذریعہ علم، جو سطروں میں ہے ، جو ہاتھ سے لکھی جاتی ہے، یہ کتاب ہے، جاہل مشرک بھی سمجھتے تھے کہ جو صبح شام لکھوائی جاتی ہے یہ کتاب ہے۔ ایک بچہ، ان پڑھ اور جاہل بھی کتاب کی کتابت کا انکار نہیں کرسکتا۔
علم العقائد کی گمراہی میں حقائق کی شکل مسخ کی گئی ہے اسلئے امام ابوحنیفہؒ نے اس سے توبہ کی مگر اہل تشیع کے بڑے لوگوں نے مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کو باقی رکھا اور اپنے نادان علماء ومفتیان بھی اس کا شکار ہوگئے۔ یہ حقیقت ہے کہ درباری علماء ومفتیان کا ہر دور میں راج رہا ہے جن کی وجہ سے اسلام اجنبی بنتا چلا گیا۔ قادیانیوں کیخلاف تحریک چل رہی تھی تو جب پاکستان کی ریاست نے نہیں چاہا کہ مرزائیوں پر کفر کا فتویٰ لگے تو ہماری عدالت و حکومت نے ’’ختم نبوت زندہ باد‘‘ کے نعرے پر پابندی لگادی۔ آج ریاست کا من چاہے تو مولویوں کو کھڑا کرکے آغا خانیوں پر نہ صرف کفر کے فتوے لگادے بلکہ انکے ہسپتال ، تعلیمی اداروں اور آبادیوں کا بھی بیڑہ غرق کردے۔
قادیانیوں پر کفر کا فتویٰ لگانا ریاست کا موڈ نہ تھا تو ختم نبوت کی تحریک پر مشکلات کا سامنا تھا۔ مولانا عبدالستارخان نیازی نے داڑھی مونڈھ ڈالی ، مفتی محمد شفیع مفتی اعظم پاکستان ، مولانا احتشام الحق تھانوی درپردہ قادیانیوں کیساتھ تھے، تاریخ کے اوراق مٹ نہیں سکتے، ذوالفقار علی بھٹو نے قادیانیوں کی کم تعداد کے باجود فوج میں انکی طاقت سے جان چھڑانے کیلئے تحریک ختم نبوت کو آزاد ی دی۔ تو قادیانی کافر قرار دئیے گئے۔ بھٹو کا تختہ الٹنے میں فوج کے اندرقادیانی اور باہر سے تحریک نظام مصطفی کے قادیانی ائر مارشل اصغر خان نے بڑا کردار ادا کیا اور جنرل ضیاء نے مرزائیوں سے مراسم بنانے کیلئے اعجازالحق کی شادی مشہور قادیانی جنرل رحیم کی بیٹی سے کرادی۔ مفتی تقی عثمانی نے اس کا نکاح پڑھانے کیلئے اپنے مرشد اور مولانا اشرف علی تھانوی کے خلیفہ ڈاکٹر عبدالحی کو استعمال کیا جس پرہمارے استاذ جمعیت علماء اسلام کراچی کے امیر مولانا شیر محمد بہت برہم تھے۔ اگرریاست کی طرف سے اشارہ یا پیسہ ملتا تو شیعہ کیخلاف مفتی تقی عثمانی دوسروں کا ساتھ دیتے، جیسے حاجی عثمانؒ پر فتویٰ لگایا تھا۔
قرآن کیخلاف شیعہ سنی کتابوں میں موجود تمام مواد کی نشاندہی کرکے فرقہ واریت کی سازش کو ناکام بنایا جاسکتاہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی نبی و مہدی تو دور کی بات، قابل مولوی بھی ہوتا تو درسِ نظامی کی خامیوں کی نشاندہی کرتا۔ مولوی نصاب ٹھیک کریں تو قادیانیوں کی بھی آنکھ کھول دینگے اور انکے مربی توبہ کرکے حقائق کوقبول کرینگے۔ شیعہ مخمصے سے نکلیں گے کہ قرآن کو درست مانیں یا نہیں؟ بریلوی بھی علامہ انور شاہ کشمیری کی قرآن کے بارے میں تحریف کے عقیدے کی رٹ کوچھوڑ کر خود راہِ راست پر آئینگے اور دیوبند کے علماء بھی بدترین منافقانہ فضاؤں سے نکل آئینگے۔
شیعہ کہتے ہیں کہ جیسے اللہ انبیاء کو مبعوث کرتاہے،ویسے ائمہ مبعوث کرتا ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ ’’میں زمین میں خلیفہ بنانیوالا ہوں‘‘۔ اللہ نے آدم ؑ کونبی و خلیفہ بنایا۔ بعثت کے لفظ سے نبوت ورسالت کا ہونا لازم نہیں آتا۔ قابیل نے بھائی کو قتل کردیا تو اللہ نے فرمایا : فبعث اللہ غرابا’’ اللہ نے کوا بھیج دیا‘‘۔ بعثت سے کوا نبی نہ بنا۔ ابراہیمؑ سے فرمایا: ’’میں تجھے لوگوں کا امام بناؤں گا۔ عرض کیا کہ میری اولاد میں سے بھی۔ فرمایا : میرا وعدہ ظالموں کو نہ پہنچے گا‘‘۔مفسرین نے لکھا ہے کہ ’’اللہ نے جن الفاظ میں جواب دیا ، یہ دعا کی قبولیت ہے اور جب تک نبوت کا سلسلہ جاری رہا اللہ نے بنی اسرائیل اور پھر آخر میں حضرت محمدﷺ کی بعثت سے یہ وعدہ پورا کردیا۔ نبوت کا سلسلہ ختم ہوا تو قریش کیساتھ قیامت تک وعدہ ہے‘‘۔صحیح مسلم کی کتاب الامارۃ اور صحیح بخاری کی کتاب الفتن میں نبیﷺ کی حدیث ہے کہ قیامت تک ائمہ قریش میں سے ہونگے چاہے 2 آدمی باقی ہوں۔
خلافت راشدہ کے بعدبنو امیہ وبنوعباس تک خلافت قریش میں رہی اور خلافت عثمانیہ کے ترک خلفاء قریش نہ تھے۔ شیعہ مکتب کا کہنا ہے کہ عثمانی خلفاء کی طرح جو قابض بنوامیہ و بنوعباس خاندان تھے وہ شرعی خلفاء نہ تھے۔ بریلوی مکتب کے اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی نے خلافت عثمانیہ کی غیر قریشی خلفاء کو غیر شرعی قرار دیا تھا۔
جنرل ضیاء دور میں سید جمال الدین کاظمی نے دیوبندی بریلوی مشہور مدارس سے خلیفہ کی تقرری پر فتویٰ مانگا تھا تو دیوبندیوں نے جواب دینے سے گریز کیا۔ بریلوی کے علامہ عطاء محمد بندھیالوی نے تفصیلی جواب دیا تھا۔ ایرانی انقلاب کے بعد شیعہ کے رویہ میں بھی بہت بڑی تبدیلی آئی ، مہدی غائب کے غَیبت کبریٰ میں وہ مخلوق کی طرف سے امام کی تقرری کا فریضہ ادا کرنے کے قائل ہوگئے۔
شاہ ولی اللہؒ نے لکھا: ’’مشاہدہ میں نبیﷺ نے فرمایا کہ شیعوں کی گمراہی کی بنیاد امامت کا عقیدہ ہے‘‘۔بیشک اگرشیعہ عقیدۂ امامت نہ رکھتے تو صحابہؓ سے لیکر موجودہ دور تک وہ قرآن سمیت بہت سی باتوں سے بدظن نہ ہوتے۔ شاہ ولی اللہؒ نے لکھا کہ ’’میں اس مشاہدہ کی وجہ سے اس نتیجے پر پہنچا کہ عقیدۂ امامت در اصل ختم نبوت کا انکار ہے‘‘۔ اگریہ صحیح ہو توشاہ ولی اللہؒ کے پوتے شاہ اسماعیل شہیدؒ نے سید احمد بریلویؒ کو خراسان کا مہدی ثابت کرنے کی غرض سے ’’منصبِ امامت ‘‘ کتاب لکھ دی تھی اور اس میں بھی امام کیلئے بعثت کا عقیدہ ہے۔
شاہ اسماعیل شہیدؒ کے خلوص میں کوئی شک نہ تھا مگر انگریز نے ان کو راستہ اسلئے دیا تھا کہ پنجاب میں راجہ رنجیت سنگھ کااقتدار ختم ہو۔
مولانا اشرف علی تھانوی نے لکھا کہ شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے کہا: ’’ جب تک امام مہدی کا ظہور نہ ہوگا، امت کی اصلاح نہ ہوگی اور مہدی میں اس قدر روحانی طاقت ہوگی کہ پوری دنیا کے حالات کو بدل دیگا‘‘۔ ایسا کوئی نبی اور رسول بھی نہیں آیا ۔ یہ عقیدہ قادیانیت سے بھی زیادہ خطرناک ہے اسلئے کہ کہاں ظلی و بروزی نبی اور کہاں تمام انبیاء سے بھی طاقتور ہونے کا دعویٰ؟۔ شیعہ ،سنی اور قادیانی وغیرہ کتابوں کے مندرجات کی تبلیغ کرتے ہیں ۔ سب کوخوش فہمی ہے اور مذہب کے نام پر پیٹ پوچا کا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں۔
شیعہ علیؓ کی خلافت کی ’’عید غدیر‘‘ منائیں تو یہ اس کی نفی ہے کہ امام کا تقرر اللہ کی طرف سے ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ مان لیا ، نبیﷺ کی طرف سے حضرت علیؓ کو امام و خلیفہ اور امیر بنایا تو صحابہؓ نے ارتداد کا راستہ اختیار کیا،علیؓ کے بعد 10امام مزید آئے ، ان کا طرزِ عمل اتنا جدا تھا کہ شیعوں میں بھی فرقے بن گئے۔ امامیہ کا 12واں امام مہدی غائب ہے ، ایرانی اقتدار حاضر خدمت ہے لیکن امام مہدی کا ظہور نہیں ہورہاہے۔ سخت مخالفین میں جینے والے شیعہ کے 11امام عوام کے اندر موجود رہے تھے۔
مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی نے بھی کہاکہ مہدی آئیگا تو اختلافی مسائل کی اصلاح کردیگا۔ قادیانی کہتے ہیں کہ مرزا صاحب وہ مہدی اور مسیح تھا جس کا انتظار تھا۔ حضرت عیسیٰ ؑ طبعی موت مرچکے ۔مسیح اور مہدی دونوں ایک شخصیت ہے۔ مہلک ہتھیا روں کی موجودگی میں مرزا نے جہاد کو منسوخ کردیا اور مولوی بھی ریاست کے بغیر جہاد کا فتویٰ دینے کی جرأت نہیں کرسکتے۔ یونیورسٹی کے طلبہ میں خلافت کا شعور حزب التحریر اجاگر کرتی ہے جو برطانیہ میں وجود میں آئی ۔ وہاں اس پر پابندی نہیں ۔ اوراس کی تحریر کا کوئی سر پیر بھی نہیں ہوتا ہے۔
اگر ریاستِ پاکستان ہمیں کینیڈا بھیجے تو ہم اسلام کے سفیر بن کر مسلمانوں کے گمراہ لوگوں کو خلیفہ وامام کی درست راہ دکھا دینگے، جس پر سب ہی متفق ہونگے بلکہ مغرب کی سازشوں کو مغرب میں ہی بے نقاب کرینگے۔ مغرب کی سازش سے زیادہ ہمارے اپنے پیچیدہ اور الجھے مسائل کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ جہادمدافعت اور ظالم کو ظلم سے روکنے کا فطری راستہ ہے ،قیامت تک اسکا انکار ممکن نہیں۔
ہزار سال قبل الماوردی کی کتاب ’’ الاحکام سلطانیہ‘‘ سے مدارس کے علماء وطلبہ واقف نہیں اور یونیورسٹیوں میں اس کا تعارف ہے۔ امام کا تقرر پہلے افراد کا کام تھا، اب ریاستوں نے مل کر اس فریضہ کو ادا کرنا ہے۔ خمینی فرانس میں بیٹھ کر امام بن گئے تو ایرانی انقلاب آیا۔ تمام مسلم ممالک کو متفقہ امام دینا ضروری ہے۔اور پاکستان، افغانستان اور ایران آغاز کریں۔

شیعہ سنی کا قرآن پر ایمان اور اس کیلئے عملی اقدام کی ضرورت

علامہ احمد لدھیانوی اورعلامہ حسن ظفر نقوی لوگوں کو دلیل سے ایک پلیٹ فارم پر لا ئیں تو قتل وغارت گری کا سلسلہ رُک جائیگا۔ جب برما کےshia-sunni-ka-quran-per-emaan-aur-us-k-liye-amli-iqdaam-ki-zarurat مسلمانوں پر مظالم کی انتہا کی گئی تو ایک جلوس نکالا گیا جس میں ایران اور اسرائیل کی حکومتوں کو ذمہ دار قرار دیا گیا، سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر اس خبر کی خوب تضحیک ہوئی اور اہلسنت (سپاہِ صحابہ) والے کا مذاق اڑاگیا مگرسوچنے کی بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں کتنی برائیاں ہیں؟۔ زنا بالجبر، بدکاری کے بعد بچوں اور بچیوں کو قتل کردیا جاتاہے ، انواع و اقسام کی بدمعاشی ، مظالم ، رشوت، بے حیائی اور چوری ڈکیتیوں کا بازار گرم ہے کیا یہ سب اسرائیل و امریکہ کی سازش ہے؟۔
بے شعور عوام کو ہم کیا دے رہے ہیں؟، اگر کبھی امریکہ ، اسرائیل اور بھارت نے سازش کی اور شیعہ سنی ایکدوسرے سے لڑے تو کسی کاکردار ہو یا نہ ہو مگر ہم اپنی بداعمالیوں کی سزا ضرور کھائیں گے۔ افغانستان، عراق، لیبیا اور شام کے بعد اللہ نہ کرے کہ پاکستان کی باری آجائے۔ قرآن کہتا ہے کہ ظھر الفساد فی البر و البحر بماکسبت ایدی الناس ’’ خوشکی اورسمندر میں فساد برپا ہوگیا بسبب جو لوگوں نے ہاتھوں سے کمایا ہے‘‘ ۔
ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم باقاعدہ سکالر اور عالم نہ تھے۔ البتہ قرآن کا ترجمہ سمجھانے کی بڑی خدمت کی۔ بڑے آدمی تھے اور بڑے کی غلطی بڑی ہوتی ہے۔ میرے ایک مہربان جماعت اسلامی کے عبدالرزاق بھٹی کا تعلق شیخ اتار گومل ٹانک ڈیرہ اسماعیل خان سے تھا جوایک بڑے تاریخی کردار تھے۔ پاکستان بننے سے پہلے وہ کمیونسٹ تھے، پھر جیل میں مولانا مودودی کی کتابیں پڑھ کر مسلمان بن گئے تھے۔ سید منور حسن گذشتہ امیر جماعت اسلامی بھی کالج کے دور میں کمیونسٹ تھے۔ اسلامی جمعیت طلبہ نے کالجوں میں کمیونسٹوں کا راستہ روکنے کی قربانی دی ہے مگر پہلے جو امریکہ جہادی فلسفہ پھیلارہا تھا ،اب خلافت، جہاد اور مذہب کی مخالفت کو شعار بنارکھا ہے۔عبدالرزاق بھٹی نے بتایا تھا کہ ڈاکٹر اسراراحمدنے لکھا کہ’’ اگرچہ شیعہ کا موجودہ قرآن پرایمان نہیں مگر مہدی غائب تک اہل تشیع نے موجودہ قرآن کو قبول کیا ہے تو اس بنیاد پر ہم ان کو مسلمان کہہ سکتے ہیں‘‘۔
ڈاکٹر اسرار احمد نے شیعوں کیلئے اس نرمی کا مظاہرہ اسلئے کیا تھا کہ وہ خود بھی موجودہ قرآن کو مصحف عثمانی کہتے تھے ،جس کو اصل نہیں نقل سمجھتے تھے۔ جس میں کمی وبیشی کا تصور ہے اور برملا اس بات کا اظہار کیا تھا کہ ’’ اللہ تعالی نے قرآن میں کہا کہ اس قرآن کو نہیں چھوسکتے مگر پاک لوگ۔ موجودہ قرآن کو ناپاک بھی چھو سکتے ہیں اسلئے یہ اصل قرآن نہیں بلکہ نقل اور فوٹو کاپی ہے ۔ اصل قرآن لوحِ محفوظ میں ہے جس کو ملائکہ کے علاوہ کوئی نہیں چھوسکتا‘‘۔
ڈاکٹر اسرار احمد اچھے انسان تھے ، مجھے انکے اپنے نظریات کا زیادہ پتہ نہیں تھا، انہوں نے میری کھل کر نہ صرف حمایت کی بلکہ کانفرنسوں میں بھی دعوت دی۔ میں نے سوچا کہ میڈیا کی سطح پر آواز پہنچانے کیلئے ان سے مدد لوں اور میں نے انکے سامنے یہ بات رکھ دی کہ مدارس میں قرآن کریم کے بارے میں تحریف کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اگر آپ میرا ساتھ دیں تو بہت اچھے نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’میں کھل کر ساتھ نہیں دے سکتا لیکن میری خاموش حمایت آپ کے ساتھ ہوگی، جیسے امام ابوحنیفہؒ نے ائمہ اہلبیت کی خاموش حمایت کر دی تھی مگر زباں سے کھل کر اظہارنہیں کیاتھا‘‘۔
جب مجھے پتہ چلا کہ ڈاکٹر اسرار احمد نے یہ تشہیر بھی عام لوگوں میں کی ہے کہ اصل قرآن لوح محفوظ میں ہے ، ہمارے پاس نقل ہے تویہ منافقت میں نہیں کرسکتا تھا کہ اپنے حامی کیلئے نرم گوشہ رکھوں۔ اپنے ضرب حق اخبار اور اپنی کتاب’’ آتش فشاں‘‘ میں اس کا کھل اظہار کیا جو ڈاکٹر اسرار احمد کو ناگوار بھی گزرا۔ مجھے اپنے اساتذہ کرام کی بھی حق بات کے سلسلے میں کوئی پرواہ نہیں تھی تو کسی اور کیا کرتا؟۔ قرآن واحد ذریعہ ہے جو اس امت کا بیڑہ پار کرسکتاہے مگر ہمارے مذہبی طبقات قرآن کی خدمت کرنے کا دعویٰ کرنے کے باوجود حقائق نہیں مانتے۔
شیعہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’ میں تمہیں دو بھاری چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک قرآن اور دوسری میری عترت۔اگر تم ان دونوں کو مضبوطی سے تھام لوگے تو گمراہ نہ ہوگے‘‘۔ یہ حدیث صرف شیعہ نہیں سنیوں کی کتابوں میں بھی ہے، صحیح مسلم ، ترمذی وغیرہ صحاح ستہ میں شامل کتابوں میں بھی یہ حدیث موجودہے۔ اہل تشیع کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ و امام جعفر صادقؒ کا تعلق ائمہ اہلبیت سے تھا اور ہم حدیث کی پیروی کرتے ہوئے اپنے ائمہ اہل بیت کے مسلک پر گامزن ہیں۔ اہلسنت حضرت ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ اور معاویہؓ کو مان کر یہ حدیث نہیں مانتے۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ ، امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کو مانتے ہیں مگر امام جعفر صادق ؒ کو نہیں مانتے۔
اہلسنت کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ’’دو بھاری چیزیں چھوڑے جار ہا ہوں قرآن اور میری سنت ‘‘۔ موطا مالک کی اس حدیث کا تقاضہ ہے کہ قرآن و سنت کو ہی اطاعت کیلئے اپنامحور بنالیا جائے۔قرآن کا بار بار حکم ہے کہ ’’اطاعت کرو اللہ کی اور اسکے رسول کی ‘‘۔ ایک جگہ یہ ہے کہ ’’ جس نے رسول کی اطاعت کی تو بیشک اس نے اللہ کی اطاعت کی‘‘۔ قرآن اللہ کی وحی ہے ، اس وحی پر عمل وکردار کی مثالی شخصیت رسول ﷺ خود ہیں۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کا حکم قرآن میں ہے اور عملی کردار نبیﷺ کی سیرت طیبہ کو ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ رکوع وسجدہ ، روزہ اور طواف وحج کا حکم اللہ نے دیا مگر لوگوں کو خود کرکے نہیں دکھایا۔ رسول ﷺ نے احکام پر عمل کرکے دکھایا اور نبیﷺ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔ ایک جگہ اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’ اللہ کی اطاعت کرو، رسول کی اطاعت کرو اور تم میں سے جو اولی الامر ہیں ان کی اطاعت کرو، اگر کسی بات پر تمہارا تنازع ہوتو اللہ اور رسول کی طرف اس کو لوٹادو‘‘۔ اگرشیعہ کہیں کہ اولی الامر سے مراد ائمہ اہلبیت ہیں، آیت میں اولی الامر سے اختلاف کی گنجائش ہے توانہیں ماننا پڑیگا کہ ائمہ اہلبیت سے اختلاف رکھنے کی گنجائش انکے ا دوار میں بھی تھی، آج بھی ہے۔ حضرت علیؓ نے مسند پر بیٹھنے والے خلفاء کرامؓ سے اچھے تعلقات رکھے، امام حسنؓ نے معاویہؓ کے حق میں دستبرداری کا معاہدہ کیا، کربلا میں حضرت امام حسینؓ کو واپس جانے دیا جاتا تویہ سانحہ پیش نہ آتا اور مہدی غائب تک باقی ائمہ نے شہیدکربلا کا راستہ نہیں اپنایا بلکہ ایک امام تو کسی عباسی خلیفہ کے جانشین بھی مقرر ہوئے۔ پھر اختلاف و افتراق کی شدت کوکم کرنا پڑیگا۔ ائمہ اہلبیت سے زیادہ باایمان اور تقویٰ وکردار رکھنے والا کوئی علامہ اور ذاکر نہیں ہوسکتا ہے۔
مفتی تقی عثمانی نے ’’ تقلیدکی شرعی حیثیت‘‘ کتاب میں قرآن کی آیت پرلکھا: ’’ اولی الامر سے مراد ائمہ مجتہدین ہیں،اختلاف سے مراد یہ نہیں کہ ان سے اختلاف ہوسکتا ہے بلکہ فان تنازعتم فی شئی سے علماء کے آپس کا اختلاف مراد ہے۔ احادیث میں علماء کے اٹھ جانے کی خبر ہے۔ ان ائمہ کے بعدجاہل علماء ہیں جو خود بھی گمراہ ہونگے اور دوسروں کو بھی وہ گمراہ کرینگے۔ علماء کا کام ائمہ کی تقلید کرنا ہے، اور عوام کا کام براہِ راست قرآن و حدیث کے احکام کی پیروی کرنا نہیں بلکہ علماء ومفتیان کے توسط سے قرآن و رسولﷺ کی پیروی ہے۔ عوام کی غلط رہنمائی ہوتو انکا مواخذہ نہ ہوگا‘‘۔
جس طرح شیعہ مسلک و اعتقاد میں قرآن کے حوالہ سے تضادات ہیں ، مہدی نے قرآن غائب نہیں کیا مگر اپنی منطق سے گمراہی کا شکار ہیں۔اسی طرح ہر دور کے درباری شیخ الاسلام نے مسلم اُمہ کو قرآن سے دور لے جانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ امام ابوحنیفہؒ نے جیل کی زندگی میں زہرکھاکر شہید ہونا قبول کیامگر اپنے فتوے سے رجوع نہ کیا کہ لونڈی کو بادشاہ کے باپ نے استعمال کیا ہو اور پھر بیٹا اس کیساتھ ازدواجی تعلق قائم کرسکے۔ جبکہ شیخ الاسلام کی طرف سے حیلہ بنالیا گیا کہ ’’ عورت کی گواہی کا انکار کرکے یہ تعلق قائم کرسکتا ہے ‘‘۔ اس پر بڑا معاوضہ بھی حاصل کیا گیا۔ مفتی تقی عثمانی کی طرف سے اپنے جاہل عوام کو کہا گیا کہ ’’ شادی بیاہ کی رسم میں لفافے کی لین دین سود ہے اور اسکے ستر سے زیادہ گناہ، وبال اور برائی میں کم از کم گناہ اپنی سگی ماں کیساتھ زنا کے برابر ہے‘‘ دوسری طرف معاوضہ لیکر سودکو جواز بھی فراہم کردیا ہے۔ تبلیغی جماعت کے کارکن اور رہنما شادی بیاہ کی رسم میں مفتی تقی عثمانی کے فتوے پر عمل نہیں کرتے مگرسود کادفاع کررہے ہیں۔
قرآن وسنت کے جھوٹے پیروکاروں کے منہ پر اللہ نے خوب طمانچہ مارا ہے۔ چاہے جو جس فرقہ ، جماعت اور مسلک کا لبادہ اُوڑھے وقال الرسول ربی ان قومی اتخذوا ھذا القرآن مھجورا ’’ اور رسول کہے گا کہ میرے ربّ! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا‘‘۔ درسِ نظامی میں علماء ومفتیان قرآن پر حملہ آور ہوکر پڑھاتے ہیں کہ ’’ تحریری قرآن اللہ کا کلام نہیں، یہ الفاظ اور معانی نہیں صرف نقوش ہیں‘‘۔ اسی وجہ سے صاحبِ ہدایہ ، شامی اور فتاویٰ قاضی خان میں لکھ دیاکہ’’ علاج کیلئے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے‘‘۔ علماء نے تردید کرنے کے بجائے تائیدکا سلسلہ اب بھی جاری رکھا ہواہے۔علامہ اقبالؒ نے کہا:
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق

شیعہ پر کفر کے فتوؤں کے دلائل اور انکے محرکات کی حقیقت

shai-per-kufur-k-fatwon-k-dalail-aur-un-k-muhharekaat

ایران کے قائد امام خمینی محتاج تعارف نہیں اور مولانا محمد منظور نعمانی بھی بھارت کے مشہور عالم دین تھے۔ معارف الحدیث اور اسلام کیا ہے؟،وغیرہ انکی کتابیں ہیں۔ مولانا مودوی سے علیحدگی کے وجوہات بھی مولانا منظور نعمانی نے یہ لکھے ہیں کہ ’’جماعتِ اسلامی کے بانی کا الہ کا تصور عقیدے کی بنیاد پر غلط تھا‘‘۔
شیعہ مخالف تنظیم اہلسنت والجماعۃاور حقوق اہلسنت والجماعۃ کے خطیب اور مناظر میدان میں تھے۔ مولانا حق نواز جھنگوی شہید نے پھر ’’انجمن سپاہ صحابہ‘‘ بنائی تو ایرانی لٹریچر کا بہت زور تھا۔ پھر کراچی میں سواداعظم اہلسنت نے بھی شیعہ کے خلاف تحریک شروع کردی تھی۔
سپاہِ صحابہ نے مولانا حق نواز جھنگوی شہید کی تقریر شائع کی، اس میں وضاحت ہے کہ ’’شیعہ سے اختلاف قرآن کی بنیاد پر نہیں ، صحابہؓ کی بنیاد پر بھی نہیں، ہمارا اصل اختلاف شیعوں سے عقیدۂ امامت پر ہے‘‘۔
اس میں شبہ نہیں کہ مولانا حق نواز جھنگویؒ کا مؤقف 100فیصد درست تھا۔ سپاہ صحابہ نے بہت قربانیاں دیں، قیادت اور کارکن شہادت اور جیلوں سے نہ گھبرائے۔ کافر کافر شیعہ کافر کا نعرہ ہر دہلیز، چوکٹ، چوہراہا، ہرقیمت پر لگایا۔
شیعہ خود بھی سمجھتے ہیں کہ اصل اختلاف یہی تھا، علامہ شہنشاہ حسین نقوی نے حضرت صالحؑ کی اونٹنی ناقۃ اللہ اور علیؓ کے ہاتھ، پیر، اعضاء کو اہل اللہ اور اہل رسول قرار دیکر کہا کہ ’’یاعلی مدد اللہ ورسول سے مدد ہے۔ بدبخت ترین علیؓ اور صالح کے قاتل تھے‘‘۔ میری تقریر نیٹ پر ہے جس میں کہا کہ’’اللہ مظلوم نہیں ہوتا‘‘۔یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ مذکر و مؤنث کے عضوء سے پاک ہے، اسے کسی نے جناہے اور نہ اس نے کسی کوجناہے۔مظہرِ نور خداداتا گنج بخشؒ کو بھی سمجھا جاتاہے۔ کعبہ 360 بتوں سے بھرا تھااور داتا کی نگری میں ہیرہ منڈی ہے۔ دین میں زبردستی نہیں۔ اربابِ اقتدار کا کام نظام کی درستگی ہے ۔ اچھی فضاء بہت ضروری ہے۔
نہ تیرا خدا کوئی اور ہے نہ میرا خدا کوئی اور ہے
یہ جو راستے ہیں جدا جدا یہ معاملہ کوئی اور ہے
سواد اعظم اہلسنت کی ابتداء ہوئی تو کراچی کے اکابر علماء مولانا سلیم اللہ خان، مولانا اسفند یار خان ، مفتی احمد الرحمن ، مولانا زکریا تحریک کی قیادت کررہے تھے۔ مولانا زکریا کی مولانا سلیم اللہ اور مولانا اسفندیار نے پٹائی لگادی۔ مولانا زکریا لنگڑے جامعہ انوار العلوم گلبرک کراچی کے مہتمم معذور ڈنڈے سے پٹے تو کیا کرتے؟۔ البتہ اخبارات میں رازوں سے پردہ اٹھادیا کہ مولانا سلیم اللہ خان و مولانا اسفندیارخان نے سواداعظم کے نام پر رقوم، جائیداد ومفادات لئے ہیں۔ وہی مولانا زکریا صاحب سپاہ صحابہ کے مستقبل کے قائد مولانا اعظم طارق کے سوتیلے باپ تھے۔
سواداعظم کی قیادت میں لالو کھیت کے اندر اہل تشیع کی دکانیں جلائی جا چکی تھیں، پختون ایمانی جذبے میں پیش پیش تھے، جس کا خمیازہ مہاجر پختون فسادات میں بھگتنا پڑا ۔ میں نے جامعہ بنوری ٹاؤن میں داخلہ لیا تو سواد اعظم کے تحت مزیدفسادات اُڑان کی موڈ میں تھے، مولانا زکریا چند ماہ پہلے علیحدہ ہوچکے تھے۔ 10محرم کے جلوس کو روکنے کیلئے مولانا سلیم اللہ خان، مولانا اسفندیار خان اوردیگرمدارس کے علماء و طلبہ جامعہ بنوری ٹاؤن پہنچے تھے۔ تقریروں میں کہہ رہے تھے کہ ہم شیعوں کو اس مدرسہ مادر علمی کے دروازے کے سامنے جلوس گزارنے نہیں دینگے۔ پولیس کی ذمہ داری تھی کہ وہ مقررہ راستے سے جلوس گزارتی۔جب سواد اعظم و پولیس میں مذاکرات ناکام ہوگئے تو خوف اور تشویش کی فضاء پیدا ہوگئی۔
جامعہ بنوری ٹاؤن کے علماء ومفتیان نہیں چاہتے تھے کہ فساد ہو، جامعہ بنوری ٹاؤن کے اندر تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری تھا، علماء کے علاوہ ایڈوکیٹ عبدالعزیز خلجی بھی پیش پیش تھا ہم طلبہ بڑوں کے معاملے سے واقف نہ تھے۔ جامعہ کے ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر اسوقت ناظم تعلیمات تھے جواب پرنسپل ہیں۔ آپ نے ہمیں درس دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’باہر فسادی آئے ہیں۔ ان کی باتوں میں نہ آؤ، انکا مقصد فساد پھیلانا ہے۔ شیعہ کے جلوس یہاں سے گزرتا تھا تو مولانا بنوریؒ مسجد نیوٹاؤ ن کے مٹکے صاف ستھرے کرکے بھروا کر رکھتے تھے۔ مسجد کامین گیٹ کھلا رہتا تھا۔ جلوس کے شرکاء پانی پیا کرتے اور واش روم استعمال کرتے‘‘۔
پھر جب جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کے طلبہ نے جلوس پر پتھراؤکیا اور پولیس نے آنسو گیس کی سخت شیلنگ کی تو کئی بیہوش ہوگئے۔ میں نے بھی زخمیوں کی مدد میں حصہ لیا۔ درسگاہ میں دوسرے دن استاذ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے مجھے خصو صی طور پر مخاطب کرکے فرمایا کہ ’’ تمہیں احساس نہیں، ہمارے بال بچے ہیں، آنسو گیس کی جس مصیبت کا سامنا کیا، وہ ہم اور ہمارے بچے جانتے ہیں۔تمہیں کیا ہے‘‘۔ مجھے شدید احساس ہوا کہ استاذ کی بات میں وزن ہے مگر مجھ سے یہ غلطی نہیں ہوئی تھی اسلئے معافی مانگنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی ۔
ایک گھمبیر صورتحال میں مولانا منظور نعمانی کا استفتاء اور مفتی ولی حسن ٹونکی مفتی اعظم کے جوابات شائع کردئیے گئے۔ استفتاء میں تین سوالات تھے جنکا جواب دینے کی ضرورت نہ تھی کیونکہ سوالات جوابات بھی خود ہی تھے۔
پہلا سوال تھا کہ شیعہ قرآن میں تحریف کا عقیدہ رکھتے ہیں۔کئی سارے حوالہ جات سے ثابت کیا کہ شیعہ قرآن پر ایمان نہیں رکھتے اور اگر شیعہ قرآن کو مانتے ہیں تو یہ تقیہ ہے۔ ظاہر ہے کہ جسکا قرآن پر ایمان نہیں ہو تو اس سے بڑا کافر کون ہوسکتا ہے؟۔سوال کا جواب دینا بھی محض ایک خوامخواہ کا تکلف ہی تھا۔
دوسرا سوال تھا کہ اہل تشیع صحابہؓ کے بارے میں یہ اعقتاد رکھتے ہیں کہ وہ کافر ہیں، حضرت ابوبکرؓ کی صحابیت قرآن سے ثابت ہے اور باقی صحابہؓ سنت اور اجماع سے ثابت ہیں اسکا انکار کرنے کی بنیاد پر اہل تشیع بذاتِ خود کافر ہیں، ان کے کفر کے ثبوتوں کے حوالہ جات کے انبار ہیں جس کی کوئی تردید نہیں کرسکتا ہے۔
تیسرا سوال تھا کہ شیعہ کا عقیدۂ امامت در ا صل ختم نبوت کا انکار ہے، وہ اپنے ائمہ کو انبیاء سے بڑھ کر سمجھتے ہیں، ڈھیر ساری کتابوں کے حوالہ جات موجود ہیں ، جس کی تردید کوئی نہیں کرسکتا اور اس وجہ سے بھی اہل تشیع اسلام سے خارج ہیں اور ان پر کفر کا فتویٰ لگتاہے۔
3 سوالات کی تفصیل پھرمزید حوالہ جات جوابات میں درج ہیں جو شیعہ کے کفر کو یقینی بناتے ہیں۔ پھر پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے ڈھیر علماء و مفتیان اور بہت سارے معروف مدارس کی تصدیقی تحریرو مہر تھے، البتہ جامعہ بنوری ٹاؤن کے اس فتوے کی تائید مفتی تقی، مفتی رفیع عثمانی دارالعلوم کراچی کورنگی کے ایریا نے نہ کی۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ ’’وہ عذر پیش کررہے ہیں کہ ہم سرکاری تانگے ہیں،اگر ریاست کا اشارہ نہ ملے تو ہم شیعہ کو کافر نہیں قرار دے سکتے ‘‘۔ اس فتویٰ میں واضح طورپر لکھا گیا کہ ’’قادیانی ختم نبوت کی آیت میں تأویل کرتے ہیں مگر نماز، روزہ، زکوٰۃ اور دیگر تمام معاملات اہلسنت کے عین مطابق ہیں، قرآن و سنت اور صحابہؓ ،اسماعیل شہیدوا کابر دیوبند اور فقہی مسائل بھی ایک ہیں اور شیعہ کا ہر چیز میں اہلسنت سے عقیدت اور عقیدے کے مسئلے پر شدیداختلاف ہے۔لہٰذا شیعہ قادیانیوں سے بدتر کافر ہیں‘‘۔
یہ کتاب اور اس طرح کی دیگر کتابیں بازار میں دستیاب ہیں۔ سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار نے سلیم صافی کو انٹرویو دیا کہ ’’ علماء کرام کا معاشرے میں بہت اہم مقام ہے، ایک چھوٹا سا اقلیتی فرقہ ہے جو علماء کا نام سن کر آگ بگولہ ہوجاتا ہے ، ہم اسکے اس رویہ کی وجہ سے علماء کرام کی قدر کم نہیں کرسکتے۔ کالعدم تنظیم کے مولانا احمد لدھیانوی ملتے تھے تو کیا حرج تھا؟، میں سب کا وزیر داخلہ تھا اور سب کیساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ کالعدم تنظیمیں الیکشن میں بھی حصہ لیتی ہیں، تمام پارٹیوں کے اہم رہنما ان سے ملتے ہیں۔ علماء کرام نے بہت تعاون بھی کیا اور انہوں نے میری بات کافی حد تک مان لی۔ اس کا مجھے کریڈٹ بھی ملنا چاہیے تھا‘‘۔
وہ وقت بھی آیا کہ علماء ومفتیان نے بھی سپاہِ صحابہ سے اعراض کیا۔ ایم کیوایم کا دباؤ کافی بڑھ گیا، مولانا سلیم اللہ خان نے بنوری ٹاؤن کے ایک اجلاس میں مولانا اعظم طارق سے کہا کہ شیعہ پر کفر کا فتویٰ غلط ہے، یہ مشن چھوڑ دو، کوئی دوسرا راستہ اختیار کرلو۔ متحدہ مجلس عمل بنی تو شیعہ سنی کی اتحادتنظیمات المدارس بھی بنی۔ جامعہ بنوری ٹاؤن نے اتحاد کیلئے فتویٰ جاری کیا تو ہم نے اپنے اخبار ضرب حق میں بات اٹھائی کہ یہ بھی بتایا جائے کہ شیعہ تائب ہوگئے یا تم نے غلط فہمی کی بنیاد پر فتویٰ دیا تھا؟۔
ایک طرف شیعوں پر فتویٰ تو دوسری طرف اتحادالمدارس شیعہ سنی اتحاد ہے ، آخر کیوں؟۔ تحریف قرآن کی بنیاد پر شیعہ کو کافر قرار دیا تو علامہ انورشاہ کشمیری نے بھی ’’فیض الباری‘‘ میں لکھا کہ ’’قرآن میں معنوی تحریف تو بہت ہوئی، بلکہ لفظی تحریف بھی ہوئی ، مغالطہ سے یہ کیا ہے یا پھر جان بوجھ کر ‘‘۔ مولانا عبدالکریم کلاچوی نے مفتی فرید اکوڑہ سے جواب مانگا۔ علامہ غلام رسول سعیدی نے دارالعلوم کراچی سے حوالہ دئیے بغیر اس عبارت پر فتویٰ مانگا تو مفتی تقی عثمانی نے کفر کا فتویٰ لگادیا تھا۔ میرا خلیفہ عبدالقیوم و سپاہ صحابہ کے کارکنوں سے یہ طے ہوا تھا کہ مدارس کے نصاب پر بات ہوگی لیکن علماء نے ایسی فضاء بنادی کہ حکومت نے 16ایم پی او کے تحت گرفتاری کا حکم دیا تھا۔

مذہبی معاملات میں اعتدال کا سیدھا راستہ: عتیق گیلانی

mazhabi-maamlat-me-aitadal-ka-seedha-rasta-(General-(R)-Ehsan-ul-Haq-Altaf-Hussain

مذہبی معاملات میں اعتدال کا سیدھاراستہ

مولانا عبد الرحمن کیلانی نے ’’خلافت و جمہوریت‘‘ نامی کتاب لکھ دی جو 1981 ؁ء اور پھر 1985 ؁ء کو شائع ہوئی ہے۔ کتاب کے کچھ دلائل اور مندرجات دیکھنے سے اس نتیجے پر آسانی کیساتھ پہنچا جاسکتا ہے کہ خلافت پر خلفاء راشدینؓ کے دور میں بھی اتنا اچھا خاصہ افتراق تھا کہ کسی دلیل کو شرعی کہنا دشوار نہیں بلکہ سراسر غلط بھی ہے۔ حضرت ابوبکرؓ کی خلافت ہنگامی طور پر منعقد ہوئی اور حضرت عمرؓ کو نامزد کیا گیا، حضرت عثمانؓ کو کثرت رائے سے شوریٰ نے بنایا ، حضرت علیؓ کی خلافت متنازعہ ہونے کے باوجود قابل اعتبار قرار پائی، اور حضرت حسنؓ سے تنہا ایک شخص نے بیعت کی تو خلیفہ بن گئے۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ کو خلیفہ بنانا چاہا تو حضرت عمرؓ نے رکاوٹ ڈال دی اور حضرت امیر معاویہؓ کے حق میں حضرت حسنؓ دستبردار ہوئے۔ دونوں معاملات اپنی اپنی جگہ پر مستحسن تھے لیکن رسول ﷺ کے بعد خلافت راشدہ کا نظام قائم ہوا اور حضرت امیر معاویہؓ کی وجہ سے خلافت کا نظام امارت میں بدل گیا۔ ایک طرف رسول اللہ ﷺ کی رائے سے اختلاف اور دوسری طرف حضرت امیر معاویہؓ کے حق میں دستبرداری سے خلافت و امارت کے معاملے میں اسلام کا ظرف اتنا وسیع ہے کہ اسکے طول و عرض اور گہرائی و بلندی تک پہنچنے کیلئے بڑی بڑی قد آور شخصیات بھی انتہائی پستی کا شکار دکھائی دیتی ہیں۔بس سمندری طوفان کے طلاطم خیز موجوں میں تیرنے والے کبھی جنرل ضیاء کی ڈکٹیٹر شپ کو امیر المؤمنین کا نام دیتے ہیں، کبھی امام خمینی کو شرعی امام بنالیتے ہیں اور کبھی عرب ریاستوں کے متفرق بادشاہوں کو اپنے اپنے دائرہ کار میں شرعی خلیفہ و امام کا درجہ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے پنجاب کے ایک خطیب کی تقریر سوشل میڈیا پر چل رہی ہے جو حضرت امام حسنؓ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کسی کو ان کا یوم وفات معلوم نہیں اسلئے کہ شیعہ مُلا باقر مجلسی نے لکھ دیا کہ ’’امام حسنؓ خلافت سے امیر معاویہؓ کے حق میں دستبرداری کے بعد اس طرح سے امام نہ رہے جسطرح ان کے والد حضرت علیؓ نے ثالثوں کو اختیار دیا تھا اور وہ امام نہ رہے‘‘۔ اہل تشیع صرف امام حسینؓ کو مانتے ہیں باقی کسی کو نہیں مانتے۔ اگر مانتے تو امام حسنؓ کی شہادت کو کیوں اس طرح سے نہیں مناتے؟۔ اس خطیب نے لوگوں کو اہل تشیع کیخلاف خوب اکسا کر خوش کردیا اور امام حسنؓ کے فضائل سنانا بھی ان کی بڑی مہربانی ہے کہ اتحاد کی بات کررہے ہیں۔ لیکن تمام تقریر کے خلاصے کا یہ جواب ہے کہ شیعہ کلمہ و اذان میں علیؓ کا نام لیتے ہیں امام حسینؓ کا نہیں۔ اسلئے کہیں بھول تو نہیں ہوئی؟۔ دوسرا یہ کہ اگر امام حسنؓ کو خلافت سے دستبرداری کے بعد اپنی بیگم نے زہر کھلادیا تھا تو ان کی شہادت اور امام حسینؓ کی شہادت میں بہت فرق ہے۔بقول فیض
جس دھج سے جو مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
امام حسنؓ کے مشن کا حق تب ادا ہوگا جب انتشارنہیں اتحاد کی دعوت دیجائے۔ کربلا کے ذاکر و خطیبوں سے سنا کہ امام حسینؓ جہاد کررہے تھے تو کوئی لڑنے کی ہمت نہ کرسکتا تھا۔ مگر جب سجدے میں گئے تو ظالموں نے شہید کیا۔ قصہ گو ذاکرین سے علامہ اقبال تک نہ جانے کیوں قرآن اور فطری تعلیم بھول کر کہتے ہیں کہ آگیا عین لڑائی میں جب وقت نماز ، قبلہ رو ہوکے زمیں بوس ہوئی قوم حجاز، ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز، نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ لڑائی کے وقت نماز پڑھنے کا طریقہ عام حالات کے مطابق رکوع و سجود والا نہیں ، جس سے آگے پیچھے وار کرکے دشمن نقصان پہنچائے بلکہ فرجالاً او رکباناً ’’چلتے چلتے اور سوار ہوتے ہوئے نماز پڑھو‘‘۔ اگر ہندی یا پنجابی اقبال شعری جذبات میں مبالغہ آمیزی کررہے تھے تو قرآن کی آیت پر نگاہ نہیں گئی ہوگی لیکن امام حسینؓ نے یقیناًقرآن کی طرف زبردست توجہ دی ہوگی۔
عن سعد بن ابی وقاص قال قال رسول اللہ ﷺ لا یزال اہل الغرب ظاہرین علی الحق حتیٰ تقوم الساعۃ (کتاب الامارۃ، صحیح مسلم)
’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اہل مغرب ہمیشہ حق پر رہیں گے یہاں تک کہ قیامت آجائے‘‘۔ صحیح مسلم کی اس روایت کا تعلق خلافت و امارت کے نظام سے ہے اسی لئے اس کو اس کتاب میں درج کیا گیا ہے۔ کم عقل قسم کے مولوی اپنی خواہشات کی تکمیل کیلئے جس بات کو شرعی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں حقائق اسکے بالکل منافی ہوتے ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے قرآن میں نبی ﷺ سے فرمایا کہ ’’اگر آپ زمین میں اکثریت کے پیچھے چلیں تو یہ آپ کو اپنی راہ سے گمراہ کردیں گے‘‘۔ صلح حدیبیہ میں رسول اللہ ﷺ نے اکثریت کے فیصلے کو مسترد کرکے معاہدہ کیا تو اللہ نے اس کو فتح مبین قرار دیا۔ اور بدری قیدیوں پر فدیہ کا مسئلہ آیا جب اکثریت کی رائے پر نبی ﷺ نے فیصلہ فرمایا تو اللہ نے اس کو غیر مناسب قرار دیا اور اقلیت کو چھوڑ کر اکثریت کیلئے عذاب کی وعید بھی اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی۔
ان آیات اور واقعات کا مقصد ہرگز یہ نہیں تھا کہ اکثریت گمراہ ہوتی ہے اور اقلیت حق پر ہوتی ہے بلکہ ان میں اہل حق کیلئے یہ حوصلہ ضرور ہے کہ اقلیت میں ہونے کے باوجود اپنی بات پر ڈٹے رہیں اور محض اسلئے حق کو نہ چھوڑیں کہ اکثریت مخالف ہے۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کا اقتدار اسلئے کامیاب رہا کہ اکثریت ان کے ساتھ تھی۔ حضرت عثمانؓ کو خلافت شوریٰ میں اکثریت کی بنیاد پر ملی اور جب اکثر لوگ مخالف ہوگئے تو تخت خلافت پر شہید کردئیے گئے۔ جس سے آج تک اُمت اختلاف و انتشار کی کیفیت سے نہیں نکل سکی ۔ حضرت علیؓ کی خلافت کو اکثریت نے قبول نہیں کیا تو با صلاحیت ہونے کے باوجود خلافت کامیاب نہیں رہی۔حضرت حسنؓ نے اکثریت کی وجہ سے امیر معاویہؓ کو خلافت سپرد کردی۔ رسول اللہْ ﷺ نے امارت کے حوالے سے مغرب کے جمہوری نظام کی ہی تائید فرمائی ہے اور پیشین گوئیوں میں پہلی خلافت کا امام مہدی کے حوالے سے مغربِ اقصیٰ کا ذکر ہے۔ جمہوری طرز عمل سے وجود میں آنے والی خلافت سے ہی زمین و آسمان والے دونوں کے دونوں خوش ہوسکتے ہیں۔ اگر خلافت راشدہ کے دورسے جمہوری نظام رائج ہوتا تو ہماری اسلامی خلافت بدترین خاندانی بادشاہتوں میں تبدیل نہ ہوتی۔ درباری اور پیشہ ور مولویوں اور شیخ الاسلاموں نے بہت کم تعداد میں حق کی آواز بلند کی ہے۔ آنیوالے بارہ خلفاء قریش پر اُمت اکھٹی ہوگی لیکن بڑے بڑوں نے حقائق کو جان بوجھ کر مسخ کرکے رکھا دیا ہے۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے 22اگست کے اعلان لا تعلقی سے قبل کہا تھا کہ اگر جنرل(ر) احسان کو الطاف بھائی کے پاس جائے تو الطاف بھائی ہر بات مانیں گے اور اب بھی مختلف رہنماؤں کو جنرل احسان کیساتھ بھیج دیا جائے تو الطاف حسین واپس آجائیگا، اگر الطاف اس ناراضگی کی حالت میں مر گیا تو کم عقل عقیدتمند مہاجروں کے دلوں کو صاف نہ کیا جاسکے گا۔

فوج اور عدلیہ کیلئے خصوصی استثناء مگر کیوں؟ عتیق گیلانی

Fauj-Aur-Adlia-k-liye-khususi-istesna-magar-kiun

فوج اور عدلیہ کیلئے خصوصی استثناء مگر کیوں؟

مشکل وقت آئے توقومی اتحاد سے بڑی نعمت اور انتشار سے بڑی بیماری کوئی نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ گالی بن گئی، اسٹیبلٹی استحکام ہے، ریاست مستحکم نہ ہوتو بہت بڑی بدنصیبی ہے۔ رسول اللہﷺ کے دور میں حضرت خالد بن ولیدؓ نے استحکام کیلئے قتل وغارت کی تو نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’اے اللہ! میں خالد کے فعل سے بری ہوں‘‘۔ ریاستی استحکام کیلئے فوجی اہلکار حدود سے بھی تجاوز کرلیتے ہیں مگر ان سے رعایت برتنا فطرت اور سنت کے مطابق ہے۔
خالد بن ولیدؓ سپاہ سالار تھے ، رسول اللہﷺ نے غلط اقدام و ظلم پر بری الذمہ ہونے سے زبردست حوصلہ شکنی فرمائی۔ عدلیہ کا جج اور قاضی جو فیصلہ کرے وہ 100 فیصد غلط بھی ہوسکتاہے ۔غلطی پر سزا دی جائے تو کوئی منصف نہ بنے۔ حضرت خالدؓ کی غلطی سے نبیﷺ نے برأت کرکے بتادیا کہ دنیا میں پکڑ سے محفوظ ہے تو آخرت کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ جبکہ قاضی اور جج کیلئے واضح کیاکہ ’’اگر وہ اجتہاد کرکے درست فیصلہ دیگا تو2نیکیاں ملیں گی ایک اجتہاد کی، دوسری ٹھیک بات تک رسائی کی۔ اگر غلطی کرلی تو اس کو ایک نیکی ملے گی ‘‘۔ اگر یہ ضمانت نہ ملتی تو کوئی اچھا ، تقویٰ دار آدمی قاضی اور جج بننے پر آمادہ نہیں ہوسکتا تھا۔
حضرت ابوبکرؓ نے منصبِ خلافت سنبھالاتو ریاست کو شدید عدمِ استحکام کا سامنا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے زکوٰۃ دینے سے انکار کرنیوالوں کی سر کوبی کیلئے حضرت خالد بن ولیدؓ کی قیادت میں لشکر بھیجا، اس موقع پر حضرت خالد بن ولیدؓ سے یہ زبردست غلطی سرزد ہوگئی کہ مالک بن نویرہ کو قتل کرکے اس کی خوبصورت بیگم سے جبری شادی بھی رچالی۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ ’’اس جرم پر خالد بن ولیدؓ کو سنگسار کردیا جائے‘‘۔حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ ’’ ان کی اس وقت ہمیں ضرورت ہے، اسلئے سزا دینے کے بجائے تنبیہ پر اکتفاء کرلیتے ہیں ‘‘۔
قرآن وسنت کی سمجھ نہیں اسلئے صحابہؓ کے واقعات سے مذہبی طبقے قاصر اور فرقہ وارانہ عصبیت کا شکار ہیں۔ بدری قیدیوں سے فدیہ لینے پر مشاورت ہوئی تو حضرت ابوبکرؓ کی رائے فرمان نبویﷺ ارحم امتی بامتی ابی ابکر’’ میری امت میں سب سے زیادہ امت پررحم کرنیوالے ابوبکر ہیں‘‘ کے مطابق دشمن مشرکینِ مکہ کیلئے بھی رحم کی اپیل تھی جبکہ حضرت عمرؓ نے مشورہ دیا کہ ’’جو میرا قریبی رشتہ دار ہے، اس کو میں قتل کروں ، علیؓ، ابوبکرؓ اور عثمانؓ سب اپنے اپنے قریبی رشتہ داروں کو قتل کریں، کوئی زندہ نہ جائے ‘‘۔ نبیﷺ نے فرمایا :واشدھم فی امر اللہ عمر’’ صحابہؓ میں سب سے زیادہ اللہ کے حکموں میں سخت عمرہیں‘‘۔ مشاورت مکمل ہوئی تو نبی ﷺ نے فرمایا کہ ابوبکرؓ کی رائے ابراہیم ؑ کی طرح ہے ، یعنی کفار کیلئے رحم کی اپیل اور عمرؓ کی رائے نوح ؑ کی طرح ہے ۔فرمایا کہ ’’ روئے زمین پر کوئی کافر باقی نہ رہے‘‘۔ ابراہیم ؑ کی رائے پسند ہے اسلئے رحم کا فیصلہ ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ ’’ نبی کیلئے مناسب نہ تھا کہ اسکے پاس قیدی ہوں یہانتک کہ زمین میں خوب خونریزی کرتے۔ تم دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے، اگر پہلے سے اللہ لکھ نہ چکا ہوتا تو تمہیں سخت عذاب دیدیتا۔ جن سے تم نے فدیہ لیا ہے اگر انکے دل میں خیرہے تو اس فدیہ کے بدلے اللہ اور زیادہ دے گا۔ اور جن کے دل میں خیانت ہے تو اللہ پھر بھی ان سے نمٹ لے گا‘‘۔
نبیﷺ کو علم تھا کہ اللہ نے حضرت نوحؑ کی بات کو قبولیت بخشی اور حضرت ابراہیم ؑ کی اپیل قبول نہیں کی مگر پھر بھی حضرت ابراہیم ؑ کی بات کو ترجیح دی، جب طائف میں نبیﷺ کے خون بہانے پر اللہ ذوالجلال کا غضب جوش میں آیا تو بھی نبیﷺ نے ان کیلئے ہدایت کی دعا فرمائی اور یہ بھی فرمایا کہ اگر ان کی تقدیر میں ہدایت نہیں تو ان کی اولاد کو ہدایت عطاء فرمانا۔ بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ باپ کی قسمت میں ہدایت نہیں ہوتی تو اللہ بیٹے کو ہدایت دیتا ہے۔ ابوجہل بدر میں مارا گیا تو اس کا بیٹا عکرمہؓ بن ابی جہل ایک مخلص صحابی بن گیا۔ حضرت امیر حمزہ کو شہید کرنیوالا وحشیؓ اور کلیجہ چبانے والی ہندہؓ کو بھی ہدایت مل گئی۔ جن کیلئے نبیﷺ نے چاہا کہ انہیں ہدایت ملے مگر نبیﷺ کے ہاتھ میں اپنی چاہت پوری کرنا نہ تھی۔ انک لا تھدی من احببت ’’بیشک آپؐ جس کو چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے‘‘۔
قرآن میں اللہ نے واضح طور پر فرمایا کہ ’’ بدری قیدیوں پر فدیہ لینا مناسب نہ تھا‘‘ ۔ لیکن جو فیصلہ ہوگیا اس پر عمل در آمد روکنے کا حکم نہ دیا بلکہ تنبیہ کے باوجود اس پرعمل در آمد ہی کروایا۔ یہ اللہ کا حکم تھا: وشاورھم فی الامر واذا عزمت فتوکل علی اللہ ’’ کسی خاص بات میں مشاورت کریں، جب عزم کرلیں تو اللہ پر بھروسہ کریں‘‘۔ نظام زندگی میں کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ ’’ مشاروت کے نتیجے میں کوئی عزم اور فیصلہ کیا جائے تو گومگو کی کیفیت میں مبتلاء رہنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ غلطیوں سے سبق سیکھا جاسکتا ہے‘‘۔ بدری قیدیوں پر مفسرین کی رائے دیکھ لی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ حقائق سے انحراف کرتے ہوئے معاملات بالکل غلط سمت لے گئے ہیں۔ قرآنی آیات اپنی جگہ مفصل ہیں، ہر چیز کی تفصیل بھی ان میں موجود ہے۔ان میں کوئی تضاد نہیں بلکہ ایکدسرے کیلئے تفسیر کی حیثیت بھی رکھتے ہیں۔اگر نبیﷺ کا فیصلہ غلط یا غیر مناسب تھا تو نبیﷺ کی معصومیت پر سوال اٹھے گا۔جس کا جواب بعض بہت معتبر مفسرین نے یہ دیا ہے کہ یہاں نبی سے مراد کوئی اور ہے اسلئے کہ نبی ﷺ کا ہر قول وفعل حکم الٰہی تھا تو اس کو غیرمناسب کیسے قرار دیاسکتا تھا؟۔
مفسرین نے یہ توجیہ بہت غلط کی بلکہ قرآن کی واضح آیت کا انکار کیا کہ نبی سے مراد نبیﷺ نہیں تھے تو نعوذ باللہ اور کس کو نبی کہا گیاہے؟۔ نبیﷺ نے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کا جنازہ پڑھایا تو اللہ نے منع فرمایا۔ کوئی اور اتنی جرأت نہ کرتا کہ اس کھلے گستاخ کا جنازہ پڑھنے کی ہمت کرتا۔ نبیﷺ نے ثابت کیا کہ جب اللہ منافقین کو جہنم کا سب سے نچلا درجہ دیتا ہے تو رئیس المنافقین کیلئے مرنے کے بعد بھی نبیﷺ کا دل مبارک رحم کرنے کی اپیل سے نہیں چوکا بلکہ اللہ کو کہنا پڑا کہ اگر 70مرتبہ بھی استغفار کرو گے تو اللہ نے اس کو نہیں بخشنا ہے،یہ دنیا کے سامنے نبیﷺ کی رحمت للعالمین ہونے کی بہت بڑی سند ہے۔ جب آیت سے ثابت ہو جائے کہ نبیﷺ ہی مراد تھے تو کیا اس سے یہ ثبوت مہیا ہوتاہے کہ نبیﷺ کا اسوۂ حسنہ بہترین نمونہ نہیں تھا؟۔ یہ اقدام غلط تھا اور درست وہی تھا جو بدر کے قیدیوں کو معاف کرنے کے بجائے ان کا زمین میں خون بہادیا جاتا؟؟؟؟؟؟؟۔
نبیﷺ کا اسوۂ حسنہ بیشک بہترین نمونہ تھا ، وہ جو زمین میں خدا بنے پھرتے ہیں ان کا تعلق فوج، عدلیہ ، سیاستدان، علماء اور صوفیاء جس طبقے سے بھی ہو اور غلطی کے امکان کو اپنی توہین سمجھتے ہیں ان کیلئے ڈوب مرنے کامقام ہے کہ نبیﷺ کی سیرت طیبہ کو اللہ نے بطور نمونہ پیش کیا۔ صحابہ کرامؓ کی بھاری اکثریت کا مشورہ رحم کی اپیل کا تھا اور حضرت عمرؓ و سعدؓ کی رائے مختلف تھی تو اللہ نے اکثریت کے مشورے پر عمل بھی ہونے دیا مگر اقلیت کی بات کو درست کہنے کی مثال قائم کردی۔ کیا اس سے ڈکٹیٹر شپ کی راہ ہموار ہوسکتی تھی ؟، کیا اس سے جمہوری اکثریت کاقائد دوسروں کی تضحیک کا حق رکھتا ہے؟۔ حقیقی مسئلہ یہ نہ تھا کہ کافر نے جہاد کے دوران خوف سے کلمہ پڑھ لیا اور حضرت عمرؓ نے ناقابلِ قبول قرار دیکر قتل کردیا بلکہ مدینہ سے بدر کی بڑی مسافت کا راستہ تھا، 70قیدیوں کو لانے میں بہت وقت لگ گیا، ہم ہوتے تو اللہ سے شکوہ کرتے کہ وحی نازل نہ کی اور جب اللہ کے حکم مشاورت پر عمل کیا تو اسکو غیر مناسب قرار دیکر عذاب کی وعید بھی سنادی۔ ایسا اسلام ہمیں بالکل نہیں چاہیے۔
مسلمان شام سے آنیوالے قافلے کی لالچ میں گئے تو مشرکوں کا بہت بڑا لشکر آیا ، اللہ نے فرشتوں کی مدد سے مسلمانوں کو فتح سے نوازا، مسلمان اتنے نمک حرام نہ تھے کہ اللہ کی طرف سے تنبیہ پر برا مناتے۔ نبیﷺ کا فیصلہ بالکل 100فیصد درست تھا، اللہ کو بھی یہی منظور تھا تب ہی مشاورت اور فیصلے سے پہلے وحی بھی نازل نہیں کی اور ان آیات کے ذریعہ مسلمانوں کی تعلیم وتربیت کا اہتمام کیا کہ قیامت تک وحی کا سلسلہ بند ہوگا۔ جب ٹی وی اسکرین پر 2پیسے کمانے والے ریاستوں کے اہم معاملات پر بک بک کرنا شروع کریں تو ان میں اس بات کا شعور ہونا چاہیے کہ مصلحت کی کار گزاری پر زیادہ سوالات اٹھانے سے تمہاری قابلیت نہیں بلکہ تعلیم وتربیت کا فقدان نظر آئیگا۔بک بک کرنیوالا اپنا جائزہ لے۔
غزوہ احد میں مسلمانوں کوشکست ہوئی تو نبیﷺ اور صحابہؓ نے سخت انتقام کی بات کہہ دی۔ اللہ نے فرمایا کہ کیا ہوا ؟، اگر تمہیں زخم لگا ہے تواس سے پہلے ان کو بھی زخم لگ چکا ہے۔ کسی کے انتقام کا جذبہ اس حد تک نہ اُبھارے کہ اعتدال سے ہٹ جاؤ۔ جتنا انہوں نے کیا ہے تم بھی اتنا ہی کرو، اگر معاف کردو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے بلکہ معاف ہی کردو، اور ان کو معاف کرنا بھی اللہ کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے خود ہی بدر کے قیدیوں پر فدیہ لینے کے فیصلے کو غیرمناسب کہا اور خوب خونریزی کی خواہش ظاہر کی، جسکے نتیجے میں اُحد کی شکست پر انتقام کا جذبہ ابھرنا تھا۔ صحابہؓ نے معاف کرنے کا مشورہ دیا تو اللہ نے خون بہانے کی بات کہی اور صحابہؓ انتقام لینے پر آمادہ ہوئے تو اللہ نے معاف کرنے کا حکم دیا۔ دونوں آیات میں تضاد نہیں اعتدال کا راستہ تھا۔ چنانچہ پھر اللہ نے یہ وضاحت بھی کردی کہ جنگی قیدیوں کو فدیہ کے بدلے چھوڑ دو یا بغیر فدیہ کے ، تمہیں اسکا اختیار ہے۔ اولی الامر کی حیثیت سے نبیﷺ نے جو فیصلے فرمائے تھے ان واقعات کے ذریعے سے قیامت تک قرآن میں تمام اولی الامر کیلئے بہترین مثالیں قائم کرنی تھیں۔
حضرت عمرؓ کی طرف سے حضرت خالد بن ولیدؓ کو اس غلطی پر سنگسار کرنے کا مشورہ بھی قرآن وسنت کی تعلیم و تربیت کے نتیجے میں درست تھا اور حضرت ابوبکرؓ نے بھی درگزر سے کوئی غلط فیصلہ نہیں کیا ۔ کوئی کہہ سکتاہے کہ پھر بھی معاملہ خلط ملط نظر آتاہے ،قرآن نے کوئی واضح سمت متعین نہیں کی ؟ لیکن یہ بالکل غلط ہے۔ بدر کے قیدیوں میں اقرباء پروری کا جذبہ پنہاں تھا ، قریبی رشتہ داروں کو قتل کرنا بہت بڑے دل گردے کا کام ہے ، یہ حقیقت ہے کہ حضرت نوح ؑ نے سب کافروں کیلئے موت مانگی اور دعا قبول ہوئی تو بیٹے کے کفر پر دھیان نہ گیا۔ حضرت ابراہیمؑ نے اپنے مشرک باپ کیلئے بھی مرنے کے بعد دعا کی تھی۔ اُحد کے انتقام میں بھی اقرباء کے انتقام کا جذبہ تھااسلئے اللہ نے معاف کرنے کا حکم دیا تھا۔ حضرت علیؓ کے چہرے مبارک پر دشمن نے تھوک دیا تو سینے سے اترگئے کہ اب ذاتی انتقام کا جذبہ بھی شامل ہوگیاہے۔ صحابہؓ سے محبت اور دشمنی کی بنیاد پر فرقہ وارانہ تعصبات کو انتشار کا ذریعہ اور اپنے مفادات حاصل کرنیوالے غلیظ طبقات کو اپنی اصلاح پربھی توجہ دینی ہوگی۔
بڑا مسئلہ یہ ہے کہ خالد بن ولیدؓنے ہنگامی حالت میں قتل وغارت کی تھی تو فوجی کیلئے کرفیو کے دوران گولی مارنے کی اجازت سمجھ میں آتی ہے مگر جبری شادی پر معافی کیسے ملی اور اللہ کی بارگاہ میں حضرت خالدبن ولیدؓ کیلئے اتنی بڑی فحاشی والی حرکت کے باوجود ہم کیسے صحابیت کے تقدس کا تصور رکھ سکتے ہیں؟۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بہت بڑا گناہ تھا اور حضرت عمرؓ نے ٹھیک مشورہ دیا تھا کہ اس پر سنگسار کردیا جائے لیکن یہ ایک اضطراری کیفیت کی بات تھی ، خالد بن ولیدؓ کا یہی مشغلہ نہ تھا۔ اللہ نے فرمایا : الذین یجتبون کبائرا لاثم والفواحش الا اللمم ’’ جو اجتناب کرتے ہیں بڑے گناہوں اور بڑی فحاشیوں سے مگر کبھی کبھار‘‘۔ حضرت آدم ؑ کا شجرہ کے قریب جانے سے مشاجرات صحابہؓ تک اللمم کبھی کبھارکی ایک لمبی داستان ہے۔ جب خوشحالی کادور آتا ہے تو حضرت داؤد ؑ کے بارے 99بیگمات کے باوجود اپنے مجاہد اوریا کی بیگم سے شادی کی خواہش پر واضح تنبیہ آتی ہے کہ لی نعجۃ ولہ تسع وتسعون نعجۃ ’’ میرے پاس ایک دنبی ہے اور اسکے پاس 99دنبیاں ہیں‘‘ جس پر حضرت داؤد ؑ نے اللہ سے مغفرت طلب کی اور معاف کیا گیا، رسول اللہﷺ کے دل میں حضرت زیدؓ کی بیگم حضرت زینبؓ سے طلاق کے بعد شادی کی خواہش تھی مگر نبیﷺ نے عوام کے خوف سے اس خواہش کو چھپایا۔ اللہ نے فرمایا کہ’’ جس چیز کو آپ چھپارہے تھے ، اللہ نے اس کو ظاہر کرنا تھا‘‘۔کسی انسان کا دل اسکے اپنے اختیار میں نہیں ہوتا ، جائز اور ناجائز خواہش کسی کے دل میں بھی داخل ہوسکتی ہے۔ نبیؐ نے ایک خوبرو خاتون کو دیکھا اور نفسانی جذبہ ابھرا تو اپنی بیگم سے شہوت پوری کرلی اور فرمایا کہ جس کی نظر ناجائز جگہ پڑے اور خواہش ابھرے تو اپنی بیگم سے خواہش پوری کرلے اسلئے کہ جو چیز اسکے پاس ہے جس سے خواہش ابھری ہو تووہی اس کی بیوی کے پاس بھی موجود ہے۔
اللہ واضح طور پر کہتاہے کہ ’’ اپنے نفسوں کی پاکی بیان مت کرو، اللہ جانتا ہے کہ کون کتنا پاکی رکھتا ہے‘‘۔ اللہ کی ذات ہی نفسانی خواہش سے پاک ہے اسلئے کہ وہ بیوی، بیٹے اور بیٹیوں کے تصور سے بالکل پاک ذات ہے۔ انبیاء کرام ؑ اور صحابہ کرامؓ فرشتے نہیں تھے بلکہ حضرت آدم ؑ کی آل ا ولاد تھے۔حضرت یوسف علیہ السلام کے پیچھے آقا کی بیگم پڑی توفرمایا کہ میں نفس کو بری نہیں کرتا مگر اللہ نے میری حفاظت کردی۔ جو نفس نہیں رکھتا وہ کھدڑا بھی خدا کا بندہ ہے مگر نفسانی خواہش سے بچنے میں یہ کمال نہیں۔ حضرات انبیاء ؑ کمالات والے انسان تھے۔ بعض صوفیاء اور علماء نے اپنے کرتوت پر پردہ ڈالنے کیلئے لکھ دیا کہ ’’ حضرت زیدؓ نے نبیﷺ کی خواہش کیلئے غیرت کی قربانی دی اور داؤد ؑ نے اپنے مجاہد کی بیگم سے بدکاری کا جرم کیا‘‘ ۔یہ انتہائی گھناؤنے الزام ہیں اور ان تہمتوں کا اللہ کو حساب دیدیا ہوگا۔
حضرت داؤد ؑ نبی اوربادشاہ وخلیفہ تھے۔ اجتہادکا تقاضہ پورا کرکے دو قوموں کے درمیان فیصلہ کیا ، وہ انصاف کا تقاضہ پورا سمجھ رہے تھے مگر آپ ؑ کے صاحبزادے حضرت سلیمان ؑ نے کہا کہ ’’ اس سے ایک قوم کو انصاف ملے گا مگر دوسری قوم محروم ہوگی اور پھر خود ہی دونوں قوموں کے درمیان فیصلہ کردیا‘‘۔ داؤد ؑ نے فیصلہ کیا تھا کہ کھیت والوں کو نقصان کی قیمت میں جانور دئیے جائیں ۔ سلیمان ؑ نے فیصلہ دیا کہ کھیت جانور والوں کے ذمہ لگایا جائے جب تک وہ اپنی پوزیشن پر بحال نہ ہو اس وقت تک جانوروں سے کھیت والے اپنا فائدہ اٹھائیں۔ حضرت سلیمان ؑ کے بارے میں اللہ نے واضح کیا کہ ہم نے اس کو زیادہ فہم دیا تھا۔ حضرت داؤد ؑ اور حضرت سلیمان ؑ ہر ایک ہدایت پر تھے۔حضرت آدم ؑ کو اس شجرہ کے قریب جانے سے منع کیاگیا، جس سے آدمی بھوکا اور ننگا ہوجاتاہے۔ شیطان نے کہا تھا کہ میں تمہیں ہمیشہ رہنے والے شجرہ کی نشاندہی کردوں؟۔ پھر بیوی سے مباشرت کا طریقہ بتایا اور حضرت آدم ؑ نے جذبہ سے بے بس ہوکر اسکے قریب نہ جانے کے حکم کی خلاف ورزی کی مگر اللہ سے کہا کہ میں نے اپنے اختیار سے نہیں کیا ۔ حکم عدولی پر اللہ نے معافی دیدی مگر اسکے نتیجے میں قابیل پیدا ہوا، جس نے ہابیل کو اپنی نفسانی خواہش کی تکمیل کیلئے قتل کیا تھا۔

جماعت اسلامی کے بانی مولانا ابو اعلیٰ مودودی نے درس نظامی کی تعلیم حاصل نہیں کی تھی.

maulana-maududi-ne-ulmaa-k-dabao-pr-dharhi-rakhi

جماعت اسلامی کے بانی ابواعلیٰ موددی نے درسِ نظامی کی تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی، مولانا محمد منظور نعمانی اور دانشور طبقے نے جماعت کی آبیاری کی۔ علماء کے دباؤ پر داڑھی رکھی اور بتدریج اسی دباؤ کے نتیجے میں اتنی بڑھائی کہ پہلے کے مودودی اور بعد کے مودودی میں یہ واضح فرق نظر آیا جو تصویر میں دیکھ سکتے ہیں۔
علماء داڑھی رکھوانے کے بعد علیحدہ بھی ہوگئے۔ ایک عرصہ تک جماعت اسلامی اور علماء کرام کے درمیان شدید اختلاف بھی رہا اور مولانا مودودی نے یہ بھی کہا کہ ’’ اگر علماء نے مجھے قبول کرلیا تو سمجھ لو کہ علماء جیت گئے اور میں مشن ہار گیا ہوں‘‘۔ مولانا مودودی سے الگ ہونیوالے بڑے علماء نے ’’ الہ‘‘ کے تصور پر بنیادی اختلاف کا ذکر کیا۔
مولانا مودودی نے حق حکمرانی پر اقتدار کے حوالہ سے ایک الٰہ کا تصور پیش کیا۔ اسلام اور اقتدار کو لازم وملزوم قرار دیا ۔ شاہ ولی اللہ کے نعرے فک النظام اور للہ الامر کو بلند کیا ، جس کو بعد میں جمعیت علماء اسلام اور جمعیت طلبہ اسلام نے اپنا ’’ماٹو‘‘ بنالیاہے۔ مودودی نے درسِ نظامی پڑھا ہوتاتو نصاب کی اصلاح پر توجہ دیتے۔ درسِ نظامی وقرآن وحدیث کی تعلیم سے عاری مولانا مودودی کی صلاحیت قابلِ رشک تھی مگر وہ درختوں سے زرد پتے جھاڑتے رہے، شاخوں اور تنوں کی طرف توجہ نہ دے سکے۔ سیدمودودی نے کہا کہ حج نہ کرنیوالا کافر ومرتد ہے اسلئے کہ حدیث ہے کہ ’’جو حج کی استطاعت رکھتا ہے اور حج نہیں کرتا تو اس کی مرضی ہے کہ یہود بن کر مرے یا عیسائی‘‘۔ علماء نے کہا کہ فقہ میں حج نہ کرنیوالے کو کافر کہا گیاہے تو سید مودودی نے کہا کہ ’’حدیث کے مقابلہ میں کسی فقہ اور اصول فقہ کو نہیں مانتا‘‘۔ علماء نے فتویٰ لگادیا کہ ’’مولانا مودودی گمراہ ہے، کیونکہ فقہ کو نہیں مانتا‘‘، حالانکہ فقہ میں نمازنہ پڑھنے پر کافر ہونے کا اختلاف فقہی اماموں کے درمیان موجود ہے مگر فتویٰ نہیں لگایاگیا۔
مولانا مودودی کمیونزم کیخلاف لڑے مگر جہاں سے مولانا نے الہ کا تصور شروع کیاتھا، جس اللہ نے سود کو اللہ اور اسکے رسول ﷺ سے اعلانِ جنگ قرار دیا، اس سودی نظام کی گود میں روس کے خلاف جہاد کا آغاز ہوا تو منافقانہ طرزِ سیاست مجبوری بن گئی جس سے جماعت نکل نہ سکی۔ ضیاء الحق، نوازشریف کو اسلامی جمہوری اتحاد میں کندھا دیا گیا۔ متحدہ مجلس عمل و ملی یکجہتی کونسل کے ڈرامے رچائے گئے۔ نظریاتی جماعتِ اسلامی کی تبرکات بھی نہیں رہی ہیں۔ قاضی حسین احمد ڈھولک اور سراج الحق نے یوم مئی پر لال ٹوپی پہن لی مگر وہ سمجھتے ہیں کہ گناہ کیوں معاف نہیں ہوتا؟ ۔ وہ اپنے اصل کی طرف آئیں تو بات بنے!۔
حدیث میں مزارعت کو سودقرار دیاگیا۔ امام ابوحنیفہؒ ، مالکؒ و شافعیؒ نے متفقہ ناجائز کہا۔ نبی ﷺ نے اڑھت کی دلالی اور ذخیرہ اندوزی کی ممانعت فرمائی جو ساری کمائی کھا جاتے ہیں۔ مدارس کا نصاب درست ہونا چاہیے۔جماعت اسلامی مقصد کی طرف سفر شروع کرے تو اسکے پروں میں طاقتِ پرواز آسکتی ہے۔ مہرے کی طرح استعمال ہونے کا انجام ٹشوپیپر کی طرح ڈسٹ بین ہوتاہے اور جماعت اسلامی اپنی آنکھیں کھول لے۔

عالم اسلام کے سیاسی مذہبی مسائل کا حل کیا ہے؟

alam-e-islam-k-siasi-mazhabi-masail-ka-hal-kya-hai

رسول اللہﷺ نے 25سال کی عمر میں 40سال کی حضرت خدیجہؓ سے نکاح کیا اور آپﷺ بچپن سے بتوں سے بیزارتھے۔ بتوں سے بھرے کعبہ کو چھوڑ کر غارِ حراء کو مسکن بنایا تو پہلی وحی نازل ہوئی ۔ ’’پڑھ اللہ کے نام سے جس نے پیدا کیا، انسان کو لٹکے عضوء سے پیدا کیا۔ پڑھ تیرے عزت والے ربّ کی قسم ! جس نے قلم کے ذریعے سکھایا۔ انسان کو سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا‘‘۔ پہلی وحی میں انسان کو اسکے پیدائش کے اوقات بتادئیے۔ اللہ رب العزت کا مقام باورکرایا کہ انسان کی حقارت پیدائش کا آلۂ تناسل ہے ۔ اللہ رب العزت جس نے قلم سے وہ سکھادیا، جو وہ نہیں جانتاتھا
جاہل ابوجہل وابولہب انکار نہ کرسکتے کہ جہالت کے باوجود اپنے مقام کا دعویٰ کرنے والے جس چیز سے پیدا کئے گئے۔ کوئی معزز بات نہیں، عضوء کا نام تک لینا گوارا نہیں۔ مگر کیسے باور کریں کہ قلم کی طاقت سے کوئی غلام بھی اپنے سردار سے زیادہ معزز بن سکتاہے۔ آخر کار جہالت نے تمام تر بدمعاشی، دہشت گردی اور منافقت کی انتہاء کرنے کے باوجود اس مدرسہ کے اصحابؓ کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے جس کا آغاز اقراء کے لفظ سے ہوا تھا۔ مشرکینِ مکہ کے جاہل قلم اور علم سے عوام کو ڈراتے تھے،اب جاہلوں کے جانشینوں نے اسلامی لبادہ اوڑھ کر جاہلوں کا وہی کام کیا۔
اب کون دیکھتا ہے تیرے شمس کی طرف
سورج مکھی کے پھول شعاعوں سے ڈر گئے
مکہ فتح ہواتو رسول ﷺ نے حضرت علیؓ کی بہن اُم ہانیؓ کے مشرک شوہر کو پناہ دی۔ کیا مشرک شوہر مؤمنہ کو نکاح میں رکھ سکتا تھا؟۔ حضرت علیؓ نے قتل کا فیصلہ کیا اور اُم ہانیؓ اپنے شوہر کو زندہ رکھنا چاہتی تھیں، فیصلہ رسولﷺ نے حضرت اُمّ ہانیؓ کے حق میں کردیا۔ کیا یہ حضرت علیؓ کی شکست اور اُمّ ہانی کی جیت تھی ؟ رائے کی غلطی یا صواب فتح اور شکست نہیں بلکہ تحقیق ہے۔ سورۂ مجادلہ دیکھ لیجئے ، اللہ نے رسول ﷺ سے بحث وتکرار کرنیوالی حضرت خولہ بنت ثعلبہؓ کے حق میں وحی اُتاردی۔ نبیﷺ نے مشاورت کرکے بدر کے قیدیوں پر فدیہ لینے کا فیصلہ فرمایا تو اللہ نے کہا کہ’’ نبی کیلئے مناسب نہ تھا کہ آپکے پاس قیدی ہوں، یہانتک کہ زمین میں خوب خونریزی کریں‘‘۔ آےۃ آئینہ ہے کہ نبیﷺ نے جب مشاورت کے بعد فیصلہ کیا مگر وحی بر عکس نازل ہوئی تو اسے انا کا مسئلہ نہیں بنایا بلکہ زارو قطار روئے، اللہ نے مسلم امہ کی تربیت کرنی تھی تاکہ روشن خیالی دل ودماغ میں سرایت کرجائے کہ وحی نے نبیﷺ کی رہنمائی کی تو کوئی اپنے آپ کو مولائے کل نہ سمجھے۔ مولانا اور علامہ نے ہٹ دھرمی چھوڑ کر حقائق کو قبول کرنا ہوگا۔
مولانا فضل الرحمن اور علامہ ساجد نقوی کو ایک جگہ بیٹھ کر پوری قوم کو سمجھانا ہوگا کہ ہم مرد ہیں اور مرادنگی کو پسند کرتے ہیں۔ قرآن میں موجود آیات اور سیرت طیبہ کے واقعات اگر عوام اور دنیا کو سمجھائے گئے تو اسلامی انقلاب کی آمد میں کوئی دیر نہیں لگے گی۔ اپنی بلّیوں کو اپنی تھیلیوں میں چھپانا مسائل کا حل نہیں۔
اُمّ ہانیؓ نے شروع میں اسلام قبول کیا مگر ہجرت نہیں کی۔ فتح مکہ کے بعد اسکا شوہر چھوڑ کر گیا تو نبیﷺ نے بجائے طعن کے شادی کی پیشکش کردی۔اُمّ ہانیؓ نے عرض کیا کہ یہ میرے بچوں پر گراں گزریگااور معذرت کرلی تو نبیﷺ اس خاتونؓ کی تعریف فرمائی۔ پھر اللہ نے آیات نازل کیں کہ رشتہ داروں میں جن خواتین نے ہجرت نہیں کی،ان سے نکاح نہ کریں۔پھر فرمایا کہ ’’آج کے بعد کوئی پسند آئے تب بھی اس سے نکاح نہ کریں‘‘۔
رسول ﷺ نے لونڈی ماریہ قبطیہؓسے حرمت کی قسم کھائی تو اللہ نے وحی نازل کی کہ ’’جسے اللہ نے تیرے لئے حلال کیا ،اسے خود پر کیوں حرام کرتے ہو، اپنی ازواج کی مرضی کیلئے‘‘۔ چندآیات ، سیرت طیبہ کے واقعات کو دنیا کے سامنے رکھا جائے تو کئی پیچیدہ فقہی مسئلے، فرقہ وارانہ عقائد، بین الاقوامی مسائل حل ہوجائیں گے۔ قانونی نکاح پر زنا کا فتوی نہ لگایا جائیگا۔کسی مؤقف پر ہٹ دھرمی کا جواز نہ رہیگا، ہتک آمیزکارٹون ختم ہونگے،مسلک سازی، فرقہ بندی ، جدّت طرازی ختم ہوگی۔
شیعہ سنی نے ایکدوسرے کو قرآن کا منکر اور تحریف کا قائل قرار دیا مگر اپنے نصاب کی اصلاح نہ کی۔ شدت پسندوں نے قربانیاں دیں اور جبہ ودستار فرشوں نے ہمیشہ مزے ہی اڑائے، اب حقائق کی طرف آنا پڑے گا۔

بریلوی مکتب نے مولانا طارق جمیل پر تنقید سے اپنائیت کا مظاہرہ کیا مگر یہ تنقید غلط ہے

Imam-of-Bohri-community-Mufaddal-Saif-Uddin-sahab-first-time-ever-with-Maulana-Tariq-Jameel-sahab
تبلیغی جماعت کے مولانا طارق جمیل ،مفتی زبیر وغیرہ وفد نے داؤدی بوہرہ جماعت کے سربراہ سے ملاقات اور تحائف کا تبادلہ کیا، جسکی ویڈیو سوشل میڈیا پر عام ہوئی۔ بریلوی مکتب نے تنقید سے اپنائیت کا مظاہرہ کیا،مگر یہ تنقید غلط ہے۔ قائداعظم آغا خانی تھے، جنازہ علامہ شبیر احمد عثمانی نے پڑھایا۔