شبیزمائی خان (چاند خان) کے بیان پر تبصرہ نفرتوں کی بنیاد پر جنم لینے والی تحریکیں جھاگ کی طرح اٹھ کر بیٹھ جاتی ہیں ، اپنی قوم سے محبت ایمان مگر تعصبات کفر ہیں ۔ اداریہ صفحہ نمبر2ضرور پڑھئے پاکستان سے پہلے انگریز کے دور میں اور انگریز کے دور سے پہلے مسلم دنیا کی حالت بہتر کیوں نہیں تھی؟ ۔ نیٹو نے افغانستان میں امن قائم نہیں کیا لیکن پاکستان میں امن ہے! منظورپشتین نے اچھے موقع پر واضح کیا کہ ’’ افغانستان سے الحاق کے نعروں سے PTMکا تعلق نہیں، ہمارا یہ نعرہ ہے کہ ہمارے جوان قتل اور گھر برباد ہورہے ہیں‘‘اور بس! فیس بک پر چاندمیاں کی گہری فکر و نظر، سنجیدگی ایمانداری سے فرض پورا کرنا اچھی بات ہے۔ کھلے دل و دماغ سے خیر مقدم کرنا چاہیے۔ علماء و فوج کے اعلیٰ افسران اس لمبی چوڑی ویڈیو کو ضرور سنیں، یہ فرد نہیں زمانے کے تاثرات ہیں۔ معروضی حقائق سے منہ نہیں موڑا جاسکتا ہے۔ ایک ایک بات کا تفصیل سے جواب دینا ہوگا۔ حضرت عثمانؓ شہید کئے گئے تو مُلا ملٹری کاتصور نہ تھا۔ عشرہ مبشرہ کے صحابہؓ کی جنگوں میں حضرت علیؓ و عمارؓاور حضرت طلحہؓ و زبیرؓ اور حضرت عائشہؓ نے لڑائی لڑی اور ہزاروں افراد اس کی نذر ہوگئے۔ حالانکہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ’’خبردار ! میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایکدوسرے کی گردنیں مارنے لگو‘‘۔ جب 9/11کے بعد امریکہ نے افغانستان پر جنگ مسلط کی تو پاکستان کا بچہ بچہ امریکہ کیخلاف تھا۔ امریکہ نے عراق و لیبیا کو بھی تباہ کیا جو خوشحال ممالک تھے، جہاں ملٹری اور علماء کا وہ تصور نہ تھا جو شپیزمئی کے دل و دماغ پر چھایا ہوا ہے۔ وزیرستان میں وزیر اور محسودنے جنگیں لڑیں اور محسودومحسود اور محسود و بیٹنی ، محسود اور برکی قبائل نے بھی جنگیں لڑی ہیں۔ امریکہ نے روس کیخلاف مجاہدین کو تیار کیا پھر افغانستان ، عراق اور لیبیا کو تباہ کیا، اسکے پیچھے آرمی یا علماء کا فتویٰ نہیں تھا ؟۔ معراج محمد خان جیسے باشعور، ملٹری مخالف سیاسی قائد امریکہ کیخلاف طالبان کو داد دے رہا تھا تو آرمی طالبان سے کس طرح وہ نفرت کرتی جو بہت بعد میں سبھی کے دل و دماغ پرچھاگئی؟۔ طالبان ختم اسلئے نہیں کیے گئے کہ پختونوں کو موت کے گھاٹ اتارنا پڑتا۔ اس ناگہانی حادثے نے فوجی جوانوں کو بڑی تعداد میں بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح ہونے پر مجبور کیا۔گاؤں ملازئی ٹانک ، ڈیرہ اسماعیل خان کے قلعے میں راتوں رات 40سیکورٹی اہلکاروں کے گلے کاٹے گئے۔ بڑی تعداد فوجی جوان و آفیسرز کی جانوں سے گئی۔ خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی تو پختون طالبان تھے۔ اسکے پیچھے ملٹری تھی اور نہ علماء کرام تھے۔ امیر امان اللہ خان جدید تعلیم یافتہ تھے۔ پختون خواتین کی سوات میں منڈی لگتی ۔ گائے ، بھینس، بھیڑ، بکری کی طرح بیچنے کیلئے ملٹری سازش یا مُلا نے فتویٰ دیا؟۔ کانیگرم میں بھی دوخواتین کاتعلق سوات سے تھا۔پیر زبیراحمدشاہ امریکی صحافی بھی اسکا پوتا ہے۔ ملٹری یا مفتی مجبور کرتے ہیں کہ بہنوں، بیٹیوں کو حق مہر سے محروم کرکے فروخت کرو؟۔ کمالیہ پنجاب میں آج بھی لڑکیوں کی قیمت بھینسوں سے کم رپورٹ کی گئی ، ARYنیوز کی سرعام میں دیکھ سکتے ہیں۔ سب سے آسان کام کسی کو موردِ الزام ٹھہرانا ہے ۔ تعصبات اُبھارنے سے ہدف آسانی سے مل سکتاہے۔شپیزمئی نے نسلی تعصبات کی نفی کی جویہ بڑااچھاتھا، اسلام نے غلام اور لونڈی کی اولاد کا فرق بھی مٹادیا تھا۔ عزت وذلت کی بنیاد کردار نہ کہ نسلی امتیازکی بنیاد پر۔سیدنا بلالؓ اور ابولہب وابوجہل میں کتنا بڑا فرق ہے ؟۔ یہ بالکل مناسب نہیں کہ کارکن کی حیثیت سے PTM کی لیڈر شپ پرکوئی اپنا وہ ایجنڈا مسلط کرتاپھرے جس کی خود ہمت نہ رکھتا ہو؟۔منظورپشتین نے اچھا کیا کہ ’’افغانستان سے الحاق کا نعرہ مسترد کیااور کہا کہ ہمارا نعرہ صرف یہ ہے کہ ہمارے جوان قتل ہورہے ہیں اور گھربرباد ہورہے ہیں۔ باقی نعرے لوگ اپنی طرف سے لگا رہے ہیںPTMکا ان سے تعلق نہیں‘‘۔ منظور پشتین نے اصلیت ثابت کردی کہ بھارتی جنگ کی گیدڑ بھبکی کے پیشِ نظر پاکستان سے مکمل یکجہتی کا اظہار کردیاہے۔ 12سال سے حلالہ کی لعنت کیخلاف 3 کتابیں، مضامین، ویڈیوزمیں قرآن کے دلائل دئیے کہ عدت میں و عدت کی تکمیل پرباہمی اصلاح سے رجوع ہے مگر اسکے باوجود یہ بے غیرت قوم کھڑی نہیں ہوتی ۔ پہاڑی ہونا قابلِ فخرتھا، حالانکہ کافی عرصہ سے میں وزیرستان نہ جاسکا۔ وزیرستان بچپن میں جاتا تو گرمی کے چند ماہ گزارتا۔ پہاڑی کو میدانی ،میدانی کو پہاڑی کہنا برا لگتا ہے۔ قرآن نے جہالت سے نکالا۔ قرآن کی گستاخی کرنیوالاشخص ہالینڈ میں مسلمان ہوگیا۔ ہم جہالت سے نکل گئے تو آرمی اورمُلا سیدھے ہوجائیں گے۔ بھارت متحدہ ہندوستان کا متمنی تھا لیکن مشرقی و مغربی پاکستان جدا ہوگئے ۔ وطن بھی ان کی گاؤ ماتا کی طرح ماں ہے۔ اب بنگلہ دیش پاکستان سے جدا ہے۔ پاکستان کی پاک سرزمین کو ہندو اگر گاؤ ماتا سمجھتے ہیں تو اس کے بچھڑے کشمیر سے بھی ان کو دستبردار ہونا ہوگا۔ کشمیر پر گرفت کے چکر میں بھارتی بنگال ، پنجاب کے سکھ وغیرہ کو بھی کھودیگا۔ پاگل کتے نے نہیں کاٹا ہے کہ وہ پاکستان پر حملے کی ہمت کرے۔
بھارتی میڈیا پر اس خاتون نے بتایا ہے، ویڈیو دیکھ لی جائے کہ اس کی 2009ء میں شادی ہوئی، 2011ء کو ایک ساتھ تین طلاق دی گئی اور پھر سسر شوہر کے باپ نے حلالہ کیا۔شوہر سے دوبارہ نکاح ہوا، 2017ء میں پھر طلاق ہوئی ۔اب کہتے ہیں کہ بھائی سے حلالہ کرو۔ ایک خاتون کس طرح اپنے شوہر کی کبھی ماں، کبھی بیوی اور کبھی بھابی بن سکتی ہے، حلالہ عورت کیساتھ زیادتی ہے، اس کو ختم ہونا چاہیے۔ قارئین یہ یاد رکھیں کہ سماء ٹی وی پر بھی سید قطب کے پروگرام میں مولانا جمیل آزاد نے کہاتھا کہ مجبوری میں سسر سے شادی ہوسکتی ہے اور یہ پروگرام رمضان کے افطار سے پہلے ہوا، پھر نشر بھی ہوتا رہا۔ اس بے غیرتی کا دھندہ جاری رہا تو علماء کا حال کیا ہوگا؟۔ ہم نے بار ہاواضح کیامگر علماء ٹس سے مس نہیں ہورہے ہیں ،کتنی بے حسی ہے؟۔
پاکستان کے سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ سے اگر اسلام ، حقوق نسواں اور کسی طور پر انسانیت کیلئے کچھ نہیں ہوتا تو وہ ہندوستان دشمنی میں ہی سہی لیکن مسلمانوں پر رحم کرے۔ طلا ق کا مسئلہ ہم اپنی کتابوں ’’ابر رحمت ‘‘ ، ’’تین طلاق کی درست تعبیر‘‘ اور ’’ تین طلاق سے رجوع کا خوشگوار حل‘‘ میں پیش کرچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت 228میں طلاق شدہ خواتین کیلئے عدت کے تین مراحل تک انتظار کا حکم فرمایا اور عدت کے دوران باہمی صلح سے رجوع کی بھی وضاحت کردی۔ قرآن میں ایسا تضاد ممکن نہیں کہ اگلی آیت میں ہی دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ کی طلاق سے رجوع کا دروازہ بند کیا جائے۔ یہ حافظہ تو چوہے کا بھی نہیں ہوسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آیت 229البقرہ میں مرحلہ وار دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسرے مرحلے میں معروف طریقے سے رجوع یااحسان کے ساتھ رخصت کرنے کی وضاحت فرمائی ہے۔ اگر تیسرے مرحلے میں معروف رجوع کرلیا تو رات گئی بات گئی لیکن اگر تیسرے مرحلے میں احسان کیساتھ چھوڑنا ہوا تو پھر اللہ نے مزید وضاحت کردی ہے کہ اس صورت میں تمہارے لئے حلال نہیں ہے کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ بھی واپس لو ، مگر یہ کہ دونوں کا اس بات پر اتفاق ہو کہ اگر وہ چیز واپس نہیں کی گئی تو دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے۔ اوراگر( اے فیصلہ کرنے والو ! ) تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو دونوں پر کوئی حرج نہیں کہ وہ چیز عورت کی طرف سے فدیہ کیا جائے۔ یہ اللہ کے حدود ہیں ان سے تجاوز مت کرو، جو اللہ کے حدود سے تجاوز کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔ (البقرہ: آیت 229) اس آیت میں خلع کا کوئی تصور بھی نہیں ہوسکتا لیکن نصاب اور تفسیر کی کتابوں میں بدقسمتی سے اس سے خلع مراد لیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ طلاق کی وہ صورت ہے کہ جب میاں بیوی دونوں اور فیصلہ کرنے والے اس نتیجے پر پہنچیں کہ ان دونوں میں نہ صرف جدائی ناگزیر ہے بلکہ آئندہ رابطے کا بھی کوئی راستہ نہ چھوڑا جائے۔ اس طلاق کے بعد سوال یہ پیدا نہیں ہوتا کہ رجوع کرلیا جائے تو ہوسکتا ہے یا نہیں بلکہ مردانہ مزاج کا یہ فطری تقاضہ ہوتا ہے کہ کسی صورت میں بھی طلاق کے بعد وہ اپنی سابقہ بیگم کو کسی دوسرے کیساتھ ازدواجی تعلق میں برداشت نہیں کرسکتا۔ اس معاشرتی برائی کے خاتمے کیلئے اللہ تعالیٰ نے متصل آیت 230البقرہ میں یہ واضح کردیا کہ فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتیٰ تنکح زوجاً غیرہ ’’پھر اگر اس نے طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرلے‘‘۔ اس کا معنیٰ مروجہ حلالہ اور دورِ جاہلیت کی لعنت نہیں بلکہ یہ اس رسم بد کا خاتمہ ہے کہ شوہر خود بسانا بھی نہ چاہے اور دوسرے سے بھی نکاح نہ کرنے دے۔ دوسری صورت اس کی یہ ہے کہ عورت پہلے شوہر سے ازدواجی تعلق پر راضی نہ ہو تو اس کیلئے یہ حکم زبردست نسخہ کیمیا ہے۔ یہ بہت بڑی عجیب سی بات ہے کہ حلالہ کی لعنت کے رسیہ علماء و فقہا نے تمام حدود و قیود کو توڑ کر حلالہ کی رسم بد کو رائج کرنے کیلئے قرآنی آیات کا کوئی لحاظ نہیں رکھا۔ نہ تو عدت میں آیت کو دیکھا کہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ مرحلہ وار طلاقوں کی آیت کو دیکھا اور نہ ہی یہ دیکھا کہ باہوش و حواس جدائی کا فیصلہ کرنے کے بعد اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ قرآن میں بنیادی بات باہمی رضامندی سے رجوع کی وضاحت ہے لیکن بدقسمت اُمت مسلمہ نے باہمی رضامندی کی آیت کو ایک گالی بنادیا ہے۔ جسے معاشرے میں ’’میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی‘‘کی پھبتی سے متعارف کیا گیا ہے۔ دوسری طرف ایک ساتھ تین طلاق کو اپنی تہذیب و تمدن کا ایسا حصہ بنا دیا گیا ہے کہ اس سے رجوع کا کوئی دور دور تک بھی امکان نظر نہیں آتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اُمت قرآن سے دور ہوگئی ہے اور ہندوستان میں پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کے علاوہ ٹی وی کے ہر چینل اور پبلک مقامات پر گالیاں ہی گالیاں کھارہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسلام کوانسانیت سربلند کرنے کیلئے نازل فرمایا تھا مگر مسلمانوں نے اسلام کی حقیقت کو چھوڑ کر خود کو دنیا میں ذلت سے دوچار کیا۔ شوہر و بیوی میں جدائی کے تین طریقے ہوسکتے ہیں۔ پہلا یہ ہے کہ دونوں کو جدائی مقصود ہو۔ اس کی وضاحت سورہ بقرہ کی آیت 230میں موجود ہے۔ اور دوسرا یہ کہ بیوی جدائی نہ چاہتی ہو اور شوہر نے طلاق دی ہو تو عدت کی تکمیل پر بھی اللہ نے سورہ بقرہ آیت 231میں شوہر کو معروف طریقے سے جدا یا معروف طریقے سے چھوڑنے کی وضاحت کردی ہے۔ اگر بیوی صلح نہ کرنا چاہتی ہو تو شوہر عدت میں بھی رجوع نہیں کرسکتا ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ بیوی نے ناراض ہوکر طلاق لی ہو لیکن عدت کی تکمیل کے کافی عرصہ بعد پھر اپنے شوہر سے رجوع کرنا چاہتی ہو تو اللہ نے سورہ بقرہ آیت 232میں رجوع کی وضاحت کی ہے ۔ جب دونوں باہمی رضامندی سے رجوع کرنا چاہتے ہوں ۔ سورہ بقرہ کی اس تفصیل کے بعد اللہ تعالیٰ نے سورہ طلاق کی دو آیات میں بھی یہی وضاحت فرمائی ہے۔ مسلمانوں نے قرآن کی قدر نہیں کی اور اس کی وجہ سے آج بھارت میں مودی سرکار اور ہندوؤں کے ہاتھوں بھی ذلت سے دوچار ہیں۔ پاکستان کی پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کو چاہیے کہ اس اہم ترین مسئلے پر خود نوٹس لیکر پاکستانیوں اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے گھروں کو ٹوٹنے سے بچائیں ۔ اسلام میں حلالے کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عدت میں رجوع ہوسکتا ہے ، مولوی نے دجال سے بدتر ہوکر دونوں آنکھیں بند کرلیں۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی نے نبی ﷺ کی حدیث اپنی کتاب ’’علامات قیامت اور نزول مسیح‘‘ میں نقل کی جس میں حکمرانوں اور رہنماؤں کو دجال سے زیادہ بدتر اور خطرناک قرار دیا ہے۔دجال کی جو خاصیات بیان کی گئی ہیں ان میں گھروں کو اس طرح تباہ اور عزتوں کو اس طرح پامال کرنے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ کی کتاب ’’عصر حاضر حدیث نبوی ﷺ کے آئینہ میں‘‘ جو تفصیلات مساجد کے ائمہ اور مدارس کے مفتیان کے حوالے سے موجود ہیں وہ بڑا لمحہ فکریہ ہیں۔ اگر پاکستان کے حکمرانوں نے مسلمانوں کے گھر اور عزتوں کو نہیں بچایا تو ان کی کسی شرافت ، دیانت ، امانت اور صداقت کا جھوٹا پروپیگنڈہ کام نہیں آئیگا۔ یہ اپنی ساکھ کھوچکے ہیں اور لوگوں نے ان کی کسی خوشی پر خوش نہیں ہونا ہے اور نہ ان کے کسی غم کا کوئی غم کھانا ہے۔ بدلے ہوئے پاکستان میں آرمی کا کردار اس وقت نمایاں حیثیت سے یاد رکھا جائے گا کہ جب اس اہم مسئلے پر پاکستان کی عوام کو اس مشکل سے نکالیں گے جس مشکل میں مذہبی طبقے نے ڈالا ہے۔ اگر یہ کٹھ پتلی علماء و مفتیان سے بھی خوف کھائیں گے تو ان کی بہادری ملک کو کسی بھی آزمائش میں کام نہیں آئے گی۔ سپریم کورٹ مسلمانوں اور انسانوں کے حقوق کا پاس رکھتی ہے تو قرآن کے واضح احکام کی روشنی میں از خود نوٹس کے ذریعے ایک لارجر بنچ تشکیل دے۔ چیئر مین اسلامی نظریاتی کونسل محترم قبلہ ایاز صاحب بھی اپنے ایمان کو بچانے کیلئے کردار ادا کریں ورنہ تمہاری داستاں تک نہ ہوگی….
کراچی ( احمد جمال) ایم کیو ایم کے ہر دلعزیز رہنما اور ایم کیو ایم کے کارکنوں کے دلوں میں بسنے والے ڈاکٹر محمد فاروق ستار نے اخبار ’’نوشتہ دیوار‘‘کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ محترم سید عتیق الرحمن گیلانی صاحب نے تین طلاق کے حوالے سے جو نکتہ اٹھایا ہے وہ قابلغور اور قابل عمل ہے اور قرآن کی اصل تفسیر کے مطابق ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام جوڑنے کا درس دیتا ہے توڑنے کا نہیں اور اللہ کے نزدیک حلال کاموں میں سب سے زیادہ نا پسندیدہ فعل طلاق ہے کیونکہ نکاح کے رشتے سے دو خاندان اور اولادیں وابستہ ہوتی ہیں، اوراس ناپسندیدہ عمل سے سب ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے۔ طلاق کی قرآن کی روشنی میں صحیح تفسیر پیش کرنے پر سید عتیق الرحمن گیلانی صاحب مبارکباد کے مستحق ہیں۔
قرآن کریم کی آیات کاایک دوسرے سے فطری ربط موجود ہے، اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ سے فرمایا کہ ’’ آپ جلد بازی سے کام نہ لیں۔ اس کا جمع کرنا( ترتیب و تدوین) ہماری ذمہ داری ہے اور پھر اس کا واضح کرنا بھی ہماری ہی ذمہ داری ہے‘‘۔ تفسیر بالرائے کی انتہائی سخت مذمت ہوئی ہے مگر تفسیری آراء میں اتنا بڑا اختلاف ہے جس میں جائزو ناجائز اور حلال وحرام تک کے اختلافات آگئے ہیں۔ کوئی بھی شخص تفاسیر کی کتب سے استفادہ کرکے ایک نئی تفسیر کر ڈالتا ہے۔ غلام احمد پرویز کے پیروکاروں کی پاکستان میں بہت بڑی تعداد ہے اور اس نے ’’ تبویب القرآن‘‘ کے نام سے اپنی ایک کتاب بھی مرتب کی ہے۔ علماء کرام نے غلام احمد پرویز کی اس شکایت کا بہت برا منایا ہے کہ قرآن کے اندر بکھرے مضامین کو ایک اچھی ترتیب سے نہ مرتب کیا جائے تو یہ اللہ کی نہیں کسی اچھے مصنف کی کتاب بھی نہیں لگتی ہے۔ حقیقت ہے کہ اس سے بڑی بکواس اور کیا ہوسکتی ہے؟،مگر علماء کرام نے جس طرح فقہی مسالک کی خاطر قرآن کے اصل متن اور مفہوم کو مسخ کرکے رکھ دیا ہے ، نتیجے میں قرآنی آیات کے واضح مضامین کا واضح سے واضح مفہوم بھی بالکل مسخ ہوکر رہ گیا ہے۔ مردان میں علماء کرام کو وائٹ بورڈ و بلیک مارکر سے آیات کا مفہوم سمجھایا۔ پہلے مجھے گلہ تھا کہ علماء کرام اور مفتیانِ عظام جان بوجھ کر قرآن کو نظر انداز کررہے ہیں، اب اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ وہ اپنے پکے اسباق کی وجہ سے کسی قدر معذور ہیں۔ علماء کرام سے گزارش ہے کہ فجر کے وقت قرآن کی آیات کے اصل متن ، اسکے مفہوم اور مسائل کو سمجھ لیں۔ قرآن نے حلالہ کا تصور دیا نہیں بلکہ جاہلیت کے دور میں رائج حلالہ کو نہ صرف ختم کیا بلکہ شوہر کیلئے طلاق کے بعد حلال نہ ہونے کی اصل صورتحال بھی سمجھادی۔ عورت کو جن اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا اللہ تعالیٰ نے ان سب کا نہ صرف خاتمہ کیا بلکہ کمالِ بلاغت سے واضح بھی کیا۔ سورۂ بقرہ آیت222میں اللہ نے فرمایا:’’ تجھ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں کہیے کہ یہ اذیت ہے‘‘۔ علماء نے اس سے گند مراد لیا ہے، حالانکہ عربی کی کسی لغت میں بھی اذیٰ کے معنی گند کے نہیں ہیں۔ آیت میں حکم ہے کہ حیض کی حالت میں انکے قریب نہ جاؤ،یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائیں، جب پاک ہوجائیں تو انکے پاس آئیں اللہ پاکی رکھنے والوں اور توبہ کرنیوالوں کو پسند کرتا ہے۔ پاکی کا تعلق گند اور توبہ کا تعلق اذیت سے ہے۔ جس چیز سے بھی عورت کو اذیت ملتی ہو ، اس صورت میں اسکے ساتھ مباشرت کرنے کی آیت میں روک تھام ہے۔ جس کوترجمہ اور کتب فقہ وتفسیر میں نظرانداز کردیا گیا ہے۔ البقرہ آیت223میں ہے کہ تمہاری عورتیں تمہارا اثاثہ ہیں۔ انگریزی میں ایسٹ کہتے ہیں، بیویاں بچوں کی مائیں ہوتی ہیں، دنیا اور جنت کی رفیقِ حیات ہوتی ہیں۔ والدین، بہن بھائی اور بچوں کی اپنی زندگی ہوتی ہے ، بیوی جوڑی دار ہوتی ہے۔ یہ کتنا ظلم ہے کہ علماء نے اس کو کھیتی قرار دیا ہے؟ کھیتی کے حقوق تو گھرکے جانوروں جتنے نہیں اذیٰ اور حرث کا درست ترجمہ ومفہوم سامنے ہوتا تو فقہ کے ائمہ میں یہ اختلاف نہ ہوتا کہ لواطت حرام ہے یا حلال؟۔ البقرہ آیت 224میں اللہ نے فرمایا کہ’’ اپنے عہد و پیمان کیلئے اللہ کو ڈھال نہ بناؤ کہ تم نیکی کرو، تقویٰ اختیار کرو اور لوگوں کے درمیان صلح کراؤ‘‘۔ ایمان یمین کی جگہ ہے جو صرف حلف یا قسم کیلئے نہیں آتا بلکہ ہرقسم کے عہد اور وعدہ ، حلف، قول ، طلاق ، ظہار، ایلاء سب شامل ہیں۔ یہ طلاق کیلئے ایک بنیادی کلیہ ہے کہ میاں بیوی صلح چاہتے۔ مذہب اس میں رکاوٹ بنتا تھا۔ اللہ نے یہ فتویٰ ختم کرنے کیلئے اس آیت کو مقدمہ کے طور پر پیش کیا ہے کہ میاں اور بیوی ہی نہیں مشرک ومسلمان، یہودی، ہندو، عیسائی وغیرہ کسی کے درمیان صلح کیلئے یہ بہانہ نہ بناؤ کہ اللہ رکاوٹ ہے۔ خاص طور پر میاں بیوی کے درمیان طلاق کے بعد۔ البقرہ آیت 225 میں اللہ تعالیٰ نے یہ واضح کیا ہے کہ ’’ اللہ تمہیں لغو عہدوپیمان سے نہیں پکڑتا ہے مگر تمہارے دلوں نے جو کمایا ہے اس پر پکڑتا ہے‘‘۔ گزشتہ سے پیوستہ آیت کا ربط یہی ہے کہ صلح نہ کرنے یا جدائی کیلئے کوئی عہد کیا جائے تو کسی لغو بات کیلئے مذہبی بہروپ کے پاس دوڑ کر جانے کی ضرورت ہی نہیں کہ یہ الفاظ نکل گئے ہیں اب میاں بیوی میں صلح ہوسکتی ہے یا نہیں؟۔ اللہ خود فتویٰ دیتا ہے کہ اس پر تمہاری کوئی پکڑ نہ ہوگی ، البتہ دلوں کے گناہ پر اللہ نے پکڑنا ہے۔ دلوں کا گناہ بھی آگے واضح ہے۔ البقرہ آیت226میں ہے کہ’’ جو بیویوں کے پاس نہ جانے کا عہد کرلیں تو ان کیلئے چار ماہ کا انتظار ہے۔ پھر اگر وہ مل گئے تو اللہ غفور رحیم ہے‘‘۔جب عورت کو طلاق دینے کا کھل کر اظہار نہ کیا تو لامحدود مدت تک اس کو انتظار نہیں کرایا جاسکتا ہے اسلئے چار ماہ کی مدت متعین ہے۔یہ بھی عورت کو اذیت سے بچانے کا اہم معاملہ ہے۔ جمہور فقہاء کا مسلک ہے کہ جب تک طلاق کا زبانی اظہار نہ کرے تو عمر بھر بھی طلاق نہ ہوگی اور حنفی مسلک میں چار ماہ گزرتے ہی طلاق واقع ہوگی۔ دونوں کو مرد کے حق سے مطلب تھا، عورت کی اذیت سے نہیں۔ قرآن اس قدر لغو اختلاف کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہی متحمل ہوسکتا ہے۔ البقرہ آیت227میں ہے کہ ’’ اگر انکا طلاق کا عزم تھا تو اللہ سنتا جانتا ہے‘‘۔یہ سمیع اور علیم کے الفاظ ڈرانے کیلئے ہیں اسلئے کہ دل میں عزم ہو اور طلاق کا اظہار نہ کیا جائے تو یہ دل کا گناہ ہے اور وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں طلاق کی عدت ایک ماہ بڑھ جاتی ہے۔ جس پر اللہ نے دل کے گناہ اور اس پر پکڑنے کا کھل کر اظہار فرمایا ہے۔ البقرہ آیت228میں طلاق کے اظہار پر تین ادوار کی عدت کو واضح کیا ہے اور اس میں اصلاح کی شرط پر ہی ان کے شوہروں کو لوٹانے کا حق دیا ہے۔ مردوں کیلئے اس آیت میں عورتوں پر ایک درجے کا ذکر کیا ہے اور دونوں کے ایکدوسرے پر مساوی معروف حقوق کو واضح کیا ہے۔ اس سے بڑا درجہ اورکیا ہوسکتا ہے کہ شوہر طلاق دیدے اور عورت عدت تک انتظار کرے؟۔ یہ بھی عورت کے مفاد میں ہے۔بچھڑنے پر عورت کو زیادہ مشکل کا سامنا ہوتاہے اسلئے اللہ نے مرد کو حق مہر کیلئے سکیورٹی کا پابند کیا ہے۔ یہ آیت بھی تمام مسائل کے حل کیلئے کافی ہے کہ عورت ایک عدت تک انتظار کی پابند ہے اور اس میں شوہر کو اصلاح کی شرط پر رجوع کا حق حاصل ہے۔ اگر شوہر کو غیرمشروط حق دیا جائے تو یہ ایکدوسرے پر معروف حق کا تصور نہ ہوگا۔ البقرہ آیت 229میں اللہ تعالیٰ نے مزید وضاحت کردی ہے کہ ’’ طلاق دو مرتبہ ہے۔ پھر معروف طریقے سے روک لینا ہے یا احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے اور تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے کہ اس میں سے کچھ واپس لے لو، الا یہ دونوں کو یہ خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکتے ہوں۔ پھر اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو ان دونوں پر کوئی حرج نہیں کہ اس چیز کو عورت کی طرف سے فدیہ کیا جائے۔ یہ اللہ کے حدود ہیں، ان سے تجاوز نہ کرو اور جو ان سے تجاوز کرے توبیشک وہی ظالم ہیں‘‘۔ یہ آیت گزشتہ سے پیوستہ بھی ہے اور معاشرے کیلئے ایک بہترین گلدستہ بھی ہے اور آنے والی آیت کی تفسیرمیں برجستہ بھی ہے۔ قرآن پاک کی آیات میں دشمن کیلئے بھی چیلنج ہے کہ’’ کوئی تضاد ثابت کرکے دکھائیں۔ اگر یہ اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سے تضادات وہ پاتے‘‘۔یہ تو نہیں ہوسکتا ہے کہ اللہ نے عدت میں اصلاح کی شرط پر رجوع کا حق دیا ہو اور اس کو عدت میں بھی چھین لیا ہو۔ علماء وفقہاء نے فقہی موشگافیوں کے سبب قرآن میں تضادات کے انبار کھڑے کردئیے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے عدت کے تین ادوار تک انتظار کو متعین کردیا ہے تو یہ سمجھنے میں کیا دشواری ہے کہ انہی ادوار میں الگ الگ تین مرتبہ طلاق کا ذکر کیا ہے؟ جبکہ نبیﷺ نے غضبناک ہوکر یہی مفہوم اسلئے طہرو حیض کے ادوار کی وضاحت کرتے ہوئے سمجھایا ہے۔ پہلے طہرو حیض میں پہلی مرتبہ کی طلاق، دوسرے طہرو حیض میں دوسری مرتبہ کی طلاق، پھر تیسرے مرحلے میں تیسری مرتبہ کی طلاق۔ اس آیت میں تین مرتبہ طلاق کا تعلق عدت کے تین مراحل سے جدا نہیں ہوسکتا ہے۔ عورت کیلئے عدت کا انتظار ایک اذیت ناک چیز ہے مگریہ اسکے اپنے مفاد میں بھی ہے اور جو شوہر نے اس کو سہولیات دی ہیں اس کا تقاضہ بھی ہے۔ اگر مرحلہ وار تین مراحل میں تین مرتبہ طلاق کا فیصلہ ہوگیا تو بھی عدت میں رجوع کیلئے قرآن وحدیث میں کسی پابندی لگنے کا کوئی تصور نہیں۔ البتہ ایسی صورت میں اللہ نے واضح کردیا کہ اسکے بعد جو کچھ بھی شوہر نے دیا تھا اس میں کچھ بھی واپس لینا جائز نہیں ہے ،الا یہ کہ دونوں کو یہ خوف ہو کہ ۔۔۔‘‘ یہ وہ صورتحال ہے کہ جب میاں بیوی اور انکے درمیاں فیصلہ کرنیوالے افرادباہوش وحواس اسی نتیجے پر پہنچیں کہ اب دونوں رابطے کا بھی کوئی ذریعہ نہ ہونا چاہئے۔ ایسی صورت میں سوال یہ پیدا نہیں ہوتا ہے کہ اگر رجوع کرلیا جائے تو ہوجائیگا یا نہیں؟۔ بلکہ ایک دوسرے معاشرتی روگ کا مسئلہ سامنے آتا ہے کہ شوہر اسکے باوجود بھی عورت پر اپنی مرضی کے مطابق نکاح کرنے پر پابندی لگادیتا ہے اسلئے کہ یہ اس کی عزتِ نفس کا مسئلہ ہوتا ہے۔ ریحام خان کو عمران خان نے طلاق دی تو اس کوبڑی دھمکیاں دی گئیں کہ لندن سے واپس مت آؤ۔ اس نے کہا کہ میں پٹھان ہوں اور جان پر کھیلنا آتا ہے۔ بہرحال آیت کا مفہوم آئندہ آیت کیلئے ایک بہترین مقدمہ ہے۔
پھر البقرہ آیت 230کا واضح مطلب اچھی طرح سمجھ لو۔
البقرہ آیت230 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’ اگر اس نے پھر طلاق دیدی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ عورت اپنی مرضی سے کسی دوسرے شوہر سے نکاح نہ کرلے، پھر اگر اس نے طلاق دیدی تو دونوں کو رجوع کی اجازت ہے بشرط یہ کہ دونوں کو یقین ہو کہ اللہ کے حدود پر قائم رہ سکیں گے‘‘۔ آیت میں کوئی ابہام نہیں ہے اور اس سے پہلے والی آیت میں صورتحال بھی واضح ہے۔ جب وہ دونوں جدا ہونا چاہتے تھے اورشوہر کی طرف سے بیوی کو دی گئی چیز اسلئے واپس کی گئی کہ اس عورت کی منزل دوسری شادی تھی اور ظاہر ہے کہ جب اس کی دوسری جگہ شادی ہو اور پہلے شوہر کی دی ہوئی کوئی چیز رابطے کا ذریعہ اور حدود کو توڑنے کا باعث بن رہی ہو تو وہ فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں۔ چونکہ شوہر ایسی صورت میں طلاق کے بعد بھی اپنی عزتِ نفس کا مسئلہ سمجھ کر اس کو اپنی مرضی سے کہیں نکاح نہیں کرنے دیتا اسلئے واضح الفاظ میں دوسری جگہ نکاح کرنے کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ بسا اوقات یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک زیادہ عمر والے جوڑے میں طلاق اور جدائی کی یہ نوبت پہنچ جائے تو عورت کو اپنی مرضی سے کسی اور سے نکاح کرنے کی وضاحت ہے۔ جب دوسرے شوہر سے طلاق مل جائے تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بچوں سے پیار کی خاطر پہلے سے نکاح تو کرلیا جائے مگر دوسرے کی زوجیت میں رہنے کے پیشِ نظر یہ خدشہ بھی موجود ہو کہ اللہ کی حدود پائمال ہوں۔ اسلئے سب واضح کردیا ہے۔ ایک غلط فہمی یہ پیدا ہوسکتی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے عدت کی مدت میں رجوع کی گنجائش رکھ دی اور عدت کی تکمیل کے بعد یہ گنجائش ختم ہوجاتی ہے۔ اور اس آیت230میں اللہ تعالیٰ نے پھر اس حلالے کو زندہ کردیا ہے جس کا تصور ایام جاہلیت میں تھا۔ اسلئے اللہ تعالیٰ نے ان مذہبی طبقات کی طرف سے پیدا کئے جانے والے خدشات کا قلع قمع کردیاہے۔ جس کی وضاحت آئندہ آیات میں ہے۔
پھرالبقرہ: 231،232 اگلی آیات اور سورۂ طلاق دیکھو!
البقرہ آیت 231میں اللہ نے فرمایا کہ ’’جب تم نے عورتوں کو طلاق دی اور ان کی عدت پوری ہوگئی تو ان کو معروف طریقے سے روکو یا معروف طریقے سے چھوڑ دو۔ اور اسلئے مت روکو تاکہ ان کو ضرر پہنچاؤ، اور جو ایسا کرتاہے تو وہ اپنے نفس پر ظلم کرتا ہے۔ تم یاد کرو جو نعمت اللہ نے تم پر کی ہیں اور جو کتاب میں سے آیات نازل کی ہیں اور حکمۃ کو، ان آیات سے ان کو نصیحت کی جاتی ہے جو اللہ اور آخرۃ کے دن پر ایمان رکھتے ہیں‘‘۔ قرآن میں کہیں کوئی تضاد کا شائبہ تک بھی نہیں ہے۔ پہلے یہ واضح کردیا تھا کہ عدت کی مدت میں بھی صلح کی شرط پر رجوع ہوسکتا ہے۔ پھر یہ واضح کردیا کہ جب تین الگ الگ مراحل میں طلاق کا فیصلہ ہوش وحواس کیساتھ ہوجائے اور آئندہ کوئی رابطہ نہ رکھنے پر اتفاق ہو اور کوئی چیز رابطے کا ذریعہ بن کر حدود توڑنے کا باعث بنتی ہو تو اس کو واپس کرنے میں حرج نہیں۔ یہی وہ صورتحال تھی کہ جب دونوں میاں بیوی اور معاشرہ جدائی کو ناگزیز سمجھتے ہوں اور اس میں ایک معاشرتی مسئلہ یہ بھی تھا کہ اس طلاق اور جدائی کے باوجود بھی شوہر عورت کو اپنی مرضی سے دوسرے سے نکاح نہیں کرنے دیتا ہے۔ بچے سامنے گھومتے ہوں اور اس کی طلاق شدہ بیوی سے نکاح کیا جائے تو یہ صورتحال معاشرے کیلئے آج بھی گھمبیر ہے لیکن قرآن نے عورت کو بالکل آزادی دی ہے اور اس وجہ سے قرآن پوری دنیا کیلئے عام طور پر خواتین اور غیر مسلم معاشرے کیلئے ،خاص طور پرمغرب کے نام نہاد ترقی یافتہ معاشرے کیلئے ہدایت کا زبردست وبہترین ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ واضح کردیا کہ اگر بیوی راضی ہو توپھر عدت کی تکمیل کے بعد رجوع ہوسکتا ہے۔ معروف کی شرط باہمی رضامندی کی بنیاد پر ہے۔ ورنہ تو عدت کے اندر بھی غیرمشروط رجوع کی اجازت نہیں ہے، جس کی وجہ سے فقہ کی کتابیں منکرات سے بھری پڑی ہیں۔ احناف رجوع کو نیت کا پابند بھی نہیں سمجھتے اور نہ چاہتے ہوئے بھی رجوع ہوجاتا ہے اور شوافع کے نزدیک مباشرت بھی رجوع نہیں ہوتا ہے۔ علماء ومفتیان اور مدارس والے اللہ کے عذاب سے ڈریں اور مسلمان خاندانوں پر رحم کریں۔مولانا سمیع الحق کی شہادت المیہ بھی ہے اوربہت بڑی عبرت بھی۔ البقرہ آیت 232 میں اللہ تعالیٰ نے رجوع کیلئے حد کردی ہے۔ فرمایا’’ جب تم نے عورتوں کو طلاق دی اور وہ اپنی عدت کو پہنچ گئیں تو ان کو اپنے شوہروں سے نکاح کرنے سے مت روکو، جب وہ معروف طریقے سے آپس میں رجوع کرنے پر رضامند ہوں،اس میں تمہارے لئے زیادہ پاکیزگی اور زیادہ تزکیہ ہے‘‘۔ یہ وہ صورتحال ہے کہ جب عورت نے خلع لیا ہو۔ یہ اسلئے بتانا پڑ رہا ہے کہ ایک عالم دین علامہ تمنا عمادی نے اپنی کتاب ’’ الطلاق مرتان‘‘ میں خلع کی صورت میں حلالہ کا حکم ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ حنفی مسلک کی کتاب نورالانور اور اصول فقہ کا بھی تقاضہ ہے۔ علامہ ابن قیم شاگرد ابن تیمیہ نے اپنی کتاب ’’ زادالمعاد‘‘ میں خلع کے باب میں ابن عباسؓ کی یہ تفسیر بھی نقل کی ہے۔ جس کو میں بار بار نقل کرچکا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے ہجرت کے بعد یہ حکم نازل کیا کہ جو مؤمنات ہجرت کرکے آئیں تو پہلے ان کا امتحان لیں اور یہ ثابت ہوجائے کہ واقعی وہ ایمان والی ہیں تو ان کو سابقہ شوہروں کے پاس نہ لوٹاؤ، ’’یہ ان کیلئے حلال نہیں اور وہ ان کیلئے حلال نہیں‘‘۔اس میں حلال نہ ہونے کی نسبت دونوں طرف کی گئی ہے اور حلال نہ ہونے کا تصور شریعت کی بنیاد پر نہیں بلکہ لغت کی بنیاد پر تھا۔ حضرت علیؓ نے سمجھ لیا تھا کہ یہ شرعی حلال نہ ہونے کا تصور ہے اسلئے فتح مکہ کے موقع پر اپنے بہنوئی حضرت ام ہانیؓ کے مشرک شوہر کو قتل کرنا چاہا۔ جس کوپھر نبیﷺ نے پناہ دیدی تھی۔ آیت230البقرہ میں حلال نہ ہونے کا تصور صرف شوہر کی طرف منسوب ہے اورآیت 232 میں یہ واضح کردیا کہ بیوی اپنے شوہر سے رجوع پر رضامند ہو تو اس کیلئے کوئی رکاوٹ پیدا کرنا غیر شرعی ہے۔ جسکے بعد فتوے کی گنجائش نہیں رہتی۔ البتہ بسا اوقات مصلحت اس میں سمجھ لی جاتی ہے کہ رکاوٹ پیدا کرنے میں رنجش کا معاملہ ہوتاہے۔ سورۂ طلاق کی آیات میں مزید وضاحت ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے ایک ساتھ تین طلاق پر سزا کی تجویز کم علمی کے علاوہ کم عقلی کی بھی ہے۔اگر سزا سے ایک ساتھ تین طلاق کا مسئلہ رکنے والا ہوتا تو حلالہ سے بڑھ کر اور کیا سزا ہوسکتی ہے؟۔ وزیراعظم عمران خان نے جب مسیج بھیج دیا کہ طلاق طلاق طلاق تو اس پر عمران خان کو کیا سزا دی جائے گی؟۔ ریحام خان مسلمان تھی اسلئے طلاق طلاق طلاق کا مسیج بھیج دیا اور جمائمایہودن تھی اسلئے طلاق کے الفاظ نہیں بلکہ طلاق کو معاملے کی طرح باقاعدہ ڈھیل اور افہام وتفہیم سے اپنے منطقی انجام تک پہنچایا۔دنیا میں طلاق کا یہ طریقۂ کار اسلام نے ہی متعارف کرایاتھا۔ اسلام اسی لئے دنیا میں بہت تیز رفتاری کیساتھ پھیل گیامگر بعد میں رفتہ رفتہ مذہبی طبقے نے فرقے، مسلکی وکالت، کاروباری اور نفسانی خواہشات کی تکمیل کاذریعہ اسلام کو بنالیا، جس کی جھلکیاں درسِ نظامی کی ’’ مقامات الحریری‘‘میں ابوزید سروجی کے تخیل سے سمجھ میں آسکتی ہیں۔ تفسیر کے امام صاحبِ کشاف علامہ جاراللہ زمحشریؒ نے لکھا : اقسم باللہ وآیاتہ ومشعر الحج ومیقاتہ بان الحریری حری ان یکتب بالتبر مقاماتہ ’’میں اللہ اور اسکی آیات کی قسم کھاتا ہوں،اور شعارحج اور اسکے مقات کی کہ حریری کی مقامات سونے کے ٹکڑوں سے لکھنے کے قابل ہے‘‘ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں ہمیں مفتی محمد نعیم صاحب مدظلہ العالی نے ہی عربی ادب کی کتاب ’’مقامات الحریری‘‘ پڑھائی تھی۔ مفتی محمدنعیم صاحب نے یہ فرمایا تھا کہ ’’ بعض شرمناک مقامات پر میری آنکھیں بھی جھکی ہونگی اور آپ لوگ بھی شرم کے مارے آنکھ نہیں اُٹھا سکیں گے۔ ہماری مجبوری ہے کہ نصاب کی اس کتاب کو پڑھنا اور پڑھانا پڑتا ہے‘‘۔ اس کتاب میں سب سے زیادہ شرمناک مقالہ جوزر علیہ شوزر ’’لڑکا تھا جس پر رومال تھا‘‘والا ہے۔ابوزید سروجی کی طرف سے اس پر دعویٰ ہوتا ہے کہ اس نے اسکے بیٹے کو قتل کیا۔ قاضی کی عدالت میں پیشی ہوتی ہے تو ابوزید کے پاس گواہ نہیں ہوتا۔ قاضی لڑکے سے قسم کھانے کا کہتا ہے توابوزید کہتا ہے کہ میری مرضی سے میرے الفاظ کے مطابق قسم کھائے گا اور قسم کے شرمناک الفاظ میں خوبصورت آنکھوں، پھڑکنے والے گالوں سے لیکر دواتی بالاقلام میری دوات(پشت کی شرمگاہ) اقلام ( اعضائے تناسل )سے یہ ہوجائے تک بات پہنچ جاتی ہے تو لڑکا شرماتا ہے اور قسم کھانے سے انکار کرتاہے جبکہ قاضی کے جذبات بھی برانگیختہ ہوچکے ہوتے ہیں۔ ابوزید قاضی کو مشرکہ طور پر اس لڑکے کو بدفعلی کیلئے شکار کرنے کی دعوت دیتا ہے اور قاضی سے رقم بھی ہتھیا لیتا ہے۔ پھر بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ابوزید سروجی کا اپنا بیٹا تھا اور اس طرح وہ اسکے ذریعے لوگوں کو شکار کرنے کیلئے استعمال کرتا رہتا ہے‘‘۔مقامات الحریری میرے بھائی پیر نثار احمد شاہ پہلے اے این پی کے دلدادہ تھے،جب اس نے ایک عالم دین کے بارے میں کہا کہ ’’ وہ اپنے بیٹے کو اس طرح استعمال کررہاہے تو اپنے دل میں پروگرام بنایا کہ رات کو اپنے بھائی کو بندوق سے قتل کرودں گا مگر شاید اسے میری دل آزاری کا احساس ہوا، رات کو مجھ سے معافی مانگ لی ورنہ میں نے طے کرلیا تھا کہ سوتے میں اسکا کام تمام کردوں گا‘‘۔ شدت پسندی کے ناسور کا جذبہ میں نے ہی اس خطے میں پھونکا تھا۔ منکرات کیخلاف آواز اُٹھانے سے لیکر ہاتھ سے روکنے تک کا کردار ہم نے ادا کیا۔ پھر شعور وآگہی کے بعد کچھ سیکھنے کو ملاہے۔ ملاعمر رحمۃ اللہ علیہ ایک مخلص انسان تھا لیکن شعور وآگہی نہ ہونے کی وجہ سے اس نے خراسان کے دجال کا کردار غیرشعوری طور پر ادا کیا۔ اگر ان سے پہلے مَیں پاکستان کا امیرالمؤمنین بن جاتا تو ان سے بھی بڑے دجال کا کردار میرا ہوتا۔ ٹی وی ، تصویر، داڑھی، پردے اور فرائض وسنت پر عمل کرنے کی کوشش میں شاید ہی میرا کوئی ثانی ہوتا ۔ میری زندگی کے ابواب ایک کھلی کتاب کی طرح ہیں۔اگر ضرورت پڑی تو ایک ایک بات کو اجاگر کردوں گا۔ انشاء اللہ پچھلے شمارے میں اجتہاد پر تھوڑی بہت روشنی ڈالی تھی جس کو اہل علم ودانش کی طرف سے بہت پذیرائی مل گئی ہے۔ اجتہاد کے حوالے سے ابھی بہت کچھ باقی ہے جس سے شیعہ سنی، بریلوی دیوبندی اور حنفی اہلحدیث کے اختلافات بالکل ختم ہوجائیں گے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے ایک ساتھ تین طلاق پر سزاکی تجویزکا مسئلہ اٹھایا ہے اور اجتہادی مسائل پر اختلافات کی بنیاد کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ حضرت عثمانؓ نے ایک ساتھ حج و عمرہ کے احرام کو روکنے کا اعلان فرمایا تو حضرت علیؓ نے مزاحمت کرتے ہوئے اعلان فرمایا کہ میں ایک ساتھ حج وعمرے کا احرام باندھ رہا ہوں ،تم روکنے والے کون ہو؟ نبی کریمﷺ نے ایک ساتھ حج وعمرے کا احرام باندھا تھا۔(صحیح بخاری)صحیح مسلم کی کئی احادیث ہیں کہ حضرت عمرؓ نے اپنی رائے سے حج وعمرے کا احرام ایک ساتھ باندھنے سے روکا تھا، جبکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں حج وعمرے کی ایک ساتھ اجازت دی اور نبیﷺ نے اپنی زندگی میں ایک حج کیا اور حج وعمرے کا احرام ایک ساتھ باندھا تھا۔ پہلے اس حکم پر عمل ہوتا تھا تو فرشتے ہم سے گلی کوچوں میں مصافحے کرتے تھے اور اب یہ سنت ترک کردی گئی تو ہمارے ایمان کی حالت وہ نہ رہی جو پہلے تھی۔( مسلم) اس اختلاف کا پسِ منظر یہ تھا کہ دورِ جاہلیت میں لوگ عمرہ کرتے تھے جو بھی عمرے کی منت مان لیتا تھا ، اس کو پورا کرتا تھا، اہل مکہ کا مفاد اسی میں تھا کہ لوگ حج کیساتھ عمرہ نہ کریں، رفتہ رفتہ یہ مذہبی شعار کی صورت اختیار کرگیا کہ زمانہ حج میں عمرہ کرنا جائز نہیں ہے۔ قریشِ مکہ کی تجارت میں حج و عمرے کا مذہبی تہوار بڑا منافع بخش کاروبار بھی تھا۔ سیروسیاحت کی طرح اس سفر میں آنے جانے والوں سے کاروباری فائدے بھی اُٹھائے جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حج و عمرے کو ایک ساتھ کرنے کا جواز بتایا۔ نبیﷺ نے ایک احرام باندھ کر اس پر عمل کیا، ایک ہی موقع ملاتھا ،اسلئے الگ الگ احرام باندھنے کی نوبت نہیں آئی۔ مذہبی ذہنیت بڑا حساس معاملہ تھا، لوگوں نے سمجھا کہ یہی نبی کریمﷺ کی سنت ہے۔ حضرت عمرؓ کو واقعی فاروق اعظم کا خطاب بجا ملا تھا،آپؓ نے ایک ساتھ حج وعمرے کا احرام باندھنے پر سخت پابندی لگادی۔ اس میں بہت بڑی اور واضح حکمت یہ تھی کہ جب ایک ساتھ حج وعمرے کا احرام باندھا جاتا تھا تو حج سے چند دن پہلے پہنچنے والوں کا جمع غفیر پسینوں سے شرابور ہوکر فضاء کو متعفن کردیتا تھا۔ رسول اللہﷺ کا پسینہ تو خوشبودار تھا۔ عام لوگوں کا پسینہ اتنے بڑے پیمانے پر مشکل پیدا کررہا تھا۔ جب حضرت عمرؓ کے بعد حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ سے پوچھا گیا کہ وہ کس طرح خلافت کے معاملات چلائیں گے۔ حضرت عثمانؓ نے کہا کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے اقدامات کو برقرار رکھوں گا۔ حضرت علیؓ نے کہا کہ میں سارے معاملات کو نبیﷺ کے وقت کی طرف لوٹاؤں گا۔ مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے لکھا : ’’ نبیﷺ کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے بھی معاملات کو جوں کے توں رکھا حضرت عمرؓ نے اپنے دور میں فرقِ مراتب کے لحاظ سے وظائف مقرر کردئیے مگر پوری طرح سرمایہ دارانہ نظام نے جڑیں نہیں پکڑیں تھیں۔حضرت عثمانؓ کے دور میں خاندانی قرابت اور سرمایہ دارانہ نظام نے جڑیں پکڑ لیں جسکو حضرت امیر معاویہؓ نے پوری طرح عملی جامہ پہنایا‘‘۔ حج و عمرے کا احرام ایک ساتھ باندھنے پر حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے درمیان جھڑپ بھی اندرونی رنجش کا ایک چھوٹا سا نمونہ تھا اور مذہبی طبقات نے اسکو احادیث وفقہ کی کتابوں میں بھرپور طور پر باقی رکھا۔ کچھ رافضی اس اختلاف کو وہ رنگ دے رہے تھے کہ حضرت عثمانؓ نے اپنے مذموم مقاصد کیلئے قرآن وسنت سے ہٹ کر مشرکینِ مکہ کا مذہب مسلط کرنا چاہا جو حضرت عمرؓ کا بھی مشن تھا۔ کچھ لوگوں نے حضرت علیؓ کی مخالفت میں تیزوتند جملے استعمال کئے، ایک محدث ضحاکؒ تھے جو بڑے پرہیزگار تھے ، دوسرے حکمرانوں کے ٹولے سے تعلق رکھنے والا ضحاک تھا جس نے کہا کہ ’’ حج وعمرے کا احرام ایک ساتھ باندھنا بہت بڑی جہالت ہے‘‘۔ جس پر حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے کہا کہ ’’ ایسی بات نہ کرو، میں نے خود نبیﷺ کو حج وعمرے کا احرام ساتھ باندھتے ہوئے دیکھا ہے‘‘۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے کسی نے کہا کہ ’’تمہارا باپ تو ایک ساتھ حج وعمرے کا احرام باندھنے کی مخالفت کرتا تھا‘‘ تو آپؓ نے فرمایا کہ ’’ میں اپنے باپ کو نہیں رسول اللہ ﷺ کو رسول مانتا ہوں اسلئے آپﷺ کی بات ہی کو درست سمجھتا ہوں‘‘۔ حضرت عثمانؓ کے دورمیں خوارج کا جو ٹولہ پیدا ہوا جس نے آپؓ کو شہید کردیا، اس میں ان مذہبی اختلافات کا بھی بڑا عمل دخل تھا پھر یہ لوگ حضرت علیؓ اور امیرمعاویہؓ کے بھی دشمن بن گئے تھے۔ قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کے اختلاف کا بھی ذکر ہے جو تفریق کا بھی باعث بن گیا، پھر حضرت خضرؑ نے اس اختلاف کی حقیقت بتائی ،یہ اختلاف پھر بھی برقرار رہا تھا اسلئے کہ بچے کا قتل انسانی حقوق کا مسئلہ تھا، جب اللہ تعالیٰ نے خود ہی ایک پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حضرت خضر علیہ السلام کی باکمال شخصیت ہونے اور ایک بڑے اللہ والے ہونے کی بھی نشاندہی کردی اور وعدہ بھی کیا تھا کہ میں کوئی سوال بھی نہیں پوچھوں گا مگر انسانی حقوق کے مسئلے پر پھر بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوئی بھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ اُمت مسلمہ کا اختلاف باعث رحمت اور وحی کا نعم البدل ہے۔حضرت عمرؓ کا کردار نبیﷺ کے دربار میں بھی حزبِ اختلاف کے قائد کا رہا تھا۔ مشکوٰۃ میں یہ حدیث ہے کہ ایک خاتون دونوں ہاتھوں اور پیروں سے ناچ رہی تھی ۔ صحابہؓ اس کا تماشہ دیکھ رہے تھے، حضرت ابوبکرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ بھی نظارہ دیکھ رہے تھے، نبیﷺ بھی دیکھنے کھڑے ہوگئے۔ جب حضرت عمرؓ کو آتے دیکھ لیا تو وہ عورت بھاگ کھڑی ہوئی۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ عمر سے شیطان بھی بھاگتا ہے۔ یہ اچھا ہوا کہ لہوولعب کا یہ ماحول ایک طرف نبیﷺ کی وجہ سے قابلِ برداشت بن گیا اور دوسری طرف حضرت عمرؓ کی وجہ سے سنت بننے سے بچ گیا، ورنہ تو راگ وسرود کی محفلوں اور دنیا کی رنگ رنگینیوں کے مزے اڑانے کو بھی سنت کا نام دیا جاتا اور بہت سے لوگ نماز کا اہتمام کرنے کے بجائے اسی کو سنت قرار دیکر عمل کرتے۔ افراط وتفریط اور غلو سے بچنے کا نام سنت وصراط مستقیم ہے۔ اللہ تعالیٰ سے ہر نماز کی ہر رکعت میں مانگنے کے باوجود ہم غور نہیں کرتے۔ عورت کا ناچ گانا قابلِ برداشت تھا مگر سنت نہیں تھا۔ اسکے خلاف ڈنڈے اٹھانا بھی سنت نہیں مگر میں نے جامعہ انوار القرآن آدم ٹاؤن نیو کراچی میں ایک طرف مشکوٰۃ شریف کی تعلیم حاصل کی تو دوسری طرف وہاں جمعرات کو کرایہ پر مدرسہ کے ارباب اہتمام ’’ وی سی آر‘‘ لاکر فحش فلمیں دیکھتے تھے۔ مجھے پتہ چلا تو ان کو ڈنڈے کے زور سے روک دیا۔ چاہت یہ تھی کہ ڈنڈے سے ان کی پٹائی بھی کردوں مگر اچانک کچھ شریف چہرے سامنے آئے تو ڈنڈا چلانے کا میراجذبہ ماند پڑگیا۔نبیﷺ نے سچ فرمایا کہ ’’میری امت گمراہی پر اکٹھی نہیں ہوسکتی ہے‘‘۔ اجتہادی مسائل میں کوئی ایسی گمراہی کی چیز نہیں، جس پر امت کا اجماع ہوا ہو۔ نورانوار اور اصولِ فقہ میں ’’اجماع‘‘ کی تعریف تبدیل کی گئی ۔ چنانچہ لکھا ہے کہ’’ اجماع سے مراد اہل مدینہ کا اجماع ہے، اہل سنت کا اجماع بھی ہے اور اہل بیت کا اجماع بھی ہے۔ یہ سب اجماع معتبر ہیں‘‘۔ (نورالانوار) اسلامی نظریاتی کونسل میں تمام مکاتبِ فکر کے علماء ومفتیان شامل ہیں، اب یہ متفقہ تجویز سامنے آئی ہے کہ’’ ایک ساتھ تین طلاق دینے پرایک سال قید کی سزا دی جائے گی‘‘۔ قومی اسمبلی اور سینٹ نے اس تجویز کو قانون بنالیا تو پاکستان کی سرزمین پر یہ ایک نیا اجتہادی مسئلہ ہوگا۔ بھارت میں بھی یہ مسئلہ اٹھایا گیا تھا۔ یہ قرآن کی روح ہے کہ انسانی حقوق کا بھرپور خیال رکھا جائے۔ حضرت موسیؑ نے حضرت خضرؑ کے اقدامات کی توثیق نہیں فرمائی۔ حضرت سلیمان ؑ نے ملکہ سبا کے تخت کو اس شخص کے ذریعے حاضر کیا تھا جس کو قانون فطرت کی کتاب کا علم تھامگر اس کے ذریعے ملکہ سبا بلقیس کو نہیں لایا گیا۔ حضرت نوح علیہ السلام کا نالائق بیٹا بھی اسلئے طوفان کا شکار ہوا کہ اس نے کہا کہ پہاڑ پر چڑھ کر بچ جاؤں گا ۔ اگر وہ کشتی میں سوار ہوجاتا تو بچ سکتا تھا۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ میری امت پر اجتماعی عذاب نہیں آئیگا اور اپنے اہلبیت کو آپﷺ نے کشتی نوح ؑ قرار دیا ہے۔ نبیﷺ نے قرآن کو مضبوط تھامنے کی بڑی تلقین فرمائی تھی۔ اہل تشیع سے اہلبیت کا سلسلہ حالت غیبت میں ہے اور اہلسنت سے سنت غائب ہے مگر قرآن کی حفاطت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے۔ نبیﷺ کو قیامت کے دن اُمت سے یہی شکایت ہوگی کہ ’’ اے میرے ربّ! میری قوم نے بیشک اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا‘‘۔ (القرآن)۔عوام وخواص سب کٹہرے میں کھڑے ہونگے۔ طلاق کے مسئلہ پر اسلامی نظریاتی کونسل کے چےئرمین اور ارکان قرآن سے رجوع کرتے تو سزاکی تجویز یہ ہوتی کہ جو مفتی وعالم حلالے کا فتویٰ دیگا، اس کو یہ سزا دی جائے گی اسلئے کہ باہمی اصلاح و رضامندی سے رجوع ہوسکتا ہے۔
تین طلاق پر اسلامی نظریاتی کونسل کو صائب مشورہ ہے
پاکستان، اسلام اورعلماء پہلے سے عالمی قوتوں کے نشانے پر ہیں۔ جب تین طلاق پر ایک سال قید کی سزا سامنے آئیگی تو رہی سہی کسر بھی پوری ہوجائے گی۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی کو بھرپور طریقے سے دلائل سے آگاہ کیا تھا لیکن ان کا مقصد اسلام ، انسانیت اور پاکستان کی کوئی خدمت نہیں تھی بلکہ اپنی نوکری ، مفادات اور مراعات تھے ،اسلئے اس سعادت کی توفیق اسے نہیں مل سکی تھی، ورنہ ایک بڑے انقلاب کا موقع اللہ تعالیٰ نے دیا تھا۔ اسلام کا بنیادی مقصد انسانیت کی فطری رہنمائی ہے۔ طلاق سے متعلق جن احکام کی اللہ تعالیٰ نے رہنمائی فرمائی ہے، اس میں مقدمہ کے طورپر یہ وضاحت کی: ولاتجعل اللہ عرضۃ لایمانکم ان تبروا وتتقوا وتصلحوا بین الناس ’’اور اللہ کو مت بناؤ، ڈھال کہ نیکی، تقویٰ اور لوگوں کے درمیان صلح کیلئے کردار ادا نہ کرسکو‘‘۔ (البقرہ آیت:224)اس آیت کے بعد کوئی ایسی صورت نہیں ہوسکتی ہے کہ میاں بیوی صلح کرنا چاہتے ہوں اور مولوی فتویٰ دے کہ جب تک حلالہ کی لعنت پر مجبور نہ ہوں ،انکے درمیان اللہ تعالیٰ صلح میں رکاوٹ ہے اور اگر کوئی ایسی صورت پیدا ہوجائے تو پھر اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید میں بڑا تضادہے۔ علامہ اقبال کے اشعار ،مسلکوں کی وکالت اوردیگر انسانوں کے خیالات میں تضادات ہوسکتے ہیں مگر اللہ کا کلام تضادات سے پاک ہے۔ و لو کان من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافا کثیرا’’اگر یہ قرآن اللہ کے علاوہ کسی غیر کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سا اختلاف (تضادات) پاتے‘‘ میاں بیوی کے درمیان طلاق کا معاملہ ہو تو اللہ تعالیٰ نے عدت رکھی اور اس میں باہمی رضامندی اور اصلاح کیساتھ رجوع کی گنجائش ہے۔ شوہر کو حکم ہے کہ عدت میں عورت کو گھر سے نہ نکالے اور بیوی کو حکم ہے کہ وہ گھر سے نہ نکلے۔ سورہ البقرہ آیت:228 اور سورۂ طلاق آیت:1میں عدت کے دوران صلح کی بھرپور وضاحت ہے۔سورۂ طلاق آیت :2سورۂ البقرہ آیت 229، 231 اور 232 میں بھی عدت میں اور عدت کی تکمیل پر اور عدت کے بعدصلح کی بھرپور وضاحت ہے البتہ جس طرح البقرہ آیت:228اور229 میں اصلاح کی شرط اور معروف طریقے سے عدت میں رجوع کی گنجائش ہے اور صلح کے بغیر منکر طریقے سے کوئی رجوع نہیں ہوسکتا ہے ، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ جب ان دونوں کا پروگرام ایکدوسرے سے جدائی کا ہو اور معاشرہ بھی انکے درمیان کسی قسم کا رابطہ نہ رکھنے پر متفق ہو تو پھر اس شوہر کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرلے۔ (البقرہ آیت:229،230)۔ چونکہ دنیا میں انسان کے اندربھی یہ حیوانیت بلکہ حیوانوں سے بھی بدتر ماحول موجود ہے کہ بیوی کو طلاق دینے کے بعد بھی اس کی مرضی سے کسی دوسرے شوہر سے نکاح نہیں کرنے دیتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ رحمۃ للعالمین تھے اور قرآن میں اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کی ازاوج مطہراتؓ کو مومنین کی مائیں قرار دیا ہے اور یہ وضاحت کردی ہے کہ آپﷺ کی ازواجؓ سے کبھی نکاح نہ کریں اسلئے کہ آپؐ کو اس سے اذیت ہوتی ہے۔ تاکہ کوئی انسان یہ نہ کہہ سکے کہ غیرتمند ہوکر بھی اسے اذیت نہیں ہوتی ہے۔لیڈی ڈیانا کو شہزادہ چارلس نے طلاق دی اور برطانیہ نہیں فرانس کے شہر پیرس میں ایکسیڈنٹ سے مر گئی یا ماری گئی مگر اس پر مقدمہ دائر کیا گیا کہ ’’ شاہی خاندان اس قتل کے پیچھے ہے‘‘۔ حیوانوں کی طرح انسانوں میں بھی یہ غیرت ہوتی ہے کہ اس کی جوڑی دار کیساتھ کوئی اور جوڑی دار نہ بنے لیکن اسلام نے محض انسانی حقوق کی خاطر یہ قانون رائج کردیا کہ ’’ ایسی صورت میں جب میاں بیوی عدت کے تین ادوار میں دو مرتبہ طلاق اور پھر تیسرے مرحلہ میں بھی جدائی کے فیصلے پر نہ صرف قائم ہوں بلکہ ایکدوسرے سے کوئی رابطہ رکھنے کا ذریعہ بھی نہ چھوڑتے ہوں تو اس صورت میں سوال یہ پیدا نہیں ہوتا ہے کہ رجوع ہوسکتا ہے یا نہیں؟۔ بلکہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلا شوہر اس عورت کو دوسرے سے عورت کی مرضی کیمطابق نکاح کرنے دیتا ہے یا نہیں؟۔ اس مسئلے کے حوالے سے اصول فقہ کی کتاب ’’ نورالانوار‘‘ میں حنفی مسلک بھی واضح ہے اور علامہ ابن قیمؒ نے اپنی کتاب ’’ زاد المعاد‘‘ میں حضرت ابن عباسؓ کا بھی یہی مؤقف نقل کیا ہے۔ میں نے اپنی کتابوں ’’ ابر رحمت، تین طلاق کی درست تعبیر اور تین طلاق سے رجوع کا خوشگوار حل ‘‘ کے علاوہ اپنے اس اخبار کے مضامین اور ادارئیے میں بھی اور اس سے پہلے ماہنامہ ضرب حق کراچی میں بھی تفصیل سے لکھ دیا تھا۔ تمام مکاتبِ کے علماء ومفتیان کھل کر اور چھپ کر ہمارے مؤقف کی بھرپور حمایت کررہے ہیں۔ عوام الناس اور دانشوروں تک حقیقت کسی حد تک پہنچ چکی ہے۔مولانا سیدمحمدیوسف بنوریؒ کے نواسے ڈاکٹر عامر طاسین سابق چیئرمین مدرسہ بورڈسے قبلہ ایاز چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کی بہت تعریف سنی ہے۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق کا مسئلہ سزا دینے سے حل ہونیوالا ہرگز نہیں ہے۔ حلالہ سے بڑھ کر کسی کو کیا سزا دی جاسکتی ہے؟۔ اس مسئلہ میں کسی اجتہاد کی ضرورت پہلے بھی نہیں تھی اور آج بھی نہیں ہے۔ قرآن میں واضح ہے کہ باہمی اصلاح کے بغیر رجوع نہیں اور معروف طریقے سے رجوع کی گنجائش واضح ہے۔حضرت فاروق اعظمؓ نے قرآن کی روح کے مطابق تنازعہ کی صورت میں ٹھیک فیصلہ دیا کہ ایک ساتھ تین طلاق پر رجوع کی گنجائش نہیں ہے، اگر تنازعہ کی صورت نہ ہوتی تو معاملہ حضرت عمرفاروق اعظمؓ کے دربار تک بھی نہ پہنچ سکتا تھا۔ اگر ایک طلاق کے بعد بھی تنازعہ حضرت عمرؓ کے دربار میں پہنچتا تو یہ فیصلہ ہوتا کہ ’’ باہمی اصلاح کے بغیر رجوع کی گنجائش نہیں‘‘۔کیونکہ قرآن میں بالکل واضح ہے، دنیا کی کوئی عدالت بھی تنازعہ کی صورت میں یہی فیصلہ دیتی ہے۔ اگر میاں بیوی راضی ہوں تو قاضی کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ اسلام رفتہ رفتہ ہی اجنبیت کا ایسا شکار ہوگیا کہ میاں بیوی عدت میں بھی باہمی اصلاح کی شرط کے باوجود رجوع سے محروم کئے گئے اور حلالے والوں نے لعنتوں سے دنیاوی مفاد اٹھایا۔ علماء ومفتیان کے مدارس حدیث صحیحہ کے مطابق گمراہی کے قلعے بنے ہیں۔ مولانا محمدیوسف لدھیانویؒ نے اپنی کتاب ’’ عصر حاضر حدیث نبویﷺ کے آئینہ میں‘‘ مساجد کے ائمہ، نمازیوں اور مدارس کے مفتیوں کے بارے میں بہت کچھ متفق علیہ اور احادیث صحیحہ سے واضح کیا ہے۔ پہلے نام کے بغیر فتویٰ دیا جاتا تھا، پھر شناختی کارڈ اور میاں بیوی کو حاضر کرکے فتویٰ دیا جاتا ہے تاکہ خاتون کے خدوخال اور شوہر کی مالداری کودیکھ کر اس کو شکارکرنے والے ابوزید سروجی اپنے داؤ وپیج کے گھوڑے دوڑائیں۔ افسوس کیساتھ کہہ رہا ہوں کہ میری تائید کرنیوالا ایک مفتی و مولانا بھی طلاق کے مسئلے پر فتویٰ کیلئے متاثرہ شخص کی مالی کیفیت پوچھ رہا تھا اور خوش آئند بات یہ ہے کہ بڑے مدارس سے اہلحدیث کے ہاں فتوؤں کیلئے لوگوں کو بھیجا جارہا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے اگر جرأت سے کام لیا تو سرکاری خزانے کا کما حقہ فرض ادا ہوگا ، قبلہ ایاز سے اُمید ہے۔ سید عتیق گیلانی۔
مفتی ریاض حسین صاحب مفتی دارالعلوم قادریہ رضویہ ملیر سعود آباد کراچی کی طرف سے مزید جواب الجواب طلب تحریر
جناب عتیق الرحمن صاحب ! وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آیت230البقرہ کی جو وضاحت آپ کی طرف سے شائع کی گئی ہے وہ غلط ہے۔ اس آیت کی درست تشریح وہ ہے جو قرآن پاک کے تراجم کنزالایمان مع نور العرفان میں ہے اور دیوبند کے شیخ الاسلام مولانا شبیر عثمانی کی تفسیر میں ہے اور شاہ فہد اٰل سعود کی طرف سے حاجی صاحبان کو جوقرآن پاک بطورِ ہدیہ حاجی صاحبان کو پیش کیا جاتا ہے، ان سب کے اندر اس آیت230کے متعلق ایک جیسی تفسیر ہے۔ اس مسئلے میں بریلوی،دیوبندی ،اہلحدیث سب متفق ہیں کہ تین طلاق کے بعد عورت حرام ہوجاتی ہے۔ ایک آپ ہیں کہ اس متفق علیہ مسئلہ کو نہیں مانتے۔ آپ نے ایک غلط مسئلہ بیان کیا جو کہ قرآن پاک کی صریح اور واضح آیت کے خلاف ہے اور ابھی تک اس پر اڑے ہوئے ہیں اور غلط تشریح کر رہے ہیں، میں دوبارہ آپ سے کہوں گا کہ آپ کا مؤقف غلط ہے۔آپ اس سے توبہ کریں۔ آیت230کی وہی تشریح شائع کریں جو علماء کرام نے بیان کی ہے۔ پیارے بھائی میرا فرض تھا، میں نے آپ کی غلطی کی نشاندہی کردی۔ ہدایت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ جسے چاہے گا،اللہ تعالیٰ ہدایت عطاء فرمائیگا۔ آپ کی خدمت میں ایک حدیث پیش کررہا ہوں۔ عن مجاہد قال کنت عند ابن عباسؓ فجاہ رجل فقال انہ طلق امرأتہ ثلاثا ،قال فسکت حتی طننت انہ رادھا الیہ ثم قال ینطلق احدکم فیرکب الحموقۃ ثم یقول یا ابن عباس یا ابن عباس وان اللہ قالمن یتق اللہ یجعل لہ مخرجاعصیت ربک وانت منک امرأتک ،سنن أبی داؤد، کتاب الطلاق باب بقےۃ نسخ المراجعۃ بعد التطلیقات الثلاث مجاہد سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباسؓ کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ایک آدمی آیا اور اس نے بتایا کہ اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیدی ہیں،یہ سن کر وہ خاموش رہے، یہانتک کہ مجھے گمان ہوا کہ آپ اس کی بیوی لوٹادیں گے، پھر ابن عباسؓ نے فرمایا: تم میں جو احمق ہوجاتا ہے،پھر چیختا ہے ،اے ابن عباس ! اے ابن عباس(اب ابن عباس کیا کرے؟)بے شک ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو اللہ سے ڈرتا ہے تواللہ اس کیلئے نجات کی راہ نکال دیتا ہے اور تم ڈرے نہیں، تو تمہارے لئے مجھے کوئی راستہ نہیں سوجھتا، تم نے اپنے ربّ کی نافرمانی کی،(تین طلاق ایک ساتھ دیکر) اور تم سے تمہاری عورت جدا ہوگئی۔(سنن ابی ابوداؤد) ان رکانۃ ابن عبدیزید طلق امرأتہ سھیمۃ البتہ فأخبرالنبیﷺ بذالک الا واحدۃ فقال رسول اللہ ﷺ: وللہ ما اردت الا واحدۃ فقال رکانۃ : واللہ مارادت الا واحدۃ فردھا الیہ رسول اللہﷺ فطقہا الثانیۃ فی زمان عمروالثالۃ فی زمان عثمان ابوداؤد کتاب الطلاق باب فی البتۃ بیشک رکانہ ابن عبد یزیدنے اپنی بیوی سھیمہ کو طلاق البتہ دی، رسول اللہ ﷺ کو اس بارے میں بتایا گیا،اور حضرت رکانہؓ نے کہا کہ ’’ اللہ کی قسم میرا ایک طلاق ہی کا ارادہ تھا، رسول اللہﷺ نے پھر حلفیہ پوچھا، کہ تمہاراایک ہی کا ارادہ تھا،تو حضرت رکانہؓ نے کہا کہ قسم بخدا میں نے نہیں ارادہ مگر ایک کا، پھر رسول اللہﷺ نے ان کی بیوی کو ان کی طرف پھیر دیا۔پھر حضرت رکانہؓ نے حضرت عمرؓ کے دور میں دوسری طلاق دی اور حضرت عثمانؓ کے دور میں تیسری طلاق دی۔ ابوداؤد کتاب طلاق باب البتۃ تین طلاق کے بعد تو رسول اللہﷺ اور حضرت ابن عباسؓ نے عورت واپس کرنے کی اجازت نہیں دی اور نہ ہی اللہ تعالیٰ نے تو اب یہ سید گیلانی کون ہے؟۔جو اس کی اجازت دے رہا ہے جسے نہ اللہ کا ڈر ہے، نہ رسولﷺ کی شرم ہے اور نہ ہی ابن عباسؓ کے فتوے کی پروا ہ ہے۔ نوٹ: صفحہ نمبر 3پر بھی اسی سے ملتی جلتی تحریر اور اس کا جواب دیکھئے۔
الجواب ازسید عتیق گیلانی
محترم مفتی ریاض حسین دامت برتکم العالیہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ جناب نے بہت محنت اور دینی جذبے سے سمجھایا اور ڈانٹا بھی ہے۔ یہ آپ کی ذرہ نوازی ہے۔ میں نے درسِ نظامی کی کتابوں’’ اصولِ الشاشی‘‘ اور ’’ نورالانوار‘‘ سے وہ حنفی مؤقف پیش کیا جس سے بریلوی دیوبندی اکابر قابلِ اعتماد علماء بن گئے ۔ اس کی تائید میں حضرت ابن عباسؓ کی تفسیر پیش کی اور قرآن وسنت سے دلائل دئیے تھے۔ مجدد الف ثانیؒ نے اکبر بادشاہ کو سجدہ تعظیمی سے انکار کیا اور کانیگرم وزیرستان کے پیرروشان بایزید انصاریؒ نے اکبر بادشاہ کیخلاف جہاد کیا۔ جنوبی وزیرستان کا شہر کانیگرم علوم کا مرکز تھا۔ سیدشاہ محمد کبیر الاولیاءؒ کے بیٹے سید ابوبکر ذاکرؒ اور پوتے سید شاہ محمود حسن دیداریؒ سے میرے پرداد سید حسن شاہؒ اور دادا سید امیر شاہؒ تک مرکزی علماء ومشائخ تھے، حضرت سید عبدالقادر جیلانیؒ سے نسب ہے۔ شاہ ولی اللہؒ نے قرآن کا فارسی میں ترجمہ کیا تو ہندوستان کے علماء ومفتیان نے ان پر واجب القتل کا فتویٰ لگایا جس کی وجہ سے ان کو دوسال تک روپوش ہونا پڑا تھا۔ شاہ ولی اللہؒ کے فرزندوں شاہ عبدالقادرؒ اور شاہ رفیع الدینؒ نے پہلے اردو کا بامحاورہ اور لفظی ترجمہ کیا۔ ہندوستانی علماء نے ذوق و طبع کیمطابق ان تراجم کی نقل اُتاری ہے۔ مگرعربی سمجھنے والے کیلئے کسی اور ترجمے پر انحصار کی ضرورت نہیں، اردو عربی سے قریب ہے اور ترجمہ کی غلطی پر عام آدمی بھی گرفت کرسکتا ہے۔ میں آٹھویں جماعت میں تھا۔ لیہ شہر پنجاب میں دیوبندی بریلوی سے بحث رہتی ۔ ہمارے کرایہ کے مالک مکان ایک بریلوی شیخ الحدیث کو لائے کہ یہ مولانا احمد رضاخان بریلویؒ کا ترجمہ وتفسیر پڑھائیں گے۔ میں نے کہا کہ میں گھر کیلئے سبزی لیکر آتا ہوں، توکہنے لگے کہ پہلے ترجمہ پڑھو۔ میں نے کہا کہ پہلے وضو کرکے آتا ہوں ، کہنے لگے کہ وضو کے بغیر ہاتھ لگائے بغیر پڑھ لو۔ میں نے عرض کیا کہ انما انا بشر مثلکم کا کیا ترجمہ لکھا ؟۔ دکھایا تو یہ تھا کہ ’’ کہہ دیجئے کہ میں بظاہر ایک بشر ہوں‘‘۔ میں نے عرض کیا کہ مثلکم کا ترجمہ عربی کی کونسی لغت میں بظاہر بنتا ہے؟۔ اسکے پاس جواب نہ تھا۔ میں نے کہا کہ ہل کنت الا بشرا رسولا کا ترجمہ دکھاؤ۔ تو اس میں بشر اور رسول لکھا تھا۔ جسکے بعد صاحب غائب ہوگئے۔ کافی دنوں بعد بازار میں نظر آئے تو وہ شیخ الحدیث جو پہلے سید ہونے کے ناطے قابلِ قدر قرار دے رہے تھے ، پھر ان کا رویہ بہت بدلا۔ میں تو کسی اچھوت ہندو سے بھی اتنی کراہت کیساتھ چہرہ پھیرنے کی جرأت نہ کرتا۔ بجائے سلام کا جواب گالیاں کھائیں اور بات ختم ہوگئی۔ پھر میں نے کراچی کا رُخ کیا، درسِ نظامی کی کتابیں پڑھ لیں۔ ’’ اختلافِ امت اور صراطِ مستقیم: مولانا یوسف لدھیانویؒ ‘‘ پڑھ چکا تھا۔ مولانا مودودیؒ کے حوالہ سے مولانا یوسف لدھیانویؒ نے لکھا کہ ’’ لوگ ان کی قلم کی تعریف کرتے ہیں، مجھے انکے قلم سے ہی سب سے زیادہ اختلاف ہے، جب وہ الحاد کے خلاف لکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دارالعلوم دیوبند کا شیخ الحدیث گفتگو کررہا ہے اور جب وہی قلم اہل حق کیخلاف اٹھاتا ہے تو لگتا ہے کہ مزرا غلام احمد قادیانی اور غلام احمد پرویز کا قلم اس نے چھین لیا ہے‘‘۔ تاہم حیرت ہوئی کہ جماعت اسلامی کے رہنما پروفیسر غفور احمدؒ کو منبر پر تقریر کرتے اور مولانا یوسف لدھیانویؒ کو خاموش امام کی جائے نماز پربیٹھے دیکھا۔ مجھے لگا کہ جماعت اسلامی کی مسجدمیں مولانا یوسف لدھیانویؒ امام ہیں۔ پھر مولانا یوسف لدھیانویؒ سے مسئلہ سنا تو دَم بخود ہوکر رہ گیا کہ ’’ تحریر ی شکل میں قرآن اللہ کی کتاب نہیں نقش ہے۔ اگر ہاتھ رکھ کر حلف اٹھایا جائے تو یہ حلف نہیں۔ البتہ زباں سے کہا جائے کہ اللہ کی کتاب کی قسم تو یہ حلف ہے اور اسکا کفارہ ہے‘‘۔ میں سوچ رہا تھا کہ جاہل اور علماء میں واقعی بہت بڑا فرق ہے۔ جاہل اللہ کی کتاب پر الفاظ میں بات بات پر قسم اٹھاتے ہیں لیکن قرآن کے مصحف پر حلف اٹھانے سے بہت ڈرتے ہیں ۔یہاں تک کہ سچ پر بھی قسم اٹھانا مناسب نہیں سمجھتے ۔ فقہ اور علماء کا یہ پہلا سبق مجھے عجیب تو لگا مگر علماء اور علم کی بات سمجھ کر قبول بھی کرلیا،اسلئے کہ ایمان اور عقیدہ تو مستند علماء کا مرہونِ منت تھا۔ اگلے مہینے شوال میں جامعہ بنوری ٹاؤن میں داخلہ ملا۔ درجہ اولیٰ میں ابتدائی کتب ہیں۔معروف استاذ مولانا عبداسمیع سندھیؒ کیساتھ صیغے پر بحث ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی کے دو صیغے ضربتماضربتما عرب سے نقل ہیں، میرا سوال تھا کہ صیغہ ایک تھاتودو دفعہ کیوں لکھا۔ آخر پونے تین گھنٹے تک بات یہاں تک پہنچی کہ اس نے قرآن کا مصحف منگوا کر کہا یہ اللہ کی کتاب ہے؟۔ میں نے کہا کہ نہیں، یہ نقش ہے، اس پر حلف نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ آپ کافر ہوگئے، اللہ کی کتاب کو نہیں مانتے؟۔ میں نے کہا کہ فتویٰ مجھ پر لگایا ۔اس کی زد میں مولانا یوسف لدھیانوی آئے ، پوچھتے ہیں۔ مولانا نے خوب سنائی کہ تم افغانی پڑھ کر آتے ہو ، مقصد پڑھنا نہیں ہماری تذلیل ہے۔ میری آنکھوں میں آنسو آئے تو ایک طالب علم نے مجھے اٹھایا اور مسجد کے کونے میں ذکر کرنے کا مشورہ دیا۔ پہلے مولانا عبدالسمیعؒ ہمارے استاذ نہ تھے، چوتھے سال میں شرح جامی ہمیں پڑھائی اور نورالانوار مولانا بدیع الزمانؒ نے پڑھائی لیکن مجھے اس تعریف پر کوئی تعجب بھی نہ تھا کہ مصاحف میں لکھے سے مراد اللہ کی کتاب نہیں بلکہ نقوش ہیں جو نہ لفظ ہے اور نہ معنیٰ۔ مفتی محمد تقی عثمانی کی کتاب ’’ فقہی مقالات‘‘ میں دیکھا کہ ’’ سورہ فاتحہ کو علاج کیلئے پیشاب سے لکھنا جائز ہے‘‘۔ تو بڑی بے چینی ہوئی۔ جامعہ بنوری ٹاؤن سے حوالہ دئیے بغیر اسکے خلاف فتویٰ طلب کرکے شائع کیا۔ بریلوی مکتبۂ فکر نے مفتی تقی عثمانی کیخلاف طوفان کھڑا کیا۔ موجودہ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے اپنی کتابوں’’ فقہی مقالات‘‘ اور’’ تکملہ فتح المہلم‘‘ سے صاحب ہدایہ کی کتاب تجنیس کا مذکورہ حوالہ بھی نکالنے کا اعلان کردیا۔ علامہ غلام رسول سعیدیؒ کے پاس گیا تو انہوں نے بتایا کہ’’ اپنے مکتبۂ فکر والوں نے میرا گریبان اس بات پر پکڑ لیا کہ سورۂ فاتحہ کو علاج کیلئے پیشاب سے لکھنے سے بہتر آدمی کا مرجانا ہے۔تم نے کیوں لکھ دیا ہے۔یہ علامہ شامی کی توہین کی ہے۔ اب مجھ میں ہمت نہیں ‘‘۔ جب غوروفکر کیا تو نتیجے پر پہنچ گیا کہ اصولِ فقہ میں پڑھایا جاتا ہے کہ’’ لکھائی کی شکل میں یہ اللہ کا کلام نہیں‘‘ ۔اسلئے بڑوں نے پیشاب سے لکھنے میں حرج نہیں سمجھا ۔ پھر قرآن کی ڈھیر ساری آیات مل گئیں کہ ’’ کتاب لکھی جانے والی چیز ہے‘‘۔ قرآن کتاب مسطور ہے۔ قلم اور سطروں میں لکھے ہوئے الفاظ اور معانی کی قسم قرآن میں موجود ہے۔ پھر یہ بھی پتہ چل گیا کہ امام ا بوحنیفہؒ نے زندگی جس ’’ علم الکلام‘‘ میں گزاری تھی اور پھر آخر میں اس سے توبہ کی تھی، یہ اسی گمراہی کا نتیجہ ہے۔ قرآن کے بہت سے الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ کتابت الفاظ اور معانی ہیں اور قرآن بھی ۔ بچے کو Bسے بک اور ک سے کتاب پڑھایا جائے تو وہ بھی اسکو بخوبی سمجھتا ہے۔علماء اپنا نصاب ٹھیک کریں۔ ذہن میں شرعی پردے کا تصور آیا تو بھابھی،ممانی، چاچی اور دیگر رشتہ داروں سے پردہ شروع کردیا۔ بھائی کہتے تھے کہ یہ پردہ ہم نے کسی سے نہیں سنا لیکن علماء نے تصدیق کردی کہ ہم بے عمل ہیں اور یہی شرعی پردہ ہے۔یہ ہے چلتی کا نام گاڑی۔ پھر ایک دن قرآن کی آیت لیس علی الاعمیٰ حرج ولا علی الاعرج حرج و علی المریض حرج ولاعلی انفسکم ان تأکلوا فی بیوتکم او بیوت اباء کم او بیوت امھاتکم ۔۔۔نابیناپر حرج نہیں، پاؤں سے معذور پر حرج نہیں ، مریض پر حرج نہیں اور نہ تمہارے جانوں پر کوئی حرج ہے کہ کھاؤ اپنے گھروں میں،یا اپنے باپ، ماں،بھائی، بہن، چاچا، ماموں، خالہ، پھوپھی، اپنے دوست، جن سے تمہارا معاہدہ ہے، جنکے گھروں کی چابیاں تمہارے لئے کھلی ہیں کہ الگ الگ کھاؤ یا اکٹھے کھانا کھاؤ۔ اس آیت کا پس منظر پردے کے احکام ہیں۔ دنیا میں یہ آیت کسی کے سامنے بھی پردے کے حوالے سے رکھی جائے تو وہ آمنا و صدقنا کہیں گے۔ اجنبی مریض ، معذورکے علاوہ جن رشتہ داروں کا ذکر ہے، عام طور پر یہ لوگ ایکدوسرے سے کھانے کے حوالے یہی رسم نبھاتے ہیں۔ شاہ ولی اللہؒ کے فرزند شاہ عبدالقادرؒ نے اپنی تفسیر موضح القرآن میں لکھ دیا ہے کہ ’’ نابینا، پاؤں سے معذور اور مریض پر حرج نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جمعہ کی نماز ، جہاد وغیرہ کیلئے ان کو رخصت ہے‘‘۔ اس تفسیر کو شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی نے بھی نقل کیا ہے۔ حالانکہ آیت سے کیا مناسبت ہے؟۔ پردے کے احکام کی تفصیل اور واضح حکم کے بیچ میں کہاں بات لیکر گئے ہیں؟۔ اس سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ کتنی قابلیت ہے؟۔ مفتی صاحب! کتب احادیث میں ضعیف روایات کے ذخائر ہیں۔ امام ابوحنیفہؒ نے قرآن کے مقابلہ میں احادیث صحیحہ کا انکار کیا۔ اصولِ فقہ پڑھ کربھی تقلید پر لڑنے والے علماء کتنے جاہل تھے؟، امام ابوحنیفہؒ کے نالائق مقلدین نے حنفی مسلک کابیڑہ غرق کردیا۔ جس حدیث میں میں ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کو باطل باطل باطل قرار دیاگیا، اس کی صحت وسند دیکھ لی جائے جو حتی تنکح زوجا غیرہ کے مقابلہ میں پیش کرکے مسترد کی جاتی ہے اور پھر آیت وبعولتھن احق بردھن فی ذالک ان ارادوا اصلاحا کے مقابلہ میں کوئی حدیث پیش کرکے اس کو آیت کے مقابلے میں دیکھا جائے۔ پھر اس کی صحت وسند دیکھ کر موازنہ کیا جائے۔احنافؒ کے نزدیک وضو میں واجب نہیں ہوسکتا۔ قرآن میں طواف کا حکم ہے فلیطوفوا بالبیت العتیق اس میں وضو کا حکم نہیں۔ حدیث صحیحہ میں طواف کیلئے بھی وضو کا حکم ہے ،اسلئے طواف کیلئے وضو فرض نہیں واجب ہے۔ جن ضعیف روایات کو نقل کیا، یہ روایت بالمعنیٰ ہیں، روایوں نے اپنا خیال بھی ٹھونسا ہے۔ قرآن میں صلح کی شرط پر رجوع ہے توحضرت ابن عباسؓ کے فتویٰ کی یہ تاویل ہے کہ اس کی بیوی صلح پر راضی نہ ہوگی۔ اگر شوہر اللہ کا خوف رکھ کر بیگم سے حسنِ سلوک کرتا ہے تو عدت میں وہ رجوع سے انکار نہ کرتی، سورۂ طلاق کی آیات میں نہ صرف عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل پر رجوع ہے بلکہ دوعادل گواہ مقرر کرنے کے بعد اللہ سے خوف رکھنے والوں کیلئے رجوع کی گنجائش رکھی ۔ ابن عباسؓ کے قول کی توجیہ سمجھنے میں مشکل نہیں۔اگر دوسری ضعیف بالمعنیٰ روایت درست ہو تو نبیﷺ نے ڈانٹ ڈپٹ کیلئے اور صلح میں کردار ادا کرنے کی غرض سے پوچھا ہوگا۔ جسکے قرائن سے بیشمار دلائل بھی دئیے جاسکتے ہیں ۔ آیات میں اصلاح کی شرط پر عدت اور بار بار معروف طریقے سے عدت کی تکمیل پر رجوع کی وضاحت کے مقابلے میں کوئی ٹھوس اور مستند حدیث نہیں۔ عوام حلالہ کے رسیا فقہاء پر اعتماد کرکے قرآن وسنت سے دورہوگئے جسکا آخرت میں پوچھا جائیگا۔ علامہ بدر الدین عینیؒ اور امام ابن ہمام ؒ کی وفات950ھ اور 980ھ میں ہوئی جو شیخ الاسلام شبیر احمدعثمانیؒ اور امام احمد رضاؒ سے بڑے علماء تھے، انہوں نے لکھاکہ ’’ زبان سے نہ کہا جائے اور دل میں حلالہ ہو تو نیت کا اعتبار نہیں پھر حلالہ لعنت ومکروہ نہیں ۔بعض مشائخ نے کہاکہ خاندان کو ملانے کی نیت ہو تو حلالہ کارِ ثواب ہے‘‘۔ حلالہ لعنت ہوتو نیت کا اعتبار نہیں اور ثواب ہو تو نیت کا اعتبار ہے، یہ انما الاعمال بالنیات ہے؟ ۔تفصیل لکھ دی تو پڑھتا جا شرماتاجا۔مفتی اکمل کہتاہے کہ’’ امام ابوحنیفہؒ نے حلالہ کو کارِ ثواب قرار دیا‘‘ ۔واہ بھئی واہ۔ مفتی عطاء اللہ نعیمی نے لکھ دیا کہ ’’ رسول اللہ ﷺ نے حلالہ والے پر لعنت بھیجی۔ اس کو کرائے کا بکرا قرار دیا، جس کی وجہ غیرت کی کمی اور ہتک ہے۔ جوحلالہ کو بے غیرتی و بے حیائی کہتا ہے تو اسکے ایمان وایقان کی جگہ بے غیرتی و بے حیائی نے لے لی ہے‘‘۔ اس گستاخانہ الفاظ سے نبیﷺ کی شان میں گستاخی نہیں ہے؟۔ ذرا وضاحت کیجئے گا۔ بریلوی آپس میں اور دیوبندیوں کیساتھ سورۂ فتح کی آیات کے ترجمے پر جھگڑ رہے تھے۔ انا فتحنا لک فتحا مبینا لیغراللہ لک ماتقدم من ذنبک وماتأخر ’’بیشک ہم نے آپ کو فتح مبین عطاء کی، تاکہ تجھ سے تیرا اگلاپچھلا بوجھ اللہ اُتاردے‘‘۔ کوئی کہتا تھا کہ نعوذباللہ نبیﷺ کی لغزش یا گناہ مراد ہیں اور کوئی والدین کے گناہ کی گالی دیتا تھا۔ جبکہ کوئی کم عقل سے کم عقل آدمی بھی اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ جب ذنب کے معنی گناہ اور بوجھ دونوں ہوں تو سیاق وسباق سے بات سمجھ میں آئے گی۔ اگر پس منظر میں یہ ہوگا کہ ہم نے یہ سزا اسلئے دی ہے تو گناہ معاف ہونا مراد ہوگا۔ لیکن جب پسِ منظر میں فتح مبین عطاء کرنے کا ذکر ہو تو اس سے بوجھ مراد ہوگا۔ نبی ﷺ پر دین کی تبلیغ اور غلبے ہی کا بوجھ تھا۔ ووضعنا عنک وزرک الذی انقض ظہرک ’’ہم نے تجھ سے وہ بوجھ اتارا،جس نے تیری کمر توڑ رکھی تھی‘‘۔ ظاہر کہ فتح مبین سے بوجھ ہی مراد لیں گے۔ مولانا کا لفظ غلام کیلئے بھی آتا ہے اور آقا کیلئے بھی۔ کیا اللہ کیلئے مولانا کہتے ہوئے غلام مراد لینا بدترین کفر نہیں ہوگا؟۔ میرے مرشدحضرت حاجی عثمانؒ پراس وجہ سے فتویٰ لگا کہ ایک مرید سے کہا کہ حدیث میں اگلے پچھلے گناہ معاف ہونے کی نسبت پوچھ لو، نبیﷺ نے فرمایا کہ’’ حدیث صحیح ہے مگر الفاظ میں ردوبدل ہے‘‘۔ یعنی ذنب کا معنی گناہ نہیں بوجھ ہے۔ جو علماء دیوار پر لکھے گئے مشاہدے پر فتویٰ نہیں لگاتے تھے وہ مفادت پر بک گئے۔
فان طلقہا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ البقرہ 230 اگر شوہر نے بیوی کو طلاق دیدی تو وہ اس شوہر کیلئے حلال نہ ہوگی جب تک کہ اس کے علاوہ دوسرے شوہر سے نکاح( وطی یعنی جماع) نہ کرے۔سید صاحب سے گزارش ہے کہ اس کی وضاحت کریں۔ جب تین طلاق کے بعد بھی انکے نزدیک رجوع ہوسکتا ہے تو اس آیت کا معنی کیا ہے؟۔یہ آیت قرآن کا حصہ ہے یا نہیں ہے؟۔ الطلاق مرتان طلاق دوبار ہے، جب شوہر نے دوبار طلاق دے دی تو رجوع کرسکتا ہے، عدت کے اندر بغیر تجدیدِ نکاح اور عدت کے بعد تجدیدِ نکاح کیساتھ۔چودہ صدیوں سے علماء کرام قرآن کی ان آیات مقدسہ کی اسی طرح وضاحت کرتے آئے ہیں آپ نے یہ کونسا اچھا کام کیا ہے کہ اللہ کے حرام کردہ کو حلال قرار دے رہے ہیں۔تین طلاق کے بعد رجوع حرام ہے اس کو جائز کہتے ہیں، آپ اللہ سے زیادہ حقوق نسواں کے خواہاں ہیں۔قرآن پاک میں جہاں جہاں آپ نے رجوع ثابت کیا ہے، اس میں کوئی ایک آیت بتائیں جس میں تین طلاق کے بعد رجوع ثابت ہو۔ آیت230میں جہاں رجوع سے منع کیا گیا اس کی وضاحت کرنے سے آپ نے گریز کیا، کیوں؟ ۔اگر آپ اس کی وضاحت کردیتے تو آپ کی ساری تحقیق (ریت کی دیوار) پر پانی پھر جاتا کیونکہ اس آیت میں واضح طور پر لکھا ہے کہ اگر شوہر نے تیسری طلاق دیدی تو وہ عورت اس کیلئے حلال نہ ہوگی جب تک کہ اسکے علاوہ دوسرے شوہر سے وطی(جماع) نہ کرے، تین طلاق کے بعد رجوع حرام ہے۔ اس موضوع پر احادیث مبارکہ غوث وقت مفتی اعظم سندھ مفتی عبداللہ کے فتویٰ فتاویٰ مجددیہ نعیمیہ میں ملاحظہ فرمائیں اور اپنے غلط فتویٰ سے رجوع کریں۔ ورنہ جتنے لوگ آپ کی وجہ سے گمراہ ہونگے انکا گناہ بھی آپکے سر ہوگا۔حدیث رکانہؓ جسکا ذکر سید عتیق الرحمن نے کیا ہے، اسکا جواب مفتی وقار الدین علیہ الرحمۃ نے دیا ہے کہ حضرت رکانہؓ کے والد نے طلاق البتہ دی تھی، طلاق البتہ ایک کو بھی کہتے ہیں اور تین طلاق کو بھی کہتے ہیں،راوی نے روایت بالمعنی کردی اور البتہ کو طلاق ثلاثہ کہہ دیا، اپنا مدعی ثابت کرنے کیلئے آپ نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور ایک حدیث ڈھونڈ لائے لیکن آپ کا باطل مدعی ثابت نہ ہوسکا۔جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا’’حق آگیا اور باطل ختم ہوگیا، بے شک باطل ختم ہونے والا ہے‘‘۔مفتی ریاض حسین صاحب جناب مفتی محمد یوسف سابق ناظم مدرسہ دارالخیر گلشن اقبال کراچی نے کہا ہے کہ آپ کے رسالہ کا مطالعہ کیا ہے جس میں تین طلاق کے متعلق جو کچھ بھی آ پ نے لکھا ہے میں اس کی تائید کرتا ہوں۔ سید عتیق الرحمن گیلانی صاحب اور احمد جمال صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ جزاکم اللہ خیراً کثیرا واحسن الجزاء
الجواب ازسید عتیق گیلانی
محترم جناب حضرت مولانا مفتی ریاض حسین صاحب دامت برکاتکم العالیہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ نے دو ٹوک انداز میں آیات وسوالات کا انتخاب کیا۔اس شمارہ میں شامل جامعہ بنوری ٹاؤن کے فاضل کا بیان بھی ضرور ملاحظہ فرمائیں۔ اللہ بذات خود اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ وانزلنا الکتاب تبیانا لکل شئی ’’ہم نے کتاب کو ہر چیز کے واضح کرنے کیلئے نازل کیا ہے‘‘۔ علماء نے قرآنی وضاحتوں کی طرف ایک بار بھی دیکھا تو ان کے چودہ طبق روشن ہوجائیں گے۔ جس آیت کو پیش کیا ہے تو سیاق وسباق دیکھنے کی اجازت ہے؟۔ کیا نبیﷺ نے تیسری طلاق مراد لیاتھا؟۔ کیا درسِ نظامی میں جو آپ پڑھاتے ہیں کہ اس کا تعلق اپنے متصل سے ہے وہ غلط ہے؟۔کیا آپ بتائیں گے کہ جواب سے مطمئن ہیں یا کونسی بات آپ کو دلیل کیساتھ ٹھیک نہ لگی؟۔ آیت230البقرہ میں بالکل واضح ہے کہ اس طلاق کے بعد عورت اس شوہر کیلئے حلال نہیں، جب تک کہ کسی دوسرے شوہر سے شادی نہ کرلے۔ آیت کا منکر کافر ہے۔ آیت229میں یہی ہے کہ الطلاق مرتٰن طلاق دو مرتبہ ہے۔ کوئی مسلمان یہ سمجھنے میں عار محسوس نہیں کرسکتاکہ قرآن کی آیت 229اور230کے جن الفاظ کا حوالہ دیا گیا ہے کہ انکے درمیان کو زیرِ بحث لانے کی ضرورت ہے ۔ یہ بہت بڑی خیانت ہوگی کہ ضرورت موجود ہو لیکن اس سے آنکھیں چرائی جائیں۔ جاہل کے سامنے قرآنی آیات مقدسہ کی اہم ترین درمیانی کڑی کو چھوڑ کر فتویٰ دیا جائے تو وہ مفتی صاحب کا فتویٰ قابلِ اعتماد سمجھ کر سوچے سمجھے بغیر اپنی بیگم کا حلالہ کروانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ قرآن کے جو الفاظ جناب نے نقل کئے ہیں ،اگر اجازت ہو تو انکے درمیان کا معاملہ بھی قارئین کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ مسئلے میں بالکل بھی کوئی ابہام نہ رہے۔! الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف او تسریح باحسان فلایحل لکم ان تأخذوا مما اتیتموھن شئیا الا ان یخافا الا یقیما حدود اللہ فان خفتم ان لا یقیما حدود اللہ فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ تلک حدود اللہ فلا تعتدوھا ومن یتعد حدود اللہ فاؤلٰئک ھم الظٰلمونOفان طقہا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ ’’طلاق دو مرتبہ ہے۔ پھر معروف طریقے سے روک لینا ہے یا احسان کیساتھ چھوڑ دینا ہے اور تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے کہ اس میں سے کچھ بھی واپس لو، مگر یہ دونوں کو خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے، اور اگر تمہیں یہ خوف ہو تو کہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو دونوں پر حرج نہیں کہ جو عورت کی طرف سے فدیہ کیا جائے۔ یہ اللہ کے حدود ہیں،پس ان سے تجاوز مت کرو اور جو اللہ کے حدود سے تجاوز کرے تو وہی لوگ ظالم ہیںOپھر اگر اس نے طلاق دیدی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے ۔۔۔‘‘۔ البقرہ آیات 229اور230 جناب بتائیے کہ درمیان کی کڑی چھوڑ کر قرآن کے الفاظ سے مفہوم نکالنا درست ہے؟ جبکہ درسِ نظامی میں اصولِ فقہ کی کتاب ’’ نورالانوار: ملاجیون‘‘ کے اندر یہ حنفی مسلک کا مؤقف ہے کہ آیت 230میں فان طلقہا کا تعلق اپنے متصل عورت کی طرف سے فدیہ کی صورت سے ہے اسلئے کہ ف تعقیبِ بلامہلت کیلئے آتا ہے اور اس وجہ سے اس کو الطلاق مرتان کیساتھ جوڑناغلط ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ فدیہ کی جو صورتحال بیان کی گئی ہے وہ کیاہے؟۔ تحقیق اور اجتہاد کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے کہ جب قرآن و سنت میں کوئی مسئلہ یا صورتحال واضح نہ ہو، جبکہ قرآن میں صورتحال واضح ہے۔ آیت229میں دو مرتبہ طلاق کے بعد ایک صورت یہ ہے کہ معروف طریقے سے رجوع کرلیا جائے ۔ معروف رجوع میں میاں بیوی صلح کرلیتے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ تسریح باحسان اچھے طریقے سے چھوڑ دیا جائے۔ ایک صحابیؓ نے نبیﷺ سے پوچھ لیا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے؟۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ تسریح باحسان تیسری طلاق ہے۔ اگردومرتبہ طلاق کے بعد عدت کے تیسرے مرحلے میں عورت کو چھوڑنے (طلاق ) کا فیصلہ کیا جائے تو اسی صورت کی اللہ تعالیٰ نے مزید وضاحت فرمائی ہے کہ ’’تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے ،اس میں سے کچھ بھی واپس لومگر یہ کہ دونوں کو خوف ہو کہ (اس دی ہوئی چیز کے واپس کئے بغیر) دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے اور (اے فیصلہ کرنے والو!) اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو پھر اس چیز کو عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں کوئی حرج نہیں‘‘۔ یہ وہ صورتحال ہے جس میں میاں بیوی اور فیصلہ کرنے والے رشتہ دار سمجھ لیتے ہیں کہ اگرچہ شوہر کی طرف سے دی ہوئی کسی چیزکا واپس کرنا حلال نہیں مگر جب یہ خوف ہو کہ اگر وہ چیز شوہر کو واپس نہیں کی گئی تو دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے ، پھر اس چیزکو عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں دونوں پر حرج نہیں۔ مثلاً مکان میں شوہر نے بیوی کو ایک کمرہ دیا ، طلاق کے بعد عورت سے وہ کمرہ لینا جائز نہیں لیکن جب اتفاقِ رائے سے یہ خوف ہو کہ شوہر کے پاس مکان کے اس کمرے کو خریدنے کی صلاحیت نہیں۔ عورت نے کسی دوسرے سے شادی کرنی ہے،یہ کمرہ رابطے کا ذریعہ ہے اور دونوں پہلے سے ایکدوسرے سے لذت آشنا ہیں، اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا خوف رکھتے ہیں تو اس کمرے کا عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں اللہ کی طرف سے دونوں پر حرج نہیں۔ اب مفتی ریاض حسین صاحب کو بتادینا چاہیے کہ کیاقرآن میں صورتحال واضح نہیں، کیا یہ قرآن کا حصہ نہیں، کیا عقل مانتی ہے کہ اس کو چھوڑ کر آیت230میں حلال نہ ہونے کا تصور لیا جائے؟ کیا اصولِ فقہ میںیہ حنفی مسلک درسِ نظامی کے نصاب میں نہیں پڑھایا جاتا ہے؟ کیا جو پڑھایا جاتا ہے یہ غلط ہے؟ اور کیا نصاب کو سمجھے بغیر مفتی باکمال سمجھا جائیگا؟۔بات میری بات نہیں ،بات ہے اللہ کی کتاب اور تیرے نصاب کی۔ میٹھے بھائی! علامہ تمنا عمادی حنفی عالمِ دین تھے، اس نے اپنی کتاب ’’الطلاق مرتان‘‘ میں بہت تفصیل سے لکھ دیا کہ اصولی طور پر یہی صورت ہے جسے ’’خلع‘‘ کہتے ہیں کہ اسکے بعداگر طلاق دی جائے تو طلاق لینے کا قصور عورت کا ہوتا ہے اسلئے حلالہ کی صورت میں اس کو سزا دی جائے گی۔ یہ کتاب بازار میں دستیاب ہے۔ غلام پرویز و دیگر لوگوں کیلئے یہ احادیث سے انکار کی بنیاد بن گئی حالانکہ مسئلہ طلاق پر کسی صحیح حدیث کے انکار کی ضرورت نہیں ۔ فقہ حنفی کے نصاب تعلیم میں جو موقف پڑھایا جاتا ہے کہ اس طلاق کا تعلق فدیہ کی صورت سے ہے تو یہی موقف علامہ ابن قیمؒ نے حضرت ابن عباسؓ کے حوالے سے بھی لکھا ہے کہ آیت230میں فان طلقہا فلاتحل لہ کا تعلق اس سے متصل فدیہ کی صورت سے ہے جب شوہر دومرتبہ طلاق دے اور پھر فدیہ ہی کی صورت بھی بن جائے۔ قرآن کو سیاق وسباق اور اصل مقام کے تقاضوں سے نہیں ہٹایا جاسکتا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ وہ شخصیت ہیں جسے رسول اللہﷺ نے قرآن کی تفسیر سمجھنے کی دعا کی اور لامحالہ آپﷺ کی یہ دعاقبول ہوئی ہے۔ (زادالمعاد: باب الخلع، جلد چہارم) حنفی مسلک اور جمہور کا اس پر اختلاف ہے کہ دومرتبہ طلاق کے بعد فدیہ کی صورتحال جملہ معترضہ ہے یاایک تسلسل کا کلام ہے۔ احناف کے نزدیک یہ تسلسل ہے فان طلقھا کی ف کا تقاضہ ہے کہ فدیہ سے یہ متصل ہو۔ اور جمہور کے نزدیک یہ جملہ معترضہ ہے اسلئے کہ اگر دومرتبہ طلاق دی جائے پھر خلع دیا جائے تو آیت230کی طلاق چوتھی طلاق بن جائے گی۔ اسکے جواب میں حنفی کہتے ہیں کہ خلع کوئی مستقل طلاق نہیں بلکہ دومرتبہ طلاق کے بعد تیسری طلاق کیلئے ایک ضمنی چیز ہے۔ عورت فدیہ دے تو شوہر خلع دیتا ہے اسلئے قرآن میں چوتھی طلاق کا تصور لازم نہیں آئیگا۔( دیکھئے درسِ نظامی کی نورالانوار وغیرہ ) درسِ نظامی اور فقہ وتفسیر کی کتابوں میں فدیہ سے جو خلع مراد لیا گیا تو کیا دومرتبہ طلاق کے بعد بھی خلع کا تصور ہوسکتا ہے؟، یہ کتنا احمقانہ بحث مباحثہ ہے؟ ۔ یہ خلع ہوہی نہیں سکتا بلکہ عدت کے دومراحل میں دومرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ طلاق کا فیصلہ کرنے کے بعد باہوش وحواس اس صورتحال کا ذکر ہے کہ شوہر نے جو چیزیں دی ہیں ان میں سے کوئی چیز واپس کرنا حلال نہیں البتہ جب دونوں کو اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا خوف ہو تو اس چیز کو فدیہ کرنے میں دونوں پر حرج نہیں۔ جہاں تک خلع کا تعلق ہے تو اس کا واضح الفاظ میں ذکر سورۂ النساء کی آیت19 میں ہے۔ اگر امت مسلمہ کے زعما نے اقتدار اور دنیاوی معاملات ذہین لوگوں کے سپرد کردئیے اور سیدھے سادے اللہ والوں کو دین کا معاملہ سونپ دیا تو قصور سادہ خیلوں کا نہیں بلکہ امت کا ہے قرآن نے واضح کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو قیامت کے دن امت سے یہ شکایت ہوگی ، جن میں عوام ،خواص، علماء ، مشائخ ، فقہاء، محدثین سب شامل ہیں۔ وقال رسول یا ربی ان قومی اتخذوا ھٰذالقرآن مھجوراً ’’ اور رسول کہیں گے کہ اے میرے ربّ ! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا‘‘۔ طلاق وہ معاملہ ہے کہ جدائی کیلئے اللہ تعالیٰ نے نہ صرف میاں بیوی بلکہ معاشرے کے افراد خاص طور پر رشتہ داروں کو بھی ایک واضح کردار دیا ۔ اسلئے یہ واضح کردیا ہے کہ جدائی کے بعد نہ صرف میاں بیوی بلکہ فیصلہ کرنے والوں کو بھی یہ خوف ہو کہ دونوں اسکے بعد وہ دی ہوئی چیز واپس کئے بغیراللہ کے حدودپر قائم نہیں رہ سکیں گے تو فدیہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ یہ صورتحال حضرت ابن عباسؓ نے بھی واضح کی تھی اور فقہ حنفی کے اصول میں بھی اس کی وضاحت ہے، حضرت ابن عباسؓکا قول اورہمارا نصابِ تعلیم غلط ہے؟۔ اس صورتحال میں میاں بیوی کی طرف سے رجوع کا سوال پیدا نہیں ہوتا اسلئے کہ آئندہ بھی وہ رابطے کے خوف سے حلال نہ ہونے کے باوجود اس چیز کو فدیہ کررہے ہیں جس کے بغیر اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا خوف ہو اور اللہ نے اس وجہ سے دونوں پر اس لین دین میں حرج نہ ہونے کی بھی وضاحت فرمادی لیکن ہوتا یہی تھا کہ ایسی طلاق کے بعد بھی پہلا شوہر عورت کو دوسرے شوہر سے اس کی مرضی پر نکاح نہ کرنے دیتا تھا۔ آج بھی معاشرے میں یہ صورتحال رائج ہے اور یہ بہت بڑی بات ہے کہ کوئی طلاق دے اور عورت اڑوس پڑوس اور قریب میں کسی اور سے نکاح کرلے مگر پہلا شوہر اس میں رکاوٹ اور بدمزگی پیدا کرنے سے گریز کرے۔ عمران خان نے ریحام خان کو طلاق دی اور وہ رجوع بھی نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن اسکے باوجود میڈیا میں ریکارڈ پر ہے کہ ریحام خان کہہ رہی تھی کہ اپنی جان پر کھیل کر پاکستان آئی ہوں اسلئے کہ عمران خان کے جیالے پاکستان واپس آنے پر قتل کی دھمکیاں دے رہے تھے۔ شہزادہ چارلس نے لیڈی ڈیانا کو طلاق دی لیکن دوسرے کیساتھ گھومنے کے بعد حادثہ ہوا تو آج تک اس پر قتل کا مقدمہ چل رہاہے کہ طلاق شدہ بیوی سے دوسرے شوہر کیساتھ گھومنا برداشت نہ ہوا ۔ قرآن میں نبیﷺ کی ازواج مطہرات امہات المؤمنینؓ کیلئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ کبھی ان سے نکاح نہ کرو، اس سے نبی کو اذیت ہوتی ہے‘‘۔ انسان ہی نہیں حیوانات اور پرندوں میں بھی یہ غیرت موجود ہوتی ہے کہ اپنی بیوی سے کسی دوسرے کا تعلق برداشت نہیں کرسکتے۔ اسی انسانی فطرت کو ملحوظِ خاطر رکھ کر اللہ تعالیٰ نے ایک خاص صورتحال کی اچھی وضاحت کرنے کے بعدواضح کردیا کہ ’’پھراگر اس نے طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہانتک کہ وہ کسی اور سے نکاح نہ کرلے‘‘۔ قرآن وسنت کے سیاق و سباق سے ہٹ کر فتویٰ دینا غلط ہے۔تیسری طلاق تو تسریح باحسان ہے ۔نبیﷺ نے واضح فرمایا اور سمجھایا کہ پہلے طہر وحیض، دوسرے طہر وحیض اور طہرمیں تیسری طلاق ہے۔ پوری دنیا کیلئے یہ آیت ہدایت کا ذریعہ بن سکتی ہے کہ اسلام نے معاشرے پر کتنا بڑا احسان کیا ہے کہ جہاں مرد کو طلاق کا حق دیا، وہاں عورت کو اپنی مرضی سے نکاح کرنے کی اجازت بھی دیدی ۔ آیت کا اصل مدعی عورت کا اپنی مرضی سے دوسرے شوہر کیساتھ نکاح کرنے کی اجازت ہے تاکہ پہلے شوہر کی دسترس سے طلاق شدہ عورت باہر نکل جائے۔ حنفی مسلک میں یہ مفہوم پڑھایا جاتاہے مگرافسوس کہ استاذ اور شاگرد سمجھ نہیں رکھتے۔ درسِ نظامی میں اصولِ فقہ کی پہلی کتاب ’’ اصول الشاشی‘‘ میں پہلا سبق یہ ہے کہ فان طلقہا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ میں عورت کو اللہ تعالیٰ نے نکاح کیلئے آزاد کردیا ہے جبکہ حدیث ہے کہ ’’ جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلیا تو اس کا نکاح باطل ہے باطل ہے باطل ہے‘‘۔ اسلئے حنفی مسلک میں قرآن پر عمل کیا جاتا ہے اور حدیث قرآن سے متصادم ہو تو اس کو رد کردیا جاتا ہے۔ اگر کوئی عورت ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلے تو اس کے نکاح کو جائز قرار دیا جائے جبکہ جمہور کے نزدیک عورت کا نکاح جائز نہیں ہوگا۔ ایمانداری سے بتائیے کہ آیت میں یہ ہے کہ کنواری لڑکی بھاگ کر شادی کرلے تو اس کا نکاح جائز ہے، ولی اگر اس کو اجازت نہ دے، تب بھی نکاح ہوجائیگا اور نبی کریم ﷺ نے باطل، باطل اور باطل تین مرتبہ تاکید سے فرمایا ہو تو یہ آیت سے متصادم ہے؟۔ یا آیت میں واضح ہے کہ اگر شوہر نے باہوش وحواس طلاق دیدی ہو ، رجوع کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، پھر اگر کسی اور شوہر سے شادی کرنا چاہتی تو پہلا شوہر رکاوٹ نہ ڈالے؟۔ اگر آیت میں ولی کا ذکر ہوتا تو پھر حدیث کو متصادم قرار دینا درست ہے لیکن آیت میں پہلے شوہر کا ذکر ہے تاکہ وہ اسکے دوسرے شوہر سے نکاح میں رکاوٹ نہ بن جائے۔ اس معاشرتی مسئلے کو قرآن نے جس طرح سلجھایا ، اس میں حلالہ کی لعنت کارستہ نہیں کھولا بلکہ یہ واضح کیا کہ پہلے بھی اس لعنت کا تصور غلط لیا گیا تھا اور قرآن نے ان آیات سے پہلے اور ان آیات کے بعد علی الاطلاق عدت کے اندر اور عدت کے بعد بہر صورت باہمی رضا اور معروف طریقے سے رجوع کا راستہ کھلا رکھا ہے ۔ رفاعۃ القرظیؓ کی بیوی کے حوالے سے ہے کہ جب اس کو طلاق ہوئی ، طلاق بتہ ہوئی تو کسی اور سے نکاح کیا اور نبیﷺ سے عرض کیا کہ دوسرے شوہرکے پاس دوپٹہ کے پلو کی طرح چیز ہے، نبی ﷺ نے فرمایا کہ کیا تو اسکے پاس لوٹنا چاہتی ہے؟ نہیں جب تک تو اس کا ذائقہ چکھ نہ لے اور وہ تیرا ذائقہ نہ چکھ لے‘‘۔ محدث العصر مولانا سلیم اللہ خان ؒ صدروفاق المدارس پاکستان نے اپنی ’’ کشف الباری شرح صحیح بخاری‘‘ میں حنفی مسلک کے دالائل میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہوئے لکھ دیا کہ ’’ یہ حدیث خبر واحدہے، اس سے قرآن کے الفاظ پر مباشرت ( وطی) کا اضافہ ہم نہیں کرسکتے، اسلئے کہ خبر واحد سے قرآنی آیت پر اضافہ کرنا جائز نہیں۔ البتہ حنفی مسلک میں نکاح کا معنی ہی مباشرت (وطی) ہے اسلئے ہم مباشرت مراد لیتے ہیں‘‘۔ اصولِ فقہ میں ہے کہ حنفی مسلک میں نکاح مباشرت کا نام ہے چاہے وہ جائز ہو یا ناجائز ؟۔ جمہورکے نزدیک حلالہ کی لعنت سے عورت سابق شوہر کیلئے جائز نہ ہوگی لیکن 900سال کے بعد حنفی فقہاء نے یہ دریافت کرلیا کہ جب تک زبان سے حلالہ کی نیت نہ کی جائے تو نیت معتبر نہ ہوگی اور حلالہ لعنت نہ ہوگا۔ اور یہی نہیں بلکہ غیر معروف اور غیر معتبر مشائخ اور کتابوں کے حوالہ جات نقل کرکے لکھ دیا کہ ’’ اگر نیت دونوں خاندانوں کو ملانے کی ہو تو حلالہ سے ثواب بھی ملے گا‘‘۔ علامہ بدرالدین عینی اور علامہ ابن ھمام حنفی کی وفات 950ھ اور 980ھ ہجری میں ہوئی ہے۔ اہلسنت والجماعت کی اشاعت نمبر100 میں ’’طلاق ثلاثہ اور حلالہ‘‘ کے عنوان سے جس ہرزہ سرائی کا ارتکاب کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ حلالہ کو بے غیرتی کہنا ان لوگوں کا وطیرہ ہے جنکے ایمان وایقان کی جگہ بے غیرتی نے لی ہو‘‘۔ کیا اسکا اثر حدیث پر نہیں پڑتا ،جس میں حلالہ کی لعنت کرنیوالے کو کرایہ کا بکرا کہا گیا ہے؟۔ اسی کتاب میں یہ وضاحت بھی کی گئی ہے کہ غیرت کی قلت کی وجہ سے ہی حدیث اس کو شخص کو کرایہ کا بکرا قرار دیا گیا ہے۔ مفتی محمد اکمل صاحب کی ویڈیو نیٹ پر دستیاب ہے، جس میں حلالہ کو امام ابوحنیفہؒ کی طرف سے باعثِ ثواب قرار دیا ہے۔ حالانکہ کسی حدیث میں بھی یہ فتویٰ نہیں دیا گیا ہے کہ میاں بیوی کا رجوع نہیں ہوسکتا اور حلالہ کی بنیاد پر اتفاقِ رائے تھی کہ ناجائز ، لعنت اور حرام ہے۔ہاں جب فقہ حنفی کے فقہاء نے حرمتِ مصاہرت کے خود ساختہ مسائل گھڑنے شروع کئے تو نکاح کو جماع (وطی) قرار دیا گیا اور اس میں زنا، ناجائز اور جائز مباشرت کو نکاح قرار دیا گیا تو حلالہ کی لعنت کو بھی ناجائز ہونے کے باوجود اس کے ذریعے سے دوسرے شوہر کیلئے حلال ہونے کا ذریعہ قرار دیا گیا۔ کیونکہ حنفی مسلک میں ناجائز اور زنا پر نکاح کا اطلاق ہوتا ہے۔ باقی مسالک میں حلالہ سے عورت پہلے شوہر کیلئے جائز بھی نہیں۔امام ابوحنیفہؒ نے بھی جائز نہ کہا۔ حرمت مصاہرت کے غلط مسائل ہی بعد میں گھڑے گئے ۔ قرآن میں حرمت مصاہرت کی ایک صورت کیلئے بہت واضح الفاظ میں نکاح اور اسکے بعد دخول کا ذکر ہے۔ عوام کے سامنے مفتی صاحبان من گھڑت مسائل سے بھی گھبرا جائیں گے، طلاق کا معاملہ بھی بڑا بھیانک ہے۔ قرآن میں طلاق کا مقدمہ سورۃ البقرہ آیت224 سے شروع کیا گیا ۔ حنفی مسلک کی سب سے معتبر فتاویٰ کی کتاب ’’ قاضی خان ‘‘ میں ہے کہ ’’ ایک شخص نے بیوی سے کہا کہ اگر تیری ۔۔۔ میری ۔۔۔ سے خوبصورت نہیں تو تجھے طلاق، عورت نے کہا کہ اگرمیری ۔۔۔ تیری ۔۔۔ سے خوبصورت نہ ہو تومیری لونڈی آزاد۔ امام ابوبکر بن فضل نے کہا کہ کھڑے ہونے کی صورت میں مرد کی طلاق واقع ہوگی اور بیٹھنے کی صورت میں عورت کی لونڈی آزاد ہوگی ۔ اگر مرد کھڑا ہو، عورت بیٹھی ہو تو مجھے بھی پتہ نہیں مگر مناسب یہ ہے کہ دونوں حانث ہوں اسلئے کہ دونوں نے یمین سے شرط بریت رکھی ہے۔( فتاویٰ تاتارخانیہ سرکی روڈ کوئٹہ) اس عبارت کو نقل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ طلاق سے بھی یمین مراد لیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آیت224میں فرمایا کہ ’’ اللہ کو اپنے یمین کیلئے ڈھال مت بناؤ کہ تم نیکی کرو،تقویٰ اختیار کرو اور لوگوں کے درمیان صلح کراؤ‘‘۔ اس آیت سے یہ ثابت ہے کہ میاں بیوی کیلئے اللہ نے کوئی بھی ایسی صورت نہیں رکھی کہ اللہ کے نام پر صلح کا دروازہ بند کیا جائے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ایلاء کی صورت میں چار ماہ تک صلح کا دروازہ کھلا رکھا مگر اسکے بعد بھی صلح پر پابندی نہیں لگائی ہے۔ عدت کا تقرر نہ ہو تو طلاق کے بعد عورت کے انتظار کا بھی پتہ نہیں چلے گا۔ پھر اسکے بعد اللہ نے طلاق کی عدت تین قروء ( طہرو حیض ) بتائی ہے۔ پھر اس میں صلح کی شرط پر رجوع کی وضاحت کی ہے اور پھر اللہ نے عدت کے تین مراحل میں تین مرتبہ طلاق کو واضح فرمایا۔ جس کی بخاری کی احادیث میں مزید وضاحت بھی ہے۔ کیا یہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرمائے کہ’’ عدت میں صلح کی شرط پر رجوع شوہر کا حق ہے‘‘ ، دوسری آیت میں کہے کہ نہیں عدت میں بھی رجوع نہیں ہوسکتا؟ اور شوہر کے بجائے مفتی صاحب کو حلالہ کیلئے حوالہ کرنا ہوگا؟۔ قرآن کا دعویٰ ہے کہ اس میں تضاد نہیں ،اس کو اللہ نے ہر چیز کے واضح کرنے کیلئے نازل فرمایا تو کیا طلاق کا مسئلہ اللہ نے ان ساری آیات کے باوجود بھی واضح نہیں کیا ہے؟۔ یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ خبر واحد سے جس حلالہ کو ثابت کیا جارہاہے، اس میں وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرچکی تھی۔ پہلے شوہر نے عدت میں مرحلہ وار تین طلاقیں دی تھیں، اس کی طلاق بتہ ہوچکی تھی یعنی وہ اپنے شوہر سے تعلق منقطع کرچکی تھی۔ بخاری میں ہے کہ فبتہ طلاقی ’’ پھر میری طلاق منقع ہوچکی تھی‘‘اسکے معنی یہ نہیں کہ ایک طلاق بھی مراد ہوسکتی ہے اور تین طلاق بھی ۔ ابوداؤد شریف کی روایت میں یہ وضاحت ہے کہ نبی کریم ﷺ سے کہا گیا کہ وہ تین طلاق دے چکا ہے ، جس پر نبیﷺ نے فرمایا کہ مجھے معلوم ہے اور آپ ﷺ نے سورۂ طلاق کی تلاوت فرمائی۔ سورۂ طلاق میں عدت کے اندر مرحلہ وار طلاق اور عدت گننے کا حکم ہے۔ عدت کے اندر بھی رجوع کی گنجائش کا ذکر ہے اور عدت کی تکمیل پر بھی اور عدت کی تکمیل کے بعد ہمیشہ کیلئے اللہ نے راستہ کھلا رکھا ہے۔ سورۂ بقرہ کی آیات 224سے 232تک اور سورۂ طلاق کی پہلی دوآیات کا متن دیکھ لیجئے گا۔ اللہ تعالیٰ نے عدت کے اندر جہاں صلح کی گنجائش کا ذکر کیا ہے تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ صلح کے بعد یہ گنجائش ختم ہوجاتی ہے بلکہ عدت سے شوہربیوی کے درمیان صلح کیلئے لازمی پیریڈ رکھا گیا ہے۔ صلح کیلئے باہمی رضاضروری قرار دی ہے اور جہاں بھی رجوع کرنے کی اجازت ہے وہاں معروف طریقے سے رجوع کی وضاحت ہے۔ معروف طریقہ باہمی صلح اور رضامندی ہے۔ لیکن فقہاء نے جن منکر صورتوں کا ذکر کیا ہے انسان حیران وپریشان ہوجاتا ہے کہ قرآن کو چھوڑ کر کس اندھیر نگری میں دور کی گمراہی کا شکار ہوگئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دے۔ نبی کریم ﷺ، صحابہ کرامؓ، تابعینؒ ، تبع تابعینؒ ، ائمہ مجتہدین ؒ ، محدثینؒ اور پہلے کے فقہاء میں سے کسی نے بھی حلالہ کا فتویٰ نہیں دیا ۔ اب رہ گیا بہت بعد کے دور کا مسئلہ تو حلالہ کی لعنت سے انکے مقام ومرتبہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے اسلئے کہ اگرچہ نبیﷺ نے اس کو لعنت اور کرائے کا بکرا بھی قرار دیا تھا۔ یہ بھی اس دور کی بات ہے جبکہ قرآن کی واضح آیات نازل نہیں ہوئی تھیں۔ سورۂ مجادلہ میں ظہار کی صورتحال بھی بعد میں واضح ہوئی، اسی طرح یہ بھی کہ سورۂ احزاب میں مزید تنبیہ کیساتھ ظہار و منہ بولے بیٹے کا مسئلہ واضح کیا گیا۔ حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ نے شجرہ ممنوعہ کے پاس جانے سے روکا۔ جب شیطان نے دونوں کو ورغلایا تو حضرت آدم علیہ السلام و حواء علیہا السلام نے عرض کیا کہ ہم نے اپنے ارادہ واختیار سے ایسا نہ کیا۔ جب حضرت آدم علیہ السلام کے مقام پر کوئی اثر نہیں پڑتا تو بعد کے بزرگوں کے مقام ومرتبہ پر بھی اثر نہ پڑتا ہوگا۔ البتہ معاملہ واضح ہوجانے کے بعد اس عمل سے اجتناب نہ کرنا اور قرآنی آیات سے انحراف کرنا دنیا وآخرت کی پکڑ کا باعث ہوسکتا ہے۔ اللہ ہماری حفاظت فرمائے۔ اہلحدیث ، اہل تشیع، غلام احمد پرویز، جاوید غامدی، ڈاکٹر ذاکر نائیک ، علامہ تمنا عمادی اور دیگر تمام لوگوں کے مقابلے میں طلاق کے حوالے سے درسِ نظامی کے نصاب سے استفادہ کرنیوالا طالب عتیق گیلانی تمام اہل حق کیلئے اعزاز ہے۔ افسوس ہے کہ ہم نے قرآن کے احکام سے متعلق کبھی آیات پر غور ہی نہ کیا ۔ کوئی ایک بھی صحیح حدیث نہیں جو قرآن کے منافی اور میاں بیوی کیلئے رجوع سے رکاوٹ ہو۔ بخاری میں اہل فارس کے فرد یا چند افراد کا ذکر ہے جو علم، ایمان اور دین کو ثریا سے واپس لانے میں اپنا کردار ادا کرینگے۔درسِ نظامی کے علماء کرام میرے محسن ہیں، بریلوی دیوبندی نصاب ایک ہے ، سب امت کو انقلاب کی طرف لایا جائے۔ خواتین کو عزتیں لٹانے پر مجبور کرنیوالا طبقہ انشاء اللہ جلد آنکھ کھلنے کی نوید سنادیگا۔
قرآن وسنت میں سورۂ بقرہ اور سورۂ طلاق کے علاوہ سورۂ نساء، احزاب اور مجادلہ وغیرہ میں طلاق کے احکام کی زبردست وضاحت ہے۔ بڑے مفتیان نے عرصہ سے چپ کی سادھ لی ہے، چیف جسٹس ثاقب نثار انسانی حقوق کیلئے ان مسائل کا بھی نوٹس لیں ۔ تاکہ امت مسلمہ عذاب سے بچ جائے اور لوگوں کے گھر خراب نہ ہوں۔ مسلک حنفی میں مزارعت کی طرح حلالہ کی لعنت کا کوئی جواز نہ تھا مگر بہت بعد کے فقہاء نے اس کو کارِثواب قرار دیا اور علماء اس پر عمل پیراہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ ایک قول ہے، جیسا ہزار روپیہ۔ دوسرا فعل ہے جیسا ایک ہزار مرتبہ حلوہ کھایا۔ یہ نہیں کہا جاتا کہ ہزار مرتبہ روپیہ اورنہ یہ کہا جاتا ہے کہ ہزار حلوہ کھایا ہے۔ مرتبہ کا لفظ فعل کیلئے ہی آتاہے۔ عربی، اردو کے علاوہ دنیا کی ہر زبان میں مرتبہ کا لفظ فعل کیلئے آتا ہے۔ فعل کو دہرایا جاتا ہے۔ حلوہ کیلئے ہزار مرتبہ کھانا کہا جائے تو مطلب ہوگا کہ حلوہ کھانے کا عمل ہزار مرتبہ دہرایا ۔ اسکے برعکس ہزار روپے کو ہزار مرتبہ دہرانے کا مسئلہ نہیں ۔ ایک نوٹ ہزار روپیہ ہے۔ جب کہا جائے کہ طلاق دومرتبہ ہے تو اسکاواضح مطلب ہے کہ طلاق اس صورت میں فعل ہے اور عدت کے تین مراحل میں پہلے دو مراحل پر اسکا اطلاق ہوتاہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ طلاق ایک مضبوط معاہدہ ہے۔ عورت سے مباشرت کے بعد اس کو اللہ تعالیٰ نے میثاقِ غلیظ قرار دیا ہے۔ جسکا مطلب پختہ معاہدہ ہے اور اسکے پختہ ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کا کوئی معاہدہ بھی ایسا نہیں کہ جس کو توڑنے لازمی عدت یا مدت ہو۔ حیض والی عورت ہو تو پاکی کے ایام اور حیض کے3 مراحل عدت ہے ۔ حیض نہ آتا ہو تو تین ماہ کی عدت ہے اور حمل کی صورت میں بچے کی پیدائش عدت ہے۔ عدت میں حنفی مسلک کے مطابق نکاح قائم رہتاہے اور قرآن میں یہ واضح ہے کہ’’ اصلاح کی شرط پر شوہر کوبیوی کے لوٹانے کا حق ہے‘‘۔( البقرہ آیت228)۔ اس سے قبل اللہ نے طلاق کا اظہار نہ کرنے پر رجوع کی مدت4ماہ رکھی ہے لیکن اگر اسکا عزم طلاق کا تھا تووہ اللہ کی پکڑ ہوگی اسلئے کہ طلاق کے اظہار کی صورت میں عدت 3ماہ تھی اور ایک ماہ کی اضافی پر مدت پر مواخذہ ہوگا۔ (البقرہ آیات225,26,27) شوہر طلاق دے یا عورت خلع لے تو حقوق کی نوعیت جُداہے۔ سورۂ النساء کی آیات19،20اور21میں واضح ہے۔ شوہر طلاق دے اور عورت رجوع کیلئے راضی نہ ہو تو شوہر عدت میں بھی رجوع کا حق نہیں رکھتا۔ نہیں تو پھرمرد کو کئی عدتوں کا حق ہوگا اسلئے کہ شوہر ایک طلاق دیگا، عدت کے آخر میں رجوع کریگا، پھر عدت کے آخر میں طلاق دیگا تو عورت کئی عدتیں گزاریگی۔ یہ واضح ہے کہ طلاق فعل ہے ،چار ماہ تک شوہر طلاق کااظہار نہ کرے توعورت فارغ ہو گی ، اسی طرح یہ واضح ہے کہ طلاق کا اظہار کرنے کے بعد عدت کے تین مراحل میں تین مرتبہ طلاق کا فعل واقع ہوجائیگا۔ طلاق دو مرتبہ ہے پھر معروف طریقے سے روکناہے یا احسان کیساتھ رخصت کرنا۔ البقرہ آیت229۔ نبی ﷺ نے فرمایا تیسری مرتبہ چھوڑنا تیسری طلاق ہے۔تیسری طلاق کا تعلق مرحلہ وار عدت کے تیسرے مرحلے سے ہے۔ کتاب التفسیرالطلاق، کتاب الاحکام، کتاب العدت اور کتاب الطلاق میں بھی حضرت ابن عمرؓ کے واقعہ پر بخاری میں بھی عدت وطلاق کی یہی وضاحت ہے۔ قرآن اور سنت میں بالکل بھی کوئی ابہام نہیں تھا۔ شوہر طلاق دیتا ہے تو عدت میں صلح کی شرط پر لازمی انتظار کی مدت کاانتظار قرآن و سنت کے نصاب کا حصہ ہے۔ اگر میاں بیوی نے صلح واصلاح کرلی تو یہ قرآن وسنت اور صحابہ کرامؓ کے متفقہ مؤقف کے مطابق درست ہے۔ اگر تنازع برقرار رہنے اور جدائی کا خدشہ ہو تو ایک ایک رشتہ دار دونوں طرف سے مقرر کرنا قرآن کا حکم ہے اگروہ صلح چاہتے ہوں تو اللہ موافقت پیدا کردیگا۔ قرآن کے ان واضح احکام کو چھوڑ کر کوئی کسی جنسی خواہش سے بھرپور مولوی کے پاس جائیگا تو وہ حلالہ کیلئے ہر قسم کے پاپڑ بیلے گا اسلئے کہ حضرت آدم و حواء کو اللہ نے منع کیا کہ شجر کے پاس مت جاؤ، مگر وہ نہ چاہتے ہوئے بھی مجبور ہوگئے تھے۔انسان کے پاس 99دنبیاں ہوں تو بھی حرص میں اپنے بھائی کی ایک دنبی بھی ہتھیانا چاہتا ہے۔ ایک دفعہ طلاق کے بعد عورت صلح کیلئے آمادہ نہ ہو تو شوہر کو زبردستی رجوع کا کوئی حق نہیں ۔ ایک شخص نے ایک ساتھ تین طلاق کا اظہار کیا، پھر اس کی بیوی اور رشتہ صلح پر آمادہ نہ تھے تو شوہرنے حضرت عمرؓکے دربار میں اپنا مقدمہ اٹھایا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ’’ اللہ کی رعایت کا تم غلط فائدہ اٹھاتے ہو، آئندہ کوئی بھی ایک ساتھ تین طلاق دیگا تو اس پر تینوں طلاق نافذ کر دونگا‘‘۔ اگر مقدمہ حضرت عمرؓ کے دربار میں ایک طلاق پر بھی پیش ہوتا تو اسکا قرآن کے مطابق یہی جواب ہوتا کہ اصلاح کی شرط کے بغیر شوہرکو رجوع کا حق نہیں۔حضرت عمرؓ کا فیصلہ قرآن اور فطرت کے عین مطابق تھا۔البتہ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ میاں بیوی آپس میں صلح کرسکتے ہیں یا نہیں ؟۔ تو اسکا قرآن نے بار بار جواب دیا کہ عدت میں بھی کرسکتے ہیں، عدت کی تکمیل پر بھی کرسکتے ہیں اور عدت کی تکمیل کے بعد کافی عرصہ گزرنے کے بعد بھی رجوع کا قرآن وسنت نے راستہ نہیں روکا ہے۔ قول سے طلاق دی جائے مگر میاں بیوی عدت میں یا عدت کے بعد صلح کا فیصلہ کرلیں تو صلح نہ کرنے میں اللہ کے نام کو ڈھال بناکر رکاوٹ ڈالنا قرآن کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ البقرہ کی آیات میں طلاق کے احکام اور حدود وقیود کی ابتداء آیت224سے کی اورآیت232 تک پوری تفصیل ہے۔ طلاق کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں۔ 1: دونوں جدائی چاہتے ہوں۔جب یہ وضاحت ہو کہ دونوں آئندہ رابطہ کی کوئی چیز باقی نہیں رکھنا چاہتے تو رجوع کا نہیں بلکہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شوہر عورت کو اپنی مرضی سے نکاح کی اجازت نہیں دیتااسلئے اللہ نے واضح کیا کہ طلاق کے بعد عورت پہلے کیلئے حلال نہیں یہانتک کہ دوسرے شوہر سے نکاح کرلے۔ اس صورت کا ذکر بقرہ آیت229 کے بعد230میں متصل ہے۔ فقہ حنفی کے اصول کیمطابق یہ طلاق اسی صورت کیساتھ خاص ہے۔ (نورالانوار:ملاجیونؒ ) علامہ ابن قیمؒ نے زادالمعاد میں حضرت ابن عباسؓ کے حوالہ سے یہی لکھا ہے۔قرآن کا سیاق وسباق دیکھ لیں۔ 2: شوہر نے طلاق دی اور بیوی علیحدگی نہ چاہتی ہو، اس صورت میں عدت کی تکمیل پر بھی رجوع ہوسکتا ہے جسکا ذکر البقرہ آیت231میں ہے۔کوئی مفتی و عالم اور عام آدمی وتعلیم یافتہ ان آیات کو دیکھ لے ان پڑھ کو بھی بات سمجھ میں آئے گی۔ صحابہ کرامؓ کے دور میں مدارس اورسکول ، کالج اور یونیورسٹیاں نہیں تھے۔ 3:بیوی نے خلع لیا ہو اور واپس آنا چاہتی ہوتو بھی رجوع ہوسکتاہے جس کیلئے اللہ نے واضح طور سے فرمایا ہے کہ کوئی طبقہ بھی رکاوٹ پیدا نہ کرے۔ وہ علماء ومفتیان ہوں، رشتہ دار ہوں یا حاکم ہوں۔ آیت232۔ بخاری میں رفاعہؓ کی بیوی کے واقعہ کو مولانا سلیم اللہ خانؒ نے خبر واحد قرار دیا ۔ طلاق مرحلہ وار دی تھی اور کسی اور سے نکاح بھی کرچکی تھی، قرآنی آیات سے متصادم حدیث نہیں۔
قرآن وسنت میں طلاق و عدت 3 طہرو حیض ہے۔تین دن کے تین روزے کی طرح طلاق 3طہراور عدت 3حیض ہے۔ حیض نہ آتا ہو تو طلاق وعدت 3 ماہ ہے۔ یہ قرآن و احادیث میں روزِ روشن کی طرح واضح ہے۔ سورہ بقرہ آیت 228، 229 اور سورۂ طلاق آیت1اور2میں کے علاوہ بخاری کتاب التفسیر سورۂ طلاق، کتاب الاحکام ، کتاب الطلاق اور کتاب العدت میں نبیﷺ نے یہ وضاحت فرمائی تھی۔ اُمت نے بدقسمتی سے قرآن وسنت کی طرف رجوع نہ کیا۔ مسالک کی وکالت اور تقلیدجاری رکھی ۔ شاہ ولی اللہؒ نے قرآن و سنت کی ترغیب دی۔ شاہ ولی اللہؒ کے پوتے شاہ اسماعیل شہیدؒ نے تقلید کو بدعت قرار دیا۔ اکابرِ دیوبند ؒ نے تائید کی اور اعلیٰ حضرت بریلویؒ کی طرف سے ’’حسام الحرمین‘‘ کے فتوے سے مقلد اور حنفی ہونے کی وضاحت کردی۔ نواب صدیق حسن خانؒ نے پھر اہلحدیث مسلک کی بنیاد رکھ دی۔ حنفی مسلک میں تقلید نہیں اس اجتہاد کی تعلیم ہے کہ امام و دیگر شخصیات تو دور کی بات ہے قرآن سے متضاد احادیث کو بھی رد کیا گیا۔ اہل حق کایہ سلسلہ قیامت تک باقی رہیگا۔ حدیث میں رضاعتِ کبیر کی آیات اور انکا نبیﷺ کے وصال پر بکری کے کھا جانے سے ضائع ہونے تک کی باتیں صحاح ستہ کی کتاب ابن ماجہ میں موجود ہیں۔ حنفی مسلک کی تعلیم نے اُمت مسلمہ کو اس حد تک گمراہی میں نہ جانے دیاتھا۔ تین طلاق پر قرآن وسنت میں کوئی ابہام نہیں۔ تین طلاق سے صرف اور صرف تین حیض کی صورت میں تین روزے کی طرح3 طہر مراد ہیں۔حمل کی صورت میں عدت کے تین مراحل ہیں اور نہ تین مرتبہ طلاق کا کوئی تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بار بار واضح فرمایا کہ ’’ طلاق سے رجوع کا تعلق عدت سے ہے‘‘ اور یہ کہ ’’ عدت کے اندر بھی باہمی صلح واصلاح کی شرط پر رجوع ہوسکتا ہے‘‘۔ اور یہ کہ ’’ عدت کی تکمیل پر رجوع ہوسکتا ہے‘‘ اور یہ کہ ’’ عدت کی تکمیل کے بعدرجوع اور نکاح ہوسکتا ہے‘‘۔ سورۂ بقرہ کی آیت224سے232تک اور سورۂ طلاق کی پہلی 2 آیات میں جو طلاق سے رجوع کا نقشہ ہے ،اسکے بعد یہ بات تو سمجھ میںآتی ہے کہ حلالہ کا مروجہ مسئلہ قرآن وسنت اور حنفی مسلک کے ہوتے ہوئے نہیں پروان چڑھنا چاہیے تھا مگر یہ سمجھنا ہوگا کہ مغالطہ کیسے پیدا ہوگیا؟۔ جامعہ بنوری ٹاؤن اور دارالعلوم امجدیہ کراچی کے رئیس دارالافتاء اپنی اپنی ٹیموں کیساتھ اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی و مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن اپنے نامزد کردہ افراد کو تشکیل دیں۔ انشاء اللہ ان کی تسلی بھی ہوجائے گی اور اگر نہ مطمئن نہیں کرسکا تو ان کا جوتااور میرا سر۔ احادیث صحیحہ میں ایک ایسی حدیت نہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ہو کہ ’’ عدت میں بھی رجوع نہیں ہوسکتا ، حلالہ کروانے کا حکم تو بہت دور کی بات ہے‘‘ اگر بالفرض کوئی روایت ہوتی توبھی حنفی مسلک نے اپنی اصولِ فقہ کے تحت اس حدیث صحیحہ کو رد کرنا تھا اسلئے قرآن کی وضاحت کے بعد حنفی مسلک کا یہی تقاضہ ہے۔ جہاں تک ان احادیث کا تعلق ہے جن میں اکٹھی تین طلاق پر نبیﷺ غضبناک ہوئے تو غضبناک ہونے کی وجہ یہ نہ تھی کہ رجوع نہیں ہوسکتا تھا، اسلئے کہ حضرت ابن عمرؓ کی طرف سے حیض کی حالت میں طلاق دینے پر بھی غضبناک ہوئے اور پھر رجوع کا حکم بھی دیا۔( بخاری)۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ ابن عمرؓ نے تین طلاق دئیے تھے، جس سے نبیﷺ نے رجوع کا حکم دیاتھا‘‘۔بہر حال یہ بات تو قطعی طور پر ثابت ہے کہ نبیﷺ قرآن پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے غضبناک ہوئے تھے لیکن یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ ’’ اگر کوئی قرآن کیخلاف ایک ساتھ تین طلاق دیگا تو اس کی طلاق واقع ہوگی اور عدت کے بعد عورت کو دوسری جگہ شادی کی اجازت ہوگی‘‘۔ البتہ اس پر غور کرنے کی ضرورت تھی کہ اگر ایک ساتھ تین طلاق کے بعد میاں بیوی باہمی رضامندی سے رجوع پر راضی ہوں تو قرآن نے رجوع کا تعلق میاں بیوی کی رضامندی اور عدت سے جوڑ دیا ہے۔ اس روایت کی کوئی غلط تشریح کی ضرورت نہ تھی کہ نبیﷺ، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے ابتدائی تین سال تک ایک ساتھ تین طلاق بھی ایک شمار ہوتی تھی۔ ( صحیح مسلم)۔ جب رجوع کا تعلق باہمی رضامندی سے اصلاح کیساتھ ہو تو یہ گھر کا معاملہ تھا جس کو گھر میں حل کیا جاتا۔ میاں بیوی کے درمیان تفریق کے خطرہ پر دونوں جانب سے ایک ایک رشتہ دار تشکیل دیا جاتا تھا ۔ جب معاملہ میاں بیوی اور ایک ایک رشتہ دار کے ہاتھوں سے نکل گیا اور صورت اکٹھی 3 طلاق کی تھی۔ ایک طرف لوگوں کے ذہن میں یہ بات تھی کہ دو مرتبہ طلاق کے بعد شوہر کو رجوع کا حق حاصل ہے اور دوسری طرف میاں بیوی کے درمیان اکٹھی 3 پر شوہر کو رجوع کا حق حاصل ہونے یا نہ ہونے کا معاملہ آیا تو حضرت عمرؓ نے قرآن کے مطابق ٹھیک فیصلہ دیا کہ ’’ تنازع میں ایک ساتھ تین طلاق پر رجوع نہیں ہوسکتا ‘‘۔ قرآن میں عدت میں باہمی صلح واصلاح کی شرط پر رجوع کا حق تھا۔ جب تنازعہ ہوا تو حضرت فاروق اعظمؓ نے قرآن کے عین مطابق بالکل ٹھیک فیصلہ دیدیا۔ باب العلم حضرت علی المرتضیٰؓ نے حضرت عمرؓ کا فیصلہ درست قرار دیتے ہوئے یہ واضح کردیا کہ ’’ ایک ساتھ تین طلاق پر بھی باہمی صلح سے رجوع ہوسکتا ہے لیکن تنازعہ کی صورت میں یہی فتویٰ دیتے تھے کہ شوہر رجوع نہیں کرسکتا ہے‘‘۔ خلفاء راشدینؓ نے قرآن کی روح کے بالکل عین مطابق عمل کیا تھا۔ چاروں امام ؒ نے بھی بالکل 100 فیصد درست فتویٰ دیا کہ ایک ساتھ تین طلاق نہ صرف واقع ہوتی ہیں بلکہ شوہر کیلئے رجوع کی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔ اگریہ فتویٰ نہ دیتے تو عورت طلاق کے بعد رجوع سے نکاح میں آتی اور زندگی بھر کسی اور سے نکاح نہ کرسکتی۔ حضرت عمرؓ ،حضرت علیؓ اور ائمہ ؒ نے قرآن وسنت کی مکمل پاسداری سے خواتین کے حقوق کی زبردست حفاظت کی ۔ کیونکہ بالا دست مردوں سے رجوع کا حق چھین لیا۔ مرد باہمی سوچ ،سمجھ ، باہوش وحواس تمام مراحل طے کرکے ایسی صورت میں بھی طلاق وعدت کے بعد دوسری جگہ شادی نہ کرنے دیتے تھے جب وہ خود رجوع بھی نہ کرنا چاہتے ہوں اور کوئی رابطہ بھی نہ رکھنا چاہتے ہوں۔ اس خاص صورتحال کی اللہ تعالیٰ نے بھرپور وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’اگر اس صورت میں طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ دوسرے شوہر سے نکاح کرلے‘‘۔ مردوں کے پاس اتنی طاقت آج بھی ہے کہ اگر وہ دوسری جگہ بسانے سے روکنا چاہتے ہوں تو عورت کو تین طلاق دینے کے بعد بھی اسکا نکاح کسی سے کروادینگے اور پھر اس کو بٹھادینگے۔ اسلئے نبیﷺ نے بہترین رہنمائی فرمائی کہ نکاح کافی نہیں بلکہ ایکدوسرے کا ذائقہ چکھ لینا بھی ضروری ہے۔حلالہ کے فتوے خواتین کی عزتیں لٹوانے کیلئے نہیں بلکہ مردوں کی بالادستی سے جان چھڑانے کیلئے تھے لیکن قرآن کی طرف رجوع ہوتا تو مروجہ حلالے کا تصور بھی ختم ہوتا۔ نورالانوار میں حنفی مسلک یہی ہے کہ ’’ اس طلاق کا تعلق متصل فدیہ کی صورت ہی کیساتھ ہے‘‘۔ علامہ ابن قیمؒ نے ابن عباسؓ کی یہی تفسیر زادالمعاد میں نقل کی ہے۔ بخاری کی حدیث میں عدت ونکاح کے بعد ذائقہ چکھ لینے کی بات ہے جس کا سورۂ بقرہ کی آیات سے کوئی ٹکراؤ نہیں اور ابوداؤد کی روایت میں تین طلاق اور عدت کے بعد حلالہ کے بغیر نکاح واضح ہے۔ قرآن واحادیث اور اصولِ فقہ کے بنیادی قواعد سے تمام مسائل کا حل نکل سکے گا۔