پوسٹ تلاش کریں

اسمبلی سے بلا وجہ غیر حاضر رہنے والوں کو تین طلاق کی طرح مستقبل چھٹی دی جائے تو بہتر ہوگا.

naeema-kishwar-JUI-pakistani-senator-parliament-house-100-percent-attendance-Political-parties-Women-role-in-politics-teen-talaq-suspension

جمعیت علماء اسلام ف کی خاتون رکن قومی اسمبلی نعیمہ کشور کی اسمبلی میں 99فیصد حاضری ہے۔ وزیر اعظم اور وزیروں کی پریکٹس کرنے والے اور پریکٹس کے خواہشمند طبقے کیلئے بڑی معیوب بات ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں حاضری نہیں دیتے۔ بلا وجہ تین مرتبہ یا تین ماہ سے زیادہ غیر حاضر رہنے والوں کو تین طلاق کی طرح مستقل چھٹی دی جائے تو بہتر ہوگا۔

طلاق ثلاثہ پر حلالہ کا فتویٰ قرآن و سنت کیخلاف ہے. فاضل دار العلوم دیوبند مولانا حسین مبارک

talaq-e-salasa-maulana-husain-mubarak-fazil-darul-uloom-deo-band

کراچی (امیر حسین، قاری سلیم اللہ، طارق مدنی) فاضل دار العلوم دیوبند یوپی بھارت مولانا سید حسین مبارک ( خادم اعلیٰ مدرسہ فاطمۃ الزھرہ جامع مسجد مبارکیہ علی اکبر شاہ گوٹھ کورنگی ) نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ طلاق ثلاثہ کے بارے میں گیلانی صاحب نے جو قدم اٹھایا ہے بہت ہی قابل ستائش اور بہت ہی بہترین کام ہے کیونکہ موجودہ دور میں جن دار الافتاء سے طلاق ثلاثہ کے بارے میں فتویٰ جاری ہوتا ہے یہ قرآن و سنت کے بھی خلاف ہے اور فطرت و غیرت کے بھی خلاف ہے۔ قرآن و سنت میں کہیں بھی حلالے کا تصور اور جواز موجود نہیں حضرت عمرؓ نے جو فیصلہ صادر فرمایا وہ وقت اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے تعزیراً ایک فیصلہ صادر فرمایا وہ بھی لوگ عورتوں کو طلاق دیتے اور پھر ان کو ستانے کی غرض سے اور ان عورتوں کی بغیر رضامندی ان سے رجوع کرلیتے تھے میں آج سے تقریباً تیس سال سے طلاق کا مسئلہ حل کررہا ہوں جو دونوں فریقین کی باتوں کو سن کر فیصلہ یا فتویٰ دیتا ہوں اگر دونوں رجوع کرنے کیلئے رضامندی کا اظہار کرتے ہیں تو رجوع کا فیصلہ سناتا ہوں اور اگر دونوں میں تنازع نظر آتا ہے تو ان کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے مطابق فیصلہ سناتا ہوں قرآن و سنت کا بھی یہی فیصلہ ہے۔ اتحاد کے بارے میں انہوں نے کہا اس وقت علماء کرام تمام چھوٹے بڑے دینی مدارس ، یونیورسٹی کے دانشور حضرات کا مل بیٹھ کر گیلانی صاحب کے اس مشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا فرض عین سمجھتا ہوں۔صرف کاغذی اتحاد نہیں بلکہ عملی طور سے عوام کو سمجھانا بھی ضروری سمجھتا ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ علماء کرام طلاق کے بارے میں اصل حقائق عوام کے سامنے لائیں گونگا شیطان نہ بنیں اللہ تعالیٰ شاہ صاحب اور تمام ساتھیوں کی حفاظت فرمائے اور تمام اُمت مسلمہ کو قرآن و سنت اوردین کی سمجھ عطا فرمائے۔

حلالہ پر جو مسئلہ دوران تعلیم میری سمجھ میں آیا وہ غلطی پر تھا. مولانا شاہ عالم فاضل احسن العلوم گلشن اقبال

halala-maulana-shah-aalam-ahsan-ul-uloom-gulshan

کراچی (قاری سلیم ، محمد طارق) مولانا شاہ عالم فاضل جامعہ احسن العلوم گلشن اقبال کراچی ، مہتمم مدرسہ عمر فاروقؓ و خطیب جامع مسجد مہران ٹاؤن انڈسٹریل ایریا نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ حضرت علامہ سید عتیق الرحمن گیلانی صاحب کا لٹریچر طلاق ثلاثہ و حلالہ کے حوالے سے مطالعہ کیا اور بغور جائزہ لینے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ حضرت علامہ صاحب کی تمام تحقیقات بحوالہ حلالہ و تین طلاق کے ساتھ اتفاق کرتا ہوں جو مسئلہ میری سمجھ میں دوران تعلیم آتاتھا وہ غلطی پر مبنی تھا ۔
الحمد للہ حضرت کے تمام رسالے پڑھ کر سورۃ البقرہ کی آیت الطلا ق مرتان الخ والی آیت سے شرح صدد ہوچکا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ علامہ صاحب کی کاوشوں کو قبول اور منظور فرمائے اور امت پر سید صاحب کا سایہ تادیر قائم رکھے۔ آمین ثم آمین۔

حلالہ کی لعنت سے قرآن مجید کی سنگین خلاف ورزی اور خواتین کی بدترین بے حرمتی

halala-ki-lanat-khawateen-ki-behurmati-dehshat-gardi-pakistan-ulma-ka-fatwa-asma-jahangir-hijr-e-aswad-na-mehram-molana-syed-suleman-nadvi-mufti-shafi-usmani

اس موقع پر لطیفہ اچھا نہیں مگر سوشل میڈیا میں طوفانِ بدتمیزی برپا کرنے والوں اور کم عقل علماء کی عقل کو ٹھکانے لگانے کیلئے حقائق ضروری ہیں۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں ہمارے استاذ قاری مفتاح اللہ صاحب نے لطیفہ سنایا کہ’’ ایک طالب علم نے عورت سے بدفعلی کی جس سے حمل ٹھہر گیا تو اسے کہا گیا کہ عزل کرلیتے ، طالب علم نے کہا کہ عزل مکروہ تھا لیکن بیوقوف نے یہ نہ دیکھا کہ حرام کا مرتکب ہوا اور مکروہ کا خیال آگیا‘‘۔ آج لگتا کہ بیوقوف طلبہ مسندِ علم و افتاء پر بیٹھ کر فتوے دے رہے ہیں۔یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا بلکہ اسلام کی تاریخ کے ہر دور میں علماء نے دین، علم ، ایمان اور اسلام کو بتدریج اجنبیت کی طرف دھکیلنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ سید سلیمان ندوی اور ابوالکلام آزاد نے تصویر کے بارے میں فتویٰ دیا تو کم عقل پیچھے پڑگئے، مفتی اعظم مفتی محمودؒ نے بینک کی سود سے زکوٰۃ کی کٹوتی پر فتویٰ دیا تو کم عقلوں نے نہیں مانا، مولانا سلیم اللہ خان و دیگر علماء ومفتیان کا فتویٰ آیاکہ اسلامی بینکاری کے نام پرحیلہ سازی جائز نہیں تو کم عقلوں نے نہیں مانا سودکے جواز والوں نے شادی بیاہ میں لفافے دینے کی رسم کو سود اور اسکے کم ازکم گناہ کو ماں سے زنا کرنیکے برابر قرار دینے کی مہم چلائی۔ حلالہ کے حوالے سے فتوؤں کی ضرورت ہے اور معاشرے کے اندر یہ بڑا سنگین معاملہ ہے جو قرآن و احادیث ،انسانی فطرت و شریعت کی خلاف ورزی ہے

halala-ki-lanat-khawateen-ki-behurmati-dehshat-gardi-pakistan-ulma-ka-fatwa-asma-jahangir-hijr-e-aswad-na-mehram-molana-syed-suleman-nadvi-mufti-shafi-usmani-2

چٹ نکاح پٹ مذاق یا چٹ نکاح پٹ طلاق؟ تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

گنج بخش فیض عالم مظہر نورخدا ناقصاں را پیرکامل کامل رارہنما
حضرت علی ہجویری داتا گنج بخشؒ ایک بڑے صوفی، اللہ والے اور حنفی عالم تھے۔
ڈاکٹر شبیر احمد کی کتاب ’’ اسلام کے مجرم‘‘ُ پر’’پیش لفظ‘‘شیخ عبدالعزیز بن باز مفتی اعظم سعودیہ عربیہ کا مکتوب ہے۔شیخ الحدیث مفتی محمدارشاد نظامی، آگرہ نے اپنا ’’ابتدایہ‘‘ لکھ دیا ہے، علامہ اقبال کے فرزندڈاکٹر جاوید اقبال لاہورنے ڈاکٹر شبیر احمد کو اپنی رائے میں علامہ اقبال کا صحیح ترجمان قرار دیا ہے۔ معروف صحافی مجید نظامی چیف ایڈیٹر روزنامہ نوائے وقت لاہور نے بھی ڈاکٹر شبیر احمد فرزندِ پاکستان مقیم فلوریڈا امریکہ کو زبردست الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ مجلس شوریٰ کی کمیٹی کے 14ارکان کے نام بھی اس میں درج ہیں۔ محمد نسیم ربانی R.PH نیویارک نے لکھا ہے کہ وہ دیوبند کے مولانا عبد الحلیم قاسمی ، اہلحدیث کے مولانا غلام اللہ اور جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی ، ڈاکٹر اسرار احمد کی تنظیم اسلامی اور تبلیغی جماعت سے وقتاً فوقتاً وابستہ اور فیض یاب ہوتے رہے، مگر بقول اقبال
اُٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غم ناک نہ زندگی نہ محبت نہ معرفت نہ نگاہ
علم و ادب کے سمندر میں کشتی رانی کرتے ہوئے عمر بیت گئی میں حیران تھا کہ تشنگی کم کیوں نہیں ہوتی۔ بڑھتی کیوں جاتی ہے۔ کوئی ایک سال گزرا ’’اسلام کے مجرم‘‘ کا پہلا ایڈیشن میرے مطالعے میں آیا مجھے اپنی حیرتوں کا فوری جواب مل گیا دین حق کے دشمنوں نے اصل اسلام کو عجمی اسلام بناڈالا ہے۔ یوں کہئے کہ اسلام کی روح کھینچ لی ہے ۔ یہ سانحہ کیسا ہوا ، کس نے برپا کیا آپ کے ہاتھوں میں اس وقت جو کتاب ہے اس سوال کا شافی جواب دیتی ہے کہ درحقیقت اسلام ہے کیا؟۔ سر سید احمد خان ، علامہ عنایت اللہ مشرقی ، علامہ اقبال اور خصوصاً غلام جیلانی برق اپنی تحریروں میں جو اشارے دے گئے تھے اس کتاب میں وہ اشارے بین اور واضح ہوکر آپ کے سامنے آجاتے ہیں۔ ڈاکٹر شبیر احمد نے جو عرق ریزی اور تحقیق کی ہے وہ صدیوں پہلے ہمارے علماء کو کرنی چاہئے تھی۔ خدا کرے کہ اہل عالم خالص اسلام کی برکتوں سے فیض یا ب ہوسکیں۔ پریزیڈنسی آف البانی مسلم کمیونٹیز ، یو ایس اور کینیڈا بانی صدر کی جانب سے ڈاکٹر شبیر احمد بن عبد الرشید کے نام لکھے گئے الفاظ یہ ہیں ’’پہلے میں اپنا تعارف پیش کرتا ہوں ۔ میں البانیہ میں پیدا ہوا ، دینیات اسلامی (اسلامک تھیولوجی) میں جامعۃ الازہر قاہرہ سے تعلیم مکمل کی، پھر شعبہ کا صدر رہا۔ 1949میں مسلم کمیونٹیز کی خدمت کیلئے امریکہ آگیا۔ جامعہ مسجد ڈنرائٹ کے امام نے مجھے آپ کی کتاب ’’اسلام کے مجرم‘‘ (انگریزی) عنایت فرمائی۔ میں نے اس کتاب کو بہت دلچسپی اور غور سے پڑھا ہے اور اس کے حوالہ جات بھی ڈبل چیک کئے ہیں میں آپ کو اتنی انقلابی کتاب لکھنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ یہ کتاب صاف بتاتی ہے کہ اسلام کیا نہیں ہے اور ہماری مقدس سمجھی جانے والی کتابوں میں کیسی کیسی خرافات داخل کردی گئی ہیں۔ میں مکمل طور پر اس کتاب کے مندرجات سے متفق ہوں۔ اللہ کے فضل سے آپ نے اسلام کی زبردست خدمت انجام دی ہے آپ کی نوازش ہوگی اگر آپ مجھے اپنی تصنیفات کی فہرست ارسال کریں۔ امام وہبی اسماعیل (سابق مفتی دینی مجلس شوریٰ البانیہ)۔
ڈاکٹر شبیر احمد لکھتے ہیں : داؤد ؑ اپنی آنکھ ہی کے باعث مبتلا ہوئے یعنی اپنے پڑوسی کی بیوی سے گناہ کیا۔ (امام غزالی ؒ کیمیائے سعادت ، صفحہ 497)انبیاء کرام تو صاحبو! بے گناہ اور بے داغ کردار کے مالک ہوتے ہیں اور سید علی ہجویریؒ المعروف داتا گنج بخش لکھتے ہیں کہ داؤد ؑ کی نظر وہاں پڑی جہاں پڑنی نہ چاہئے تھی ۔ یعنی نہاتی ہوئی حسین عورت پر جو یوریا کی بیوی تھی۔ حالانکہ وہ ان پر حرام تھی۔ جیسے حضور ﷺ کی نظر زیدؓ کی بیوی زینبؓ پر پڑی (کپڑے بدلتے ہوئے) تو وہ دونوں عورتیں اپنے اپنے شوہروں پر حرام ہوگئیں۔ (علی ہجویری داتا گنج بخشؒ ، کلام المرغوب، صفحہ 349) اور انبیاء کے نکاح میں آگئیں۔
فاضل علوم دینیہ مولانا مسعود الدین عثمانی صاحب اپنی کتاب ایمان خالص صفحہ 113 پر تحریر فرماتے ہیں کہ علی ہجویری صاحب نے اپنی کتاب میں تاریخ طبری کی ان روایتوں کی تصدیق فرمائی ہے کہ داؤد ؑ اور آنحضرت ﷺ ان دو عورتوں کو برہنہ دیکھ کر عاشق ہوگئے تھے (نعوذ باللہ)۔ امام طبری نے بھی یہی لکھا ہے۔ (اسلام کے مجرم ، صفحہ 30، 31)
تاریخ طبری میں ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ زیدؓ سے ملنے کیلئے ان کے گھر گئے ۔ زیدؓ موجود نہ تھے ، زینبؓ کپڑے پہن رہی تھیں ، اسی حالت میں رسول اللہ ﷺ نے ان کو (برہنہ) دیکھ لیا اوریہ الفاظ کہتے ہوئے باہر نکل آئے ، سبحان اللہ سبحان اللہ یا مصرف القلوب ! اے وہ اللہ جو دلوں کو پھیر دیتا ہے ۔ حضرت زیدؓ کو جب حالات معلوم ہوئے تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کی کہ زینبؓ اگر آپ کو پسند آگئی ہو تو میں ان کو طلاق دے دوں (علامہ شبلی نعمانی، سیرت النبی ، جلد اول، صفحہ 258) پھر ایسا ہی ہوا۔
حافظ ابن حجر ، امام ابن ابی حاتم اس روایت کو آگئے بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ زینبؓ کا جسم انتہائی حسین تھا ، لہٰذا رسول اللہ ﷺ کا ایک نظر میں عاشق ہوجانا کوئی غیر انسانی بات نہیں۔ اور داتا گنج بخش فرماتے ہیں کہ داؤد ؑ اور محمد رسول اللہ ﷺ ایک ہی نظر میں مبتلا ہوئے۔ جنید بغدادیؒ نے کہا کہ یوریا کی بیوی سے شادی کرکے داؤد ؑ کے ہاں ان کے بیٹے سلیمان ؑ ناجائز طور پر پیدا ہوئے۔ اور شیخ سیرین لکھتے ہیں سورہ احزاب میں جہاں اس بات کا ذکر ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے دل میں کچھ چھپا رہے تھے تو اس سے مراد آپ ﷺ نے زینبؓ کا عشق اپنے دل میں چھپا رکھا تھا۔( ملفوظات الغسل ، صفحہ 219)
رسول اللہ ﷺ نے زید بن حارثہؓ سے فرمایا تم میرے بھائی اور میرے مولا (آقا) ہو تو وہ خوشی سے ناچنے لگے (کیمیائے سعادت، امام غزالیؒ ، صفحہ 419) (یہ تو رسول ﷺ نے ابوبکرؓ و عمرؓ کیلئے بھی نہیں فرمایا ) یہ اسلئے کہ زیدؓ نے رسول اللہ ﷺ کو اپنی بیوی دیدی تھی۔ (ملفوظات مکی، اشرف علی تھانویؒ ) ۔ اسلام کے مجرم : ڈاکٹر شبیر احمد۔ صفحہ 33، 34، 61
کہکشاں 6440 NW, 53 ST
LAUDERHILL, FL33319, USA
27اگست 1999، یہ کتاب آپ کو دعوت فکر دیتی ہے ۔۔۔ نقل کفر کفر نہ باشد، اللہ تعالیٰ آپ کے ذوق سلیم میں اضافہ فرمائے ہمیں صراط مستقم پر چلائے اور ہم سب کو دونوں جہانوں میں فوز و فلاح سے نوازے۔ ڈاکٹر شبیر احمد ( نوٹ: کسی دن بھی دوپہر12 بجے سے پہلے یا شام 5بجے کے بعد E.S.Tبلا تکلف کال کیجئے :746-2115 (954)
Galaxy Publications www.galaxydastak.com
قارئین خاص طور پر حضرات علماء کرام اور مفتیان عظام کو بڑی حیرت ہوگی کہ حضرت علی ہجویریؒ المعروف داتا گنج بخش کس طرح سے یہ لکھ سکتے ہیں کہ اجنبی خواتین پر جب انبیاء کرام علیہم السلام کی نظر پڑ گئی جو نہیں پڑنی چاہئے تھے اور حرام تھی لیکن نظر پڑنے سے وہ اپنے شوہروں پر حرام ہوگئیں اور انبیاء کے نکاح میں آگئیں؟۔
عام طور سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ صوفیائے کرام اپنی وجدانی کیفیت کی وجہ سے معذور ہوتے ہیں اور ان سے بے سرو پا کلمات وارد ہوتے ہیں جو شریعت کے دائرے میں نہیں آتے۔ مگر یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حضرت علی ہجویریؒ ایک حنفی عالم دین تھے اور اس کی یہ بات حنفی فقہ اور اُصول فقہ کے عین مطابق ہے ۔ البتہ دین میں یہود و نصاریٰ کی طرح غلو کے مرتکب فقہاء نے اسلام کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے جس کی تصحیح کرنی پڑے گی۔

قرآن و سنت اور اُم المؤمنین حضرت زینبؓ کے واقعہ کا خلاصہ

حضرت زید بن حارثہؓکو چوری کرکے بیچ دیا ۔ جب رسول اللہ ﷺ کے پاس غلام کی حیثیت سے تھے تو آپؓ کے چاچوں کو پتہ چلا ، وہ مکہ آئے اور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں منہ مانگی قیمت کی پیشکش کردی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مفت میں لے جاؤ مگر اس شرط پر کہ زید خودجانے کیلئے راضی ہو۔وہ بہت خوش ہوئے لیکن جب زیدؓ نے جانے سے انکار کیا تو زیدؓ کو طعنہ دیا کہ آپ آزادی پر غلامی کو ترجیح دیتے ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے وقت کے رسم کے مطابق حضرت زیدؓ کی دلجوئی کیلئے اعلان کردیا کہ زیدؓ میرا بیٹا اور جانشین ہے۔ جس پر زیدؓ کے خاندان والوں کو بھی احساس ہوا کہ حضرت زیدؓ نے ٹھیک فیصلہ کیا ہے۔ روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ اگر زیدؓ زندہ ہوتے تو رسول اللہ ﷺ آپؓ کو جانشین نامزد کردیتے۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنی کزن حضرت زینبؓ کا نکاح بھی حضرت زیدؓ سے کردیا۔ ایک طرف نبی ﷺ نے عالم انسانیت کو ایک آدم علیہ السلام کی اولاد قرار دیکر عربی عجمی ، کالے گورے اور ہر طرح کے نسلی امتیازات مٹانے کااعلان کیا تو دوسری طرف لوگ اس ماحول سے نہیں نکل پارہے تھے۔ قریش و انصار اور اوس و خزرج کے علاوہ قریش و اہل بیت کے نسلی امتیاز اور مسابقت میں خلافت وغیرہ پر بھی تصادم کے خطرات تاریخ کا حصہ رہے۔ زیدؓ سے نکاح کے باجود نسلی تفوق کا احساس زینبؓ کے دل و دماغ پر چھایا تھا، نبی ﷺ نے فرمایا : اگر اسلام میں تعظیمی سجدے کی اجازت ہوتی تو بیوی کو حکم دیتا کہ شوہر کو سجدہ کرتی۔ خوشگوار تعلق کیلئے میاں بیوی کے درمیان اس حدیث کی حیثیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور شوہر کو بیوی پر اللہ تعالیٰ نے جنسی لحاظ سے جو ایک درجہ دیا ہے اس میں فاعل اور مفعول کی حیثیت کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں ۔ بھارت کے اداکار عامر خان نے بچوں کو گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ سے آگاہی کی مہم چلائی، جو بھارتی فلموں میں بیڈ ٹچ کی مہم جوئی کو عام کرنے میں سب سے زیادہ بدترین کردار ادا کررہا ہے۔ میڈیا اندھوں میں کانا راجا نہیں اندھوں میں اندھا ہے ۔
حضرت زیدؓ نے حضرت زینبؓ کا وہ رویہ ملاحظہ کیا جس میں خاندانی اونچ نیچ کا اثر نمایاں تھا تو حضرت زینبؓ کو طلاق دینے کا فیصلہ کرلیا۔ طلاق کے بعد ایک خاتون کی حیثیت پر کتنا اثر پڑتا ہے ؟ ۔ مغرب میں مرد کو آدھی جائیداد سے محروم ہونا پڑتا ہے اور قرآن میں ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق میں آدھا حق مہر اور ہاتھ لگانے کے بعد پورا حق مہر اور جو کچھ بھی اس کو دیا ہے چاہے خزانے دئیے ہوں سب دینے پڑتے ہیں، طلاق شدہ اور کنواری میں واضح فرق ہوتا ہے۔ نبی ﷺ کی منشاء سے زینبؓ جب زیدؓ سے شادی کرسکتی تھیں تونبی ﷺ سے پہلے نکاح کرنے میں بہت عزت محسوس کرتیں۔ نبی ﷺ نے زیدؓ کو طلاق دینے سے بار بارروکاکہ اللہ سے ڈرو ، ایسا نہ کرو لیکن زیدؓ کو زینبؓ کا رویہ ناگوار اور ناقابل برداشت محسوس ہورہا تھا۔ حضرت زیدؓ نے طلاق دینے کا فیصلہ کیا تو نبی ﷺ نے حضرت زینبؓ کی دلجوئی کی خاطر سوچا کہ زینبؓ کا دکھ دور کرنے کیلئے ان سے نکاح کرلیں۔
جاہلیت کا ماحول اس قدر بگڑا ہوا تھا کہ لوگ سر عام اپنی سوتیلی ماؤں سے نکاح کرلیتے تھے مگر منہ بولے بیٹے کی منکوحہ سے طلاق کے بعد بھی نکاح کرنے کو ناجائز سمجھتے تھے۔ اس بری رسم کو مٹانے کیلئے اللہ تعالیٰ نے ایک طرف یہ واضح کیا کہ اپنے آباء کی منکوحہ خواتین سے نکاح مت کرو مگر جو پہلے گزر چکا ہے۔ دوسری طرف یہ وضاحت کی کہ ان بیٹوں کی بیویاں تم پر حرام ہیں جو تمہارے اپنے صلب سے ہیں۔ جاہلیت کی شریعت کو مٹانے کیلئے یہ کافی تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کے اُسوہ حسنہ کو مثالی بناکر اُمت مسلمہ کیلئے راہ ہموار کرنی تھی۔ رسول اللہ ﷺ کے ذہن و دل پر بھی یہ بات چھائی ہوئی تھی کہ زینبؓ جب زیدؓ کی بیوی رہی ہے جو رسول اللہ ﷺ کا منہ بولا بیٹا ہے تو لوگ کیا کیا باتیں اڑائیں گے؟، اس واقعہ کی پوری تفصیل سورۂ احزاب میں ہے۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے ظہار یعنی بیوی کی پیٹھ کو ماں کی پیٹھ سے تشبیہ دینا جس سے بیوی کو حرام سمجھا جاتا تھا اور منہ بولے بیٹے کی بیوی کے حوالے سے بھرپور وضاحت کردی۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ سے فرمایا و اذ تقول للذی انعم اللہ علیہ و انعمت علیہ امسک علیک زوجک و اتق اللہ و تخفی نفسک ما اللہ مبدیہ و تخشی الناس و اللہ احق ان تخشٰہ فلم قضیٰ زید منھا و طرًا زوجنٰکھا لکی لا یکون علی المؤمنین حرج فی ازواج ادعیاءھم اذا قضوا منھم و طرًا و کان امر اللہ مفعولا (اور اے پیغمبر! یاد کرو جب آپ کہہ رہے تھے اس شخص سے جس پراللہ نے احسان کیا تھا اور آپ نے بھی احسان کیا تھا کہ اپنی بیوی کو اپنے ساتھ رہنے دو ۔ اور اللہ سے ڈرو۔ اور اس بات کو اپنے دل میں چھپارہے تھے جس کو اللہ تعالیٰ نے واضح کرنا تھا۔ آپ لوگوں سے ڈرتے ہیں ، اللہ اس بات کا زیادہ حق رکھتا ہے کہ اس سے ڈرو۔جب زید نے اپنی بیوی سے تعلق ختم کردیا تو ہم نے اس کو تیرے نکاح میں دینے کا انتظام کیا تاکہ مسلمانوں کیلئے اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں سے نکاح کرنے میں اس وقت مشکل محسوس نہ ہو جب وہ اپنی بیویوں سے تعلق کو ختم کرلیں۔ اور اللہ کا حکم نافذ ہوکر رہتا ہے۔احزاب: 37)۔ اس آیت سے واضح ہے کہ کوئی صحابیؓ اتنی ہمت نہیں رکھتا تھا کہ وہ اپنے منہ بولے بیٹے کی طلاق شدہ بیوی سے شادی کرلیتا۔ پھر اللہ نے یہ بھی واضح کردیا کہ اس واقعہ کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ مسلمانوں پر منہ بولے بیٹوں کی طرف سے بیویوں کے طلاق کے بعد نکاح کرنے میں حرج نہ ہو۔
سورہ مجادلہ کی آیات میں ایک خاتون کا رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں اپنے شوہر کے حوالے سے مجادلے کا ذکر ہے۔ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد ناخلف جانشینوں نے ہر دور میں یہود و نصاریٰ کے علماء و مشائخ کی طرح اللہ تعالیٰ کے دین میں غلو کا ارتکاب کرتے ہوئے حقائق بگاڑنے میں انتہائی کردار ادا کیا ہے۔ ایک ساتھ 3طلاق پر حلالہ کی لعنت کا عمل ہوتا تھا۔ بیوی کی پیٹھ کو ماں کی پیٹھ سے تشبیہ دینے کے بعد حلالہ کے ذریعے بھی حلال ہونے کی گنجائش نہیں ہوتی تھی اسلئے حضرت خولہ بنت ثعلبہؓ نے ظہار کے بعد اپنے شوہر کیلئے مجادلہ کیا۔ رسول اللہ ﷺ بار بار فرماتے تھے کہ آپ حرام ہوچکی ہیں مگر وہ مسلسل بحث و تکرار کررہی تھیں جس پر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی کہ قد سمع اللہ قول التی تجادلک فی زوجھا ’’بیشک اللہ نے اس کی بات سن لی جو آپ (ﷺ) سے اپنے شوہر کیلئے جھگڑ رہی تھی اور اللہ سے شکوہ کررہی تھی۔۔۔ مائیں وہ ہیں جنہوں نے ان کو جنا ہے ۔ منہ سے بولنے پر بیویاں مائیں نہیں بنتیں یہ منکر اور جھوٹ قول ہے‘‘۔(سورہ مجادلہ)
دورِ جاہلیت میں بیوی کو کھلی فحاشی کی صورت میں قتل کیا جاتا تھا ، قرآن نے گھر سے ان کو نکالنے اور نکلنے کی اجازت دی اور قتل کرنے کے بجائے لعان کا حکم جاری کیا۔ انصار کے سردار حضرت سعد بن عبادہؓ نے برملا کہا کہ میں قرآن کی آیت پر عمل کے بجائے قتل کرونگا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں سعد سے زیادہ غیرتمند اور اللہ مجھ سے زیادہ غیرتمند ہے اور جب نبی ﷺ کو پتہ چلا کہ آپﷺ کی لونڈی ماریہ قبطیہؓ سے اس کا ایک ہم زبان ملتا رہتا ہے تو حضرت علیؓ کو اس شخص کے قتل کا حکم دیا تھا۔ حضرت علیؓ اس کو قتل کرنے کیلئے گئے تو اسکو مقطوع الذکر پایا جس کی وجہ سے قتل کرنے کے حکم پر عمل نہیں کیا۔ حضرت سعد بن عبادہؓ کی طرف سے طلاق شدہ بیوی کو دوسرے سے شادی کرنیکی اجازت نہیں دی جاتی تھی اور اللہ نے نبی ﷺ کی ازواج مطہراتؓ کو اُمہات المؤمنین قرار دیتے ہوئے کبھی ان سے نکاح کی اجازت نہ دی۔ لیکن جب حضرت عائشہؓ پر بہتان لگا تو نبی ﷺ نے اللہ کے حکم کے مطابق گھر سے نکالنے کا فیصلہ کیا مگر رسم جاہلیت کے مطابق قتل کرنے سے گریز کیا۔ آج معمولی شبہ کی بنیاد پر بیگمات کو قتل کیا جاتا ہے اور اللہ کے حکم کو نا قابل عمل سمجھا جاتا مگر علماء و مفتیان کے غلط فتوؤں کی بنیاد پر بیگمات کو خود ہی حلالے کیلئے پیش کیا جاتا ہے۔ رسم جاہلیت لوٹ کر آئی ہے اور اس کی وجہ معروف اسلام کا اجنبی بن جاتا ہے ، جس میں سب سے زیادہ کردار مذہبی کتابوں کا غلط در غلط نصاب اور علماء و مشائخ کا اسلام کی حقیقت سے دور ہونا ہے۔

فقہ حنفی کے اُصول و فروع اور حضرت علی ہجویریؒ کے علم کا اعتبار

ایک ہوشمند ، با فطرت، با صلاحیت اور با ہمت انسان کا خون کھولنے لگتاہے کہ یہ کونسی بکواس ہے کہ حضرت داؤد ؑ کی نظر اپنے مجاہد پڑوسی حضرت اوریا کی بیگم پر پڑی تو وہ اپنے شوہر کیلئے حرام ہوگئی اور حضرت داؤد ؑ کے نکاح میں آگئی۔ جیسے حضرت زیدؓ کی بیوی زینبؓ پر رسول اللہ ﷺ کی نگاہ پڑگئی اور وہ حضرت زیدؓ پر حرام ہوگئی اور نبی ﷺ کے نکاح میں آگئی۔
افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حنفی اُصول و فروع جو اُصول فقہ ، فقہ اور فتاویٰ کی کتابوں میں پڑھے اور پڑھائے جاتے ہیں اور ان پر فتوؤں کی شکل میں عمل درآمد کرایا جاتا ہے اس کا تقاضہ یہی ہے کہ حضرت علی ہجویری داتا گنج بخش کی بات سو فیصد درست ہو۔ کیونکہ حنفی مسلک میں یہ اصول پڑھایا جاتا ہے کہ و النکاح للوطی دون العقد ای یکون النکاح المذکور فی قولہٖ تعالیٰ لا تنکح ما نکح اٰبائکم من النساء محمولاً علی الوطی دون العقد فیشمل الوطی الحلال و الحرام و الوطی بملک الیمین ایضاً ۔۔۔۔۔۔ حقیقۃ النکاح الوطی و العقد مجازً ومن حیث الشرع بالعکس فالشافی حمل النکاح ھٰھنا علی معناہ المتعارف فلا یثبت حرمۃ المصاھرۃ بالزنا و نحن نحملہ علی حقیقۃ اللغویۃ فنثبت حرمۃ المصاھرۃ بالزناترجمہ’’اور نکاح کا لفظ جماع کیلئے ہے نہ کہ عقد نکاح کیلئے۔ اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے کہ ان عورتوں سے نکاح مت کرو جن سے تمہارے آباء نے نکاح کیا ہے۔ آیت سے مراد ہمارے نزدیک عقد نکاح نہیں بلکہ جائز اور ناجائز ہر طرح کا تعلق جماع مراد ہے۔ جو نکاح ، زنا اور لونڈی سے تعلق سب کو شامل ہے۔ لغت میں نکاح کا حقیقی معنی جماع ہے۔ اور مجازاً اس کو عقد کہا جاتا ہے۔ شرع میں یہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ امام شافعیؒ کے نزدیک یہاں نکاح کا معنی عرف عام کے مطابق ہے پس وہ ثابت نہیں کرتا زنا سے حرمت مصاہرت کو اور ہم حقیقت لغوی کا اعتبار کرتے ہیں اور حرمت مصاہرت کو زنا سے بھی ثابت کرتے ہیں‘‘۔ (نور الانوار : جلد ثانی۔مُلا جیون)
اس اختلاف کی بنیاد پر معاملہ بڑھاتے بڑھاتے فقہ و اصول فقہ کی کتابوں میں یہاں تک لکھ دیا گیا ہے کہ شہوت کے ساتھ ہاتھ کا لگنا اور نظر کا پڑجانا بھی نکاح و زنا کے حکم میں ہے۔ ساس سے جسم شہوت کے ساتھ لگ جائے تو بیوی حرام ہوجاتی ہے ، اس طرح اپنے بچوں پر غلطی سے شہوت کا ہاتھ لگ جائے تو بیوی حرام ہوجاتی ہے۔ ساس کی شرمگاہ کو باہر سے شہوت کے ساتھ دیکھنے میں عذر ہے لیکن اندر کی طرف سے شہوت کی نظر پڑ جانے سے بھی وہ نکاح کے حکم میں آجاتی ہے اور بیوی حرام ہوجاتی ہے۔ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے ادارہ تحقیقات اسلامی نے جو فتویٰ مرتب کیا ہے اس پر پاکستان کے 840 علماء و مفتیان نے دستخط کئے ہیں جو جہاد اور خود کش حملوں کے حوالے سے ہے۔ جس پر تمام مسالک اور پاکستان کے ریاستی اداروں کا اعتماد ہے۔ اسی ادارہ تحقیقات اسلامی نے ایک کتاب ’’احکام طلاق، مصنف حبیب الرحمن‘‘ مرتب کرکے شائع کی ہے اور اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ ’’اگر عورت عدت میں بیٹھی ہو تو شوہر کو چاہئے کہ اگر رجوع نہ کرنا چاہتا ہو تو پھر گھر میں داخل ہونے سے پہلے دروازے پر دستک دے تاکہ عورت سنبھل کر بیٹھ جائے اور ایسی جگہ شوہر کی نظر نہ پڑے جس سے شوہر کی آنکھوں میں شہوت آئے اور نہ چاہتے ہوئے بھی رجوع ہوجائے اور معاملہ گھمبیر بن جائے‘‘۔ حرمت مصاھرت کے حوالے سے یہاں تک غلو سے فقہ حنفی میں کام لیا گیا ہے کہ اپنی بیوی کو بھی اولاد جننے کے بعد شوہر کے جسم کا بیٹی کی طرح حصہ قرار دیا گیا ہے لیکن اُصولی طور پر ناجائز ہونے کے باوجود ضرورت کی وجہ سے اس سے ازدواجی تعلق جائز قرار دیا گیا ہے۔ اُصول فقہ ، فقہ اور فتاویٰ کی کتابوں میں یہ باتیں خفیہ نہیں ہیں بلکہ کھلے عام پڑھنے پڑھانے اور ان پر عمل درآمد کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ درس نظامی سے وابستہ علماء و مفتیان دن رات یہ مسائل پڑھتے پڑھاتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہاتھ کا زنا کسی کو شہوت سے ہاتھ لگانا ہے ، آنکھ کا زنا دیکھنا ہے اور پاؤں کا زنا اس فعل بد کی طرف چلنا ہے۔ حنفی مسلک میں شہوت کے ساتھ دیکھنے پر بھی زنا کے ساتھ ساتھ نکاح کا اطلاق بھی کیا گیا ہے۔ حرمت مصاھرت کے تمام مسائل اسی کے گرد گھومتے ہیں ۔ ان حقائق کے تناظر میں حضرت علی ہجویری ؒ داتا گنج بخش کی بات سمجھنے میں کوئی دشواری اسلئے نہیں ہے کہ جب شہوت سے نگاہ پڑنا زنا و نکاح کے حکم میں ہو ، اور کسی نبی کی نگاہ کسی اجنبی عورت پر پڑجائے تو حنفی مسلک کے مطابق وہ عورت نبی کے ہی نکاح میں آجائے گی اور نبی کے نکاح میں آنے کے بعد وہ اُمتی کیلئے ماں بن جائے گی اور اس امتی پر وہ عورت حرام ہوجائے گی۔ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ ایک صوفی عالم تھے اور ان کی تردید اسلئے علماء و مفتیان نے نہیں کی کہ جو کچھ علماء و مفتیان اپنے نصاب میں پڑھا رہے ہیں وہ اسکے عین مطابق تھا۔ حنفی مکتبہ فکر کے علماء و مفتیان کو اپنا نصاب ٹھیک کرنا ہوگا۔
اگر حرمت مصاھرت کے حوالے سے جزئیت اور بعضیت کا مسئلہ درست ہے ۔ جب ایک مرتبہ بچہ جننے کے بعد بیوی شوہر کیلئے بیٹی اور جزء بدن بن جاتی ہے جو اُصول فقہ میں پڑھایا جاتا ہے اور ضرورت کی وجہ سے بیوی شوہر کیلئے جائز قرار دی گئی ہے لیکن اصولی طور سے وہ شوہر کیلئے حرام ہے تو پھر جب شوہر بچوں کی ماں کو طلاق دیتا ہے تو حلالہ کی لعنت کے ذریعے سے بھی اس عورت کو حلال نہیں ہونا چاہیے جو بچوں کی وجہ سے اس کی بیٹی تھی۔ بہت بڑے بڑے علماء کرام اور مفتیان عظام کو علمی حقائق روز روشن کی طرح سمجھ میں آگئے ہیں مگر ان میں جرأت اور ہمت نہیں کہ حق کا بول بالا کرنے کیلئے اپنے ماحول کے خلاف جسارت کرسکیں۔ مساجد اور مدارس کو رشد و ہدایت کی آماجگاہیں بنانے کیلئے لازم ہے کہ نصاب کو درست کرنے کے اقدامات کئے جائیں۔ پہلی وحی تعلیم بالقلم اور قرآن کی واضح آیات میں کتاب مسطور اور ہاتھ سے لکھی ہوئی کتاب سے لیکر ایک ایک چیز میں مدارس کے اندر ایک گمراہانہ نصاب تعلیم پڑھایا جارہا ہے۔ متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے اس نصاب تعلیم کو درست کرنے کی کوشش کی جائے جس کیلئے ہماری خدمات حاضر ہیں تو انقلاب آجائے۔
ایک طرف جدید اسلامی دانشور طبقہ علماء و مفتیان کے تعلیمی نصاب کو سراسر گمراہی سے تعبیر کررہا ہے اور دوسری طرف انتہا پسند تنظیموں کی طرف سے اسلامی ممالک کے علاوہ ان مدارس اور مساجد کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنایا جارہا ہے جو حکمران طبقہ کے کہنے پر فتوے جاری کررہے ہیں۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی نے میڈیا پر کہا تھا کہ ’’ہم خود کش حملوں کو ناجائز نہیں قرار دے سکتے‘‘۔ اب انکا نام بھی خود کش حملوں کو ناجائز قرار دینے کے فتوے میں شامل ہوگیا ہے لیکن جب اسلامی بینکاری پر علماء و مفتیان ایک دوسرے کی بات نہیں مان رہے ہیں تو دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے ان علماء و مفتیان کے فتوؤں کو کون مانے گا جن کی حیثیت ہلال کمیٹی کی چیئر مینی سے زیادہ نہ ہو۔ چاند نظر آتا ہو اور ہلال کمیٹی کا چیئر مین کہے کہ میرا فیصلہ ہے کہ نہیں نظر آیا ۔ پوری دنیا میں عید الفطر ہی نہیں عید الاضحی منائی جاتی ہو اور پاکستان کی ریاست آٹھ آٹھ نمبر چشمہ رکھنے اور اس سے زیادہ موٹا دماغ رکھنے والے علماء و مفتیان کے رحم و کرم پر ہو تو یہ فتوے کس طرح سے مؤثر بن سکتے ہیں؟۔
پاکستان کے اصحاب حل و عقد موٹی موٹی باتوں پر اتفاق رائے سے وہ اسلامی نصاب تشکیل دیں جو قرآنی آیات ، احادیث صحیحہ اور درست اجتہادات کے تقاضوں کے عین مطابق ہو۔ جس سے پاکستان میں عالم اسلام اور عالم انسانیت کیلئے ایک بہترین معاشرتی نظام پیش کیا جائے۔ امریکہ ، بھارت اور اسرائیل پاکستان کو تباہ کرنے کے درپے ہیں اور ان کا راستہ روکنے کیلئے ہمیں شیعہ سنی ، حنفی اہل حدیث اور بریلوی دیوبندی فرقہ وارانہ اور متعصبانہ خیالات سے نکل کر اُمت وسط اور صراط مستقیم پر چلنا ہوگا۔ مدارس اور مساجد سے حقائق کی بنیادپر ایک ایسا انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے جو ہمارے سیاسی و معاشرتی ڈھانچے کو بدل کر رکھ دے گا لیکن سب سے پہلے مذہبی طبقات نے اپنے آپ کو بدلنا ہوگا۔

شیطانی القاء اورخیالات کو بدلنے کیلئے انقلابی راستہ اپنانا ہوگا

وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی الا اذا تمنیٰ القی الشیطان فی امنیتہٖ فینسخ اللہ ما یلقی الشیطان ثم یحکم اللہ اٰیٰتہٖ و اللہ علیم حکیم O لیجعل اللہ ما یلقی الشیطان فتنۃ للذین فی قلوبھم مرض و القاسیۃ قلوبھم و ان الظٰلمین لفی شقاق بعیدO ولیعلم الذین اُتوا العلم انہ الحق من ربک فیؤمنوا بہٖ فتخبت لہ قلوبھم و ان اللہ لھادالذین اٰمنوا الیٰ صراط مستقیم O ’’اور ہم نے آپ سے پہلے نہیں بھیجا کسی رسول کو اور نہ کسی نبی کو مگر یہ کہ جب اس نے خواہش ظاہر کی تو شیطان نے اس کی خواہش میں اپنی بات ڈال دی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے شیطان کی ڈالی ہوئی بات کو مٹادیا اور اپنی آیات کو محکم کردیا۔ اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ تاکہ شیطان کی ڈالی ہوئی بات کو ان لوگوں کیلئے فتنہ بنادے جن کے دلوں میں مرض ہے اور جن کے دل ڈھیٹ ہیں۔ اور ظالم لوگ دور کی کمبختی میں پڑے ہوئے ہیں۔ اور اسلئے کہ تاکہ جن لوگوں کو سمجھ دی گئی ہے وہ جان لیں کہ حق آپ کے رب کی طرف سے ہے اور اس پر وہ ایمان لائیں اور ان کے دل حق کیلئے جھک جائیں۔ اور بیشک اللہ ہدایت دینے والا ہے ایمان والوں کو سیدھی راہ کی طرف‘‘۔ (سورۃ الحج)
یہ سورت مدنی ہے اور القاء شیطانی سے مراد یہ نہیں ہے کہ شیطان انبیاء کرام ؑ کے دل میں پھونک مار کر اپنی باتیں ڈالتا تھا ، البتہ شیطان کے پھیلائے ہوئے جال اس قدر مضبوط ہوتے تھے کہ پورا ماحول شیطان نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوتا تھا۔ ظہار کے بارے میں سورہ مجادلہ اور لے پالک (منہ بولے بیٹے) کے بارے میں سورہ احزاب کی آیات اس کا واضح ثبوت ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آیات کے ذریعے سے ظہار اور لے پالک کے احکام کو واضح کردیا ۔ جبکہ نبی اور رسول کے علاوہ کسی اور کے پاس وحی کا کوئی ذریعہ نہیں جس کے ذریعے سے وہ شیطانی ماحول سے محفوظ ہوسکے۔ تمنا اور اُمنیت کا تعلق ظاہری الفاظ سے نہیں بلکہ یہ اندرونی کیفیت اور خواہش کا نام ہے۔ اُمنیت کی جمع عربی میں امانی ہے۔ قرآن میں بار بار تلک امانیھمکا ذکر ہے۔ ماحول کے اثرات سے جو خواہشات لوگوں کے دلوں میں جڑ پکڑ لیتی ہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس کی جگہ جگہ تردید کی ہے۔ یہود و نصاریٰ کے مذہبی طبقات نے بھی اپنے اپنے طور پر ماحول کے اثرات سے خواہشات پال رکھی تھیں۔
سورۂ نجم مکی دور میں نازل ہوئی تھی ۔ سورۂ نجم میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ جو وحی حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوتی ہے اس میں شیطان کا کوئی عمل دخل ممکن نہیں ہے۔ ایک طاقتور فرشتے جبرائیل ؑ کے ذریعے تمام خطرات سے یہ محفوظ ہے۔ افسوس کہ سورۂ نجم کے محور ہی کے برعکس ہماری تفاسیر اور روایات میں شیطانی آیات کا تصور بھی داخل کردیا گیا ہے۔ چنانچہ بعض مترجمین نے سورہ حج کی مندرجہ بالا آیت کا ترجمہ بھی یہ کیا ہے کہ ’’اور ہم نے تم سے پہلے جتنے رسول یا نبی بھیجے سب پر کبھی یہ واقعہ گزرا ہے کہ جب انہوں نے پڑھا تو شیطان نے ان کے پڑھنے میں لوگوں پر کچھ اپنی طرف سے ملادیا تو مٹا دیتا ہے اللہ تعالیٰ اس شیطان کے ڈالے ہوئے کو پھر اللہ اپنی آیتیں پکی کردیتا ہے‘‘۔ یہ ترجمہ مولانا احمد رضا خان اعلیٰ حضرت بریلوی نے کنز الایمان میں کیا ہے۔ حالانکہ سورہ حج مدنی سورت ہے اور سورہ نجم مکی سورت ہے۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ عوام اور نبی کے درمیان شیطان آیات میں بھی دخل اندازی دے سکتا ہے تو یہ سورۂ نجم اور قرآن کے مقاصد سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا ہے۔ سلمان رشدی کی کتاب ’’شیطانی آیات‘‘ بھی ان واقعات سے متعلق تھی۔ اُمت مسلمہ کو شیطان سے بچنے کیلئے فرقہ واریت سے نکلنا ہوگا۔
واقعہ یہ تھا کہ سورہ نجم میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کے ان عجیب و غریب خیالات کی تردید کی تھی کہ وہ اپنے لئے بیٹوں کو پسند کرتے ہیں اور اللہ کیلئے بیٹیوں کو پسند کرتے ہیں۔ لات منات اور عزیٰ مشرکین مکہ کی مختلف دیویاں تھیں۔ سورہ نجم میں ان کا ذکر بھی ہے اور سورہ نجم کے آخر میں سجدے کی آیت ہے ، یوں تو رسول اللہ ﷺ معمول کے مطابق سجدے سے پہلے رکوع کرتے تھے اور رکوع کے بعد قومہ کیلئے کھڑے ہوتے اور پھر سجدہ کرتے مگر سورہ نجم میں سجدے کی آیت کی وجہ سے اچانک سجدے میں چلے گئے تو مشرکین مکہ نے بھی اس غیر معمولی سجدے کو دیکھ کر اچانک سجدہ کرلیا۔ جس طرح موجودہ دور میں کوئی اچانک لیٹ جائے یا بھاگے اور ساتھ والے غیر ارادی طور سے اس کی اتباع کریں تو یہی ہوتا ہے۔ مشرکین مکہ نے اپنی اس خفت کو مٹانے کیلئے پروپیگنڈہ شروع کردیا کہ نبی ﷺ نے لات منات اور عزیٰ کیلئے تلک الغرانیق العلیٰ فان شفاعتھن ترتجی ’’یہ کنواری لڑکیاں بلند مقام رکھتی ہیں اور ان کی شفاعت کی اُمید ہے‘‘ تلاوت میں پڑھا جس کی وجہ سے ہم نے بھی سجدہ کرلیا۔ اس پروپیگنڈے کے نتیجے میں حبشہ ہجرت کرنے والے مسلمان بھی واپس آگئے لیکن مکہ کے قریب پہنچ کر ان کو غلط پروپیگنڈے کا پتہ چل گیا۔ بعض واپس چلے گئے اور بعض مکہ میں رک گئے۔ جو سیرت کی کتابوں میں بھی موجود ہے۔ سورہ حج میں شیطان کے القاء کے حوالے سے سورہ نجم کی من گھڑت شیطانی آیات کا کوئی تعلق نہیں۔ البتہ داتا گنج بخش کی عبارت ، مولانا احمد رضا خان بریلوی کے ترجمے ،شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے جو سُود کو جواز بخشنے اور مختلف ادوار میں اسلام کی حقیقت کو مسخ کردینے والے افراد کی ان باتوں کو شیطانی القاء قرا ردیا جائے جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد ؑ کے حوالے سے فرمایا ہے کہ لی نعجۃ ولہ تسع و تسعون نعجۃ۔۔۔ ’’میرے پاس ایک دنبی اور اس کے پاس 99دنبیاں ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ ایک بھی مجھ سے واپس لے۔ جب ایک شخص نے حضرت داؤد ؑ کو اپنا واقعہ بتایا کہ میرا بھائی میرے ساتھ یہ ظلم کررہا ہے اور حضرت داؤد ؑ نے فرمایا کہ اگر واقعی وہ ایسا کررہا ہے تو وہ غلطی پر ہے ۔ پھر اس کی وجہ سے حضرت داؤد ؑ کو تنبیہ ہوئی اور اپنی بات پر اللہ سے مغفرت مانگی اور اللہ نے معاف کردیا‘‘۔ اس واقعہ کے ضمن میں یہ لکھا گیا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کی نظر حضرت اوریا کی بیگم پر پڑی اور دل میں خواہش ہوئی کہ ان سے نکاح کرلیں۔ پھر جب وہ محراب میں بیٹھے تھے اور دروازے بند تھے آنے کی کوئی راہ نہ تھی ، کچھ لوگوں کو آتے دیکھ کر گھبرا گئے اور پھر انہوں نے اپنا قصہ سنایا تو اس کی وجہ سے تنبیہ ہوئی اور اللہ سے معافی مانگ لی اور اللہ نے معاف کردیا۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی نظر کسی خوبرو خاتون پر پڑی تو نبی کریم ﷺ اپنے گھر میں تشریف لے گئے اور اپنی گھر والی سے جماع کرلیا اور فرمایا کہ جس کسی کے ساتھ ایسا ہو تو اپنی بیوی کے پاس جائے ، جو چیز کسی اور عورت کے پاس ہے وہ اس کی بیوی کے پاس بھی ہے۔
قرآن و سنت معاشرے کی اصلاح کیلئے بہترین سرمایہ ہیں۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور جہاد کے علاوہ معاشرتی احکامات کے ذریعے سے معاشرتی اقدار کا تحفظ بھی ان میں موجود ہے۔ بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے خواب میں حضرت عائشہ صدیقہؓ کی تصویر دکھائی گئی تھی کہ یہ تمہاری زوجہ ہوگی، میں نے سوچا کہ اگر یہ خواب اللہ کی طرف سے ہے تو پورا ہوگا اور شیطان کی طرف سے ہے تو پورا نہیں ہوگا۔ اس حدیث سے سبق لیتے ہوئے علماء و مشائخ کو بھی چاہئے کہ شیطانی القاء اور اجتہادات سے بچنے کے راستے تلاش کریں۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے 14سو سال پہلے جسطرح ماحول کی اصلاح کردی تھی آج دور جاہلیت کے مقابلے میں انسانی شعور زیادہ بیدار ہے اور قرآن و سنت پر عالم انسانیت کو عمل کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہے۔ جاہل تو جاہل جن کی اٹھک بیٹھک اور اوڑھنا بچھونا مذہب سے تعلق رکھتا ہے وہ بھی قرآن کے فطری احکامات کی طرف رجوع نہیں کررہے ہیں۔ جب بڑے مدارس ناجائز حلالے کی لعنت کے فتوے دینگے جس سے لوگوں کی بیویوں ، ماؤں ، بیٹیوں اور بہنوں کی عزتیں تار تار ہونگی تو کسی اور سے کیا اُمید رکھی جاسکتی کہ وہ اپنے معاش اور نفسانی خواہش کیلئے کچھ نہ کریں۔عتیق گیلانی

مولانا مفتی ابوبکر سعیدالرحمن رئیس دارالافتاء جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کاتین مرتبہ طلاق سے متعلق سوال 

molana-mufti-abubakar-saeed-ur-rehman-raees-darulifta-jamia-binori-town-karachi-ka-3-times-talaq-se-mutalliq-sawal

مسلمان مرد عورت نکاح کرلیتے ہیں۔پھر کسی وجہ سے شوہر ایک طلاق دیتاہے اور پھر کسی اور موقع پر طلاق دیتاہے۔ پھر کسی اور موقع پر طلاق دیتا ہے۔ دومرتبہ کی طلاق کے بعد رجوع کرلیتا ہے اور تیسری مرتبہ پھر طلاق دیتا ہے تو کیا عدت کے بعد عورت حرام ہوگئی یا نہیں؟۔اگر حرام ہوگئی تو رجوع کیلئے کیا طریقہ ہوسکتاہے؟۔
الجواب بالصدق الثواب بضل اللہ تعالیٰ ہذا فصل الخطاب
شیخ الہندؒ نے قرآن کی طرف متوجہ کرنے کی بات فرمائی تھی۔ مسلک حنفی کی بنیاد ہی یہ ہے کہ قرآن ہی کو اولیت دی جائے،جب احادیث صحیحہ کے مقابلے میں آیت کوترجیح حاصل ہو توکسی کا کوئی اجتہاد قرآن وسنت کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتا ہے؟۔ اکابرینؒ کے خلوص میں شک نہیں لیکن قرآن کی طرف متوجہ نہ ہونا ایک المیہ رہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اللہ کی بارگاہ میں قیامت کے دن یہی شکایت کرنی ہے وقال الرسول یا رب ان قومی اتخذوا ہذا القرآن مھجورا ’’میرے ربّ بیشک میری قوم نے اس قرآن کوچھوڑ رکھا تھا‘‘۔(القرآن)۔
ایک تاریخی غلطی یہ ہوئی کہ قرآن کی طرف توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے آج اسلام اجنبیت کا شکار ہوا ہے۔ نبیﷺ نے یہ خبر دی تھی کہ اسلام کا آغاز اجنبیت کی حالت میں ہوا ، عنقریب یہ پھر اجنبیت کی طرف لوٹ جائیگا، خوشخبری ہے اجبنیوں کیلئے‘‘۔اور یہ بھی فرمایا تھا کہ ’’وہ اجنبی میرے سامنے حاضر کیا گیا، میں نے دائیں جانب سے التفات کیا اور پھر بائیں جانب سے التفات کیا وہ نہیں دکھتا تھا مگر اجنبی، اسکے سامنے قرآن اپنی پوری عظمت کیساتھ روشن ہو گیا،اسکے ہزارہاہزار گناہ معاف ہوئے اور ہزارہا ہزار نیکیاں مل گئیں، وہ مرا تو شہید (گواہ)کی منزل تک پہنچا‘‘۔
طلاق سے رجوع کیلئے قرآن میں تین اقسام کی آیات ہیں۔ ایک یہ کہ عدت کے اندر اصلاح سے مشروط رجوع ہوسکتا ہے، البقرہ :228 اورالطلاق:1۔ دوسری یہ کہ عدت کی تکمیل پر رجوع ہوسکتا ہے۔ البقرہ:231، الطلاق:2۔ تیسری قسم کی آیات ایسی ہیں کہ عدت کی تکمیل کے بعد ہمیشہ کیلئے رجوع کا دروازہ اللہ نے کھلا رکھا ہے۔ البقرہ:232، الطلاق:2۔یہ قرآنی آیات کند ذہن لوگوں کا دماغ بھی کھولنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ان میں مقدم اور جوہری بات آپس کی اصلاح ہے۔ جس کی آیات میں بھرپور طریقے سے وضاحت کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں قرآن نے ایک اور طرح سے بھی طلاق کے مسئلے پر واضح روشنی ڈالی ہے۔ میاں بیوی کے درمیان طلاق کی زیادہ سے زیادہ صورتیں یہ تین ہی ہوسکتی ہیں۔
1: میاں بیوی نے جدائی کا فیصلہ کیا ہواور معاشرے کے افراد بھی اس بات پر متفق ہوں کہ دونوں کیلئے آئندہ کوئی ایسی چیز بھی درمیان میں نہ چھوڑیں جس کی وجہ سے میل ملاپ ہو اور پھر دونوں اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکیں۔ یہ وہ صورت ہے کہ جس میں رجوع کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا بلکہ ایک اور معاشرتی برائی سامنے آتی ہے کہ شوہر اس طلاق کی صورت میں عورت کو اس کی مرضی کے مطابق کسی اور شوہر سے نکاح نہیں کرنے دیتا ہے اسلئے اللہ نے وضاحت کردی کہ اس کیلئے حلال نہیں یہانتک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرلے۔اسکا ذکر البقرہ آیت:230 میں ہے۔
2: طلاق کی دوسری صورت یہ ہے کہ شوہر نے طلاق دی ہے لیکن عورت طلاق نہیں چاہتی ہو۔ اس صورت میں طلاق کی عدت مکمل ہونے پر بھی شوہر کو رجوع کا اختیار واضح طور سے دیا گیا ہے۔ یہ صورت البقرہ:231 اورالطلاق:2میں ہے۔
3: طلاق کی تیسری صورت یہ ہے کہ عورت ضد کرکے طلاق لے اور عدت کے بعد وہ دوبارہ اپنے شوہر سے ازدواجی تعلق بحال کرنا چاہتی ہو تو رجوع کی اجازت ہے جب معروف طریقے سے آپس میں راضی ہوں۔ البقرہ:232اور الطلاق:2
ان واضح آیات کے مقابلے میں کوئی ایک بھی ایسی حدیث نہیں جس میں عدت کے اندر، عدت کی تکمیل پر اور عدت کے عرصہ بعد رسول اللہﷺ نے یہ حکم دیا ہو کہ حلالہ کروائے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا۔ بلکہ نبیﷺ نے حلالہ کو دورِ جاہلیت کی لعنت قرار دیا ہے۔ یہ بہت گھناؤنی خام خیالی ہے کہ تین طلاق کو سزا تصور کیا جائے۔ چور،چورنی،زانی ، زانیہ اور بہتان تراشی وغیرہ جرائم پر سزا ایک فطری بات ہے لیکن مرد کے الفاظ کی سزا عورت ، خاندان اور معاشرے کو دیدینا اسلام اور انسانی فطرت کے منافی ہے۔ جو لوگ حلالہ کی لعنت اور حرامکاری کے رسیا ہیں ان پر جب تک حدِ زنا کی حد جاری نہ کی جائے یہ عادی مجرم لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔
صحابہ کرامؓ کے دور میں حلالہ کی لعنت کا مسئلہ نہیں تھا۔ صحیح اور ضعیف روایات کی تحقیق سے معاملہ روزِ روشن کی طرح واضح ہے۔ ائمہ مجتہدینؒ کا اجماع درست تھامگر بعد کے لوگوں نے معاملات بگاڑ دئیے ۔ اسلامی شریعت میںیہ طے ہے کہ تنازعہ کا پہلا حل قرآن میں ڈھونڈا جائیگا، قرآن میں موجود نہ ہو تو سنت رسولﷺ میں تلاش کیا جائیگا اور احادیث میں نہ ہو تو اجتہاد کی نوبت آئے گی اور یہی درست راہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: والمطلقٰت یتربصن بانفسھن ثلاثۃ قروء و لا یحل لھن ان یکتمن ماخلق اللہ فی ارحامھن ان ےؤمن باللہ والیوم آخر وبعولتھن احق بردھن فی ذلک ان ارادو ااصلاحاً ’’اور مطلقہ 3 ادوار(طہرو حیض کے مرحلے یا3ماہ) تک خود کو انتظار میں رکھیں۔ اور ان کیلئے حلال نہیں کہ چھپائیں جو کچھ بھی انکے رحموں میں اللہ نے پیدا کیاہے اگر وہ اللہ وآخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہیں، اس مدت میں انکے شوہر ان کو لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں اگر وہ اصلاح کا ارادہ رکھتے ہوں‘‘۔ (البقرہ:228)
اس آیت میں کھلا فتویٰ موجود ہے کہ اگر کوئی شخص عدت کے دوران تسبیح لیکر بھی طلاق طلاق طلاق کی رٹ شروع کردے تو عدت کے دوران آخری وقت تک وہی رجوع کااصلاح کی شرط پر زیادہ حق دار ہے۔ تین مرتبہ نہیں تیس مرتبہ بلکہ تین لاکھ مرتبہ بھی عدت کے دوران طلاق طلاق کی رٹ لگائی ہو ، عدت حمل کی صورت میں ہوگی تو بچے کی پیدائش تک اللہ تعالیٰ نے اصلاح کی شرط پر رجوع کا دروازہ کھلا رکھا ہے بلکہ عورت کو بھی دوسری جگہ نکاح نہ کرنے کا پابند بنایا ہے۔اور عدت طہرو حیض کی صورت میں ہو تو بھی عدت کے آخر تک رجوع کا دروازہ کھلا ہے۔قرآن کی اس آیت سے کوئی دوسری آیت متصادم ثابت کی جائے تو اللہ تعالیٰ کا یہ دعویٰ ہی باطل ثابت ہوگا کہ افلایتدبرون القرآن ولو کان من عندغیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافاً کثیراً ’’ وہ قرآن پر تدبر کیوں نہیں کرتے؟، اگر اللہ کے علاوہ کسی کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سارا اختلاف (تضادات) وہ پاتے‘‘۔(القرآن)
پہلی ترجیح میاں بیوی کے درمیان صلح کی یہی ہے کہ آپس میں معاملہ حل کریں، دوسری ترجیح یہ ہے کہ جب وہ معاملہ حل کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوں توایک ایک رشتہ دار دونوں خاندانوں سے حکم مقرر کیا جائے۔ وان خفتم شقاق بینھما فابعثوا حکماً من اہلہ وحکماً من اہلہا وان یریدا اصلاحاً یوفق اللہ بینھما ’’اور اگر تمہیں خوف ہو کہ دونوں کے درمیان جدائی ہوگی تو ایک حکم شوہر کے خاندان سے اورایک حکم عورت کے خاندان سے تشکیل دو، اگر دونوں اصلاح کا چاہتے ہوں تو اللہ دونوں میں موافقت پیدا کردے گا۔ (النساء :135)
جب میاں بیوی خود بھی معاملہ حل نہ کرنا چاہتے ہوں، رشتہ داروں کے بس میں بھی معاملے کا حل نہ ہو تو معاملہ حکمران کے پاس جاتا ہے۔ حضرت عمرؓ اپنے دور کے حکمران تھے۔ ایک شخص نے ایک ساتھ تین طلاقیں دیں۔ میاں بیوی بھی آپس میں صلح کرتے یارشتہ دار صلح کروالیتے تو معاملہ حل ہوجاتا لیکن معاملہ انکے بس میں نہیں تھا اسلئے شوہر نے حضرت عمرؓ کے دربار میں استدعا کی۔ اسکے ذہن میں یہی ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں دو الگ الگ مرتبہ بھی طلاق سے رجوع کو جائز قرار دیا ہے تو یہ میرا حق ہے کہ رجوع کرلوں۔ حضرت عمرؓ نے تنازعہ کا حل قرآن کی آیات سے ہی ترجیحاً دینا تھا اور آپؓ کو قرآن کھول کردیکھنے کی ضرورت نہیں تھی اسلئے فیصلہ کردیا کہ ’’ ایک ساتھ تین طلاق کی جہالت کا شوہر نے غلط ارتکاب کیا ہے، اور حکم نافذ کردیا کہ آئندہ بھی کوئی اس قسم کا کیس آئیگا تو یہی فیصلہ نافذ کردیا جائیگا، اللہ کی رعایت کے عدت کے تین مراحل میں مرحلہ وار طلاق دی جائے اور مرحلہ وار طلاق میں رجوع کی اجازت ہے اس رعایت کا تم غلط فائدہ اٹھارہے ہو‘‘۔
حضرت عمرؓ کا یہ فیصلہ قرآن کے عین مطابق تھا اسلئے کہ اللہ تعالیٰ نے رجوع کے حق کو صلح اور اصلاح کیساتھ مشروط کردیا تھا۔ جب عورت صلح نہیں چاہتی تھی تو شوہر کو عدت میں بھی اللہ تعالیٰ نے رجوع کا حق نہیں دیا ہے۔ آج دنیا کی تمام عدالتیں بھی قرآن کریم کی آیت اور حضرت عمرؓ کے اس فیصلے کے مطابق یہی فیصلہ دیتی ہیں کہ اگر عورت صلح کیلئے راضی نہ ہو تو علیحدگی کا فیصلہ جاری کردیتی ہیں۔ نبی کریم ﷺ کی حدیث میں سچائی ہے کہ واشدھم فی امر اللہ عمر ’’صحابہؓ کے اندر سب سے زیادہ اللہ کے حکم میں عمر سخت ہیں‘‘۔واقضی ٰھم علی’’اور ان میں سب سے زیادہ اچھے علی ہیں‘‘۔ حضرت عمرؓ نے قرآن کی روح کے مطابق فیصلہ نافذ کردیا اور خواتین کے حقوق کیلئے یہ قرآن وسنت اور فطرت کے عین مطابق تھا۔ حضرت علیؓ کو اس فیصلے سے کوئی اختلاف نہیں تھا مگر آپؓ اس بات کو سمجھتے تھے کہ لوگ اس سے غلط فائدہ اٹھالیں گے اسلئے یہ وضاحت کردی کہ’’ ایک ساتھ تین طلاق کے باوجود بھی باہمی رضامندی سے رجوع ہوسکتا ہے‘‘۔ تاہم جب تنازعہ کی صورت ہوتی تھی تو یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حضرت علیؓ یہی فتویٰ دیتے تھے کہ ایک ساتھ تین طلاق واقع ہوگئی ہے، اب تمہارے لئے رجوع کرنا حرام ہے، یہاں تک کہ وہ عورت دوسرے شوہر سے نکاح کرلے۔ اس سے بھی بڑھ کر کوئی بیوی سے کہہ دیتا کہ تم مجھ پر حرام ہو توبھی حضرت علیؓ کا فتویٰ تنازعہ کی صورت میں یہی ہوتا تھا کہ تین طلاق واقع ہوچکی ہیں،اب رجوع کی گنجائش نہیں ہے یہانتک کہ عورت کسی اور سے نکاح کرلے۔
ایک طرف باہمی رضامندی سے صلح واصلاح کا معاملہ تھا تو اس پر قرآن نے پابندی نہیں لگائی ہے تو حکمران بھی نہیں لگا سکتا تھا۔ دوسری طرف طاقتور شوہر سے عورت کو چھٹکارادلانے کا مسئلہ تھا تو اللہ نے قرآن میں صلح کی شرط رکھ کر شوہر کو اپنی حدود سے باہر نکلنے کا راستہ نہیں دیا۔ علماء کرام اور مفتیانِ عظام اس بات کو سمجھیں کہ نکاح وطلاق کا مسئلہ معاشرتی ہے، اس میں ریاضی کی طرح حساب کتاب نہیں لیکن مصیبت یہ ہے کہ علماء کرام ریاضی کو سمجھتے ہیں اور نہ ہی معاشرتی اقدار کو سمجھتے ہیں اور اصولِ فقہ کو بھی نہیں سمجھتے ، فقہ کے لکھے لکھائے مسائل اور فتاویٰ کو شریعت کا معیارسمجھ لیا ہے۔ قرآن نے انتہائی بلاغت کیساتھ جہاں طلاق سے رجوع کیلئے صلح کی شرط کو ضروری قرار دیا ہے وہاں ہر بار معروف رجوع کو واضح کردیا ہے، معروف رجوع کا مطلب ہی باہمی صلح اور اصلاح کی شرط پر رجوع ہے جبکہ حنفی مسلک میں رجوع کی عجیب وغریب منکر صورتیں ہیں اور شافعی مسلک میں اس سے متضاد منکر صورتیں ہیں جو مستند قرار دی جانے والی کتابوں میں بہت ہی شرمناک انداز میں موجود ہیں۔اگر اتنی سی بات قرآن کی واضح آیات کی روشنی میں عوام کو بتادی جاتی کہ قرآن معاشرتی اصلاح کی بہترین کتاب ہے، اللہ نے عدت میں رجوع کا دروازہ باہمی اصلاح کی بنیاد پر کھلا رکھاہے۔ اگر عدت کی مدت مکمل ہوجائے تو بھی رجوع کاراستہ نہیں روکا ہے اسلئے کہ بار بار عدت کی تکمیل پر رجوع یاچھوڑنے کی وضاحت ہے۔ پھر فقہ کی کتابوں میں فضول قسم کی باتیں نہیں لکھی جاتیں کہ’’ آدھے سے زیادہ بچہ ماں کے پیٹ سے نکل گیاتو رجوع نہیں ہوسکتا اور کم نکلا ہے تو رجوع ہوسکتا ہے‘‘۔
اگر علماء کرام اور مفتیان شرع متین اس بات کو سمجھ لیتے کہ جس اللہ نے طلاق کا مقدمہ اس آیت سے شروع کیا کہ لاتجعل اللہ عرضۃ لایمانکم ان تبروا وتتقوا وتصلح بین الناس ’’ اللہ کو نیکی ،تقویٰ اور لوگوں کے درمیان مصالحت نہ کرنے کیلئے ڈھال مت بناؤ‘‘۔(البقرہ:224)تو فتوؤں کی آڑ میں اللہ پاک کا نام لیکر تفریق کے بجائے مصالحت کی راہ ہموار کرتے۔البتہ جہاں طاقتور مردوں کا مسئلہ آتا ہے کہ عورت چھوڑنے کی ضد کرتی ہوں اور شوہر چھوڑنا نہیں چاہتاہو تو اللہ نے مصالحت کے بغیر شوہر کو رجوع کیلئے کوئی گنجائش نہیں دی ۔ حضرت عمرؓ نے خیر کی بنیاد رکھ دی۔ قرآن کے مطابق تنازعہ کا فیصلہ دیدیا کہ اکٹھی تین طلاق سے رجوع نہیں ہوسکتا، لیکن افسوس کہ حضرت عمرؓ کے فیصلے کو قرآن کے مطابق درست جانچنے کے بجائے اس کی سراسرغلط اور بے بنیاد توجیہات بیان کی گئیں ہیں اور اسکے نتیجے میں امت مسلمہ قرآن سے دور ہوگئی۔ ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ حضرت عمرؓ نے درست فیصلہ فرمایا کہ مصالحت کے بغیر تین نہیں ایک طلاق پر بھی رجوع کا دروازہ بند ہوجاتا ہے تو قرآن اور اسلام سے ہم دور نہ ہو جاتے۔ خواتین کی مصلحت کیلئے اللہ تعالیٰ نے تنازعہ کی صورت میں اصلاح کی شرط رکھ دی تھی۔ جس پر حضرت عمرؓ نے کماحقہ عمل کیا۔طاقتور مردوں سے کمزور خواتین کی جان چھڑانے کیلئے 3طلاق ہی نہیں بلکہ حرام اور دیگر بہت سے الفاظ صریح و کنایہ میں بھی علماء وفقہاء نے فتوے مرتب کئے کہ اس لفظ سے تین طلاق واقع ہوجاتی ہیں اور شوہر کیلئے رجوع کرنا حرام ہوجاتا ہے،یہاں تک کہ عورت دوسرے شوہر سے شادی کرلے۔ یہ بھی قرآن سے اس بنیاد پر مناسبت رکھتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مرد کی طاقت کو قرآن کی روح سے لگام دی ہے کہ جب وہ صلح نہیں کرنا چاہتی ہو تو اس کیلئے حلال نہیں کہ وہ دوسری جگہ نکاح نہ کرنے دے، مرد کی طاقت کو لگام دینے کیلئے صرف مرحلہ یا اکٹھی تین طلاق نہیں بلکہ کوئی بھی ایسالفظ جس سے عورت مصالحت پر راضی نہ ہو اور وہ مجبور کرتا ہو ، یہ فتویٰ دینا درست ہے کہ اس پر حرام ہوگئی ہے۔ یہ شوہر کی بلاوجہ خود کو عورت کا زبردستی سے مالک بن جانے کے خلاف زبردست اور درست راستہ تھا۔
بہت کم تعداد میں ایسے لوگ بھی تھے جن کا فتویٰ یہ تھا کہ ایک ساتھ تین طلاق کے باوجود عورت راضی نہ بھی ہو تو شوہر کو رجوع کا حق حاصل ہے۔ امام ابوحنیفہؒ کے استاذ فقیہ امام حمادؒ کا بھی یہی مسلک تھا لیکن یہ قرآن وسنت اور صحابہ کرامؓ کے مقابلہ میں ایک اقلیت کی رائے تھی۔ علامہ ابن تیمیہؒ اور ابن قیمؒ بھی بعد میں شریک ہوگئے، چاروں امام حضرت امام ابوحنیفہؒ ، حضرت امام مالکؒ ، حضرت امام شافعیؒ اورحضرت امام احمد بن حنبلؒ کا اتفاقِ رائے سے یہی مسلک تھا کہ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد شوہر کو رجوع کا حق حاصل نہیں ۔اگر اسکے برعکس فتویٰ دیاجاتا تو یہ خواتین کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی تھی اور قرآن وسنت اور صحابہ کرامؓ و ائمہ مجتہدین ؒ سے بدترین انحراف تھا۔ پھرنالائق درباری علماء نے حیلے کرکے خواتین کی حق تلفی کاا رتکاب کیا۔
حضرت امام ابوحنیفہؒ سے بادشاہ نے کہا کہ میری بیوی دوسری شادی نہیں کرنے دیتی ہے ، آپ بتائیں کہ اسلام میں اس کی اجازت ہے یا نہیں؟۔ امام ابوحنیفہؒ نے آیت پڑھی جس میں دودو، تین تین اور چار چار کی اجازت ہے لیکن عدل نہ کرسکو تو پھر ایک کی بات ہے۔ ملکہ خوش ہوگئی اور بادشاہ ناراض ہوا تو اس کو بعض لوگوں نے امام ابوحنیفہؒ کی قید کا سبب قرار دیا ہے۔ بادشاہ نے بیوی سے کہا کہ اگر صبح کی آذان تک زبان سے کوئی بات نہیں کہی تو تجھے تین طلاق۔ عورت نے اس کو جان چھڑانے کیلئے غنیمت سمجھا اور ہرطرح کی منت سماجت اور تشدد سے نہ مانی اور دھمکی کو خاطر میں نہیں لائی ۔ تو بادشاہ نے رات گئے درباری مُلاامام مسجد سے مدد مانگ لی۔ امام نے کہا کہ بے فکر رہو، تمہارامسئلہ حل کردیتا ہوں۔ تھوڑی دیر بعد آذان کی آواز آئی تو عورت پھٹ پڑی کہ میں کب سے جان چھڑانے کی فکر میں تھی، اب اللہ نے موقع دیدیا تواپنی زندگی راحت سے گزاروں گی وغیرہ اور گھر سے نکل کر چلی گئی۔ بادشاہ کو خیال آیا کہ امام صاحب نے میرے لئے کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا اور جھوٹی تسلی بھی دی اسلئے اسکی خبر لینے پہنچ گیا، بادشاہ کو غصہ میں دیکھ کر امام نے کہا اس نے بات کی تو بادشاہ نے کہا کہ بات بھی کی اور گھر سے نکل کر چلی بھی گئی ،آپ نے دھوکہ دیاہے امام صاحب نے کہا کہ طلاق نہیں ہوئی ہے، میں نے فجر نہیں تہجد کی آذان دی ہے۔ بادشاہ نے خوش ہوکر انعام واکرام سے امام صاحب کو نوازا۔ اور بیوی کو دوبارہ اپنے نکاح کی قید کا پابند کردیا۔ (یہ اور اس طرح کے دوسرے واقعات امام ابوحنیفہؒ کے نہیں تھے بلکہ درباری شاگردوں کے واقعات کو امام ابوحنیفہؒ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ مفتی محمد اکمل صاحب ٹی وی پر مسائل بیان کرتا ہے ،اس کی ایک ویڈیو کلپ ہے کہ’’ حلالہ کو غلط کہنا جہالت ہے، اس کا انکار قرآن اور اللہ کے حکم کا انکار ہے، امام ابوحنیفہؒ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ خاندان بسانے کی نیت سے حلالہ کرنے والوں کو ثواب بھی ملے گا‘‘۔موصوف ٹی وی پر بھرپور میک اپ اور سنگار کرنے سے لگتاہے کہ حلالہ کی شباشی اور کارِ لعنت کو ثواب سمجھ کر ہمہ وقت تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ حلالہ کے جواز کے بھی امام ابوحنیفہؒ قائل نہیں تھے ، موزے پر مسح کے جواز کیلئے امام ابوحنیفہؒ نے اس وقت تک فتویٰ نہیں دیا جب تک 70مستند احادیث نہیں ملیں،جبکہ حلالہ کے جواز تو بہت دور کی بات ہے ،نبی ﷺ نے حلالہ کی لعنت کا راستہ روکاہے )
اصول فقہ اور فقہ کی کتابوں میں جو مسائل امام ابوحنیفہؒ کی طرف منسوب ہوئے ہیں، وہ امام صاحب کامسلک نہیں بلکہ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی نے کہا ہے کہ 15% امام ابوحنیفہؒ اور85%انکے شاگردوں کے مذہب کے مطابق مسلک حنفی کی فقہ تیار کی گئی ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ جن مسائل کو امام ابوحنیفہؒ اور آپ کے شاگردوں کی طرف منسوب کیا گیا ہے وہ بھی امام ابوحنیفہؒ اور ان کے شاگردوں کے نہیں بلکہ ان کی طرف اصول مرتب کرکے بہت بعد میں نکالے گئے۔ فقہاء کے 7درجات میں اصحاب اصول اور اصحاب تخریج کے اندر اونچ نیچ کا تصور ہے۔امام ابوحنیفہؒ اور انکے شاگردوں کو پتہ بھی نہ ہوگا کہ ان کے پیچھے ان کے نام پر لوگ کیا کیا گل کھلائیں گے۔ اصول فقہ کی کتاب ’’نورالانوار‘‘ میں امام ابوحنیفہؒ اور شاگردوں کی طرف ’’ف‘‘ تعقیب بلامہلت کیلئے جس اختلاف کو منسوب کیا گیا ہے ،ان کے فرشتے بھی نہیں جانتے تھے کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق کا معاملہ ہو ،تب ہی ان دخلت داراًفانت طالق ( اگر تو گھر میں داخل ہوگئی تو تجھے طلاق)کے جملے میں کس کس کے نزدیک کس طرح پہلی اور تیسری طلاق واقع ہوگی اور دوسری واقع نہ ہوگی یا دوسری طلاق واقع ہوگی اور پہلی و تیسری طلاق واقع نہیں ہوگی؟۔ جو اصول اماموں کی طرف منسوب کئے گئے ہیں وہ بھی خود ساختہ ہیں اور بعد میں آنے والوں نے جن مسائل کا استخراج کیا ہے وہ بھی خود ساختہ ہیں۔
مدارس کے اندھوں میں کانا راجہ اور اسلامی بینکاری کے خود ساختہ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے لکھا تھا کہ ’’ صاحبِ ہدایہ نے اپنی کتاب تجنیس میں لکھاہے کہ سورۂ فاتحہ کو علاج کیلئے پیشاب سے اس شرط پر لکھنا جائز ہے کہ علاج کا یقین ہو۔ مگر مجھے امام ابویوسف کی کتابوں میں تلاش کے باوجود یقین کی شرط کہیں نہیں ملی‘‘۔ تکملہ فتح الملھم ، فقہی مقالات جلد چہارم۔ اس عبارت میں صاحبِ ہدایہ کو اصحاب تخریج قرار دیا گیا ہے جو مسائل کی تخریج کرتے ہیں اور امام ابویوسف کو صاحب اصول قرار دیا گیا ہے۔ جس کا واضح مطلب یہ تھا کہ سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کے جواز کیلئے اصول کے اعتبار سے امام ابویوسف کی بات درست تھی اور صاحبِ ہدایہ سے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کیلئے صاحب ہدایہ کی طرف سے جو یقین کی شرط رکھی ہے اس کا اصول سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یعنی علاج کے یقین کی شرط کے بغیر بھی سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے۔ جس سے مفتی تقی عثمانی نے خود کو صاحبِ ہدایہ سے بھی بڑا اصحابِ تخریج ثابت کیا ہے اور اسی وجہ سے سودی بینکاری کے جواز کیلئے بھی معاوضہ لیکر بڑے بڑوں کو شکست دی ہے۔
جامعہ بنوری ٹاؤن میں اندھوں کا راج ہے ، مولانا انور بدخشانی نے طلاق کے حوالہ سے ہمارے ساتھی ڈاکٹر احمد جمال سے کہا کہ دارالعلوم کراچی والوں کے پاس علم ہے ، طلاق کے حوالہ سے جو کتابیں تحریر کیں ہیں وہ دارالعلوم کراچی والوں کے سامنے پیش کردو۔ دارالعلوم کراچی والوں نے کتاب وصول کرکے فتویٰ کیلئے وقت بھی دیا لیکن پھر اپنی رائے دینے سے صاف انکار کردیا تھا جس کا ذکر بھی اپنے اخبار میں ہم نے کیا ہے۔ سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے پر بنوری ٹاون سے فتویٰ ملا تھاکہ یہ بے دینی ہے لیکن فتوؤں کی کتاب میں کوئی عبارت نہیں ملی اور فتاوی عالمگیریہ سے عبارت نقل کی کہ ’’ایام نوروز میں غیروں کی مشابہت کی وجہ سے دروازوں پر تعویذ لٹکانا جائز نہیں ہے‘‘۔ حالانکہ اسی عبارت کی ساتویں سطر میں لکھا ہے کہ ’’خون سے تعویذ لکھنا جائز ہے‘‘۔ نکسیر بھی پیشاب کی طرح ناپاک ہی ہوتی ہے۔ مولانا یوسف لدھیانوی شہیدؒ کی کتاب ’’عصر حاضرحدیث نبویﷺ کے آئینہ میں‘‘ میں مدارس کے مفتیوں کا عکس دیکھا جاسکتاہے اور ہماری تحریک کا سراغ بھی مل سکتاہے۔
مجھے فخر ہے کہ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور دیگر اسلامی مدارس میں ان ساتذہ کرام سے تعلیم حاصل کی ہے جن کا تعلق حنفی مسلک سے تھا۔ جن کا بنیادی نکتۂ نظر یہی تھا کہ قرآن کی آیات کو احادیث صحیحہ پر بھی ترجیح حاصل ہے۔ اصولِ فقہ کی پہلی کتاب ’’ اصولِ الشاشی ‘‘تیسرے سال اور دوسری کتاب’’ نورالانوار‘‘ چوتھے سال میں ہمیں حضرت مولانا بدیع الزمان نوراللہ مرقدہ نے پڑھائی تھیں۔ اصول الشاشی کا پہلا سبق یہ ہے کہ آیت میں حتی تنکح زوجا غیرہ کے مقابلہ میں خبر واحد کی حدیث صحیحہ ہے کہ جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اسکا نکاح باطل ہے، باطل ہے، باطل ہے۔ آیت میں عورت کی طرف نکاح کی نسبت ہے، یعنی وہ خود نکاح کرنے میں آزاد قرار دی گئی ہے اور اس حدیث میں عورت کو ولی کی اجازت کا پابند بنایا گیاہے۔اس تضاد کی وجہ سے ہم قرآن پر عمل کرینگے اور اس سے متضاد خبر واحد کی حدیث صحیحہ کو چھوڑ دینگے۔ فقہ حنفی کی تعلیم جمہور کے مقابلہ منفرد حیثیت کی حامل ہے کیونکہ باقی مسالک اس حدیث پر ایمان رکھتے ہیں اور ہم حدیث کو قرآن سے متصادم قرار دیکر آیت کے مقابلہ میں اس کو نہیں مانتے ہیں۔
درس کے دوران مولانا بدیع الزمانؒ سے میں نے یہ عرض کیا تھا کہ مسلک حنفی کی پہلی ترجیح قرآن و حدیث کی تطبیق ہے تو حدیث کو رد کرنے کے بجائے تطبیق ہونی چاہیے تھی؟۔ حدیث کو کنواری لڑکیوں کیساتھ خاص کیا جاتا اور قرآن کی آیت میں طلاق شدہ کا ذکر ہے اور دونوں کے شرعی احکام بھی مختلف ہیں؟۔
مولانا بدیع الزمانؒ نے تبسم سے جواب دیا کہ آپ کی بات میں وزن ہے اور جب آئندہ کتابیں پڑھ لوگے تو جواب تلاش کرلوگے!۔ مولانا بدیع الزمانؒ روزانہ قرآن کاایک رکوع متن کیساتھ پڑھنے کی تلقین کرتے تھے۔ لیکن میرا ولولہ ایک ہی تھا کہ فقہ، قرآن کی آیات اور درسِ نظامی میں کوئی مناسبت دکھائی نہیں دیتی تھی۔یہ یقین تھا کہ فقہ حنفی کی تعلیمات ہی درست ہوں گی کیونکہ عقیدت کا تعلق دلائل سے نہیں اعتماد سے ہوتا ہے۔ قرآن کی آیات اور احادیث صحیحہ پر دسترس حاصل نہ ہوتو گمراہانہ سوچ پیدا ہوسکتی ہے۔ طلاق کے مسئلہ پر تمام قرآنی آیات، احادیث صحیحہ، مختلف مکاتبِ فکر کے جید علماء کرام کی تحقیقات اور اختلافی نکتۂ نگاہ سے واقفیت ملی تو اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ قرآن میں سارے مسائل کا حل ہے۔ احادیث صحیحہ میں کوئی حدیث بھی غلط اور ٹکرانے کے لائق نہیں۔ فقہ حنفی کے مطابق سب احادیث کی بھی تطبیق ہوسکتی ہے ۔ علماء کرام مجھے حکم دیں تو میں حاضر خدمت ہوکر تشفی بخش جوابات دے سکتا ہوں۔ اسلام اجنبیت سے نکل کر پھر معروف بن سکتا ہے۔
قرونِ اولی کے ادوار میں حلالہ کی لعنت کا کوئی تصور نہ تھا،مدینہ کے سات فقہاء پہلی صدی ہجری میں تھے۔ جن میں حضرت ابوبکرؓ کے پوتے قاسم بن محمد اور نواسے عروہ بن زبیرؓ شامل تھے۔ دوسری صدی ہجری میں امام ابوحنیفہؒ ، امام مالک ؒ اور امام شافعیؒ تھے۔ تیسری صدی ہجری میں ائمہ حدیث امام بخاریؒ ، ابن ماجہؒ ،ترمذی، مسلمؒ وغیرہ تھے۔ان حضرات کے ہاں حلالہ کے جواز وعدمِ جواز کی کوئی بحث نہیں تھی، وہ ایک ساتھ تین طلاق کے جواز وعدم جواز اور منعقد ہونے اور نہ ہونے کو موضوع بنایا کرتے تھے۔پھر شافعی مسلک نے ایک ساتھ تین طلاق کو سنت اور حنفی مسلک نے بدعت قرار دیا۔ محدثین ؒ نے احادیث کے اسناد کو ترجیح دی مگر وہ اچھے فقیہ نہیں تھے۔ امام بخاریؒ نے امام ابوحنیفہؒ کے مسلک کو ہی زیادہ تر ہدف بنایا۔ شافعی مسلک سے محبت کرتے ہوئے ایک باب کا عنوان’’ من اجاز طلاق ثلاثہ‘‘ رکھا۔ اس میں رفاعۃ القرظیؓ کی بیوی کا واقعہ بھی ہے ، حالانکہ بخاری کی کتاب الادب میں واضح ہے کہ رفاعۃ القرظیؓ نے الگ الگ مراحل میں تین طلاقیں دی تھیں۔
وفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خانؒ نے بخاری کی شرح میں لکھ دیا ہے کہ ’’ رفاعۃ القرظیؓ کی بیوی کا واقعہ خبر واحد ہے۔ اس کی بنیاد پر حنفی قرآن پر یہ اضافہ نہیں کرتے کہ نکاح کے علاوہ مباشرت بھی ضروری ہے بلکہ حنفی مسلک کی دلیل یہ ہے کہ نکاح مباشرت کو ہی کہتے ہیں‘‘۔ (کشف الباری: مولانا سلیم اللہ خانؒ )۔ اس روایت میں الگ الگ مراحل میں طلاق کے علاوہ طلاق منقطع ہونے کے بعد عبدالرحمن بن زبیر القرظیؓ سے نکاح اور بے حجاب ہونے کا بھی ذکر ہے۔جس سے یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ نبیﷺ نے حلالہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ مرحلہ وار طلاق کے بعد دوسرے سے نکاح کیا تھا اور اگر عبدالرحمن بن زبیرؓ کو چھوڑ دیتی تو ضروری نہیں تھا کہ رفاعۃ القرظیؓ دوبارہ اپنے نکاح میں قبول کرنے کیلئے تیار بھی ہوتے۔ حنفی مسلک کے مطابق خلوت صحیحہ کے بعد پورا حق مہر بھی واجب تھا تو عبدالرحمن بن زبیرؓ کیلئے مباشرت کا بھرپور حق بھی ہونا چاہیے تھا۔ اس خبر واحد کے ذریعے سے قرآن کی دیگر ڈھیر ساری آیات کو مسترد کرنا بھی حنفی مسلک کے بنیادی تقاضے کے مطابق درست نہیں ہے جن میں بار بار باہمی صلح اور معروف طریقے سے رجوع کی اجازت ہے۔
حدیث کے واقعے کا ستیاناس کرکے ایک ساتھ تین طلاق پر قرآن کے واضح احکام کے خلاف حلالہ کا حکم دینا بالکل بھی انصاف کے منافی ہے۔ نورالانوار میں بھی حنفی مسلک کے حوالہ سے یہ وضاحت ہے کہ اس طلاق کا تعلق اپنے متصل فدیہ کی صورتحال سے ہے۔ حضرت ابن عباسؓ سے بھی علامہ ابن قیمؒ نے یہ قول نقل کیا ہے اور تفسیر کے امام علامہ جاراللہ زمحشریؒ نے بھی اس طلاق سے پہلے دوالگ الگ مرتبہ طلاق کو درست تقاضہ قرار دیا۔ علامہ تمنا عمادی نے بھی کتاب ’’الطلاق مرتان‘‘ میں خلع کی صورت کیساتھ اس طلاق کو مشروط قرار دیا ہے۔ غلام احمد پرویز اس کو فقہ حنفی کے مطابق طلاق احسن کی صورت سے ہی مشروط قرار دیتا ہے لیکن درسِ نظامی کی بنیاد پر یہ شرف مجھے مل گیا ہے کہ قرآن کریم اور احادیث صحیحہ کی روشنی سے کوئی بھی ایسی صورت نہیں جس میں اللہ نے میاں بیوی کے درمیان رکاوٹ ڈالی ہو۔
سورۂ بقرہ کی آیات 224سے 232تک اور سورۂ طلاق کی پہلی دو آیات اس پر شاہد عدل ہیں۔احادیث صحیحہ پر من گھڑت احادیث کے ذخیرے کو طشت ازبام کرنا بھی کوئی مشکل کام نہیں۔جب احادیث صحیحہ میں ہو کہ حضرت فاطمہ بنت قیسؓ کو الگ الگ تین طلاق دی گئیں تومن گھڑت روایات کو پہچاننے میں مشکل نہیں کہ کس طرح حضرت فاطمہ بنت قیسؓ کو یکدم طلاق بدعی دینے کی روایات گھڑی گئیں ہیں۔ ایک ایک واقعہ سے حقائق کی درست نشاندہی ہوتی ہے۔ قرون ثلاثہ میں تین طلاق کیلئے ایک ساتھ واقع ہونے کا تصور خواتین کے حقوق کی حفاظت کیلئے تھا۔ جو احادیث صحیحہ اور حضرت عمرؓ کے فیصلے کا تقاضہ بھی تھا ،جس قرآن کے مطابق عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد باہمی رضامندی سے رجوع پر پابندی کا بھی کوئی تصور نہیں تھا۔ پھر بعد میں اسلام اجنبی بنتا چلاگیا اور حلالے کا تصور اور سازشی نکاح کی باتیں سامنے آگئیں۔ علامہ بدر الدین عینی اور علامہ ابن ہمام نوسوسال بعد کے دور میں تھے ، انہوں نے حیلوں کی انتہاء کرتے ہوئے پہلی مرتبہ حلالہ کی لعنت کو بھی باعث اجر وثواب قرار دیا۔ ان کے بعد شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانیؒ نے قرآن وسنت کی طرف توجہ دلائی مگر اسلام کواجنبیت سے نہیں نکال سکے۔
حضرت شاہ ولی اللہؒ نے فقہاء کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔ انکے پوتے شاہ اسمٰعیل شہید ؒ نے کتاب لکھ ڈالی کہ تقلید چوتھی صدی ہجری کی پیداوار اور خیرالقرون سے باہر ہے اور اس کو بدعت عملی قرار دیا۔علماء دیوبند نے حمایت کی۔ مولانا احمدرضا خان بریلویؒ نے ’’حسام الحرمین ‘‘سے انکو پیچھے دھکیلا۔ مولانا یوسف بنوریؒ کے والد مولانا زکریا بنوریؒ نے کہا کہ ’’ برصغیر پاک وہندمیں مسلک حنفی کی حفاظت کا کریڈٹ مولانا احمد رضا خان بریلویؒ کو جاتاہے۔ علامہ سید محمد یوسف بنوریؒ نے شاہ اسماعیل شہید کی کتاب’’ بدعت کی حقیقت‘‘ پر تقریظ بھی لکھ دی ۔ جس میں تقلید ہی کو بدعت قرار دیا گیاہے۔ مولانا احمدرضا خان بریلویؒ نے لکھ دیا کہ ’’ سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کا کوئی جواز نہیں ، فقہ حنفی میں علاج کیلئے یقین کی شرط قرار دیا گیا اور وحی کے بغیر یقین نہیں ہوسکتا، جبکہ وحی کا سلسلہ بند ہوچکاہے۔ مفتی تقی عثمانی کی طرف سے کتابوں سے عبارات نکالنے کے اعلان کے بعد بھی دیوبندی مکتبۂ فکر کے مفتی محمد سعید خان خلیفۂ مجاز مولانا ابولحسن علی ندویؒ اور مولانا خان محمد ؒ کندیاں نے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کا اپنی کتاب ’’ ریزہ الماس‘‘ میں دفاع کیا ۔جو2007میں شائع ہوئی۔
ایک طرف بھارت کی پارلیمنٹ نے ایک ساتھ تین طلاق پر حلالہ کی لعنت کے خلاف قانون سازی کی ہے تو دوسری طرف امریکہ پاکستان کو دھمکیاں دے رہاہے اور اگر ٹی وی اینکروں نے کسی سے رقم لیکر قرآن وسنت کا احیاء اور علماء کی مخالفت شروع کردی تو عوام مدارس میں گھس کر ان کو قتل کریں گے۔ ہمارے دلوں میں علماء کے خلوص پر شبہ نہیں اور ان کی قدر ومنزلت دل میں رکھ حقائق بتارہے ہیں۔ میری اللہ سے دعا ہے کہ مدارس عوام کیلئے گمراہی کے قلعوں کے بجائے ہدایت کے قلعوں میں بدل جائیں ۔ جس دن علماء کرام اور مفتیانِ عظام نے حقائق کو قبول کرلیا تو ہمارا معاشرتی نظام ، اقتصادی نظام اور پورا ریاستی نظام اسلامی بن جائیگا ۔ عتیق گیلانی

مفت خور مفتی حضرات طلاق ثلاثہ کو لیکر قوم کی عزت کا بیڑا غرق کرتے رہے ہیں. مولانا محمد حسین منطقی فاضل جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی

muft-khor-mufti-hazrat-talaq-e-salasa-ko-lekr-qoum-ki-izzat-ka-beda-gark-krte-rahe-hein-Molana-Hussain-Mantaqi-jamia-binori-town-karachi

کراچی (محمد طارق مدنی + قاری سلیم اللہ ) محمد حسین منطقی، فاضل جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی، اوردوسری بار فاضلمدرسہ عربیہ قاسم العلوم فقیر والی بہاولنگر پنجاب (علی گوٹھ کورنگی نمبر 6، کراچی قاضی و نکاح خواں جو سید عتیق الرحمن گیلانی کی کتابوں ’’ابر رحمت‘‘ اور ’’تین طلاق کی درست تعبیر‘‘ کی حمایت میں بھی متعدد بار بیانات دے چکے ہیں اور دار العلوم کراچی کے علماء سے بات بھی کی ہے) نے اپنے ایک بیان میں کہا عرصہ درازسے شاہ صاحب اتحادامت کیلئے زور لگاتے رہے ہر نام نہاد علماء پیٹ پجاری ٹولا اورمفت خورحضرات فرقہ پرستی وگروہی اختلافات کو ہوادیکرامت مسلمہ کو پارہ پارہ کرتے رہے ۔ آج وہی حضرات اپنی دال گلتی نہیں دیکھ رہے ہیں، ان کو اپنا وجودخطرے میں نظر آرہاہے ، اب تمام وہ حضرات بھی اتحادامت پر زوردے رہے ہیں اچھا ہے کہ دیرآمددرست آمد۔ اللہ تعالیٰ تمام فرقوں اور گروہوں کو صحیح سمت اورراہ راست پرآنیکی ہمت دے ۔ مسلمانوں کے تمام مسائل کا حل صرف اورصرف اتحادواتفاق امت مسلمہ سے ہی ممکن ہے ، جبتک اتحادواتفاق نہیں کچھ بھی نہیں کرسکتے ۔ ہماری قوم سیدھی سادی ہے اب تک ان لوگوں کی باتوں پر یقین کرتے ہیں جوہمارے لیڈروں میں بلااستثنیٰ مکمل مفادپرست ہیں اپنے اپنے مفادکیلئے لوگ ملک اورقوم ملت کو تباہ وبربادکرنے میں آسرانہیں کرتے خواہ وہ سیاستدان مولوی ہوں یاغیرمولوی ۔ افسوس کہ ہماری مملکت خداداد پاکستان کوابتک ملک وقوم کا خیرخواہ لیڈرنہیں ملا۔اورغیرمولوی توغیرمولوی مولوی صاحب سبحان اللہ اپنے معمولی مفاد کی خاطرقوم اورمسلمانوں کی غیرت سے کھیل جاتے ہیں ۔ ہمارے مفت خورنام نہاد مفتی حضرات طلاق ثلاثہ کو لیکر قوم کی عزت وغیرت کا بیڑہ غرق کرتے رہے ہیں ، ذرا بھی شرم نہیں کرتے جب کے طلاق کے معاملات کا واضح اور کھلم کھلابیان اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایاہے اسکے باوجودیہ گروہ اپنے تجویز کردہ فیصلہ دے دیتے ہیں اورسیدھے سادے مسلمانوں کو غلط تجویزکو ماننے پر مجبورکرتے ہیں اب جبکہ شاہ صاحب کی تحقیقات کا ابررحمت سے لیکرمتواترچندکتابیں میدان میں آگئیں توان مفت خوروں کواپنے مفت کا کھاناخطرے میں نظرآرہا ہے توکچھ لوگ خاموش ہوگئے اورکچھ کے حواس کھوگئے ہیں ۔ اس وقت شاہ صاحب کی صورت میں اللہ نے قوم ملک وملت اورمسلمانوں کوایک عظیم مسیحالیڈرعطافرمایاہے جو قوم اورملک کی رہنمائی کررہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ شاہ صاحب کو حیات دے اورہمت دے تاکہ قوم وملت کی رہنمائی کرسکیں ۔ افسوس کیا کرسکتے ہیں سوائے دعاکہ اس ملک کا کیابنے گا جہاں کا حکمران ، عدلیہ اورفوج بے حس ہوں توملک کا کیاحشرہوگا۔ ہماری دعاؤں کا اثربھی تونہیں ہے ۔ دعاؤں کا اثرکیسے ہماری معیشت سودپرمبنی ہے سودکھانیوالوں کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ ہمارے کچھ مفتی حضرات ہی ہیں جو سودکانام تبدیل کرکے حلال کرنے کیلئے کوشاں ہیں اللہ ان مفتیوں کو ہدایت دے۔اب حلالہ کے نام پر غریبوں کی
عزتیں لوٹنے کا کوئی جواز نہیں رہاہے
دل جل کرخاک ہو آنکھوں سے رویانہ گیا
زخم کچھ ایسا لگا کہ پھولوں پہ سویانہ گیا

قرآن و حدیث کو متصادم قرار دیکر علماء نے حلالہ اور کورٹ میرج کا راستہ ہموار کیا. عتیق گیلانی

quran-o-hadees-ko-mutasadim-qarar-de-kr-ulama-ne-halalah-aur-court-marriage-ka-rasta-hamwar-kia-Ateeq-Gilani

عتیق گیلانی نے اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کورٹ میرج و خفیہ نکاح سے شادی دوخاندانوں میں دوستی کے بجائے دشمنی میں بدل جاتی ہے۔ اسکے پیچھے مدارس کا غلط تعلیمی نصاب کارفرماہے۔ قرآن و حدیث میں کوئی ٹکراؤ نہیں۔ حدیث قرآن کیمطابق ہے، حدیث کوقرآن کیخلاف نا قابلِ عمل قرار دیکر سازش کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ قرآن کی آیت کا واضح مقصد حلالہ نہیں بلکہ جب شوہر عورت کو بسانا نہیں چاہتا ہوتووہ دوسرے شوہر سے نکاح کرنے پر بھی پابندی لگاتاہے۔ اللہ نے اس کو اس باطل طرزِ عمل سے روکاہے ۔ حدیث میں نکاح کیلئے دوعادل گواہ کی بات ہے، فقہ میں ہے کہ دوفاسق گواہ بھی ہیں۔یہ بات انسانی فطرت کا حصہ ہے کہ بھاگی ہوئی لڑکی کے نکاح پر گواہی کیلئے کوئی شریف آدمی تیار نہ ہونگے۔ مولوی نے آخری حدتک راہ ہموارکی ،نبی ﷺ نے فرمایا: ’’دف بجاکر نکاح کیلئے اعلان کرو‘‘۔ فقہ میں ہے کہ ’’دو فاسق گواہوں کی خفیہ گواہی اعلان ہے‘‘اس مجرمانہ فعل کی آخری حد تک احادیث کیخلاف نصاب کے ذریعہ پشت پناہی کا مرتکب مولوی ہے۔ جس لڑکی کو پتہ ہو کہ اسکا نکاح باطل ہے توکبھی اتنا بڑا قدم نہیں اٹھائے گی۔ حرامکاری اور اولاد الزنا کیلئے بغاوت کا ارتکاب کبھی نہیں ہوسکتا۔ نبی ﷺ نے فرمایاکہ باپ بیٹی کی مرضی کے بغیر اسکا نکاح کردے تو اسکا نکاح بھی نہیں ہوا۔ عوام کو علماء نے شریعت سے آگاہ نہیں کیا ورنہ کوئی باپ کسی قیمت پر بھی اپنی بیٹی کی شادی اس کی مرضی کے بغیر نہ کرتا۔ جب باپ بیٹی کی مرضی کے بغیر اسکا نکاح نہ کرتا تو کوئی لڑکی بھاگ کرنکاح نہ کرتی اور نہ چھپ کر نکاح کرتی۔کوئی حق مہر کی لالچ میں لڑکی کا نکاح اپنی مرضی سے کراتا ہے، کوئی خاندانی یا دنیاوی وجاہت کا خیال رکھ کرلڑکی کی شادی اسکی چاہت کے باجود نہیں کرنے دیتا۔ایک باپ کو پتہ ہو کہ اس کی لڑکی کا نکاح اس طرح نہ ہوگا تو وہ کسی قیمت اور کسی خاندانی وجاہت اور دنیاداری کی لالچ پر اپنی لڑکی کی مرضی کے بغیر نکاح نہیں کرائے گا۔احادیث قرآن کے بالکل مطابق ہیں۔ سورۂ نور کی آیت میں ہے کہ اپنی طلاق شدہ وبیوہ خواتین کا نکاح کراؤ،اور اپنے نیک غلام ولونڈیوں کا وانکحوالایامیٰ منکم والصالحین من عبادکم و امائکم اور پھر اگلی آیات میں کنواری لڑکیوں کے نکاح کا ذکر ہے : ولاتکرھوا فتےٰتکم علی البغاء ان اردن تحصناً لتبتغوا عرض الحیاۃ الدنیا ومن یکرھھن فان اللہ من بعد اکراھھن لغفور رحیم ’’ اوراپنی لڑکیوں کو مجبور نہ کرو، بغاوت(بدکاری) پر جب وہ شادی کرنا چاہتے ہوں اس لئے تمام اپنی دنیاوی شان وشوکت سے تلاش کرو،اور اگر ان کو مجبور کیا گیا تواللہ ان کی مجبوری کے بعد غفور رحیم ہے‘‘۔ (النور)
اگر ہم قرآن و احادیث کو آپس میں ٹکرانے کے بجائے غور کریں گے تو معاشرے کی تمام خربیاں دور ہونگی۔ آئے روز پاکستان میں تماشا لگا رہتا ہے کہ لڑکی نے بھاگ کر شادی کی اور اس کی وجہ سے فتنہ فساد، قتل وغارت اور خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ اگر ہم نے قرآن وسنت کے ذریعے مثالی معاشرہ قائم کیا تو دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کا بول بالا ہوگا۔

quran-o-hadees-ko-mutasadim-qarar-de-kr-ulama-ne-halalah-aur-court-marriage-ka-rasta-hamwar-kia-Ateeq-Gilani-image

عتیق گیلانی نے مدلل انداز میں علماء کرام اور عوام الناس سے مثبت انداز کی بنیاد پر انسانیت کی خدمت، مذہبی منافرت کے خاتمے پر زور دیا ہے اور آخر میں سوالات کے جوابات بھی دیے ہیں۔ ضرب حق ڈاٹ کام نیٹ ورک کے بعد ضرب حق ڈاٹ ٹی وی بھی میدان میں آگیاہے جس میں سوشل میڈیا سے بیانات کو دیکھ سکتے ہیں اور پسند آئیں تو پھیلا بھی سکتے ہیں اور مفید مشورے بھی دینے پر ہمیں بہت خوشی ہوگی۔ ازطرف انتظامیہ نوشتۂ دیوار

تین طلاق اور حلالہ کے مسئلے پر فیصلہ کن و زبردست تحریر

rasul-allah-ne-fatah-makka-ke-moqe-per-farmaya-tum-per-aaj-koi-malamat-nahi-tum-azad-ho-lafz-talaq-me-koi-burai-nahi

دیوبندی بریلوی حنفی ہیں ۔ عرصہ سے تین طلاق اور مروجہ حلالہ کا مسئلہ چلا آرہا ہے۔ ہندوؤں نے مذہبی کتابوں کی طرف رجوع شروع کردیا ہے۔ اگر ان کی کسی مذہبی کتاب کی سے ثابت ہو کہ ’’گائے کا پیشاب پینا جائز نہیں‘‘ تو ہندو اکثریت سوال اٹھائے کہ ہمارے آبا و اجداد کے آباو اجداد کے آبا و اجداد کے آبا و اجداد ۔۔۔ نے تسلسل سے مقدس مشروب نوش کرنا مذہبی فریضہ سمجھا او ہم کیسے مانیں کہ گائے کا پیشاب جائز نہیں۔ علامہ اقبال نے کہا کہ اصل میری سومناتی ہے ۔ پاکستان میں دیوبندی بریلوی اکثریت سومناتی ہے۔ لاتی و مناتی مشرکین مکہ اور جاہلیت عرب کے شرک و جہالت کا خاتمہ اسلام کی نشاۃ اول سے ہوا۔ اور اب اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے ذریعے انشاء اللہ نہ صرف پاکستان ، ہندوستان ، ایشیاء بلکہ پوری دنیا میں اسلامی انقلاب آئیگا اور دنیا کی تمام جہالتوں کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکے گا۔
8سو سال برصغیر پاک و ہند پر مسلمانوں کا اقتدار رہا لیکن ہندوؤں نے تین طلاق اور حلالہ کی بے غیرتی کو قبول نہ کیا۔ حلالہ کی بے غیرتی اور گائے کے پیشاب کے درمیان ایک نیا مذہب گرونانک نے ایجاد کیا جسکے پیروکاروں کا نام سکھ ہے، راجا رنجیت سنگھ نے پنجاب میں اقتدار پر قبضہ کیا تو انگریز کیلئے یہ مشکل محاذ تھا۔ راجا رنجیت سنگھ سے اقتدار چھیننے کیلئے حضرت شاہ ولی اللہؒ کے پوتے شاہ اسماعیل شہیدؒ اور سید احمد بریلویؒ کو انگریز نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی اُمید پر خلافت کے قیام کیلئے چھوڑ ا۔ مگر ان کو بالاکوٹ کے مقام پر ساتھیوں سمیت شہید کردیاگیا۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کی قیادت میں خلافت کی کوشش ناکام ہوئی۔ فیصلہ ہفت مسئلہ میں حاجی مہاجر مکیؒ نے مریدوں اور خلفاء کے درمیان فروعی اختلافات کو ختم کرنے کی ناکام کوشش کی۔ مالٹا سے رہائی کے بعد تحریک ریشمی رومال کے شیخ الہند ؒ نے اپنے شاگردوں کو فرقہ واریت کے خلاف اور قرآن کی طرف اُمت کو متوجہ کرنے کی کوشش کا آغاز کیا مگر اسی سال 1920ء میں رہائی کے چند ماہ بعد آپ کا انتقال ہوگیا۔
حضرت شاہ ولی اللہؒ نے ایک طرف تقلید کی باگیں ڈھیلی کردیں تو دوسری طرف قرآن کا ترجمہ کردیا۔ شاہ اسماعیل شہیدؒ نے تقلید کو بدعت قرار دیا اور دیوبندی اکابرؒ نے قرآن و سنت کی طرف توجہ کی۔ مولانا احمد رضا خان بریلویؒ نے ’’حسام الحرمین‘‘ کا فتویٰ لگایا جس میں حرمین شریفین کے علماء کے دستخط بھی تھے۔ مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ نے ’’المہند علی المفند‘‘ کے نام سے دیوبندی اکابر کا دفاع کیا کہ ہم چاروں ائمہ کی تقلید کو برحق مانتے ہیں اور فقہ حنفی سے ہمارا تعلق ہے۔ اور چاروں سلاسل نقشبندی، قادری، سہروردی اور چشتی کو برحق سمجھتے ہیں اور ہمارا تعلق چشتیہ سلسلہ سے ہے۔ اگر مسلکی بنیادوں پر فروعی اختلافات کو ہوا دینے کے بجائے قرآن و سنت کی طرف توجہ کی جاتی تو حنفی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے دونوں ایکدوسرے کیساتھ شانہ بشانہ کام کرتے۔ مزارات پر غیر شرعی رسومات کیخلاف مولانا احمد رضا خان بریلویؒ دیوبندی اکابر سے کم نہیں تھے لیکن جس جرأتمندی کا مظاہرہ دیوبندی مکتبہ فکر کے علماء نے کیا وہ بریلوی مکتبہ فکر کے علماء نہیں کرسکے۔
قرآن کی آیات اور احادیث صحیحہ کے اندر طلاق و رجوع کے حوالے سے کسی قسم کے اختلاف کی گنجائش نہیں۔ فقہ حنفی کے اصول کا منبع قرآنی آیات کے مقابلے میں احادیث صحیحہ کا تضاد ہے۔ اصول فقہ کی پہلی کتاب ’’اصول الشاشی ‘‘ کا پہلا سبق ہے کہ سورہ بقرہ کی آیت: 230 حتی تنکح زوجاً غیرہ ’’یہانتک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرلے‘‘ میں عورت کو نکاح کی آزادی دی گئی ہے۔ حدیث میں ہے کہ ’’ عورت اگر ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو اسکا نکاح باطل ہے ، باطل ہے، باطل ہے‘‘۔ قرآن میں آزادی ہے اورحدیث میں عورت پر نکاح کیلئے ولی کی اجازت کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا قرآن پر فیصلہ کیا جائیگا اور حدیث کو ترک کردیا جائیگا۔ یہ حنفی مسلک جمہور مسلکوں کیخلاف ہے، انکے نزدیک حدیث صحیحہ کے مطابق عورت ولی کی اجازت کی پابند ہے۔ اسی طرح اللہ نے فرمایا کہ فلیطوفوا باالبیت العتیق ’’اور کعبہ کا طواف کرو‘‘ جس میں بظاہر وضو کا حکم بھی نہیں ہے جبکہ نماز کیلئے اللہ تعالیٰ نے وضو کا حکم دیا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ طواف پاکی کی حالت میں اور باوضو کرو۔ حنفی مسلک کے نزدیک اگر حدیث کے مطابق وضو کو طواف کیلئے بھی ضروری قرار دیا جائے تو یہ قرآن پر اضافہ ہوگا اسلئے طواف کیلئے وضو فرض نہیں۔
طلاق سے رجوع کیلئے قرآن میں وضاحت ہے : المطلقٰت یتربصن بانفسھن ثلاثۃ قروء … و بعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحاً ’’طلاق والی عورتیں 3مراحل تک خود کو انتظار میں رکھیں ۔۔۔ اور انکے شوہر اس میں ان کو لوٹانے کا اصلاح کی شرط پر حق رکھتے ہیں‘‘(البقرہ: 228)۔ آیت میں رجوع کو صلح کی شرط پر عدت کے آخر تک جائز قرار دیا گیا ۔ اگر حدیث میں واضح طور سے ہوتا کہ عدت کے دوران صلح کی شرط پر رجوع نہیں ہوسکتا تو مسلک حنفی کا تقاضہ تھا کہ اس صحیح حدیث کو بھی نہ مانتے۔
لوہے کولوہا کاٹتا ہے۔ قرآن کی آیت کو قرآن کی آیت ہی سے کاٹا جاسکتا ہے ۔ مولوی کہتا ہے کہ اللہ اگلی آیت میں نعوذ باللہ خود پھنس گیا۔ فرمایا: الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف او تسریح باحسان ’’طلاق دو مرتبہ ہے اور پھر معروف طریقے سے رکھنا ہے یا احسان کیساتھ رخصت کرنا‘‘(البقرہ: 229)۔ اللہ نے اصلاح کی شرط پر رجوع کی اجازت دی ،تو دوسری آیت میں دو مرتبہ طلاق پر غیر مشروط رجوع کی اجازت دی اور پہلی آیت کا حکم ختم کردیا اور پھر 2 مرتبہ کے بعد تیسری مرتبہ طلاق پر مدت کے اندر بھی رجوع کا خاتمہ کردیا۔ اہلحدیث کے نزدیک بھی 3 مجالس میں 3 مرتبہ طلاق کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا۔ یہ بات درست تسلیم کی جائے تو قرآن میں تضاد و اختلاف ثابت ہوگا۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ اللہ نے آیت 228 البقرہ میں عدت کے دوران صلح کی شرط پر اجازت دی اور 229 میں 2مرتبہ غیر مشروط رجوع کی اجازت دی اور تیسری مرتبہ پر عدت میں رجوع کا دروازہ بند کردیا۔ جبکہ قرآن نے چیلنج کیا ہے کہ افلا یتدبرون القرآن ولو کان من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافاً کثیراً ’’یہ قرآن میں تدبر کیوں نہیں کرتے۔ اگر یہ اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سارا اختلاف (تضاد) پایا جاتا‘‘۔
قرآن میں تضاد نہیں۔ آیت : 228میں جن 3 ادوار کا ذکر کیا تھا ، آیت: 229میں بھی انہی 3 ادوار کا ذکر ہے۔ معروف رجوع اور صلح کی شرط پر رجوع میں کوئی فرق نہیں ۔ حنفی اور شافعی مسلکوں کے تضاد کو رجوع کے حوالے سے سامنے لایا گیا تو منکرات بھی شرما کر رہ جائیں۔ شافعی مسلک میں نیت نہ ہوتو مباشرت سے بھی رجوع نہ ہوگا اور حنفی مسلک میں شہوت کی نظر غلطی سے پڑنے پر بھی رجوع ہوگا۔ جن 3ادوار میں اللہ نے صلح کی شرط پر رجوع کی اجازت آیت 228میں دی تھی ، اسی کو آیت 229میں بھی اسی طرح وضاحت کے ساتھ برقرار رکھا گیا ہے۔ سورہ طلاق اور بخاری کی احادیث میں بھی وضاحت ہے۔
اللہ نے واضح کردیا کہ رجوع کا تعلق عدت سے ہے۔ یہ بھی واضح کیا کہ حیض میں 3 مرتبہ طلاق کا تعلق حیض کے 3ادوار سے ہے۔ اصلاح کی شرط و معروف رجوع کی اجازت عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل پر ہے۔ سورہ بقرہ آیت 228، 229، 231، 232۔ اسی طرح سورہ طلاق کی پہلی دو آیات میں بھی یہ وضاحت بھرپور طریقے سے موجود ہے۔ علماء کرام و مفتیان عظام اور عوام کو سب سے بڑا مغالطہ سورہ بقرہ آیت 230سے ہے ۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’پھر اگر اس کو طلاق دیدی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے شادی کرلے‘‘ ۔ کسی بھی آیت کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ اس سے پہلے کی آیات اور بعد کی آیات سے اس کا ربط بھی دیکھ لیا جائے۔
علماء کرام جانتے ہیں کہ فقہ و اصول فقہ کی کتابوں میں حنفی اور جمہور علماء کے اختلافات موجود ہیں۔ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے ؟ ، تو فرمایا کہ الطلاق مرتٰن کے بعد تسریح باحسان تیسری طلاق ہے۔ مولانا سلیم اللہ خانؒ اور علامہ غلام رسول سعیدیؒ نے اپنی اپنی بخاری کی شرح میں اس کو نقل کیا ۔ یہ حدیث سے واضح ہے کہ اصول فقہ اور تفسیر کی کتابوں میں یہ بحث فضول ہے کہ آیت 229 میں عورت کی طرف سے فدیہ دینے کا ذکر جملہ معترضہ ہے یا متصل ہے؟۔ اور یہ بات بھی سراسر حماقت ہے کہ اس سے مراد خلع ہے کیونکہ 2مرتبہ طلاق کے بعد خلع کی ضرورت کیا ہے؟۔ سورہ نساء آیت 19میں خلع کا ذکر ہے اور خلع کی احادیث کو اسکے ضمن میں لکھنے کی ضرورت تھی۔ آیت 229کے آخر میں اس بات کا ذکر ہے کہ ’’تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے ، اس میں سے کچھ بھی واپس لو، مگر یہ کہ دونوں کو خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے اور اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو عورت کی طرف سے اس چیز کو فدیہ کرنے میں دونوں پر حرج نہیں ، یہ اللہ کے حدود ہیں اور جو ان سے تجاوز کرے تو بیشک وہی لوگ ظالم ہیں‘‘۔ حنفی مسلک کی کتاب ’’نور الانوار‘‘ میں یہ وضاحت ہے کہ’’ آیت 230کا تعلق اس متصل فدیہ کی صورت سے ہے‘‘۔ علامہ ابن قیمؒ نے ابن عباسؓ کا بھی یہ قول نقل کیا ہے کہ قرآن کو اسکے سیاق و سباق سے نہیں ہٹایا جاسکتا ہے اور اس آیت 230 کا تعلق فدیہ کی متصل صورت سے ہے۔ (زاد المعاد: ابن قیمؒ )۔
عوام الناس کو سمجھانے کیلئے یہ بات بھی کافی ہے کہ میاں بیوی کے درمیان طلاق کی 3 شکلیں ہیں ۔ 1:میاں بیوی دونوں جدا ہونا چاہتے ہوں ۔ 2: شوہر نے طلاق دی ہو ، بیوی جدائی نہ چاہتی ہو۔ 3: شوہر جدائی نہ چاہتا ہو مگر عورت نے خلع لیا ہو۔ آیت 230البقرہ میں وہ صورت ہے جب میاں بیوی اور فیصلہ کرنے والے باہوش وحواس دونوں میں جدائی کا فیصلہ کریں۔ یہاں تک کہ عورت کو شوہر کے دئیے ہوئے مال میں سے کچھ دینا حلال نہ ہونے کے باوجود فدیہ کی صورت اس صورت میں جائز ہو کہ جب وہ چیز رابطے کا ذریعہ اور اللہ کے حدود توڑنے کیلئے خدشہ بنے۔ ایسی صورت میں بھی شوہر کی فطری مجبوری ہوتی ہے کہ اپنے بچوں کی ماں کیلئے کسی اور سے اس کی مرضی کے مطابق شادی میں رکاوٹ کھڑی کرے۔ عمران خان نے کچھ عرصہ قبل ریحام خان کو طلاق دیدی تو وہ پاکستان اپنی جان پر کھیل کر آئی۔ لیڈی ڈیانا کو اس جرم پر ما ر دیا گیا ۔ رسول اللہ ﷺ کیلئے اللہ نے فرمایا : آپ کی ازواج سے کبھی بھی نکاح نہ کرے ، اس سے نبی کو اذیت ہوتی ہے۔ کوئی انسان بھی اس فطری خصلت سے انحراف نہیں کرسکتا کہ بیوی کو طلاق کے بعد کسی اور سے نکاح کرنے میں برداشت کرسکے۔ اسی طرح عورت کی بھی یہ فطری خصلت ہوتی ہے کہ طلاق کے بعد کسی اور سے شادی کرنے میں عار محسوس کرتی ہے اور اپنی غیرت کیخلاف سمجھتی ہے۔ رسول ﷺ کی چچا زاد حضرت اُم ہانیؓ ابتدائی مسلمانوں میں سے تھیں مگر مشرک شوہر کی وجہ سے ہجرت نہیں کی۔ فتح مکہ کے بعد شوہر چھوڑ کر چلا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے نکاح کی پیشکش کی لیکن آپؓ نے اُم المؤمنین بننے کے شرف کو بھی قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اُردو کی مشہور شاعرہ پروین شاکرؒ کو شوہر نے طلاق دی، کسی اور سے نکاح کرلیا مگر پروین شاکرؒ فطرت پر ڈٹ گئی اور زندگی اپنے بے وفا شوہرکی نذر کردی۔ وہ ان ہزاروں لاکھوں خواتین کی حقیقی ترجمان تھیں جن میں حلالہ کی وجہ سے نہیں فطری غیرت کی وجہ سے سابقہ شوہر کی وفا ہوتی ہے۔
جب لڑکی کنواری ہوتی ہے تو باپ اور ولی اس کو اپنی مرضی سے نکاح نہیں کرنے دیتا ۔ کورٹ میرج اور قتل کے واقعات میڈیا کی زینت بنتے ہیں۔ حدیث میں ایک طرف باپ کو پابند کیا گیا ہے کہ لڑکی کی مرضی کے بغیر اس کا کسی سے نکاح کرانا جائز نہیں ، اور دوسری طرف ولی کی اجازت کے بغیر لڑکی کا نکاح باطل قرار دیا گیا ۔ معاشرے میں احادیث کی بنیاد پر توازن اور اعتدال کی راہ ہموار ہوسکتی تھی لیکن اس کیلئے کوئی سنجیدہ قسم کی علمی اور معاشرتی کوشش نہیں کی گئی۔ جس طرح باپ لڑکی کی مرضی سے نکاح میں رکاوٹ بنتا ہے ، اس طرح باہوش و حواس طلاق کے بعد بھی سابقہ شوہر عورت کے نکاح میں رکاوٹ بنتا ہے اسلئے اللہ تعالیٰ نے بھرپور طریقے سے وضاحت فرمائی ہے کہ جب وہ باہوش و حواس طلاق دیتا ہے تو کسی اور سے نکاح کرنے میں رکاوٹ کھڑی کرنا اس کیلئے جائز نہیں ہے۔
حلالہ کی لعنت کے رسیاکو زنا کاری کا حدجاری کرنے سے ہی روکا جاسکتاہے لیکن اس بات کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہے کہ جس طلاق سے پہلے نہ صرف میاں بیوی جدا ہونے پر باہوش وحواس بضد ہوں بلکہ وہ خود بھی اور فیصلہ کرنے والے بھی آئندہ رابطے کا بھی کوئی ذریعہ چھوڑنے کیلئے تیار نہ ہوں۔ ایسی صورت میں سوال یہ پیدا نہیں ہوتاہے کہ رجوع جائز ہے یا نہیں بلکہ مسئلہ یہ آتاہے کہ اگر عورت طلاق کے بعد شوہر کے گھر میں بیٹھ جائے یا اپنے یا باپ کے گھر میں بیٹھ جائے تو شوہر کو کوئی تکلیف نہیں پہنچتی ہے۔ لیکن جب وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرنا چاہتی ہو تو پہلا شوہر اسکے رکاوٹ بنتاہے اور یہ فطری بات ہے انسانوں اور جانوروں کے علاوہ پرندوں میں بھی یہ خصلت ہوتی ہے، اسلئے اس موقع پر اللہ نے واضح کر دیا کہ اس طلاق کے بعد اس کیلئے حلال نہیں کہ وہ دوسرے شوہر سے نکاح میں رکاوٹ پیدا کرلے۔ یہ وہ صورت ہے جس کا ذکر آیت 230البقرہ میں کیا گیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہوہی نہیں سکتا ہے کہ مرغی پر چھرا پھیرنے کی طرح رجوع کیلئے حلالہ کی مروجہ لعنت مراد ہے اور سورۂ بقرہ کی آیات224سے232تک دیکھی جائیں تو حلالہ کی جہالت کا بہر صورت ان میں خاتمہ نظر آتاہے۔بخاری و ابوداؤد کی حدیت اور سورۂ طلاق کی وضاحت بھی ہے۔
2: دوسری صورت یہ ہے کہ شوہر نے طلاق دی اور بیوی جدائی نہیں چاہتی ہے تو شوہر کو عدت کی تکمیل پر بھی معروف طریقے سے رجوع کی اجازت دی گئی ہے۔ جسکا ذکر آیت 231 البقرہ میں ہے۔ 3: تیسری صورت یہ ہے کہ عورت جدائی چاہتی ہو اور مرد نے طلاق دی ہو تو عدت کی تکمیل کے بعد بھی جب دونوں آپس میں راضی ہوں تو معروف طریقے سے رجوع میں رکاوٹ کھڑی کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس کا ذکر آیت 232البقرہ میں ہے۔ علاوہ ازیں سورہ طلاق میں بھی عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل پر نہ صرف معروف طریقے سے رجوع کی گنجائش کا ذکر ہے بلکہ طلاق کی صورت میں دو عادل گواہ مقرر کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ عدت کی تکمیل پر گواہوں کا تقرر تمام مسائل کے حل کا مجموعہ ہے۔
لفظ طلاق میں کوئی کراہت اور برائی نہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر فرمایا :لا تثریب علیکم الیوم انتم طلقاء ’’تم پر آج کوئی ملامت نہیں تم آزاد ہو‘‘۔ طلاق کے لفظ میں برائی ہوتی تو نبی کریم ﷺ ملامت نہ کرنے والوں کو طلقاء کیوں بولتے؟ مگر اس میں برائی نہیں۔ میاں بیوی کی جدائی کو نبی ﷺ نے ابغض الحلال الطلاق قرار دیا ہے جس کا مطلب ’’سب سے ناراضگی والی صورت حلال کی طلاق ہے‘‘ ۔ عربی کی الف ب سے ناواقف اور نا اہل علماء و مفتیان نے عجیب و غریب قسم کے فقہی مسائل گھڑ رکھے ہیں۔ عربی کہے کہ بشرت زوجتی فطلق وجہہ ’’میں نے اپنی بیوی کو خوشخبری سنائی تو اسکا چہرہ کھل گیا‘‘۔ بعض مفتیان سے اس جملہ پر فتویٰ لیا جائے تووہ کہیں گے بیوی طلاق ہوگئی۔ حدیث میں نامرد کے ذریعے حلالہ کا ذکر ہے تو اس واقعہ میں الگ الگ مرتبہ تین طلاق کی بھی وضاحت ہے اور وہ حدیث بھی خبر واحد ہے جس میں حنفی مسلک کیمطابق یہ صلاحیت نہیں کہ وہ قرآن کے مقابلے میں قابلِ عمل ہو۔ نامرد ویسے بھی مطلوبہ و ملعونہ حلالے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ صحیح احادیث کے مقابلے میں روایات گھڑی گئی ہیں۔ کوئی من گھڑت حدیث بھی نہیں، جس میں ایک ساتھ تین طلاق پر حلالے کا حکم دیا گیا ہو۔ صحابہؓ اور چارا ماموں کا مسلک درست تھا کہ3 طلاق کے بعد شوہر کو رجوع کا حق نہیں لیکن حق اور گنجائش میں بڑا فرق ہے۔ قرآن میں طلاق کے بعد بھی شوہر کو رجوع کا حق نہیں دیا، رفاعۃ القرظیؓ کی بیگم نے دوسرے سے شادی کرلی ۔ حق مہر کے بعد شوہر کا حق بنتاہے کہ بیوی سے مباشرت کرے۔ یہ تو کہیں بھی ثابت نہیں کہ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد عدت میں کسی کو رجوع کیلئے حلالہ کا فتویٰ دیا گیا ہو۔ صحابہ کرامؓ اور ائمہ مجتہدینؒ نے یہ غلط کام نہیں کیا۔ عتیق

قرآن و سنت کی روشنی اور فقہ حنفی سے حلالہ کے بغیر فتوؤں کیلئے رجوع کریں

quran-o-sunnat-ki-roshni-or-fiqah-hanfi-se-halala-ke-bagair-fatwoon-ke-lie-ruju-karen

آپ کے مسائل کا حل’’ قرآن وسنت کی روشنی میں‘‘

قرآن کریم کے سامنے سمندر ہیچ ہے، جو قیامت تک کہکشاؤں کی وسعت کو ایک جملہ میں بیان کرتاہے۔ قرآن میں جگہ جگہ ’’اَیمانکم‘‘ کا ذکر ہے۔ اس سے مراد قسم بھی ہے، عہدوپیمان بھی، وہ ایگریمنٹ بھی ہے جو باقاعدہ معاہدے کرنے کے تحت ہو اور وہ بھی ہے جس میں اخلاقی طور سے ذمہ داری پڑتی ہو۔ کسی بھی لفظ کا درست مفہوم سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ ’’جملے کو سیاق وسباق کے مطابق دیکھا جائے اور اس پر غور فکر وتدبر کے ذریعے فیصلہ کن نتیجے پر پہنچا جائے‘‘۔
مسائل طلاق سے پہلے اللہ نے فرمایا: ولاتجعلوا اللہ عرضۃ لایمانکم ان تبروا وتتقواوتصلحوا بین الناس واللہ سمیع علیمO’’ اور نہ بناؤ اللہ کو اپنے قسموں(عہدوپیمان، حرام کہنا، ایلاء کرنا، تین طلاق، ظہاروغیرہ) کیلئے ڈھال کہ تم نیکی نہ کروگے، تقویٰ اختیار نہ کروگے اور لوگوں کے درمیان مصالحت نہ کروگے۔ اللہ سنتا اور جانتا ہے‘‘۔( البقرہ :آیت 224)۔ افسوس ہے کہ طلاق صریح، کنایہ اور مختلف بدعات کی گمراہی سے قرآن کی واضح خلاف ورزی کی گئی۔ میاں بیوی ملنا چاہتے ہیں اور مسندوں پر بیٹھ کر فتویٰ دیا جاتا ہے کہ اللہ کا یہ حکم ہے کہ تم نہیں مل سکتے ہو۔ قومی اسمبلی، سینٹ یا صوبائی اسمبلیوں میں علماء ومفتیان کو طلب کرکے حقائق کی نشاندہی کی جائے تو اللہ تعالیٰ ہم پر رحم کریگا۔ حلالہ کے نام پر گھروں کی تباہی اور عزتوں کا لوٹنا بند کرنا چاہئے۔ سعودی عرب، ایران ، بھارت، افغانستان اور دنیا بھر سے علماء وکرام کا عظیم اجتماع بلاکر مسائل نو حل کئے جائیں۔
ایک بیٹا زبردستی سے باپ کی زندگی میں ایک بار اپنا حصہ لے اور اگر پھر اس کو دوبارہ بدمعاشی کرنے دیجائے تو یہ زمین میں فساد پھیلانا ہوگا۔ پھر ہر بدمعاش بیٹا دو، دو حصے کی میراث لے گا۔ ایک باپ کی زندگی میں اور دوسرا حصہ اسکے فوت ہونے کے بعد۔ معاشرے کو بدمعاشی نہیں شریعت اور وقت کے حکمرانوں کے قوانین کے ذریعے سے ہی کنٹرول کیا جاسکتاہے۔ نبیﷺ نے صلح حدیبیہ کا معاہدہ کیا تو بھی اس کی خلاف ورزی نہیں کی،حضرت ابوجندلؓ کو دوبارہ کفارِ مکہ کے حوالے کیا۔ اللہ نے فرمایا: ولکل جعلنا موالی مما ترک الوالدٰنِ والاقربون والذین عقدت ایمانکم فاٰ تو ھم نصیبھم ’’ اور ہم نے اس مال کے وارث مقرر کئے ہیں جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ کر جائیں۔ اور جن لوگوں نے تمہارے ساتھ ایگریمنٹ کیا ہو تو ان کو انکا حصہ دو‘‘۔(النساء : 33)۔ جس نے زبردستی باپ سے زندگی میں حصہ لیا وہ دوبارہ حصہ نہیں لے سکتا ہے۔
امریکہ اور سعودی عرب میں ایگریمنٹ اور مسیار ایک معروضی حقیقت ہے تو اس کا حل بھی قرآن میں ہے۔ الا علی ازواجہم او ماملکت ایمانہم ’’ مگر ان کی اپنی بیگمات اور جو ان کی لونڈیاں ہیں یا جن سے ان کا معاہدہ طے پایا ہو‘‘۔ موجودہ دور میں لونڈیوں کی روایت ختم ہوگئی لیکن قرآن اپنی وسعت کے لحاظ سے قیامت تک روز روز کی بنیاد پر کھڑے ہونیوالے مسائل کو حل کرنے کیلئے دعوے میں سچاہے کہ وانزلنا علیک الکتاب تبیان لکل شئی ’’ اور ہم نے (اے نبیﷺ) تجھ پر کتاب اتاری جو ہر چیز کو واضح کرنے والی ہے‘‘۔ (القرآن)اللہ نے پڑوسیوں کا ذکر کرتے ہوئے بھی ملکت ایمانہم کا ذکر کیا ہے ۔ خواتین کیلئے بھی پردہ نہ کرنے کے حوالے سے ذکر کیا ہے۔اگر نکاح و طلاق کے درست مسائل مسلمانوں نے اپنے کرتوت سے ملیامیٹ نہ کئے ہوتے اور اسلام دنیا میں اجنبی نہ بنتا تو قرآن وسنت کے معاشرتی مسائل سے پوری دنیا استفادہ کرتی۔ ایک عورت کسی سے نکاح کرلے تو جو حق مہر مقرر ہوچکا ، اگر ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی تو مقرر کردہ حق مہر کا آدھا دینا پڑیگا۔ اگر مغرب کے سامنے اسلامی قوانین قرآن وسنت کی روشنی میں رکھے جائیں تو پھر وہ لوگ بھی قرآن وسنت ہی کو مشعلِ راہ بنالیں۔ باقاعدہ نکاح کرنے کے بغیر یہ رویہ کہ بوائے اور گرل فرینڈز پر گزارہ کرلیں اس کی بنیادی وجہ نکاح کے وہ غیرفطری قوانین ہیں جو وہاں کی حکومتوں نے رائج کئے ہیں۔ شوہر کو طلاق اور عورت کو قرآن میں خلع کی اجازت ہے ۔ آیت 19 النساء میں پہلے خلع پھر آیت20،21 النساء میں طلاق کا ذکر ہے۔ جن میں عورت کے حقوق کو تحفظ دینے کی وضاحت ہے۔ شوہر کویہ حق اسلام نے کہیں نہیں دیا ہے کہ10بچے جنواکر ایسے دور میں بیوی کو طلاق دیکر باپ کے گھر بھیجا جائے جب اس بے چاری کا کوئی میکہ ہی نہ رہا ہو۔ ایک بیوی کو چھوڑ کر دوسری سے شادی اور طلاق کی صورت میں جو کچھ دیا ہے ، چاہے خزانے کیوں نہ ہوں اس میں سے کچھ بھی واپس نہیں لے سکتے۔
وہ خاتون جسکا شوہر فوت ہواور اس کو دنیا میں مراعات ملتی ہیں اور نکاح ثانی سے وہ پہلے کا شرفِ زوجیت کھو دیتی ہے اور مراعات بند ہوتے ہیں تو ایگریمنٹ کرسکتی ہے۔ والمحصنٰت من النساء الاماملکت ایمانکم ’’اور شادی شدہ خواتین بھی حلال نہیں مگر جن سے معاہدہ طے ہوجائے‘‘۔ اس میں ایک طرف پہلے دور کی وہ خواتین تھیں جو شادی شدہ ہوکر بھی لونڈی بن جاتی تھی، آج وہ دور ختم ہے لیکن قرآن کا حکم ہمیشہ کیلئے باقی رہتاہے اور قرآن نے خبر دی ہے کہ قیامت کے دن بھی ماں،باپ، بچوں اور بہن بھائی کی طرح بیویوں کا تعلق بھی باقی رہے گا۔مفتیانِ اعظم کی بیگمات15سال بعد بھی مر جاتی ہیں تو ان کی قبروں کے تختی پر ’’زوجہ مفتی اعظم ‘‘ لکھا ہوتاہے۔علماء ومفتیان بتائیں کہ ’’ اجنبی شخص کی زوجیت کی نسبت لگائی جاتی ہے؟‘‘۔ ایک جاہل مفتی طارق مسعود جامعۃ الرشید سوشل میڈیاپر کہتا ہے ’’شوہر اپنی بیوی کو قبر میں نہیں اُتار سکتا، البتہ اگر محرم موجود نہ ہوں تو بالکل اجنبی مردکے بجائے یہ تھوڑا بہت اجنبی اُتار سکتاہے‘‘۔ بالفرض مفتی طارق مسعود کی اَماں کو اسکا اَبا قبر میں نہیں اُتارتااور وہ قبر پر بھی باپ کی زوجہ کی تختی نہیں لگواتابلکہ اماں طارق مسعودلکھ دیتاہے تو قیامت کے دن وہ انسان بن کر اٹھے گا یا جانور ؟۔ یوم یفرالمرء من اخیہ وامہ وابیہ وصاحبتہ وبنیہ ’’ اس دن فرار ہوگا کہ آدمی اپنے بھائی سے، اپنی ماں سے، اپنے باپ سے ، اپنی بیوی سے اور اپنے بچوں سے‘‘۔ پھر اس اجنبی خاتون کی نسبت اس اجنبی شخص کی طرف کیوں کی گئی ہے؟۔
رسول اللہﷺ نے چچی حضرت علیؓ کی والدہ کو دستِ مبارک سے قبر میں اتارا، فرمایا کہ ’’یہ میری ماں ہے بیٹا جیسے پالا ہے‘‘۔ نبیﷺ نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا ’’ اگر آپ پہلے فوت ہوئی تو ہاتھ سے غسل دوں گا‘‘۔ حضرت ابوبکرؓ کی میت کو آپؓ کی زوجہ اُم عمیسؓ نے اور حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہؓ کی میت کو غسل دیا۔ فتویٰ اور میت کو غسل دینا مولوی نے پیشہ بنالیا تو قرآن وسنت کی تعلیمات کو چھوڑ کر دور کی گمراہی میں پڑگئے۔ عین الھدایہ میں لکھ دیا کہ ’’ میت کے عضوء تناسل کا حکم لکڑی کی طرح ہے،اگر مرد نے دبر یا عورت نے فرج میں ڈالا، توغسل نہیں‘‘۔شوہر اور بیوی ایکدوسرے کا چہرہ نہ دیکھ سکیں اور عضوء تناسل کا حکم لکڑی کا؟۔تف ہے تم پر۔