نوشتۂ دیوار کے مدیر خصوصی سید ارشاد علی نقوی نے اپنے بیان میں کہاہے کہ مولانا نور البشر برمی فاضل دارالعلوم کراچی ،مدیر اعلیٰ مھد عثمان بن عفان 36Bلانڈھی اور مولانا عدنان نقشبندی نے مسجدالٰہیہ سوکواٹر کے ناجائز قبضہ گروپ کی دعوت پر وہاں 25دسمبر کے پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حاجی عثمانؒ نے دیوار پرجو بشارت لکھوائی تھی وہ غلط تھی جس کو آپ نے مٹادیا ہے اور یہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ بھینس دودھ دیتی ہے تو اسکی مالیش بھی کی جاتی ہے، انسان کو جس مقصد کیلئے پیدا کیا گیا،وہ پورا ہونا چاہیے۔ مولانا نور البشر اور مولانا عدنان نقشبندی کو معلوم نہیں ہے کہ جوبشارت دیوار پر لکھ دی گئی تھی ،وہ حاجی عثمانؒ نے خود ہی اپنے وقت میں اسی وقت مٹادی تھی، جب آپؒ کے مریدوں نے بغاوت کی تھی۔ اسطرح کی بشارتوں پر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ’’ الدر الثمین فی مبشرات النبی الامینﷺ ‘‘ ہے۔جس میں چالیس مبشرات کا ذکر ہے۔ ایک میں حضرت شاہ ولی اللہؒ نے لکھاہے کہ ’’ عصر کی نماز کے بعد میں ذکر کے مراقبہ میں بیٹھا تھا اور اس دوران نبیﷺ تشریف لائے ، مجھے ایک چادر اوڑھادی جس سے مجھ پر علوم کی باریکیاں کھل گئیں‘‘۔ (الدر الثمین) شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ نے ایک کتاب ’’اخبار الاخیار‘‘ لکھی ہے جس کا ترجمہ دارالعلوم کراچی کے شیخ الحدیث مولانا سبحان محمود صاحب نے کیا تھا ۔ جس میں لکھاہے کہ ’’ جب شیخ عبدالقادر جیلانیؒ تقریر کرتے تھے، تو سارے انبیاء کرامؑ اور اولیاء عظامؒ اس میں موجود ہوتے تھے۔ نبیﷺ بھی آپ کی حوصلہ افزائی کیلئے جلوہ افروز ہوتے تھے‘‘۔( اخبارالاخیار) شیخ الحدیث مولانا زکریاؒ کے خلیفہ نے مکاشفات پر مبنی کتاب لکھی ہے جس میں یہ بھی ہے کہ ’’ شیخ الحدیث بیمار تھے ، نماز باجماعت کیلئے مدینہ میں مسجد نبوی ؐ نہیں جاسکے تو نبیﷺ تشریف لائے اور آپﷺ نے حجرے میں ظہر کی نماز شیخ الحدیث کو باجماعت پڑھائی۔ (بھجۃ القلوب: صوفی اقبال) مولانا بدر عالم مہاجر مدنیؒ نے لکھ دیا ہے کہ ’’ تصوف کے شیخ فرماتے تھے کہ اگرمیں لمحہ بھر بھی نبیﷺ کو نہ دیکھوں تو خود کو زمرہ مسلمین میں شمار نہ کروں‘‘۔( ترجمان السنۃ) مولانا نورالبشر اور مولانا عدنان نقشبندی میں تھوڑی سی بھی ایمانی غیرت ، دینی حمیت ہوتی تو ان کابرین کے نام پر چندے بٹورنے کے بجائے جنکے مشاہدات ان کو گمراہی اور کفر لگتے ہیں ، مسعود الدین عثمانی کیساتھ کھل کر مل جاتے۔ ان کو یہ پتہ نہیں کہ جس وقت حاجی عثمانؒ نے یہ بشارت لکھوائی تو کراچی کے سارے مدارس کے علماء ومفتیان حاجی عثمانؒ سے عقیدت ومحبت کا اظہار کرتے تھے۔ مفتی محمدتقی عثمانی کے استاذ مولانا عبدالحق فاضل دارالعلوم دیوبند بھی حاجی عثمانؒ کے خلیفہ اور مرید تھے۔ مشاہدات کی حیثیت خوابوں کی طرح ہوتی ہے لیکن اس کی کیفیت جیتے جاگتے کی صورت میں ہوتی ہے۔ اگر یہ کفر وگمراہی اور شرک وجہالت ہے تو تمام اکابرین پر بھی فتویٰ لگانا پڑیگا جن کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ رسول اللہﷺ نے مسجد اقصیٰ میں تمام انبیاء کرامؑ کی امامت کی تھی، ابوجہلوں نے آپﷺ پر فتوے لگائے تھے، اب علماء ومفتیان خود کوحق پرست ثابت نہ کرسکیں تو ان کو انبیاء کرام کا جانشین کہلانے کا کوئی حق نہیں ۔جامعہ فاروقیہ کے شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خانؒ خود تھے اور مولانا نور البشر نے خود کووہاں کا جعلی شیخ الحدیث مشہور کررکھا ہے۔ اگر اتنی بڑی خدمت مل گئی تھی جو اپنے منہ میاں مٹھو کو نصیب نہیں تھی تو چھوڑ کیوں دی؟۔ مولانا نورالبشر کو چاہیے کہ ہر چند دنوں کے بعد کسی برمی کا مسئلہ آتا ہے جو حلالہ سے متعلق ہوتا ہے کہ طلاق کے حوالہ سے غیرت کا مظاہرہ کرکے اپنی جاہل عوام کی عزتوں کو تحفظ فراہم کر دے۔ اکابرینؒ کی بشارتوں کا معاملہ اور حقائق کتابوں میں لکھنا جائز تھے تو دیوار پر بھی کوئی قباحت نہیں تھی۔ مولانا عبدالحقؒ نے دارالعلوم کراچی کے طالبعلم مولانا زین العابدین سے اس وقت کہا تھا جب عتیق گیلانی طالب علم تھے کہ’’ حاجی عثمانؒ سب سے زیادہ اسی کو چاہتے ہیں لیکن ہمیں راز کا پتہ نہیں‘‘ ۔
نوشتۂ دیوار کے مالیاتی امور کے منتظم اعلیٰ محمد فیروز چھیپا نے اپنے بیان میں کہاہے کہ یہ موقع ہے کہ عالم اسلام اور عالم انسانیت اپنے اندر امن وسلامتی کی فضاء قائم کرے، امریکہ نے ایک طرف اسرائیل کی حمایت میں دنیا کا امن خطرے میں ڈالاہے تو دوسری طرف وہ افغانستان میں منشیات اور دہشتگردی کی فضاء قائم کرکے پاکستان ، ایران اور بھارت کو تباہ کرنے کے درپے ہے،اسلام کا نام لینے والا جہادی طبقہ افغانستان یا وزیرستان سے بیت المقدس تک امن مارچ کا علان کرے۔ مسجدِ اقصیٰ کو گرانے و ہیکل سلیمانی کی تعمیر سے دنیا کا امن تباہ ہوگا۔ عتیق گیلانی کی تقایر ویڈیو کے ذریعے عام ہونگی تو دنیا کا نقشہ بدلے گا۔ جمعہ کو مسلمان،ہفتہ کو یہودی اور اتوار کو عیسائی ہی بیت المقدس میں عبادت کریں تو سب سازش ناکام ہوگی۔ فلسطین کی حمایت کرنیوالا طبقہ بیت المقدس میں اپنے سفارت خانے کھول دے اور مسلمانوں کے امن مارچ کا حصہ بن جائے تو امن بحال ہوجائیگاجامع مسجد نور جوبلی میں بریلوی مکتبۂ فکر کے مولانا شفیع اکاڑوی ؒ خطیب وامام ہوتے تھے۔ حاجی محمد عثمانؒ کے بیان کی وجہ سے وہاں دیوبندی بریلوی اتحاد کی فضا تھی۔ پھر دونوں میں پھڈہ شروع ہوا، حکومت کی مداخلت سے اب دیوبندی جمعہ کی نماز پڑھاتے ہیں اور بریلوی جمعہ کے بعد صلواۃ وسلام پڑھتے ہیں۔ مولانا اکاڑوی گلزارِ حبیب سولجزبازار منتقل ہوگئے تھے جو دعوتِ اسلامی کا پہلا مرکز تھا، پھر فیضانِ مدینہ کے نام سے مرکز پرانی سبزی منڈی کراچی منتقل ہوا۔ پاکستان میں ایسی فضاء کی ضرورت ہے کہ عبادتگاہوں پر قبضے کرنے کی مہم جوئی ختم ہو، اور دنیا بھر میں بھی عبادتگاہوں کا تصور تجارتگاہوں و سیاسی مقاصد کیلئے نہ ہو۔ مساجد کو دوسرے مکاتبِ فکر والے رونق بخشنے کیلئے آزاد ہوں۔ قرآن وسنت اور شریعت وطریقت کے سلسلے آباد رہیں۔ سیاسی جماعتوں کو بھی امریکہ کی طرح ایک اسٹیج سے عوام کو دعوتِ خطاب دینے کا اہتمام کیا جائے تو سیاست نکھر ے گی اور دین کو بھی تفرقوں سے پاک کرنے کی راہ ڈھونڈی جائے۔ مذہب اور جہاد کاروبار بن جائے تو دنیا میں کبھی امن نہیں آسکتاہے۔ بیت المقدس تمام انسانیت کیلئے ایک مقدس مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔ مسلمان، یہود اور نصاریٰ اس میں عبادت کا آغاز کرینگے اور دنیا بھر سے لوگ زیارت کیلئے آئیں تومذہبی ہم آہنگی پیدا ہوگی۔پھر دنیا بھر میں ریاستوں پر بیٹھے قصائی نما ظالم اور جابر حکمرانوں کے ہاتھوں سے بھی کھیل خود بخود نکلے گا۔ یہ کونسی بات ہے کہ اسرائیل نے اپنا پارلیمنٹ تل ابیب میں نہیں بیت المقدس میں بنایا ہے، امریکہ نے وہاں اپنا سفارت خانہ منتقل کردیا ہے تو ایک دن ترکی بھی اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے وہاں منتقل کردیگا۔ ترکی کو امریکہ سے پہلے اپنا سفارت خانہ وہاں اسلئے منتقل کرنا چاہیے تھا کہ فلسطینیوں کی مدد ہوسکتی تھی،وہ اسرائیل کو تسلیم کرچکا ہے تو فلسطین کی مددکیا صرف قراردادوں سے ہوسکتی ہے؟۔ جب ہم عیسائیوں کو اپنے ساتھ شریک کرینگے تو فلسطین کا مسئلہ حل ہوجائیگا۔ یورپ یونین، برطانیہ اور عیسائی دنیا کے پاس طاقت ہونے کے باوجود اپنے مرکز بیت المقدس کیلئے وہ سیاسی حکمت عملی کے طور پر مسلمانوں کو استعمال کررہے ہیں مگر مسلمانوں کے پاس حکمت عملی نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔
پبلشرنوشتۂ دیوار اشرف میمن نے کہاہے کہ ایک طرف بھارت نے امریکہ واسرائیل کی مخالفت کرتے ہوئے کمال کردیا کہ ہماری قرارداد کی اقوام متحدہ میں حمایت کی تو دوسری طرف پاکستان نے جاسوس دہشتگرد کلبھوشن کی ماں اور بیوی سے انسانی ہمدردی کے تحت ملاقات کرواکر مثالی کردار ادا کیا، ٹاؤٹ قسم کی میڈیا نے ان قدامات کووقعت نہیں دی بلکہ بے وقعت بنانے کی کوشش کی جو افسوفسناک ہے۔ انسانیت کی خیر خواہی، عالمی امن سے جڑی ہوئی ہے، علاقائی امن بھی بنیادی بات ہے۔ پاک بھارت تناؤ کم کرنے اور دشمنی کو دوستی میں بدلنے کیلئے ہمیں حدیبیہ پیپرملزنہیں صلح حدیبیہ جیسے معاہدوں کی ضرورت ہے۔ سیدعتیق گیلانی کے بیانات ویڈیو کے ذریعے سے تمام اسٹیک ہولڈر دیکھ سکتے ہیں جس میں قائدانہ صلاحیتوں سے پاکستان کو امامت کے مقام پر فائز کرنے کی بھیفکر اجاگر ہوتی ہے۔ سازشوں میں گرفتار سیاسی قائدین کاقومی بیانیہ ہی درست نہیں ۔ ریاست پاکستان اور حکومت نے اچھا کیا کہ انسانی بنیاد پر کلبھوشن کووالدہ اور بیگم سے ملاقات کا موقع دیا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ ریاستوں کے اصولوں کے خلاف ہو، دنیا میں کہیں ایسانہ ہوتا ہو،اس کو اے آروائی کے سمیع ابراہیم و دیگر صحافی سازش کا نام دیں۔ کلبھوشن کو برطانیہ کی خفیہ ایجنسی و امریکی ایجنسی ایم آئی 6اور سی آئی اے ودیگر ممالک کے ایجنٹ کا نام دیں اور ملاقات کو دباؤ قبول کرنے کا نتیجہ قرار دیں لیکن پاکستان کو ایک دو نہیں100قدم آگے بڑھ کر اسلام کاروشن چہرہ دنیا کو دکھانا ہوگا۔ اقوام متحدہ میں عالمی ضمیر کی نمائندگی سے پاکستان کو عالم انسانیت کی امامت کا شرف مل گیا ہے۔ دنیانے اس کی حمایت کی ہے، بھارت بھی اس میں شامل ہے۔ جس کو سب سے زیادہ اہمیت دینے کی ضرورت تھی لیکن ہماری میڈیا نے اس کو اجاگر کرنے کا حق ادا نہیں کیا، یہ ہمارے قومی بیانیہ کا حصہ تھا مگر ہم چوک گئے۔ عتیق گیلانی نے کہا کہ بھارت کے اس اقدام کو دنیا بھر میں اجاگر کرنے کیلئے ضرورت تھی کہ اسکے بدلے میں کلبھوشن کو رہا کردیا جائے۔ یہ وہی عتیق گیلانی ہے کہ جس نے لکھاتھا کہ ’’کلبھوشن کو مارنے کی ہمت نہیں تو بھارت کے بارڈر پر باندھ دو،تاکہ روز روز سرحدات کی خلاف ورزی کرنے والے بھارت کا اپنا گولہ اسی کو لگ جائے۔ کلبھوشن ایک دہشت گردہے لیکن اگر ایک ہفتہ تک اس کی ملاقات کیلئے اسکی بیگم ،ماں اور بچوں کو پاکستان بلایا جائے تو اس سے پاکستان کا امیج دنیا بھر میں امامت کے قابل بن جائیگا اور دنیا میں بڑھتی ہوئی دہشتگردی، ریاستوں میں تناؤ اور کھچاؤ کی کیفیت کا خاتمہ ہوگا۔ بھارت میں کلبھوشن کا پورا خاندان بھی پاکستان کی بہترین سفارت کاری کریگا۔ پھر کلبھوشن کو پاکستان میں آزادانہ نقل وحمل کی اجازت دی جائے ، جلسے جلوس میں وہ پاکستان کی تعریف اور بھارت کی مذمت پر بھی مجبور نہ کیا جائے اور پھر اس کو ایران ، عرب امارات اور برطانیہ کا آزادانہ دورہ بھی کرایا جائے۔ پھر عالمی عدالت انصاف میں وہ اپنے جرم کا اعتراف کرے اور پاکستان اس کو معاف کردے۔ دنیا کوپیغام دیا جائے کہ دہشتگرد جاسوس کیساتھ بھی اسلام اچھے رویے کی اجازت دیتا ہے۔ دہشت گرد کے انسانی حقوق کو اسلام نے یہ تحفظ دیا ہے، دہشت گرد کی بیوی کے حقوق بھی بحال کرنا ایک اچھا اقدام ہے، دہشت گرد کی ماں اور بچوں سے اچھا سلوک روا رکھنے میں کوئی عیب نہیں بلکہ شرفِ انسانیت ہے۔ دنیا بھر کے دہشت گردوں،قیدیوں اور جرائم پیشہ افراد کو اچھے سلوک کی بنیادپر راہِ راست پر لانا بہت آسان ہے۔ کلبھوشن سے یہ رویّہ اختیار کیا گیا تو دنیا بھر پر اسکے بہترین اثرات مرتب ہوں گے، اور پاکستان کی سلامتی کے علاوہ پورے خطے اور عالم انسانیت پر اسکے اچھے اثرات سے اسلام کا روشن چہرہ دنیا کے سامنے آئیگا۔ انسانی حقوق کیلئے کام کرنیوالے پاکستان کے شانہ بشانہ ہونگے اور دہشتگردوں کو ذہنی شکست کا زبردست سامنا کرنا پڑے گا۔
اسلام آباد (انٹرنیٹ ویڈیو ریکارڑنگ) پاکستان کے ایوان بالا قانون سازسینٹ سے ایم کیو ایم کے سینیٹر بیرسٹر سیف نے چیئر مین سینٹ رضا ربانی کی اجازت سے جو خطاب کیا ، اس نے رضا ربانی ، ارکان سینٹ ، پوری پاکستانی قوم اور اُمت مسلمہ کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ سورہ بقرہ کی آیت کا حوالہ دیکر کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اُمت وسط کا کردار اُمت مسلمہ کو دیا ہے ، جسکی تفسیر میں سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ اس کا انفرادی و قومی اپنا کردار ہوگا تو وہ اللہ کی طرف لوگوں کو دعوت دینے کا فریضہ ادا کرسکے گی۔ پہلے یہ کردار بنی اسرائیل کے پاس تھا، اب اُمت مسلمہ نے اپنا سب کچھ کھو دیا ہے ، میں جرأت کرکے ٹرمپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس نے تھوڑی دیر کیلئے ہمیں جگا دیا مگر ہم سوائے شور شرابہ کے کچھ نہیں کرسکتے، جذباتی تقریریں کرلیں گے لیکن یہ جوش و خروش کسی کام کا نہیں ہوگا۔ اسرائیل اور امریکہ پر لعن طعن کرنیکے بجائے ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا۔ امریکی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ ڈینمارک ضلع پنڈی جتنا ملک ہے۔ کارٹون کے مسئلے پر ہم اس کا بھی کچھ نہیں بگاڑ سکے۔ فیض آباد چوک پر چند مولوی کا دھرنا ہم منتشر نہ کر سکے انکو پیسے بھی دئیے۔ تو امریکہ کا ہم کیا مقابلہ کرسکیں گے؟۔ میرے پاس امریکہ کے دو سال کا ویزا ہے ، میں اس کو ختم نہیں کرسکتا تو اور کیا کرلوں گا؟۔ سینٹ میں جن لوگوں کے پاس امریکہ کے ویزے لگے ہوئے ہیں وہ ان کو پھاڑ کر ضائع کردیں پھر تقریر کریں۔ بندروں نے ڈگڈگی بجانے والوں کیخلاف احتجاج کا اعلان کیا تھا تو کسی نے بتایا کہ تم ان کی ڈگڈگی پرناچنا پہلے بند کردو ، پھر انکے خلاف جو کچھ کہنا ہو کہو۔ صلاح الدین ایوبی کی تاریخ پڑھو ، مکہ مدینہ کے حکمرانوں اور عربوں نے انکی مدد اسلئے نہیں کی کہ وہ کرد تھا، پاکستان کے علاوہ سارے اسلامی ممالک اسرائیل سے تعلقات کیلئے ترس رہے ہیں۔ بیرسٹر سیف نے جو کچھ کہا نیٹ پر ان کی ویڈیو دیکھنے کے قابل ہے ضرور دیکھئے۔
نوشتہ دیوار کے کالم نگار عبدالقدوس بلوچ نے کہاہے کہ سیاست تجارت نہیں حکمت کا نام ہے۔ دنیا میں پاکستان ،امریکہ، بھارت، اسرائیل، برطانیہ اور دیگر بہت سے ممالک نے سیاست کو خدمت کے بجائے تجارت بنالیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے گماشتہ سیاستدانوں نے امن و امان کے بجائے دہشت گردی سے امن عالم کو خطرات سے دوچار کردیاہے۔ نیٹو کی فورس بالعموم، امریکی فوج بالخصوص ہیروئن کی تجارت کرتی ہے۔ دہشتگردی اس کاروبار کا صرف ماسک ہے۔ پاکستان کی پوری قوم کا المیہ تھا کہ اس مکروہ کاروبار کو سمجھ نہ سکی۔ تاہم پھر بھی پاکستانی ریاست اور عوام نے بھرپور انداز میں دہشتگردی کاخاتمہ کردیا۔پاکستان کو ملک خداداد بجا طور پر کہا جاتا ہے ۔ امریکہ کا مکروہ چہرہ ڈونلڈ ٹرمپ کی شکل میں دنیا کے سامنے آگیا ہے۔ خراسان سے بیت المقدس تک احادیث صحیحہ میں اس لشکر کا ذکر ہے جس کو دنیا کی کوئی طاقت ختم نہیں کرسکتی یہانتک کہ وہ بیت المقدس میں فتح کا جھنڈانصب کردینگے، امریکہ کو گلہ ہے کہ ڈبل گیم ہوا مگر ا الزام صرف پاکستان پر لگانا درست نہیں ۔ہم نے تو پھر بھی کسی نہ کسی طرح سے دہشتگردوں کے ٹھکانے ختم کردئیے ۔ افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کیا کررہے ہیں؟۔ روس کیخلاف جہادی امریکہ نے پالے اور پاکستان کو استعمال کیا، پھر امریکہ نے پاکستان سے لڑائے اور ختم کرائے اور کہا کہ’’ پاکستانی پیسوں کیلئے اپنی ماں کو بھی بیچ دیتے ہیں‘‘۔ داتا کی نگری میں ہم ہیرہ منڈی بن گئے تھے تو لعن طعن بھی بجا تھی۔ اب پاکستان کی ریاست بدل گئی تو یہ ان کو برداشت نہیں۔ ہم اپنی غلطیوں کے سبب اپنا معاوضہ بھی نہیں مانگ سکتے۔ استعمال ہونے کا جو طے شدہ معاوضہ تھا وہ بھی نہیں مل رہاہے۔ چلو متعہ کے پیسے نہیں دینے تو مت دومگر دھمکیاں دینے اور سبق سکھانے کی باتیں مت کرو۔ اب کرنے کا کام کیا رہ گیاہے؟۔ اگر امریکہ اور نیٹو کی افواج افغانستان میں ڈبل گیم کر رہی ہیں یا ناکام ہیں تو اس کا ذمہ دار پاکستان کیوں ہے؟۔ صرف اس سوال کا ہمیں بھی اور پوری دنیا کو جواب چاہیے۔ دہشتگردی کی آڑ میں ہیروئن کا مکروہ کاروبار ہورہاہے تو ذمہ دار کون ہے؟۔کیا امریکہ ،اس کی افواج اور تاجر گماشتے اس سے لاعلم ہیں؟۔دنیا بھر میں بدامنی کے پیچھے اسلحہ اور ہیروئن کا ناجائز کاروبار ہے۔ دنیا میں سب سے بڑی سپر طاقت امریکہ اور اس کا بغل بچہ اسرائیل ہے۔ دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کیلئے پاکستان کے قبائل یا افغانستان سے ایک لشکر تشکیل دیا جائے، جس میں دنیا بھر سے ہر طرح کے لوگوں کی نمائندگی ہو۔ یہ لشکر دنیا میں امن کی خاطر ایک امن مارچ کرے۔ قرآن میں مجوس، یہود، نصاریٰ اور مسلمانوں کی عبادتگاہوں کی حفاظت کا پیغام ہے۔ بیت المقدس پر دنیا تقسیم ہے۔ تمام جہادی طبقات قرآن کے مطابق بیت المقدس کو امن کا گہوارہ بنانے کیلئے اس امن مارچ کا حصہ بنیں۔ بیت المقدس کا تقدس سب ہی کو عزیز ہے، خاص طور سے اہل کتاب مسلمانوں اور یہودونصاریٰ کیلئے اس کی اہمیت ہے۔ جمعہ کے دن مسلمانوں ہی کو عبادت کرنے دی جائے، ہفتہ کو یہود اور اتوار کو عیسائیوں کو موقع فراہم کیا جائے۔ جب دنیا کے تمام لوگوں کیلئے بیت المقدس کے حوالہ سے دلچسپی ہے۔ اقوام متحدہ کا پلیٹ فارم ناکام ہے اور دنیا کو دہشت گردی کے خون آشام سے دوچار کردیا گیاہے تو اس مشکل سے نکلنے کیلئے دنیا نے کوئی امن مارچ کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ اگر بیت المقدس کے شہر میں اسرائیل کی پارلیمنٹ ہے جس کو امریکہ نے اسرائیل کا داراخلافہ تسلیم کیا ہے اور اپنا سفارت خانہ منتقل کرنے کا اعلان بھی کیا ہے تو پھر امریکہ کا ساتھ دینے والے گمنام ممالک بھی چوہدری بن سکتے ہیں جس طرح پہلے پاکستان و دیگر ممالک بن گئے تھے۔ حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے رہنما امیرمقام، دانیال عزیز اور طلال چوہدری کی طرح نئے نئے لوگ پرانی پارٹیوں پر قبضہ کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ جس طرح پیپلز پارٹی تحریک انصاف ودیگر جماعتوں کے اصل کارکنوں ورہنماؤں کی جگہ نئے اور مفاد پرست لوگ لیتے رہے ہیں۔ خراسان سے ایک لشکر بیت المقدس تک تشکیل دیا جائے اور اس کے مقاصد بھی واضح ہوں۔ اقوام متحدہ، نیٹو، دنیا بھر کے ممالک اور جہادی قوتوں کی اعلانیہ حمایت اس کو حاصل ہو تو ابلیس لعین کہے گا کہ انسان آج میرے ہاتھوں سے پھسل گیا ہے۔ برہمن نے اچھوت کی قدر نہیں کی تو اسلام نے ان کوقبول کرکے اپنے اندر اعلیٰ مقام دیا، امریکہ کا بارک حسین اوبامہ کا انتخاب حضرت بلال حبشیؓ کی قدر دانی تھی۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب اجنبی کو میرے پاس حاضر کیا گیا تو میں نے اس کی طرف دائیں جانب سے التفات کیا اور بائیں جانب سے التفات کیا، وہ نظر نہیں آتا تھا مگر اجنبی، پس اللہ کی کتاب پوری عظمت کے ساتھ اس کے سامنے روشن ہوگئی، اس کو ہزار ہا ہزار نیکیاں ملیں اور ہزار ہا ہزار گناہیں اس کی معاف کی گئیں، پس جب وہ فوت ہوا تو شہید (گواہی) کی منزل پاکر فوت ہوا۔ (کتاب الفتن، حدیث نمبر 2002، نعیم بن حماد اُستاذ بخری)
نوشتہ دیوار کے کالم نگار عبد القدوس بلوچ نے کہا: صحافی حقائق بتانے کے بجائے فٹبال کے پلیئر کی طرح مخالف سائڈ پر گول کے چکر میں ہیں۔ رونالڈو ہے تو کوئی میسی۔ جیو کے طلعت حسین و شاہ زیب خانزادہ بھی کھلاڑی ہیں۔ طلعت کو جھوٹ سے بھی شرم نہیں آئی کہ بھٹو نے کہا: ختم نبوت نہیں ختم حکومت کا مسئلہ ہے۔جبکہ قومی اتحاد یا نظام مصطفی کی قیادت کا بھٹو سے ختم نبوت پر اختلاف نہ تھا۔ اصغر خان قادیانی اور نوازشریف اسکی جماعت میں تھے اور ضیاء الحق کے بیٹے انوار الحق کا سسر جنرل رحیم بھی قادیانی تھا۔ جنرل ضیاء کا حکومت پر قبضہ ہوا تو دھرنوں کے بغیر بھی ختم نبوت کے مسئلے پر گھٹنے ٹیکے اور سخت آرڈیننس نافذ کردیا جب قادیانی مشکلات کا شکار ہوئے ، تویورپ میں پناہ لی، امریکہ و یورپ کویہی تکلیف ہے جو قادیانی سے آئینی دفعہ ختم کرنا چاہتے ہیں ۔ ن لیگی کمیٹی کے سربراہ راجہ ظفر الحق نے اعلان کیا: ’’بڑی ہوشیاری سے سازش کی گئی تھی‘‘۔ جن کو سازش کا ذمہ دار قرار دیا ان کو سیاہی سے مٹادیا تھا جو میڈیا پر دکھایا گیا۔جسٹس صدیقی نے کہاکہ اصل مجرم انوشے رحمان کو بچاکرزید حامد کو قربانی کا بکرا بنایا۔ بیرسٹر ظفر اللہ میں سازش چھپانے کی صلاحیت ہے۔ اگر راجہ ظفر الحق کو ہی عدالت بلالے تو سازش کی تہہ تک پہنچنے میں وقت نہ لگے ۔ جسٹس صدیقی نے حکومت کو دھرنا ہٹانے کا حکم دیکر اچھا کیا، ورنہ مہینوں اور سالوں عوام اذیت کا شکار رہتے۔ غیر مسلح پولیس و ایف سی کے اندر یہ صلاحت نہیں کہ دھرنے والوں کو ہٹاسکے ۔ جسٹس صدیقی جوان ہیں ، اگر ڈنڈا بردار ہوکر کسی ڈنڈا بردار سے مقابلہ ہو تو پتہ چلے کہ حکومت کی رٹ طاقت سے ممکن ہے۔ طاہر القادری و عمران خان کے دھرنے میں پی ٹی وی پر قبضہ میں رینجرز کے جوانوں کو دیکھ کربلوائی ہٹے۔ شورہوا کہ عدالت کے پیچھے فوج ہے اور کھلاڑی صحافیوں نے نوازشریف کے دماغ میں ہوا بھری جس سے حکومت ساکھ کیساتھ اپنا دبدبہ بھی کھو بیٹھی۔جسٹس صدیقی کا یہ ذہن بن گیا کہ دھرنوں کے پیچھے فوج ہے، اسلئے ریمارکس دئیے کہGHQ کے سامنے کوئی دھرناکرے تو فوج کیا کریگی؟ تحقیق کی جائے کہ دھرنے والوں کو آنسو گیس کی گنیں کس نے دیں؟آرمی چیف و رینجرز کو ثالث نہیں کورٹ مارشل ہونا چا ہیے۔ہوسکتا ہے کہ میں قتل یا غائب کردیا جاؤں۔ جسٹس صدیقی کو چاہیے تھا کہ پیسے بانٹنے پر وضاحت طلب کرتے۔یہ انکا بڑا خلوص ہے کہ خود کو آزمائش میں ڈال کریہ ریمارکس دیئے ۔ ظالم و مظلوم کی آنکھ مچولی کا کھیل عدالت میں صدابہار ہے، جس قوم کے ججوں کا ضمیر جاگ جائے تو جبر و ظلم کا خاتمہ ہوکر رہتا ہے۔جج کی بیگم کو غریب بچی پر ظلم کرتے پکڑا گیا مگر وہ کیس دب گیا۔ جنرل راحیل نے فوج میں کرپشن ختم کرنے کی کوشش کی تو فوج پر اسکا اچھا اثر مرتب ہوا۔ نواز شریف نے جنرل راحیل سے دھرنوں کیلئے مدد مانگی تو خورشید شاہ پارلیمنٹ میں گرجے کہ یہ کیا کیا؟۔ اب خورشید شاہ نے خود ہی حکومت کو مشورہ دیا کہ فوج سے مدد لو۔ اس سیاست سے کیا مسائل حل ہونگے؟۔ افتخار چوہدری کو چیف جسٹس بنانے کیلئے پیپلز پارٹی نے آرمی چیف جنرل کیانی کا کردار مان لیا، بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے کی سیاست ہے۔ جلاؤ گھیراؤ ہوا تو سب پکے مسلمان بن گئے۔ حافظ حمد اللہ نے آواز اٹھائی تھی تو کسی کے کان پر جوں نہ رینگی، اگر اسوقت چیئر مین سینٹ ، عمران خان اور پیپلز پارٹی و ن لیگ ہوش کے ناخن لیتے تو جمہوریت کی زلفیں موالیوں کی طرح پریشان نہ رہتیں۔ پارلیمنٹ کا کام یہ تھا کہ مشاروت کرکے قوم کو اعتماد میں لیا جاتامگر پارلیمنٹ سازش کی معترف ہو تو اس سے بڑا فراڈ سیاست کے نام پر کیا ہے؟ اور جمہوری قائدین نااہلی کے مسئلہ پر الجھ گئے اور ختم نبوت کا مسئلہ دھرنے کے ذریعے بحران کی صورت اختیار کرگیا۔ صحافیوں کا کام قوم اور اداروں کی درست رہنمائی ہے۔ اب بھی کچھ نہیں بگڑا ، جمہوریت کی بڑی خوبی ہے کہ اس میں لوگوں کے چہرے بے نقاب ہوجاتے ہیں۔ جنرل ضیاء نے جب حکومت اور اپوزیشن کو دھوکہ دیکر اقتدار پر قبضہ کیا تو جب تک خدائی موت نہ مرا ، اس وقت تک عوام اس سے اقتدار واگزار کرنے میں ناکام رہی۔ فوج حکومت کے کہنے پر گولیاں بھی مارتی تو یہی مدح سرائی ہونی تھی کہ فوج پہلے سے اس سازش کیلئے کھڑی تھی۔ ن لیگی حکومت کو اعلان کرنا چاہیے کہ شہباز شریف اور نواز شریف پہلے سے ذمہ دار عناصر کو برطرف کرنے کا اعلان کرچکے مگر دو ہزار کے دھرنے پر کوئی وزیر مستعفی ہوتا تو یہ تماشہ روز روز دیکھنے کو ملتا۔ معاملہ بگڑ ا تو جمہوریت کا تقاضہ تھا کہ ملک و قوم کے عظیم مفاد میں دھرنے والوں کا مطالبہ مانا جاتا۔ اپوزیشن نے 2013ء کے الیکشن کو سازش قرار دیا مگر وہ نہ سمجھتے تھے کہ اداروں پر تنقید کرنا کوئی بری بات ہے ۔ عمران خان نے تو افتخار محمد چوہدری سے معافی بھی مانگ لی تھی جسکے بعد مکرنے پر حامد خان بھی ناراض ہوگئے تھے۔ ضمیر ، شرم ، غیرت اور حیاء کی ساری حس تباہ و برباد ہوگئی ہے۔ نواز شریف کوئٹہ کے جلسے میں محمود اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن کا حساب چکادے۔ محمود اچکزئی نے وفاداری مشکل وقت میں وقف کر رکھی تھی ،مولانا فضل الرحمن ڈولفن کی طرح بڑی مہارت سے دونوں طرف ناچ رہے تھے۔ اگر زرداری سے کہا تھا کہ نواز شریف کو دھوکہ دیا ہے تو مولانا فضل الرحمن سے بھی کہنا چاہیے کہ زرداری کے دوست نے نواز شریف کے پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔ میری بات کا بہت مذاق اڑایا گیا کہ کیوں نکالا ؟ ۔ مولانا فضل الرحمن سے پوچھتا ہوں کہ کس نے امریکہ کو ختم نبوت کی ترمیم کے بارے میں خبر دی کہ ہم نے کارنامہ کرکے دکھایا۔مولانا! تمہیں بتانا پڑیگا۔ ابھی تو ہماری حکومت ختم نہیں ہوئی کہ تم نے جنازہ پڑھانا شروع کیا۔ جسٹس شوکت صدیقی بھی مولانا فضل الرحمن کو طلب کرکے پوچھ لے کہ کس نے امریکہ کو سازش کامیاب ہونے کی خوشخبری سنائی ، تمہاری جان کو خطرہ نہیں لیکن تم نے بہت ساری جانوں کو خطرات میں ڈالا اور کئی لوگ اسی وجہ سے موت کے شکار ہوگئے۔ مولانا فضل الرحمن ایک زبان میں ایک طرف کہتے کہ ختم نبوت کے قلعے پر حملہ ہوا اور دوسری طرف پانامہ کو سازش قرار دیتے۔ نواز شریف کیخلاف یہ کیس تو عدالتوں و نیب میں پہلے سے موجود تھے جس پر سیاست اور طاقت کی گرد تھی جس کو سازش قرار دیا جارہا تھا مگر پارلیمنٹ میں کیسے سازش ہوگئی؟۔ اس کا جواب چاہیے۔ بعض صحافیوں کیلئے گدھے سے جھوٹ کا دودھ نچوڑنا بھی مشکل نہ ہوگا مگر اچھے صحافیوں کی بھی کمی نہیں ۔ مظہر عباس اچھے صحافی ہیں ،اپنا وزن جمہوریت کے پلڑے میں ڈالتے ہیں مگر یہ کہنا درست نہیں کہ ’’آئی ایس آئی کو رپورٹ دینی چاہیے تھی کہ حساس معاملہ ہے اور اس مہینے میں اسکے مضمرات کچھ بھی نکل سکتے ہیں‘‘ اسلئے کہ وزیر داخلہ احسن اقبال بار بار کورٹ کے سامنے اور میڈیا پر یہ بات دہراتے رہے تھے۔ ایجنسی کا کام خفیہ رپورٹوں کا ہوتا ہے۔ رد الفساد ملٹری کا کام ہے۔ دھرنے حکومت کے دائرہ کار میں ہیں۔ مولانا فضل الرحمن مرکز اورسراج الحق صوبائی حکومت میں شامل ہونے کی وجہ سے دھرنا نہ کر سکے۔ جمہوری نظام کی دُم پکڑ کر چلنے والی مذہبی سیاسی جماعت جمعیت علماء اسلام نے خود سمیت تمام جماعتوں کے منہ پر بھی اسلئے کالک مل دی ہے کہ سازش کی نشاندہی کے باوجود اس کفر کو ووٹ بھی دیا۔ میاں بیوی راضی تو کیا کریگا قاضی؟ ، جب حکومت اور دھرنا والوں نے فوج کو ثالث بناکر فیصلہ کرلیا تو ؟۔ دھرنے والے پنجابی بدمعاش سیاسی رہنماؤں اور گلو بٹوں سے لڑ سکتے ہیں تو لیگی کارکن عدالتوں پر بھی چڑھ دوڑنے کی اپنی تاریخ رکھتے ہیں۔ ان کا تو سارا گلہ شکوہ یہی تھا کہ فوج ہمیں ضمانت دے کہ اگر اپنے آپے سے باہر آنیوالے ججوں کی مرمت کرنا چاہیں تو کوئی رکاوٹ نہ ڈالے۔ عدالت کو کٹھ پتلی قرار دینے والے ن لیگی رہنماؤں کی یہی آرزو ہے کہ فوج عدلیہ کو تحفظ نہ دے تو ہم ماڈل ٹاؤن کی طرح انکی اینٹ سے اینٹ بجادیں۔ دھرنے والے ن لیگ کی اپنی پالیسی کے نتیجے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ جیو کی صحافی رابعہ انعم نے اپنے پروگرام ’’لیکن‘‘ میں یہ بات بہت اچھے انداز میں اٹھائی کہ شہباز شریف خود ہی سازش کرنیوالے وزیر کو نکالنے کا مطالبہ کررہے تھے تو دھرنے والوں کا کیا قصورہوسکتاہے؟۔ دھرنے والوں کا ن لیگ نے کھلم کھلا فوج پر الزام نہیں لگایا مگر عدلیہ پر الزام لگائے، کیا کوئی مدعی سست گواہ چست کا کردار تو ادا نہیں کررہا ؟ عدلیہ ، فوج ، سیاستدان، مذہبی طبقے اور علماء بڑے پکے مسلمان ہیں تو مدارس کے نصاب کا بھی نوٹس لیں جس میں قرآن کیخلاف کفریہ تعلیم ہے۔ طلاق کے مسئلے پر بڑا انحراف کرکے خواتین کی عصمت دری اور لوگوں کے گھر تباہ کئے جاتے ہیں۔حکومت ، عدلیہ اور فوج دھرنے والے سمیت تمام مذہبی سیاسی جماعتوں ، تنظیموں اور مدارس سے پوچھیں کہ کیا اس طرح کا نصاب پڑھانا جائز ہے یا نہیں؟۔
شیریں مزاری کی بیٹی نے جسطرح پاک فوج پر لعنت کی ہے تو یقیناًقادیانیوں کو بہت تکلیف پہنچی ہے ۔ اس لعنت کو سوشل میڈیا نے خوب پھیلادیا ،اور جس طرح کے ماحول میں جس کی برینواشنگ ہوتی ہے وہی اسکی زباں سے نکلتاہے۔مرزائی سربراہ کی ویڈیو آئی جس میں انکشاف کیا گیا کہ تحریک انصاف قائم ہوئی تو عمران خان نے ووٹ کیلئے نمائندہ بھیجا اور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ اگر تحریک انصاف کے اپنے کارکنوں کو پتہ چلتا تو ن لیگی رہنماؤں کی طرح عمران خان کے گھر پر بھی ہلا بول دیا جاتا۔ عمران خان نے اس خوف سے نکلنے پر صبح دو رکعت شکرانہ ادا کیا۔ شیرین مزاری کی بیٹی کے بیان سے جان چھڑانے کے جتن میں وقت گزارنے کے بعد فوج کے اقدام کی خوب مدح ا سرائی کی۔ اگر ختم نبوت کا مسئلہ عالمی سازش ہو تو تحریک انصاف اس کا حصہ تھی اور مذہبی مسئلہ تھا تو جمعیت علماء اسلام ذمہ داری سے بچ سکتی ہے اور نہ ہی جماعت اسلامی۔ اگر یہ کوئی سازش نہیں تھی اور غفلت سے یہ سب کچھ ہوا ہے تو اسلام کے ٹھیکہ داروں نے بھی غفلت میں درسِ نظامی کے نصاب پر ابتک کوئی توجہ نہیں دی ہے۔ پارلیمنٹ میں دونوں مسئلوں کا موازنہ کیا جائے کہ کس کی زیادہ اور کس کی کم غفلت ہے تو یقیناًعلماء و اولیاء کی غلطی بھی معلوم ہوجائے گی۔انبیاء کرامؑ معصوم ہیں ، ان کی وحی سے رہنمائی ہوتی ہے۔کئی معاملا ت میں قرآن نے رسول ﷺ کی رہنمائی فرمائی ۔ مرزا غلام احمد قادیانی کا طرزِ عمل اور شیطانی وحی محمدی بیگم کے حوالے سے بھی انتہائی شرمناک تھی۔ نبی ومھدی تو دور کی بات ہے کوئی اچھے انسان بھی ہوتے تو کسی خاتون پر اسطرح سے زبردستی زور نہ ڈالتے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ کو نبیﷺ نے خواب میں دیکھا کہ اللہ نے آپؐ سے شادی کرائی تو فرمایا کہ میں نے سوچا کہ اللہ کی طرف سے ہے تو پورا ہوگا اور شیطان کی طرف سے ہوگا تو پورا نہ ہوگا۔ (صحیح بخاری) فرقہ واریت میں مبتلاء عناصرکوجو نفرت ایکدوسرے سے ہے، وہ مرزائیوں سے نہیں۔ مرزائی کہتے ہیں کہ قرآن وسنت پر ہمارا ایمان ہے۔ختم نبوت کے منکر ہم نہیں بلکہ دیگر مسلمان ہیں اسلئے کہ ان کا عقیدہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں دوبارہ آئیں گے۔ یہی ختم نبوت سے انکار ہے۔ قرآن میں اللہ نے جس طرح شہداء کیلئے فرمایا کہ زندہ ہیں اور انہیں رزق دیاجاتا ہے۔اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام کیلئے فرمایاکہ ان کو اللہ نے اٹھالیااور وہ یقیناًقتل نہیں ہوئے، لیکن قرآن میں یہ وضاحت بھی ہے کہ یہ پوچھا جائیگا کہ آپ ؐنے یہ تعلیم دی تھی کہ تجھے اورتیری ماں کو دوالہ بنایا جائے تو وہ کہے گا کہ جب تک میں ان میں موجود رہا تو اے اللہ ! آپ کو معلوم ہے کہ میں نے یہ تعلیم نہیں دی اور جب تو نے مجھے وفات دیدی تو مجھے کوئی پتہ نہیں‘‘۔ قرآن جبکہ ان بڑے بڑے لوگوں کا بھی یہ نظریہ ہے جنکا مرزائیوں سے دور کا واسطہ نہ تھا کہ قرآن کا تقاضہ ہے کہ حضرت عیسیٰ کو فوت سمجھا جائے۔ علامہ اقبال نے غلام قادیانی کو مجذوبِ فرنگی کہا لیکن اس بحث کو شیطانی چال کہاکہ ابن مریم مر گیا یا زندہ جاویدہے، امت کی کس عقیدے میں نجات ہے۔ پھر علامہ اقبال کا ایک بیٹا بھی قادیانی بن گیا۔ جب قادیانیوں پر پابندی نہیں تھی تو بہت کم لوگ قادیانی بنتے تھے اور پابندی لگی تو بڑے پیمانے پر قادیانی بن رہے ہیں۔ علماء اور فوجی افسران ہمارے پیر بھائی تھے اور ان سب کے ایمان کا ہم نے تماشہ دیکھاہے۔
جمہوری نظام کا تعلق اقتدار سے ہے، آئین میں طے تھا کہ 15سال تک انگریزی چھوڑ کراردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا جائیگا اور تمام قوانین اسلام کے مطابق ہونگے۔ پارلیمنٹ کی اکثریت کو آج بھی انگریزی نہیں آتی مگر پھر بھی 44سال سے تمام سرکاری دستاویزات کو اردو میں نہ بدلا گیا اور نہ بدلنے کا کوئی پروگرام ہے۔ حافظ حمداللہ نے بتایا کہ ختم نبوت کے حلف نامے میں ترمیم کی ساز ش ہوئی ہے لیکن تحریک انصاف، پیپلزپارٹی اور ن لیگ سمیت کوئی دوسری جماعت اس کیلئے کھڑی نہ تھی۔ جمعیت علماء اسلام نے خود بھی اس ترمیم کے حق میں ووٹ دیا۔ عمران خان نے اقتدار کیلئے مرزا غلام احمد قادیانی کے جانشین سے بھی ملاقات کی تھی اور پارلیمنٹ میں ان کیلئے وعدہ بھی کیا تھا۔ اس وعدے کے مطابق شاہ محمود قریشی نے پارلیمنت میں اس ترمیم کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھائی، شیرین مزاری و عمران خان نے بھی اس ترمیم کے علاوہ دوسری چیزوں پر اعتراضات اٹھائے۔ ان سب کے خیال میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ قادیانی تھے اور ان کی ناراضگی مول نہ لے سکتے تھے۔ شیخ رشید اور جماعت اسلامی کی طرف سے قومی اسمبلی میں اس ترمیم کے خلاف آواز اٹھ گئی مگر کسی کی کان پر جوں نہ رینگی، جب پاک فوج کے ترجمان نے یہ وضاحت کردی کہ ’’آرمی ختم نبوت پر کوئی سمجھوتہ نہ کریگی‘‘ توحکومت نے یوٹرن لیامگر بات دھرنے تک جاپہنچی۔ میڈیا ،پاک فوج، سیاستدانوں اور علماء ومفتیان کی توجہ ہم اپنے اخبار اور کتابوں کے ذریعے سے مسلسل اس اہم مسئلہ کی طرف مبذول کرتے رہے ہیں کہ اسلامی مدارس میں قرآن کی تعریف میں تحریف کا ارتکاب کیا گیاہے لیکن جس طرح ختم نبوت کی ترمیم کے مسئلہ پر جلاؤ گھیراؤ ہوا، اس طرح جلاؤ گھیراؤ سے پہلے مخلص شخصیات اور اداروں کواپنا کردار ادا کرنا پڑیگا۔ سپاہِ صحابہ، لشکر جھنگوی، جیش محمد، تحریک طالبان اور مختلف دھڑوں کی افزائش کے بعداب تحریک لبیک یارسول اللہ نے اپنی جگہ بنالی ہے۔ طالبان بریلوی مکتبۂ فکر والوں کو مشرک قرار دیکر قرآن کا حکم سمجھ کر قتل کرتے تھے، بریلوی دیوبندیوں کو گستاخ قرار دیکر ان کو قتل کرنا فرض سمجھتے ہیں۔ مولانا یوسف لدھیانویؒ کے قتل پر بریلوی مکتبۂ فکر نے خوشی میں میٹھائیاں بانٹیں تھیں۔ بریلوی دیوبندی کے علاوہ حنفی اہلحدیث کے نام پر بھی فرقہ وارانہ شدت موجود ہے۔ فرقہ وارانہ شدت پسندی کا عسکری ونگوں سے بھی گٹھ جوڑ ہے۔ تحریک طالبان مجھ پر بریلوی کا ٹائٹل لگارہی تھی اسلئے میرا گھر تباہ کیا گیا، اگرچہ جمعیت علماء اسلام ف و س اور ختم نبوت کی ضلعی قیادت اور ٹانک کے تمام دیوبندی علماء تحریری اور تقریری حمایت بھی کرتے تھے۔ مذہبی جنونیت علم نہیں جہالت کی وجہ سے ہی پروان چڑھتی ہے، علم کو عام کرنے کیلئے نصاب کو درست کرنا ضروری ہے۔ مدارس کی مقبولیت بھی اسی میں ہے۔ جب مدارس میں قرآن کی یہ تعریف پڑھائی جائے کہ کتاب وہ قرآن ہے جو مصاحف میں لکھاگیاہے مگر اس سے مراد کتابت کی شکل میں موجود قرآن نہیں ، یہ نقش ہے جو نہ الفاظ ہے اور نہ معنیٰ ہے۔ تو سوال پیدا ہوتاہے کہ یہ انوکھی تعریف کہاں سے لائی گئی ہے۔ کتاب تو وہی ہوتی ہے جو کتابت کی صورت میں موجود ہو۔ کوئی ان پڑھ بھی اس بات کو سمجھتا ہے کہ کتاب کیاہے؟، بچہ اور بچی بھی سمجھ رکھتے ہیں کہ کتاب کیا ہے؟ اور قرآن اللہ کی کتاب ہے۔ کتاب کی یہ تعریف قرآن مجید سے نہیں بلکہ علم الکلام سے لی گئی ہے۔ علم الکلام وہ علم ہے جس کو گمراہی قرار دیکر امام ابوحنیفہ ؒ نے تائب ہوکر فقہ کی طرف توجہ فرمائی تھی۔ یہ کس قدر ڈھیٹ پن ہے جس میں آنکھ بینائی، کان سننے ، دماغ سوچنے اور دل سمجھنے سے محروم ہیں کہ یہی کہاجاہے کہ کتاب سے مراد قرآن المکتوب فی المصاحف ’’ جومصاحف میں لکھا گیاہے‘‘ ہے مگر قرآنی نسخوں میں لکھاگیا مراد نہیں ہے کیونکہ وہ تو محض نقوش ہیں۔ چناچہ فقہ کا یہ مسئلہ بھی ہے کہ اگر کہا جائے کہ قرآن کی قسم تو حلف کا کفارہ دینا پڑیگا مگر قرآن کے مصحف پرہاتھ رکھنے سے حلف منعقدنہیں ہوتا کیونکہ یہ اللہ کا کلام نہیں ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ بات بھی ہے کہ فقہ حنفی کی معتبر کتب میں لکھا گیاہے کہ سورۂ فاتحہ یا دیگر آیات کو علاج کیلئے بول یعنی پیشاب سے لکھنا جائز ہے۔ مفتی محمد تقی عثمانی نے بھی کتابوں ’’ تکملہ فتح الملہم ‘‘ اور ’’ فقہی مقالات‘‘ میں لکھ دیا تھا کہ’’ صاحب ہدایہ نے اپنی کتاب تجنیس میں لکھاہے کہ اگر یقین ہو کہ علاج ہوجائیگا تو سورۂ فاتحہ کو بھی پیشاب سے لکھنا جائز ہے۔ میں نے کوشش کے باجود امام ابویوسفؒ کی کتابوں میں یقین کی شرط نہیں پائی‘‘۔ مفتی تقی عثمانی نے دعوتِ اسلامی کی مہم جوئی سے گھبرا کر روزنامہ اسلام اخبار میں مضمون لکھ کر اپنی کتابوں سے اس کو نکالنے کا اعلان کردیا۔ مگرفتاویٰ شامیہ اور فتاویٰ قاضی خان میں تاحال یہ عبارات موجود ہیں۔ بریلوی مکتبۂ فکر کے علامہ غلام رسول سعیدیؒ نے اپنی شرح صحیح مسلم میں اتنا لکھاکہ ’’علامہ شامیؒ سے بال کی کھال اتارنے کے چکر میں غلطی ہوگئی ہے ورنہ ان کے دل میں قرآن کا بڑا تقدس تھا‘‘۔ تو بریلوی مکتب کے علماء نے ہی علامہ سعیدیؒ کا گریبان پکڑا تھاکہ تم نے علامہ شامی کے خلاف یہ جسارت کیسے کردی۔ تحریک انصاف کے ایک مفتی عبدالقوی قندیل بلوچ کیس میں ریمانڈ پر ہیں تو دوسرے مفتی سعید خان نے بھی اپنی کتاب’’ ریزہ الماس‘‘ میں سورۂ فاتحہ کو پیشاب لکھنا نہ صرف جائز قرار دینے کا دفاع کیا ہے بلکہ یہانتک لکھ دیا ہے کہ قرآن میں خنزیر کا گوشت بوقت ضرورت جائز ہے تو وہ جسم کا حصہ بھی بنتاہے جبکہ سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جسم کا حصہ نہیں بنتاہے۔ یہ کتاب 2007 میں شائع ہوئی ۔ مفتی سعید خان سے بالمشافہ علماء کی مخالفت بھی کی۔ قرآن میں ہے :الذین یکتبون الکتاب بایدیہم ’’جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں‘‘۔ کتاب وہ ہے جو ہاتھ سے لکھی جاتی ہے۔ وقلم ومایسطرون ’’قسم قلم کی اور جو کچھ سطروں میں لکھاہے اس کی قسم ‘‘۔ اصول فقہ اور فقہ کی کتابوں میں قرآن وسنت کیخلاف واضح مواد نے علماء ومفتیان کو گمراہی میں ڈال دیاہے۔ مولانا یوسف لدھیانویؒ نے موجودہ دور میں مساجد کے علماء کو احادیث کی بنیاد پر بدترین مخلوق اور مدارس کے مفتیوں کو جاہل قرار دیاہے جبکہ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے اپنی کتاب’’ تقلید کی شرعی حیثیت‘‘ میں علماء کے اٹھ جانے سے علم کے اٹھنے و جاہلوں کا رئیس بننے کی اس حدیث کو چار امام کے بعدہی تمام آنیوالے علماء پر فٹ کیاہے۔ مفتی تقی عثمانی نے ٹھیک بات کہی ہے گو اسکا ارادہ باطل ہے۔ جیسے حضرت علیؓ نے خوارج کے بارے میں فرمایا تھا کہ ’’ ان کی بات درست ہے مگر وہ اس ٹھیک بات سے باطل مراد لیتے ہیں‘‘۔ اپنی کتابوں’’ ابررحمت ،تین طلاق کی درست تعبیر اور تین طلاق سے رجوع کا خوشگوارحل‘‘ میں پیچیدہ مسائل کے آسان حل کی کوشش کی ہے جسکی تمام مکاتبِ فکر نے تائید بھی کردی ہے۔ بڑے بڑوں نے گدھوں کی طرح آنکھ بند کرکے سمجھ رکھاہے کہ مذہب کی تجارت چل رہی ہے مگر ڈریں اسوقت سے جب مکافات عمل شروع ہوگا اور پھر ہمارے بچانے سے بھی یہ سب بچ نہ پائیں گے۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ نے جس علم الکلام کو گمراہی قرار دیا تھا وہ اصول فقہ میں قرآن کے خلاف سازش یا غلطی سے شامل ہواہے تو اس کو نصاب سے خارج کردینا چاہیے تھا، جس کی ہم نے بار بار زبردست طریقے سے نشاندہی کی۔ جب قرآن میں بسم اللہ کے وجود کو صحیح قرار دینے کے باوجود مشکوک کہا جائے تو قرآن پر ایمان باقی نہیں رہتا، جہری نمازوں میں جہر سے بسم اللہ پڑھنے پر امام شافعیؒ کو رافضی قرار دیاگیا اور منہ کالا کرکے گدھے پر گھمایا گیا تو آج خطرہ ہے کہ جہری بسم اللہ پر خود کش نہ ہوجائے۔ افراتفری کی فضاء سے علماء اور حکمرانوں کو سخت نقصان پہنچے گا جو آرام سے کھا پی رہے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری اور مفتی رفیع عثمانی اتنی مہربانی کریں کہ اپنی اپنی کتابوں میں حدیث کے ادھورے حوالہ کی عوام کے سامنے صرف وضاحت کردیں تاکہ گونگا شیطان یا علم چھپانے کی وعید سے بچ جائیں اور 12امام کادرست نقشہ بھی سب کو سمجھنے میں آسانی رہے۔ حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑہ شریف نے بھی اپنی کتاب ’’تصفیہ مابین شیعہ و سنی‘‘ میں لکھا کہ’’ بارہ امام آئندہ آئینگے‘‘۔ جس حدیث میں آخری امیر کو واضح کیا گیا ہے اسی میں قحطانی امیر سے قبل والے مہدی کی بھی وضاحت ہے۔ اجنبی کیلئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’اس پر قرآن اپنی عظمت کے ساتھ روشن ہوگا‘‘۔ آج ہمیں قرآن و سنت کی طرف رجوع کی ضرورت ہے۔
دیوبندی بریلوی حنفی ہیں ۔ عرصہ سے تین طلاق اور مروجہ حلالہ کا مسئلہ چلا آرہا ہے۔ ہندوؤں نے مذہبی کتابوں کی طرف رجوع شروع کردیا ہے۔ اگر ان کی کسی مذہبی کتاب کی سے ثابت ہو کہ ’’گائے کا پیشاب پینا جائز نہیں‘‘ تو ہندو اکثریت سوال اٹھائے کہ ہمارے آبا و اجداد کے آباو اجداد کے آبا و اجداد کے آبا و اجداد ۔۔۔ نے تسلسل سے مقدس مشروب نوش کرنا مذہبی فریضہ سمجھا او ہم کیسے مانیں کہ گائے کا پیشاب جائز نہیں۔ علامہ اقبال نے کہا کہ اصل میری سومناتی ہے ۔ پاکستان میں دیوبندی بریلوی اکثریت سومناتی ہے۔ لاتی و مناتی مشرکین مکہ اور جاہلیت عرب کے شرک و جہالت کا خاتمہ اسلام کی نشاۃ اول سے ہوا۔ اور اب اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے ذریعے انشاء اللہ نہ صرف پاکستان ، ہندوستان ، ایشیاء بلکہ پوری دنیا میں اسلامی انقلاب آئیگا اور دنیا کی تمام جہالتوں کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکے گا۔ 8سو سال برصغیر پاک و ہند پر مسلمانوں کا اقتدار رہا لیکن ہندوؤں نے تین طلاق اور حلالہ کی بے غیرتی کو قبول نہ کیا۔ حلالہ کی بے غیرتی اور گائے کے پیشاب کے درمیان ایک نیا مذہب گرونانک نے ایجاد کیا جسکے پیروکاروں کا نام سکھ ہے، راجا رنجیت سنگھ نے پنجاب میں اقتدار پر قبضہ کیا تو انگریز کیلئے یہ مشکل محاذ تھا۔ راجا رنجیت سنگھ سے اقتدار چھیننے کیلئے حضرت شاہ ولی اللہؒ کے پوتے شاہ اسماعیل شہیدؒ اور سید احمد بریلویؒ کو انگریز نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی اُمید پر خلافت کے قیام کیلئے چھوڑ ا۔ مگر ان کو بالاکوٹ کے مقام پر ساتھیوں سمیت شہید کردیاگیا۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کی قیادت میں خلافت کی کوشش ناکام ہوئی۔ فیصلہ ہفت مسئلہ میں حاجی مہاجر مکیؒ نے مریدوں اور خلفاء کے درمیان فروعی اختلافات کو ختم کرنے کی ناکام کوشش کی۔ مالٹا سے رہائی کے بعد تحریک ریشمی رومال کے شیخ الہند ؒ نے اپنے شاگردوں کو فرقہ واریت کے خلاف اور قرآن کی طرف اُمت کو متوجہ کرنے کی کوشش کا آغاز کیا مگر اسی سال 1920ء میں رہائی کے چند ماہ بعد آپ کا انتقال ہوگیا۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے ایک طرف تقلید کی باگیں ڈھیلی کردیں تو دوسری طرف قرآن کا ترجمہ کردیا۔ شاہ اسماعیل شہیدؒ نے تقلید کو بدعت قرار دیا اور دیوبندی اکابرؒ نے قرآن و سنت کی طرف توجہ کی۔ مولانا احمد رضا خان بریلویؒ نے ’’حسام الحرمین‘‘ کا فتویٰ لگایا جس میں حرمین شریفین کے علماء کے دستخط بھی تھے۔ مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ نے ’’المہند علی المفند‘‘ کے نام سے دیوبندی اکابر کا دفاع کیا کہ ہم چاروں ائمہ کی تقلید کو برحق مانتے ہیں اور فقہ حنفی سے ہمارا تعلق ہے۔ اور چاروں سلاسل نقشبندی، قادری، سہروردی اور چشتی کو برحق سمجھتے ہیں اور ہمارا تعلق چشتیہ سلسلہ سے ہے۔ اگر مسلکی بنیادوں پر فروعی اختلافات کو ہوا دینے کے بجائے قرآن و سنت کی طرف توجہ کی جاتی تو حنفی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے دونوں ایکدوسرے کیساتھ شانہ بشانہ کام کرتے۔ مزارات پر غیر شرعی رسومات کیخلاف مولانا احمد رضا خان بریلویؒ دیوبندی اکابر سے کم نہیں تھے لیکن جس جرأتمندی کا مظاہرہ دیوبندی مکتبہ فکر کے علماء نے کیا وہ بریلوی مکتبہ فکر کے علماء نہیں کرسکے۔ قرآن کی آیات اور احادیث صحیحہ کے اندر طلاق و رجوع کے حوالے سے کسی قسم کے اختلاف کی گنجائش نہیں۔ فقہ حنفی کے اصول کا منبع قرآنی آیات کے مقابلے میں احادیث صحیحہ کا تضاد ہے۔ اصول فقہ کی پہلی کتاب ’’اصول الشاشی ‘‘ کا پہلا سبق ہے کہ سورہ بقرہ کی آیت: 230 حتی تنکح زوجاً غیرہ ’’یہانتک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرلے‘‘ میں عورت کو نکاح کی آزادی دی گئی ہے۔ حدیث میں ہے کہ ’’ عورت اگر ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو اسکا نکاح باطل ہے ، باطل ہے، باطل ہے‘‘۔ قرآن میں آزادی ہے اورحدیث میں عورت پر نکاح کیلئے ولی کی اجازت کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا قرآن پر فیصلہ کیا جائیگا اور حدیث کو ترک کردیا جائیگا۔ یہ حنفی مسلک جمہور مسلکوں کیخلاف ہے، انکے نزدیک حدیث صحیحہ کے مطابق عورت ولی کی اجازت کی پابند ہے۔ اسی طرح اللہ نے فرمایا کہ فلیطوفوا باالبیت العتیق ’’اور کعبہ کا طواف کرو‘‘ جس میں بظاہر وضو کا حکم بھی نہیں ہے جبکہ نماز کیلئے اللہ تعالیٰ نے وضو کا حکم دیا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ طواف پاکی کی حالت میں اور باوضو کرو۔ حنفی مسلک کے نزدیک اگر حدیث کے مطابق وضو کو طواف کیلئے بھی ضروری قرار دیا جائے تو یہ قرآن پر اضافہ ہوگا اسلئے طواف کیلئے وضو فرض نہیں۔ طلاق سے رجوع کیلئے قرآن میں وضاحت ہے : المطلقٰت یتربصن بانفسھن ثلاثۃ قروء … و بعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحاً ’’طلاق والی عورتیں 3مراحل تک خود کو انتظار میں رکھیں ۔۔۔ اور انکے شوہر اس میں ان کو لوٹانے کا اصلاح کی شرط پر حق رکھتے ہیں‘‘(البقرہ: 228)۔ آیت میں رجوع کو صلح کی شرط پر عدت کے آخر تک جائز قرار دیا گیا ۔ اگر حدیث میں واضح طور سے ہوتا کہ عدت کے دوران صلح کی شرط پر رجوع نہیں ہوسکتا تو مسلک حنفی کا تقاضہ تھا کہ اس صحیح حدیث کو بھی نہ مانتے۔ لوہے کولوہا کاٹتا ہے۔ قرآن کی آیت کو قرآن کی آیت ہی سے کاٹا جاسکتا ہے ۔ مولوی کہتا ہے کہ اللہ اگلی آیت میں نعوذ باللہ خود پھنس گیا۔ فرمایا: الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف او تسریح باحسان ’’طلاق دو مرتبہ ہے اور پھر معروف طریقے سے رکھنا ہے یا احسان کیساتھ رخصت کرنا‘‘(البقرہ: 229)۔ اللہ نے اصلاح کی شرط پر رجوع کی اجازت دی ،تو دوسری آیت میں دو مرتبہ طلاق پر غیر مشروط رجوع کی اجازت دی اور پہلی آیت کا حکم ختم کردیا اور پھر 2 مرتبہ کے بعد تیسری مرتبہ طلاق پر مدت کے اندر بھی رجوع کا خاتمہ کردیا۔ اہلحدیث کے نزدیک بھی 3 مجالس میں 3 مرتبہ طلاق کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا۔ یہ بات درست تسلیم کی جائے تو قرآن میں تضاد و اختلاف ثابت ہوگا۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ اللہ نے آیت 228 البقرہ میں عدت کے دوران صلح کی شرط پر اجازت دی اور 229 میں 2مرتبہ غیر مشروط رجوع کی اجازت دی اور تیسری مرتبہ پر عدت میں رجوع کا دروازہ بند کردیا۔ جبکہ قرآن نے چیلنج کیا ہے کہ افلا یتدبرون القرآن ولو کان من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافاً کثیراً ’’یہ قرآن میں تدبر کیوں نہیں کرتے۔ اگر یہ اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سارا اختلاف (تضاد) پایا جاتا‘‘۔ قرآن میں تضاد نہیں۔ آیت : 228میں جن 3 ادوار کا ذکر کیا تھا ، آیت: 229میں بھی انہی 3 ادوار کا ذکر ہے۔ معروف رجوع اور صلح کی شرط پر رجوع میں کوئی فرق نہیں ۔ حنفی اور شافعی مسلکوں کے تضاد کو رجوع کے حوالے سے سامنے لایا گیا تو منکرات بھی شرما کر رہ جائیں۔ شافعی مسلک میں نیت نہ ہوتو مباشرت سے بھی رجوع نہ ہوگا اور حنفی مسلک میں شہوت کی نظر غلطی سے پڑنے پر بھی رجوع ہوگا۔ جن 3ادوار میں اللہ نے صلح کی شرط پر رجوع کی اجازت آیت 228میں دی تھی ، اسی کو آیت 229میں بھی اسی طرح وضاحت کے ساتھ برقرار رکھا گیا ہے۔ سورہ طلاق اور بخاری کی احادیث میں بھی وضاحت ہے۔ اللہ نے واضح کردیا کہ رجوع کا تعلق عدت سے ہے۔ یہ بھی واضح کیا کہ حیض میں 3 مرتبہ طلاق کا تعلق حیض کے 3ادوار سے ہے۔ اصلاح کی شرط و معروف رجوع کی اجازت عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل پر ہے۔ سورہ بقرہ آیت 228، 229، 231، 232۔ اسی طرح سورہ طلاق کی پہلی دو آیات میں بھی یہ وضاحت بھرپور طریقے سے موجود ہے۔ علماء کرام و مفتیان عظام اور عوام کو سب سے بڑا مغالطہ سورہ بقرہ آیت 230سے ہے ۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’پھر اگر اس کو طلاق دیدی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے شادی کرلے‘‘ ۔ کسی بھی آیت کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ اس سے پہلے کی آیات اور بعد کی آیات سے اس کا ربط بھی دیکھ لیا جائے۔ علماء کرام جانتے ہیں کہ فقہ و اصول فقہ کی کتابوں میں حنفی اور جمہور علماء کے اختلافات موجود ہیں۔ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے ؟ ، تو فرمایا کہ الطلاق مرتٰن کے بعد تسریح باحسان تیسری طلاق ہے۔ مولانا سلیم اللہ خانؒ اور علامہ غلام رسول سعیدیؒ نے اپنی اپنی بخاری کی شرح میں اس کو نقل کیا ۔ یہ حدیث سے واضح ہے کہ اصول فقہ اور تفسیر کی کتابوں میں یہ بحث فضول ہے کہ آیت 229 میں عورت کی طرف سے فدیہ دینے کا ذکر جملہ معترضہ ہے یا متصل ہے؟۔ اور یہ بات بھی سراسر حماقت ہے کہ اس سے مراد خلع ہے کیونکہ 2مرتبہ طلاق کے بعد خلع کی ضرورت کیا ہے؟۔ سورہ نساء آیت 19میں خلع کا ذکر ہے اور خلع کی احادیث کو اسکے ضمن میں لکھنے کی ضرورت تھی۔ آیت 229کے آخر میں اس بات کا ذکر ہے کہ ’’تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے ، اس میں سے کچھ بھی واپس لو، مگر یہ کہ دونوں کو خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے اور اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو عورت کی طرف سے اس چیز کو فدیہ کرنے میں دونوں پر حرج نہیں ، یہ اللہ کے حدود ہیں اور جو ان سے تجاوز کرے تو بیشک وہی لوگ ظالم ہیں‘‘۔ حنفی مسلک کی کتاب ’’نور الانوار‘‘ میں یہ وضاحت ہے کہ’’ آیت 230کا تعلق اس متصل فدیہ کی صورت سے ہے‘‘۔ علامہ ابن قیمؒ نے ابن عباسؓ کا بھی یہ قول نقل کیا ہے کہ قرآن کو اسکے سیاق و سباق سے نہیں ہٹایا جاسکتا ہے اور اس آیت 230 کا تعلق فدیہ کی متصل صورت سے ہے۔ (زاد المعاد: ابن قیمؒ )۔ عوام الناس کو سمجھانے کیلئے یہ بات بھی کافی ہے کہ میاں بیوی کے درمیان طلاق کی 3 شکلیں ہیں ۔ 1:میاں بیوی دونوں جدا ہونا چاہتے ہوں ۔ 2: شوہر نے طلاق دی ہو ، بیوی جدائی نہ چاہتی ہو۔ 3: شوہر جدائی نہ چاہتا ہو مگر عورت نے خلع لیا ہو۔ آیت 230البقرہ میں وہ صورت ہے جب میاں بیوی اور فیصلہ کرنے والے باہوش وحواس دونوں میں جدائی کا فیصلہ کریں۔ یہاں تک کہ عورت کو شوہر کے دئیے ہوئے مال میں سے کچھ دینا حلال نہ ہونے کے باوجود فدیہ کی صورت اس صورت میں جائز ہو کہ جب وہ چیز رابطے کا ذریعہ اور اللہ کے حدود توڑنے کیلئے خدشہ بنے۔ ایسی صورت میں بھی شوہر کی فطری مجبوری ہوتی ہے کہ اپنے بچوں کی ماں کیلئے کسی اور سے اس کی مرضی کے مطابق شادی میں رکاوٹ کھڑی کرے۔ عمران خان نے کچھ عرصہ قبل ریحام خان کو طلاق دیدی تو وہ پاکستان اپنی جان پر کھیل کر آئی۔ لیڈی ڈیانا کو اس جرم پر ما ر دیا گیا ۔ رسول اللہ ﷺ کیلئے اللہ نے فرمایا : آپ کی ازواج سے کبھی بھی نکاح نہ کرے ، اس سے نبی کو اذیت ہوتی ہے۔ کوئی انسان بھی اس فطری خصلت سے انحراف نہیں کرسکتا کہ بیوی کو طلاق کے بعد کسی اور سے نکاح کرنے میں برداشت کرسکے۔ اسی طرح عورت کی بھی یہ فطری خصلت ہوتی ہے کہ طلاق کے بعد کسی اور سے شادی کرنے میں عار محسوس کرتی ہے اور اپنی غیرت کیخلاف سمجھتی ہے۔ رسول ﷺ کی چچا زاد حضرت اُم ہانیؓ ابتدائی مسلمانوں میں سے تھیں مگر مشرک شوہر کی وجہ سے ہجرت نہیں کی۔ فتح مکہ کے بعد شوہر چھوڑ کر چلا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے نکاح کی پیشکش کی لیکن آپؓ نے اُم المؤمنین بننے کے شرف کو بھی قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اُردو کی مشہور شاعرہ پروین شاکرؒ کو شوہر نے طلاق دی، کسی اور سے نکاح کرلیا مگر پروین شاکرؒ فطرت پر ڈٹ گئی اور زندگی اپنے بے وفا شوہرکی نذر کردی۔ وہ ان ہزاروں لاکھوں خواتین کی حقیقی ترجمان تھیں جن میں حلالہ کی وجہ سے نہیں فطری غیرت کی وجہ سے سابقہ شوہر کی وفا ہوتی ہے۔ جب لڑکی کنواری ہوتی ہے تو باپ اور ولی اس کو اپنی مرضی سے نکاح نہیں کرنے دیتا ۔ کورٹ میرج اور قتل کے واقعات میڈیا کی زینت بنتے ہیں۔ حدیث میں ایک طرف باپ کو پابند کیا گیا ہے کہ لڑکی کی مرضی کے بغیر اس کا کسی سے نکاح کرانا جائز نہیں ، اور دوسری طرف ولی کی اجازت کے بغیر لڑکی کا نکاح باطل قرار دیا گیا ۔ معاشرے میں احادیث کی بنیاد پر توازن اور اعتدال کی راہ ہموار ہوسکتی تھی لیکن اس کیلئے کوئی سنجیدہ قسم کی علمی اور معاشرتی کوشش نہیں کی گئی۔ جس طرح باپ لڑکی کی مرضی سے نکاح میں رکاوٹ بنتا ہے ، اس طرح باہوش و حواس طلاق کے بعد بھی سابقہ شوہر عورت کے نکاح میں رکاوٹ بنتا ہے اسلئے اللہ تعالیٰ نے بھرپور طریقے سے وضاحت فرمائی ہے کہ جب وہ باہوش و حواس طلاق دیتا ہے تو کسی اور سے نکاح کرنے میں رکاوٹ کھڑی کرنا اس کیلئے جائز نہیں ہے۔ حلالہ کی لعنت کے رسیاکو زنا کاری کا حدجاری کرنے سے ہی روکا جاسکتاہے لیکن اس بات کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہے کہ جس طلاق سے پہلے نہ صرف میاں بیوی جدا ہونے پر باہوش وحواس بضد ہوں بلکہ وہ خود بھی اور فیصلہ کرنے والے بھی آئندہ رابطے کا بھی کوئی ذریعہ چھوڑنے کیلئے تیار نہ ہوں۔ ایسی صورت میں سوال یہ پیدا نہیں ہوتاہے کہ رجوع جائز ہے یا نہیں بلکہ مسئلہ یہ آتاہے کہ اگر عورت طلاق کے بعد شوہر کے گھر میں بیٹھ جائے یا اپنے یا باپ کے گھر میں بیٹھ جائے تو شوہر کو کوئی تکلیف نہیں پہنچتی ہے۔ لیکن جب وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرنا چاہتی ہو تو پہلا شوہر اسکے رکاوٹ بنتاہے اور یہ فطری بات ہے انسانوں اور جانوروں کے علاوہ پرندوں میں بھی یہ خصلت ہوتی ہے، اسلئے اس موقع پر اللہ نے واضح کر دیا کہ اس طلاق کے بعد اس کیلئے حلال نہیں کہ وہ دوسرے شوہر سے نکاح میں رکاوٹ پیدا کرلے۔ یہ وہ صورت ہے جس کا ذکر آیت 230البقرہ میں کیا گیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہوہی نہیں سکتا ہے کہ مرغی پر چھرا پھیرنے کی طرح رجوع کیلئے حلالہ کی مروجہ لعنت مراد ہے اور سورۂ بقرہ کی آیات224سے232تک دیکھی جائیں تو حلالہ کی جہالت کا بہر صورت ان میں خاتمہ نظر آتاہے۔بخاری و ابوداؤد کی حدیت اور سورۂ طلاق کی وضاحت بھی ہے۔ 2: دوسری صورت یہ ہے کہ شوہر نے طلاق دی اور بیوی جدائی نہیں چاہتی ہے تو شوہر کو عدت کی تکمیل پر بھی معروف طریقے سے رجوع کی اجازت دی گئی ہے۔ جسکا ذکر آیت 231 البقرہ میں ہے۔ 3: تیسری صورت یہ ہے کہ عورت جدائی چاہتی ہو اور مرد نے طلاق دی ہو تو عدت کی تکمیل کے بعد بھی جب دونوں آپس میں راضی ہوں تو معروف طریقے سے رجوع میں رکاوٹ کھڑی کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس کا ذکر آیت 232البقرہ میں ہے۔ علاوہ ازیں سورہ طلاق میں بھی عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل پر نہ صرف معروف طریقے سے رجوع کی گنجائش کا ذکر ہے بلکہ طلاق کی صورت میں دو عادل گواہ مقرر کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ عدت کی تکمیل پر گواہوں کا تقرر تمام مسائل کے حل کا مجموعہ ہے۔ لفظ طلاق میں کوئی کراہت اور برائی نہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر فرمایا :لا تثریب علیکم الیوم انتم طلقاء ’’تم پر آج کوئی ملامت نہیں تم آزاد ہو‘‘۔ طلاق کے لفظ میں برائی ہوتی تو نبی کریم ﷺ ملامت نہ کرنے والوں کو طلقاء کیوں بولتے؟ مگر اس میں برائی نہیں۔ میاں بیوی کی جدائی کو نبی ﷺ نے ابغض الحلال الطلاق قرار دیا ہے جس کا مطلب ’’سب سے ناراضگی والی صورت حلال کی طلاق ہے‘‘ ۔ عربی کی الف ب سے ناواقف اور نا اہل علماء و مفتیان نے عجیب و غریب قسم کے فقہی مسائل گھڑ رکھے ہیں۔ عربی کہے کہ بشرت زوجتی فطلق وجہہ ’’میں نے اپنی بیوی کو خوشخبری سنائی تو اسکا چہرہ کھل گیا‘‘۔ بعض مفتیان سے اس جملہ پر فتویٰ لیا جائے تووہ کہیں گے بیوی طلاق ہوگئی۔ حدیث میں نامرد کے ذریعے حلالہ کا ذکر ہے تو اس واقعہ میں الگ الگ مرتبہ تین طلاق کی بھی وضاحت ہے اور وہ حدیث بھی خبر واحد ہے جس میں حنفی مسلک کیمطابق یہ صلاحیت نہیں کہ وہ قرآن کے مقابلے میں قابلِ عمل ہو۔ نامرد ویسے بھی مطلوبہ و ملعونہ حلالے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ صحیح احادیث کے مقابلے میں روایات گھڑی گئی ہیں۔ کوئی من گھڑت حدیث بھی نہیں، جس میں ایک ساتھ تین طلاق پر حلالے کا حکم دیا گیا ہو۔ صحابہؓ اور چارا ماموں کا مسلک درست تھا کہ3 طلاق کے بعد شوہر کو رجوع کا حق نہیں لیکن حق اور گنجائش میں بڑا فرق ہے۔ قرآن میں طلاق کے بعد بھی شوہر کو رجوع کا حق نہیں دیا، رفاعۃ القرظیؓ کی بیگم نے دوسرے سے شادی کرلی ۔ حق مہر کے بعد شوہر کا حق بنتاہے کہ بیوی سے مباشرت کرے۔ یہ تو کہیں بھی ثابت نہیں کہ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد عدت میں کسی کو رجوع کیلئے حلالہ کا فتویٰ دیا گیا ہو۔ صحابہ کرامؓ اور ائمہ مجتہدینؒ نے یہ غلط کام نہیں کیا۔ عتیق
نوشتۂ دیوار کے منتظم فیروز چھیپا نے کہا: کہ سعودی اندورنی انتشار حرمین کیلئے خطرہ ہے، سعودیہ و ایران تصفیہ ضروری جبکہ امریکہ سے امن کو خطرہ ہے۔ ایران اور بھارت کے درمیان گیس پائپ لائن بچھادی، پاکستان کا مسئلہ ایرانی تیل و گیس سے حل کیا تو بھارت و امریکہ گٹھ جوڑ ختم ہوگا، ایران سے اعتماد بحال ہو تو سعودیہ ایران فساد کا راستہ روکنا آسان ہوگا۔ پاکستان قائدانہ صلاحیت کو بروئے کار لائے ۔ گیس پائپ لائن سے کشمیر آزاد ہوگا۔ برصغیر کو گیس مل جائیگی تو درختوں کی کٹائی کا مسئلہ بھی لکڑی جلانے کیلئے نہ رہیگااورآلودگی کا خاتمہ ہوگا۔پُر امن ماحول میں دفاعی بجٹ شہید وں کے بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے کام آئیگا تو باصلاحیت قیادت ملک وقوم کیلئے غریبوں کا مقدر بنے گی۔ فوجی وسول افسر اور سیاستدان کا نسل در نسل اقتدار پر قبضہ بڑا مسئلہ ہے۔ اگروہ صلاحیت رکھتے تو پاکستان بد سے بدتر حالت پرنہ پہنچتا،کیا سول وملٹری بیوروکریسی اور موروثی سیاستدان قوم کو انگریز نے حق مہر یا جہیز میں دئیے؟ عوام پر یہ بوجھ ہے! ۔ ٹیکس پر ٹیکس، قرضہ پر قرضہ لیکر بیرون ملک سرمایہ منتقل اور قوم کا سبھی نے بیڑہ غرق کیا۔ جاہل بھوکی عوام کھڑی ہوئی تویہ چھوٹا طبقہ قلعوں اور محلات میں سخت انتقام کا نشانہ بن جائیگا۔ 70سال سے کشمیر آزاد نہ ہوابلکہ ملک دولخت ہوگیا، قرض کی سودی ادائیگی نے دیوالیہ بنادیا مگر حکمران ٹیٹیں مار ے کہ ہم نہ ہوتے تو عوام کی زندگی اجیرن بنتی، سعودیہ میں جاہل مذہبی طبقہ نے معاشرتی خرابیاں جنم دیں۔ مسیار سے علاج نہ ہوا، تو مغرب کی آزادی سے معاشرتی برائیاں ختم کرنیکا فیصلہ ہوا۔ ہمارا یہ اخبار امن کی وہ چڑیا ہے جو نمرود کی آگ میں چونچ سے پانی ڈال رہا تھا اور پھونک مار کر آگ کے الاؤ کو تیز کرنے کی خواہش رکھنے والی چپکلی سے ہماراجذبہ یکسر مختلف ہے ۔