تین طلاق کا وہ حقیقی اور فطری حل جس پر نہ صرف امت مسلمہ بلکہ عالم انسانیت کے مسائل حل ہوں گے
فتاویٰ قاضی خان کا شرمناک فتوی ملاحظہ کریں!
وفی الخانیة: رجل قال لامرأتہ ان لم یکن فرجی احسن من فرجک فانت طالق ، وقالت المرأة ان لم یکن فرجی احسن من فرجک فجاریتی حرة، قال الشیخ الامام ابوبکر بن فضل : ان کان قائمین عند المقالة برت المرأة و حنث الزوج ،لوکان قاعدین بر الزوج وحنث المرأة لان فرجھا احسن من فرج الزوج والامر علی العکس حالت القعود ،ان کان الرجل قائما والمرأة قاعدة قال فقیہ ابو جعفرلا اعلم ماھذا: و قال ینبغی ان یحنث کل واحد منھما لان شرط البر فی کل یمین ان یکون فرج کل واحد منھما احسن من فرج الاخر و عند تعارض لا یکون احدھمااحسن من الاخرفیحنث کل واحد منھما
ترجمہ”اور خانیہ میں ہے کہ آدمی نے اپنی عورت سے کہا کہ اگر تیری شرمگاہ میری شرمگاہ سے خوبصورت نہ ہو تو تجھے طلاق ! عورت نے کہا کہ اگر میری شرمگاہ تیری شرمگاہ سے خوبصورت نہ ہو تو میری لونڈی آزاد ہے۔شیخ امام ابوبکر بن فضل نے کہا کہ اگر دونوں بات کرتے ہوئے کھڑے تھے تو عورت بری ہوگئی (لونڈی آزاد نہیںہوئی) اور مرد حانث ہوا(طلاق پڑگئی)اور اگر دونوں بیٹھے تھے تو مرد بری ہوا اور عورت حانث ہوگئی اسلئے کہ عورت کی شرمگاہ حالت قیام میں زیادہ خوبصورت ہے اور معاملہ برعکس ہے بیٹھنے کی حالت میں، اگر مرد کھڑا ہوا اور عورت بیٹھی تھی تو فقیہ ابوجعفر نے کہا : نہیں جانتا کہ یہ کیا؟مگر چاہیے کہ ہر ایک حانث ہو اسلئے کہ ہر یمین میں بریت کی شرط یہ ہے کہ اس کی شرمگاہ دوسرے سے خوبصورت ہواور تعارض کے وقت دونوں حانث ہوں گے۔(الفتاویٰ التاتارخیہ : تالیف شیخ فریدالدین دہلوی ۔تعلیق مفتی محدث شبیراحمد قاسمی جامعہ قاسمیہ شاہی مراد آباد ہند۔مکتبہ رشیدیہ سرکی روڈ کوئٹہ)
سورہ بقرہ میں یمین کو طلاق کی جگہ قسم قراردینا غلط ہے ۔ سورہ المائدہ میں واضح ہے کہ ذلک کفارة ایمانکم اذا حلفتم ۔ یہ تمہارے یمین کا کفارہ جب تم نے حلف اٹھا یا ہو۔ فتاویٰ خانیہ کا غلیظ حوالہ دیا تاکہ پتہ چلے کہ یمین طلاق ہے۔
ولا تجعلواللہ عرضةً لایمانکم ان تبروا و تتقوا و تصلحوا بین الناس ( البقرہ:224)
”اور اللہ کواپنی طلاقوں کیلئے ڈھال مت بناؤ کہ نیکی ، تقویٰ سے اور لوگوں کے درمیان مصالحت کرنے سے”۔
طلاقوں کے ذریعے نیکی، تقویٰ اور لوگوں میں صلح نہ کرنے کی ممانعت ہے۔ میاں بیوی میں جدائی خاندانوں میں جدائی ہے اور یہ آیت طلاقوں اورعورت کے حقوق کیلئے مقدمہ ہے۔
لایؤاخذکم اللہ باللغو فی ایمانکم و لکن یؤاخذکم بما کسبت قلوبکم واللہ غفور حلیم
اللہ تمہیں تمہاری لغو طلاقوں سے نہیں پکڑتا لیکن پکڑتا ہے جو تمہارے دلوں نے کمایا ،اللہ غفور حلیم ہے۔(البقرہ225)
اس آیت نے طلاق مغلظ اور طلاق بائن کی جڑ ختم کردی۔ جو یہود کے نقش قدم پرچل کر فقہاء نے پھرایجاد کرلئے ہیں۔
للذین یؤلون من نسائھم تربص اربعة اشھر فان فاء وا فان اللہ غفور رحیم( البقرہ:226)
” جولوگ ایلاء کریں اپنی عورتوں سے ان کیلئے چار ماہ ہیں اگر وہ آپس میں مل گئے تو بیشک اللہ غفور رحیم ہے”۔ طلاق کا اظہار نہ ہوتو عورت کی یہی عدت ہے۔ رسول اللہۖ نے اپنی ازواج مطہراتسے ایلاء کے ایک ماہ بعد رجوع کیا تو سبھی میں خوشی کی لہر دوڑ گئی مگر اللہ نے حکم دیا کہ تمام ازواج کو علیحدگی کا اختیار دیں ۔ جدا ہونا شوہر کا اختیار اور رجوع کیلئے راضی ہونا بیوی کی بھی مرضی ہے ۔وہ بھی راضی تو اللہ غفور ہے۔ وان عزموا الطلاق فان اللہ سمیع علیم (البقرہ:227) ”اور اگر طلاق کا عزم تھا تو بیشک اللہ سنتا جانتا ہے”۔یہی دل کا گناہ ہے کہ طلاق کا عزم تھا اور اظہار نہ کرنے سے عدت ایک ماہ بڑھا دی۔ یہ آیات تسلسل سے ایک دوسرے کی تفسیر ہیں۔
المطلقٰت یتربصن بانفسھن ثلاثة قروئٍ ولا یحل لھن ان یکتمن ماخلق اللہ فی ارحامھن ان کن یؤمن باللہ والیوم الاٰخر وبعلولتھن احق بردھن فی ذلک ان ارادوا اصلاحًاولھن مثل علھین بالمعروف و للرجال علیھن درجة واللہ عزیز حکیم (البقرہ:228) ”طلاق و الی عورتیں عدت کے تین ادوار تک انتظار کریں اور ان کیلئے حلال نہیں کہ چھپائیں جو اللہ نے انکے پیٹ میں پیدا کیا ہے اگر وہ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہیںاور ان کے شوہر اس میںان کو اصلاح کی شرط پر لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں۔اور ان عورتوں کیلئے وہی حقوق ہیں جو ان پر ہیں معروف اور مردوں کا ان پر درجہ ہے اور اللہ عزیز حکیم ہے ”۔
دورجاہلیت کے دو مذہبی مسائل تھے۔ تین طلاق پر حلالہ اور ایک ایک طلاق سے عورت کی رضامندی کے بغیر رجوع دونوں کو بیخ وبنیاد سے اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعے اکھاڑ پھینکا۔ الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان ولا یحل لکم ان تأخذوا مما اتیتموھن شیئًا الا ان یخافا الا یقیما حدود اللہ فان خفتم الا یقیما حدود اللہ فلا جنا ح علیھما فیما افتدت بہ تلک حدود اللہ فلا تعتدوھا ومن یتعد حدود اللہ فاولٰئک ھم الظالمونOفان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ …(البقرہ : آیات:229اور230)
”طلاق دو مرتبہ ہے پھرمعروف طریقے سے رجوع یا احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے اور تمہارلئے حلال نہیں کہ ان کو جو دیا ہے کہ اس میں کچھ واپس لو۔ مگر یہ کہ دونوں کو ڈر ہو کہ پھر وہ اللہ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے اور اگر تمہیں ڈر ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو دونوں پر حرج نہیں عورت کی طرف سے وہ چیز قربان کرنے میںیہ اللہ کی حدود ہیں ان سے تجاوز مت کرواور جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔ پھر اگر اس نے طلاق دیدی تو اس کیلئے وہ حلال نہیں ہے یہاں تک وہ کسی اور شوہرسے نکاح کرلے”۔
پوچھا گیاکہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے؟۔ نبیۖ نے فرمایا کہ” تسریح باحسان ہی تیسری طلاق ہے”۔جس سے پہلے معروف یا اصلاح کی شرط پر رجوع ہے اور اس تیسری طلاق کے بعد خلع نہیں عورت کے حقوق کا تحفظ ہے کہ جو دیا وہ واپس نہیں لے سکتے اور پھر استثنائی صورت ہے جس میں طلاق شدہ دئیے ہوئے میں ضرورتاً کچھ فدیہ قربان کرے تو دونوں پر حرج نہیں۔ یہی وہ صورت ہے کہ جس میں طلاق کے بعد شوہر رجوع نہیں کرسکتا۔( نورالانوار : مسلک حنفی)۔ بہت ہی عجیب بات یہ ہے کہ آیت229میں تسریح باحسان کے بعد بھی جاہل کو خلع دکھائی دیتا ہے ۔ اللہ نے عورت کو مالی تحفظ دیا ہے جس کی وضاحت سورہ النساء آیت20میں بھی ہے اور خلع کو النساء آیت19میں واضح کیا ہے لیکن مذہبی طبقات آیت229کی بنیاد پر نہ صرف عورت کا استحصال کرتے ہیں بلکہ آیت230سے پہلے کی وہ تمام صورتحال بھی نظر انداز کرتے ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ میاں بیوی دونوں اور فیصلہ کرنے والے رابطہ کیلئے بھی کوئی چیز نہیں چھوڑتے۔ حنفی مسلک میں واضح ہے کہ آیت230کی طلاق سے مراد عورت کی آزادی ہے لیکن وہ پہلے شوہر سے آزادی کی جگہ کنواری لڑکیوں کے حوالہ سے صحیح حدیث کو ٹکراتے ہیں حالانکہ230میں طلاق کے بعدپہلے شوہر سے مکمل آزادی مراد ہے اور وہ ایک صورتحال سے مشروط ہے جو واضح ہے۔اگرعورت معروف طریقے سے رجوع کیلئے راضی ہو تو پھر اگلی آیات231اور232البقرہ میں عدت کی تکمیل کے بعد بھی رجوع کی ترغیب ہے لیکن یہ رجوع اذیت پہنچانے کیلئے نہیں ہو اسلئے کہ عورت کشتیاں جلاکر آتی ہے اور وہ جدائی نہیں چاہتی ہے۔ صلح میںرکاوٹ کو منع کردیا گیا ہے۔
عبداللہ بن عمر نے بیوی کو طلاق دی تو رسول اللہ ۖبہت غضبناک ہوگئے اور رجوع کا حکم دیا۔ فرمایا کہ پاکی کے دنوں میں اس کو اپنے پاس رکھو یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر پاکی کے دن آئیں اور حیض آجائے۔ پھر پاکی کے دنوں میں چاہو تو رجوع کرلو اور چاہو تو ہاتھ لگائے بغیر چھوڑ دو۔ یہ وہ عدت ہے جس میں اللہ نے اس طرح طلاق دینے کا امر کیا ہے۔
دنیا کی ہرزبان میں عربی سمیت مرتبہ کا تعلق ایسے فعل سے ہوتا ہے جس کی ابتداء بھی ہو اور انتہاء بھی ۔ مثلاً ایک مرتبہ کا ذکر ہے ۔ جب کہانی شروع ہوگی تو یہ ایک مرتبہ کا سلسلہ آخر تک چلے گا۔ ایک مرتبہ کی زندگی دنیا اور دوسری مرتبہ کی دوسری دنیا میں ملے گی۔ ایک مرتبہ نکاح کیا تو جب تک علیحدگی نہ ہو تو وہ چلتا رہے گا۔ ایک مرتبہ کھانا بلکہ دیکھنے کی ابتدا اور انتہا ہے بھلے پلک جھپکنے کی حد تک کیوں نہ ہو۔ ایک مرتبہ حلوہ کھایا ۔ ایک مرتبہ روپیہ نہیں کہہ سکتے۔10روپے کو10مرتبہ روپے نہیں کہہ سکتے۔10مرتبہ حلوہ کھانے کو10حلوہ کھانا نہیں کہتے۔
طلاق فعل ہے، تین مرتبہ طلاق کیلئے عدت کے تین مراحل ہیں۔3رات دن میں3روزے ہیں۔ حیض طہر کی عدت میں3مرتبہ طلاق لیکن حمل میں تین مرتبہ طلاق کا تصور نہیں ہے۔ رجوع کا تعلق عدت سے ہے نہ کہ تین مرتبہ طلاق سے۔ حیض کی صورت میں صرف تین مرتبہ طلاق کا طریقہ کار بتایاہے۔
آیت222البقرہ سے رکوع شروع ہے اور حیض کو اذیت قرار دیا ۔ حیض میں بیوی کی قربت سے روکا یہاں تک کہ پاک ہوں۔ پھر جیسے اللہ نے حکم دیا، ویسے انکے پاس آنے کا حکم ہے اور اللہ توبہ کرنے والوںاور پاکیزہ لوگوں کو پسند فرماتا ہے۔
البقرہ آیت222میں عورت کے انتظار کا وقت واضح ہے کہ طہارت کا دور ہے اور اس کی اذیت کا احساس دلایا ہے۔ ایرانی نژاد امریکن خاتون نے ”اسلام میں عورت کے حقوق ” پر کتاب میں لکھا کہ ” ایک شخص نے40ہزار حق مہر میں عورت سے نکاح کیا ، جو پیچھے سے جماع کرتا۔ عورت کی خواہش پوری نہیں ہوتی تھی، اس نے خلع کا مطالبہ کیا۔ شوہر نے نہیں مانا اور پھر آخر میں مجبور ہوکر50ہزار کے عوض اس نے خلع لے لیا”۔
قرآن نے عورت کو خلع کا حق اور مالی تحفظ دیااور اذیت سے توبہ کی آیت222میں فرمایا مگرآیت223البقرہ میں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ امام مالک اور عبداللہ بن عمر کے ہاں دبر میں جماع جائز اور امام ابوحنیفہ اور حضرت علی کے ہاں حرام ہے۔
آیت229میں دو مرتبہ طلاق رجعی کا نتیجہ کیا ؟۔ شوہر نے طلاق دی ۔ عورت عدت گزارے گی لیکن عدت کے ختم ہونے سے پہلے شوہر نے رجوع کرلیا اور پھر طلاق دی تو پھر عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کرلیا اور پھر طلاق دیدی ۔ تو لے بھئی وہ تیسری مرتبہ پھر عدت گزار نے پر مجبور ہوگی؟۔ کیا یہ حق اللہ کی طرف سے شوہر کو ملا ہے؟۔ یا اللہ نے ایک ہی عدت تک کسی بھی عورت کو انتظار کا حکم دیا ؟ ۔باقی یہودکا بچہ مسلط کرگیا؟۔
مسلک حنفی میں اگر شہوت کی نظر پڑگئی تو رجوع کی نیت نہ ہو تب بھی رجوع ہے اور مسلک شافعی میں رجوع کی نیت نہ ہو تو جماع سے بھی رجوع نہ ہوگا۔ شیخ المشائخ پیر سائیںکی روٹی چل رہی ہے اور کہتا ہے کہ چاروں مسلک بالکل بر حق ہیں؟۔
امام غزالی نے اسی کو گمراہی سے ”المنقذ من ضلال” (گمراہی سے نکالنے والی ) کتاب لکھ ڈالی۔ ارباب تصوف نے ان دلوں اور دلالوں کو ، یہود کے پیروکاروں کو درست طور پر گمراہ اور بے حقیقت قرار دیا جس کا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے بھی کالے سوکھے سڑے ہوئے چہروں کا ذکر کیا۔ ائمہ اہل بیت کومجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ نے اصل قرار دیا تھا۔
آیت229میں جس طرح دو مرتبہ طلاق سے طلاق رجعی مراد لینا غلط ہے اسی طرح سے تسریح باحسان تیسری طلاق سے یہ مراد لینا بھی غلط ہے کہ اس کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔
اسلئے کہ آیت228میں واضح ہے کہ اگر عدت کے تین مراحل میں تین مرتبہ طلاق دی تو بھی اصلاح کی شرط پر رجوع کی گنجائش ہے اور اگر عورت کو حمل ہوا تو رجوع کیلئے پھر عدت اور طلاق کی گنتی نہیں بچے کی پیدائش ہے۔ اور بچے کی پیدائش کے بعد بھی معروف طریقے، اصلاح کی شرط پررجوع کی گنجائش اللہ نے واضح کردی ہے۔ مولوی زن طلاق کہتا ہے کہ فتاویٰ کی کتابوں میں مسئلہ واضح ہے کہ اگر بچہ آدھے سے زیادہ ماں کی شرمگاہ سے نکلا تو پھر رجوع نہیںہوسکتا اور آدھے سے کم نکلا تو پھر رجوع ہوسکتا ہے۔ یہ نری بکواس ہے۔ سورہ طلاق میں اللہ نے واضح کیا کہ اگر عدت کے تین مراحل میں تین مرتبہ طلاق دی تو عورت کو اس کے گھر سے مت نکالو اور نہ وہ خود نکلے لیکن کھلی فحاشی کی مرتکب ہو تو اسلئے عدت میں اللہ موافقت پیدا کرسکتا ہے۔اور جب وہ اپنی عدت کو مکمل کریں تو معروف طریقے سے رجوع کرو یا معروف طریقے سے الگ کرو۔الگ کرنا ہو تو پھر دو عادل گواہ بناؤ اور پھر بھی جو اللہ سے ڈرا تو اس کیلئے اللہ مشکل سے نکلنے کا راستہ بنادے گا یعنی باہمی رجوع کا اور حضرت رکانہ کے والدین کیلئے اللہ نے راستہ بنادیا۔اسلئے کہ رکانہ کے والد نے اگرچہ دوسری عورت سے نکاح کیا لیکن رکانہ کی والدہ کو بھی مرحلہ وار تین طلاق اور عادل گواہوں کے بعد اس کو اسکے گھر سے نہیں نکالا۔ جمعیت علماء اسلام ضلع ٹانک کے امیر مولانا عبدالرؤف گل امام نے تین طلاق دی اور بیوی کو گھر سے نکالنے کے بجائے خود گھر سے باہر ہوگئے۔ اگر انکے دور میں مسئلہ طلاق واضح ہوتا تو اس کی خوب تبلیغ کرتے۔
حضرت عمر دور میں پہلی بار عورت کو شوہر نے3طلاق دی تو وہ رجوع پر راضی نہیں تھی۔ حضرت عمر نے طلاق کا فیصلہ دیا ۔ عبداللہ بن عمر نے مخالفت کی کہ رسول اللہۖ نے مجھے رجوع کا حکم دیا۔ بخاری میں سمندر کے موجوں کی طرح فتنے کا ذکراور حضرت عمر کے بچنے کی نوید ہے تو وہ عورت کی حق تلفی کا فتنہ تھا۔ عمر نے عبداللہ کو نااہل قرار دیا کہ جو طلاق میں عورت کو انصاف نہیں دے سکے تو امت مسلمہ کے امور سونپ دوں؟۔ حضرت علی نے حرام پر طلاق کا فیصلہ کیا جب عورت رجوع پر راضی نہیں تھی۔حضرت عمر کیلئے بہترین قاضی حضرت علی تھے۔ لولا علی لھلک عمر” اگرعلی نہیں ہوتا تو عمر ہلاک ہوتا”۔
بنوامیہ ،بنو عباس اور سلطنت عثمانیہ نے مذہبی طبقات کو ٹشو کی طرح استعمال کیا۔ لاتعداد لونڈیوں کیساتھ وہ کھیلتے تھے اور مولوی کو حلالہ کی شکل میں لذت کے خراج میں حصہ مل جاتا تھا۔ تاریخ اسلامی میں ایک عالم دین بھی حکمران نہیں بن سکا ہے۔ رسول اللہۖ نے فرمایا کہ وہ امت ہلاک نہ ہوگی جس کا اول میں ہوں،درمیان مہدی اور آخر عیسیٰ ”۔ علم کا دروازہ علی شیعہ نے عمر کے بغض میں چھوڑ دیا جس کی وفات کے بعد علی نے نہج البلاغہ میں تعریف کی اور سنی علماء نے امام ابوحنیفہ کی جگہ امام ابویوسف کی دربار سازی کو ترجیحات میں شامل کررکھا ہے۔
اگر سنی قرآن کو مانتا تو شیعہ نہ صرف قرآن بلکہ حضرت عمر کی قرآن فہمی پرحضرت فاروق اعظم کوبھی مانتا۔ چاروں امام ،حضرت عمر کا فیصلہ قرآن و سنت کے مطابق تھا۔ چار امام کا فیصلہ حدیث کے مطابق تھا کہ مزارعت سود ہے مگر امام ابوحنیفہ کے دنیا پرست شاگرد امام ابویوسف نے تو خلیفہ وقت کیلئے اسکے باپ کی لونڈی جائز قرار دی۔ رسول اللہۖ کی حدیث کو بیان کرنے والا مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع کا داماد اور خلیفہ مفتی عبدالرؤف سکھروی زندہ ہے کہ سود کے73گناہوں میں سے کم ازکم گناہ اپنی سگی ماں کیساتھ زنا کے برابر ہے اور شادی بیاہ میں لفافے کی لین دین سود ہے، مواعظ شائع ہیں۔ دارالعلوم دیوبندنے مفتی محمد شفیع کے معارف القرآن سے فتویٰ دیالیکن مفتی تقی عثمانی نے استاذ مولانا سلیم اللہ خان اور علماء دیوبند کے متفقہ فتویٰ سے انکار کیا سود کو جائزقرار دیا جس پر امریکہ اور مغرب پنجہ یہود میں پھنسا تھا۔کہتے ہیں کہ میمن سے کسی نے پوچھا کہ جنت میں جاؤگے یا دوزخ میں؟۔تو میمن نے کہا کہ جہاں دو پیسے مل جائیں۔
حاجی محمد عثمان اللہ والے میمن تھے اور مفتی تقی عثمانی اور علماء سوء نے الائنس موٹرز کے دو فیصد منافع کیلئے اسلام بیچ دیا تھا۔ مولانا فضل الرحمن نے مجھے کہا تھا کہ بکرے کو لٹادیا، چھرا ہاتھ میں ہے،تم پھیر دو۔اگر ٹانگیں ہلائیں گے تو ہم پکڑلیںگے۔ مولانا فضل الرحمن کے تو والد مفتی محمود کو شہید کیا۔ مفتی تقی عثمانی نے اصرار کرکے پان کھلایا ،مفتی رفیع عثمانی نے دورہ قلب کی گولی حلق میں ٹھونس دی۔ مفتی محمود نے چائے سامنے رکھ دی تو دونوں نے کہا کہ ہم دن میں ایک مرتبہ چائے پیتے ہیں۔مفتی محمود نے کہا کہ میں خود چائے زیادہ پیتا ہوں لیکن کوئی کم پیتا ہے تو یہ پسند ہے اور پھر مفتی تقی عثمانی نے پان کا بٹوہ دکھایا کہ حضرت ہمارے ساتھ یہ علت لگی ہوئی ہے۔ مفتی محمود نے کہا کہ یہ تو چائے سے بھی بدتر ہے۔ مفتی تقی عثمانی نے مفتی محمود کی وفات کے بعد وہ روداد ادھوری لکھی ۔ مولانا یوسف لدھیانوی شہید نے مگر پوری لکھی۔ پہلے تو جمعیت علماء اسلام پر غصہ تھا کہ مفتی تقی عثمانی پر اتنا بڑا بہتان باندھا کہ پان میں زہر کھلا دیا۔ مفتی تقی کی تحریر سے کنفرم ہوجاتا ہے کہ مفتی محمود کو پان نہیں کھلایا مگر اقراء دائجسٹ میں مولانایوسف لدھیانوی کی تحریر چھپ گئی تو معاملہ کھلا۔ مفتی تقی عثمانی نے اس کے بعد جھوٹ بکا ہے کہ مفتی محمود مجھ سے بے تکلف پان کھانے کیلئے مانگتے تھے۔
جب پاک فوج کی مخالفت میں پاکستان میں سخت فضا بن گئی تو مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ علامہ شبیراحمد عثمانی کو بھی زہر دیا گیا تھا۔ اگر مفتی محمود اور علامہ شبیراحمد عثمانی دونوں پر ایک کمیٹی بن جائے اور مفتی تقی عثمانی کا نامECLمیں ڈالا جائے تو پھر میڈیااور کورٹ کی سطح پر حقائق تک عوام کی پہنچ ہوسکتی ہے۔
حضرت عمر نے اہل کتاب کی خواتین کے نکاح پر پابندی لگائی کہ اگر یہود ونصاریٰ کی سرخ وسفید لڑکیوں سے نکاح ہوگا تو عرب عورتیں شوہر کے بغیر رہ جائیں گی لیکن عبداللہ بن عمر نے کہا کہ مشرک سے نکاح جائز نہیں تو عیسائی ویہود ی مشرک ہیںمگر انکا فتویٰ نص کے خلاف قرار دیکر قبول نہیں کیا گیاتھا۔
شیخ الہند مولانا محمود الحسن کے شاگرد سیداحمد شاہ پیر صابر شاہ سابق وزیراعلی پختونخواہ کے والد تھے۔ بانی اتحاد امت خورشید وارثی کیساتھ وزیراعلیٰ ہاؤس میں ملاقات ہوئی تھی۔ جس کی تائید مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی سمیت دیوبندی، بریلوی، شیعہ، اہلحدیث اور جماعت اسلامی سبھی نے کی تھی۔
سیداحمد شاہ نے ساؤتھ افریقہ، برما اور بنگلہ دیش میں بھی خدمات انجام دیں تھیں مگر دیوبند سے بدظن ہوگئے تھے اور شیخ الہندنے مالٹا جیل سے رہائی کے بعد قرآن سے دوری اور فرقہ واریت کو زوال کا سبب قرار دیا تھا۔ مولانا انور شاہ کشمیری نے وفات سے پہلے1933ء میں فرمایا ”میں نے اپنی ساری زندگی فقہ کی وکالت میں ضائع کردی ، قرآن وحدیث کی کوئی خدمت نہیں کی”۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع نے سوچا کہ جب مدرسہ میں زندگی ضائع کرنی ہے تو دنیا کمالیں ۔1970ء میں پیسہ لیکر جمعیت علماء اسلام پر کفر کا فتویٰ لگادیا تھا اور دارالعلوم کراچی میں مفتی تقی و مفتی رفیع عثمانی کو ذاتی گھر خرید کر دئیے۔ مفتی رشید احمد لدھیانوی نے اس کو شریعت کیخلاف قرار دیا تو تاریخی پٹائی لگادی۔ ہمارے استاذ مولانا شیرمحمد امیر جمعیت علماء اسلام کراچی نے انکے شاگردنے ان کو پیشکش کی کہ بدلہ لیتے ہیں ،انہوں نے منع کردیا کہ مزید مار پڑے گی۔
1985ء میں مولانا فضل الرحمن پر متفقہ فتویٰ لگادیا ۔پھر1987ء میں حاجی محمد عثمان پر کراچی کے علماء نے فتویٰ لگادیا تو مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ ”یہ سن70کا فتویٰ لگتا ہے اس پر مولویوں نے پیسہ کھایا ہوگا یہ پیر کوئی اچھا آدمی ہوگا”۔
علامہ اقبال نے ابلیس کی جڑ وں سے نقاب کشائی کی۔
یہ عناصر کا پرانا کھیل یہ دنیائے دوں
ساکنان عرش اعظم کی تمناؤں کا خوں
اس کی بربادی پہ آج آمادہ ہے وہ کار ساز
جس نے اس کا نام رکھا تھا جہانِ کاف و نوں
میں نے دکھلایا فرنگی کو ملکوکیت کا خواب
میں نے توڑا مسجد و دیر و کلیسا کا فسوں
میں نے ناداروں کو سکھلایا سبق تقدیر کا
میں نے منعم کو دیا سرمایہ داری کا جنوں
کون کرسکتا ہے اس کی آتش سوزاں کو سرد
جس کے ہنگاموں میں ہو ابلیس کا سوز دروں
جس کی شاخیں ہوں ہماری آبیاری سے بلند
کون کرسکتا ہے اس نخل کہن کو سر نگوں
علامہ انور شاہ کشمیری نے لکھا کہ ”اگر 7فقہاء مدینہ کے نام کاغذ میں لکھ کر پانی میں ڈالے جائیں اور اس پانی سے چھت پر چھڑکاؤ کیا جائے تو چھت میں کبھی دیمک نہیں لگے گی”۔
7فقہاء مدینہ کے سرخیل سعید بن مسیب تھے۔ جس پر بڑا تشدد اسلئے کیا گیا کہ ہشام بن عبدالملک نے اپنی چوتھی بیوی کو طلاق دی تو اس نے کہا کہ جب تک اس کی عدت پوری نہیں ہوجاتی تو چوتھی لڑکی سے نکاح حرام ہے اسلئے کہ رجوع کیلئے عورت انتظار کی پابند ہے تو شوہر بھی انتظار کا پابند ہے”۔ اسلئے طلاق مغلظ اور بائن کی بدعات آئیں۔ جہاں رجوع کا امکان ختم ہوجاتا ہے۔ فقہاء مدینہ کی طرح7فقہاء کوفہ کا سرخیل سعید بن جبیر تھے جس نے فتویٰ دیا کہ آیت230البقرہ میں حلالہ کیلئے نکاح کا ذکر ہے جماع کا نہیں ۔ جس پر حجاج بن یوسف نے انتہائی بے دردی سے95ھ میں شہید کردیا اور وجہ بھی نہیں بتائی کہ قصور کیا ہے؟۔ جبکہ7فقہاء بصرہ کے سرخیل حسن بصری نے اپنی جان بچائی کہ20سال پہلے ایک مستند شخص نے کہا تھا کہ عبداللہ بن عمر نے تین طلاق دی تھی اور پھر20سال تک کوئی دوسرا مستند شخص نہیں مل سکا جو اس کی تردید کرتا۔پھر ایک اور زیادہ مستند شخص نے کہا کہ ایک طلاق دی تھی (صحیح مسلم)۔
حسن بصری نے کہا کہ ”بعض علماء کا اجتہاد ہے کہ حرام لفظ تیسری طلاق ہے جسکے بعد حلالہ لازمی ہے (صحیح بخاری)۔
اہل بیت کے مقابلے میں بنوامیہ کا اقتدار اسی سہارے پر کھڑا تھا کہ اہل بیت حضرت عمر کے مخالف ہیں اور حلالہ کو نہیں مانتے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ڈھائی سال کے اقتدار میں احادیث کی کھلی اجازت دی اور101ھ میں وفات پاگئے لیکن اس سے پہلے عبدالملک بن مروان اور اس کے بیٹے ولید اور سلیمان اور اس کے بعد یزید ثانی اور ہشام بہت ظالم بڑے عیاش تھے۔ حسن بصری نے نابالغ بچی سے نکاح کو جائز کہا اور امام اوزاعی نے نکاح سے پہلے شرمگاہ کے علاوہ عورت کا پورا جسم دیکھنا جائز قرار دیا۔ اہل ظواہر نے شرمگاہ کو بھی جائز قرار دیا جس کی علامہ ابن حزم نے تقلید کی۔ کشف الباری شرح صحیح بخاری میں مولانا سلیم اللہ خان نے تفصیلات لکھ دی ہیں۔
محمود بن لبید وفات95ھ نے بچپن میں رسول اللہۖ کی زیارت کی تھی اور کہا کہ ایک شخص نے رسول اللہ ۖ کو خبردی کہ فلاں نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی۔ نبیۖ غضبناک ہوکر اٹھے اور فرمایا میری موجودگی میں تم اللہ کی کتاب کیساتھ کھیلتے ہو ایک شخص نے کہا کہ اس کو قتل کردوں؟۔(نسائی)
محمود بن لبید کی روایت کو بخاری ومسلم میں جگہ نہیں ملی لیکن حسن بصری کومل گئی؟۔ایک صحابی ، دوسرا تابعی۔ ایک7فقہاء میں شامل دوسرا نہیں؟۔ محمود بن لبید کی روایت میں شامل قتل کی پیشکش کرنے والے حضرت عمر اور طلاق والے عبداللہ بن عمر۔
امام ابوحنیفہ80ھ150ھ اور امام مالک93ھ179ھ نے محمود بن لبید کی روایت کو اپنی دلیل بنایا۔ امام شافعی مالک کے شاگرد تھے اور امام احمد بن حنبل امام شافعی کے۔امام بخاری اورامام مسلم احمد بن حنبل کے شاگرد تھے۔سبھی نے حکمرانوں کی سختیاں اور درباریوں کی مخالفت برداشت کی تھی۔ امام مالک کا آخر میں سوفٹ وئیر خوب اپڈیٹ کیا گیا تھا ۔ملاحظہ فرمائیں!
” منصور کے حاجب ربیع بن یونس کا بیان ہے کہ منصور نے امام مالک، ابن ابی زیب اور امام ابو حنیفہ کو بلا کر ان سے کہا کہ یہ حکومت جو اللہ تعالیٰ نے اس امت میں مجھے عطا کی ہے اس کے متعلق آپ لوگوں کا کیا خیال ہے؟ کیا میں اس کا اہل ہوں؟ امام مالک نے کہا کہ اگر آپ اس کے اہل نہ ہوتے تو اللہ اسے آپ کے سپرد نہ کرتا۔ ابن ابی زیب نے کہا دنیا کی بادشاہت اللہ جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ مگر آخرت کی بادشاہت اس کو دیتا ہے جو اس کا طالب ہو اور جسے اللہ اس کی توفیق دے۔ اللہ کی توفیق آپ سے قریب ہو گی اگر آپ اس کی اطاعت کریں ورنہ اس کی نافرمانی کی صورت میں وہ آپ سے دور رہے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ خلافت اہل تقوی کے اجتماع سے قائم ہوتی ہے اور جو شخص خود اس پر قبضہ کر لے اس کیلئے کوئی تقوی نہیں ہے۔ آپ اور آپ کے مددگار توفیق سے خارج اور حق سے منحرف ہیں۔ اب اگر آپ اللہ سے سلامتی مانگیں اور پاکیزہ اعمال سے اس کا تقرب حاصل کریں تو یہ چیز آپ کو نصیب ہو گی۔ ورنہ آپ خود ہی اپنے مطلوب ہیں۔ امام ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ جس وقت ابن ابی زیب یہ باتیں کہہ رہے تھے ،میں نے اور مالک نے اپنے کپڑے سمیٹ لیے کہ شاید ابھی ان کی گردن اڑا دی جائے گی اور ان کا خون ہمارے کپڑوں پر پڑے گا۔ اس کے بعد منصور امام ابو حنیفہ کی طرف متوجہ ہوا اور بولا آپ کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا اپنے دین کی خاطر راہ راست تلاش کرنے والا غضب سے دور رہتا ہے۔ اگر آپ اپنے ضمیر کو ٹٹولیں تو آپ کو خود معلوم ہو جائے گا کہ آپ نے ہم لوگوں کو اللہ کی خاطر نہیں بلایا ہے۔ بلکہ آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کے ڈر سے آپ کے منشا کے مطابق بات کہیں اور وہ عوام کے علم میں آجائے۔ امر واقع یہ ہے کہ آپ اس طرح خلیفہ بنے ہیں کہ آپ کی خلافت پر اہل فتوی لوگوں میں سے دو آدمیوں کا اجماع بھی نہیں ہوا۔ حالانکہ خلافت مسلمانوں کے اجماع اور مشورے سے ہوتی ہے۔ دیکھیے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ چھ مہینے تک فیصلے کرنے سے رکے رہے جب تک کہ اہل یمن کی بیعت نہیں آ گئی تھی۔ یہ باتیں کرکے تینوں صاحب اٹھ گئے۔ پیچھے منصور نے ربیع کو تین توڑے درہموں کے دیکر ان تینوں اصحاب کے پاس بھیجا اور اس کو ہدایت کی کہ اگر مالک لے لیں تو ان کو دے دینا۔ لیکن اگر ابو حنیفہ اور ابن ابی زیب انہیں قبول کر لیں تو ان کا سر اتار لانا۔ امام مالک نے یہ عطیہ لے لیا۔ ابن ابی زیب کے پاس جب ربیع پہنچا تو انہوں نے کہا میں اس مال کو خود منصور کیلئے بھی حلال نہیں سمجھتا اپنے لیے کیسے حلال سمجھوں؟ ابو حنیفہ نے کہا خواہ میری گردن ہی کیوں نہ مار دی جائے میں اس مال کو ہاتھ نہ لگاں گا۔ منصور نے یہ روداد سن کر کہا کہ اس بے نیازی نے ان دونوں کا خون بچا لیا”۔(مولانا سید مودودی)
صحیح بخاری نے حلالہ کی لعنت کو جاری کرنے کیلئے حدیث کا بالکل غلط حوالہ دیا تھا ۔امام زین العابدین کے شاگردابوخالد کابلی کابل افغانستان نے درست مسلک پھیلایا تھا اسلئے بخارا کے شہر میں امام بخاری کو دفن نہیں ہونے دیا گیا۔ تدفین شہر سے دور کی گئی۔امام ابوحنیفہ کے مسلک کو غلط رنگ دیا گیا کہ نکاح سے مراد جماع ہے اسلئے عدت کے بغیر عورت کاچھپ کر حلالہ کیا جاتا تھا۔کراچی سے ٹانک جاتے ہوئے نماز کیلئے اترے تو استنجاء کی جگہ نہیں تھی ،ایک محسود نے کہا کہ جو پانی کھڑا ہے اس میں ڈبو ؤو۔کسی نے کہا کہ پانی کا پتہ نہیں کہ پاک یا نہیں؟۔تو محسود نے کہا کہ چھوڑد و ،یہ کونسی پاک چیز ہے۔ حلالہ کی لعنت میں حلال حرام کیا؟اور حرمت مصاہرت کا معاملہ بہت براہے لیکن دیوبند نے ایک طرف عدت کا تصور دیا تھا اور دوسری طرف تبلیغی جماعت نے حلالہ کو سرعام کرنا شروع کیا۔
عصر حاضر کے تقاضوں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبر کہیں
الحذر آئین پیغمبر سے سو بار الحذر
حافظ ناموس زن مرد آزما مرد آفریں
ــــــــــ
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ دسمبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv