پوسٹ تلاش کریں

غربت ختم کرنے کا ذریعہ زکوٰۃ مگر…..

حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا : جب یہ اُمت شراب کو مشروب کے نام سے ، سُود کو منافع کے نام سے اور رشوت کو تحفے کے نام سے حلال کرلے گی اور مال زکوٰۃ سے تجارت کرنے لگے گی تو یہ ان کی ہلاکت کا وقت ہوگا، گناہوں میں زیادتی و ترقی کے سبب۔
رواہ الدیلمی ، کنز العمال ص ۲۲۶ ج ۱۴ ، حدیث نمبر ۳۸۴۹۷۔ عصر حاضر حدیث نبوی ﷺ کے آئینہ میں، مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ ۔
مکتبہ بینات علامہ بنوری ٹاؤن کراچی نمبر ۵۔ ملنے کے پتے: مکتبہ شیخ الاسلام جامع مسجد فلاح بلاک نمبر 14نصیر آباد ، ایف بی ایریا کراچی۔
اسلامی کتب خانہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی، مظہری کتب خانہ گلشن اقبال نمبر۲کراچی، مکتبہ بینات جامعہ علوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی

نماز ، روزہ اور حج کی طرح زکوٰۃ بھی ایک اسلامی فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بار بار نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کی قرآن میں تلقین فرمائی ہے۔ زکوٰۃ میں ایک بنیادی اور اہم ترین بات یہ ہے کہ کسی مستحق شخص کو زکوٰۃ کے مال کا مالک بنادینا ضروری ہے۔ جو فلاحی ادارہ اور مدرسہ بھی زکوٰۃ لوگوں سے مانگتا ہے کیا وہ شرعی تقاضہ کو پورا کرتے ہوئے مستحق افراد کو زکوٰۃ کا مالک بناتاہے یا نہیں؟۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے بانی حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوریؒ مدرسہ کیلئے 8 مہینے کا بجٹ بنادیتے تھے ، شعبان اور رمضان کی چھٹیاں ہوتی تھیں ، شوال سے رجب تک 8مہینے طلبہ تعلیمی نصاب مدرسہ میں پڑھتے تھے، جن میں ہر ماہ طلبہ کو زکوٰۃ کے وظیفے کا باقاعدہ مالک بنادیا جاتا تھا، پھر جو طلبہ مدرسہ کے لنگر کا کھانا کھاتے تھے وہ کچھ رقم کھانے کی مد میں جمع کرتے تھے اور کچھ اپنی ضروریات کیلئے رکھ لیتے تھے ۔ مثلاً 150روپے ہر طالب علم کو وظیفہ ملتا تھا اور اس میں سے 120کھانے کیلئے اور 30 روپے ضروریات کیلئے ہوتے تھے۔ اگر مدرسہ میں ہزار طلبہ پڑھتے تھے تو 8ماہ کے حساب سے ماہانہ بجٹ150×1000=150000 ڈیڑھ لاکھ اور سالانہ بجٹ 150000×8=1200000، بارہ لاکھ بنتا تھا۔ مولانا بنوری ؒ 12 لاکھ سالانہ کے بعد زکوٰۃ کی رقم لینا بند کردیتے تھے۔ اگلے سال کیلئے مزید زکوٰۃ لینا جائز نہیں سمجھتے تھے، کیونکہ اس طرح سے سالانہ زکوٰۃ کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔
دار العلوم کراچی کے ارباب اہتمام زکوٰۃ کیلئے مخصوص مقدار کے بجائے لا متناہی رقم لیتے تھے۔ جہنم کے بارے میں اللہ نے فرمایا کہ وہ کہے گا کہ ھل من مزید کیا اور بھی ہے۔ دار العلوم کراچی کے ارباب اہتمام زکوٰۃ کے خود ہی وکیل بن جاتے اور خود ہی منصف۔ زکوٰۃ کے بارے میں مذہبی طبقہ کی طرف سے حیلے کا سلسلہ بہت پرانا ہے۔ حضرت امام غزالیؒ نے لکھا کہ حضرت امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد شیخ الاسلام قاضی ابو یوسف سال ختم ہونے سے پہلے اپنا سارا مال بیوی کو ہبہ کردیتے تھے اور اگلے سال بیوی سارا مال اس کو ہبہ کردیتی تھی، یوں زکوٰۃ سے بچنے کا حیلہ بنارکھا تھا۔ امام غزالیؒ کی کتابوں کو اس وجہ سے مصر کے بازاروں میں جلایا گیا۔ ان کو امام ابو یوسف کی بدنامی سے زیادہ فکر اپنے حیلوں کو بچانے کی تھی۔ مولانا ابو الکلام آزاد نے لکھا کہ دیوبند کے ایک بزرگ بڑے عالم دین بھی یہی حیلہ کرتے تھے اور یہ یہود کے نقش قدم پر ہوبہو چلنے کے مترادف ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے سلیم صافی کو انٹرویو میں کہا کہ میری بیرون ملک اور اندرون ملک کوئی جائیداد اور دولت نہیں ہے ، صحیح کہا ہوگا کہ جب حکمران وزیر اعظم نواز شریف کی بیوی بچوں کی کمپنیاں وزیر اعظم کی نہیں تو کسی اور کی کیا ہوں گی؟۔ اسحٰق ڈار کے بیٹے چالیس چالیس لاکھ درہم باپ کو تحفہ میں دیتے ہیں، وزیر اعظم اپنی صاحبزادی کو کروڑوں تحفے میں دیتے ہیں، بچے کروڑوں وزیر اعظم کو دیتے ہیں ، جس طرح کرپشن کا پیسہ مالدار خاندانوں کے درمیان ایک اکاؤنٹ سے دوسرے اکاؤنٹ تک گردش میں رہتا ہے اور ٹیکسوں سے بچنے کیلئے آف شور کمپنیاں بنائی گئی ہیں اسی طرح زکوٰۃ کے مال کیلئے بھی بڑے بڑے مدارس اور فلاحی اداروں کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے اس سے زکوٰۃ کا فریضہ ادا نہیں ہورہا ہے بلکہ ایک مخصوص طبقہ زکوٰۃ کے نام پر کاروبار کررہا ہے۔
رسول اللہ ﷺ صحابہؓ سے کہتے تھے کہ مجھ پر زکوٰۃ کے مال کی ذمہ داری ڈالنے کے بجائے اپنے ہاتھوں سے خود مستحقین کوزکوٰۃدیں، اللہ نے فرمایا انہ لحب الخیر لشدید انسان مال کی محبت میں بہت سخت ہے۔ اللہ نے رسول اللہ ﷺ سے فرمایا کہ ان سے زکوٰۃ لیں یہ انکے لئے تسکین کا ذریعہ ہے۔ نبی کریم ﷺ نے خود اپنے اوپر ، اپنی اولاد ، گھر والوں اور رشتہ داروں پر زکوٰۃ کو حرام کردیا۔ جب انسان اپنے مال کی زکوٰۃ دے تو اسکو ترجیحات کا حق بھی پہنچتا ہے لیکن کسی اور کی زکوٰۃ مانگنے کیلئے بے چین روح بن جائے اور ترجیحات خود طے کرے تو اس میں وہ لذت ہے جس کو آپ بڑے بڑے اشتہارات کی شکل میں دیکھتے ہیں، حالانکہ اپنے لئے بھی بھیک مانگنا بہت مشکل کام ہے چہ جائیکہ دوسروں کیلئے مانگی جائے۔ اگر اس رمضان کو صرف اور صرف زکوٰۃ کا مال غریب طبقہ تک پہنچ جائے تو پاکستان میں ایک بہت بڑا انقلاب آجائیگا۔
مستحقین کو زکوٰۃ اپنے ہاتھوں سے دیجائے تو جو لوگ کھانے کیلئے بھوکے ہوں ان کے تن پر کپڑوں کی ضرورت ہو یا علاج اور تعلیم کی ضرورت ہو وہ غریب خود اپنی ترجیحات طے کرینگے۔ زکوٰۃ کے نام پر اشتہارات میں جو پیسہ خرچ کیا جاتا ہے ، بڑی عمارتیں بنائی جاتی ہیں ، بڑے بڑے ادارے پالے جاتے ہیں یہ غریبوں ، ناداروں اور مسکینوں کی حق تلفی ہے۔کاروبار اسی وجہ سے تباہ ہیں کہ غریبوں کو زکوٰۃ بھی نہیں مل رہی ہے ، ایک مرتبہ کی زکوٰۃ مستحقین تک پہنچائی جائے تو ثابت ہوگا کہ اللہ کا فرمان سچ ہے کہ’’ صدقہ مال کو بڑھاتا ہے‘‘۔ جیسے بتوں کو سجدہ جائز نہیں اسی طرح غیر مستحق کو زکوٰۃ کے نام پر پالنا غلط ہے

jun2016(fazlurehman_cartoon)

کبھی تیر کے اورکبھی شیر کے بھی شکار ہیں        زکوٰۃ بھی کاروبار خدمات بھی مستعار ہیں

حضرت مولانا مفتی حافظ محمد حسام اللہ شریفی دامت برکاتہم العالیہ

رکن مجلس تحقیقات علوم قرآن و سنت، رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ۔
مشیر وفاقی شرعی عدالت حکومت پاکستان ، مشیر شریعت بنچ سپریم کورٹ حکومت پاکستان۔
کتاب و سنت کی روشنی میں ہفت روزہ اخبار جہاں کراچی (جنگ گروپ)
ایڈیٹر ماہنامہ ’’قرآن الہدیٰ‘‘ کراچی۔ اردو انگریزی میں شائع ہونیوالا بین الاقوامی جریدہ
رجسٹرڈ پروف ریڈر برائے قرآن حکیم ، مقرر کردہ وزارت امور مذہبی حکومت پاکستان
خطیب جامع مسجد قیادت ، کراچی پورٹ ٹرسٹ ہیڈ آفس بلڈنگ کراچی

تحریر فرماتے ہیں : بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ وحدہ و الصلوٰۃ و السلام علی من لا نبی بعدہ
عائلی معاملات میں طلاق ایک بہت اہم مسئلہ ہے جس سے خاندانوں کے بناؤ اور بگاڑ پر بہت اثر پڑتا ہے ۔ محترم سید عتیق الرحمن گیلانی نے اس مسئلہ پر بہت تحقیق کی ہے اور اس پر ایک تفصیلی کتاب ’’ابر رحمت‘‘ کے نام سے بھی مرتب کی ہے ۔ زیر نظر مسئلہ میں بھی سید صاحب نے بہت تحقیق سے کام لیا ہے اور مدلل و مفصل جواب عنایت فرمایا ہے۔ سید صاحب کے اس جواب کی میں پوری طرح تصدیق کرتا ہوں اور اس سے پوری طرح متفق ہوں۔ ھذا ما عندی و العلم عند اللہ سبحان اللہ تعالیٰ اعلم و اتم راقم محمد حسام اللہ شریفی ۲۰ شعبان المعظم ۱۴۳۷ھ ، 28 مئی 2016ء ،

اظہار تشکر

حضرت مولانا مفتی حافظ محمد حسام اللہ شریفی دامت برکاتہم العالیہ کا نام شیخ العرب و العجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ العزیز شیخ الحدیث دار العلوم دیوبند و صدر جمعیت علماء ہند نے رکھا تھا۔ حضرت مولانا عبد القادر رائے پوری قدس سرہ العزیز سے بیعت تھے اور شیخ القرآن حضرت مولانا احمد علی لاہوری قدس سرہ العزیز نے آپ کو1962 ء میں اپنے نام کے ساتھ شرعی مسائل کا جواب لکھنے کا فرمایا تھا۔ حضرت مفتی شریفی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کو قرآن کریم سے خاص محبت ہے اور اس حوالہ سے ایک بہترین کتاب بھی تحریر فرمائی ہے۔ زمانہ طالب علمی میں جب ساتویں آٹھویں جماعت گورنمنٹ ہائی اسکول لیہ پنجاب میں پڑھتا تھا تو لائن سپرڈنٹ فیض محمد شاہین مرحوم نے خدام الدین کے مجلد رسالے دئیے تھے جس میں مولانا احمد علی لاہوریؒ کے بیانات مجلس ذکر سے میں نے استفادہ کیا تھا۔ فیض محمد شاہین مرحوم علامہ سید عبد المجید ندیم دامت برکاتہم کے خاص ساتھی تھے۔ مولانا حق نواز جھنگوی شہید ؒ کے ساتھ بھی ایک ہتھکڑی میں گرفتارکئے گئے تھے۔
ہم نے تحریک شروع کی تو مولانا عبد الکریمؒ بیر شریف امیر جمعیت علماء اسلام پاکستان ، حضرت مولانا سرفراز خانؒ صفدر گکھڑمنڈی گجرانوالہ اور حضرت مولانا خان محمد ؒ کندیاں امیر تحریک ختم نبوت پاکستان ، حضرت مولانا محمد مراد ہالیجویؒ منزل گاہ سکھر اور دیگر بزرگوں سے حمایت اور دعائیں لی تھیں۔ آج اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ بقیۃ السلف حضرت مولانا مفتی حافظ محمد حسام اللہ شریفی دامت برکاتہم العالیہ تائیدسے نوازرہے ہیں،توگویا حضرت مولانا احمد علی لاہوری ؒ کی بھی تائید مل رہی ہے جن کا انتقال 1964ء میں ہوا تھا جو میری پیدائش کا سال ہے۔ حضرت مفتی شریفی صاحب مدظلہ العالی میری پیدائش سے پہلے شرعی مسائل کے حوالہ سے جس مؤقف کا اظہار فرماتے آئے ہیں دنیا بھر سے سوال کے مروجہ فقہی جوابات کے باوجود یہ ان کی بہت بڑی فضیلت ہے کہ تحقیق پر اپنا مؤقف تبدیل کردیا ہے۔ اہل حق کی یہ زندہ اور تابندہ نشانی ہیں۔ یہ دُور نظر نہیں آتا کہ زمانہ بدل جائیگا لیکن یہ قابل فخر ہے کہ بقیۃ السلف حضرت شریفی مدظلہ العالی نے تائید فرمائی جو حضرت لاہوریؒ کی براہِ راست تائید ہے۔عتیق گیلانی

رمضان کا مہینہ اور زکوٰۃ کا درست مصرف ایک اہم فریضہ

زکوٰۃ اپنے ہاتھوں سے مستحقین میں تقسیم کریں غریبوں کے حق پر مافیاز نے قبضہ کر رکھا ہے

مستحق کو زکوٰۃ دی جائے تو رقم مارکیٹ میں آتی ہے اللہ تعالیٰ نے اسلئے زکوٰۃ کو مال بڑھانے کا ..

لوگ رمضان میں زکوٰۃ دیتے ہیں، مگر خیال نہیں رکھتے کہ مستحق کو زکوٰۃ پہنچتی بھی ہے یا نہیں؟۔ اگر غریب غرباء کو زکوٰۃ دی جائے تو قوم کی مشکلات ختم ہونگی۔ غریب ضروریات کیلئے فوراً مارکیٹوں کا رخ کرتے ہیں جوکاروبارکے پہیہ کو گھمادیتا ہے، نتیجہ میں فائدہ کاروباری طبقہ کا بھی ہوتا ہے، تجارت میں ڈھائی فیصد سے زیادہ کماتے ہیں، اسلئے اللہ نے فرمایا کہ صدقات سے مال میں اضافہ ہوتا ہے۔
جب لوگوں کی زکوٰۃ غریب عوام تک پہنچنے کی بجائے ا کاؤنٹ سے دوسرے ا کاؤنٹ کو منتقل ہو تو زکوٰۃ کے مقاصد بھی پورے نہ ہونگے،غریب کو بھی فائدہ نہ ہوگا اور زکوٰۃ دینے والے معاشرہ کو بھی اس کا کوئی فائدہ نہ پہنچے گا۔ جس طرح رکوع اور سجدے اللہ کیلئے کرنے کی بجائے بتوں کو کئے جائیں تو اس کا فائدہ نہیں بلکہ ایک رسم عبادت ہے جو انسان اپنی عبودیت کا ذوق پورا کرنے کیلئے کرتا ہے مگر حقیقت سے بے خبر انسان کو اس کا نقصان پہنچتا ہے۔ بڑے امیر علماء و مفتیان کی صفوں میں زکوٰۃ کے مسئلہ پر سیاسی جماعتوں کے قائدین اوررفاعی اداروں کے نام پر کرنے والے بڑے لوگ بھی شریک ہوگئے ہیں۔ جب تک کاروباری طبقہ اپنا قبلہ درست نہ کریگی ، علماء جس طرح سے حلالہ مسلط کرنا اپنا حق سمجھتے تھے، اسی طرح سے انہی کی زکوٰۃ و خیرات کو انکے خلاف بدمعاش طبقہ استعمال کریگا۔
غریب کے پیٹ میں دو وقت کی روٹی اور جسم ڈھانپنے کا کپڑا نہیں لیکن وہ پیسہ اشتہارات شائع کرنے میں استعمال کرنے والوں کو ذرا بھی شرم، حیاء اور غیرت نہیں آتی ۔ غریب کے حق پر شخصیات بلڈنگ ، اداروں اورگینگوں کی تعمیر واشاعت ہوگی تووہ نالائق ،بیکار، ظالم، جابر، بدمعاش، بے رحم اور استحصال کرنے والا طبقہ انہی تاجروں اور مالدار طبقے پر بھی مسلط ہوگا، بحر و بر میں فساد لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کے سبب ہوتا ہے۔ غریب کا حق چھیننے سے دریغ نہ ہو تو یہ قوم کی اور کیا بھلائی کرینگے۔ جماعت اسلامی نے الخدمت سے زکوٰۃ اور جمعیت سے بدمعاشی کاآغازکیا، پھردوسرے بھی اس راہ پرچل پڑے۔ نبی کریم ﷺ نے زکوٰۃ لینے سے انکاراورخودہی ضرورتمندوں تک پہنچانے کا حکم دیتے پھر اللہ نے حکم فرمایا کہ ’’ ان سے زکوٰۃ لے لیا کرو،یہ ان کیلئے تسکین کا ذریعہ ہے‘‘۔ رسولﷺ نے اللہ کا حکم مانا لیکن اپنے اور اپنے اقرباء پر زکوٰۃ کو حرام کردیا۔ علامہ سید محمد یوسف بنوریؒ سال کی زکوٰۃ سے زیادہ مدرسہ کیلئے نہ لیتے تھے اور طلبہ کو ہی ہرماہ وظیفہ ہاتھ میں دیتے ،جو مدرسہ کا کھاتے ،وہ طعام کی مد میں کچھ رقم مدرسے میں جمع کرتے۔ دارالعلوم کراچی والے زکوٰۃ کے خود منصف اور وکیل بنتے، مفتی تقی عثمانی کا سود کو معاوضہ لیکر جائز دینے سے پہلے بھی علماء حق اور علماء سوء کی فہرست ہے۔ غریب کو زکوٰۃ کا مالک بنانا ضروری ہے، وہ تعلیم و علاج پرخود خرچہ کرے،پھرغربت اور گینگ ختم ہونگے۔

پاکستان واحد مسلم ایٹمی قوت اور عالم اسلام کا امام ہے ۔

پاکستان واحد مسلم ایٹمی قوت اور عالم اسلام کا امام ہے ۔ جب امریکہ نے مسلم ممالک افغانستان ، عراق ، لیبیا اور شام وغیرہ پر حملہ کرنے کی ابتداء کی تو بقول شاعر مشرق علامہ اقبال ؂ نادان گرگیا سجدے میں جب وقت قیام آیا۔ اسلام شاعرانہ جذبے کانام نہیں ، لیلۃ القدر کی رات میں پیدا ہونے والے مغربی پاکستان کانقشہ ایسا ہے جیسے سجدہ کی حالت میں ہو،گوادر اس کا سر ہے ، کراچی شہ رگ ہے ، سندھ بایاں بازو،جگر اور دل ہے، بلوچستان دایاں بازو اور جگر ہے ، پختونخواہ دائیں پسلیاں ہیں ، پنجاب پیٹ ہے اورمقبوضہ کشمیر و آزاد کشمیر گلگت و بلتستان پاؤں و چوتڑہیں۔ بائیں ٹانگ وچوتڑ پر بھارت کا قبضہ ہے جسکی آزادی تک کوئی غیرتمند پاکستانی چین و سکون سے نہیں بیٹھ سکتا۔گوادر کے راستہ سے منہ کی طرح غذا آئیگی اور آنتوں سے ہوتی ہوئی چین پہنچے گی تو جسم توانا بن جائیگا۔ کھلے دل سے پالیسی تشکیل دیں تاکہ غیرتمند بلوچ کے دماغ سے بغاوت کا جذبہ نکلے، کرپٹ لوگوں کے بجائے باکردار لوگ صرف پاکستان نہیں بلکہ عالم اسلام کی خاطر ریاستی اداروں کیساتھ روح و جسم کی طرح ایک و نیک بن جائیں۔ کراچی و سندھ کے شہری علاقوں کے اردو اسپیکنگ پاکستان میں شہ رگ کی طرح کردار ادا کریں۔ سندھیوں کے دل اسلام کی نشاۃ ثانیہ کیساتھ دھڑکیں اورٹوٹی پسلی پختونخواہ کو صحت مند بنایا جائے جو جسم کو تکیہ دینے کے قابل بن جائے۔ پنجاب پھٹے ہوئے پیٹ کی طرح نہ ہو جسکے شہزادوں کی آف شور کمپنیاں پانامہ میں لیک ہوں، شریف فیملی سمیت سب اپنی حق حلال کی کمائی ملک لاکر سرمایہ کاری کریں، عوام غربت سے بدحال اورعوامی نمائندوں کے بچے باہر مالامال ہیں۔اگر انکے بچے واقعی قابل ہیں تو زیادہ شادیاں کریں اور زیادہ بچے جنوائیں اور بیرون ملک سے زرِ مبادلہ کماکر پاکستان منتقل کریں تاکہ اعتمادقائم ہو۔

پاک آرمی نے خود احتسابی شروع کی تو یہ آئین کے عین مطابق ہے ، عدلیہ و فوج کیلئے یہی قانون ہے ۔ اگر جسٹس(ر) افتخار چوہدری کے وقت عدلیہ کی تطہیر ہوجاتی تو اعتزاز احسن ، عاصمہ جہانگیر ، علی احمد کرد اور وکلاء رہنماؤں کا سر فخر سے بلند ہوتا، عدلیہ کیلئے فوج کا احتساب ممکن بھی نہ تھا، ملک کی قسمت ہے کہ جنرل راحیل شریف نے دہشت گردی اور کرپشن کے خاتمے کیلئے بنیادی کر دار ادا کیا ہے۔ لائق احترام چیئر مین سینٹ رضا ربانی اگر کہتے کہ’’ ہمارا سر شرم سے جھکا، جمہوری حکومت اور سیاسی جماعتوں کو خود احتسابی کے عمل سے خود کو قوم کے سامنے رول ماڈل پیش کرنا تھا مگر ہمارے بجائے یہ کام فوج نے خود ہی شروع کردیا‘‘۔ جنرل راحیل شریف آن ڈیوٹی اور ریٹائرڈ جنرل اشفاق کیانی کے بھائی کو معاف نہیں کرتے لیکن سیاستدانوں نے جمہوریت کے نام پر بادشاہت اور کرپشن کی بے تاج بادشاہی کا کاروبار بنا رکھا ہے۔ کارکن رہنماؤں کا ،رہنما اپنے قائدین کا گریبان پکڑتے تو سیاسی قبلہ درست ہوتا، کرایہ کے ٹٹو کارکن اور ضمیرفروش سیاسی ر ہنما جمہوریت کاتحفظ نہیں کرسکتے ہیں۔ پانامہ لیکس نے اس حمام میں احرام پہنے والے جاتی عمرہ کے حاجی نواز شریف اور الحاج شہبازشریف کا احرام بھی کھول دیاہے،اب قربانی دینا ہوگی،علماء درست اسلام کا جھنڈا بلند کریں توپاکستان روحانی، اخلاقی اور انسانی بنیاد پربدلے گا۔
جنرل راحیل شریف نے ریاست کی رٹ پاکستان بھر میں بحال کردی تو اسمیں بہادری کے علاوہ کرپشن سے پاک پالیسی کا بنیادی کردار ہے۔ کیا برا ہوتا کہ ہماری سیاسی قیادت باہر سے اپنا پیسہ واپس پاکستان منتقل کردیتی تو ملٹری اور سول بیوروکریسی کے لوگ بھی اپنے حق حلال یا نا حق حرام کی کمائیاں لوٹادیتے۔ جس طرح ایم کیو ایم کے قائد الطاف بھائی کا پیسہ ضبط ہوا ، منی لانڈرنگ کے کیس بن گئے اور ایجنٹ کے الزام بھی لگے ۔یہی دوسرے پاکستانیوں کیساتھ بھی ہوگا،اسلئے برضا و رغبت اور خوشی خوشی اپنی رقوم پاکستان منتقل کردیں ، یہاں بھی بڑے شہروں میں ڈیفنس کی شکل میں آف شور کی سہولیات موجود ہیں،اگر ڈیفنس کی یہ سہولت ختم کردی تو ڈیفنس کے بجٹ میں یہ رقم آئیگی۔
اعتزازاحسن نے کہا :’’ بلوچستان کاسیکرٹری خزانہ بلوچ تھا، ہتھکڑی لگ گئی اس نے کروڑوں روپیہ گھر میں رکھا لیکن پنجابی شہزادوں کو سزا نہ ہوگی جنہوں نے اربوں کھربوں آف شور کمپنی میں رکھے ،دونوں کی کرپشن میں فرق کیا ‘‘۔پاکستان ٹھوس اقدامات سے اسلامی برادری اور دنیا میں آج بھی کھڑا ہوسکتا ہے مگر فطری اسلام ضروری۔

اسلام سورج کی طرح ہے اور مذہبی طبقے مینڈکوں کی طرح پانی میں عکس پر لڑ رہے ہیں، عتیق گیلانی

حضرت ابراہیمؑ کے بعد دین کا معروف دورِ جاہلیت میں منکر اور منکر معروف بن چکا تھا۔حقیقی ماں کی پیٹھ کو ماں کی پیٹھ سے تشبیہ دینے پر حرام سمجھناشرعی فتویٰ بن چکا تھا۔

رسول ﷺ سے خاتونؓ نے اپنے شوہر کے مسئلہ پر جھگڑا کیا، رائج الوقت فتویٰ پر اللہ نے فرمایا کہ ماں وہ ہے جس نے جن لیا، بول سے ماں نہیں بنتی یہ جھوٹ و منکرہے

بلاتفریق تمام مذہبی طبقوں نے سورج کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے کھڈوں میں اسکے عکس کو تلاش کرنا شروع کیااورپانی بھی گدلا کردیاہے تو ان کو عکس کہاں نظر آئیگا؟

بلاول زرداری نے درست کہا کہ شیر ڈیزل سے نہیں چلتا ، اگر ساتھ میں یہ مشورہ بھی دیتے کہ بھنگ سے چلتا ہے تو وزیر اعظم کو اوپن ہارٹ سرجری نہیں کرانی پڑتی تھی

سندھ کی حکومت پٹرول پیتی ہے ، نیشنل ہائی وے کی شامت پھر آئی ہے ، اگر بلٹ پروف شیشے کیطرح وزیر اعلیٰ کو اندرون سندھ لے جاتے تو کراچی کی قسمت جاگ جاتی

سب نے احمقوں نے اجماع کرلیا کہ سورج چھوٹا ہوتا ہے اسلئے کہ چھوٹے کھڈے میں سمایا اور سورج ٹھنڈا ہے اسلئے کہ اگر گرم ہوتا تو تھوڑا پانی اُبل پڑتا۔یہ منطق ہے

فطری دین اسلام پیش کیا جائے تو مذہبی و غیر مذہبی طبقے فوراً پاکستان ،عالم اسلام اورتمام انسان قبول کرینگے

Mandak2_june2016

برصغیر پاک و ہند پر 8سو سالہ حکمرانی کے بعد انگریز نے قبضہ کیا اور آزادی و تقسیم ہند کے بعد پاکستان دو لخت ہوا اور اب تک کشمیر پر بھارت کا قبضہ ہے

وزیراعظم کو لندن میں آرام کرنے کا صلہ اسلئے ملاکہ جیو ٹی وی چینل اور کچھ صحافیوں کے منہ میں کچھ ڈال کر خاموش کرادیا ،ورنہ تو ان کی بک بک چلتی تھی کہ صج پاکستان گیا یا شام تک نہ رہیگا،عوام کو حکومت جانے کا فرق بھی نہ پڑتا

نوازشریف زرداری کیطرح ڈاکٹر شاہد مسعود کو پی ٹی وی کا چیئرمین بنادے تاکہ پھر اے آروائی سے بھاگ جائے۔ عرفان صدیقی کی بات کااچھا صلہ دیاکہ صدرتارڑ نے پانچ جنرلوں کے سامنے گن پوائنٹ پر استفعیٰ نہ دیا۔

پانامہ لیکس سے شریف فیملی کی ساکھ متأثر ہوئی، بین الاقوامی سطح اور خطے میں پاکستان تنہائی کا شکار ہوگیا، اندرون و بیرون خطرات سے نمٹنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر پائیدار تبدیلی ضروری ہے قومی حکومت بنانا بہت بہتر رہے گا۔

ایران سے امریکی پاپندی ختم ہوئی، ایران سے چین براستہ افغانستان راہداری کامنصوبہ بھارت کیلئے خطے میں اثر ورسوخ بڑھانے کا ذریعہ ہے۔ پاکستان کو نظریاتی ، معاشی اور معاشرتی معاملات کے ذریعہ پائیداری درکارہوگی

مدارس، مساجد، مذہبی جماعتوں اور عوام نے اگرتبدیلی کا فیصلہ کرلیا تو جنرل راحیل شریف اور چیف جسٹس سمیت ملک کے تمام ریاستی اداروں کے سربراہ خوش ہونگے

پاکستان اب زیادہ آزمائشوں کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے، ہمیں روح اور اپنے اخلاقیات بدلنے کی ضرورت ہے، گوادر ہمارا سر ہے،بلوچ پاکستان کی عزت کے دستار ہیں، ہمارے رویے، غفلت اور ظلم وجبر کے باعث صرف بلوچ، پختون، سندھی ، مہاجر نہیں بلکہ پنجاب کی عوام سب سے زیادہ مظلوم ہیں، جہاں بدمعاش کلچر میں بیٹیوں کی عزت کو بھی سرِ عام تحفظ حاصل نہیں۔ ڈاکٹر اللہ نذر اور تمام بلوچ رہنما ملت اسلامیہ کے خلاف بین الاقوامی معاملہ کو سمجھ لیں، پوری اسلامی دنیا کے مسلمانوں کے خون سے زمین رنگین ہوگئی ، غیروں سے زیادہ اپنا عمل اور اپنی کمزوریاں ہاتھ کی ہتھکڑیاں اور پاؤں کی بیڑیاں بنتی ہیں۔
جس دن غیرتمند بلوچوں کو احساس ہوا کہ ہم غلام نہیں پاکستان کے سر کی دستار ہیں تووہ اعلان کریں گے کہ اکبر بگٹی کو فوج نے گھر میں نہیں مورچہ میں مارا ہے، لڑائی میں ایسا نہ ہو تو کیا ہوگا؟۔ ہم پاکستانی فوج کی عظمت کو سلام پیش کرتے ہیں جتنا ان سے ہوسکتا تھا اتنا وہ ہمارے ساتھ نہیں کرتے تھے، جنگ میں کوئی فائدہ نہیں، ہم خود ہی دوستی کا ہاتھ بڑھادیتے ہیں، ہم سارے بھائی بھائی ہیں۔ اپنی قوم اور اپنے ملک کیلئے آج کے بعد ہم کوئی مشکل نہ کھڑی کریں گے تودنیا دیکھے گی کہ بہادر بلوچ ملتِ اسلامیہ کی امامت کررہے ہیں۔
طالبان نے نیٹو کیخلاف جانوں کے نذرانے پیش کئے، اب بندگلی کی طرف جانے اور مزید اپنا اور اپنی قوم و ملت کا نقصان کرنے کی بجائے اپنی خدمات طاقت کی بجائے علم کی شمع جلاکر پیش کریں۔ اسلام کی نشاۃ ثانیہ اسوقت ہوگی جب دنیا کو احسا س ہوگا کہ مسلم امہ میں دنیا کی بہترین انسانیت، زبردست اخلاقی اقدار اورسب سے اعلیٰ عدل و انصاف کا نظام ہے۔ دنیا کے پاس صرف قانون، زورزبردستی اور چیک اینڈ بیلنس کاہی سسٹم ہے مگر ہمارے پاس روحانی اور عقیدے کی بنیاد پر ایسا نظام ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔
مساجدومدارس،خانقاہوں وامام بارگاہوں، جماعت خانوں ومذہبی جماعتوں اور مسلم سکالروں کو اکٹھا کرکے قرآن وسنت کی بنیاد پر اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز کیا جائے تو ایک انقلاب آجائیگا، کراچی اور پاکستان بھر اردو اسپکینگ کمیونٹی بہترین تعلیمی نظام قائم کرکے پاکستان کے گھر گھر ، گلی گلی، محلہ محلہ، قریہ قریہ، گاؤں گاؤں، شہر شہربلا امتیاز و نسل ،فرقہ وقوم سب کو تعلیم و شعور کے زیور سے آشنا کریگی۔ سندھیوں سے دل کی دھڑکنوں کی طرح پیار و محبت میں خون کے سرخ وسفید جرثومے پورے پاکستان کو پہنچیں گی،مہاجر قوم شہ رگ اور اور سندھی دل دل پاکستان جان جان پاکستان ہیں۔ شہ رگ کٹنے اور دل کی دھڑکن بند ہو تو جسم لاش بن کرموت واقع ہوجاتی ہے۔پھر سندھی جلوس نکالیں گے کہ کالاباغ ڈیم بناؤ اور ازبکستان سے بجلی لانے کی بجائے دریائے سندھ کو پورے کا پورا ڈیم کی طرح بناؤ، جو نہ صرف بجلی بلکہ سطح زمین پر پانی کی قحط نہ رہے، پاکستان سرسبز وشاداب اور زیرزمین پانی کے ذخائر بھی مالامال ہوں، پانی کے بغیر ہم زندہ نہیں رہ سکتے مگر حکمرانوں کو دلچسپی نہیں۔
اللہ نے فرمایا: ’’گدھے، خچر اورگھوڑے میں نے پیدا کئے ہیں تاکہ تم ان پر سواری کرو اور خوبصورتی کیلئے پیدا کئے ہیں‘‘۔ یہ جانور کام کے بھی ہیں اور ان کی وجہ سے رونق بھی ۔ مسلمانوں کے پاس وہ نصابِ تعلیم، معاشرتی احکام،تہذیب وتمدن اور اخلاقی اقدار نہیں تھے جو انگریز کو برصغیرِ پاک وہند سے روک سکتے۔ سکھ ایک نیا مذہب تھا لیکن پنجاب، کشمیر اور قبائلی علاقہ جات کے دامانی علاقوں تک ان کی حکومت تھی۔ انگریز نے اپنے دور میں جو فوج، بیوروکریسی اور عدلیہ کا نظام بنایا، ان کے مقاصد، خدمات اور معاشرتی رونق کے سوا کیا تھے؟۔ 70سال ہوگئے ہیں کہ برصغیرپاک وہند سے انگریز گیا، بھارت اور پاکستان میں آج بھی یہ ادارے اپنے اپنے خدمات انجام دینے اور معاشرے کو رونق بخشنے کا ذریعہ ہیں۔ پاکستان نے مقبوضہ کشمیرپر بھی قبضہ کرلیا تھا لیکن اقوام متحدہ نے رائے حق دہی کیلئے اس کو پاکستان سے خالی کروایا اور پھر بھی بھارت نے قبضہ کرلیا۔ ہم بھارت سے تو قبضہ نہ چھڑاسکے البتہ مشرقی پاکستان بھی کھو دیا ہے۔ ہم نے اپنی بہت تعریف کرلی، اب اپنی ان کوتاہیوں پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے باقی ماندہ پاکستان بھی خطرات سے دوچار ہے۔ ٹی وی اسکرین پر بیٹھ کر امریکہ کو بھونکنے اور ڈھینچوڈھینچوکی ورد چھوڑیں۔
اپنے اندر اتنا دم پیدا کریں کہ امریکی امدادشکریہ کیساتھ قبول کرنے کی بجائے ان کے اپنے پڑوسی غریب ممالک کو دینے کی تجویز پیش کریں۔ F.16طیارے کی ہمیں ضرورت بھی پیش نہ آتی ،اگر اسٹیل مل میں کرپشن کی بجائے جنگی سازوسامان ، مسافر طیارے اور دیگراشیاء بناکر اس کو بہترین ادارہ بنادیتے۔ ہمارے ریاستی اداروں کی تشکیل وتعمیر جنہوں جن مقاصد کی خاطر کی تھی ان سے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی توقع رکھنا بھی بعض بدبودار قسم کی ذہنیت کا شاخسانہ تھا، جن لوگوں نے اسلام کو اوڑھنا، بچھونا، کھانا پینا اور رہنا سہنا بنانا رکھا ہے وہ خوداسلام سے بہت دور ہیں جن کی نسلیں دارلعلوم میں پیدا، پھل بڑھ کر دفن ہوجاتی ہیں توپاک فوج، عدلیہ اور بیوروکریسی کے جوانوں اور افسروں سے کس قسم کے اسلام کی توقع رکھی جاسکتی ہے؟ اصلاح کیلئے گمراہی کے قلعوں مدارس کو فتح کرنا ہوگا۔
مجھے مدارس سے نفرت نہیں محبت،بد اعتقادی نہیں عقیدت،بغض وعناد نہیں عشق وپیار ، بدظنی وبدگمانی نہیں حسنِ ظن وخوش گمانی اور بدخواہی نہیں خیرخواہی ہے، وقت آئے تو ادب وتمیز،اکرام واحترام، عجز وانکساری،تواضع اور ایسے خاطر مدارات کا مظاہرہ کروں گا، جیسے ایک فرمانبردار بیٹا اپنے والدین کا کرتا ہے، ماں کی ممتا سے ملنے والے دودھ کی میٹھاس کو یاد نہیں رکھا جاسکتا مگر مدارس کی ممتا سے ملنے والے علم کی میٹھاس دل ودماغ کیلئے فرحت بخش ہوتے ہیں۔ دودھ کی یہ نہریں بزرگوں سے ہوتی ہوئی رسول اللہﷺ تک اور اللہ کی وحی تک پہنچتی ہیں، سب اپنے نصیب کے مطابق سیراب ہوتے ہیں،اساتذہ کرام کی تعلیم وتربیت ہے کہ قرآن و سنت کی روح سے روگردانی نہیں کی، ورنہ میں بالکل بھٹک جاتا۔
اہم اور بنیادی تجاویز اور ان کا مختصر خلاصہ
1:مدارس کے نصاب کی وسیع تر مشاورت سے تبدیلی، جن احکام میں معروف کی جگہ منکرات نے لے لی ہے، اس کو قرآن و سنت کے مطابق معروفات میں تبدیل کرنا۔
(ا): نکاح و طلاق میں معروف کی جگہ منکر نے لے لی ہے ،دلائل وبراہین کے ذریعہ ایک نئے نصاب کی تشکیل اور اس پر معاشرتی نظام کو کاربند کرنے کے نتیجے میں زبردست خوشحالی آئے گی۔ پسند کی شادی کی مخالفت نہیں ناپسند کی شادی کی حوصلہ شکنی کی ضرورت کا احسا س کرنا چاہیے تھا، نبیﷺ نے فرمایا:جس لڑکی کے باپ نے اسکی مرضی کے بغیرنکاح کیا تو وہ نکاح منعقد نہیں(بخاری)۔نصاب اور معاشرے میں اس حدیث کی ترویج ہوتی تو کوئی لڑکی بھاگ کر شادی نہ کرتی۔ طلاق واقع ہونے نہ ہونے کی چیز نہیں بلکہ علیحدگی کا طریقۂ کار ہے جو قرآن اور احادیث صحیحہ میں وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے، جسکی کچھ تفصیل اداریہ میں موجود ہے۔رجوع کا تعلق باہمی صلح سے مشروط اور معروف طریقہ سے ہے، حضرت عمرؓ نے ایک ساتھ تین طلاق پر شوہر کے یکطرفہ رجوع کے حق کو معطل کیا تھا ۔ تین طلاق نہیں ایک طلاق کے لفظ پر بھی عورت راضی نہ ہو تو شوہر یکطرفہ رجوع کا حق کھو دیتا ہے حضرت عمرؓ کا فیصلہ درست تھا لیکن اس کو حلالہ کیلئے غلط رنگ دیا گیا ہے، صلح کی شرط پر رجوع کی قرآن وسنت میں عدت کے دوران اور عدت کے بعد وضاحت ہے۔ بخاری وابوداؤد میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور حضرت ابورکانہؓ و امّ رکانہؓ کے واقعات موجود ہیں۔ بیوقوفی اور کم عقلی کی انتہاء ہے کہ احناف نے ’’نورانوار‘‘اور ابن قیم ؒ نے ’’زادالمعاد‘‘ میں اس طلاق کو قرآن کے مطابق فدیہ سے ہی مشروط کیا ہے اور پھر یہ بحث کی ہے کہ فدیہ کوئی الگ چیز ہے یا طلاق کا ضمنی معاملہ ہے؟۔ عدد کی گنتی پوری کرنے کا چکر نہ ہوتا تو اس بحث کی ضرورت بھی نہ پڑتی لیکن علامہ ابن قیمؒ کی سمجھ پر بہت تعجب ہوتا ہے کہ احناف کی ضد میں لکھ دیا کہ ’’ طلاق الگ چیز ہے اور خلع الگ، اسکا نام اللہ نے طلاق نہیں فدیہ رکھا ہے‘‘ حالانکہ آیت میں خلع کا ذکر نہیں بلکہ اس طلاق کا مقدمہ ہے جس کے بعد حلال نہ ہونے کا ذکر ہے۔ خلع کے بارے میں سورۂ النساء کی آیت ہے ، احادیث اسی ضمن میں لکھے جاتے تو معاشرے میں خواتین کے حقوق اجاگر ہوتے ہم بہت سی برائیوں سے بچتے، طلاق کے تضاد اور اختلافات بھی کالعدم نہیں بلکہ معدوم ہی ہوجائیں گے۔
جس طرح اللہ اور اسکے رسولﷺ نے مرحلہ وار دومرتبہ طلاق کے بعد تیسرے مرحلہ کی وضاحت فرمائی ہے،اس سے طرح ہاتھ چھوڑ شوہر کی پٹائی سے صنفِ نازک کو بچانے کیلئے مارنے سے پہلے دومرحلے رکھے ہیں، پہلے مرحلہ میں افہام وتفہیم سے سمجھانا، دوسرا مرحلہ بستر الگ کرنا اور تیسرے مرحلہ میں مارنا۔ کوئی بیوی کو دشمنی اورمنصوبہ بندی سے نہیں مارتالیکن چھوڑنے اور الگ ہونے سے بیوی کو ہلکی پلکی مار خود بھی بہتر لگتی ہے۔جب اتنی برداشت شوہر میں پیدا ہوجائے کہ سمجھانے اور بستر کو الگ کرنے کے مراحل سے گزرے تو مارپیٹ اور تشدد کی عادت بھی نرمی اور شائستگی میں بدل جاتی ہے۔جس طرح طلاق کے بارے میں مرحلہ وار دو مرتبہ طلاق کے مرحلوں کو ترک کیا گیا اسیطرح سے مارپیٹ کے دو مراحل کو بھی نظرانداز کرکے اسلام کے نام پر معروف کو منکر میں تبدیل کردیا گیا ہے۔
2: دنیائے اسلام کا سب سے بڑا مرکز خانہ کعبہ ہے اور حجر اسود ایک ہجوم کا محور رہتا ہے کوئی بھی شریف معاشرہ اس طرح اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ مخلوط ماحول میں اجنبی خواتین و مرد حضرات ہڈی پسلی ایک کرکے ایک دوسرے کے گوشت پوست میں پیوست ہوجائیں۔ یہ انسانی شرافت ، فطرت اور اسلام کے بنیادی تعلیمات کے بالکل منافی ہے، یہ شکر ہے کہ اس کی تصویریں دنیا کو دکھاکر یہ باور نہیں کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ دیکھو ہم روشن خیال ہیں۔ مہذب دنیا سے ہم نے لائنوں میں ہی نہیں سیکھا ہے بلکہ اپنے ہرمفاد کیلئے ان کی ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اگرحاجی اور عمرہ والوں کو حجراسود کا نمبر ایشوکیا جاتا، بھلے سعودی حکومت اس کاانتظام کرکے فیس بھی وصول کرتی توسب کیلئے بہتر ہوتا۔
3: خواتین کو خلع کا حق عدالتوں کی بجائے معاشرتی بنیادوں پر دیا جاتا تو اس میں تشدد کے عنصر کو ختم کرنے میں مدد ملتی۔ جب شوہر کو یہ پتہ ہوتا کہ عورت چھوڑ کر جانے کا حق بھی رکھتی ہے تو اس کے ساتھ غلامی کی بجائے ایک معاشرتی ساتھی کی طرح سلوک رو ا رکھا جاتا اور اگر عورت پابند نہ ہونے کے باوجود اس کی بد سلوکی پر صبر کا مظاہرہ کرتی تو یہ اصلاح کا ذریعہ بھی بنتا۔ جب عورت سے نکاح نہ ہوا ہو اور پھر بھی اس پر استحقاق جمائی جاتی ہو تو پھر نکاح کے بعد اس کو غلام سمجھنے میں کیوں مرد کو حق بجانب نہ سمجھے گا لیکن اگر قانون سے واضح کیا جائے کہ منکوحہ عورت بھی غلام نہیں تو غیر منکوحہ سے رویہ کبھی غلط نہ ہوسکتا تھا۔
4: طالبان نے ایک کام زبردست کیا جو ہماری ریاست ، سول سوسائٹی اور عوامی دباؤ سے ممکن نہ تھا۔ اس کی وجہ سے لوگ طالبان سے زیادہ نفرت کرنے لگے تھے، مگر خوف کی وجہ سے کچھ بول نہیں سکتے تھے۔ کسی جگہ لڑکی اور اسکے والدین قریبی رشتہ دار سے رشتہ کیلئے راضی نہیں ہوتے تھے تو بھی رسم و رواج کی مجبوری سے شادی کرانی پڑتی تھی۔ طالبان نے لڑکی اور والدین کی مرضی سے کئی شادیاں کرواکر بہترین کردار ادا کیا۔ اگر قرآن و سنت کی تعلیمات عوام کے سامنے ہوتیں تو یہ غلط رسم و رواج بہت پہلے ختم ہوچکے ہوتے۔
5: جس طرح سود کو موجودہ دور میں عام لوگ سمجھتے ہیں اسی طرح سے دور جاہلیت میں بھی سمجھتے تھے۔ قرآن نے منع کیا ، اب پھر معروف کی جگہ منکر اور منکر کی جگہ معروف نے لی ہے، چنانچہ بینک کے سود کو جائز اور کاروبار قرار دیا گیا ، شادی بیاہ کے لفافہ کو سود قرار دیا گیا۔ ہر دور میں وقت کے شیخ الاسلاموں نے اسلام کو اجنبی بنانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے اور ان سب کا جائز لے کر عوام کو معروف اور منکر بتانے کی ضرورت ہے۔ عتیق گیلانی

13سالہ مکی، 10سالہ مدنی، اور 30 سالہ خلافت راشدہ نے دنیا کی تاریخ کو بدل ڈالا ، یہ قرآن ، سنت اور اسلام کی نشاۃ اول کا زبردست کارنامہ تھا

اسلام کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ خواتین بلارنگ ونسل اور مذہب کے تمام انسانوں کے بنیادی حقوق برابری کی بنیاد پر بحال کردئیے، فضیلت کا معیار تقویٰ و کردار کو قرار دیا، انسانی حقوق پامال کرنے کو ناقابلِ معافی جرم کہا

نکاح، طلاق، رجوع، خلع کے واضح احکام کو معروف سے مذہبی طبقہ نے منکرمیں بدل دیا، مسلم معاشرہ بتدریج تنزلی اور اسلام ا جنبیت کا شکار بنتا چلاگیا۔ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کیلئے اصلاح اسی طرح سے ہوگی جیسے پہلے ہوئی تھی

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’ اسلام اجنبیت کی حالت میں شروع ہوا تھا، یہ عنقریب پھر اجنبیت کی طرف لوٹ جائیگا، خوشخبری ہے اجنبیوں کیلئے‘‘۔ اسلام کے معروف شرعی احکام کو منکرات میں بدلا جائے تو اسلام اجنبی بن جائیگا ،

علامہ سیدیوسف بنوریؒ اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیعؒ کے استاذ دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث علامہ انورشاہ کشمیریؒ نے لکھا : ’’ قرآن میں معنوی تحریف تو بہت ہوئی ہے۔۔۔‘‘فیض الباری۔معنوی تحریف کی مثالیں سمجھ لو!،

مفتی تقی عثمانی نے بینک کا سود جائزاور شادی بیاہ میں لفافہ سود قرار دیا۔آسان ترجمۂ قران کے نام سے پہلی مرتبہ طلاق کی آیات کی تفسیر میں نہیں بلکہ ترجمہ میں بھی تحریف کا ارتکاب کیا، معنوی تحریف سے معروف کو منکر بنایا گیا

اسلامی نظریاتی کونسل میں خواتین کے حقوق کے حوالہ سے سماء ٹی وی چینل سے رئیس کا پروگرام تھا، مفتی نعیم، مفتی عبدالقوی، ماروی سرمد، سمیعہ راحیل قاضی مہمان تھے۔اسکرین پر سورۂ النساء کی ایک ادھوری آیت اور اس کا ترجمہ دکھایا گیا۔پوری آیت اورترجمہ: یاایھاالذین اٰمنوالایحل لکم ان ترثوا النساء کرھاو لاتعضلوھن لتذھبوا ببعض ما اٰ تیتموھن الا ان یاتین بفاحشۃ مبینۃ وعاشروھن بالمعروف فان کرھتموھن فعسٰی ان تکرھوا شئیا ویجعل اللہ فیہ خیرا کثیراO
’’ اے ایمان والو! تمہارے لئے حلال نہیں کہ اپنے بیویوں کے زبردستی مالک بن بیٹھو اور ان کو مت روکے رکھو تاکہ تم لے اُڑھو،بعض ان چیزوں کو جوتم نے ان کو دی ہیں مگر یہ کہ وہ کھلی ہوئی فحاشی کی مرتکب ہوں، اور انکے ساتھ سلوک کرو ،اچھائی سے اور اگر تم انہیں برا سمجھتے ہو تو ہوسکتا ہے کہ کسی چیز کو تم برا جانو اور اس میں تمہارلئے اللہ خیر کثیر بنادے‘‘۔
اس آیت میں زبردست معنوی تحریف کی گئی ، اللہ تعالیٰ نے بہت سی آیات میں النساء بیویوں کو قرار دیا ہے، اس آیت میں بھی بیوی کے علاوہ کوئی غیر عورت مراد ہوہی نہیں سکتی، اسلئے کہ اپنی بیوی کو ہی چیزیں دی ہوتی ہیں،جب وہ چھوڑ کر جانا چاہتی ہے تو ان میں سے بعض چیزیں واپس لینا اپنا حق سمجھاجاتاہے،اللہ تعالیٰ نے اس صورت میں بعض چیزوں کو واپس لینا مستثنیٰ قرار دیا ،جب وہ کھلی ہوئی فحاشی کا ارتکاب کریں۔اگر بیویاں چھوڑ کر جانا چاہیں تو ان کے بارے میں وضاحت ہے کہ انکے زبردستی سے مالک مت بن بیٹھو، ان کو اسلئے بھی مت روکے رکھو کہ بعض دی ہوئی چیزیں ان سے واپس لو، اگر چھوڑ کر جانے کی وجہ سے تمہیں بری لگیں تو ان کے چھوڑ کر جانے کو برا مت سمجھو۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ اس میں تمہارے لئے خیر کثیر بنادے۔ اس سے بہتر بیوی مل جائے، اس کو روک کر زبردستی سے مالک بن بیٹھو تو تمہاری عزت کہیں تارتار نہ ہوجائے۔ اسی میں مصلحت ہے کہ چھوڑدو۔
علماء وفقہاء نے اس آیت میں معنوی تحریف کرکے النساء (عورتوں) سے دوالگ قسم کی عورتیں مراد لی ہیں۔ آیت کے پہلے حصہ سے رشتہ داروں کی بیوائیں مراد لی ہیں کہ ان کے زبردستی سے مالک مت بن بیٹھو، ان کو اپنی مرضی سے جہاں چاہیں شادی کرنے دو اور ان کو جو تم نے چیزیں دی ہیں وہ واپس مت لومگر یہ وہ کھلی فحاشی کا ارتکاب کریں، آیت کے دوسرے حصہ سے اپنی بیگمات مراد لی ہیں کہ انکے ساتھ اچھا سلوک کریں، اگر تمہیں بری لگتی ہوں تو ہوسکتا ہے کہ اچھا سلوک کرنے سے اللہ تمہارے لئے خیر کثیر بنادے، اولاد ہو اور حالات بدل جائیں وغیرہ۔ حالانکہ یہ سراسر غلط ہے اسلئے کہ دوقسم کی خواتین کی طرف ایک ہی ضمیر سے الگ الگ خواتین کی طرف کیسے نسبت ہوسکتی؟،یہی معنوی تحریف ہے۔
علماء وفقہاء یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ شوہر کو کیسے مخاطب کیا جاسکتا کہ بیوی کا زبرستی سے مالک مت بن بیٹھو،شوہر بیوی کے ایک طلاق نہیں تین طلاق کا مالک ہوتا ہے۔ایسی انوکھی ملکیت دنیا کی کسی اور چیز میں ہوہی نہیں سکتی، جس طرح طلاق کی ملکیت کا مکروہ اور انتہائی منکر تصورعلماء وفقہاء نے بنارکھا ہے۔ عقل دنگ رہ جائیگی ، فطرت کو پسینہ آجائیگا اور روح تڑپ اُٹھے گی کہ معروف اسلام کو ایسا منکر بنانے کا تصور کیسے کرلیا گیا؟۔
شوہر تین طلاق کا مالک ہے، ایک طلاق بیوی کو دیدی، عورت کی دوسری شادی ہوئی ، پہلا شوہر پھر بھی بقیہ دو طلاق کا مالک ہے۔ دوسرے نے طلاق دی اور پہلے سے پھر شادی ہوئی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پہلا شوہر بدستور سابق بقیہ دو طلاق کا مالک ہوگا یا نئے سرے سے تین طلاق کا مالک ہوگا؟۔ ایک ضعیف حدیث میں ہے کہ بقیہ دو طلاق کا مالک ہوگا۔ یہی مسلک حضرت ابوہریرہؓ، حضرت علیؓ ، حضرت ابی کعبؓاور حضرت عمران بن حصینؓ کی طرف منسوب ہے جس کی طرف جمہورائمہ فقہ امام مالکؒ ، امام شافعیؒ ، امام احمد بن حنبلؒ ، محدثینؒ اور امام ابوحنیفہؒ کے بعض شاگرد گئے ہیں۔ جبکہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ، حضرت ابن مسعودؓ اور حضرت ابن عباسؓ اور امام ابوحنیفہؒ انکے مخالف گئے ہیں کہ نکاحِ جدید سے پہلا شوہر نئے سرے سے تین طلاق کا مالک ہوگا۔
یہ کوئی معمولی اختلاف نہ تھا بلکہ جیسے فرض کیا جائے کہ صحابہؓ کی طرف جھوٹ سے نسل کی نسبت کرنے والا علماء کا کوئی گروہ ہو، جسکے آباء واجداد میں سے کسی نے عورت کو اس طرح طلاق دی اور پھر دوبارہ شادی کرلی ہو تو پھر ایک طلاق کے بعد بعض کے نزدیک عورت کو مغلظہ قرار دیا جائیگا اور بعض کے نزدیک وہ رجوع کے بعد بدستور بھی بیوی ہوگی۔ بعض کا مؤقف ہوگاکہ شوہر سے اس کا تعلق حرام کاری والا ہے اور بعض دوسری جگہ نکاح کرے تو اس تعلق کو حرام کاری قرار دینگے، کیا اسلام میں ایسے شکوک وشبہات کی گنجائش ہے؟۔ دور کی بات نہیں کرتا، ہمارے مرشد حاجی محمدعثمانؒ کے مریدو معتقد کے بارے میں فتویٰ دے دیاگیا کہ ’’نکاح جائز ہے، منعقد ہوجائیگا، جائز نہیں، اس نکاح کا انجام کیا ہوگا عمر بھر کیلئے حرام کاری اور اولاد الزنا، یہ نکاح جائز نہیں گو منعقد ہوجائے‘‘۔ ان پر مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی اور شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی کے دستخط بھی ہیں، میں دارالعلوم کراچی میں نمازباجماعت کے بعد اعلان کرکے ان کو چیلنج کیا لیکن وہ وہاں سے دم دباکر بھاگ گئے۔
جب رسول اللہ ﷺ کی طرف من گھڑت احادیث منسوب ہوسکتی ہے تو کیا صحابہ کرامؓ اور فقہی اماموں کی طرف جھوٹ منسوب کرنے سے کوئی شرم، حیاء اور غیرت آتی؟۔ اگر یہ سچ ہے تو نبیﷺ نے فرمایا تھا کہ ’’ اسلام اجنبیت کی حالت میں شروع ہوا ہے اور عنقریب یہ پھر اجنبیت کی طرف لوٹ جائیگا ، خوشخبری ہے اجنبیوں کیلئے‘‘۔ تین طلاق کی ملکیت کایہ تصور ہی سراسر باطل ،قرآن و سنت کے واضح احکام سے متصادم اور انسانی عقل و فطرت کا جنازہ نکالنے کے مترادف ہے۔ اسلام نے طلاق کے عمل کیلئے عدت کا تصور دیکر علیحدگی کا بہترین انداز دنیا کے سامنے پیش کیا۔ شوہر تین طلاق کا مالک نہیں بلکہ عدت کا حقدارہوتا ہے اور مذہبی طبقات نے انتہائی کفرو گمراہی، کم عقلی وبد فطری کا ثبوت دیتے ہوئے اسلام کے معروف کو منکر میں تبدیل کردیا ہے۔یہ صحابہ کرامؓ اور ائمہ مجتہدینؒ کی طرف سے نہیں تھا امام ابوحنیفہؒ نے بھی ایلاء میں چار ماہ کے انتظار کی مدت کو طلاق کا عمل قرار دیا لیکن پھر بعد میں امام ابوحنیفہؒ کے نام پر غلط اور من گھڑت مسائل بنائے گئے۔

1747_lاس میں سارے مذہبی طبقات کو ملوث قرار دینا سراسر زیادتی ہے۔ سب میں سمجھ بوجھ ، عقل و ذہن اور صلاحیت نہیں ہوتی ہے، مفتی تقی عثمانی نے اپنے ذاتی مفاد کیلئے معاوضہ لیکر سودی نظام کو جائز قرار دیا ہے اور شادی بیاہ کے رسم میں لفافہ سود قراردیا ۔ مفتی عبدالرؤ ف سکھروی جیسے لوگ وعظ کرنے لگے :’’ شادی میں نیوتہ یا سلامی کی رسم سود ہے اور اسکے ستر گناہ ہیں، ستر وبال ہیں اور اس کا کم ازکم گناہ اپنی ماہ سے زنا کے برابر ہے‘‘۔ اس کو کتاب کی شکل شائع بھی کردیا گیا۔ کوئی ان سے نہیں پوچھتا کہ ایک طرف بینک کے سود کو جائزکیا تودوسری طرف لفافہ کی رسم کو سود اور اسکے کم ازکم گناہ کو ماں سے زناکے برابر قرار دیا۔
اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ سے فرمایا لاتمنن فتکثر ’’ احسان اسلئے نہ کریں کہ زیادہ بدلہ ملے گا‘‘۔ یہ مالی معاملات کے حوالہ سے نہیں بلکہ نبی کریمﷺ کے مشن کے حوالہ سے ہے اسلئے کہ جب کوئی بھی انسان قوم کی بھلائی کیلئے ان سے اچھائی کے حوالہ سے تحریک شروع کرتا ہے تو فطری طور سے توقع رکھتا ہے کہ اس کا بدلہ خیر کثیر کی شکل میں ہی ملے گا لیکن جو جاہل، ہٹ دھرم اور ہڈ حرام ہوتے ہیں ان کی طرف سے اکثر خلافِ توقع نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے اسلئے اللہ نے نبیﷺ سے فرمایا کہ احسان سے بھلائی کی توقع نہ رکھیں۔
اس کو سود کی تعریف میں شامل کرنا معروف کو منکر بنانا ہے، تحفہ تحائف سے محبت بڑھتی ہے اسلئے نبی ﷺ نے فرمایا کہ’’ ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کرو اور محبتوں کو بڑھاؤ‘‘۔ حکومت ڈنڈے کے زور پر نہیں لیکن اپنی ذمہ داری سمجھ کر علماء کرام کے درمیان صحیح طریقہ سے راہ ہموار کرکے پارلیمنٹ میں مکالمے کا اہتمام کروائے تو بہت سارے معاشرتی مسائل سے چھٹکارا مل جائیگا۔ دین ومذہب ایک روحانی اور اخلاقی قوت ہے ، آدمی بڑی قربانی دیدیتا ہے لیکن اپنا ایمان بچالیتا ہے۔اسلام عظیم دین ہے اور مسلمان عظیم قوم ہیں، مذہبی طبقات حلالہ کروائیں، زنجیر زنی کروائیں، تعصبات کے انگارے لوگوں کے دل و دماغ میں ڈال دیں اور خود کش حملے کروائیں عوام مذہب کی ہرطرح کی قربانیاں دیدیتے ہیں۔
اگر علماء ومفتیان کے ذریعہ مسلمانوں کے اندر معاشرتی حقوق کو بحال کردیا جائے تویہ اتنا بڑا انقلاب ہوگا کہ بھارت،روس، امریکہ، پورپی یونین، برطانیہ کے علاوہ سعودیہ اور ایران کو بھی پاکستان کی امامت میں اقتداء کرنے پر مجبور کردیگا، افغانستان کیساتھ بھی اسی وجہ سے نہ صرف معاملات ٹھیک ہونگے بلکہ طالبان و افغان حکومت بھی پاکستان کی ہاں و ناں کو مانیں گے۔ ماروی سرمداور مفتی نعیم ، سمیعہ راحیل اور مفتی عبدالقوی ایک ہونگے ۔
تازہ واقعہ ہے کہ مری میں ایک 19سالہ لڑکی کو رشتہ کے تنازع پر جلادیا گیا، یہ واقعہ کوئی انوکھا نہیں بلکہ ہمارے معاشرتی اقدار کا وہ نمونہ ہے جو جاہلانہ طرزِ عمل کی عکاسی کرتا ہے۔ ہم نے اپنے معاشرتی اقدار کو تحفظ دینے کیلئے اسلام کو ٹیشو پیپر بنایاہے۔ اسلام نے جاہلانہ معاشرتی روایات کو ختم کرنے کا بیڑہ اٹھایا تھالیکن مسلمانوں نے جاہلانہ رسوم کو ختم کرنے کی بجائے حیلے بہانے سے اسلام کا نام لیکر ان کو تحفظ دیا ہے۔ اسلام نے بیوی اور لونڈی میں تفریق کی تھی،بیوی منکوحہ ہوتی ہے مملکوکہ نہیں۔قرآن کہتا ہے کہ زبردستی سے بیوی کا مالک مت بن بیٹھو، علماء وفقہاء نے قرآن کی آیت کے الفاظ کو توتبدیل نہیں کیامگر اس کے معانی اور تفسیر کو تبدیل کردیا۔ یہ صرف مدارس تک بات محدود نہیں جماعتِ اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودی نقوی اور بلکہ غلام احمد پرویز کے پیروکاروں نے ان سے بھی بدتر کردار ادا کیاہے، مدارس والوں سے زیادہ جماعتِ اسلامی کو سیاست کی پڑی ہے۔
سورۂ النساء کی آیات میں الصلح خیراور اسکے سیاق وسباق کی پوری وضاحت ہے جس سے صلح ہی مراد ہے لیکن مولانا مودودی ؒ نے اس سے ’’ خلع‘‘ مراد لیا ہے۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سورۂ بقرہ کی جس آیت میں طلاق کے بعد فدیہ کا ذکر ہے اس سے مراد خلع نہیں بلکہ علیحدگی کی ایک خاص صورتحال کا ذکر ہے مگر پھر بھی اس سے خلع مراد لیا ہے، اور حنفی علماء کے مقابلہ میں علامہ ابن تیمیہؒ کے شاگرد علامہ ابن قیمؒ کی عقل پر ہنسی آئیگی جس نے ’’خلع‘‘ کے بارے میں اپنی انتہائی کم عقلی کا مظاہرہ صرف اسلئے پیش کیا ہے کہ وہ حنفی مسلک کی تردید کرنا چاہتے تھے۔ معلومات کا ذخیرہ اور مخلص تھے مگر عقل نہ دارد۔
امام ابوحنیفہؒ اپنے دور میں قرآن کیلئے جس طرح کھڑے ہوئے ، یہ دین اور حق کو تحفظ دینے کا بہترین ذریعہ تھا، اگرچہ صحیح حدیث کے مقابلہ میں ان کا مؤقف سوفیصد غلط تھامگر ضعیف اور من گھڑت روایات کے مقابلہ میں انہوں نے زبردست کردارادا کیا جس پر وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ مثلاً قرآن اور صحیح حدیث میں واضح ہے کہ تین مرتبہ طلاق کی عدت کے تین پیریڈ تین طہر ہیں، جس طرح تین دن تین روزے رکھے جائیں تو عدد میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوتی ہے مگر احناف نے خود ساختہ طور سے قرآن میں 3کے عدد کو تحفظ دینے کیلئے حیض مراد لئے۔ جس طرح روزہ کی ابتداء دن کے شروع سے ہوتی ہے رات کو روزہ مکمل ہوجاتا ہے، اسی طرح نبیﷺ نے طہر میں پرہیز کو ایک مرتبہ طلاق قرار دیا۔
غلام کی دو طلاق اور لونڈی کی دو حیض عدت سے بھی مراد یہی ہے کہ غلام دو طہروں کی پرہیز کریگا تو یہ دو طلاق ہیں اور لونڈی تین کی بجائے دو حیض تک انتظار کریگی۔ ان باتوں کو مزید وضاحت کساتھ ایک کتابچہ میں پیش کررہا ہوں لیکن علماء ومفتیان اور عوام کو یہ توجہ دلانا ضروری ہے کہ اسلام کے معروف احکام کو واضح کرنے کے بعد نہ صرف مسلمان بلکہ دنیا بھر کے انسان بھی ان کی طرف لپکیں گے اور سب اسلام کی طرف آئیں گے۔ عتیق گیلانی

اسلام دین فطرت کو مذہبی طبقوں نے غیرفطری بنا ڈالا

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ ’’ اسلام اجنیت کی حالت میں شروع ہوا تھا، اور عنقریب یہ پھر اجنبی بن جائیگا، پس خوشخبری ہے اجنبیوں کے لئے‘‘۔
پاکستان میں سنی، شیعہ، دیوبندی ، بریلوی ،اہلحدیث اور دوسری صدی ہجری میں مالکی، حنفی، شافعی، حنبلی، جعفری،اہل ظواہر،محدثین اور دوسرے فقہاء تھے، فقہ و حدیث کی بنیاد پر محدثین اور فقہاء میں سخت اختلاف اور کشمکش کی فضاء تھی لیکن فقہاء ایک دوسرے سے بھی شدید اختلاف رکھتے تھے، اس طرح محدثین کی بھی آپس میں بھی نہ بنتی تھی، ایک دوسرے کو کذاب اور کتے کے بچے کہنے سے بھی دریغ نہ کرتے، جس کی نشاندہی حدیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ ایک ساتھ تین طلاق کی روایت کرنے والے ایک روای کو دوسرے نے ’’جرو کلبیعنی کتے کا بچہ‘‘ قرار دیا ۔
محدثین فقہاء کو ’’ أ ریتون کیا تو نے دیکھا والا طبقہ یا ایسا ہوا تو کیا ہوگا؟‘‘کا نام دیتے ، حدیث جسمیں اسلام کا صرف نام باقی رہنے، قرآن کے صرف الفاظ باقی رہنے ، مساجد لوگوں سے بھری مگر ہدایت سے خالی اور انکے علماء آسمان کے نیچے بدترین مخلوق قرار دیاگیا کہ فتنے انہی سے نکلیں گے اور انہی میں لوٹیں گے، محدثین ؒ اس حدیث کی پیشین گوئی کو اپنے زمانے پر فقہاء کی وجہ سے پورا سمجھتے تھے، جبکہ فقہاء سمجھتے تھے کہ ان کی وجہ سے اسلامی احکام کی تشریح اور حفاظت ہورہی ہے۔
ہمیں ان دونوں طبقے کے خلوص پر کوئی شبہ نہیں لیکن من گھڑت روایات اور حیلہ سازی کے کرشموں کو بھی درست قرار دینا ایمان کا زوال اور اسلام کی بیخ کنی ہوگی۔ میں یہ بھی نہیں کہتا کہ پہلے لوگوں نے اس سے غفلت کا مظاہرہ کیا ۔امام غزالیؒ ، مجدد الف ثانیؒ ، شاہ ولی اللہؒ اور بے شمار علماء حق نے اپنے ضمیر، صلاحیت اور ہمت کیمطابق ہدایت کی شمعوں کو جلائے رکھا، اپنے دور کے درخشندہ ستاروں کو گلہائے عقیدت کا پیش کرنا اور ان سے بدظنی کا شکار نہ ہونا ایک بالکل الگ بات ہے مگر انہوں نے کبھی بھی نہ یہ دعویٰ کیا کہ ان سے اختلاف جائز نہیں اور اگر وہ یہ دعویٰ کرتے تو ہمارا فرض بنتا تھا کہ ان کو چمکتے ستاروں کی مانند سمجھنے کی بجائے ان کو زمین میں دفن کرکے قبروں کے نشان بھی زمین پر نہ چھوڑتے، کیونکہ کوئی بت بنائے تو قصور بنانے والوں کا ہوتا ہے لیکن کوئی فرعون کی طرح دعویٰ کرے تو دین میں اس کیلئے کوئی گنجائش نہیں۔
رسول اللہ ﷺ رحمۃ للعالمین آخری نبی کی وحی کے ذریعہ رہنمائی ہوئی،پھر یہ سلسلہ قیامت تک کیلئے بند ہے۔ یہودو نصاریٰ اور مشرکینِ مکہ کا دعویٰ تھا کہ ابراہیمؑ کی ملت پر ہیں مگر وہ دینِ فطرت کی شکل بگاڑ چکے تھے۔جب تک وحی سے رہنمائی نہ ملتی تھی تو نبیﷺ پہلے مشرکینِ مکہ یا یہود ونصاریٰ کے مذہبی فتوؤں کو بعض معاملوں میں درست سمجھتے تھے۔سورۂ مجادلہ ، سورۂ احزاب اور دیگر قرآنی سورتوں اور احادیث صحیحہ میں اسکے بھرپور شواہد موجود ہیں۔دورِ جاہلیت میں معروف منکر اور منکر معروف بن چکا تھا۔رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک خاتون نے عرض کیا کہ میرے شوہر نے مجھ سے ظہار کیا ہے، بیوی کی پیٹھ کو ماں کی پیٹھ سے تشبیہ دینا ظہار کہلاتا تھا ، سخت ترین طلاق کی صورت یہی تھی۔نبیﷺ نے فرمایا کہ آپ حرام ہوچکی ہیں، اب کوئی راستہ نہیں رہا ہے، وہ بحث وتکرار، مجادلہ و جھگڑاکررہی تھی کہ میرے شوہر کی نیت نہیں تھی، میری زندگی اور میرے بچوں کی زندگی تباہ ہوجائے گی۔ اللہ نے وحی اتاری۔
قد سمع اللہ قول التی تجادلک فی زوجہا۔۔۔ بیشک اللہ نے بات سن لی اس عورت کی جو آپ سے جھگڑ رہی تھی اپنے شوہر کے معاملہ میں۔۔۔ ان کی مائیں نہیں مگر جنہوں نے ان کو جنا ہے۔۔۔ یہ (مذہبی فتویٰ) جھوٹ اور منکر ہے۔۔۔ سورۂ مجادلہ کی ان آیات سے علماء و مفتیان کو یہ سبق لینا چاہیے کہ معاشرہ میں اگر منکر معروف کی جگہ لے لے تو بڑے سے بڑا آدمی بھی مغالطہ کھا جاتا ہے،شیعہ مکتب کی رائے اپنے ائمہ اہلبیتؑ کے بارے میں مختلف ہے ، صحیح بخاری میں انکے ائمہ کا ذکر ’’علیہ السلام‘‘ کیساتھ کیا گیا ہے،احادیث میں اہلبیت کی خاص اہمیت بیان کی گئی ہے لیکن اہلبیتؑ زیادہ سے زیادہ ان کے عقیدے کے مطابق بھی نبیﷺ کے واحد جانشین بن سکتے ہیں، قرآن و سنت سے بڑا درجہ تو ان کا نہیں ہوسکتا ہے۔
اہل تشیع کے معروف عالم دین علامہ طالب جوہری سے میری ملاقات ہوئی تھی علامہ علی کرار نقوی بھی موجود تھے، میں نے کہا کہ نبیﷺ سے اختلاف جائز تھا؟ تو انہوں نے کہا کہ نہیں، سورۂ مجادلہ کا واقع بتانے پر قرآن منگوایا، دیکھنے پر کہا کہ ’’ یہ متشابہات میں سے ہے، محکمات یہ ہیں کہ نبیﷺ سے اختلاف جائز نہ تھا‘‘۔ رسول اللہ ﷺ کی سیرت اعلیٰ نمونہ تھا ، جس میں جبر نہ تھا، کوئی بھی اختلاف کا مجاز ہوتا تھا، بدر کے قیدیوں پر فدیہ اور حدیبیہ کے معاہدہ میں اختلاف کا اظہار ہوا تھا ، بدر کے قیدیوں پر نبیﷺ کی رائے کونامناسب اور حدیبیہ کے معاہدے میں نبیﷺ کی رائے کو فتح مبین قرار دیا گیا ہے۔سورۂ احزاب کی آیات پڑھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ معروف منکر اور منکر معروف بن چکا ہو،تواسوقت دین پر عمل کتنا مشکل ہے؟۔
سورۂ مجادلہ میں اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کے دور میں معروف مذہبی فتویٰ کو جھوٹ اور منکر قرار دیالیکن جب فضاؤں میں منکر معروف بن کر انسانی رگ وریشہ میں خون کی طرح دوڑ رہا ہو تو قبولِ حق سے آدمی مقدور بھر اعراض کرتا ہے۔ اسلئے اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا کمال ہے کہ نبیﷺ کی سیرت طیبہ کو اعلیٰ نمونہ بناکر پیش فرمایا۔ وحی نازل ہونے سے قبل آپﷺ کے سینہ مبارک کو چاک کرکے کوئی کالی چیز نکالی گئی ، وحی کی رہنمائی کسی اور کی نصیب میں نہ تھی۔اللہ کو معلوم تھا کہ دین قیامت تک چلے گا لیکن معروف کو منکر اور منکر کو معروف بنادیا جائیگا۔ اس وقت قرآن کے الفاظ اور نبیﷺ کی سیرت سے رہنمائی ہدایت کا اہم ترین ذریعہ بن جائیں گے۔اسلئے قرآن میں بار بار اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی اطاعت کا حکم ہے اور رسول ﷺکی اطاعت کو اللہ کی اطاعت قرار دیا گیا ۔علماء قرآن و سنت کو چھوڑ کر اجماع کا طبلہ بجارہے ہیں ۔
یا ایھا النبی اتق اللہ ۔۔۔ اے نبی! اللہ سے خوف کھا، اور کافروں و منافقوں کی اتباع نہ کر۔۔۔ اور اتباع کر جو تیرے رب نے تجھ پر نازل کیاہے اور اللہ پر توکل کر، اللہ کی وکالت کافی ہے، اللہ نے کسی آدمی کے سینہ میں دو(2)دل نہیں رکھے ہیں اور نہ تمہارے لئے مائیں بنایا ہے جن سے تم ظہار کرتے ہو،اور نہ تمہارے منہ بولے بیٹوں کو حقیقی بیٹے بنایا ہے ، یہ باتیں ہیں تمہارے منہ کی ‘‘۔آگے یہ بھی فرمایا کہ ’’ آپ لوگوں سے ڈرتے ہیں اللہ زیادہ حق دار ہے کہ اس سے ڈرو‘‘۔الاحزاب
مولوی بیچارا تو لوگوں سے نہیں اپنے سایہ سے بھی ڈرتا ہے، معاشرے میں اس رسم کو توڑنا اسکے بس کی بات نہیں جب منکر نے معروف کی جگہ لی ہو۔ قرآن کی یہ آیات عام لوگ پڑھ لیں اور پھر بند حجروں میں علماء ومفتیان کو ایک ایک کرکے ماحول فراہم کریں جس میں ان کیلئے حق پر چلنا مشکل نہ رہے۔سنی مکتب سے زیادہ شیعہ مکتب کے علماء ومفتیان کیلئے رسم کے خلاف حق کی راہ اپنانا مشکل ہے ، دیوبندی اور بریلوی کے مقابلہ میں اہلحدیث کیلئے رسم کے خلاف چلنا مشکل ہے اور دیوبندی کے مقابلہ میں بریلوی کیلئے رسم کے خلاف حق پر چلنا زیادہ مشکل ہے۔
بریلوی حضرت ابوبکرؓ ، دیوبندی حضرت عمرؓ ، اہلحدیث حضرت عثمانؓ، شیعہ حضرت علیؓ کے مزاج سے مناسبت رکھتے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے زندگی بھر نبی ﷺ کی اطاعت کی لیکن جب اپنے دور میں زکوٰۃ نہ دینے والوں کیخلاف قتال کا فیصلہ کیا تو کسی کی سنی اور نہ مانی۔ حضرت عمرؓ نے حدیث قرطاس میں نبیﷺ سے عرض کیا، ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے،حضرت عثمانؓ نے روایات کو ترجیح دی، حضرت علیؓ نے اپنی انفرادیت برقرار رکھی۔ دیوبندی مجبوراً اور بریلوی برضا مقلد حنفی ہیں۔ فاروق اعظمؓ، امام اعظمؒ اور دیوبندی اکابرؒ کی اپوزیشن بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔

طلاق کا تعلق محض الفاظ نہیں بلکہ عمل وعزم سے ہے

لا یؤاخذکم باالغو فی ایمانکم ولکن بماکسبت قلوبکم Oللذین یؤلنون من النساء ھم تربص اربعۃ اشہر فان فاؤا فان اللہ غفور رحیمOوان عزموا الطلاق فان اللہ سمیع علیمOاللہ تمہیں نہیں پکڑتا لغو قسموں سے مگر جو تمہارے دلوں نے (گناہ)کمایا،اس پر۔Oجو لوگ اپنی عورتوں سے قسم کھالیتے ہیں ان کے لئے 4ماہ ہیں، پس اگر آپس میں مل گئے تو اللہ غفور رحیم ہےOاور اگر ان کا عزم طلاق کا تھا تو سننے جاننے والا ہے۔سورۃالبقرۃ
ان آیات میں یہ وضاحت ہے کہ عورت کو چھوڑنے (طلاق دینے) کا تعلق لغو قسم سے نہیں بلکہ دل کے عزم اور طلاق کے عمل سے ہے۔طلاق کے عزم کا اظہار نہ کیا تو بھی زیادہ سے زیادہ انتظار 4 ماہ کا ہے ، اسلئے کہ پھر عورت کی حق تلفی ہوگی۔ شوہر طلاق کے عزم کا اظہار نہ کریگا تو عورت زندگی بھر بیٹھی رہے گی؟۔ اللہ نے ایسا ظالمانہ معاشرتی نظام نہیں بنایا ۔ ایلاء عورت سے ناراضگی کی قسم کو کہتے ہیں، یہ بالکل واضح ہے کہ طلاق کا تعلق لغو الفاظ سے نہیں، طلاق کے عزم کا اظہار بھی ضروری نہیں بلکہ عمل ہی کافی ہے۔ آیات میں واضح ہے کہ طلاق کا عزم ہو مگر اظہار نہ کیا جائے تو اس دل کے گناہ پر اللہ کی پکڑ ہوگی اسلئے کہ طلاق کے عزم کا اظہار ہو تو انتظار کی مدت 4ماہ کی بجائے3ماہ ہوگی۔تبیانا لکل شئی (قرآن ہرچیز واضح کرتاہے)
ان آیات سے واضح ہے کہ نکاح و طلاق میں شوہر اور بیوی دونوں کا حق ہے، دورِ جاہلیت کی طرح یہ تعلق لغو قسم سے بھی نہیں ٹوٹتا ، شوہر نہ ملنے کی قسم کھالے تو بیوی فوری طور سے قانوناً الگ نہیں ہوتی بلکہ ناراض ہونے کی حالت میں 4ماہ کا انتظار ضروری ہے، اس مدت یا عدت میں دونوں راضی ہوگئے تو اللہ غفور رحیم ہے اور اگر نہ بن سکی تو عورت اس سے زیادہ انتظار کی پابند نہیں۔البتہ عزم کا اظہار نہ کرنے پر شوہر کی اللہ کے ہاں اس وقت پکڑ ہوگی جب طلاق کا عزم ہو، اسلئے کہ پھر عزم کا اظہار کرتا تو عورت کو اس سے کم 3ماہ کی عدت اور انتظار کی تکلیف گزارنی پڑتی۔
امام ابوحنیفہؒ کے مسلک میں چار ماہ انتظارکے بعد عورت طلاق ہوجائے گی۔ جمہور ائمہ کے نزدیک جب تک طلاق کے عزم کا اظہار نہ ہو عورت زندگی بھرانتظار کریگی۔ علامہ ابن قیمؒ نے جمہور کے حق میں اور احناف کیخلاف دلائل دئیے لیکن قرآن میں اتنا بڑا تضاد کیسے ہوسکتا ہے کہ حنفی مسلک میں چارماہ کاعمل طلاق قرار دیا جائے اور جمہورکے نزدیک چارماہ کا انتظار ہی غلط ثابت ہو ؟۔ میاں بیوی چار ماہ کے بعد باہمی رضامندی سے ملنے پر راضی لیکن ان کو طلاق کا فیصلہ سنادیا جائے اور عورت الگ ہونا چاہتی ہو تب بھی انتظار پر مجبور ہو۔ یہ افراط و تفریط اور غلو ہے۔
یہ اختلاف رحمت نہیں زحمت ہے، یہ امت مسلمہ کو اس مذہبی گمراہ ذہنیت کا شکار کرتی ہے جس سے اسلام نے نکالا ۔ اس مسلکی اختلاف و تضاد کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ شوہر اور بیوی دونوں کے حقوق کی وضاحت اور حد ود مقرر کردئیے ، شوہر کا حق یہ ہے کہ بیوی اس کی ناراضگی کے باوجود ایک مخصوص عدت تک انتظار کی پابند ہے۔ طلاق کے عزم کا اظہارنہ کرنے کی صورت میں انتظار کی مدت یا عدت اظہارکے مقابلہ میں بڑھ جاتی ہے، شوہر اپنی قانونی ذمہ داری پوری نہیں کرتا اور اس کو راضی نہیں کرتایا پھر وہ راضی ہونے کیلئے تیار نہیں ہوتی ہے تو 4ماہ انتظار کافی ہے۔
چونکہ فقہاء کرام اس دور کی پیداوار تھے جب خلافت کا نظام موروثی امارت میں تبدیل ہوچکا تھا، انہوں نے عورت کے حق کو ہی بالکل فراموش کردیا،وہ آیات کا فیصلہ صرف شوہر کے حق کو مدِ نظر رکھ کر کررہے تھے، اسلئے طلاق ہونے ،نہ ہونے کے فتویٰ میں تضاد آگیا۔اگر ان کے پیشِ نظر عورت کا حق بھی ہوتا تو یہ اختلاف کے شکار نہ بنتے۔ قانون میں طاقتور اور کمزور دونوں کے حقوق متعین ہوتے ہیں،عورت کمزور ہوتی ہے، اسکے حقوق کا خاص طور سے خیال رکھنا ضروری تھا۔ قرآن میں اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حوالہ سے وضاحت فرمائی کہ 8سال کام کرنا ہوگا اور اگر10سال پورے کئے تو یہ آپکی طرف سے احسان ہوگا۔ مزدور، ملازم اور افسر کو کچھ گھنٹے روزانہ مقررہ وقت کیمطابق کام ، پھرمرضی کا مالک ہے۔ معمولات اور انسانی فطرت سے سبق لیتے تو قرآن کے قانون میں تضاد کی ضرورت نہ پڑتی۔
عورت کو طلاق کے عزم کے اظہار تک چار ماہ اور حدود وقیود سے بڑھ کر جمہور فقہاء کا مسلک تو قرآن کے الفاظ اور انسانی فطرت کے بالکل منافی تھا ، حنفی مؤقف مقابلے میں بہتر اور قرآں فہمی کے تقاضہ سے مطابقت رکھتا تھا، تاہم عورت کے حق کو مدِ نظر رکھا جاتا تو چار ماہ کے گزرتے طلاق ہونے کا فتویٰ دینے کی بجائے قانون کی وضاحت کی جاتی کہ عورت چارماہ کی مدت کے بعد پابند تو نہیں لیکن وہ چاہے تو چارماہ کے بعد بھی باہمی رضامندی سے ازدواجی زندگی بحال رکھ سکتی ہے۔کوئی ایسا قانون نہیں ہے کہ اب طلاق پڑگئی ہے ، دوبارہ نکاح کا معاہدہ کرنا پڑیگا۔
ناراضگی کی صورت میں عورت کو 4ماہ کے انتظار کا حکم ہے اور عدتِ وفات میں4ماہ 10دن انتظار کا حکم ہے۔ اللہ کی آیات کی تکذیب کرنے والے گدھوں کو اس بات کی سمجھ ہونی چاہیے کہ اللہ نے شوہر کی ناراضگی میں 4ماہ کی عدت کیوں رکھی ہے جو عدتِ وفات سے بھی دس دن کم ہے؟۔ اور طلاق کے اظہار پر 3ماہ کی عدت رکھی ہے۔ کھل کر طلاق کے اظہار کے بعد عورت کے انتظار کا زمانہ سب سے کم ہے، اسلئے کہ عورت دوسری جگہ شادی کرسکے، ناراضگی کی صورت میں انتظار کی مدت زیادہ ہے تاکہ مصالحت کیلئے زیادہ وقت ملے اور وفات کی صورت میں شوہر کا طلاق میں کوئی کردار نہیں ہوتا اسلئے اس میں انتظار کی مدت زیادہ ہے۔
عدت شوہرکے حق کی انتہاء ہے ،عورت انتظار کی پابند ہے اور اسکے بعد عورت دوسری جگہ شادی کرسکتی ہے۔ عورت اگر اپنے حق سے دستبردار ہوکر عدتِ وفات کے بعد بھی دوسری شادی نہ کرنا چاہے تو ساری زندگی وفات اور روز محشر وجنت تک یہ نکاح کا تعلق قائم رہتا ہے۔ یوم یفرالمرء من اخیہ وامہ وابیہ وصاحبتہ وابنیہ ’’ اس قیامت کے دن انسان بھاگے گا اپنے بھائی سے، اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے‘‘۔ جنت میں بھی وہ اور انکی بیویاں ساتھ ہونگے۔فقہاء نے یہ غلط مسلک بنا یا کہ وفات ہوتو شوہر بیوی کی طلاق ہوجاتی ہے، ایک دوسرے کا چہرہ نہیں دیکھ سکتے،مہاجر،سندھی، بلوچ ، پنجابی اور پختون عوام میں اس پر عمل بھی ہوتا ہے ۔ان علماء سے یہ پوچھا کہ جب تمہارے باپ کی وفات کے بعد تمہاری ماں کو طلاق ہوگئی تو پندرہ بیس سال بعد تمہاری ماں فوت ہوگئی پھراسکی قبر پر زوجہ مفتی اعظم کا کتبہ کیوں لگایا؟۔
جس طرح وفات کی عدت کے بعد عورت اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہے تووہ آزاد ہے اور اپنے حق سے دست بردار ہوکر اپنے شوہر کے نام پر بیٹھی رہنا چاہے تو اس کا حق ہے، پاکستانی حکومت کے علاوہ دنیا بھر کے عام قوانین بھی یہی ہیں، فقہاء نے عورت کے حق کی بجائے طلاق کی انوکھی منطق کی ایجاد کررکھی ہے کہ حمل کی صورت میں آدھے سے زیادہ بچہ پیدا ہوا تو رجوع نہیں ہوسکتااور کم پیداہوا ہے تو رجوع ہوسکتا ۔اللہ جانے گونگے شیطان کب گرفت میں آئیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے انسانی ذہن کو تسکین کو پہنچانے کیلئے عدت کا تصور رکھا ہے اور باہمی رضامندی سے بار بار رجوع کی وضاحت فرمائی ، عدت کے بعد بھی یہ تصور غلط ہے کہ طلاق واقع ہوگی اور عدت سے پہلے تو ہے ہی غلط۔ البتہ عدت کے بعد عورت چاہے تو دوسری شادی کرلے اور چاہے تو باہمی رضامندی سے ازدواجی تعلق کو بحال کردے۔اللہ نے یہ بھی وضاحت فرمائی کہ عدت کو تکمیل کے بعد بھی عورت کو اسکے شوہر سے نکاح کرنے سے نہ روکو۔ اپنی نسبت قائم رکھے تو وہ بیوی ہے۔ عتیق گیلانی

تین طلاق کا تعلق صرف طہرو حیض کی عدت سے ہے

المطقٰت یتربصن بانفسھن ثلاثہ قروء ۔۔۔ وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحاو لھن مثل الذی علیھن بالمعروف ولرجال علیھن درجۃ ۔۔۔O الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف او تسریح باحسان ولا یحل لکم ان تأخذوا مما اٰتیتموھن شءًا الا ان یخافا الایقیما حدوداللہ فان خفتم الا یقیما حدود اللہ فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ۔۔۔Oفان طلقہا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ۔۔۔Oواذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف او سرحوھن بمعروف ۔۔۔ Oواذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فلا تعضلوھن ان ینکحن ازواجھن اذا تراضوا بینھم بالمعروف ۔۔۔ ذلک ازکیٰ لکم ۔۔۔
سورۂ بقرہ کی ان آیات کا ترجمہ کسی بھی مسلک وفرقہ کے عالمِ دین کا دیکھ لیں،
علماء ومفتیان نے ان آیات کی تمام معروف باتوں کو بھی منکر میں بدل دیا ہے۔
(ا): طلاق میں عدت کے 3ادوار کا تعلق طہروحیض سے ہے اور 3 مرتبہ طلاق کا تعلق بھی اسی صورتحال کیساتھ ہے۔ حمل کی صورت میں عدت بچے کی پیدائش ہے، اس میں عدت کے تین ادوار اور تین مرتبہ طلاق کا کوئی تصور بھی نہیں۔
نبیﷺ نے ابن عمرؓ کایہ واضح قرانی صورتحال نہ سمجھنے پر غضبناک ہو کرسمجھایا کہ ’’ طہر میں روکے رکھو یہانتک کہ حیض آئے، پھر طہر میں روکے رکھو یہانتک کہ حیض آئے۔ پھر طہر میں چاہو تو روکے رکھو اور چاہو تو ہاتھ لگانے سے پہلے چھوڑدو، یہ وہ عدت ہے جس میں اللہ نے طلاق کا امر فرمایا ہے۔ (بخاری)۔ یہی صورتحال سورۂ البقرہ ، سورۂ طلاق اور دیگر قرآنی آیات میں وضاحت کیساتھ موجود ہے۔جیض نہ آتا ہو،یا اس میں ارتیاب ہو تو تین ماہ کی عدت ہے اور ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی جائے تو کوئی عدت کا حق نہیں جس کی گنتی کرائی جائے۔
جب عبداللہ بن عمرؓ نے مغالطہ کھایا تو بعد میں آنے والے بزرگانِ دین کی غلط فہمی بڑی بات نہ تھی لیکن اللہ کی کتاب اور نبیﷺ کی اس وضاحت کومدِ نظر رکھاجاتا تو علماء ومفتیان، غلام احمد پرویز، جاویداحمد غامدی اور ڈاکٹر ذاکر نائیک بھی مغالطہ نہ کھاتے۔ 3طلاق کو ملکیت قرار دیکر مضحکہ خیز صورتحال کو مختلف سمت میں اتنا پھیلایا گیا ہے کہ ایک انتہائی درجہ کا کم عقل انسان بھی پیٹ پکڑ کر ہنسنے پر مجبور ہوگا، اس کی نسبت بڑے بڑوں کی طرف کی گئی ہے مگر قرآن وسنت سے بڑھ کر کون ہوسکتا ہے؟ اور جب نبیﷺ سے من گھڑت احادیث منسوب تو دوسروں پر کیاکچھ نہ ہوگا؟۔
گنتی طلاق نہیں بلکہ عدت ہی کی ہوتی ہے، حیض کی صورت میں طہر کے تین ادوار میں تین مرتبہ طلاق خود بخود ہوجاتی ہے،آخری مرتبہ سے پہلے دو مرتبہ طلاق کی خبر مرضی پر منحصر نہیں کہ ایک طلاق دی تو باقی دوطلاق کی ملکیت عدت کے بعد تک رہے یہاں تک کہ عورت کی دوسری جگہ شادی اور پھر وہاں سے طلاق ہو تویہ بحث کی جائے کہ پہلاشوہر نئے سرے سے 3طلاق کا مالک ہوگایا پہلے سے موجود2 کا؟۔
(ب): رجوع کاتعلق صلح وباہمی رضامندی کیساتھ ہے لیکن عدت کے اندر شوہر ہی صلح کی شرط پر رجوع کرسکتا ہے اور عدت کے بعد عورت دوسری جگہ شادی کا حق رکھتی ہے اور باہمی رضامندی سے دونوں ازدواجی تعلق کو بحال کرسکتے ہیں جس میں اللہ نے رکاوٹ ڈالنے سے روکا ہے۔ قرآنی آیات بالکل واضح ہیں۔سورہ بقرہ آیت226,228,229,231,232اور سورۂ طلاق آیت1,2۔
اللہ تعالیٰ نے ازدواجی تعلق کے بعد نکاح کومیثاقِ غلیظ قرار دیا ہے، جس کا معنیٰ مضبوط معاہدہ ہے، فقہاء نے قرآن کی ضدمیں من گھڑت اصطلاح طلاقِ مغلظ کے منکر کو معروف کے مقابلہ میں کھڑا کردیا۔ معروف تو یہ تھا کہ جس نکاح میں ازدواجی تعلق قائم کیا گیا ہو ، وہ میثاق غلیظ( مضبوط معاہدہ) ہے جس کو توڑنے کیلئے عدت درکار ہے جوصلح و رجوع کا لازمی پریڈ ہے مگر اسکے مقابلہ میں طلاق مغلظ کا منکر وجود میں لایا گیا جس میں منہ سے کوئی لفظ پھسلنے سے نکاح کا مضبوط تعلق ختم ہوجاتا ہے۔ اس میں انواع واقسام کے صریح اور کنایہ الفاظ ہیں جن پر اختلافات بھی ہیں۔یہی وجہ تھی کہ اللہ نے کسی صریح و کنایہ لفظ کی بجائے طلاق کو عدت وعمل قرار دیا،رجوع کا تعلق الفاظ کی بجائے باہمی رضامندی، صلح اور عدت سے جوڑ دیا ہے۔
(ج): اللہ تعالیٰ نے بار بار جس طرح کے عمل کی وضاحت فرمائی ہے اور فقہاء نے اسکے باوجود اس عمل کو معروف سے منکر میں بدل ڈالا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ بار بار قرآن میں معروف طریقہ سے رجوع کا حکم دیا گیا ہے۔ مدارس کا ہی قصور نہیں بلکہ جدید مذہبی تعلیمات والے زیادہ بڑے گدھے ہوتے ہیں، رجوع کا معروف طریقہ تو عام آدمی سمجھتا ہے کہ چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا تھا، پھر صلح کرلی گئی۔ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آبادکے ریسرچ ڈیپارٹمنٹ نے ’’تین طلاق‘‘ پر مصنف حبیب الرحمن کی ایک کتاب شائع کی ہے۔ جس میں رجوع کے حوالہ سے لکھا ہے ’’ حنفی مسلک میں رجوع کیلئے نیت شرط نہیں ، اگر عدت کے دوران شہوت کی نظر غلطی سے بھی پڑگئی تو رجوع ثابت ہوگا، شوہر رجوع نہ کرنا چاہے اور نظر پڑی تو مسئلہ گھمبیر ہوجائیگا، ایسی صورت میں شوہر دستک دے تو نظر پڑنے پر شوہر ذمہ دار نہ ہوگا۔ اور شافعی مسلک یہ ہے کہ مباشرت بھی کرلی جائے تو رجوع نہ ہوگا جب تک نیت رجوع کی نہ ہو‘‘۔ تین طلاق: حبیب الرحمن ، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی۔
معروف کو منکر میں بدلنے کیلئے ہمارے فقہاء نے (سکہ رائج الوقت ہے) یہود کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے، جدید تعلیم والوں کی وجہ گمراہی کے قلعے مدارس کسی رعایت کے قابل نہیں، اصل گمراہی تو انہی کی وجہ سے پھیلی ہوئی ہے۔ معتبر کتابوں میں لکھا ہے کہ ’’ رجوع اس وقت بھی ثابت ہوگا ، جب نیند میں ایک دوسرے کو شہوت سے چھو لیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ شہوت عورت کی معتبر ہوگی یا مرد کی ؟، جواب یہ ہے کہ دونوں کی معتبر ہوگی‘‘۔ کیا یہ قرآن اور معاشرہ میں موجود معروف کے مقابلہ میں منکر رجوع نہیں ہے؟۔ یقیناًہے اور فقہاء نے الف سے ی تک معروف کو منکر بنایا۔
(د): سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ نے جو یہ فرمایا ہے کہ فلاتحل لہ من بعدحتی تنکح زوجا غیرہ ’’پھر اگر طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہانتک کہ وہ کسی دوسرے سے نکاح کرلے‘‘۔ اس کا کیا مطلب ہے؟۔
جواب یہ ہے کہ کسی بھی معاشرے میں کوئی رسمِ بد ہوتی ہے تو اس کو ملحوظِ خاطر رکھ کر حل تجویز کیاجاتا ہے، شوہر بیوی کو طلاق دینے کے بعد بھی اپنی مرضی سے نکاح نہیں کرنے دیتا تھا، بخاری میں انصار کے سردار حضرت سعد بن عبادہؓ کے حوالہ سے بھی وضاحت ہے، نبیﷺ کی ازواج مطہراتؓ کے بارے میں اللہ نے فرمایا کہ آپ کی وفات کے بعد نکاح نہ کرو، اس آپﷺ کی اذیت ہوتی ہے، آج بھی یہ رسم قبائل میں موجود ہے کہ طلاق کے بعد بھی اپنی مرضی سے شادی میں رکاوٹ ڈالی جاتی ہے، لیڈی ڈیانا کو بھی طلاق کے باوجود اپنی مرضی سے دودی الفہد سے شادی کو برداشت کرنے کی بجائے ماردیا گیا، شہبازشریف اور غلام مصطفی کھر کو تہمینہ درانی سے شادی کرنے پر نذیر ناجی اوراطہر عباس نے نشانہ بنایا تھا۔ریحام خان طلاق پر دوبارہ پاکستان آمد میں جان کا خطرہ محسوس کرنے کا برملا اظہار کررہی تھی۔
میاں بیوی میں سے ایک نیکوکار اور دوسرا بدکار ہو تو بدکاروں کی بدکاروں سے یا مشرکوں سے نکاح اور مؤمنوں پر حرام قرار دینے کی بات کی گئی ہے جو ’’حلال نہیں‘‘ سے زیادہ سخت لفظ ہے تاہم اس آیت سے پہلے جو صورتحال ذکر کی گئی ہے اس کو بھی نظر اندازکرنا معروف کے مقابلہ میں منکر کو وجود بخشنا ہے جس کی تفصیل دیکھ لو۔ عتیق گیلانی