پوسٹ تلاش کریں

حضرت مولانا عبد الکریم عابد کے بیان پر عتیق گیلانی کا تبصرہ

کراچی (ڈاکٹرجمال) حضرت مولانا عبد الکریم عابد(جمعیت علماء اسلام مرکزی شوریٰ کے رکن، صوبائی سرپرست خطیب و امام مہتمم مسجدو مدرسہ مدنیہ گلشن اقبال ) نے کہا کہ اس وقت امت کو ایک کیا جائے ، اتحاد کی اشد ضرورت ہے مگر ہمارا میڈیا فرقہ واریت اختلافی مسائل کی اشاعت کو ترجیح دیتا ہے۔ نوشتۂ دیوار میں اکثر کسی نہ کسی قابل احترام شخصیت کیخلاف اختلافی نکتہ نظر ہوتا ہے، اختلاف ہر ذی علم کا فرض مگر شائستہ انداز میں لکھا جائے نہ کہ شخصیت پر توہین آمیز تنقید کی جائے۔ نوشتۂ دیوار کے مضامین کا انداز یقیناًاچھے پہلو بھی ہیں ایک حد تک مسائل کی نشاندہی کی جاتی ہے مگر گزارش ہے کہ شائستہ انداز میں دلائل کی بنیاد پر اختلاف ہو اور جس کو اللہ نے مقام دیا ہو وہ ملحوظِ خاطر رہے، اسلام کی یہی تعلیم و تربیت ہے کہ مخالف کی بھی توہین نہ کی جائے بلکہ ان کو مقام دیا جائے۔ سوال کے جواب میں کہا کہ طلاق کے مسئلے پر نوشتۂ دیوار کے مضامین سے اہلسنت و الجماعت کے اکابر اور عوام تک اچھا تاثر قائم نہیں ہورہا۔ یہ مواد جو تحقیق کیساتھ شائع ہوا اس میں نئی بات نہیں بلکہ صدیوں سے یہ اختلافات علماء کرام میں چلے آرہے ہیں۔ گزارش ہے کہ علماء کرام سے ہزار اختلاف کے باوجود احترام کو ترجیح دی جائے اختلاف سے انکار ،نہ ہی اختلاف بری چیز ہے ۔ تنقید برائے اصلاح ہو، تنقید برائے توہین نہیں ہونی چاہیے۔

تبصرۂ نوشتۂ دیوار

حضرت مولانا عبدالکریم عابد صاحب!
محترم جناب کی رہنمائی کا کن الفاظ میں شکریہ ادا کروں؟دومرتبہ آپ سے ملاقات کا شرف رہا ہے، اسلئے جناب کے خلوص سے آگاہ ہوں۔ بلا شبہ جو تحریرفرمایا، اسکے ہر ہر لفظ میں سچائی ہے اور بہت احترام کیساتھ ہمارا اختلافی نقطۂ نظر بھی۔ جن خیالات کا پر خلوص انداز میں اظہارفرمایا، یہ اکثریت کی شکایت ہے۔ ہمارے اخلاق کردار، طرزِ تحریر اور اوقات کی تو بالکل کوئی حیثیت نہیں، اسلئے اپنا دفاع تو نہیں کرسکتے، جورہنمائی کی کرم نوازی ہے اس کا شکریہ تہہ دل سے ادا کرتاہوں
البتہ آپ جانتے ہیں کہ رحمۃ للعٰلمینﷺ نے تو بڑے زبردست اخلاق، کردار اور اوقات سے زندگی کے 40سال نبوت سے قبل13سال مکی اور8سال فتح مکہ سے پہلے مدنی زندگی گزاری، وہ جو فتح مکہ کے بعد فوج در فوج اسلام میں داخل ہوئے، امیرمعاویہؓ، عکرمہؓ بن ابی جہل صحابہؓ تھے ، بڑی شان رکھتے تھے، حمزہؓ کا کلیجہ نکالنے چبانے والے وحشیؓوہندؓ کی خدمات ہیں مگر قرآن نے انکے اقوال زریں کو محفوظ کیا ’’ کیاہم اپنے الھہ کو ایک مجنون شاعر کی وجہ سے چھوڑ دیں گے‘‘۔
19سال تک حضرت ابوسفیانؓ کی بیگم حضرت ہندؓ نے نبیﷺ سے سخت نفرتوں کا اظہار کیا مگر جب مکہ فتح ہوا، حالات بدل گئے تو نبیﷺ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی مگربڑی تعداد میں یہ فوج درفوج مسلمان ہونے والوں کا ماحول بدلا، جو توہین امیز رویہ نظر آتا تھا وہ اعلیٰ اخلاق لگنے لگا۔ قرآن نے اہل کتاب سے متعلق کہا کہ ’’انہوں نے مشائخ و علماء کو اللہ کے علاوہ رب بنالیا تھا‘‘ نبیﷺ نے وضاحت کی کہ حلال وحرام کا خود ساختہ معیاربنایا ، یہی رب بنانا تھا۔ جن علماء نے وقتافوقتا اسلام کا حلیہ بگاڑنے میں کردار ادا کیا۔ یہاں تک کہ شادی کی رسم نیوتہ کو سود اور ماں کے زنا سے بڑھ کر گناہ قراردیا، دوسری طرف اسلام کے نام پر بینکنگ کو جواز بخشاہے۔ جمعیت علماء اسلام پہلے روزی روٹی حلال کرکے مزاحمت کرتی تھی اب لیٹ گئی تو ہمارا رویہ یقیناًحق کی آواز بلند کرنے پربہت گستاخانہ لگتا ہوگا ،وقت کا انتظار کرتے ہیں عسیٰ ان یکون قریبا ۔ قرآن پر پرانے قصے کہانی کا الزام لگا۔ دلائل کو پرانا کہنے پر خوشی ہے کہ نئے دین کا الزام نہ لگا ۔ علماء کا نصاب پراعتماد اٹھ گیا۔آپ نے مہربانی فرمائی تھی کہ مدرسین سے بات کروائی، میں نے کہا: بات سن لو، اگر میرا مؤقف نہ مانا تو لکھ دیتا ہوں کہ اپنا مؤقف چھوڑ دونگا مگرانہوں نے کہا: ’’یہ شرط جائزنہیں‘‘۔ وقت بتائیگا کہ حلالہ کو کارِ ثواب کہہ عزت لوٹنا توہین آمیز تھا یا لعنت کو بے غیرتی کہنے والے گستاخ؟۔ طلاق کے مسئلہ پر اتنا واضح مؤقف کہاں کس نے لکھا؟ عتیق گیلانی

فرقہ واریت کا بیج بونے والے غلام احمد پرویز پر اشرف میمن کا تبصرہ

نوشتۂ دیوار کے پبلشر اشرف میمن نے کہا : پاکستان میں فرقہ پرستی،متعصبانہ رویہ اور قتل وغارتگری میں نادیدہ قوت ملوث قرار دی جاتی تھی لیکن اس کی نشاندہی کرنے میں ریاست، علماء، دانشور، حکمران کامیاب نہ ہوسکے ۔ غلام احمد پرویز نے بڑاباریک کام کیا، قرآن کا نام لیکر فرقہ پرستی کو ختم کرنے کی کوشش کی ۔ امام ابوحنیفہؒ نے بھی قرآن کے مقابلہ میں بہت سی احادیث کو قبول نہیں کیا۔ حنفی مسلک کا ماحول غلام احمد پرویز کی پذیرائی کا بہت بڑا سبب بنا ، وہ روانی سے قرآنی آیات کے ترجمے اور مفہوم کو بیان کرتا تھا، پڑھا لکھا طبقہ ان سے بہت زیادہ متاثر ہوا، بیوروکریسی افسران کی زیادہ تر تعداد غلام احمدپرویز کو اپنا مذہبی پیشوا مانتی ہے، علماء نے پرویز پر انکارِ حدیث کافتویٰ لگادیامگر اس کا کیا اثر پڑتا؟۔ علماء خود بھی تو اہلحدیث کی مخالفت کرتے تھے۔ غلام احمد پرویز نے ایک تو حدیث کی صحاحِ ستہ کو ایران و شیعہ کی بہت بڑی سازش قرار دیا۔ دوسرا یہ تشہیر کی کہ قرآن میں بہتان کا واقعہ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے متعلق نہ تھا، اس کو سازش کے تحت درج کیا گیا تاکہ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کی سیرت کو داغدار بنایا جاسکے۔ واقعہ کسی عام خاتون سے متعلق تھا۔حضرت عائشہؓ پر بہتان لگادیا جاتا تو توہین رسالت و اذیت رسولﷺ کی وجہ سے 80کوڑے کی سزا نہ ہوتی بلکہ یقیناًان کو قتل کیا جاتا۔ جب پرویز کی اس فکر کو لکھے پڑھے طبقہ نے قبول کیا تو سنی مکتبۂ فکر میں اس واقعہ سے متعلق روایتوں کوشیعہ کی سازش قرار دیاگیا۔ جنکے دل ودماغ میں یہ بات بیٹھ گئی کہ شیعہ نے اتنی بڑی سازش کی تو ان کو قتل کرنا ثواب سمجھا گیا۔ ہم غلام احمد پرویز اور اس کے ساتھیوں پر سازش کرنے کا الزام لگانا تو بہت دور کی بات ہے کوئی شبہ تک نہیں کرتے۔ جس طرح مولانا طارق جمیل نے نماز کیلئے پر جوش خطاب کیا اور فون کی بیل بنادیاگیا، اسی طرح غلام احمد پرویز کا پروگرام قتل وغارتگری نہ تھا۔ بیوروکریسی کی ذہنیت میں’’ اسٹیٹس کو‘‘کا خمار بڑی بات نہیں جیسے تبلیغی جماعت کے دل میں نماز کا خمار بیٹھ جاتاہے ۔ نماز کا پڑھنا بہت ہی زبردست کام ہے جو شرک، کفر، بے حیائی اور منکرات سے روکنے کا زبردست ذریعہ ہے۔
وہ اک سجدہ جسے تو گرا ں سمجھتاہے ہزاروں سجدوں سے دیتاہے آدمی کو نجات
اسٹیٹس کو اور فرقہ پرستی نے بیڑہ غرق کردیا، پرویز اور مولاناالیاسؒ برابر نہیں ہوسکتے۔ یاد رہے کہ فرقہ پرستی واسٹیٹسکوکا باہمی تعلق سمجھے بغیرفتنہ وفساد ختم نہ ہوگا۔
غلام احمدپرویز نے نیک نیتی سے حضرت عائشہ صدیقہؓ کے دفاع کیلئے اپنا نظریہ پیش کردیا، قبول کرنیوالے ’’اسٹیٹس کو‘‘ کی بیوروکریسی اور حب رسولﷺ سے سرشارعوام تھی۔ بڑا افسر اپنے چپڑاسی اور چوکیدار کی عزت اپنے برابر نہیں سمجھتا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی زوجہ مطہرہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓکے ناموس کو کسی عام خاتون کے برابر سمجھا جائے؟۔ ہمیں ان کی نیت، ایمان، خلوص، علم، سمجھ اور کسی بھی وہم وگمان پر ذرا بھی سازش کا کوئی شبہ نہیں ہوسکتاہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے ، اٹل حقیقت ہے، واضح حقیقت ہے، بے باک حقیقت ہے ، رب ذولجلال کی طرف سے انسانی وہم وگمان اور عام ماحول سے بالکل ہی بالاتر حقیقت ہے کہ بہتان ام المؤمنین حضرت عائشہؓ پر ہی لگایا گیا تھا۔ اس کی سزا بھی ایک عام خاتون کے برابر 80کوڑے کا حکم دیا۔ یہی نہیں بلکہ حضرت ابوبکرؓنے قسم کھائی کہ میں آئندہ ان بہتان لگانے والوں پر احسان نہ کروں گا تو اللہ تعالیٰ نے حکم نازل کیا کہ مالداروں کی یہ شان نہیں ،احسان جاری رکھنا چاہیے۔( سورۂ نور)
تکبر ورعونت اور جاہلیت کے سرکردہ انسانوں کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اپنے برابر اپنے سے کمتر لوگوں کی عزت کا احسا س نہیں رکھتے ۔ یہ معاملہ اتنا باریک اور خطرناک ہوتا ہے کہ شیطان نے جنت میں اسی بات کو سمجھنے میں غلطی کی تھی۔ اس نے تکبر اسلئے کیا کہ حضرت آدمؑ کو اللہ نے مٹی سے پیدا کیا اور مجھے آگ سے پیدا کیا گیا۔ نبیﷺ نے عرب و عجم ، کالے گورے، سب رنگ ونسل والوں کو ایک آدمؑ کی اولاد قرار دیا لیکن اسلام نے جو سبق دیا تھا وہ ہم بھول گئے۔ انگریز کے پروردہ جاگیردار،سرمایہ داراورساختہ وپر داختہ بیوروکریسی میں نشو ونما پانیوالے دماغ کی سمجھ میں یہ بات کبھی نہیں آسکتی کہ عام عوام کی عزتیں دن رات لٹتی ہیں ، صبح و شام تماشہ لگتاہے اور کوڑی جتنی عزت رکھنے والی خواتین کی چیخ و پکار کو کچرا کنڈی میں ڈال دی جاتی ہے۔ جو ایسا ڈاکخانہ ہے کہ اس کی ہر ڈاک منوں مٹی میں دبا دی جاتی ہے، یا ری سائیکل کرکے اس کی شناخت تک مٹادی جاتی ہے اور اگر اس کی شناخت قائم بھی رہتی تو کون سے نتائج اسکے نکل سکتے ہیں؟۔
اللہ تعالیٰ نے جان ، آنکھ، کان، ناک اور دانت کے بدلے میں کوئی فرق نہ رکھا۔ سب کیلئے یکساں قانون بنایا۔ عزت پر بھی یکساں حد نافذ کا حکم دیا۔ رسول اللہ ﷺ کی سیرت کو اعلیٰ اخلاقی نمونہ قرار دیا۔ معاشرے میں کوئی طاقتور اپنی عزت کو کسی کمزور کے برابر نہیں سمجھتاہے ، اس روایت کو اسلام کے ذریعے ختم کردیا۔ طاقتور اور کمزور کی جان وعزت قانون کی نگاہ میں برابر ہوگی تو فتنہ وفساد اور خود کُش حملوں کیلئے کسی کو افراد میسر نہیں آئیں گے۔ دنیا کے سامنے قرآن و سنت کا یہ قانون آئیگا کہ جان اور انسانی اعضاء آنکھ، کان، ناک اور دانت میں تو برابری ہی ہے مگر اسلامی قانون میں عزتوں کا بھی کوئی فرق نہیں تو دنیا میں یہ بہت بڑے انقلاب کا پیش خیمہ بنے گا اور سب سے پہلے پاکستان کی بیوروکریسی نے اس کا اعلان کرنا ہے اسلئے کہ جب ہمارا آئین پابند ہے کہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہوسکتی تو یہ کونسا اسلام ہے کہ افتخار چوہدری کی ہتک عزت کا دعویٰ 20ارب ہو اور نعیم بخاری کی بیوی بھی چھن جائے تو اُف نہ کرسکے؟۔اس کو قرآن وسنت کے مطابق نہیں قرار دیا جاسکتا کہ شوہر اپنی بیوی کی ناک کاٹے، دانت توڑے اور کسی کمزور اورغریب سے جو سلوک روا رکھے اس پر قانون کی گرفت نہ ہو۔ ناک کے بدلے جیل کا قیدی بنانا بھی غلط ہے ، ناک کے بدلے میں ناک کاٹی جائے تو کوئی یہ جرم نشہ پی کر بھی نہ کریگا۔
دنیا میں اسلامی قانون سب سے ممتاز ہے اور اخلاقیات کے درس کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے، اس سے بڑھ کر کیا اعلیٰ اخلاق ہونگے کہ حضرت ابوبکرؓ جس رشتہ دار پر احسان کررہا تھا، اسی حضرت مسطح رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہؓ پر بہتان لگایا تھا۔ صحابہؓ سے بڑھ کر جذبہ کس کا ہوسکتاتھا؟ اور حضرت ابوبکرؓ سے زیادہ کس کو تکلیف ہوگی؟۔ پھر احسان جاری رکھنے کا حکم کس قدر اعلیٰ اخلاقی اور انسانی اقدار کا نمونہ ہے۔ قرآن تعصبات کی آگ بھڑکانے کے بجائے عزت،جان اور مال کوکتنا تحفظ فراہم کرتاہے ؟ اور کتنے اعلیٰ اخلاقی قدروں کی ترویج کرتاہے؟۔ غلام احمد پرویز نے سب کا بیڑہ غرق کردیا۔ مولانا الیاسؒ نے تبلیغی جماعت کے ذریعہ اسٹیٹس کو توڑدیا تھا۔ اعلیٰ افسران اپنے ماتحت کیساتھ بستر اٹھاکر گھوم رہے ہوں، ساتھ کھا پی رہے ہوں تو خاکساری اور تواضع پیدا ہوتی ہے۔ سید عتیق گیلانی کے مرشد حاجی عثمان میمنؒ نے بھی اس جماعت میں بہت وقت لگایا تھا، حاجی عبدالوہاب سے پہلے کے بزرگوں میں تھے ۔ حاجی محمد عثمانؒ تبلیغی جماعت کے اندر بھی اسٹیٹس کو کے مخالف تھے۔ عوام کیساتھ اجتماعات میں بیٹھتے اور عوام کیساتھ دسترخوان پر کھاتے ۔ اسی وجہ سے یہ تأثر پیدا کیا گیا کہ ان کی وجہ سے تبلیغی جماعت شخصیت پرستی کا شکار ہوسکتی ہے۔ عوامی اجتماعات میں انکے بیانات پر پابندی لگی، اس صورتحال کا مولانا طارق جمیل کو بھی کافی عرصہ سامنا رہاہے۔ ’’حاجی عثمانؒ کے خلیفہ سرورالنورسوسائٹی گلبرگ کراچی کی جماعت میں بدمعاش قمر ٹیڈی ایک نوعمر لڑکے کو ساتھ لیکرگھمارہا تھا تو عتیق گیلانی نے اسکی شکایت مکی مسجد میں شوریٰ سے بھی کردی کہ تبلیغی جماعت میں لوگ اصلاح کیلئے اپنے بچوں کو بھیجتے ہیں‘‘۔ اگر مولانا الیاسؒ ہوتے تو ہماری تحریک کے بنیادی نکات کو اجاگر کرنے کا ٹاسک دیتے ۔جماعتی اکابرین کو چاہیے کہ مشاورت سے مثبت فیصلہ کریں،ورنہ مساجد پر قبضہ کرنیوالے غنڈے پھرجماعت پر بھی قابض ہونگے محمداشرف میمن

محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن کے روئے پر اجمل ملک ایڈیٹر نوشتہ دیوار کا تبصرہ

نوشتۂ دیوار کے ایڈیٹراجمل ملک نے محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن کے روپے پر تبصرہ کیا کہ: کالا قانون 40ایف سی آرکی کیا حیثیت ہے؟، محترم اچکزئی اس کے ذریعے قبائل کو افغانستان سے الحاق کی دھمکی دیکر اسٹیبلشمنٹ کو بلیک میل کرنیکے چکر میں تو نہیں ؟۔ پیریونس شاہ کے ہمراہ پیر عبدالواحد کی حال میں اچکزئی سے ملاقات ہوئی ، پیر عبدالواحد نے نوشتۂ دیوار سے مطالبہ کیا کہ یہ ہم قبائل سے زیادتی ہے کہ 40 ایف سی آر کو ختم کرکے قبائل کو خیبر پختونخواہ میں ضم کیا جانے لگا تومحمود اچکزئی رکاوٹ بن گئے۔ وفاقی کابینہ نے خیبر پختونخواہ سے الحاق کا اعلان کیا تو مولانا فضل الرحمن نے مخالفت کردی۔سرحد نام انگریز کی سازش تھی، جسے بدلنے کیلئے نوازشریف تیسری بار وزیراعظم کی شرط پر راضی ہوا۔ قبائلی علاقہ کیخلاف کوئی نیا ڈرامہ تو نہیں کھیلا جارہا؟ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان، ہنگو،ٹل، کوہاٹ، پشاور اور دیر پختونخواہ کے سیٹل علاقے قبائل کیلئے مرکز اور سر کی حیثیت رکھتے ہیں ، جہاں کمشنریاں ہیں ، کمشنرکے ماتحت پولیٹیکل ایجنٹ کام کرتا ہے۔ قبائلی علاقوں کو الگ صوبہ بنانے کی بات دُموں کا گلدستہ بنانے کے مترادف ہے۔
محمود خان اچکزئی ومولانا فضل الرحمن کے سیاسی ومذہبی اکابر متحدہ ہندوستان کے حامی تھے، ان کی حب الوطنی پر شک انتہائی لغوبات ہے۔ پاکستان کی مخالفت کرنیوالوں کے اسلام سے محبت پر شک اسلئے کیا گیا کہ انہوں نے اسلام پر حب الوطنی کو ترجیح دی ۔ عبدالغفارر خان،شہید عبدالصمد خان، غوث بخش بزنجو ، حبیب جالب،فیض احمد فیض اور مفتی محمودکی حب الوطنی ان صحافیوں کی سند کا محتاج ہرگز نہیں جو کتوں کی طرح کسی کے ہُش پر پیچھے پڑتے ہیں۔ پرویزمشرف نے کہا کہ عالمی قوتوں کے کہنے اور تعاون سے ہم نے طالبان بنائے ۔ محمود خان اچکزئی کے جرأتمندانہ بیانات اسمبلی کے فلور پرہیں اورجو ببانگِ دہل کہتے تھے کہ ہمارے خفیہ ادارے امریکی سی آئی اے سے زیادہ ہوشیار نہیں ، انکے تعاون سے جہادی گروپوں کی افزائش ملک ، قوم، ملت کیلئے بہت نقصان کا باعث ہے۔ آج ان کی باتیں ہو بہو درست ثابت ہوئی ہیں، جس سے کسی کا کوئی اختلاف نہیں۔
برطانیہ نے برصغیرپاک وہند پر قبضہ کیا تو افغانستان سے ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ کیا۔ ایک طرف متنازعہ کشمیر کا محاذ چھوڑا، دوسری طرف افغانستان سے یہ معاہدہ ایک خاص مدت کیلئے کیا۔ قبائل نے انگریز کیخلاف آزادی کیلئے جتنی قربانی دی، اتنی پورے برصغیر پاک وہند کے تمام سیاسی لوگوں نے بھی نہیں دی ،علماء کافتویٰ غلام ہندوستان کیلئے تھا کہ رہنے سے نکاح ٹوٹ جائیں گے، جس سے قوم پرستوں کے سرخیل عبدالغفار خان نے بھی قبول کرکے افغانستان ہجرت کی تھی۔ قبائل نہ تو افغانستان کا حصہ تھے اور نہ انگریز کی وہ دسترس تھی کہ علماء نکاح ٹوٹنے کے فتوے دیتے۔ قوم پرست کہتے ہیں کہ جاہل علماء کا فتویٰ بالکل غلط تھا ۔مولانا فضل الرحمن کہے گا کہ خانہ بدوشوں پر وہ فتویٰ لاگو نہیں ہوتا۔میرے آباء واجداد اس کی زد میں نہیں آتے، مولانا محمد خان شیرانی قبائل کا سہارا لے گا لیکن اسلامی نظریاتی کونسل میں اس فتوے پر بحث کی جائے جس کی وجہ سے کتنوں کے نکاح باقی نہیں رہے ہونگے؟۔ قبائل نے افغانستان میں قوم پرستوں کے ہیروامیر امان اللہ خان کی حکومت قائم کرنے میں بھی بنیادی کردار ادا کیا جو جرمنی کی مدد سے افغانستان پر قابض ہوا تھا۔ کانگریس کی مدد بھی جرمنی کررہی تھی اسلئے قوم پرستوں پر انگریز دور سے ایجنٹ کا الزام لگتارہا ہے۔ انکا یہ کہنا درست تھا کہ انگریز سے حب الوطنی کی سند ضروری نہیں۔ انگریز گیاتو قبائل نے پاکستان کو دل وجان سے قبول کیا، اگر پاکستان فیصلہ کرتا کہ قبائل کو اپنے سے جدا کرنا ہے، تو بھی یہ واضح حقیقت ہے کہ قبائل افغانستان میں شامل نہ ہوتے۔ افغانی بیچارے خود شورش زدگی کے ہمیشہ شکار رہے ہیں۔ انگریز دور میں قبائل افغانستان کا حصہ نہیں بنے تو آج کیسے بن سکتے ہیں؟۔ سندھ و ہند کی طرح قبائل اور افغانستان بھی الگ تھے ۔سندھ (پنجاب وکشمیرتک تھا) کو ہند کا حصہ قرار دینے کیلئے برطانیہ جیسی عالمی قوت کی ضرورت تھی تو قبائل کو افغانستان سے ملانے کیلئے اس سے بڑی طاقت درکار ہوگی۔روس افغانی قبائلی علاقوں پر قبضہ کرنے میں ناکام رہا، نیٹو بھی ناکامی کا سامنا کر رہاہے۔ پاکستانی قبائلی علاقوں پر منصوبہ بندی سے دہشتگردوں کا قبضہ کروایا گیا مگر قبائل کی اپنی بھی غلطی تھی جس کا خمیازہ وہ بھگت رہے ہیں۔ امریکہ نے دہشتگردوں کو ٹرینڈکیا، حمایت کی فضاء ہموار کی اور وہی پکڑ نے کے بعد ہیرو بناکر چھوڑ رہاہے، جب قبائل میں امریکہ مجاہدین کی تلاش میں آیا تو عبداللہ محسود کو گوانتا ناموبے سے ہیرو بناکر چھوڑ دیا ۔ عبداللہ محسود کے فرشتوں کو پتہ نہ ہوگا کہ افغانستان سے امریکہ نے پکڑا، پھر وہیں چھوڑا کہ پھر پاکستان سے لڑنے کا کیا تُک بنتاہے؟۔ مگرعبداللہ محسود نے شعوری طور سے پاکستان کیخلاف اسلئے خود کش تیار کئے کہ چاچا پرویز مشرف خیر خوشی سے یا بامر مجبوری امریکہ کا اتحادی تھا۔ طالبان کے بڑے مخالف فیصل رضاعابدی نے میڈیا پر بتایا کہ اسلام آباد میں امریکی فوج کیلئے بڑا کمپاؤنڈ تیار ہورہاہے تو یہ طالبان کے حامی مجاہدین ، علماء اور سیاستدان امریکیوں کیخلاف یہاں احتجاج کیوں نہیں کررہے ہیں؟۔ فیصل رضا عابدی کی یہ گفتگو نادانستہ ان طالبان کی حمایت کا ذریعہ ہے جو پاکستان کو نشانہ بنارہے ہیں۔اس لاشعوری جنگ سے چھٹکارا پانے کیلئے ضروری ہے کہ مل بیٹھ کر مسائل پر قابو پائیں۔ جنرل راحیل لاہوری ہیں، عاصمہ جہانگیر، مبشر لقمان فخریہ کہتے ہیں کہ ہم لاہوری ہیں، جنرل ضیاء الحق آرائیں تھے مگر بھٹو کو کیسے ٹانگا؟۔ جنرل قمر باجوہ بہادر جٹ ہیں، ان کی ملنساری کی وجہ بھکر سے تعلق ہے۔ شہباز شریف نے پچھلا الیکشن بھکر سے لڑا مگر وہاں کی کوئی خدمت نہ کی۔ رؤف کلاسرا جیسے یہ لوگ قسمت کے شاکی ہیں۔ دہشتگردوں کو پہلے کبھی ایسا نشانہ نہ بنایا گیا، پاکستان و افغانستان میں جٹ آرمی چیف نے اپنی بات سچ ثابت کرکے 100 سے زیادہ مار دئیے، ٹانک کے دور دراز علاقے پنگ میں عصمت اللہ شاہین کاگروپ مارا مگر ہزار کارنامے کے باوجودآرمی چیف یہ نہیں کہہ سکتے ’’میں بھکری ہوں‘‘ سرائیکی جفاکش ،وفا شعاراور ملنسارلوگ ہیں، مولانا شیرانی کا فوج سے متعلق 9/11 سے پہلے بیان تفصیل سے شائع کیا تووہ قدرے ناراض ہوئے۔ ریاست،قوم اور وطن کو مشکلات سے نکالنے کی ضرورت ہے ۔مولانا شیرانی اسلام اور نوکری کاحق اد کریں ۔اجمل ملک

امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا بہت واضح تصور. عتیق گیلانی کی تحریر

اللہ نے معروف کا حکم و منکر کو روکنے پر امت کو بہترین قرار دیاہے کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنھون عن المنکر’’تم بہترین امت ہو، نکالی گئی ہے لوگوں کیلئے، تم معروف کا حکم دیتے ہو اور منکر سے روکتے ہو‘‘۔ نماز ،روزہ، زکوٰۃ اورحج عبادات ہیں ، یہ معروف ہیں۔ قتل، زنا، شراب ، چوری، ڈکیتی اورجوا وغیرہ منکرات ہیں۔ فقہ میں کتاب الطہارت، کتاب الصلوٰۃ، کتاب الصوم اور کتاب الحج کے علاہ کتاب الحدود بھی ہے۔ حدود وتعزیرات کا تعلق جرائم اور سزاؤں سے ہے۔ یہ بہت بڑی نادانی ہے کہ معروف اور منکر کو خلط ملط کیا جائے۔ معروف و منکر کی تمیز ختم ہونے کی پیش گوئی احادیث میں ہے۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج معروف احکام ہیں کسی کو زبردستی سے معروف پر مجبور نہیں کیا جاسکتا آذان حی علی الصلوٰۃ واقامت قدقامت الصلوٰۃ میں جبر کا عنصر نہیں۔ تبلیغی جماعت نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی بنیاد رکھ دی اسلئے کہ دین میں زبردستی کے تصور کو ختم کرکے تبلیغ، فضائل، تعلیم اور تلقین کو بنیاد بنادیا۔ طالبان نے نماز کے جبر کے تصور سے علماء ومفتیان کے مسلک پر عمل کیا لیکن اسلام کے خمیر سے ناواقفیت کی وجہ سے دین کو نقصان پہنچایا۔
خلافت کے اختلاف سے انصارؓ ومہاجرینؓکے درمیان فتنہ برپاہوتے ہوتے بچ گیا۔ ابوبکرؓ کی خلافت پر اکثریت نے اتفاق کیا لیکن اس اتفاق کے باوجود انصار کے سردار حضرت سعد بن عبادہؓ پر خلافت سے انحراف کی وجہ سے کفر یابغاوت کا کوئی فتویٰ نہیں لگا۔ کم ظرف علماء و مفتیا ن کے پاس علم ودانش اور فقہ و حکمت کا فقدان نہ ہوتا تو خلافت کی اس جمہوری وسعت کو دنیا کے سامنے پیش کرتے کہ اسلام کی اعلیٰ وارفع تعلیمات کا یہ نتیجہ تھا کہ جبر نہیں کیاگیا۔ حضرت سعد بن عبادہؓ نے لُعان کی آیات پر عمل کرنے سے صاف انکار کیا ۔ لعان کی آیات میں وضاحت ہے کہ کوئی اپنی بیوی کو اپنی آنکھوں سے کسی کیساتھ بدکاری کا ارتکاب کرتے ہوئے دیکھے تو اسکے خلاف عدالت میں چار شہادات ان الفاظ سے دے گا اور پانچویں ان الفاظ سے دے گا۔ اس طرح عورت کیلئے جملے لکھے گئے ہیں۔زنا منکر ہے اور قتل بھی منکر ہے۔ زنا کی سزا100کوڑے اورقتل کی سزا قتل ہے۔ بیوی پر غیرت کھانا ایمان کا تقاضہ ہے۔ اس منکر کو جاری چھوڑنا بے غیرتی اور بے ایمانی بھی ہے۔ اس کو ہاتھ سے روکنا یہ ہے کہ علیحدگی اختیار کرلے، حقوق سے محروم کرنا چاہے تو لعان کرے اور حقوق سے محروم نہ کرنا چاہے تو سورۂ الطلاق کے مطابق گھر سے نکال دے۔ بیوی سے زیادہ غیرت تو کوئی کسی اور منکر پر بھی نہیں کھا سکتاہے؟۔ نماز کا چھوڑ دینا گناہ ہے مگر زبردستی سے نماز پڑھنے پر مجبور کرنا غلط ہے،حالت جنابت یا بے وضونماز پڑھ لے گا تو ؟۔نبیﷺ نے اسلام کے اجنبی بننے کی خبر بہت کچھ دیکھ کر دی تھی۔
سعد بن عبادہؓ نے کہا کہ قرآن پر عمل نہیں بیوی کو قتل کردونگا۔ رسول اللہ ﷺ تک جب بات پہنچی تو انصارؓ سے فرمایا کہ تمہارا صاحب کیا کہتاہے؟۔ انصارؓ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ درگزر فرمائیے، یہ بہت غیرتمند ہے، کبھی طلاق شدہ یا بیوہ سے شادی نہیں کی،ہمیشہ شادی کنواری سے کی اور جس کوطلاق دی اس کو کسی اور سے شادی نہ کرنے دی ۔ رسول ﷺ نے فرمایا کہ میں اس سے زیادہ غیرتمند ہوں اور اللہ مجھ سے بھی زیادہ غیرت والا ہے۔(صحیح بخاری)۔ انصارؓ نے گرچہ حضرت سعدؓ کیلئے درگزر کا مطالبہ کیا مگروہ بھی قتل کرنا غیرت کا تقاضہ سمجھتے تھے اور جب وہ سمجھتے تھے تو پھر ان کا کیا قصورہے جو نہ صحابہ ہیں اور نہ قرآن کو سمجھتے ہیں۔بیوی اور لونڈی میں بڑا فرق ہوتاہے، سامنے اور پسِ پردہ میں بھی بڑا فرق ہوتاہے ، یقین اور شک میں بھی بڑا فرق ہوتاہے۔
رسول اللہ ﷺ نے بالکل سچ فرمایا کہ میں سعد بن عبادہؓ سے زیادہ غیرتمند ہوں ، نبیﷺ کو شک ہوا کہ آپﷺ کی لونڈی ماریہ قبطیہؓ سے اسکے ایک ہم زبان کا ناجائز تعلق ہے تو حضرت علیؓ کو حکم دیا کہ اس کو قتل کرو، حضرت علیؓ نے اس کو ڈھونڈا ، تو ایک کنویں میں نہا رہاتھا، جب اس کو باہر نکالا تو اس کا ذکر کٹا ہوا تھا، اسلئے چھوڑ دیا۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ نبیﷺ کی ازواج سے آپؐ کی وفات کے بعد بھی نکاح نہ کیا جائے، اس سے آپﷺ کو اذیت ہوتی ہے۔ رسول اللہﷺ کو اللہ تعالیٰ بھی سب سے زیادہ غیرت والا ہی سمجھتا تھا۔ اپنے احکام کو عملی جامہ پہنانے کی حکمت سے حضرت عائشہ صدیقہؓ پر بہتان کا واقعہ پیش ہوا۔ رسول اللہ ﷺ نے آپؓ کو گھر جانے دیا۔ پھر اللہ نے آپؓ کی صفائی پیش کردی۔ یہ واقعہ محض دکھ اور اذیت پہنچانے کا ذریعہ نہ تھا بلکہ بہت بڑاسبق اور زبردست نکات ہیں۔
1: بہتان ایک منکر ہے ، سزا 80کوڑے ہے۔2: امیر غریب کی عزتوں میں تفریق نہیں۔ 3:گواہی کے بغیر سزا نہیں۔4: بیوی پر فحاشی کا یقین ہو تو گھر سے نکالا جاسکتاہے۔ 5: کسی جھوٹی خبر کو پھیلانے کی غلطی کرنے سے زبان روکی جائے۔6: زنا کار مرد، عورت کی سزا قرآن میں 100 کوڑے ہے۔ 7: بہتان لگانے کی غلطی پر بھی کوئی غریب ہوتو احسان کا سلسلہ جاری ہی رکھا جائے۔ 8: رسول اللہﷺ کو اذیت پر قتل کا حکم نہ دیا۔ 9: چھان بین ہو۔ 10:توراۃ کاحکم نہیں قرآن معتبرہے۔
مسلم اُمہ کابڑا المیہ ہے کہ آیات کو قبول کرنے میں لیت ولعل سے کام لیا جاتاہے۔ ایک معروف اور منکر وہ ہیں جن کو معاشرے میں معروف یا منکر کہا جاتاہے اور دوسرے معروف ومنکر وہ ہیں جن کو قرآن میں معروف ومنکر کہا گیا، آج کسی بڑے آدمی کی بیوی پر بہتان لگایا جائے تو وہ اربوں روپے ہتک عزت ہی کا دعویٰ کریگا ، حالانکہ جسکے پاس بہت زیادہ دولت ہو تو اس کیلئے یہ کوئی سزا بھی نہ ہوگی۔ اور غریب آدمی کیلئے تھوڑا سا جرمانہ ادا کرنا بھی 80کوڑے کھانے سے بڑی سزا ہوگی۔ غریب آدمی کی عزت کو جس دن امیر کی عزت کے مساوی سمجھا جائے گا تو یہ قرآن کا بہت بڑا انقلاب ہوگا۔
اللہ تعالیٰ نے سورۂ طلاق میں بھی کھلی ہوئی فحاشی کے ارتکاب کی صورت میں بیوی کو گھر سے نکالنے اور اس کو خود نکلنے کی اجازت دیدی ۔ انصارؓکے سردار سعد بن عبادہؓ نے قرآن کو سمجھ کر بھی قرآن کے قانون کو معاشرے کے رسم ورواج کے مطابق قبول نہیں کیا تو ان پر کفر کا فتویٰ نہیں لگا، پھر جو ان پڑھ یا قرآنی تعلیمات سے جاہل طبقہ قرآنی آیت کو قبول نہ کرے تو اس پر فتویٰ کیوں لگایا جائے؟ لیکن بیوی بیٹی،یا ماں بہن کو قتل کرنا قرآن کی آیات سے انحراف ہے۔ مساجدو مدارس کے ارباب محراب ومنبر خود بھلے اس پر عمل کریں یا نہ کریں لیکن عوام کو قرآن سے تو آگاہی دیں۔شاید کوئی عمل کرہی لے۔
پاکدامن عورت پر بہتان کی سزا80کوڑے کی طرح نہ سہی مگر بہتان کی سزا چند کوڑے بھی مقرر کئے جائیں اور ٹی وی پر اس کا نظارہ دکھایا جائے تو ہماری قوم کافی حد تک ادب وآداب سیکھ جائے گی۔ بولنے سے پہلے تولنے کی عادت پڑیگی ۔ لیڈر حضرات قوم کو اخلاقیات کی تعلیم دینگے۔ کوڑوں کی سزا سب کیلئے برابر اسلئے ہوتی ہے کہ درد سب کو ہی ہوتاہے اور بے عزتی سب کو بری لگتی ہے۔ جب سزا کا تصور ہوگا تو اس قوم کو مہذب بننے میں بالکل بھی دیر نہیں لگے گی۔ قرآن کی روشنی میں ایک ضابطہ اخلاق پر سب متحدو متفق ہوجائیں تو دنیا میں ہماری امامت مانی جائیگی۔لندن میں جیو ٹی وی چینل کے مطابق اے آر وائی کے پاس جرمانے کی رقم نہیں تھی تو چینل بند کردئیے گئے۔ اگر کوڑوں کی سزا ہوتی تو دنیا کو دکھادیا جاتا کہ کوڑے لگ رہے ہیں،کوڑے کھانے کیلئے پیسے ہونے کی ضرورت تو نہیں ہوتی۔ اے آر وائی بی بی سی پر کیس کردے کہ ہمارے وزیراعظم کی فیملی کو بدنام کیاہے اگر ثبوت نہ ہوں تو جرمانے کی رقم سے اپنا جرمانہ بھر لیں اور اگر ثبوت مل گئے تو اے آر وائی اپنے مقاصد میں بھی سرخرو ہوجائے گی۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یہ بھی فرمایا کہ ’’ احسن طریقہ سے مجادلہ کرو، اس کی وجہ سے جس شخص کے ساتھ عداوت ہو وہ بھی ایسا ہوجائیگا کہ گویا وہ آپ کاگرم جوش دوست تھا‘‘۔ یہ بھی فرمایاہے کہ ’’ہم حق کو باطل پر دے مارتے ہیں، جس سے اسکا بھیجا نکل جاتاہے اور وہ دفعۃً مٹ جاتاہے‘‘۔ قرآن میں دونوں طرزِ عمل کی ایک ایک بہترین مثال ملاحظہ فرمائیں تاکہ دماغ کی شریانیں کھل جائیں اور ہٹ دھرم و کٹر حجتی لوگوں کو حقائق سمجھنے میں کوئی بھی دشواری بالکل بھی نہ رہے۔
مشرک جوڑے میاں بیوی کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ نے اعلیٰ وارفع تہذیب وتمدن ،ادب اور اخلاق کا بہترین و شاندار طرزِ تحریر کا بے مثال نمونہ پیش فرمایا ہے کہ ’’ جب اس نے ڈھانپ لیا تو اس کو حمل ہوا، خفیف سا حمل، پھر جب وہ بھاری ہوگئی تو اللہ سے دونوں نے دعا کی کہ ہمارے رب ہمیں صحت مند بچہ عنایت فرما، جب اللہ نے انکو صحت مند بچہ دیا تو اللہ سے شرک کرنے لگے‘‘ مشرک جاہلوں کیلئے اللہ نے جن کلمات سے ازدواجی عمل کا تذکرہ فرمایاہے ،اس سے زیادہ اچھے الفاظ میں میاں بیوی کے درمیان تعلق اور بچے کی پیدائش کا تذکرہ کرنا بالکل بھی ممکن نہیں ہے۔
اب آئیے اور دیکھئے کہ مسلمان جب تہذیب وتمدن ، اخلاقیات اور انسانیت کے دائرے کا ادراک رکھنے کے بجائے انتہائی جہالت کا طرزِ عمل اپنانے کی طرف راغب ہوجائے تو اسکو کیسے بری طرح سے لتاڑا ہے، اسکے ضمیر کو پاش پاش کردیا، اس کی روح کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے محرمات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’ تمہارے پر حرام ہیں تمہاری مائیں، تمہاری بیٹیاں۔۔۔ بہن، بھانجی، بھتیجی، خالہ وغیرہ کا ذکر کرتے ہوئے بیوی کی مائیں اور تمہاری وہ سوتیلی بیٹیاں جن کی پرورش تمہارے گھروں میں ہوئی ہے جن کی ماؤں سے تم نے نکاح کیا ہے اور ودخلتم بھن جنکے اندر تم نے ڈالا ہے اور اگر تم نے ان کی ماؤں میں نہیں ڈالا ہے تو تمہارے لئے حلال ہیں‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے ڈالنے کے الفاظ کا انتخاب اسلئے فرمایا ہے کہ ایک بدبخت شخص کسی طلاق شدہ یا بیوہ سے نکاح کرلے اور اس کی چھوٹی بچیاں ہوں، جب وہ جوان ہوجائیں تو اس کی نیت خراب ہوجائے کہ وہ پرائی بچیاں ہیں، ان سے نکاح یا ناجائز تعلق کے حرص میں پڑ جائے، اسلئے ان الفاظ سے روکنے کی بات کی گئی ہے۔ چند سال پہلے اس طرح کا ایک واقعہ شاہ فیصل کالونی کراچی میں پیش آیا، خاتون نے اپنے خاوند کے ٹکڑے کرکے اس کو بڑے دیگ میں ڈال کر مرچیں اور مصالحے ملا کر پکایا تھا۔
جہاں کوئی بڑی خسیس اور ہلکی قسم کی حرکت کا مظاہرہ کرے، وہاں نرم الفاظ میں تلقین اور ارشاد کی کوشش اپنے ساتھ بھی دھوکہ ہے اور معاشرے کیساتھ بھی انصاف کا یہ تقاضہ نہیں ۔ اگر سخت الفاظ میں بات سمجھائی جائے تو پھر غلط حرکت سے بھی مخاطب بہت پرہیز کرتا ہے۔ بقول اقبالؒ
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر
مولانا طارق جمیل نے کہا ’’ جس زمین پر سجدہ ادا نہ ہو، اس سے بھی بڑا کوئی جرم ہے؟۔ زنا کرنے کو گناہ سمجھتے ہیں نماز کا چھوڑ دینا زنا سے بڑا جرم ہے۔ رشوت کو گناہ سمجھتے ہیں، نماز کا چھوڑ دینا رشوت سے بڑا جرم ہے ۔ قتل کو بڑا گناہ سمجھتے ہیں ، نماز کا چھوڑ دینا قتل سے بڑا جرم ہے۔شیطان نے سجدے ہی کا توانکار کیا تھا، شیطان نے کوئی زنا کیا تھا؟ کوئی شراب پی تھی؟ کوئی جوا کھیلا تھا؟ کیا کیا تھا؟ کوئی شرک کیا تھا؟ شیطان ۔۔۔‘‘۔ یہ تقریرجماعت کی روح ہے،جو مجرموں کی پناہ گاہ ہے اور یہ عیسائی مشنری کیلئے اثاثہ ہے ۔ مولانا الیاس قادری نے گناہ سے بچنے کیلئے ایک نیا مدنی پھول متعارف کرایاکہ باتھ روم میں گھر کے افراد مرد و خواتین ایک چپل استعمال کرتے ہیں جو گناہ ہے۔ اگر کموڈ ایک ہو تو ۔۔۔ علامہ شاہ تراب الحق قادری نے کہا تھا کہ پاخانہ کرنے کے بعد جو پھول نکلتا ہے اگر دھونے کے بعد سکھا نہ لیا اور یہ واپس چلا گیا تو روزہ ٹوٹ جائیگا۔ بہار شریعت میں لکھا ہے کہ عورت میت کا عضوتناسل اپنے فرج میں داخل کرے تو غسل واجب نہیں‘‘۔ یہ خرافات ۔۔۔ اسلام کے نام پر ہیں۔
معروف اور منکر ماحول عوام کے سامنے بنتاہے۔ تبلیغی جماعت کا ماحول ایسا ہے کہ نماز چھوڑ نے کو تمام گناہوں ، جرائم اور غلط کاریوں سے زیادہ بڑا سمجھا جاتاہے۔ میرے دادا سید محمد امیر شاہ باباؒ کے بارے میں میری والدہ نے بتایا کہ زندگی میں ایک نماز قضا ہوگئی تھی تو اس پر بہت زیادہ خفا تھے اور بہت روتے تھے کہ پکڑ ہوئی تو کیا حشر ہوگا؟۔ اس وقت تبلیغی جماعت کا وجود بھی نہیں تھا، دادا سے بڑے عالم اور اللہ والے پردادا سید محمد حسن شاہ عرف بابوؒ تھے،ان سے زیادہ انکے پرداداسید یوسف شاہ کے پردادا حضرت سیدشاہ محمود حسن دیداریؒ تھے ، ان سے زیادہ انکے والد سید محمدابوبکر ذاکرؒ اور ان سے زیادہ انکے والد حضرت شاہ محمد کبیرالاولیاءؒ تھے، ان سے زیادہ ہمارے چوبیسویں پشت میں حضرت سید عبدالقادر جیلانیؒ تھے، ان سے زیادہ حضرت امام حسنؓ اور ان سے زیادہ امام الاولیاء حضرت علی کرم اللہ وجہ تھے۔ صحاح ستہ کی حدیث ہے کہ رسول ﷺ فجر کی نماز کی تلقین کیلئے حضرت علیؓ کے پاس گئے تو حضرت علیؓ نے عرض کیا کہ جب اللہ سلادیتاہے تو پھرہم کیا کرسکتے ہیں؟۔ جس پر نبیﷺ نے اپنے زانو مبارک پر ہاتھ مار کر فرمایا کہ ’’ ان الانسان اکثر شئی جدلا۔ بیشک انسان اکثر باتوں میں جھگڑالو ہے‘‘۔
امام حسنؓکے بارے میں نبیﷺ نے فرمایاکہ ’’یہ میرا بیٹا سید ہے اسکے ذریعہ اللہ امت کے دو بڑی جماعتوں میں صلح کرادیگا‘‘۔ امام حسنؓ کی اولاد میں سے ایک اہلبیت کی بھی نبیﷺ نے پیش گوئی فرمائی تھی۔ حضرت عبدالمطلب نے نبیﷺ کے بارے میں پیشگوئی کی تھی اور حضرت ابوطالب، عبدالمطلب نے ایام جاہلیت میں اہم کردار ادا کیا۔ ہاشم سے اسماعیل ؑ اور ابراہیمؑ تک ایک مبارک شجرہ نسب تھا۔ ابوطالب کے بارے میں کہا جاتاہے کہ حضرت علیؓ کو حکم دیا تھا کہ رسول اللہﷺ کیساتھ بھرپور معاونت کریں، ایک دن نماز پڑھتے دیکھا تو ابوطالب نے نماز کی دعوت پر کہا کہ’’ خدا کی قسم مجھ سے ایسے چوتڑ نہیں اٹھائی جائے گی‘‘۔ میرے والد پیر مقیم شاہ نے چندوں کے بغیر اپنے خرچہ سے عالی شان مسجد بنوائی تھی، نماز کے بارے میں کہتے تھے کہ’’ پڑھنا اچھی بات ہے لیکن نماز کے چھوڑ دینے سے اللہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا، مگر کسی انسان کی کوئی ضرورت ہو تو اس کو پورا نہ کرنے پر اللہ نہ چھوڑے گا، اسلئے کہ اللہ خود مدد کیلئے نہیں اترے گا‘‘۔ میں بذاتِ خود ایسی کیفیت سے گزرا ہوں کہ ہر حرکت ، سانس اور قول وفعل کو اسلام کے مطابق کرنا چاہتا تھا لیکن وقت کیساتھ بہت سی غلط فہیماں دور ہوگئیں۔ اسلام کے بنیادی احکامات سے روگردانی کرکے چھوٹے چھوٹے خود ساختہ مسائل میں الجھنا دھوکہ ہے۔اس دھوکہ سے نکالنے کیلئے سخت زبان استعمال کرنی پڑتی ہے ورنہ مذہبی طبقے بیچارے سیدھے ہیں۔
ٹانک کے قرب و جوارمیں ایک 18سالہ دوشیزہ نے دعویٰ کیا کہ وہ لڑکا بن گئی ہے۔وہ ہندکو اسپیکنگ اور خاندان سید کہلاتا تھا۔ بایزید انصاری کی اولاد میں ایک شخص نے اس پر اپنی دکان سے مٹھائیاں نچاور کردیں۔ ٹانک سے اسلام آباد،لاہور اور کراچی تک عوام نے اس کا استقبال کیا اور اخبارات میں بڑی شہرت ملی۔ حکومت نے اسکا میڈیکل معائنہ کرنے کیلئے ڈاکٹروں کی ٹیم تشکیل دی تو اس نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ یہ اس کی توہین ہے۔ وہ زنانہ لباس ہی پہنتی تھی اور اپنے سینے کو دوپٹے سے چھپاتی تھی۔ لوگ اس کو ولی اور بہت بڑی صاحب کرامت سمجھ کر دیدار کو ترستے تھے۔ میرے والد صاحب نے کہا کہ یہ بکواس کرتی ہے۔ میڈیکل ٹیم پر کہا کہ عوام کے سامنے پیشاب کرلے تو پتہ چل جائیگا کہ اس کی دھار کہاں تک جاتی ہے۔ لوگوں نے پوچھاکہ کیا اللہ ایسا نہیں کرسکتاہے تو والد صاحب نے کہا کہ اللہ کرسکتاہے مگر کرتا نہیں یہ اس کی عادت نہیں ۔ لوگوں کو لگتا تھا کہ والدصاحب گستاخانہ لہجہ استعمال کرکے برا کررہے ہیں مگر بعد میں پتہ چلا کہ فراڈ ہے، اس نے اپنے منگیتر سے جان چھڑانے کیلئے ایک ڈرامہ کیا اور اس کے نتیجے میں بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ پشتو گانے کا ایک شعر ہے کہ ’’گپ لگار ہا تھا، گپ شپ میں بات سچی ہوگئی اور میری محبت گئی اور دنیا میں مشہور ہوگئی‘‘۔
دوشیزہ کا بھانڈہ پھوٹا کہ عورت ذات نے شادی کرکے بچوں کو جنا ۔ مولانا طارق جمیل نے تقریر سے مخصوص مذہبی طبقے کو خوش تو بہت کیا، جن کی آنکھوں سے پردہ اٹھنے میں شاید دیر لگے مگر خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ، اسکی حالت اس دوشیزہ سے قطعی مختلف نہیں ۔افغانستان کے امیر امان اللہ خان کی حکومت1919 ؁ء سے 1929 ؁ء تک رہی۔ پلاننگ میرے دادا سید محمدامیر شاہ باباؒ کے ہاں ہوئی تھی، پیر سعدی گیلانی المعروف شامی پیر جرمنی کے تعاون سے قبائل کو اٹھاکر افغان حکومت بدلنا چاہ رہا تھا۔ شروع میں علماء نے عوام کو اٹھاکر جلسے جلوس کئے کہ یہ انگریز میم ہے، کیونکہ شامی پیر کی عمرکم اور داڑھی نہ تھی ،جب بیٹھ کر بات ہوئی تو شامی پیر سگریٹ کے کش لگاکر دھواں علماء کی داڑھیوں میں چھوڑ رہا تھا۔ پیسہ دیکھنے کے بعد علماء نے اس کو مجاہد، عالم اور پیر طریقت سب کچھ مان لیا، جیسا آج علماء سیاستدانوں کو بھی مان لیتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن خود کوحضرت ابرہیمؑ اور موسیٰ ؑ کا جانشین اور نوازشریف کو نمرود و فرعون کا جانشین کہتا تھا۔ اب پنجاب کے شیروں سے پختونخواہ کے چوہوں کو ڈرانے کی بات کرتاہے، میرے دادا امیرشاہ باباؒ سے شامی پیر نے کہا تھا کہ آپ بڑے ہیں ،میری شہرت زیادہ ہے ،اگر جانشینی قبول کرلو، تو خلقِ خدا کو آپ سے استفادہ ہوگا، دادا نے کہا :’’اپنے گناہ اللہ سے بخشوا دوں تو بہت ہے آپ کی خلافت کے گناہ کا بوجھ میں نہیں اٹھا سکتا ‘‘۔ پیرشامی دوبارہ امیرامان اللہ خان کی حکومت کیلئے آئے لیکن انگریز نے لشکر پر بمباری کردی۔ شامی پیر کو واپس جاتے ہوئے گرفتار کیا اور داڑھی مونڈھ کر اخبار میں تصویرشائع کی۔ بعض مریدبرگشتہ ہوئے بعض نے کہا کہ ہم نے کچھ دیکھ کر بیعت کی تھی۔
وزیرستان میں تبلیغی جماعت آئی تو پہلی حمایت ہمارے خاندان سے ملی کہ ’’یہ دین کا کام ہے‘‘۔ ہماری مسجد کے امام مولانا اشرف خان جو بہت نیک آدمی ہیں، مولانا الیاسؒ سے بھی ملے تھے، پٹھانوں میں رسم ورواج اور پرانے معاملے جوں کے توں تھے، دارالعلوم دیوبند کے فضلاء زبان کھولنے کی جرأت نہیں رکھتے تھے۔ دارلعلوم دیوبند کے ایک فاضل مولانا ناظم کسی کے آگے نماز کی امامت نہ کرتے اور نہ ہی کسی کے پیچھے نماز پڑھتے اور میرے چچا سید محمدانورشاہ ؒ نے بتایا کہ وہ تبلیغی جماعت کے بارے میں کہتے تھے کہ ’’ اور کچھ ان کیساتھ نہیں کرنا چاہیے ، بس نقدی، گھڑی اور بستر چھین کر چوتڑ پر لات مار کر گالی دیکر کہنا چاہیے کہ اپنے گھر جاؤ‘‘۔ مولانا الیاس ؒ کے واحد خلیفہ مولانا احتشام الحسن کاندہلویؒ تھے، جنہوں نے’’موجودہ پستی کا واحد علاج‘‘رسالہ لکھا جو تبلیغی نصاب میں شامل ہے ،جسمیں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے حوالہ سے امت کو توجہ دلائی گئی ہے۔ مولانا یوسفؒ مولانا الیاس ؒ کے صاحبزادے تھے لیکن جماعت سے پہلے انکا کوئی تعلق نہ تھا، انکی وفات کے بعدمولانا انعام الحسنؒ امیر بنائے گئے، مولانا احتشام الحسنؒ نے بہت جلد تبلیغی جماعت کے کام کو فتنہ قرار دیا۔ مولانا زکریاؒ بھی آخرکار مخالف ہوگئے ۔ اب مولانا الیاسؒ کے پڑ پوتے مولانا سعد بستی نظام الدین بھارت میں تبلیغی جماعت کے عالمی مرکز کے امیر تھے۔ حاجی عبدالوہاب کی طرف سے ان کے کچھ مخالفین کو شوریٰ میں شامل کیا گیا ، جس کی وجہ سے وہاں دارالعلوم دیوبند سے فتویٰ لیا گیا، دارالعلوم دیوبند والے پہلے ہی نالاں تھے، وہاں سے تبلیغی جماعت کے کام کی عمومی صورتحال کے خلاف فتویٰ آیا، اس قسم کا فتویٰ دارالعلوم کراچی سے مفتی تقی عثمانی اور مفتی رفیع عثمانی پہلے بھی دے چکے تھے۔جامعہ بنوری ٹاؤن کے مہتم ڈاکٹر حبیب اللہ مختارؒ کو شہید کیا گیا جو مسجد میں تبلیغی جماعت سے قرآن کے درس پر فیصلہ کرکے آئے تھے۔ مفتی تقی عثمانی کو بھی درسِ قرآن پر کہا گیا تھا کہ تم دین کے کام میں رکاوٹ بن رہے ہو، جس کی ریکارڈنگ نیٹ پر موجود ہے۔
مولانا سرفراز صفدر ؒ کے بھائی صوفی عبدالحمیدؒ نے ’’ مولانا عبیداللہ سندھی اور انکے علوم وافکار‘‘ میں لکھاکہ ’’مولانا الیاسؒ کا خلوص شک سے بالاتر ہے مگر اب اس جماعت پر منافع خور ، اسمگلر اور سودی کاروبار کرنے والوں کا قبضہ ہوگیاہے ، جو اپنا مذموم مقصد پورا کررہے ہیں‘‘۔ ڈاکٹر حبیب اللہ مختارؒ کے والد تبلیغی جماعت کے اکابرین میں تھے لیکن انہوں نے ایک عربی عالم شیخ عبداللہ ناصح علوانؒ کی کتاب ’’ مسلمان نوجوان‘‘ کا ترجمہ کیا جس میں کہا گیا ہے کہ ’’ ایک جماعت مکی دور کا دعویٰ کرتی ہے لیکن یہ مکی دور اور اسلام دونوں کو نہیں سمجھتے۔ مکی دور تو اسلام کا مشکل ترین دور تھا جس میں باطل کے عقائد کو چیلنج کیا گیا اور مدنی دور میں اسلام کا سیاسی نظام پایۂ تکمیل کو پہنچا، اسلام میں پورے کا پورا داخل ہونے کا حکم ہے، اس جماعت پر مکی دور نہیں مرتد ہونے کے دور کا اطلاق ہوتاہے‘‘۔ (مسلمان نوجوان)۔
مولانا طارق جمیل اپنی تقریر میں قرآن کے منشور کو بیان فرمائیں اور حقوق کے حوالہ سے عوام کو شعور دیں تو لوگ بدلیں گے، رشوت خوروں…..وغیرہ. کوتسلی نہ دیں۔نماز ، روزہ ، زکوٰۃ اور حج معروف احکام ہیں انکی ترغیب دی جائے اور زبردستی سے ان پر مجبور کرنا بذاتِ خود منکرہے، رسول ﷺ مکی دور میں منکرات کو ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہ رکھتے تھے تو زبان سے روکنا دوسرے درجے کا ایمان نہ تھا ۔ ہاتھ سے منکر روکنے کی طاقت ہو اور ہاتھ سے نہ روکے تو زبانی جمع خرچ پراسکا ایمان تیسرے درجے کا بھی نہیں۔ ظالم بادشاہ کے سامنے حق کی بات افضل جہاد ہے۔ حضرت عیسیٰ ؑ نے پوری زندگی اور نبی ﷺ نے مکی دور میں ہاتھ سے جہاد نہیں کیا۔خود کش حملوں کا مسلمانوں کیخلاف استعمال سے اسلام نافذ ہوسکتا تو قرآن و سنت میں اسکی تلقین ہوتی۔طالبان اور تبلیغی جماعت علم سے روشناس ہوں۔
ہمارے عزیز پیر کرم حیدر شاہؒ کو مولانا ابولکلام آزادؒ نے اپنے ہاتھ سے قرآن کی اپنی تفسیر دی تھی۔ وہ فوج میں تھے، برطانیہ نے برصغیر پاک وہند کی آزادی کیلئے جنگِ عظیم جرمنی سے جیتنے کی شرط رکھی تھی اور پیرکرمؒ اس وقت وہاں گئے ، برصغیرفوج کی قربانی سے آزاد ہوا۔ پیرکرم شاہ ؒ کو لحد میں اتارا گیاتوان کے ایماندار ساتھی عبدالکریم قصوریہ چیف سیکرٹری پختونخواہ نے بتایا کہ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ’’ لوگ بہت غلط حرکتوں میں مصروف تھے مگر پیرصاحبؒ نے نماز، تلاوت اور ذکر کے علاوہ اورکوئی شغل نہیں کیا‘‘۔ وہ اپنے ساتھ ٹیپ ریکارڈر بھی لایا تھا، مقامی مولوی سے آواز ٹیپ ہونے کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ ’’یہ عقیدہ رکھنے سے انسان کافربن جائیگا‘‘۔ جب مولوی کو اس کی آواز سنائی تو اس نے کہا کہ ’’یہ جادو ہے‘‘۔ اسلام نے مولوی کو بے شعور نہیں بنایا تھا لیکن مولوی قرآن و سنت سے جاہل تھا۔ قرآن میں بولنے والی کتاب اور تسخیرِ کائنات کا ذکر ہے اور حدیث میں ایسے اٰلہ کا ذکرہے کہ ’’آدمی بیوی کے بوٹ کے تسمہ سے چیزچپکا دیگاتو شام کو ریکارڈ دیکھے گا‘‘ یہ صحاح ستہ کی حدیث ہے۔
پیر کرم حیدر شاہؒ کا نادان توتلا پوتا زبیر تبلیغ میں گیا،بیان سیکھتے اٹک اٹک کر ہرچیزکو اللہ کی تخلیق کہا کہ’’ ٹریکٹر کو بھی اللہ نے پیدا کیا ‘‘ جس پر سامعین ہنسے، غلطی کے احساس پر تبلیغی اکابرکوگالی دیکر بھاگا ۔ مفتی اعظم مفتی شفیعؒ نے جاندار کی تصویر کے شرعی احکام میں لکھا کہ ’’مزدورجو مکان تعمیر کرتے ہیں یہ بھی اللہ کی تخلیق میں مداخلت ہے مگرمعاف ہے‘‘ ۔کیازبیر زیادہ ہوشیار نہیں؟۔مولانا فضل الرحمن بینظیر کی حکومت میں شامل ہوا، تومیرا چھوٹا معذور پاگل بھتیجا عمران کہتا:’’ انکل(پیر نثار) سے ڈر لگتا ہے ورنہ مولانا کو بم سے اڑاتا، پھر اسکا رومال، واسکٹ اور جوتے بینظیر کو دیتاکہ تبرکات باپ کی قبر پر رکھ لو‘‘۔ جمعیت کے ضلعی امیر مولانا عبدالرؤفؒ نے مولانا فضل الرحمن سے لڑنا چاہا، میں نے روکا تو کہا :’’ آپ نے ہماری آنکھیں کھولیں، مفتی محمودؒ اور مولاناہزارویؒ نے بھی اسلام آباد میں پلاٹ لئے۔ عتیق گیلانی

اسلامی منشور دنیا بھر کے حکمرانوں اور عوام کے سامنے پیش کرنے کی جسارت کی جائے. عتیق گیلانی

اسلامی منشور مسلم اُمہ کو پستی سے نکال کر عروج پر پہنچادے توانسانیت جمہوری بنیاد پر ہماری امامت پر فخر کریگی۔ امریکہ میں مسجد جلادی گئی تو یہودیوں نے اپنی عبات گاہ اس وقت تک دیدی جب تک مسجد کی تعمیر مکمل نہ ہو۔ اسرائیل میں مسلم ممالک پر پابندی کیخلاف مظاہرہ ہوا مگر سعودیہ اور عرب امارات نے امریکی پابندیوں کا خیر مقدم کیا ،یہ مجبوریاں ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کیخلاف ناک کے نتھنے سے آواز بھی نہ نکالی کہ ’’ حافظ سعید کو نظر بند کیا گیا‘‘، اگر نظر بند نہ کیا جاتا تو سعودیہ کے ہاں میں ہاں اس نے ملانی اورناک کٹوانی تھی۔ کتنے بے گناہ افراد خاتون عافیہ صدیقہ سمیت امریکہ کے حوالے کئے؟،ریاست کی بغل کا حافظ سعید بلکہ مولانا مسعود اظہربھی نہ مانگا گیا، امریکی سی آئی اے اپناکھیل کھیل رہی ہے ۔ بقول اقبال جو چھپا دے نظروں سے تماشۂ حیات،خیر اسی میں ہے تاقیامت رہے مؤمن غلام،( ابلیس کی مجلس شوریٰ)۔ اسامہ ، ریمنڈ ڈیوس بڑی بات نہ تھی توشکیل آفریدی کیا ہے ؟۔یہ تو ابتداء عشق ہے روتاہے کیا؟ آگے آگے دیکھئے ہوتاہے کیا؟۔
اسلامی منشور دنیا بھر کے حکمرانوں اور عوام کے سامنے پیش کرنے کی جسارت کی جائے۔ 1: قرآن میں توراۃ کے حوالے سے تصدیق ہے کہ ’’ جان کے بدلے جان، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت، آنکھ کے بدلے آنکھ اور زخموں کا قصاص ہے‘‘۔ جب غریب امیر، مرد عورت، کمزور طاقتور، شریف و رذیل، چھوٹے بڑے، حاکم و محکوم اور ہر قسم کے لوگوں میں برابری کی بنیاد پرقانون سازی ہوگی تو دنیا میں سکون آجائیگا۔ قرآن کا فطری حکم جو توراۃ میں تھا۔ اللہ نے اس سے انحراف کو ظلم قرار دیا اور ہم کھلم کھلا منحرف ہیں تو دنیا میں ہمارے حکمران، ریاستیں اور عوام ذلیل و خوار ہونگے ۔دنیا بھر میں مسلمانوں کیلئے جلوس نکل رہے ہیں اور ہم ٹھنڈے پڑے ہوئے ہیں۔ 2: قرآن میں چور مرد اور چور عورت کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے ۔ پاکستان میں بادشاہی کا خواب دیکھنے والا کہتا ہے کہ چوری ثابت ہوگئی تو گھر چلا جاؤں گا۔ ہاتھ کاٹنے کا قرآنی قانون نافذ کیا تو آئین میں62اور63کے دفعات میں صادق اورامین کیلئے زیادہ غم کھانے کی ضرورت نہیں ہوگی ۔ جب ہاتھ کٹا ہو گا تو عوام کو دھوکہ دینے کیلئے تقریروں میں ہاتھ ہلاکر اشارے بھی نہ ہوسکیں گے۔ جمہوری نظام غیر اسلامی نہیں لیکن کرپشن کرنیوالے قانون کی پابندی کا بھی پاس نہیں رکھتے ۔…‘‘ 3: غریب اور امیر کی عزت برابر ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ پر بہتان لگانیوالوں کو وہی سزا کا حکم سنایا گیا ، جو ایک عام پاکدامن خاتون کے برابر تھا۔ ہماری عوام اور عدالتوں میں طاقت ور اور کمزور کی عزتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کسی کی عزت اربوں میں اور کسی کی لاکھوں میں بھی نہیں ہے۔ وہ عزت اللہ کی قسم عزت نہیں جس کی دنیا میں کوئی قیمت لگے۔ قرآن کے مطابق 80کوڑوں کی سزا دی جائے تو امیر غریب کی عزت میں فرق نہیں ہوگا اور سزا بھی دونوں کیلئے برابر ہوگی۔ امیر کیلئے رقم کی ادائیگی بڑی سزا نہیں لیکن غریب کیلئے رقم بڑی سزا ہے۔۔۔۔۔۔۔.‘‘ 4: رضامندی سے زنا کی سزا قرآن میں100کوڑے ہے۔ جس میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کی کوئی تفریق نہیں ۔ حضرت عمرؓ کے دور میں اگر کوڑوں کی سزا ہوتی توگورنر مغیرہ ابن شعبہؓ کو 100کوڑے سے بچانے کیلئے گواہوں کو80،80کوڑے مارنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ اس واقعہ پر قانون سازی اور فقہی اختلافات نے اسلام کو اجنبیت کی طرف دھکیل دیا ہے۔ مغیرہ ابن شعبہؓ کیساتھ ام جمیل پکڑی گئی ۔ ابولہب کی بیگم کا نام ام جمیل تھا اور اگر یہ بیوہ تھی اور باقاعدہ شادی کیلئے دونوں رضامند نہ تھے تو وقتی طور پر متعہ بھی کرلیتے۔ متعہ پر فقہ میں حد نہیں ۔ سعودیہ نے بھی مسیار کے نام پر متعہ کی اجازت دی اورعلیؓ نے فرمایا کہ ’’ عمرؓ متعہ پر پابندی نہ لگاتے توقیامت تک کوئی زنا نہ کرتا سوائے بد بخت کے‘‘۔پولیس اشارے پر دہشتگرد نہ رُکتا توبات تھی۔ طلاق شدہ لڑکی کی ماں نے بتایا کہ تین سال سے دوستی تھی، شادی شدہ لڑکے سے سعودی متعہ مسیار ہوتا تونہ بھاگنا پڑتااورنہ مرنایامارنا پڑتا۔ پولیس کی حوصلہ شکنی کی جائے تو دہشت گردوں کا حوصلہ بڑھے گا۔ 5: مغرب میں نکاح کے قوانین اس قدر سخت ہیں کہ باقاعدہ شادی کے بجائے گرل فرینڈ کو ترجیح دیتے ہیںیا ایگریمنٹ کرلیتے ہیں جس کی قانونی حیثیت متعہ کی ہے۔ اسلامی قانونِ نکاح کو دنیا کے سامنے لایا جائے تو مغرب قرآن کو قبول کرنے سے ذرا بھی ہچکچاہٹ نہیں کریگا۔ پاکستان کے نکاح کے فارم میں عورت کو طلاق دینے کا حق حیلہ اسلام سے دوری کا نتیجہ ہے ۔ قرآن کے مطابق یہ قانون دنیا کے سامنے پیش کیا جائے کہ باہمی رضا سے حق مہر شوہر پرفرض ہے، عورت کی طرف سے خلع کا فیصلہ ہو تو جو کچھ بھی عورت کو دیا ہو ، اس کو اس غرض سے روکنا قانونی طور سے غلط قرار دیا جائے کہ دئیے مال میں سے کچھ واپس لے۔ چاہے حق مہر کے علاوہ ہو۔ یہ تصورہی قرآن کے خلاف ہے کہ عورت شوہر کی ملکیت بن جاتی ہے،جس کو رد کرنا ضروری ہے۔(النساء: آیت19) 6: تین طلاق کی ملکیت کے غلط تصور کو بھی حرفِ غلط کی طرح معاشرے سے ختم کیا جائیگا۔ یہ کیا منطق ہے کہ شوہر ایک طلاق دے اور عدت کے بعد عورت دوسری جگہ شادی کرلے ۔ وہاں سے طلاق کے بعد یہ بحث کہ شوہر پہلے سے موجود 2طلاق کا مالک ہوگا یا نئے سرے سے 3طلاق کا مالک ہوگا؟۔ یہ عجوبہ غیرفطری ہے کہ ایک طلاق کے بعد عورت دوسری شادی کرلے اور پہلا شوہربھی 2طلاق کا مالک رہے، قرآن نے شوہر کو طلاق کے بعد واضح خالی عدت کا حقدار قرار دیا ۔ 7: میاں بیوی کے حقوق، نکاح و طلاق اور متعہ کے درست تصورسے عالم اسلام اور عالم انسانیت میں عصمت فروشی کے دھندے ختم ہو نگے۔ قرآن نے لونڈی بنانے کو آل فرعون کی روایت قرار دیا لیکن معاشرے کی روایت عارضی قانون کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ حد اور تعزیر میں یہ فرق ہے کہ تعزیر کی سزا حکمران کی طرف سے قانونی ہوتی ہے جس میں کمی بیشی کی گنجائش ہے مگر اللہ نے جو حد مقرر کی، اس سزا میں کمی بیشی نہیں ۔ زنا کیلئے 100کوڑے ہیں اور اگر دومرد آپس میں بدکاری کریں تو انکو اذیت دینے کا قرآن میں حکم ہے اور اذیت کیلئے حکومت قانون سازی کرسکتی ہے۔ 8:اللہ نے جہاں لونڈی سے ازدواجی تعلق کی اجازت دی تو وہاں ان کی شادی کرانے کا حکم دیا۔ جس سے روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ معاشرے کی اس برائی کو برداشت بھی کیا گیا اور اس کی اصلاح کیلئے بھی راہ ہموار کی گئی۔ اللہ نے لونڈی بنانے کا حکم نہیں دیا اور کیسے دیتے جب اس کو آل فرعون کی روایت قرار دیا۔ اسلام نے غلامانہ نظام ختم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ مشرکینِ مکہ پر فتح حاصل کرلی تو ان کو مخاطب کرکے نبیﷺ نے فرمایا: لاثریب علیکم الیوم وانتم طلقاء ’’ آج تم پر کوئی ملامت نہیں اورتم آزاد ہو‘‘۔ تین دن کے بعد سب کو واپس جانے کا حکم فرمایا، تین دن تک متعہ کی اجازت دیدی۔ (صحیح مسلم) علماء و مفتیان سمجھتے ہیں کہ اگر ان کی ماں بہنوں کو چھین کر لونڈی بنایا جاتا تو ٹھیک تھا مگرمتعہ کی اجازت زناکی اجازت تھی العیاذ باللہ من ذلک 9: اللہ نے یہود ونصاریٰ کی پاکدامن عورتوں سے نکاح کی اجازت دی ۔ان کو ولی نہ بنانے کا حکم جر گہ میں فیصلے کا مذہبی اختیار تھا۔ قرآن میں اگر میاں بیوی کے درمیان جدائی کا خطرہ ہو تو اللہ نے دونوں طرف سے ایک ایک رشتہ دار کو حکم بنانے کا حکم دیاہے اوراگر عمران خان اور اس کی بیگم جمائما خان کے درمیان جدائی پر دونوں خاندان ایک ایک حکم بناتے تو یہ قرآن کے مطابق ہوتا، البتہ اگر دونوں کو کسی بدکاری پر پکڑا جاتا اور یہودی ان کو توراۃ کے مطابق سنگسار کرتے اور مسلمان قرآن کے مطابق کوڑے لگاتے تو پھر یہودیوں کو ولایت یا اختیار دینے کی مذمت ہوتی ،جب ایک ہی حد سزاسنگساری ہوتی تو ولی بنانے کی مذمت کیونکر کی جاتی؟۔ اللہ کے احکام کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ 10:عیسائیوں کے پاس حدودوتعزیرات کیلئے اپنا مذہبی تصور نہیں ،وہ توراۃ کو مانتے ہیں۔ اسرائیل توراۃ کے مطابق مذہبی ریاست قائم کرلے اور مسلمان پاکستان سے اسلامی احکام کے مطابق حکومت قائم کرلیں تو انشاء اللہ پوری دنیا اسلامی قوانین کا خیرمقدم کریگی اور اسرائیل اپنا قبلہ بیت المقدس بھی مسلمانوں کو بہت خوشی سے حوالے کردے گا۔ پاکستان اگر اسلام کیلئے نہیں حکمرانوں کے کرپشن اور غریب عوام کو غلام بنانے کیلئے بنا ہے تو امریکہ و بھارت کی سازش سے ہمارا خدا بھی ہمیں بچانے میں مدد نہیں کریگا جیسامشرقی پاکستان کا سانحہ رونما ہوا تھا۔یہ بھارت کی حوصلہ افزائی نہیں اپنے حکمرانوں کی حوصلہ شکنی کیلئے ہے،پاکستان بنگال نہیں۔
نیٹو کا حشر افغانستان میں بھارت نے دیکھا، ایٹمی جنگ نہ ہو توبھی بھارت ایڈونچر کرنے کی غلطی نہ کریگا، بنگال آزاد ہوامگر پاکستان نے کس سے آزادی حاصل کرنی ہے؟۔مجاہدین پاکستان کے مسلم حکمرانوں کو نشانہ نہیں بناتے۔ افغانستان میں افغان فوجی امریکیوں پر حملہ کرتے ہیں۔ ہندو کو پاکستان کیخلاف اقدام پر بھارت کے مسلمان اور سکھ بھی معاف نہ کرینگے۔ بلوچ فطری طور پر باعزت ، بردبار اور باوقار ہیں۔ کمزوروں پر حملوں نے ان کا ضمیر گھائل کردیا ۔ریاست نے ان کوبھی بہت نقصان پہنچایا۔افہام وتفہیم مسائل کا حل ہے، ضمیر نہیں رہتا تو عزت فروشی کا دھندہ بھی ہوتاہے۔ جرمنی میں شکست کے بعد خواتین رات مہمان ٹھہرانے کیلئے دروازے پر کارڈ لگاتی تھیں۔ جنگ میں شکست کے بعد عورت کیلئے لونڈی بن جانا بھی عزت کا تحفظ ہے، دنیاخطرناک سمت جارہی ہے،اسلامی اقتدار میں انصاف ملے گا۔ انقلاب انقلاب اے انقلاب۔ عتیق گیلانی

مفتی محمد رفیع عثمانی اور ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی کتابوں میں زبردست خیانت کی ہے. مولانا شبیر احمد

ابوبکرؓ و عمرؓ نے نبیﷺ کے وصال پر خلافت کیلئے جمع ہونیوالے انصارؓ سے مناظرہ کیا۔ انصارؓ نے کہا کہ ایک امیر تمہارا ہو، ایک ہمارا۔ابوبکرؓ نے کہا کہ اس سے امت میں افتراق وانتشار ہوگا۔ تبلیغی جماعت کے مرکزبستی نظام بھارت میں مولانا الیاسؒ ،مولانا یوسفؒ ،مولانا انعام الحسنؒ کے بعد مولانا الیاسؒ کے پوتے مولانا ہارون کا بیٹا مولانا سعدامیر تھا اور رائیونڈ میں عبدالوہاب، مگر بھارت میں ان دوامیروں کی وجہ سے افتراق وانتشارہوا ۔ بقول پشتومزاحیہ شاعر’’6اسکے نمبر ہیں باقی سب تقاضے ہیں، تبلیغ میں مزے ہی مزے ہیں‘‘۔ حضرت ابوبکرؓ نے حدیث پیش کی کہ ’’امام قریش سے ہونگے‘‘۔ عمرؓ نے ابوبکرؓ کی بیعت کی تو انصارؓ نے بھی بیعت کرلی، سردار سعد بن عبادہؓ اورعلیؓ نے یہ عمل ناگوار جانا۔ اس دن سے امت میں اختلاف ہے۔ علماء نے لکھا کہ قریش کی حدیث خبر واحد تھی پھر اجماع ہوا ۔حنفی مسلک کے شاہ ولی اللہؒ نے خلافت عثمانیہ و مغل سلطنت کے زوال کے دور میں امام کیلئے قریش ہوناشرط قرار دیا، یہ خلافتِ عثمانیہ کے عدمِ استحکام کا باعث تھا۔ بریلوی مکتبۂ فکر کے امام مولانا احمد رضاخان بریلویؒ کا یہی فتویٰ تھا، علامہ عطاء محمد بندیالوی نے ضیاء الحق کے دور میں خلافت کے احیاء کو فرض اور امام کیلئے قریشی ہونا لازم قراردیا ۔ داعش کے ابوبکر بغدادی بھی اس وجہ سے القاعدہ اور طالبان سے باغی بن کر خود خلیفہ بن گئے ۔طالبان سے پہلے ایک عرب نے خیبر ایجنسی کے دور دراز علاقے میں امام بننے کا دعویٰ کرکے اپنی حکومت تشکیل دی تھی اور بعد میں بیمار یا ناکام ہوکرامریکہ چلا گیا۔
ہم نے بھی احیاءِ خلافت و تقرر امام کا اقدام کیاتھا جسکا روزنامہ جنگ میں اشتہار بھی دیا تھا۔ خلافت راشدہ کے آخر میں مسلمانوں میں قتل وغارت ہوئی۔ امام حسنؓ کی صلح کے بعد بنوامیہ کی خاندانی حکومت قائم ہوئی۔ واقعہ کربلامیں حسینؓ اور مکہ میں حجاج کے ہاتھ ا بن زبیرؓ کی شہادت سے اختلاف واضح ہے۔ امام حسنؓ کے بیٹے حسن مثنیٰ کے دو بیٹے محمد اور ابراہیم نے تحریک چلائی تھی۔ امام ابوحنیفہؒ کو ان کی خفیہ حمایت کرنے کی وجہ سے جیل میں زہر دیکر شہید کیا گیا۔دوسرے فقہی اماموں پر بھی تشدد ہوا۔
اجتہاد وہاں ہے جب قرآن و حدیث میں واضح موقف موجود نہ ہو۔ قرآن میں 114سورتیں ہیں اور114 مرتبہ بسم اللہ الرحمن الرحیم موجود ہے۔ اس میں اجتہاد کی گنجائش نہیں لیکن پھر بھی مالکی مسلک کے ہاں فرض نماز میں بسم اللہ پڑھنا جائز نہیں اسلئے کہ قرآن کا حصہ نہیں، شافعی مسلک میں بسم اللہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی اسلئے کہ سورۂ فاتحہ کا حصہ ہے، امام احمد بن حنبل کے دو قول ہیں، امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک صحیح بات ہے کہ بسم اللہ قرآن کا حصہ ہے مگراس میں شک ہے اور شک اتنا قوی ہے کہ کوئی شخص اس کی قرآنیت کا منکر بھی ہوجائے تو کافر نہیں بنتا ۔ فقہ حنفی کی درسِ نظامی میں اصول فقہ کی ’’نورالانوار‘‘ اور ’’ توضیح تلویح ‘‘ دیوبندی کے وفاق المدارس ، بریلوی کے تنظیم المدارس کے تحت چوتھے اور چھٹے سال میں لازمی امتحان کا حصہ ہیں مگر کم عقل مولوی مدرس بنتے ہیں جو سمجھتے نہیں ہیں۔
کراچی کے علامہ شاہ تراب الحق قادری اور ٹانک کے مولانا فتح خان نے بالمشافہ ملاقات میں درسِ نظامی کی اس تعلیم کو غلط قرار دیا مگر اسکے خلاف آواز اٹھانے سے معذوری ظاہر کردی تھی۔ یہ ائمہ کامسلک نہیں انکے نام پر مسلک چلانے والوں کا شاخسانہ تھا۔ امام شافعیؒ نے جہری نماز میں بسم اللہ جہری پڑھنے کا حکم دیا ، تو گدھے پر بٹھایا، منہ کالا کر کے گھمایا کہ ’’یہ رافضی ہے‘‘۔ امام شافعیؒ نے اشعار کہے کہ ’’اگر اہلبیت سے محبت پررافضی کہتے ہو تو اقرار کرتا ہوں کہ میں رافضی ہوں‘‘۔
بنو عباس نے اقتدار چھین لیا تو وہ بھی اہلبیت کے اسلئے خلاف تھے کہ امارت چھن نہ جائے۔ پاکستان کے قانون میں کوئی عورت طلاق شدہ یا بیوہ بنتی ہے تو بھی اس کو ایک مرد سرپرست ظاہر کرنا پڑتاہے۔ مریم نواز کی مثال ٹھیک ہے یا نہیں؟۔ شریعت اور ملکی قوانین میں غیر ضروری معاملات آگئے ہیں،جہری نماز میں بسم اللہ کی جرأت سے بڑی تبدیلی کا آغاز ہوگا اور عورت کو حقوق دینے ہونگے۔
حدیث میں کنواری کیلئے بکر اور طلاق شدہ یا بیوہ کیلئے ایم کا لفظ آیاہے۔ لڑکی کنواری ہوتو سرپرست یا ولی باپ ہے ۔شادی کے بعد سرپرست شوہر ہے۔ کلثوم نواز کا سرپرست اس کا شوہر نواز شریف ہے تومریم نواز کا سرپرست اسکا شوہر صفدر عباسی ہونا چاہیے تھا۔ اگر شوہر سے علیحدگی ہوئی تو پاکستان کے مروجہ قانون کے مطابق اسکا سرپرست نوازشریف ہوگا، اور اب اعلیٰ عدالت سپریم کورٹ سے وضاحت مانگنے پر کہا جارہاہے کہ مریم نواز خود مختار ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مریم نواز صفدر عباسی کی بیوی ہوکر بھی خود مختار ہے یا طلاق شدہ خود مختار ہے؟۔ سوال کا جواب پاکستان اور اسلامی معاشرے میں کیا ہے؟۔ اس سے بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں، اب یہ سوال اٹھانے کا بہترین وقت ہے۔
وانکحوالایامیٰ منکم و صالحین من عبادکم وایمائکم ’’اور نکاح کراؤ، اپنی بے نکاح خواتین کااور اپنے نیک غلاموں اور لونڈیوں کا‘‘۔ لونڈی کا ولی تو بلاشہ آقا ہوتا تھا۔ وضاحت ہے فانکحوھن باذن اہلھن ’’ان سے انکے مالکوں کی اجازت سے نکاح کرو‘‘۔ حدیث میں بکر کے مقابلے میں اَیم سے مراد بیوہ و طلاق شدہ ہے۔ توقرآن میں بھی ایامیٰ سے بیوہ و طلاق شدہ مراد ہیں۔ حدیث و فقہ میں تطبیق مسائل کا حل ہے۔ فقہ و حدیث میں کنواری اور بیوہ و طلاق شدہ کا فرق واضح ہے۔ اصولِ فقہ میں حدیث کو قرآن سے متصادم قرار دیا گیا۔ حتی تنکح زوجاً غیرہسے حدیث کی تطبیق ہوسکتی ہے کہ قرآن میں طلاق شدہ عورت کو اپنی مرضی سے نکاح کی اجازت دی گئی اور حدیث سے کنواری مراد لیا جائے۔ بیوہ کو بھی قرآن میں اپنی جان کا فیصلہ کرنے میں خود مختار قراردیا گیا ہے۔
حال ہی میں عدالت نے محبت کی شادی کرنیوالے جوڑے کو تحفظ دیا اور وکیل سے کہا کہ ’’ان کو سمجھاؤ، ایسی شادی کامیاب نہیں ہوتی‘‘۔ اگر معاشرے میں قرآن وسنت کو صاف طریقہ سے عوام کو پہنچایا جاتا کہ لڑکی کی مرضی کے بغیر باپ نکاح نہ کرے اور لڑکی کیلئے بھاگ کر شادی کرنا باطل نکاح ہے تو مذہبی نصاب بھی درست ہوجاتا اور معاشرے پر اسکا اثر پڑتا۔ جب نابالغ بچی کا نکاح پڑھانے پر بھی مولوی پکڑا جائے اور بھا گی لڑکی کا چھپ کر نکاح پڑھانے والے مولوی کو تحفظ حاصل ہو تو یہ معاشرے میں اصلاح کا باعث نہیں بن سکتا۔ بلوغت کے بعد لڑکی محبت کی شادی کرلے ، اقلیتی برادری سے تعلق ہوتا ہے تو اسلام کا سہارا بھی لے لیتی ہے۔علماء اور قانون سازی کرنیوالے پارلیمنٹ میں الجھتے ہیں۔
فقہ حنفی کے مطابق ’’ امام کیلئے قریش ہونے کی شرط قابلِ قبول نہ ہونی چاہیے‘ ‘ ۔ یہ خبر واحد کی حدیث تھی، جہاں تک اجماع کا تعلق ہے تو خلافت عثمانیہ والے قریشی نہ تھے ، ان پر بھی اجماع ہوا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ قریش کے امام ہونے کی احادیث کا تعلق پیش گوئیوں سے تھا اور جب نبیﷺ نے 12 امام پر امت کے اجماع اور اسلام کے غلبے کی خبردی تو لوگوں نے چیخ کرتکبیر کا نعرہ بلند کیا جس سے راوی کو کچھ الفاظ سمجھ میں نہ آئے۔ اہل تشیع بارہ امام اپنے والے سمجھتے ہیں مگران پر اہل تشیع کے فرقے بھی متفق نہیں۔بارہ خلفاء جو مشکوٰۃ کی شرح مظاہر حق کے مطابق اہل بیت سے ہونگے ۔ علامہ سیوطیؒ کا حوالہ دیکر مفتی رفیع عثمانی اور ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی کتابوں میں بدترین خیانت کا مظاہرہ کیا ہے۔ روایت ہے کہ مہدی چالیس سال تک رہیگا ، پھر قحطانی امیر ہوگا۔۔۔ پھر آخری امیر ہوگا۔ کونسا انصاف ہے کہ مہدی اور قحطانی امیر کو چھوڑ کر آخری امیر کا ذکر کیا جائے؟۔ یہ تینوں بارہ خلفاء میں سے ہونگے۔
نبیﷺ نے غدیرخم کے موقع پرخطاب فرمایا’’ جس کا میں مولیٰ ہوں یہ علی اس کا مولیٰ ہے‘‘۔ بہت زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ ملا اور مولوی اب مولانا بن گئے ۔ جس کا معنیٰ ہمارا مولیٰ ہے۔ جس کو ہم اپنا مولیٰ یعنی مولانا کہتے ہیں کیا وہ ہمارا دوست ہوتاہے؟۔ مولیٰ اور ولی کے معنیٰ سرپرست اور آقا ہیں۔ نبیﷺ نے علیؓ کے بارے میں جو فرمایا ، اس کو مولوی نے دوست سے بدل دیا ، حالانکہ نبیﷺ کو کیا ضرورت تھی کہ علی کو دوست بنانے کا اعلان کرتے؟، اس غلط توجیہ کی وجہ سے قرآن کی آیت کا ترجمہ ومفہوم بھی بدل ڈالا، کہ ’’یہود ونصاریٰ کو دوست نہ بناؤ‘‘۔ ان سے شادی کرسکتے ہیں تو بیوی سے بڑھ کر دوستی کیاہے؟۔ یا بیوی بناکر بھی دشمنی کی جائے؟۔ خلفاء ، علماء اور صوفیاء میں موروثی جانشینی کھلی حقیقت رہی ہے۔ حضرت عمرؓ سے کہا گیا کہ بیٹے عبداللہؓ ابن عمرؓکو جانشین بنادو، مگر عمرؓ نے پابندی لگاکر کہا کہ اس کو طلاق کا طریقہ معلوم نہیں اس کو خلافت کیلئے نااہل قرار دیتا ہوں۔ اسلام منطقی نہیں فطری دین ہے تو مشرکینِ مکہ سے قرابتداری کی وجہ سے رشتہ داری منع کردی۔ حضرت ابن عمرؓ نے منطق نکالی کہ نصاریٰ مشرک ہیں ان سے شادی جائز نہیں ، قرآن میں ان سے شادی جائزہے۔ صحابہؓ میں ابن عمرؓ مولوی تھے حضرت عمرؓ نے خلافت کیلئے نااہل قرار دیاتھا ،عقیدت اپنی جگہ مگرامانت اہل کو سپردکرنے کا حکم ہے۔
حضرت ابوبکرؓ ہنگامی بنیاد پر خلیفہ بن گئے، حضرت عمرؓ کو نامزد کیا گیا، حضرت عثمانؓ کو شوری ٰ کے چند ارکان میں سے اکثر نے منتخب کیا اور حضرت علیؓ فتنوں کے دور میں خلیفہ بنے اور امام حسنؓ کو وراثت میں خلافت ملی مگر دست بردار ہوگئے۔بنوامیہ، بنوعباس اور خلافت عثمانیہ کے ادوار میں موروثی اقتدار رہا۔ عرب میں اب بھی موروثی اقتدار ہے اور پاکستان کی جمہوری جماعتیں بھی موروثی اور شخصی ہیں، انگریز نے خلافت عثمانیہ اور مغلیہ سلطنت کوختم کیا تھا، پھر جمہوریت کی وجہ سے ملکہ برطانیہ کاا قتدار سمٹ گیا۔ برطانیہ کے بعدہم اپنا اسلامی نظام نہیں لاسکے۔ اقتدار تقسیم ہے، مولوی فتویٰ دے کہ طلاق ہوئی اور حلالہ کرلے تو قصائیوں کو جانور ذبح کرکے حلال کرنے کی اجازت ہے۔ مریم نواز کسی اندرونی کہانی کا شکار ہوسکتی ہے ،بہت خواتین طلاق کاماجراء بھگت رہی ہیں۔گھر، معاشرہ، ملکی ، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر ایسے مسائل ہیں جن کو اسلام نے حل دیامگر ہمارا مذہبی طبقہ توجہ نہیں دینا چاہتا ہے۔ مولانا شبیراحمد

یہود کے بعد نصاریٰ بھی دعوت توحید قبول کرچکے. عتیق گیلانی کی انقلابی تحریر

قوسِ قزاح کے رنگوں سے بھرپور ہمارا یہ معاشرہ !
قدرت کا کرشمہ ہے کہ بارش کے بعد افق پر 7رنگ کا ہالہ بنتاہے اور ہم نے اپنے غیر معصوم بچپن میں سمجھا تھا کہ ہر رنگ کی ایک جدا تعبیر ہے، زیادہ تفصیلات کاپتہ نہ تھا، بس سبز رنگ جنت کی نشانی اور سرخ رنگ جہنم کی علامت، جس نے پہلے قوسِ قزح دیکھ کر رنگ پسند کیا تو کسی دوسرے کو حق نہ پہنچتا کہ وہ بھی اسی کو پسند کرلے۔معصوم کے بھی مختلف رنگ ہیں۔ایک دانشور کہے کہ مغالطے کی شکار فکر معصوم نہیں ہوسکتی، دوسرا کہے کہ اس غلطی کے پیچھے مجرمانہ غفلت نہ تھی اسلئے معصومیت سے تعبیر کیا جاتاہے۔ معصومیت کی بحث میں بھی قوسِ قزاح کی طرح رنگ ہیں۔ انبیاء کرامؑ معصوم ہیں،شیعہ ائمہ اہلبیت کو معصوم سمجھتے ہیں اور عوام بچوں کو معصوم سمجھتے ہیں۔ وسیم بادامی کا معصومانہ سوال شہرت اختیار کرگیا، مولا بخش چانڈیو نے اسکو شرارت کہا ، بیوقوفی بھی معصومیت سے تعبیر ہوتی ہے، خاص معاملے کی بے گناہی بھی معصوم قرارپاتی ہے، اولیاء کرام ؒ محفوظ ہیں تویہ ایک طرح کی معصومیت ہے۔ عدلیہ مجرموں کو معصوم بنانے کی فیکٹریاں ہیں، دہشتگرد معصوموں کو مارتے ہیں، خفیہ ایجنسی کے اٹھانے پر مجرم بھی معصوم بنتے ہیں،سیاسی رہنما اپنے لیڈر کو معصوم ثابت کرتے ہیں۔ مذہبی طبقے کو اپنے مکتبۂ فکر کے علماء ومفتیان معصوم لگتے ہیں، دعوتِ اسلامی اور تبلیغی جماعت خود پر معصومیت کا عقیدہ رکھتی ہیں، یہود کے نزدیک ان کی نسل معصوم ہے اور نصاریٰ کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰؑ معصوم شخصیت تھی جو بغیر باپ کے پیدا ہوئے اور شادی تک نہ کی۔ آدمؑ نے جنت میں اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کی، موسیٰ ؑ نے قتل کیا، داؤد ؑ نے اللہ سے معافی مانگی اور یونسؑ نے اللہ سے معافی مانگی لیکن حضرت مسیحؑ اللہ کی پاک روح تھے۔
اہل تشیع بارہ ائمہ معصومین کا جوعقیدہ رکھتے ہیں وہ انبیاء ؑ سے زیادہ ہے اسلئے کہ نبی کریمﷺ کا فتویٰ کچھ تھا ، اللہ نے فیصلہ خاتون کے حق میں کیا۔سوال ہے کہ مجادلہ میں نبیﷺ کی معصومیت کی نفی ہے؟۔ یا یہ معصومیت کی دلیل ہے کہ اللہ نے نبیﷺ کی اصلاح کیلئے وحی سے رہنمائی کی؟۔ نبیﷺ نے اصحاب کہف کی تعداد بتانے کیلئے کل کا وعدہ فرمایا لیکن کئی دن وحی کا سلسلہ بند ہوا۔ پھر اللہ نے فرمایا کہ کل کیلئے کوئی بات کہا کریں تو انشاء اللہ کہیں، یہ معصومیت کی نفی یا دلیل ہے؟۔ بدر ی قیدیوں کے فدیہ پر فرمایا کہ ’’نبی کیلئے مناسب نہ تھا کہ انکے پاس قیدی ہوں یہانتک کہ زمین میں خوب خونریزی کرتے‘‘ یہ عصمت کی دلیل ہے یا اسکے منافی اللہ نے وحی اُتاری؟۔ یہ عقیدہ تھاکہ وحی سے رہنمائی کا نام عصمت ہے اور اسی وجہ سے اللہ نے بار بار قیامت تک صرف اور صرف اللہ اور رسولﷺ کی اطاعت کا حکم دیا، جہاں اولی الامر کی اطاعت کا حکم دیا ہے وہاں اولی الامر سے اللہ نے واضح طور سے اختلاف کی گنجائش بھی رکھ دی ۔ رسول اللہ ﷺ کی رسالت وحی کی رہنمائی تھی ، ایک اولی الامر کی حیثیت سے صحابہ کرامؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اختلاف کیا ، سورۂ مجادلہ ، بدر کے قیدیوں پر فدیہ ،حدیث قرطاس اور صلح حدیبیہ کے اختلافات واضح مثالیں ہیں۔ شیعہ ائمہ اہلبیت کیلئے بھی ایسے اختلاف کی گنجائش نہیں رکھتے تو نبیﷺ کیلئے کہاں سے رکھیں گے؟، اسلئے وہ صحابہ کرامؓ کو باغی اور گستاخ سمجھتے ہیں۔ اہلسنت کی اکثریت بھی حقائق سے ناواقف ہونے کی وجہ سے معصومیت کا غلط عقیدہ رکھتے ہیں اسلئے جب شیعہ مکتب کے دلائل کا مطالعہ کرتے ہیں تو دلیل کا جواب دلیل سے دینے کے بجائے ان پر گستاخی کا فتویٰ لگادیا جاتاہے۔ سعودی عرب اور ایران کی حکومتوں کو حقیقی اسلامی بھائی بنانے کیلئے قرآن و حدیث کے خاکے پر متحد کرنے کی ضرورت ہے۔ورنہ فرقہ پرستی کے ناسور سے پاکستان سمیت مسلم امہ تباہ ہوگی۔
مہذب دنیا کو بات سمجھ میں نہیں آتی کہ مسلمان ہر چیز پر سمجھوتہ کرتاہے مگررسول اللہ ﷺ کی توہین برداشت نہیں کرتا ،ایسا کیوں؟ بس یوں سمجھ لیجئے کہ ایمان کی حرارت کیلئے یہ آخری روشنی بچی ہے تو اس پر سمجھوتہ کیسے ہو؟۔ ہمارے پلے میں ایمان کو حرارت دینے کیلئے اور کچھ بچاہی نہیں۔ دنیا بھر میں جبر وظلم کا نظام ہے، بھارت گائے کے تقدس پر موت کے گھاٹ اتاردیتاہے حالانکہ بھارت گائے کے گوشت کا بڑاایکسپورٹر ہے ،بارڈر سخت نہ ہو تو عید قربان کے موقع پر پاکستان سے اچھا کاروبار ہوتا ہے۔ سورۂ فاتحہ کے بعد پہلی سورۂ بقرہ ہے جس میں گائے ذبح کرنے کا حکم ہے۔ پاک بھارت دوستی میں گائے کی ماں خیر منائے۔ اللہ نے انکے معبود کی حیثیت سے گائے کی توہین سے منع کیا، البتہ ان پر بوجھ اور ہماری ضرورت ہو تو سمجھوتہ ہوسکتا ہے۔ چین سے ہماری دوستی ہے،کتے ان کی ضرورت اور ہمارے لئے فالتو ہیں مگر یہ کاروبار ہم نہیں کرتے۔ مسلمان کو دوسروں کے معبودں کی اہانت سے منع کیا گیا تو رسول ﷺ کیلئے بھی ان کا حساس ہونا ایک فطری بات ہے۔ اہانت کے قوسِ قزح کی طرح کئی رنگ ہوسکتے ہیں، دیوبندی مکتبۂ فکر نے جماعتِ اسلامی کے بانی مولانا سیداابوالاعلیٰ موددیؒ پر انبیاء کرامؑ اور ام المؤمنینؓ کی گستاخی کے سنجیدہ الزامات لگائے۔ بریلوی مکتبۂ فکر نے دیوبندی اکابرؒ پر گستاخی کے فتوے لگائے اور اہلحدیث کو بھی گستاخ قرار دیاگیا۔لیکن کیایہ قانون صرف کمزورطبقے کیلئے بنایاگیاہے؟۔
حضرت ابراہیمؑ کی اولاد بنی اسرائیل کے اندر نبوت کاسلسلہ جاری تھا،ان کو اپنی نسل پر گھمنڈ کرنے کازعم بیجا نہ تھااسلئے کہ قرآن نے مخاطب کیاکہ ’’ اے بنی اسرائیل میری نعمت کو یاد کرو، بیشک میں نے جہاں والوں پر تمہیں فضیلت دی ‘‘۔ جتنے انبیاء ؑ االلہ نے ان میں بھیجے، کسی قوم میں نہیں بھیجے۔ نبوت وبادشاہت کا سلسلہ عرصہ دراز تک ان میں جاری رہا۔ اچھے ممالک ، اسباب واموال اور بہترین ذہنی صلاحیتوں سے اللہ نے ان کو مزین رکھا، جسکے اثر ات اب بھی موجودہیں۔ جب وہ دنیاوی و مذہبی گھمنڈ اور فرقہ وارانہ تعصبات کا شکار ہوئے: وقالوالن یدخل الجنۃ الا من کان ہودا او نصٰریٰ وقالت الیہود لیست النصٰریٰ علی شئی و قالت النصٰریٰ لیست الیہود علی شئی وقال الذین لایعلمون مثل قولہم ’’ اور کہتے کہ کوئی جنت میں داخل نہ ہوگا مگر جو یہودیا نصاری ہیں اور یہودنے کہا کہ نصاریٰ کسی چیز پر نہیں اور نصاریٰ نے کہا کہ یہودکسی چیز پر نہیں اور ویسی گفتگو کرتے وہ جو علم نہ رکھتے تھے‘‘ دین کا منکر طبقہ پراناہے، صابی کے بارے میں اقوال ہیں کہ وہ ستارہ پرست تھے، انبیاء کرام ؑ کے مذاہب کو نہ مانتے تھے ،یاکون تھے؟مگر دین کے منکر کی حیثیت ایسی بھی ہوسکتی ہے کہ مذہبی شدت پسندوں سے بیزار طبقہ جو کسی مخصوص فکر اور مکتبۂ خیال کا پابند نہ ہو، بس اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے کو کافی سمجھتاہو اور اچھے عمل کو نجات کا ذریعہ قرار دیتا ہو۔ موجودہ دور میں اس کا نام سیکولرہے اور اس دور میں اس کو صابی کہا جاتاہو۔ سیکولر مذہب کا انکار نہیں کرتے لیکن مذہبی شدت پسندی پر یقین نہیں رکھتے ۔ یہ حقیقت بھی مخفی نہیں کہ قائداعظم ؒ سیکولر تھے۔اوریا مقبول جان نے عرب حکمرانوں کا کہا کہ سیکولر ہیں مسلمان نہیں اور کہا کہ ’’قائداعظم کے اسلامی پروگرام پر عمل نہ ہوا‘‘۔
جب رسول اللہﷺ پر وحی نزول ہوئی، تو آپ ﷺ کو صابی قراردیاگیا، اسلئے کہ مکہ کا مشرک طبقہ خود کو دینِ ابراہیمی کا علمبردار سمجھتاتھا، یہود ونصاریٰ بھی حضرت ابراہیمؑ کو اپنا سمجھتے تھے اور اللہ نے فرمایا کہ ’’ ابراہیم ؑ یہودی نہ تھے اور نہ نصرانی تھے اور نہ ہی مشرکوں میں سے تھے‘‘۔ بہت بڑا اقدام اسلام نے یہ اٹھایا کہ مذہبی تعصب کی نفی کردی اور اس سے بڑھ کر کیا غیر متعصبانہ نظریہ ہوسکتاہے کہ قرآن نے وضاحت کردی کہ’’ اگراللہ بعض لوگوں کو بعض کے ذریعہ دفع نہ کرتا تو مجوس، یہود، نصاریٰ اور مسلمانوں کی مساجد منہدم کردی جاتیں جن میں اللہ کا نام کثرت سے ذکر ہوتاہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا ہی نہیں آخرت کے اعتبار سے بھی قرآن میں یہ اعتقاد عام کردیا کہ ’’ بیشک جو لوگ مسلمان ہیں، یہود ہیں، نصاریٰ اور صابئین ہیں، انمیں سے جو بھی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اچھے عمل کئے ان کو اجر بھی ملے گا اور وہ خوفزدہ اور غمگین بھی نہ ہونگے‘‘۔ فرقہ وارانہ مذہبی تعصب کے شکار دنیا میں قرآن کی تعلیم پر مشرکینِ مکہ کے جہلاء نے آپﷺ پر صابی (سیکولریابے دین) ہونے کا فتویٰ لگادیا۔ حالانکہ اسلام کی تعلیم میں اللہ اور آخرت کا انکار نہیں تھا بلکہ مذہبی تعصبات کے شکار دنیا کو مثبت پیغام دیاگیا۔
نسلی گھمنڈ کے شکار بنی اسرائیل یہودونصاریٰ بنی اسماعیل کو کسی خاطر میں نہیں لاتے تھے مگر جب رسول اللہ ﷺ نے جہالت کی اندھیر نگری میں علم کے چراغ روشن کئے تو سارا عجم اس روشنی کا علمبردار بن گیا۔ مولانامبارکپوری کی سیرت نگاری میں اول انعام یافتہ کتاب ’’الرحیق المختوم‘‘ ہے۔ رحیق اعلیٰ درجے کی شراب اور مختوم کا معنیٰ سیل بند ہے۔ پیار سے یہ نام رکھا گیاہے لیکن اگر فرقہ وارانہ تعصبات والے عناصر اسکے خلاف بھی منفی پروپیگنڈہ شروع کردیں تو مصنف، کتاب چھاپنے والے اور انعام دینے والے سب گستاخی کے فتوے کی زد میں آجائیں گے۔ گستاخی کے معیار کو اخلاق کے ترازو میں تولنے کے بجائے عدالتی ترازو میں جانچا جائے تو عدالت کی نافرمانی کو بھی گستاخی سمجھا جاتاہے۔ حدیث قرطاس میں حضرت عمرؓ کا رسول اللہﷺ کی طرف سے وصیت نامہ لکھوانے پریہ کہنا کہ ’’ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے‘‘ یقیناًموجودہ عدالت کی نگاہ میں گستاخی کے زمرے میںآتا ہوگااسلئے کہ عدالت اپنی حکم عدولی کو گستاخی سمجھتی ہے۔ کافی احادیث جن کو امام ابوحنیفہؒ نے اپنے معیار پر قرآن کے مطابق نہ سمجھا اور ان کی تردید کردی ، وہ بھی بغاوت کے زمرے میں آتا ہوگامگر نبیﷺ نے تو اپنے جانثارصحابہؓ کی تربیت ایسی کی کہ وہ ضمیر کے مطابق اختلاف کا اظہار کرتے بلکہ اللہ نے ان کا یہ فرضِ منصبی قرار دیا وامرھم شوریٰ بینھم ’’اورکسی خاص بات کو باہمی مشاورت سے طے کرتے تھے‘‘ ، صحابہؓ پر وحی نازل نہ ہوتی لیکن بسا اوقات کی ان کی رائے پر بھی وحی نازل ہوجاتی تھی جیسے بدری قیدیوں پر فدیہ اور سورۂ مجادلہ میں وضاحت ہے اسلئے نبیﷺ سے فرمایا : وشاورھم فی الامر ’’کسی خاص بات میں مشاورت کرلیا کریں‘‘۔اختلاف رائے پر گستاخی کا الزام اور سزا تو بہت دور کی بات تھی ، جبکہ صلح حدیبیہ کے معاہدے پر پوری قوم سراپا احتجاج بن گئی، نبیﷺ کو بغاوت کا گمان ہونے لگاتھا لیکن گستاخی کا فتویٰ کسی پر نہیں لگایا، ذی الخویصرہ نے واقعی گستاخی کا ارتکاب کیا،کہا کہ آپﷺ انصاف نہیں کرتے!نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’اگر میں انصاف نہ کروں تو اور کون کریگا‘‘ ۔ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اسکو قتل نہ کردوں؟۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ یہ اکیلانہیں، یہ گروہ در گروہ پیدا ہونگے ، یہاں تک کہ ان کا آخری گروہ دجال سے مل جائیگا۔ یہ قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن انکے حلق سے نیچے نہ اتریگا۔ ان کی نماز ، روزے کو دیکھ کر اپنی نماز اور روزے کو حقیر جانوگے۔یہ اسلام سے نکلیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتاہے ‘‘۔ رسول ﷺ نے اس گستاخ کو کوئی سزا نہ دی، ابن صائد نے نبیﷺ سے کہا کہ آپﷺ امیوں کے رسول ہیں اور میں تمام جہاں کا رسول ہوں لیکن نبیﷺ نے اس کو قتل کرنے کا حکم نہ دیا۔جیوپر ڈاکٹر عامر لیاقت نے طالبان کے حوالے سے کہا کہ ’’ صدیق اکبرؓ نے نئی نبوت والے کو توبہ کی ایک مہلت دی اور پھر انکے خلاف قتال کیا تھا‘‘۔پھر پاکستان میں قادیانیوں کا کیابنے گا؟۔جب ریاست کی طرف سے ایک آنکھ کا اشارہ ہوگا تو مذہبی طبقے اپنے ایمانی کیفیت کا مظاہرہ کرینگے۔ اپنے تضادات کو ٹھنڈے دل سے ختم کرنا ہوگا۔
عیسائی کے مقابلے میں یہود نے ضد میں عزیر علیہ السلام کو خدا کا بیٹا بنانا شروع کیا تھا، جیسے سپاہِ صحابہ والے 12ربیع الاوّل کے جلسے جلوس اور تعطیل و میلادالنبی ﷺ کو بدعت سمجھتے ہیں لیکن عشرہ محرم میں فاروقِ اعظمؓ کی تعطیل کیلئے حکومت پر زور ڈالتے ہیں۔ اس مرتبہ پختونخواہ کی حکومت نے پہلے محرم کو بھی یہ مطالبہ مان کر تعطیل کا حکم جاری کیا۔ اگر اہل تشیع محرم کے منانے سے پیچھے ہٹ جائیں تو وہ بھی تعطیل منانے کا مطالبہ نہ کرینگے۔ سعودیہ کا ماحول الگ ہے وہاں یومِ فاروق اعظمؓ منانے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی ۔ اسلامی اقتدار قائم ہوا تو مدینہ کے یہودیوں میں پڑوسی ہونے کے ناطے شعور بیدار ہوا۔ کچھ عرصہ بعد ان کا مؤقف بدل گیا، وہ کہنے لگے کہ ’’ ہم ہمیشہ سے توحید کے قائل رہے ہیں، کبھی شرک نہیں کیا‘‘۔ آج اسلام کی روشنی دنیا بھر میں پھیل گئی تو عیسائی بھی اپنا مؤقف بدل چکے ہیں۔ وہ برملا کہتے ہیں کہ ’’ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے۔ ہم اللہ کی شادی کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ صرف عیسیٰؑ نہیں بلکہ اللہ کے تمام نیک مردوں اور خواتین کو ہم خدا کے بیٹے سمجھتے ہیں اور بیٹے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ خدا نے شادی کی اور اس کی وجہ سے کوئی پیدا ہوا، اس سے اللہ کی ذات پاک ہے۔ حج کے بعداگلے دن تمام اخبارات میں آتا ہے کہ 30لاکھ فرزندانِ توحید نے فریضہ حج ادا کیا، توا س کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ حاجی خدا کے بیٹے ہیں یا مسلمان ان کو خدا کا بیٹا سمجھنے لگتے ہیں، اس طرح عیسائی بھی حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا کا رشتے کی بنیاد پر بیٹا نہیں سمجھتے، حضرت داؤد علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے ۔ اور خدا کی شادی اور جنسی بیٹے کو ہم بھی شرک سمجھتے ہیں‘‘۔(نیٹ پرایک خاتون پادری کا بیان موجود ہے)
پوری دنیا پر حکمرانی میں بڑے مقام پر فائز امریکن ، یورپین، آسٹریلین عیسائی یہ سمجھتے ہیں کہ:
توراۃ اللہ کی کتاب تھی لیکن یہود کی طرف سے اس میں رد وبدل ہوئی۔ حدود اور سزاؤں کا بہیمانہ نظام مسائل کا حل نہیں۔ عیسیٰ علیہ السلام کا یہی مؤقف تھا اسلئے انجیل میں حدود وتعزیرات کا وجود نہیں۔ قرآن میں توراۃ اور انجیل کی آدھی اورادھوری تعلیم ہے۔ مسلمانوں نے اسکے ذریعہ خود کو اسوقت عالمی سپر طاقت بنایا، جب نصاریٰ نے عملی طور پر خدا کے دین سے روگردانی کی۔ یہود نے حدود اور تعزیرات کی سخت سزاؤں کا اندراج کیا لیکن پھر اس پر خود بھی عمل نہ کرسکے اور یہی حالت مسلمانوں کی رہی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے زبردست حکمتِ عملی سے کام لیکر فرمایا کہ ’’ جس نے خود زنا نہیں کیا ہو،وہی پتھر مارے‘‘ جس سے سزا کا تصور معاشرے سے ختم ہوگیا، اسلئے کہ شریف لوگ دوسرے کو مارنے میں بہت محتاط ہوتے ہیں، بلکہ وہ معاف کرنے اور درگزر کا رویہ اختیار کرتے ہیں لیکن جو لوگ خود بدمعاش اور بدکار ہوتے ہیں وہ دوسروں کو سخت ردِ عمل سے نقصان پہنچاتے ہیں۔ قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ ’’وہ بات کیوں کرتے ہو؟ جس پر خود عمل نہیں کرتے ‘‘۔ رسول اللہﷺ نے سنگساری کی سزا کو ٹالنے کی کوشش کی۔ ہاتھ سے پتھر نہیں مارا۔ لوگوں نے مارا، تو وہ بھاگا، کسی نے بڑاپتھر مارا ، نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’ بھاگنے دیتے‘‘ اور جس نے مذمت کی کہ اپنا راز کیوں کھولا؟۔ تو نبیﷺ نے اسلئے اس کی تعریف کی کہ اس نے تو کسی کو نہیں مارا تھا۔ اپنے اوپر حد جاری کرنے کیلئے خود گواہی دی تھی۔ اسلئے نبی ﷺ نے فرمایا کہ ’’ اس کی توبہ اگر پورے مدینہ والوں پر بانٹ دی جائے تو سب کو پوری ہوجائے‘‘۔
حضرت عمرؓ کے سامنے بصرہ کے گورنرحضرت مغیرہ ابن شعبہؓ کے خلاف زناکی گواہی دینے کیلئے چار افراد نے ایک ایک کرکے خود کو پیش کیا ۔ پہلے کی گواہی پر حضرت عمرؓ بہت پریشان ہوئے، دوسرے پر اس سے زیادہ پریشان ہوئے، تیسرے پر پریشانی کی انتہا ء نہ رہی تو چوتھے کو آتے ہوئے ترغیب دی کہ’’ اسکے ذریعے اللہ اس صحابیؓ کو ذلت سے بچائے گا۔ پھر وہ قریب آکر گواہی دینے لگا تو حضرت عمرؓ نے چیخ مار کر کہا کہ تیرے پاس گواہی کیلئے کیا ہے؟۔ چوتھے گواہ زیاد نے کہا کہ ’’ میں نے اور کچھ نہیں دیکھا، عورت کی ٹانگیں اسکے کاندھے پر گدھے کے کان کی طرح پڑی تھیں اور میں نے سرین دیکھا ‘‘۔ راوی نے کہا کہ عمرؓ نے اتنے زور سے چلاکر کہا تھا کہ تیرے پاس کیا ہے کہ قریب تھاکہ میں ڈر کے مارے بیہوش ہوجاؤں، عمرؓ نے شہادت رد کردی اور تین گواہ پر80کوڑے کی حدِ قذف جاری کردی۔ مغیرہؓ کو بچایا لیکن گورنری سے ہٹا دیا۔ اس نے کہا کہ مجھے گورنر بنادو، تو عمرؓ نے فرمایا کہ آپ گورنری کی بات کرتے ہو؟۔ اگرگواہ پورے ہوجاتے تو سنگسار کردیتا۔ ان گواہوں میں ایک صحابیؓ حضرت ابوبکرہؓ بھی تھے ، جب حضرت عمرؓ نے ان تین افراد کو حدِ قذف کے بعد یہ پیشکش کی کہ تم کہہ دو کہ ہم نے جھوٹ بولا تھا تو پھر آئندہ تمہاری گواہی قبول ہوگی۔ حضرت ابوبکرہؓ نے کہا : ضرورت نہیں کہ آئندہ میری گواہی قبول ہو ۔ باقی دو افراد نے کہا کہ ہم نے جھوٹی گواہی دی تھی۔ جمہورائمہ مجتہدین ؒ کے نزدیک عمرؓ کی پیشکش درست تھی اسلئے کہ قرآن میں توبہ کی گنجائش ہے، امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک یہ پیشکش غلط تھی اسلئے کہ قرآن میں جھوٹی گواہی دینے والوں کی توبہ قبول نہیں ۔ بخاری میں ان دوگواہ کے بھی نام ہیں۔ وہ دو گواہ معتبر ٹھہرے اور بنی امیہ و بنوعباس اور خلافت عثمانیہ کے ادوار سے عدالت کو اس قسم کے معتبر شاہی اور درباری گواہوں سے تقویت ملتی رہی ۔ علیؓ سے حضرت عائشہؓ کی جنگ ہورہی تھی تو بخاری میں ہے کہ علیؓ کے لشکرمیں حضرت ابوبکرہؓ بھی تھے انہی سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ’’ وہ قوم فلاح نہیں پاسکتی، جس کی قیادت عورت کررہی ہو‘‘۔ حضرت ابوبکرہؓ کی گواہی جب معتبر نہیں رہی تھی تو ان کی بیان کردہ حدیث کا بھی اعتبار ہے یا نہیں؟۔ حدیث کا اس خاص واقعہ سے تعلق تھا یا ہمیشہ کیلئے یہ بات ہے؟۔ بینظیر بھٹو کو نوازشریف اور زرداری سے بہتر قرار دیا جاتاہے۔ عشرہ مبشرہ کے دو صحابہ کرام طلحہؓ اور زبیرؓ حضرت عائشہؓ کے لشکر میں علیؓ کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوئے تھے۔ یہ اسلامی حکومت کی قانون سازی سے ممکن ہوسکا کہ چور ی و سنگساری کی وحشیانہ سزا ئیں ختم ہوگئیں۔
فقہاء نے نہلے پر دھلا کرکے زنا کی گواہی کیلئے یہ شرط رکھ دی کہ سرمہ دانی میں سلائی کی طرح گواہ چشم دید گواہی دے۔ گویا جب تک انسانی اجسام شفاف شیشے کی طرح نہ ہوں یا الٹرا ساؤنڈ سے زیادہ اچھے مشین کی طرح نہ دیکھیں تو یہ گواہی معتبر نہیں ہے۔یورپی یونین کے دباؤ کی وجہ سے پیپلزپارٹی وغیرہ نے پاکستان میں قتل کے بدلے قتل کی سزا کو ختم کرنے کی کوشش بھی اسلئے کی تھی اور کافی عرصہ تک قتل کے بدلے قتل کا سلسلہ بھی پاکستان میں رکا رہا۔ اگر پیپلزپارٹی اور سول سوسائٹی کو بھاری اکثریت ملتی تو قانون میں تبدیلی بھی لائی جاتی۔عیسائیوں کا یہ مؤقف ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بے عمل یہودیوں نے اپنے مشن میں کامیاب نہیں ہونے دیا اور اسلام نے انجیل کے مشن کو بہت بہترین انداز میں دنیا کے اندر نافذ کردیا۔ اسلئے عیسائی رسول اللہ ﷺ کو اول نمبر کا کامیاب قانون دان قرار دیتے ہیں ، حضرت عمرؓ نے بھی توراۃ کے شرعی حدود کو آثار قدیمہ میں ہی بدل ڈالا۔ بصرہ کے گورنر کی جو حالت بیان کی گئی ہے اس سے زیادہ تو مغرب کی دنیا میں آج بھی نہیں ۔ اسلئے حضرت عمرؓ کو بھی خاص مقام عیسائیوں نے دیا ۔ برطانیہ نے مرزاغلام احمد قادیانی سے جہاد کو منسوخ کرنے کی کوشش کی۔ امریکہ نے روس کے خلاف پھر جہاد کو دنیا میں منظم کردیا۔ جب روس کو شکست ہوئی اور امریکہ سپر طاقت بن گیا تو ڈونلڈ ٹرمپ کو یہودی لابی نے کامیاب کروایا۔ جو اسرائیل اور روس سے بھرپور دوستی کریگا۔ تبلیغی جماعت اور دعوتِ اسلامی غیر سیاسی جماعتیں ہیں جو نصاریٰ کے مشن کو ہی تقویت پہنچانے کا للہ فی اللہ کام کررہی ہیں کیونکہ حکومت ، حدود اورتعزیرات ان کے نصاب سے خارج ہیں۔ جن سیاسی جماعتوں نے مغرب کے جمہوری نظام کو قبول کرلیا وہ بھی سمجھوتہ ایکسپریس ہیں اور مقبولِ عام علماء شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی اور ہلال کمیٹی کے چےئرمین مفتی اعظم مفتی منیب الرحمن وغیرہ نے بینکوں کے سودی نظام کو اسلامی قرار دیا ہے۔ جن لوگوں میں خلافت کا جذبہ ہے وہ بغاوت کا سامنا کررہے ہیں ،ان میں بھی مچھلی اور جھینگے کا پتہ نہیں چلتا کہ کون شکار کررہاہے اور کون ہورہاہے؟۔ مدارس اسلام پڑھا رہے ہیں یا اپنا کاروبار جمارہے ہیں؟ ۔مینا اور طوطا کی طرح رٹے رٹائے اسلام کی تبلیغ اور دعوت دینے والے کامیاب ہیں اور اسلام کو اس کی روح کے مطابق زندہ کرنے والوں کیلئے مسلمانوں کے معاشرے میں کوئی گنجائش نہیں، میڈیا کو بھی ملٹی نیشنل کمپنیاں اس وقت اشہارات دیتی ہیں جب انکے ایجنڈے پر کوئی اثر نہ پڑے۔ سودکے جواز کا فتویٰ دینے والے گنتی کے چند علماء ومفتیان معتبر اور مخالفت کرنیوالی اکثریت کی حیثیت نہیں اور پھر بھی میڈیا پر میرٹ کا راگ الاپا جاتاہے۔ جو لوگ چند مراعات یافتہ طبقے کے خلاف عوام کی اکثریت کی بات میڈیا پر کرتے ہیں ان کو بھی پاگل سمجھا جاتاہے۔
قرآن نے تو شروع سے ہی اہل کتاب سے کہا تھا کہ ’’ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب آؤ، اس بات کی طرف جس میں ہم دونوں ایک ہیں،کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اسکے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کرینگے‘‘۔۔۔ ’’کوئی اسکے حکموں میں شریک نہ ہوگا‘‘۔ یہودونصاریٰ اپنے پیر اور علماء کے حلال و حرام کو اللہ کے حکموں میں شریک کرتے تھے اسلئے انکے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی کہ’’ انہوں نے اپنے احبار ورھبان کو اللہ کے سوا اپنا رب بنالیا‘‘۔ توحید کی جنگ ہم جیت چکے ہیں، یہودو نصاریٰ بھی توحید کے قائل ہوگئے ۔ اب اصل جنگ نظام کی ہے اور جب دنیا کو اسلام کے نظام کا پتہ چلے گا تو انسانیت توحید کی طرح اسلام کے احکام کو بھی دنیا میں نافذ کرنے پر آمادہ ہوگی، لیکن جب مسلمان خود بھی اسلامی احکام سے واقف نہیں ہونگے تو دنیا کیسے قبول کرے گی؟۔ عیسائیوں کو یہود سے خطرہ نہیں مگر فطری دین اسلام سے بااثرطبقہ ڈرتاہے کہ ’’دنیا بھر میں عادلانہ نظام نافذ نہ ہوجائے‘‘۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان سچ ثابت ہوا ۔یہودکے نقش قدم پر خود ساختہ حلال و حرام کا دورآیا ۔ سودی نظام کو جواز فراہم کرنے کے علاوہ اجنبیت کے ادوار پر غور اورعملی اقدامات اٹھانے ہونگے اور جب معاشرے کو خالص قرآن و سنت کے مطابق ڈھال دینگے تو من حیث القوم مسلمان عروج کی منزل پر پہنچ جائیں گے۔ معاشرے میں انسانی کمزوری کی وجہ سے بہت سے دانستہ اور نا دانستہ غلطیاں ہوجاتی ہیں جن سے درگزر کی ضرورت ہے لیکن ان کا ازالہ کرنا چاہیے، ضد اور ہٹ دھرمی مسلمان کے شایانِ شان نہیں۔ نبیﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع جاہلیت کے خون ختم کردئیے اور پہلے اپنوں میں سے ربیعہ بن حارث کے بیٹے کا خون معاف کردیا اورچچا عباسؓ کا سود معاف کردیا تو حضرت عباسؓ نے اصل بھی معاف کردیا۔ ہمارے مولوی نے قرآن کی طرف دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی، طلاق و حلالہ کی غلط راہ پر عوام کو لگادیا، اب سوچنے کی بات یہ ہے دارالعلوم کراچی سے قرآن و سنت کے حوالہ سے بتایا گیاکہ شادی بیاہ کی رسم میں لفافے کی لین دین سود ہے اور اسکے ستر گناہوں میں سے کم از کم گناہ اپنی ماں سے زنا کے برابر ہے۔ پھر جب عوام کے ذہن میں سود کی ایسی حرمت اور گناہ بیٹھے گا تو بینکوں کے اسلامی نظام کو بھی حلالہ کی لعنت سے بڑھ کر احسان سمجھیں گے اسلئے کہ ماں سے زنا تو بہت بڑی بات ہے۔ حضرت عباسؓ کو یہ وعید سنائی جاتی تو شاید پہلے ہی سود چھوڑ دیتے۔
قرآن کے نظام کو نافذ کرنے کیلئے طرزِ نبوت کی خلافت کا قیام ضروری ہے، نہیں تو کم ازکم حیلے کا عمل چھوڑ کر حرام کو حرام سمجھا جائے ، موقع مل جائے تو عملی طور سے ختم کیا جائے۔ سیدعتیق الرحمن گیلانی

آرمی چیف و جوائنٹ چیف کا کمال. نادر شاہ

ہم نے متعددبار شاہراہ فیصل کو وسیع کرنے کا مطالبہ کیا تھا ۔ یہ بہت خوش آئند بات ہے کہ عوامی امنگوں کے مطابق پاک فوج کی قیادت نے شاہراہ فیصل کے فٹ پاتھ کو روڈ میں شامل کرنے کا کام شروع کرادیا ہے۔ عوام کو بہت تکلیف تھی اور پاک فوج کی قیادت کے اس اقدام سے عوام کے دلوں میں پاک فوج کی عزت ، محبت اور وقار میں بہت اضافہ ہوگا۔ اگر فی الفور پی ایف کے برج کی توسیع کرکے دونوں طرف سے اس پر یوٹرن کا راستہ بنایا جائے اور ڈرگ روڈ کو سگنل فری کیا جائے تو ٹریفک کی روانی میں بہت تیزی آئیگی۔ ڈرگ روڈ کی ریلوے لائن کے جمپ کوختم کیا جائے تو بھی ٹریفک کی روانی میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا،بلوچ کالونی کا پل بھی گرانے کے بجائے وسیع کرکے شارع فیصل پر یو ٹرن بن سکتاہے۔ PAF اور نیوی کیلئے عالمی سطح کے نقشے تیار کرکے کاروباری مراکز اور رہائشگاہوں کا اہتمام کیا جائے تو کراچی کا حسن دوبالا ہوگا اور پاک فوج کیلئے معقول کمائی کاا چھا ذریعہ ہوگا۔ ملک ریاض فرد واحد ہے اور بحریہ ٹاؤن کراچی کے وسیع رقبہ پر دوبئی طرز کی تعمیر ملک کی خدمت ہے۔ بحریہ ٹاؤن سے ایک نیا شہر آباد ہوا ہے لیکن کراچی کے خاص گارڈ گفٹ سمندری آب و ہوا سے وہ محروم ہے۔ آس پاس کے تمام روڈ وسیع و عریض ہونگے تو اس جگہ کی قیمت میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا، فی الوقت فٹ پاتھ کی توسیع بھی روز مشکلات سہنے والی عوام کیلئے بڑی خدمت ہے، اللہ جزائے خیر دے۔ نادر شاہ

چوتھی نسل کا جواب مودی کی طرف سے تحفہ ہے. حنیف عباسی

رحمن ملک کو اللہ کی شان تھی کہ سورۂ اخلاص پڑھنا بھی نہ آیاپھر کس طرح مانا جائے کہ رحمن ملک پر وحی یا الہام ہوا؟،22سال پہلے رحمن ملک نے کہا کہ ’’ لندن کے فلیٹ شریف خاندان کے ہیں‘‘۔نواز شریف کے زیر کفالت تین افراددرج تھے کلثوم نواز ، مریم نواز ، نواز شریف۔جسکا جواب نہیں ملا ، تیسرا صفدر عباسی تھا؟۔اندراج وزیر اعظم نے کیا جواب عمران دے؟۔ نوازشریف نے پارلیمنٹ میں کہا کہ 2005ء کو سعودیہ کی وسیع اراضی والی مِل بیچ دی اور اس سے حاصل ہونے والے خطیر رقم سے 2006ء میں لندن فلیٹ خرید لئے۔ انکے ثبوت اللہ کے فضل سے موجود ہیں، بات نکلی ہے تو دوددھ کا دودھ پانی۔۔۔ ‘‘ اگر جمہوری روح ہوتی تو خواجہ آصف نے نوازشریف کوسنانا تھاکہ کوئی شرم حیاء۔۔۔
قطری خط میں لکھاگیا کہ وزیراعظم بڑے بھولے بھالے ہیں، ڈھڑلے سے جھوٹ بولنے پر جھجک ہونی چاہیے۔ مجھے یہ آگاہ کیا گیا ہے کہ ’’ میاں شریف نے ہمیں 12ملین درہم دئیے، اس رقم کو ہم نے واپس کیا تو حسین نواز نے اس سے لندن کے فلیٹ خریدے‘‘، یہ نوازشریف کے تین نسل کا حساب ہے اور اگر چوتھی نسل مریم نواز کی بیٹی کے جہیز کا معاملہ اٹھا اور غلط بیانی سے کام کی ضروت پڑی تو بھارت سے وزیراعظم مودی کا خط آسکتاہے کہ میں نے تحائف دئیے یا پردادا کی رقم انویسٹ تھی۔ بڑی جائیداد بناکر ن لیگ قوم کی خدمت کررہی ہے یا لوٹ مار کا بازار گرم کیاہواہے؟ ۔ حنیف عباسی

جماعت اسلامی ہماری دم چھلہ ہے. خواجہ آصف

خواجہ آصف نے کہا کہ ’’قیامِ پاکستان سے جماعتِ اسلامی غلط سائیڈ پر کھڑی رہی،پتہ نہیں چلتا کہ اسکے قبلے کا رُخ کہاں ہے؟۔ سراج الحق مجھ سے باربار پوچھتارہا کہ فوج آپ کیساتھ ہے؟۔ مرکز میں ہماری اپوزیشن کرتی ہے اور کشمیر میں ہماری دُم چھلہ ہے‘‘۔ جنرل ضیاء کی مجلس شوریٰ میں خواجہ آصف کے والد چیئرمین اورجماعت اسلامی دُم چھلہ تھی۔ اسلامی ریفرینڈم، جنرل ضیاء کی وفات کے بعد برسی کے موقع پر اور اسلامی جمہوری اتحاد تاریخ کے ہر موڑ پر جماعت اسلامی دُم چھلہ رہی ہے تو طعنے سہنے پڑینگے۔ 24نیوز چینل پر سراج الحق نے خواجہ آصف کو بڑا کہہ کراپنے لئے اور خواجہ آصف کیلئے جھوٹا کہنا نامناسب قرار دیا اور کہا کہ ذہن پر زور ڈالامگر مجھے یاد نہیں آرہا کہ میں نے کب یہ بات کی اور یہ بھی کہا کہ میں جماعت کاذمہ دار ہوں مجھے جواب دینا مناسب نہیں۔ IJIمیں جماعتِ اسلامی استعمال ہوئی اور جنرل سیکرٹری پروفیسر ٖغفور نے حامد میرسے جیو پر کہاتھا کہ ان کو بعد میں پتہ چلا۔
اسلامی جمہوری اتحاد کے سینئر مولانا سمیع الحق نے نوازشریف کو قیادت دی تو میڈم طاہرہ کے سکینڈل کا سامنا کرنا پڑا۔ مولانا نور محمد ؒ نے اسلامی نظام کیلئے کئی سال جیل کاٹی، نوازشریف کی عزت افزائی سے وہ فلموں کے سنسر بورڈ کے وزیربن گئے۔ مولانا فضل الرحمن کے پتّے کو منصوبہ بندی سے ہی اتفاق ہسپتال میں نکالا گیاہے ۔ آج شیخ رشید نے طعنہ دیا ، کل خواجہ آصف کاطعنہ سہنا پڑیگا۔ فیروز چھیپا