پوسٹ تلاش کریں

خانہ بدوش مولانا فضل الرحمن درباری مُلا بننے کے بعد

اللہ تعالیٰ نے سورۂ قریش میں دنیا کی معززترین عرب قوم قریش کو مخاطب کرتے ہوئے خانہ بدوش قرار دیا ، خانہ بدوشی عیب نہیں، اسلام و فطرت کے منافی بھی نہیں، غیرت و حمیت کی بھی خلاف نہیں البتہ قافلے میں بوڑھے، جوان، خواتین و حضرات اور بچے بچیوں کا چلنا مشقت ضرور ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے اجداد بھی خانہ بدوش تھے۔ مسلمانوں کا عظیم اجتماع ’’حج‘‘ ہوتاہے جہاں لوگ دنیا بھر سے خاندان سمیت بڑی تعداد میں آتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے سلیم صافی کو انٹریو دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے Dچوک کی طرح تو خواتین کا مظاہرہ نہیں کرنا تھا ، ہمارے مرد حضرات خواتین کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مخلوط نظام کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔ جیو کی پالیسی نہیں ہوگی ورنہ سلیم صافی حج کا حوالہ دیکر مولاناکا قہقہہ رونے میں بدل سکتے تھے۔
اسلام میں خواتین کیساتھ زیادتی کے علاوہ قوم لوط کے غیر فطری عمل کو بھی بہت مذموم قرار دیا گیا ہے۔ مدارس کے نصاب میں شامل ’’مقاماتِ الحریری‘‘ میں لڑکے کیساتھ زیادتی پر بہت شرمناک سبق ہے جس میں جوزر علیہ شوزر ہے، جوزر لڑکے اور شوزر رومال کو کہتے ہیں ، یعنی وہ لڑکا جس پر رومال تھا۔ ابوزید اپنا حلیہ بدل کر اس پر دعویٰ کرتاہے کہ اس نے میرے لڑکے کو مارا تھا، قاضی کے سامنے گواہ پیش نہیں کرسکتا تو لڑکے سے اپنے الفاظ پر قسم کھلاتا ہے کہ پھڑکنے والے گال سے لیکر آنکھوں اور لبوں تک کی تعریف کرکے انتہائی بیہودگی کا یہ لفظ بھی کہتاہے کہ ’’میری دوات قلموں سے ایسی ہوجائے‘‘۔ جس پر لڑکا قسم سے انکار کرتا ہے اور وہ شخص ابوزید اس قاضی کے جذبات کو بھی مشتعل کردیتا ہے اور اس کو لڑکے سے برائی کی دعوت کا دھوکہ دیکر پیسے بٹورتاہے۔ پھر انکشاف کرتاہے کہ یہ لڑکا اس کا اپنا ہی بیٹاہے۔بنوری ٹاؤن میں اس کتاب کے ہمارے استاذ مفتی نعیم تھے۔ جب میرے ایک بھائی نے ایک مولوی کا کہا کہ ’’اس بے غیرت نے اپنے بیٹے کو استعمال کرنے کیلئے چھوڑ رکھاہے‘‘ تو مجھے اتنا غصہ آیا کہ میرا پروگرام بنا کہ رات کو بھائی کو قتل کردونگا، بھائی کو میری دل آزاری کا احساس ہوا، اور مجھ سے بڑی شدت سے معافی مانگی۔ بعد میں بھائی جے یو آئی میں شامل ہوا، پھر جب میں باقاعدہ مدارس میں پڑھنے لگا تو پتہ چلا کہ علماء میں اچھے برے ہوتے ہیں۔ میرے والد نے ایک نواب کی علاقہ عمائدین کی طرف سے تعریف پر کہا’’اس نے لڑکوں سے زیادتیاں کی ہیں کونسا اچھا کام کیاہے؟‘‘۔ اس نواب نے تبلیغی اجتماع کیلئے اس قسم کا اظہارِ خیال کیا تھا اور اب مولانا فضل الرحمن عمران خان سے سیاسی اختلاف کا اظہار ضرور کریں ، پہلے جمعیت کا شاعر امین گیلانی نوازشریف کیخلاف عابدہ حسین اور تہمینہ دولتانہ کا نام لیکر مولانافضل الرحمن کے جلسے میں عوام کو بھڑکاتاتھااسلئے کہ محترمہ بینظیر سے دوستی تھی، اب مولانا مریم نواز کا دفاع کرینگے جو سیاست کرنی ہو کریں لیکن اسلام کا نام بدنام نہ کریں،سب اپنے اپنے قماش کو درست کریں۔

شیعہ سنی فرقہ واریت کی بڑی بنیاد اور اسکا حل

جب انصار و مہاجرین اور قریش و اہلبیت کے درمیان شروع سے خلافت و امامت کے مسئلے پر اختلافات موجود تھے تو آج کے دور میں اس کا حل نکلے بھی تو کوئی خاص فائدہ نہیں۔ البتہ اختلاف کو تفریق و انتشار کا ذریعہ بنانا درست نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اسلام اجنبیت کی حالت میں شروع ہوا ، یہ پھر اجنبیت کی طرف لوٹ جائیگا خوشخبری ہے اجنبیوں کیلئے۔ رسول اللہ ﷺ کی چاہت یہ تھی کہ لوگ اپنے ہاتھ سے خود زکوٰۃ تقسیم کریں۔ اللہ تعالیٰ نے عوام کی خواہش پر حکم دیا کہ ان سے زکوٰۃ لو ، یہ ان کیلئے تسکین کا ذریعہ ہے۔ نبی ﷺ نے اللہ کا حکم مانا مگر اپنے اہل بیت کیلئے اس کو حرام قرار دیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے سمجھا کہ خلیفہ کی حیثیت سے مجھے بھی زکوٰۃ لینے کا حکم ہے اور اس کی خاطر جہاد بھی کیا جس سے اہل سنت کے چاروں ائمہ مجتہدین نے اختلاف کیا۔ حضرت عمرؓ کی طرف منسوب کیا گیا کہ مؤلفۃ القلوب کی زکوٰۃ کو انہوں نے منسوخ کیا تو اس کو اکثریت نے قبول کیا جس میں ان کا اپنا مفاد تھا۔ حضرت عثمانؓ نے سمجھا کہ عزیز و اقارب کیساتھ احسان کرنا اللہ کا حکم ہے اسلئے انکے خلاف بغاوت کا جذبہ ابھرا اور ان کو مظلومیت کے ساتھ شہید کیا گیا۔ اللہ کی طرف سے رسول اللہ ﷺ پر رہنمائی کیلئے وحی نازل ہوتی تھی جس کا سلسلہ بند ہوا تھا۔
شیعہ سنی اختلاف میں ایک بنیادی مسئلہ حدیث قرطاس کا ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے قلم اور کاغذ منگوا کر وصیت لکھوانے کا فرمایا، حضرت عمرؓ نے کہا کہ ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے۔ بہت سی وہ آیات جن میں اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی اطاعت کا حکم ہے ، اہل تشیع اس کو آیات کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں، حضرت عمرؓ کی طرف سے رسول اللہ ﷺ سے اختلاف کا جواز ہو تو یہ بالکل بھی کوئی غیر معقول بات نہیں کہ اہل تشیع حضرت عمرؓ سے قیامت تک اپنا اختلاف برقرار رکھیں اور اسی پر دنیا میں گامزن رہیں۔ میں صرف اس انتشار کو ختم کرنے کیلئے کچھ دلائل دیتا ہوں تاکہ یہ فرقہ واریت کے زہر کیلئے تریاق کا کام کرے۔ قرابتداری کی محبت فطری بات ہے ، حضرت نوح ؑ نے اپنے کافر بیٹے سے بھی محبت کی۔ حضرت علیؓ کی ہمشیرہ حضرت اُم ہانیؓ شیعہ سنی دونوں کی نظر میں احترام کے لائق ہیں۔ وہ اللہ کے حکم کے مطابق ہجرت نہ کرسکیں ، اپنے مشرک شوہر کیساتھ فتح مکہ تک رہیں، قرآنی آیات میں مشرکوں سے نکاح منع ہونے کی بھرپور وضاحت ہے اور الزانی لا ینکح اور الطیبون للطیبات اور لاھن حل لھم ولا ھم یحلون لھن وغیرہ۔ ان تمام آیات کے باوجود جب اُم ہانیؓ کو اس کا شوہر چھوڑ کر گیا تو رسول ﷺنے نکاح کا پیغام دیا اور انہوں نے منع کردیا۔ ان سب چیزوں کے منفی منطقی نتائج نکالیں گے تو بدمزگی پھیلے گی۔ نبی ﷺ کو اللہ نے خود منع فرمایا کہ جن رشتہ داروں نے ہجرت نہیں کی ان سے نکاح نہ کرو (القرآن)۔ اسکے علاوہ نبی ﷺ نے مشاورت کرکے بدر کے قیدیوں سے فدیہ کا فیصلہ فرمایا تو اللہ نے اس کو مناسب قرار نہیں دیا۔ جس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ صحابہ کرامؓ کی تربیت اللہ کی طرف سے قرآن کی بھی اندھی تقلید کی نہیں ہوئی تھی۔ الذین اذا ذکروا باٰیت اللہ لم یخروا علیھا صما و عمیاناً (یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی آیات کے ذکر پر بھی اندھے اور بہرے ہوکر گر نہیں پڑتے)۔ مجھے خود بھی اس خاندان سے تعلق کا شرف حاصل ہے اور مجھے اس بات پر فخر ہے کہ حضرت اُم ہانیؓ نے اول سے آخر تک جو کردار ادا کیا اس میں ایک سلیم الفطرت خاتون کا ثبوت دیا۔ صحابہؓ اور اہل بیتؓ کے کردار کو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک آنے والے انسانوں کیلئے نمونہ بنایا ہے۔ حضرت اُم ہانیؓ کے اس کردار کی وجہ سے کوئی بھی دنیا کے کسی قانونی نکاح کو زنا نہیں قرار دے سکتا۔ لقد خلقنا الانسان فی احسن التقویم ثم رددناہ اسفل السافلین ہم گراوٹ کے آخری درجہ پر پہنچے ہیں جس کا قرآن میں ذکر ہے ، صحابہؓ واہلبیتؓ حضرت اُم ہانیؓ کا تعلق احسن التقویم سے تھا ۔
ہم نے یہ تماشہ بھی دیکھا ہے کہ علماء و مفتیان ہاتھ جوڑ جوڑ کر کہہ رہے تھے کہ خداکیلئے ہم حاجی عثمان ؒ کو بہت بڑا ولی اور مسلمان قرار دینگے لیکن ہماری طرف سے لگنے والے اکابرین پر فتویٰ کی تشہیر نہ کی جائے۔ جب ہم نے معاف کردیا تو پھر متفرق جائز و ناجائز اور نکاح منعقد ہوجائے گا وغیرہ کے فتوے کے بعد حاجی عثمان صاحبؒ کے اپنے ارادتمندوں اور عقیدتمندوں کے آپس کے نکاح کو بھی ناجائز اور اس کے انجام کو عمر بھر کی حرامکاری اور اولاد الزنا قرار دیا گیا حالانکہ اسلام دنیا بھر کے مذاہب و انسانوں کے قانونی نکاح و طلاق کو اسی طرح سے تسلیم کرتا ہے جیسے مسلمانوں کا۔ جن مفتیوں کے آباو اجداد ہندو تھے اور وہ مسلمان ہوئے تو وہ بھی حلال کی اولاد ہیں۔ شیعہ سنی تفرقے بہت سی غلط فہمیوں کا نتیجہ ہیں عشرۂ مبشرہ کے صحابہ کرامؓ نے بھی غلط فہمی کی بنیاد پر جنگیں کی تھیں۔ ائمہ اہلبیت کا توحید پر عقیدہ مثالی تھا مگر شیعہ حضرت علیؓ کو مولا سمجھ کر شریک ٹھہراتے ہیں یہ عقیدے کی اصلاح کیلئے ضروری ہے کہ حضرت علیؓ کو وہ مظلوم سمجھیں تاکہ مولا میں تفریق رہے۔

تین طلاق کا اہم ترین مسئلہ اور اس کا آسان حل

تین طلاق کے مسئلے پر نت نئے مسائل کھڑے ہوتے رہے ہیں۔تین مرتبہ طلاق پر قرآن وسنت کا ایک معروف ڈھانچہ ہے جسے کوئی بھی سمجھ سکتاہے اور دوسرا منکرات کا پیش خیمہ تھا جس کو بڑے لوگ آج تک بھی سمجھنے سمجھانے سے قاصر ہیں لیکن افسوس کہ مسلمانوں نے معروف کو چھوڑکر منکر پر طلاق کے ایسے مسائل کھڑے کردئیے کہ فرشتے بھی حیران ہونگے کہ آخر ابلیس کی ضرورت کیا ہے۔مذہبی لبادے میں شیاطین الانس کے خناس ہی کافی ہیں جن سے قرآن کے آخری سورہ میں آخری لفظ سے پناہ مانگی گئی ہے۔اللہ نے قیامت کے دن رسول ﷺ کی طرف قرآن میں یہ شکایت درج کی وقال رسول رب ان قومی اتخذوا ہذاالقرآن مھجورا
’’اور رسولﷺ فرمائیں گے کہ میرے رب میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا‘‘۔
طلاق کے مسائل کا آغاز کرنے سے پہلے اللہ نے فرمایا کہ ’’ اللہ کو اپنے عہدوپیمان کے لئے ڈھال کے طور پر استعمال نہ کرو، کہ تم نیکی نہ کرو، تقویٰ اختیار نہ کرو اورعوام میں مصالحت نہ کراؤ‘‘، مگر افسوس کہ پھر بھی اللہ کا نام لیکر میاں بیوی میں جدائی کرائی جاتی ہے اور تقویٰ اختیار کرنے کے بجائے حلالہ کی لعنت پر مجبور کیا جاتاہے، میاں بیوی صلح چاہتے ہیں لیکن علماء ان کے درمیان اللہ کو استعمال کرکے رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے۔ ہماری بات سمجھ میں آئی ہے لیکن ڈھیٹ بن گئے ہیں۔
قرآن میں طلاق کا لفظ جہاں استعمال ہوا ہے، اس میں حقائق بھی بالکل واضح ہیں۔ پہلی عدت چار ماہ بیان ہوئی ہے لیکن اگر طلاق کا عزم تھا تو اس پر پکڑ بھی ہوگی اسلئے کہ طلاق کے اظہار سے مدت چار کے بجائے تین مراحل (طہروحیض)یاتین ماہ کی وضاحت ہے۔طلاق کی عدت بچے کی پیدائش، تین طہرو حیض اور تین ماہ کی وضاحت قرآن میں ہے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ عورت خلع لے تو پھر اس کی عدت ایک طہرو حیض ہے۔ غلام کی دو طلاقیں اور لونڈی کی عدت دو حیض ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک مرتبہ کے طلاق کا تعلق ایک طہرو حیض سے ہی ہے۔ حضرت ابن عمرؓ کو نبیﷺ نے سمجھایا کہ ایک طہر میں ہاتھ لگائے بغیر بیوی کو رکھ لینا ایک مرتبہ کی طلاق اور دوسرے طہرو حیض میں رکھ لینا دوسری مرتبہ کی طلاق ہے اور تیسرے طہر وحیض میں رکھنے یا ہاتھ لگائے بغیر چھوڑ دینا تیسری مرتبہ کی طلاق ہے۔ جس کا مطلب واضح ہے کہ حمل اور تین ماہ کی عدت سے تین طلاق کا کوئی تعلق بھی نہیں ۔ سورۂ بقرہ اور سورہ طلاق کی آیات میں عدت کے حوالہ سے طلاق اور رجوع کی زبردست وضاحت ہے ۔ حنفی مکتبۂ فکر کی سوچ بہت عمدہ ہے اور اسی بنیاد پر طلاق کا مسئلہ میں نے قرآن وسنت کی روشنی میں روزِ روشن کی طرح حل دیکھا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ میرا اللہ زندہ بھی کرتاہے اور مارتا بھی ہے تو خدائی کے دعویدار وقت کے بادشاہ نمرود نے جواب میں کہاتھا کہ یہ کام تو میں بھی کرسکتا ہوں۔ ایک گناہگار کو چھوڑ دیا اور بے گناہ کو قتل کردیا۔ ابراہیم علیہ السلام نے پھر فرمایا کہ ’’میرا رب مشرق سے سورج طلوع کرتا ہے اور مغرب میں غروب کردیتاہے۔تو جو انکار کر رہا تھا وہ مبہوت بن کر رہ گیا‘‘۔
امام ابوحنیفہؒ کے استاذ امام حمادؒ کا مسلک یہ تھا کہ ایک ساتھ تین طلاق واقع نہیں ہوتی ہیں ، جبکہ امام ابوحنیفہؒ ، امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کا مسلک یہ تھا کہ ایک ساتھ تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ میں بہت واضح طور سے یہ کہتا ہوں کہ حضرت عمرؓ نے بالکل ٹھیک فیصلہ فرمایا تھا کہ ایک ساتھ تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور ائمہ مجتہدین ؒ کا مسلک بھی% 100 درست تھا۔ اس پر ایک اضافہ یہ بھی کرنا چاہیے کہ شوہر ایک طلاق بھی دے تو اس کو یک طرفہ غیرمشروط رجوع کا کوئی حق حاصل نہیں۔ البتہ عورت عدت تک دوسری شادی نہ کرنے کی پابند ہے اور اگر دونوں کی طرف سے صلح کی شرط پر رجوع کا پروگرام ہو یا دونوں طرف سے ایک ایک رشتہ دار مصالحت کیلئے کردار ادا کرے تو پھر رجوع پر پابندی لگانے کی بات غلط ہے۔ طلاق واقع نہ ہونے کا فتویٰ دینا غلط اسلئے ہے کہ پھر مرد رجوع کرلے اور عورت راضی نہ ہو توعدت کے بعد بھی شادی نہیں کرسکتی۔
جس منکر صورت کی قرآن و احادیث میں بالکل گنجائش نہیں ہے وہ یہ ہے کہ ایک طلاق کے بعد عورت دوسری جگہ شادی کرلے تب بھی پہلا شوہر دو طلاق کی ملکیت کا مالک رہتا ہے ، اس ملکیت سے دستبردار بھی نہیں ہوسکتا، اسلئے کہ طلاق عدت ہی میں واقع ہوسکتی ہے، ایسی منکر ملکیت قرآن و سنت اور انسانی فطرت کے بالکل منافی ہے اور اسی منکر صورتحال کی بنیاد کسی ضعیف حدیث پر رکھی گئی ہے ، اس حقیقت سے بڑے بڑے علماء ومفتیان ناواقف ہونے کے باوجود اس سمجھ سے قاصر ہیں کہ فقہ اور اصولِ فقہ کے سارے مسائل اس منکر صورتحال کی پیداوار ہیں۔ جس میں قرآن اور سنت کے منافی عدت سے پہلے رجوع کا راستہ باہمی رضامندی سے بھی رک جاتا ہے اور عدت کی مدت کے بعد عورت دوسری جگہ شادی کرلے تب بھی کچھ طلاقوں کی منکر ملکیت باقی رہتی ہے۔

اختلاف رحمت اور امت کا اجماع گمراہی پر نہیں ہوسکتا

رسول اللہ ﷺ نے بالکل درست فرمایا کہ میری امت کا اختلاف رحمت ہے اور میری امت کا اجماع گمراہی پر نہیں ہوسکتا۔ حقائق کے تناظر میں دیکھا جائے تو اصول فقہ کی دنیا میں اجماع امت کی دلیل قرآن اور حدیث کے بعد ہے۔ ایک طرف احادیث میں امت کے اختلاف کو رحمت اور گمراہی پر اجماع نہ ہونے کا ذکر ہے تو دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے فرمایا :رسول ﷺ قیامت کے دن شکایت کرینگے کہ اے میرے رب میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔ قرآن کی آیت اور ان احادیث کی تطبیق کیسے ہوسکتی ہے؟۔ کہا جاتا ہے کہ ایک ساتھ تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور اس پر امت کا اجماع ہے۔ اب دل کے اندھوں سے پوچھا جائے کہ جب اجماع کا تعلق قرآن و حدیث کے بعد ہے تو قرآن کی موجودگی میں اجماع کوئی دلیل بن سکتی ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے بار بار فرمایا ہے کہ عدت میں اور عدت کی تکمیل کیساتھ رجوع ہوسکتا ہے۔ کوئی ایک بھی ایسی صحیح حدیث نہیں جس میں یہ کہا گیا ہو کہ قرآن کی بھرپور وضاحتوں کیخلاف عدت کے اندر بھی رجوع کا دروازہ بند ہوجاتاہے۔ قرآن و حدیث کی موجودگی میں اجماع کوئی دلیل بن نہیں سکتا۔ تاہم اسکی حقیقت کا ادراک کرنے کیلئے اُصول فقہ کی سمجھ بوجھ بھی ضروری ہے۔ درس نظامی کی معتبر کتاب ’’نور الانوار‘‘ اور دیگر اصول فقہ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ ائمہ مجتہدین کا اجماع بھی معتبر ہے، ائمہ اہل بیت کا اجماع بھی معتبر ہے اور اہل مدینہ کا اجماع بھی معتبر ہے، کیا اجماع کی یہ تعریف درست ہوسکتی ہے؟۔ امت مسلمہ کو یہ تعریف اجماع کے بجائے ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کا ذریعہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں طلاق کے عزم کا اظہار نہ ہونے کی صورت میں پہلی مرتبہ طلاق کا ذکر کیا ہے اور اس کی عدت چار ماہ واضح کی ہے جبکہ اسکے بعد کی آیت میں طلاق کے اظہار کی صورت میں تین طہر و حیض یا تین مہینے کے انتظار و عدت کی وضاحت ہے۔ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک چار ماہ تک رجوع نہ کرنے سے طلاق واقع ہوتی ہے اور جمہور کے نزدیک جبتک طلاق کا اظہار نہیں کرتا زندگی بھر طلاق نہ ہوگی۔ دونوں مسلکوں کا اختلاف بالکل رحمت ہے اسلئے کہ اگر کسی ایک مؤقف پر یہ اکھٹے ہوجاتے تو امت کا گمراہی پر اتفاق ہوجاتا۔ قرآن اور فطرت سے دونوں مسلک کیخلاف ہیں۔قرآن نے شوہر اور بیوی دونوں کا حق بیان کیا ہے۔ شوہر کا حق تو یہ ہے کہ عورت چار ماہ تک دوسری جگہ شادی نہیں کرسکتی اور عورت کا حق یہ ہے کہ وہ چار ماہ کے بعد دوسری شادی کرسکتی ہے۔
امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک مرد کا حق استعمال ہوا ، اسلئے عورت کو طلاق ہوگئی اور چار ماہ کے بعد یہ تعلق حرامکاری ہے۔ جمہور کے نزدیک جب تک طلاق نہ دیگا وہ زندگی بھر بھی دوسری شادی نہیں کرسکتی ،اگر کریگی تو یہ حرامکاری ہوگی۔ دونوں کی گمراہی قرآن کیخلاف ہے۔ قرآن نے شوہر کے ساتھ ساتھ بیوی کا بھی حق بیان کیا ہے، اگر بیوی چار ماہ کے بعد دوسری شادی کرتی ہے تو اجازت ہے اور اگر اسی شوہر کے ساتھ رہنا چاہے تو بھی اس کو اجازت ہے۔ اس سے زیادہ اللہ تعالیٰ نے بالکل کھلے الفاظ میں بیوہ کو 4ماہ 10دن کی عدت کے بعد دوسری جگہ شادی کی اجازت دی ہے مگر یہ بھی اسکے اختیار میں ہے کہ اگر وہ اسی فوت شدہ شوہر سے اپنے تعلق کو برقرار رکھنا چاہتی ہو تو تعلق قیامت تک برقرار ہی رہیگا۔ یوم یفر المرء من اخیہٖ و امہٖ و ابیہٖ و صاحبتہٖ و بنیہ ’’اس دن فرار ہوگا آدمی اپنے بھائی، اپنی ماں، اپنے باپ ، اپنی بیوی اور اپنے بچوں سے‘‘۔ جس طرح والدین اور بچوں کا تعلق ختم نہیں ہوتا اسی طرح سے بیوی کا بھی شوہر سے تعلق ختم نہیں ہوتا ہے۔
معروف اور منکر دو متضاد الفاظ ہیں۔ معروف اچھائی اور نیکی کا نام ہے اور منکر برائی اور بدی کا نام ہے۔ معروف کا مترادف لفظ احسان بھی ہے۔ احسان بھی منکر کا متضاد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ قرآن میں بار بار واضح فرمایا ہے کہ رجوع اور چھوڑنا (طلاق) معروف طریقے سے ہو ، ایک جگہ احسان کیساتھ رخصتی ( طلاق) کا بھی ذکر ہے۔ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک رجوع کیلئے نیت شرط نہیں اور امام شافعیؒ کے نزدیک رجوع کیلئے نیت شرط ہے۔ حنفیوں کے نزدیک غلطی شہوت کی نظر پڑ ے تو بھی رجوع ہے نیند میں شوہر یا بیوی کا ہاتھ شہوت سے لگ جائے تو بھی رجوع ہوگا۔ شافعیؒ کے نزدیک نیت نہ ہو تو مباشرت سے بھی رجوع نہ ہوگا۔ یہ سب معروف کے مقابلے میں منکرات ہیں اور طلاق کیلئے عدت شرط ہے اور عدت میں رجوع ہوسکتا ہے تو منکر طریقے سے طلاق نہ ہوگی۔

بیوقوف اور کرپٹ سول وملٹری پنجاب کو تباہ نہ کردیں

پنجاب کے بیوقوف سیاستدان اور کرپٹ ملٹری وسول اسٹیبلیشمنٹ کہیں پاکستان کے مرکزی حصہ کو آباد کرنے کے نام پر برباد نہ کردیں۔ پنجاب آلودہ ہوجائے اور دلدل بن جائے تو پورے پاکستان کو تباہ کرنے کیلئے دشمن کی ضرورت بھی نہیں ہے۔پنجاب کی عوام غربت، جہالت، انواع و اقسام کے امراض، علاج وتعلیم کی سہولت سے محروم اور عزتوں کی حفاظت نہ ہونے سے دوچار ہے لیکن ان کوشعور دینے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ واحد پہاڑی علاقہ ملکہ کوہسار مری سیروتفریح کے دن سفر کے قابل بھی نہیں ہوتا۔ حالانکہ ملکہ کوہسار مری سے شاہِ کوہسار وزیرستان اور بلوچستان کے وہ پہاڑی سلسلے جہاں زیارت اور قلات تک موسم گرما میں بہترین سیاحت ہوسکتی ہے ویران ہوتے ہیں۔ ریاست ایسے حالات پیدا کرسکتی ہے کہ گرمیوں میں پورے پاکستان اور دنیا بھر سے سیاحوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہے۔ ذوالفقار مرزا کہتاتھا کہ آئی ایس آئی میری ساتھی ہے، عذیر بلوچ اپنا بچہ ہے۔ عذیر بلوچ کی گرفتاری کی خبر احسان اللہ احسان کی حیثیت کو شکوک میں بدل رہی ہے۔

سندھ اور کراچی میں پانی کے مسائل اور ہمارے وسائل

بلوچستان، سندھ اور کراچی میں پینے کا پانی بھی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ کالاباغ ڈیم کے ذریعے پانی کو ذخیرہ کئے بغیر سندھ اور اسکے دارالخلافہ کراچی (جو پہلے پاکستان کا دارالخلافہ تھا ) کے پانی کامسئلہ حل نہیں ہوگا۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کا سب سے بڑا مسئلہ پینے کاپانی ہے۔ کالا باغ ڈیم کے ذریعے اگر نوشہرہ جھوٹ سے بنجر بھی بنتاہے تو نوشہرہ کے باسیوں کو متبادل جگہ فراہم کی جائے۔ سندھ کے باسیوں کو سمجھایا جائے کہ پانی ذخیرہ نہ ہو تو سندھ کبھی طوفان اور کبھی کربلا کا منظر پیش کریگا۔ کالاباغ کے ذریعے نہ صرف سستی بجلی پیدا کرنا ہوگی بلکہ سندھ کی بنجر زمینوں اور شہروں کو نہری نظام سے پانی فراہم کرنے کا انتظام کرنا ہوگا۔حیدر آباد اور کراچی کے درمیاں بحریہ ٹاؤن بن سکتاہے تو اس پہاڑی زمین میں مصنوعی ڈیم بھی بن سکتاہے۔ کراچی شہر پنجاب میں ہوتا تو اس میں ملیر اور لیاری ندیوں میں گند کے بجائے پینے کا شفاف پانی نہروں کی شکل میں بہہ رہا ہوتا۔ جنرل ایوب نے کراچی سے مرکزیت چھین کر ہزارہ کے کنارے پہنچادی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پنجابی اسٹبلیشمنٹ سے مہاجروں کا ناطہ توڑااور سندھیوں کا ناطہ جوڑدیا۔

موٹر سائیکل امپورٹ نہ ہوتا تو بھی معیشت مضبوط ہوتی

ذوالفقار علی بھٹو میاں شریف برادری کی اتفاق فونڈری اور دوسری پرائیویٹ انڈسڑی کو تباہ نہ کرتا اور جنرل ضیاء الحق شریف برادری کو کاروبار سے نکال کر سیاست میں نہ لاتا تو آج شریف فیملی کو پانامہ لیکس کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ ایٹم بم بنانا ریاست اور سائنسدانوں کا کام تھا۔ نوازشریف اور شہباز شریف کا تعلق لوہے کی صنعت سے تھا۔ صرف موٹر سائیکل بنانے میں پاکستان کو خود کفیل بناتے تو آج اس ملک کی معیشت بہت مضبوط ہوتی۔ جب پرویزمشرف نے گوادر پورٹ چین کو دیا اور طالبان و بلوچ شدت پسند پاکستانی فوج اور چینیوں کو ماررہے تھے تو نوازشریف انکے ساتھ کھڑے تھے۔ تقریریں کرتے تھے کہ سوئی گیس سے پنجاب نے بلوچستان کی عوام کو محروم کیا ، اسکا ہم ازالہ کرینگے۔ پھر سی پیک سے کوئٹہ کو محروم کرکے لاہور کو نواز دیا۔ دنیا صنعتی علاقہ اس کو بناتی ہے جہاں آبادی نہ ہو، دنیا آلودگی کے خاتمے کیلئے منصوبہ بندی کررہی ہے اور ہمارے ملک میں لوہے کی صنعت سے وابستہ شریف برادری کے ہاتھ میں سیاست آئی تو ساہیوال جیسی زرخیز زمین کو کوئلے کی پلانٹ سے آلودہ کرنے کیلئے سلیمانی ٹوپی کے بجائے انگریزی ہیڈ پہن لیا۔ عوام کو یہ بھی بتادیا کہ بجلی کا وعدہ ہم نے پورا کرلیاہے ، اب اگلی مرتبہ ووٹ دو گے تو استعمال کا طریقہ بھی بتادیں گے۔ عدلیہ شریف فیملی کی ساری دولت اور خاندان کو باہر سے لاکر لوہے کی صنعت لگانے پر مجبور کردے تو پاکستان ترقی کی منزل طے کریگا۔ حضرت عمرؓ اپنے عروج کے دور میں عوام کو پیشہ بدلنے سے جبراً منع کرتے تھے۔ ریاست مذہب اور سیاست کو پیشہ بنانے پر سخت پابندی لگادے۔
ملت اسلامیہ کے داخلی مسائل کا جب تک حل نہیں نکالا جاتا ہے ،اس وقت تک سیاست اور مذہب محض تجارت اور مفاد پرستی کا شاخسانہ ہے۔عوام کے مسائل کے حل کی طرف توجہ کرنا ہوگی۔

امام مہدی کا کردار اور عصر حاضر کی احادیث

حدیث نمبر72۔ عنوان ’’خدا کی زمین تنگ ہوجائے گی‘‘۔ ترجمہ ’’ حضرت بوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: آخری زمانہ میں میری امت پر ان کے حاکموں کی جانب سے ایسے مصائب ٹوٹ پڑینگے کہ ان پر خدا کی زمین تنگ ہوجائیگی، اس وقت اللہ تعالیٰ میری اولاد میں سے ایک شخص( مہدی علیہ الرضوان) کو کھڑاکرینگے، جو زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح بھر دینگے جس طرح وہ پہلے ظلم وستم سے بھری ہوئی ہوگی، ان سے زمین والے بھی راضی ہونگے، آسمان والے بھی، انکے زمانہ میں زمین اپنی تمام پیداوار اُگل دے گی، وہ ان میں سات یاآٹھ یا نو سال رہیں گے‘‘درمنثور ج:6ص:58 عصر حاضر حدیث ۔۔۔ مولانا لدھیانویؒ
حدیث نمبر36’’ ارباب اقتدار کی غلط روش کے خلاف جہاد کے تین درجے‘‘
عن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ ﷺ انہ تصیب اُمتی فی اخر زمان من سلطانھم شدائد لاینجو منہ الا رجل عرف دین اللہ فجاھد علیہ لسانہ ویدہ وقلبہ، فذٰلک الذی سبقت لہ السوابق ، ورجل عرف دین اللہ فصدّق بہ ، ورجل عرف دین اللہ فسکت علیہ ، فان رای من یعمل الخیر احبہ علیہ ،وان رای من یعمل بباطل ابغضہ علیہ ، فذٰلک ینجو علی ابطانہ کلہ ( رواہ البیھقی فی شعب الایمان ، مشکوٰۃ شریف صفحہ 438) عصر حاضر صفحہ 43
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آخری زمانے میں میری امت کو ارباب اقتدار کی جانب سے بہت سختیوں کا سامنا کرنا پڑیگا، ان سے کوئی نجات نہیں پائے گا مگر وہ شخص جس نے اللہ کادین پہچانا اورپھر اس کیلئے اپنی زبان،اپنے ہاتھ اور اپنے دل سے جدوجہد کی، یہ وہ شخص ہے جس کیلئے پہلے سے ہی پیش گوئیاں ہوچکی ہیں۔ اور وہ شخص جس نے اللہ کا دین پہچانا اور پھر اسکے ذریعے سے تصدیق کرنے کا اعلان بھی کیا، اور وہ شخص جس نے اللہ کا دین پہچانا اور پھر اس پر خاموشی اختیار کرلی، کسی کو اچھا عمل کرتے دیکھ لیا تو اس سے محبت رکھی اور کسی کو باطل عمل کرتے ہوئے دیکھا تو اس سے دل میں بغض رکھا۔ یہ شخص اپنے معاملات کے چھپانے یعنی حق کا اظہار نہ کرنے کے باوجود بھی نجات پاگیا۔
جب حاجی عثمانؒ پر فتوے لگے تو کچھ لوگوں نے حقائق کو سمجھنے کے باوجود محبت و بغض کا معاملہ چھپائے رکھا، جس کی مثال مولانا یوسف لدھیانویؒ خود بھی تھے، کچھ لوگوں نے برملا ساتھ دیا ، پھر جب حاجی عثمانؒ کاوصال ہوا تو اللہ کے فضل سے سب سے پہلے ہم نے خلافت کی احیاء کیلئے اللہ کے دین کو پہچان کر جدوجہد کا آغاز کیا،وہ زبان، ہاتھ اور دل کے تمام مراحل طے کرلئے جس کی درج بالا حدیث میں پیشگوئی ہے۔ بہت سے لوگوں نے دین کی حقیقت کو پہچان کر ہماری کھل کر تائید فرمادی اور بہت سے لوگوں نے ہمارے اچھے عمل کو دیکھ کر ہم سے دل میں محبت رکھی اور مخالفین سے بغض رکھا۔ اس حقیقت کے بغیر دنیا میں ہم بڑے مشکلات کا شکار ہوتے۔ اللہ کا کرم ہے کہ ہمیں ارباب اقتدار کی جانب سے مشکلات کا کوئی سامنا نہیں کرنا پڑا۔
جب دین کو پہچان کر اس کیلئے دنیا میں زبردست جدوجہد کی جائے تو اسلام کی خاصیت ہی ایسی ہے کہ دنیا میں ایسا نظام عدل وانصاف قائم ہوگا کہ جس سے آسمان اور زمین والے سب خوش ہونگے۔ ایران کا شیعہ اور افغانستان کا دیوبندی انقلاب اسلئے دنیا میں ناکام ہوئے کہ وہ اللہ کے دین اسلام کو پہچاننے سے خود بھی قاصر تھے۔ جمعیت علماء اسلام کا کارکن معراج کاکڑ ولد باز محمد خان کاکڑ کچلاک شہر بلوچستان اپنی جماعت سے اسلئے باغی بن گیا کہ جمعیت علماء قرآن وسنت کیلئے کوئی کام نہیں کرتی، اس نے رسول اللہﷺ کو خواب میں دیکھا کہ پاکستان خراسان کی طرف سے امام مہدی کا ظہور ہوگا اسلئے کام کرو، حدیث کے مطابق وہ سیاہ جھنڈے لگارہا تھا تو لوگوں نے اس پر شیعہ ہونے کا الزام لگایا۔ پھر اس نے جھنڈے پر چاند اور تارے بھی بنالئے۔ خواب میں نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’یہ کیا ہے؟۔ تو اس نے عذر پیش کردیا کہ لوگ شیعہ کی تہمت لگاتے ہیں‘‘۔ علماء اور صوفیاء نے امام مھدی کے حوالے سے اپنے اپنے حلقۂ ارادت کوبہت گمراہ کررکھا ہے۔
مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اپنے استاذ شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ کے حوالہ سے لکھ دیا کہ ’’ اب دنیا میں اصلاح کی کوئی تحریک کامیاب نہیں ہوگی، مزید بگاڑ بڑھتا جائیگا، ایک امام مہدی کی شخصیت ایسی ہوگی کہ وہ اپنی بلند ترین روحانی قوت کے بل بوتے پر پوری دنیا کے حالات بدل سکیں گے‘‘۔ یہ صرف مولانا اشرف علی تھانوی اور شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ کی بات نہیں بلکہ علماء وصوفیاء کی اکثریت کا یہی گمراہانہ عقیدہ ہے جسکی وجہ سے لوگ مرزا غلام احمد قادیانی اور اسکے پیروکاروں سے زیادہ گمراہ ہیں ، کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر رسول اللہ ﷺ تک کوئی ایسی شخصیت نہیں آئی ہے جو اپنی روحانی قوت کی بنیاد پر ساری دنیا کے حالات کو بدل سکے ہوں۔
مھدی کے ذریعے سے دنیا کی حالات میں تبدیلی کی بڑی بنیاد کسی روحانی شخص کا ظہور نہیں ہوگا بلکہ زمانے کا عروج اور قرآن وسنت کے ذریعے دین کی پہچان اس انقلاب کا ذریعہ بنیں گے۔ بنی آدم انسان کو غلطی کا پتلا کہا جاتا ہے، حضرات انبیاءؑ تو معصوم ہوتے ہیں ، مہدی معصوم بھی نہیں ہوگا، بلکہ جس رات انقلاب آئے گا تو اسی رات کو اس کی اصلاح ہوجائے گی۔ جس طرح حدیث میں اس کی وضاحت ہے مگر اس کا بھی علماء نے غلط مفہوم بیان کیا ہے کہ ایک رات میں اس کو صلاحیت سے نوازا جائیگا، ایک حدیث میں آتا ہے کہ’’ میرے اہلبیت میں سے ایک شخص ضربیں لگائے گا یہاں تک کہ لوگ حق کی طرف آنے پر مجبور ہوں‘‘۔ ضرب لگانے میں اعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے تو یہ خطاء کی دلیل ہے ،ضرب کی ضرورت نہ رہے توپھر اس کو اصلاح کرنے میں بھی حرج نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے قرون اولیٰ میں بھی مسلمانوں کو انتقام میں اعتدال سے ہٹنے کو منع فرمایا تھا تو آخری دور میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز کرنے والے بھی اپنی ضربوں میں اعتدال سے ہٹ سکتے ہیں۔
پاکستان میں سیاست اور مذہب کو خدمت کے بجائے زیادہ تر خالص تجارت بنالیا گیاہے۔ خدمت پر لڑائی بھڑائی نہیں ہوسکتی ہے۔ مساجد ومدارس اور سیاسی اور مذہبی جماعتیں خدمت پر نہیں تجارت، شہرت، دادا گیری اور لیڈر شپ پر لڑرہی ہیں اور جب تک کوئی ایسی قیادت وجود میں نہ آئے کہ مذہب اور سیاست کو تجارت سے پاک کرکے خدمت کا جذبہ اجاگر کرے اسوقت تک گروہ بندیوں اور تنزل کا خاتمہ نہیں ہوسکتاہے۔ شریف خاندان کی عزت کا کچومر اتر گیا لیکن قیادت نہیں چھوڑ رہا ہے، یہی حال دوسروں کا بھی ہے۔پانامہ کے عدالتی فیصلے میں دو ججوں نے لکھا کہ وزیراعظم نااہل ہے۔ تین نے لکھا کہ اتنے عرصہ سے ہم جس کیس کو سن رہے تھے، یہ ہمارا اختیار ہی نہیں کہ وزیراعظم کی نااہلیت کافیصلہ کرسکیں ۔پھر جی آئی ٹی کے نام پر دھوکہ کیوں دے رہے ہیں؟۔ وزیراعظم نے ٹھیک کہا کہ عوام نے عدالتی برطرفی کیلئے منتخب نہیں کیا مگر یہ بات وہ دوسرے وزیراعظموں کیلئے بھی کرتے؟ عدلیہ وزیر اعظم کو باہرسے پیسہ لانے کا حکم دے باقی سارا معاملہ حل ہوجائیگا۔جنکا باہر پیسہ ہواور وہ پاکستان میں سیاست کریں تو انکی فیملی کا پیسہ یہاں ہوناچاہیے۔ عتیق گیلانی

مشال کا قتل یا بے گناہ شہادت کا معمہ کیسے حل ہو؟

اگر مشال خان مجرم تھا تو اس کی عبرتناک ہلاکت موم بتی جلانے والوں کیلئے عبرت ہے، کوئی مشعلِ راہ نہیں، اس نے اپنی دنیا اور آخرت دونوں کو تباہ کردیا ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ وہ ادارہ ہے جہاں ارکان پارلیمنٹ کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ وزیراعظم قوم کے سامنے جھوٹی صفائی پیش کرے، کوئی ریاست کا قلع قمع کرنے کی بات کرے، کسی پر جس قسم کی بھی تنقید کی جائے تو کسی عدالت میں اس کو چیلنج نہیں کیا جاسکتاہے۔ مسلم لیگ ن کے میاں جاوید لطیف نے کہا کہ ’’جب دوسروں کو ہم ایسے بیان پر غدار کہتے ہیں، الطاف حسین کو غدار کہتے ہیں تو اسی رویہ پر عمران خان کو غدار کیوں نہیں کہہ سکتے؟‘‘۔ جس پرتحریک انصاف کے رہنما مراد سعید نے میاں جاوید لطیف کومُکا کی سوغات رسید کردی۔ عمران خان نے کہا کہ’’ اگر میں ہوتا تو اس کو قتل کردیتا، پٹھان گولی کھا سکتاہے لیکن گالی برداشت نہیں کرسکتا ہے‘‘۔
مشال خان کے قتل پر سب سے مضبوط اسٹینڈ عمران خان نے لیا مگر پھر یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ جن سیاسی رہنماؤں کی برداشت کا یہ عالم ہو ،کہ غدار کہنے پر بھی قتل کرنے کی بات کرکے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیں تو پھر اس قوم کے جوانوں میں یہ برداشت کہاں سے آئے گی کہ ’’رسول اللہ ﷺ کی توہین اور گالی کے مرتکب کو قانون کے حوالے کرنے کا حوصلہ اپنے اندر پیدا کرلیں؟‘‘۔ غدار کی گردان تو سیاستدان کا وظیفہ ہوتاہے ، مراد سعید کو میاں جاوید لطیف نے جو عمران خان کو اپنی بہنیں سپلائی کرنے کی گالی دی تھی تو میاں جاوید لطیف اور خواجہ سعد رفیق نے یہ گالی گواہی میں تبدیل کی کہ ’’ہم نہیں کہتے کہ جو کہاوہ سچ تھا یا جھوٹ؟مگر ہمیں یہ نہیں کہنا چاہیے‘‘۔ پھر حامد میر نے جیو پر مراد سعید کو لیگی رہنمادانیال عزیز کیساتھ بٹھا کرہنسی مذاق کا ماحول دکھایا تو دنیا نے دیکھ لیا کہ اس الزام کاکوئی سنجیدہ اثر نہ تھا۔ مطلب یہ ہوا کہ پٹھان گالی برداشت نہیں کرتا ،باقی بہت کچھ برداشت کرتاہے۔
مشال مجرم تھا تو دیوث تھا اسلئے کہ ذاتی جذبے کو متأثر کرنابھی غلط ہے، ماں بہن کی گالی پر بھی اشتعال میں اقدامِ قتل کیا جائے تو مقتول کو معصوم کا درجہ نہیں ملتا۔ رسول اللہﷺ کی توہین کا حق کسی کو بھی نہیں دیا جاسکتا، کوئی بھی ایسی مہم جوئی فساد فی الارض کے زمرے میں آتی ہے جسکے غلط مقاصد ہوں۔ حق کا علمبردار قربانی سے مشعلِ راہ بنتاہے ،باطل اپنی دنیااور آخرت کی تباہی کے سوا کچھ حاصل نہیں کرتا۔ اب سوال یہ نہیں کہ مشال مجرم تھا یا نہیں؟۔مجرم نہیں تھاتوبھی سزا تو اس کو ملی۔ سوال یہ ہے کہ جنہوں نے مجرم سمجھ کر قتل کیاوہ خود کو کیوں چھپا رہے ہیں، کیا ممتاز قادری ؒ جیسی عزت کے طلبگار خود کو چھپاکر عزت بناسکتے ہیں؟غازی علم الدین ؒ نے راجپال کو مارا، تو اقرارِ جرم سے انگریز کے سامنے بھی نہیں گھبرایا لیکن مردان کے مردِ میدان فخریہ ویڈیو بناکر کیوں خود کو چھپا رہے ہیں؟۔ ممتاز قادریؒ نے پنجابی ہوکر غیرت کا مظاہرہ کیا تو یہ پٹھان ہوکر کیوں غیرت کے تقاضوں پر عمل کیوں نہیں کرتے؟۔
مشال خان کے سوگوار والد اقبال خان اور بردبار خاندان ہمدردی کا لائق نہیں بلکہ بہت داد کا بھی قابل ہے جس نے جرأت وبہادری کی مثال قائم کردی، بیٹے کو بے گناہ قرار دیا، مجرموں کو قرار واقعی سزا کا مطالبہ اور عبدالولی خان یونیورسٹی کو اپنے بیٹے کے نام پر منسوب کرنے کی تجویز پیش کردی۔ بہادری کامظاہرہ ابوجہل کو بھی تاریخ میں امر کردیتاہے۔ جن والدین کے اچھے یا برے سپوتوں نے مشال کو قتل کرنے کے بعد بھی مسخ کرکے لاش کی بے حرمتی سے دریغ نہ کیا ، میرے بیٹے اس کا حصہ ہوتے اور مجھے انکے حلالی ہونے کا یقین ہوتا تو انکی اس بزدلی پر ہزاروں لعنت بھیجتاکہ بے یارومدد گار لاش کیساتھ بہیمانہ سلوک کے بعدچھپنے کا کیا جواز ہے؟۔ جس کو تم نے توہین رسالت کا مرتکب سمجھ کر قتل کیااور مرنے پر بھی جذبے کی تسکین نہیں ہورہی تھی ،ننگاکرکے لاش سے انتقام لیتے رہے تو اگر قانون تم کو معاف بھی کردے تو خود کشی کرکے عالمِ برزخ میں بھی اس کا پیچھا کرو، اسلام کی طرف سے خود کشی کے عدمِ جواز کا مسئلہ اسلئے نہیں کہ اسلام میں لاش کیساتھ بدسلوکی بھی جائز نہیں ۔ رسول اللہﷺ کے نام پر غیرت اچھی لگتی ہے، بے غیرتی نہیں۔
دنیا میںیہ پیغام پہنچا کہ الزام کی تحقیق کے بغیر رسول اللہﷺ کی توہین کے نام پر بے گناہ قتل ہوا، سرِ عام ویڈیو بنانیوالے تحفظ کے طلبگار ہیں تو مسلمان اور پٹھان کی غیرت پر بہت سوالات اٹھیں گے، یورپ وامریکہ کے عیسائی قانون میں ویسے بھی قتل کا بدلہ قتل نہیں۔ چیف جسٹس نے طیبہ تشدد کیس میں بھی تشدد کرنیوالی جج کی اہلیہ سے سوال تک نہیں پوچھا بلکہ طیبہ کو لاوارث بچوں کے مرکز میں داخل کردیا۔ قبائل میں ابھی تک 40ایف سی آر کا قانون ختم نہیں۔پشتون قوم اسلام اور غیرت کی بہت بڑی علمبردار ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کو چھوڑ کر امریکہ کے حوالے کرنیوالے بے غیرت ریاستی اہلکاروں نے بھی اسلام کا سہارا لیا،قومیں غیرت سے زندہ رہتی ہیں ۔ اگر ریمنڈ ڈیوس کو اکرام وانعام دیکر رخصت کیا جاتا کہ ہمارے لاہور، ملتان، کراچی اور کوئٹہ وپشاور سے لوگ اغواء ہوجاتے ہیں تم نے شجاعت کی مثال قائم کردی تو ہمارا قومی وقار بلند ہوجاتا لیکن صداقت، شجاعت اور عدالت نام کی کوئی چیز ہمارے بے غیرتوں کے پاس نہیں ورنہ ہم دنیا میں کب سے امامت کے منصب پر بیٹھ جاتے؟۔
قبائلی علاقہ میں طالبان نے اسلام کو تو زندہ نہیں کیا بلکہ پختون کی غیرت کو بھی تباہ کردیا، اب لویہ جرگہ کے ذریعے مشال خان کے والد اور قاتلوں کے وارثین یہ تاریخی فیصلہ کردیں کہ قاتل ، قتل کی سازش کرنیوالے، اشتعال دلانے والے سب کو کٹہرے میں کھڑا کرکے ورثاء خود ہی گولی مارنے کیلئے اقدام کریں اور اگر والد کی طرف سے معافی مل جائے تودیت یا بلامعاوضہ معاف کر دیا جائے،اس سے دنیا میں اسلام ، پٹھان، پاکستان اور انسان کی طرف سے فطرت کیمطابق پیغام جائیگا۔ امریکہ نے افغانستان میں بڑا بم گرا نے کے بعد پاک فوج کو پراکسی جنگ ختم کرکے جو سفارتی طریقہ اختیار کرنے کا پیغام دیا جسکی پاک فوج نے تردید کی ، اسکے بعد حالات گھمبیر سے گھمبیر ہونے کے خدشات بڑھ رہے ہیں، قوم کے اندر بڑے اعلیٰ پیمانے کے اخلاقیات اور اقدار کے بغیر کوئی ریاست کچھ بھی نہیں کرسکتی ہے۔
مشال خان کے قتل کو مخصوص چینل سازش نہ قرار دیتے تو عمران خان نے بھی اس کو سازش نہیں قراردینا تھا، اقوام متحدہ کی طرف سے مذمت کے بعد نوازشریف و مریم نواز کو مذمت کا خیال آگیا، توہین رسالت کیلئے قربانی دینے والے مزید جرأت کا مظاہرہ کرتے تو نمازِ جنازہ پڑھانے کی بھی نوبت نہ آتی اور نمازجنازہ پڑھانیوالا طبقہ ماردیا جاتا تو پولیس اور فوج بھی اپنے ہیڈکواٹروں میں دبک جاتی۔ یزید نہیں طالبان کے دور میں بھی لوگوں نے مظالم کے آگے بے بسی کا مظاہرہ دیکھا، فضل اللہ اور حکیم اللہ نے بہت کچھ ریاستی سرپرستی میں کیا تھا ۔جھوٹ کی سیاست و صحافت قوم کے مستقبل کو محفوظ بنانے میں کردار ادا نہیں کرسکتی ۔ امریکہ افغانستان میں آیا تو ان میں منافقت کے بیج بودئیے اور ہماری طرف رخ ہوا تو ہماری ریاست مرغا بن کرہی انکے سامنے کھڑی ہوجائیگی۔ مسلم قوم کو دنیا کی لالچ اور موت کے خوف نے بزدل بنادیاہے، اعلیٰ اخلاقی اقدار کیلئے بکبک کرکے بکنے والے بے غیرت صحافی کوئی بھی مثبت کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔اسلام اور قومی مفاد کا نام لینا جوک بن گیا۔