پوسٹ تلاش کریں

مفتی تقی عثمانی کے حوالے سے تجزیہ: مُلا منیر

ہمارا معاشرہ حق، دین اور انسانیت کے بجائے پیسہ، شہرت ، اثر ورسوخ اور باطل ڈھانچے کی بنیاد پر کھڑا انقلاب کامنتظرہے

مفتی تقی عثمانی شادی بیاہ کے لفافے کو سود، ماں سے زنا اور سودی نظام کو اسلامی قرار دیاہے ،باقی سارے مدارس مخالف ہیں

اسلام کا حلیہ ہر دور میں ایسے شیخ الاسلاموں کے ذریعہ سے ہی بگاڑا گیا ہے، معاوضہ اور سرکار کی سرپرستی بھی ملتی ہے۔ ملا منیر

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں سود کی سخت مخالفت کی، رسول اللہ ﷺ نے اس کی مذمت فرمائی،مگر عملی طور سے سودی معاملات کا خاتمہ حجۃ الوداع کے موقع پر پہلے چچا عباسؓ کے سود کو معاف کرنے سے کیا۔ جس سے یہ سبق ملتا ہے کہ سود ایک انفرادی معاملہ اور اجتماعی مسئلہ ہے۔ جیسے خنزیر کے گوشت کو اللہ نے حرام کہا لیکن بوقتِ ضرورت بقدر ضرورت اجازت بھی ہے۔ آنے والے وقت میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مرغیوں اور جانوروں کی طرح خنزیروں کے بھی فارم بنائے جائیں، دوسرا گوشت بھی ناپید کردیا جائے تو مفتی تقی عثمانی کی آل اولاد سے اس پر سوفیصد حلال ہونے کا معاوضہ دیکر فتویٰ جاری کیا جائے، تبلیغی جماعت والے مسجدوں میں اسکے کھانے کے فضائل بیان کرنا شروع کردیں۔ مخالفت کرنے والے مذہبی جماعتیں جمعیت علماء اسلام حکومت سے مفاد لیکر اس کی سپلائی اپنے ہاتھ میں لیں، تنظیم اسلامی اور جماعتِ اسلامی کے لوگ دارالعلوم کراچی سے خرچہ پانی لیکر خنزیر گوشت کیخلاف مہم شروع کردیں کہ اللہ نے اس کو قرآن میں حرام قرار دیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی واضح کریں کہ فارمی خنزیر وں کا مدارس نے فتویٰ دیا ہے کہ یہ اسلامی ہے۔ جس طرح سود کی مخالفت کے نام پر پیسہ لیکر اسلامی بینکاری کی حمایت کی جارہی ہے۔
جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی، جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کراچی جہاں مفتی تقی عثمانی کے استاذ شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان بیٹھے ہیں، مولانا مفتی زر ولی خان اور دیگر تمام مدارس والے مفتی تقی عثمانی کی مخالفت کررہے ہیں مگر اس کا کوئی اثر مرتب نہیں ہورہا ہے۔ آج سود کا معاملہ ہے تو کل خنزیر کے گوشت کا ہوگا۔ مفتیان نے شروع سے جائز کو ناجائز اور ناجائز کو جائز قرار دینے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا۔ فقہ کے چار اماموں سے پہلے مدینہ کے سات فقہاء گزرے ہیں وہ بھی عام تصویر اور مجسمہ کو ناجائز نہیں سمجھتے تھے، رسول اللہ ﷺ کے اپنے گھر میں بھی حدیث صحیحہ کیمطابق پرندے کی تصویر تھی، گھوڑے کی شکل میں کھلونا مجسمہ تھا، حضرت عائشہؓ کے حجرے میں نبیﷺ اور حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ کی قبریں تعمیر ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں انسان پر احسانات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ قتل الانسان ما اکفرہ ، من ای شئی خلق، من نطفۃ ، خلقہ فقدرہ ، ثم سبیل یسرہ ، ثم اماتہ فاقبرہ ’’مارا جائے انسان یہ کیوں ناشکری کرتا ہے؟، کس چیز سے اس کو پیدا کیا؟ ، نطفہ سے پیدا کیا!، اس کو پیدا کیا، پھر اس کا مقدر بنادیا، پھر اس کیلئے اس کا راستہ آسان کردیا، پھر اس کو موت دیدی اور قبر دیدی‘‘۔ یعنی قبر بھی احسان ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے پوجے جانے والی قبروں، مجسموں اور تصویروں کو مٹانے کا فرمایا لیکن اس کی دنیاوی شکل وصورت پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔ مسلمانوں کے سامنے اسلام کا حلیہ بگاڑنے کی ضرورت نہیں بلکہ حقائق بتانے کی ضرورت ہے۔معجزات اور کرامات برحق ہیں لیکن اسکے نام پر تجارت اور لوگوں کو بیوقوف بنانا بہت غلط ہے۔ روحانی علاج سائنس کی بنیاد پر بھی ایک نفسیاتی علاج ہوسکتا ہے لیکن سوچنے کی ضرورت ہے کہ اگر اللہ نے یہی کرنا ہوتا تو رسول اللہ ﷺ کو شعبِ ابی طالب، مکی دور کی تکالیف، طائف کے سفر میں لہولہان اور حبشہ کی طرف ساتھیوں کو مہاجر اور مدینہ ہجرت کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی؟۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو حکم دینا تھا کہ اپنی جگہ پر دم درود سے علاج کرو، ساری دنیا جھوٹے بتوں لات، منات، عزیٰ وغیرہ کو چھوڑ کر نبیﷺ کے درِ اقدس پر سر جھکاتی اور علاج و شفایاب ہوکر جاتی لیکن اللہ نے ایسا نہیں کیا، یہ الگ بات ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کو غارِ ثور میں سانپ نے ڈس لیا تو لعابِ دہن مبارک سے شفاء مل گئی۔ سراقہ نے سرپٹ گھوڑا دوڑا کر انعام کے چکرمیں نبیﷺ کا پیچھا کیا تو اللہ نے معجزانہ طریقے سے اس کو ٹھوکریں کھلا کر معافی مانگنے پر مجبور کیا، کسی کا دل نہیں مانتا یاگھوڑے کے دھنسنے کا واقعہ شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی اور سرسید احمد خان جیسے لوگوں کی نظروں میں بناؤٹی ہوسکتا ہے لیکن موجودہ دور میں بھی امامِ انقلاب سید عتیق الرحمن گیلانی پر کار میں گولیوں کی بوچھاڑ کی گئی اور اللہ کی قدرت سے بچ گئے۔ گاڑی خود چلارہے تھے اور گاڑی کاوہی دروازہ لیزر ہتھیار سے ایسا کٹ گیا تھا جیسے کلہاڑی سے کاٹا گیا ہو مگر پھر بھی آپ اور ساتھ میں بیٹھنے والوں کو خراش تک نہیں آئی۔
اگر شاہ صاحب وہیں بیٹھ جاتے اور لوگوں کو دم تعویذ کے نام پر دھوکہ دیتے تو طالبان بھی ان کے مرید بن جاتے۔ وہاں کے لوگوں کو یہ بھی پتہ نہیں کہ بریلوی کیا ہوتا ہے، گومل کا ایک خاندان اہلحدیث بن گیا، شاہ صاحب کے گھر کی نوکرانی نے کہا تھا کہ ’’وہ بریلوی بن گئے ہیں‘‘ جس پر کہا گیا کہ وہ تمہیں بریلوی سمجھتے ہیں، اس نے کہا کہ اللہ نہ کرے کہ میں بریلوی ہوں۔ اہلحدیث مسجد کے امام کی تنخواہ ، کنویں کی کھدائی وغیرہ کے نام پر کچھ مفادات اٹھارہے تھے تو شاہصاحب کے بھائی پیر نثار نے ان سے کہا تھا کہ ’’یہ کونسی بات ہے کہ ایک خاندان والے کو بیک وقت اہلحدیث کا مسلک سمجھ میں آگیا‘‘۔ مفتی تقی عثمانی کے پورے خاندان والوں کو اچھا خاصہ معاوضہ مل رہا ہے ، یہ صرف اسی خاندان اسلئے سمجھ میں آیا ہے کہ سودی بینکاری کو اسلامی قرار دینا درست ہے۔ پھر مفتی منیب الرحمن بھی میدان میں کود گیا، آہستہ آہستہ آخرمخالفت کا نام ونشان بھی مٹ جائیگا۔
اللہ تعالیٰ نے اس دور میں سید عتیق گیلانی کی صورت میں ایک تحفہ دیا ہے جس کو ڈھال بناکر ملک سے فرقہ پرستی، قوم پرستی، باطل پرستی اور سارے غلط فتوؤں کا نام نشان مٹایا جاسکتا ہے، زندگی بھر ان کا ساتھ نہ دیا جائے اور فوت ہونے کے بعد علماء حق کی فہرست میں سرخیل ہوں تو یہ بھی ان کے نام پر اپنی کتابیں بیچنے کا دھندہ ہوگا۔ علماء حق کیساتھ تاریخ کے ہر دور میں یہ معاملہ رکھا گیا ہے لیکن یہ میڈیا کا دور ہے، تصویر کا مسئلہ علماء ومفتیان نے اپنے مفاد میں قبول کرلیا ، طلاق کے مسئلے کو بھی قبولیت مل رہی ہے، لوگوں کو محنت کی ضرورت نہیں صرف آنکھیں کھولنے کی ضرورت ہے۔

اسلام سورج کی طرح ہے اور مذہبی طبقے مینڈکوں کی طرح پانی میں عکس پر لڑ رہے ہیں، عتیق گیلانی

حضرت ابراہیمؑ کے بعد دین کا معروف دورِ جاہلیت میں منکر اور منکر معروف بن چکا تھا۔حقیقی ماں کی پیٹھ کو ماں کی پیٹھ سے تشبیہ دینے پر حرام سمجھناشرعی فتویٰ بن چکا تھا۔

رسول ﷺ سے خاتونؓ نے اپنے شوہر کے مسئلہ پر جھگڑا کیا، رائج الوقت فتویٰ پر اللہ نے فرمایا کہ ماں وہ ہے جس نے جن لیا، بول سے ماں نہیں بنتی یہ جھوٹ و منکرہے

بلاتفریق تمام مذہبی طبقوں نے سورج کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے کھڈوں میں اسکے عکس کو تلاش کرنا شروع کیااورپانی بھی گدلا کردیاہے تو ان کو عکس کہاں نظر آئیگا؟

بلاول زرداری نے درست کہا کہ شیر ڈیزل سے نہیں چلتا ، اگر ساتھ میں یہ مشورہ بھی دیتے کہ بھنگ سے چلتا ہے تو وزیر اعظم کو اوپن ہارٹ سرجری نہیں کرانی پڑتی تھی

سندھ کی حکومت پٹرول پیتی ہے ، نیشنل ہائی وے کی شامت پھر آئی ہے ، اگر بلٹ پروف شیشے کیطرح وزیر اعلیٰ کو اندرون سندھ لے جاتے تو کراچی کی قسمت جاگ جاتی

سب نے احمقوں نے اجماع کرلیا کہ سورج چھوٹا ہوتا ہے اسلئے کہ چھوٹے کھڈے میں سمایا اور سورج ٹھنڈا ہے اسلئے کہ اگر گرم ہوتا تو تھوڑا پانی اُبل پڑتا۔یہ منطق ہے

فطری دین اسلام پیش کیا جائے تو مذہبی و غیر مذہبی طبقے فوراً پاکستان ،عالم اسلام اورتمام انسان قبول کرینگے

Mandak2_june2016

اسلام دین فطرت کو مذہبی طبقوں نے غیرفطری بنا ڈالا

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ ’’ اسلام اجنیت کی حالت میں شروع ہوا تھا، اور عنقریب یہ پھر اجنبی بن جائیگا، پس خوشخبری ہے اجنبیوں کے لئے‘‘۔
پاکستان میں سنی، شیعہ، دیوبندی ، بریلوی ،اہلحدیث اور دوسری صدی ہجری میں مالکی، حنفی، شافعی، حنبلی، جعفری،اہل ظواہر،محدثین اور دوسرے فقہاء تھے، فقہ و حدیث کی بنیاد پر محدثین اور فقہاء میں سخت اختلاف اور کشمکش کی فضاء تھی لیکن فقہاء ایک دوسرے سے بھی شدید اختلاف رکھتے تھے، اس طرح محدثین کی بھی آپس میں بھی نہ بنتی تھی، ایک دوسرے کو کذاب اور کتے کے بچے کہنے سے بھی دریغ نہ کرتے، جس کی نشاندہی حدیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ ایک ساتھ تین طلاق کی روایت کرنے والے ایک روای کو دوسرے نے ’’جرو کلبیعنی کتے کا بچہ‘‘ قرار دیا ۔
محدثین فقہاء کو ’’ أ ریتون کیا تو نے دیکھا والا طبقہ یا ایسا ہوا تو کیا ہوگا؟‘‘کا نام دیتے ، حدیث جسمیں اسلام کا صرف نام باقی رہنے، قرآن کے صرف الفاظ باقی رہنے ، مساجد لوگوں سے بھری مگر ہدایت سے خالی اور انکے علماء آسمان کے نیچے بدترین مخلوق قرار دیاگیا کہ فتنے انہی سے نکلیں گے اور انہی میں لوٹیں گے، محدثین ؒ اس حدیث کی پیشین گوئی کو اپنے زمانے پر فقہاء کی وجہ سے پورا سمجھتے تھے، جبکہ فقہاء سمجھتے تھے کہ ان کی وجہ سے اسلامی احکام کی تشریح اور حفاظت ہورہی ہے۔
ہمیں ان دونوں طبقے کے خلوص پر کوئی شبہ نہیں لیکن من گھڑت روایات اور حیلہ سازی کے کرشموں کو بھی درست قرار دینا ایمان کا زوال اور اسلام کی بیخ کنی ہوگی۔ میں یہ بھی نہیں کہتا کہ پہلے لوگوں نے اس سے غفلت کا مظاہرہ کیا ۔امام غزالیؒ ، مجدد الف ثانیؒ ، شاہ ولی اللہؒ اور بے شمار علماء حق نے اپنے ضمیر، صلاحیت اور ہمت کیمطابق ہدایت کی شمعوں کو جلائے رکھا، اپنے دور کے درخشندہ ستاروں کو گلہائے عقیدت کا پیش کرنا اور ان سے بدظنی کا شکار نہ ہونا ایک بالکل الگ بات ہے مگر انہوں نے کبھی بھی نہ یہ دعویٰ کیا کہ ان سے اختلاف جائز نہیں اور اگر وہ یہ دعویٰ کرتے تو ہمارا فرض بنتا تھا کہ ان کو چمکتے ستاروں کی مانند سمجھنے کی بجائے ان کو زمین میں دفن کرکے قبروں کے نشان بھی زمین پر نہ چھوڑتے، کیونکہ کوئی بت بنائے تو قصور بنانے والوں کا ہوتا ہے لیکن کوئی فرعون کی طرح دعویٰ کرے تو دین میں اس کیلئے کوئی گنجائش نہیں۔
رسول اللہ ﷺ رحمۃ للعالمین آخری نبی کی وحی کے ذریعہ رہنمائی ہوئی،پھر یہ سلسلہ قیامت تک کیلئے بند ہے۔ یہودو نصاریٰ اور مشرکینِ مکہ کا دعویٰ تھا کہ ابراہیمؑ کی ملت پر ہیں مگر وہ دینِ فطرت کی شکل بگاڑ چکے تھے۔جب تک وحی سے رہنمائی نہ ملتی تھی تو نبیﷺ پہلے مشرکینِ مکہ یا یہود ونصاریٰ کے مذہبی فتوؤں کو بعض معاملوں میں درست سمجھتے تھے۔سورۂ مجادلہ ، سورۂ احزاب اور دیگر قرآنی سورتوں اور احادیث صحیحہ میں اسکے بھرپور شواہد موجود ہیں۔دورِ جاہلیت میں معروف منکر اور منکر معروف بن چکا تھا۔رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک خاتون نے عرض کیا کہ میرے شوہر نے مجھ سے ظہار کیا ہے، بیوی کی پیٹھ کو ماں کی پیٹھ سے تشبیہ دینا ظہار کہلاتا تھا ، سخت ترین طلاق کی صورت یہی تھی۔نبیﷺ نے فرمایا کہ آپ حرام ہوچکی ہیں، اب کوئی راستہ نہیں رہا ہے، وہ بحث وتکرار، مجادلہ و جھگڑاکررہی تھی کہ میرے شوہر کی نیت نہیں تھی، میری زندگی اور میرے بچوں کی زندگی تباہ ہوجائے گی۔ اللہ نے وحی اتاری۔
قد سمع اللہ قول التی تجادلک فی زوجہا۔۔۔ بیشک اللہ نے بات سن لی اس عورت کی جو آپ سے جھگڑ رہی تھی اپنے شوہر کے معاملہ میں۔۔۔ ان کی مائیں نہیں مگر جنہوں نے ان کو جنا ہے۔۔۔ یہ (مذہبی فتویٰ) جھوٹ اور منکر ہے۔۔۔ سورۂ مجادلہ کی ان آیات سے علماء و مفتیان کو یہ سبق لینا چاہیے کہ معاشرہ میں اگر منکر معروف کی جگہ لے لے تو بڑے سے بڑا آدمی بھی مغالطہ کھا جاتا ہے،شیعہ مکتب کی رائے اپنے ائمہ اہلبیتؑ کے بارے میں مختلف ہے ، صحیح بخاری میں انکے ائمہ کا ذکر ’’علیہ السلام‘‘ کیساتھ کیا گیا ہے،احادیث میں اہلبیت کی خاص اہمیت بیان کی گئی ہے لیکن اہلبیتؑ زیادہ سے زیادہ ان کے عقیدے کے مطابق بھی نبیﷺ کے واحد جانشین بن سکتے ہیں، قرآن و سنت سے بڑا درجہ تو ان کا نہیں ہوسکتا ہے۔
اہل تشیع کے معروف عالم دین علامہ طالب جوہری سے میری ملاقات ہوئی تھی علامہ علی کرار نقوی بھی موجود تھے، میں نے کہا کہ نبیﷺ سے اختلاف جائز تھا؟ تو انہوں نے کہا کہ نہیں، سورۂ مجادلہ کا واقع بتانے پر قرآن منگوایا، دیکھنے پر کہا کہ ’’ یہ متشابہات میں سے ہے، محکمات یہ ہیں کہ نبیﷺ سے اختلاف جائز نہ تھا‘‘۔ رسول اللہ ﷺ کی سیرت اعلیٰ نمونہ تھا ، جس میں جبر نہ تھا، کوئی بھی اختلاف کا مجاز ہوتا تھا، بدر کے قیدیوں پر فدیہ اور حدیبیہ کے معاہدہ میں اختلاف کا اظہار ہوا تھا ، بدر کے قیدیوں پر نبیﷺ کی رائے کونامناسب اور حدیبیہ کے معاہدے میں نبیﷺ کی رائے کو فتح مبین قرار دیا گیا ہے۔سورۂ احزاب کی آیات پڑھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ معروف منکر اور منکر معروف بن چکا ہو،تواسوقت دین پر عمل کتنا مشکل ہے؟۔
سورۂ مجادلہ میں اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کے دور میں معروف مذہبی فتویٰ کو جھوٹ اور منکر قرار دیالیکن جب فضاؤں میں منکر معروف بن کر انسانی رگ وریشہ میں خون کی طرح دوڑ رہا ہو تو قبولِ حق سے آدمی مقدور بھر اعراض کرتا ہے۔ اسلئے اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا کمال ہے کہ نبیﷺ کی سیرت طیبہ کو اعلیٰ نمونہ بناکر پیش فرمایا۔ وحی نازل ہونے سے قبل آپﷺ کے سینہ مبارک کو چاک کرکے کوئی کالی چیز نکالی گئی ، وحی کی رہنمائی کسی اور کی نصیب میں نہ تھی۔اللہ کو معلوم تھا کہ دین قیامت تک چلے گا لیکن معروف کو منکر اور منکر کو معروف بنادیا جائیگا۔ اس وقت قرآن کے الفاظ اور نبیﷺ کی سیرت سے رہنمائی ہدایت کا اہم ترین ذریعہ بن جائیں گے۔اسلئے قرآن میں بار بار اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی اطاعت کا حکم ہے اور رسول ﷺکی اطاعت کو اللہ کی اطاعت قرار دیا گیا ۔علماء قرآن و سنت کو چھوڑ کر اجماع کا طبلہ بجارہے ہیں ۔
یا ایھا النبی اتق اللہ ۔۔۔ اے نبی! اللہ سے خوف کھا، اور کافروں و منافقوں کی اتباع نہ کر۔۔۔ اور اتباع کر جو تیرے رب نے تجھ پر نازل کیاہے اور اللہ پر توکل کر، اللہ کی وکالت کافی ہے، اللہ نے کسی آدمی کے سینہ میں دو(2)دل نہیں رکھے ہیں اور نہ تمہارے لئے مائیں بنایا ہے جن سے تم ظہار کرتے ہو،اور نہ تمہارے منہ بولے بیٹوں کو حقیقی بیٹے بنایا ہے ، یہ باتیں ہیں تمہارے منہ کی ‘‘۔آگے یہ بھی فرمایا کہ ’’ آپ لوگوں سے ڈرتے ہیں اللہ زیادہ حق دار ہے کہ اس سے ڈرو‘‘۔الاحزاب
مولوی بیچارا تو لوگوں سے نہیں اپنے سایہ سے بھی ڈرتا ہے، معاشرے میں اس رسم کو توڑنا اسکے بس کی بات نہیں جب منکر نے معروف کی جگہ لی ہو۔ قرآن کی یہ آیات عام لوگ پڑھ لیں اور پھر بند حجروں میں علماء ومفتیان کو ایک ایک کرکے ماحول فراہم کریں جس میں ان کیلئے حق پر چلنا مشکل نہ رہے۔سنی مکتب سے زیادہ شیعہ مکتب کے علماء ومفتیان کیلئے رسم کے خلاف حق کی راہ اپنانا مشکل ہے ، دیوبندی اور بریلوی کے مقابلہ میں اہلحدیث کیلئے رسم کے خلاف چلنا مشکل ہے اور دیوبندی کے مقابلہ میں بریلوی کیلئے رسم کے خلاف حق پر چلنا زیادہ مشکل ہے۔
بریلوی حضرت ابوبکرؓ ، دیوبندی حضرت عمرؓ ، اہلحدیث حضرت عثمانؓ، شیعہ حضرت علیؓ کے مزاج سے مناسبت رکھتے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے زندگی بھر نبی ﷺ کی اطاعت کی لیکن جب اپنے دور میں زکوٰۃ نہ دینے والوں کیخلاف قتال کا فیصلہ کیا تو کسی کی سنی اور نہ مانی۔ حضرت عمرؓ نے حدیث قرطاس میں نبیﷺ سے عرض کیا، ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے،حضرت عثمانؓ نے روایات کو ترجیح دی، حضرت علیؓ نے اپنی انفرادیت برقرار رکھی۔ دیوبندی مجبوراً اور بریلوی برضا مقلد حنفی ہیں۔ فاروق اعظمؓ، امام اعظمؒ اور دیوبندی اکابرؒ کی اپوزیشن بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔