اگر سوٹا لیکر کسی کوبال بچوں سمیت ایک مرتبہ گھر میں گھس کر پیٹ ڈالاجائے ، تو ان کو اندازہ لگ جائے کہ دہشتگردوں نے جنکے گھروں میں قتل وغارت کا بازار گرم کیا، اصل منکر وہی ہے، نماز نہ پڑھنا زنا، رشوت، قتل، شرک سے بڑا جرم نہیں۔وینا ملک، عامرخان اور دہشگردی کے ماحول کو سپورٹ کرنا غلط ہے۔ ہم پر آفت پڑی تو یقین ہوگیا کہ خلافت قائم ہوگی لیکن انکے ساتھ ایسا ہو تو شاید اسلام بھی چھوڑدیں۔یزید نے خود حسینؓ ، آپؓ کے کنبہ کے افراد اور ساتھیوں کو شہید نہ کیا، اس وقت گلوبٹ کا پولیس کی جھرمٹ میں گاڑیوں کے شیشے توڑنے کا منظر بھی نہیں دیکھا جاسکتا تھا۔ یزید ی لشکر کا سپاہ سالار حضرت حرؒ اپنے لشکر کو چھوڑ کر حضرت حسینؓ کیساتھ ملا تھا۔ اگر یزید ان کارندوں کو سزا دیتا تو تاریخ میں اتنی ملامت کا سامنا نہ کرنا پڑتا ، یزید سے فائدہ اٹھانے والے سیاسی رہنماؤں کا حال بھی موجودہ دور کے حکمران رہنماؤں سے مختلف نہیں تھا۔ حالانکہ یزید اور اسکے ساتھی قبروں میں بلبلا رہے ہونگے کہ کہاں ماڈل ٹاؤن لاہور کا میڈیا کے دور میں یہ واقعہ اور کہاں اس دور کے حالات؟۔ دہشت گرد مخالفین کو مارتے تھے تو پنجاب کے وزیراعلیٰ شہبازشریف کہا کرتے تھے کہ ’’پنجاب میں حملہ نہیں کرنا چاہیے ، ہم آپ کیساتھ ہیں‘‘۔ دہشت گردوں کے حامی مذہبی لبادے والی بدترین بیکار مخلوق ابھی ہے۔ فوجی عدالت کی اسلئے ضرورت پیش آئی کہ دہشتگرد کو عام عدالتوں سے سزا نہیں ملتی تھی۔ قرآن کا یہ قانون دنیا کے سامنے پیش کیا جائے تو پاکستان میں ان جرائم کی شرح بالکل زیرو ہوگی۔ اسلئے کہ قتل کے بدلے قتل کی سزا انصاف کا عین تقاضہ ہے۔ قتل کے بدلے میں پچیس سال قید کی سزا، ریاست، جیل، اس شخص، اسکے خاندان اور اسکے دشمنوں سے بھی زیادتی ہے۔ بعض قاتل خود کو قانون کے حوالہ کردیتے ہیں۔ لواحقین و مخالفین دونوں کیلئے اس کا خود کو قانون کے حوالہ کرنا اسلئے اذیت کا باعث بنتاہے کہ لوئر کورٹ، سیشن کورٹ، ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ تک دھکے کھانا ، بھاری بھرکم رقم خرچ کرنا اور پیشیوں پر رسک لینا ایک لامتناہی آزمائش ہے۔ طالبان بنانے میں پیپلزپارٹی رہنما فرحت اللہ بابر کے بھائی نصیر اللہ بابر کے کردار کا سب کو پتہ ہے۔ طالبان پاکستان بھی پرویز مشرف نے عالمی قوتوں سے مل کر بنانے کا انکشاف کیا ۔ اگر طالبان اسلام کی سمجھ رکھتے اور اسلامی قوانین کو نافذ کردیتے تو پاکستان نہیں دنیا میں ان کا خیر مقدم کیا جاتا۔ طالبان نے اسلام کے نفاذ میں کوئی کردار ادا نہیں کیا اور پختون روایات کو بھی تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی دہشتگردوں اور امریکہ کو سپورٹ کرنے کے معاملے پر پھر لڑ رہے ہیں۔ اگر فوجی عدالت کے ذریعے دہشتگردی کا خاتمہ نہیں کیا جاتا تو یورپ کے دباؤ میں سزائے موت کا قانون بھی ختم ہوتا اور بڑے دہشتگردوں سے ڈیل کرتے یا سکیورٹی کا خرچہ کرکے خود کو بچانے کی کوشش کرتے اور عوام کو دہشتگردوں کے رحم وکرم پر چھوڑدیا جاتا۔ مشکوٰۃ شریف میں ایک خاتون کا دونوں ہاتھوں اور پیروں سے ناچنے کا ذکرہے ، اکابر صحابہؓ نے بھی مظاہرہ دیکھا ، رسول اللہﷺ بھی دیکھنے کھڑے ہوگئے۔ طرزِنبوت کی خلافت میں جبر کا ماحول نہیں ہوگا۔ کوئی انسان بھی اپنی بیوی سے زیادہ کسی بات پر غیرت نہیں کھا سکتا مگر اسلام نے 14 سو سال پہلے یہ قانون نازل کیا کہ قابلِ اعتراض حالت میں دیکھ کر قتل نہیں کرسکتے۔ لعان کی آیات میں میاں بیوی کا ایکدوسرے کا جھوٹا کہنے کے کلمات کا طریقہ ہے۔ حضرت عویمرعجلانیؓ نے بیوی کیخلاف گواہی دی اور بیوی نے اپنے خاندان کی ناک بچانے کیلئے اسکو جھٹلایا۔ اسلام کسی کی غیرت کو بھی خراب نہیں کرتا، جو قتل کرے تو اسکو بدلے میں قتل سے بھی نہیں کترانا چاہیے۔ غیرت کے نام پر کسی کو قتل کرکے اپنی زندگی کی بھیک مانگنے سے بڑی بے غیرتی کوئی نہیں ۔ اللہ نے فرمایا کہ قصاص میں تمہارے لئے زندگی ہے۔ کسی کو ناک کاٹنے پر ناک کاٹنے کی سزا دی جائے تو زندگی بھر نشے میں بھی اس ماحول کا کوئی فرد یہ جرم نہیں کرسکے گا۔ انصاف کیلئے بے چینی ختم ہو تو دہشتگردی ختم ہوجائیگی۔
حج و عمرہ دلچسپ موضوع ہے کہ خلفاء راشدینؓ کے اختلاف کی ہماری کتابوں میں وضاحت ہے۔ مشرکین مکہ دورِ جاہلیت میں سمجھتے تھے کہ حج کے زمانہ میں عمرہ کرنا جائز نہیں ، رسول اللہ ﷺ نے ایک حج کیا جس میں عمرہ کا احرام بھی ساتھ باندھ لیا۔ حضرت عمرؓ نے سمجھا کہ لوگ اس کو سنت سمجھ کر افضل کا یقین رکھتے ہیں۔ چنانچہ پابندی لگائی کہ حج کیساتھ عمرے کا احرام نہ باندھا جائے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسا کہ نماز کی سنتوں کے بعد اندرون سندھ، بلوچستان، پختونخواہ ، افغانستان اور دیگر علاقوں میں بعض دیوبندی اجتماعی دعا مباح سمجھ کر کرتے اور بعض بدعت سمجھ کر مخالفت کرتے ۔ کانیگرم جنوبی کانیگرم کے علماء نے نمازکی سنتوں کے بعد دعا نہ کرنے پر ایک پنج پیری عالم دین پر قادیانیت کے فتوے تک لگادئیے ۔ رسول اللہﷺ سے ایک وفد ملنے آیا،بڑی مونچھ اور داڑھی مونڈھ کر خوفناک چہرے والوں سے نبیﷺ نے پوچھا کہ تم نے چہروں کو کیوں مسخ کیاہے ؟، تو وہ کہنے لگے کہ ہمارے دین کا یہ حکم ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’ہمارے دین نے ہمیں مونچھ کم رکھنے اور داڑھی بڑھانے کا حکم دیا ‘‘۔ حدیث کا مطلب ان کو غلط طرزِ عمل سے آگاہ کرنا تھا۔ حضرت عمرؓ اس کو اچھی طرح سمجھتے تھے اسلئے اپنی بڑی مونچھ کو دین کے خلاف نہ سمجھا ۔ عربی مقولہ ہے الناس علی دین ملوکہم عوام الناس اپنے حکمرانوں کا طرزِ عمل اپناتے ہیں۔ حضرت عمرؓ کی وجہ سے بعد میں آنے والے مسلمان حکمرانوں ، سرداروں اور علماء کرام کے ہاں بڑی مونچھ کی روایت پڑگئی تھی، ٹیپو سلطانؒ ، سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ ، علامہ اقبال وغیرہ کی تصایر عام ہیں۔ اگر حضرت علیؓ کی مستحکم حکومت قائم ہوتی تو پھر بہت پہلے سے سر منڈھانے کی روایت مسلمان حکمران ، علماء اور عوام الناس میں پڑ جاتی۔ اسلئے کہ حضرت علیؓ کے متعلق ہے کہ داڑھی چھوٹی اور سر کو مونڈھواتے تھے۔ بہر حال حج وعمرہ ایک ساتھ کے حوالہ سے حنفی مسلک کا جمہور سے اختلاف تھا۔ بخاری میں حضرت عثمانؓ کا روکنے اور حضرت علیؓ کا اعلانیہ مخالفت کا واقعہ ہے۔ حضرت عمرؓ کا ذہن تقلیدی نہیں اجتہادی تھا، اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انکے کردار کو قرآن وسنت کیخلاف انحراف اور سازش قرار دیا جائے۔ امام ابوحنیفہؒ کا ذہن بھی اجتہادی تھا اسلئے وہ حضرت عمرؓ کی تقلید پر زور دینے کے بجائے جس راہ کو حق اور ٹھیک سمجھتے تھے اسی کو اختیار کرلیتے ۔ جب حنفی مکتب کی طرف سے ایک ساتھ حج و عمرہ کا احرام باندھنے کیلئے دلائل دئیے جاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ کیخلاف شیعہ اور حنفیوں میں کوئی فرق نہیں ۔ حضرت ابن عمرؓ سے کہا گیا کہ تمہارے والدؓ ایک ساتھ حج و عمرہ کا احرام باندھنے کے مخالف تھے تو کہنے لگے کہ اپنے باپ کو نبیﷺ کی جگہ رسول تو نہیں مانتا۔ حضرت ابن عباسؓ نے کہا تھا کہ مجھے ڈر ہے کہ تم پر پتھر نہ برس جائیں کہ میں کہتا ہوں کہ اللہ کے رسولﷺ نے یہ کیا اور تم حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کا حوالہ دیتے ہو۔ صحیح مسلم میں حضرت عمران بن حصینؓ کے حوالہ سے تقیہ اختیار کرنے کا ذکر ہے اسلئے کہ وہ اس مؤقف پر ڈٹے تھے کہ حج و عمرہ کا احرام ایک ساتھ سنت اور اللہ کی طرف سے نازل کردہ حکم ہے۔ بنی امیہ کے حکمران ضحاک نے ایک ساتھ حج وعمرے کو زبردست جہالت قرار دیا تو حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے سمجھایا کہ ہم نے نبیﷺ کیساتھ ایک ساتھ حج و عمرے کا احرام باندھا ۔ حج و عمرہ پر اختلاف کی شدت خلوص کا مظہر تھامگریہ اسلام کو اجنبیت کی طرف دھکیلنے کی شروعات تھیں، خواتین کو مساجد سے روکنااس سے زیادہ بڑا قدم تھا ۔حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ ’’ نبیﷺ موجودہوتے تو خواتین کو مساجد سے منع فرمادیتے‘‘۔ حضرت عائشہؓ نے خلافت کیخلاف جہادی لشکر کی قیادت کی۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’خبردار! میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایکدوسرے کی گردنیں مارنے لگو‘‘۔پھر گردنیں مارنے تک نوبت پہنچی لیکن ایکدوسرے پر کفر کے فتوے نہیں لگائے۔ امام حسنؓ نے صلح میں کردار ادا کیا۔ ریاست کیخلاف ہتھیار اٹھانے اور خواتین کی جماعتوں کونکالنے سے زیادہ آسان سنت کے مطابق ماحول بناناہے جہاں خواتین وحضرات مکہ کی طرح اجتماعی نماز کا اہتمام کرکے مساجدکو آباد کریں ۔ٹی وی کی رونقیں اور شخصیات کا پروٹوکول مساجد کو آباد نہیں کرسکتی ہیں۔ گھر، محلہ اور مسجد سے سنت کے ماحول کاآغاز ہوگا تو معروف کا درست تصوربھی اجاگر ہوگا۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ’’ قریش کی خواتین کو دنیا کی خواتین پر اسلئے فضلیت حاصل ہے کہ وہ اونٹ پربھی سواری کرلیتی ہیں‘‘۔ اونٹ کی سواری سے زیادہ ڈرائیونگ ہے، گاڑی چلاناعورت کیلئے شریعت کے منافی نہیں لیکن سعودیہ میں یہ پابندی لگائی گئی۔ جب خواتین پر مساجد میں پابندی لگ گئی تو بہت سی خرابیاں پیدا ہوئی ہیں، آج پھر سنت کی طرف آنا پڑے گا۔
کانیگرم جنوبی وزیرستان میں ایک نقارہ بجاکر اعلان کیا گیا کہ ’’ جس نے بھی روزہ نہ رکھا تو 500روپے جرمانہ ہوگا۔ کچھ جوانوں نے اسکی کھلے عام خلاف ورزی کی ، وہاں مغرب کے بعد گپ شپ کیلئے دعوت ہوتی تھی، روزے کیخلاف پابندی توڑنے کیلئے دن کی دعوت کا اہتمام ہوا۔ عوام میں انکو اسلام کادشمن تصور کیا جانے لگا، انکے بڑوں نے جرمانہ بھی ادا کیا اور اس اقدام کی وجہ سے شرمسار بھی ہوئے ، ان کو ڈانٹ ڈپٹ کر فرض بھی ادا کیا ہوگا۔ ان افراد میں اکثر یا سب شاید زندہ ہوں۔ ان لوگوں نے اپنے طور پر جو کیاسمجھ کر کیا؟، ہمارا انتہائی شریف پڑوسی تاج خان بھی ان میں شامل تھا، اس سے پوچھا کہ ’’ اس اقدام کی کیوں ضرورت پیش آئی؟‘‘۔ کیونکہ اس سے غلط حرکت متوقع نہیں ہوسکتی تھی تو اس نے کہا کہ ’’ میرا روزہ تھا، ہم نے یہ احتجاج اسلئے نوٹ کروایا تھا کہ روزے میں زبردستی اور جرمانے کا تصورغلط ہے‘‘۔ ایک مرتبہ شکار پور سندھ میں رمضان کا مہینہ گزارا، وہاں عوام کو کھلے عام دن دیہاڑے کھاتے پیتے دیکھ کر سمجھا کہ کھلے عام کھانے پینے والے ہندو ہیں پھر ایک مرتبہ گھر والی کے ایک رشتہ دار کو گلی میں سگریٹ پیتے دیکھا تو سمجھ گیا کہ دوسرے بھی مسلمان ہونگے۔ گرمی میں سفر کے دوران بھی مجھے روزہ رکھنے میں مشکل نہیں ہوتی تھی مگر جب دیکھا کہ مذہبی لوگ روزہ نہ رکھنے میں شرم کرتے ہیں توان کی جھجک دور کرنے کیلئے دورانِ سفر روزہ کھولنا شروع کیا۔ بنوں میں مسافروں کی بھی روزہ نہ رکھنے پر پٹائی لگ جاتی تھی۔ بہت ضروری ہے کہ اسلام میں غلو سے پرہیز کریں۔ علامہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ ’’ فطرت کے مقاصد کی کرتاہے نگہبانی یا بندۂ صحرائی یا مرد کوہستانی‘‘۔ کانیگرم جنوبی وزیرستان کے جن لوگوں نے روزے پر جرمانے کیخلاف اپنا احتجاج نوٹ کروایا تھا انکا احتجاج اصحابِ کہف کے جوانوں کی طرح تاریخ میں رقم کرنے کے قابل ہے۔ نماز، زکوٰۃ ، روزہ اور حج میں زبردستی کے تصور نے اسلام کے معروف احکام کا چہرہ مسخ کیا۔ علامہ اقبالؒ نے جو تصورات پیش کئے، ان پر اسلامی جمہوری اتحاد کی سازش میں پیسے کھانے والے حکمران کہاں عمل کرسکتے ہیں؟۔ علامہ اقبالؒ نے فرمایا کہ: ’’ایراں ہو عالم مشرق کا جنیوا شاید کرۂ ارض کی تقدید بدل جائے ‘‘۔ نوازشریف سعودیہ سے اپنے احسانات کا بدلہ چکانے کیلئے بھی کوئی قدم نہیں اٹھاسکتا۔ ڈرپوک کتا بھونکے اور دور سے پاؤں پٹخے جائیں تو بھاگ جاتاہے۔ ہمارا حکمران طبقہ دنیا کے خوف سے پہلے تو بھونکتا نہیں اور بھونکے تو دور سے پیر پٹخنے کی آواز سن کر بھاگتاہے۔ جب امریکہ ہماری پشت پناہی کرتاہے تو پھر اسلام کیلئے ریاست، قوم، وطن اور عزت وناموس تک سب کچھ قربان کردیتے ہیں لیکن جب امریکہ راضی نہ ہو تو بھونکنے کی ہمت نہیں کرتے اور دُم ہلانے کو ہی ترجیح دیتے ہیں اور کہیں آواز کی نوبت بھی آجائے تو مؤقف بدلنے میں دیر نہیں لگاتے ۔یہودونصاریٰ ، امریکہ اوراسرائیل سے زیادہ اپنے بنائے ہوئے پھندوں سے نکلنا ہمارے لئے بہت ضروری ہے۔بقول علامہ اقبال ’’سب اپنے بنائے ہوئے زنداں میں ہیں محبوس‘‘۔ فرقہ واریت کا ناسورہمیں صرف باتوں سے ختم نہیں کرنا ہوگا بلکہ قرآن وسنت اور فطرت و عقل کے مطابق لوگوں کو گمراہی سے نکالنا ہوگا۔ میرا تعلق کانیگرم جنوبی وزیرستان سے ہے جہاں کوئی نیا فرقہ نہیں۔ اکبربادشاہ کے دور میں ہندوستان میں مجدد الف ثانیؒ نے درباری کا کردار ادا نہیں کیا ، ہمارے کانیگرم کے پیرروشان بایزید انصاریؒ نے اکبر کیخلاف عملی جہاد کیا ،بادشاہوں کے خلاف لڑنے والی شخصیات کومتنازع بنانے میں درباریوں کا اہم کردار ہوتاہے۔ میرا کسی نئے فرقہ سے تعلق نہیں ، البتہ علماء دیوبندکے مدارس میں فقہ حنفی کی تعلیم حاصل کی ۔ بقولِ اقبال ’’ جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے جنگیزی‘‘ ۔ دین میں سیاست نہ ہو تو وہ اسلام نہیں بدھ مت، ہندومت اور عیسائیت ہے مگراسلام نہیں ۔ اسلام میں سیاست نہ ہوتی تو مکہ سے مدینہ ہجرت کا حکم نہ ملتا ۔ خلفاء راشدینؓ کی سیاست قرآن وسنت کا بنیادی ڈھانچہ تھا، اسلئے ان کی اتباع کا حکم ہے۔
سورۂ توبہ میں ان مشرکوں سے برأت کا اعلان ہے جن سے مسلمانوں نے عہدوپیمان کیا کہ وہ اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے اور اللہ نے کافروں کو ذلت سے دوچار کرناہے۔ حج اکبر کے دن لوگوں میں اعلان کرنا ہے کہ اللہ مشرکوں سے بری ہے اور اسکے رسول(ﷺ) بھی بری ہیں۔ اگر تم توبہ کروتوتمہارے لئے بہتر ہے اور اگر تم پھر گئے، تو اللہ کو عاجز نہیں بناسکتے، کافروں کو بشارت دو درد ناک عذاب کی۔ مگر وہ مستثنیٰ ہیں جنہوں نے معاہدوں کی کچھ خلاف ورزی نہ کی اور نہ تمہارے خلاف کسی کی مدد کی۔ تو ان کی مدت تک ان سے عہدو پیمان کو پورا کرو، اللہ پسند کرتاہے پرہیز گاروں کو۔ جب حرمت کے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں سے لڑو،جہاں ان کو پاؤاور ان کو پکڑو اور ان کو محصور کردو، اور ان کیلئے ہرگھات پر بیٹھوپھر اگر وہ توبہ کریں اور نماز پڑھیں اور زکوٰۃ دیں تو ان کا راستہ چھوڑدو، اللہ غفور رحیم ہے اور اگر کوئی مشرکین میں سے پناہ مانگے تو اس کو پناہ دو،یہاں تک کہ اللہ کے کلام کو سن لے۔ پھر اس کو وہاں پہنچادو جہاں اس کو تحفظ حاصل ہو۔ یہ اسلئے کہ یہ وہ قوم ہے جو سمجھ نہیں رکھتے۔ مشرکوں سے اللہ اور اسکے رسول کا کیا عہد ہوسکتاہے؟۔ مگر جن لوگوں نے معاہدہ کیا مسجد حرام کے پاس اور پھر جب تک وہ قائم رہیں تو تم بھی قائم رہو۔ بیشک اللہ پرہیزگاروں کو پسند کرتاہے۔ (سورۂ توبہ)۔ قرآن سے صاف ظاہر ہے کہ آیات میں ان مشرکین کا ذکر ہے جنہوں نے حجاز مقدس میں معاہدے کئے اور توڑے، جہاں حرمت کے چار ماہ میں جنگی بندی ہوتی تھی، جو معاہدے کے پابند رہے اور کسی دشمن کو مدد فراہم نہیں کی ان سے معاہدے پورے مدت تک قائم رکھنے کی تاکید ہے اور جنہوں نے معاہدے توڑے ان کیلئے بھی حرمت کے مہینوں کو برقرار رکھا گیا۔ پھر اللہ نے فرمایا ہے کہ فقتلوھم حیث وجدتموھم ’’ان سے لڑو، جہاں ان کو پاؤ‘‘۔ دہشت گردوں نے آیت کا یہی جملہ دیکھ کر اللہ کا حکم سمجھا کہ مشرک جہاں ملے قتل کرو۔ حالانکہ اس سے لڑنا مراد ہے، قتل کرنا نہیں۔ اگلا جملہ واضح ہے کہ واخذوھم ’’ اور ان کو پکڑو، ان کا محاصرہ کرو اور ہر گھات پر ان کیلئے بیٹھو‘‘۔ دشمن کو قتل کرنے سے زیادہ مشکل پکڑ لینا ہے۔ اللہ کرے کہ مسلمان بلندی پر پہنچ جائیں، کشمیر کو اقوام متحدہ کے بغیر بھی آزاد کرسکیں اور ہندوستان کی چھ لاکھ فوج پکڑ کر لائیں تاکہ بنگلہ دیش کا بدلہ اُتاردیں۔ البتہ ان آیات سے ہندو اور دیگر مشرکین عیسائی وغیرہ مراد نہیں ۔ یہود گستاخ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں گستاخی کرتے تھے اور عیسائی تثلیث کا مشرکانہ اعتقاد رکھتے تھے تب بھی اللہ نے ان کی خواتین سے شادی کی اجازت دی ،بیویاں بناکر قتل کرنا مقصد تو نہ تھا۔ بریلوی دیوبندی حنفی ہیں لیکن ایکدوسرے سے اتنا بغض رکھتے ہیں جتنا اسلام نے یہودو نصاریٰ سے بھی بغض رکھنے کی تعلیم نہیں دی۔ صحابہؓ نے یہودونصاریٰ کی خواتین سے شادیاں کیں لیکن متعصب علماء ومفتیان مسلمان فرقوں میں بھی نفرت پھیلانے کے مرتکب ہیں۔حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے خلوص میں شک نہ تھا مگر آپؓ نے یہودونصاریٰ کو مشرکین قرار دیکر ان کی خواتین سے شادی کی اجازت منسوخ قرار دی۔ علم وفہم کو عام کرنا ہوگا۔ فرمایا: ’’اگر کوئی مشرک پناہ لے تو اس کو پناہ دو، یہاں تک کہ اللہ کی آیات سن لے اور پھر جہاں اس کو امن ہو وہاں تک پہنچادو‘‘۔ ہندو سپاہی آیا تو پاکستان نے واپس کیا،حالانکہ کوئی صلح حدیبیہ کا معاہدہ نہ تھا مگرہم نے دشمن کیساتھ وہ سلوک روا رکھا جس پر دنیا کا کوئی ملک عمل نہیں کرتا ، بھارت نے اس پر تشدد بھی کیا ہوگا مگراس اقدام سے ان عناصر کی حوصلہ شکنی ہوگی جو اخلاقی معیار و قانون کی پاسداری نہ کریں۔مفتی محمد شفیعؒ اور علامہ غلام رسول سعیدیؒ کی تفاسیر میں حنفی مسلک کے نقطۂ نگاہ سے اختلاف ہے۔ مفتی شفیعؒ کا معارف القرآن دہشت گردوں کی ذہن سازی کا انتہائی غلط ذریعہ ہے۔ طالبان ، علماء ومفتیان نے میری کتاب ’’جوہری دھماکہ‘‘ کے بعدجس طرح تصویر کے مسئلہ پر مفتی محمد شفیع ؒ کا مؤقف مسترد کیا ، تشدد کے حوالہ سے بھی میرا مؤقف انشاء اللہ اپنائینگے۔
پنج وقتہ نماز کیلئے وضو و حالت جنابت سے غسل کا عمل صفائی ستھرائی کے علاوہ سفر حضر، گرمی سردی ہرموسم اور عمر کے ہر دور میں حضرات و خواتین کو بہار کی طرح تروتازہ رکھتا ہے۔ اللہ نے فرمایا ’’بلاشبہ نماز بے حیائی اور منکرات سے روکتی ہے‘‘۔ مدینہ و مکہ میں چودہ سوسال پہلے خواتین و حضرات ، لڑکے لڑکیوں اور بچے بچیوں کا مسجد میں اجتماع منکرات سے بچنے کا ذریعہ تھا، آج خانہ کعبہ میں یہ منظر ملتا ہے مگر مسلمان تصور نہیں کرسکتا کہ ایک محلہ کی مسجد میں بھی عوام بیت اللہ کی طرح اکھٹے نماز پڑھیں۔ طرزِ نبوت کی خلافت ہو،خواتین کو حقوق ملیں تو مساجد بھر جائیں گی۔ خواتین اسلام سے محبت ،کرداراور عبادت میں مردوں سے کم نہیں ۔مارکیٹوں، مزاروں، تعلیمی اداروں اور سفر وحضر کے معمولات کی طرح مساجد میں مخلوط نظام عبادت کا تصور اُجاگر ہوگا۔ نیک گھرانے روزِروشن کی طرح نمایاں اور سب پر اثر انداز ہونگے۔دہشت گردی، چوری، ڈکیتی ،بے حیائی اور منکرات کا جڑ سے خاتمہ ہو گا۔ خواتین کی وجہ سے گھر کے مرد حضرات باجماعت نماز کی پابندی کرینگے۔ تشددکا خاتمہ اوراخلاقی معیار بہت بلند ہوجائیگا۔ محلہ میں گھر کی طرح نظام ہوگا،اڑوس پڑوس کا حق اُجاگر ہوگا،مساجدکی حفاظت کیلئے پولیس کی ضرورت ہوگی، نہ ریاست پر اضافی خرچے کا بوجھ ، ایکدوسرے کے غمی خوشی میں شریک ہونگے۔ کالج یونیورسٹی سے حج وعمرہ تک جو مسلمان اکھٹے مگر مساجد میں اجتماعی نمازنہیں جوتقویٰ اور فحاشی ومنکرات کے خاتمے کا ذریعہ تھا۔ پنجاب میں حجاب پر طالبات کیلئے اضافی نمبروں کی تجویز آئی تھی ۔ مساجد 1400سال پہلے جاہلانہ ماحول کو بدلنے کا منبع رہیں، آج بھی بن سکتی ہیں۔ خانہ کعبہ میں کوئی خواتین اور بچیوں کو اجتماعی عمل طواف اور نماز باجماعت سے نہیں روکتا، وہاں مذہب نہیں بلکہ ماحول بدلتاہے، پوری دنیا کا ماحول کو بدلنا ہوگا۔خانہ کعبہ میں ایک نماز کا ثواب لاکھ کے برابر ہے اور مسجد نبوی ﷺ اور بیت المقدس میں50ہزار کے برابرہے، مسجدوں کا رخ کرینگے تو یہ اللہ کے حکم پر عمل ہوگا کہ وارکعوا مع الراکعین ’’رکوع کرنے والوں کیساتھ رکوع کرو‘‘۔ نبی کریمﷺ نے حکم دیا کہ کوئی بیوی کو مسجد میں آنے سے نہ روکے ۔ ایک صحابیؓ نے اپنی بیگم کو روکا تو انکے والد نے زندگی بھر ان سے بات نہ کی کہ نبیﷺ کا حکم نہیں مانا ۔ یہ سنت ترک ہوئی تو ایسے شر کا دور آیا کہ عشرہ مبشرہؓ کے صحابہؓ نے بھی ایکدوسرے کو قتل کیا۔ عبداللہ بن زبیرؓ کے وقت میں کعبہ کا مطاف منجنیق کے ذریعے پتھر سے بھر دیا گیا۔ لوگوں پر مساجد میں ایسی خوف کی کیفیت طاری ہوئی کہ جہری نمازوں میں بسم اللہ پڑھنا مسجد کے ائمہ کیلئے مشکل ہوگیا۔ حضرت امام شافعیؒ پڑھنا لازم قرار دیتے تھے’’ تو ان کا منہ کالا کرکے گدھے پر گھمایا گیا کہ تم رافضی ہو‘‘۔آج مساجد کے ائمہ کی اکثریت بعض طبقوں کے ہاتھوں میں یرغمال ہیں، حق بات سمجھ کر بھی حق کا ساتھ نہیں دے سکتے ۔جس دن محلے کے لوگوں نے مل جل نماز پڑھنی شروع کی اور اس میں خانہ کعبہ کی طرح ماحول بنالیا تو پھر مخصوص مذہبی لبادے اور طبقے اپنی اجارہ داری مسجد اور امام پر مسلط نہ کرسکیں گے۔فرقہ واریت ختم ہوجائیگی۔ نبیﷺ نے فرمایا: ’’کہ لوگوں پرایک زمانہ آئیگاکہ اسلام کا کچھ باقی نہ رہیگا مگر اسکا نام ، قرآن میں سے کچھ باقی نہ رہیگا مگر اسکے الفاظ، مساجد لوگوں سے بھری ہونگی مگر ہدایت سے خالی اور انکے علماء آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہونگے، ان سے فتنہ نکلے گا اور انہی میں لوٹے گا۔ (عضر حاضر)۔نبیﷺ نے ازواج مطہراتؓ سے فرمایا کہ’’ میرے بعد حج نہیں کرنا‘‘۔ حضرت عائشہؓ حج کیلئے گئیں اورپھرجنگوں کی قیادت کی۔ نبیﷺ نے اسی تناظر میں فرمایا کہ ’’وہ قوم فلاح نہیں پاسکتی ، جس کی قیادت عورت کررہی ہو‘‘۔ (بخاری) حضرت عائشہؓ نے لبیدؓ کا شعر پڑھ کر فرمایاکہ وہ زمانے کی شکایت کررہا تھا اگر ہمارا زمانہ دیکھ لیتا تو کیا کہتا۔۔۔۔ (عصر حاضر)۔ سیاسی اور تبلیغی سرگرمیوں کی وجہ سے معاشرے میں گروہی تقسیم کا نقشہ طرزِ نبوت کی خلافت سے بالکل یکسر بدل جائیگا۔ مساجد ہدایت سے خالی نہیں بلکہ رشدوہداہت کا محور ومرکز بن جائیں گی۔
یاجوج نے کہا : یہ کون ہے جو پانامہ کے انڈے پر بیٹھی نہ جانے کیا کیا بیچاری سوچ رہی ہے؟۔ ماجوج نے جواب دیا: ابے ! بتادیا تو پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کی کہیں توہین نہ ہوجائے! یاجوج : اس مرغی صاحبہ کے سر کی قسم اگر توہین عدالت کا خوف ہو تو بلا جھجک کہیو کہ جیو ٹی وی چینل کی ہوسٹ ہے جوکبھی ’’ہم سب اُمید سے ہیں‘‘ کا پروگرام کرتی تھی نہ جانے اب کیا مسخرے کرتی ہے ماجوج: جیو کے پروگرام کی اب کسی اور سے یاری ہوگئی ہے، اب نواز لیگ ، عدالت اور جمہوریت کی تثلیث کی دیوانی ہے۔ ایک دفعہ ماڈل ایان علی کی طرح جیو بھی پھنس گئی تو جان نہیں چھوٹ رہی یاجوج: یار اصل بات کا جواب دو اگر پانامہ انڈے پر بیٹھی مرغی عدالت نہیں تو کیا پھر مرغا بنچ ہے ؟ ماجوج: اپنی عدالت کی تاریخ یہ رہی ہے کہ مجرم کو پکڑنا اس کیلئے آسان نہیں، اگر بنچ نے مرغا بن کر اذان سحر شروع کردی تو پھر یہ بہت بڑا انقلاب ہوگا جو مجاہد کی اذاں اور شاہین کا جہاں ہوگا۔ یاجوج: ابے! تمہیں کرگس کے جہاں میں ملاں کی اذاں سے اس قدر نا اُمیدی کیوں ہے؟ ۔جب روٹین کا معاملہ چل رہا ہے تو ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔ وکالت کی مشق کرنے والے سے بھی کبھی مشک کی خوشبو آسکتی ہے؟۔ ماجوج: علامہ اقبال نے کہا تھا کہ مجذوب فرنگی مرزا غلام احمد قادیانی نے مہدی کے تخیل کو بدنام کیا مگر جہاں ہرنیں رہتی ہیں وہاں سے تمہیں نا اُمید نہیں ہونا چاہیے۔ نوشتۂ دیوار سے ایسی فضاء بن رہی ہے کہ مُلاؤں کی ان طاقتوں سے جن سے ریاستیں ڈرتی ہیں اب یرغمال اسلام کو بازیاب کیا گیا تو مرغے کیا کبوتر سے تن نازک میں بھی شاہیں کا جگر پیدا ہوگا۔
علماء ومفتیان نکاح وطلاق کے بارے میں عوام کو اسلامی تعلیم نہیں دیتے بلکہ ناک کی نکیل کی طرح عقیدتمندوں کوہاتھ میں رکھا ہے، کوئی شک نہیں کہ اسلام کی بقاء کیلئے علماء ومشائخ کی بڑی خدمات ہیں۔ وزیرستان کے لوگ بہت مہمان نواز ہوتے تھے، عام لوگوں کے مہمان خانے بھی نہیں تھے، مہمانوں کو گھر میں چولہے کے پاس بٹھادیتے تھے ۔ کسی سادہ میزبان نے دیکھا کہ مہمان کی شلوار پھٹی ہے تو اس نے کہا کہ ’’اگرچہ تم مہمان ہو لیکن اپنے فوتے کو چھپاؤ‘‘۔ اس کی اس سادگی کو اتنی مقبولیت حاصل ہوئی کہ اس کہاوت کو بہت سارے معاملات میں استعمال کیاجانے لگا۔ جسکا مطلب یہ ہے کہ احترام اپنی جگہ پر لیکن اپنی حدود سے باہر نکلنا بھی قابلِ برداشت نہیں ہے۔ علماء ہمارے سروں کا تاج اور مشائخ ہمارے دلوں کا راج ہیں لیکن قرآن و سنت کے حدود میں ہی رہنا ہوگا۔ سورۂ بقرہ کی آیات224سے لیکر 232تک ، سورۂ طلاق کی پہلی دو آیات کی تفصیل دیکھ لی جائے تو طلاق و رجوع کی تمام حدود سمجھ میں آجائیں گی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ وضاحت کردی کہ جیسے مردوں کے عورتوں پر حقوق ہیں ویسے عورتوں کے بھی مردوں پر حقوق ہیں البتہ مردوں کوان پرایک درجہ حاصل ہے۔ بعض پاگل قسم کی خواتین اس آیت کی وجہ سے برگشتہ ہیں۔ حالانکہ یہ فضلیت مردوں کو مہنگی پڑتی ہے، طلاق میں عورت حق مہر اور دی ہوئی چیزوں کی مالک بنتی ہے۔ عدت کا انتظار بھی عورت کے اپنے ہی مفاد میں بھی ہوتا ہے۔ نکاح کے میثاق غلیظ یعنی پختہ عہد وپیمان کو طلاق مغلظ میں بدلا گیا اور اس کیلئے انواع واقسام کے فقہی مسائل اور احادیث گھڑنے سے بھی دریغ نہیں کیا گیا۔ مفتی عطاء اللہ نعیمی نے لکھا ۔تیسری حدیث: عن انس قال سمعت معاذ بن جبل یقول: سمعت رسول اللہ ﷺ یقول : یا معاذ ! من طلق لبدعۃ واحدۃ أو اثنین أو ثلاثاً الزمناہ ( دارالقطنی کتاب الطلاق )رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے معاذ ! جس نے ایک یا دو یا تین بدعی طلاق دیں ، ہم نے اسکی بدعت کو لازم کردیا‘‘۔ جتنی طلاق دے واقع ہونگی۔ چوتھی حدیث: نبیﷺ نے فرمایا أیما رجل طلق امرأتہ عند الاقراء أو ثلاثا مبہمۃ لم تحل لہ حتی تنکح غیرہ ( سن الکبریٰ ، کتاب الخلع والطلاق) یعنی جس شخص نے اپنی بیوی کو الگ الگ طہروں میں یا بیک وقت تین طلاقیں دیں تو وہ عورت اس کیلئے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ دوسرے خاوند کے پاس نہ رہے‘‘ ۔( طلاق ثلاثہ کا شرعی حکم ۔ جمعیت اشاعت اہل سنت پاکستان ، نور مسجد کاغذی بازار کراچی ) نبیﷺ کی حدیث سے بدعت کی توثیق بجائے خودغلط ہے ، الفاظ کا انتخاب بھی ان احادیث کے من گھڑت ہونے کی دلیل ہیں۔ حنفی مکتبۂ فکر کے علماء قرآن کے مقابلے میں صحیح احادیث کو بھی ترک کردیتے ہیں، حنفی علماء کی معتبر تصانیف میں ان احادیث کو اسلئے جگہ نہیں مل سکی کہ ان پر اعتماد نہیں تھا ۔جب احادیث گھڑنے سے دریغ نہیں کیا گیا تو اور کیا کچھ نہیں ہوا ہوگا؟۔ طلاق سے رجوع کیلئے باہمی رضامندی سے آیات کو نظر انداز کیا گیا۔ شوہر اوربیوی کے حقوق واضح ہیں مگر عدت میں بھی بیوی کا حق نظر انداز کیا گیاہے جس کی وجہ سے امت اختلافات کے علاوہ خرفات کا بھی شکار ہوگئی۔ اگر صرف یہ خیال رکھا جاتا کہ خواتین کا بھی حق ہے تو کسی بھی غیر فطری اختلاف وتضاد کی گنجائش نہیں ہوتی۔ طلاق کا واقع ہونا کوئی بڑی بات نہیں البتہ رجوع کی گنجائش ختم کرنا بڑا مسئلہ ہے۔ حضرت عمرؓ نے بھی اسلئے ایک ساتھ تین طلاق کے واقع ہونے کا فتویٰ دیاتھا کہ اگر طلاق واقع نہ ہو توپھر عورت دوسری جگہ شادی نہیں کرسکتی۔ عورت کے حق کیلئے ضروری ہے کہ ایک طلاق ہو یا تین طلاق بہرحال عورت کی مرضی کے بغیر اس کو ناقابلِ رجوع قرار دیا جائے ، حضرت عمرؓ کا مؤقف درست اور قرآن کے مطابق تھا۔ البتہ جب باہمی رضامندی سے اللہ تعالیٰ نے عدت کے اندروباہر بار بار رجوع کی اجازت دی ہے تو نہ حضرت عمرؓ نے رجوع کا حق منسوخ کیا ہے اور نہ ائمہ نے باہمی رضامندی کے قرآنی حق کو منسوخ کیا ہے اور نہ کرسکتے تھے۔ اللہ نے طلاق کی جس صورت پر حلال نہ ہونے کی بات فرمائی ہے وہ ایک مخصوص صورت کیساتھ خاص ہے جس کو حلالہ کی لعنت والوں نے اپنی حدود سے نکال کر بہت پھیلا دیا ہے۔ مسلم امہ نے قرآن وسنت کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔تفصیل صفحہ نمبر 3پر
افغانستان کے مشہور بادشاہ امیر امان اللہ خان 1919ء تا1929ء اپنی بیگم ثریا کے ساتھ جرمنی1928ء میں مندرجہ بالا تصویر میں نمایاں ہیں۔ وزیرستان کے لوگوں کا اس وقت لباس سے بہت مختلف تھا۔ عام لباس کو ایسا سمجھا جاتا جیسے شلوارقمیص کے مقابلے میں پینٹ شرٹ کا تصور ہے۔ وزیرستان میں روایتی پردہ و برقعہ نہ تھا مگر سفید شٹل کاک کو قبول عام کا درجہ حاصل تھا ،کالا برقعہ فیشنی برقعہ کہلاتا تھا۔ طالبان شدت پسند قائدین حکیم اللہ محسود اور قاری حسین کے گاؤں کوٹ کئی جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے دارالعلوم کراچی کے فاضل مولانا زین العابدین جس نے ایم اے بھی کیا تھا اور پی ایچ ڈی کرنے کا ارادہ تھا۔ طالبان کا قاضی بھی رہا ۔ اس نے کہا کہ ’’ مولانا فضل الرحمن کے گھر کی خواتین فیشنی برقعہ پہنتے ہیں‘‘۔ جس پر میں نے جواب دیا تھا کہ ’’ یہ غیر اسلامی نہیں ہے‘‘۔ دارالعلوم کراچی کے طلبہ کہتے تھے کہ مفتی تقی عثمانی کے گھر کی خواتین بھی دارالعلوم سے باہر نکلتے ہی برقعہ اتار دیتی ہیں۔مولانا سندھیؒ روایتی پردے کو غیر شرعی کہتے تھے۔ کچھ عرصہ قبل برقعوں کا تصور بھی نہ تھا۔ خواتین روایتی پردہ بھی نہ کرتی تھیں، معاشرہ کی اشرافیہ میں چوٹی کے لوگوں کا پردہ ہوتا تھا ، جن میں نواب، پیر اور بڑے لوگ تصور کئے جانے والے پردہ کرتے تھے مگر وہ بھی شرعی پردہ نہ تھا بلکہ ہندوستانی روایات کی پاسداری تھی، بہت قریب کے دور میں شرعی پردے کا تصور بھی اجاگر ہوا، ایسے شرعی پردے کا وجود مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے قدیم اسلامی معاشرے میں بھی نہیں تھا۔ نبی ﷺ کی ازواجؓ کو خاص طور سے مخالب کرکے پردے کا حکم اللہ نے اسلئے دیا کہ آپﷺ کے دروازے پر ہر قسم کا دوست، دشمن، منافق، کافر ، جان پہچان والا اور اجنبی دستک دیتا تھا۔ آج جس کسی کی بھی ایسی حالت ہوتی ہے تو اس کے گھر کی خواتین احتیاط برت رہی ہوتی ہیں۔ حضرت عائشہؓ کی طرف سے ایک جہادی و سیاسی لشکر کی قیادت اور حضرت زینبؓ نے جس طرح واقعہ کربلا پر احتجاج کا مظاہرہ کیا، یہ سنی اور شیعہ کیلئے لازوال مثالیں ہیں۔ جب حج کے موقع پر طواف اور کعبہ میں ایک ساتھ خاندان سمیت نماز پڑھی جاتی ہے تو اپنا روایتی اسلام سب بھول جاتے ہیں۔ اگراسلامی شدت پسند مغربی خواتین کو روایتی پردے پر مجبور کریں اور خلافت کے قیام کے بعد انہیں لونڈیاں اور اپنی بیبیاں بناکر نیم برہنہ لباس پہنے کا مظاہرہ کروائیں تو دنیا ہماری اس حرکت پر حیرانی سے کہیں مر نہ جائے۔نبیﷺ کے دور میں تو شلوار یہود کا لباس تھا لیکن نبیﷺ خود نہیں پہنتے تھے البتہ پہلے سرکے بال مشرکین مکہ کے طرز پر مانگ نکال کر پیچھے کی طرف گنگی کرتے تھے اور بعد میں یہود کی طرح آگے کی جانب گنگی کرنے لگے، پھر آخر میں پہلے کی طرح پیچھے کی جانب گنگی کرنے لگے (بخاری) ۔ بلوچوں میں گھیر والی شلوار قومی لباس ہے اور پنجابیوں کا تہبند قومی لباس ہے، اس طرح کسی کی شلوار قمیص اور کسی کی پینٹ شرٹ قومی لباس ہے۔ مذہبی لوگ اگر سنت پر عمل پیرا ہوں تو انکے لئے مخصوص پہچان کے بجائے عوامی لباس پہننا ہی سنت ہے۔ مولانا مودودیؒ پہلے کلین شیو تھے ، پھر چھوٹی داڑھی اورپھر علماء کے اصرار پر لمبی داڑھی رکھ لی۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کا تعلق پنجاب سے تھا ساری زندگی شلوار پہنی اور آخر بڑھاپے میں سنت زندہ کرنے کیلئے دھوتی پہننا شروع کی۔ حدیث میں کچی اینٹوں کے تکلف کی مخالفت تھی اور شیخ الحدیث مولانا زکریا ؒ نے سنت پر عمل پیرا ہونے کیلئے کچی اینٹوں سے تکلف کرکے اپنا مکان بنوایا۔ سبز عمامے پیلے رومال رنگ رنگیلے لباس نبیﷺاور صحابہؓ کے طرزِ عمل کی نفی اور فرقوں کی خاص شناخت ہے۔اسی طرح مونچھ اور داڑھی مخصوص تراش خراش کا معاملہ بھی ہے۔علماء و مفتیان کی اکثریت ہمیشہ بادشاہوں کی درباری رہی ہے اور بادشاہوں کا حال مختلف ادوار میں کسی سے مخفی نہیں رہا ہے۔ پاکستان کا قانون یہ ہے کہ ریاستی اداروں کے ملازمین ریٹائرمنٹ کے بعد بھی دو سال تک سیاست نہیں کرسکتے۔ جنرل ایوب ، جنرل ضیاء اور جنرل مشرف نے ملازم ہوکر بھی سیاست کی اور سیاستدانوں کی اکثریت انکی پیداوار ہے۔ جنرل راحیل کیلئے کسی این او سی کی قانونی ضرورت بھی نہیں تھی لیکن جب پاکستان کے اندر باہر سے ملازم معین قریشی لاکر وزیر اعظم بنایا جاسکتا ہے تو ہمارا جنرل راحیل باہر ملازمت کیوں نہیں کرسکتا؟۔آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ پر حکومت کی تذلیل اس لئے تو نہیں ہورہی ہے کہ عوام سے راجا داہر کا بدلہ اتارنے جیسا سلوک ہورہا ہے؟۔
حیض (ماہواری )مہینے میں 3سے 10دن جبکہ پاکی کے دن 20سے27دن ہیں۔ نبیﷺ سے حیض کاحکم پوچھاگیا، تو قرآن نے اذیت قرار دیا۔ عورت کو اذیت ہوتی ہے اور ناپاکی بھی۔ علماء نے ترجمہ ، تفسیر اور فقہ سے اذیت غائب کردی، لغت کی کسی کتاب میں اذیٰ کے معنیٰ ناپاکی کے نہیں۔اللہ نے اذیت کی وجہ سے توبہ اور ناپاکی کی وجہ سے طہارت والوں کو پسندیدہ قرار دیا ۔ علماء وفقہاء کے دماغ میں صرف مردوں کا حق ملحوظِ خاطر رہا، اسلئے عورت کی اذیت کو خاطر میں نہ لایا گیا ۔ حرث کا معنیٰ اثاثہ بھی ہے اور کھیتی بھی۔ علماء نے اپنے لئے غیرت کھائی ہوتی تب بھی عورت کو کھیتی نہیں اثاثہ قرار دیتے۔گھر کی ملکہ، بچوں کی ماں، سسرال کی بہو اور انسان کی عزتِ جان ’’محترمہ بیوی‘‘ کو بہت بے غیرتی کا مظاہرہ کرکے کھیتی قرار دیا گیا۔ کھیتی میں لوگ بول وبراز کرتے ہیں، گدھے اور بیل اور ٹریکٹر سے ہل چلایا جاتاہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئر مین مولانا محمد خان شیرانی سے ہم نے طلاق کے مسئلہ پر بات کی تو اس نے عورت سے متعلق کھیتی باڑی کے اجارے کا ذکر کیا۔ طلبہ کو پڑھایاجاتاہے کہ حضرت ابن عمرؓ نے عورت سے پیچھے کی راہ مباشرت کو جائز قرار دیا۔ حضرت علیؓ نے اس کو کفر قرار دیا، امام ابوحنیفہؒ کی رائے حضرت علیؓ کیمطابق ہے اور امام مالکؒ کا قول وعمل اسکے بر عکس ہے، وہ کہتاہے کہ ابھی ابھی میں نے بیوی سے پیچھے کی طرف سے مباشرت سے غسل کیا۔ مسلکی اختلافی بحث ہے کہ قرآن کے لفظ انّٰی شئتم سے کیا مراد ہے؟ ۔ جہاں سے چاہو سے لواطت ثابت اور جیسے چاہو سے لواطت حرام قرار دی جاتی ہے۔اگر عورت کے حق کو بھی ملحوظِ خاطر رکھا جاتا تواس قسم کے فضول اختلافات اور بکواسات کی ضرورت نہ پڑتی،جو بدقسمت مذہبی نصاب کا حصہ ہیں۔ اللہ نے حیض میں بھی واضح اور بڑی ترجیح اذیت کو دی ہے۔ عورت کی اذیت کوبھی موضوع بحث بنایا جاتا تو تفسیر وفقہ میں قرآن کی آیات کے مفہوم کی گردن مروڑنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ اللہ نے سورۂ مجادلہ میں خاتون کی رائے پر مذہبی قول جھوٹ و منکر قرار دیا اور سورۂ احزاب نبیﷺ کو حکم دیا کہ’’ اللہ کے نازل کردہ اتباع کرو،اللہ کی وکالت کافی ہے‘‘۔ امام اعظمؒ نے بعض احادیث کو قرآن سے متصادم قراردیا تو یہ سب دین کو برباد کرنے کیلئے تھا یاتحفظ کیلئے ؟۔پھر اما م ابوحنیفہؒ کے نام پر مسائل گھڑے گئے۔ اس آیت میں عدت و طلاق کے حوالہ سے واضح ہے کہ جس طرح دن کو روزہ رکھا جاتاہے ، رات کو نہیں۔ اس طرح بیوی سے مقاربت کا زمانہ حیض نہیں پاکی کے ایام ہیں۔ جس طرح دن رات میں ایک مرتبہ روزہ رکھا جاسکتاہے، اسی طرح ایک مرحلے میں ایک مرتبہ طلاق ہے۔
مندرجہ بالا آیات میں چار ماہ کا انتظار وعدت واضح ہے جوتین ماہ یا تین طہرو حیض کے مقابلہ چار ماہ یا چار طہرو حیض ہے۔ جس طرح یہ بہت بڑی کم عقلی ہوگی کہ 15دن سفر کی بات ہو اور اس بات پر اختلاف کیا جائے کہ 15رات مراد ہیںیا15دن۔ حالانکہ دونوں مراد ہیں، بولنے میں 15رات کہا جائے یا15دن۔ بات ایک ہی ہے۔ اللہ نے حیض کی صورت میں عورت کی عدت تین مرحلے متعین کیے لیکن اگر حیض نہ آتا ہو یا اس میں کمی بیشی ہو تو پھرتین ماہ۔ جیسے بیماری ، زیادہ عمر اور بچے کو دودھ پلانے کی صورت میں ماہواری وقت پر نہیں آتی ۔ اسکی اللہ نے3ماہ کی وضاحت کردی ہے جو تین طہروحیض کے ہی برابر ہیں۔ مدارس کے طلبہ اور علماء ومفتیان کتابوں میں بے سروپا اختلافات کی وجہ سے کھلی ہوئی آیات کا معنی ومفہوم سمجھنے سے بھی قاصر رہتے ہیں۔ جاہلیت میں شوہر کی زباں سے قسم نکل جاتی کہ عورت کے پاس نہ جائیگا تو عورت زندگی بھر بیٹھی رہتی کہ طلاق کا اظہار نہ ہوا۔ اللہ نے واضح کیا کہ لغو قسم سے اللہ نہیں پکڑتا بلکہ دل کی کمائی پر پکڑتاہے۔ 4ماہ تک باہمی صلح و رجوع کیا تو اللہ غفور رحیم ہے۔آیت میں عورت کا حق واضح ہے۔ شوہر طلاق کا اظہار نہ کرتا تو بیوی حق سے زندگی بھر محرومی رہتی ۔ آیت میں واضح ہے کہ مرد کو 4 ماہ تک صلح کی ڈھیل ہے اور عورت کو 4ماہ بعد طلاق کا اظہار نہ ہونے کے باوجود دوسری شادی کی اجازت ہے ۔بیوہ کی عدت 4ماہ 10 دن ہے۔ طلاق کا اظہار نہ کیا تو اظہارِطلاق سے 1ماہ زیادہ اور بیوہ سے 10 دن کم کی عدت کی کھلی وضاحت ہے۔فقہاء نے عورت کاحق نظر انداز کیا، حنفیوں کے نزدیک 4ماہ گزرتے ہی طلاق ہوگی اور جمہور کے نزدیک جبتک طلاق نہ دیگاعورت 4ماہ بعد بھی بیٹھی رہے گی۔ فضول اختلافات نے مسلم اُمہ کو ذہنی مفلوج کردیا ، سمجھدار طبقے کیلئے یہ کافی ہے کہ قرآن کا مدعا عورت کا حق کو محفوظ کرنا تھا، جیسے بیوہ کی 4ماہ10دن عدت ہے ، اگر شادی نہ کی تو موت کے بعد تختی لگے گی کہ زوجہ مفتی اعظم ۔۔۔اور قیامت کے دن بھی رشتہ قائم رہے گا یوم یفرالمرء من اخیہ وامہ وابیہ واصاحبتہ و بنیہ ’’ اس دن آدمی فرار ہوگااپنے بھائی ، باپ، اپنی ماں ،بیوی اور اولادسے‘‘۔ نبیﷺ نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ ’’اگر مجھ سے پہلے فوت ہوگئیں توخود غسل دونگا‘‘۔ حضرت ابوبکرؓ کی میت کو آپکی ز وجہ نے غسل دیا اور حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہؓ کو غسل دیا،پھر میت کا غسل علماء کا کسبِ معاش بن گیا۔ اللہ نے واضح کیاکہ طلاق کا عزم تھا تو اسکا اظہار نہ کرنے پر پکڑ ہوگی اسلئے کہ ایک ماہ عدت میں اضافہ ہوا۔جس طرح عدت کے بعد بیوہ نے فیصلہ کرنا ہے کہ فوت شدہ شوہر سے اپنا تعلق بحال رکھے یا نئی شادی کرے۔ مگر فوتگی کے بعد مرد کے حق کو موضوع بحث بنایا گیا۔احمق علماء نے فوتگی پر طلاق واقع کردی ۔بہشتی زیور میں ہے کہ بیوی شوہر کو غسل دے سکتی ہے لیکن شوہر کپڑے کے بغیر چھو نہیں سکتا۔ روزنامہ جنگ میں مولانا سعید جلالپوریؒ نے لکھا کہ’’ ایک کے فوت ہونے پر دونوں اجنبی بنتے ہیں‘‘۔ اسی طرح ایلاء میں بھی عورت کے حق کو نہیں دیکھا۔ ایک طبقے نے کہا کہ مرد کا حق استعمال ہوا، عورت حرام ہوگئی ، دوسرے نے کہا کہ مرد کا حق استعمال نہیں ہوا،اظہار طلاق تک نکاح بحال رہیگا۔ حالانکہ عورت کا حق دیکھا جاتا تو اس اختلاف کی نوبت نہ آتی ۔ عورت کو چارماہ انتظار کے بعد یہ حق بھی پہنچتا کہ بیوہ کی طرح دوسری جگہ شادی کرلے اور اگر اسی شوہر سے 4ماہ گزرنے کے باوجود باہمی رضامندی سے رجوع پر راضی ہوتی تو بھی ناجائز نہ ہوتا۔1: عورت کاحق بحث سے خارج کیا، حالانکہ قرآن کا بنیادی مقصد عورت کے حق کو تحفظ دینا تھا، 2: روایتی ملا کے ذریعے نکاح پڑھانا پیشہ بن گیاجس کا قرآن وسنت میں وجود نہ تھا،3: حلالہ کے دلچسپ مفاد نے فقہاء کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ دیں تھیں۔
و المطلقٰت یتربصن بانفسھن ثلثۃ قروءٍ ولا یحل لھن ان یکتمن ما خلق اللہ فی ارحامھن ان کن یؤمن باللہ و الیوم الاٰخر و بعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحاً و لھن مثل الذین علیھن بالمعروف و للرجال علیھن درجۃ و اللہ عزیز حکیمO (البقرہ:228)
اور طلاق والی انتظار میں رکھیں خود اپنی جانوں کو تین قروء (طہر و حیض) تک اور ان کیلئے حلال نہیں کہ چھپائیں جو پیدا کیا ،اللہ نے انکے پیٹ میں اگر وہ ایمان رکھتی ہیں اللہ پر اور آخرت کے دن پر، اور انکے خاوند حق رکھتے ہیں انکے لوٹانے کا اس مدت میں بشرطیکہ صلح کرنا چاہیں، اور عورتوں کا بھی حق ہے جیسا کہ مردوں کا ان پر ہے معروف طریقہ سے۔ اور مردوں کو اُن پر ایک درجہ حاصل ہے اور اللہ زبردست ہے حکمت والا ہے۔(نبیﷺ حضرت ابن عمرؓ کو طلاق کی صورت کا یہ نقشہ سمجھایا)
اظہار طلاق نہ ہوتو عورت 4ماہ اوراظہارِطلاق کے بعد3مرحلے یا3ماہ کی عدت کی پابندہے۔ شوہر کا یہ بڑا درجہ ہے کہ وہ طلاق دے اور عورت عدت کا انتظار کرے۔ عورت کی رضا اور صلح کے بغیر شوہر عدت میں بھی یکطرفہ رجوع نہیں کرسکتا، فقہاء نے عورت کا حق تلف کردیا اور شوہر کو غیرمشروط رجوع کاحق دیا ۔ اللہ نے وضاحت کی وان یریدا اصلاحا یوفق اللہ بینھما ’’اگردونوں کا ارادہ صلح کا ہو تو اللہ موافقت پیدا کردیگا‘‘۔اللہ نے باہمی رضاسے میاں بیوی کے درمیان نہ صرف صلح کا دروازہ کھلا رکھا بلکہ صلح کیلئے انتظار کا پابند بھی بنایا۔ اللہ نے واضح کیا کہ عورت پابند ہے اور عدت کے بعد دوسری شادی کرسکتی ہے ۔فقہاء نے عورت نہیں صرف شوہر کا حق ملحوظِ خاطر رکھا۔ چنانچہ لکھا کہ ’’ مسئلہ26: بچے کا اکثر حصہ باہرآچکاتو رجعت نہیں کرسکتامگر دوسرے سے نکاح اس وقت حلال ہوگا کہ پورا بچہ پیدا ہولے۔( ردالمختار، الطلاق ج 5ص193۔نعم الباری فی شرح صحیح البخاری، ج 10،ص766، علامہ غلام رسول سعیدی)۔ عورت کا بھی خیال رکھا جاتا تو اللہ کا حکم سمجھنے میں اتنی بڑی ٹھوکریں نہ کھاتے۔ جن الفاظ میں بیوہ کو عدت کی تکمیل کے بعد دوسری شادی کی اجازت ہے ،ان الفاظ میں باربار عدت کی تکمیل کے بعد رجوع کی اجازت ہے، مفتی تقی عثمانی نے ’’آسان ترجمہ‘‘ کے نام پر الفاظ کے ترجمہ میں تحریف کی ۔مولانا انورشاہ کشمیریؒ نے قرآن میں معنوی تحریف کا ذکرکیا۔ حضرت عمرؓ نے یکجائی تین طلاق نافذ کرنے کا حکم خواتین کے تحفظ کیلئے دیاتھا اگر ایک مرتبہ کی طلاق کے بعد جھگڑا ہوتا اور عورت صلح پررضامند نہ ہوتی تب بھی حضرت عمرؓ رجوع کی اجازت نہ دیتے۔دومرتبہ طلاق کا تعلق شوہر کے غیرمشروط اختیار سے نہیں اور اللہ نے بار بار رجوع کا تعلق عدت سے واضح کردیا ہے۔ کاش طلاق واقع ہونے کے ساتھ رجوع کی آیات پر بھی فطرت کے مطابق توجہ دی جاتی۔
حیض میں مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق کا عمل واضح ہے، حمل میں تین مراحل سے تین مرتبہ طلاق کا تعلق نہیں بن سکتا۔ حضرت ابن عمرؓ نے معاملہ نہیں سمجھا تو نبی ﷺ نے غضبناک ہوکر عدت و طلاق کایہ عمل اسی طرح سے سمجھایا۔ اس معاملہ میں غلطی کھانے والے پر غضبناک ہونا رحمۃ للعالمینﷺ کی سنت تھی ۔ علماء کا اختلاف تھا کہ طلاق قول ہے یا فعل؟۔ جنکے ہاں قول ہے ، انکے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاق درست ہیں اور جنکے ہاں فعل ہے ،انکے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاق ایک ہیں ۔ (ہدایۃ المجتھد: علامہ ابن رشد قرطبیؒ )ہاتھ لگانے سے پہلے نکاح و طلاق قول ہے، ہاتھ لگانے کے بعدنکاح و طلاق فعل بن جاتاہے،قرآن وسنت اور فطرت کا مسئلہ واضح ہے مگر معروف اسلام کو منکر بنادیا گیا۔ میاں بیوی آپس میں راضی ہوں، گھر والے صلح کروائیں، دونوں طرف کا ایک ایک رشتہ دار صلح کروائے۔یہ فطری معروف طریقہ ہے۔ فقہاء نے منکررجوع ایجاد کرلیا،شافعی مسلک ہے کہ نیت نہ ہوتومباشرت بھی رجوع نہیں۔ حنفی مسلک ہے کہ’’ نیند میں شہوت کا ہاتھ لگے ، بیوی اورشوہر دونوں کی شہوت معتبر ہے‘‘۔ عورت کا حق صلح کی شرط منظور نہیں لیکن عورت کا نیند میں شہوت سے ہاتھ لگنا رجوع ہو تو اس مذاق پر غصہ ہونا چاہیے یا نہیں؟۔ صحابیؓ نے پوچھا کہ قرآن میں تیسری طلاق ہے؟۔ نبیﷺ نے فرمایا تسریح باحسان تیسری طلاق ہے، کوئی مفتی سے پوچھتا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے تو مفتی کہتا کہ ’’تیری آنکھیں نکل جائیں، تجھے نظر نہیں آتا کہ فان طلقہا فلاتحل لہ کتنی واضح آیت ہے۔صحابہؓ کے واقعات میں حدیث صحیحہ واضح ہیں کہ وہ طہرو حیض کی عدت وطلاق کے مراحل کو ہی تسلسل کیساتھ تین مرتبہ طلاق کا عمل سمجھتے تھے۔ نبیﷺ پر حدیث گھڑنے پرشرم نہ آئی تو صحابہؓ اور ائمہ مجتہدین ؒ کی طرف جھوٹ منسوب نہ کیا ہوگا؟۔ ضعیف حدیث، اکابر واصاغرصحابہؓ ،ائمہ مجتہدینؒ اور فقہاءؒ و محدثینؒ کا اختلاف ہے کہ ایک طلاق پر شوہر کی دو طلاقیں ہمیشہ باقی ہیں، دوسرا شوہر طلاق دے تو پہلا شوہر سابقہ دو طلاق کا مالک ہوگا یا تین طلاق کا؟۔ جمہور کی رائے تھی کہ پہلا شوہر سابقہ دو طلاق کا مالک ہوگا، امام ابوحنیفہؒ کی رائے تھی کہ تین طلاق کا مالک ہوگا۔ جبکہ قرآن و حدیث میں واضح ہے کہ شوہر طلاق کی صورت میں عدت کا حقدار ہے۔ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق میں عدت کاحق نہیں۔ فقہ میں ہاتھ لگانے سے پہلے کی تین طلاق پر مضحکہ خیز اختلافی مسائل ہیں کہ کونسی صورت میں درمیان کی یا صرف آخری طلاق واقع ہوگی۔ طلاق کی ملکیت دنیا کا پہلا عجوبہ ہے جس میں پہلا شوہر عورت کی دوسری شادی کے بعد بھی دو طلاق کا مالک ہے اور دوسرا شوہر دو طلاق دیکر رجوع کرلے تو پھر ایک طلاق کا مالک عورت کا حقدار اور پہلا شوہر دوطلاق کا مالک ہوکر بھی حقدار نہیں۔قرآن و حدیث میں طلاق وعدت لازم ملزوم ہیں، شوہر طلاق کی عدت کا حقدار ہے نہ کہ طلاق کی عجوبہ ملکیت کا۔ کوئی یہ پسند کریگا کہ ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی دو طلاقوں کا مالک کوئی اورہو اور شوہر ایک طلاق کا مالک بن کر کار گزاری کرے؟۔ یہ عجوبہ احسن طلاق کے نام پر گھڑا گیا۔ آیت 230 البقرہ سے پہلے دونوں میاں بیوی اور فیصلہ کرانیوالوں کی طرف سے باہوش وحواس عورت کی طرف سے مجبوری کی حالت پر فدیہ دینے میں دونوں پر کوئی حرج نہ ہونے کی وضاحت ہے۔ چونکہ مرد ایسی صورتحال پر بھی عورت کو مرضی سے جہاں چاہے شادی نہیں کرنے دیتا، اسلئے اللہ نے مرد کو حدود سے نکلنے کی اجازت نہ دی، عورت کو مرضی سے جہاں چاہے شادی کی اجازت دی۔حضرت ابن عباسؓنے فرمایا:’’ اس طلاق کا تعلق قرآن کے سیاق وسباق کے مطابق دومرتبہ طلاق کے بعد تیسرے مرحلہ میں عورت کی طرف سے فدیہ دینے کی صورت سے ہے‘‘۔درسِ نظامی کی کتاب ’’نوراانوار‘‘ میں طلاق کی اس صورت کو حنفی مسلک کیمطابق فدیہ دینے سے وابستہ قرار دیا گیا، تفسیرکے امام علامہ زمحشریؒ نے اسی صورتحال پر زور دیا، مگرحلالہ کی لعنت کے مزے اڑانے والے اللہ کی حدود کو پامال کرنے میں اندھے ہوگئے۔
و اذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فامسکوھن بمعروفٍ او سرحوھن بمعروفٍ ولا تمسکوھن ضرارً لتعدوا ومن یفعل ذٰلک فقد ظلم نفسہ ولا تتخذوا اٰیٰت اللہ ھزواً واذکروا نعمت اللہ علیکم وما انزل علیکم من الکتٰب و الحکمۃ یعظکم بہٖ و اتقوا اللہ واعلموا ان اللہ بکل شیءٍ علیم(البقرہ: آیت 231)
اور جب تم نے عورتوں کو طلاق دی پھر پہنچیں وہ اپنی عدت کو، تو انکو معروف طریقے سے روکو یا معروف طریقے سے چھوڑ و۔ اور نہ روکوانکو ستانے کیلئے تاکہ ان پر زیادتی کرو۔ اور جو ایسا کرے تو بیشک اس نے اپنی جان پر ظلم کیا اور مت بناؤ اللہ کے احکام کو مذاق اور یاد کرو اللہ کی نعمت کو جو تم پر اس نے کی ہے۔ اور اسکو جو اتاری تم پر کتاب میں سے اور حکمت ۔ تم کو نصیحت کرتا ہے اللہ اسکے ذریعہ ، اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ اللہ سب کچھ جانتا ہے
اللہ کوپتہ تھا کہ’’ اسلام کو گلی ڈنڈے کی طرح کھیلا جائیگا‘‘۔ نبی کریمﷺ نے اہل فارس کے ایک فرد کے ہاتھوں دین، ایمان اور علم کی پیش گوئی فرمائی کہ وہ واپس لے آئے گا۔(بخاری ومسلم ) سابقہ قوموں نے حلال وحرام کیلئے اپنے رہبان اور احبار کو ربوبیت کا درجہ دیا۔ یہ امت بھی سابقہ امتوں کے نقش قدم پر چلی۔ اللہ نے واضح کیا کہ صلح کے بغیر شوہر غیر مشروط رجوع نہیں کرسکتا، پھرتین مراحل میں تین مرتبہ طلاق کا عمل واضح کیا اور ایک خاص صورتحال میں میاں بیوی اور معاشرے کی طرف سے باہوش وحواس جدائی کے بعد شوہر کو پابند کیا کہ اس کیلئے حلال نہیں کہ ج تک عورت کسی سے نکاح نہ کرلے۔ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ اس صورتحال کو اپنے حدود وقیود میں ہی رکھتے مگر بدقسمت امت کے کم عقل اور مفاد پرست ٹولے کو دین کا اہم فریضہ سپرد ہواتوحلالہ کی لعنت اور بے غیرتی کیلئے تمام حدود کو پار کردیاگیا۔ فقہ حنفی کے فقیہ علی الاطلاق علامہ ابن ہمامؒ نے خاندان بسانے کی نیت سے حلالہ کو کارِ ثواب دیا۔ عوام نے شرعی مسئلہ سمجھ کر خاندان بسانے کیلئے ناگوار غیر فطری عمل کو بھی قبولیت کا درجہ دیا۔ علامہ شاہ احمد نورانیؒ جیسے نے بھی بہتی گنگا کا فائد اٹھایا، اب تو اس نے بدترین کاروبار کی شکل اختیار کرلی ۔ پہلے میری نگاہ سے قرآن وسنت اوجھل تھے ، جب توجہ کی تو اپنی کم عقلی پر بھی بہت زیادہ تعجب ہوا۔ مندرجہ بالا آیت میں پھر وضاحت کی گئی کہ اگر بیوی طلاق نہیں چاہتی اور شوہر نے مرحلہ وار تین طلاقیں دیں اور پھر شوہر کو فتوے کی ضرورت پڑتی ہے کہ رجوع کرسکتاہے یا نہیں ؟۔ تو اللہ نے آیت میں واضح کردیا کہ رجوع یا چھوڑنے کا معروف طریقہ اپناؤ اور اسلئے مت روکے رکھو کہ اس کو ضرر پہنچاؤ۔ اللہ کی نعمتوں کو دیکھو! طلاق سے متعلق آیات، بیوی اور اپنی ذہنی صلاحیت حکمت سے کام لو۔عوام کی سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ قرآن میں طلاق سے متعلق اتنی واضح آیات کی نعمت کو نہیں دیکھتے، بیوی بچوں کی نعمت کا بھی خیال نہیں رکھتے اور ذہنی صلاحیت حکمت کی نعمت بھی بروئے کار نہیں لاتے۔ قرآن کی آیات کا صرف ترجمہ بھی کافی ہے۔ اگر فقہاء اختلافی پیچیدگیاں پیدا نہ کرتے تو ضمنی تشریحات لکھنے کی ضرورت قطعی طور پر نہ ہوتی۔ چیئرمین سینٹ رضا ربانی کو حکومت اور اپوزیشن کی اکثریت نے منتخب کیاہے ۔ یہ بہت بڑا انسانی المیہ ہے کہ قرآن وسنت اور جمہور کیخلاف حلالہ کے نام پر خواتین کی عزت تارتار کی جاتی ہے۔ سینٹ میں اس پر اجلاس بلایا جائے تو مسلم امہ کی جان ایک بہت بڑے عذاب سے بچ جائے گی۔پاک فوج کے کور کمانڈر کانفرنس میں بھی اس اہم مسئلہ پر گفتگو ہونا چاہیے، مسلم امہ کیساتھ زیادتی کو ایجنڈے میں شامل کیا جائے تو لوگوں میں شعور کی منزل تک پہنچنے کی راہ ہموار ہوگی۔ وزیراعظم اور وزیرداخلہ بھی اس اہم ایشو پر علماء ومفتیان کا ایک اجلاس طلب کریں ، بے شعور لوگوں کی عزتیں لٹ جانا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ تحریک انصاف، پیپلزپارٹی،جماعتِ اسلامی کو بھی اس اہم معاملہ سے تغافل برتنے پر معاملہ اٹھانا چاہیے۔ جمعیت علماء اسلام نے اگر اس کو قبول کرکے بین الاقوامی اجتماع سے عوامی مسائل کے حل کا آغاز کیا تو حکمرانوں کا دم چھلہ بننے کی ضرورت کبھی نہیں پڑے گی۔ تبلیغی جماعت اور دعوتِ اسلامی نے اگر اس کو اپنے ایجنڈے کا حصہ بنایا تو ان کی عوامی مقبولیت میں بین الاقوامی اضافہ ہوگا۔ مساجد نے اپنایا تو ہدایت کی راہیں ہموار ہوجائیں گی۔
واذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فلا تعضلوھن ان ینکحن ازواجھن اذا تراضوا بینھم بالمعروف ذٰلک یوعظ بہٖ من کان منکم یؤمن باللہ و الیوم الاٰخر ذٰلکم ازکیٰ لکم و اطھر و اللہ یعلم و انتم لا تعلمون (البقرہ: آیت 232 )
اور جب تم نے عورتوں کو طلاق دی پھر پورا کرچکی اپنی عدت کو تو نہ روکو ان کو کہ ازدواجی تعلق قائم کریں اپنے خاوندوں سے جب راضی ہو ں آپس میں معروف طریقے سے یہ نصیحت اسکو کی جاتی ہے جو تم میں سے اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور آخرت کے دن پر اور اس میں تمہارے لئے زیادہ پاکی اور زیادہ طہارت ہے اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔ (یا د رکھوکہ آیات میں معروف رجوع کی عدت کے حوالہ سے باربار مختلف الفاظ میں وضاحت کی گئی ہے تاکہ کوئی ابہام نہ رہے)
سورۂ بقرہ کی آیت229میں خلع مراد نہیں بلکہ مخصوص صورتحال ہے ، اگرعدت کے مرحلوں میں دومرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ میں رجوع کرلیاتو مسئلہ نہیں رہا، لیکن اگر تیسرے مرحلے میں جدائی کا عزم قائم رہا تو پھر واضح ہے کہ ولایحل لکم ان تأخذوا ممااتیتموھن شےءًاالا ان یخافاان لایقیما حدوداللہ ’’ تمہارے لئے حلال نہیں کہ جوکچھ بھی ان کو دیا ہے اس میں کچھ بھی واپس لو مگر یہ کہ دونوں کو خوف ہو کہ اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے‘‘۔ اس کا خلع سے کوئی تعلق نہیں۔ آیت میں اس مال کا ذکر ہے جو شوہر نے دیاہو ۔ ایک ایرانی نژاد امریکی خاتون نے اسلام کے حوالہ سے کتاب لکھی، جس میں یہ واقعہ بھی ہے کہ ’’شوہر نے40ہزار تمن (ایرانی کرنسی ) نکاح کا حق مہر دیا، وہ بیوی سے پشت کی جانب مباشرت کرتا تھا، عورت کی خواہش پوری نہ ہوتی تھی تو اس نے خلع کا مطالبہ کیا، چنانچہ 50ہزارتمن میں شوہر نے خلع دیا‘‘۔آیت میں عورت اور مرد کے علاوہ فیصلہ کرانے والوں کیلئے بھی وضاحت کی گئی کہ ان کو بھی خوف ہو کہ اسکے بغیر دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے۔ اگر مرد اور عورت جدائی اختیار کرلیں اورعورت دوسری شادی کرلے تو درمیان میں سابقہ شوہر کی ایسی چیز جس کی وجہ سے دونوں کا رابطہ ہو اور اس میل میلاپ کے ذریعے اللہ کے حدود کو پامال کرنے کا خدشہ ہو، تو وہ چیز فدیہ کرنے میں دونوں پر حرج نہیںیہ اللہ کے حدودکا مقدمہ ہے۔ جبکہ خلع کی وضاحت سورۂ النساء آیت19میں ہے، عورت کے زبردستی سے مالک نہ بن بیٹھو۔اسلئے ان کونہ روکو کہ جو تم نے دیا ہے اس میں سے بعض واپس لومگر یہ کہ وہ کھلی فحاشی کی مرتکب ہوں ۔۔۔‘‘۔ جسکے بعد مردوں کو بھی ایک بیوی کو چھوڑکر دوسری شادی کرنے کی آیت20النساء میں وضاحت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مندرجہ بالا آیت میں اس صورت کی وضاحت کردی کہ جب اقدام بیوی کی طرف سے ہو، طلاق لینے کی محرک وہی ہو تو بھی عدت کی تکمیل کے بعد کتنا عرصہ گزر جائے ، باہمی ازدواجی تعلق کی بحالی میں کوئی بھی کسی قسم کی رکاوٹ نہ ڈالے، اسی میں معاشرے کیلئے تزکیہ اور طہارت کا ماحول ہے۔اللہ جانتاہے تم نہیں جانتے۔اللہ کے نام کوڈھال بناکر کتنے گھر تباہ کئے گئے؟، کتنے اپنا گھر بسانا چاہتے ہیں لیکن ایک باطل مذہبی ماحول ان کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ کتنے ایسے لوگ ہیں جوان مذہبی طبقات پر اعتماد کرکے بلاوجہ عزتوں کو لٹوادیتے ہیں۔اگر مذہبی طبقات تصویر کے معاملہ میں اپنا رویہ بدل سکتے ہیں تو تین طلاق کے حوالہ سے مذہبی عقیدتمندوں کی عزتوں کو بھی بچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ علامہ الیاس قادری اور حاجی عبدالوہاب کوجلد اعلان کرکے انقلاب برپا کرنا چاہیے تھا۔
عربی میں طلاق کا لفظ عورت کو چھوڑنے کیلئے بھی آتاہے، نبیﷺ نے مکہ فتح کیا تو فرمایا: لاتثریب علیکم الیوم انتم طلقاء ’’ آج کے دن تم پر کوئی ملامت نہیں، تم آزاد ہو‘‘۔ ایک طلاق وہ ہے جو علماء نے عوام کے دل ودماغ میں بٹھا یاہے۔ طلاق کا یہ تصور جاہلانہ ہے ،قدرت کے کارخانے میں اسکی گنجائش نہیں ۔ فقہاء کی اس اختراع نے انسانی فطرت کی تمام ذہنی اور قلبی صلاحیتوں کو ملیامیٹ کردیا۔ قرآن و سنت میں اس کی گنجائش نہیں ۔ اللہ نے بار بار اس ذہنیت کی کھلے الفاظ میں نفی کی ۔ کوئی عالم دین سورۂ طلاق کا سلیس ترجمہ نہیں کرسکتا۔ اللہ نے فرمایا کہ’’ اے نبی! جب تم لوگ عورتوں کو چھوڑنا چاہو تو انکو انکی عدت کیلئے چھوڑ دو‘‘۔ پھر تفصیل ہے کہ عدت کو گن کر اسکے پورے وقت کا احاطہ کرلو۔( عدت کی گنتی سے عورت پر زیادتی نہ ہوگی)اور اس دوران انہیں انکے گھروں سے مت نکالو اور نہ وہ خود نکلیں مگر یہ کہ وہ کسی کھلی فحاشی کا ارتکاب کریں،ہوسکتا ہے کہ اسکے بعد اللہ کوئی نئی راہ کھول دے‘‘۔ دنیا کی کسی بھی زباں میں ترجمہ کیا جائے تو ہر شخص سورۂ طلاق کی آیات سے مکمل اتفاق کریگا۔ علماء کی موشگافیوں کی بدولت ناممکن ہے کہ سورۂ طلاق کا کوئی ترجمہ و مفہوم سمجھے ۔ علماء نے طلاق کو جدائی کا عمل نہ سمجھابلکہ عجیب ملکیت قرار دیا ۔ اللہ کہتاہے کہ عدت کیلئے طلاق دو، علماء کہتے ہیں کہ یہ تو اللہ ازراہ تفنن بول رہاہے لیکن طلاق تو ملکیت ہے، وقت کیلئے طلاق نہیں دی جاسکتی ۔ طلاق کے الفاظ زبان سے نکلے تو اسکی ملکیت سے شوہر ہاتھ دھو بیٹھا۔ عدت کیلئے طلاق کا قرآنی تصور خوامخواہ کی خام خیالی ہے، حقیقت نہیں ۔ عورت کی عدت پاکی کے ایام نہیں بلکہ حیض ہے۔ اللہ نے فرمایا : طلقوھن لعدتھن ’’ انکو چھوڑ دو، انکی عدت کیلئے‘‘۔کیا حیض کیلئے چھوڑنا طلاق ہے؟۔ حیض میں تو ویسے بھی مقاربت منع ہے۔ علماء سے بات نہیں بنتی تو وضاحت کرتے ہیں کہ ایک عدت الرجال (یعنی مردوں کی عدت) ہے اور ایک عدت النساء ہے۔ حیض کے ایام عورتوں کی عدت ہے اور طہر کے ایام مردوں کی عدت ہے یعنی وہ زمانہ جس میں مرد طلاق دیتا ہے مگر پھر بھی مسئلہ حل نہیں ہوتا، اسلئے کہ اللہ نے عورتوں کی عدت کیلئے طلاق کی بات فرمائی ۔ جب علماء پر قرآن کی تفسیر کے حوالے سے زمین اپنی وسعت کے باوجود تنگ ہوتی ہے تو کھسیانی بلی کھمبا نوچے کی مانند شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی نے تفسیر عثمانی میں لکھ دیا کہ ’’ عورتوں کو حیض کیلئے طلاق دو،کے معنیٰ یہ ہیں کہ حیض سے ذرا پہلے طلاق دو‘‘۔ چلو! بالفرض مان لیا کہ حیض سے تھوڑا پہلے طلاق دو، پہلے طہر میں حیض سے پہلے پہلی طلاق، دوسرے طہر میں حیض سے پہلے دوسری ، تیسرے طہر میں حیض سے پہلے تیسری طلاق دیدی تو پھر اسکے نتائج کیا نکلیں گے؟۔ بریلوی مکتبۂ فکر کے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی نے لکھا کہ ’’ ہوسکتا ہے کہ اللہ کوئی نیا حکم نازل کردے‘‘۔ کیا واقعی ایسا ہے کہ اللہ نے نئے حکم نازل کرنے کیلئے عدت کیلئے طلاق کا حکم دیا؟۔ یا اسلئے کہ اللہ موافقت کی راہ ہموار کردے؟۔ عدت کے اندر تین مرتبہ طلاق کی تکمیل ہوگئی تو علماء کے نزدیک رجوع کا دروازہ بند ہے۔ جبکہ اللہ کھلے الفاظ میں یہ جھوٹ قرار دیتاہے۔ فرمایا: ’’ جب تم طلاق دے چکو اوران کی عدت مکمل ہوچکی تومعروف طریقہ سے رجوع کرلو یا معروف طریقے سے الگ کرلو‘‘۔ مسلمان حیران ہے کہ تین مراحل میں الگ الگ مرتبہ تین طلاقوں کی تکمیل کے بعد رجوع کی گنجائش اللہ نے رکھی ؟۔ تو یہ پہلی مرتبہ اللہ نے تھوڑا ہی فرمایا، قرآن کی آیات کو دیکھو! بار بار اللہ نے عدت کی تکمیل کے بعد رجوع کی وضاحت فرمائی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی ایسی حدیث ہے جس میں نبیﷺ نے بھی سورۂ طلاق کی آیات کی وضاحت کو اس طرح سے کھل کر بیان فرمایا ہو۔ جواب یہ ہے کہ ہاں ، بالکل!، حضرت رکانہؓ کے والدؓ نے حضرت رکانہؓ کی والدہؓ کو اس طرح سے تین طلاق عدت کے دوران دی تھیں۔ پھر اس نے کسی اور خاتون سے شادی کرلی۔ دوسری خاتون نے شکایت کی یہ نامرد ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ رکانہؓ کے والد سے اس کا بچہ کتنا مشابہ ہے۔ پھر نبیﷺ نے اس عورت کو طلاق( چھوڑ نے) کا حکم دیا اور فرمایا کہ رکانہؓ کی ماں سے رجوع کرلو۔ انہوں نے عرض کیا کہ وہ تو اس کو تین طلاق دے چکا ۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ مجھے معلوم ہے اور پھرآپﷺ نے سورۂ طلاق کی آیت تلاوت فرمائی ۔ ابوداؤد شریف۔ عورت کشتی جلاکر شوہر کے گھر میں داخل ہوتی ہے۔ گھر بار ، بچے اور شوہر اسکا سہارا اور آسرا ہوتے ہیں اسلئے اللہ نے عورت کا حق محفوظ کیا مگرمخاطب شوہر کو بنایا کہ اگر بیوی کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو معروف طریقے سے چھوڑ دو، تمام حقوق و فرائض سے سبکدوش ہوجاؤ، اپنوں میں سے2عادل گواہ بھی مقرر کرلو۔ میاں بیوی اور بچوں کا گھر ایک ہی ہوتاہے۔ شوہر بیوی کو چھوڑ کر دوسری سے شادی کرنا چاہتاہے تو جو کچھ بھی بیوی کو دیا ہو، چاہے بڑے خزانے ہوں ، کوئی چیز بھی واپس نہیں لے سکتا۔ دس بچے جنواکرسسرال بھیجنا کس قانون کے تحت جائز ہوسکتا ہے؟۔ بطورِ مثال ایک شخص کے پانچ ، دس بچے ہیں اور اس نے سورۂ طلاق کی ہدایات کے عین مطابق مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق دی ۔ عدت کے خاتمے کے بعد اپنے فیصلے پر قائم ہے۔ دو عادل گواہ مقرر کرکے حتمی فیصلہ کرلیا۔ وہ گھر بچوں اور سابقہ بیوی کیلئے چھوڑ دیا۔ عادل گواہوں کا یہ فائدہ ہوگا کہ شوہر نا انصافی نہیں کریگا ، اس عورت سے کوئی نکاح کرسکے گا ، عدت کی تکمیل کے بعد پہلے شوہر سے فارغ ہوگئی ۔ اگر طلاق کا معاملہ واضح نہ رہا تو انواع واقسام کی افواہیں اور خبریں گردش کرتی پھریں گی۔نکاح سے زیادہ طلاق کی عدت کی تکمیل پر گواہ کا تقرر اسلئے قرآن میں بالکل واضح ہے۔ سورۂ طلاق کی وضاحت کے مطابق دو عادل گواہ بنانے کے بعد اگر پھر بھی دنیا اور مولوی سے ڈرنے کے بجائے انسان اللہ سے ڈرا تو اس کیلئے رجوع کی راہ ہموار کردیگا۔ سورۂ طلاق کی وضاحت کو بار بار دیکھ لیجئے۔ ایک اہم معاشرتی مسئلہ یہ ہے کہ عورت طلاق کے بعد بیٹھی ہو ۔ شوہر طاقتور ہو تو عورت مرضی سے نکاح نہیں کرسکتی، شوہر کے حلقہ احباب میں نکاح کی شوہر اجازت نہیں دیتا۔ عمران خان زیادہ غیرتمند نہیں مگرریحام خان نے کہا کہ ’’ مجھے پاکستان آنے پر مارنے کی دھمکیاں مل رہی تھیں، میں پٹھان ہوں ، جان پر کھیلنا آتاہے‘‘۔ شہزادہ چارلس نے ڈیانا کو طلاق دینے کے بعد دوسرے سے تعلق برداشت نہ کیا اور قتل کروادیا جس کا کیس برطانوی عدالت میں بھی چلاہے۔ اس انسانی فطرت کو اللہ نے مدنظر رکھ کر فرمایا کہ ’’ اگر اس نے طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ کسی اور سے نکاح نہ کرلے‘‘۔ چونکہ شوہر طلاق کے بعد بھی عورت کواپنی مرضی سے جہاں چاہے شادی نہیں کرنے دیتا، اسلئے اللہ نے طلاق کے بعد عورت کی مرضی ایسی واضح کردی کہ شوہر کو واضح الفاظ میں روک دیا، تاکہ اسکی غیرت اس معاملے میں رکاوٹ نہ بنے۔اللہ نے فرمایاکہ’’ نبیﷺ کی وفات کے بعد بھی ازواجؓ سے نکاح نہ کرو، اس سے آپﷺ کو اذیت ہوتی ہے‘‘۔ سعد بن عبادہؓ بھی طلاق کے بعد عورت کو کہیں شادی نہ کرنے دیتا تھا۔ہمارا ایک مزارع تھا، خان بادشاہ بنوچی،اس کے بیٹے کریم نے بیوی کو تین طلاق دیدی ، پھر پڑوس کے گاؤں میں مسجد کے امام سے حلالہ کروانے کیلئے عورت کو حوالے کیا، اس عورت نے کہا کہ مجھے دوبارہ پہلے شوہر کریم کے پاس نہیں جانا، مسجد کے امام سے خوش ہوں، چار ماہ تک پھڈہ چلتا رہا۔ اس کے بعد کریم اور اسکے رشتہ داروں نے اس امام کی بھی خوب پٹائی لگادی،پسلی وغیرہ توڑ دی اور اس عورت کو بھی چھین کرلے آئے۔ قرآن کا مقصدحلالہ ہرگز نہ تھا لیکن افسوس کہ بے شرم مخلوق حلالے کروادیتے ہیں مگر عورت کو طلاق کے بعد مستقل شادی کی اجازت نہیں دیتے ۔ فقہی اصول ہے ’’ قرآن سے حدیث متصادم ہوتورد ہوگی حتی تنکح زوجا غیرہ میں عورت کی طرف نکاح کی نسبت ہے۔ لڑکی گھر سے بھاگ کرشادی کرے تو حدیث ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر اسکا نکاح باطل ہے مگرحنفی کے نزدیک یہ قرآن سے متصاد م ہے‘‘۔اصول الشاشی ولی طلاق شدہ نہیں کنواری کا ہوتا ہے، حدیث ہوتی کہ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد رجوع نہیں ، تب بھی اللہ کی طرف سے بھر پور وضاحتوں کی آیات کے بعد رجوع کا دروازہ بند نہیں ہوسکتا تھا۔
اسلام دینِ فطرت ہے مگرعوام فطرت و دین کی معرفت سے عاری ہیں حدیث میں ہے کہ یہودونصاریٰ اسلام کی فطرت پر پیدا ہوتے ہیں مگر پھر انکو والدین یہودی ونصرانی بناتے ہیں۔بچہ اسلام کی فطرت پر پیدا ہوتاہے مگرپھر اسکواپنا فرقہ وارانہ مذہبی ماحول پروان چڑھا کر کہیں سے کہیں پہنچا دیتاہے۔ حضرت عویمر عجلانیؓ نے بیوی کو زنا کرتے دیکھ لیاتو کہا کہ’’ اگرقتل کروں تو قتل کردیاجاؤں گا اور اگر چھوڑ دیا تو یہ مجھ سے برداشت نہ ہوگا‘‘۔ رہنمائی کیلئے آیات اُتریں تواس میں چار شہادات ( گواہی) کا جملہ اور پانچواں جملہ بتایا گیا، عورت کی طرف سے چار گواہیاں اور پانچویں جملے کی تفصیل بتائی۔ قرآن کی ان آیات پر مسلمان ایمان لایا اور لُعان کے نام سے یہ قانون ہے۔ چودہ سو سال سے آج تک اس قانون کی افادیت کوتسلیم کرنا تو دور کی بات ہے ، اس کو اپنی فطرت سے متصادم سمجھ کر بالکل مسترد کردیا گیاہے۔ پہلے مسترد کرنیوالے انصارکے سردار حضرت سعد بن عبادہؓ تھے جس نے کہا کہ میں بیوی اور اسکے ساتھ بدکاری پر لعان کے بجائے قتل کردونگا۔ نبیﷺ نے انصارؓ سے شکایت کی، انہوں نے عرض کیاکہ یہ بہت غیرت والا ہے اس سے درگزر فرمائیے، مگر نبیﷺ نے فرمایا کہ میں اس سے زیادہ غیرتمند ہوں اور اللہ مجھ سے بھی زیادہ غیرت والا ہے۔ (صحیح بخاری شریف) مسلمان کے دل ودماغ میں یہ بات بیٹھ گئی کہ بیوی کو غیرت پر قتل کرنا فطرت کا تقاضہ ہے، جس کا دین نہیں ،وہ بھی غیرت کا مظاہرہ کرتاہے۔ جانور اور پرندے بھی غیرت رکھتے ہیں۔ مسلمان کو لاکھ سمجھاؤ، اللہ کی آیات بتاؤ، صحابیؓ کے واقعہ کا ذکر کرو۔ فقہ کے مسائل سے آگاہ کردو۔ وہ کہتاہے کہ یہ سب درست لیکن غیرت اور فطرت نہیں بدل سکتی۔ قرآن اپنی جگہ اور مسلمان اپنی جگہ، اللہ کے احکام برحق لیکن غیرت اور ضمیر کیخلاف شریعت کی یہ بات نہیں مانی جاسکتی اور قرآن پر ایمان ہے مگر فطرت کی سوئی جہاں اٹک گئی ہے، وہاں سے اب ذرہ برابر بھی ہل نہیں سکتی ہے۔ چودہ سوسال سے قرآن پڑھنے ،پڑھانے کے باوجود ہم جہاں کھڑے تھے غیرت کے معاملہ میں ذرا پیچھے نہ ہٹے ۔ کوئی پیچھے ہٹنا چاہے گا ؟۔ خواتین بھی ضد پر اڑ جائیں گی کہ بے غیرت شوہر نہیں چاہیے،وہ مرد کیاجو بے غیرتی برداشت کرے؟ غیرت پر اجماع ہے اور نبیﷺ نے خبردی کہ یہ امت گمراہی پر اکھٹی نہیں ہوسکتی ۔ حضرت سعدبن عبادہؓ ایک جلیل القدر صحابیؓ تھے۔ نبیﷺ نے فرمایا:’’میرے صحابہؓ ستاروں کے مانند ہیں، جسکی بھی تم اقتدا کروگے،تو ہدایت پاجاؤگے‘‘۔ اس معاملہ میں حضرت سعد بن عبادہؓ صرف انصار نہیں،ساری اُمت کے بڑے سردار ہیں۔ اہل تشیع صحابہؓ کے اسلام کو تسلیم نہیں کرتے، یہاں وہ بھی ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔ غیرت کا مسئلہ ہو اور وہ بھی فطری غیرت کا تو پھر اللہ، اسکے رسولﷺ، دین، ایمان، اسلام، شریعت، قانون اور کسی چیز کو مسلمان تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔ چودہ سو سال پہلے اس قانون کو غیرتمند مسلمانوں نے اسلئے مسترد نہ کیا کہ اسلام مسلمانوں کے قبول کرنے کا محتاج تھا بلکہ جب انگریز نے برطانیہ سے برصغیرپاک وہند میں قدم رکھا جسکے اقتدار پر سورج غروب نہ ہوتاتھاتو انگریز کو بھی گٹھنے ٹیکنے پر مجبور کردیاتھا ،چنانچہ تعزیرات ہند میں ہے کہ’’ جس نے بیوی کیساتھ نازیبامعاملہ دیکھ کر قتل کیا تو اس کیلئے کھلی چھوٹ ہے‘‘۔ مولوی نے زنا کے ثبوت کیلئے بڑی سخت شرائط پیش کیں مگر کسی مسلمان کے آگے اس معاملہ میں کوئی بھی سامنے آنے کی جرأت نہیں کرسکا،جب قرآن کو نہیں مانا جاتا تو کسی دوسرے کی کیا حیثیت ہے؟۔ مسلمان کی غیرت کو دنیااور اسلام کی ایمانی روحانی طاقت شکست نہ دے سکی مگر علماء ومفتیان نے کمال کرکے ایسابڑا بے غیرت بنادیا کہ زمین کے باشندے بھی دنگ ہیں اور آسمان کے فرشتے بھی لرزرہے ہیں کہ آخر کونسی طاقت ہے کہ مسلمان اپنی بیگم کو قابلِ اعتراض حالت میں دیکھ کر قتل کرنے سے دریغ نہیں کرتا لیکن پھر یہی بے غیرت، دلّا اور دیوث بن کر اپنی بیگم حلالہ کیلئے خود ہی کسی کے سامنے پیش کردیتاہے۔ جو اللہ کیلئے بے غیرتی کیلئے تیار نہیں وہ مولوی کا فتویٰ دیکھ کر کیوں بے ضمیر اور بے غیرت بن جاتاہے؟۔ مسلمانوں کو غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کہیں کوئی بھول تو نہیں ہوئی ہے؟۔ ہم لوگ اللہ کے دین کی معرفت حاصل کرکے زباں، ہاتھ اور دل سے جد و جہد کررہے ہیں۔ ہر مکتبۂ فکر کے جرأت مند علماء اور عوام اللہ کے دین کو پہچان کر حمایت کرتے ہیں ۔ایک بڑا طبقہ خاموش ہوکر محبت اور بغض کو دل میں چھپائے بیٹھاہے۔ یقین ہے کہ جس طرح روز سورج مشرق سے طلوع ہوکر مغرب میں غروب ہوجاتاہے کہ اسلام کا فطری دین بہت جلد پوری دنیا میں آب وتاب کیساتھ طلوع ہوگا اور باطل بہت آرام کیساتھ غروب ہوجائیگا۔ دنیا میں سب سے بڑا جرم عورت کیساتھ زبردستی سے زیادتی ہے مگرطاقتور لوگ کمزور کی عزت کو لوٹنا کھیل بنالیتے ہیں تو معمولاتِ زندگی کی روایتی اقدار کا حصہ بنتا ہے، پھرواقعہ خبروں کی زینت بنے، تو کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ مجرم کو تحفظ دینے کا ماحول بنتاہے۔ حنفی مسلک میں عورت کو ولی کی اجازت کے بغیر بھاگ کر بھی شادی کی اجازت ہے اوراکثر طاقتور خاندان کی خواتین کمزور لوگوں کیساتھ بھاگ جاتی ہیں تو ان کو ماردیا جاتاہے، پھر یہ مارنے کی رسم چلتی ہے تو کمزور بھی بھاگنے والی کو قتل کرنا ضروری سمجھتاہے، بھاگنے والی عورت سے بڑاجرم وہ ہے جو عورت کو زبردستی جنسی زیادتی کا شکار کرے، جیسے زبردستی جنسی زیادتی برداشت کرنا معمول کا حصہ بنتا ہے اسی طرح حلالے کی مجرمانہ لعنت بھی معمول بن کر عزتوں کو تباہ کردیتی ہے۔ بڑے لوگوں نے اسلام کی خدمت کے بجائے زمانے میں جگہ بنانے کی کوشش کی ،اگر ہم بھی مسلک کے علمبردار بن کر کھڑے ہوتے اور اسکی وکالت کرتے تو دنیا پھر بہت بڑا مقام دیتی، میڈیا میں ہمارے چرچے ہوتے، جہاں جاتے پھولوں کی برسات ہوتی اور دنیا ہمارے لئے بہت بڑی جنت بن جاتی۔ موت کا خوف کس کو نہیں؟۔ مشکلات سے کون نہیں ڈرتا؟۔ خاندان کیلئے مسائل کھڑے کرنے سے بہترموت کو ترجیح ہے لیکن جن خواتین کی عزتیں حلالہ کے نام پرلُٹ رہی ہیں ، جنکے گھر اسلام کے نام پر تباہ ہورہے ہیں، جنکے بچے فتوؤں کے ہاتھوں دنیا میں رُل رہے ہیں، جو علماء ومفتیان اتنے ڈھیٹ ہیں کہ سب کچھ سمجھ کر بھی حقائق اور اسلام ماننے کیلئے تیار نہیں تو مجھے بتایا جائے کہ کیا انسان حادثاتی اور بیماری سے نہیں مر سکتا ہے؟،بسا اوقات انسان خود کشی کرتاہے، خود کش کرنے والا اپنے طور سے قربانی کا تصور رکھتا ہے۔کیا ہم اسلام کیلئے قربانی نہ دیں؟۔ کیا فطرت ، غیرت، حمیت اور ضمیر کیلئے خود کو قربان نہ کریں؟۔ ہم مرنے کیلئے یہ نہیں کرتے، زندگی پیاری ہے۔ خواتین کی عزتوں کو ناجائز حلالہ کے نام پر لوٹا جاتاہے ،اس غلط طرزِ عمل کو روکنے کیلئے ہرقسم کی قربانی دینا جائز، مجبوری بلکہ بہت ہی ضروری ہے۔ حلالہ والے یہ نہ کریں کہ ’’ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کوبھی لے ڈوبیں گے ‘‘۔ جنہوں نے مذہب کو کاروبار بنارکھاہے، وہ مفاد کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگائیں گے، اسلئے دین کی تصدیق کرنیوالوں کے علاوہ خاموشی سے محبت کرنیوالوں اور باطل عمل جاری رکھنے والوں کے بغض کو چھپانے پر بھی نبی پاک ﷺ نے بشارت دی ہے ۔
لُعان کی قابلِ عمل حقیقت اور اسکے زبردست فوائد
مغرب آج جس انسانی حقوق کا علمبردار بنا پھرتاہے ،اگر مسلمانوں نے قرآن پر عمل شروع کردیا تو مغرب مسلمانوں کا امام نہیں مقتدی اور پیر نہیں مرید بن جائیگا۔ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعے چودہ سوسال پہلے عورت کی جان بچانے کیلئے لعان کا قانون نازل کیا تھا۔ مسلمانوں نے قرآن کو اپنا دستور عمل نہیں بنایا تو آج ذلت و رسوائی کی منزلیں طے کرکے کہاں سے کہاں تک پہنچ گیا ہے؟۔ اسلام فطری دین ہے اور فطرت کیلئے فطرتی ماحول ہونا چاہیے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ لعان کی کیا ضرورت تھی؟،جب فحاشی پر قتل کی اجازت نہ ہو توعورت کو چھوڑنے اور گھر سے نکالنے کی اجازت ہونی چاہیے تھی اور بس؟اسکا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ طلاق میں فحاشی پر اچانک چھوڑنے اور گھر سے نکالنے کو واضح کر د یا ہے، البتہ لُعان کی اہمیت پھر بھی ختم نہیں ہوجاتی ہے ،اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ 1: معاشرے میں کبھی شوہر کے خاندان والے طاقتور ہوتے ہیں اور کبھی بیگم کے خاندان والے۔ جب شوہر کے خاندان والے بہت کمزور ہوں، کوئی عورت بدکاری بھی کرے اور شوہر کی حیثیت اتنی کمزور ہو کہ اس کو چھوڑ نہ سکے تو شوہر عدالت میں جاکر لُعان کے ذریعے سے اپنی جان بچاسکتاہے۔ اکثر جگہ سے جب عورت کے حق میں آواز اٹھتی ہے تو بعض مرد کے حق کو تحفظ دینے کی بات بھی کرتے ہیں۔ اللہ نے لُعان کے ذریعے مردوں کو یہی تحفظ دیاہے، کیا کوئی لعان بھی کرتاہے؟۔ کیسے کہہ دوں کہ اس نے چھوڑدیامجھے بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی 2: اللہ نے شوہر کو طلاق اور بیوی کو خلع کا حق دیا۔ سورۂ النساء آیت19 کودیکھ لیجئے۔ جس میں عورت کو خلع کے حق کی بھرپور وضاحت ہے مگر افسوس کہ بالکل ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرکے عوام کو اس آیت سے آگاہ نہیں کیا گیا اور آیت کا مفہوم بالکل غیر فطری طور سے بگاڑنے کی بدترین کوشش کی گئی، قرآن کو بگاڑنے کی صلاحیت کسی میں اللہ نے نہیں رکھی، اسکی حفاظت کا خود ہی ذمہ لے لیاتھا۔ اگر عورت شوہر کو چھوڑ کر جانا چاہتی ہو تو اللہ نے فرمایا کہ ’’تم زبردستی سے مالک مت بن بیٹھو، اور ان کو اسلئے مت روکو ،کہ جو تم نے ان کو دیا ، اس میں بعض واپس لو۔ مگر یہ کہ وہ کھلی فحاشی کی مرتکب ہوں اور انکے ساتھ اچھا برتاؤ کرو، ہوسکتاہے کہ اللہ تمہارے لئے اس میں خیر کثیر رکھ دے‘‘۔ اگر عورت چھوڑ کر جانا چاہتی ہے اور شوہر بعض دی ہوئی چیزوں کو واپس لینے کیلئے فحاشی کا الزام لگاتاہے تو لُعان کی ضرورت پیش آئے گی۔خلع لینے پر بھی بعض دئیے ہوئے مال سے بھی شوہر بیوی کو محروم نہیں کرسکتاہے مگر فحاشی پر اسکی اجازت ہے ،البتہ فحاشی کی صورت میں بھی لعان کا سامنا ہی کرنا ہوگا۔ 3: سورۂ النساء کی آیت19میں اللہ نے عورت کی طرف سے خلع کے حق کو محفوظ کرکے مقدم رکھا ہے اور پھرالنساء آیت 20 میں شوہر کو بھی طلاق کی اجازت دیکر فرمایا ہے کہ اگر عورت کو بہت سارا مال دیا ہے تب بھی اس میں سے کچھ بھی واپس لینا جائز نہیں،تم ان پر بہتان لگاکرمحروم کرنا چاہتے ہو ؟۔ حالانکہ تم نے بہت قریبی ایکدوسرے کی عزت والا تعلق رکھا اور انہوں نے تم سے پختہ عہد وپیمان لیا۔(وقداخذن منکم میثاقا غلیظا )جو لالچ میں اندھا ہوکر بہتان لگائے تو اسکو عدالت میں لُعان کی ذلت کا سامنا کرنا ہوگا۔ بعض واقعات مخصوص حالات کے تناظر میں ہیں۔ سعد بن عبادہؓ انصار کے سرداربیوی کو قتل کرنے کا دَم رکھتے تھے۔ حضرت عویمر عجلانیؓ نے لعان اسلئے کیا کہ بیوی کے خاندان والے زیادہ طاقتور ہونگے۔ انسان کی حیثیت کمزور ہو تو قانون کا سہارا تلاش کرتاہے۔ اسلام نے قانون کو اتنا مضبوط بنایا کہ طاقتور بھی سرِ مو انحراف نہیں کرسکتا تھا، قانون کمزور اور طاقتور کیلئے بالکل برابر تھا۔ حضرت سعدؓ نے خالی بات کی مگر قانون کو ہاتھ میں نہیں لیا ۔ اسکے بعد سرداری کھو دی۔ جنات نے تنہائی میں قتل کردیا ۔ حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کے پیچھے نماز بھی نہ پڑھتے تھے۔مسلمانوں نے کمال کردکھایا کہ اللہ کے سامنے اپنی غیرت دکھائی تو اللہ نے بھی غیرت سے ایسا عاری کیا کہ حلالوں کے ذریعے عزتیں لٹوانے کی ذلتوں سے دوچار ہوکر بڑی گمراہی میں گرگئے۔ جب انسان کمزور پر ظلم کرتاہے تو اللہ کی طاقت اس کو کتوں کے گاؤں سے آگے گزار دیتی ہے۔ مسلم اُمہ نے عزت و عروج حاصل کرنا ہے تو اسلام کے فطری قوانین کے آگے سرِ تسلیم خم کرنا پڑے گا۔مولوی خود پر اور اُمہ پر رحم کھائیں۔ اللہ انسان سے حساب کسی طرح لے لیتاہے اور دوسروں کے مقابلے میں اللہ ہی سے ڈرنے کو ترجیح دینی ہوگی۔ اللہ نے ابراہیمؑ کو چند کلمات میں آزمایا تو وہ آزمائش میں پورے اُترے۔ جس کا جتنا بڑا درجہ اسکی اتنی بڑی آزمائش ۔ اللہ آزمائش کا دروازہ بند کردے،ہم آزمائش کے لائق نہیں، ابراہیمؑ نے بتوں کو توڑا، توبڑی آزمائش کا سامنا کرنا پڑا۔ قوم نے آگ جلائی، جھولا بناکر ابراہیمؑ کو ڈالنے کی تیاری کی۔ فرشتوں نے اللہ سے کہا کہ ہم مدد کو پہنچتے ہیں، اللہ نے کہا کہ تمہاری مدد کوقبول کرلے تو ضرور کرلینا۔ فرشتوں نے اپنی خدمات پیش کیں۔ ابراہیمؑ نے پوچھا کہ اللہ کا حکم ہے؟، فرشتوں نے کہا کہ نہیں! اجازت ہے۔ ابراہیمؑ نے فرمایا کہ پھر تمہاری ضرورت نہیں، مجھے اللہ پر چھوڑ دو۔ فرشتوں نے ضرورسوچا ہوگا کہ واقعی اتنی بڑی بات ہے، ہم سے اللہ نے ٹھیک سجدہ کروایا تھا۔ اللہ نے براہِ راست آگ کو حکم دیا: یا نار کونی بردا وسلاما علی ابراہیم ’’اے آگ ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجا‘‘۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں اور انسانوں کو حضرت ابراہیمؑ کی سچائی کاوہ رخ بھی دکھایا کہ کوئی تصور بھی نہ کرسکے کہ خدا اور بندے کے درمیان کسی قسم کا کوئی گٹھ جوڑہوسکتا تھا۔اللہ ایسی آزمائش سے بچائے رکھے۔ ایک ایسا بادشاہ تھا جو بیوی چھین لیتا تھا، اس پر تو کوئی فخر بھی نہیں کرسکتا، حضرت ابراہیمؑ کی آزمائش کی اسوقت انتہاء نہ رہی ، بادشاہ نے حضرت سارہؑ کو طلب کیا، یہ وہ آزمائش تھی جہاں انسانیت کی رُوحیں نسلوں تک گھائل ہوجاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے گڑ گڑاتے حضرت ابراہیمؑ کی آزمائش کی انتہاء دکھا کر فرشتوں کو باور کروایا کہ فرشتوں سے انسان کا مقام اسلئے اونچاہے کہ اس میں محنت زیادہ ہے۔ اس آزمائش کے نتیجے میں حضرت ابراہیمؑ نے اللہ سے مدد بھی مانگ لی اور اللہ نے دو انعام بھی دے دئیے، ایک حضرت سارہؑ کی عزت بچاکر نسل در نسل اولاد کو نبوت و بادشاہت سے سرفراز کردیا۔ دوسرا حضرت حاجرہؓ بھی عنایت کردی ، جسکے دو فرزندحضرت اسماعیلؑ اور حضرت محمدﷺ کا مقام افضل ترین انبیاء کرامؑ میں کردیا۔جو عدد کے اعتبار سے کم اور حجم کے اعتبار سے سب پر بھاری تھے ۔ بنی اسرائیل نے آل فرعون کے ہاتھوں غلامی کی ذلت اٹھائی تو بھی نسلی افضلیت کا خمار دماغ سے نہیں گیاتھا۔ بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ سے منقول ہے کہ قریش کو ابن سماء کہاگیا ، تاکہ اپنی ماں حاجرہؓ کی داستان پرفخروافتخار کے زعم کویہ لوگ اپنے ذہن سے نکال دیں۔ رسول اللہﷺ نے انتقام لینے کی بات کردی تو اللہ نے روک دیا لیکن اللہ کا انتقام انسان کے دماغ سے بہت بالاتر ہے۔ نبیﷺ نے ابوجہل وغیرہ سردارانِ قریش کو بدر میں شکست دی تو ان کا غرور خاک میں مل کر بھی جاگ رہا تھا۔ ابوجہل نے مرتے وقت کہا کہ گردن کو نیچے سے کاٹ لو تاکہ پتہ چلے کہ سردار کی گردن ہے۔ ابوجہل نے مرتے وقت جسم اوراپنی مٹی کے باقیات سے بھی باطل مشرکین مکہ کو حوصلہ دیا اور پھر اس کی قوم نے غزوۂ احد میں اپنا بدلہ بھی اتار دیا تھا۔ بقول فیض میرے چارہ گر کو نوید ہو ،صفِ دشمناں کو خبر کرو جو وہ قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکا دیا کرو کج جبیں پہ سرِ کفن کہ قاتلوں کو گماں نہ ہو کہ غرورِ عشق کا بانکپن پسِ مرگ ہم نے بھلادیا جو رُکے تو کوہ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے رہ یار ہم نے قدم قدم پر تجھے یادگار بنادیا فتح مکہ کے موقع پر نبیﷺ نے ابوسفیانؓ کے گھر کو بھی عزت بخشی۔ حضرت عمرؓ نے کہا تھا کہ ’’ کاش ! پناہ لینے سے پہلے میرے ہاتھ میں آجاتا‘‘۔ اللہ کی طرف سے یہ بڑا تلخ انتقام تھا۔ رسول اللہﷺ حضرت ہندہؓ کے چہرے کو دیکھنا برداشت نہ کرسکتے تھے اور حضرت ہندہؓ نے فرمایا کہ پہلے نبیﷺ سے بہت نفرت کرتی تھی اور آج آپﷺ سے بڑا محبوب کوئی بھی نہیں۔ جسکے ساتھ انتہائی وحشانہ برتاؤ کیا ہو اور اسی کے رحم وکرم پر انسان کا گزر بسر ہو تو اس سے زیادہ آزمائش اور گناہوں کی معافی تلافی کا معاملہ مزیدکیا ہے؟، حضرت عکرمہؓ بن ابی جہل کوباپ کے قتل پر زیادہ افسوس اسلئے نہ تھاکہ گردن کٹانے کی تکلیف ذلت نہیں ۔جس طرح بھٹونے بھی فوج کے ہاتھوں پھانسی کی سزا کھائی مگر بھٹو نے خود کو عوام میں زندہ کردیا اور یہ کہ محترمہ بینظیر بھٹو نے اسی وجہ سے پہلی مسلم خاتون وزیراعظم کا اعزاز حاصل کیا۔ لیکن نوازشریف نے معافی مانگ کر فوج کے ہاتھوں جو ذلت اٹھائی اس پر عقلمند انسان کبھی فخر نہیں کرسکتاہے مگر ہمارے نااہل قسم کے لوگ لیڈر ہیں۔ یزید کا دل حضرت حسینؓ کے خانوادے اور ساتھیوں کے انتقام پر بھی ٹھنڈا اسلئے نہیں ہوا ہوگا کہ کہاں فتح مکہ کے وقت انکے خانوادے کی حالت اور کہاں شہدا کے معزز ورثاء کی لوگوں کے دل میں عزت و تکریم؟۔ اہل تشیع بہت پاگل مخلوق ہے، ماتم کرنے سے مخلوق خدا کواذیت ہوتی ہے اور حسینؓ کی نہیں یزید کی روح کو تسکین ملتی ہے کہ اہلبیت کیلئے گلیوں میں اب بھی ماتم کا سلسلہ جاری رہتاہے۔ لگتاہے کہ یزیدوں کیلئے مزید کوئی گنجائش نہیں رہی۔ بے ضمیر ظالم ظلم کرکے شرم کے احسا س سے محروم ہوتا ہے تو معافی کی ذلت کا بوجھ بھی بہت آرام سے برداشت کرلیتاہے۔ اگر یوسف علیہ السلام ساری زندگی کنویں اور جیل کا غم کھاتے اور بنی اسرائیل اس غم کو منانے کے دن مناتے تو ان کو خوشیاں نصیب نہیں ہوسکتی تھیں۔ انسان دکھ پر صبر اور نعمت پر شکر ادا کرتاہے تو پھر اللہ اس کو نوازتاہے۔ جب ہم اہل تشیع کو ماتم کے غم سے اور اہلسنت کو حلالہ کی لعنت سے آزادی دلانے میں کامیاب ہوجائیں تو دنیا مسلمانوں کو انسان کے بچے سمجھے گی۔ جب دنیا کو حلالہ کی لعنت اور ماتم کے خون خرابے کا پتہ چلتاہے تووہ کانوں کو ہاتھ لگاتی ہے کہ اسلام کو دینِ فطرت کہنے والے جھوٹی خوش فہمیوں کے شکار ہیں،ہمیں اس سے بہت دور رہناہے۔ وہ کہتے ہونگے کہ یہ حضرت محمدﷺ کا دین تو نہیں ہوسکتا، البتہ اللہ نے گناہوں کے نتیجے میں ان کو اس عذاب میں ضرور ڈالا ہوگا،یہ دونوں طرف کے علماء کے مفادپرستانہ رویے کی سازش کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے۔دونوں طرف کے علماء کرام اعتراف کررہے ہیں۔ میں نے جب بڑے مذہبی بتوں کو توڑا تو بہت آزمائش کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا اور فرشتوں کی مدد نہ لینے کی بات تو بہت دور کی ہے ایک بندے دوست ناصر کی مدد کو بھی قبول کیا، جنکا احسان مجھ پر قرض ہے ۔ اللہ سے دعا ہے کہ جن جنکے احسانات ہیں ان کو اچھا بدلہ بھی دے سکوں۔ اب آزمائش کا متحمل بالکل بھی نہیں ،اللہ نے اپنے فضل سے بہت آسانی سے مشکل سے گزارا، البتہ جن لوگوں کو حلالہ کی لعنت کا سامنا کرنا پڑتاہے ، اس سے بڑی آزمائش ، مصیبت اور ذلت اور کوئی نہیں۔ اگر امت مسلمہ کو اس سے نکالنے کی سعادت ملی تو یہ ہم سب پر بہت بڑا انعام ہوگا۔
ناموسِ رسالتﷺ کیلئے بے غیرتی مجرمانہ فعل
ایک مسلمان کی غیرت برداشت نہیں کرتی ہے کہ وہ اپنی بیوی کیساتھ کسی کو دیکھ کر شور مچائے کہ ’’اس کو قتل کردو، اس کے تکے بوٹیاں بنادو، اس کو جلادو، اس کو جہنم رسید کردو، اس کا جینا حرام کردو اور اس کیلئے قانون سازی کرلو‘‘۔ مسلمان کو پتہ ہے کہ اس کو قتل کرنے کی اجازت نہیں ، اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید فرقان حمید میں اس کو لُعان کے ذریعے قانونی تحفظ دیاہے، لیکن جب انسان کی اپنی عزت پر کسی کا ہاتھ پڑجاتاہے تو پھر اس کو برداشت نہیں کرتا، اللہ کی کتاب کے اندر موجوداور واضح تحفظ کو دیکھنے پر آمادہ نہیں ہوتا اور دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو تو غیرت کا مظاہرہ کرکے بیوی کو بھی قتل کردیتا ہے اور اسکے ساتھ کسی دوسرے شخص کو بھی قتل کردیتاہے لیکن عقل حیران ہے کہ اپنی عزت کے تحفظ کیلئے تمام شرعی اورقانونی تحفظ کو نظر انداز کرکے ایک نہیں دو افراد کو بیک وقت قتل کرنے کا ارتکاب کرتاہے مگر جب یہ شخص ناموسِ رسالتﷺ کی بات کرتاہے تو پھر غیرت بالکل ہی اسکے دل و دماغ سے نکل جاتی ہے، توہین رسالتﷺ کے مرتکب کے خلاف قانون کو ہاتھ میں لینے کی بات نہیں کرتا۔ جن لوگوں کو توہین رسالتﷺ کا مرتکب قرار دیتاہے انکے خلاف عوام کو دھائی دیتاہے، تعصبات کی آگ بھڑکاتاہے، حکومت کی مدد لیتا ہے، عدالت کو پکارتا ہے، کتابیں لکھ لیتا ہے، دلائل دیتاہے، تقریریں کرتا پھرتا ہے لیکن غیرت کیلئے اقدام نہیں کرتا، بس اکسانے پر ہی اکتفاء کرتا ہے۔ آج مسلمانوں کو بہت سر جوڑ کر حقائق سمجھنے کی سخت ضرورت ہے۔ دوسروں کیلئے غیرت وہ شخص کھا سکتاہے جو اپنے لئے بھی کھاتا ہو۔ اپنے اندر غیرت نہ رکھنے والے شخص کو رسول اللہﷺ کی ناموس کا محافظ قرار دیا گیا تو امت مسلمہ کی اس سے بڑی بدقسمتی اور کوئی نہیں ہوسکتی ہے۔ جو اپنی عزت کو بیچتا پھرے وہ دوسرے کی عزتوں کا تحفظ کرسکتاہے؟۔ ہرگز ہرگز نہیں ۔ ایم کیوایم میں اچھے برے لوگ ہوسکتے ہیں ،اگر ہم مصطفےٰ کمال ، رضاہارون، انیس قائم خانی وغیرہ کو ایم کیوایم چھوڑنے کے بعد اچھا کہہ سکیں تو ایم کیوایم میں ہوتے ہوئے بھی یہ لوگ اچھے ہوسکتے تھے، اور یہاں بات اچھے برے کی نہیں بلکہ غیرت کے حوالہ سے ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ ایم کیوایم کے کارکن اور قائدین الطاف حسین کے خلاف بات برداشت نہیں کرتے تھے، اپنے قائد پر بڑی غیرت کھاتے تھے، ظاہر ہے کہ وہ ڈرامہ تو نہیں کرتے ہونگے؟۔ کراچی میں ایم کیوایم نے اپنی ساکھ قائم رکھی تھی۔ ہم نے مفتی محمد تقی عثمانی کے حوالہ سے ’’سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کے جواز پر اپنے اخبار میں اس کی کتاب کا حوالہ دیا‘‘ تو ڈاکٹر فاروق ستار نے اس کی مخالفت میں زبردست بیان دیا اور نیوکراچی کے سیکٹر انچارج نے بیان دیا کہ اس مفتی تقی عثمانی کو قتل کردینا چاہیے۔ اس دباؤ کی وجہ سے مفتی تقی عثمانی نے اپنی کتابوں سے اس عبارت کو نکالنے کا اعلان کردیا۔ ایم کیوایم جو لسانی پارٹی ہے، اس میں دین کی اتنی غیرت تھی کہ ایک پٹھان کیلئے ایک مہاجر مفتی کی بات کو تعصب میں نظر انداز نہیں کیا۔ اگر کوئی عصبیت رکھنے والی قوم ہوتی تو عتیق گیلانی کے بجائے مفتی تقی عثمانی کیساتھ کھڑ ی ہوجانی تھی۔مہاجر قوم کی پاکستان اور اسلام سے محبت ایک ایسی حقیقت ہے جسکا انکار نہیں ہوسکتا۔ بکھرے مہاجر کا ماحول بدلنے کی ضرورت ہے۔ بریلوی مکتبۂ فکر نے مفتی تقی عثمانی کیخلاف ہمارے اخبار کا تراشہ بہت پھیلایا مگر جب پتہ چلا کہ اپنا ریکارڈ درست نہیں توپیچھے ہٹ گئے۔ یہ کونسی غیرت ہوگی کہ خود گدھی کی دُم پکڑی ہو اور دوسروں کیخلاف مہم جوئی کی جائے کہ ’’اس نے گدھی کو دم سے پکڑا ہے؟‘‘۔ صرف مفتی تقی عثمانی کی بات نہیں بلکہ صاحبِ ہدایہ کی اس بات کو عمران خان کے مفتی سعید خان نے بھی احناف کی کتابوں فتاویٰ قاضی خان وغیرہ کا دفاع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’قرآن میں خنزیر کا گوشت حرام ہے لیکن بقدرِ ضرورت جائز ہے تو وہ انسان کے جسم کا حصہ بنتاہے مگر سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جسم کا حصہ نہیں بنتاہے‘‘ ۔( ریزہ الماس: مفتی سعید خان: چھترپارک اسلام آباد) بریلوی مکتب کے علامہ غلام رسول سعیدیؒ نے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے پر فتاویٰ شامیہ کیخلاف اظہار کیا تو اپنے علماء نے انکا گریبان پکڑلیا تھا۔ جب تک اپنی کتابوں سے وہ مواد نہ نکالا جائے جو دنیا کے سامنے نبیﷺ کی تضحیک کا ذریعہ ہے تو بے غیرتوں کی مذہبی اور سیاسی شوبازی کی اہمیت نہیں رہے گی۔ صحیح بخاری میں ابنت الجونؓ کا نامکمل واقعہ ہے جس کی تفصیل موجود ہے کہ نبیﷺ کو نومسلم حضرت الجونؓ نے بیٹیؓ کی رضامندی کا بتایا تھااور ازواج مطہراتؓ نے سوکناہٹ کی وجہ سے غلط رہنمائی کرکے بھیجا، جس کی بنیاد پر اس نے کہا کہ ’’ایک ملکہ اپنے آپ کو کسی بازاری کے حوالہ کرسکتی ہے؟، اور میں تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں‘‘۔ نبیﷺ نے سمجھا کہ وہ راضی نہیں تو گھربھیج دیا۔ پھر گھر والوں سے ابنت الجونؓ نے کہا کہ مجھ سے دھوکہ ہوا، وہ کہہ رہے تھے کہ تو بڑی کم بخت ہے کہ اس سعادت سے محروم ہوئی ۔ یہ واقعہ نبیﷺ کی سیرت کا اعلیٰ ترین نمونہ تھا ، اگر اس کو صحیح طریقے سے دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا تو حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ سے زیادہ اس کی وجہ سے لوگ اسلام اور نبیﷺ کی عظمت کو سلام کرتے۔ ایک عورت کو پوری طرح سے دسترس میں آنے کے بعد نبیﷺ کا کمال تھا کہ پوچھ لیا کہ کہیں زبردستی کے نتیجے میں تو نہیں آئی ؟۔ اور جب سمجھ لیا کہ وہ راضی نہیں تو چھوڑ دیا۔ عورت کے حق کی الفاظ سے زیادہ اس عملی مظاہرے میں بہت بڑا کمال تھا، یہ بھی بخاری کی حدیث ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’ عورت کا نکاح باپ نے اس کی رضامندی کے بغیر کردیا تو یہ نکاح نہیں ہوا‘‘۔ حضرت ابنت الجونؓ کے واقعہ میں اس کا عملی مظاہرہ تھا۔ ہوسکتاہے اسی تناظر میں ہی فرمایا ہو۔نبیﷺ کا اسوۂ حسنہ اعلیٰ نمونہ ہے۔ دیوبندی مکتبۂ فکر کے وفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خان ؒ نے صحیح بخاری کی اپنی شرح ’’کشف الباری ‘‘ ، بریلوی مکتبۂ فکر علامہ غلام رسول سعیدیؒ نے اپنی شرح ’’نعم الباری‘‘ میں علامہ ابن حجرؒ کی شرح ’’فتح الباری‘‘ سے یہ سوال اور اس کا جواب نقل کیا ہے کہ ’’ رسول اللہ ﷺ کا اس ابنت الجونؓ سے نکاح نہیں ہوا تھا تو نبیﷺ کا صرف اپنے پاس طلب کرنا، رغبت کا اظہارکرنا ہی نکاح کیلئے کافی تھا، چاہے عورت راضی نہ ہو اور اسکا ولی بھی راضی نہ ہو‘‘۔ یہ بکواس رحمت للعالمینﷺ کی شریعت نہیں جو نبیﷺ دوسروں کو تلقین کریں کہ عورت کا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر باطل ، باطل، باطل ہے۔ ان کی طرف ایسی نسبت بہت بڑی گستاخی اور گستاخوں کو موقع فراہم کرنے کا ذریعہ ہے۔ جب علماء ومفتیان اپنے مذہبی کتابوں سے ایسے مواد کو نکالنے کی بھی جرأت نہیں کرسکتے تو دنیا میں اغیار کیلئے نیٹ پر پابندی کے مطالبے میں کوئی جان نہیں ہوسکتی ہے۔ بس اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے دوسروں پر جھوٹی تہمت لگانے کی مہم جوئی ہوسکتی ہے ، مسلمانوں کو اس معاملے میں سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر عامر لیاقت کا تعلق پہلے ایم کیوایم اور جیوٹی وی چینل سے تھا۔ زندگی کا ایک بڑا حصہ گھر کے بھیدی بن کر گزارا ۔ عالم کا دعویٰ بھی ہے اور علماء کو متحرک کرنے کی بروقت اور برملا کوشش بھی کرسکتے ہیں۔ لیلیٰ کے پاس مجنون کا پیغام آتا تو وہ دودھ بھیج دیتی، ایک دن لیلیٰ نے پھر امتحان لینے کا فیصلہ کیا، چھرا اور پلیٹ بھیج دی کہ جسم کاگوشت چاہیے۔ دھوکہ باز کہنے لگا کہ میں دودھ پینے والا مجنون ہوں ۔ گوشت دینے والا وہ کھڑا ہے۔ اصلی مجنون نے جسم کے ہر حصے کا گوشت کاٹ کر بھیج دیا۔جب حضرت عائشہؓ پر بہتان لگا تو دودھ پینے والا مجنون کوئی بھی نہیں تھا ورنہ بہت شور کرتا کہ قربانی دیدو، سارے سچے عاشق رسولﷺ صحابہؓ تھے، مذہبی سیاسی مفادات اور فرقہ وارنہ تعصبات نہیں تھے، اسلئے اللہ کے حکم کا انتظار کیا۔ اللہ نے نبیﷺ کی اعلیٰ سیرت کے ذریعے دنیا کے تمام انسانوں کی عزت کو تحفظ دیا اور لوگوں کو حقائق کا پتہ چلے تو سب طرزِ نبوت کی خلافت قائم کرلیں۔ مسلمان ہی نہیں کافر بھی اس عادلانہ نظام کو جمہوری بنیادوں پر نافذ کرنے میں سب سے آگے آگے ہوں گے ۔ انشاء اللہ تعالیٰ
حکومت اور ہماری ریاست کب سدھرے گی؟
پانامہ لیکس پاکستانی قوم کا مسئلہ ہے ۔ ڈان نیوز کی خبر فوج کی عزت اور وقار کے حوالہ سے بڑی اہمیت رکھتاہے۔نواز لیگ نے چور مچائے شور کاتمام ریکارڈ توڑ دیا۔ زرداری کو11سال قید کے باوجود مجرم ثابت نہیں کیا جاسکاتو یہ عدالت کی نیک نامی نہیں۔ پانامہ لیکس کے ننگے بھوت کیلئے جو کپڑے سل رہے ہیں، اس کیلئے عدالت کے بھوت بنگلے میں بہت دیر لگ گئی ہے ، جب فیصلہ سنایا جائیگا تو کپڑے یا شلوار یا چڈی کا پتہ لگ جائیگا۔ قوم کا ریاست اور ریاستی اداروں پر کتنا اعتماد ہے؟۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ سہیل وڑائچ کی کتاب میں نوازشریف کا انٹرویو موجود ہے کہ بے نظیر بھٹو اور زرداری کے خلاف کرپشن کے کیس بنانے کی غلطی آئی ایس آئی کے کہنے پر کی تھی۔ نوازشریف بجلی کی لوڈ شیڈنگ اورقیمت پر قوم سے جھوٹ بولنے کی تلافی نہیں کرسکے کہ انڈیا کو بھی بجلی دینے کا اعلان کردیا۔ خواجہ آصف اس کو جوشِ خطابت قرار دے رہا ہے۔ کیا یہی ہماری قومی قیادت ہے؟۔ حامد میر جیسے صحافی اور خواجہ آصف جیسے سیاستدان کے سامنے کوئی ریٹائرڈ فوجی تجزیہ نگار کیا بات کریگا؟ جس نے زندگی بھر فوج میں رہ کر ویرانیوں میں قوم کا دفاع کیا ہوتاہے اور یہ لوگ تاریخ کے ہر موڑ سے آگاہ ہوتے ہیں۔ ان کو چرب زبانی کی مہارت سے قوم کو گمراہ کرنیکا ڈھنگ آتاہے۔ پرویز مشرف کہتاہے کہ طالبان کو ہم نے عالمی طاقتوں کے کہنے پر بنایا تھا تو جنرل ضیاء سے پرویز شرف تک فوج ہی کو مجرم گردانا جاتاہے لیکن سعید غنی اور فرحت اللہ بابر حالات کی مناسبت سے بولتے ہیں، کبھی بھٹو سے نصیراللہ بابر تک کریڈت لیتے ہیں اور کبھی سارا ملبہ جنرل ضیاء سے اشفاق کیانی تک فوج ہی پرڈالتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’ اے ایمان والو! کہوسیدھی بات، تمہارے اعمال کی اصلاح کی جائیگی اور تمہارے گناہوں کو معاف کردیا جائیگا‘‘۔ قوم کی حالت یہ ہے کہ سیدھی بات کرنے پر آمادہ نہ اعترافِ جرم پر تو اسکی اصلاح کہاں سے ہوگی؟۔ ایک ایسی لہر دوڑانے کی ضرورت ہے کہ کسی کا بھی ٹاؤٹ بن کر اور پیسے بٹورنے کیلئے بکبک کرنیکا طریقہ چھوڑ دیا جائے۔ مراد سعیدپر گھناؤنا الزام ہی نہیں لگا بلکہ اسکو بھڑوا بچہ قرار دیا گیا۔ پھر اسکو گالی قرار دینے کے بجائے میاں لطیف اور خواجہ سعد رفیق نے معافی کے نام پر گواہی بھی دی کہ ایساہے مگر ہمیں نہیں کہنا چاہیے تھا۔ اخلاق اور کردار کا دیوالیہ نکل گیا ہے۔ عتیق گیلانی