پوسٹ تلاش کریں

اسلام کا معاشرتی نظام بہت بڑا اثاثہ ہے لیکن مدارس کے مفتی، ائمہ مساجد اور مذہبی جماعتیں وفرقے اپنے کاروبار کو توجہ دے رہے ہیں

islamic-revolution-islam-ki-nishat-e-sania-quran-o-sunnat-khatm-e-nabuwat-khadim-hussain-galian-baba-nikah-and-agreement-triple-talaq-fatwa-ittehad-e-ummat-dars-e-nizami

نوشتۂ دیوار کے ایڈیٹر اجمل ملک نے کہا ہے کہ اسلام کا معاشرتی نظام بہت بڑا اثاثہ ہے لیکن مدارس کے مفتی، ائمہ مساجد اور مذہبی جماعتیں وفرقے اپنے کاروبار کو توجہ دے رہے ہیں ،قرآن وسنت سے وہ رجوع کیلئے آمادہ نہیں ہیں۔ امریکہ ،کینیڈا اور یورپ ومغرب کے علاوہ دنیا بھر کے تمام جدید ممالک صرف اسلام کے قانونِ نکاح وطلاق اور خواتین کے حقوق معلوم ہوئے تو قرآن کی طرف پوری انسانیت کا رجوع ہوگا۔ عبادات کی وجہ سے اسلام کی تبلیغ تیزی سے پھیل رہی ہے لیکن اسلام کا معاشرتی نظام دنیا کے سامنے پیش نہ ہوسکا اسلئے دنیا بھر کے غیر مسلم ممالک کے علاوہ مسلم ممالک بھی اسلام کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے۔ سعودیہ نے جدت اختیار کرنے کو ترجیح دی اور ہم بھی حدود اور قیود کو پھلانگ رہے ہیں۔
دعلماء کرام اور مفتیانِ عظام اس بات پر وایلا مچارہے ہیں کہ مسلمان عوام ، حکومتیں ، دنیااورعالم انسانیت اسلام سے فاصلہ بڑھارہے ہیں لیکن وہ اپنی اصلاح پر آمادہ نہیں ہوتے۔ ہم نے نکاح وطلاق کے احکام قرآن وسنت سے واضح کئے مگر علماء کو فرصت نہیں کہ تھوڑی سی توجہ دیدیں۔ رسول ﷺ جو شکایت قیامت کے دن اللہ سے کرینگے کہ ’’میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا‘‘ تو کیا علماء و مفتیان خود کو اس شکایت میں بے گناہ ثابت کرسکیں گے؟۔ یہ تو کہا جاتا ہے کہ علماء اپنا وقت قال اللہ اور قال رسول اللہ ﷺ میں لگاتے ہیں لیکن کیا اللہ کے قرآن اور نبیﷺ کی سنت کی طرف بھی کوئی توجہ دیتے ہیں؟۔
حضرت حاجی محمد عثمانؒ سے کراچی کے بڑے علماء کرام بیعت تھے، حضرت عثمان ؒ سے بعض کی دوستی تھی، مدارس کا اساتذہ طبقہ بھی بیعت اور حلقہ ارادت میں شامل تھا۔ اس خانقاہ سے اتحادِ امت کی آواز ابھر رہی تھی۔ نیکی اورتقویٰ کا اعلیٰ معیار قائم ہورہاتھا۔ پھر علماء ومفتیان نے چندافراد کے کہنے پر فتوے لگادئیے۔ حالانکہ جو الزامات لگائے وہ کیا وجہ تھی کہ چند سرمایہ دار مریدوں کو خلافِ شریعت کا تو پتہ چل گیا مگر علماء ومفتیان بالکل بے خبرہی رہے تھے؟۔
ہزاروں کی تعداد میں لوگ جس شریعت اور تقویٰ پر عمل کررہے تھے۔ چند فتوؤں سے ایسی بھگڈر مچ گئی کہ ایک دنیا بدل گئی۔ داڑھیاں صاف ہوگئیں، ذکرو اذکار بند ہوا اور شریعت پر عمل موقوف ہوگیا۔ دینداری دنیا داری میں تبدیل ہوگئی اور آباد خانقاہ ویران ہوگئی۔ پارلیمنٹ میں جو ختم نبوت کے مسئلہ پر فارم سے حلف نامہ اسلئے ہٹادیا گیا کہ باقی سب معاملات میں بھی حلف نامے کو ختم کرنے پر اتفاق ہوگیا تھا۔ ایمان مجمل و ایمان مفصل میں بھی حلف نہیں ۔ اصل معاملہ حلف نامہ سے قرضہ، جائیدادوغیرہ کی تفصیل ہٹانا تھا جس سے درست معلومات کا ہر امیدوار پابند ہوتا۔ لیکن اس میں سیاستدان کامیاب ہوگئے ہیں۔
مذہبی جذبات کو ختم نبوت کے نام سے بھڑکایا گیا تو اس کے نتیجے میں علامہ خادم حسین رضوی نے سرِ عام مغلظات بکیں ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ علماء ومفتیان اپنا نصاب بھی درست کرینگے اور اس میں بھی ایمان کیخلاف بڑی سازش کو نکالنے کیلئے اسی طرح جذبہ کا مظاہرہ کرینگے؟۔
ہم فرقہ واریت کے بالکل خلاف ہیں اور درسِ نظامی کو غلطیوں سے پاک کرنا صرف ہماری نہیں بلکہ ریاست کی بھی ذمہ داری ہے۔ ہمارا مقصد کسی کی تحقیر وتذلیل نہیں۔ ہم صرف رسول اللہ ﷺ کی قرآنی شکایت پر اُمت مسلمہ کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں اور اسکے سب سے بڑے ذمہ دار علماء ومفتیان ہیں۔ باقی لوگ بھی اپنا دامن نہیں بچاسکیں گے اور اگر مسلمان قرآن کی طرف متوجہ ہوگئے تو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہوجائیگا۔ ہماری ریاست بھی حقائق کی طرف رجوع کرے تاکہ پاکستان کا مقصد حاصل ہو۔

یہ کیسی آزادی ہے ہماری بیٹیاں بہنیں بک رہی ہیں ہماری ماؤں سے لونڈی بن رہی ہیں

ptm-tarana-song-stop-using-taliban-against-ptm-40-fcr-manzoor-pashten-bacha-khan-nikah-agreement-londi-in-islam-mufti-abdul-samad (1)

اسلام نے بڑاکارنامہ انجام دیا کہ خواتین کو انکے حقوق کا تحفظ دیا۔عرب قبائل تھے جبکہ پاکستان میں بھی قبائلی معاشرہ ہے۔ 40ایف سی آر کا خاتمہ کردیا گیا۔ یہ قوانین بنیادی طور پر قبائلی رسم ورواج کے ہی مطابق تھے۔ آزاد قبائل اس آزادی پر فخر کرتے تھے۔ انگریزدور میں پورے ہندوستان پر غلامانہ قوانین مسلط تھے۔ انگریز کے جانے کے بعد جب پاکستان بن گیا تو آزاد ریاست کو آزادقبائل نے دل وجان سے قبول کیاتھا اور یہ احساس اُبھرا تھاکہ پاکستان میں اسلامی قوانین کے مطابق آئین سازی ہوگی اور غلامانہ دور کے قوانین بالکل ختم ہوجائیں گے لیکن آزادی کے ہیرو مرزاعلی خان نے کہا تھا کہ ’’ گدھا وہی ہے صرف اسکی پالان بدل گئی‘‘ یعنی پاکستان بننے کے بعد بھی کوئی خاص فرق پڑنے والا نہیں ہے بس نام بدل گیا۔
منظور پاشتین نے محسود تحفظ موومنٹ کو پھر پشتون تحفظ موومنٹ میں بدل دیا ۔جس کا ایک ہی پیغام تھا کہ ریاستی عناصر کی طرف سے ہونیوالے مظالم کا راستہ رک جائے۔ مظلوموں کی آواز سے ریاست میں ایک خوف پیدا ہوا اور اس خوف کے بعد 40ایف سی آر کا بھی خاتمہ کردیا گیا۔ پاک فوج چاہتی تو اپنے مختلف ادوار میں یا اپنے کٹھ پتلیوں کے ادوار میں اس قانون کا خاتمہ کرسکتی تھی۔ قبائل کو اپنے رسم ورواج کے قوانین سے کوئی تکلیف نہیں تھی اور نہ ہی وہ پاکستان کے سست و بدترین عدالتی نظام کے تحت انصاف کو قابلِ رشک سمجھتے تھے جو بدترین غلامی کی یاد گار ہے۔ البتہ امریکہ سے درآمد عبوری وزیراعظم معین قریشی نے یہ فیصلہ کیا کہ قبائل سے پارلیمنٹ کے منتخب نمائندوں کو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر منتخب کیا جائے۔ ورنہ پہلے مخصوص قبائلی ملکان کی رائے سے قومی اسمبلی کا ممبر منتخب ہوتا تھا۔قریشی کے فیصلے نے پاکستان کے کرتے دھرتوں کا منہ کالا کیا۔آج عبوری حکومت بھی بہت کچھ کرسکتی ہے۔
قرآن میں ملاء القوم کا ذکر ہے جو انقلابی ابنیاء کرام ؑ کا راستہ روکتے تھے۔ یہ مذہبی پیشواء اور قبائلی ملکان انقلاب کا راستہ روکنے کیلئے شاہی دربار والی خدمت کر تے تھے۔ اسلام کی نشاۃ اول میں سردارانِ قریش اور بتوں کی مذہبی عبادت کے خوگروں نے انقلاب کا راستہ اسلئے روکا تھا کہ وہ غلامی کا نظام ختم کرنے اور انسانیت کو برابری کا درجہ دینا نہیں چاہتے تھے۔ مشرکینِ مکہ کا کوئی فرد یا چند افراد اپنے مذہب کو تبدیل کرکے عیسائی وغیرہ بننا چاہتے تو ان پر کوئی پابندی نہیں تھی، اسلام سے نہ صرف ان کی سرداری کو خطرہ تھا بلکہ یہودونصاریٰ کے مذہبی پیشواء بھی اپنی بے تاج اور لامتناہی اختیارات کی بادشاہی کو خطرات لاحق سمجھتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے آخری خطبۂ حجۃالوداع میں اعلان فرمایا کہ’’ کالے گورے، عرب عجم اور کسی کو کسی پر فوقیت نہیں، سب آدم ؑ کی اولاد ہیں اور آدم ؑ کو مٹی سے پیدا کیا گیا تھا، فضلیت کا معیارصرف تقویٰ ( کردار) ہے‘‘۔ یہ خطبہ نسلی اور مذہبی تعصب کی بنیاد پر باطل زعم رکھنے والوں کے افکارپر کاری ضرب تھا۔ خلفاء راشدینؓ کے دور میں اسلام کا دنیا میں چرچا ہوا۔ اس وقت کی سپر طاقتیں قیصر و کسریٰ کی حکومتوں کو اس کے بعد شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ رسول اللہﷺ نے پیش گوئی فرمائی تھی کہ ’’ اسلام کا آغاز اجنبیت کی حالت میں ہوا، یہ عنقریب پھر اجنبی بن جائیگا پس خوشخبری ہے اجنبیوں کیلئے ‘‘۔ پھربنوامیہ، بنوعباس اور خلافت عثمانیہ کی خاندانی بادشاہتوں کے ادوار میں اسلام بتدریج اجنبیت کی منزلیں طے کرتا ہوا یہاں تک پہنچا ہے کہ مذہب کے نام پر جاہلوں کا چوپٹ راج ہے۔قبائل کا پڑھا لکھانوجوان طبقہ صرف ریاست سے نہیں بلکہ اسلام سے بھی بدظن ہوچکا ہے۔ریاست اور طالبان نے قبائل کا کلچر تباہ کیا اور اسکے بہت خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں۔
قائداعظم یونیورسٹی کے کچھ اعلیٰ تعلیم یافتہ قبائلی نوجوان کہتے ہیں کہ پوری دنیا میں ہمارا قبائلی کلچر اعلیٰ و ارفع ہے۔ جنوبی وزیرستان وزیر علاقے کا ایک ہجڑہ عام انسانوں کی طرح عزتدار ہے، تجارت کرتا ہے، دیگرقبائلی عمائدین کی طرح جرگوں میں شریک ہوکر فیصلے کرتا ہے، کوئی اس کو نیچ نگاہ سے دیکھنے کی جرأت بھی نہیں کرسکتا ۔ آج ہجڑوں کو نہ صرف پاکستان بلکہ مغرب میں بھی گراؤٹ کی نظرسے دیکھا جاتا ہے۔ انگریز کی ریاست نے یہاں قابض ہوکر ہمارا کلچر ایک سازش سے متأثر کیا ہے۔ اسلام اور ملاؤں نے بھی قبائل پر اثر انداز ہوکر اچھا نہیں کیا ہے۔ پختونوں کو اپنے حقوق، کلچر، تہذیب وتمدن اور قبائلی معاشرے کی آبیاری کیلئے اُٹھ کھڑا ہونا ہوگا۔ باچا خان کے بعدپشتون تحفظ موومنٹ پہلی شعوری کوشش ہے اور اس کیلئے ہمیں ہر قسم کی قربانی دینی ہوگی۔ ریاست کے زور پر ملائیت نے قبائلی نظام کو خراب کرنے پرنقب ڈالا، پھر فرنگیوں اور اب پنجابیوں نے ریاست کے ذریعے ہمارا نظام تباہ کردیا ۔
قبائلی جوانوں کا مدعا یہ تھا کہ حلالہ جیسی لعنت کو بھی اسلئے قبول کیا گیا کہ ملائیت کے پیچھے ریاست کی طاقت تھی اور ان تمام بکھیڑوں سے ہم نے اپنی جان چھڑانی ہوگی۔ کسی عالم کو خوب کھلانے پلانے کے بعد جس قسم کی حدودوقیود سے ماوراء گالیاں دو تو وہ ہنسی خوشی برداشت کرلیتا ہے۔
قرآن وسنت میں نکاح اور ایگریمنٹ کا ذکر ہے۔مجھ سے فون پرمولانا مفتی عبدالصمد اور مولانا ذی الشان نے بات کی تو وہ کہہ رہے تھے کہ ملکت ایمانکم کا مطلب لونڈی ہے اور لونڈی کا رواج ختم ہوگیا ہے۔ میں نے کہا کہ مجھے اس بات سے انکار نہیں کہ مترجمیں اور مفسرین نے لونڈی مراد لیا ہے لیکن الف سے ی تک اسلام کے واضح احکام کو اجنبی بنادیا گیا ہے، اسی طرح ملکت ایمانکم کے جملے کا بھی قرآن میں مختلف پیرائے میں ذکر ہے اور اس کا مفہوم بھی ایگریمنٹ بنتا ہے۔ غلام اور لونڈی کیلئے قرآن میں عبد و اَمۃ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ قرآن نے جاہلیت کی غلامی کا خاتمہ کرنے میں بتدریج اور زبردست کردار ادا کیا ہے۔ سعودی عرب میں مسیار اور ایران میں جس متعہ کے نام سے ایگریمنٹ کیا جاتا ہے وہ دراصل قرآن وحدیث ہی کا تصور ہے۔ محسود مفتی عبدالصمد اور اسکے بھائی ذیشان کا اصرار تھا کہ آپ واضح اور مختصر الفاظ میں بتادیں کہ چکلے میں چلنی عورتوں پر ایگریمنٹ کا اطلاق ہوتاہے یا نہیں؟، اور اسلام میں اسکا جواز ہے یا نہیں؟۔ میں نے بتایا کہ کھلم کھلا اس بدکاری پرزنا کا اطلاق ہوتا ہے اور یہ اگریمنٹ نہیں ہے۔ کورٹ میرج کے نکاح کی بھی ملاؤں نے غلط اجازت دیدی ہے اور بخاری کی حدیث میں یہ واضح ہے کہ باپ بیٹی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلے تو نکاح نہیں ہوتا ہے ۔ جس پر محسودمفتی صاحب نے قہقہ لگاتے ہوئے کہا کہ ’’ پھر تو مجھ سمیت ہم سب حرامی ہیں،اسلئے کہ ہمارا یہی کلچر ہے کہ بہن بیٹی پر پیسہ لیکراس کی مرضی کے بغیر اسکا نکاح کردیتے ہیں، میری ماں کا بھی یہی نکاح ہوا تھا‘‘۔
میں نے کہا کہ ’’ میں اس پر حرامی کا فتویٰ نہیں لگاتا ہوں البتہ جن خواتین کو ان کی مرضی کے بغیر پیسہ لیکر بیچا جائے تو ان پر لونڈی کا اطلاق ہوتا ہے۔ میرے دوست مفتی زین العابدین محسود کوٹکئی جنوبی وزیر ستان کے مشہور علماء گھرانہ سے تعلق رکھنے والے نے بتایا کہ ایک محسود لڑکی لاہور ہیرہ منڈی سے میرے کزن نے چھڑائی جس کو اسکے والد نے نکاح کے نام پرکسی کو بیچ دیا تھا اور اس نے پھر چکلے کو بیچا تھا۔ خواتین کیساتھ بہت بڑی زیادتی ہے کہ والد اور بھائیوں اسکا حق مہر بھی کھا جائیں۔ ایگریمنٹ سے پہلے نکاح کا تصور بھی درست کرنا ہوگا۔ ورنہ کوئی اصلاح نہ ہوگی‘‘۔
محسود ، وزیراور پختون قوم میں ہزاروں خوبیاں ہیں جو کسی اور قوم میں نہیں لیکن جس طرح مشرکینِ مکہ جاہلیت میں بھی بہت سی خوبیوں سے مالامال ہونے کیساتھ ساتھ بہت سی خامیوں اور بے غیرتی والی صفات سے بھی آلودہ تھے ، اسی طرح وزیر ، محسود اور پختونوں میں بہت خامیاں ہیں۔ کسی قوم میں انقلاب برپا کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اس کی خامیوں کو دور کرنے اور اچھی صفات کو اجاگر اور مستحکم کرنے کی تحریک چلائی جائے۔ رسول اللہﷺ کی طرف سے قریشِ مکہ اور عرب کی جہالت کو ختم کرنے کی کوشش شروع ہوئی تو وہ لوگ دنیا بھر میں واحد سپر طاقت بن گئے۔ رسول اللہﷺ نے آخری خطبے میں دورِ جاہلیت کے حلف الفضول میں شمولیت کو سرخ اونٹوں سے زیادہ محبوب قرار دیا ۔ حلف الفضول کیطرح قبائل معاشرتی اقدار قابلِ فخر قرار دیں تو یہ سنت رسول ﷺ کا فطری تقاضہ ہے۔ لیکن اپنی قوم سے ان خامیوں کو دور کرنے کی پُر زور تحریک چلانے کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے بیٹیاں اور بہنیں بک رہی ہیں اور مائیں لونڈیاں بن رہی ہیں۔ جس دن قبائل نے رسمِ بد کا خاتمہ کرنے کیلئے اقدامات اُٹھائے تو خواتین کی دعاؤں سے قبائل نہ صرف پاکستان بلکہ تمام دنیائے انسانیت پر امامت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہونگے۔ بصورت دیگر امریکہ و طالبان داعش یا پاکستانی ریاست کا نیا دور بہت کچھ نیا لیکر آئیگا۔ قبائل خواتین کو حق مہر سے بھی محروم کرنے کی کوشش کرینگے اور اپنی مرضی سے نکاح میں رکاوٹ بنیں گے اور ریاست ان کو تحفظ دیگی جس سے وہ اپنے معاشرتی اقداراور مذہب سمیت سب چیزیں بھول جائیں گے۔ اب تو وردی پر دہشتگردی کا الزام لگانے میں کامیاب ہوگئے ، پھر ملاگردی کا نعرہ بھی لگے گامگر کامیابی پھر بھی نہ ملے گی اورمزید بھی ذلت سے دوچار ہونگے۔
اب تو پشتون تحفظ موومنٹ کے نوجوان گانے گاتے ہیں کہ یہ کسی آزادی ہے۔ ہمارے گھر ویران ہورہے ہیں اور ہمارے نوجوان قتل ہورہے ہیں ۔گھروں کی تباہی جوانوں کے قتل کے بعد آخری چیز رہ گئی ہے،وہ عزت کی تباہی ہے اور اسکا سامنا بھی کرنا پڑیگا۔ بہن بیٹی کورٹ میرج کرے گی اور بیوی عدالت سے خلع لے گی۔ داعش، امریکہ اور طالبان نے قابو پالیا تو بھی عزتوں کی آزمائش کا سامنا ہی کرنا پڑیگا۔ قائداعظم یونیورسٹی کے محسود اسٹوڈنٹ نے یہ اعتراف کیا کہ ’’ہمارے ہاں بہن بیٹیوں کو اسکا حق مہر نہیں دیا جاتا ہے بلکہ بھائی اور باپ اس سے اپنے لئے چیزیں خرید لیتے ہیں‘‘ ۔ ایک مہمند نے بتایا کہ ہمارے ہاں بالکل رضامندی سے رشتہ ناطہ ہوتا ہے، حق مہر کے پیسے کھانے کا کوئی تصور نہیں ہے۔ وہ مہمند اپنے گاؤں میں ہماری کچھ کتابیں لیکر گیا جن میں حلالہ کے بغیر رجوع کا حکم واضح تھا اور وہاں کے کچھ علماء نے اس کی تائید کی اور کچھ مخالفت پر آمادہ ہوگئے، یہاں تک کہ مارکٹائی بھی آپس میں ہوئی۔ اس کتاب پر وہاں پابندی لگادی گئی۔ ایک شخص نے بیوی کا حلالہ اپنے بھائی سے وہاں کروایا تھا، اس نے کتاب کو پڑھ کر سمجھ لیا تو وہ کہہ رہا تھا کہ میں بھائی، بھابی اور بیوی سے آنکھیں ملانے کے قابل نہیں رہا ہوں۔ گھر سے مجھے جانا ہوگا یا بھائی کو گھر چھوڑنا ہوگا۔ جو مہمند قبیلہ کتا ب سے اتفاق رکھنے کے باوجود حلالہ کی لعنت کو روکنے پر اتفاق نہ کرسکتا ہو، وہ تو حق مہر کھانے والوں سے بھی زیادہ غیرت سے عاری ہے۔ محسودقوم کو پتہ چل جائے کہ حلالہ کے بغیر بھی رجوع ہوسکتا ہے تو وہ اس پر عمل درآمد روک دینگے۔
پاکستان اسلام کے نام پربنا مگرملاکو اسلام کا پتہ نہ تھا اسلئے انگریز کے قوانین اورقبائلی رسم و رواج سے ہمیں خاص طور پر خواتین کو آج بھی چھٹکارا نہیں مل سکا۔
ملاؤں کی قدامت پسندی اب مستقل مزاجی نہیں بلکہ ڈھیٹ پن میں بدل چکی ۔ مولانا فضل الرحمن جشنِ دیوبند کے نام پر بہت بڑے اجتماع کے پروگرام میں سلیم صافی کے سوال کا جواب دے کہ ’’ تصویر حرام اور قطعی حرام ہے مگر کیمرے کی تصویر کے بارے میں بعض لوگوں نے اختلاف کیا ہے اور ہم یہ موبائل پر ویڈیو بنانے والے اسی کا فائدہ اٹھارہے ہیں‘‘۔ مولانا اپنی اس حاضر جوابی پر وہ خود بھی دم بخود قہقہ لگاتا ہے اور دوسرے حاضرین بھی داد دیتے ہیں۔ عوام اس ڈھیٹ پن کے ویڈیو کلپ کو شغل کے طور پرایکدوسرے کوبھیجتے ہیں مگر ان کو معلوم نہیں کہ علماء ومفتیان کا تو آوے کا آوا ہی بگڑ چکاہے۔
اتمامِ حجت کے بغیر کسی پر ڈھیٹ پن کا اطلاق نہیں ہوتا اور بفضل تعالیٰ قرآن وسنت کی روشنی سے دینِ فطرت کی فضا عام ہورہی ہے۔ بہت سے علماء ومفتیان کھل کر حمایت کررہے ہیں اور بہت سوں میں ہمت نہیں مگر چھپ کر تائید کررہے ہیں اوروہ دن دور نہیں کہ مدارس ومساجد سے دینِ فطرت کی صدا بلند ہوگی اور پاکستان میں ایک خوشگوار تأثر ابھرے گا۔ فرقہ واریت کا بھوت دفن ہوگا، علماء حق کا بول بالا ہوگا۔ تمام لسانی و مذہبی، سیاسی و عسکری قوتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر حقائق کی طرف رجوع کریں گی۔ پاکستان سے ابھرنے والا انقلاب اسرائیل وامریکہ اور بھارت سمیت پوری دنیا عرب وعجم کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ پختون قوم کا اس انقلاب میں بہت ہی بنیادی کردار ہوگا۔ بلوچ، سندھی، مہاجر اور پنجابی سب ہمارے شانہ بشانہ ہونگے۔ جب تک حق اور قانون کا پتہ نہ ہو اسوقت تک فضاؤں میں اندھوں کی طرح لاٹھی گھمانے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ علماء نے پاکستان بنانے سے پہلے پاکستان بنانے کے بعد شریعت اور آزادی کی رٹ لگائی مگر کچھ بھی حاصل نہ ہوسکا۔ بلوچوں نے قوم پرستی کیلئے قربانیاں دیں مگر نتیجہ کچھ برا نکلا۔ مہاجروں نے اقتدار کی سیڑھی تک رسائی بھی حاصل کرلی لیکن ’’بہت تلخ ہیں بندہ مزدور کے اوقات ‘‘ کو نہیں بدل سکے ہیں۔
پاکستان اسلام کے نام پر بنا اور اسلام سب کیلئے قابل قبول ہے۔ قائداعظم یونیورسٹی کے طلبہ سے ٹیلی پیتھی نہیں مل رہی تھی مگر اسلام کا فطری پیغام ایک حد تک ان کی سمجھ میں آگیا جس کو وہ سمجھنا بھی نہیں چاہ رہے تھے اسلئے کہ قبائلی اقدار پر ان کو فخر تھا اور اسلام انسانی فطرت کی اچھائی کو جگہ دیتا ہے اور برائی کو ختم کرنے میں مدد کرتا ہے، اسلام جبر کا دین نہیں بلکہ واضح ہے کہ من شاء فلیؤمن ومن شاء فلیکفر (جو چاہے مؤمن بنے اور جوچاہے کفر اختیار کرلے)۔اچھا لگے تو یہ عقیدہ اپنالو۔
وہ اک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
اسلام کا معاشرتی ، سیاسی ، معاشی ، مذہبی ، علاقائی اور بین الاقوامی نظام کو ہمیں بھرپور سمجھنا ہوگا۔ سید عتیق الرحمن گیلانی

پاکستان میں سب سے اہم مسئلہ پانی کا ہے مگر ارباب اختیار کی توجہ نہیں۔ پبلشر نوشتۂ دیوار اشرف میمن

pervez-musharraf-kala-bagh-dam-pakistan-kishanganga-dam-inauguration-by-India-violation-jam-kando-bhains-colony-karachi-establishment-of-pakistan
پنجاب میں فیکٹریوں کی آلودہ پانی سے موذی امراض پھیل رہے ہیں۔ پشاور میں کارخانو مارکیٹ کا متعفن پانی حیات آباد جیسے علاقے میں بدترین آلودگی پھیلارہا ہے۔ بلوچستان ، سندھ اور کراچی میں پانی کا بحران ہے ۔ جنوبی افریقہ کے ترقی یافتہ علاقہ کیپ ٹاؤن میں پانی کی قلت سے ایک بڑا بحران پیدا ہوا۔ پاکستان کے پاس ایک ماہ کا ذخیرہ کرنے سے زیادہ پانی نہیں ۔ سیاست اور حکومت پر قبضہ کرنے کے خواہشمند تاجر اور کھلاڑی قیادت کو احساس نہیں ہے کہ آنیوالے وقت میں پاکستان کھنڈر بن جائیگا۔
عبوری حکومت اپنی کابینہ میں ٹیکنوکریٹ شامل کرکے پانی کا مسئلہ ترجیحی بنیادوں پر حل کرے۔ پرویز مشرف کی ڈکٹیٹر شپ نے خواتین کی اضافی نشستیں رکھی ہیں تو آج مذہبی اور سیاسی جماعتیں خواتین کو ٹکٹیں دینے کی بات کر رہی ہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں کالا باغ ڈیم بن جاتا تو آج پانی کا مسئلہ پیش نہ ہوتا۔ بھارت بار بار شرارت کی داستان رقم کررہا ہے مگر ہم اتنی ہمت نہیں کرسکتے کہ اسکے پانی کے ڈیم کو ایک میزائل ماردیں۔ پورا پنجاب بھارت نے بنجر کردیا ہے اور کشمیر پر مظالم و غاصبانہ قبضے کے باوجود امریکہ کے ساتھ ملکر پاکستان کیخلاف سازش کررہا ہے۔
ہماری ریاست اتنی کمزور ہے کہ اپنے ہاں بھی ہم ڈیم نہیں بناسکتے۔ کالاباغ ڈیم تمام چھوٹے بڑے ڈیموں کی ماں ہے۔ کالاباغ ڈیم کے بغیر سندھ کو آباد کرنا ممکن نہیں ہے۔ اگر اصحاب اقتدار کے پاس دل و دماغ ہوتا اور اس میں قوم و ملک کیلئے مثبت سوچ کی گنجائش ہوتی تو نہ صرف کالاباغ ڈیم بنتا بلکہ اٹک سے ٹھٹھہ تک پورے دریائے سندھ میں ڈیم کی شکل میں پانی جمع کیا جاسکتا تھا۔ سازشی عناصر بلیک میلنگ اور قومی خزانہ لوٹنے کے چکر میں رہتے ہیں۔ ملک و قوم اور عوام کیلئے کوئی کام نہیں کرتے۔
گاؤں دیہاتوں میں جہاں پانی ذخیرہ کرنے کی عوام کو ضرورت ہوتی ہے تو چھوٹے چھوٹے نالوں میں بھی پانی کو ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ تحصیل ، ضلع اور ڈویژن کی سطح پر بھی دریائے سندھ کے پانی کو ذخیرہ کرنے کا اہتمام ہوتا تو طوفانوں کا پانی ضائع ہونے کے بجائے غریب عوام کو کام آتا۔ بڑی حقیقت کو ایک چھوٹی سی مثال سے سمجھنے کی کوشش کی جائے تو بھی ایک لائحہ عمل تیار کیا جاسکتا ہے۔
کراچی بھینس کالونی موڑ سے آگے نیشنل ہائی وے پر رینجرز کی چوکی سے جام کنڈو کی طرف ایک روڈ جاتا ہے ، جس پر صورتی کمپنی کے قریب ایک پل بنا ہوا ہے ، جسکے نیچے پانی کے بہاؤ کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس پل کا مقصد بارش کے پانی کو روکنا تھا۔ اس ذخیرے سے آس پاس کے کنوؤں میں پانی بھر جاتا تھا۔ اب تو سندھ سرکار نے پتہ نہیں کس سے کیا کھایا اور کیا پیا کہ بارش کا پانی بند ہوا ۔
ڈیرہ اسماعیل خان سے دریا خان تک میلوں کچا علاقہ ہے جس میں خشکی کے دور میں پانی کا بہت بڑا ذخیرہ بنایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح پنجاب اور سندھ کے تمام اضلاع میں پانی کے ذخائر بنائے جائیں تو بھی فی الفور اور بڑے پیمانے پرپانی کے بحران سے پاکستان کی بچت ہوسکتی ہے لیکن سیاستدان غل غپاڑے والے کام کرتے ہیں ۔ خود تو منرل واٹر پر گزارہ کرتے ہیں اور غریبوں کی کوئی فکر نہیں رکھتے۔ بال بچے ، گھر بار ، جائیداد اور بینک بیلنس سب ہی دیارِ غیر میں رکھے ہیں یہاں صرف لیڈری چمکانے ہی کی خواہش ہے۔ دھڑلے سے جھوٹ بول کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں۔ آئین کے دفعہ 62، 63میں صادق و امین اوراچھے کردار کی شرط ہے۔ مریم نواز کو اپنے باپ نواز شریف کے سر کی قسم ہو کہ وہ عوام سے مخاطب ہو اور کہے کہ ’’پارلیمنٹ میں نواز شریف سے جھوٹ فرشتوں نے اگلوایا تھا ، نواز شریف کی روح پر خلائی مخلوق کا قبضہ تھا ورنہ اتنی بیوقوف اور پاگل تو میں بھی نہیں تھی کہ سرِ عام اس طرح اپنی جائیدادوں کا اعترافِ جرم کرتی‘‘ ۔
عمران خان کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ عدالتوں سے اس نے نواز شریف کو نا اہل کروادیا۔ ساتھ ساتھ جہانگیر ترین بھی نا اہل ہوا ہے اور اگر کسی نے سیتا وائٹ کا کیس لاکر عمران خان کو چیلنج کردیا تو عمران خان بھی نا اہل ہوگا۔ یہ نا اہلی کی تلوار نواز شریف ، جہانگیر ترین کے بعد عمران خان اور پتہ نہیں کس کس کے اوپر چل سکتی ہے اور چلنی چاہیے۔ آنیوالے وقت میں عدلیہ نے سب کے ساتھ برابری کی بنیاد پر یکساں سلوک کرنا ہے۔ عمران خان نے پختونخواہ میں چیف منسٹر کیلئے منظور آفریدی کی منظوری اسلئے دی تھی کہ وہ ایوب آفریدی کے بھائی ہیں جس نے حال ہی میں سینٹ کے الیکشن میں تحریک انصاف کو خرید لیا تھا۔ جب عمران خان کو پتہ چلا کہ منظور آفریدی کی تصویر مولانا فضل الرحمن کے ساتھ بھی ہے تو اسکو مسترد کردیا۔ یہ کونسا اخلاقی پیمانہ ہے کہ وزیر اعلیٰ بننے سے پہلے عمران خان سے منظور آفریدی کی ملاقات کرانے میں شرم محسوس نہیں کی گئی؟۔
غیر جانبدار الیکشن کیلئے ایسے افراد کا انتخاب ضروری ہوتا ہے کہ ان کو پتہ بھی نہ ہو اور فریقین اس پر اعتماد کرلیں لیکن پاکستان میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں ۔ جب آئین میں یہ لکھا ہے کہ اپوزیشن لیڈر اور وزیراعلیٰ دونوں کا اتفاق ضروری ہے تو پھر پارٹی قیادت کا اس میں کردار بالکل آئین کے منافی ہے۔ انصاف کا تقاضہ یہ تھا کہ جس طرح الطاف حسین کی قیادت کو متحدہ قومی موومنٹ سے الگ کردیا گیا اسی طرح دیگر قیادتیں بھی پارٹیوں پر اختیار کھودیتیں ۔ جمہوریت کا بنیادی تقاضہ یہ ہوتا ہے کہ قائد کوئی ڈکٹیٹر نہ ہو ، جبکہ یہاں قیادتوں کی ڈکٹیٹر شپ ہی کو جمہوریت کا نام دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے چیئر مین سینٹ صادق سنجرانی کی مذمت اسلئے کی کہ جس طرح شاہد خاقان عباسی نواز شریف کے حکم کا ایک ادنیٰ غلام ہے اسی طرح صادق سنجرانی کو بھی ہونا چاہیے۔
جمہوریت کا بنیادی تقاضہ یہ ہے کہ پارٹی پر قیادت کا راج نہ ہو بلکہ کارکنوں اور رہنماؤں کا راج چلے۔ مغرب کی جمہوریت میں عوام اور پارٹی کے کارکنوں و رہنماؤں کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ یہاں ذو الفقار علی بھٹو کے لے پالک، جنرل ضیاء الحق کے گودی بچے اور ایمپائر کی تلاش میں اپنی دُم سر پر باندھ کر یہ دکھانے والے کہ خفیہ ہاتھ ہمارے ساتھ ہے اپنی کٹھ پتلی قیادت کا ایک تماشہ ہیں۔
پاکستان کی ریاست سول و ملٹری بیوروکریسی کا فرض بنتا ہے کہ پانی کے معاملے کو سنجیدہ لیں ۔ کشمیر کی آزادی کا تمغہ سیاسی بیانات سے حاصل نہ ہوگا۔ جب مذہبی بنیاد پر ہم اپنے ہاں ایک معاشرتی تبدیلی لائیں گے تو بھارت کو نہ صرف کشمیر سے دستبردار ہونا ہوگا بلکہ بھارت کے تمام مسلمانوں میں بھی بیداری کی لہر دوڑے گی اور ہندو اپنے مذہب کی صداقت کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوگا۔
اسلام جبر و اکراہ کا مذہب نہیں بلکہ ایک فطری دین ہے۔ ذات پات ، قوم و نسل ، رنگ زبان اور ہرطرح کے تعصبات سے ماورا ہے۔ پاکستان کی بقاء اسلام میں ہے اور بھارت کی بقاء سیکولر ازم میں ہے ۔ ہمارا مثبت رویہ ہی ہماری بقاء کی ضمانت ہے۔ امریکہ ، بھارت اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ پاکستان کیلئے تباہی کا منصوبہ ہے لیکن اللہ تعالیٰ ہم پر اپنا فضل فرمائیگا۔ اسلام کے خدو خال خاندانی وموروثی سیاسی و مذہبی قیادتوں نے تباہ کئے ہیں۔ جہاں کہیں سے بھی روشنی کی کرنیں میسر ہوں ان کو جلد سے جلد عوام تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ پنجاب، بلوچستان پختونخواہ، سندھ ، کراچی ، کشمیر ، گلگت و بلتستان اور افغانستان کے عوام میں ایمان کی شمع روشن کرنے کی دیر ہے اور اس کیلئے سب سے بڑا ذریعہ قرآن و سنت ہے۔ علم کے ذریعے سے اپنا دین زندہ ہوگا اور دین زندہ ہونے سے ہمارے ایمان کی بھی آبیاری ہوگی۔ جنرل راحیل شریف کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاک فوج کے ذریعے ملک میں امن قائم کیا اور فوج نے پہلے سب سے بڑی غلطی یہ کی تھی کہ نواز شریف کو جنم دیا تھا۔ اب اس کا ازالہ بھی فوج کا کام ہے۔

پشتون تحفظ موومنٹ کے منظور پشتین کے گلے شکوے

manzoor-pashteen-establishment-ansar-sahaba-muhajir-sahaba-zainab-case-check-post-in-tribal-areas-naseem-suicide-attacker-

ایک مرتبہ انصار کے جوان طبقے نے گلے شکووں کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مشرکین مکہ نے بہت برا سلوک کیا ، ہجرت پر مجبور کیا گیا اور ہم نے مہاجر بھائیوں کو قربانیاں دیکر عزت دی ۔ آج اسلام نے ترقی کی ہے اور مال غنیمت باٹنے کا وقت آیا تو انصار کے مقابلے میں مکہ کے مہاجر ین کو ترجیح دی جاتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو شکایت پہنچی تو انصار کے بزرگوں کو طلب کیا اور پوچھا کہ اس میں کوئی حقیقت ہے؟ ۔بزرگ انصار نے کہا کہ ہمیں شکایت نہیں لیکن جوان طبقے میں تشویش کی اطلاع ملی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے معاملہ سنجیدہ لیا اور سارے انصار کو طلب فرمایا۔ مہاجرین کے آنے سے قبل حالات بھی دریافت کئے اور موجودہ حالات کا بھی پوچھا۔ انصار نے کہا کہ ہمیں بہت فائدہ پہنچا ہے ، پہلے اوس و خزرج لڑتے تھے ، مدینہ کے یہود ہم پر حاوی تھے ، حالات ہمارے بد سے بدتر تھے لیکن اب تمام گھروں میں امن و سکون اور خوشحالی ہے۔ پھر شکایت کے بارے میں مطمئن کیا کہ جو لوگ گھر بار چھوڑ کر مکہ سے آئے ہیں پہلے تم لوگ ان کی مدد کرتے تھے اور اب مال غنیمت سے ان کی مدد کی جاتی ہے۔ کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ نئے مسلمان ہونے والوں کو ان کی ضروریات کے مطابق مال غنیمت سے کچھ مال ملے اور میں تمہارا بن جاؤں؟۔ جس پر انصار کی طرف سے آہ و بکا ، چیخ و پکار اور زار و قطار رونے کی آواز بلند ہونا شروع ہوئی اور وہ بلند آواز سے کہہ رہے تھے کہ رضینا باللہ رباً و بالاسلام دیناً و بمحمد نبیاً ’’ہم اللہ کے رب ہونے پر راضی ہیں ، ہم اسلام کے دین ہونے پر اور محمد ﷺ کے نبی ہونے پر راضی ہیں‘‘۔ سارے گلے شکووں کا ماحول ختم ہوا۔
منظور پشتین نے پشتون تحفظ موومنٹ کے پلیٹ فارم سے اسلام آباد میں دھرنا دیا تو اسٹیج پر انتظامیہ کے محسود جوان کی آنکھوں میں بھرے ہوئے آنسو ؤں کو میں نے خود دیکھا جس کو میں اس وقت بھی نہیں پہنچانتا تھا اور اب بھی مجھے نہیں پتہ کہ وہ کون تھا لیکن وہ کہہ رہا تھا کہ ’’پیر صاحب ! آپ لوگوں کو بہت تکلیف پہنچی ہے لیکن ہم نے اپنے بچوں ، خواتین اور بوڑھوں کی جو دردناک اور نہ ختم ہونے والی کہانیاں دیکھی ہیں وہ بھی اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہیں‘‘۔ پچھلے دنوں قصور کی زینب کا واقعہ بڑا دردناک تھا ، اس سے پہلے سندھ کی غریب دوشیزہ کا وڈیرے کے ہاتھوں قتل کا واقعہ ہوا۔ پھر ڈیرہ اسماعیل خان میں لڑکی کو ننگا کرکے گھمانے کا واقعہ پیش آیا۔ پھر کوہاٹ کی طالبہ کو شادی سے انکار پر قتل کیا گیا ، پھر فیصل آباد میں واقعہ پیش آیا ۔ اس سے پہلے بھی خواتین کیساتھ زیادتیوں کی داستانیں میڈیا میں رپورٹ ہوئی ہیں۔ البتہ چیچہ وطنی میں کسی مجذوب بچی نے پٹاخے خریدے تھے اور اس کو آگ لگی تھی جس میں زیادتی یا جلانے کا کوئی قصہ نہیں تھا ۔ سیاسی رہنما ان غریب والدین کو معاوضہ دلانے کے چکر میں ڈرامہ رچانے کا کہہ گئے تھے۔ میڈیا نے حقائق سے پردہ اٹھانے کے بجائے بہت غلط رپورٹنگ کی تھی۔
منظور پشتین نے کہا ہے کہ ہم نے وزیرستان سے چیک پوسٹوں کو ختم کرنے کا کوئی مطالبہ نہیں کیا ہے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ پاک فوج کے سپاہی چیک پوسٹوں کو مزید بڑھادیں ۔ ہمارا صرف یہ مطالبہ تھا کہ عوام سے اچھا سلوک کیا جائے اور اگر چیک پوسٹوں کو ختم کیا گیا تو اس کی ذمہ داری ہم پر نہ ڈالی جائے۔ جو لوگ ہم پر تنقید کررہے ہیں ہم ان کو ویلکم کہتے ہیں۔ تنقید ہمارے لئے اصلاح کا ذریعہ ہے۔ مشاورت سے ایک درست سوچ پروان چڑھتی ہے اور ہم اس کے خواہاں ہیں۔ میڈیا میں ہم پر تنقید کے بجائے بہت غلط سلط الزامات لگائے گئے ہیں اور ہمیں چند ایک کے سوا کوئی بھی سپورٹ نہیں کررہا ہے۔ میڈیا کو اپنے عمل پر بہت سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ ہم ملک دشمن نہیں بلکہ اپنے حقوق کی بات دستور کے اندر رہتے ہوئے کرتے ہیں۔ فاٹا میں پاکستانی دستور کا نفاذ چاہتے ہیں۔ منظور پشتون نے کہا ہے کہ قاری محسن کو میرا بھائی بتایا جارہا ہے حالانکہ اس کا تعلق میری تحصیل سے بھی نہیں ہے۔ میرا تعلق طالبان سے ثابت ہوجائے تو جو سزا دیں وہ قبول ہے۔ ایک اور الزام لگایا جاتا ہے کہ نسیم میرا بھائی ہے جو 2007ء میں خود کش حملوں کا ماسٹر مائنڈڈ تھا۔ یہ بات درست ہے کہ نسیم میرا بھائی ہے لیکن اس کی پیدائش 2011ء کو ہوئی ہے اور اب وہ 7 سال کا ہے اور تیسری جماعت کا طالب علم ہے۔منظور پشتین ایک معتدل مزاج اور اچھے انسان ہیں۔ سوشل میڈیا پر پروپیگنڈے کرنے والے پاکستان اور اسلام کے خیر خواہ ہوں تب بھی بیوقوف ملک قوم سلطنت اور مسلمانوں کو نقصان پہنچارہے ہیں۔
ہماری منظور پشتین سے اتنی استدعا ہے کہ اپنی قوم سے محبت اسلام کا تقاضا ہے اور اپنی قوم کیلئے تعصب نہ صرف کفر و جہالت بلکہ اپنی قوم سے دشمنی کے بھی مترادف ہے۔ جو پشتون ہوکر پشتونوں سے محبت نہیں کرتا وہ دوسری زبان والوں سے محبت کے دعوے میں بھی جھوٹا اور مکار ہے۔ اسی طرح بلوچ ، پنجابی ، سرائیکی اور سندھی و مہاجر بھی اپنوں سے محبت رکھے تو وہ دوسروں کیلئے اثاثہ ہے اور اپنوں سے نفرت والے دوسروں سے بھی محبت نہیں رکھ سکتے ہیں۔ مہاجر قومی موومنٹ بن گئی تو آخر کار متحدہ قومی موومنٹ میں بدل گئی۔ سوات کے پختون سینیٹر سیف کو متحدہ نے سینٹ میں بھیجا ، میاں عتیق کا تعلق پنجاب سے ہے اس کو بھی متحدہ نے سینٹ میں بھیجا۔ نبیل گبول بلوچ ہے متحدہ قومی موومنٹ نے اس کو عزیز آباد کے حلقے سے قومی اسمبلی کا ممبر بنوایا۔ جب ریاستی ادارے بھرپور طریقے سے الیکشن میں دھاندلی نہیں ہونے دے رہے تھے تب بھی عزیز آباد سے متحدہ کے کنور جمیل نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرلی۔ الطاف حسین نے پاک فوج کے جرنیلوں کو سیاستدانوں کیخلاف دہائیاں بھی دیں اور مسلم اُمہ میں ایک خلیفہ مقرر کرنے پر زور بھی دیا۔ البتہ یہ بہت برا کیا کہ ایک مہذب قوم کے مہذب افراد کو تہذیب کے دائرے سے نیچے اتارا۔ جس کے نتیجے میں کارکنوں نے سر عام پھر رہنماؤں کی پٹائی بھی لگادی۔ اب جب متحدہ قومی موومنٹ کا جلسہ ہورہا تھا تو پھر ڈاکٹر فاروق ستار کی تقریر کے دوران مہاجروں کا ترانہ جاری رکھا۔ کوئی مہذب قوم کسی مہمان کے ساتھ بھی ایسا سلوک روا رکھے تو اقتدار کے لائق نہیں رہتی۔
پختون تحفظ موومنٹ کی یہ ابتدا ہے اور سوشل میڈیا پر ان کے کارندوں کی طرف سے پاک فوج کے ترجمان اور پنجابیوں کیلئے غلیظ زبان کا استعمال نہ روکا گیا تو یہ تحریک سر اٹھانے سے پہلے مغلظات بکتے ہوئے اوندھے منہ الٹی پڑی دکھائی دے گی۔ جن تھوڑے بہت لوگوں کی ہمدردیاں انہیں حاصل ہیں وہ بھی نہ رہیں گی۔ کراچی میں مہاجر پشتون فسادات کے بدبودار نعرے سے انسانیت نے دم توڑ دیا تھا۔ پختون مہاجروں کے مقابلے میں زیادہ مہذب نہیں لیکن آج وہی الطاف حسین منظور پشتین کے جلسے کو کامیاب بنانے کیلئے مہاجروں کو حکم دیتا ہے ، یہ نہ ہو کہ کل منظور پشتین پنجابیوں سے معافی تلافی کیلئے ان کی ٹانگیں پکڑ رہا ہو۔ PTMکے تعلیمیافتہ کارکن اسلام کی بنیاد پر پختون اور ملاؤں کی اصلاح کریں تو ہماری ریاست اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کی اصلاح بھی ہوجائے گی۔ عتیق

پاکستان اسلام کے نام پر بنا اور قرآنی تعلیم کی ضرورت

molana fazal-ur-rehman-dera-ismail-khan-tank-waziristan-zina-in-islam-pti-mujra-mma-hurmat-e-musahirat-shaukat-aziz-siddiqui

متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے ٹانک کی جامع مسجد میں یہ خطاب کیا تھا کہ ’’لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلام سخت مذہب ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ایک شخص دوافراد مرد اور خاتون کو زنا کرتے ہوئے دیکھ لیں تو جب تک شیشے کے بوتل میں انگلی کی طرح دیکھنے کی گواہی نہ دی کہ مرد کا عضو ء تناسل عورت کی اندام نہانی میں ڈھل چکا تھا تو اس کی گواہی معتبر نہیں ہوگی۔ کیا یہ ممکن ہے کہ گوشت اور پوست کے مردو خاتون کو اس طرح دیکھا جاسکے؟۔ ہرگز نہیں۔ پھر ایک شخص دیکھ لے تو بھی اس کی گواہی معتبر نہیں ، دو افراد بھی دیکھ لیں تو بھی اس پرزنا کا اطلاق نہیں ہوتا،تین افراد بھی دیکھ لیں تو یہ معتبر نہیں۔ چار افراد دیکھ لیں، وہ بھی معتبرو تقویٰ دار ہوں، کسی خاتون کی گواہی بھی قابلِ قبول نہیں۔ کیا شریعت اسلامی حد جاری کرنے کیلئے رکاوٹ ہے یا حد جاری کرتی ہے؟۔ خوامخواہ اسلام کو اتنا سخت تصور کیا جاتا ہے۔ اسلام تو بہت نرم ہے‘‘۔ مولانا فضل الرحمن جن الفاظ میں اپنی تقریر کررہے تھے یقیناًعمران خان کے جس دھرنے کو مجراقرار دیتا تھا اس میں یہ جملے ادا نہیں ہوسکتے تھے ورنہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی طرف سے جو خواتین شریک تھیں وہ سب اس اسلام کو سن کر شرم سے بھاگ جاتیں۔ حضرت آدم ؑ و حواء ؑ کے قصے کو جس شائستگی سے بیان کیا گیا ہے۔ ایک دوسری جگہ اللہ نے فرمایا کہ ’’جب مرد نے اپنی بیوی کو چادر اوڑھا دی، پھر اس کو ہلکا سا حملہ ہوا۔ پھر جب وہ بھاری ہوگئی تو دونوں نے اللہ سے دعا مانگی کہ اے ہمارے ربّ ہمیں صحیح سالم بچہ عطاء فرما۔ پھر اللہ نے بچہ دیدیا تو وہ اللہ کے ساتھ شرک کرنے لگے‘‘۔
دنیا کی کسی تہذیب وتمدن میں اتنے مہذب الفاظ میں میاں بیوی کے تعلق کو اس طرح سے بیان نہیں کیا گیا۔ لیکن جب کوئی کسی بیوہ یا طلاق شدہ سے شادی کرلے اور اس کی سابق شوہر سے بچیاں اسکے گھر میں جوان ہوجائیں اور اس کی نیت خراب ہوجائے تو بڑے سخت الفاظ میں کہا گیا کہ ’’ اگر تم نے ان کی ماں سے نکاح کیا اور ان میں تم نے ڈال دیا تو تمہارے لئے وہ بچیاں جائز نہیں اور اگر نہیں ڈالا ہے تو پھر تمہارے لئے جائز ہیں‘‘۔ قرآن ایک طرف مہذب الفاظ کی تعلیم دیتا ہے تو دوسری طرف منکر سے منع کرنے کیلئے ماں کے اندر ڈالنے اور نہ ڈالنے کی وضاحت کرکے انسانوں کے ضمیر کو جھنجھوڑنے میں آسرا نہیں کرتا۔ افسوس کہ اتنے واضح الفاظ کے باوجود فقہ کی دنیا میں جو تضادکانصابِ تعلیم پڑھایا جارہاہے وہ بہت افسوسناک ہے۔ حرمت مصاہرت کے مسائل اور اختلافات نمایاں کئے جائیں تو دینی مدارس کے فارغ التحصیل اور پڑھنے پڑھانے والے کسی کو منہ تک دکھانے کے قابل نہ رہیں گے۔ مولانا فضل الرحمن نے فقہ سے جو اسلام بیان کیا تھا وہ عوام میں فحاشی بڑھانے کا یا کم کرنے کاذریعہ ہے؟۔
رسول اللہ ﷺ کو قیامت میں شکایت ہوگی کہ وقال الرسول یارب ان قومی اتخذوا ہذالقرآن مھجورا ’’اے میرے ربّ ! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا‘‘۔ جب یہودی مرد اور عورت پر رسول اللہﷺ کی طرف سے حد اجراء ہوا تھا تو گواہی کے پیچھے ان کو چھٹکارا دلانے کی کوشش نہیں کی گئی تھی اور جب سورۂ النساء میں بدکاری کے باوجود عورت کو گھر میں نظر بند کرنے کا حکم تھا اور آگے جاکر لونڈی یا متعہ کی عادی سے نکاح کے فحاشی پر نصف سزا کا حکم تھا تو یہ حقیقت ہے کہ حضرت عمرؓ کے دور میں حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کا جو واقعہ لکھ دیا گیا تھا اور جس پر احناف اور جمہور کا شدید اختلاف بھی ہے لیکن واقعہ پر ازسرِ نو غور کرنا چاہیے۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے اور اسلام سے زیادہ روشن خیالی کا تصور کوئی سیکولر دنیا بھی نہیں کرسکتی ہے۔ یونیورسٹیوں میں گھومنے والے جوڑے اگر اسلام کی حقیقت جان لیں تو جسطرح تبلیغی جماعت نے 100سال تک نماز اور آذان میں خطبے میں لاؤڈاسپیکر کااستعمال نہیں کیا لیکن جب مولانا طارق جمیل کو تصویر کے جواز کا پتہ چل گیا تو ویڈیو کے ذریعے اسلام کی تشہیر شروع کردی ہے۔ اسی طرح قرآن وسنت میں ایگریمنٹ کا پتہ چل جائے اور سعودیہ کے مسیار کی معلومات مل جائیں تو جماعتوں کی تشکیل میں بھی اس پر عمل پیرا ہونگے ، لونڈے باز ڈرائیور اپنی گاڑیوں کے پیچھے ’’دعوت و تبلیغ زندہ باد‘‘ لکھتے ہیں۔ جائز طریقے پر ایگریمنٹ کی ضرورتمند خواتین سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملے تو گاڑیوں کے آگے بھی’’ اسلام زندہ باد‘‘ کے نعرے لکھیں گے۔ اسلام ریئل ہے اور آئیڈیل بھی ہے ۔ قرآن و سنت کے حقائق کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے استاذ مولانا عبدالمنان ناصر نے بتایا تھا کہ ’’ پہلے حج میں عورت اپنے ساتھ محرم بنانے کیلئے مرغ کیساتھ نکاح کرلیتی تھی‘‘۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کی معروف شخصیت جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا ’’اسلام آباد پولیس کے 90%افراد لوگوں کو کرایہ پر لڑکیاں سپلائی کررہے ہیں‘‘۔ دوبئی میں بھی پولیس والوں کا حال مختلف نہیں ۔ ہوٹلوں میں پولیس کا اپنا طے شدہ بھتہ ہوتا ہے۔ لاہور کا حال بھی دگرگوں ہے۔ عصمت فروشی کا دھندہ بھی ریاستی عناصر کی بلیک میلنگ اور بھتہ خوری کے تحت روا رکھا جائے تو کیا رہ جاتا ہے؟۔ جمعیت علماء اسلام کا سابق ایم این اے قاضی فضل اللہ چھوٹا لاہور صوابی پاکستان سے امریکہ پہنچا تو تاثرات یہ تھے کہ ’’حیوانوں سے انسانوں کی دنیا میں آیا ہوں‘‘۔ قرآن و سنت میں تمام انسانی ، معاشرتی ، ملکی اور بین الاقوامی قوانین کا بہترین حل موجود ہے۔ کاش ! پاکستان کی عوام حقائق کی طرف توجہ دے دیں۔
اللہ تعالیٰ نے مکی دور میں رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا کہ و قل لا اسئلکم علیہ اجراً الا مودۃ فی القربیٰ ’’کہہ دیجئے کہ مجھے تم سے قرآن پر کچھ نہیں چاہئے لیکن قرابتداری کی محبت کے تقاضوں پر عمل کا مطالبہ کرتا ہوں‘‘۔ اگر مشرکین مکہ اس پر عمل کرتے تو رسول اللہ ﷺ کو ہجرت نہ کرنی پڑتی۔ جب جاہل مشرکوں سے یہ مطالبہ ہوسکتا ہے کہ اہل مکہ ہونے ، قریش ہونے ، عربی ہونے، پڑوسی ہونے اور عزیز و اقارب ہونے کے ناطے رسول اللہ ﷺ کے کچھ حقوق ہیں تو مشرکوں سے زیادہ مسلمانوں سے ان تمام رشتوں کے تقاضوں پر بھی عمل پیرا ہونا دین فطرت اسلام کا تقاضا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ والدین کیساتھ احسان کرو ، قرابتداروں کیساتھ بھی ، ان پڑوسیوں کے ساتھ بھی جو قرابتدار ہیں اور ان پڑوسیوں کیساتھ بھی جو اجنبی ہیں اور جو تمہارے ساتھ والے ہیں انکے ساتھ بھی احسان کرو اور جو تمہارے عہد و پیمان والے ہیں ان کیساتھ بھی احسان کرو۔ اسی طرح قرآن میں زکوٰۃ کیلئے بلا تفریق حادثات کا شکار ہونے والے ، مسافر ، غریب مساکین وغیرہ کا ذکر ہے جن میں غیر مسلم افراد مؤلفۃ القلوب کا خصوصی طور پر ذکر ہے۔ علاوہ ازیں اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اللہ کے دئیے ہوئے مال میں سے مستحقین پر خرچ کرو اور یہ اخلاقیات بھی ذکر کی ہیں کہ اگر کسی سائل کو دینے کے بعد طعنہ سے اذیت دینی ہو تو اس سے بہتر یہ کہنا ہے کہ صاف الفاظ میں منع کیا جائے اور معذرت طلب کی جائے۔ قرآن اصول اور اخلاقیات کی ایسی کتاب ہے جس پر عمل سے عروج حاصل کرسکتے ہیں۔

مغربی معاشرے کا عروج اور مسلم معاشرے کا زوال؟

barack-hussein-obama-chief-justice-saqib-nisar-chief-justice-rana-bhagwan-das-scheme-33-karachi-dg-rangers-karachi-reham-khan-divorce-

پاکستان کا معاشرہ جمہوری اورترقی پسند ہے۔ پوری دنیا میں پاکستان کے ریاستی نظام کو آئیڈل تصور کیا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ حلف نامہ میں صدر بارک حسین اوبامہ کاامریکی چیف جسٹس نے ادھورا نام پڑھا مگراوبامہ نے پورا نام لیکر حلف اٹھایا تھا۔ یہ امریکی سپریم کورٹ میں اسٹیبلشمنٹ کے اثرانداز ہونیکی ایک دلیل تھی اور اب برطانوی اپوزیشن لیڈر نے آواز اٹھائی کہ ’’وزیراعظم نے پارلیمنٹ کو بائی پاس کرتے ہوئے شام پر حملہ میں برطانیہ کو امریکہ کے تابع بنادیا ہے‘‘۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے ہندؤں سے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ان کا نام لینا بھی مجھے گوارا نہیں ‘‘ لیکن اگر ہمارا اگلا وزیراعظم کوئی بھگوان داس جیسا بن جائے تو چیف جسٹس پورے نام کیساتھ حلف اٹھانے میں حسد سے کام نہیں لیں گے۔ چیف جسٹس کی ہماری ملک میں نقل وحرکت محدود نہیں بلکہ وہ ایگڑیکٹو کے کام بھی کررہے ہیں۔ جمہوری حکومت ووٹوں کے ذریعے عوام کو پھر بھی جوابدہ ہوتی ہے۔ شہروں میں پانی اور بجلی کی قلت کیلئے عام بلڈرز کو پکڑنے کا کام بھی برا نہیں لیکن فوج نے جس طرح سے تعمیرات کرکے اپنا کاروبار شروع کیا ہے اور کوڑی کے بھاؤ میں بکنے کے قابل علاقے کروڑوں میں بیچے جارہے ہیں ان کا بھی چیف جسٹس کو نوٹس لینا چاہیے۔ سکیم33میں عرصہ سے مکان و پلاٹ کی قیمت بہت سستی تھی۔ پھر فیلکن کی قیمت ڈیفنس سے بڑھ گئی تو اسکی وجوہات پر بھی ازخود نوٹس لیتے، 26 سال سے رینجرز کراچی میں تعینات ہے۔ امن ومان کی خراب صورتحال میں مضبوط ریاستی ادارہ کاروبار کررہا ہو اور پولیس کو قبضہ مافیا میں بنیادی کردار کیلئے استعمال کیا جارہا ہو۔ ریٹارئرڈفوجی افسران اپنی حفاظت کیلئے مجبوری بن جائیں تو معاشرے میں اخلاقیات کی بہتری کی اُمید ہوسکتی ہے؟۔ سیاستدان عوامی ووٹوں پر بھی ایک کٹھ پتلی کا کردار ادا کرتے ہوں اور میڈیا ریڈلائن کو عبور نہیں کرسکتی ہو تو یہ آزادی بدترین غلامی سے بھی بدتر ہے۔ غلامی میں زبان آزاد ہوتی ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایاکہ ’’افضل جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے کلمۂ حق بلند کرنا ہے‘‘۔ ہمارے ہاں ریاست اصلی حکمران ہے اور اس کے پالتو اور نے نواز بھی اپنی ریاست سے آج آزادی کی بات کررہے ہیں۔
نوازشریف 70سال کی عمر میں کیسے نظریاتی بناہے؟۔ ایک طرف جو لوٹے لعنت ملامت کے قابل ہیں تو دوسری طرف وہی لوٹے سونے کے وزن میں تلنے کے قابل ہیں۔ ترازو کے دونوں پلڑے میں لوٹے ہی لوٹے ہیں ۔ اگر مشاہد حسین سید کو سینٹر ، شہبازشریف کو مرکزی صدر ، امیرمقام کو صوبائی صدر بنانا ہی نظریاتی ہونے کی علامت ہے تو ایسے نظریاتی پر لعنت بھیجنے میں کوئی دیر نہ کریگا اور دوسری طرف عمران خان نے پختونخواہ میں 20لوٹوں کو ٹشوپیپر کی طرح سے استعال کرنے کے بعد پھینکنے کا اعلان کیا ہے اور پنجاب میں لوٹوں کو ویلکم کیا جارہا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے اشیرآباد میں جینے مرنے والوں کے خمیر و مقدر میں نظریاتی ہونا ممکن نہیں ۔ یہ بہت مکاری وعیاری سے بس اپنی باری اور یاری کیلئے اپنی دُم اپنے سروں پر باندھ کر عوام کو بیوقوف بنانے کے شغل کا پتلی تماشہ دکھاتے ہیں۔
عمران خان جمائما خان کے حقوق ادا کرنے پر پورا نہیں اترا تو اس نے علیحدگی اختیار کرلی۔ ریحام خان علیحدہ نہ ہونا چاہتی تھی ،تب بھی جہاز میں مسیج کیا کہ ’’طلاق، طلاق ، طلاق‘‘ ریحام خان لندن کے ائیرپورٹ پر اتری تو موبائل دیکھ حیران وپریشان ہوئی کہ ’’یہ میرے ساتھ کیا ہوگیا؟‘‘۔ اصل بات یہ نہیں کہ ریحام خان کیساتھ اچانک کوئی بہت بڑی زیادتی ہوگئی بلکہ اصل زیادتی اس کے علاوہ یہ تھی کہ ’’ ریحام خان کو دھمکیاںیہ دی گئیں کہ اگر پاکستان آئی تو تمہارا برا حشر نشر کردینگے‘‘۔ انصار کے سردار حضرت سعد بن عبادہؓ کے بارے میں ہے کہ ’’طلاق کے بعد عورت کو دوسرے سے شادی نہ کرنے دیتے تھے لیکن ان میں یہ غیرت بھی تھی کہ طلاق شدہ سے شادی بھی نہ کرتے تھے‘‘۔ جب عمران خان نے ریحام خان سے شادی کی تو ریحام خان طلاق شدہ تھی، اور ٹی وی چینلوں نے عمران خان کے بغض یا اپنی ریٹنگ کے چکر میں ریحام خان کی واہیات تصاویر اور ویڈیوز نشر کردیں۔ اس سے پہلے کرکٹر شعیب ملک کی شادی ہوئی تھی تو بھی ثانیہ مرزا کی واہیات ویڈیوز نشر کرنے میں بھی میڈیا نے یہی کردار ادا کیا تھا۔
عمران خان سے جمائماخان نے طلاق لی مگر تحریک انصاف کے کارکنوں کو فرق نہ پڑا۔ دوسروں کیساتھ دوستی، مذہب کو چھوڑنے یا مرتد بن جانے بھی پر کوئی مذہبی کارڈ استعمال نہ کیا گیاجبکہ ریحام خان کو چھوڑنے کے بعد پاکستان آنے پر بھی دھمکیاں دی گئیں۔ کمزور کیخلاف مذہب اور کلچر دونوں کا استعمال ہوتا ہے۔ اگر عمران کی جگہ کوئی اورہوتا اور جمائمایہودی گولڈ سمتھ خان کی چشم وچراغ نہ ہوتی تو یہاں خفیہ ہاتھ تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر عامر لیاقت اور علی محمد خان جیسے لوگوں کی دُم مروڑتے اور غیرت ومذہب کے نام پر ایک طوفان برپاہوتا۔ عربی کی کہاوت ہے کہ الناس علی دین ملوکھم ’’لوگ حکمرانوں کے دین پر ہوتے ہیں‘‘۔ کٹھ پتلیوں کے اثرات سے یہ معاشرہ بھی محفوظ نہیں رہ سکتا ہے۔
روز روز بچیوں کا اغواء، جنسی تشدد اور قتل ایک معمول بن چکا ہے۔ حکمرانوں کو اپنے اختیاراور اقتدار کی پڑی ہے لیکن اگر غریب عوام اٹھ گئے تو ان کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکے گا۔ بچوں سے روز گار لینا قانون کے خلاف اورکوئی اپنے بچوں کو سکول بھیجے تو ریاست اس کی حفاظت نہ کرسکتی ہو۔ نچلے درجے کے ملازمین کا تنخواہوں سے گزارہ ممکن نہ ہو اور بڑی کمائی والے بڑے کرپشن سے بھی دریغ نہ کرتے ہوں تو اس ملک ، قوم اور سلطنت میں کیااور کون زندہ اور تابندہ باد ہوگا۔
قرآن وسنت میں ایک ایسے معاشرے کے قیام کی تعلیم ہے کہ پوری دنیا کا دل ودماغ بھی اسلام کی طرف راغب ہوگا۔ دنیا میں آج غلامی کا سٹم چل رہاہے لیکن اسلام نے 1400سال پہلے غلامی کا خاتمہ کردیا تھامگر افسوس کہ ہم نے یہ نظام اپنانے کیلئے کوئی کوشش نہیں کی۔ ہردور اور ہرجگہ اجتہاد و تقلید کے نام پر ایک ایک چیز کا ستیاناس کرڈالا ہے۔ قرآن میں غلام کیلئے عبد اور غلاموں کیلئے عباد کا لفظ استعمال ہوا ہے اورنکاح کیلئے ۔ ولعبد مؤمن خیر من مشرک ولو اعجتکم ’’ اور مؤمن غلام مشرک سے بہتر ہے اگرچہ وہ تمہیں اچھا لگے‘‘۔ نکاح کراؤ اپنی طلاق شدہ و بیوہ بیگمات کا۔ والصالحین من عبادکم وامائکم ’’اورجو نیکوکار ہوں غلاموں میں سے اور لونڈیوں میں سے،ان کا نکاح کراؤ‘‘۔
یہ خوشگوار معاملہ ہے کہ اسلام نے غلاموں اور لونڈیوں سے بھی آزادلوگوں کی طرح نکاح کا تصور دیا ۔ نکاح اور متعہ یا ایگریمنٹ میں فرق ہے۔ فتح مکہ میں نبیﷺ نے کسی کو غلام و لونڈی بنانے کی اجازت نہ دی البتہ متعہ کرنے کی اجازت دی۔ اس سے معاشرتی بنیادوں پر ایک بڑے انقلاب کا آغاز ہوا۔ اس حقیقت سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں کہ نبیﷺ نے سچ فرمایا کہ ’’ اسلام کا آغاز اجنبیت کی حالت میں ہوا، عنقریب یہ پھر اجنبیت کی طرف لوٹ جائیگا، خوشخبری ہے اجنبیوں کیلئے‘‘۔ طلاق کا مسئلہ علماء کی سمجھ آگیامگر ابھی بہت کچھ باقی ہے۔

ولا تقربا ھذہ الشجرۃ فتکونا من الظٰلمین

adam-and-hawwa-habeel-and-qabeel-shajra-nasab-mubashrat-molana-ubaidullah-sindhi-gomal-university-kushti-college-students

’’اور اس شجرہ کے قریب نہ جاؤ ،ورنہ دونوں ظالموں میں سے ہوجاؤگے‘‘۔
حضرت آدم علیہ السلام جنت میں تنہائی محسوس کررہے تھے، انسان کوانسان ہی مانوس کرسکتا ہے۔ اس انسیت کا تعلق مرد اور عورت کے خاص تعلق سے جوڑنا بھی درست ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بیویوں کے بارے میں فرمایا :لیسکن الیہا ’’تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرسکو‘‘۔جوان مرد اور جوان عورت کا جوڑا ایک ہی جگہ رہتا ہوتو ان سے فطری طور پر یہ خطرہ لاحق ہوگا کہ وہ آپس میں کشتی لڑکرحدود سے تجاوز کرتے ہوئے معاملے کو خراب نہ کردیں۔ معاملے کی اس خرابی کو کیا نام دے سکتے ہیں؟۔ پٹھان اور بلوچ مختلف اشیاء میں کھانے پینے اور مذکر ومؤنث کیلئے ایک ہی طرح کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ فارسی زباں بڑی آسان اور مختصر ہے اور عربی زباں بہت وسیع اوربہت بڑے گرامر والی ہے۔ عربی کے لغت کو بھی دوسری تمام زبانوں پر ایک لامحدود فوقیت حاصل ہے۔
فلاوربک لاےؤمنون حتی یحکموک فیما شجربینھم ’’پس نہیں تیرے ربّ کی قسم کہ یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے جب تک اپنے درمیان تنازعات میں آپ کو اپنا حکم ( فیصلہ کرنیوالا) تسلیم نہ کرینگے‘‘۔ (النساء : 65)
جھگڑا اور تنازع دو افراد کے درمیان یہاں تک پہنچے کہ کسی تیسرے کو بھی اس میں فیصل مقرر کرنے کی ضرورت بھی پڑے تو بھی وہ شجرہ ہے۔ مشاجرات صحابہؓ کا مطلب صحابہؓ کے وہ تنازعات ہیں جو نبیﷺ کے بعد پیش آئے۔ اگر میاں بیوی کے درمیان جھگڑا علیحدگی تک پہنچنے کی صورت اختیار کرلے تو اللہ نے حکم دیا کہ فابعثوا حکماً من اہلہ وحکماً من اہلہا ’’پھر تشکیل دو ایک حکم مرد کے خاندان سے اور ایک عورت کے خاندان سے ‘‘۔ لیکن اگر میاں بیوی اس حد تک بات پہنچنے سے پہلے خود ہی صلح کرلیں تو فبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحا ’’ شوہر عدت میں اصلاح کی شرط پر انکو لوٹانے کا حق رکھتا ہے‘‘۔ اگرچہ کم درجہ جھگڑے کی بات ہو بلکہ کھیل پر بھی اسکا اطلاق ہوتا ہے۔
رسول اللہﷺ نے ایک صحابیؓ سے فرمایا کہ ’’ کنواری لڑکی سے شادی کرتے وہ تجھ سے کھیلتی اور آپ اس سے کھیلتے‘‘۔ اس پر بھی جھگڑے اور شجربینھما کا اطلاق ہوتا ہے۔ ڈبرہ گاؤں علاقہ گومل ٹانک کے ایک دیوانہ شخص سردار بیٹنی نے کالج کے لڑکوں کی طرف سے چھیڑنے پر کہا کہ ’’ تم سمجھتے ہو کہ تمہارے والدین تمہیں پڑھنے کیلئے کالج بھیجتے ہیں تم میں جو شریف ہیں ان کی مائیں اسلئے بھیجتی ہیں تاکہ اپنے شوہروں سے کشتی لڑیں اور جو بدمعاش ہیں ان کی مائیں پرائے لوگوں کیساتھ ہی کشتی لڑتی ہیں‘‘۔ اس پاگل کو چھیڑنے کی پھر جرأ ت کسی میں نہیں ہوسکی ۔ انسان کیلئے الفاظ بھی زبردست عبرت کا ذریعہ ہیں۔
اللہ نے آدم ؑ و حواء ؑ کو منع فرمایا:الاتجوع ولاتعری ’’تاکہ تم بھوکے ننگے نہ ہوجاؤ‘‘۔ کوئی ایسا درخت نہیں جس کا ذائقہ چکھنے سے کوئی بھوکا ننگا ہوجائے۔ البتہ جنسی تعلق سے جو شجرۃ النسب بنتا ہے اس سے بھوکے اور ننگے ہونے کی بات آتی ہے۔ مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے لکھا : ’’شیطان نے اپنی بیوی کیساتھ سامنے مباشرت کی اور حضرت آدم ؑ و حواء ؑ کو دعوت دی ‘‘۔ :قال ھل ادلکم علی شجرۃ الخلد والملک لایبلی ’’ ابلیس نے کہا کہ کیا میں تمہیں ایسے شجرہ کی نشاندہی کردوں جو ہمیشہ کیلئے ہو اور ایسی دولت ہو جو نہ ختم ہونے والی ہو؟‘‘۔ اور کہا تھا کہ ’’ ما نہا کماربکما عن ھذہ الشجرۃ الا ان تکونا ملکین ’’ تمہارے ربّ نے صرف اسلئے منع کیا تاکہ تم فرشتے بن جاؤ‘‘۔ فرشتوں کے اندر جنسی خواہش کا تصور نہیں ہوتا، وہ معصوم گناہ کر ہی نہیں سکتے ہیں۔
فلماذاقا الشجرۃ بدت لھما سوء اتھما ’’پھر جب ان دونوں نے اس شجرہ کا ذائقہ چکھ لیا تو ان دونوں کی شرمگاہیں ان کیلئے ظاہر ہوگئیں‘‘۔ ونادا ھما ربّھما ألم ان أنھکما عن تلکما الشجرۃ ’’اور جب ان دونوں کے ربّ نے پکارا کہ کیا میں نے تم دونوں کو منع نہ کیا تھا ، تم دونوں آپس کے اس شجرہ سے ؟‘‘۔ قرآن کی اس آیت سے یہ وضاحت سامنے آتی ہے کہ یہ شجرہ آپس کے تعلق سے متعلق تھا اور کوئی خارجی چیز نہ تھی ۔ورنہ قرآن کے الفاظ میں عن تلک الشجرۃ کی بات ہوتی۔اگلی آیات میں تنییہ ہے کہ’’ اے بنی آدم ! بیشک ہم نے تم پر لباس اتارا ہے تاکہ تم اپنی شرمگاہوں کو چھپاؤ اور زینت کا ذریعہ بھی ہے اور تقویٰ کا لباس بہترین ہے۔ یہ اللہ کی آیات ہیں ہوسکتا ہے کہ تم نصیحت حاصل کرو۔Oاے بنی آدم ! شیطان تمہیں ہرگز ہرگزفتنے میں نہ ڈالے، جیسا کہ اس نے تمہارے والدین کو جنت سے نکال دیا اوران سے ان کا لباس اتروادیا تاکہ انکی شرمگاہیں ایکدوسرے کو دکھادے۔ بیشک شیطان تمہیں دیکھتا ہے ، وہ اور اس کا قبیلہ اس طرح سے کہ تم ان کو نہیں دیکھ سکتے، بیشک ہم شیطانوں کو بناتے ہیں ان لوگوں کا سرپرست جو ایمان نہیں لاتے O۔ اور جب یہ لوگ بے حیائی کے مرتکب ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اسطرح عمل کرتے ہوئے پایا اوراللہ نے ہمیں اسی کا حکم دیا ہے۔ کہہ دیجئے کہ بیشک اللہ فحاشی کا حکم نہیں دیتا ہے۔ اللہ کی طرف ایسی بات منسوب کرتے ہو جس کو تم نہیں جانتے ؟۔ (الاعراف : آیت19سے 28 تک تفصیل سے دیکھ لیجئے گا)
حدیث ہے کہ ’’اگر بنی اسرائیل نافرمانی نہ کرتے تو گوشت خراب نہ ہوتا اور اگر حواء ؑ نہ ہوتیں تو کوئی عورت اپنے شوہر سے خیانت نہ کرتی‘‘۔ ( بخاری)یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر بنی اسرائیل مذہبی تحریف، غلو، تعصبات اور عذاب کا شکار نہ ہوتے بلکہ دنیا کی ترقی کی طرف توجہ دیتے تو دنیا کب سے اس کمال تک پہنچ جاتی کہ گوشت خراب نہ ہوتا۔ تسخیرکائنات میں بجلی کب کی مسخر ہوجاتی اور دنیا لوگوں کیلئے جنت بن جاتی۔ حضرت حواء ؑ کی کشش سے نافرمانی کاارتکاب نہ ہوتا تو کوئی عورت اپنے شوہر کی نافرمانی نہ کرتی۔حضرت نوح ؑ اور حضرت لوطؑ کی بیگمات کے بارے میں فرمایا کہ کانتا تحت عبدین صالحین فخانتاھما ’’وہ دونوں خواتین دو نیک بندوں کے زیرِ دست تھیں پھر ان دونوں سے دونوں نے خیانت کی‘‘۔ حضرت آدم ؑ و حواء ؑ سے نافرمانی ہوگی تو یہ سلسلہ انسانوں کے خمیر میں بھی منتقل ہوتا رہا۔ قابیل نے بھائی ہابیل کو اپنی ناجائز جنسی خواہش کیلئے قتل کردیا۔ حضرت نوح ؑ اور حضرت لوط ؑ کی بیویاں کفر تک پہنچیں۔ سورۂ تحریم میں دوکافر خواتین کیساتھ دو مؤمنات کی مثال ہے ، حضرت مریم اور فرعون کی بیوی۔ سورۂ تحریم میں حضرت عائشہؓ اور حضرت حفصہؓ کو تنبیہ ہے جنہوں نے نبی ﷺ کی نافرمانی میں سرگوشی کی۔ اللہ نے انسان کو نافرمانی سے بچنے کیلئے حدود و قیود میں رہنے کی قرآن میں تنبیہ، وعظ، احکام اور واقعات بیان کئے ہیں۔ جب قرآن وسنت کا درست مفہوم اجنبیت سے نکال کر عوام و خواص کے سامنے آئے تو نہ صرف چھوٹی بڑی گمراہیوں کا خاتمہ ہوگا بلکہ ساری دنیا اسلامی نظام کے قیام پر متفق ہوجائے گی۔ کوئی حدیث کا منکر ہے تو کوئی قرآن کا غلط مفہوم پیش کرکے اسلام کی حقیقت کو سمجھنے میں بڑی ٹھوکر کھاتاہے اور کوئی مذہبی کاروبار کررہاہے۔

شرعی حدود کے حوالے سے بہت اہم آیات کا زبردست کردار…. تحریر: اجمل ملک

nikah-and-agreement-ghulam-and-londi-mma-zina-bil-jabr-pak-daman-aurat-par-tohmat-lagane-ki-saza-80-kore-ptm-manzoor-pashtoon-ispr

نوشتۂ دیوار کے پچھلے شمارے میں قرآنی آیات کے حوالے سے جو حقائق سامنے آئے ہیں ان کو عام فہم اور اچھے انداز میں علماء و مفتیانِ عظام کو میڈیا پر لانیکی ضرورت ہے ،تاکہ متحدہ مجلس عمل کا مذہبی سیاسی اتحاد معاشرتی بنیادوں پر بھی درست لائحہ عمل اور بیانیہ تشکیل دینے میں سرخرو ہوجائے۔ قرآن میں نکاح وایگریمنٹ کا تصور اور غلامی ولونڈی سسٹم کا خاتمہ وہ بڑا بریک تھرو ہے جس سے دنیا میں ایک عظیم و پرامن انقلاب آسکتا ہے۔ ماہرالقادری مرحوم نے قرآن کی فریاد لکھ دی تھی مگر افسوس کہ ارباب علم وتقویٰ علماء ومشائخ نے کان نہ دھرا تھا مگر دھر بھی نہیں سکتے تھے کہ قرآن کو اجنبیت کے غلاف میں لپیٹنے کا یہی نتیجہ نکلتا تھا کہ طوطا مینا کی طرح کچھ بول سکھائے جاتے۔
پہلی اہم بات یہ ہے کہ قرآن میں دوجگہ پر چار گواہوں کی شہادت کا ذکر ہے۔ سورہ النساء میں چار گواہوں کا یہ تصور دیا گیا ہے کہ ’’عورتوں میں فحاشی کی مرتکب پر چار گواہ اپنے میں سے طلب کرو، اگر وہ گواہی دیں توانکو گھروں میں روکے رکھو ۔ یہاں تک کہ موت سے وہ فوت ہوجائیں یا اللہ ان کیلئے سبیل نکال دےOاور تم میں سے جو دومرد بدکاری کے مرتکب ہوں تو ان دونوں کو اذیت دو، اور اگر وہ توبہ کرلیں اور اصلاح کرلیں تو ان کا پیچھا چھوڑ دیں ، بیشک اللہ توبہ قبول کرنیوالا رحیم ہےO (سورہ النساء آیت:15،16)۔ ان آیات میں عورت کیلئے فحاشی کرنے پر اس گواہی کا کوئی تصور نہیں جو فقہا نے کتابوں میں عجیب وغریب قسم کے شرائط کا ذکر کیا ہے۔ جب تک انسان کا وجود گوشت پوست کے بجائے شفاف آئینے کی طرح نہ بنایا جائے ،اس طرح کی گواہی کا تصور نہیں ہوسکتا ہے۔
معاشرے میں کوئی ایک عورت خراب ہو تو گندی مچھلی کی طرح سارا تالاب اور معاشرہ خراب کردیتی ہے۔اس کو نظر بند کرنے پر تمام خواتین و حضرات متفق ہونگے اور اس پر ایسی گواہی کی بھی ضرورت نہیں جو عملی طور پر ممکن نہ ہو، افسوس کہ قرآن کی من گھڑت تشریح سے حقائق بگاڑ دئیے گئے۔فحاشی میں مبتلاء عورت کیلئے معاشرے میں گواہوں کا ملنا کوئی مسئلہ نہیں اور ان خواتین کو گھروں میں بند رکھنے کا حکم بھی ایک بالکل فطری بات ہے البتہ مرتے دم تک بند رکھنا تو سمجھ میں آتاہے مگر کوئی سبیل نکلنے کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟۔
فاحشہ عورت کا نکاح کسی زانی مرد یا مشرک سے کرانا بھی مسئلہ کاحل ہے اسلئے کہ قرآن میں ہے والزانیۃ لا ینکحھا الا الزانی او مشرک وحرم ذٰلک علی المؤمنین ’’اور زانیہ عورت کا نکاح نہیں کرایا جاتا مگر زانی مرد یا مشرک سے اور مؤمنوں پر یہ حرام کردیا گیا ‘‘۔ایک حل یہ آیت ہے۔ دوسرا یہ کہ مفسرین نے لکھ دیا کہ’’ آئندہ اللہ نے کوئی حل واضح کرنا ہے‘‘ تو زیادہ دور سورۂ نور میں جانے کی ضرورت نہیں۔ سورۂ النساء میں ہی اگلے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے حل پیش کردیا ، جہاں نکاح کے علاوہ متعہ کا ذکر ہے۔ متعہ والی عورتوں کو مستقل نکاح کیلئے پسندیدہ نہیں سمجھاجاتا البتہ ایگریمنٹ تک میں کوئی مسئلہ نہیں سمجھتا ۔ جب اللہ نے سورۂ النساء کے ابتداء میں فرمایا کہ ’’ نکاح کروعورتوں میں جوچاہو تم! دودو، تین تین، چار چار سے۔ اگر تم خوف کرو کہ عدل نہ کرسکوگے تو پھرایک یا جن سے تمہارا معاہدہ ہواہے‘‘۔ جب سورۂ النساء میں اللہ نے واضح کیا کہ فان خفتم ان لا تعدلوا فواحدہ او ماملکت ایمانکم جب انصاف نہ کرسکنے کی صورت میں ایک کا حکم ہو یا بے شمار ایگریمنٹ والی کی اجازت ہو۔ تو کیسے ممکن ہے کہ اللہ اپنے قرآن میں تضادکی بات کرے کہ اگر آزاد عورت سے نکاح کی استطاعت نہ ہو تو متعہ والی سے نکاح کرو؟۔ اس میں تضاد کی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ لونڈی یا متعہ کرنے والی سے ایگریمنٹ یا متعہ کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا ہے لیکن اسکے ساتھ نکاح کرنے میں فطری طور پر کراہت ہوتی ہے اور قرآن نے اسی انسانی فطرت کی نشاندہی کردی ہے۔
ایگریمنٹ اور نکاح میں بہت فرق ہے۔ مغرب میں رائج بھی ہیں لیکن ہم نے قرآن وسنت کی طرف دیکھنے کی کوشش بھی نہیں کی ہے۔ ایگریمنٹ کیلئے ملکت ایمانکم کا لفظ بہت موزوں ہے۔ قرآن نے یہی الفاظ استعمال کئے ۔ متعوھن کا لفظ بھی استعمال کیا ہے۔ غلام احمد پرویز نے بہت بڑے طبقے کو قرآن وسنت اور تفاسیر سے بدظن کرنے میں اسی لئے کامیاب کردار ادا کیا کہ علماء کے نصاب اور ذہنیت میں تضادات تھے۔
عورت کے اندر نفسانی خواہش کا جذبہ فطری ہوتا ہے اسلئے اس کا رستہ کھلا رکھا ہے لیکن ماحول خراب کرنے کے پیش نظر حکم ہے کہ اس کو گھروں میں روکے رکھا جائے۔ البتہ دو مردوں کے حوالے سے حکم بالکل جدا ہے کہ ان کو اذیت دی جائے کیونکہ اس بدفطری کے خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں جو معاشرے میں بہت زیادہ خرابیوں کا باعث ہونگے۔ دونوں مردتوبہ و اصلاح کرلیں تو انکے پیچھے پڑنے کی ضرورت نہیں اللہ رحیم ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ قرآن میں واضح حکم ہونے کے باوجود اس کے حکم کو واضح نہیں سمجھا گیا اور طرح طرح کی سزائیں تجویز کی گئیں ہیں لیکن مذہبی طبقے ان پر عمل کرنے میں زیروہیں۔
قرآن میں فاحشہ عورت کو ماحول خراب کرنے سے روکنے کیلئے چار گواہوں کا ذکر بالکل جدا ہے اور یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے اور سورۂ نور میں پاکدامن خواتین پر بہتان لگانے کا معاملہ بالکل جدا ہے ۔ پاکدامن عورت پر بہتان کی سزا80 کوڑے ہے۔ پاکدامن خواتین کو بہتان سے بچانے کیلئے چار گواہ کے مطالبے کا مسئلہ بھی بالکل واضح ہے۔ معاشرے کے اندر فحاشی و پاکدامنی کا واضح پتہ چلتا ہے اور چار گواہوں کے ذریعے فرق و امتیاز بہت آسان حل ہے۔ فاحشہ کو جرم سے روکنا مقصد ہے۔ محصنہ کو بہتان سے بچانا مقصد ہے۔دنیا کیلئے قرآنی آیات کا مفہوم بالکل فطری ہے۔ مولوی کو اپنے بگاڑ سے دستبردار ہونے کی ضرورت ہے۔ بڑے مدارس کے علماء ومفتیان ایک ماحول کی وجہ سے اپنی گمراہی پر ڈٹ گئے ،جب علماء ومفتیان اپنے معمولی مفادکو قربان نہ کرسکتے ہوں تو سیاستدان ، بیوروکریٹ، مضبوط ادارے ظلم وجبر کے نظام سے کیسے دستبردار ہونگے؟۔
سعودی عرب میں پانی سرسے گزر ا تو مسیار کے نام پر متعہ کو جائز قرار دیا ۔پاکستان میں قانون کی حکمرانی نہیں اسلئے جبری زنااور قتل کی لرزہ خیز وارداتوں سے عرش ہل رہاہے۔ امریکہ و اسرائیل اور بھارت ہم پر مسلط نہ بھی ہوئے کہ ہم نے جھوٹ کو ڈھال بناکر عوام کو اطمینان دلادیا ہے کہ ہمارا دفاع مضبوط ہے تو آپس کے عذاب سے ہم چھٹکارا نہیں پا سکتے۔ ہمارا مذہب، ہماری سیاست اور ہماری ریاست جھوٹ کے سہارے کھڑے ہیں۔ سچ کو برداشت نہ کرنے کا دور بھی گزر چکاہے اسلئے کہ یہ مسائل اب ڈھکے چھپے نہیں بلکہ سب ڈھیٹ بن چکے ہیں۔
جب کسی ایک طبقے کی وکالت کی جاتی ہے تو ڈھیٹ پن کے شکار ہوکر رہ جاتے ہیں۔ کراچی کی فضاؤں سے رستا ہوا خون ، بلوچوں کی ریاست کیخلاف شدت پسندی اور طالبان کا شدت پسندانہ رویہ ابھی ختم نہ ہوا کہ پختون تحفظ موومنٹ نے سر اٹھالیا ہے۔ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ عدم تشد اور دستورِ پاکستان کے اندر رہتے ہوئے یہ لوگ سیاسی جدوجہدکی بات کررہے ہیں۔ ایم کیوایم سے زیادہ بیزار کراچی کے مہاجر عوام ہوگئے ، اسلئے کہ بھتہ، زبردستی کی زکوٰۃ، فطرہ اور قربانی کی کھال مہاجر بھگت رہے تھے۔روز ہڑتال سے نقصان بھی انہی کا ہوتاتھا۔ بلوچ شدت پسندوں نے بلوچ عوام کا جینا دوبھر کردیا تھا اور پھر طالبان نے سب سے زیادہ پختونوں کو متأثر کیا تھا۔ اب پھر اگرپختون تحفظ موومنٹ کے نام سے فوج سے لڑائی مول لی گئی تو عوام میں اتنی ہمت نہیں رہی ہے کہ پھر کوئی رسک لے سکیں۔
مسلم لیگ ن جب اپوزیشن میں ہوتی ہے تو پختون و بلوچ کے حقوق پامال کرنیوالے فوجیوں پر اسمبلی اور عام جلسوں میں تنقید کرتے ہیں لیکن جب حکومت میں ہوتے ہیں تو افواج کی پیٹھ پر ہاتھ رکھتے ہیں کہ ’’ہم تمہارے ساتھ ہیں ،مزیدبھی کرو‘‘ اور عمران خان میں تو غیرت کی کوئی چنگاری بھی نظر نہیں آتی ہے کیونکہ پل پل میں ابن الوقت کا کردار ادا کرتا ہے۔ اسفند یار خان ، محمود اچکزئی ، مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق دُم چھلوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے، ایم کیوایم بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ بلوچ ، سندھی اورپنجاب کے بے غیرت موسمی سیاستدان کسی کام کے نہیں۔ پیپلزپارٹی کا تو آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ سیاسی جدوجہد میں منظور پشتون نے مشکل حالات میں جو قد کاٹ بنالیا ، یہی اصل قیادت ہے، انسان غلطی کا پتلا ہوتا ہے۔ منظور پشتین اور انکے ساتھیوں میں ہزاروں غلطیاں ہوسکتی ہیں لیکن اب پاکستان سیاسی قیادت کے بحران سے گزر رہاہے اور یہ بہت خطرناک صورتحال ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت میں کوئی خوبی نہیں تھی بس سیاسی لوٹوں کو بے غیرت قرار دیکر خبر کی حد تک زندہ رہنے کی سیاست کی اور پھر پرویزمشرف کو اسوقت چپک گئے جب فوجی امریت کا ریفرینڈم بھی بڑا بدنام ہوچکا تھا۔ طالبان کی حمایت اسلئے نہیں کررہا تھا کہ ’’یہ کوئی نظریاتی اتحاد تھا‘‘ بلکہ امریکہ ،اسرائیل اور پاک فوج کو اسی سے خوش کیا جاسکتا تھا۔ اس خطے میں صرف پختون نہیں بلکہ جو بھی خوشحالی کی زندگی بسر کرتا تھا ،اسے بدحالی پر مجبور کیا گیا تھا۔
منظور پشتون اپنے محسود اور پختون سے محبت کریں یہ ایمان کی علامت ہے لیکن تعصب کفر وبے ایمانی کی بات ہے۔ اس ایمان وکفر میں امتیاز بھی مشکل نہیں۔ سوشل میڈیا کے علاوہ عام لوگوں میں جتنا فکروشعور ظالمانہ اور جابرانہ نظام نے بیدار کردیا ہے اسکا بڑے لوگ جس طبقہ سے بھی تعلق رکھتے ہوں کوئی تصور بھی نہیں کرسکتے۔ نصیراللہ بابر پختون نے ہی طالبان کا تحفہ دیا، ایم کیوایم نے طالبان سے زیادہ خون نہ بہایا اور نہ کراچی علاقہ غیر تھا مگر نصیراللہ بابر نے ماورائے عدالت قتل کا آغاز کیا ،اسکی ایک یادگارراؤانوار اور دوسراچوہدری اسلم تھا۔ حقائق و اعتدال ضروری ہیں اورحقیقت پسند قائدکی پوری قوم کو ضرورت ہے۔

اسلام کی نشاۃ ثانیہ سندھ پنجاب فرنٹیئر بلوچستان کشمیر سے ہوگی: مولانا عبید اللہ سندھی رحمۃ اللہ علیہ

ubaid-ullah-sindhi-sindh-punjab-army-chief-journal-ayoub-zulfiqar-ali-bhutto-1973-1977-daish

محمد فیروز چھیپا ڈائریکٹر فنانس نوشتۂ دیوار اور ادارہ اعلاء کلمۃ الحق نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اس مرتبہ پاکستان سعودی عرب سمیت پوری دنیا میں لیلۃ القدر ایک ہی دن میں منائی جائے گی۔ اللہ کرے کہ ہمیشہ کیلئے رمضان ، عید الفطر اور عید الاضحی پوری دنیا میں ایک ہی دن منائی جائے۔ پاکستان جس مقصد کیلئے بنا تھا ، اب 70سال ہونے کو ہیں مگر غلامی سے آزادی نہیں مل سکی۔ قائد اعظم محمد علی جناح کا مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا یہ اتفاق تھا کہ قائد کا مزار مغربی پاکستان میں تھا۔ مشرقی پاکستان ہم نے کھودیا لیکن مقبوضہ کشمیر کا قبضہ نہیں چھڑا سکے۔ پاکستان میں پہلے دو آرمی چیف انگریز تھے اور پھر پہلا پاکستانی مسلمان فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان تھا۔ جس نے میر جعفر کے پوتے سکندر مرزا کو صدارت سے الگ کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور پھر ذو الفقار علی بھٹو قائد جمہوریت کو جنم دیا۔ پاکستان میں پہلی مرتبہ باضابطہ انتخابات ہوئے تو اسکا سارا کریڈٹ جنرل ایوب کو جاتا ہے۔
پاکستان میں سیاست کی علمبردار پارٹیاں جمہوریت سے بالکل بے خبر تھیں۔ اے ڈی اور بی ڈی ممبروں کے ذریعے وہ بنیادی جمہوریت جنرل ایوب خان نے مہیا کی جس میں قوم کے اندر جمہور ی شعور کا آغاز ہوا۔ پاکستان میں لوگ خانوں و نوابوں کو جانتے تھے یا منجمد سیاسی قیادتوں کو جانتے تھے۔ جب 1971ء میں پہلی مرتبہ عام انتخابات ہوئے تو جمہوری قوتوں نے پاکستان کو دو لخت کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ جنرل ایوب کی باقیات ذو الفقار علی بھٹو پہلے سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔ صحافیوں اور سیاستدانوں کیخلاف بڑے سخت اقدامات اٹھائے۔ ذو الفقار علی بھٹو آدھا تیتر اور آدھا بٹیر تھے۔ فوج کے تربیت یافتہ اور عوامی نمائندے تھے۔ 1973ء میں پہلی مرتبہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا عوامی آئین مرتب ہوا۔ قادیانی بھی اس کے بعد غیر مسلم اقلیت قرار دئیے گئے۔ قائد کے پاکستان میں پہلے بے قاعدگیاں تھیں یا بعد میں بغاوت کی گئی ہے ؟ ۔
احرار کے قائد سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ نے اپنی زندگی کھپادی کہ انگریز ہندوستان سے نکل جائے اور قادیانی کافر قرار دئیے جائیں۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے بار بار اپنے خطبات میں تنبیہ کی تھی کہ انگریز اس خطے میں لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اسلئے کشمیر کا مسئلہ تقسیم ہند کیساتھ حل ہونا چاہیے۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی وفات کے کافی عرصہ بعد ختم نبوت کا مسئلہ عوامی طاقت سے یا ریاست کی رعایت سے حل ہوگیا لیکن کشمیر کا مسئلہ جوں کا توں ہے۔ جس پاکستان میں ختم نبوت کیلئے جگہ نہیں تھی اور جو لوگ ختم نبوت زندہ باد کا نعرہ لگانے پر بھی قید و بند ، بغاوت اور دیگر مقدمات کا سامنا کرتے تھے اس پاکستان میں قرآن ، اسلام اور مسلمانوں کیلئے کتنی گنجائش ہوسکتی تھی؟۔ عرصہ ہوا کہ قومی زبان اردو کو ہم سرکاری زبان انگریزی کی جگہ پر نہیں لاسکے۔ جیوے جیوے پاکستان ۔ یہ فوج ہی کی سازش تھی یا سیاستدانوں کی نالائقی تھی ؟۔ جتنی حکومت فوج کی رہی ہے اتنی جمہوری حکومت بھی اقتدار میں رہی ہے۔
ذو الفقار علی بھٹو پر کفر کے فتوے لگ رہے تھے اور اس نے جمعہ کی چھٹی بحال کی ، اسلامی کانفرنس میں مسلم اُمہ کی قیادتوں کو پاکستان میں اکھٹا کیا اور قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا تھا۔ امیر المؤمنین جنرل ضیاء الحق کے لے پالک نواز شریف نے جمعہ کی چھٹی ختم کی ، الیکشن کے فارم میں ختم نبوت کے خلاف سازش کی اور جب کرپشن میں سزا ہونے کا خوف دامن گیر ہوا تو فوج اور عدلیہ کے خلاف بے پر کی اڑانے لگے۔ شاباش !۔
پاک فوج نے ذوالفقار علی بھٹو کو دُم سے اٹھاکر قوم پر مسلط کردیا۔ جس کی وجہ سے عوام تو عوام ساری سیاسی قیادتوں کو بھی بغاوت کے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ جنرل ضیاء الحق نجات دہندہ کی طرح آئے اور سیاسی قائدین کو بھٹو کی قید سے رہائی دلائی۔ پھر جنرل ضیاء حادثے کا شکار ہوئے اور نواز شریف کو فوج نے تیار کرلیا۔ نواز شریف کو یہ بھی پتہ نہیں کہ 70 سالوں کی بات درست نہیں ۔ 1970ء سے 1977ء تک بھٹو نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا ۔ اسکے بعد جنرل ضیاء کا رونا درست نہیں اسلئے کہ جنرل ضیاء الحق کا سب سے بڑا لے پالک نواز شریف خود تھا۔ جنرل ضیاء کے بعد 1988ء سے 1998ء تک یہی نواز شریف لے پالک مہرے کا کردار ادا کررہا تھا۔ حقیقت پسند ی کا تقاضہ یہ ہے کہ نواز شریف دوسروں کو مورد الزام نہیں ٹھہراتے بلکہ سینہ کوبی کرکے خود ماتم کرتے کہ میں اُلو کا پٹھا تو استعمال ہوگیا اب عمران خان کو اُلو کا پٹھا نہیں بننا چاہیے تھا۔
نواز شریف اور عمران خان کے علاوہ زرداری اور دیگر اہل سیاست سے عوام بہت بد ظن ہیں ۔ جب عوام اٹھے گی تو لوٹوں کی بساط لپیٹے گی۔ لوٹوں کے امام نواز شریف اور عمران خان ہی ہونگے اور باقی سیاستدانوں کے حالات بھی مخفی نہیں ہیں۔
علماء کرام اور مفتیان عظام کے حالات بھی بد سے بدتر ہیں اور قرآن و سنت کی بنیاد پر ایک بہت بڑا انقلاب برپا ہوسکتا ہے اور اس کی نشاندہی بہت تفصیل کے ساتھ گاہے بگاہے ہم کر رہے ہیں۔ شرعی حدود کا مسئلہ ہو ، نکاح کا مسئلہ ہو ، ایگریمنٹ کا مسئلہ ہو ، طلاق کا مسئلہ ہو ، قرابتداروں اور ہمسایہ کے حقوق کا مسئلہ ہو اور درس نظامی کی خامی کا مسئلہ ہو ، فرقہ واریت کا مسئلہ ہو اور سیاسی و جہادی مسائل ہوں سب کا حل ہم وقتاً فوقتاً پیش کرتے رہتے ہیں۔ تمام مکاتب فکر کی طرف سے کھل کر ہماری تائید بھی ہورہی ہے۔ اگر مساجد کی سطح پر سید عتیق الرحمن گیلانی کو دعوت دی جائے اور پیچیدہ مسائل کا حل قرآن و سنت کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہاں ہم اسلامی نظام کے نفاذ میں کامیابی حاصل کرلیں۔ ایک دفعہ بھٹو کو آزمایا گیا ، جسکے نتائج عوام نے دیکھ لئے تھے پھر نواز شریف کو آزمایا گیا اور اسکے بھی نتائج سامنے آگئے ۔ اب عمران خان کو آزمانے کی ضرورت نہیں ہے ، مساجد و مدارس ایک بہت بڑی طاقت ہیں ، قرآن و سنت طاقت کا سرچشمہ ہے جس نے پہلے دور میں مشرکین مکہ کو جہالت سے نکال کر عروج عطا کیا۔ قیصر و کسریٰ کی حکومتوں کو اس وقت شکست دی جب وہ سپر طاقت تھے۔ خلافت راشدہ ، بنو اُمیہ ، بنو عباس ، خلافت عثمانیہ کا طویل دورانیہ اسلام کی نشاۃ اول کا کارنامہ تھا۔ اب اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز انشاء اللہ مملکت خداداد پاکستان سے ہوگا۔ اسکے لئے ہمیں قرآن و سنت کی تعلیمات کو زندہ کرنا ہوگا۔
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کا تعلق کانگریس سے تھا۔ اس نے قرآن کے احکام کو زندہ کرنے کیلئے اپنی سی کوشش کی تھی اور یہ پیشنگوئی کی تھی کہ اسلام کا آغاز عرب سے ہوا تھا اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ قرآن و سنت کی پیشن گوئیوں کے مطابق عجم سے ہوگا اور اس کیلئے سندھ ، پنجاب، بلوچستان، فرنٹیئر، افغانستان اور کشمیر میں جس قدر قومیں بستی ہیں یہ سب امامت کے حقدار ہیں اگر ہندو پوری دنیا کو ہمارے مقابلے میں لے آئیں تو بھی ہم اس خطے سے دستبردار نہیں ہوسکتے ہیں۔ ان کی یہ فکر مختلف کتابوں میں درج ہے اور خاص طور پر ان کی تفسیر المقام محمود کی سورۃ القدر میں یہ سب کچھ اتفاق سے لکھا گیا ہے جبکہ پاکستان بھی لیلہ القدر کی رات کو معرض وجود میں آیا تھا اور مولانا سندھیؒ پہلے ہی وفات پاچکے تھے۔ یہ محض حسن اتفاق نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت معلوم ہوتی ہے۔ سورہ جمعہ ، سورہ محمد، سورہ واقعہ اور دیگر آیات کے علاوہ بخاری و مسلم وغیرہ کے روایات میں بھی اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا بہت وضاحت کے ساتھ ذکر ہے۔
پاک فوج ، عدلیہ ، سیاستدان ، صحافی ، عوام ، دانشور ، علماء اور تمام طبقات اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے خواہاں ہیں ۔داعش نے بھی اپنا ٹھکانہ افغانستان میں بنالیا ہے۔ داعش مخفف ہے اس کے نام دولت اسلامیہ عراق و شام کا مگر یہاں تو عراق و شام نہیں افغانستان اور پاکستان ہیں۔ جس دن اسلام کا حقیقی چہرہ عوام کو دکھایا گیا تو جنگجو اپنے ہتھیار ڈال دیں گے۔ امریکہ بھی اس خطے سے اپنی بے بسی اور پسپائی کا اعتراف کرتے ہوئے چلا جائے گا۔ ہندوستان کے ناپاک عزائم بھی خاک میں ملیں گے اور اسرائیل بھی حق کے سامنے سرنگوں ہوگا۔ سعودی عرب اور ایران بھی ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کیلئے تیار ہونگے۔
بکری اور شیر ایک گھاٹ پر پانی پئیں گے اور دعوت اسلامی و تبلیغی جماعت ایک ساتھ جماعتیں نکالیں گی۔ مجاہدین دشمنی کو چھوڑ کر آپس میں شیر و شکر ہوں گے ۔ جماعت اہل سنت کے قائدین ، رہنما اور کارکن امامیہ اور تحریک جعفریہ کے ساتھ باہم دوستیاں رچائیں گے۔ مشرق و مغرب ، شمال و جنوب اور تمام بر اعظموں سے اسلام کا ماڈل دیکھنے کیلئے انشاء اللہ لوگ یہاں آئیں گے ۔ علامہ اقبال کے خواب پورے ہونگے۔
دلیل صبحِ روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
اُفق سے آفتاب ابھرا گیا دورِ گراں خوابی
عروق مردۂ مشرق میں خونِ زندگی دوڑا
سمجھ سکتے نہیں اس راز کو سینا و فارابی
مسلماں کو مسلماں کردیا طوفانِ مغرب نے
تلاطم ہائے دریاہی سے ہے گوہر کی سیرابی
عطا مؤمن کو پھر درگاہِ حق سے ہونے والا ہے
شکوہِ ترکمانی ذہن ہندی نطق اعرابی
اثر کچھ خواب کا غنچوں میں باقی ہے تو اے بلبل!
نوا را تلخ تر می زن چو ذوقِ نغمہ کمیابی
تڑپ صحنِ چمن میں آشیاں میں شاخساروں میں
جدا پارے سے ہوسکتی نہیں تقدیرِ سیمابی
وہ چشمِ پاک بھی کیوں زینتِ برگرستواں دیکھے
نظر آتی ہے جس کو مردِ غازی کی جگر تابی
ضمیرِ لالہ میں روشن چراغِ آرزو کردے
چمن کے ذرے ذرے کو شہیدِ جستجو کردے
سرِ شکِ چشم مسلم میں ہے نیساں کا اثر پیدا
خلیل اللہ کے دریا میں ہوں گے پھر گہر پیدا
کتابِ ملتِ بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخِ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا
ربود آں ترکِ شیرازی دلِ تبریز و کابل را
صبا کرتی ہے بوئے گل سے اپنا ہم سفر پیدا
اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
جہاں بانی سے ہے دشوار تر کارِ جہاں بینی
جگر خوں تو چشمِ دل میں ہوتی ہے نظر پیدا
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
نوا پیرا ہو اے بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے
کبوتر کے تنِ نازک میں شاہیں کا جگر پیدا

عمران خان پاک فوج کے منہ پر کالک مل رہا ہے، اشرف میمن

imran-khan-lotaism-pak-fouj-pervez-musharraf-referendum-imran-molvi-nawaz-shareef-molvi-shahbaz-shareef-molvi-talban-mma-ptm-namaz-e-janaza

پبلشر نوشتۂ دیوار تحریک انصاف کے سینئر صوبائی سابق صدر اورامیدوار قومی اسمبلی محمد اشرف میمن نے کہا ہے کہ عمران خان میں شرم اور غیرت نام کی کوئی چیز نہیں ۔ ایک طرف وہ پرویزمشرف کی بدنامِ زمانہ ریفرنڈم کا حامی تھا اور دوسری طرف امریکہ کے آگے فوج کے جھکنے کی مخالفت اور طالبان کی طرف سے فوج اور ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی کھل کرحمایت کررہا تھا۔ جب فوج پر قومی ، اخلاقی اوربین الاقوامی دباؤ تھا تو عمران خان اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کی طرح پاک فوج کا مورال گرانا چاہتا تھا۔ مکہ مکرمہ میں ہجرت سے پہلے جب مشرکین کی جہالت اور طاقت کا پلڑہ بھاری تھا اور امیر حمزہؓ اور حضرت فاروق اعظمؓ جیسی بہادر شخصیات نے اسلام قبول کرلیا تو اللہ نے قتال کا حکم نہیں دیا اور اولی العزم صحابہؓ نے طعنہ زنی نہیں کی کہ اللہ کی طرف سے جہاد کا حکم نہیں جو بزدلی اور مشرکین کے آگے سر جھکانا ہے بلکہ صلح حدیبیہ کے معاہدے پر کوئی بھی راضی نہ تھامگر صحابہؓ نے اپنی سیاست نہیں چمکائی تھی۔
یہ بہادری نہیں منافقت تھی کہ دہشتگردی کا دور دورہ تھا تو عمران خان ، نوازشریف اور شہباز شریف مولوی اور۔
تف ہے ایسی سیاست اور حماقت پر۔ تحریک انصاف آج کل پاک فوج کی عائشہ گلالی بنی ہوئی ہے۔ وہ تو پھر تحریک انصاف کا اپنا چہرہ تھا اور ایک پُر کشش خاتون تھی ، سیاست کے میدان میں فواد چوہدری اور دیگر ان سے کئی درجہ پارٹی بدلنے والے وہ کردار ہیں جو وقت اور حالات کیساتھ بدلتے بدلتے بے شرم و بے غیرت بن جاتے ہیں۔ ڈاکٹر بابر اعوان پہلے زرداری کے تقدس کی قسمیں کھاتا تھا اور اب عمران خان کی کھاتا ہے لیکن وہ ایک پروفیشنل وکیل بھی ہے۔ وکیل ، صحافی اور سیاستدان سب ہی شرم وحیاء کے پہاڑ کو عبور کرکے غیرت کا جنازہ نکالتے ہیں اور عظیم اخلاقیات اور قومی اقدار کو تعفن کی فضاء میں دفن کرتے ہیں تو قوم کا انجام کیا ہوگا؟۔ جب قوم کی اخلاقی قدریں بحال نہیں رہتیں تو ایک بہت بڑا انقلاب قوموں کو سدھار سکتا ہے۔
نوازشریف پارلیمنٹ میں تحریری بیان پڑھ کر سناتا ہے کہ یہ ہیں اللہ کے فضل و کرم سے وہ اثاثے جن سے لندن کے فلیٹ خرید لئے۔ کورٹ میں قطری شہزادے کا عجیب خط آجاتاہے ۔ لیگی رہنما کہتے ہیں کہ وزیراعظم کو پارلیمنٹ میں استثنی حاصل ہے کہ جھوٹ پر اس کی پکڑ نہ ہوگی۔ جس پارلیمنٹ نے صادق و امین کو ضروری قرار دیا ہو وہاں جھوٹ کا استثنیٰ کیسے ہوسکتا تھا؟۔ آئین میں کردار اور کریکٹر کو بھی ضروری قرار دیا گیاہے لیکن یہ سمجھا جارہاہے کہ کریکٹر سے مراد کرکٹر ہے؟۔عمران خان واقعی کرکٹر تو ہے۔ بہادری کی بات کرتاہے توکراچی یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ نے جس طرح بھاگنے پر مجبور کیا تھا اسکا میں چشم دید گواہ ہوں۔ طالبان دہشتگردوں نے نہ صرف فوج بلکہ پختون قوم اور تمام ریاستی اداروں کو جتنے بڑے پیمانے پر بہت بڑا نقصان پہنچایا، جس کا کوئی جواز بھی نہیں تھا۔ عمران خان نے ہمیشہ ان غنڈوں کی حمایت جاری رکھی۔ آج بھی طالبان کا غلبہ ہوجائے تو یہ فوج کیخلاف کھڑا ہوگا اور طالبان پسپا ہوجائیں تو فوج کیساتھ کھڑا ہے، منظور پشتین نے PTMکے پلیٹ فارم آواز اٹھائی تو پاک فوج نے چیک پوسٹوں پر نرمی کا مظاہرہ کیا، پھر عمران خان منظور پشتین کی حمایت کررہاتھا اور جب فضانے رخ بدلا تو آل راؤنڈر نے بیٹنگ کے بجائے بالنگ شروع کی، یہ وقت ایسا نہیں کہ پاکستان کی قیادت انتہائی نااہل اورناقابل اعتبار افراد کے سپرد کرنے کی حماقت کی جائے۔ جو عمران خان طالبان کے وقت میں فوج کے دفاع میں ایک لفظ بولنے سے بھی خوف کھاتا تھا، خدانخواستہ اگر بین الاقوامی سازش کا بحران آگیا تو عمران خان اور لوٹا سیاسی قیادت کوئی قربانی نہیں دینگے بلکہ جہاں طاقت ہوگی وہاں عمران خان کھڑا ہوگا۔نوازشریف اور شہباز شریف کے علاوہ زرداری بھی پاکستان کی سیاست ہی کو اپنی تجارت سمجھ رہاہے۔ مولانا فضل الرحمن نے ایم ایم اے کو ن لیگ کیلئے خفیہ طور پر پراکسی بنالیا ہے، سراج الحق نے بھی اپنے مفاد میں اسکو قبول کرلیا ہے۔ مینار پاکستان میں لاہوری اتنی بڑی تعداد میں پہنچ گئے تو یہ مذہبی جماعتوں کے ووٹر نہ تھے بلکہ نوازشریف کے چاہنے والوں کا جمع غفیر تھا۔ مولوی نکاح ، نمازِ جنازہ بھی پیسوں کی خاطر پڑھاتے ہیں ۔کالج ویونیورسٹی کے طلبہ کے ذریعے عوام میں ایک عظیم الشان تحریک برپا کرنیکی سخت ضرورت ہے۔ سیاسی سر گرمیوں کیلئے گرمیوں کی چھٹیوں میں بھی محنت کی جائے تو عوام میں ایک شعور والے انقلاب کی تحریک اٹھ سکتی ہے، کھولی سیاست کا دور خود بخود ختم ہوگیاہے۔