پوسٹ تلاش کریں

پاکستانی امام مسجد کی پادری پوتی کا کینیڈا میں انٹرویو : بہت ہی جاندار تجزیہ کیساتھ

 

پاکستانی مسجد امام کی عیسائی پوتی: پاکستان مسلم ملک ہے جس کی آبادی دو سو ملین سے زیادہ ہے، جہاں 1.2فیصد مسیحی ہیں۔ان کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے، اکثر اوقات انہیں وہ مواقع نہیں ملتے جو اکثریت کو حاصل ہیں۔ میرا دادا ایک مسلمان امام تھا، مذہبی پیشوا۔ پھر خدا نے بہت چھوٹی عمر میں انکے دل میں تبدیلی پیدا کر دی، وہ مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان مناظرے کرتے تھے اور مسیحیوں کو اسلام قبول کرانے کی کوشش کرتے۔ خدا نے انکے دل میں بیج بویا،اسکے بعد وہ پادری بن گئے پھر سیاست میں بھی آئے۔یوں دونوں صلاحیتوں کو ساتھ رکھا، بہت لوگوں کو مسیحیت کی طرف لائے۔

میزبان: واقعی غیر معمولی ورثہ آپ کو ملا ہے۔ آج کے دور میں اسلام سے مسیحیت اختیار کرنا بہت دشوار ہے، بعض جگہوں پر اسے موت کی سزا کے قابل جرم سمجھا جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ کے دادا کے وقت میں یہ اور بھی خطرناک ہوگا۔
مسجد امام کی پوتی: جی ہاں!

سوال: اس فیصلے نے آپ کے والد پر اثر ڈالا۔ آپ کے والدین کی خدماتِ کلیسا میں تھیں۔ اس بارے میں بتائیں۔
جواب: میں تیسری نسل کی مسیحی ہوں۔ میرے دادا بہت کم عمر میں انتقال کر گئے، وہ45 کے لگ بھگ تھے۔ پھر میرے والد نے اس وراثت کو سنبھالا۔ اس نے کم عمری کی زندگی میں یسوع کو قبول کیا اور جان لیا کہ انہیں پادری بننا ہے۔ اس نے بائبل کو سیکھا اور اٹھارہ برس کی عمر میں اپنی پہلی کتاب لکھی، جو آج پاکستان کی جامعات اور اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہے۔ یعنی بہت جلد اپنی صلاحیت پہچان لی اور یہ بھی جان لیا کہ اپنے والد کی چھوڑی ہوئی میراث کو آگے بڑھانا ہے۔ پھر امی اور ابو کی شادی ہوئی اور وہ لاہور منتقل ہو گئے، جو پاکستان کے بڑے شہروں میں سے ایک ہے اور وہیں سے انہوں نے اپنی خدمت کا آغاز کیا۔ پاکستان میں واقعی بہت سا جبر اور ایذا رسانی ہے، اسلئے میرے دادا اور والد کا یہ قدم بڑا جری اور بے خوف تھا کہ انہوں نے مسیح کا پیچھا کیا اور وہی بنے جو خدا نے انہیں بنایا تھا۔

سوال: کیا انہوں نے اس راہ کی کوئی خاص قیمت ادا کی ہے، یا زیادہ تر سماجی ردعمل اور دبا کی نوعیت کی بات تھی؟۔
جواب: سماجی ردعمل بہت زیادہ تھا، میرے دادا کیساتھ تو یہ ہوا کہ ان کا اپنا گھرانہ انہیں چھوڑ گیا، ان کے والد نے انہیں قبول نہ کیا، لہٰذا انہیں الگ رہنا پڑا، انہیں اپنے ہی خاندان نے عاق کر دیا۔ میرے والد کے معاملے میں چونکہ پورا قریبی خاندان مسیحی تھا، اسلئے خاندان میں ایسی اذیت نہیں ملی، لیکن معاشرے کی طرف سے بہت اذیت تھی، خاص طور پر جب ہم کھلے عام اپنے اجتماعات کرتے، تو لوگ، سیاست دان، حتی کہ ہمارے کچھ قریبی لوگ بھی ہمارے خلاف ہو جاتے۔

سوال: پاکستان میں اکثر سننے میں آتا ہے کہ لوگوں پر مذہب تبدیل کرنے کیخلاف قوانین کے تحت مقدمے بنا دیے جاتے ہیں، یا انہیں آگ لگا کر مار دیا جاتا ہے، افواہیں اڑتی ہیں اور پھر ہجوم قتل کر دیتا ہے۔ اس طرح کے خطرات دیکھ کر بھی آپ کے دل میں یہ بات جاگی کہ ضرور یسوع میں کچھ ایسا ہے جس کیلئے لوگ جان تک کا خطرہ مول لے لیتے ہیں۔
جواب: سب سے پہلے تو میں اپنے والدین کی وہ جرأت دیکھتی تھی کہ ہر اتوار کو، یہ جانتے ہوئے بھی کہ کلیسا کے باہر فائرنگ ہو سکتی ہے، ایذا رسانی ہو سکتی ہے، لوگ انہیں نشانہ بنا سکتے ہیں، پھر بھی بغیر کسی رکاوٹ کے اتوار کی عبادت کرتے۔ وہ ہمیں ہر اتوار صبح تیار کرتے اور کہتے کہ ہم کلیسا جائیں گے اور خدا کیلئے اپنی زندگیاں پیش کریں گے، چاہے کچھ بھی ہو۔ یہی بات میرے دل میں بیج بن کر پڑ گئی کہ میں اپنے ایمان سے کبھی پیچھے نہیں ہٹوں گی۔ پاکستانی مسیحیوں کا وہ جوش بھی میں نے دیکھا کہ وہ ہر قیمت دینے کو تیار ہیں۔ میرے والد ایک واقعہ سنایا کرتے ہیں کہ ایک خاتون دلہن کے لباس میں کلیسا آئیں اور کہا کہ اگر ابھی میری موت بھی ہو جائے تو میں یسوع، اپنے دولہا، کے پاس سیدھی جاؤں گی۔ ایسی باتوں نے مجھے اور میرے بہن بھائیوں کو گہرائی سے چھوا اور ہم نے ٹھان لیا کہ اگر یہ لوگ ایسا کر سکتے ہیں تو ہم بھی کر سکتے ہیں۔

سوال: آپ تیسری نسل کی مسیحی ہو کر پروان چڑھیں۔ گھر پر خدمتِ کلیسا کا ماحول تھا، پادری آپ کے ہاں ٹھہرتے تھے، آپ سب کچھ دیکھتی تھیں، مگر آپ کے دل میں کہیں نہ کہیں وہ بات پوری طرح نہیں اتر رہی تھی، جیسا کہ شاید آپ کے والدین چاہتے تھے۔ آپ کے اندر کیا چل رہا تھا؟
جواب: جب میرے والدین پاکستان میں اپنا کلیسا تعمیر کر رہے تھے جو تیزی سے بڑھتی ہوئی کلیساؤں میں سے ایک تھا۔ اب کلیسا کے30 ہزار ارکان اور 47 شاخیں ہیں۔ خدا Church of Pentecost کو بہت برکت دے رہا ہے۔ مگر اسی ماحول میں بہت اذیت تھی، لوگ آپ کے خاندان کو نشانہ بناتے ہیں۔ والدین نے ہمیں تحفظ کیلئے ایک طرح کے حجاب میں بہت محفوظ رکھا۔ اس سب کے درمیان میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ میں انکے پیشے کو اختیار نہیں کرنا چاہتی۔ اس وقت میرے لیے یہ بس پیشہ تھا۔ میں ایسی زندگی چاہتی تھی جس میں آزادی ہو، جو میں چاہوں وہ کر سکوں، چار دیواری میں مقید نہ رہوں، اسکول جاؤں تو سکیورٹی گارڈز کے ساتھ نہ جانا پڑے، اور یہ خوف نہ ہو کہ شاید واپس نہ آ سکوں۔ یہی باتیں ایک عرصہ تک مجھے دور دھکیلتی رہیں۔

سوال: آپ 2018میں کینیڈا آئیں۔ کلیسا جوائن کیا مگر بزنس اسکول میں داخلہ لیا، CEOبننے کیلئے آپ کے کلیسا نے انٹرن شپ کی پیشکش کی۔ اس کا بتائیں۔
جواب: یہ ہمارا مقامی کلیسا Lake Mount Worship Center ہے جو Grimsby میں ہے۔ میں کینیڈا آئی تو گریڈ 12تھا، یونیورسٹی دیکھ رہی تھی۔ میں کاروباری تعلیم چاہتی تھی اسلئے میں نے Toronto Metropolitan منتخب کیا تاکہ اچھی تعلیم لے سکوں، صحیح لوگوں سے جڑ سکوں اورتعلیم کے بعد اپنا بزنس شروع کروں۔ پھر COVIDآگیا، اور مجھے وہاں منتقل ہونے کا موقع نہ ملا، تمام کلاسیں آن لائن ہو گئیں۔ اس دوران والدین نے دیکھا کہ ہم نئے ملک میں تنہا ہو گئے ، کوئی کمیونٹی نہیں بنی، کمرے میں اسکرین کے سامنے رہتے ہیں۔ پھر میرے والد کی Lake Mount Worship Center سے شراکت شروع ہوئی۔ لیڈ پادری Pastor Matt Tapley ہیں ، انہوں نے والد کو انٹرن شپ پروگرام کے بارے میں بتایا۔ یہ گہرا discipleship پروگرام ہے، کردار سازی اور discipleship کیساتھ بائبل اسکول کورسز شامل ہیں، میں نے سمجھا کہ یہ paid internship ہوگی اور میں کما بھی لوں گی، یعنی سی ای او والے کیریئر کی سمت قدم ہوگا۔ مگر جب میں نے انٹرن شپ لیڈر Pastor Lisa سے باتیں کیں تو معلوم ہوا کہ آپ اپنا وقت اور خدمت کلیسا کو دیتے ہیں۔ میں نے والدین کی اطاعت میں اسے شروع کیا۔ ایک ہفتہ، پھر دوسرا ہفتہ، بہت overwhelming تھا، مگر اسی بے آرامی کے بیچ خدا نے میرادل بدل دیا اور میں نے جان لیا کہ مجھے یہی کرنا ہے۔ یہ تبدیلی بتدریج آئی۔ میں خود کو ضدی کہتی ہوں، اب اسے عزم کہتی ہوں، مگر اس وقت وہ ضد مجھے سب سے دور دھکیل رہی تھی۔ اس کے باوجود میں والدین کی عزت کرتی رہی اور خدا کی مرضی کا احترام کیا۔

سوال: تو بتائیں دل میں کیا تبدیلی آئی، آپ کی سوچ کیوں بدلی، کیا چیز بدل رہی تھی؟۔
جواب: ان لمحات میں مجھے ایک طرح کی تنہائی ملی جس میں میں نے جانا کہ مسیحیت یا خدا سے وفاداری کوئی ایسی بات نہیں جو مجھے صرف اسلئے کرنی ہے کہ میرے والدین اسکے پیرو ہیں۔ اسلئے مسیحی نہیں ہونا کہ والدین مسیحی ہیں، نہ اسلئے پادری بننا ہے کہ والدین پادری ہیں۔ یہ ایمان کی تلاش کا سفر تھا۔ میں چیزیں خود دریافت کرنا پسند کرتی ہوں، سو میں نے کہا کہ میں خود سمجھوں۔ جب خود سمجھنے نکلی تو خدا نے نہایت خوبصورتی سے میرا دل نرم کر دیا۔ میں نے اپنی ضد چھوڑ دی اور اسے اختیار دے دیا کہ وہ میری زندگی میں جو چاہے کرے۔ میں مزاحمت کر رہی تھی، دل میں بڑی دیواریں تھیں، مگر خدا خدا ہے، وہ اپنا راستہ بنانا جانتا ہے، سو اس نے سب کچھ بدل دیا۔

سوال آپ اسکوurrendered obedience کہتی ہیں۔ یہ ایک بار ہونے والی بات نہیں ہوتی، ہے نا؟۔
جواب: ہرگز نہیں۔ خدا کے آگے سر جھکا دینا یہ ہے کہ اپنی خواہشات چھوڑ دوں، CEO بننے، بہت پیسہ کمانے ،5 سالہ منصوبے کا خواب چھوڑ دوں، کیونکہ وہ سب زورِ بازو اور مرضی پر بھروسہ تھا۔ سچا سرنڈر یہ ہے کہ دل ومرضی خدا کے سپرد کر دیں اور کہیں کہ تیری تلاش ہی میری تلاش ہوگی۔ میں نے یہی کیا اور کرتی آ رہی ہوںکیونکہ اسکے راستے بہتر ہیںہمیشہ بہتر۔

سوال: پھر جب آپ نے وہ خواب چھوڑے اور وہ کرنے لگیں جو خدا نے آپ کیلئے رکھا تھا، یعنی (مسیحیت کیلئے خدمت) ministry، تو وہ کیسا تجربہ رہا؟۔
جواب: جب میں اپنی خواہشوں کے پیچھے بھاگ رہی تھی تو دل میں خوف تھا، گھبراہٹ تھی، کوئی سکون نہ تھا۔ لیکن جب میں نے انہیں چھوڑ کر خدا کو مختار کیا تو غیر معمولی سکون، خوشی اور طمانیت ملی۔ یوں لگا جیسے کوئی پھل چکھا اور کہا کہ یہ تو ہمیشہ سے کہاں تھا۔ یہ ایسی تسکین تھی جس نے مجھے بھر دیا۔ تب میں نے کہا کہ میں اس میں اور گہرائی تک جانا چاہتی ہوں، جاننا چاہتی ہوں کہ یہ یسوع کون ہے جس نے میرا دل جیت لیا ہے۔

میزبان: یہ ہم سب جیسے ہیں کہ ہم اسی چیز سے لڑتے ہیں جو ہمیں خوشی دینے والی ہوتی ہے، مگر ہمیں خبر نہیں ہوتی۔
پاکستانی مسجد کے امام کی پوتی: بالکل۔

سوال: آپ کلیسا میں Alphaپروگرام میں مددگار تھی، جو لوگوں کو مسیحیت سے بغیر دھمکائے انداز میں روشناس کراتا ہے۔ ایک کتابچہ پاکستانی زبان اردو میں دیکھا۔ اس نے آپ کے دل میں کیا چنگاری بھڑکائی، وہاں سے کیا شروع ہوا؟۔
جواب: انٹرن شپ میں ایک انٹرن پادری سے جوڑا جاتا ہے تاکہ آپ ان کی خدمت کے شعبے کو قریب سے دیکھیں۔ میرا جوڑ Pastor Heatherسے ہوا جو Alphaکی پادری ہیں۔ میں انکے زیرِ سایہ Alpha کی مدد کر رہی تھی۔ اس وقت Alpha کا کچھ معلوم نہ تھاکہ کیا مدد کر رہی ہوں۔ وہ باورچی خانے میں کتابچہ دیکھ رہی تھیں۔ اسی زمانے میں Lake Mount میں بھی Alpha شروع ہو رہا تھا۔ وہ سمجھا رہی تھیں کہ Alpha کیا ہے، ہم سب اسے بہترین طریقے سے چلانے کا سوچ رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ یہ کتابچہ اردو میں ترجمہ شدہ تھا، یہی بات میرے سامنے چمک اٹھی، میں اسے بھلا نہ سکی۔ میں گھر گئی اور والد کو بتایا کہ Lake Mountمیں Alpha پروگرام ہے ۔ میرے دل میں تھا کہ خدا ہمیں یہ پاکستان میں کرنے کو کہہ رہا ہے۔ انٹرن شپ میں میرا دل بہت نرم ہو گیا، خاص طور پر پاکستان کیلئے۔ چونکہ وہاں مسیحیوں کیساتھ دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک ہوتا ہے، بہت نوجوان صرف اسلئے ایمان چھوڑ دیتے ہیں کہ انہیں اپنی کمیونٹی میں عزت اور مواقع نہیں ملتے۔ خواہشوں کی خاطر مذہب تبدیل کر تے ہیں۔ یہ بات میرے دل کو توڑتی تھی کیونکہ میں نے اپنی خواہشیں چھوڑ کر خدا کی دی ہوئی راہ پکڑی اور مجھے سچی تسکین ملی۔ میں نے کہا خدایا اگر تو نے یہ میرے اندر کیا تو یہ وطن کے نوجوانوں میں بھی ہو۔ پھر Church of Pentecost اور Lake Mount کی قیادت نے مل کر فیصلہ کیا کہ ہم اسے پاکستان میں کریں گے۔میں اس وقت 19برس کی تھی۔

سوال: آپ نے Alpha Pakistanشروع کرنے میں مدد دی۔کتنے لوگ پروگرام سے گزر چکے ہیں؟۔
جواب: 18 ہزار۔ جی ہاں، تین سال ہوئے ہیں۔

میزبان:3 سال! کمال ہے۔ اور آپ یہیں نہیں رکیں۔ مجھے آپ کی یہ بات پسند ہے کہ لوگ عموما آپ کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں، کبھی عمر، کبھی جنس، کبھی نسل یا زبان کی بنیاد پر، کہ یہ نہ کرو۔ آپ نے یقین کیسے کیا کہ آپ کر سکتی ہیں؟۔
جواب: مجھے معلوم تھا کہ اگر کوئی میرے ساتھ نہ ہو تو خدا ساتھ ہے۔ میں خدا کو نہیں کہہ سکتی کہ نہیں، میں اسکے ساتھ ضد نہیں کر سکتی۔ کم عمری میں ہی میں نے جان لیا کہ جب یسوع کے پیچھے چلتی ہوں تو مجھے نہیں کہنا چاہیے، کیونکہ اس کی آواز بہت واضح تھی کہ یہ کرنا ہے۔ والدین اور خاندان کی پشت پناہی بھی تھی جو کہتے تھے ہم جانتے ہیں تم کر سکتی ہو۔ Alpha کو پاکستان لے گئے، سخت اذیت کے خطرات تھے اور انجام معلوم نہ تھا۔ کلیسا میں بہترین رہنما اور پادری ساتھ تھے جو ہمیں سنوار رہے تھے۔ اچھے لوگوں کا ہونا بہت ضروری ہے۔ مجھے لگا تھا شاید یہ ایک چھوٹا سا کام ہوگا، دس پندرہ لوگ بیٹھ کر Alpha کریں گے۔ میرے ذہن میں بس یہی منظر تھا۔

سوال: آپ نے نہایت اہم نکتہ چھیڑا ہے۔ بائبل میں لوگ خدا سے کہتے ہیں کہ میں یہ نہیں کر سکتا، میں اچھا نہیں بولتا، میں قابل نہیں، تو خدا صرف یہ کہتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ وہ یہ نہیں کہتا کہ تم بہت اچھے ہو، بلکہ یہ کہ میری معیت کافی ہے۔ آپ نے بھی یہی کیا، جو بہت دانائی کی بات ہے۔ اب آپ Wycliffe Bible Translators کیساتھ شراکت بھی رکھتی ہیں۔ اس کے بارے میں بتائیں۔
جواب: پاکستان میں بہت سی زبانیں ہیں۔کئی میں بائبل کا ترجمہ نہیں ہوا، جو حیرت کی بات ہے۔ بہت سے نوجوان اور عام لوگ اپنی مادری زبان میں بائبل پڑھ ہی نہیں پاتے اور یوں خدا سے جڑ نہیں پاتے۔ ہم نے کلیسا کے طور پر جانا کہ اس پہ کام ضروری ہے، اس لیے ہم نے Wycliffe کے ساتھ شراکت کی اور مختلف بولیوں میں بائبل کا ترجمہ کیا۔ پاکستان میں ناخواندگی کی شرح بھی خاصی ہے، اس لیے ہمیں معلوم تھا کہ بہت سے لوگ پڑھ بھی نہ پائیں گے۔ چنانچہ ہم نے اسے زبانی یعنی oral ترجمے کی صورت دی، جو نہایت خوبصورت بات تھی۔ مترجمین پورے پاکستان کے مختلف قبائل اور علاقوں سے آئے، ہم نے ان کے ساتھ تربیت کی، Wycliffe کی ٹیم ہمارے ساتھ تھی، انہوں نے ہمیں اچھی طرح سکھایا۔ پھر ہم بائبل کو پاکستان کے مختلف علاقوں تک لے گئے، جو بہت مبارک قدم تھا کیونکہ ہمارے ہاں یہی ضرورت ہے۔

میزبان: جن لوگوں کے پاس ہمیشہ سے مادری زبان میں بائبل رہی ہے، وہ شاید اس کے اثر کی قدر نہ جانتے ہوں۔ اپنی دل کی زبان میں اسے پڑھنے کی قوت کیا ہے؟۔
جواب: جب آپ زخمی یا روتے ہیں تو اپنی مادری زبان میں بولتے ہیں، والدین سے بات کرتے ہیں تو بھی مادری زبان میں۔ خدا سے جڑنے کیلئے سچا اور اصل ہونا ضروری ہے، اسلئے اپنی مادری زبان میں بائبل جاننا نہایت اہم ہے۔ ہمارا دل یہی تھا کہ ہر شخص، ہر نوجوان کو یسوع تک اپنی زبان میں رسائی ہو۔ انہیں انگریزی یا قومی زبان اردو سیکھنے کی مجبوری نہ ہو، بلکہ جس طرح چاہیں یسوع سے جڑ سکیں۔ ہم نہیں چاہتے تھے کہ زبان ان کے اور خدا کے بیچ رکاوٹ بنے۔

میزبان: یہ محبت اور عزت دینے والا عمل ہے۔ آپ کے دل میں خواب ہے کہ کل کے رہنما نوجوانوں کو تیار کیا جائے اور انہیں مشن فیلڈ میں بھیجا جائے۔ اس بارے میں بتائیں۔
مسیحی خاتون: انٹرن شپ کے دوران میرے دل میں تبدیلی آئی تو میں چار سال کی انٹرن شپ کر چکی ہوں اور مختلف پادریوں کے زیرِ سایہ خدمت کر چکی ہوں۔ تیسرے سال میں میں Pastor Becky کے زیرِ سایہ تھی جو Lake Mount میں ہماری missions pastor ہیں۔ ان کے ساتھ رہ کر میں نے دیکھا کہ خدا دنیا بھر میں کیا کر رہا ہے، اس نے میرا دل بدل دیا۔ مجھے مشنز کیلئے دل ملا اور ساتھ ہی ایسے نوجوان قائدین کیلئے جو صلاحیت اور بلاہٹ رکھتے ہیں کہ دنیا میں جیسے ممکن ہو انجیل سنائیں۔ میں نے محسوس کیا کہ خدا مجھے انہیں ابھارنے، ان کیساتھ چلنے اور ان کی شناخت مسیح میں یاد دلانے کیلئے پکار رہا ہے۔ شناختی بحران نوجوانوں کا بڑا مسئلہ ہے۔ دنیا کی ثقافت ایک سمت، جبکہ بائبل کی ثقافت دوسری۔ لہٰذا کوئی تو ہو جو انہیں بتائے کہ وہ مسیحی کون ہیں۔ اسی لیے ہم نے نوجوانوں اور ینگ ایڈلٹس کی کانفرنسیں شروع کیں تاکہ انہیں بااختیار بنایا جائے ، بتایا جائے کہ وہ مسیحی کون ہیں۔

سوال: جب آپ یہ پیغام نوجوانوں تک لے کر جاتی ہیں، خاص طور پر جب انہوں نے پہلے یہ سنا ہو کہ ابھی انتظار کرو یا تم تیار نہیں، تو ان کا ردِعمل کیسا ہوتا ہے؟۔
جواب: پاکستان میں جب یہ پیغام ایک خاتون کی طرف سے آئے تو یہ خود بہت خوبصورت بات ہوتی ہے کیونکہ خواتین کو کم مواقع ملتے ہیں،جب یہ آواز ایک کم عمر خاتون سے آئے تو اثر اور بڑھ جاتا ہے، کیونکہ ہمارے ہاں اکثر سمجھا جاتا ہے کہ پادری بڑے اور نہایت تجربہ کار ہوتے ہیں۔ مجھے لگا کہ کوئی ایسا بھی ہو جو ان سے مربوط ہو سکے۔ علم الکلام کی زبان نہیں، بلکہ دل سے دل کی بات۔ میں جانتی تھی کہ خدا نے یہ میرے اندر کیا اور یہ کسی بڑے شوروغل سے نہیں، بلکہ چھوٹی سی ملاقات سے شروع ہوا۔ میں نے عورتوں کو یہ کہتے سناکہ اگر وہ کر سکتی ہے تو ہم بھی کر سکتے ہیں۔ ہم نے صرف نداسے بیشمار نجاتیں دیکھی ہیں۔ خواتین کو ہم نے کلیسا میں خدامت کرتے دیکھا۔ مرد بھی آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگرچہ ہم مرد ہیں مگر آپ ہمیں متاثر کرتی ہیں، جو خدا نے آپ میں کیا وہ ہم میں بھی کر سکتا ہے۔

میزبان: یہ بہت خوبصورت ہے، اور آپ تو ابھی آغاز ہی پر ہیں۔ آپ کی عمر 24 ہے۔ ابھی منگنی ہوئی ، مبارک ہو۔ آگے وہ کون سی باتیں ہیں جو خدا آپ کے دل میں ڈال رہا ہے، جو آپ دنیا میں اپنے وسیلے سے دیکھنا چاہتی ہیں؟۔
جواب: یہ تو گویا5 سالہ منصوبے کا سوال ہے۔ بہرحال، میں خود کو خدمتِ کلیسا میں ہی دیکھتی ہوں، خواہشات کے پیچھے نہیں دوڑنا چاہتی۔ اگر میں مستقبل کی طرف دیکھوں تو وہ وہی خدمت ہوگی جس کیلئے خدا نے مجھے بلایا ہے۔ میری تمنا ہے کہ نوجوان اور ینگ ایڈلٹس یسوع کو جانیں، خواہ منادی کے ذریعے، خواہ کلیسا کی خدمت کے ذریعے۔ وزارت صرف اسٹیج پر کھڑے ہو کر بولنے کا نام نہیں، بلکہ سب سے پہلے اپنی زندگی سپرد کرنا ہے کہ خدا تمہیں بدلے اور وہی اختیار سنبھالے۔ میرا پیغام نوجوانوں کیلئے یہی ہے کہ اس پر بھروسہ کرو، اور یہی پیغام میں دنیا کے ہر شخص تک، خاص طور پر ان علاقوں تک پہنچانا چاہتی ہوں جہاں مسیحیوں پر جبر ہے، جہاں نوجوان لڑکیاں زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کی جاتی ہیں، جن کے پاس آگاہی نہیں، جن کا کوئی محافظ نہیں۔ وہاں ایک آواز کی ضرورت ہے۔

میزبان: مسیحیت کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ یسوع ہمیں اختیار دیتا ہے کہ ہم اسے چنیں، وہ ہمیں مجبور نہیں کرتا، نہ کنجِ دیوار میں لاتا ہے، فیصلہ ہمیں کرنا ہوتا ہے۔ جب میں دنیا بھر میں آپ کے اثرات دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ بہت سے لوگ کلیسا جاتے ہیں، ہم یسوع پر ایمان رکھتے ہیں، اپنے ایمان کے پابند ہیں، مگر آپ میں تبدیلی لانے کی آگ ہے، اور یہ ایک مختلف بات ہے۔ جو لوگ خود کو معمول پر آتا ہوا محسوس کرتے ہیں لیکن چاہتے ہیں کہ خدا ان سے کچھ بڑا کام لے، وہ اس آگ کو کیسے پائیں؟
جواب: میں خود کو بار بار یاد دلاتی ہوں کہ خدا نے میری زندگی کیلئے ایک مقصد اور منصوبہ لکھ رکھا ہے جو میری پیدائش سے پہلے لکھا گیا۔ پھر میری زندگی کی آیت یہ ہے کہ میں مسیح میں سب کچھ کر سکتا ہوں جو مجھے قوت دیتا ہے۔ مجھے انسان پر بھروسہ نہیں کرنا، اپنی توقعات کسی اور میں نہیں رکھنی، بلکہ نگاہیں سیدھی اس پر رکھنی ہیں کہ وہ میری زندگی کا قائد ہو، وہی میرے لیے سی ای او ہو، اور وہی مجھے لے چلے، تب سب ٹھیک ہوگا۔ بس اسے ہاں کہو۔ اس کے راستے بہتر ہیں۔ اس کی تلاش کو اپنی تلاش بنا لو، اس کی ہاں کو اپنی ہاں بنا لو، اس کے آگے جھکنے پر آمادہ ہو جا، پھر خدا وہ کرے گا جو تم سوچ بھی نہیں سکتے۔ عجب بات یہ ہے کہ اس کے منصوبے میں زیادہ تسکین ہے، زیادہ سکون ہے، زیادہ خوشی ہے۔ جب تم دوسری طرف پہنچتے ہو تو کہتے ہو اوہ، یہیں تھا جو مجھے چاہیے تھا، اور مجھے خبر نہ تھی۔ میری خواہش ہے کہ سب یہ جانیں کہ نجات میں خوبصورتی ہے، اور اپنے دل میں اسے آنے دینے اور اپنی زندگی اس کے سپرد کرنے میں بے پناہ حسن ہے۔

میزبان: کیا کبھی آپ کو ڈر لگتا ہے جب وہ آپ کو آپ کے کمفرٹ زون سے باہر کچھ کرنے کو کہتا ہے، آپ ہزاروں کے سامنے منادی کر چکی ہیں، تو کیا دل میں یہ خیال آتا ہے کہ میں کیا کر رہی ہوں؟۔
جواب: ایسا بھی ہوا ہے، میں یہ نہیں کہوں گی کہ کبھی خوف نہ آیا ہو۔ مگر مجھے معلوم ہے کہ وہ ہمیشہ میرے ساتھ ہے۔ جب بھی میں ہزاروں لوگوں یا نوجوانوں کے سامنے بولنے جاتی ہوں، میں خود بھی صرف چوبیس برس کی ہوں۔ دل میں آتا ہے کہ اگر لوگ مجھے جانچیں گے تو کیا ہوگا، اگر میں ان کی نظر میں کافی کول نہ ہوئی تو، اگر میری زبان ٹھیک نہ رہی تو، اگر میری بات انکے دل سے نہ لگی تو یہ سب ذہن میں آتے ہیں۔ مگر میں نے یہ بھی سیکھا ہے کہ میرا کام بس وہ کرنا ہے جو خدا نے مجھے کہا ہے، اس کے بعد روح القدس کو اختیار دینا ہے کہ وہ کام کرے۔ میں اپنی قوت سے کچھ نہیں کر سکتی۔ میں خود کو ایک خالی برتن سمجھتی ہوں اور خدا کو اپنے اندر سے بہنے دیتی ہوں، اور یہی مجھے زندگی کے سارے خوف اور اضطراب پر غالب آنے کی قوت دیتا ہے، خواہ ہزاروں کے سامنے منادی ہو یا کسی غیر ایمان والے کے سامنے اپنے ایمان کی بات کرنا۔
ــــــــــ

امام مسجد کی پادری پوتی : تجزیہ!

اس انٹرویو میں چند اہم نکات ہیں جو نوٹ کرنا چاہیے۔

1: اس لڑکی نے بچپن میں سمجھا تھا کہ والدین کا یہ ایک پیشہ ہے جو خطرات اور پابندیوں سے جڑا ہوا ہے۔ جیسے کشتیوں پر رسک لینے والوں اور فوجی سپاہیوںکو جنگی محاذوں پرمشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ اس کو بطور پیشہ اختیار نہیں کرے گی۔

2: جب کینیڈا میں معلوم ہوا کہ اس کے پاس CEOبننے کا چانس نہیں ہے تو اس کو مجبوری میں پادری کیلئے وقف ہونا پڑا ہے۔ اگر اس کے پاسCEOبننے کا راستہ ہوتا تو وہی کرتی۔

3: اس کو بائبل کی تعلیم اور مذہب کی خدمت کے دوران یہ احساس نہیں تھا کہ وہ کیا خدمت کررہی ہیں لیکن ایک تنخواہ کیلئے گزارہ کرنا پڑتا تھا۔ صرف یہ بات اہم لگی کہ بائبل کا ترجمہ کسی اور زبان سے اردو میں ہوا اور دوسری زبانوں میں کرنا ہے۔

4: اس تعلیم میں ایک بنیادی بات مسیحی بنیاد پر مذہبی بننا ہے اور دوسرا دوسرا مسیحیوں کیساتھ امتیازی سلوک کا درد رکھنا ہے۔

5: مسیحیت کو پرانے مذہبی لبادے سے ایک ماڈل نوجوان لڑکی کی دلچسپ صورت میں تبدیل کرنا ہے۔ کیونکہ مذہبی تعلیم میں وہ دلچسپی نہیں جو جوان لڑکی جوانمردوں کو متاثر کرتی ہے۔

6: اس مجبوری میں ایک جوان لڑکی کو خطرات بھی لینے ہیں اور جس مذہب کی گوروں کے ہاں کوئی اہمیت نہیں ہے تو پاک وطن کی اپنی نسل کو اس میں قربانی کے کاروبار میں لگانا ہے۔

7: اگر آزادی دی جائے تو جنسی اشتعال انگیزی اورتشدد کیا جائے تو مذہبی اشتعال انگیزی کو فروغ ملے گا۔

دوسری طرف حریم شاہ بھی مدرسہ کی فارغ التحصیل مولانا ہیں۔ گل چاہت اور مہک ملک بھی ڈانس اور تبلیغ دنوں ہی کرتی ہیں۔ مفتی تقی عثمانی ومفتی رفیع عثمانی کو مفتی اعظم پاکستان مفتی شفیع نے دارالعلوم کراچی میں گھر خرید کر دئیے تو مفتی رشیداحمد لدھیانوی نے فتویٰ دیا کہ وقف کی خریدوفروخت جائز نہیں اور یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ خریدنے اور بیچنے والا ایک ہی شخص ہو۔ اس پر مفتی رشیداحمدلدھیانوی کی تاریخی پٹائی لگائی گئی۔اب سودی نظام کو معاوضہ کے تحت جائز قرار دیا گیا ۔ مفتی محمد شفیع دیوبندی سے عثمانی بھی جعلی بن گئے کیونکہ عجمی نسل کی لڑکیوں کو بھگانے اور ان کا ولی کی اجازت کے بغیر نکاح درست ہوتا ہے۔

حاجی محمد عثمان کی خانقاہ میں فوجی وپولیس افسران، علماء اور تمام طبقے شامل تھے۔ تھوڑی سی آزمائش پر ایسے بھاگے جیسے خدا کو پہنچانتے ہی نہ تھے۔ مسلمانوں کا بڑا المیہ قرآن کے محکم احکام کو مسخ کرنا ہے۔ جب تک مسلمان دین فطرت اسلام کی طرف توجہ نہیں دیںگے تو کل یہ مولوی پادری بن جائیں گے اور حلالہ سے خلاصی پر کہیں گے کہ مسیحی مذہب ہی فطری ہے۔
ــــــــــ

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ نومبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

شہریار رضا عابدی، حافظ عبد الخالق بھٹی اور سلفی سپاہی کو جواب

شہریار رضا عابدی کی ویڈیو پر تبصرہ:

شہریار رضاعابدی ہوسکتا ہے کہ اپنی رافضیت میں مخلص ہو لیکن جس بیہودہ انداز میں جھوٹے اور منطقی دلائل سے اہل سنت کے مقدسات کی توہین کرتا ہے تو یہ سنی مکتبہ فکر ہی نہیں اہل تشیع سے بہت بڑی دشمنی کے مترادف لگتا ہے۔

اگر بالفرض ہم مان لیں کہ نبیۖ اپنا جانشین بنانے میں ناکام تھے۔ صحابہ کرام مرتد ہوگئے۔ حضرت علی ناکام شہید کردئیے گئے۔ امام حسن نے اپنے ہی ساتھیوں کی دغابازی سے خلافت امیر معاویہ کے سپرد کردی۔ امام حسین کربلا کی زمین میں پھنس گئے۔ جانا چاہتے تھے مگر شہیدکیا گیا اور جنہوں نے بلایا تھا دھوکہ دے گئے۔ باقی ائمہ نے کبھی سر نہیں اٹھایا یہاں تک کہ آخری غائب ہوگیا ۔ جس نے حسین کی طرح علم بلند کیا امام زید نے تو اس کو امامت سے نکال دیا۔ جنہوں خلافت فاطمی قائم کردی تو وہ قادیانیوں سے بھی بدتر ہوگئے اسلئے کہ امامت کے راستے میں بغاوت اختیار کی۔ آج ولایت فقیہ کی وجہ سے شیعہ کی اکثریت خمینی اور ایرانی شیعوں کو یزید سے بھی زیادہ برا سمجھتے ہیں۔ لیکن قرآن اور اسلام کے نتائج کیا نکلیںگے؟۔ پھر تو اچھا نہیں تھا کہ رسول اللہۖ اور امام علی سے حسن عسکری تک سبھی امام مہدی غائب کی طرح ہزارسال سے زیادہ غائب رہتے اور اچھے وقت کا انتظار کرتے؟۔جن کے نزدیک قرآن محفوظ نہیں احادیث کی کوئی مستند کتاب نہیں تو کیا تاریخ کی حفاظت پر ایمان بنتا ہے؟۔ اہل تشیع میں بہت ایمان والے پکے مؤمنین ہیں لیکن جاہل ان کو خوامخواہ میں گمراہ کررہے ہیں۔
ـــــــــــــــــ

حافظ عبد الخالق بھٹی کی ویڈیو پر تبصرہ:

حافظ عبدالخالق بھٹی کہتا ہے کہ” حضرت علی خلیفہ تھے مگر راشد نہیں۔ سلطنت بنی امیہ کے خلاف زہر اگلنے والے ڈاکٹر اسرار، اخوانی اور شیعہ سے مرعوب ہونے والے یزید کے خلاف سازشی نظریہ رکھتے ہیں۔ اگر مان لیا جائے کہ یزید نے مسجد نبوی میں گھوڑے باندھ دئیے اور یزید کی فوج میں شامل عیسائی سپاہیوں کے ہاتھوں بڑی تعداد میں خواتین جبری جنسی ہوس بجھانے سے حاملہ ہوگئی تھیں تو تب بھی وہ باغی تھے اور اہل حق یزید کی فوج تھی”۔ اہل حدیث کا ناصبی ہونا تو ایسا ہے جیسا مچھلی پانی سے باہر یا چھپکلی پانی کے اندر۔ احادیث کی وجہ سے ہی تو شیعہ شیعہ بن گئے ہیں۔مولانااسحاق کی علمی صلاحیت سے مجھے سخت اختلاف ہے لیکن ان کے خلوص پر شک نہیں ہوسکتا۔ احادیث کا وہی آئینہ دکھایا ہے جو اس کا حق تھا اور اسی سے اہل تشیع کو اپنے مسلک پر قائم رہنے کا جواز بھی ملتاہے۔

اگر سورہ مجادلہ ، سورہ طلاق ، سورہ بقرہ میں طلاق کے احکام، سورہ النساء میں خلع ونکاح اور سورہ احزاب کی چند آیات کو واضح کیا جائے تو ساری احماقانہ فرقہ واریت کا ایک دن میں خاتمہ ہوسکتاہے۔ جب قرآن کی محکم آیات فرقہ وارانہ عناصر کو اپنے اپنے مسلک کے توسط سے درست نہیں پہنچے تو پھر باقی چیزوں سے بھی منافرت پھیلانے کا کام نہیں کرنا چاہیے۔ تمام مکاتب فکر وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے جاہلیت کے دور میں قرآن کو سپورٹ کرنے کا شرف حاصل کیا اور وہ بھی ہیں جنہوں نے ابولہب وابوجہل اور دیگر جاہلوں کا کردار ادا کیا ۔
ـــــــــــــــــ

سلفی سپاہی کی ویڈیو پر تبصرہ:

سلفی سپاہی نے بارہ ائمہ قریش سے سلفی حافظ کا غیر تسلی بخش جواب دیا ۔ حدیث ہے کہ ”یہ دین مسلسل قائم رہے گا یہاں تک کہ تم پر بارہ خلفاء ہوں گے ،ان میں سے ہر ایک پر امت اکٹھی ہوگی”۔ علامہ جلال الدین سیوطی نے لکھ دیا ہے کہ ”ان میں سے کوئی بھی نہیں آیا اور ان کا تعلق مستقبل کیساتھ ہے جن پر امت اکٹھی ہوجائے گی”۔ دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث کے وجود سے پہلے نواب قطب الدین نے مظاہر حق شرح مشکوٰة میں اس کی تشریح میں یہ روایت نقل کی کہ ”مہدی کے بعد5 افراد حسن کی اولاد5 افراد حسین کی اولادسے اور آخری پھر حسن کی اولاد سے ہوگا”۔ علامہ پیر مہر علی شاہ گولڑہ نے بھی لکھا کہ بارہ امام آئندہ آئیںگے۔(تصفیہ مابین سنی وشیعہ)۔ نبیۖ نے فرمایا :”وہ امت کیسے ہلاک ہوسکتی ہے جس کا اول میں ہوں، اس کا درمیان مہدی اور آخر عیسیٰ مگر درمیان میں کج رو لوگ ہیں جن کا مجھ سے تعلق نہیں اور نہ میرا ان سے”۔ کشتی نوح کی ضرورت ہلاکت کے وقت پڑتی ہے اور اہل بیت کا دور درمیانے زمانے سے شروع ہوتا ہے۔ شیعہ کتب میں بھی مستقبل کے بارہ مہدیوں کا ذکر ہے جن کو اقتدار ملے گا اور قیام قائم سے پہلے انقلابی اشخاص کا تذکرہ بھی موجود ہے ۔

ایک شیعہ نے امام خمینی کو درمیانہ زمانے کا مہدی قرار دیا اور مولانا محمد یوسف بنوری کے شاگرد نے ملاعمر کو مہدی قرار دیا اور پاکستان میں ڈنڈے والی سرکار کی پیشگوئی کا بھی ذکرکیا۔ فیلڈمارشل حافظ عاصم منیر بھی ڈنڈا اٹھائے ہوئے ہیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اکتوبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اگر اسلام میں تصوف نہیں تو نماز میں چوتڑ اٹھا کر سبحان ربی اعلیٰ کی کیا ضرورت ؟

نماز مؤمن کی معراج اور فحاشی ومنکرسے بچنے کا ذریعہ ۔اللہ نے فرمایا: ” کہہ دو کہ اللہ کہہ کر پکارو یا رحمن تو اس کیلئے اچھے نام ہیںاور نماز نہ چلاکر پڑھ اور نہ آہستہ اور انکے بیچ کی راہ لو”۔

”اعراب نے کہا کہ ہم ایمان لائے، کہو کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ کہو کہ اسلام لائے ،ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا( حجرات:14)حدیث جبریل میں تصوف ہے؟

صحف ابراہیم وموسٰی قرآنی پاروں جیسے حجم میں برابرتھے ۔ سورة شہر، رکوع دروازہ ، آیت درسگاہ ہے ۔ جامعہ بنوری ٹاؤن علم کا شہر،اسکے 3 دروازے اور کئی درسگاہیں ہیں۔ فصلت آیاتہ اس کی آیات کو فصل بنایا۔ انا اعطیناک الکوثرO ” بیشک ہم نے آپ کو الکوثرعطا کی”۔ایک درسگاہ ہے۔ یؤتی الحکمة من یشاء و من یؤتی الحکمة فقد اوتی خیرا کثیرا و یذکر الا اولی الالباب (البقرہ آیت:269)”اللہ جس کو چاہے حکمت دے اور جس کو حکمت دی گئی تو اس کو خیر کثیر عطا کی گئی اور نصیحت نہیں لیتے مگر عقل والے”۔الکوثر کی تفسیر بھی ایک درسگا ہے۔ اور حکمت کی تفسیر بھی الگ درسگاہ ہے۔ سور ہ بقرہ کی پہلی آیت المOبھی ایک درسگاہ ہے۔ اسکے باطنی کمالات اور علم الاعداد تو اپنی جگہ لیکن جب فرشتوں نے اللہ کو نام نہیں بتائے اور حضرت آدم نے بتائے تو اللہ نے فرمایا”الم اقل لکم ۔کیا نہیں تم سے کہا تھا کہ میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ الم نشرح لک صدرککیا نہیںہم نے تمہارا سینہ کھولا؟۔ الم تر کیف فعل ربک باصحاب الفیل کیا نہیں دیکھا آپ نے کہ ہم نے ہاتھی والوں کیساتھ کیا کیا؟۔ …

نبی ۖ صحابہ پر آیات کی تلاوت ، ان کا تزکیہ فرماتے اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ۔اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں تھے اور آخر والے جو ابھی ان سے نہیں ملے (سورہ جمعہ)

اسلام حجاز ، عرب اور دنیا پر چھا گیا، صحابہ کرام، اولاد صحابہ، سادات ،قرآن کی تفاسیر اور کمپوٹر،علم الاعداداور تسخیر کائنات کی آیات سبھی الکوثرکی تفسیرہے جو اللہ نے نبیۖ کو عطاء کیں۔
ولقد کذب اصحاب الحجر المرسلین (الحجر:80)”اور بیشک عقل والوں نے رسولوں کو جھٹلایا”۔ ابوجہل کم عقل نہیںابو الحکم کہلاتا تھا۔ ھل فی ذٰلک قسم لذی حجر (الفجر:5)” کیا اس قسم میں عقلمند کیلئے کچھ ہے”۔

الرٰ تلک اٰیات الکتاب و قراٰ ن مبین : ال ر یہ کتاب کی آیات ہیں اور قرآن مبین کی”۔ (الحجر آیت:1)
الحجر کی پہلی آیت میںمدارس کے نصاب کی اصلاح ہے کہ ”قرآن کتابت اور پڑھنے میں اللہ کا کلام ہے”۔ یونانی فلسفہ نے قرآن کی کتابت کو اللہ کا کلام نہیں مانا اور معاملہ فتاویٰ شامی اور قاضی خان میں سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے تک جا پہنچا۔

سود کو حلال کرنا قرآن کے منافی قیاس ہے۔سورہ الحجر کی دوسری آیت چودھواں پارہ ”بدرچاند”ہے ۔ جب عروج ملت اسلامیہ کا وقت آئے گا تو الحجر کی دوسری آیت اُجاگر ہوگی ۔
ربما یود الذین کفروا لو کانوا مسلمین ”کبھی کافر چاہیں کہ کاش مسلمان ہوتے”۔ مکہ اور قیصر وکسریٰ کی فتح پرابوجہل کا بیٹا، ابوسفیان، ہند اور مشرکینِ مکہ مسلمان ہوگئے ۔ جب دنیا میں پھر اسلامی اقتدار کا غلبہ ہوگا تو دنیا پر مظالم کے پہاڑ ڈھانے والے کافر کہیں گے کہ کاش وہ مسلمان ہوتے ۔
ابراہیم و اسماعیل کے بعد رسول اللہۖ تک کوئی نبی نہیں آیا اسلئے کہ قریش فطری دین پر تھے۔ نصاریٰ کا عیسیٰ ومریم کو خدا کا بیٹا اور بیوی بنانا اور عقل پرست یہود کا مقابلے میں عزیرکو خدا کا بیٹا بناناایسی گمراہی تھی جس کو قریش کے فطری مسلمان بھی قبول نہیں کرسکتے تھے۔ عربوں میں جہالت کی وجہ سے شرک کا رحجان بھی تھا لیکن پرامن اور سیکولرتھے۔ کعبہ 360 بتوں سے بھرا ہواتھا۔ قریش سمجھتے تھے کہ امن اور تجارت ہو۔ حلف فضول بھی ظالموں کے خلاف امن کیلئے کیا تھا۔ جس پر نبیۖ بعد میں فخر کرتے تھے۔ ہمارے وزیرستان میں بھی بڑا امن تھا۔

وزیرستان پر بھی عربوں کی طرح کسی نے حکومت نہیں کی ۔ اور وزیرستان کے معاملات اخلاقی روایات، خاندانی اقدار اور باہمی مشاورت سے چلنے کی دنیا میں اپنی مثال آپ تھے؟۔جو آج بھی عوام کے DNA میں اسی طرح سے موجود ہیں۔

ہندو پنڈت ڈاکٹر منوج چوہان نے کہا کہ”ہم اللہ کو اشور کہتے ہیںجس کی نقل تصویر اور مورتی نہیںبن سکتی ہے”۔ہندو روحانی شخصیات کو بھگوان کہتے ہیں۔جیسے آدم کے سامنے بھی فرشتے ، یوسف علیہ السلام کے سامنے بھائی سجدہ ریز ہوئے۔

علامہ اقبال نے ”روح محمدۖ” کو مخاطب کرکے کہا:

شیرازہ ہوا ملت مرحوم کا ابتر
اب تو ہی بتا تیرا مسلمان کدھر جائے
وہ لذت آشوب نہیں بحر عرب میں
پوشیدہ جو ہے مجھ میں وہ طوفان کدھر جائے
ہر چند ہے بے قافلہ و راحلہ و زاد
اس کوہ و بیاباں سے حدی خوان کدھر جائے
اس راز کو اب فاش کر اے روح محمد
آیات الٰہی کا نگہبان کدھر جائے!

ہندو پیغمبروں اور روحانی افراد کو بھگوان سے سمجھتے ہیں۔ بابا گرونانک مشترکہ اثاثہ تھا۔ خواجہ معین الدین چشتی نے کہا کہ

گنج بخش ، فیض عالم ، مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل کاملاں را راہنما

بنوامیہ کے دور میں حدیث خطبوں میں پڑھی جانے لگی کہ السطان ظل اللہ فی الارض من اہان اللہ فقد اہان اللہ ”بادشاہ زمین پر خدا کا سایہ ہے جس نے بادشاہ کی توہین کی اس نے اللہ کی توہین کی”ابن تیمیہ کہتا تھا کہ جیسے میں منبر پر بیٹھا ہوں ویسا اللہ مجسم عرش پر بیٹھا ہے۔ شیعہ کے ہاں وہ تصویر جائز نہیں جس کی جسامت ہو۔ اللہ آسمانوں و زمین کا نور ہے جس کی مثال کوئی نہیں۔ اللہ نے نبی ۖ سے فرمایاکہ ” آپ نے نہیں پھینکا جب آپ نے پھینکا مگر اللہ نے پھینکا”۔ ”ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر عالمین کیلئے رحمت بناکر”۔” آپ مؤمنوں پر رؤف اور رحیم ہیں”۔ اگردنیا میں رحمن کی خلافت قائم ہوگی تو مخلوق خدا کافروں اور مؤمنوں سب پر رحم ہوگا اور سبھی اس سے خوش ہوں گے۔ نبیۖ کو دنیا کا مقام محمود مل جائے تو پھرسبھی نبیۖ کی انسانیت پر صد رحمت کی صدائیں بلند کریں گے۔ قل یااہل الکتٰب تعالوا الیٰ کلمة سوآئٍ بیننا و بینکم الا نعبد الا اللہ ولانشرک بہ شیئًا ولا یتخذ بعضنا بعضًا اربابٍا من دون اللہ فان تولوا فقولوا اشھدوا بانا مسلمون ”کہہ دو کہ اے اہل کتاب! ایسے کلمہ کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریںاور کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں اور ہم میں کوئی اپنے بعض میں سے بعض کو اللہ کے سوا رب نہیں بنائے۔ اگر وہ منہ پھیر لیں تو تم کہو کہ گواہ رہو کہ ہم مسلمان ہیں”۔

دیوبندی بریلوی کو اور اہل حدیث ان دونوں کو مشرک قرار دیتے ہیں لیکن ہر ایک کہتا ہے کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور کسی کو اس کا شریک نہیں بناتے۔ البتہ اپنے علماء کو حلال و حرام بنانے کا اختیار دیا ، یہ پتھر کے بتوں سے زیادہ خطرناک اسلئے ہیں کہ نفس اور بال بچے بھی رکھتے ہیں۔ حلالہ میں عزتوں کو پار لگادیتے ہیں بلکہ مدارس کو تجارت بنالیا تھا اب بینکوں کی نوکریاں بھی ہتھیالی ہیں۔ دیوبندی یہود کی طرح مقابلہ بازی کرتے ہیں۔ میلاد النبی ۖ کے جلوس کو بدعت لیکن حضرت عمر کے جلوس کو شیعہ کے مقابلے میں نکالتے ہیں۔ یہودی عقل پرست طبقہ تھا جو عیسائی راہبوں کے مقابلے میں کہتا تھا کہ جس عیسیٰ نے خود کو مظالم سے نہیں بچایا تو اس کو خدا کا بیٹا ماننے سے بہتر ہے کہ عزیر علیہ السلام کو خدا کا بیٹا مانیں جس کا گدھا بھی اللہ نے مارنے کے بعد زندہ کردیا تھا۔ یہ امت یہودو نصاریٰ کی طرح عقل وروحانیت سے عاری مذہبی تعصبات کا شکار ہے اور اس کی پیش گوئی رسول اللہ ۖ نے پہلے سے کی تھی۔

فرعون بھی خود کو رب کہتا تھا۔ مسلمان حکمرانوں نے جہاں اقتدار حاصل کیا تو خلافت راشدہ کی جگہ فرعونیت کا راستہ اپنایا۔ کوئی عیار سلطان کو ظل اللہ اور کوئی عیار درویش کو مدظلہ العالی کہے تو اس کی مرضی لیکن دونوں میں صرف طاقت کا فرق ہے۔ انسانی حقوق کو پامال کرنے والے ظالم حکمرانوں اور جاہل علماء و مشائخ کو اللہ تعالیٰ اپنی ہدایت کے نور سے نواز دے۔

بنی اسرائیل حضرت اسحاق کی اولاد ہیں اور قریش حضرت اسماعیل کی اولاد ہیں۔ اللہ نے بنی اسرائیل کو عالمین پر فضیلت بھی بخشی اور بداعمالی کے سبب ذلت ورسوائی بھی ان پر مسلط کی مگرابراہیم اور دونوں بیٹوں نے مشکلات میں زندگی گزاری ۔

درود میں محمد و آل محمد پر ابراہیم وآل ابراہیم کی دعا ہے جن کو نمرود کی آگ اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جن کو بادشاہت کی طلب ہو تو وہ حضرت داؤد وسلیمان کی طرح کیلئے دعا مانگیں۔ کچھ لوگ تو فرعون وآل فرعون کی تمنا رکھتے ہوں تو بعید نہیں۔

وہ بنی اسرائیل جن پر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبان سے لعنت بھیجی گئی جس کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔ ظاہر ہے کہ آل ابر اہیم سے یہ بنی اسرائیل مراد نہیں ہوسکتے جن پر اللہ کاغضب ہوا اور جو گمراہ ہوئے۔ بلکہ درود میں آل ابراہیم سے حضرت اسحا ق اور اسماعیل علیہما السلام مراد ہیں جو ابراہیم کے بیٹے تھے اور ان کے پاس بادشاہت نہیں تھی لیکن انہوں نے دورِ جاہلیت میں جاہل لوگوں کو دین فطرت کی تعلیم دی۔ نبیۖ کے اہل بیت آپ کی بیٹی کی اولاد تھی جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام آل عمران سے تھے ۔حالانکہ حضرت مریم کی توسط سے یہ سلسلہ جڑا تھا ،اسی حضرت فاطمہ کے توسط سے اہل بیت کا سلسلہ نبیۖ سے جڑا ہے ۔

جاویداحمد غامدی نے اپنے حلقہ ارادت میں اتنا بارود بھردیا ہے کہ ایک نے پوچھا کہ نبیۖ کی آل کو ہم کیوں دعا دیں؟۔ حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ سردارن جنت اور ان کی اولاد نے بڑی حد تک قربانیاں دیں اور یزید کے مران بن حکم کی اولاد اور پھر بنوعباس نے خلافت کے بھر پور مزے لئے ہیں۔ چشم بد دُور۔

اللہ نے فرمایا:”آفتاب ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک نماز پڑھ۔اور صبح کا قرآن۔بیشک صبح کا قرآن زبردست مدلول ہوتا ہے”۔ (سورہ بنی اسرائیل آیت78)
شاہد گواہ اور مشہود جس کی گواہی دی جائے۔ دال نشاندہی کرنیوالا ، مدلول جس کی نشاندہی کی جائے۔ نبی ۖ شاہد اور قرآن مشہود۔ صبح کے وقت دماغ تازہ ہوتا ہے اسلئے قرآن کا مدعا سمجھ میں اچھی طرح سے آتا ہے۔ جبکہ دن بھر میں لوگوں کا دماغ تھک جاتا ہے اور نیند سے تھکاوت دور ہوجاتی ہے۔

اللہ نے فرمایا:” اور رات کی تہجد آپ کیلئے نفل ہے۔ہوسکتا ہے کہ اللہ تجھے مقام محمودتک پہنچا دے۔ اور کہو کہ اے میرے رب! مجھے سچائی کیساتھ داخل کردے اور سچائی کیساتھ نکال دے اور اپنی طرف سے غلبے کو میرے لئے مدد گار بنادے اور کہو کہ حق آگیا اور باطل گیا بیشک باطل ٹلنے کیلئے ہی تھا اور قرآن میں سے ہم وہ نازل کرتے ہیں جو مؤمنوں کیلئے شفا اور رحمت ہے اور ظالم نہیں بڑھتے مگر خسارہ میں۔اور جب ہم انسان پر نعمت کرتے ہیں تو منہ پھیر لیتا ہے اور پہلو تہی کرتا ہے اور جب اس کو تکلیف ہے تو پھر مایوس ہوجاتا ہے۔ کہہ دو کہ ہر شخص اپنی شکل پر کام کرتاہے اور اللہ اجانتا ہے کہ کون زیادہ ہدایت پر ہے”۔ (سورہ بنی اسرائیل :79سے84تک)

نعمت اور مایوسی میں بے اعتدالی سے بچنے کیلئے اللہ نے نماز میں سورہ فاتحہ کا سبق دیا کہ ” تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ہدایت دے ہمیں سیدھی راہ کی۔ ان لوگوں کا راستہ جن پر نہ غضب ہوا اور نہ وہ گمراہ ہوئے”۔

بینظیر بھٹو اور نوازشریف ننگے بابا سے اقتدار کی خاطر ڈنڈے کھاتے اور عمران خان نے پاک پتن کے مزار پر اپنی تشریف اٹھائی۔ یہود پر غضب ہوا، نصاریٰ گمراہ ہوگئے۔ نعمت میں انسان ناشکری سے ظالم بن سکتا ہے اور مصیبت میں مایوسی طاری ہوتی ہے اورمیانہ روی صراط مستقیم ہے لیکن جب تک اپنا تزکیہ نہ کریں تو نماز صرف ایک بدنی ورزش ہے۔

” کہہ دو کہ اگر تم رب کے خزانوں کے مالک بن گئے تو ان کو روک کر رکھتے خرچ ہونے کے ڈر سے اور انسان بڑا سیاہ دل ہے اور البتہ ہم نے موسیٰ کو 9 واضح آیات دیں۔ پھر بنی اسرائیل سے بھی پوچھ لو جب ان کے پاس آئے۔پس فرعون نے اسے کہا کہ اے موسیٰ مجھے لگتا ہے کہ تجھ پر جادو ہوا ہے۔ کہا کہ بیشک تجھے پتہ ہے کہ یہ اللہ نے نازل نہیں کیں مگر لوگوں کیلئے بصیرت افروزاور گمان کرتا ہوں اے فرعون تجھے تباہ۔ پس اس نے ارادہ کیا کہ ان کو زمین سے نکال دے تو ہم نے اس کو غرق کردیا اور جو اس کے ساتھ تھے سب کو اسکے ساتھ۔ اور ہم نے بنی اسرائیل سے اسکے بعد کہا کہ رہو ! زمین میں جب آخرت کا وعدہ آئے گا تو تمہیں بھی لپیٹ لائیں گے۔ اور ہم نے اس (قرآن) کو حق سے نازل کیا اور حق کیساتھ نازل ہوا۔اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر خوش خبری والااور ڈرانے والا۔ اور قرآن کو ہم نے فاصلوں سے بنادیا تاکہ مہلت پر لوگوں کو پڑھ کر سناؤ۔اور ہم نے اس کو خوب نازل کیا۔کہہ دو کہ تم ایمان لاؤ یا نہیں لاؤ ۔ بیشک جن کو پہلے سے علم دیا گیا ،جب ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو تھوڑیوں پر سجدہ میں گرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ ہمارا رب پاک ہے ، بے شک ہمارے رب کا وعدہ پورا ہوکر رہے گااور تھوڑی پر روتے ہوئے گرتے ہیں اور ان کی عاجزی زیادہ کردیتا ہے۔ کہہ دو کہ تم اللہ کہہ کر پکارو یا رحمن ،اس کے بہت اچھے نام ہیںاور اپنی نماز کو زیادہ بلند آواز سے مت پڑھو اور نہ اس میں زیادہ آہستہ۔ اور اس کے درمیان کا راستہ کرو اور کہہ دو کہ ساری تعریفین اللہ کیلئے ہیں نہ اس کا کوئی بیٹا ہے اور نہ کوئی اس کے اقتدار میں کوئی شریک ہے اور نہ کمزوری کی وجہ سے اس کا کوئی مدد گار ہے اور اس کی بڑائی بیان کرتے رہو۔ بنی اسرائیل:100تا آخر۔

شب معراج میں رسول اللہ ۖنے تمام انبیاء کی امامت کی اور اللہ نے انسانوں پر اسلام کے غلبے کا خواب دکھایا۔ اس وژن کے خواب کو لوگوں کیلئے آزمائش بنادیا اور دوسرا قرآن میں شجر ملعونہ کے ذکر کو آزمائش کا ذریعہ بنادیااور ان کو خوف دلانے کے باوجود بھی سرکشی میں بڑھنے کی نشاندہی بھی کردی۔

جاویداحمد غامدی تصوف کے نام پر آنٹیاں لیکر بیٹھتا ہے تو خیر ہے مگر اسلام کے غلبے، معراج کی حقیقت اور مسلمانوں کے متفقہ معاملات سے انکار کرکے حلالہ کی لعنت میں ضعیف ترین روایت سے اپنا سارا بھانڈہ پھوڑ دیتا ہے۔ مستقبل کے عزم کو بھی خواب کہتے ہیں اور آئن سٹائن نے نظریہ اضافیت بازیاب کیا ہے۔ سورہ معارج میں چڑھنے کی مقدار ایک دن کی 50 ہزار سال کے برابر کی سائنس نے بھی تصدیق کردی ہے۔ اگر جاویداحمد غامدی یہ مان لیتے ہیں کہ نماز میں شیعہ طرز عمل یا امام جعفر صادق کا طریقہ قرآن کے مطابق ہے اور حلالہ لی لعنت کو جاری کرنا کسی مجتہد اور حکمران کا حق نہیں تو یزیدیت کا سیلاب اس کی ساری محنت کو اٹھاکر اڑادے گا۔ چالاک پرندہ پھنستا نہیں مگر جب پھنستا ہے تو دونوں پیروں سے پھنس جاتا ہے۔

تصوف والوں کی یہ بات کہ سورہ اخلاص میں عوام کیلئے جو توحید ہے تو خواص کی توحید اور اخص الخواص کی توحید جدا ہے۔ جس کو غامدی متوازی دین اور کفر سمجھتا ہے۔ حالانکہ اعراب کا اسلام اور مؤمنوں کے ایمان میں قرآن نے فرق کیا۔ ابراہیم نے پرندوں کا مشاہدہ کیا اور فرشتوں کی مدد نہیں مانگی۔ اللہ نے خود فرمایا کہ ”اے آگ ابراہیم پر ٹھنڈا ہوجا”۔ جاویدغامدی کی تحریک قرآن کے ایمانی جذبے کا انکار ہے لیکن ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ کھل کر ان آیات کا انکار کرے۔ جو زمینی حقائق تھے لیکن اس کی آخری منزل یزیدی اسلام ہے لیکن اس کا قرآن سے کوئی جوڑ نہیں ہے۔ جس دن قرآن کی طرف علماء وطلبہ اور اولیاء کرام متوجہ ہوگئے تو لوگ اسلام کو بغیر کسی باطل اجتہاد کے بھی مان لیںگے۔ جاوید غامدی مہدی کو بدعت کہتا ہے لیکن مہدی کی شخصیت کوئی نیا دین نہیں ،البتہ غامدی نئے دین کی وہ بنیاد ڈال رہاہے جو ایک عرصہ سے معتزلہ کے دل ودماغ میں چھایا ہوا تھا لیکن معتزلہ عملیت پسند لوگ تھے۔ غامدی کا اجتہاد بھی اس کی خانقاہ کی طرح ایک نرا فراڈ ہے۔ مجھے امید ہے کہ مدارس کے علماء ومفتیان اپنا ذاتی بغض وعناد چھوڑ کر دین حق کی صحیح تعبیرکو قبول کریں گے ،اگر نہیں تو جس طرح عمران خان کی طرف سے مولانا فضل الرحمن کیساتھ کیا گیا تو اس سے بڑھ کر پھر جاویدغامدی مدارس کے علماء وطلبہ کونقصان پہنچائے گا۔ باقی جوکچھ ہورہاہے۔مجھے یقین ہے کہ اللہ نے بہتری رکھی ہے۔

نماز میں بسم اللہ اور آہستہ آواز سے تلاوت وتسبیحات سے اگر خشوع وخضوع میں اضافہ ہو تو نمازیوں کی زندگی بدل سکتی ہے۔ نبیۖ دو سجدوں کے درمیان اللٰھم اغفر لی و ارحمنی وارزقنی دعا مانگتے تھے۔ظاہر ہے کہ لوگ سنتے ہوں گے اور اس جامع دعا سے ہماری دنیا اور آخرت میں بڑی تبدیلی آسکتی ہے۔ ہم جس سپیڈ سے جس طرح کی نماز اللہ کی بارگاہ میں قائم کرتے ہیں تو شاید ہی کسی کو حاضر ناظر جان کر اتنی بے رغبی کوئی کرتا ہو۔ اللہ الرحمن ہمیں ہدایت عطا فرمائے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اکتوبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

جتنی بھی کنٹری ہیں وہ ، وہ، وہ ، وہ سب دوست بنیں،لڑائی مت کریں۔ بچہ میجر عدنان شہید

اس یتیم معصوم بچے کے دل کی آواز سلیم الفطرت انسانوں کی ترجمان ہے!

”سود کے 73گناہ ہیںاور اس کاکم ازکم گناہ ماں سے زنا کے برابرہے”۔ (حدیث) سودنے طاقتور ٹرمپ کو کمزور نیتن یاہو کے سامنے لٹادیا۔کیا اب بھی حدیث سچ ثابت نہیں؟۔

تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں ہے
فرنگ کی رگ جاں پنجۂ یہود میں ہے

ڈاکٹر ہما بقائی نے حامد میر کے پروگرام میں بتایا کہ پاک سعودیہ دفاعی معاہدہ پر امریکہ خوش ہوگا کہ پاکستان کوسعودی عرب سے پیسہ ملے گا اور جس سے امریکی اسلحہ خریدا جائے گا۔

امریکہ ،اسرائیل ،عرب ممالک کو دیکھنا ہوگا اور خطے کے حالات کو سمجھنے اور سدھارنے کیلئے ان3ویڈیوز پر تینوں ممالک کے لوگ غور کریں۔ اردو ، ہندی اور پشتومیں۔ حامد میر نے عالمی ایوارڈ یافتہ موسیٰ ہراج صدر آکسفورڈ یونین، مصنفہ ملائکہ نوازاور ماہ نور چیمہ سے پوچھا تو تینوں نے کہا کہ AIکتابوں کا نعم البدل نہیں اور حامدمیرنے کہا کہ ”پاکستان کے مقتدر طبقات میں کتابوں کا رحجان نہیں اور ملک کے تمام ادارے اس وقت مضبوط ہوسکتے ہیں کہ جب کتاب پڑھنے کا رحجان ہو”۔

قرآن کتاب ہے اور نبیۖ کی سیرت اس کی عملی شکل تھی لیکن ہماری توجہ کیوں نہیں؟۔ سود کی آیات نازل ہوئیں تو اسکے بعد نبیۖ نے مزارعت کو سود قرار دیا۔ زمین خود کاشت کرو یا پھر مفت میں کسی کو کاشت کرنے دو۔ مدینہ میں اس پر عمل ہوا تو محنت کش توانا بن گیا، جس پرتاجر کو دن دگنی رات چگنی ترقی ملی اور یثرب گاؤن نہ صرف ایک شہر بن گیا بلکہ اس خوشحالی سے تو دنیا کے پسے ہوئے طبقات میں ایک انقلاب آیا۔ سپر طاقتیں لمبی پڑگئیں۔ اکابر صحابہ کرام کے بگڑے ہوئے صاحبزادوں نے پھر جاگیرداری کے نظام کو اپنے لئے سہارا بنایا۔ جاگیردار طبقہ ہی مزارعت سے غلام اور لونڈیاں پیدا کرکے مارکیٹنگ بھی کرتے تھے۔ سودی نظام غلامی کا ذریعہ تھا اور پھر لائن کٹ گئی اور غلامی کو ختم کرنے کا تاج امریکہ کے صدر ابراہم لنکن کے سر پر سج گیا۔ آج وہی سپر طاقت ہے۔ اب امریکہ کے مقتدر طبقے نے اصول کو چھوڑ کر ذاتی کاروبار اور خاندانوں کو محور بنایا ہے۔ اگر مسلمان ایک ایسا ایجنڈا لیکر کھڑے ہوں کہ انسانیت کی کوئی خدمت کریں تو امامت کا منصب پھر حاصل کرسکتے ہیں۔

سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

ابراہم اکارڈ عیسائی،یہود اور مسلم کیلئے ہے۔ اسرائیل نے فلسطین کو وہی حقوق دئیے جو مسلمان بیوی کو دیتاہے۔ قرآن آرٹیفشل انٹیلی جنس سے زیادہ کمال رکھتا ہے۔ ایک آیت سے طلاق اور باہمی اصلاح سے رجوع سمجھ میں آجائیگا اورکتابوں کی غلطیاں بھی سمجھ جاؤگے۔ اسلام نے شعور دیکر دنیا میں عظیم انقلاب پیدا کیا،مسلمان آج چراغ تلے اندھیرے میں سسک رہا ہے۔ پاکستان آدم اکارڈ سے بھارت، چین، روس، برما اور کوریا سب دنیا کوشامل کردے جویورپ اورایشیاکو ملادے۔

یا رب ! دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے جو روح کو تڑپا دے
رفعت میں مقاصد کو ہمدوش ثریا کر
خود داری ساحل دے آزادی دریا دے
میں بلبل نالاں ہوں اک اجڑے گلستاں کا
تاثیر کا سائل ہوں محتاج کو داتا دے

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اکتوبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

تبرج حسن نساء کی نمائش ،عورتوں کی زینت حسن نساء اورگھر سے باہر سینوں پر اپنے دوپٹے اوڑھنے کا حکم ہے

 

دورجاہلیت میں عربی بعض عورتیں حسن النساء کو نمایاں کرتی تھیں۔ ہندوستان میںاب ماحول خراب ہورہاہے۔ رعنا لیاقت علی خان کا خاندان عیسائی بن گیا تھا اسلئے ہندی لڑکیوں میں اکیلی سکول، کالج اور یونیورسٹی میں پڑھتی تھی ۔ افغانی لڑکیوں کو امیر امان اللہ خان نے 1920ء کی دہائی میںاعلیٰ تعلیم کیلئے ترکی بھیجا تھا۔ ہمارا ماحول افغانی لڑکیوں نے خراب کیا تھا ۔ طالبان کو اسلام سمجھنے کی ضرورت ہے۔

ولا یبدین زنتھن الا ما ظھر منھا ولیضربن بخمرھن علی جیوبھن”اور اپنی زینت کو نہ دکھائیں مگر جتنا اس میں سے ظاہر ہو اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالیں”۔ عورت کو برقعہ کا حکم نہیں ۔ ولا یبدین زنتھن الا(دوپٹہ سے مستثنیٰ افراد) شوہر، باپ، سسر ، بیٹا، سوتیلا بیٹا، بھائی، بھتیجا، بھانجا، عورتیں، معاہدے والے، ایسے تابع مرد جن میں میلان نہ ہو، یا بچہ جو عورتوں کی پردہ والی چیزوں سے واقف نہ ہوں”۔ مولاناسیدابولاعلیٰ مودودی کے گھرکاباورچی اور نوکرسبھی مرد تھے۔ ولا یضربن بارجلھن لیعلم مایخفین من زنتھن وتوبوا الی اللہ جمعیعًا ایہ المؤمنون لعلکم تفلحون ”اور اپنے پاؤں کو پٹخا نہ کریں کہ ان کی چھپی زنیت کا پتہ چلے اور تم سب مسلمانو! توبہ کرو تا کہ فلاح پاؤ”۔( النور: 31)

اللہ نے پہلے مردوں اور عورتوں کو حکم دیا کہ اپنی آنکھوں (نظروں)کو پست رکھیں (سورہ حجرات میں آوازپست ) اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں پھر احکام بیان کئے ۔

مسلمانوں کو یہ حکم نہیں کہ ڈنڈے کا زور ہو تو عورتوں کو پردے پر مجبور کردیں ۔ مغربی لباس سے زیادہ لونڈیوں کا لباس مختصر ہوتا تھا۔ فقہاء نے ان کا سترعورت کم قرار دیا۔

افغان طالبان، ایران اور سعودی عرب غلط مذہبی تصور کا خوف پوری دنیا سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کریں۔اللہ نے فرمایا:قد افلح من زکاھا وقد خابا من دسّاھا ”بیشک فلاح پائی جس نے اپنے نفس کو پاک کیا اور غارت ہوا جس نے اسے دھنسادیا”۔ یہاںمسلم و غیرمسلم کا تصور نہیں۔نبی ۖ صحابہ کا تزکیہ فرماتے۔ عورتیں نماز، رفع حاجت ، پانی ،لکڑیوں وغیرہ کیلئے گھروں سے نکلتی تھیں۔ ولاتبرجن تبرج الجاہلیة اولیٰ ” اور حسن النساء کی نمائش نہ کرو پہلی جاہلیت کی طرح”۔ فرج کی حفاظت کا حکم اورعورت کیلئے ”برج ”کو نمایاں کرنے کی ممانعت ہے۔

والقواعد من النساء الاتی لا یرجون نکاحًا فلیس جناح ان یضعن ثابھن غیر متبرجاتٍ بزینة ”اور بوڑھی عورتوں پر جو نکاح کی رغبت نہیں رکھتی کوئی گناہ نہیں کہ کپڑے اُتاریں مگر اپنے حسن النساء کے علاوہ”۔

یریداللہ لیذھب عنکم الرجس اہل البیت ” اللہ چاہتا ہے اے اہل بیت کہ تم سے گند کو دور کردے” ۔ شکر کہ گندی ذہنیت والے ازواج النبویۖ مراد نہیں لیتے۔ حالانکہ آیت میں ازواج النبیۖ ہی مراد ہیں۔

احادیث میں حضرت علی کا خاندان بھی اس میں شامل کرنے کی دعا ہے اور اسی وجہ سے ان پر سختیاں آئی ہیں۔ ہندو ڈاکٹر بربیل سوہل کی تربیت فطری ہے۔ قرآن میں دورجاہلیت کے مسلمانوںکو بھی یہی تعلیم دی گئی ہے۔

 


جج ٹی وی پر آدھی ننگی،یہ ذاتی چیزیں عوام کو دکھانے کی نہیں۔ڈاکٹربربیل

ڈاکٹر بر بیل سوہل :ہر جگہ تباہی یُگ بدلنے کی باتیں ہیں لڑکی آئی، چھوٹی ٹی شرٹ ، نیچے پینٹ تھا، جسم بھاری ، ناف ننگی ، سینہ ابھرا ہوا۔ کوئی دوپٹہ نہیں تھا۔ دو بہنیں ،والد بھی تھے۔ میں چپ رہی۔ سوچا سیشن کیسے کراؤں؟ لڑکی کے بال کھلے تھے، زیادہ لمبے نہیں تھے۔ وہ میرے سامنے بیٹھی اور مجھے شرم محسوس ہو رہی تھی۔ والد بھی وہیں بیٹھے تھے تو میں اندر گئی ، شال نکال کر دیا ۔ میں نے والد کو کہا ،آنکھیں جھکی تھیں۔ ہم بھی بڑے ہوئے۔ ماں سے کوتاہی ہوتی بیٹی کا لباس مناسب نہ ہوتا تو باپ تھپڑ لگا تا،ہم نے کھائے کہ ڈھنگ کے کپڑے پہنو، گھر سے باہر ہمیشہ اچھا لباس پہننا چاہیے کیونکہ آپ اپنے خاندان کی نمائندگی کرتے ہیں۔

آج کل یُگ کی شروعات ۔ شرم آتی ہے ماں، بیٹی، بہو ایسے نکلتی ہیں جیسے ابھی نہا کر باتھ روم سے آئی ہوں۔ بال کھلے ، بھوتنیاں لگتی ہیں۔ یہ فیشن ہے؟ ٹی شرٹیں، ٹراؤزر چار انچ نیچے، پیٹ اور ناف ننگی۔ پھرکہتے ہو ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ شرٹ اتنی کہ انڈر ویئر نیچے سے دکھ رہا ہے۔ کیا بولوں؟، روز دیکھتے ہونگے، کچھ لوگ دیکھ کر شرم سے منہ پھیرلیتے ہیں ،کچھ لڑکوں نے کہا کہ ہمیں شرم آتی ہے جب ہم دفتر میں اپنی ساتھی خواتین کو ایسے دیکھتے ہیں۔

جسم ننگا کرنا ماڈرن ہونا نہیں۔ مارکیٹ میں موبائل خریدنے جائیں تو بغیر ڈبے ، کور کے خریدیں گے؟ نہیں!۔ تو پھر لڑکیوں کے لباس کو لڑکے کیسے قبول کریں گے؟ وہ چار دن مستی ضرور کرلیں گے مگر لائف پارٹنر بنائیں گے؟۔ کبھی نہیں لکھ کر دیتی ہوں۔ ٹی وی پر جج بن کر بیٹھتی ہیں خاتون، نام نہیں لوں گی، آدھی سے زیادہ ننگی ہوتی ہیں۔ یہ ذاتی چیزیںعوام کو دکھانے کی نہیں۔ ران لوگوں کو دکھانے کیلئے نہیں ۔میں یہ نہیں کہتی کہ برقعہ پہن لو مگر کم از کم ڈھنگ کا لباس پہنو۔ خود کو کور کرکے رکھو۔ کئی بار لڑکیوں کو دیکھا کہ ڈرائیور، اردگرد کے لوگ دیکھ کر ہنستے ہیں۔ یہ بغیر پیسے اور ٹکٹ کی نمائش ہے۔ چار دن کی جوانی، کلچر کیا دیا بچوں کو؟ پھر شوہر کہتا ہے ڈھنگ کے کپڑے پہنو۔لڑکے کہتے ہیں کہ یہ لڑکیاں گھر بسانے کی لائق نہیں ، بس وقتی تفریح ہیں۔ کلچر پر افسوس جو اولاد کو یہ تربیت دے۔ آپ کا لباس، گفتگو ، تعلیم ، رہن سہن ہی خاندان کی پہچان ہے۔ آج کل شراب پینا بھی عام ہے ، آپ امریکہ، کینیڈا سے کمپیئر کرتے ہو۔ مگر ہمارا بھارت، ہمارا کلچر کہاں گیا؟۔

چار پشتیں دیکھتے ہیں کہ کونسا خاندان ہے تب رشتہ ہوتا ہے۔ شادیاں جلد ٹوٹ رہی ہیں، دو سال بعد طلاق، ایک سال بعد علیحدگی۔ کئی کیسز آتے ہیں ساس سے نہیں بنتی فلاں سے نہیں بنتی، کلائنٹ سے پوچھتی ہوں کہ محبت کی شادی تھی ؟، کہتی ہے ہاں۔ پوچھا پھر کیا ہوا ؟کہا کہ 6مہینے بعد مجھے پیٹنا شروع کردیا۔ نہ گھر جاسکتی ہوںنہ کہیں اور۔

پڑھے لکھے دس گھر دیکھنے کے بعد بچوں کی شادیاں کرتے ہیں۔ لباس کا بڑا رول ہے۔ اگر کہہ دیا کہ کپڑے ڈھنگ کے پہنو تو پھر گھر میں مہا بھارت مچ جاتی ہے۔

کہتے ہیں کہ کھڑے ہونے اور حلئے سے پتہ چل جاتا ہے کہ کیا چیز ہیں وہ؟۔ میں لڑکوں کو کیوں قصور وار ٹھہراؤں لڑکیاں بھی کم نہیں ۔ مگر پہل ہم نے کی پہناوے سے۔ ماں نے کپڑے پہنے ہیں ناف اور پیٹ باہر نکلا ہوا ہے اور نیچے کچھ اور پہنا ہے۔ بتاؤ کیا کروں؟۔ آزادی ہے مگر ہم جس میں رہتے ہیں جسم کی نمائش کیوں لگاتے ہو باہر؟ فلم دیکھنے کیلئے ٹکٹ لینا پڑتا ہے مگر یہاں مفت میں شو چل رہا ہے۔ 2028کے بعد کیا ہوگا، سوچا بھی نہیں جا سکتا۔

 


مارچ 2028 انقلاب

ڈاکٹر بربیل سوہل نے کہا کہ انسانوں کو اس کی شخصیت کا فقط نور بچاسکے گا۔ عبادات کسی مسلمان، ہندو اور دیگر مذاہب والوں کو نہیں بچاسکتی ہیں۔ مجھے 2014ء میں پتہ چلا کہ 2012ء میں انقلاب آتا مگر ایک اور موقع دیا گیا۔ اگر نہیں سدھرے تو بہت بڑے عذاب کا شکار ہوں گے۔ امریکہ پر اللہ کی ناراضگی ہے جس نے دنیا کو برباد کیا۔ ہمیں انسانیت ہی اب بچاسکے گی ۔یہ اُوپر والے کا فیصلہ ہے۔

 


ماحولیات کا خیال نہ رکھا توپھر ہم جلد تباہ ہوںگے

پورے جنگل میں آگ ہی آگ ہے ۔ میں اوپر سے دیکھ رہا ہوں کہ زمین سیاہ ہو چکی ہے۔ آج کل یوٹیوب میں بھرا پڑا ہے کوئی علمِ نجوم کی اور کوئی سیاروںکے اثرات کی، کوئی نیبرولوجی کی؛ سب کے پیغامات ایک ہی بات پر ٹھہرے ہیں کہ دن، سال ، مہینے طے ہیں۔ ہم میں بہت لوگ خواب دیکھتے ہیں مگر ان کے معانی نہیں جانتے۔ خداہر ایک کو نہیں دکھاتا۔ میں اوپر گیا چاروں طرف آگ ہی آگ ہے اور یہ ہوگا۔ پچھلی ویڈیو میں میں نے کہا تھا کہ پوچھا تم کیسے ختم کرو گے؟۔ توجواب ملا: دنیا میں 25% لوگ بچیں گے۔ جنہیں میرے مرشد کی باتیں معلوم ہیں، وہ جانتے ہیں کہ بس مٹھی بھر رہ جاؤ گے۔ پھر سوال اٹھا: آکسیجن کہاں سے آئے گی؟ دو ڈھائی گھنٹے بات ہوئی۔ تو یہی کہا کہ ہر طرف آگ لگادیں گے۔

اور میرے دو یا تین کلائنٹ نے خواب میں دیکھا کہ چاروں طرف آگ ہے زمین سیاہ ہو گئی تو سانس کہاں سے لو گے؟ مطلب سمجھو۔ باقی دھرموں اور ویدوں میں لکھا ہوگا، تفصیل نہیں معلوم؛ مجھے گرو نانک کی گربانی یاد ہے ، جدید سکھ دھرم ہے۔ گرو نانک نے سبھی دھرموں کا خلاصہ کرکے ہمیں ”گرو گرنتھ صاحب” دیا۔ اس کی پہلی لائن ہے۔ پون گرو، پانی پِتا، ماتا دھرت مہت۔ زندگی آکسیجن پر ہے، چاروں طرف آگ ہو تو آکسیجن کہاں ملے گی؟ پھر پون گرو پانی پتا۔ زمین سیاہ ہوگئی، دریا ،ندیاں کچرے اور کارخانوں کے فضلے سے بھری ہوئی، جوتے اور چمڑے کی کمپنیاں ندیوں میں فضلہ گرارہی ہیں۔ آکسیجن بچے گی نہیں، پینے کوپانی نہ ہوگا ۔پھر ماتا دھت مہت۔ دھرتی ماں ، وہ چیخیں مار کر رو رہی ہے آپ کو سنائی نہیں دیتا۔ رشی منی (صاحب کشف)سے پوچھو؛ رشی منی آج 25-20 سال کے نوجوانوں کے روپ میں آئے ، صدیوں سے عبادت کررہے ہیں کیا مان سکتے ہو اس کو۔

میرے کچھ کلائنٹس کے والدین دکھی ہیں، لیکن انہوں نے بتایا یہ کرنے کیا آیا ہے۔ شادی مقصد نہیں، اس میں لڑکیاں بھی ہیںکہ آگے آپ نے کیا کام کرنا ہے۔ میں نے کہا تھا کہ وقت بہت کم رہ گیا ہے اب تو مٹھی بھر بھی نہیں۔ اس دن جب آئے تو میں نے کہا مجھے اجازت دے دو۔کہا ٹھیک ہے دی۔تو بتا تو دے گی پر مانے گا کون؟ کچھ لوگوں نے کہا بھگوان کرنے والا ہے۔ میں نے پچھلی بار سمجھایا تھا کہ بھگوان کا مطلب کیا ہے بھگوان لفظ کہاں سے آیا؟۔ بھگوان کرے گا تو بھگوان تو کر رہا ہے تو پھر رونا کس بات کا؟ لیکن بھگوان کو مجبور کس نے کیاکبھی سوچا؟ ہم نے۔ ایک ملک نے کائنات میں کچھ چھوڑا ہم نے بھی شروع کر دیا۔ ایک نے بمبارٹمنٹ شروع کی ہم نے بھی کردی۔ رشیا کا حال دیکھ رہے ہو جتنی بمبارٹمنٹ ہورہی ہے ہوا میں کیا جا رہا ہے؟ کبھی سوچا ہے؟۔ کون اس کا ذمہ دار؟ بھگوان ؟۔ ہاں! بھگوان ہے کیونکہ اب صفائی شروع کردی اس نے۔ بھگوان کہتا ہے تم نے بہت کرلیا بندے اب میری باری ہے۔ دن ، سال، مہینہ طے ہے۔

کوئی 2025کا کہتا ہے اس میں کچھ نہیں، صرف تنبیہات ملتی جائیں گی۔ پھیپھڑوں کاکینسر ،کھانسی زکام ، کھانسی کا مطلب ہمارے اندر آکسیجن نہیں ہے۔ آلودگی اتنی ہے کہ سانس کہاں لوگے؟ ہوا ہے کہاں پر؟۔ صرف گاڑیاں نہیں، شادیوں، تہواروں کے پٹاخے، ہم ACچلاتے ہیں ہم اپنا کمرہ ڈھنڈا کرنے کیلئے باہر کا ٹمپریچر کس نے گرم کیا؟۔ سب سے بڑی آلودگی ہماری سوچ ہے یہی ہمیں بیمار کرتی ہے ۔ پچھلی بار کورونا کے نام پر کتنوں کو مارا گیا مرے نہیں لفظ بول رہی ہوں مارا گیا۔ جنہوں نے انجکشن نہیں لگوائے وہ بچ گئے۔ کیوں؟، یہ ایک عالمی منصوبہ تھا۔ اب فضا میں آلودگی اور بڑھے گی، لوگ کھانستے رہیں گے، نزلہ زکام کا بہانہ بنائیں گے۔ خدا اور واہِ گرو کا واسطہ دے کر بولتی ہوں ڈاکٹروں سے بچ کر رہو۔ آکسیجن، پھر پانی کی بتادی۔ دھنتر(دیو، شفا دینے والے فرشتے) کہیں اور بیٹھے ہیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ ستمبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

شیعہ علامہ حیدر نقوی اور سنی جاوید غامدی میں فرق

علامہ حیدر نقوی کاشیعہ سنی کیلئے مینارۂ نور بڑا خطاب

محمد و آل محمد یہ اللہ کے حکم کو فالو کرتے ہیں یا اللہ کا حکم ان کو فالو کرتا ہے ؟۔یعنی جو یہ کہے اللہ کو حکم دیتا ہے یا اللہ جو حکم دیتا ہے وہ یہ کرتے ہیں؟۔ اور قرآن میں فرمایا سور ةالاحزاب کے شروع میں توجہ کریں و اتبِع ما یوحیٰ اِلیک مِن ربِک۔ پہلی ایت یہ ہے یا ایھا النبی اتق اللہ اب جو بات بتانے لگا ہوں میں اس مائنڈسیٹ کو دیکھیں اور دیکھیں کہ کیا پوزیشن ہے۔ کس نے قوم کے ساتھ یہ کام کیا؟۔یا ایھا النبی اتق اللہ اے نبی! اللہ سے ڈر اللہ کا تقوی اختیار کرو۔ ولا تطع الکافرین والمنافقین اور کافروں اور منافقوں کی بات نہ مان ان اللہ کان علیماً حکیماً بے شک اللہ خوب علم رکھنے والا اور حکمتوں والاہے۔واتبع ما یوحٰی الیک من ربک اور اتباع کر اے رسول اس کی جو تیرے رب کی طرف سے تجھے وحی کیا جارہا ہے۔ واتبعاور اتباع کر حکم دیا جارہا ہے۔ کس کی ما یوحٰی الیک جو وحی کیا جا رہا ہے آپ کی طرف من ربک آپ کے رب کی طرف سے ان اللہ کان بما تعملون خبیراً بے شک جو تم عمل کر رہے ہو اللہ اس کی خوب خبر رکھتا ہے۔

رسول نے کس کو فالو کرنا ہے اللہ کے قرآن کو۔ اول المسلمین کا مطلب کیا ہے؟، سب سے پہلے اللہ کے حکم کے آگے سر جھکانے والا ۔ وہ حکم کیا ہے قرآن۔ سورہ الزخرف میں فرمایا: فاستمسک بالذی اوحی الیک اے رسول !جو آپ کی طرف وحی کیا گیا ہے فاستمسک اس کو مضبوطی سے تھام لو۔ جس کو ہم تمسک کہتے ہیں۔ انک علیٰ صراط المستقیم ۔یعنی اس کو مضبوطی سے تھامے رکھ یقینا تو صراط مستقیم پر ہے۔ وانہ لذکرلک ولقومک اور یقینا یہ قرآن آپ کیلئے اور آپ کی قوم کیلئے بھی ذکر ہے نصیحت رہنمائی ہے، و سوف تسئلون اور عنقریب تم سب سے اس قرآن کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ یہ ہے قرآن کا لب و لہجہ ۔

کوئی صاحب ، اللہ تعالی ہم سب پہ رحم فرمائے وہ بلکہ آپ کو میں وہ عبارت سنا دوںانہوں نے لکھا ایک کلپ کے کمنٹ میں کہ نقوی صاحب! آپ نے دوسری مرتبہ گستاخی کی ہے کہ یہ ہستیاں قرآن کو فالو کرتی ہیں۔ یعنی یہ کہنا کہ رسول اللہ اور اہل بیت قرآن کو فالو کرتے ہیں یہ ان کی گستاخی ہے۔ جناب! یہ جو گھروں میں قرآن ہے یہ قرآن صامت ہے اور یہ ہستیاں قرآن ناطق ہیں اور یہ قرآن کے وارث ہیں اور اپنی دلیل ہے کہ وارث ہمیشہ ورثے سے افضل ہوتا ہے کبھی دیکھا ہے کہ بڑا چھوٹے کو فالو کرے۔ ہمیشہ بڑا ہی لیڈ کرتا ہے۔ پھر ان کو میں نے اپنی طرف سے یہ سورہ احزاب کی آیت نمبر 2 بھیجی۔ جبکہ عام طور پر بھیجتا نہیں ہوں۔ کیونکہ زیادہ فائدہ نہیں لگتا کیونکہ جو بات ہوتی ہے وہ تو ویڈیو میں کر دگئی ہوتی ہے۔ لیکن یہ آیت بھیجی اصل بات آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں۔ میں نے آیت کونسی بھیجی۔ واتبع ما یوحٰی الیک من ربک ان اللہ کان بما تعملون خبیراً ۔اور اے رسول آپ کے پروردگار کی طرف سے جو آپ پر جو وحی کی جاتی ہے اس کی اتباع کیجیے اللہ یقینا تمہارے اعمال سے خوب باخبرہے۔

یہ میں نے آیت بھیجی اسکا جو انہوں نے جواب دیا ہے اس کی طرف آپ توجہ کیجئے۔ یہ مائنڈ سیٹ اس کا مطلب قرآن مجید سے ہدایت کا راستہ بند ہے۔ لفظ دیکھیے انہوں نے کیا فرمایا۔ لکھتے ہیں پھر وہی بات، یعنی قرآن کی آیت پڑھ کے کہتے ہیں پھر وہی بات۔ قبلہ ظاہر کو دیکھ کر فیصلہ کر دیا۔یعنی قرآن کے ظاہر کو دیکھ کر آپ نے فیصلہ کر دیا۔ اس کا مطلب کیا ہے قرآن کے ظاہر کو دیکھ کر فیصلہ نہیں کرنا۔ جب قرآن کے ظاہر کو دیکھ کر فیصلہ نہیں کیا جا سکتا تو آپ کے ائمہ نے فرمایا کہ روایات کو قرآن پر پیش کرو، تو ظاہر تو ویلیو نہیں رکھتا تو کس قرآن پر آپ نے پیش کرنا ہے۔

اب ان کے ذہن میں یہ بات کہاں سے آئی ہے؟۔ کس نے ڈالی؟۔ وہ مجرم ہے اصلی۔ وہ لوگ بھی ہیں جو عقل استعمال کرنے کو تیار نہیں کہ ائمہ فرما رہے ہیں روایات کو قرآن پر پیش کرو اور خلاف قرآن قبول نہ کرو۔ اورآپ کو کس نے پھر کہا کہ ظاہر قرآن کو دیکھ کر فیصلہ نہیں ہو سکتا تو پھر روایات کس کو پیش کر نی ہیں۔ ہوگا کیا اس کا نتیجہ؟، آپ کوئی روایت پڑھتے ہیں جو آپ کو قرآن کے خلاف لگ رہی ہے، آپ قرآن کی آیت کو پیش کرتے ہیں کسی اس فکر کے بندے کو وہ آپ سے کہے گا کہ ظاہر قرآن کو دیکھ کر فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ تو یہ روایات کو قرآن پر پیش کرنے کا دروازہ بند۔ یہیں پر ایک اور بات کی وضاحت کر دوں۔ روایات اہل بیت میں قرآن کے بطون، قرآن کے باطن کے بارے میں کہا گیا ۔بعض روایات میں لفظ آیا 7 بطون ہیں، بعض میں ہے 70 بطون ہیں۔ یعنی ایک قرآن کا ظاہر ہے ایک اس کا باطن۔ جیسے ایک سمندر ہوتا ہے نا آپ کو ایک تو سمندر کے اوپر چیز نظر آرہی ہوتی ہے لیکن اگر آپ غوطہ لگائیں اندر جائیں تووہ چیزیں بھی انسان کو دکھائی دیتی ہیں جو باہر سے دکھائی نہیں دیتیں مثال کے طور پر گہرائی اب کچھ لوگ یہ بطون کے لفظ کو غلط معنی میں استعمال کرتے ہیں۔ ایک قرآن کے باطن کا ایک صحیح معنی ہے اور ایک قرآن کے باطن کا غلط معنی ہے۔

خوب توجہ فرمالیں۔ صحیح معنی کیا ہے کہ قرآن مجید جیسے اللہ کے نبی کے فرامین میں اوراصول کافی میں بھی روایت ہے کہ قرآن ظاہرہ انیق، قرآن کا ظاہر بہت خوبصورت ہے۔ و باطنہ عمیق اور اسکا باطن بہت گہرائی والا ہے۔ ایک تہہ، دوسری تہہ، تیسری تہہ۔ اترتے جاؤ اترتے جاؤ۔ انسان اس کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتا ۔چونکہ یہ علم پروردگار سے نازل ہوا ہے۔ پروردگار کا علم لا محدود ہے۔ہاں تم جتنا اسکے قریب آؤ گے اور تمہارے سامنے گہری باتیں کھلیں گی۔ جو پہلے دن نہیں کھل سکتی تھیں، دوسرے دن ، تیسرے دن۔ توجہ فرمارہے ہیں؟، ایک ہے اس قرآن کی گہرائی ،یہ مراد باطن سے ہے۔ یہ ہے صحیح معنی بطون کا۔ اور ایک ہے غلط معنٰی ہے جو اس قسم کے لوگوں نے جو ظاہر قرآن کو تقریباً لفٹ نہیں کرواتے وہ کیا کہتے ہیں ایک حدیث مثلا ًحدیث اسلئے کہہ رہا ہوں کہ حقیقت میں خلاف قرآن حدیث ہو ہی نہیں سکتی لیکن چونکہ حدیث کی کتابوں میںآگئی ہے وہ چیز اسلئے اس کو حدیث روایت کہا جاتا ہے۔

حدیث ہمارے سامنے آئی جو خلاف قرآن ہے تو آپ کو کیسے پتہ چلا قرآن کے خلاف ہے ؟۔اسی قرآن کی ظاہری معنی سے لیکن یہ بندہ آپ سے کیا کہے گا، یہ کہاں سے تم کہہ رہے ہو قرآن کے خلاف ہے ۔ قرآن کے تو 70باطن ہیں، تو یہ ان 70میں سے ایک باطن ہے قرآن کا۔ یہ لوگ باطن سے کیا معنی لیتے ہیں جو ظاہر کے خلاف ہو۔ اگر ظاہر کے خلاف معنی بھی باطن میں شمارہو اور وہ بھی صحیح ہے تو بھی دروازہ بند ہو جاتا ہے روایات کو قرآن پر پیش کرنے کا۔ چونکہ آپ جو روایت بھی سخت خلاف لیکر آؤ قرآن کے توآپ سے کیا کہا جائے گا یہ قرآن کا باطنی معنی بیان کیا اہل بیت نے۔ حالانکہ اہل بیت نے فرمایا ہم خلاف قرآن نہیں بولتے۔ اور جب لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ روایت کو پیش کرو تو لوگ تو ظاہر دیکھیں گے نا۔ اور تو کوئی چیز نہیں ۔

بس قرآن کے بطون سے مراد اسکی گہرائیاں ہیں نہ کہ خلاف قرآن کوئی بات آگئی ہے روایات میں۔ کسی اور بندے نے ڈال دی ہے، کسی جھوٹے نے ڈال دی ہے، کسی غالی نے ڈال دی ہے اور اس روایت کو کہا جائے یہ تو خلاف قرآن ہے اور آپ کہیں کہ نہیں خلاف قرآن مت کہو قرآن کا ظاہر جو ہے اس کو دیکھ کے فیصلہ کر رہے ہو یہ قرآن کے باطنی معنوں میں سے ہے۔ خلاف ظاہر قرآن باطنی معنی یہ ناقابل قبول ہے یہ باطنی معنی نہیں ہے، ورنہ میں نے عرض کیا کہ وہ با ب ہی بند ہو گیا کہ جو بنیادی ترین اصول ہے غلط اور صحیح روایات کو پرکھنے کا کہ خلاف قرآن کونسی ہے اور قرآن کے مطابق کونسی ہے۔

پس بطون قرآن کا صحیح معنی بھی ہے اور بطون قرآن سے غلط معنی لے کر خلاف قرآن باتوں کو صحیح قرار دے دینا اور ان کو رد نہ کرنا یہ غلط معنی لے کر بطون سے بعض لوگ مثلاً عوام کے ذہنوں میں یہ ڈالتے ہیں اور قرآن کو گویا ریٹائرڈ کر دیا قرآن کے باطن کو ریٹائرڈ کر دیا ہے اور روز قیامت اللہ کے رسول کے اس شکوے سے نہیں ڈرتے کہ اے پروردگار!میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ دیا تھا۔( وقال الرسول یارب ان قومی اتخذوا ھذا القراٰن مھجورًا )(الفرقان )


 

غامدی صاحب اس ویڈیو میں قرآن، احادیث اور حضرت عمر کے اجتہاد کا حوالہ دیکر دراصل یزیدیت سے غامدیت تک اسلام کی اجنبیت بتاتا ہے

غامدی اور اس کی ذریت کو یزید سے پیار ہے۔اسکے شاگرد ڈاکٹر عرفان شہزاد نے ایک طرف کہا کہ حضرت علی کی خلافت منعقد نہیں ہوئی اور دوسری طرف کہا کہ حضرت ابوبکر، عمر، عثمان، حسن اورامیر معاویہ کے مقابلے میں یزید کی خلافت سب سے زیادہ شرائط کے مطابق درست تھی۔

حضرت عمر نے حج وعمرے کے اکٹھے احرام سے روک دیا لیکن عبداللہ بن عمر نے بھی اس حکم سے اختلاف کیا اور حضرت عثمان نے سختی سے پابندی لگانی چاہی تو حضرت علی نے اعلانیہ مخالفت کردی ۔ (صحیح بخاری)۔ حضرت عمر نے طلاق کے مسئلے پر غلط اجتہاد کیا ہوتا تو حضرت علی مزاحمت کرتے لیکن حضرت علی نے حضرت عمر کی تائید وتوثیق کی۔ جب حضرت عمرکے دربار میں تین طلاق کا تنازعہ آیا جس میں بیوی رجوع کیلئے راضی نہیں تھی تو حضرت عمر نے اللہ کی کتاب قرآن ،سنت نبویۖ اور اسلام دین فطرت کے عین مطابق عورت کے حق کی حفاظت فرمائی اور شوہر کو رجوع سے روک دیا۔ ایک طرف دورِ جاہلیت میں عورت کی رضا کے بغیر شوہر کو ایک طلاق پر رجوع کا یک طرفہ اختیار حاصل تھا تو دوسری طرف 3طلاق کے بعد بغیر حلالہ کے رجوع نہیں ہوسکتا تھا۔ صحابہ نے شرح صدرکیساتھ سمجھ لیا تھاکہ حلالے کا تصور قرآن نے ختم کردیا لیکن عورت کا حق غصب ہونے کا خطرہ پھر بھی موجود تھا اسلئے حضرت عمر کے ہاتھوں اللہ نے عورت کے حق کی حفاظت قرآن کے عین مطابق کردی۔ سورہ بقرہ کی آیت228میں یہ بالکل واضح ہے کہ ” عدت میں اصلاح کی شرط پر شوہر طلاق کے بعد عورت کو لوٹانے کا زیادہ حقدار ہے”۔ عدالت یا حکمران کے پاس تنازعہ جاتا ہے ، اس نے نہ تو مدرسہ میںدالافتاء کھول رکھا ہوتا ہے اور نہ گدھ کی طرح TVاسکرین پر بیٹھ کر عوام کو گمراہ کرتا ہے۔ جب حضرت عمر کے پاس بیوی کو حرام کا لفظ کہنے پر تنازعہ آیا تو اس پر بھی یہی فیصلہ کرنا تھا مگر عورت رجوع کیلئے راضی ہوگئی تو پھر رجوع کی اجازت دیدی۔ پھر حضرت علی کے دور میں حرام کے لفظ پر تنازعہ آیا تو حضرت علی نے عورت کے حق میں فیصلہ دیا کہ رجوع کا کوئی حق شوہر کو حاصل نہیں ہے۔ قرآن وسنت سورہ تحریم و دیگر آیات میں سیرت نبویۖ سے یہ چیزیں واضح تھیں اور قرآنی آیات کی وضاحتوں میں کوئی تضادات نہیں ہیں لیکن غامدی کی دال اس ویڈیو میں بالکل بھی نہیںگل سکی۔

حضرت عمر کے سر پر طلاق بدعت، اجتہادی غلطی اور حلالہ کی صدیوں سے چالو لعنت ڈالنے کی جگہ یزیدیت کا جائزہ لینا ہوگا۔ ایک اچھے معروف ضحاک عالم ہیں، دوسرا ظالم گورنر ضحاک تھا جس نے کہا کہ ”جو ایک ساتھ حج وعمرہ کا احرام باندھے تو وہ جاہل ہے۔ جس پر حضرت سعد بن ابی وقاص نے فرمایا کہ ایسی غلط بات مت بکو۔ میں نے رسول اللہۖ کو حج وعمرے کا احرام ایک ساتھ باندھے دیکھا۔ (صحیح مسلم) جس طرح بدبخت گور نر ضحاک نے جہالت سے نبیۖ کی توہین کا ارتکاب کیا ،اسی طرح یزیدیت کا کارنامہ تھا کہ حکمران فیصلہ کرلے کہ کس کی بیوی کو حلالہ کی مار کھلانی ہے اور کس کی نہیں؟۔ یہی مؤقف غامدی نے پھر سے تازہ کردیا ہے کہ فیصلہ تھانیدار یا جج کرے گا یا DC کے کس کی تین طلاق ہوگئی اور کس کی ایک طلاق؟۔

قرآن میں طلاق کا مسئلہ بالکل واضح ہے احادیث کی کتابوں میں بھی قرآن کے خلاف کوئی حدیث نہیں ہے۔ طلاق میں عورت کے حقوق زیادہ اور خلع میں کم ہیں اسلئے اگر شوہر طلاق دے اور پھر کہے کہ میں نے مذاق کیا تھا تو یہ طلاق پھر بھی مؤثر ہوگی اور عورت کو سورہ النساء آیت19 کے خلع نہیں سورہ النساء آیت20کے مطابق طلاق کے حقوق ملیں گے۔ اگر شوہر مکر جائے تو پھر معاملہ گواہ یا پھر حلف پر حل ہوگا لیکن اگر عورت راضی ہے تو پھر قرآن نے ڈھیر ساری آیات میں عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد رجوع کی ترغیب ہے۔ قرآن میں جتنی طلاق کے معاملے پر وضاحت ہے اتنی کسی بھی اورمعاملے پر نہیں ہے۔ کوئی بھی شخص سورہ الطلاق کی پہلی دو آیات اور سورہ بقرہ کی آیت230سے پہلے 228اور 229اور پھر اس کے بعد 231اور 232البقرہ دیکھ لے تو واضح ہوجائے گا کہ عدت کے اندر اور عدرت کی تکمیل کے بعد رجوع کی بنیاد قرآن نے باہمی رضامندی سے رکھی ہے جس کو کہیں باہمی اصلاح اور کہیں معروف طریقے کا نام دیا گیا ہے۔ آیت230البقرہ سے پہلے 229میں تین مرتبہ طلاق اور پھردونوں اور فیصلہ کرنے والوں سبھی کی طرف آئندہ رابطہ نہ رکھنے پر بھی اتفاق کی وضاحت ہے۔ جس کا مقصد عورت کو اپنی مرضی سے نکاح کرنے کی حق دینا ہے جو لیڈی ڈیانا سمیت آج بھی چھین لیا جاتا ہے۔

بخاری کی حدیث نمبر3586 میں دو فتنوں کا ذکر ہے ایک میں مال اور اولاد کا فتنہ ہے اور دوسرے میں سمندر کی مانندٹھاٹھیں مارتا ہوا بڑا فتنہ ہے۔ جس سے حضرت عمر نے خاص طور پر اس میں متنبہ کرنا چاہا تھا۔حضرت حذیفہ نے کہا کہ اے عمرتم پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ آپ کے اور اس فتنے کے درمیان ایک بند دروازہ ہے۔ حضرت عمر نے کہا کہ وہ کھولا جائے گا یا توڑا جائے گا؟۔ حذیفہ نے کہا کہ توڑا جائے گا۔ نبیۖ نے آخری خطبہ میں عورت کے حقوق کا خاص خیال رکھنے کی تلقین فرمائی اور اپنی عترت کا بھی خاص خیال رکھنے کی تلقین فرمائی۔ سمندر کی طرح ٹھاٹھیں مارتے ہوئے فتنے اور حضرت عمر کے درمیان کو نسا دروازہ تھا جس نے حضرت عمر کے بعد ٹوٹ جانا تھا؟۔

حضرت عمر کی شہادت کے بعد ان کے قاتل بیٹے سے قصاص نہیں لیا گیا ۔ قرآن نے قصاص میں حیات کا ذکر کیا ہے۔حضرت علی نے مطالبہ کیا مگر نہیں مانا گیا۔ پھر حضرت عثمان، حضرت علی کی شہادت سے فتنے شروع ہوگئے ۔ آج تک فرقہ واریت کا سمندر ٹھاٹیں ماررہاہے ۔ قرآن پر عمل معطل ہوگیا۔ ایک حرام کے لفظ پر بیسیوں اختلافات ہیں اور حلالہ کی لعنت زندہ کردی گئی۔ مزارعت کو جواز بخش دیا گیا اور خلافتیں خاندانی لونڈیاں بنادی گئی تھیں ۔ حضرت عمر نے خلافت کا حق اچھی طرح ادا کیا ،حضرت علی نہج البلاغہ

آج جاویداحمد غامدی نے اپنا پینترا بدل دیا ہے اور یزیدی ،مروانی اور عباسی سلطنت کی غلط باتوں کو خلافت راشدہ اور حضرت عمر کی گردن پر ڈالنا چاہتا ہے۔ اگر حقائق کا پتہ چل گیا تو جس طرح فیلڈمارشل حافظ سید عاصم منیر اور ان کا شیعہ سسرال ایک دوسرے کیساتھ شیر وشکر ہیں اور آپس میں کوئی ناچاکی نہیں ہے ،اسی طرح دیوبندی شیعہ اور لشکر جھنگوی سپاہ صحابہ اور تحریک جعفریہ اور سپاہ محمد والے بھی ایک پلیٹ فارم پر شیر وشکر ہوجائیں گے ۔ انشاء اللہ۔ عتیق گیلانی

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ ستمبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

1500سو سالہ جشن ولادت مصطفی ۖ

(1447ہجری۔2025عیسوی)
پیدائش سے ہجرت تک53سال
ہجرت سے اب تک1447سال
1447+53=1500

رحمت للعالمینۖ کی آمد سے یہودونصاریٰ عیسٰی کی شخصیت سوزی و سازی پر نرم پڑگئے ۔ مفتی تقی عثمانی و مفتی منیب الرحمن سو دپر متفق مگر جشن ولادت پر نہیں؟۔ ڈیڑھ سو سالہ جشن دیو بند پر دیوبندی اکٹھے ۔ڈیڑھ ہزار سالہ جشن میلاد پر بریلوی منتشر؟۔ غسل ،وضو ، نماز کے فرائض حتی کہ قرآن پر اختلافات برداشت مگر مستحب دعا پر نہیں؟۔واہ !

ہو سود سے برباد تو بریشم کی طرح نرم
ہو فرقے کا فساد تو فولاد ہے مؤمن

علامہ تراب الحق قادری نے کہا”پوٹی کے بعد دبر سے پھول نما آنت کو دھویا ، دخول سے پہلے سکھایا نہیںتو روزہ ٹوٹ گیا۔ کھلا بیٹھنے اور سانس سے پانی معدہ تک پہنچے گا”۔ مفتی عزیز الرحمن کی مناپلی صابر شاہ ، عابد شاہ جیسے کردار کے مالک علماء اور پیر بن کر مسلکوں کا پرچار کریںگے تووہ اپنے مطلب کے فقہی مسائل بیان کریں گے۔ اسلام نے دنیا کو اپنی روشنی سے ایسا تبدیل کردیا کہ جیسے رات کا گھپ اندھیراسورج کی روشنی سے بدل جاتا ہے لیکن خلافت راشدہ کے بعد ملوکیت کی سرپرستی میں چھوٹی ذہنیت رکھنے والے مذہبی طبقات نے دن دیہاڑے اللہ کے دین کو اجنبیت کا شکار بنادیا۔یہود حلالہ کی لعنت میں مبتلا تھے اور عیسائی کے ہاں طلاق کا کوئی تصور نہیں تھا جبکہ قریش دین ابراہیمی پر یہودونصاریٰ کی نسبت دین فطرت کے زیادہ قریب تھے اور جہالت و مفادپرستی کا شکار بھی۔

سیالکوٹ کے پنجابی مولانا عبیداللہ سندھی،جھنگ کے بلوچ خلیفہ غلام محمد سندھ ڈھرکی سکھر کے مرید۔ وزیرستان کا مظفرشاہ شہید خلیفہ غلام محمدکے مرید، مولانا انیس الرحمن درخواستی شہید میرے استاذ و پیر بھائی۔خانپور ہمارا دل ہے جواسلام کی نشاة ثانیہ اور پاکستانیوں کیلئے حقیقی مرکزہے۔


خان پور میں فکری بیداری کا خاموش سفر
تحریر: ظفر اقبال جتوئی۔ نمائندہ نوشتہ دیوار: شاہ نواز تہیم۔

خان پور صرف دریا کنارے بسا ایک شہر نہیں، بلکہ تہذیب، روایت، اور فکری جمالیات کا ایک جیتا جاگتا منظرنامہ ہے۔ جو حالیہ دنوں ایک ایسی ادبی و فکری سرگرمی کا مرکز رہا جو عمومی اخباری رجحانات سے یکسر مختلف تھی۔ ہم بات کر رہے ہیں ”نوشتہ دیوار”کی، جو روایتی اخبار نہیں بلکہ یہ ماہنامہ شعور نامہ ہے، جو جلد10،شمارہ 8کی صورت میں خان پور کی فکری فضاؤں میں خوشبو بکھیر گیا۔یہ صرف خبریں دینے والا ایک پرچہ نہیں، بلکہ یہ با مقصد تحریری جہد کا تسلسل ہے۔ یہ ان موضوعات کو زبان دیتا ہے جنہیں دیگر اخبارات یا تو نظرانداز کر دیتے ہیں یا سرے سے ان کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتے۔ یہ اخبار فکری افلاس، طبقاتی تضاد، وسیبی محرومی، اور ثقافتی تنہائی جیسے اہم مگر غیر مقبول موضوعات کو صفحہ قرطاس پر وہ درجہ دیتا ہے جس کے یہ بجا طور پر مستحق ہیں۔شمارہ نمبر8کی خان پور میں تقسیم ایک غیر روایتی اور شعوری عمل تھا۔ یہ نہ صرف ایک ماہنامہ کی ترسیل تھی، بلکہ فکری مکالمے کو نئے مقامات تک لے جانے کی ایک بیدار شعور کوشش بھی تھی۔ اس عمل میں مقامی تعلیمی اداروں، صحافتی تنظیموں، ادبی حلقوں، اور فلاحی اداروں کو شامل کیا گیا۔ مقصدتھا کہ پیغام ان ہاتھوں تک پہنچے جو صرف خبروں کے قاری نہیں بلکہ سوچنے، پرکھنے ، سوال اٹھانے والے اذہان رکھتے ہیں۔ نوشتہ دیوار کا یہ شمارہ اپنے مواد، طرزِ پیشکش اور موضوعاتی جرأت کی وجہ سے نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ محض سطحی رپورٹس یا سرخیوں پر قناعت نہیں کرتا، بلکہ ہر موضوع کو اس کی اصل روح کیساتھ پیش کرتا ہے۔ اخبار میں شائع تحریریں مختصر ہونے کے باوجود گہرائی رکھتی ہیں، قارئین کو صرف اطلاع نہیں بلکہ ادراک فراہم کرتی ہیں۔یہ شمارہ قرآن کریم کی بہتر تشریح، وسیب کی ثقافت، مزاحمت کی علامت بنتے کرداروں ، روزمرہ کے تضادات کو ایسی زبان دیتا ہے جو براہِ راست قاری کے ضمیر سے ہمکلام ہوتی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو ”نوشتہ دیوار”کو محض اشاعت نہیں بلکہ ادبی تحریک بناتی ہے۔خان پور میں اس کی پذیرائی اس بات کا ثبوت ہے کہ اس شہر میں اب بھی فکری پیاس باقی ہے اور لوگ ایسے مواد کی قدر کرتے ہیں جو عام دھارے سے ہٹ کر ہو۔ یہ خاموش بیداری کا ایسا عمل ہے جو شاید روز کی خبروں کی ہنگامہ خیزی میں دب جائے، مگر اپنی گہرائی اور اثر پذیری کے اعتبار سے طویل عرصے تک ذہنوں میں نقش رہتا ہے۔اس کی تقسیم یادگار واقعہ ہے۔ نیا قاری، نیا سوال اور نئی سوچ کا بیج بو دیا۔ اس کا دائرہ اخبار پڑھنے تک محدود نہیں بلکہ یہ گفتگو، مکالمے اور سوالات کا محرک بھی بنا۔”نوشتہ دیوار”نے ثابت کیا ہے کہ اگر صحافت کو محض کاروبار کے بجائے شعور کی خدمت بنا دیا جائے، تو یہ ایک ایسا ہتھیار بن سکتا ہے جو بیداری، فہم، اور تبدیلی کی راہ ہموار کرے۔ جلد20کا شمارہ نمبر8خان پور میں جس خاموشی سے آیا، اسی گہرائی سے دلوں میں اتر گیا، اور ایک غیر محسوس ادبی انقلاب کی بنیاد رکھ گیا۔


امریکی سیاستدان گومیز نے قرآن کو نذر آتش کیا اورخدا سے مدد مانگ لی!

ڈونلڈ ٹرمپ کی حامی سیاستدان ولیٹینا گومیز نے قرآن کو فائر گن سے نذر آتش کیااور کہا ہے کہ اسلام کا ٹیکساس سے خاتمہ کردوں گی۔ مسلمان ہماری تہذیب پر حملہ آور ہیں۔ یہ عیسائی ریاستوں پر قبضہ کرکے عیسائی عورتوں سے جبری جنسی زیادتی چاہتے ہیں ۔میں خدا سے مسلمانوں کے خلاف مدد مانگتی ہوں۔ صرف اسرائیل کا خدا برحق ہے ۔اسلام بالکل فراڈ ہے اور ٹیکساس میں مسلمانوں نے رہنا ہے تو قرآن سے اپنا تعلق ختم کرنا ہوگا۔ قرآن کو فائر گن سے جلاکر اس کی ویڈیو جاری کی اور تعصبات کو خوب ہوا دی ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ ستمبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

پختون ، بلوچ،سندھی، کشمیری،پنجابی، سرائیکی،ہزارے وال اور مہاجر سبھی یاد رکھو !اللہ نے غلو سے منع کیاہے

پیر آف واناجنوبی وزیرستان سے22 اپریل 1948 کو پشاور میں قائد اعظم محمد علی جناح کی ملاقات ہوئی اور پوچھا پیر صاحب آپ ایک آزاد ملک کے رہنے والے آزادی اور غلامی میں کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟۔ آپ نے فرمایا 1938 میں صوبہ سرحد کے انگریز گورنر سے ملاقات ہوئی وہ نہایت متکبرانہ انداز میں فرعون وقت کی طرح گفتگو کرتا تھا آج جب آپ سے ملاقات کے واسطے اندر آنے لگا تو صوبہ سرحد کا موجودہ انگریز گورنر کھڑا تھا مجھے دیکھتے ہی ٹوپی اتار کر سلام کیا اور دروازے سے چک اٹھائی۔ اس وقت انگریزوں کی حکمرانی تھی اور ہم غلام تھے آج ہم آزاد ہیں اور وہ ہمارا ملازم ہے یہ آزادی اور غلامی کا فرق ہے اور شاید یہی ہے حقیقی آزادی ۔(یوٹیوب :ان سنی باتیں Batain Ansuni :جواد رضا خان)

پاکستان کی تمام اقوام کو غلو سازی کے اُتار چڑھاؤ سے اعتدال پر آنا ہوگا۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخواہ علی امین گنڈاپور نے الزام عائد کیا ہے کہ دہشت گردی کی بنیاد ہمارے ہی ریاستی ادارے ہیں، پولیس دہشت گردوں کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیتی ہے تو یہ لوگ چھڑالیتے ہیں۔ سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخواہ امیر حیدر خان ہوتی نے کہا ہے کہ اس الزام کی صحیح تحقیق ہونی چاہیے اور الزام عائد کیا ہے کہ گنڈاپور خود طالبان کو بھتہ دے رہا ہے۔

یہ الزام تراشی کی ایک ادنیٰ مثال ہے۔ گروہ بندی اور سیاسی جماعتوں سے لیکر لسانی جماعتوں اور فرقہ پرستوں تک یہ قوم الزام تراشیوں کی بحرانوں میں غرق ہے۔ اب تو معاملہ انتہا کو پہنچ گیا ہے حالانکہ جنرل قمر جاویدہ باجوہ کے دورمیں ایک صحافی نے کھلے عام کالے ویگو ڈالے اور کچھ طالبان پر ایک کروڑ تاوان کے مطالبے کا الزام لگادیا تھامگر کسی سیاسی ومذہبی جماعت نے اس پر آواز نہیں اٹھائی۔

قل یااہل الکتٰب لاتغلوا فی دینکم غیر الحق ولا تتبعوا اھواء قوم قد ضلوا من قبل واضلوا کثیرًا و ضلوا عن سواء السبیل ۔ ترجمہ ” آپ فرماؤ ۔ ائے اہل کتاب اپنے دین میں ناحق غلو مت کرو اور ان لوگوں کی خواہشات پر مت چلو ،جو پہلے خود بھی گمراہ ہوچکے ہیں اور بہت سارے لوگوں کو بھی گمراہ کرچکے ہیں۔ اور سیدھی راہ بھٹک چکے ہیں۔ ( سورہ المائدہ ، آیت77)

مصیبت یہ ہے کہ ہر ایک غلو کا شکار ہے چاہے وہ سیاسی، مذہبی، جہادی ، سرکاری اور حکومتی مشن سے تعلق رکھتا ہو یا پھر قوم پرستی اور انفرادی معاملات سے تعلق رکھتا ہو۔ اللہ کی زمین میں خلافت کا تعلق ان ذمہ داریوں سے ہے جن میں انسان اپنی وسعت کے مطابق طاقت رکھتا ہے۔

ذمہ داریاں اور منصب مانگنے کے نہیں ہوتے مگر جب انسان کے متھے لگ جائیں تو اس کو احسن انداز سے پورا کرنا خلافت ارضی کا فریضہ ہے۔ دنیا میں ہر شخص اپنی اپنی وسعت کے مطابق زمین میں اللہ کا خلیفہ ہے۔ خواہشات کی تابعداری سے بچنا بھی خلافت ہے۔ حضرت آدم و حواء سے اللہ نے فرمایا کہ لاتقربا ھذہ الشجرة ”اس درخت کے قریب مت جاؤ”۔جب انسان اپنے نفس ہی کا مالک ہو تو اس کی ذمہ داری اور خلافت نفس تک محدود ہے۔ اس طرح بال بچوں اور جہاں تک وسعت پائے۔

فیلڈ مارشل، وزیراعظم ، چیف جسٹس، پارلیمنٹ، علمائ، صحافی ، مجاہدین اور سبھی حضرات کی ذمہ داریاں اپنے اپنے دائرہ کار تک محدود ہیں اور تجاوز کرنا بالکل غلط ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم تجاوز نہیں کرتے بلکہ اعتدال پر چلتے ہیں تو یہ سچ بھی ہوسکتا ہے اور بہت بڑا مغالطہ بھی ہوسکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ” اے ایمان والو! تم ان لوگوں کی طرح مت ہوجاؤجنہوں نے کفر کیا اور اپنے بھائیوں سے کہا جب وہ سفر پر نکلیں یا جہاد پر جائیں کہ اگر یہ ہمارے پاس ہوتے تو نہیں مرتے اور نہ قتل ہوتے ۔ تاکہ اللہ انکے دلوں میں ایک افسوس ڈالے۔اور اللہ ہی زندہ رکھتا ہے اور مارتا ہے ۔اور اللہ سب کاموں کو دیکھنے والا ہے۔ اور اگر تم اللہ راہ میں مارے جاؤ یا مرجاؤ تو اللہ کی طرف سے مغفرت اور رحمت بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔ اور اگر تم مرگئے یا قتل کئے گئے تو تم سب کا اللہ کی طرف حشر ہوگا۔ پس اللہ کی رحمت کے سبب آپ ان کیلئے نرم ہوگئے۔ اور اگرآپ تند خو اور سخت دل ہوتے تو ضرور یہ لوگ آپ کے ارد گرد سے بھاگ جاتے۔ پس ان کو معاف کردیں اور ان کیلئے بخشش مانگیں۔اور ان سے خاص بات میں مشورہ کریں۔ پھر جب عزم کرو تو اللہ پر بھروسہ کرو۔ بیشک اللہ توکل رکھنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو کوئی بھی تم پر غالب نہیں آسکتا ہے۔ اور اگر وہ دھکا دے تو پھرکون ہے جو تمہاری اس کے بعد مدد کرسکے؟۔ اور مؤمنوں کو اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ (آل عمران آیات156تا160)

ماکان لنبییٍ ان یغل و من یغلل یأت بما غل یوم القیامة ثم توفیٰ کل نفسٍ ما کسبت و ھم لایظلمون…. ”اور کسی نبی کے لائق نہیں کہ غلو کرے اور جو کوئی غلو کریگا تو قیامت کے دن اس غلو کوساتھ لائے گا ۔ پھر ہر کوئی پوراپالے گا جو اس نے کمایا ہے اور ان پر کوئی زیادتی نہیں ہوگی۔ آیا وہ شخص جو اللہ کی رضا کا تابع ہے وہ اس کی طرح ہے جس پر اللہ کا غضب ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور برا ٹھکانہ ہے۔ اللہ کے ہاں لوگوں کے مختلف درجات ہیں۔ اور اللہ دیکھتا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں۔ اللہ نے ایمان والوں پر احسان کیا ہے جب ان میں سے ایک رسول بھیجاجو ان کی جانوں میں سے ہے۔ ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے اور اگرچہ وہ اس سے پہلے کھلی ہوئی گمراہی میں تھے۔ کیا جب تمہیں ایک تکلیف پہنچی ،حالانکہ تم ان کو اس سے دگنی تکلیف پہنچا چکے ہو۔ تو تم کہتے ہو کہ یہ کہاں سے آئی۔ کہہ دو کہ یہ تمہاری اپنی جانوں کی طرف سے ہے۔ بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اور کچھ تمہیں اسکی تکلیف پہنچی جب دونوں جماعتیں ٹکرائیں۔یہ سب اللہ کی اجازت سے ہوا۔تاکہ ایمان والوں کو اللہ ظاہر کردے اور تاکہ منافقوں کو ظاہر کردے۔ اور ان سے کہا گیا کہ آؤ اللہ کی راہ میں لڑو یا دشمنوں کو دفع کرو۔ تو انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں علم ہوتا کہ آج جنگ ہوگی تو ہم ضرور تمہارے ساتھ چلتے۔ وہ اس وقت بہ نسبت ایمان کے کفر کے زیادہ قریب تھے۔ وہ اپنے منہ سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے۔ اور جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اللہ اس کو خوب جانتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے بھائیوں سے کہتے ہیں حالانکہ خود بیٹھے رہتے اگر وہ ہماری بات مانتے تو قتل نہ کئے جاتے۔ کہدو ! اگر تم سچے ہو تو اپنی زبانوں سے موت کو ہٹاؤ اور تم مت سمجھو کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے مردہ بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے ہاں ان کو رزق دیا جاتا ہے۔ وہ خوش ہیں جو اللہ نے اپنے فضل سے ان کو دیا ہے۔ اور ان کی طرف سے بھی خوش ہوتے ہیں جو ابھی تک انکے پاس ان کے پیچھے نہیں پہنچے ہیں۔ خبردار ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہیں۔ (آل عمران:161تا 170)

ان آیات میں غلو کا ترجمہ غلط کیا گیا ہے۔ انبیاء کرام کی طرف اس کی نسبت اسلئے کی گئی ہے کہ کوئی طبقہ خود کو مستثنیٰ نہیں سمجھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے قتل ہوا،حضرت ہارون علیہ السلام کو داڑھی سے کھینچا۔ نبیۖ نے حضرت امیرحمزہ کی شہادت پر سخت انتقام کا فرمایا تو اللہ نے معاف کرنے کا حکم دیا۔ بیوی سے ناراضگی کی مدت قرآن نے 4 ماہ رکھی ہے۔ نبیۖ حضرت زینب سے ناراض رہے۔

ام المؤمنین عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ سفر میں تھے ،سیدہ صفیہ کی سواری کا اونٹ بیمار ہوااور سیدہ زینب کے پاس وافر سواری تھی۔ رسول اللہ ۖ نے سیدہ زینب سے فرمایاکہ صفیہ کی سواری کا اونٹ بیمار ہوگیا ، آپ اپنے اونٹوں میں سے ایک اونٹ سواری کیلئے دے دیں۔ تو سیدہ زینب نے جواب دیا کہ میں اس یہودی عورت کو اپنا اونٹ دوں؟ تو رسول اللہۖ نے سیدہ زنیب کے پاس اپنی آمد ورفت چھوڑ دی۔ ذی الحجہ اور محرم یہ دو مہینے یا تین مہینے آپۖ انکے پا س نہ آئے۔ سیدہ زینب فرماتی ہیں کہ میں پوری طرح آپ ۖسے ناامید ہوگئی اور اپنی چارپائی وہاں سے ہٹاکر رکھ دی۔ پھر سیدہ زینب نے فرمایا کہ اچانک ایک دن دوپہر کے وقت کھڑی اپنے آپ کو رسول اللہ ۖ کے سایہ مبارک میں پاتی ہوں۔یہ واقعہ ذی الحج کے سفر کا ہے۔( مسنداحمد ج6صفحہ231)

یہودی سخت جملہ اور مدد سے انکار ؟۔ نبیۖ کچھ عرصہ ناراض رہے۔ تحریک انصاف اور سیاسی وجہادی کارکن بھی اعتدال پر آجائیں اور علم وشعور کی شمعیں جلائیں۔ اپنے آپ کو 100% فیصد اعتدال پر سمجھنے کا دعویٰ یا گمان رکھنا ہی بہت بڑی گمراہی ہے اور اس کے مذہبی وسیاسی لوگ اور سرکاری حضرات کی اکثریت شکار ہے ۔ اگر پاکستان کے تمام لوگ اپنی اپنی بے اعتدالیوں کا اقرار اور توبہ کرکے راہ اعتدال پر نہیں آئے تو اس معاشرے کی تباہی وبربادی کے اوقات خدانخواستہ آن پہنچ گئے ہیں۔

تہمینہ شیخ ودیگر کے ویلاگ میں کیا خبریںہیں؟۔ فوج کے شہدائ، طالبان اور بلوچ قوم پرستوں کے احوال جس کو دیکھ مصائب وآلام کا شکارہے۔ عورتیں بیوہ، بچے یتیم اور انسانیت اجھڑ رہی ہے۔ بیٹا ماں باپ اور بیوی کو قتل ، ماں بچوں کو قتل کررہی ہے جو رپورٹ نہیں ہوتا تو وہ کیا ہوگا؟۔

نہ تو ریاست و حکومت اپنی ذمہ داری پوری کررہی ہے ، نہ ہی عوام کی حالت ٹھیک ہے۔ اس حالت میں امید کی شمع جلانا اور بنیادی کردار ادا کرنا فرض ہے۔ قرآنی آیات کا ترجمہ غلط ہوگا تو معاشرے میں اصلاح کا باعث کیسے بن سکتا ہے؟، قرآن کی رہنمائی مردہ امت کو زندہ کرسکتی ہے۔

قرآن کہتا ہے کہ نبی کیلئے غلو یعنی بے اعتدالی مناسب نہیں اور جو بے اعتدالی کرے گا تو قیامت کے دن جو بے اعتدالی کی ہوگی تو اسکے ساتھ آئے گا۔ قرآن کا مقصد انبیاء کرام علیہم السلام کی بے اعتدالیوں کو اجاگر کرنا نہیں کیونکہ وہ اللہ کی طرف سے ہدایت پر ہیں لیکن لوگوںکو خوش فہمیوں سے نکالنا ہے۔ بدر کے قیدیوں سے نبی اکرم ۖ نے اکثریت اور خاص طور پر حضرت ابوبکر کے مشورے پر فدیہ لینے کافیصلہ فرمایا تو اللہ نے واضح الفاظ میں فرمایا ہے کہ ”نبی کیلئے مناسب نہیں کہ اسکے پاس قیدی ہوں یہاں تک کہ خوب خون بہاتے۔ تم دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے۔…..”۔ ماکان للنبیٍ ان یکون لہ اسری

علماء نے اس آیت کی عجیب و غریب قسم کی تفاسیر کی ہیں جن میں علامہ رسول سعیدی کی تبیان القرآن میں کچھ دیکھ سکتے ہیں۔ حالانکہ آیات کے ترجمہ و حالات کی حقیقت سے تفاسیر بالکل واضح ہیں۔حضرت ابوبکر نے اپنے بیٹے کیلئے نہیں بلکہ رسول اللہۖ کے چچا عباس کیلئے فدیہ لیکر معاف کرنے کا مشورہ دیا اور نبیۖ کا ایک داماد بھی ان قیدیوں میں شامل تھا۔ تاکہ نبیۖ کو اقارب کی وجہ سے فطری رنج و غم نہیں پہنچے۔ لیکن اللہ کو معلوم تھا کہ یہ فطری محبت حد اعتدال سے ہٹ جائے تو معاشرے کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ جب حضرت نوح علیہ السلام نے دیکھا کہ بگڑا ہوا لاڈلہ بیٹا غرق ہورہاہے تو اللہ سے فریاد کی اور اللہ نے فرمایا کہ وہ چیز مت مانگو جس کا تجھے علم نہیں ہے اور حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ سے معافی مانگ لی۔

ایک طرف تو بدری صحابہ کے دلوں کو اللہ نے چمکادیاجو فتح کا جشن منانے کے بجائے رونے دھونے ، معافی تلافی میں لگ گئے اور دوسری طرف حضرت عمر و سعد نے قتل کا مشورہ دیا تھا جس سے اقلیت کی رائے کی عظمت بڑھ گئی۔ یعنی عمل تو اکثریت کے مشورے پر ہوا لیکن ٹھیک اقلیت کی رائے قرار پائی۔ یہی تعلیم وتربیت تھی ۔ مقصد قیدیوں کو قتل کرنا نہ تھا بلکہ اقارب کی جنگ میں رعایت پر تنبیہ تھی اور صحابہ نے اپنے لئے رعایت نہیں رکھی بلکہ نبیۖ کے اقارب کی رعایت رکھی تو اللہ نے یہ رعایت سے بھی ناپسند فرمائی۔ اور اس میں حکمت کی بھی زبردست تعلیم یہ تھی کہ جن کافروں کو فدیہ دیکر چھوڑ دیا تو ان کے دلوں میں بٹھا دیا کہ اگر آئندہ غلطی کروگے تو معافی نہیں ملے گی۔ صحابہ کی ڈانٹ سے اصل مقصد ان لوگوں کو خوف دلانا تھا۔

اس تزکیہ کا اثر یہ تھا کہ خلافت راشدہ میں نبیۖ اور اپنے اقارب کی رعایت نہیں تھی۔ حضرت ابوبکر، عمر ، عثمان اور علی کی خلافت اعتدال کے اعلیٰ ترین درجہ پر تھی۔ قرآن میں فتح مکہ سے پہلے اور بعد والوں کے درجات میں فرق ہے۔ حضرت علی کے بعد حادثے کے طور امام حسن نے منصب خلافت کا عہدہ سنبھال لیا مگر خلافت سے دستبردار ہوکر حضرت امیر معاویہ پر امت کا اتفاق کردیا تھا۔

اپنے نااہل بیٹوں اور دامادوں کو راستہ دینے کیلئے یزید کی حمایت کرنے والے انتہائی بے شرم اور بے غیرت قسم کے لوگ ہیں۔ شیعہ سے کہتا ہوں کہ امیر معاویہ پر اعتراض امام حسن و حسین پر اعتراض ہے جن کی رعایت و مصالحت سے اقتدار کررہے تھے لیکن یزید کی حمایت اور امام حسین کی مخالفت میں آسمان و زمین کی قلابیں ملانے پر جاوید احمد غامدی اور دوسرے بدشکلوں سے کہتا ہوں کہ اٹھو اپنا گندہ منہ ذرا دھو لو۔ آذان کی مخالفت کرنے والے ہندؤوں سے شاعرہ لتا حیا کہتی ہیں کہ ” تم بھی صبح اٹھو اور منہ دھولو”۔

رسول اللہۖ اور صحابہ کرام نے اسلئے قربانیاں نہیں دی تھیں کہ خلافت کو بنوامیہ وبنو عباس اپنی اپنی لونڈیاں ہی بنالیں، اگر بدر کی جنگ میںامیرحمزہ و علی نے حضرت عباس کی گردن اڑائی ہوتی تو حضرت علی کی اولاد کو اسلئے محروم اور ظلم وستم کا نشانہ نہیں بنایا جاتا کہ رسول اللہۖ کے چچازاد علی کی بہ نسبت چچا عباس کی اولاد خلافت کی زیادہ حقدار ہے۔ اگر یہ شریعت ہوتی تو پھر خلافت راشدہ کس کھاتے میں جائے گی؟۔ پھر حضرت عباس کی نسبت سے حضرت عمر بارش کیلئے دعامانگنے کے بجائے خلافت پر بٹھادیتے۔

حضرت علی سے زیادہ حضرت امیر معاویہ کی اہلیت پر سستی شہرت اور حمایت کمانے والے بے شرم جاوید غامدی کو پتہ ہونا چاہیے کہ امیر معاویہ کے باپ حضرت ابوسفیان نے حضرت علی کو حضرت ابوبکر سے بھی زیادہ اہل قرار دیا تھا اسلئے مدعی سست گواہ چست کی ڈرامہ بازی غلط ہے۔ لوگ جاویداحمد غامدی کا فتنہ نہیں سمجھ رہے ہیں۔ قرآن کی آخری دو سورتوں کے علاوہ قرآن کی بہت ساری سورتوں کا میں نے خود کلپ سنا ہے جو پھر مل نہیں سکا ہوسکتا ہے کہ ڈیلیٹ کردیا ہو کیونکہ میں نے بہت ڈھونڈلیا۔ جس میں وہ قرآن کی سورتوں کے بارے میں کہتا ہے کہ یہاں تک قرآن ہے اور باقی مضمون قرآن نہیں ہے ۔ آخری دوسورتیں بھی قرآن نہیں ہیں۔ ایک طرف احادیث صحیحہ کا بے عقلی سے انکار اور دوسری طرف من گھڑت آثار کو ثابت سمجھتا ہے۔

اللہ کے فضل وکرم سے مدارس کا نصاب بھی ہم نے غلط قرار دیا ہے اور طالب علمی کے زمانے میں اساتذہ کرام نے تائید بھی کی ہے ۔ جس میں ہمارا کوئی کمال نہیں ،قرآن اتنا واضح ہے کہ قرآن کی وضاحتوں کو نہیں سمجھنا کم عقلی ہے اور علماء کرام نے کوشش کی ہے کہ جس معاملے کو نہیں سمجھا تو اپنی طرف سے ڈنڈی نہیں ماری ہے لیکن جب بھی درست بات سامنے آئی ہے تو اس کی تائید کردی۔ بریلوی دیوبندی اہل حدیث جماعت اسلامی اور شیعہ میں بہت لوگ قرآن کے متن کی طرف رجوع کررہے ہیں اور اس کی وجہ سے ہم امت مسلمہ اور پوری دنیا کو بحران سے نکال سکتے ہیں اور یہی ہمارا اصل مشن بھی ہے جس کی سب نے تائید کی ہے۔

اپنی ذمہ داری کا فرض کو پورا کرنا خلافت ہے۔ ایک چڑیا کو پانی پلانے کیلئے ضرورت ہو گی تو فرشتہ نہیں اترے گا اور انسان کی پکڑہوگی۔جس کی جتنی بڑی ذمہ داری اتنا بڑا مواخذہ ہوگا۔سورہ البقرہ کی آخری آیت میں یہی ہے۔

محسود مجاہد کی ہندو بیوی کا واقعہ

پیر بغدادی پیر آف وانا نے آزادی کے بعد وانا جنوبی وزیرستان میںآزادی کا جھنڈا لہرایا اور ان کی قیادت میں قبائل کا لشکر کشمیر کے جہاد میں گیا، ایک محسود مجاہد سے اس کی ہندو بیوی بھی چھین لی ۔ میرے والد پیرمقیم شاہ نے بتایا کہ اس نے مجھ سے مدد مانگی تو اس کو پسٹل دیا کہ اس کو قتل کردو اور میرے پاس آجاؤ مگر بے غیرت نے نیناواتی میں جانور ذبح کئے حالانکہ کافی سارے سانڈھ جیسے اسکے بھائی تھے۔

وزیرستان کی عوام غیرت مند ہیں مگر بے غیرت بھی ہر جگہ ہوتے ہیں ۔ پیر صاحب کا ہندو لڑکی پر دل آیا ہوگا یا پھر سوچا ہوگا کہ نازک اندام لڑکی پر لکڑیاں، پانی اور مزدوری کے مشکلات پڑسکتے ہیں اسلئے چھین لی ہوگی اور مولوی نے فتویٰ دیا ہوگا کہ امیر جہاد کا زیادہ حق بنتا ہے …..ہاہاہا

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اگست 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مفتی محمود پر1970میں ، مولانا فضل الرحمن پر1985 میں کفر کا فتویٰ لگا۔ کیااب حق کا علم مولانا بلند کریں گے؟

قرآن کے احکام اور مسائل کاحل

قرآن کی تعریف : ”جو رسول ۖ پر نازل ہوا،جو مصاحف میں لکھا ہوا ہے، جو آپ ۖ سے منقول ہے تواتر کیساتھ بلاشبہ”۔

اس کی تشریح:” اس سے پانچ سو آیات مراد ہیں۔ باقی قرآن قصے اور مواعظ ہیں۔ لکھے سے مراد لکھا ہوا نہیں کیونکہ یہ محض نقش ہے۔متواتر کی قید سے غیر متواتر آیات نکل گئیں جیسے اخبار احاد اور مشہورآیات اور بلاشبہ کی قید سے بسم اللہ نکل گئی ، اگرچہ صحیح بات یہ ہے کہ بسم اللہ قرآن ہے لیکن اس میں شک ہے اور اس وجہ سے اس کا منکر کا فر نہیں بنتا ہے”۔

یہ تعریف حنفی مسلک کی ہے جس میں صحیح احادیث سے زیادہ اہمیت قرآن کی اخبار احاد کی ہے لیکن امام شافعی کے نزدیک یہ عقیدہ کفرہے۔ جب قرآن سے باہر بھی آیات مان لی جائیں اور شبہ بھی ثابت کیا جائے تو پھر عوام کو بھی آگاہ کرنا چاہیے کہ علماء قرآن کیساتھ کیا کرتے ہیں؟۔

جب معاملہ 500آیات کا تھا تو پھر فضول کی بکواس کی ضرورت کیا ہے اور اگر لکھا ہوا قرآن اللہ کا کلام اور کتاب نہیں ہے تو اسلئے فقہ کی جن کتابوں فتاوی قاضی خان سے فتاویٰ شامی تک سورہ فاتحہ کو علاج کیلئے پیشاب سے لکھنا جائز ہے ۔تاکہ اس توہین کو تحفظ دیا جائے؟۔

امام شافعی بسم اللہ میں شک نہیں کرتے تھے اور جہری نماز میں جہری بسم اللہ پڑھتے تھے تو ان پر رافضی کا فتویٰ لگادیا۔ علماء خود قرآن کیخلاف تعلیمات دے رہے ہیں۔ پارلیمنٹ ، سینیٹ اور عدالتوں میں جب تک ان کا مؤاخذہ نہیں ہوگا تو یہ اپنے غلط نصاب کو تبدیل نہیں کریںگے۔ امام ابوحنیفہ کی شہادت کے بعد امام شافعی نے حق کا پرچم بلند کیا تھا۔

اللہ نے فرمایا کہ ” رسول شکایت فرمائیںگے کہ اے میرے رب ! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا”۔(الفرقان: 30)

اور یہ بھی واضح فرمایا کہ ” جیسا ہم نے ان بٹوارہ کرنے والوں پر نازل کیا ہو جنہوں نے قرآن کو بوٹیاں بوٹیاں کردیا۔ تیرے رب کی قسم ہم ان سبھی سے ضرور پوچھیںگے”۔(سورہ الحجر: 90،91،92)

قرآن نے مسائل کا بالکل واضح حل پیش کیا ہے جو اپنی مثال دینا آپ ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ ” اور جس دن ہر گروہ میں سے ان پرانہیں میں سے ایک گواہ کھڑا کریںگے۔اور تجھے ان پر گواہ بنائیںگے۔ اور ہم نے تجھ پر وہ کتاب نازل کی ہے جو ہر چیز کو واضح کرتی ہے۔اور مسلمانوں کیلئے ہدایت، رحمت اور خوشخبری ہے”۔ (النحل:89)

فرقہ پرستی، سیاست، قوم پرستی اور مختلف حوالہ جات سے لوگ اپنے کمالات کے جوہر دکھارہے ہیں لیکن اصل مسائل کے حل کی نشاندہی کا تصور نہیں رکھتے۔ جب تک معاشی اور معاشرتی بنیادوں پر ہمارے اپنے اقدار درست نہیں ہوں گے تو مسائل حل کے بجائے گھمبیر ہوں گے اور قرآن وہ کتاب ہے جس سے دنیا کی قوموں کو عروج ملتا ہے اور اس کے چھوڑنے سے مسلمان تنزلی کا شکار ہوگئے ہیں۔ دنیا میں میاں بیوی کی صلح پر پابندی نہیں اور اس کا سہرا قرآن کے سر جاتا ہے۔

قرآن کی صلح واصلاح کا منکر کون؟

دور جاہلیت میں طلاق کی عدت تھی اور طلاق رجعی کے بعد شوہر عورت کی رضامندی کے بغیر اس کو لوٹانے کا حق رکھتا تھا مگر تین طلاق کے بعد حلالہ کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا تھا۔ طلاق کے الفاظ کے اقسام اور مختلف احکام تھے۔ اگربیوی کی پیٹھ کو ماں کی پیٹھ کہا تو حلالہ سے بھی رجوع نہیں ہوسکتاتھااور حرام کے بعد بھی رجوع نہیں ہوسکتا تھا۔

قرآن نے تمام مسائل کا عام فہم عوامی حل پیش کردیا۔ سنت نے اس کو مزید واضح کردیا اور خلفاء راشدین نے ان کے مطابق فیصلے کئے لیکن پھر رفتہ رفتہ مذہبی طبقات اور اختلافات نے دین کے اصل چہرے کو مسخ کردیا ۔ اب بڑے بڑے علماء ومشائخ بات کو نہیں سمجھتے یا تجاہل عارفانہ سے اپنا ایکسپائر شدہ اسلحہ چلاکر قوم وملت کو برباد کررہے ہیں۔ ہم نے اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی اور قبلہ ایاز سے ملاقاتیں کرکے بات سمجھا دی اور وہ سمجھ بھی گئے لیکن اپنی نوکریاں بچانے یا بڑے علماء کیساتھ الجھن سے بچنے کیلئے یہ معاملہ آگے نہیں بڑھایا۔

1: سورہ بقرہ آیت 228میں حلالہ اور طلاق رجعی کی جاہلیت کے مسائل کو اللہ نے بہت آسان الفاظ میں حل کردیا۔ وبعولتھن احق بردھن ان ارادوا اصلاحًا: ”اور ان کے شوہر اس(عدت) میں ان کو صلح کی شرط پر لوٹانے کا حق رکھتے ہیں”۔(البقرہ آیت228)

جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اکٹھی طلاق پر حلالہ کی لعنت کا خاتمہ اور شوہر عورت کی رضامندی کے بغیر رجوع نہیں کرسکتا ہے۔

حضرت عمر کے پاس اقتدار تھا ۔آپ نے دارالفتویٰ نہیں کھولا تھا۔ شوہر نے بیوی سے کہا کہ تجھے تین طلاق۔ اور اپنا حق یہ سمجھا کہ وہ عدت میں رجوع کرسکتا ہے اور بیوی رجوع کیلئے راضی نہیں تھی۔ حضرت عمر نے قرآن کے مطابق فیصلہ دے دیا کہ شوہر کو رجوع کا حق نہیں ۔ اس سے پہلے کوئی اکٹھی تین طلاق دیتا تھا تو باہمی رجوع کرلیتے تھے لیکن یہ فیصلہ قرآن کی بنیاد پر تھا اور حضرت عمر نے عورت کے حق کو بھرپور تحفظ دیا اور اگر ایک طلاق کے بعد بھی عورت رجوع کیلئے راضی نہ ہوتی تو عمر نے قرآن کے مطابق یہی فیصلہ دینا تھا کہ رجوع نہیں ہوسکتا۔ حضرت عمر ہی کے دور میں ایک شخص نے بیوی کو حرام کہہ دیا اور پھر تنازع حضرت عمر کے پاس پہنچ گیا۔ پھر وہ دونوں میاں بیوی رجوع پر رضامند ہوگئے تو یہ فیصلہ دے دیا کہ رجوع کرلو۔ پھر حضرت علی کے دور میں حرام کے لفظ پر دربارِ خلافت میں تنازعہ آیا۔ عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی تو علی نے فیصلہ دے دیا کہ رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ قرآن نے بار بار واضح کیا ہے کہ باہمی اصلاح معروف طریقے سے جب دونوں راضی ہوں تو اللہ نے صلح کی اجازت دی اور حکم دیا ہے کہ صلح میں رکاوٹ مت بنو۔

عورت فحاشی کی مرتکب ہو تو عدت ہی میں اس کو گھر سے نکال سکتے ہیں اور وہ خود بھی نکل سکتی ہے۔ لیکن اگر مالی حقوق کے مسائل ہوں یا پھر غیرت کے نام پر سزا کی بات ہو تو دونوں کے درمیان لعان کا حکم ہے۔ پھر اگر شوہر سچا ہواور عورت جھوٹی ہو تب بھی عورت کو سزا نہیں دیںگے۔ اور قرآن نے واضح کیا ہے کہ بدکارمرد اور عورت کا آپس میں یا مشرک سے نکاح کرایا جائے گا۔ شیتل بی بی کا مسئلہ علماء کے غلط مسائل نے ہی بگاڑ دیا ہے جس میں کہانی کے جس رنگ کو دیکھا جائے یہی نکلے گا۔

قرآن میں بالکل کوئی تضادات نہیں ۔ آیت228البقرہ کے بعد آیت229میں مزید وضاحت ہے کہ عدت کے تین مراحل میں تین مرتبہ طلاق دی جائے۔ رجوع کیلئے معروف کی شرط ہے۔ صلح ، اصلاح اور معروف ایک ہی چیز ہیں اور قرآن نے بار بار اس کی وضاحت کی۔ رسول اللہۖ نے بھی وضاحت فرمائی کہ پاکی کے دن پھر حیض، پاکی کے دن پھر حیض پھر پاکی کے دن ۔ یہی وہ عدت ہے جس میں اللہ نے قرآن میں طلاق کا امر کیا ہے۔ بخاری نے باربار یہ حدیث نقل کی ہے۔

بخاری نے اکٹھی تین اور حلالہ کیلئے غلط حدیث نقل کی ہے اور قرآن کی آیت کا بھی بالکل غلط حوالہ دیا ہے۔ کہ رفاعہ القرظی نے بیوی کو تین طلاق دی اور پھر اس نے عبدالرحمن بن زبیرالقرظی سے نکاح کیا اور پھر نبیۖ کو دوپٹے کا پلو دکھایا کہ اسکے پاس ایسی چیز ہے ۔ نبیۖ نے فرمایا : کیا رفاعہ کے پاس جاناچاہتی ہو ؟،نہیں جاسکتی ،یہاں تک وہ تیرا شہد چکھ لے اور تو اس کا شہد چکھ لے(صحیح بخاری) حالانکہ صحیح بخاری نے یہ حدیث نقل کی ہے کہ رفاعہ نے الگ الگ مراحل میں طلاق دی تھی مگر اس فراڈ کی وجہ سے امت مسلمہ کی عزتیں لُٹ رہی ہیں۔ اور اس سے یہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ نبیۖ نے قرآن کے منافی اکٹھی تین طلاق پر حلالہ کا حکم جاری کیا تھا اور نامرد سے حلالہ پر مجبور کرنا بھی بہتان ہے۔

جہاں تک عویمر عجلانی نے لعان کے بعد تین طلاقیں دیں تو اس سے قرآن کی آیت کو منسوخ کرنا اور حلالہ پر مجبور کرنا انتہائی درجہ کی جہالت تھی لیکن افسوس کہ اس ماحول میں بھی اسلام اجنبی بن چکا تھا۔ حنفی فقہاء کے نزدیک اکٹھی تین طلاق بدعت، ناجائز اور حرام تھیں۔ شافعی فقہاء کے نزدیک اکٹھی تین طلاق سنت، جائز اور مباح تھیں۔ بخاری نے حنفی مسلک کی مخالفت میں شافعی مسلک کو سپورٹ کرنے کیلئے ایسا کیا تھا۔

امام شافعی نے حضرت عمر کی سپورٹ کیلئے اکٹھی تین طلاق کو سنت قرار دیا۔ جس کی دلیل عویمر عجلانیکے لعان کا واقعہ تھا اور حنفی فقہاء و مالکی فقہاء کے نزدیک محمودبن لبید کی حدیث دلیل تھی کہ جب ایک شخص نے خبر دی کہ فلاں نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی تو رسول اللہۖ غضبناک ہوکر کھڑے ہوگئے اورفرمایا کہ میری موجودگی تم اللہ کی کتاب کیساتھ کھیل رہے ہو۔ ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اس کو قتل نہ کردوں؟ ۔

محمود بن لبید کی روایت صحیح بخاری و صحیح مسلم میں نہیں ہے۔ صحیح بخاری میں واقعہ کی تفصیل اورنبیۖ کے غضبناک ہونے کی وضاحت ہے اور صحیح مسلم میں عبداللہ بن عمر کی اکٹھی تین طلاق کی وضاحت ہے۔ روایات میں یہ بھی واضح ہے کہ طلاق دینے والا عبداللہ اور خبردینے اور قتل کی پیشکش کرنے والے حضرت عمر تھے۔خلافت راشدہ میں یہ بحث نہیں تھی کہ طلاق سنت وبدعت کیا ہے؟۔حضرت عمر اور حضرت علی نے قرآن کے مطابق عورت رجوع کیلئے راضی نہیں ہو تو رجوع کا فیصلہ نہیں دیا ۔ چاہے اکٹھی تین طلاق کے الفاظ ہوں یا ایک بار حرام کا لفظ ہو۔ اور ظاہر ہے کہ عورت رجوع کیلئے راضی ہوتی تو نہیں روک سکتے تھے۔ ایک طرف رسول اللہۖ کی زندگی میں سخت ترین طلاق بیوی کو ماں قرار دینے کا معاملہ سورہ مجادلہ میں واضح تھا اور دوسری طرف جب نبیۖ نے طلاق نہیں دی تھی بلکہ ناراضگی وایلاء میں بھی ایک ماہ بعد رجوع کیا تو اللہ نے واضح کیا کہ پہلے تمام عورتوں کو علیحدگی کا اختیار دو۔ اگرساتھ رہنا چاہتی ہوں تب رجوع کرسکتے ہیں۔ قرآن وسنت کی عظیم الشان رہنمائی اور وضاحتوں کے باوجود بھی اختلافات اور قرآن وسنت سے بغاوت کرنا اانتہائی درجہ کی گراوٹ ہے۔ قرآن نے بار بار اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ اصلاح، معروف طریقے اور باہمی رضامندی کی بنیادپر عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل پر اور عدت کی تکمیل کے عرصہ بعد رجوع ہوسکتا ہے بلکہ رجوع میں رکاوٹ مت ڈالو۔ اسی میں تمہارا باطنی تزکیہ اور ظاہری پاکیزگی ہے۔ لیکن ایک طرف صلح کے بغیر شوہر کو رجوع کی اجازت دیکر لاتعداد پیچیدہ مسائل کھڑے کردئیے اور دوسری طرف باہمی رضامندی میں حلالہ پر مجبور کرکے بیڑہ غرق کیا ہے اور آیت230البقرہ کا تعلق طلاق کی اس صورت سے ہے کہ جب اس سے پہلے آیت229البقرہ کے مطابق دونوں اور فیصلہ کرنے والے ایسی علیحدگی پر متفق ہوں کہ آئندہ رابطے کا بھی کوئی ذریعہ نہیں رہے اور یہ صرف اس مشکل مسئلے کا حل تھا کہ عورت کو طلاق کے بعد بھی شوہر اپنی مرضی سے کسی اور سے نکاح کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ جو لیڈی ڈیانا کیساتھ ہوا اور جس طرح ریحام خان کو طلاق کے بعد پاکستان واپس آنے سے روکنے کی کوشش کی گئی۔ حالانکہ آیات231،232البقرہ میں اور سورہ طلاق کی پہلی دوآیات میںرجوع کا مؤقف واضح کیا۔

حنفی اور شافعی میں یہ اختلاف تھا کہ حرمت مصاہرت نکاح سے ثابت ہوتی یا زنا سے بھی۔ امام شافعی کے نزدیک حرمت مصاہرت ایک مقدس رشتہ ہے جو زنا سے ثابت نہیں ہوتا۔ حنفی فقہاء نے زنا اور نکاح کو ایک قرار دیا۔ پھر اس میں مزید وقت کیساتھ ساتھ ایکسٹینشن جاری رکھی۔ یہاں تک بھی معاملہ پہنچا دیا کہ شہوت کیساتھ چھونے سے بھی حرمت مصاہرت ہوجاتی ہے۔ لوگوں کو ذہنی مریض بنادیا کہ ساس یا بہو سے ہاتھ ملانے پر شہوت تو نہیں آئی؟۔ آئی تھی تو ساس اور بہو بیوی بن گئی ، اپنی بیوی حرام ہوگئی۔ مولوی پکڑا گیا جو بہو کے سینے کو ہاتھوں سے سہلا رہاتھا تو اس نے اپنے لئے حیلہ تلاش کیا اور عام لوگوں کو فتویٰ دیا کہ لامحالہ شہوت آگئی اسلئے والد پر اس کی بیوی اور بیٹے پر اس کی بیوی حرام ہوگئی۔ پھر معاملے کو مزید ایکسٹینشن دیدی اور مسئلہ بنایا کہ اگر ساس یا بہو کی شرمگاہ کو باہر سے دیکھا تو پھر حرمت مصاہرت نہیں ہوگی اسلئے کہ عذر ہے اور شہوت آجاتی ہے اسلئے کہ شیح الحدیث مفتی عزیز الرحمن کی طرح کوئی ننگا پکڑا گیا تھا جس میں پرائیویٹ پاٹ منتشر تھے۔ لیکن شرمگاہ کو اندر سے شہوت کیساتھ دیکھاتو حرمت مصاہرت ہوگی۔ پھر مزید کچھ مولوی رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تو ایک نیا مسئلہ نکالا کہ اگر شہوت کیساتھ ننگا ساس یا بہو، یا بیٹی یا ماں کو دبوچ لیا اور انزال ہوگیا تو پھر حرمت مصاہرت نہیں ہوگی اوراگر خارج نہیں ہوا تو حرمت مصاہرت ہوگی۔ سوشل میڈیا پر بے راہ روی اور جامعہ بنوری ٹاؤن کی ویب پر مسائل کا حل اس بدمعاشی کا نتیجہ ہے۔

fatwa-against-mufti-mahmood-and-fazlur-rehman-will-maulana-raise-banner-of-truth

چلتے پھرتے ہوئے مہتاب دکھائیں گے تمہیں
ہم سے ملنا کبھی پنجاب دکھائیں گے تمہیں
چاند ہر چھت پہ ہے سورج ہر آنگن میں
نیند سے جاگو تو کچھ خواب دکھائیں گے تمہیں
پوچھتے کیا ہو کہ رومال کے پیچھے کیا ہے؟
پھر کسی روز یہ سیلاب دکھائیں گے تمہیں
جھک کے پیار سے سر رکھ دیا جو کاندھے پر
درگاہ بھی مہرباں ہوگئی اپنے راندے پر
حلالہ لعنت ہے دورِ جاہلیت کی بڑی یاد گار
لعنت بھیجو اب کرائے کے سانڈھے پر
حرمت مصاہرت کے نام پر ڈھکوسلہ ہے
قربان جاؤ جاکے اب اپنے چاندے پر
وقت کے جو ظروف ٹوٹ گئے ان کی خیر
رحم کرو زندگی کے لمحات باقی ماندے پر
دین کے لاوزال اور بہترین احکام ہیں
اقتدار دیاں گل بات آندے جاندے پر
روس و امریکہ میں ہم سینڈوچ بن گئے
خدا را اب بوجھ مت لادو اپنے پانڈے پر
مشرقی روایت اور اسلام کا ہے حسین امتزاج
چھڈ دے ہونڑ نہ لکھ اپنی پوندی پاندے پر

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اگست 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

بیشک جو لوگ اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں اور انبیاء کو بغیر حق کے قتل کرتے ہیں اور قتل کرتے ہیں لوگوں میں سے ان کو جو انصاف کا امر کرتے ہیں تو ان کو بشارت دو المناک عذاب کی۔ آل عمران21

امریکہ کا روس کے خلاف جہاد سے لیکر دہشت گردی کے خلاف ڈبل گیم کھل چکاہے ۔ سلیم صافی نے اِن کیمرہ اجلاس کا بتایا تھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ ”افغان طالبان اور TTPایک سکہ کے دو رُخ ہیں”۔ ایک طرف اشرف غنی کی فورسز کی تنخواہیں بند کیں ، دوسری طرف طالبان کیلئے ڈالروں کی مدد جاری رکھی ، تیسری طرف افغانستان کے فنڈز منجمد کردئیے۔ جرمنی نے لڑکیوں کی تعلیم اورافغانستان میں دہشت گردوں کی موجودگی کے خلاف اقوام متحدہ میں قرارداد پیش کی۔ پاکستان سمیت 116ممالک نے حمایت صرف امریکہ اسرائیل نے مخالفت کی۔ چین، روس، بھارت اور ایران غیر جانبدار تھے۔ امریکہ معدنیات کیلئے خطے کو عدمِ استحکام کا شکار بنانا چاہتاہے۔ پاکستان نے ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل انعام کیلئے نامزدکیا تو پھر امریکہ پاکستان کیخلاف کیوں ؟۔ پاکستان ،بھارت، چین، ایران اور افغانستان کے درمیان صلح اور تجارت کا فروغ ہی امریکہ کی موت ہے۔

امریکہ چاہتا ہے کہ مزاحمت کرنے والی تمام قوتوں کی آبیاری نہیں ہو اور آپس میں لڑ مر کر کمزور ہوجائیں اور اس کے نزدیک افغان طالبان ، پاک فوج، مزاحمتی تحریکیں اور باشعور سیاستدان سب کا خاتمہ ضروری ہے۔ وہ بھارت اور چین کا بھی دشمن ہے اور افغانستان، ایران اور پاکستان کا بھی دشمن ہے۔ اگر اس خطے کے لوگوں نے صرف صلح اور آپس میں آزاد تجارت شروع کردی تو ہم ایران کے تیل و گیس کی بھارت وچین کو سپلائی اور بھارت سے گائے کے گوشت ، دال اور چاول کی افغانستان وایران کو سپلائی سے اپنی عوام اور ریاست کی غربت ختم کرسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا اور طالبان بھی اسلام کے نفاذ کی بات کرتے ہیں۔ وزیرستانی کہتے ہیں کہ ”گدھے کی محبت لات مارناہے”۔ حدیث ہے کہ ”یہ امت بھی سابقہ اقوام کے نقش قدم پر چلے گی”۔ دنیا بہت آگے نکل چکی ہے اور ہم صدیوں پیچھے اقوام کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلام کی نشاة ثانیہ ہورہی ہے اور یہ حقیقت ہے لیکن نشاة اول کیا تھی؟۔ یہی سمجھنا ہوگااور اسلام کی نشاة ثانیہ کیلئے تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء نے ہماری تائید کی تھی جن میں ایک استاذ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر پرنسپل جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی ،صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر مرکزیہ بھی تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے لیٹر پیڈ پر تائیدمیں لکھاکہ ”امام مالک نے فرمایا کہ اس امت کی اصلاح نہیں ہوسکتی مگر جس چیز سے اس کی اصلاح پہلے ہوئی تھی۔ جو لوگ اسلام کی نشاة ثانیہ چاہتے ہیں تو ان کو پہلے تعلیم وتربیت اور پھر اس کے نفاذ کیلئے حکومتی سطح پر تحریک چلانے کی طرف توجہ کرنا چاہیے”۔ استاذ محترم کی تحریر کا لب لباب اور خلاصہ میں نے لکھ دیا ہے ۔

رسول اللہ ۖ کے بعد حضرت ابوبکر و عمر اور عثمان نے دنیا کو شکست دی اسلئے کہ اسلام کا معاشی ، معاشرتی، مذہبی ، علاقائی اور بین الاقوامی نظام اس قابل تھا کہ تمام لوگوں نے اسکو قبول کیا۔ سب سے بنیادی چیز شخصی، مذہبی اور سماجی آزادی تھی۔ لونڈیوں کا لباس موجودہ مغربی دنیا کی خواتین سے بھی زیادہ ننگ تڑنگ والا اور انتہائی بیہودہ تھا۔ قرآن و حدیث اور اسلام وفقہ کا کہیں یہ حکم نہیں تھا کہ جبری پردہ دار لباس پہناؤ۔

مؤمنین اور مؤمنات کو غضِ بصر کا حکم ہے۔جس کا معنی یہ ہے کہ جس طرح بجلی تیز اور مدھم ہوتی ہے۔ تیز روشنی دوسرے پر سخت پڑتی ہے اور مدھم کی نرم پڑتی ہے۔ راتوں کو گاڑیاں چلتی ہیں تو سامنے والی گاڑی کی وجہ سے لائٹ ڈِ م کی جاتی ہے تو اس ٹریفک کے اصول کی طرح چودہ سو سال پہلے قرآن نے عورتوں اور مردوں کو یہ حکم دیاتھا۔

معاذ خان لکھا پڑھا نوجوان ہے جو Voices&Visions یوٹیوب چینل پر فاطمہ شہزاد سے انٹرویو لے رہا ہے اور موضوع بحث لبرل ازم اور سوشلزم کی مزاحمتی سیاست ہے۔ معاذ خان اپنی فطرت کی بنیاد پر اپنی آنکھوں سے جس شرافت کا مظاہرہ کرتا ہے تو اس سے قرآن کی تعلیمات جھلک رہی ہیں۔حنفی مسلک میں اگر عورت پر شہوت کی نگاہ پڑگئی تو نیت نہ ہونے کے باوجود بھی طلاق سے رجوع ہوجائیگااور شافعی مسلک میں نیت نہ ہو تو جماع سے بھی نہیں ہوگا۔ فقہاء نے دین اسلام کو اسلئے اجنبیت اور منکرات کی طرف دھکیل دیا ہے کہ قرآن میں اللہ نے طلاق سے رجوع کیلئے صلح اور معروف کی شرط کو واضح کیا ہے اور انہوں نے قرآن کے واضح احکام کو پس پشت ڈال کر معروف کو منکر بنادیا ۔

مولانا فضل الرحمن کے کندھے پر مریم نواز نے بہت پیار سے اپنا سر رکھ دیا اور بینظیر بھٹو بھی مولانا سے مانوس تھیں۔ اگر مولانا نے کسی کو ہراساں کیا ہوتا تو فاصلہ بڑھ جاتا ۔ اقبال نے”ایک آرزو” میں کہاکہ

مانوس اس قدر ہو صورت سے میری بلبل
ننھے سے دل میں اس کے کھٹکا نہ کچھ مرا ہو

نظروں میں شہوت اور عدم شہوت کیا ہے؟۔ انسان کو اس کا فطری مطلب معلوم ہے۔ پاکستان کی سیاحت سے غیرملکی اسلئے رک گئے کہ ان کی خواتین کو احساس ہوتا ہے کہ شہوت کی نظروں تاڑا جاتا ہے۔ یہی شہوت کااحساس جب خانہ کعبہ میں عورتوں اور مردوں میں نہیں ہوتا تو حجرِ اسود چومتے وقت اچھے بھلے مسلمان بھی ایک دوسرے سے اجنبی مرد اور عورتوں کے باوجود ہڈی پسلی اتنی ایک کرلیتی ہیں کہ جتنا میاں بیوی کے درمیان بھی ایکدوسرے سے الحاق ممکن نہیں ہوسکتا ہے۔

دنیا میںایک کمیونزم و سوشلزم ہے ،دوسرا کیپٹل ازم وسیکولر ازم ہے اور تیسرا اسلام ہے۔ اسلام دین ہے اور قرآن کا اعلان ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔ شاہ ولی اللہ نے لکھا کہ رسول اللہۖ کا دوراور حضرت ابوبکر و عمر کا دور اور حضرت عثمان کا دور خیرالقرون ہیں اور حضرت علی کے دور میں فتنے شروع ہوگئے اسلئے اس پر خیرالقرون کا اطلاق نہیں ہوسکتا ہے۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھا کہ رسول اللہۖ اور حضرت ابوبکر کا دور ایک تھا اسلئے کہ اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ حضرت عمر کے دور میں مالیاتی طبقاتی تقسیم کی بنیاد رکھ دی گئی اسلئے یہ دوسرا دور تھا ، حضرت عثمان کے دور میں خاندانی نظام کی بنیاد پڑی اسلئے خیرالقرون کا تیسرا دور تھا اور حضرت علی کے دور میں فتنوں کا آغاز ہوگیا اسلئے وہ شامل نہیں لیکن شاہ ولی اللہ نے حضرت علی کے دشمنوں کو مایوس کیا اسلئے کہ ان کے دور کو قیامت تک فتنوں میں رہنمائی کیلئے بہترین بنیاد قرار دیا ہے۔

شاہ ولی اللہ نے لکھا کہ قرآن میں خلافت کا وعدہ جمع کیساتھ ہے۔ عربی میں کم ازکم تین پر جمع کا اطلاق ہوتا ہے اور مسلمانوں کیساتھ اللہ نے وعدہ پورا کیا اور تین خلفاء کو خلافت کی دولت عظیمہ سے نواز دیا۔

شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے لکھا کہ خیرالقرون کا صحابہ کرام ، تابعین اور تبع تابعین کے تین ادوار پہلی صدی ہجری، پھر دوسری صدی ہجری اور پھر تیسری صدی ہجری پر اطلاق ہوتا ہے۔ اور چوتھی صدی ہجری اس میں شامل نہیں اور تقلید کو چوتھی صدی ہجری میں ضروری قرار دیا گیا ہے اسلئے تین سو سال تک جو چیز بھی رائج ہوئی ہے وہ دین ہے لیکن اسکے بعد ہر چیز بدعت ہے۔ بدعت کی حقیقت ۔ جس کی تائید میں علامہ یوسف بنوری نے تقریظ بھی لکھ دی ہے۔

شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے تقلید کی شرعی حیثیت میں ائمہ مجتہدین کے بعد وہ حدیث نقل کی ہے جس میں علماء کے اٹھ جانے کی خبر ہے اور لوگ جاہلوں کو پیشوا بنالیںگے ۔ ان سے فتویٰ پوچھیںگے اور وہ جانے بوجھے بغیر جواب دیںگے اور خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریںگے۔ متفق علیہ عصر حاضر حدیث نبویۖ کے آئینہ میں۔

علامہ اقبال کی طرف شعر منسوب ہے جو شاید کسی اور کا ہے کہ
توحید ہستی ہم ہیں محافظ خدا ہمارا
ہم کافروں کے کافر کافر خدا ہمارا

جس میں ترمیم کی ضرورت ہے کہ
توحید ہستی ہم ہیں محافظ خدا ہمارا
ہم جاہلوں کے جاہل جاہل رہنما ہمارا

غسل ، وضو اور نماز کے فرائض اور ان میں اختلافات کا پتا قرآن و سنت ، خلفاء راشدین، صحابہ کرام، تابعین ، مدینہ کے سات فقہاء قاسم بن محمد بن ابی بکر ، عروہ بن عبداللہ بن زبیر ……وغیرہ جنکے بارے میں مولانا انورشاہ کشمیری نے لکھا ہے کہ ” اگر انکے نام لکھ کر پانی میں ڈالے جائیں اور اس کا چھڑکاؤ کیا جائے تو چھت لکڑی کو دیمک نہ لگے گی”۔ سلیمان کے دور میں یہ نعمت میسر نہیں تھی ورنہ اپنی عصا پر چھڑکتے۔

شاہ ولی اللہ کے بیٹے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے عذاب قبر کے انکار کی بنیاد رکھ دی۔ شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے پہلی صدی ہجری کو رسول اللہۖ کا دور قرار دیا، دوسری صدی ہجری کو صحابہ کرام اور تیسری صدی ہجری کو تابعین کا دور قرار دیا۔ جس میں فقہ و حدیث کی بنیادرکھ دی گئی اور چوتھی صدی ہجری میں تقلید کو بدعت قرار دیا تھا۔ ان کی کتاب کا اردو ترجمہ ”بدعت کی حقیقت” پرحضرت علامہ محمدیوسف بنوری نے تقریظ بھی لکھی ہے جس میں ان کی ایک دوسری کتاب ”منصب امامت” کی تائید بھی کی ہے۔ سیداحمد بریلوی کے خلیفہ اجل میاں نور محمد جھنجھالوی سے حاجی امداداللہ مہاجر مکی بیعت ہوئے۔ اور اکابر دیوبندمولانا قاسم نانوتوی، مولانا رشیداحمد گنگوہی اور مولانا اشرف علی تھانوی ان کے مرید اور خلفاء عظام تھے۔

ہمارے مرشد حاجی محمد عثمان نے تبلیغی جماعت میں بہت وقت لگایا تھا اور سلسلہ قادریہ کے شیخ بھی تھے۔ مولانا فقیر محمد خلیفہ مولانا اشرف علی تھانوی ان کی مجالس میں بیٹھتے تھے اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی طرح سمجھتے تھے۔ حالانکہ کہاں حضرت حاجی محمد عثمان اور کہاں حاجی امداد اللہ؟ بہت فرق تھا۔ حاجی امداداللہ مہاجرمکی پر حکایات رومی کی وجہ سے کیفیت طاری ہوجاتی تھی اور حاجی محمد عثمان نے قرآن وسنت کو اہمیت دی تھی۔ البتہ دونوں عالم دین نہیں تھے اور امام غزالی جیسے علماء بھی صوفی بن گئے تو اصول فقہ اور فقہ کے علوم کو بدترین گمراہی سے تعبیر کیا تھا اور دوسروں کی ہدایت کیلئے بھی ”المنقذ من ضلال ” کتاب لکھ دی ۔جس کا ترجمہ ”گمراہی کے اندھیرے سے ہدایت کی روشنی ” کے نام سے کیا گیاہے۔

تبلیغی جماعت اور علماء کا اختلاف

تبلیغی جماعت والے اپنے کام کو فرض اسلئے سمجھتے ہیں کہ امت اپنی روز مرہ کی زندگی میں بھی غسل، وضو، نماز کے فرائض سے آگاہ نہیں اور جب غسل کے فرائض کا پتہ نہیں ہوگا تو نماز اور قرآن کوہاتھ سے چھونے کا معاملہ بھی خطرناک ہوگا اسلئے کہ جنابت سے طہارت ضروری ہے۔ اس طرح بغیر وضو کے نماز نہیں ہوتی اور قرآن کو ہاتھ نہیں لگایا جاسکتا تو پھر وضو کے فرائض بھی ضروری ہیں اور نماز کے فرائض بھی ضروری ہیں۔

علماء کرام کہتے ہیں کہ غسل ، وضو اور نماز کے فرائض ضروری ہیں مگر لوگوں کا فرض بنتا ہے کہ علماء سے فرائض ، واجبات اور سنن اور مستحبات سیکھ لیں۔ لوگوں کے پیچھے گھومنے میں علماء کرام کی بے توقیری ہے۔

اب پہلا سوال یہ ہے کہ غسل، وضو اور نماز کے فرائض نبیۖ نے صحابہ کرام یا خلفاء راشدین و صحابہ نے تابعین کو سکھائے تھے؟۔ مدینہ کے مشہور سات فقہاء کو ان فرائض کا پتہ تھا؟ ۔ تو جواب نفی میں ہے۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب رسول اللہۖ، صحابہ کراماورتابعیننے یہ فرائض نہیں سیکھے اور ان کی نماز ہوجاتی تھی تو پھر یہ کیوں ضروری ہیں؟۔

جب غسل، وضو اور نماز کے فرائض اور واجبات کو حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی مسالک میں الگ الگ تقسیم کیا جائے اور سب کے فرائض ایک دوسرے سے مختلف ہوں اور اس وجہ سے تقلید بھی فرض بن گئی ہو تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟۔ جس کا جواب یہ ہے کہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز بھی نہیں ہوگی اور اسلئے حرم کعبہ میں چار اماموں کے چار جائے نماز تھے اور مسجد نبوی ۖ میں تو محراب تک بھی الگ الگ بنائے گئے تھے۔

محراب نبویۖ سے الگ محراب حنفی بھی بنایا گیا تھا۔ علامہ ابن تیمیہ نے چار مسالک کو چار الگ الگ فرقے قرار دیا لیکن ان کو ختم نہیں کیا بلکہ پانچواں مذہب بھی ایجاد کیا جیسے اہل حدیث کا اپنا مسلک ہے۔

مسلک اور نصاب فتویٰ لگانے اور حکومتی جبر سے ختم نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کیلئے ایسی دلیل کی ضرورت ہے جس کی حقانیت سے باطل اپنی موت آپ مرجائے۔ اصول فقہ میں پہلا اصول قرآن، دوسرا حدیث، تیسرا اجماع اور چوتھا قیاس ہے۔ جس کا مطلب ایسا اجتہاد ہے جس کو قرآن، حدیث اور اجماع سے استنباط کرکے اخذ کرلیا جائے۔

مجتہدین کے سات طبقات ہیں۔

1: پہلا طبقہ مختلف مسالک کے ائمہ حضرات کا ہے۔ جن کو مجتہد مطلق کہا جاتا ہے۔
2: دوسرا طبقہ ان کے بہت مشہور شاگردوں کا ہے جن کو مجتہد فی المذہب کا درجہ حاصل ہے۔
3:تیسرا طبقہ مجتہد فی المسائل کا ہے جو ائمہ اور ان کے شاگردوں کی تقلید کے پابند ہیں لیکن کچھ مسائل میں اجتہاد کرسکتے ہیں۔
4: چوتھا طبقہ اصحاب تخریج کا ہے۔ جو مجتہدین کے اجہتادات سے مسائل نکال سکتے ہیں۔
5: پانچواں طبقہ اصحاب ترجیح کا ہے جو اختلافی مسائل میں ایک قول کو ترجیح دے سکتے ہیں کہ یہ صحیح اور یہ غلط ہے۔
6: چھٹا طبقہ اصحاب تمیز کاہے جو کسی کے اولیٰ یعنی بہتر اور غیراولیٰ نامناسب کی صلاحیت ہی رکھتے ہیں۔
7: ساتواں طبقہ مقلدین محض کا ہے جن کا کام دوسروں کی صرف تقلید کرنا ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں۔

علماء دیوبند وعلماء بریلوی مقلد محض

شاہ اسماعیل شہید کی کتاب ”بدعت کی حقیقت” سے متاثر ہوکر کچھ علماء نے تقلید محض سے انحراف کیا ۔ علامہ عبدالحی لکھنوی نے روایت کی بنیاد پر اکٹھی تین طلاق کو ایک قرار دیا جس کو مولانا رشیداحمد گنگوہی نے فتاویٰ رشیدیہ میں نقل کیا اور پھر حنفی فتویٰ بھی نقل کیا ہے کہ اکٹھی 3طلاق واقع ہوجاتی ہیں۔ تاکہ دونوں طرح کی راہیں کھل جائیں۔ علامہ ابن تیمیہ نے بھی ایک طلاق قرار دی اور ان سے گنگوہی متأثربھی تھے۔

پھر جب علماء دیوبند نے قرآن وسنت سے اپنا لگاؤ بڑھایا اور تقلید کو بدعت قرار دینے کی طرف رحجان بن گیا تو مولانا احمد رضا خان بریلوی نے حرمین شریفین کے علماء سے ان کے خلاف مختلف عبارات نقل کرکے فتویٰ لیا جس کو ” حسام الحرمین ” کا نام دے دیا۔ پھر علماء دیوبند نے اپنی کتاب ” المہند علی المفند” میں اس کی تردید کردی اور خود کو مسلکاً حنفی اور مشرباً چشتی بتایا اور علامہ ابن تیمیہ کی گمراہی کے فتوے جاری کئے۔ اور محمد بن عبدالوہاب نجدی سے مکمل طور پر اپنی برأت کا اعلان کردیا۔

پھر اس کے کچھ عرصہ بعد حجاز میں وہابیوں کی حکومت آگئی اور علامہ ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوہاب کے عقائد پر دوبار ہ ایمان لایا تھا۔ ایک قندھاری افغانی عالم مولانا احمد رضا خان بریلوی نے اکابرعلماء دیوبند کی شکست میں نہ صرف زبردست کردار ادا کیا بلکہ تذبذب کی ایسی کیفیت سے دوچار ہوگئے جیسے آج پختونخواہ اور پنجاب کے ہر نکڑ پر کتوں کے پلوں کی طرح ایک دوسرے پر کفر کا فتویٰ لگاتے نظر آتے ہیں۔

مقلد محض مولانا احمد رضا خان بریلوی نے فتاوی شامی میں بہت ہی بڑی گستاخانہ عبارت جس میں ”علاج کیلئے سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے اگر یقین ہو کہ علاج ہوجائے گا”کی تأولیل لکھ دی ہے کہ ”چونکہ وحی کے بغیر علاج کا یقین نہیں ہوسکتا ہے اسلئے سورہ فاتحہ کو پیشاب لکھنا جائز نہیں قرار دیا ہے”۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ بچپن میں مولانا احمد رضا خان بریلوی نے لمبی قمیص پہنی تھی اور شلوار نہیں پہنی تھی تو سامنے سے عورتوں کو آتے ہوئے دیکھا جنہوں نے اس کو بچہ سمجھ کر اپنا چہرہ نہیں چھپایا۔ مولانا احمد رضا خان نے اپنی قمیص کے دامن سے اپنا چہرہ چھپایا تو نیچے اواز دکھنے لگے جس پر عورتیں مسکرائیں۔

مفتی تقی عثمانی نے علامہ شامی سے نقل کرکے لکھ دیاکہ ” میں نے امام ابویوسف کی کتابیں چھان ماریں مگر کہیں بھی علاج کیلئے یقین کی شرط نظر نہیں آئی”۔ یہ مولوی حضرات کچھ بھی لکھتے ہوئے دوسروں سے استفادہ بھی کرتے ہیں اور جہاں موقع ملتا ہے تو ان کی تردید کرتے ہیں اسلئے مولانا احمد رضا خان اور مفتی تقی عثمانی کا معاملہ مختلف لکھا گیا ہے۔

شروع میں علماء دیوبند اور علماء بریلوی نے لاؤڈاسپیکرپر نماز،آذان اور اقامت کو ناجائز قرار دے دیا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مقلد محض کا یہ مقام نہیں تھا تو ایسی بکواس کی آخر کیا ضرورت تھی جس کی وجہ سے مدتوں تبلیغی جماعت اور پھر مدتوں بعد دعوت اسلامی بھٹک رہی تھی؟ ۔

نماز کے 14فرائض کا شیشہ ٹوٹا؟

ہمیں کانیگرم جنوبی وزیرستان کے سکول میں بھی نماز کے فرائض یاد کرائے گئے تھے ۔ آخری فرض 14: اپنے ارادہ سے نماز سے نکلنا۔

جب بنوری ٹاؤن کراچی میں داخلہ لیا تو مفتی عبدالسمیع سے بحث ہوئی۔ قرآن لکھائی کی شکل میں اللہ کا کلام ہے یا نہیں؟۔ جس پر وہ اپنی بحث ہار گئے اور طلبہ نے مجھے علامہ تفتازائی کے لقب سے مشہور کردیا۔

پھر جب میں نے مختلف مواقع پر مختلف سوالات اٹھائے تو ایک یہ بھی تھا کہ اپنے ارادے  کیساتھ نماز سے نکلنا فرض ہے بھلے ریح خارج کی جائے اور سلام سے نکلنا واجب ہے۔ تو واجب کیلئے سجدہ سہو ہے اور وضو کے بغیرسجدہ سہو نہیں ہوسکتا۔ پھر ایسے فرض کی ضرورت کیوں پیش آئی؟۔

جب بڑے اساتذہ مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن تک جواب دینے سے قاصر ہوتے تھے تو طلبہ نے کہا کہ ہمارا وقت ضائع ہوتا ہے۔ استاذ قاری مفتاح اللہ صاحب مدظلہ العالی نے فرمایا کہ ” عتیق کو ایک عام طالب علم مت سمجھو ۔ جس طرح امام ابوحنیفہ اور امام مالک بڑے درجہ کے امام تھے اس طرح یہ بھی ایک امام ہیں”۔اور مجھ سے فرمایا کہ ”آپ محنت جاری رکھو اورنصاب کی غلطیوں کو خود ٹھیک کرلوگے”۔

قاری مفتاح اللہ صاحب قلندر ہیں۔ قلندر ہر چہ گوئید دیدہ گوئید۔

احناف نے یہ فرض ایک روایت سے لیا ہے کہ ” جس نے نماز کے آخری قاعدہ میں ریح خارج کردی تو اس کی نماز مکمل ہوگئی”۔

میں نے اس پر متعدد مرتبہ لکھا کہ ”ریح کا خارج ہونا یا ریخ کا خارج کرنا ” زبان اور لہجے میں فرق ہے لیکن اس سے حقیقی فعل فاعل مراد نہیں ہیں۔ جیسے فلاں شخص کا انتقال ہوگیا یا انتقال کرگیا زبان ، لہجے اور الفاظ کا فرق ہے۔ مرنے والا جب مرتا ہے تو لفظ کی حد تک مرگیا یا دنیا چھوڑ گیا لیکن حقیقت میں دونوں ایک ہیں۔ میری اس کاوش کا نتیجہ یہ نکل گیا ہے کہ رائیونڈ والوں نے اپنی ویپ سائٹ پر نماز کا 14فرض نہیں لکھا۔

جب علماء نے کھلے الفاظ میں لاؤڈ اسپیکر پر نماز کا کہا کہ نہیں ہوتی تو عمل کرنے والوں نے عمل شروع کردیا لیکن پھر علماء نے کھلے عام اپنی غلطی تسلیم کرنے کے بجائے بات اولیٰ اور غیراولیٰ پر ڈال دی۔ لوگوں کو یہ تأثر دیا کہ علماء جو بات کہیں وہ مانو اور جوعمل کریں وہ نہیں کریں۔

تزکیہ بھی ایک اہم شعبہ ہے۔ علماء ومفتیان اپنی تزکیہ کیلئے کسی اللہ والے سے بیعت کرلیتے تھے۔ غسل اور وضو کے فرائض اوراختلافات بھی بالکل لایعنی اور فضو ل ہیں۔ جن پر کئی مرتبہ وضاحت کی ہے لیکن جب قرآن کی تعریف میں ڈنڈی ماری گئی ہے تو کس چیز پر اتفاق ہوسکتا ہے؟۔علماء کرام اپنے نصاب کی تبدیلی میں وقت ضائع نہیں کریں۔

تسخیرکائنات اور قرآن وحدیث

قرآن میں تسخیر کائنات اور نفع بخش چیزوں کی بقاء کو واضح کیا گیا۔ رسول اللہۖ نے فرمایا :”علم حاصل کرو، خواہ تمہیں چین جانا پڑے”۔

ایک طرف قرآن و سنت کے احکام کی غلط تعبیرات، تاؤیلات اور تسخیرات سے نصاب کا ایسا ملیدہ بنادیا ہے جس کو علماء ومفتیان خود بھی کارآمد نہیں سمجھتے ہیں لیکن وقت ضائع کرنے اور پیسہ بٹورنے کا ذریعہ ہے۔ جس دن مدارس کو پیسہ بند ہوجائے گا تو کوئی بھی فضولیات میں اپنا وقت ضائع نہیں کرے گا۔ شیخ الہند اور مولانا انور شاہ کشمیری نے آخری وقت میں اس سراب سے علماء کی جان چھڑانے کی ناکام کوشش کی تھی۔

اگر قرآن و سنت کے معاشرتی اور معاشی نظام کو امت مسلمہ اور دنیا کے سامنے پیش کیا جائے تو اس کیلئے کسی مزاحمتی تحریک کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔ ملک کا جوا شرافیہ حرمت مصاہرت اور حلالہ کی مصیبت بڑی پیچیدگی سے برداشت کرتا ہے اور عوام اس بدبودار تحریف سے پہلو تہی برت رہی ہے لیکن اگر ان کو قرآن وسنت کی حقیقی تعلیم سے آگاہ کیا گیا تو مسلمان اور کافر سب کے سب انسان اسلام کے ذریعے سے ایک اچھے نظام کی طرف مسخر ہوجائیںگے۔ قرآن وسنت نے جس جہالت سے عرب اور پوری دنیا کو نکالا ہے علماء اپنی غلط تشریحات کے ذریعے امت مسلمہ کو دنیا بھر میں پھر گمراہ کررہے ہیں۔ سراج الحق تقریر کرتا تھا کہ سود کا گناہ اپنی ماں سے خانہ کعبہ میں36مرتبہ زنا کے برابر ہے مگر جیسے کسی گدھے کو دیگ میں پکاکر اسکا نام اسلامی ٹٹو رکھا جائے اور گدھے کی لید اور پیشاب بھی اس میں شامل کیا جائے ویسے اسلامی بینک کا فراڈ ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اگست 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv