پوسٹ تلاش کریں

انفرادی ،اجتماعی اور ذہنی غلامی کا خاتمہ اور بڑی آزادی

mental-slavery-freedom-saudi-ulma-scholars-tripple-talaq-taqi-usmani-aasan-tarjuma-e-quran-taqleed-ki-shari-haisiyat-mna-qazi-fazl-ullah-londi-nikah-mutah

قرآن وسنت کی تعلیم عربی میں ہے۔ سعودی علماء نے ہٹ دھرمی یا سمجھ بوجھ سے عاری ہوکر حقائق پر توجہ نہ دی۔ تین طلاق پر رجوع کی گنجائش ختم ہونے کیلئے حنفی مکتبۂ فکر سے مدد لی، حالانکہ حنفی مسلک میں اولین ترجیح قرآن ہے ۔ جہاں بار بار باہمی صلح سے عدت میں اور عدت کی تکمیل پر رجوع کی گنجائش ہے۔ قرآن کی طرف رجوع کئے بغیر خود ساختہ منطق نے امت کا بیڑہ غرق کیاہے۔
قرآن وسنت نہ ہوتو اجتہادہے۔ اجتہادنئی شریعت نہیں قاضی یا جج کا فیصلہ ہے۔ مفتی محمدتقی عثمانی نے اپنی کتاب ’’ تقلید کی شرعی حیثیت ‘‘میں جن آیات و احادیث کی غلط تشریح کرکے حوالہ دیا تھا ، اپنے’’ آسان ترجمہ قرآن‘‘ میں اس کی نفی کردی۔ ہوسکتا ہے کہ فقہی مقالات کا تو صفحہ تبدیل کردیا اور اب مارکیٹ سے اس کتاب کو بھی غائب کردیں۔انکے جھوٹ اور منافقت کے ہمارے پاس دلائل اور ثبوت ہیں۔ ہمارا مقصد ذاتی تحقیر وتذلیل ہر گز نہیں ،بس ایک گونگے شیطان کو بولنے پر مجبور کرنا ہے، جس کا طوطی بولتا ہے۔اس کا ناطقہ بند کردیا ہے۔
جمعیت علماء اسلام کے سابق MNA قاضی فضل اللہ چھوٹا لاہور صوابی امریکہ میں ہیں، وہ کہتا ہے کہ ’’ جانور وں کے معاشرہ سے انسانوں میں آگیا ‘‘۔ مغرب و مشرق میں انسانوں اور جانوروں کا فرق کیوں ہے؟۔ ہمارے ہاں جو بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بناکر قتل کیا جارہاہے ،یہ تو جانور بھی نہیں کرتے ہیں۔ اللہ نے قرآن میں ایسے انسانی معاشرے کو جانور وں سے بھی بدتر قرار دیا ہے۔ ھم کالانعام بل ھم اضل ’’ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ وہ زیادہ بدتر ہیں ‘‘۔
قرآن وسنت میں لونڈی و آزاد عورت کیلئے نکاح و متعہ کا تصور ہے اور متعہ کیلئے متعوھن اورماملکت ایمانکم کے الفاظ ہیں۔ لونڈی سے نکاح نہ ہو تو یہ متعہ یا ملکت ایمانکم ایگریمنٹ ہے اور آزاد سے متعہ یا ایگریمنٹ ہو تو بھی اس پر ملکت ایمانکم کا اطلاق ہوتا ہے۔قرآن نے لونڈیوں و غلاموں کو ایگریمنٹ کا درجہ دیکر غلامی کا وہ تصور ختم کیا جو دورِ جاہلیت میں آل فرعون نے بنی اسرائیل کے خلاف بنایا تھا۔ شخصی غلامی کے علاوہ ملکوں اور قوموں کی غلامی کا تصور بھی موجود تھا۔ آل فرعون نے بنی اسرائیل کو من حیث القوم غلام بنایا تھا۔
مسلمانوں نے مکہ سے حبشہ اور پھر مدینہ ہجرت کی تھی۔ نبیﷺ نے حدیبیہ کا معاہدہ قریشِ مکہ سے 10 سال تک کیلئے تھا اور اس میں فریقین کی رضامندی سے توسیع کی مزید گنجائش تھی۔ اگر معاہدہ مشرک نہ توڑتے تو نبیﷺ کی حیات، ابوبکرؓ اور عمرؓ کے دور تک جاری رہتا۔ مزید توسیع کی گنجائش تھی ۔ حلیف بنوخزاعہ کیخلاف قریشِ مکہ نے بنوبکر کی حمایت سے معاہدہ کی ایک شق توڑ دی تو نبیﷺ نے اسکا بدلہ فتح مکہ کی صورت میں اتاردیا۔ تاہم کسی کو غلام یا لونڈی نہیں بنایا۔ البتہ تین دن تک متعہ کی اجازت دیدی۔ لونڈی بنانے پر دورِ جاہلیت میں عورت سے اپنا اختیار ختم ہوجاتا تھا، وہ آقا کی امۃ بن جاتی تھی اور مرد عبد بن جاتا تھا۔
دو صحابیؓ نے ایک عورت سے متعہ کی پیشکش کی۔ ایک کی چادر اور دوسرے کا چہرہ اچھا تھا۔ عورت نے خوشنماچہرے کا انتخاب کیا، تین دن تک یعنی جب تک مکہ میں رہے ، معاہدے پر کاربندرہے اور اس سے زیادہ قیام نہیں تھا اور کم کا جواز نہیں تھا۔ فتح مکہ کے بعد تو مسلمانوں نے تین دن میں جانا تھا اور پھر جس سے متعہ کیا جاتا اور وہ عورت اس کی پابند رہتی تو ایگریمنٹ کا فائدہ نہ تھا، اگر تین دن سے کم متعہ ہوتا تو وہ بے دین مشرک عورت مختلف مردوں سے متعہ کرسکتی تھی، اسلام اس کی اجازت نہ دیتا۔ ایک مرد زیادہ خواتین کیساتھ ایگریمنٹ کرے تو اس کی قرآن نے اجازت دی ہے فانکحوا ماطاب لکم من النساء مثنی و ثلاثہ و رباع وان خفتم الا تعدلوا فواحدۃ او ماملکت ایمانکم ’’پس نکاح کرو، عورتوں میں سے دودو، تین تین ، چار چار کیساتھ اور اگر تم ڈرو کہ عدل نہیں کرسکوگے تو پھر ایک یا جو تمہاری ایگریمنٹ والی ہوں‘‘۔ مگرایک عورت ایک طہروحیض میں ایک سے زیادہ مردوں کیساتھ متعہ نہیں کرسکتی ہے ورنہ تو اس کی اولاد کا بھی پتہ نہ چلے گا اور اس سے لاتعداد بیماریاں پھیلنے کا اندیشہ ہے۔
نبیﷺ نے مکہ کے مشرکین کو غلام و لونڈی نہ بنایا۔ حبشہ کیلئے یہ وصیت کی کہ ’’ جب تک وہ تعارض نہ کریں تم بھی نہ کرنا‘‘۔ کوئی اُلو کاپٹا کہے کہ نبیﷺ نے آخری خطبے میں یہ وصیت کرکے قرآن کو نہ سمجھا ۔ روئے زمین پر غلبۂ دین کیلئے مبعوث تھے ۔سب اسلام قبول کریں یا جزیہ دیں ورنہ غلام ولونڈی بنانے کا حکم ہے تو ایسے علماء ومفتیان اور مجاہدین کو اپنے مؤقف پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں جس بچی ، بچے اور خاتون کیساتھ جبری جنسی تشدد ہو تو سب کہتے ہیں کہ یہ انسان نہیں جانور سے بھی بدتر ہیں۔ ہماری ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کیلئے لونڈی کا تصور رکھا جائے تو ہمارے کیا تأثرات ہونگے؟۔ نبی ﷺ کو آخری پیغمبر اور رحمۃ للعالمین کا تصور اسلئے دیا کہ اسلام زحمت نہیں۔ مذہبی طبقے کی خود ساختہ منطق نے آج پوری دنیاکو لرزہ براندام کردیا کہ اگر وحشی درندوں سے بدتر جنت کے حوروں کی لالچ اور مغرب ومشرق ،شمال وجنوب کی ساری ماؤں ، بہنوں، بیٹیوں اور بیویوں کو لونڈیاں بنانے کے جذبے سے آگے بڑھے تو دنیا کو خوفناک اور بدترین صورتحال کا سامنا ہو گا۔ حالانکہ اسلام نے اس خلافت علی منہاج النبوۃ کا تصور دیا، جس سے آسمان اورزمین والے خوش ہونگے۔
قرآن وسنت کے عظیم احکام کو پسِ پشت ڈالنے کا نتیجہ ہے کہ دنیا ہماری بے سروسامانی، پستی کی اتاہ گہرائی اور دستِ نگر ہونیکی سوچ دل ودماغ سے نکال کر ہمیں خطرناک ترین سمجھ رہی ہے۔ روس و امریکہ براہِ راست نہیں لڑتے بلکہ مسلمانوں کو کیمیائی ہتھیاروں کا نشانہ بناکر موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں۔ افغانستان، عراق، لیبیا کے بعد اب شام میں سرد جنگ نے لے لی ۔ہم کیمیائی ہتھیاروں سے مرجانے کو خوش آئند قرار دینے سے نہیں شرماتے۔ جن بچیوں کیساتھ زیادتی کے بعد ماردیا جاتا ہے تو یہ کیمیائی ہتھیاروں سے بڑا عذاب ہے جو ہم پر مسلط ہے،یہ لونڈی بنانے سے بھی زیادہ سخت عذاب ہے اور اسکے تدارک کیلئے ہمیں معاشرتی بنیادوں پر اُٹھ کھڑا ہوناہوگا۔اسلام نے جو نظام دیا ہے وہ مسلمانوں کی کھوپڑیوں میں نہیں بلکہ قرآن وسنت میں محفوظ ہے۔ حنفی مکتبۂ فکر کا مسلک بہترین ہے مگر حنفی مکتب والے اپنا مسلک کو بھول گئے۔
قرآن وسنت نے لونڈی بنانے کا تصور ختم کیا ۔ ابوالعلاء معریٰ ہزار سال قبل لکھ دیا کہ ’’اسلام نے لونڈی بنانے کا تصور ختم کیا تھا مگر عرب فاتحین نے یورپ کی سرخ وسفید عورتوں کو دیکھا تو انہوں نے دوبارہ یہ نظام رائج کردیا‘‘۔ نکاح میں خواتین کے تمام حقوق سلب کرکے قرآن وسنت کی توہین کی جاتی ہے ۔ ابولعلاء معریٰ نے نظام سے بغاوت کرکے شادی بھی نہ کی۔ اپنی قبر کے کتبہ پر لکھوایاکہ ’’ یہ میرے باپ کا گناہ تھا، میں نے یہ گناہ نہیں کیا ‘‘۔ حقوقِ نسواں کے متعلق تمام اسلامی احکام کو قرآن میں واضح ہیں مگرمذہبی طبقہ نے انسانی حقوق کو مسخ کرکے اسلام کے تمام امورکو بالکل غیرفطری اور دنیا کیلئے ناقابلِ عمل بنایا۔

اسلام کو اجنبیت سے نکالنے کیلئے درست راہ کا انتخاب 

islam-and-strangeness-unfamiliarity-right-way-to-be-out-reform-yousuf-ludhyanvi-asar-e-hazir-book

بدء الاسلام غریبا فسیعود غریبا فطوبیٰ للغربیٰ (الحدیث)
نبیﷺ نے فرمایا: اسلام کا آغاز اجنبیت کی حالت میں ہوا، عنقریب یہ پھر اجنبی بن جائیگا، پس خوشخبری اجنبیوں کیلئے۔ قرآن نے بار بار اس بات کو دھرایا ہے کہ’’ اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کرو‘‘۔ ایک جگہ اللہ نے اولی الامر کی بھی اطاعت کا حکم دیا ہے مگر ساتھ میں یہ واضح کردیا ہے کہ’’ اگر کسی بات میں تمہارا تنازع ہوجائے تو اس کو اللہ اور اسکے رسول کی طرف لوٹادو‘‘۔ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنی کتاب’’ تقلید کی شرعی حیثیت‘‘ میں قرآنی آیات اور احادیث کا جس طرح سے حشر کیا ہے ، بقول مولانا محمدیوسف لدھیانوی شہیدؒ کے اس کی تحریف اور حقائق کو مسخ کرنے کا انداز دیکھ کر وحوش وطیور بھی الامان والحفیظ سے صدائے احتجاج بلند کررہے ہوں، مولانا یوسف لدھیانویؒ کی کتاب ’’ عصر حاضر حدیث نبوی ﷺ کے آئینہ میں‘‘ کا مقدمہ اور احادیث کی تشریحات سے مفتی تقی عثمانی کی کتاب میں انہی احادیث کا اندراج دیکھ کر موازنہ کرکے دیکھا جائے۔
امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھیؒ کی فکر قدرے بہتر تھی لیکن ایک طرف یہ کہنا کہ نبیﷺ نے عرب وعجم اور حبشی وایرانی کی تفریق ختم کردی تھی اور دوسری طرف یہ کہنا کہ قرآن میں مسئلہ قومیت کی بنیاد یہ ہے کہ جہاں ایک قوم کے افراد بستے ہوں وہاں دوسرے قوموں کی حیثیت غلاموں اور لونڈیوں کی ہے۔ بڑاغلط اور گمراہ کن ہے۔ فکر شاہ ولی اللہ تنظیم نے تاریخی اعتبار سے جس ذہنیت کی بنیاد پر اسلام کی تشریح کی ہے اس میں بڑی غلط فہمیوں کو حل کرنے کی کوشش ضرور ہے لیکن حقائق سے بہت انحراف بھی ہے۔ بارہ خلفاء سے یزید کی شخصیت کو آٹے سے بال کی طرح نکالنے کی باریک بینی ان کو بھی قبول نہ ہوگی جو دوسرے دن کے چاند کو دور بین سے بھی دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں۔ اس فکر کی خوش فہمی میں رہنے کے بجائے قرآن وسنت کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
رسول اللہﷺ نے اولی الامر کی حیثیت سے جمہوریت کی بنیاد رکھ دی تھی۔ حضرت عمرؓ نے حدیث قرطاس کی مخالفت کرتے ہوئے عرض کیا کہ ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے تو رسول اللہ ﷺ نے اپنی وصیت مسلط نہیں فرمائی تھی۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کا وصال ہوا تو خلافت کے مسئلہ پر ہنگامہ وفساد کا خطرہ تھا لیکن حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ نے انصارؓ کی جمع ہونے والی جماعت سے مذاکرہ کیا اور ہنگامی بنیاد پر حضرت ابوبکرؓ خلیفہ بن گئے۔ انصار کے سردار سعد بن عبادہؓ اتنے ناراض ہوئے کہ خلفاء راشدینؓ کے پیچھے نماز تک نہ پڑھتے۔یہ پہلا دور تھا جس سے نبیﷺ کے بعد اجنبیت کی منزل شروع ہوگئی۔ جن علاقوں میں بعض لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تھا ،ان سے قتال پر شروع میں حضرت عمرؓ بھی متفق نہ تھے لیکن پھر خلافت کو منظم کرنے کی غرض سے مجبور ہوگئے۔ مالک بن نویرہؓ نے زکوٰۃ کی فرضیت کا انکار نہ کیا بلکہ قرآن میں نبیﷺ کیلئے فرمایا کہ ’’ ان سے صدقات لو، یہ ان کیلئے تسکین کا ذریعہ ہے‘‘۔ جسکے بعد نبیﷺ نے عزیز و اقارب پر زکوٰہ کو حرام کردیا۔ مالک بن نویرہؓ اور اسکے ساتھیوں نے کہا تھا کہ ’’ ہم حجۃ الوداع میں یہ سن کر آئے ہیں کہ من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ (میں جسکا مولا ہوں یہ علی اس کا مولا ہے)۔ اگر حضرت علیؓ کی طرف سے کوئی نمائندہ آئیگا تو ہم اس کو زکوٰۃ دینگے ‘‘۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے اسے قتل کردیا اور اسکی بیوی سے زبردستی عدت کا انتظار کئے بغیر شادی رچالی۔ حضرت عمرؓ نے تجویز پیش کی کہ خالد بن ولیدؓ کو جرم کی پاداش میں سنگسار کردیتے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ کی طرف سے تنبیہ کو کافی قرار دیکر کہا گیا کہ ابھی ہمیں خالدؓ کی ضرورت ہے۔
یہ وہی خالد بن ولیدؓ تھے جنہوں نے رسول اللہﷺ کے دور میں بھی بعضوں کو بے گناہ اور بے دریغ قتل کیا تو نبیﷺ نے بدلے میں قتل نہیں کیا بلکہ فرمایا کہ ’’ اے اللہ ! گواہ رہنا ، میں خالد کے فعل سے بری ہوں ‘‘۔ فوجی مہمات کے دور میں فوجیوں سے ایسی غلطیاں سرزد ہوتی ہیں ، اگر غلطی پر سخت سزا دی گئی تو آئندہ ان میں لڑنے کی کوئی صلاحیت باقی نہیں رہے گی‘‘۔ پاک افوج تو اس دور کی پیداوار ہیں جسکا معاشرتی ، اقتصادی، مذہبی اور سیاسی نظام تباہ حال ہے۔
رسول اللہ ﷺ حضرت عمرؓ کے کہنے پرحدیثِ قرطاس سے رُکے لیکن جب حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ کیلئے مشاورت کی اور لوگوں نے کہا کہ آپ خدا کو کیا جواب دینگے کہ کتنے سخت انسان کو ہم پر مسلط کردیا ؟ مگر ابوبکرؓ نے اپنی صوابدید پر عمرؓ کو نامزد کردیا۔ اولی الامر کے تقرری پر اسلام کی اجنبیت کایہ دوسرا موڑ آیاتھا۔ حضرت عمرؓ نے متعہ، ایک ساتھ تین طلاق، حجِ تمتع اور دوسرے معاملات پر جن اقدامات کی بنیاد رکھی وہ بھی مستند کتب کا حصہ ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ حضرت عمرؓ کے زخمی ہونے کے بعد تیسرے خلیفہ سے متعلق مشاورت ہوئی تو شوریٰ کے جن ارکان کا انتخاب کیا گیا ،انہوں نے اس بات کا لحاظ رکھا کہ عثمانؓ نے ابوبکرؓ و عمرؓ کے اقدامات کو جوں کے توں عملی جامہ پہنانا تھاجبکہ علیؓ کی چاہت تھی کہ اللہ اور نبیﷺ کی پیروی کرینگے۔ اسلئے حضرت عثمانؓ تیسرے خلیفہ بن گئے۔ بخاری میں عثمانؓ اور علیؓ کا حج تمتع پر اختلاف کا ذکرہے۔اصل اختلاف کو چھوڑ کر دوسروں کے سر غلطیاں ڈالنا دانشمندی نہیں، عثمانؓ اور علیؓ کی شہادت کے علاوہ اسلام کا نظامِ حکومت جمہوریت سے خاندانی وراثت بننا کوئی کم المیہ نہیں تھا اور یہی وجہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے اسلام کے اجنبی بن جانے کی خبر سنائی تھی۔
لیپا پوتی کے ذریعے اسلام کی اجنبیت کو دور نہیں کیا جاسکتا ۔ نبیﷺ نے علیؓ کو اپنا ولی قرار دیا مگرحضرت عمرؓنے حدیث قرطاس میں یہ وصیت نہیں مانی تھی۔ وشاور ھم فی الامر؛ وامرھم شوریٰ بینھم کے تقاضے بھی عیاں تھے۔ اللہ نے صاحبزادگی کا فتنہ ختم کرنے کیلئے نبیﷺ کو مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں بنایا۔ داماد اور چچازاد کو بھی فتنہ بننے سے روک دیا۔ اموال واولاد کو اللہ نے فتنہ قرار دیا تو صدر اسلام میں اس کا راستہ بھی روک دیا۔ کھلے حقائق سے قادیانی و آغا خانی اور امامیہ شیعہ کی آنکھیں کھل سکتی ہیں۔ سیاسی ومذہبی جماعتوں، مساجد، مدارس اور خانقاہوں میں بھی نالائق جانشینوں کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ ایران کا نظام بھی حدیث قرطاس ہی کی بدولت قائم ہے۔ چوہدری نثار ن لیگ میں ناپسندیدہ بن گئے مگر اس کی مزاحمت نے مریم نواز کو جانشین بننے سے روک دیا۔ یہ تمغہ کسی نظریاتی کارکن اور رہنما کی قسمت میں ہوتا تو خلافت ونیابت راشدہ بن جاتی۔
علیؓ کا راستہ روکنا قرآن وسنت اور فطرت کے مطابق تھا۔المیہ تھاکہ ولایت کا مفہوم بگاڑا۔ اللہ نے اہل کتاب خواتین سے نکاح کی اجازت دی ابن عمرؓ نے تثلیث کے عقیدے پر مشرک قرار دیکر نکاح ناجائز قرار دیا۔ یہ منطق تعصب نہ تھا۔اللہ نے اہل کتاب کو فیصلے کا اختیار سونپ دینے سے منع کیا مگر اسکا غلط ترجمہ ہوا کہ ’’ انکو اپنا دوست نہ بناؤ‘‘۔ بیوی سے بڑھ کر دوستی کیا ؟۔ متحدہ مجلس عمل علمی انقلاب کی کوشش کرے تو ووٹ،نوٹ، دنیا اورآخرت کی سرخروئی ملے۔ رمضان میں تراویح و جہری نمازوں میں سورتوں سے قبل جہری بسم اللہ سے آغاز کریں۔

شاہ ولی اللہؒ :شاہ اسماعیل شہیدؒ :مولانا عبیداللہ سندھیؒ 

shah-waliullah-shah-ismael-shaheed-maulana-ubaid-ullah-sindhi-maulana-yousuf-binuri-mansab-e-imamat-bidat-ki-haqiqat-ahmad-raza-khan-barelvi-syed-abdul-qadir-jilani-albayyinat-haroon-rasheed-

خیر القرون قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم (الحدیث)
نبی ﷺ نے فرمایا: بہترین دور میرا ہے، پھر ساتھ والوں کا، پھر انکے ساتھ والوں کا۔ صحابہؓ، تابعینؒ اور تبع تابعین ؒ مرادلئے جاتے ہیں مگرشاہ ولی اللہؒ نے لکھا کہ ’’ نبیﷺ کے بعد ابوبکرؓ و عمرؓ کا دور تھا اورپھر حضرت عثمانؓ کا دور تھا جبکہ علیؓ کے دور پر خیر کا اطلاق نہیں ہوتا ‘‘۔یہ فکر کتابوں میں ہے۔ پھر شاہ ولی اللہؒ کے پوتے شاہ اسماعیل شہیدؒ نے لکھا کہ ’’ نبیﷺ نے تین ادوار کو خیر کہا ۔ تیسری صدی ہجری تک تقلید نہ تھا۔چوتھی صدی ہجری میں تقلید کی بدعت ایجاد ہوئی اسلئے تقلید سے امت کو چھٹکارا دلانا فرض ہے‘‘۔ مولانا یوسف بنوریؒ نے ان کی اس کتاب ’’بدعت کی حقیقت ‘‘ کے اردو ترجمہ پرتقریظ لکھ دی اور ان کی ایک اور کتاب ’’منصبِ امامت ‘‘ کی بڑی تعریف کی ۔ علماء دیوبند نے مولانا احمد رضا خان بریلویؒ کی کتاب ’’حسام الحرمین ‘‘ سے گھبراکر شاہ اسماعیل شہیدؒ کا بیانیہ مسترد کیاتھا اور مولانا یوسف بنوریؒ کے والد مولانا زکریا بنوریؒ نے کہا تھا کہ’’ ہند میں حنفی مسلک کی حفاظت کاکریڈٹ مولانا احمد رضا خان بریلویؒ کو جاتا ہے‘‘۔
شاہ ولی اللہؒ نے لکھاکہ ’’نبیﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ شیعہ عقیدۂ امامت کی وجہ سے گمراہ ہیں۔جسکا میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ انکے عقیدۂ امامت کی وجہ سے ختم نبوت کا انکار لازم آتا ہے‘‘۔ شاہ عبدالعزیزؒ نے جو کتاب ’’تحفہ اثناعشریہ‘‘ کے عنوان سے لکھ دی تھی اس سے شیعہ کیخلاف کفر کے فتوے کی راہ ہموار ہوئی ۔ سپاہ صحابہ کے قائد مولانا حق نوازجھنگوی شہیدؒ کی تقریر شائع ہوئی کہ ’’ہمارا اختلاف شیعہ سے قرآن پر نہیں ، صحابہ پر نہیں بلکہ اصل اختلاف عقیدۂ امامت پر ہے‘‘۔ شیعہ خود سمجھتے ہیں کہ عقیدۂ امامت کی وجہ سے سنی گمراہ ہیں۔ شاہ ولی اللہؒ بڑے عالم تھے، مشاہدہ کی بنیاد پرفتویٰ سے گریز کرنا چاہیے۔ صوفیاء نے مشاہدات کی بنیاد پر پتہ نہیں کس کس کو گمراہ قرار دیاتھا۔حضرت سید عبدالقادر جیلانیؒ بھی امام ابوحنیفہؒ کو گمراہ سمجھتے تھے۔ گمراہ اور کافر میں فرق ہے۔ نبیﷺ نے عقیدۂ امامت کی بنیاد پر شیعہ کو گمراہ کہا تو کفر کا فتویٰ لگانا بھی درست نہ تھا۔ یہی نتیجہ نکالتے کہ صحابہؓ اور اجماع امت سے شیعہ بدظن ہوکر گمراہ ہوگئے۔علاوہ ازیں اہلسنت کہتے ہیں کہ امام کا تقرر امت پر فرض ہے اور شیعہ کہتے ہیں کہ امام اللہ کی جانب سے ہوتا ہے۔ اگر اس میں کفر اور ختم نبوت کا مسئلہ ہے تو شاہ اسماعیل شہیدؒ نے اپنی کتاب ’’منصبِ امامت ‘‘ میں شیعہ بیانیہ کو تسلیم کیا ہے اور لگتا یہ ہے مرزا غلام احمد قادیانی بھی اسی وجہ سے ختم نبوت کا منکر بن گیااور اس میں مشاہدات کا بھی دخل تھا۔ متحدہ مجلس عمل کا سیاسی اتحاد اس وقت کامیاب ہوگا جب وہ جہالتوں کا بھی خاتمہ کرنے میں ایک اعلامیہ جاری کریگا۔ ورنہ یہ مکڑی کا جالا ثابت ہوگا۔
جب عقیدۂ امامت میں شاہ اسماعیل شہیدؒ اور شیعہ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں اور دونوں اس نتیجے پر نہیں پہنچے کہ اس کی وجہ سے ختم نبوت کا انکار کریں تو ایک علمی محفل میں سنجیدہ علماء کرام اور مفتیانِ عظام کو اکٹھا کرکے اعلامیہ بھی جاری کردیں۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کی کتاب ’’البینات کا خصوصی شیعہ نمبر‘‘ موجود ہو، جس میں سینکڑوں مدارس اور علماء کرام نے شیعہ پر تین وجوہات کی بنیاد پر کفر کا فتویٰ لگایا کہ ’’صحابہ کرامؓ کو نہیں مانتے۔قرآن کو نہیں مانتے اور عقیدۂ امامت کیوجہ سے ختم نبوت کے منکر، قادیانیوں سے بدتر کافر ہیں کیونکہ قادیانیوں صرف ختم نبوت کی آیت میں تأویل کرتے ہیں باقی ان کی نماز، زکوٰۃ اور اکابر سب کے سب ہمارے ساتھ مشترکہ ہیں‘‘۔ جب تک حقائق کا انکشاف نہ کیا جائے تب تک امت میں اتحاد واتفاق اور وحدت کی راہ ہموار نہیں ہوگی۔
شاہ ولی اللہؒ سے لیکر شاہ اسماعیل شہیدؒ اور مولانا عبیداللہ سندھیؒ تک کے نام پر کام کرنیوالوں میں اتنی صلاحیت نہیں کہ ان تضادات کو ختم کریں لیکن اہل حق کے سلسلے کا تسلسل رکھنے کے دعویدار ہیں۔ مولانا سندھیؒ نے لکھا کہ ’’ حضرت عمرؓ کے دور میں فرقِ مراتب کے لحاظ سے وظائف مقرر ہوئے،جو سرمایہ دارانہ نظام کی ابتداء تھی اور حضرت عثمانؓ کے دور میں سرمایہ دارانہ نظام نے رائج ہوگیا جس سے حضرت ابوذر غفاریؓ نے نبیﷺ سے انحراف قرار دیا اور علیحدہ ہوگئے‘‘۔ مولانا عبیداللہ سندھی ؒ کی تفسیر ’’الہام الرحمن کے مقدمہ میں ناشر نے لکھا ہے کہ ’’پہلی منزل: پہلا دور نبیﷺ وابوبکرؓ کا دور تھا جن میں حبشہ و ایران اور عرب وعجم میں امتیاز نہ تھا۔ دوسرا دور حضرت عمرؓ سے شروع ہوا، جس میں عرب قومیت کو کسی درجہ فوقیت حاصل ہوئی۔ تیسرا دور حضرت عثمانؓ سے شروع ہوا۔جس کا ابتدائی حصہ فاروقی دور کی طرح تھا مگر آخری دور قدرے اترا ہوا تھا۔ جس میں نیم عربی قومیت کا رنگ آگیا، جسے امیرشام حضرت معاویہؓ نے قانونی شکل میں منظم کردیا۔اسلام کی پہلی منزل حضرت ابوبکرؓ سے تحکیم کے فیصلے تک خلافت راشدہ کا دور ختم ہوا۔دوسری منزل: الغرض السابقین الاولین کی مثالی حکومت اور عربی قومیت (جس کی بنیاد امیر شام نے رکھی، حضرت علیؓ حضرات شیخین کے دور کے متمنی تھے۔ ۔۔۔ حضرت عمرؓ کی شہادت سے عجمیوں پر عربوں کا اعتماد اُٹھ چکا تھا اور اسلام کے اصل دشمن بدطینت یہودی اپنی تخریب کاریوں کا آغاز حضرت عثمانؓ کے آخری دور سے کرچکے تھے اسلئے حضرت امیرمعاویہؓ نے عربوں کا قومی مسئلہ بناکر اسلام کی اجتماعیت کو مستحکم کردیا۔ جبکہ حضرت علیؓ اولی العزمی کیساتھ آخری وقت تک ڈٹے رہے۔ آل علی کا بھی بعد میں یہی رحجان رہا۔ اسلئے ان کو عربوں کے بجائے ہمیشہ غیر عرب مدد گار ملے۔ آخر میں جب ایرانیوں میں قومی شعور بیدار ہو ا ،اور اسلام کو بھی انہوں نے قومی رنگ دیدیا تو اسلام کی ایسی تعبیر کی جس میں عربیت کا اثر کم سے کم تھا بلکہ ایک حد تک عربوں سے متنفر کا جذبہ موجود تھا۔ شیعیت اسلام کی ایرانی تعبیر ہے۔ حضرت معاویہؓ نے جس قومی حکومت کی بنیاد ڈالی ،اس کا انتہائی عروج ولید بن عبدالملک کی سلطنت میں تھا اور خلیفہ ہارون الرشید پر عربوں کی سیادت کا دور ختم ہوتاہے ۔یہاں اسلام کی بین الاقوامی دوسری منزل ختم ہوتی ہے۔تیسری منزل: ہارون الرشید کی خلافت کے بعد زوالِ بغداد تک عجمی قومیں عباسی خلافت کے زیر سایہ برسر اقتدار آتی ہیں۔ یہ بنی عباس کا دور ہے جس کی بنیاد حضرت علیؓ نے ڈالی تھی۔ یہاں اسلام کے تیسرے بین الاقوامی انقلاب کی منزل ختم ہوتی ہے۔ گویا ہارون الرشید تک بارہ خلفا ختم ہوتے ہیں۔ابوبکرؓ ، عمرؓ، عثمانؓ، علیؓکی خلافت راشدہ اور معاویہؓ، عبدالملک، ولید، سلیمان ،ہشام، منصور، مہدی، ہارون الرشید 8خلفا کی حکومت بین الاقوامی نہیں قومی تھی مگر اپنا تفوق جتانے کے باوجودماتحت قوموں کو راضی رکھا اور بغاوت نہ ہوئی۔ زوال بغداد پر عربی قومیت کے دورکا خاتمہ ہوا،خلافت عثمانیہ سے عجمی قومیت کی چوتھی منزل کا آغاز ہوا۔ مصطفی کمال اتاترک کے انقلاب کے بعد خلافت عثمانیہ کا بھی ہوا‘‘۔
بارہ خلفاء قریش کا ذکر ہے جن پر امت کا اجماع ہوگا۔ شیعہ سمجھتے ہیں کہ بارہ خلفاء میں ایک باقی ہیں جبکہ سنی شیعہ کا اتفاق ہوگا کہ یہ بارہ خلفاء آئندہ آئیں ۔

جاوید چودھری کے کالم پرایڈیٹر نوشتۂ دیوارملک اجمل کا تبصرہ

javed-chaudhry-columns-taliban-cia-biryani-ki-rehri-islamabad-nawaz-sharif

جاوید چودھری صاحب، آپ جو حقائق آج بیان کر رہے ہیں اسے دنیا عرصہ سے جانتی ہے۔ ہمارے جیسے چھوٹے اخبار کے چیف ایڈیٹر سید عتیق الرحمن گیلانی ماضی میں عرصۂ دراز تک ان حقائق کو عوام تک پہنچاتے رہے ہیں کہ افغان جنگ اور طالبان وغیرہ یہ CIA کا کھیل ہے اور اسی جُرم میں 2007 میں ٹانک کے علاقے گومل میں طالبان نے ان کے گھر پر حملہ کر کے گھر کے 13 افراد کو شہید کر دیا تھا اور بھی کئی سیاستدان اور صحافی اس پر بات کرتے رہے ہیں حیرت ہے آپ اسلام آباد میں بیٹھ کر بے خبر رہے اور آپکو *افغانیوں کا لہو* آج 3 اپریل 2018 میں یاد آیا۔
جسوقت CIA یہ سارا ڈرامہ کر رہی تھی آپ کا ضمیر سویا ہوا تھا اور آج نواز شریف سے لفافہ لیکر یہ کالم لکھا ہے تاکہ فوج کو بدنام کیا جائے اور عوام سے فوج کو لڑوانے کی سازش کامیاب ہو ۔
ہم کوئی فوج کے تنخواہ دار صحافی نہیں ہمیں معلوم ہے جسوقت 2007 میں طالبان نے ہمارے چیف ایڈیٹر کے گھر پر حملہ کیا تھا اسوقت ہماری ریاست طالبان کی پشت پر تھی لیکن اسوقت حالات کچھ اور تھے ساری قوم طالبان کو صحیح سمجھتی تھی، ہم حقائق کی صحافت پر یقین رکھتے ہیں اداروں اور عوام کو لڑوانے والی کسی قوت کے آلہ کار نہیں بنیں گے لیکن تمہیں یہ قوم اچھی طرح سے پہچان چکی ہے تم نواز شریف کے PayRollپر ہو اسلئے نواز شریف کے چور بیٹوں کے بارے میں یہ تشہیر کرتے ہو کہ ’’وہ تو ہر وقت وضو میں رہتے ہیں‘‘ ۔ جنرل حمید گل کی فیملی نے پریشانی میں اس سے اپنا دکھ بیان کیا ہے اور اس دلال شخص نے ان کا سودا کر لیا۔ اس حقیقت کا اعتراف جنرل حمید گل کے نظریات سے اختلاف کرنے والے بھی کرتے ہیں کہ وہ ایک نظریاتی شخص تھا پیسے نہیں بنائے، اگر دولت بنائی ہوتی تو کیا آج اسکے بچے اسکی پینشن کیلئے لڑتے۔جاوید چودھری ! شہزادہ بندر بن سلطان جسکا حوالہ دیکر آپ نے یہ سارا سازشی کالم لکھا ہے وہ کتاب تو 2006 میں چھپ گئی تھی اوراگر آپ وااقعی اتنے لاعلم صحافی ہیں توپھر آپ کفارے کے طور پر اسلام آباد کے زیرو پوائنٹ پر بریانی بیچنے کی ریڑھی لگا لیں اور اس پر بورڈ لگا دیں کہ’’ میں اس قوم سے معافی چاہتا ہوں میں ساری زندگی وہ کام کرتا رہا جس کا میں اہل نہیں تھا ‘‘۔پھر تو شاید آپکو معافی مل جائے ورنہ یہ جان لیں کہ اب اس قوم کے مظلوم طبقات جاگنا شروع ہو گئے ہیں اور اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کیساتھ کیا ہوگاتو پھر ساری عمر آپ نے تاریخ کے اوراق سے نکال کر جو قصے اور کہانیاں بیان کی ہیں اُنہیں اُٹھا کر دیکھ لیں کہ جب کوئی قوم حقیقی انقلاب کیطرف بڑھتی ہے تو آپ جیسے بے ضمیر لوگوں کا کیا حشر ہوتا ہے۔آپکو یقیناُ اپنے ہی کالموں میں اس کا جواب مل جائے گا۔

جن سیاستدانوں نے جتنی پارٹیاں بدلی ہوں انکے ساتھ اتنے لوٹوں کے سٹار بنائے جائیں

stars-of-loty-politicians-change-of-parties

نکل کر ڈرائنگ روم سے باتھ روم میں، لوٹا سیاست اب رسمِ شبیری ادا کررہی ہے۔منظور پاشتین 12 مئی کراچی کے جلسے میں تعصبات اورگلے شکوے کی زباں نہیں حقائق پر مبنی متوازن خطاب کریں۔ رمضان کی چھٹیوں کا اعلان نہ کریں، سیاست افضل جہاد اور بہترین عبادت بھی ہے۔ لاہور کی طرح کراچی میں مغرب وعشاء بلکہ ظہرو عصر نمازوں کو بھی یکجاکردیں۔ مسلم کی روایت میں چار نماز کو یکجا کرنے کا ذکر ہے، صحابہؓ کی جماعت نے عصرومغرب اکٹھی پڑھی تو نبیﷺ نے تنقید نہ کی، سنت کو زندہ کریں۔

خواتین کے حقوق کا قرآنی آیات سے ٹھوس لائحہ عمل…. اداریہ نوشتہ دیوار خصوصی شمارہ معراج اپریل 2018

woman-rights-khawateen-huqooq-quranic-verse-aayat-khula-talaq-khan-nawab-king-badshah-imam-abu-hanifa-jail-ummhat-ul-mumineen-hazrat-muhammad-abu-jehal-ali-jamhoor-iddat-ela-umer-nikah-mutaa

خلع

بعض اوقات شوہر بیوی سے علیحدگی چاہتا ہے جسے طلاق کہتے ہیں، قرآن میں سورۂ طلاق بھی ہے اور طلاق کے حوالے سے سورۂ بقرہ اور دیگر سورتوں میں تفصیل سے احکام بھی ہیں۔ عورت علیحدگی چاہتی ہو تو اسے خلع کہتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے سورۂ نساء میں پہلے عورت کو خلع کا حق دینے کی وضاحت فرمائی ہے اور پھر بعد میں شوہر کیلئے طلاق دینے میں بھی عورت کے حقوق کو واضح فرمایا ہے۔ اگر دنیا نے قرآنی آیات کو سمجھ کر دستور العمل بنایا تو انقلاب آجائیگا۔
فرمایا: اے ایمان والو! تمہارے لئے حلال نہیں کہ اپنی عورتوں کے زبردستی مالک بن بیٹھواور ان کو اس لئے مت روکو کہ تم نے جو کچھ ان کو دیا ہے اس کا کچھ حصہ ان سے لے لو۔ مگر یہ کہ وہ کھلی ہوئی فحاشی کی مرتکب ہوں۔ اور انکے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ اگر وہ تمہیں بری لگیں تو ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں بری لگے اور اللہ اس میں تمہارے لئے بہت سارا خیر رکھ دے۔ (سورہ نساء : آیت 19)۔
اللہ تعالیٰ نے نساء کا لفظ قرآن کے مختلف مقامات پر بیگمات کیلئے استعمال کیا ہے۔ اردو، پشتو وغیرہ میں بھی عورت کا لفظ بیوی کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ جب بیوی سے نکاح ہوتا ہے تو شوہر معاشرے میں مالکانہ حقوق کی طرح طرز عمل رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں واضح کیا کہ زبردستی سے شوہروں کیلئے حلال نہیں کہ ان کے مالک بن بیٹھیں۔ اگر وہ خلع لے کر جانا چاہیں تو ان کو اسلئے نہ روکیں کہ حق مہر کے علاوہ جو کچھ ان کو دیا ہے ان سے وہ واپس لے لیں، مگر یہ کہ وہ کھلی ہوئی فحاشی کی مرتکب ہوں۔ ایسی صورت میں دی ہوئی بعض اشیاء سے محروم کرنا درست ہے۔ جب عورت خلع لے کر علیحدہ ہورہی ہو تو مرد کی طرف سے بدسلوکی کے خدشے کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے واضح کیا ہے کہ پھر بھی ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ اگر اس اقدام کی وجہ سے وہ تمہیں بری لگیں تو ہوسکتا ہے کہ کسی چیز کو تم برا سمجھو اور اللہ اس میں تمہارے لئے بہت سارا خیر رکھ دے۔
دنیا کا کوئی مہذب معاشرہ اور ملک و قوم قرآن کے اس حکم سے انکار اور کفر کا روادار نہیں ہے۔ جب عورت اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ہو تو اس شوہر سے بڑا بے غیرت کوئی نہیں ہوسکتا ہے کہ پھر بھی عورت کو خوامخواہ مجبور کرے کہ وہ اسکے ساتھ رہے گی۔ یہ ہوسکتا ہے کہ شوہر طیش میں آکر چپل اور کپڑے اتارنے تک کی بات کرے اور بعض دی ہوئی قیمتی اشیاء واپس لینے کیلئے دباؤ ڈالے لیکن قرآن نے اس آیت کے واضح حکم میں شوہر کو ایسا کرنے سے روکا ہے۔ البتہ اگر کھلی ہوئی فحاشی کی عورت مرتکب ہو توپھر بعض چیزوں کی گنجائش ہے۔ علیحدگی کی اس صورتحال پر اللہ نے حسن سلوک کا حکم دیا ہے اور یقیناًاس میں اللہ نے بہت سارا خیر رکھا ہے۔ عورت کو زبردستی سے رُکنے پر مجبور کیا جائے تو وہ شوہر کو زہر کھلا سکتی ہے ، گلا دبا سکتی ہے ، اپنا خاتمہ کرسکتی ہے اوربچوں کی زندگی بھی ختم کرسکتی ہے، معاشقہ کرکے شوہر کی عزت کو داغدار کرسکتی ہے۔ سکون تباہ رہے گا ۔ عورت کا مقصد ہی سکون ہوتاہے اور متبادل میں کوئی دوسری عورت خیر کثیر بن سکتی ہے۔
عورت کمزور ہوتی ہے اور شوہر طاقتور ہوتا ہے ۔ خان ، نواب، سردار، بادشاہ اور طاقتور مردوں کے سامنے ایک کمزور مذہبی رہنما اور پیشوا کمزور عورت کے حق کی بات کرنے کی ہمت نہیں رکھتا ۔ گلی،محلہ ، گاؤں، شہر اور ملک سے طاقتور طبقہ ان کو بھگادے گا اور زکوٰۃ خیرات سے بھی محروم کردے گا۔ امام اعظم امام ابو حنیفہؒ کی سیرت میں لکھا ہے کہ عباسی خلیفہ نے اپنی بیوی کے سامنے ان سے پوچھ لیا کہ دوسری بیوی کی گنجائش اسلام میں ہے یا نہیں؟۔ امام ابو حنیفہؒ نے آیت پڑھی جس میں پہلے دو دو ، تین تین اور چار چار عورتوں سے نکاح کرنے کی گنجائش ہے لیکن پھر عدل قائم نہ کرنے کی صورت میں ایک ہی کی وضاحت ہے ، جس پر پہلے بادشاہ خوش ہوا اور ملکہ ناراض ہوگئی مگر پھر ملکہ خوش ہوئی اور بادشاہ سے کہا کہ آپ عدل نہیں کرسکتے ، اسلئے تیرے لئے دوسری کی گنجائش نہیں۔ اس واقعہ ہی کی بنیاد پر بادشاہ نے دل میں بغض رکھا اور امام ابو حنیفہؒ کو جیل میں ڈالا۔
رسول اللہ ﷺ سے زیادہ بڑی شخصیت کا تصور بھی نہیں ہوسکتاہے لیکن قرآن میں اللہ تعالیٰ نے حضرات اُمہات المؤمنین ازواج مطہراتؓ کیلئے بھی واضح فرمایا تھا کہ ’’ان کو علیحدہ ہونے کا اختیار دے دیں‘‘۔ جب حضرت علیؓ نے ابو جہل کی لڑکی سے شادی کرنا چاہی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’پھر میری بیٹی کو طلاق دو اسلئے کہ اللہ کے رسول کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتیں‘‘۔ پاکستان میں یہ قانون قرآن و سنت کے منافی ہے کہ دوسری شادی کیلئے پہلی سے اجازت لی جائے، لوگ پہلی کو مجبور بھی کرلیتے ہیں اور قتل بھی کردیتے ہیں البتہ یہ وضاحت ہونی چاہیے کہ دوسری شادی پر پہلی کو طلاق کا مکمل اختیار ہوگا۔ پاکستان میں بیوی خلع لینا چاہتی ہے اور شوہر طلاق نہیں دینا چاہتا ہے تو عورت عدالت سے رجوع کرتی ہے۔ عدالت سے خلع کاحکم جاری ہوتا ہے تب بھی حنفی مکتبہ فکر کے بہت سے علماء یہ فتویٰ جاری کرتے ہیں کہ طلاق نہیں ہوئی، نکاح بدستور قائم ہے جب تک شوہر خود طلاق نہیں دے۔ حالانکہ حنفی مکتب کے بڑے مدارس جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور دار العلوم نعیمیہ کے علماء و مفتیان نے بھی عدالت کی طرف سے خلع پر طلاق کا فتویٰ جاری کردیا ہے۔ حنفی مکتب کی طرف سے خلع واقع ہونے کیلئے شاید دوسرے مسالک سے استفادہ ہوا ہے جبکہ حضرت امام ابو حنیفہؒ کے مسلک کا بھی یہی بنیادی تقاضہ ہے کہ عدالت کے بغیر بھی طلاق ہو۔
قرآن کی آیت و ان عزموا الطلاق فان اللہ سمیع علیم Oاور اگر ان کا عزم طلاق کا ہو تو اللہ سننے اور جاننے والا ہے۔(البقرہ: 227)۔ قرآن کی اس آیت میں پہلی بات طلاق کا ذکر ہے ۔ اس سے پہلے والی آیت میں چار ماہ تک انتظار کا حکم ہے۔ امام ابو حنیفہؒ واحد شخصیت ہیں جنہوں نے چار ماہ تک اس انتظار کے باوجود رجوع نہ کرنے کو طلاق قرار دیا ہے جبکہ جمہور کے نزدیک جب تک شوہر طلاق کا اظہار نہ کرے تب تک عورت زندگی بھر انتظار کرے گی۔ اس کا تقاضہ یہی ہونا چاہیے تھا کہ امام ابو حنیفہؒ کا مسلک کم از کم عدالتی خلع پر واضح ہوتا۔
ترقی یافتہ دنیا نے بہت بعد میں عورت کو خلع کا حق قانون قرار دیاجبکہ اسلام نے 14سو سال پہلے قرآن کی واضح آیات اور احادیث صحیحہ میں عورت کے اس حق کو بہت اچھی طرح سے واضح کیا۔ افسوس ہے کہ سورہ بقرہ آیت 229میں خلع کا تصور نہیں بلکہ عدت کے تین مراحل میں دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسرے مرحلے میں رجوع کا فیصلہ کرنے کے بجائے علیحدگی کا فیصلہ کیا جائے اور پھر دونوں آئندہ رابطہ نہ رکھنے پر متفق ہوں۔ معاشرہ بھی یہی فیصلہ کرے تو مرد کی طرف سے دی ہوئی چیزوں میں سے کوئی چیز واپس لینا گوکہ حلال نہیں لیکن جب وہ رابطے کا ذریعہ بنے اور دونوں کی طرف سے اس خدشے کا احتمال ہو کہ اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو وہ چیز عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی گناہ نہیں،یہ اللہ کے حدود ہیں ان سے تجاوز پراللہ نے ظالم قرار دیا ہے ۔یہ آیات محکمات ہیں مگرخلع میں مضحکہ خیز طریقے پر بلیک میلنگ کو بھی جائز کہا گیا۔

عدت

اللہ نے مختلف آیات میں خواتین کے حقوق کیلئے ہی عدت کے احکام واضح کئے ۔ جب شوہر طلاق کا اظہار نہ کرے اور زندگی بھر اس کو لٹکانا چاہے تو اللہ نے سب سے پہلے عدت کی اس صورت کو ہی واضح فرمایا ۔ عربی میں اس صورتحال کو ایلاء سے تعبیر کیا گیا، امام مالکؒ نے واضح کیا کہ ایلاء صرف شوہر کی ناراضگی ہے، حلف نہیں۔ اللہ نے واضح کیا کہ لغو قسم یا عہد پر اللہ نہیں پکڑتا مگر دل کے گناہ پر پکڑتا ہے۔ جو لوگ اپنی بیویوں سے نہ ملنے کی قسم کھاتے ہیں ان کیلئے چار ماہ کا انتظار ہے۔ پھر اگر وہ راضی ہوئے تو اللہ غفور رحیم ہے اور اگر ان کا عزم طلاق کا تھا تو اللہ سننے جاننے والا ہے۔ طلاق والی عورتوں کیلئے تین مراحل (طہر و حیض ) کا انتظار ہے۔ (البقرہ: آیت 228-227-226-225)
انتظار کیلئے تربص کا لفظ یکساں ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ آیت 226میں تربص سے کوئی چیز مراد لی جائے اور 228میں کوئی چیز مراد لی جائے، دونوں جگہ عدت ہی مراد ہے۔ اگر عورت کو حیض نہ آتا ہو تو پھر طلاق کی صورت میں انتظار یا عدت تین ماہ ہے۔ ناراضگی کی صورت میں شوہر کا پہلے سے عزم طلاق کا تھا تو اس دل کے گناہ پر اللہ کی پکڑ ہوگی اسلئے کہ انتظار ایک ماہ اسکی وجہ سے بڑھ جاتا ہے اور یہ عورت کی حق تلفی ہے۔ چنانچہ طلاق کی عدت تین ماہ اور ناراضگی کی عدت چار ماہ ہے، معاشرتی تعلق بحال رکھنے کیلئے یہ انتظار خواتین کے مفاد میں ہے۔ بیوہ کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔ انسان سوچ سکتا ہے کہ بیوہ چار ماہ دس دن انتظار کی پابند ہو تو طلاق کا عزم رکھنے کے باوجود چار ماہ انتظار پر پکڑ نہ ہونی چاہیے، لیکن ناراضگی و طلاق کی صورتیں مختلف نہیں اسلئے ایک ماہ کی مدت پر بھی پکڑ ہوگی۔
ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ مرد کو زیادہ شادی کرنے کی اجازت ہے لیکن اس کیلئے عدت کا کوئی تصور نہیں۔ عورت کا رشتہ ایک ہی شوہر سے ہوتا ہے اور پھر بھی عدت چار ماہ ، تین ماہ اور چار ماہ دس دن تک عورت ہی کو گزارنی پڑتی ہے۔ کمزور کے حق کا اس میں تحفظ ہے یا پھر یہ عورت کے ساتھ ظلم و زیادتی اور حق تلفی ہے؟۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ان تمام صورتوں میں خواتین کی فطرت ہی کا تحفظ ہے اور صحیح حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے وضاحت فرمائی ہے کہ ’’خلع کی صورت میں عورت کی عدت ایک حیض ہے‘‘۔ طلاق کی صورت میں شوہر علیحدگی چاہتا ہے اور خلع کی صورت میں بیوی علیحدگی چاہتی ہے۔ عورت خلع چاہتی ہو تو ایک حیض کی عدت بھی خواتین ہی کے مفاد میں ہے کیونکہ حیض کے بعد دوسری جگہ نکاح ہو تو پھر دوسرے شوہر کو اپنی اولاد کا یقین ہوگا۔ حمل کی صورت میں عورت کی عدت بچے کی پیدائش تک ہے۔ آیت میں طلاق سے رجوع کیلئے بالکل واضح ہے کہ وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحا (اور انکے شوہر اس مدت میں ان کو لوٹانے کا حق رکھتے ہیں اصلاح کی شرط پر ) ۔ عورت کی رضا کے بغیر طلاق کے بعد عدت میں بھی شوہر کو رجوع کا حق نہیں۔ وان یریدا اصلاحا یوفق اللہ بینھما (اگر ان دونوں کا پروگرام اصلاح کا ہو تو اللہ تعالیٰ دونوں میں موافقت پیدا کردے گا)۔ یہ تونہیں ہوسکتا کہ عدت میں بھی اصلاح کی شرط پر شوہر کو رجوع کا حق ہو اور پھر عدت کی تکمیل پر بار بار اللہ نے غیر مشروط رجوع کا حکم دیا ہو۔ بڑی بات یہ ہے کہ اللہ نے صلح کی شرط پر شوہر کو رجوع کا حق نہیں دیا بلکہ اصلاح کی شرط پر رجوع کا حق دیا ہے۔ طلاق کی وجہ یہ بنتی ہے کہ شوہر یا بیوی کو کسی معاملے میں اس کی اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے۔
مثلاً عورت زبان چلاتی ہے اور شوہر مارتا پیٹتا ہے اور اس بگاڑ کی وجہ سے نوبت طلاق اور علیحدگی تک پہنچتی ہے۔ پھر عدت کے آخری مرحلے میں میاں بیوی کے درمیان صلح ہوجاتی ہے۔ دو مہینے گزرنے کے بعد جب صلح ہوجائے اور پھر عورت زبان چلائے اور مرد پیٹنا شروع کردے تو یہ دو ماہ کی عدت رائیگاں جائیگی۔ اسلئے قرآن نے اصلاح کے الفاظ کا انتخاب کیا ہے۔ اگر صلح ہوگئی مگر اصلاح نہیں ہوئی تو یہ صلح معتبر نہ ہوگی۔ دو ماہ کی عدت معتبر قرار دی جائے گی اور اصلاح نہ ہونے کی صورت میں ایک ماہ اور یعنی وہی تین ماہ کا انتظار ہوگا۔
حدیث ہے کہ تین چیزیں سنجیدگی اور مذاق میں معتبر ہیں طلاق، عتاق اور رجوع۔ عتاق غلام یا لونڈی آزاد کرنے کو کہتے ہیں۔ ایک مرتبہ آزاد کردیا اور پھر کہہ دیا کہ مذاق کررہا تھا تو مذاق میں بھی آزادی ملے گی۔ اگر نہ ملے تو یہ اس غلام یا لونڈی کی حق تلفی ہوگی۔ یہ بات سب کو آسانی سے سمجھ میں آتی ہے مگر مذاق میں طلاق اور رجوع کو واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر شوہر طلا ق دے اور پھر کہے کہ میں مذاق کررہا تھا اور عورت اس کو سنجیدگی سے نہ لے تو اس طلاق کی کوئی حیثیت نہیں البتہ اگر عورت نے سنجیدہ لیا اور ڈٹ گئی کہ اب شوہر کیساتھ نہیں رہنا ہے تو پھر یہ طلاق مذاق میں معتبر ہے۔ خلع و طلاق میں فرق معاملات کا ہے۔ خلع میں عورت کو اپنا گھر بار چھوڑ کر نکلنا پڑتا ہے اور طلاق میں ہر چیز سے شوہرہی کو دستبردار ہونا پڑتا ہے۔ سورہ نساء کی آیت 21-20میں طلاق کی وضاحت ہے۔
حقوق پر خلع اور طلاق کی صورتوں میں بہت بڑا اور واضح فرق پڑتا ہے۔ جیسے لونڈی اور غلام کو آزاد کرنے میں حق کا معاملہ ہوتاہے اسی طرح سے طلاق کی صورت میں بھی اصل مسئلہ عورت کے حق کا ہوتا ہے۔ یہ قرآن و سنت اور فطرت کے ساتھ بڑا مذاق ہوگا کہ کوئی شوہر بیوی سے کہے کہ میں نے طلاق دی اور عورت ڈٹ جائے لیکن مرد کہے کہ یہ ایک مرتبہ کی طلاق کا مذاق ہے جبکہ دو مرتبہ کیلئے میرے پاس گنجائش ہے۔ طلاق مرد کا فعل ہے لیکن رجوع بیوی کے راضی ہونے سے مشروط ہے۔ اگر شوہرنے رجوع کرلیا اور عورت اس کیلئے راضی نہ ہو تو مذاق کیا سنجیدگی میں بھی رجوع معتبر نہیں ہے۔ اگر شوہر نے رجوع کرلیا، بیوی نے رضامندی ظاہر کردی تو پھر اگر شوہر کہے کہ میں نے مذاق کیا تھا تو رجوع کو معتبر سمجھا جائے گا۔ اس رجوع کی وجہ سے شوہر کو بیوی کے حقوق ادا کرنے ہیں۔ اس بات سے اس کو چھٹکارا نہیں مل سکتا ہے کہ میں نے مذاق کیا تھا۔
اگر شوہر کو یہ حق دیا جائے کہ ایک بار طلاق کے بعد رجوع کرسکے اور دوبارہ طلاق کے بعد پھر رجوع کرسکے اور پھر طلاق دے تو یہ عورت کیلئے ایک نہیں کئی عدتوں کا قانونی حق شوہر کو دینا ہے جو قرآن اور فطرت کے سراسر منافی ہے۔ نکاح و طلاق اور معاہدہ (متعہ،ایگریمنٹ) کے درست احکام کو واضح کیا جائے تو پوری دنیا اپنے غیر فطری اور انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کو چھوڑ کر قرآن وسنت اور اسلام کی طرف بہت خوشی اور رغبت کیساتھ رجوع کریگی۔ مدارس کے ارباب علم و فتویٰ کو بڑے پیمانے پر اس نصاب کا جائزہ لینا ہوگا جو اسلام کے اجنبی بن جانے کے بعد بتدریج مختلف ادوار میں تشکیل دیا گیا ۔ بہت خوش آئند اور حوصلہ افزا بات ہے کہ بڑے مدارس کے بڑے علماء کرام و مفتیان عظام نے ہماری تحریک کو دل سے پسند کرنا شروع کیا ہے۔اُمید ہے کہ اعلان کردینگے۔
خواتین معاشرے کا پسا ہواکمزور ، مجبوراور مظلوم طبقہ ہے، جن پر حق حکمرانی کادرست تصور پیش کیا جائے اور بدترین جابرانہ غلامی اور ظلم سے نکالا جائے تویہ اسلامی انقلاب اور دنیا کو جبرو ظلم کے نظام سے نکالنے کا بہترین آغاز ہوگا۔

طلاق

شوہر نکاح کے بعد ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے تو نصف حق مہر دینا اللہ کا قانون ہے اور عورت پر عدت بھی نہیں ۔ مکان ، دکان، پلاٹ وغیرہ لیا جاتا ہے تو پانچ دس فیصد سے بھی کم بیانہ ہوتا ہے۔ اللہ نے نصف حق مہر کا بیانہ مقرر کرکے خواتین کے حقوق اور عزت کی کتنی پاسداری کی ؟ ۔ اگر نکاح پر آدھا حق مہر ہو تو ہمبستری پر پورے حق مہر سے انکارکون بدفطرت کرسکتا ہے؟۔ مردوں کیلئے عورتوں پر اس سے بڑا درجہ کیاہے کہ نکاح یا ملاپ پر جدائی کے اثر کا خمیازہ عورت کو بھگتنا پڑتا ہے اسلئے مردوں پر اس کی وجہ سے حق مہر کا جرمانہ عائد ہے اور صنف نازک نے اگر مغالطہ کھایا ہو تو اس کا معاوضہ بھی مقرر کیا گیا ہے۔
ترقی یافتہ مغربی ممالک میں یہ قانون ہے کہ باقاعدہ نکاح کے بعد عورت کو بھی طلاق کا حق حاصل ہے اور طلاق کے بعد مرد کو آدھی جائیداد سے محروم ہونا پڑتا ہے۔ یہ رسک لینے کے بجائے گرل و بوائے فرینڈز کی صورت میں معاشرہ تباہی کے کنارے پر پہنچ چکا ہے۔ ایک پاکستانی نے امریکہ میں نکاح کے بعد لڑکی کی طرف سے طلاق کا سامنا کیا اور آدھی جائیداد گنوادی تو پھر دوسری لڑکی سے باقاعدہ نکاح کے بجائے ایگریمنٹ کرلیا۔ جس سے اس کے کئی بچے بھی ہیں۔ ایگریمنٹ میں مرد اور عورت کے علاوہ بچوں کیلئے بھی اطمینان بخش ماحول نہیں ہوتا۔ ایک دوسرے پر اعتماد کا فقدان ہو تو معاشرے کی حالت اتنی بہتر نہیں ہوسکتی ہے۔ مغربی معاشرہ بے اطمینانی کی اس کیفیت سے دوچار ہوا ہے۔
اگر قرآن و سنت کے مطابق حق مہر کی ایک معین مقدار ہو اور خلع و طلاق کی صورت میں اس رقم کومحور قرار دیا جائے تو ایگریمنٹ کے بجائے اعتماد کیساتھ نکاح کا ماحول قائم ہوگا۔ قرآن میں یہ وضاحت ہے کہ’’ شوہر کے ہاتھ میں نکاح کا گرہ ہوتا ہے‘‘۔ اس کا مفہوم بالکل غلط لیا گیا ہے کہ عورت کو خلع کا حق حاصل نہیں ۔ اس آیت کا سیاق و سباق اور لب لباب یہ ہے کہ علیحدگی کی صورت کا ذمہ دار شوہر ہوتا ہے۔ عورت خلع لے یا مرد طلاق دے دونوں صورتوں میں اس کی ذمہ داری مرد ہی پر پڑتی ہے۔ عورتیں اپنی خفیہ رازداری،عزت ونفس کو شوہر کے حوالے کردیتی ہیں تو ان کی طرف و اخذن منکم میثاقا غلیظا (اور انہوں نے تم سے پختہ عہد و پیمان لیا ہے)اس مضبوط نکاح کی نسبت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اور اگر تم ایک بیوی کے بدلے دوسری بیوی سے نکاح کرنا چاہتے ہو اوران میں سے کسی ایک کو ڈھیر سارا مال دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو۔ کیا تم بہتان لگا کر اور کھلا گناہ کرکے واپس لو گے ؟ ۔اور آخر تم کیسے واپس لے سکتے ہو جبکہ تم ایکدوسرے سے قربت اختیار کر چکے ہواور ان عورتوں نے تم سے پکا عہد و پیمان لیا ہے۔ (سورہ نساء: آیت21-20)
شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے سودی بینکاری سے بد حواس ہونے کا دنیا میں بھی مظاہرہ کیا ہے اور اپنے ترجمہ میں ’’بہت سارا حق مہر‘‘ لکھ کر بد بختی کی ہے۔ طلاق کی صورت میں عورت کو صرف حق مہر نہیں دینا پڑتا بلکہ جو چیز بھی دی ہو ، چاہے خزانے دئیے ہوں تب بھی کوئی چیز واپس نہیں لی جاسکتی ہے۔ عورت سے کئی بچے جنوانے کے بعد اسکا سیٹ اپ خراب کرنے کی اجازت نہیں ۔ گھر اصل میں عورت ہی کا ہوتا ہے ۔ نبی کریم ﷺ کے حجرات کی نسبت اُمہات المؤمنینؓ کی طرف تھی۔ گنبد خضرا ء حضرت عائشہ صدیقہؓ کا حجرہ تھا۔ حضرت عمرؓ بھی ان کی اجازت سے وہاں مدفون ہیں۔ مغرب میں جائیداد کا آدھا تصور غلط ہے لیکن اسلام نے یہ تصور دیا ہے کہ اگر پوری جائیداد بھی بیوی کو دی ہو تو طلاق کے بعد اس سے آدھی بھی نہیں لی جاسکتی ہے۔ البتہ خلع کی صورت میں عورت کو اپنا سیٹ اپ بدلنا پڑتا ہے ، گھر اور جائیداد لے جانے کی چیز نہیں ۔ ہاں لے جانے والی چیزیں لے جانے میں اس پر کوئی قدغن نہیں ہے۔ فحاشی کی صورت میں خلع و طلاق کی صورتحال بدل جاتی ہے مگر ان کو حق سے محروم کرنے کیلئے جھوٹا الزام لگانا بہت بڑی زیادتی اور بے غیرتی ہے جس کی نشاندہی کی گئی ہے۔
سورہ بقرہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے وضاحت فرمائی ہے کہ طلاق کی صورت میں ان سے کوئی چیز واپس لینا جائز نہیں جو کچھ بھی ان کو دیا ہے۔ (آیت 229) اور سورہ طلاق میں بھی گھر کی نسبت عورت کی طرف کی گئی ہے ۔لا تخرجوھن من بیوتھن ولا یخرجن الا ان یاتین بفاحشۃ مبینتۃ (ان کو ان کے گھروں سے مت نکالواور نہ وہ خود نکلیں مگر یہ کہ وہ کھلی فحاشی میں مبتلا ہوں)۔ یہ کونسا اسلام ہے کہ دس بچے جنوا کر بڈھی کو اسوقت اسکے باپ کے گھر بھیجا جائے جب اس کے والدین بھی انتقال کرچکے ہوں۔ شریف لوگ ایسا کرتے نہیں ہیں لیکن جب رذیلوں کو بھی اسلامی قوانین کا پتہ چل جائے تو اخلاقیات کا وہ نظام قائم ہوگا جسکی طرف پوری دنیا میں سب کے سب لوگ راغب ہونگے۔
مرد اپنی طاقت کے زعم میں بڑا نامراد ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب بیوی کو خلع کا حق دیا ہے تو یہ قرآنی آیت پورے معاشرے پر اچھی طرح سے واضح کرنا چاہیے۔ چونکہ مرد اپنی طاقت کی بنیاد پر ماحول ، شریعت اور قانون کو بھی اپنے حق کیلئے استعمال کرتا ہے اسلئے عوام کی نظروں سے قرآن کی آیت اجنبی بنادی گئی ہے۔ طاقتور مرد ایسی صورت میں جب وہ کبھی رجوع بھی نہیں کرنا چاہتا ہو تو پھر بھی اپنی طلاق شدہ عورت کو دوسرے شوہر سے نکاح کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ اسلئے اللہ تعالیٰ نے بڑے واضح الفاظ میں اس صورتحال کو بیان کرتے ہوئے یہ حکم جاری کیا ہے کہ اس طلاق کے بعد پہلے شوہر کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی دوسرے شوہر سے نکاح کرلے۔( البقرہ : آیت 230)۔ لیکن اس سے پہلے کی آیات میں اور متصل دوسری آیات میں اللہ تعالیٰ نے بار بار وضاحت کی ہے کہ عدت کے اندر بھی اصلاح کی شرط پر رجوع ہوسکتا ہے ، عدت کی تین مراحل سے تین مرتبہ طلاق کا تعلق ہے اور عدت کی تکمیل کے بعد بھی رجوع کا دروازہ اللہ تعالیٰ نے بالکل کھلا رکھا ہے۔ سورہ بقرہ کی آیات 224سے 232 اور سورہ طلاق کی پہلی دو آیات میں کوئی تضاد نہیں۔ احادیث صحیحہ سے بھی قرآن کا کوئی تضاد نہیں، بخاری کی حدیث میں ذائقہ چکھنے کی روایت صرف اس صورت میں ہے کہ جب عورت کی عدت ختم ہوچکی ہو، نکاح منقطع ہوچکا ہو، عورت نے دوسرے شوہر سے شادی کرلی ہو۔ اس کیساتھ خلوت صحیحہ اختیار کی ہو۔یہ ضروری نہیں کہ عورت پہلے شوہر کے پاس جانا چاہتی ہو تو وہ بھی قبول کرلے۔ سب امور کو مدِ نظر رکھ حدیث کی تشریح کرنی چاہیے ۔ صحابہؓ روزوں میں رات کوبیوی سے مباشرت کو ناجائز سمجھ کر بعض خود سے خیانت کرتے تھے۔ اللہ نے واضح کردیا کہ روزے کی رات کو مباشرت جائز ہے، البتہ مساجد میں معتکف ہوتو مباشرت جائز نہیں۔پہلے لوگوں نے حقائق سے تجاوز کیا۔ پہلے آخری عشرے میں معتکف کیلئے مباشرت جائز نہ تھی پھر آخری عشرے میں مباشرت کو ناجائز کہا پھر بات یہانتک پہنچی کہ پورے رمضان کو بھی اس میں شامل کرلیا۔ اللہ نے مساجد میں اعتکاف کی طرح طلاق پر حلال نہ ہونے کو واضح کیا۔ سورۂ طلاق کے حوالہ سے اُم رکانہؓ سے تین طلاق کے باجود بھی ابورکانہؓ کو نبیﷺ نے رجوع کا حکم دیا تھا۔

نکاح ومتعہ

نکاح مرد کی طرح عورت کی بھی ضرورت ہے۔ محرمات کی فہرست کے بعد پانچویں پارہ میں ہے و احل لکم ما وراء ذالکم ان تبتغوا باموالکم محصنین غیر مسٰفحین فما استمتعتم بہ منھن فاٰتوھن اُجورھن فریضۃ ولا جناح علیکم فیما تراضیتم بہ من بعد الفریضۃ ان اللہ کان علیمًا حکیمًاO’’حلال ہیں تمہارے لئے انکے علاوہ باقی خواتین کہ تلاش کرواپنے اموال کے ذریعے نکاح کی قید میں لاتے ہوئے نہ کہ خرمستی کرتے ہوئے اور جنہوں نے تم میں سے متعہ کیا تو ان کا مقرر کردہ معاوضہ دواور تم پر گناہ نہیں کہ طے شدہ معاوضہ کے بعد آپس میں جس پر تم راضی ہوجاؤ، بیشک اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔‘‘(النساء:24) ا بن مسعودؓ نے یہ اضافہ لکھ دیا کہ فمااستمتعتم بہ الی اجل مسمیٰ’’جس نے ایک مقرر مدت تک متعہ کیا‘‘۔ جلالین میں اضافی تفسیر کی طرح ابن مسعودؓ نے بھی لکھی تھی۔ صحیح مسلم میں بھی ابن مسعودؓ نے متعہ کو حلال قرار دینے کیلئے آیت کا حوالہ دیا ہے جبکہ میں نبیﷺ نے ہی آیت کا حوالہ دیا ۔(بخاری) والٰتی یاتین الفاحشۃ من نسائکم فاستشہدواعلیھن اربعۃ منکم فان شہدوا فامسکوھن فی بیوت حتٰی یتوفٰھن الموت او یجعل اللہ لھن سبیلًاO ’’اور جو فحاشی کی مرتکب ہوں تمہاری عورتوں میں سے توان پر چار افراد اپنے میں سے گواہ طلب کرو، اگر گواہی دیں تو ان کو گھروں میں بند کرو۔ یہانتک کہ وہ مریں موت سے یا ان کیلئے اللہ کوئی راہ نکال دے‘‘( النساء: 15) ۔تفسیر عثمانی میں ہے کہ ’’پہلے زنا کیلئے کوئی حد نہیں تھی اسلئے عورت کو گھر میں محصور کرنے کا حکم آیا۔ پھر سورۂ نور میں زنا کی حد نازل ہوئی ۔ شادی شدہ کیلئے سنگساری، غیرشادی شدہ کیلئے 100کوڑے‘‘۔ حالانکہ حقائق اسکے منافی ہیں، ایک طرف جب اللہ نے متعہ کی اجازت دیدی اور اس متعہ کو ملکت ایمانکم کا نام دیدیا۔ تفسیر عثمانی میں ہے کہ’’ لوگ شادی شدہ بیگمات سے شادی کرنے کو پسند کرتے تھے‘‘ غلط تفاسیر کیوجہ سے عوام وخواص، علماء اور مشائخ قرآن مجیدسے دور ہوگئے۔
قرآن کی تفسیر کیلئے عربی، قرآن کے الفاظ اور احادیث صحیحہ کی رہنمائی بہت ضروری ہے۔ یہ بات بالکل غیر فطری ہے کہ غیر شادی شدہ جوان لڑکیوں کو چھوڑ کر بیگمات کی طرف کسی کا رحجان ہو۔ محصنات بیگمات اور فتیات جوان لڑکیوں کو کہتے ہیں۔ وہ جوان لڑکیاں جو لونڈیاں ہوں یا جن کی متعہ کرنے کی عادت رہی ہو۔ ان کے مقابلے میں طلاق شدہ وبیوہ بیگمات کو بھی ترجیح دی جاتی ہے۔ فرمایا :ومن لم یستطع منکم طولًاان ینکح المحصنٰت المؤمنٰت فمن ما ملکت ایمانکم من فتےٰتکم المؤمنٰت واللہ اعلم بایمانکم بعضکم من بعض فانکحوھن باذن اہلھن واٰتوھن اجورھن بالمعروف محصنٰت غیر مسٰفحٰت ولامتخذان اخدان فاذا احصن فان اتین بفاحشۃ فعلھین نصف ما علی المصحنٰت من العذاب ذلک لمن خشی العنت منکم وان تصبروا خیر لکم واللہ غفور رحیمO
نکاح کیلئے طلاق شدہ وبیوہ بھی جوان لونڈی یا متعہ والی سے بہتر ہے لیکن جب میسر نہ آئے تو لونڈی و متعہ کرنے والی سے بھی مستقل نکاح کیا جاسکتا ہے۔ بعض بعض سے ہیں۔اللہ ایسے لوگوں کا ایمان جانتا ہے۔ نکاح اسکے سرپرست یا مالک کی اجازت سے ہو۔ مقصد نکاح ہو ، نہ کہ خرمستی اور نہ چھپی یاری۔ جب وہ نکاح کی قید میں لائی جائے تو اگروہ کھلی ہوئی فحاشی کی مرتکب ہوں تو ان کو نصف سزا دی جائے جو عام شادی شدہ خواتین کیلئے مقرر ہے۔ یہ سزا اس لئے ہے کہ جس کو مشکل میں پڑنے کا اندیشہ ہو۔ سزا کے بغیر آوارہ بن سکتی ہو لیکن اگر تم صبر کرو، یعنی سزا نہ دو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ اللہ غفور رحیم ہے۔( النساء:25)
زنا کی سزا یہود کے ہاں شادی شدہ کیلئے سنگساری تھی مگر عمل نہ کرتے تھے۔ پیسہ کے لین دین سے سزا کو معاف کردیتے تھے۔ جس طرح قبلہ اول کی طرف پہلے نماز پڑھی جاتی تھی اسی طرح جو احکام نازل نہیں ہوئے تھے ان کی رہنمائی یہود کی کتاب سے لی جاتی تھی۔ شروع میں نبیﷺ نے اس پر مسلم و غیر مسلم اور مرد وعورت سب پر یہ سزا نافذ کردی ۔غیرشادی شدہ کیلئے 100کوڑوں کے علاوہ ایک سال جلاوطنی کی سزا بھی تھی لیکن سورۂ نور نے ان خرافات کا قلع قمع کردیا۔ البتہ زنا بالجبر کیلئے رسول اللہ ﷺ نے سنگساری کی سزا رکھی تھی۔ قرآن کا بھی حکم نہ صرف قتل کا ہے بلکہ سابقہ امتوں کے حوالہ سے بھی یہی وضاحت ہے۔
سورۂ النساء کی اگلی آیات میں بھی بھرپور وضاحت ہے کہ یہ احکام واضح طور پر اسلئے بیان کئے جاتے ہیں تاکہ پہلے لوگوں کی راہ بھی تمہیں معلوم ہوجائے اور ہدایت مل جائے اور اللہ تمہاری توبہ کو قبول کرلے، انسان کو ضعیف پیدا کیا گیاہے اور اللہ چاہتا ہے کہ تم پر سے بوجھ ہلکا ہوجائے۔ پھر اگلے نے یہ وضاحت بھی کی تھی کہ ’’ اگر اہل کتاب پر ہم اپنی جانوں کا قتل اور جلاوطنی لکھ چکے ہوتے تو اس پر وہ عمل نہ کرتے مگر ان میں سے کم لوگ‘‘۔ یعنی اللہ نے زنا پر قتل اور جلاوطنی کی سزا لکھی نہیں تھی اگر لکھ بھی دیتے تو بہت کم لوگ اس پر عمل کرتے۔ صحابہ کرامؓ نے خود کو حدود جاری کرنے کیلئے پیش کیا تھامگراللہ نے سخت احکام نازل نہیں کئے۔
شاہ ولی اللہؒ نے قرآن کا فارسی اور آپکے صاحبزادوں نے اردو ترجمہ کرکے ہم سب پر احسان کیا لیکن ان کی ہربات کو درست اور معیار قرار دینا فکر ولی اللٰہی والوں کی بہت بڑی حماقت ہے۔ امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے زیادہ تر حماقتوں میں اضافہ ہی کیا ہے لیکن اس کی وجہ سے ان کے مقام ومرتبہ پر اثر نہیں پڑتاہے۔ شاہ ولی اللہؒ کا خاندان علماء دیوبندؒ کی خدمات سے انکار ممکن نہیں ہے مگر قرآن وسنت کے داعی ہونا الگ بات ہے اور اسکے تقاضوں پر عمل الگ ہے۔
شاہ ولی اللہؒ نے لکھ دیا کہ ’’ اللہ نے صحابہؓ سے خلافت کا وعدہ کیا تھا جو صرف تین ابوبکرؓ، عمرؓ اور عثمانؓ سے پورا ہوا۔ عربی میں جمع کا اطلاق تین پر ہوتاہے ۔ علیؓ سے اللہ کا وعدہ پورا نہ ہوا جو خلافت اور خوف سے امن کیلئے ہوا تھا‘‘ حالانکہ جب حضرت عثمانؓ کا بھی 40دن تک محاصرہ کرکے شہید کیا گیا ، حضرت علیؓ تو پھر بھی مسجد میں جاتے ہوئے دہشت گردی سے شہید کئے گئے تو یہ لکھنا بڑی حماقت تھی اوراللہ نے افراد نہیں قوم کیساتھ وعدہ کیا تھا۔ مسلمان صدیوں تک سپر طاقت ہی رہے تو اللہ نے صحابہؓ، تابعینؒ ، تبع تابعینؒ ، بنی امیہ، بنوعباس اور عثمانی خلافت کی حد تک اپنا وعدہ پورا کیا، البتہ مسلمانوں نے قرآن سے انحراف کیااور پستی وذلت ان کا مقدر بن گئی۔ آج بھی افغانستان اور شام میں اپنوں کے ہاتھوں خوار ہیں۔
امریکہ غیر ملکی بچوں کو شہری حقوق دیتا ہے ، روس سے خواتین اسلئے بچے جننے کیلئے امریکہ پہنچتی ہیں۔ امریکہ نے ڈیلیوری کے اخراجات کو اپنا اثاثہ بنایا ہے ۔ مسلمان ممالک میں دوسرے مسلمان غلاموں کی طرح زندگی گزارتے ہیں اور مولانا سندھیؒ نے بھی نا سمجھی سے اسکی تائید کی ہے۔ انسانی حقوق کی وجہ سے اب مغرب انسانیت کی امامت اور مسلم ممالک ان کی غلامی کررہے ہیں۔ معاشرتی اقدار اور احکام جو قرآن نے دئیے ہیں اسی سے انسانیت کو آزادی ملے گی۔ عتیق

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور پی ٹی ایم کے منظور پشتین: تحریر محمد اجمل ملک ایڈیٹر نوشتہ دیوار

arm-chief-journal-qamar-jawed-bajwa-ptm-mnzoor-pashteen-editor-muhammad-ajmal-malik-supreme-court-marvi-memon-irshad-bhatti-hasan-nisar-abdul-haseeb-mqm-ayoub-khan-panama-leaks-isi

انسان ماحول سے بہت متأثر ہوتا ہے۔ بدر واُحد اور صلح حدیبیہ کا ذکر قرآن وسنت میں جلی عنوانات کیساتھ موجود ہے۔ قرآن وسنت مسلمانوں کیلئے عمومی طور پر اور پاکستانیوں کیلئے خصوصی طور پر مشعلِ راہ ہونے چاہیے۔ گھر بار چھوڑ کربے سر وسامانی کی حالت میں ہجرت کرنیوالے صحابہؓ نے نبیﷺ کی قیادت میں تاریخ کا دھارا بدل دیا تھا۔ حال میں سپریم کورٹ کی ججمنٹ میں قرآن کی آیات کا حوالہ بھی دیا گیاہے اور 100 بااثر شخصیات پر معروف مصنف کی معروف کتاب کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ جب تک درست پسِ منظر پیش نہ ہو بات سمجھ نہیں آسکتی ہے، کسی چیز کے ادراک کیلئے ماحول سمجھنا ضروری ہے۔
امتحان اگر معلوم ہو تو امتحان نہیں ہوتا۔ ساری زندگی جس طرح اداروں کے احترام میں نوازشریف نے کھپائی ہے، اس کا منظر روز مختلف چینلوں پر عوام دیکھتے ہیں۔ جب افتخار احمد کی طرف مریم نواز کے حوصلے، جرأت اور شاطربیانی کو داد دی گئی تو ارشاد بھٹی نے ماروی میمن کے پروگرام میں کہا کہ میں خود بھی پنجابی ہوں مگر اس ڈھٹائی پر مجھے شرم آتی ہے، یہ کونسا طرزِ عمل ہے کہ دن رات جھوٹ بولو، اداروں کو کرپشن پر قربان کردو۔
ایک دوسرے ٹی وی چینل پر حسن نثار نے سرائیکی صوبے کے حوالہ سے کہا کہ ’’ ایم کیوایم کے عبدالحسیب نے صوبوں پر کتاب لکھی تھی جس کو پڑھنے کے بعد میں نے کئی کالم بھی لکھے اور میں نجیب الطرفین پنجابی ہوں ، میری والدہ اور والد دونوں پنجابی ہیں لیکن مجھے شرم آتی ہے کہ بنگلہ دیش سے ہم نے سبق نہیں سیکھا‘‘۔ پنجاب کے ان باسیوں کے علاوہ وسعت اللہ خان، مبشر زیدی اور ضرار کھوڑو جیسے لوگ ایک مخصوص نظام اور مخصوص ذہنیت سے بہت مایوس ہیں لیکن اپنی سی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اچھے لوگوں کو سلامت رکھے۔
سرائیکی صوبے کی ڈیمانڈ اسلئے درست نہیں کہ وہ پسماندہ ہیں ، پسماندگی پر سندھ کے تھر اوربلوچستان کے پسماندہ بہت سے علاقوں کو صوبہ بنانے کی تجویز آسکتی ہے بلکہ پنجاب ملک کا 60 سے 65 فیصد ہے۔ باقی صوبوں یا علاقوں سے وزیراعظم منتخب ہوتا ہے تو وہ 35سے 40فیصد کا حکمران ہوتا ہے پنجاب کا وزیراعلیٰ 60 سے 65فیصد پر حکومت کرتاہے۔ پاکستان کا توازن برقرار رکھنے کیلئے صرف یہ ضروری نہیں کہ پنجاب کے کم ازکم 2 صوبے بنائے جائیں بلکہ اٹک سے بھکر تک پختونخواہ میں شامل کیا جائے۔ ڈیرہ غازی خان کاکچھ علاقہ اور آبادی کو بلوچستان میں شامل کیا جائے۔ کچھ علاقے کو سندھ کا حصہ بنایا جائے اور اسلام آباد سے دارالخلافہ اور پنڈی سے GHQ بھی پاکستان کے مرکز میں میں منتقل کیا جائے۔ تاکہ کوئٹہ لاہور اور پشاور کراچی کیلئے درمیانی اور مرکزی جگہ ہو۔ قائداعظم کے وقت میں ملتان کو دارالخلافہ بنایا جاتا تو جنرل ایوب خان اس کو ہزارہ کے قریب اسلام آباد منتقل کرنے کی زحمت نہ کرتے۔
پاکستان میں تمام دریاؤں کو ڈیم بنایا جاسکتا ہے اور سیورج کے گٹرکو بھی پینے کے پانی سے الگ کیا جاسکتاہے۔ سستی بجلی بھی پیداکی جاسکتی ہے اور آئندہ سب سے بڑی ترجیح یہی ہو۔
رسول اللہ ﷺ نے صحابہؓ کی مشاورت سے مشرکین کا شام سے آنیوالے قافلے کو لوٹنے کا پروگرام بنایا۔بہت کم تعداد میں معمولی اسلحہ کیساتھ جب مطلوبہ مقام پر پہنچے تو قافلہ نکل چکا تھا اور کئی گنا بڑا لشکر مقابلے کیلئے موجود تھا۔ اس امتحان میں صحابہؓ اور نبیﷺ نے اللہ سے خوب دعائیں مانگیں۔ اللہ نے فرمایا کہ لڑانے کیلئے میں نے دونوں کو ایکدوسرے سے کم دکھایااور ایسا نہ کرتا تو تم لڑنے سے گریز کرتے۔ تلواروں کے سامنے جانا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں ہوتا۔ ہمارے ریٹائرڈ دفاعی تجزیہ نگار بن کر ٹی وی اسکرین پر نظر آتے ہیں مگران کی ٹرینگ فوجی ہوتی ہے،ان کو نیٹو اور طالبان کے درمیان پیرا شوٹ سے اتار دیا جائے تو پتہ چل جائیگا کہ یہ کس کا ساتھ دیتے ہیں۔ ٹی وی پر پھسکڑیاں مارنے سے کچھ نہیں ہوتا، میدان میں پتہ چلتاہے۔
بدر کے میدان میں اللہ نے فرشتوں کے ذریعے بھی مدد کی اورموسمی حالات بھی مسلمانوں کے موافق کردئیے۔ 313 مجاہدین نے ہزار کو بدترین شکست دیدی۔70مار دئیے اور 70کو قیدی بنالیا۔ مدینہ میں مشاورت ہوئی کہ قیدیوں سے کیا سلوک کرنا ہے۔ حضرت عمرؓ اور حضرت سعدؓ نے مشورہ دیا کہ جو جس کا قریبی رشتہ دار ہے وہ اس کو قتل کردے۔ باقیوں نے یہ مشورہ دیا کہ اپنی قوم کے افراد ہیں، کل ان کو ہدایت بھی مل سکتی ہے۔ ہمیں مال کی ضرورت بھی ہے، فدیہ لیکر چھوڑ دیتے ہیں۔
نبیﷺ کو فدیہ کا مشورہ پسند آیا۔ پھر اللہ نے وحی اتاری کہ ’’نبی (ﷺ) کیلئے یہ مناسب نہیں کہ آپکے پاس قیدی ہوں، یہانتک کہ زمین میں خوب خون بہاتے۔ تم دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے۔ اگر پہلے سے اللہ لکھ نہ چکا ہوتا تو بہت سخت عذاب نازل کردیتا۔ جن لوگوں سے فدیہ لیکر چھوڑ دیاہے اگر انکے دل میں خیر ہے تو اللہ اس سے زیادہ ان کو دیگا اور اگر انکے دلوں میں خیانت ہے تو اللہ ان سے پھر نمٹ لے گا‘‘۔
نبیﷺ زار وقطار رورہے تھے کہ مجھے نازل ہونے والے عذاب کا نقشہ بھی اللہ نے دکھا دیا ، اگر عذاب نازل ہوتا تو عمرؓ اور سعدؓ کے علاوہ کوئی نہیں بچتا۔ کہاں وہ بدر کا غزوہ اور کہاں یہ نوازشریف، اسکی صاحبزادی اور حواریوں کی جنگ؟۔ اللہ کی طرف سے ٹھیک فیصلہ آیا کہ پہلے شام کے قافلے سے جو جنگ شروع کی تھی ،اب اسکو فدیہ لینے پر ختم کررہے ہو؟ ن لیگ نے تو لندن کے فلیٹ ، پانامہ کی دولت اور نہ جانے کیا کیا 22 کروڑ عوام کیلئے بنایا ہے ۔ اب بھی عوام کی جنگ لڑرہے ہیں۔
قرآن وسنت کی تعلیمات اسلئے ہیں کہ جب صحابہؓ نے شام کے قافلے کا قصد کیا، فدیہ لینے کا مشورہ دیا اور اللہ نے کہا کہ تم دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتاہے تو کسی اور کیلئے اس بات کی گنجائش باقی رہتی ہے کہ مجھے ذات کیلئے نہیں عوام کیلئے جنگ لڑنی ہے۔ ارے تمہارے رائیونڈ کے محل، پانامہ کی دولت اور لندن کے فلیٹ وغیرہ سے بہترین ہسپتال، تعلیمی ادارے ، بجلی بنانے اور دیگر اشیاء کے کارآمد کارکانے بن سکتے تھے۔ مگر تم نے اپنا خیال رکھا۔ ساری زندگی جن سازشوں میں گزاری اس کی بیماری ہوگئی ہے ، سازش کوئی بھی نہیں کررہا ہے۔
نبیﷺ اور صحابہؓ نے وحی کے بعد محسوس کیا کہ اس دفعہ وہ ہاتھ آگئے تو نہیں چھوڑنا ہے۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ غزوۂ احد کی باری آگئی اور مسلمانوں کو سخت تکلیف پہنچنے کا سامنا ہوا، صحابہؓ میں بعض بھاگے۔ اللہ نے فرمایا:ومامحمد الا رسول قد خلت من قبلہ رسل أفان مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم ’’ اور محمد کیا ہیں مگر ایک رسول، آپ سے پہلے رسول گزرچکے ہیں ،اگر آپ فوت ہوجائیں یا قتل کردئیے جائیں تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤگے؟‘‘۔ نبیﷺ اور صحابہؓ نے کہا کہ ہم سخت انتقام لیں گے، حضرت امیر حمزہؓ کے بدلے 70کے ساتھ ایسا برتاؤ کرینگے۔ اللہ نے فرمایا: اگر تمہیں زخم پہنچا ہے تو اس سے پہلے ان کو بھی پہنچا ہے۔ کسی قوم کے انتقام کا جذبہ اس حد تک نہ لے جائے کہ اعتدال سے ہٹ جاؤ۔ اگر ان کو معاف کردو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے بلکہ معاف ہی کردو اور معاف کرنا بھی تمہارے لئے اللہ کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
شریف برادری کی اصلاح اس وقت ہوگی جب کوئی ان کا فرد کہہ دے کہ آصف علی زرداری نے بھی تو 11سال جیل میں گزاردئیے۔ سعودیہ میں سہیل وڑائچ سے کہا کہ ISIکے کہنے پر غلطی کی تھی اور پھر پیٹ پھاڑ کر، سڑکوں پر گھسیٹ کر اور چوکوں پر لٹکاکر سزائیں دینے کے اعلان کئے تھے۔ جب وہی زبان عمران خان نے استعمال کی تو تمہیں اخلاقیات یاد آگئے۔ فیصلہ چوکوں کے بجائے عدلیہ لے جانے کی تجویز بھی خود پیش کی تھی حالانکہ عاصمہ جہانگیر نے کہا تھا کہ عدالت کے دلدل میں نہیں پھنسنا چاہیے تھا۔ پارلیمنٹ میں جھوٹی تقریر کرنے کی ضرورت کیا تھی؟، جن سوالات کے جوابات مانگے گئے تھے وہ اب بھی دیدینا تو اگر سچے ہو تو عوام کی عدالت میں سرخرو ہوجاؤ گے۔
یہ بات عوام کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بدر کے فدیہ پر اسلئے ڈانٹ پڑی تھی کہ صحابہؓ کو کتاب کی تعلیم دینی تھی، انکا تزکیہ کرنا تھا اور حکمت کی تعلیم دینی تھی۔ حکمت یہی تھی کہ اللہ نے فدیہ کو رد نہیں کرنا تھا بلکہ مشرکوں کے دل میں خوف بٹھانا تھا کہ آئندہ نبیﷺ نے بھی معاف نہیں کرنا ہے۔ غزوہ احد میں اللہ نے پھر صبر وتحمل کی تعلیم دی۔ پھر اللہ نے خواب میں دکھایا کہ مکہ میں عمرہ کیلئے جاتے ہیں۔ نبیﷺ کے خواب پر ایمان رکھ کر صحابہؓ نے عمرے کیلئے احرام باندھے۔ حدیبیہ کے مقام پر پہنچے توکچھ اور معاملے کا سامنا ہوا۔ جنگ کی خواب و خیال میں بھی تیاری نہ تھی ۔ عبادت کی غرض سے آئے تھے لیکن ان کو خبر دی گئی کہ ان کا سفیر حضرت عثمانؓ شہید کردئیے گئے ہیں۔ ایسی حالت میں جنگ کیلئے مجبور ہونا کس قدر آزمائش تھی؟۔ نبیﷺ نے ایک درخت کے نیچے بدلہ لینے کی بیعت لی۔ اللہ نے وحی اتاری کہ جن لوگوں نے آپکے ہاتھ پر بیعت کی ہے انکے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ تھا۔اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔
پھر حضرت عثمانؓ کی شہادت کی افواہ جھوٹی نکلی۔ صلح حدیبیہ کا معاملہ ہوا، جس کو اللہ نے فتح مبین قرار دیا، حالانکہ صحابہ کرامؓ کے جذبات بالکل مختلف تھے۔ پھر وہ دن بھی دیکھنے کو مل گئے کہ حضرت عثمانؓ کو مدینہ میں تختِ خلافت پر شہید کیا گیا۔
انسان ماحول سے متأثر ہوتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ اس کو درست معلومات بھی مل جائیں اور فیصلہ بھی درست کرلے۔ یہ معلومات مقدمہ کے طور پر بیان کررہا ہوں تاکہ آرمی چیف اور پشتون تحفظ موومنٹ کے درمیان کسی غلط فہمی کے نتیجے میں قوم کا نقصان نہ ہو۔ نوازشریف اور عمران خان کی شخصیات ہرگز اس قابل نہیں کہ ملک وقوم کو درست طرف لے جائیں۔یہ بڈھے بڈھے اب سیاست کی بجائے کوئی ریٹائرمنٹ والا کام کریں۔ سیاست میں جوان دماغ اور قابلیت کی ضرورت ہے۔ سیاست ایک تجارت بن گئی ہے۔ ڈراینگ روم سے باتھ روم کے لوٹوں تک بات پہنچ گئی ہے۔ کوئی شریف آدمی یہ ڈرامہ بازی نہیں کر سکتا ہے۔۔۔۔اور بہروپئے یہ کام کررہے ہیں۔ جسکے پاس جتنے شرمناک لوٹوں کی تعداد ہوتی ہے وہ اتنے اسٹار کالیڈر ہوتا ہے اسکے پیٹ اورپیٹھ پر اتنے لوٹوں کے نشان بنانے ہونگے ۔
روزوں میں بنوں والوں کا دماغ کام نہیں کرتا اور لوگ قتل ہوتے ہیں۔ ایک مرتبہ مسلح بدمعاش گروپ آیااور اعلان کیا کہ کون کہتا ہے کہ روزہ تنگ نہیں کرتا تو ان کی ماں بہن کی ایسی کی تیسی کردینگے۔ وہ گروپ گیا تو تھوڑی دیر میں دوسرامسلح جتھہ آیا اور اسی چوک پر اعلان کہ کون کہتا ہے کہ روزہ تنگ کرتاہے تو اس کی ماں بہن کی ایسی کی تیسی کردینگے۔ بنوں والوں کی مثال اب ہمارے فوجی بھائیوں پر پوری اترتی ہے۔ ایک نے سوشل میڈیا پر کہا کہ ’’ جنرل اشفاق کیانی انتہائی بے غیرت وبے ضمیر انسان تھا، حامد میر بھی CIA کا ایجنٹ ہے۔ ملالہ یوسفزئی کو امریکہ کے کہنے پر تیار کیا گیا۔ فوج میں بھی ایسے بے غیرت اور بے ضمیر عناصر تھے جنہوں نے جنرل اشفاق کیانی کا ساتھ دیا، اور ایک بڑے منصوبے کے تحت ملالہ یوسفزئی کو تیار کرکے بھیجا گیا لیکن جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل راحیل شریف کے اس پرتحفظات تھے، انہوں نے اس ڈرامہ کی مخالفت کی تھی‘‘۔ اس بیان کے بعد میجر عامر پنچ پیر صوابی کا ایک بیان آیا’’ جس میں وہ کہہ رہا ہے کہ میں نے گورنری ٹھکرادی۔ اغیار کے ایجنڈے پر جنرل راحیل شریف نے پٹھانوں کو قتل کیا، 4ہفتے میں جنگ ختم کرنے کا کہا تھا لیکن اب چار سال ہوگئے ہیں وہ خود سعودیہ میں چھپ کر بیٹھ گیا ہے۔ میں نے امریکہ کی سازش پر پٹھانوں کو قتل کرنے سے انکار کیا ، سب سے بڑا ظالم اور قاتل راحیل شریف تھا‘‘۔ دونوں طرف سے فوج ہی کو برا بھلا کہا گیاہے۔
پاکستان تحفظ موومنٹ کے نام سے ایک بریگڈئیر کا بیٹا یہ الٹی سیدھی تقریر کررہاتھا کہ جس کا کوئی ربط اور ضبط نہیں تھا لیکن ایک بات واضح تھی کہ ’’میں پشاور میں کھڑے ہوکر کہہ رہا ہوں کہ قوم کی بیٹی ملالہ نہیں ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہے‘‘۔ ٹھیک ہے لیکن اس میں فوج کے تحفظ اور بدظنی دور کرنے کی کوئی بات نہیں ہے اگر ملالہ ایجنٹ ہے تو بھی اشفاق کیانی اور فوج کو کریڈت جاتا ہے اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہیرو ہے تو بھی پرویزمشرف کے دور میں آرمی چیف نے اس کو امریکہ کے حوالہ کرکے اپنا منہ کالا کیا تھا۔ اس سے فوج کے بارے میں اچھا تأثر قائم نہیں ہوتاہے۔
جس طرح سیاستدان بے سُر کے ڈھول بجاتے ہیں اسی طرح فوجیوں کی تعریف کرنیوالے بھی بے پر کی اڑاتے ہیں اور اس کی وجہ سے ریاست اور سیاست دونوں کمزور ہوتے ہیں مگر جوان کے بچوں کو کوئی پرواہی نہیں ہے۔ پرتعیش کھانوں اور آرام دہ جگہوں سے اٹھ کر بحفاظت تقریریں کرنے والوں کی عقل بھی ماری گئی ہے ۔ قوم کو بنانے کیلئے قرآن وسنت سے ہی استفادہ کرنا پڑے گا۔ فوجی کیپٹن بھرتی ہوتا ہے اور آرمی چیف تک پہنچنے سے پہلے صرف آرڈر ہی کو سمجھتا ہے۔ کوئی وردی ہی کو اپنی کھال قرار دیکرپرویزمشرف کی طرح بیٹھ جاتا ہے تو اس کو اپنے حق کیلئے بھی سالوں سال تک اٹھانے کی ہمت نہیں کر سکتا ہے۔ جب آرمی چیف بن جاتا ہے تو آدھی آزاد نوکری سکتے میں گرزرتی ہے اور بقیہ ایک آدھ سال رہ جاتا ہے تو اسکے ریٹائرڈمنٹ کا وقت پورا ہونے لگتا ہے۔
پاکستان میں سیاسی قیادت کا بحران آیا ہواہے۔ PTM کی اتنی بڑی حیثیت نہیں کہ ا سے ملک کو خطرہ لاحق ہو۔ اس سے اعتدال پر لانے کیلئے وہاں کے عوام بھی اپنا کردار ادا کریں گے لیکن اس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ جو سیاستدان بہت پیسہ خرچ کرکے بھی باشعور عوام کو جلسے جلوس میں نہیں لاسکتے ہیں، یہاں کا ماحول دیکھنے کے بعد قوم میں ایک نیا ولولہ پیدا ہوگا۔ فوج کی طرف سے انکے کندھے پر بزرگوں کو ہاتھ رکھنے کا حکم دیا گیا تو جن کو ساری زندگی شعور نہیں مل سکا ہے وہ بھی سمجھ بوجھ لے لیں گے۔ درد مند وں کو پختون تحفظ موومنٹ کے ذریعے ڈھارس مل گئی تو پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں بھی عوامی تحریکوں سے لوگوں میں مایوسی کی فضا ختم ہوگی۔ کسی کے خلاف نفرتوں سے اسکے جذبے کارخ غلط راستے کی طرف مڑ سکتا ہے۔ اگردلوں میں بغض رہ جائے تو بھی یہ پوری قوم کا نقصان ہے۔
منظور پشتین کو محسودوں کی اجتماعیت بھی قبول نہیں کرسکتی۔ اگر محسودوں نے قبول کیا تو وزیر کہاں قبول کرینگے؟۔ وزیر بھی قبول کرلیں تو بیٹنی کہتے ہیں کہ محسود پیغمبر بھی بن جائے تو اس کو قبول نہیں کرینگے۔ وہ اعتماد بھی نہیں کرتے کہ یہ بک جاتے ہیں اور اس کے علاوہ محمود خان اچکزئی، اسفندیار ولی خان، مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق وغیرہ کہاں قبول کرینگے؟۔ منصوبہ انکے خلاف سیاسی جماعتوں کا تھا مگر فوج استعمال ہوگئی۔ ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ کو تعصبات کی بھینٹ نہیں چڑھنے دیں گے۔ پاک فوج انکے بارے میں اپنا رویہ بالکل بدل دے۔ یہ ایک فکروشعور کی تحریک ہے اور اسکے دل و دماغ کو بھی شعور وآگہی سے درست کیا جاسکتا ہے۔
بندوق کا مقابلہ بندوق اور فکر کا مقابلہ فکر سے کیا جاسکتاہے اور اگر کسی غیر ملکی فنڈنگ کا پتہ چلے تو کوئی مسئلہ نہیں ان سے وہ فنڈ چھینا جائے، ہماری ریاست کا قرضہ اس سے چکایا جائے ۔ اُوچھے ہتکنڈوں سے یہ ملک اس تباہی کے کنارے پہنچ چکا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان کیساتھ پٹھان اورمحسود ہی خاص طور پر ملوث تھے۔ منظور پشتیں کے گرد وہی لوگ دکھ، درد لیکر پہنچ جاتے ہیں جو کسی نہ کسی غلط سر گرمیوں میں ملوث تھے۔ عام عدالتوں سے سزائیں مل سکتی تھیں تو فوجی عدالتوں کا جواز نہیں ہوتا۔ یہ فوج ہی کمال ہے کہ پختونوں کو طالبان سے اب نجات دلانے میں بہت حد تک کامیاب ہوگئے ہیں، بلوچستان اور کراچی کا امن لوٹانے میں بھی پاک فوج نے تاریخ ساز کام کیا ہے۔ پختونوں، بلوچوں اور کراچی کے مہاجر عوام کو فوج کا بہت شکریہ ادا کرنا چاہیے۔آج بھی پاکستان کے شہری علاقوں سے پاک فوج کا رعب ودبدبہ اور دہشت ہٹ جائے تو اپنے معاشرے کی تباہی کیلئے بیرونی دشمن کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان کی ریاست میں پاک فوج واحد ادارہ جسے اللہ قیامت تک سلامت رکھے جس نے ریاست کے نظام کو سہارا دیاہے، طاقت کے بغیر کوئی ریاست ریاست کہلانے کے قابل نہیں۔
ہاں ریاست کو صرف طاقت کے بل بوتے پر کنٹرول کرنا بھی انتہائی غلط ہے، پھر آزادی نہیں غلامی کا تصور پیدا ہوتاہے اور جب پیپلزپارٹی ، ایم کیوایم اور اے این پی پر طالبان نے امریکہ کے ایجنٹ ہونے کا الزام لگادیا اور دہشت گردانہ حملے شروع کردئیے تو مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف طالبان سے عقیدت ومحبت اور یکجہتی کا اظہار کررہے تھے لیکن جب دہشتگرد اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف آپریشن شروع ہوا توبہت افسوس کیساتھ پیپلزپارٹی کے ڈاکٹر عاصم حسین پر سہولت کار کے الزامات لگائے گئے۔ جن مریضوں کو دہشت گرد بناکر پیش کیا گیا تھا تو میڈیا نے سروے میں بتایا کہ وہ بھی بالکل عام لوگ تھے جن کو پتہ بھی نہیں تھا کہ انہی پر دہشت گردی کاالزام لگاکر ڈاکٹر عاصم حسین کو تین ماہ کیلئے رینجرز اٹھاکر لے گئی ہے۔
بندے کے پاس مال شال ہو تو وہ ریمانڈ میں بھی مار نہیں پیار کھاتا ہے۔ ڈاکٹر عاصم نے بھی کہہ دیا کہ ہسپتال میں جو آتا ہے اس کا علاج کرنا ہمارا کام ہے، ہمیں نہیں پتہ کہ کون دہشت گرد ہے اور کون نہیں؟۔ البتہ قصور کے ایک بے قصور شخص نے پولیس تشدد سے چھوٹی بچی کیساتھ زیادتی اور قتل کا اعتراف کیا تو اس کو پولیس ہی نے قتل بھی کردیا اور اسکے بھائیوں رشتہ داروں پر مقدمات قائم کرکے خاموش بھی کردیا گیا۔ عوام کیلئے عدالت بھی کسی کام کی نہیں ۔ اداروں کی طرف سے زیادتی پر ایکشن تو بہت دور کی بات ہے، مظلوم کو پیشیاں بھگتنے میں بھی جان کے لالے پڑے ہوتے ہیں اسلئے کہ ہمارا معاشرتی نظام بھی بہت زیادہ گراوٹ کا شکار ہے۔ مشال خان کے والد جس طرح سے بے بسی کی تصویر بنے کھڑے رہتے ہیں اگر آرمی چیف ان کے سرپر ہاتھ پھیرنے چلے جاتے تو بہت سی جماعتیں کتیا کی طرح اقبال خان کے پاس دُم ہلاتی نظر آتیں۔ اب بھی پاک فوج کا ہی دبدبہ ہے ورنہ دوپولیس اہلکار ان کی کیا حفاظت کرتے؟۔
پختون تحفظ موومنٹ کے منظور پشتین بذاتِ خود ایک اچھا انسان ہے ، اس کے اردگرد جمع ہونے والوں کی اکثریت اچھے لوگوں کی ہے۔ ان میں محسود تحفظ موومنٹ سے پشتون تحفظ اور پھر مظلوم تحفظ موومنٹ میں بدلنے کی صلاحیت بھی ہے،کچھ ہی سڑیل، بدبوداراور متعصب لوگوں کا گھیرا اس تحریک کو نقصان پہنچارہاہے مگرخیر کی روشنی برائی کے اندھیرے پر غالب آسکتی ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے برخودار سارا دن فوج کی برائی کریں جس میں انکی پانچوں انگلیاں گھی میں تھیں۔ پرویزمشرف ہی کا پروردہ عمران خان فوج کی تعریف کرے تو فوج کی بھی آنکھ نہیں کھل سکتی ہے اور قوم بھی بتدریج خرابیوں کا شکار بنے گی۔
ماحول میں مشاورت اور مخالف رائے کو برداشت کرنے پر معاشرے کی اصلاح ہوتی ہے۔ امریکہ کردار سے سپرطاقت بنا ہے۔ بھارت نے من موہن سنگھ کے دور میں کھربوں ڈالر سے ایٹمی ٹیکنالوجی کا معاہدہ کیا اور ہم US AEDکے زکوٰۃ کی رقم کیلئے ترستے ہیں۔ فوج سے محبت رکھنے والا میڈیا یہی راگ الاپتا رہتا ہے کہ جمہوری حکمران امریکہ کے ایجنٹ ہیں اور ہمارا ڈی جی آئی ایس پی آر بیان دیتا ہے کہ ’’ امریکہ کو ہم نے مثبت انداز میں سپر طاقت بنایا‘‘۔ارے ! اتنی قربانی پر تو کشمیر آزاد ہوجاتامگر تمہارا دماغ نہیں ۔ قوم کی آزادی کیلئے آزاد عوام سے آزاد سیاسی قیادت کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان بننے سے پہلے بھی یہ ادارے فوج، عدلیہ، سول بیوروکریسی وغیرہ موجود تھے، پہلے انگریز کے ملازم تھے اور ملک آزاد ہوا تووہ بھی اس کی برکت سے آزاد ہوگئے۔ چیف جسٹس کسی بھی مثبت کام سے قابلِ تعریف بن سکتے ہیں لیکن نظام کو نہیں بدل سکتے۔ عراق کی عدلیہ صدام حسین کیساتھ کام کررہی تھی، جب امریکہ نے قبضہ کیا تو اسی عراقی عدالت نے صدام حسین کو پھانسی کے پھندے پر لٹکادیا۔ امریکہ کو مجاہدین اپنے جذبے سے نانی اماں کی یاد نہ دلاتے تو افغانستان، پاکستان اور اسلامی ممالک کو بڑی مشکل سے دوچار کرتے، قوم جذبہ جہاد سے زندہ رہ سکتی ہے، اداروں کا احترام بھی خوف نہیں بلکہ معروضی حقائق کی بنیاد پر لازم ہے اور ان کی غلطیوں کی نشاندہی بھی سب سے بڑا جہاد ہے۔ قوم کی بیداری کیلئے مظلوم پنجاب کا اٹھنا بھی بہت ضروری ہے۔ بعض طالبان نما افراد سے منظور پشتون کو شکایت ہے لیکن جبتک قوم کے اپنے افراد فوج کیساتھ نہیں ہونگے تو دہشتگروں سے وہ مقابلہ بھی نہیں کرسکتے کیونکہ ان کیلئے پہچان ممکن نہیں ہے۔

پاکستان میں ترقی کا خواب طبقاتی تقسیم کے بغیر ہی پورا ہوسکتا ہے: فاروق شیخ

ghq-islamabad-pindi-lahore-queta-jnral-hamid-gul-khalid-bin-waleed-gulbadeen-hikmat-yar-masood-azhar-hafiz-saeed-maleer-kund-keti-bandar-bait-ul-muqaddas-hazrat-ibrahim

نوشتۂ دیوار کے مدیر مسؤل فاروق شیخ نے کہا ہے کہ جب غباروں میں ہوا ہوتی ہے تو ان کو ایک جگہ اکھٹا کرنا مشکل ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ آپس میں لڑو مت ورنہ تمہاری ہوا اُکھڑ جائے گی۔ پاکستان کی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ طبقاتی کشمکش سے نکل کر اتحاد و اتفاق اور وحدت و یکجہتی کے ساتھ سب ملکر کام کریں۔ ہمارے اخبار میں بعض اوقات بلکہ اکثر و بیشتر سخت جملوں کا استعمال ہوتا ہے۔ منتشر قوم کی منتشر ذہنیت کا علاج اسی میں ہے کہ اس کے مختلف طبقات میں غباروں کی طرح بھری ہوئی ہوا کو نکال دیا جائے۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بتوں کو توڑا ، اور ان کیلئے آگ تیار کی گئی پھر جھولے سے آگ کے اندر پھینکنے کی تیاری کررہے تھے تو فرشتوں نے اللہ سے کہا کہ کیا ہم مدد کرسکتے ہیں؟ ۔ اللہ نے فرمایا کہ بالکل ! ۔ فرشتوں نے مدد کرنا چاہی تو حضرت ابراہیم ؑ نے ان کی مدد لینے سے انکار کیا۔ پھر جب آگ میں جھونکے گئے تو اللہ نے خود ہی آگ کو کہا کہ ’’اے آگ ابراہیم پر سلامتی والی ٹھنڈی ہوجا‘‘۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اس آگ کی آزمائش سے بچنے کیلئے اللہ کی بارگاہ میں بھی ہاتھ نہیں اٹھائے۔ پھر جب ایک بادشاہ کی طرف سے حضرت سارہؓ کی عزت کا معاملہ پیش آیا تو خوب اللہ کی بارگاہ میں گڑگڑائے ۔
اس دعا کی برکت سے حضرت سارہؓ کی عزت بھی محفوظ رہی اور حضرت ہاجرہؓ بھی مل گئیں جن سے حضرت اسماعیل ؑ اور پھر پیغمبر کائنات رحمۃ للعالمین ﷺ پیدا ہوئے اور حضرت ابراہیم ؑ واسماعیل ؑ نے بیت اللہ کی تعمیر کے وقت نبی کائنات آخری پیغمبر ﷺ کیلئے دعا کی تھی۔ مشرکین مکہ کی جہالتوں سے نبی ﷺ کو مکہ سے ہجرت کرنی پڑی۔ معراج میں نبی ﷺ نے مکہ سے مسجد اقصیٰ اور عرش کا سفر براق پر کیا تھا مگر مدینہ ہجرت پر آپ ﷺ نے غار ثور اور بڑی مشکلوں سے سفر طے کیا۔ دین میں عقیدت ہے منطق نہیں ورنہ اُمت اس بات سے متذبذب ہوجاتی کہ ہجرت کے وقت اللہ نے براق کیوں نہیں بھیجا؟۔
علماء کرام اور مشائخ عظام نے اپنی قدامت پسندی سے دین اسلام کی خوب حفاظت کی ۔ سائنسی آیات پہلے متشابہات تھے اور اب قرآن سائنسی بنیاد پر بھی ثابت ہورہا ہے ۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسلام کے احکام اجنبی بنتے چلے گئے ہیں۔ جس کیلئے قرآن و سنت کی طرف رجوع کی ضرورت ہے۔ اداریہ اور صفحہ 3پر جو علمی مضمون لکھا گیا ہے اس کو تمام مکاتب فکر کے جید علماء کرام اور مفتیان عظام اچھی طرح سے پرکھ لیں۔ انشاء اللہ ان کی طرف سے خوب داد ملے گی ۔ باقی مضامین میں بھی یہ کوشش کی گئی ہے کہ پاکستان سے ایک ایسے انقلاب کا آغازہو جس میں طبقاتی تقسیم کے بجائے ترقی و عروج کی سمت سفر کیا جائے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے گمراہ کن پروپیگنڈے سے عوام کے اندر تعصبات کی ایسی فضاء بن سکتی ہے جو نسلوں کیلئے تباہ کن ہوگی۔ ہماری کوشش ہے کہ میانہ روی ، اعتدال اور صراط مستقیم کی نشاندہی کردی جائے۔ ہم ہر نماز کی ہر رکعت کی سورہ فاتحہ میں کہتے ہیں کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کیلئے ہیں لیکن پھر تعصبات کا شکار ہوکر کسی ایک طبقے کی تعریف کرنے لگ جاتے ہیں۔ پھر اس کو رحمن اور رحیم قرار دیتے ہیں لیکن خود کو بے رحم اور غضبناک ہی ثابت کرتے ہیں۔ اللہ کو قیامت کے دن کا مالک کہتے ہیں مگر دنیا ہی پر مرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اللہ تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں تو ہمیں صراط مستقیم کی ہدایت عطا فرما ۔ لیکن صراط مستقیم کی بجائے افراط و تفریط اور کسی مخصوص طبقے کی وکالت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس سے بڑی گمراہی کیا ہے کہ قرآن کو مانیں مگر قرآن کی نہ مانیں؟۔
قرآن کہتا ہے کہ ان الذین اٰمنوا و الذین ھادوا و النصاریٰ و الصابئین من اٰمن باللہ و الیوم اٰخر و عمل صالحاً فلھم اجرھم عند ربھم ولا خوف علیھم ولاھم یحزنون (البقرہ:62)’’بے شک جو لوگ مسلمان ہیں ، یہود ہیں ، عیسائی ہیں اور صابئین (حضرت نوح علیہ السلام کے اُمتی ہندو) ہیں جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے تو ان کیلئے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے ۔ اور ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ حزن والے ہوں گے ‘‘۔ ہمارا یہ مسئلہ ہے کہ دوسرے مذاہب سے قرآن کے مطابق تعصبات نہ رکھنے کی تلقین پر یقین بھی نہیں ہے اور اپنے ہاں بھی سابقہ اُمتوں کے نقش قدم پر چل کر تفرقوں کا شکار ہیں۔ حالانکہ ان کی مذمت اسی متعصبانہ ذہنیت کی وجہ سے ہوئی تھی کہ وہ کہتے تھے کہ لن یدخل الجنۃ الا من کان ھوداً او نصاریٰ تلک امانیھم ۔۔۔ومن اظلم ممن منع مساجد اللہ ان یذکر فیھا اسمہ وسعیٰ کی خرابھا اولئک ماکان لھم ان یدکلوھا الا خائفین لھم فی الدنیا خزی ولھم فی الاٰخرۃ عذاب عظیم
آج مسلمان درج بالا آیات کے مصداق بن گئے ہیں ۔ مساجد میں بھی دہشتگردی کی وجہ سے خوفزدہ ہوکر داخل ہوتے ہیں ۔ مختلف موضوعات پر ہمارے اخبار نوشتۂ دیوار اور سید عتیق الرحمن گیلانی کی ویڈیوزzarbehaq.comاور zarbehaq.tvپر دیکھئے ۔ اخبار کے اس خصوصی شمارے میں بھی جو مضامین ہیں وہ دیکھنے کے قابل ہیں۔

امریکی اتاشی کو عتیق کے مارنے پر سزا مل سکتی ہے مگر محمود خان اچکزئی اور نا اہل نواز شریف اگر تیار ہوں

americi-atashi-atiq-gilani-punishment-mehmood-khan-achakzai-na-ahl-nawaz-sharif-majeed-achakzai-murder-bewa-widow-son-nadir-shah-karnal-josef-colonal-shah-rukh-jatoe

مدیر منتظم نوشتۂ دیوار نادر شاہ نے کہا کہ امریکی اتاشی کرنل جوسف نے سگنل توڑ کر ایک جوان عتیق کو قتل کیا۔ اگر قانون کی حکمرانی ہوتی تو امریکی اتاشی خود کو قانون سے بالاتر قرار نہ دیتا۔ پچھلے رمضان میں محمود اچکزئی کے کزن مجید اچکزئی نے دن دہاڑے پولیس کے سپاہی کو اپنی گاڑی سے اڑادیا تھا۔ اس کی رہائی پرسیاسی کارکنوں نے اس طرح پھولوں کی بارش کردی جیسا کوئی بڑا کارنامہ انجام دیا ہو۔ مجید اچکزئی اور امریکن اتاشی دونوں میں موازنہ کیا جائے تو اچکزئی زیادہ مجرم لگتا ہے۔ کیا امریکن اتاشی پر پھول برسائے جائینگے ؟ نااہل نواز شریف کے قافلے نے ایک بچے کو کچل ڈالا ، مریم نواز کے پتی کیپٹن صفدر نے اس کو شہید قرار دیا مگر آج تک ڈرائیور سامنے نہیں آسکا، ڈونلڈ ٹرمپ کہہ سکتا ہے کہ اچکزئی اور نواز شریف میرے پتر ہیں جب ان کا بال بیکا نہیں ہوسکا تو ہمارا کوئی کیا کریگا؟۔ شاہ رُخ جتوئی پر دہشتگردی کا مقدمہ اورمصطفی کانجو کو بری کیا ۔ بیوہ کہے گی کہ خواجہ آصف تو اچھوت ہوگا اسلئے منہ کالا کرنے کی پرواہ نہیں کی مگر میرا بیٹا اچھوت نہیں تھا نواز شریف کو جوتا مارنے پر دہشتگردی کا مقدمہ قائم ہوا مگر مصطفی کانجو پر دہشتگردی کا مقدمہ قائم نہ ہوا۔ تم پر تُف ہے۔

بہت فرسودہ درس نظامی والے علماء کیا کردار ادا کریں گے؟ ہیڈ ماسٹر الطاف الرحمن دو آبہ ہنگو

head-master-altafurr-ehman-do-aaba-hangu-pakhtoon-tahaffuz-movement-manzoor-pashteen-m-m-a-nizame-khilafat

ہنگو(نادرشاہ، جاوید صدیقی ) ہیڈ ما سٹر سیکنڈری اسکول دوآبہ کے الطاف الرحمن نے نمائندہ نوشتۂ دیوار سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ میں تقریباً1997 سے ضرب حق کا باقاعدہ قاری ہوں آپ لوگ اتحادامت اورنظام کی جو بات کرتے ہیں یہ عین قرآن وسنت کی دعوت ہے ۔ آجکل پختون تحفظ موومنٹ منظورپشتین کے حوالے سے ایک خبرہے اچانک سے تحریک چلتی ہے کیاپس پردہ محرکات ہوتے ہیں پتہ نہیں چلتاہے ۔ ماضی میں ایم ایم اے وجودمیں آئی اور پھر نتیجہ سب کے سامنے ہے ۔ نام نہاد طالبان کے ہاتھوں گیلانی صاحب کا بہت بڑا نقصان ہواہے ، مجھے تھوڑی بہت معلومات ہیں گیلانی صاحب بہت بڑے دل گردے والے ہیں کہ حق پر ڈٹے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ علما کیا کردار ادا کریں گے ان کا تو درس نظامی بہت فرسودہ ہے ۔ ایسی تعلیم لوگوں کو دلائی جائے توبالکل بے کارہے ، زیادہ تر چیزیں توہم فکری طورپرآپ کے اخبارسیکھتے ہیں ۔ مجھے اخبارمل جائے تومیں دوستوں کوبھی پڑھاتاہوں یہاں لوگ تعلیم یافتہ کم ہیں ، طالبان کا خوف ابھی تک لوگوں میں ہے ، میں بھی خطرے میں تھااب اللہ کا فضل ہے ۔ نظام خلافت ہی ہماری بنیادی ضرورت اورمسائل کا حل ہے۔