پوسٹ تلاش کریں

دو دل والا بچہ سہون شریف سندھ میں قرآن میں کسی شخص کے سینے میں دو دل نہ ہونے کی درست تفسیر

دو دل والا بچہ سہون شریف سندھ میں
قرآن میں کسی شخص کے سینے میں دو دل نہ ہونے کی درست تفسیر

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
چیف ایڈیٹر: اخبار نوشتہ دیوار کراچی

مَّا جَعَلَ اللَّہُ لِرَجُلٍ مِّن قَلْبَیْنِ فِی جَوْفِہِ وَمَا جَعَلَ أَزْوَاجَکُمُ اللَّائِی تُظَاہِرُونَ مِنْہُنَّ أُمَّہَاتِکُمْ وَمَا جَعَلَ أَدْعِیَائَکُمْ أَبْنَائَکُمْ ذَٰلِکُمْ قَوْلُکُم بِأَفْوَاہِکُمْ وَاللَّہُ یَقُولُ الْحَقَّ وَہُوَ یَہْدِی السَّبِیلَ (الاحزاب:4)

اللہ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں بنائے اور نہ تمہاری ان بیویوں کو تمہاری مائیں بنایا ہے جن سے تم نے ظہار کیا ہے۔ اور نہ تمہارے لے پالکوں کو تمہارے بیٹے بنایا ہے۔ یہ تمہارے منہ کی باتیں ہیں اور اللہ حق کہتا ہے اوروہ راستہ دکھاتا ہے۔الاحزاب

ٹی وی24چینل میں11نومبر2021کی رپورٹ۔
10نومبر2021کو ڈسٹرکٹ ہسپتال عبداللہ شاہ میڈیکل انسٹیٹیوٹ سہون شریف سندھ میں6سالہ بچہ کامران رند گاؤں قاضی احمدسے تکلیف کے باعث لایا گیا۔ چیک اپ کے بعد قدرت کے اس کرشمے کا انکشاف ہوا کہ بچے کے دو دل ہیں اوردونوں دل بالکل نارمل طریقے سے کام کررہے ہیں۔ اتفاق سے ہم نے پچھلے شمارے میں یہی لکھا تھا کہ قرآن میں” اللہ نے کسی آدمی کے سینے میں دو دل نہیں بنائے ہیں”کا مطلب یہ نہیں کہ ”میڈیکل کے لحاظ سے دو دل نہیں ہوسکتے۔ یہ ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کے دو دل ہوں”۔ ہوسکتا ہے کہ کئی لوگ پہلے بھی دودل والے گزرے ہوں۔ اگر بچے کا اتفاقیہ دل کا چیک اپ نہ ہوتا تو پھر پتہ بھی نہ چلتا۔
الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے چینل ہر چیز کا بہت مثبت اور منفی انداز میں زبردست پروپیگنڈہ کرنے کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ کوئی انتہائی بے شرمی اور ڈھٹائی سے نوازشریف کو بے گناہ ثابت کرتا ہے اور کوئی گناہگار لیکن حقائق کی طرف دھیان نہیں دیتے۔ قائداعظم محمد علی جناح کا نمازِ جنازہ پڑھانے والے شیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانی نے تفسیر عثمانی میں لکھ دیاہے کہ” کسی کے دو دل نہیں ہوسکتے ،ورنہ تو کسی کا سینہ چیر کر دیکھ لیا جائے تو ایک ہی دل نکلے گا”۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں میلاد النبی کا کوئی وجود نہیں تھا۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اسلامی بینکاری موجود تھی؟

میلادالنبیۖ ہم اسلئے نہیں مناتے کہ یہ مذہبی تقریب ہے جس کا نبیۖ کے دور میں وجود نہیں تھااور14اگست جشن آزادی کی تقریب ہم اسلئے مناتے ہیں کہ دنیاوی تقریب ہے۔شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نومنتخب صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان۔پھرسوال بنتا ہے کہ رسول ۖ، خلفاء راشدین، ائمہ اربعہ ، مفتی تقی عثمانی کے والدمحترم مفتی محمد شفیع کے دور میں اسلامی بینکاری کا وجود تھا،وفاق المدارس کے سابقہ صدور بھی مخالف نہ تھے؟

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

الحمد للہ وزیراعظم کی زبان پر نقاب کا ذکر آیا۔ مہاجرات صحابیات بہت قابلِ احترام تھیں جب پردے کا حکم آگیا تو انہوں نے لنگ (ازار) پھاڑ کر اپنا سر اور سینہ ڈھانپا تھا۔ مولانا محمد انور جمعیت علماء اسلام کا قومی اسمبلی میں خطاب

میلاد النبی ۖ اورمفتی تقی عثمانی
ہندوستان اور پاکستان میں بریلوی دیوبندی اختلافات نئے نہیں ہیں لیکن ذمہ دار حلقوں نے اپنی سمجھداری سے کام لیکرہمیشہ فرقہ واریت میں ہوا بھرنے سے گریز کیا ہے۔ علماء دیوبند کے اکابر کے پیرومرشد حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے بھی اپنی کتاب ” فیصلہ ہفت مسئلہ” میں تمام متنازع امور کوبہت ہی خوبصورتی کیساتھ ختم کرنے کی زبردست کوشش فرمائی تھی۔ مولانا قاسم نانوتوی نے کہا تھا کہ میں علم کی وجہ سے حضرت امداد اللہ مہاجر سے بیعت ہوا ہوں۔لیکن مولانا رشیداحمد گنگوہی نے فرمایا تھا کہ میں ان کے علم سے نہیںتقویٰ کی وجہ سے بیعت ہوا ہوں۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے حاجی امداداللہ مہاجر مکی سے عرض کیا کہ مولانا رشیداحمد گنگوہی سے میری سفارش کرلیں کہ مجھے وہ بیعت کرلے۔ حضرت امداد اللہ مہاجر مکی نے فرمایا کہ ” میں تجھے خود بیعت کرتا ہوں ”۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے خانقاہی نظام کو سب سے زیادہ مولانا اشرف علی تھانوی ہی نے پھیلایا ہے۔ آپ کی کتاب ” فیصلہ ہفت مسئلہ ” کو بھی مولانا تھانوی نے ہی چھاپ دیا تھا ، ورنہ مولانا رشید احمد گنگوہی کے شاگردوں نے اس کو پھاڑ دیا تھا۔
مولانا رشید احمد گنگوہی کے ایک شاگرد مولانا حسین علی تھے جن کے شاگرد شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان اور شیخ القرآن مولانا محمد طاہر پنج پیری تھے۔ پھر ان کے بھی دو دھڑے بن گئے۔ مولانا غلام اللہ خان عام دیوبندی علماء سے مل گئے لیکن مولانا طاہر پنج پیری دوسرے دیوبندی علماء کو بدعتی قرار دیتے تھے۔ آج بھی اختلافات کا یہ سلسلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ اب یہ ایک نیا موڑ اختیار کر گیا ہے۔ مفتی محمد تقی عثمانی میلاد النبیۖ کے منانے کو بدعت قرار دیتا ہے لیکن مفتی اعظم پاکستان مفتی محمود اور جمعیت علماء کے قائد مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں دیوبندی اکابر علماء بہت اہتمام کیساتھ میلاد کا جلوس ڈیر ہ ا سماعیل خان میں بھی نکالتے ہیں۔ کیا مفتی محموداور ڈیرہ کے اکابر علماء دیوبند اس وجہ سے بدعتی ہیں ؟۔

دیوبندی اور بریلوی اختلافات
بدعت اور سنت کے حوالے سے دیوبندی بریلوی اختلافات بہت عروج پر رہتے ہیں۔ مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ نے ایک بہت بڑی کتاب لکھ ڈالی کہ جس میں سنت نماز کے بعد اجتماعی دعا کو بدعت قرار دیا۔ ہندوستان، پنجاب اور کراچی میں علماء دیوبند کے اکابر اس پر عمل کرتے تھے اور سنتوں کے بعد اجتماعی دعا کو بدعت سمجھ کر چھوڑ دیتے تھے مگراندورنِ سندھ امروٹ شریف، بیر شریف اور ہالیجی شریف سنت نمازوں کے بعد بھی اجتماعی دعا ہوتی تھی۔ پختونخوا اور بلوچستان کے علاوہ افغانستان میں سنتوں کے بعد اجتماعی دعا مساجد میں ہوتی تھی۔اکوڑہ خٹک کے جامعہ حقانیہ اور پنج پیر کا اختلاف سنت کے بعد اجتماعی دعا اور حیلہ اسقاط وغیرہ سے زور وشور کیساتھ جاری رہتا تھا۔ جامعہ العلوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی میں بھی پنج پیری طلبہ کو اپنی شناخت چھپانی پڑتی تھی۔ اسلئے کہ مولانا سیدمحمدیوسف بنوری کا تعلق پختونخوا سے تھا۔ پنج پیری علماء اپنے مخالف دوسرے علماء کو حق چھپانے کا مرتکب قرار دیتے تھے اور دوسرے دیوبندی علماء پنج پیری علماء کو سب سے بڑا فتنہ قرار دیتے تھے۔ یہ جنگ ابھی جاری ہے۔
مولانا فضل غفور نے جب ایک عالمِ دین کا خواب اپنی جمعیت علماء اسلام کی تائید کیلئے بیان کیا تو پنج پیری علماء کی اکثریت نے اس پر رسول اللہۖ کی شان میں گستاخی کا فتویٰ لگادیا لیکن انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ مولانا حسین علی کی تفسیر” بلغة الحیران” میں لکھا کہ ” نبیۖ گر رہے تھے اور میں نے تھام لیا”۔ مولانا خضر حیات بھکروی اور دیگر پنج پیری علماء ان پر گستاخی کا فتویٰ کیوں نہیں لگاتے تھے؟۔ شمالی اتحاد کے احمد شاہ مسعود پنج پیری اور طالبان سنت کے بعد بھی اجتماعی دعا مانگنے والے بدعتی ہیں لیکن شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی طالبان سے نہیں کہتے ہیں کہ ” تم بدعتی ہو”۔ بریلوی دیوبندی اختلاف کی نوبت اس وقت آئے گی جب دیوبندی آپس میں کسی اچھے نتیجے پر نکل کر کبھی متفق بھی ہوجائیں گے۔

مفتی محمد تقی عثمانی اور سودی بینکاری؟
پاکستان میں پہلے سرکاری سطح پرربیع الاول کا اہتمام سیرت النبیۖ کے نام سے ہوتا تھا۔ دیوبندی علماء بھی ربیع الاول کا سیرت النبیۖ کے نام سے اہتمام کرتے تھے۔پہلی مرتبہ وزیراعظم عمران خان نے اپنے گھر بنی گالہ اور سرکاری سطح پر عیدمیلالنبیۖ کا اہتمام کیا ہے۔دوسری طرف سے شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے پہلی مرتبہ میلاد النبی ۖ منانے کو بدعت قرار دے دیا ہے۔
پاکستان میں پہلے دنیا پرستی کے نام پر سودی لین دین اور بینکاری کا اہتما م ہوتا تھا لیکن مفتی محمد تقی عثمانی نے مذہبی روپ میں سودی بینکاری کو اسلامی قرار دیا ہے؟۔ کیا یہ بدعت نہیں ہے؟۔ رسول اللہۖ اور خلفاء راشدین کے ادوار میں کوئی مذہبی پیشواء شیخ الاسلام نہیں ہوتا تھا لیکن پھر بنوامیہ کے بعد بنوعباس کے دورمیں شیخ الاسلام کا سرکاری عہدہ اور منصب بھی سامنے آگیا اور اب اس نے مذہب کا روپ ہی دھار لیا ہے کیا یہ بھی بدعت نہیں ہے؟۔کیا نبیۖ اور صحابہ کے دور میں غسل اور وضو کے فرائض اور ان پر اختلافات کا تصور تھا؟۔ یہ بدعت نہیںہیں؟۔ دیوبندی علماء مفتی تقی عثمانی اور اس کے آباء واجداد کو سرکاری مرغا قرار دیتے تھے۔ تھانوی گروپ کو آزادی کے علمبرداروں جمعیت علماء ہند کا دشمن سمجھا جاتا تھا۔ پھر جنرل ایوب خان کے پروردہ اس گروپ نے مشرقی اور مغربی پاکستان میں دیوبندی اکابر علماء پر1970ء میں کفر کا فتویٰ لگادیا۔ پھر تھانوی گروپ نے بھٹو کے برسر اقتدار آنے پر ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق کے دور میں جنرل ضیاء کا ساتھ دیا۔ مفتی محمود نے جنرل ضیاء الحق کی سرکاری زکوٰة کو سود قرار دیا اور پھر مولانا فضل الرحمن اس کو شراب کی بوتل پرآب زم زم کا لیبل قرار دیتے رہے۔ آج سرکاری مرغے نے حکومت کے برعکس کوئی آذان دیدی ہے تو یہ بہت زریں موقع ہے کہ سرکاری سطح اور عوامی سطح پر دین اسلام کی حقیقت کو سیاست سے پاک کرکے پوری قوم کو فرقہ واریت کے چنگل سے نکالا جائے۔

مولاناانور کی قومی اسمبلی میں تقریر
لکی مروت سے جمعیت علماء اسلام کے منتخب رکن نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب میں کہا ہے کہ ” شکر ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی زبان پر بھی نقاب کا لفظ آگیا۔ جب قرآن کی آیت نازل ہوئی ولیضربن بخمرھن علی جیوبھن ولایبدین زنیتھن الا لبعولتھن او لآبائھن…… ”عورتیں اپنے دوپٹوںکو اپنے سینوں پرڈال لیا کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں کے سامنے یا اپنے باپوں کے سامنے…”۔تو اولین مہاجرات صحابیات نے جو بہت ہی قابلِ احترام تھیں ،لنگ (ازار ) پھاڑ کر اپنے سروں اور اپنے سینوں کو ڈھانپ لیا”۔ سوشل میڈیا پر خطاب دیکھ لیں۔
مروت قوم کا قومی لباس پہلے لنگ (ازار)ہوتا تھا جس کو تہبند، دھوتی،لنگی، لنگوٹ بھی کہا جاتا ہے۔ جب سے مولانا محمد امیر بجلی گھر نے لنگ دھوتی کو صرف پنجابی لباس قرار دینا شروع کیا ہے اور اس کو بے غیرتی سے تعبیر کیا ہے تو تہبند کا احترام بھی ختم ہوگیا،حالانکہ حج اور عمرے میں لنگوٹ (تہبند) پہنا جاتاہے۔
جے یو آئی کے رکن قومی اسمبلی مولانا محمدانورعالم ہیں۔ مولانا سید مودودی نے بھی اپنی تفسیر میں لکھا کہ ”عرب میں دوپٹے کا رواج نہیں تھا، قرآنی آیات کے بعد مسلمانوں نے دوپٹہ اوڑھنا لینا شروع کیا”۔ جب یہ بحث آتی ہے کہ عربوں میں دوپٹے کا رواج نہ تھا اور مشرکینِ مکہ تہبند پہنا کرتے تھے اسلئے بعض مہاجرصحابیات نے تہبندوںکو پھاڑ کر اپنادوپٹہ بناکر سر وں اور سینوں پر ڈالا۔ مگرقرآن سے یہ واضح ہے کہ پہلے سے دوپٹے کا رواج تھاکیونکہ آیت میں اپنے دوپٹوں کو اپنے سینوں پر ڈالنے کا حکم واضح ہے۔ البتہ دوپٹوں سے سینے ڈھانپ لینے کا رواج ختم ہوگیا ہوگا۔ پختون معاشرے میں برقعے اور نقاب کی روایت زیادہ عرصے کی بات نہیں۔ حج وعمرہ میں بھی خواتین دوپٹے سے سینوں کو ڈھانپ لیتی ہیں لیکن چہرے کا پردہ نہیں۔

_ سودی نظام سے پاکستان کی تباہی؟_
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں سودی نظام کو اللہ اور اس کے رسول کیساتھ اعلانِ جنگ قرار دیا ہے۔ جب1947ء میں پاکستان بن گیا تو اس میں اسلامی نظام کو قراردادِ مقاصد تک محدود کیا گیا۔ پھر اسلامی نظام کیلئے متفقہ22نکات پیش کئے گئے۔ پھر جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا تو1973ء میں ایک اسلامی جمہوری آئین تشکیل دیا گیا لیکن آج تک اسلام پر عمل ہوااور نہ جمہوری نظام کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوسکا ہے۔ جو جمہوری پارٹیاں ڈکٹیٹروں کی پیداوار ہیں اور موروثی نظام کی حامل ہیں تو ان کے ذریعے جمہوریت کیسے آسکتی ہے؟۔
آج سول وملٹری بیوروکریسی ، سیاستدان اور عوام سب مل کربھی اتنا نہیں کھاتے ہیں جتنا سودی نظام کے تحت سودی قرضہ لیکر سودی رقم ادا کررہے ہیں۔ یہ اللہ کیساتھ اعلانِ جنگ کی سزا ہم بھگت رہے ہیں۔ نوازشریف نے جتنا قرضہ لیکر سودی نظام کو تقویت دی تھی تو اس کو پورا کرنے کیلئے عمران خان نے مزید اور زیادہ سودی قرضے لے لئے ہیں۔ یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا اور اس وجہ سے تمام ریاستی ادارے اور حکومتی شخصیات زیادہ سے زیادہ قرضے لیکر ملک وقوم کو ڈبونے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کی لڑائی زیادہ سے زیادہ لوٹ مار اور اقتدار کیلئے ہے اسلئے آئی ایس آئی چیف کی تقرری کے حق میں یا مخالفت میں کوئی بھی نہیں نکل رہاہے۔ ملکی مفادات کا مسئلہ ہوتا تو بہت سارے لوگ نکل آتے۔ پھر یہ بھی ممکن ہے کہ کل نئے آرمی چیف کی تقرری میں اس سے بھی زیادہ وقت لگے اور پوری دنیا پاکستان کی حکومت اور ریاست کا تماشہ دیکھنے لگ جائے۔ عوام کی بد دعائیں سب کو لگ رہی ہیں اور کھاؤ پیو معاملہ انجام کو پہنچنے والا ہے۔
سیاسی اقتدار کیلئے سب مررہے ہیں اور بڑے عہدے والے منصبوں کیلئے مررہے ہیں لیکن عوام کی غربت اور غریبوں کے بھوکے مرنے کا خیال کسی اقتدار والے کے دل ودماغ کو اپیل نہیں کرتا ہے۔ جن کا نام پانامہ پنڈورا میں بھی آیا ہے تو وہ میڈیا پر بڑی بے شرمی سے کہہ رہے ہیں کہ ہماری اولاد غیرملکی باشندے ہیں اور ان پر پاکستان کے قوانین کا کوئی اطلاق نہیں ہوتا ہے۔ جج ، جرنیل اور سیاستدان اپنی بیوی اور اپنے بچوں سے لاتعلق اسلئے بنتے ہیں کہ کرپشن میں ان پر کوئی ادارہ گرفت بھی نہ کرسکے۔ جو اپنے والدین، بچوں اور بیویوں تک سے لاتعلقی کا اعلان کریں تو اپنے ملک اور قوم کے کیسے خیرخواہ ہوسکتے ہیں؟۔
سودی نظام کے نتائج ہم اللہ سے اعلانِ جنگ کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ جب اسلامی جمہوری اتحاد کے سینئر نائب صدر مولانا سمیع الحق شہید نے سودی نظام کے خاتمے پر زور دیا تو اس وقت کے رنگیلا وزیراعظم نوازشریف نے اس کے خلاف میڈم طاہرہ سکینڈل اخبارات کی زینت بنادیا۔ میڈم طاہرہ سے زیادہ طاہرہ سید کے معاملات میڈیا کے سامنے واضح تھے لیکن سودی نظام کے خلاف آواز اٹھانے کی مولانا سمیع الحق شہید کو سزا دی گئی تھی۔ اگر گیدڑ کی طرح چیخم دھاڑ کرکے اچانک خاموشی اختیار کرنے اور گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والا بھی ہماری قوم کا مقبول سیاسی قائد ہو تو پھر اس قوم کا اللہ ہی حافظ ہے۔
رسول اللہ ۖ نے آخری خطبے میں سودی نظام کے خاتمے کا اعلان کردیا۔ سب سے پہلے اپنے چچا حضرت عباس کے سود کو معاف کردیا۔ اور دوسرے چچا کے خون کو معاف کردیا۔ اللہ کرے کہ پاکستان کی بھی جان چھوٹ جائے۔

مزارعت سے سودی نظام کا خاتمہ؟
جب سود کی حرمت کے بارے میں آیات نازل ہوئیں تو نبیۖ نے مزارعت کو بھی سود قرار دیدیا۔مزارعت کی وجہ سے دنیا میں غلامی کا نظام رائج تھا اور خاندان کے خاندان غلام بنتے رہتے تھے۔ جاگیردار اپنے غلام بچوں، بچیوں کو تربیت دے کر مہنگے داموں منڈیوں میں فروخت کرتے تھے۔ غلام ولونڈی بنانے کے سب سے بڑا ادارہ جاگیردارانہ نظام تھا۔ بدر میں70افراد کو قیدی بنایا گیا اور ان میں کسی ایک کو بھی غلام نہیں بنایا گیا اور نہ غلام بنانا ممکن تھا اسلئے کہ دشمن سے گھر کی خدمت لینا مشکل نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے۔ بھارت کے کلبھوشن اور ابھی نندن کو کون اپنے گھر کا غلام بناسکتا تھا؟۔
جب نبیۖ نے مزارعت کو سود اور ناجائز قرار دے دیا تو جاگیرداروں کی اولاد بھی محنت کش بن گئی اور مزارعین کو مفت زمینیں مل گئیں تو وہ بھی خوشحالی سے زندگی بسر کرنے لگے اور جب محنت کشوں میں قوتِ خرید کی صلاحیت پیدا ہوگئی تو تاجر حضرات بھی خوشحال ہوگئے اور جب تاجروں نے زکوٰة اور زمینداروں نے عشر دینا شروع کردیا تو بہت سارے لوگوں نے خمس دینا بھی شروع کردیا تھا اور جن کی زمینیں بارانی تھیں تو ان سے بیسواں حصہ وصول کیا جانے لگا۔ غیرمسلم کو جزیہ کے نام سے اپنا ٹیکس دینا پڑتا تھا اور مسلمان اپنی مرضی سے اپنا فرض سمجھ کر زکوٰة ، خمس ، عشر اور بیسواں حصہ دیتے تھے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دور میں جب سالانہ بجٹ پیش کیا گیا تو بہت سارا مال بچ رہا تھا۔ انہوں نے رعایا کے تمام قرض داروں کا قرض ادا کرنے کا حکم دیا۔ عرض کیا گیا کہ وہ پہلے سے ادا کیا گیا ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ جن لوگوں نے اپنی بیگمات کے حق مہر ادا نہیں کئے ہیں ان کے حق مہر ادا کئے جائیں۔ وزیرخزانہ نے عرض کیا کہ پہلے سے اس پر عمل ہوچکا ہے، سب کے حق مہر بھی دیدئیے گئے ہیں۔ عمربن عبدالعزیز نے حکم دیا کہ جن جوانوں کی شادیاں نہیں ہوئی ہیں ،بیت المال سے ان کی شادیاں بھی کروادو۔ عرض کیا گیا کہ اس پر بھی عمل ہوچکا ہے۔ غرض بیت المال کے پاس اتنا پیسہ تھا کہ رعایا پر خرچ کرنے کیلئے کوئی بہانہ ڈھونڈنے سے نہیں ملتا تھا۔
مشرکینِ مکہ اور دشمنان اسلام کو یہ گمان تھا کہ مسلمانوں کا مختصر گروہ وقت کی تاب نہ لاکر ختم ہوجائیگا لیکن ان کواندازہ نہیں تھا کہ حجاز میں جہاں بہت مشکل سے پانی کے کنویں بھی نہیں ملتے تھے۔ آب زم زم تھا یا مدینہ کے کچھ چشمے تھے ۔ لیکن پھر وہ دور بھی آیا کہ مصروشام، عراق اور ایران اور برصغیرپاک وہند تک بھی مسلمانوں کا اقتدار پھیل گیا اور اسپین وروم بھی ان کے زیرتسلط آگئے تھے۔ جب ایران کو فتح کیا گیا تھا تو حضرت عمرفاروق اعظم کے دور میں کسریٰ ایران کے محل سے جو شہزادیاں ملی تھیں ان سے حضرت امام حسن ، امام حسین اور محمد بن ابی بکر کی شادیاں کرائی گئیں۔ لگتا ایسا ہے کہ جس طرح حضرت ابراہیم کی زوجہ حضرت سارہ کی خدمت میں ایک ظالم بادشاہ نے اپنی ایک لونڈی حضرت حاجرہ پیش کی تھی جو اصل میں شہزادی تھی۔ اسی طرح ایران کے بادشاہ کو شکست دینے کے بعد یہ شہزادیاں بھی بادشاہ کے دربار میں رہ گئی ہوں گی۔ اسلام میں آزاد عورتوں کو لونڈی بنانے کا کوئی تصور نہیں ہوسکتا تھا۔ قرآن میں مسلمانوں کیساتھ بہت سارے وعدے کئے گئے تھے جن میں اقتدار اور خلافت کا وعدہ بھی تھا۔ وقت کی سپر طاقتوں روم وایران کو شکست دی گئی اور نہروں اور باغات کے دنیا میں بھی مالک بن گئے تھے۔ غلمان اور لونڈیوں سے بھی دنیا میں نوازا گیا تھا۔ اسلام نے لونڈی بنانے کا نہیں لونڈی وغلام کو آزاد کرنے اور سہولت دینے کا تصور دیا تھا۔
قرآن میں ان غلمانوں کا ذکر ہے جو ایکدوسرے پر تحفہ میں پیش کرینگے اور وہ اللہ کا شکر ادا کرینگے جن کو سخت دھوپ اور گرم لُو سے نجات دیکر اچھے مالکوں تک پہنچایا۔ علی کے مالک اشتر سے غزنوی کے محمود تک زبردست تاریخ ہے۔

اسلام کا غیرسودی بڑامعاشی نظام؟
کارل مارکس نے جو کیمونزم کا نظریہ دیا تھا ،اس نے روس کو دنیا کی دوسری سپر طاقت بنادیا تھا۔ اگر چین اور اسلامی دنیا اس کا ساتھ دیتے تو اس کا مقابلہ امریکہ اور یورپ نہیںکرسکتے تھے۔ امریکہ نے پہلے پاکستان اور اسلامی دنیا کو روس کے خلاف استعمال کیا اور اب خدشہ ہے کہ بھارت اور افغانستان کو چین کے خلاف بھی استعمال کرسکتا ہے۔ایسی صورت میں پاکستان کا بھرتہ نکل جائے گا۔ پاکستان کا اپنا کوئی معاشی نظام نہیں ہے۔ سستی بجلی پیدا کرکے اپنی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا لیکن ہمارے بڑے لوگوں نے غیرملکی سودی قرضے لے لے کر بیرون ملک اپنے اثاثے بنالئے ہیں۔ اسلام کی معیشت میں کسانوں کو مزارعت کے بغیر زمینیں مفت میں دینا اور سود سے پاک نظام کی بنیادی اہمیت ہے۔ کیمونزم اور کیپٹل ازم کے درمیان اسلامی معیشت کا درمیانہ نظام دنیا کو تباہی کے کنارے پہنچانے سے بچانے میں اہم کردار بھی ادا کرسکتا ہے۔ دریائے سندھ سمیت تمام دریاؤں پر چھوٹے بڑے ڈیم تعمیر کرنے سے پاکستان کی زمینوں کو باغات اور کھیتی باڑی سے بھی سرسبزوشاداب کرسکتے ہیں اور اس پر بجلی بنانے کے آلات لگاکرسستی بجلی بھی پیدا کرسکتے ہیں۔
جب ہمارا محنت کش زمیندار خوشحال ہوگا تو وہ بجلی خریدنے اور ضروریات کی اشیاء اور اپنے بچوں کے اعلیٰ تعلیم وتربیت کے بھی قابل بن جائے گا۔ ان کی خوشحالی سے تاجر بھی اپنی صنعتیں لگاکر اپنے مزدوروں کو اچھی دیہاڑی دے سکیں گے اور نہ صرف ہمارا ملک خود کفیل بن جائے گا بلکہ ترقی وعروج میں پوری دنیا کو بھی پیچھے چھوڑ جائے گا۔ جب زمین کے محنت کش کھیتی باڑی اور باغات سے خوشحال بن جائیں گے تو معاشرے میں باصلاحیت طبقہ انجینئر، ڈاکٹر، پائلٹ، سیاستدان، پروفیسر اورجج بن سکے گا۔ ہمارے یہاں بھی مثالی انصاف دیکھنے کو ملے گا اور دنیا کی ترقی میں مسلمان بھی اپنا حصہ ڈال سکیں گے۔ اصل چیز محنت اور اس کی قدر ہے۔ عرب ممالک میں پیسہ ہے لیکن محنت سے عاری ہونے کی وجہ سے وہ دنیا میں ترقی کی دوڑ سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ جب ہمارے ہاں محنت کش طبقے کو مواقع مل جائیں گے تو دنیا بھر سے ہمارا محنت کش طبقہ اپنے وطن میں کمائی کی سہولت سے فائدہ بھی اٹھائے گا اور دنیا میں عزت بھی کمائے گا۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ ” مردوں کا وہی حصہ ہے جو انہوں نے کمایا ہے اور عورتوں کیلئے وہی حصہ ہے جو انہوں نے کمایا ہے”۔ حضرت خدیجہ ایک بہترین تاجر تھیں اور حضرت فاطمہ نے اپنے ہاتھوں کی دستکاری سے اپنا گھر چلانے کیلئے کمایا تھا اورآپ اپنی کمائی غریبوں میں بھی بانٹ دیتی تھیں۔ مزارعین خاندان مرد اور خواتین اپنی اپنی محنت کے مالک ہوں تو ان کا گھر آباد ہوگا لیکن جب ان کے ہاتھوں کی کمائی کے مالک جاگیردار ہوں تو پھر وہ ہمیشہ غریب سے غریب تر بنتے چلے جائیں گے۔ بلاول بھٹو زرداری، مریم نواز، شاہ محمود قریشی، عمران خان اور مولانا فضل الرحمن اسلامی معیشت کی طرف آجائیں اور مذہبی جماعتیں مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن اور شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کی طرف سے سود کے جواز کی بھرپور مذمت کریں تو انقلاب آجائے گا۔ ایک سید زادہ اکیلا کھڑے ہوکرانقلاب کی دھائی دے رہاہے اور لوگ اپنی ہی دھن میں مگن ہیں لیکن کوئی بات نہیں ،اللہ ایک اچھا وقت بھی لائیگا۔انشاء اللہ

_ چہر وں کونہیں نظام تبدیل کرناپڑیگا! _
سیاسی جماعتوں اور فوجی جرنیلوں کے پیٹ ابھی تک پاکستان کو کھانے سے نہیں بھرے ہیں اور نہ کبھی بھرسکتے ہیں جب تک کہ اللہ نہ بھر دے۔ اسلام کی ریاست عوام کو بیوقوف بنانے اور لوگوں سے ان کے وسائل چھین لینے کیلئے نہیں ہوتی ہے بلکہ ظالموں ،جابروں اور تیار خوروں سے مظلوم عوام کو نجات دلانے کیلئے ہوتی ہے۔ جب غریب مزارع اور محنت کش سے اس کی بیوی اور بچوں کی کمائی بھی ہمارا بااثر طبقہ کھانے میں کوئی تکلیف محسوس نہیں کرتا ہے تو پھروہ مفت کے اندورنی قرضے اور بیرونی قرضوں پر ہاتھ صاف کیوں نہیں کرے گا؟۔یہ سب کچھ وہ عوام کو ریلیف دلانے کے جھوٹے وعدوں اور دعوؤں پر کرتا ہے۔
آج اگر امریکہ ایک خفیہ فنڈ جاری کرے کہ افغان طالبان کو چین سے لڑانا ہے تو ہماری ریاست اور حکومت کے وارے نیارے ہوجائیںگے۔ مفاد پرستی اور دہشت گردی کا کوئی مذہب ، اصول اور قانون نہیں ہوتا ہے۔ اگر ڈیورنڈ لائن کے مسئلے پر پختونوں اور پنجابیوں کے درمیان امریکہ جنگ برپا کردے تو بہت سے لوگ اپنی اپنی دُم اٹھاکر بے غیرتی اور بے ضمیری کے چھتر کھانے کو بھی تیار ہوجائیںگے۔ سیاسی جماعتیں گیدڑوں کی طرح احتجاج کیلئے وقت اور موقع کی تلاش میں رہتی ہیں۔ عوام کو ان کی چیخوں کی آوازیں عجیب مسخرہ لگتی ہیں۔ قادر پٹیل نے قومی اسمبلی میں تقریر یںکی ہیں، وہی ہر جانب سے دہرائی جاتی ہیں۔
شیعہ سنی ، بریلوی دیوبندی ، حنفی اہل حدیث اور یہاں تک تبلیغی جماعت کی دھڑا بندیوں میں بستی نظام الدین بھارت اور رائیونڈ کے مرکز کے کارکنوں میں بھی تصادم اور نفرت بھڑکانے کا بازار گرم رہتا ہے۔ پنجابی، پختون، سندھی ، بلوچ اور مہاجر تعصبات کو ہوادی جاتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے رہنما، کارکن اور برسراقتدار طبقات بھی ہمیشہ زخموں پر نمک پاشی کیلئے سرگرم رہتے ہیں۔ کوئی مثبت سرگرمیاں کرنا بھی چاہے تو لوگ اس کو اہمیت نہیں دیتے ہیں۔
سرکاری اور غیرسرکاری زمینوں پر قبضے کا کاروبار جاری رہتا ہے۔ بلڈنگ بننے اور بیچنے کے بعد مکینوں کو لوٹ مار کی طرح بے گھر کردیا جاتا ہے۔ عدالت کو وقت نہیں ملتا ہے کہ عوام کو انصاف فراہم کرسکے۔ مجرموں کو سزا دلوانے کیلئے کوئی ٹھوس قوانین بھی نہیں ہیں کہ مخلص جج بھی کوئی اقدامات اٹھا سکیں۔ پارلیمنٹ کی کارکردگی طاقت اور دولت کے حصول کے علاوہ کوئی معنی نہیں رکھتی ہے۔ نفرت کسی ایک طبقے سے نہیں ہوسکتی ہے اسلئے کہ پورانظام بگڑا ہوا ہے اور اس بگاڑ کی ذمہ داری کوئی لینے کو تیار نہیں ہے لیکن طاقت کے حصول کی دوڑ میں ضرورت سے زیادہ شرکت کیلئے عوام کو ورغلانے میں سب لگے بندھے رہتے ہیں۔
دنیا مسلمانوں سے خوف کھا رہی ہے کہ ان کے اشرافیہ کا بس چلے تو دوسری قوموں کی خواتین کولونڈی بنانے سے بھی دریغ نہیں کریں گے اسلئے کہ قرآن کا حکم ان کو ایسا ہی لگتا ہے۔ حالانکہ قرآن نے دودو، تین تین، چار چار شادیوں کی اجازت دینے کے بعد فرمایا ہے کہ اگر تمہیں خوف ہو کہ انصاف نہیں کرسکوگے تو پھر ایک یا جن سے تمہارا ایگریمنٹ ہوجائے۔ متعہ ومسیار سے بھی زیادہ بڑی بھیانک چیز لونڈیوں کا تصور ہے لیکن مسلمانوں نے قرآنی آیات سے لونڈیاں مراد لی ہیں اور پھر یہ تصور قائم کیا ہے کہ جنگوں کے بعد دشمنوں کو غلام ولونڈیاں بنایا جاسکتا ہے۔ قرآن وسنت اور صحابہ کرام کی سیرت کے مطابق نکاح میں مرد کو تمام اخراجات اور گھر سب کچھ کا پابند کیا گیا ہے لیکن ایگریمنٹ میں باہمی رضامندی سے معاہدے کرنے کی بات ہے۔ آج مسلمان عورتوں کو نکاح کے بھی حقوق حاصل نہیں ہیں۔ ان پر حرامکاری کا اطلاق نہیں ہوتا ہے لیکن ان پر ایگریمنٹ کا اطلاق ضرور ہوتا ہے۔ اسلامی حق مہر اور جہیز کی جگہ معاشرے میں خود ساختہ رسوم کے ذریعے عورت کے تقریباًتمام حقوق سلب کئے گئے ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

The intention of fasting in Ramadan and the intention of the funeral prayer is fabricated by the incompetent jurists and is wrong Arabic.

رمضان کے روزے کی نیت اور نماز جناہ کی نیت نالائق فقہاء کی غلط عربی ہے۔

جب مجھے جامعہ العلوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹان کراچی میں تحریری امتحان اور جائزہ ( انٹرویو کے بعد ) داخلہ ملنے کا مژدہ سنایا گیا تو خوشی کی انتہا نہ رہی۔ بڑی تعداد میں ”درجہ اولی ”کیلئے طلبہ نے داخلے کا امتحان دیا ، صرف(150 )طلبہ کامیاب قرار پائے۔میرے ہم نام 2عتیق الرحمن اور بھی تھے۔(50، 50، 50)کی تعداد میں تین فریق الف، ب اور ج تھے۔ کامیاب طلبہ میںوزیرستان کے مفتی زین العابدین لسوندی بھی شامل تھے۔ جامعہ کے مہتمم مفتی احمدالرحمن(mufti ahmed rehman) نے اپنی پہلی افتتاحی تقریر میں فرمایا کہ ” دنیا کو دنیا کے راستے سے حاصل کرنا کوئی بری بات نہیں ہے لیکن دین کے راستے سے دنیا حاصل کرنا بہت بری بات ہے۔ جس کا مقصد دین نہیں دنیا ہو،وہ یہاں سے چھوڑ کر چلاجائے۔ یہ ادارہ دین کی خدمت کیلئے ہے، دنیا کو حاصل کرنے کیلئے نہیں ہے”۔
اس تقریر میں ایک درد اور پیغام تھا کہ اگر دنیا کی کشتیاں جلاکر آئے ہو تو ٹھیک ہے اور آئندہ زندگی بھر کیلئے یہ عہدوپیمان کیا ہے کہ دنیا سے کچھ بھی حاصل نہیں کرناہے۔ شہرت،دولت، سیاست، حکومت، اقتدارمیں شراکت داری اور دنیاداری کا کوئی روپ اختیار کرنا ہے تو اپنا بستر گول کرکے یہاں سے جا۔ دنیا کو دنیا کی راہ سے حاصل کرنا عار نہیں لیکن دین کے بہروپ میں دنیا کو حاصل کرنا بہت مذموم ہے۔ڈاکٹر صاحب بذاتِ خوداس کی ایک عمدہ تصویر تھے۔
سوادِ اعظم اہلسنت کے اکابر مولانا زکریا انوار(molana zakria anwar) العلوم فیڈرل بی ایریا کراچی جو مولانااعظم طارق(molana azam tariq) جرنیل سپاہ صحابہ کے سوتیلے باپ تھے اور مولانا اسفندیار خان و مولانا سلیم اللہ خان میں لڑائی ہوئی تھی۔ پیسہ کھانے کے الزامات جنگ اخبار کی زینت بنے تھے۔اہل تشیع پر فتوی بھی مولانا سلیم اللہ خان نے پہلے خود ہی لگایا اور پھر اعظم طارق کو وقت بدلنے پر فتوے سے الٹے پاں پھر کر آنکھیں پھیر دیں۔ اس میں دارالعلوم کراچی کے مفتی تقی عثمانی(mufti taqqi usmani) وغیرہ شامل نہیں تھے۔
ڈاکٹر عبدالرزاق سکند(doctor abdul razaq sikandar)ر استاذ محترم عربی کے بہت ماہر تھے۔ ہمارے قدیم فقہا و محدثین عجم نے عربی زبان کو اس طرح سیکھ لیا تھا جس طرح غیر اہل زبان اردو یا کوئی بھی غیرمادری زبان سیکھ کر اس کی ریڑھ لگاتے ہیں۔ وبصوم غد نویت من شہر رمضان ” اور میں کل کے روزے کی نیت کرتا ہوں، رمضان کے مہینے سے”۔ یہ وہ عربی ہے جو نالائق علما نے ایجاد کی ہوئی ہے۔ استاذ محترم ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے اس قدیم عربی زبان سے اعراض کرتے ہوئے زمانے میں ایک نئے اسلوب کا آغاز کرکے ہمارے اندر عربی کی نئی روح پھونک دی۔ جب جمعیت علما اسلام کی طرف سے لاکھوں افراد کا اجتماع تھا جس میں امام حرم نے بھی شرکت کی تھی تو ایک طرف شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے عربی میں تمہیدی کلمات اور دوسری طرف ڈاکٹر صاحب نے عربی میں تمہیدی کلمات کہے تھے،دونوں کی عربی سن کر کوئی بھی شخص اس بات تک پہنچ سکتا ہے کہ دیسی عربی اور اصل عربی میں کتنا زیادہ فرق ہے؟۔
حامد میر نے کہا تھا کہ ” مشہور گالی کا فیس بک وغیرہ پر نوٹس اسلئے نہیں لیا تھا کہ ایب میں تیری پھینڑ دی سری کا ترجمہ ہیڈ آف یوورسسٹر کیا جاتا ہے اور یہ کوئی گالی نہیں ہے”۔ میڈیا کے کارندوں کو جو لوگ گالیاں دیتے ہیں تو ان کو اہمیت بھی زیادہ دی جاتی ہے۔ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر سے کبھی میڈیا نے پوچھنے کی زحمت کی ہے کہ ”بینکوں میں اسلام کے نام پر سودی نظام کا جواز ہے؟”۔
قاری اللہ دادصاحب (qari allahdad)نے بتایاکہ” ایک تاجر نے افسوس کا اظہار کیا کہ علما نے سود کے جواز پر مفتی محمدتقی عثمانی کیخلاف آواز نہیں اٹھائی ”۔ علما و مفتیان کا متفقہ فیصلہ جامعہ بنوری ٹان سے شائع ہوا تھا تو میڈیا قصور وارہے!۔
میڈیا نے وفاق المدارس پاکستان کے سابق صدر مولانا سلیم اللہ خان(molana saleemullah khan) اور پھر صدر وفاق المدارس پاکستان ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر سے سوال پوچھنے کی کبھی زحمت کی ہے کہ اسلام کے نام پر سودی بینکاری پر تمہارا کیا مقف ہے؟۔ میڈیا مفتی عبدالقوی ، مفتی عزیز الرحمن اورمفتی تقی عثمانی کے کرداروفتوے کو اہمیت دیتا ہے لیکن ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر کی زندگی اور وفات کو نہیں مگر کیوں یہ سب کچھ ہورہاہے؟۔ یاد رکھو!یہ دجالی میڈیا ہے جو خیر کی اشاعت میں کام نہیں آتاہے ۔
اگر دنیا میں اسلام اور علما حق کا کردار نہ ہوتا تو مفتی عزیزالرحمن کے اسیکنڈل سے آج مسلمانوں اور دنیا کو کوئی نفرت بھی نہ ہوتی۔ مغرب میں ہم جنس پرستی عورت کی عورت سے شادی اور مرد کی مرد سے شادی قانونا درست قرار دی گئی۔ جس اسلام، علما کرام اور مذاہب عالم کی برکت سے برائی کی دنیا میں تمیز موجود ہے ،اگر لوگ اسکے پیچھے ہاتھ دھوکے پڑجائیں تو پھر اخلاقیات کا کوئی معیار دنیا میں قائم نہیں رہے گا۔ جس بنیاد پر مفتی عزیز الرحمن کے کردار کو بہت ہی برا کہا جا رہاہے اگر وہ بنیاد ہی نہ رہے تو پھر برائی کے تصورات بھی ختم ہونگے۔
کتنے افسوس کی بات تھی کہ مفتی عزیز الرحمن کو وفاق المدارس پاکستان کا صدر کہا گیا،جس کی وجہ سے وفاق المدارس کی شوری نے اجلاس منعقد کرکے واضح کیا کہ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر کی صدارت پر اطمینان کاا ظہار کیا گیا اور مزید دوسری مدت کیلئے بھی ان کا انتخاب کیا گیا ہے۔
مدارس عربیہ میں عربی کے معیار کو بھی جدید خطوط کے مطابق بہت بہتربنانا ہوگا۔ روزے اور جنازے کی نیت سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے علما اور فقہا کس قدر غیرمعیاری عربی بناتے تھے۔ ایک عربی عالم کی تقریر کا ہندوستان میں مولانا ابوالکلام آزاد نے ترجمہ کرنا تھا۔ جب مولانا آزاد اس مجلس میں کچھ تقریر سن کر چلے گئے تو انتظامیہ کی سانس اٹک گئی کہ اب کیا ہوگا۔ پھر اس عربی عالم کی تقریر کے ختم کرنے سے پہلے مولانا آزاد پہنچ گئے تو سانس میں سانس میں آئی۔ جب تقریر ختم ہوئی تو مولانا آزاد نے اس عربی عالم کا مدعا اس سے بھی زیادہ بہتر انداز میں بیان کیا۔ جس پر مولانا سے پوچھا گیا کہ آپ تو موجود نہیں تھے ، پھر کیسے یہ ترجمانی کرلی؟۔ مولانا آزاد نے کہا کہ مقرر کے شروع اور آخر سے یہ اخذ کرلیا کہ بیچ میں کیا کہا ہوگا۔ مولاناآزاد کی ماں عربی تھی اور حرمین شریفین میں بچپن گزارا تھا اور اردو بعد میں ہندوستان آنے کے بعد سیکھ لی تھی۔
بڑاالمیہ ہے کہ فن کے ماہرسے فائدہ نہیں اٹھاتے ۔ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر مدارس کو عربی لہجے میں ڈھال سکتے تھے۔ اگر نمازجنازہ یا روزے کی نیت کاکسی عربی سے ذکر کیا جائے تو ہنس ہنس کراسکے پیٹ میںدرد اٹھے گا۔ وبصوم غد نویت من شھر رمضان کا کوئی تک نہیں بنتا ۔وا حرف عطف دو جملوں کو ملانے کیلئے آتا ہے اور جملے کے شروع میں وا قسم کیلئے آتا ہے۔ اس طرح ب حرف جر بھی اس جملے میں بلاضرورت غلط استعمال ہوا اور شروع میں یہ بھی قسم کیلئے آتا ہے۔ نویت صوم الغد ھذاشھر رمضان سادہ جملہ یہی ہوسکتا تھا۔ جس میں کم ازکم عربی تو درست ہوتی۔ اردو میں کہ میں اس میت کی نماز جنازہ کی ادائیگی کی نیت کرتا ہوں تو عربی میں لفظ بہ لفظ ترجمے کیلئے الفاظ کی ضرورت نہیں کیونکہ عربی کا لفظ پورا جملہ ہوتا ہے۔ نویت صلو علی ھذا المیت لیکن نماز جنازہ کی نیت میں لایعنی لغو ڈھول پیٹنا سکھایا گیا ۔ نیت الفاظ کی ادائیگی نہیں دل کا ارادہ ہوتا ہے۔ عربی سکھانی ہوتو درست عربی جملہ ہونا چاہیے۔ عربی آتی نہ ہو تو نیت کا پتہ ہی نہ ہوگااور یہ انوکھی بدعت ہے۔ ان ھذا لشئی عجاب
بخاری کی پہلی حدیث ہے کہ نبیۖ نے فرمایا کہ ” اعمال کا دارومدار نیت پر ہے”۔ نمازپنج وقتہ، نمازجنازہ کی نیت کیلئے کوئی مسنون حدیث نہیں ہے، یہ بعد کی ایجاد ہے اور تبلیغی جماعت نے کمال کردیا کہ تصحیح نیت کے نام پرنیت کی حقیقت کا مقصد بھی بدل دیا۔ علامہ بدرالدین عینی اور امام ابن ہمام نے بھی حلالہ کی لعنت کی ترویج کیلئے نیت بدلنے سے معاملے کی تبدیلی ایجاد کردی تھی۔ www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv

رمضان کے پہلے روزے ، لیلة القدر ، عید الفطر ، عید الاضحی اور حج کے حوالے سے پوری دنیا میں ایک ہی چاند کی ایک ہی تاریخ پر بہت ہی معاملہ فہم اور فیصلہ کن تحریر جو قرآن و حدیث اور اسلام کی صداقت کیلئے آج بھی بہترین دلیل ہے

mufti muneeb ur rehman, royat e hilal committee, fawad chaudhry, ramzan ka chand, eid ka chand, laylatul qadr

رمضان کے پہلے روزے ، لیلة القدر ،(Laylatul Qadr) عید الفطر ، عید الاضحی اور حج کے حوالے سے پوری دنیا میں ایک ہی چاند کی ایک ہی تاریخ پر بہت ہی معاملہ فہم اور فیصلہ کن تحریر جو قرآن و حدیث اور اسلام کی صداقت کیلئے آج بھی بہترین دلیل ہے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

مشرق سے مغرب تک جب چاند پیدا ہوجائے تو اسکے دیکھنے کیلئے کہیں سے بھی کوئی معقول گواہی پہنچ جائے تو رمضان کی پہلی تاریخ ، عید الفطر اور عید الاضحی کا شرعی بنیاد پر تعین ہوتا ہے!

دنیا بھر میں ایک اسلامی نظام خلافت ہو یا پھر بہت ساری مسلمان ریاستیں ہوں چاند کے شرعی معاملے پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔ پاکستان میں اس پر معیاری انداز میں بات نہیں ہوئی

سورج کے حساب سے دن کی تاریخ رات بارہ بجتے ہی بدل جاتی ہے۔ پاکستان کا پہلا یومِ آزادی اسلئے پندرہ (15)اگست کو منایا گیا کہ ہندوستان و پاکستان کو انگریز نے آزاد کرنے کا اعلان کیا تھا تو جب (14) اگست کی تاریخ کے آخری لمحات گزرگئے۔ پندرہ (15) اگست کی تاریخ شروع ہوئی توایک منٹ بعد آزادی کا اعلان کیا گیا۔ قائداعظم محمد علی جناح کو پھر پتہ نہیں کس نے گمراہ کیا کہ ”ہم انگریز کی مخالفت میں آزادی کا دن (14)اگست کو منائیں گے”۔حالانکہ جب (13) اگست کے آخری لمحات گزرتے ہی ہم (14) اگست کو آزادی مناتے ہیں تو اس دن غلامی کا سورج برقرار تھااور ہم غلامی کی آخری تاریخ کو آزادی مناتے ہیں۔ ایک مرتبہ میں نے اپنے سکول کبیر پبلک اکیڈمی گومل ٹانک ڈیرہ اسماعیل خان پختونخواہ کا ایک پیریڈ اسلئے لیا کہ مطالعہ پاکستان کا استاذ موجود نہیں تھا۔ اس دن کتاب کا نیا سبق (14) اگست یوم آزادی کے عنوان سے تھا۔ مجھے یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ اس میں لکھا ہوا تھا کہ ”پاکستان ستائیس (27) رمضان کی شب کو (14) اگست میں آزاد ہوا تھا لیکن ہندوستان مسلمانوں سے تعصب رکھتا ہے اسلئے وہ پندرہ (15) اگست کو اپنی آزادی کا دن مناتا ہے”۔ میں نے اپنے اخبار ماہنامہ ضرب حق میں اسکے خلاف لکھا اور پھر یہ مضمون بدل دیا گیا۔ حامد میر نے (14) اگست کی تائید میں اپنی شرارت سے یہ بات چھوڑ دی کہ پاکستان رات بارہ (12) بجکر ایک منٹ پر آزاد ہوا ۔ اور یہ انگریز کی شرارت تھی کہ جس دن جاپان پر ایٹم بم گرائے تھے تو اس دن ہی کو ملک پندرہ (15) اگست کو آزادکیا لیکن پاکستان نے یہ ٹھیک فیصلہ کیا کہ وہ آزادی کادن انگریز کی مرضی اور سازش کے خلاف منائیں گے۔
قمری مہینے کی تاریخ سورج کے غروب ہوتے ہی بدل جاتی ہے۔ چاند کی تاریخ میں پہلے رات پھر دن ہے۔ مشرق سے مغرب تک سورج طلوع ہو تو دن شروع ہوتاہے ۔ جس طرح رات بارہ بجتے ہی مشرق سے انگریزی تاریخ کی ابتداء ہوتی ہے اور یہ سلسلہ مغرب تک جا پہنچتا ہے۔ اسی طرح مشرق سے مغرب تک چاند کی تاریخ کو مغرب کے وقت سے سورج کی اطلاع ملتے ہی بدل دیا جاتا ہے۔ ملائشیاء سے امریکہ تک چاند پوری دنیا میں ایک ہی رات کو ہوتا ہے۔اس رات دنیا میں جہاں بھی چاند نظر آجائے تو دن کو عید یا روزہ ہے۔ لیلة القدر(Laylatul Qadr) کی رات ایک ہی ہوتی ہے۔
چاند کی تاریخ پر جو اختلاف پاکستان ، سعودی عرب ، ایران ، ہندوستان، بنگلہ دیش میں ہوتا ہے، یہی اختلاف امریکہ میں بھی ہوتا ہے۔ امریکہ کی ایک ریاست لاس اینجلس میں چاند دیکھ کر ہی روزہ یا عید کا تعین کیا جاتا ہے جبکہ باقی ریاستوں میں سعودی عرب یا پاکستان کیساتھ رمضان اور عید کا معاملہ ہوتا ہے۔ برطانیہ لندن میں بھی سعودی عرب یا پاکستان کی بنیاد پر فیصلہ کیا جاتا ہے۔
اگر پوری دنیا میں ایک نظام خلافت ہو تو بھی چاند کی تاریخ کا تعین ایک ہی دن میں ہوگا۔ اگر چہ سعودی عرب اور پاکستان میں کچھ گھنٹوں کا فرق ہے اور اگر اس فرق کی بنیاد پر چاند کی تاریخ میں ایک دن کی تاریخ ہوسکتی ہے تو پھر جب امریکہ کا دس بارہ گھنٹے کا فرق ہے تو اس میں کئی دنوں کا فرق ہونا چاہیے تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہے اور یہ اسلام کی صداقت کی زبردست دلیل ہے کہ پوری دنیا کے اندر چاند کی ایک ہی تاریخ ہوتی ہے۔ رمضان، لیلة القدر(Laylatul Qadr) ، عیدالفطر،عیدالاضحی، حج اور جمعہ وجمعرات کے دنوں تک کسی بھی چیز میں ذرا برابر بھی فرق نہیں ہوتا۔
اکثر لوگوں کو اس بات پر غم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے دیکھا ہے کہ رات ساڑھے گیارہ بجے عیدالفطر کا اعلان کیوں کیا گیا؟۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اسلام کے احکام سے کوئی غرض نہیں بلکہ سوئیاں اور مٹھائی کی تقریبات سے غرض رکھتے ہیں ، ان کو چاہیے کہ اسلامی عیدوں کی جگہ ہولی و دیوالی منائیں کیونکہ یہ ضروری ہے کہ اگر رات گئے چاند کی خبر ملنے پر عیدالفطر کا اعلان کیا جائے ۔ عید کے دن روزہ رکھنا حرام ہے اور یہ علماء ومفتیان کی بہت بڑی جہالت رہی ہے کہ سرکاری ہلال کمیٹی ایک مخصوص وقت تک انتظار کرکے رمضان کا اعلان کردیتے ہیں۔
جب رسول اللہ ۖ کو دن کے آخری حصے میں اطلاع مل گئی کہ عید کا چاند نظر آگیا ہے تو آپ ۖ نے روزہ کھولنے کا حکم دیدیا اور دوسرے دن عیدالفطر کی نماز پڑھادی۔ یہ صحیح بخاری کی حدیث ہے۔ یہ ہمارے علماء ومفتیان کی جہالت ہے کہ عیداور روزے کے چاند کو اپنی حکومتوں کیساتھ وابستہ کردیا ہے۔ کیا شریعت میں یہ ہوسکتا ہے کہ ملک کے سرحد کے باہر کسی کو چاند نظر آجائے تو پھر اس کی گواہی قابلِ قبول نہ ہو؟۔ شریعت میں چاند کا تعلق کسی ریاست کے تنخواہ دار ملازم کیساتھ ہے؟۔ ہمارا بڑا المیہ یہ رہاہے ۔ بقول علامہ اقبال کے
خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق؟
مفتی اعظم مفتی منیب الرحمن (Mufti Muneeb Ur Rehman)نے کہا کہ ” زندگی میں پہلی مرتبہ رمضان کے روزے کو کھایا۔ ساری رات روتے ہوئے گزاردی۔ جمعرات کے دن (13) مئی کو عید نہیں تھی جمعہ (14) مئی کو عید تھی اسلئے تمام امت کو شرعی حکم بتانا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ (14)مئی کو عید کے دن اپنے روزے کی قضاء رکھ لیں”۔ کسی نے اسی وقت یہ نہیں کہا کہ بائیس ( 22) سال تک کتنے عید کے دن روزہ رکھوایا کہ اب ہلال کمیٹی کی چیئرمینی سے فارغ ہونے کے بعد بھی تمہارا دل ٹھنڈا نہیں ہوا اور عید کے دن کا اعلان کرکے بھی روزہ رکھواتے ہو؟۔ مفتی منیب الرحمن(Mufti Muneeb Ur Rehman) سے متحدہ مجلس عمل کی صوبائی حکومت کا رمضان پر اختلاف ہوا تو مفتی اعظم مفتی رفیع وشیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے قضاء روزے کا حکم جاری کیا۔ ہم نے لکھاکہ یہ اختلاف تو عید پر بھی ہوگا توکیا عید کے دن روزہ رکھ کر شیطان بنوگے؟۔ ہمارے بیوروکریٹوں، سرکاری ملاؤں اور سیاستدانوں نے چاند کے معاملے کو مذاق بنادیاہے۔
بریلوی مکتبۂ کے مفتی منیب الرحمن(Mufti Muneeb Ur Rehman) نے عید کی نماز پڑھانے کے شوق میں شرعی حکم روتے ہوئے توڑ دیا کہ رمضان میں عید پڑھائی اور پھر نہلے پر دھلہ یہ بھی کردیا کہ جمعہ کو عیدالفطر کا تعین کرکے قضاء روزہ بھی رکھنے کا حکم جاری کردیا لیکن یہ پتہ نہیں چلتا ہے کہ یہ کس خمار کے نشے میں یہ جاہلیت کا ارتکاب کرتے ہیں۔ بریلوی مکتب کے علامہ راغب سرفراز نعیمی نے اعلان کیا کہ جمعہ کے دن کے سوا کسی دن بھی رمضان کا ایک قضاء روزہ رکھیں۔ بریلوی مکتب کے علامہ آصف جلالی نے اعلان کیا کہ حکومت کے اعلان پر ہم عید نہیں روزہ رکھیں گے۔ چنانچہ اس نے جمعرات کو روزے اور جمعے کو عید کا اعلان کردیا۔ سوشل میڈیا کے محمد علی مرزا نے بھی جمعہ کے علاوہ ایک قضاء روزے کا شرعی اعلان کردیا۔
عوام بالکل بھی پریشان نہ ہوں کیونکہ جنہوں نے جمعہ کے دن قضاء روزہ رکھا ہے انہوں نے بھی شریعت کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔ کیونکہ جمعرات ہی کو عید کا دن تھا۔ البتہ رمضان کا پہلا روزہ بہت لوگوں نے کھالیا تھا۔ جس طرح عید کے دن شام کو چاند بالکل واضح دو دن کا نظر آتا تھا تو اسی طرح رمضان میں بھی چاند اسی طرح سے کراچی کی عوام نے بھی گھروں سے دیکھ لیا تھا۔ اگر اس طرح کے چاند سے روزہ رکھنا ہو تو پھر گواہوں اور ہلال کمیٹی کی ضرورت ہے؟۔
شرعی مسئلہ یہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی جگہ سے چاند دیکھنے کی گواہی مل جائے تو سارے مسلمانوں کیلئے وہ معتبر ہے۔ سعودیہ نے تیس (30) روزے پورے ہونے پر عیدالفطر کا اعلان کیا۔ اس سے پہلے رمضان کیلئے بھی اسکے تیس روزے پورے ہوچکے تھے۔ جب فواد چوہدری(Fawad Chaudhry) وزیرا طلاعات کی بات سن لی کہ چاند کی پیدائش کوتیرہ (13)گھنٹے ہوگئے اور اس کا امکان بھی نہیں کہ چاند نظر آجائے اور اس سے بھی ایک دن پہلے میرعلی شمالی وزیرستان والوں نے سولہ (16)گواہوں پر عیدالفطر منائی تھی تو ہمیں بھی تشویش ہوئی کہ ایک طرف جھوٹے گواہوں کا مسئلہ اور دوسری طرف سائنسی معاملہ حقائق کے منافی ہو تو اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ سعودی عرب نے منصوبہ بندی سے شعبان ورمضان کے تیس تیس روزوں سے عیدالفطر کو جمعہ کے دن سے بچانے کی سازش کردی ہو کیونکہ حکمران جب نااہل بن جاتے ہیں تو پھر توہمات کا بھی شکار ہوجاتے ہیں۔ سعودیہ کے شاہی خاندان کے حوالے سے آئے روز سوشل میڈیا پر تسلسل کیساتھ صحافی پروپیگنڈے کرتے ہیں اور حالات کچھ خراب بھی ہوسکتے ہیں کیونکہ دنیا بدل رہی ہے۔
فواد چوہدری(Fawad Chaudhry) نے تیرہ (13) گھنٹوں کی بات کی تھی لیکن چاند کی پیدائش کے بعد سترہ (17)گھنٹے مغرب کے وقت بنتے تھے اور نالائق محکمہ موسمیات کے بعض افراد نے پہلے پروپیگنڈہ کیا تھا کہ ستائیس (27) گھنٹے سے پہلے چاند کو نہیں دیکھا جاسکتا ہے تو مجھے اس بات پر تشویش تھی کہ پھر تو سعودیہ میں بھی نظر نہیں آسکتا ہے لیکن ماہرین نے واضح کردیا کہ بیس (20)گھنٹے گزرنے کے بعد بھی چاند نظر آتا ہے۔ امریکہ میں رابطہ کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ لاس اینجلس میں چاند کی پیدائش کو ستائیس (27) گھنٹے گزر جائیںگے اور کنفرم نظر آئے گا۔ سعودیہ میں سائنسی اعتبار سے چاند دیکھنے کے واضح امکانات تھے اور پاکستان میں بھی پسنی اور پختونخواہ میں چاند دیکھا گیااور امریکہ میں بھی اس رات واضح طور پر چاند نظر آنا تھا۔ سعودیہ میں تیس (30) روزے بھی پورے ہوچکے تھے اورچاند کی پیدائش زمین پر چوبیس گھنٹے سے زیادہ تھی۔
فواد چوہدری(Fawad Chaudhry) نے چاند کی پیدائش مزید گھٹادی تھی اور اینکرپرسن صابر شاکر نے اس پر مزید اضافہ کرکے دس (10) گھنٹے کردی ۔ پاکستان کی عوام کو بے چین کیا اورسب نے اپنی اپنی طرف سے تڑکے لگانے کی بھی زبردست کوشش کی۔ کتابی محمد علی مرزا نے عید کو غلط اور قضاء روزہ رکھنے کا شرعی حکم جاری کردیا۔ حالانکہ اس بات پربھی بہت شرم کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں جب رمضان کو عید کی گئی تو اس پر فوری طور پر ایکشن لینے کی ضرورت تھی۔ صابر شاکر نے ضرورت سے زیادہ افغانستان و سعودی اور امت کیساتھ اتحاد کرنے کوحکومتی ترجیحات قرار دیا۔ یہ کتنا عجیب معاملہ ہے کہ پوری دنیا میں مشرق سے مغرب تک رمضان، عید اور لیلة القدر(Laylatul Qadr) کا تہوار منایا جاتا ہے اور ہم اپنے آزادی کے دن کی طرح ہٹ دھرمی کے سرکاری وصحافتی مؤقف کی طرح شریعت میں بھی ڈنڈی مارنے پر ہی مجبور ہوتے ہیں۔ شریعت، فطرت اور غیرت سب کے علمبردار ہونے کیساتھ ساتھ سب سے عاری ہوکر عوام کو جہالت کی موت مارے جارہے ہیں۔ اب وہ وقت گیا کہ جب دیومالائی جھوٹی کہانیوں پر لوگ یقین رکھتے تھے۔ ریاست اور مذہب کی خدمت کیلئے اب بھی جھوٹ کا مقبول عوامی پروپیگنڈہ دم توڑ رہاہے۔ پہلے جب کوئی طالبان مرتے تھے تو عوام اپنے احساسات سے ان کو خوشبو سونگھ لیتے تھے ، الطاف حسین بھائی کراچی کے مہاجروں کو درختوں کے پتے اور گوہر شاہی چاند میں عقیدت مندوں کو دکھتا تھا۔ تبلیغی جماعت، دعوت اسلامی ، جہادی اور دوسرے اپنی من گھڑت جھوٹی کہانیوں سے لوگوں کوورغلاتے تھے۔ جب کسی عورت نے اپنی شرمگاہ میں چھوٹا ٹیپ ریکارڈ فٹ کیا تھا توکراچی کے معروف علماء اور لاکھوں عوام نے(1970 عیسوی) میں اس فراڈی عورت کے پیچھے نماز پڑھی ۔

نبی کیلئے مناسب نہ تھا کہ اسکے پاس قیدی ہوں حتی کہ زمین میں زیادہ خون بہاتے تم دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے

ghazwa e badar, ghazwa e uhud, imam mehdi, abhinandan, londi, ghulam

نبی کیلئے مناسب نہ تھا کہ اسکے پاس قیدی ہوں حتی کہ زمین میں زیادہ خون بہاتے تم دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے..

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

اس آیت کا واضح اور درست مفہوم مسلمانوں کی سمجھ میں آجاتا تو وہ دنیا کو بدل سکتے تھے!

اس آیت میں قرآن کے اعلیٰ مقاصدصحابہ کرام کا تزکیۂ ، کتاب اور حکمت کی تعلیم ہے۔

قرآن کی ایک ایک آیت فیصلہ کن ہے جسمیں بیشمار حکمتوں کے زبردست خزانے ہیں

اللہ نے فرمایا کہ ” نبی کیلئے مناسب نہیں کہ اسکے پاس قیدی ہوں حتی کہ زمین میں خوب خون بہائے، تم لوگ دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے”۔ (القرآن) آیت میں میدانِ جنگ میں مشرکوں کا خون بہانے سے قیدیوں سے فدیہ لینے تک کی تمام روداد ہے۔ جب اللہ نے مسلمانوں کا پلہ بھاری کردیا تو صحابہ نے اپنے قریبی رشتہ داروں اور نبیۖ کے چچا عباس اور داماد کو قیدی بنالیا۔ جب ان قیدیوں کو فدیہ لیکر چھوڑنے کا فیصلہ کیا گیا تو مسلمان جشن منارہے تھے کہ ان کو فتح بھی ملی۔قریبی رشتہ داروں کی جان بھی بچ گئی اور فدیہ کے ذریعے بہت سارا مال بھی کمالیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر وحی کے ذریعے وہ تاریخی ڈانٹ پلادی کہ سب کی طبیعت صاف کردی۔ حضرت عمر اور حضرت سعد نے یہ مشورہ دیا تھا کہ جو قیدی جس کا قریبی رشتہ دار ہو وہ اس کو قتل کردے۔ عباس حضرت علی کے چچا ہیں، فلاں فلاں کے عزیز ہیں لیکن باقی صحابہ نے مشورہ دیا کہ فدیہ لیکر چھوڑ دیا جائے۔ نبیۖ نے وحی نازل ہونے کے بعد فرمایا کہ اللہ نے مجھے وہ عذاب بھی دکھایا جس کا قرآن میں ذکر ہے اور اگر وہ عذاب نازل ہوتا تو عمر اور سعد کے علاوہ سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا۔ ان آیات اور احادیث صحیحہ کی درست تفسیر پیش ہو تو آج ہم صراط مستقیم پر چل سکتے ہیں۔ علماء کرام اور مفسرین نے اس واضح قرآنی آیات سے مثبت نتائج نکالنے کے بجائے تفسیر اور مفہوم کا بیڑہ غرق کردیا۔
اگر نبیۖ کے چچا اور داماد کو بدر میں دانستہ قید کرنے کی بجائے قتل کردیا جاتا تو خلافت راشدہ سے لیکر بنوعباس کے اقتدار تک مسلمانوں کے اندر نبیۖ کے داماد حضرت علی اور چچا کی وجہ سے تفریق وانتشار کے معاملات کا سامنا کرنا پڑتا۔اسلام کو اجنبیت کی طرف دھکیلنے میں دنیاوی قرابت نے کردار ادا کیاہے۔
(1:)نبی ۖ نے مشاورت کیساتھ یہ فیصلہ کیا تو اللہ نے اس کو نامناسب قرار دے دیا کہ نبیۖ کیلئے یہ مناسب نہیں تھا۔ تم لوگ دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے۔ یہ آیت انسانوں کیلئے بڑی رہنمائی ہے۔
کیا آج کا کوئی مذہبی اور سیاسی لیڈر یہ اعتراف جرم کرسکتا ہے کہ جس فیصلے میں رہنماؤںاور کارکنوں کو اپنے دنیاوی مفاد کی خاطر آمادہ کرے اور پھر اقرار کرے کہ یہ نامناسب تھا اس میں میرا مفاد تھا؟۔
اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے یہ زبردست رہنمائی فراہم کردی کہ نبیۖ سے بڑھ کر کوئی بھی نہیں اور جب نبیۖ کیلئے کوئی بات نامناسب اور دنیاوی مفاد ہوسکتی ہے تو پھر مذہبی اور سیاسی قیادتوں کی ساری کی ساری زندگی جب دنیاوی مفادات کی تابع ہو اور ایک بار بھی اعترافِ جرم کی جرأت نہ کرسکیں تو لعنت ہو ان جھوٹے منافقوں پر جو نبیۖ کی سیرت کو اعلیٰ نمونہ سمجھنے کے باوجود بھی اپنی غلطیوں کا اعتراف نہ کریں۔
نبیۖ نے فرمایا کہ ” اگر خیر یعنی دنیاوی مفادات میرے ہاتھ میں ہوتے تو سب سمیٹ لیتا لیکن اللہ نے سب کچھ اپنے ہاتھوں میں رکھا ہے”۔ اللہ نے ہر انسان کیلئے واضح فرمایا کہ انہ لحب الخیر لشدید ” بیشک وہ دنیا کی محبت میں بہت سخت ہے”۔ نبیۖ نے اللہ کی وحی کا اعتراف اس آیت کی تفسیر کی وجہ سے نہیں کیا تھا بلکہ یہ آپۖ کے ضمیر کی آواز اور نفس پاک کی وہ بے تکلفی تھی جس کا اعتراف ہرانسان کو کرنے کی ضرورت ہے۔ قرآن میں ہے کہ ” حضرت یوسف نے جیل سے رہائی کی پیشکش کو ٹھکرادیا”۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ” میں یوسف کی جگہ ہوتا تو ایسا نہیں کرسکتا تھا”۔ نبیۖ نے بشری تقاضے کو سامنے رکھ کر حقیقت کا اعتراف کیا لیکن یہ صلاحیت جب اللہ انسان میں وقتی طور پر پیدا کرتا ہے تو جس طرح حضرت موسیٰ کی والدہ کے دل کو تسلی کیلئے مضبوط کردیا تھا ،اس طرح وہ اپنی قدرت سے ہی انسانوں کو کامیاب کردیتا ہے اور اللہ نے قرآن میں بار بار اسکا ذکر فرمایا ۔مگرکچھ لوگ عقیدتمندوں کوغلط جھانسہ دیتے ہیں۔
اگر قرآن وسنت سے مسلمان رہنمائی لیتے تو آج ہم اتنے گرے ہوئے نہ ہوتے۔ نبیۖ کے وصال پر انصار و مہاجرین کے درمیان خلافت کے مسئلہ پر زبردست اختلاف اور اپنا اپنا استحقاق واضح کرنے پرفتنہ وفساد برپا ہونے کا خدشہ پیدا ہوا تھا مگر اللہ نے اپنے فضل سے خیر کردی تھی۔قرآن کی اس آیت سے یہ رہنمائی بھی ملتی ہے کہ اکثریت کی رائے پر مشاورت کے بعد عمل ہو لیکن یہ امکان بھی رہتا ہے کہ اکثریت کی رائے مفادپرستی پر مبنی ہو اور اقلیت کی رائے ٹھیک اور اس میں خلوص بھی ہو۔
سیاستدان و مذہبی لیڈر اپنے دنیاوی مفادات کی خاطر جس طرح مساجد کی امامت، مدرسوں کے چھوٹے بڑے عہدوں کیلئے جتن کرتے ہیں انکا ٹریک ریکارڈ بھی دیکھ لیا جائے۔ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم قاری محمد طیب کی موجودگی میںجس طرح انکے صاحبزادگان، مولاناحسین احمدمدنی و مولانا انور شاہ کشمیری کے صاحبزادگان میں پھڈا ہوا۔ اور دارالعلوم دیوبند دو حصوں میں بٹ گیا۔ جمعیت علماء اسلام اور دیگر جماعتوں میں تقسیم کا عمل رہا۔ مولانا فضل الرحمن نے مولانامحمد خان شیرانی کا کہاکہ صوبائی امارت سے ان کو محروم کرنے کا معاملہ تھا یا اسٹیبلیشمنٹ کی پشت پناہی تھی ۔ اوریہ دونوں باتیں مختلف ہیں۔ یہ الزامات اپنے ذاتی مفادات کو ایک تقدس کا ناجائز لبادہ پہنانے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ اگرعلماء کرام قرآن وسنت اور صحابہ کرام سے کچھ سبق سیکھ لیتے تو بہت ہی اچھا ہوتا۔
تبلیغی جماعت کو دیکھ لیں جس نے اپنے اصل مرکز بستی نظام الدین انڈیا سے بغاوت کرلی ہے۔ جو راستے میں دو یا تین افراد میں سے ایک کواپنا امیر بنانا شرعی حکم اور شیطان سے بچنے کا اہم ذریعہ سمجھتے تھے ۔ آج انکا کوئی مشترکہ امیر تک بھی نہیں ہے۔
قرآنی آیات کو سامنے رکھتے تو بڑے بڑوں کو اعترافِ جرم کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ انسان بہت کمزور ہے اور دنیاوی خواہشات و لالچ کا ہونا ایک فطری بات ہے لیکن انکے پیچھے انسان کس حدتک گرسکتا ہے؟۔یہ انسانوں کے کردار اور شخصیات کا ذاتی معاملہ ہے۔جس میں ماحول کا عمل دخل ہے اورقرآن وسنت رہنمائی کابہترین ہیں۔
(2:) اگر اللہ بدری قیدیوں کے فدیہ لینے پر تنبیہ نازل نہ کرتا تو ہم قافلوں کی لوٹ مار اورفدیہ لیکر قیدیوں کو آزاد کرنے کو اسلامی فریضہ سمجھتے۔ اللہ نے نبیۖ اور صحابہ کی تنبیہ سے دنیاوی مفاد کاراستہ بند کیا۔ دہشتگردوں اور ان کی سرپرستی کرنے والوں نے اغواء برائے تاوان کی جو دھوم پاکستان میں مچائی تھی جس سے اسلام اور مجاہد بدنام ہوگئے ۔ اگر علماء ومفتیان ان آیات کو واضح کرتے تو اسلام کے نام پر بدکردار اور مفادپرست طبقہ اس مہم جوئی کی کبھی جرأت نہیں کرسکتا تھا۔ پختونوں کو معاملہ سمجھ میں آیا تو انہوں نے کہنا شروع کردیا تھا کہ طالبان اور پاک فوج کے لوگ انبیاء اور صحابہ کا درجہ رکھتے ہیں اور ہم عام لوگ کافر ہیں۔قرآن کی تعلیم واضح ہوتی تو طالبان مفادات کو تقدس کا نام نہ دیتے۔
اسلام کے نام پر خاندانی خلافتوں سے پہلے جو خلافت راشدہ کے دور میں قتل وغارتگری ہوئی تھی یا بعد میں حکمرانوں ، بادشاہوں اور مذہبی طبقات نے بشری تقاضوں کے مطابق اپنی کمزوریاں دکھائی ہیں تو ان کو تقدس کا لبادہ پہنانا غلطیوں پر غلطیاں ہیں۔
(3:) ہم صحابہ کرام کیلئے حسنِ ظن رکھنے کو سب ہی سے زیادہ بنیادی فرض سمجھتے ہیں کیونکہ مؤمنوں سے حسنِ ظن رکھنے کا حکم ہے اور وہ اولین مؤمنین تھے۔ صحابہ کرام نے اپنے قریبی رشتہ داروں کے بچاؤ اور فدیہ کے حصول کیلئے یہ جنگ نہیں لڑی تھی بلکہ دنیا پر آخرت کو ترجیح دیکر اپنی موت کی قیمت پر جہاد کیا تھا اور اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن پھر یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے کیا قرآن میں جھوٹ بولا ہے کہ ”تم لوگ دنیا چاہتے ہو”۔ جس کا سادہ جواب یہ ہے کہ دنیا سے مراد یہ تھا کہ نبیۖ سے صحابہ اپنی جانوں سے بھی زیادہ محبت رکھتے تھے اور یہ نہیں چاہتے تھے کہ آپ ۖکے چچا عباس کو قتل کرکے نبیۖ کو تکلیف پہنچائی جائے۔
صحابہ کا تزکیہ ہوا تو خلافت راشدہ قائم ہوگئی کیونکہ نبیۖ کی قرابتداری اور دنیاوی محبت کو خاطر میں نہیں لایا گیا اور حضرت ابوبکر پر قریش کے کمزور قبیلے سے تعلق کے باوجود بھی اتفاق کیاگیا۔ امریکہ نے کتنے عرصے بعد بارک حسین اوبامہ اور کالی بیگم کو امریکی صدر اور خاتون اول کا اعزاز بخشاتو اس سے زیادہ ابولہب و ابوجہل جیسے اکھڑ دماغوں کے غرور خاک وخون میں ملاکر پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر کی خلافت پر اتفاق بڑا کرشمہ تھا۔
خاندانی جاہلیت کے جذبات جاگ اُٹھے تو بنو امیہ اور بنو عباس کا اقتدار خلافت راشدہ نہیں رہا۔ آج مذہبی اور سیاسی موروثی طبقات میں کوئی اعلیٰ اقدار نہیں بلکہ نکمے قبضہ مافیا ہیں۔ جب طالبا ن کی دہشتگردی زوروں پر تھی تو ایک قبائلی رہنما گربز بیٹنی نے کہا تھا کہ ” ایک قوم کا بادشاہ مرگیا تو کوئی بادشاہ بننے کو تیار نہیں تھا۔ آخر کار ایک شخص نظر آیا جس نے بکری کا بچہ ڈنڈے سے ماردیا، بکری کی ٹانگیں توڑ دیں اور اس کو سرِ عام ظالمانہ طریقے سے گھسیٹنے لگا۔ یہ ظالمانہ منظر بعض لوگوں نے دیکھا تو یہ فیصلہ کیا کہ اسی کو بادشاہ بنانے کی پیشکش کرتے ہیں۔وہ بادشاہ بننے پر راضی ہوا تو لوگوں نے شاندار استقبال کیا۔ بادشاہ نے کہا کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پہلا بادشاہ اچھا نہیں تھا وہ ہاتھ اُٹھا دیں۔ کچھ لوگوں نے ہاتھ اُٹھالیا تو بادشاہ نے ان کو ایک طرف کھڑا کرکے ان کا سر قلم کرنے کا حکم دیا۔ یہ دیکھ کر لوگوں پر دہشت طاری ہوگئی۔ پھر بادشاہ نے کہا کہ جو لوگ یہ سمجھتے کہ پہلا بادشاہ اچھا تھا تو اپنے ہاتھ اُٹھادیں۔ کچھ لوگوں نے ہاتھ اُٹھادئیے تو ان کو بھی لائن میں کھڑا کرکے سرقلم کرنے کا حکم دیا۔ یہ دیکھ کر لوگ انتہائی خوفزدہ ہوگئے کہ کس مصیبت سے واسطہ پڑگیا ؟۔ پھر بادشاہ نے کہاکہ جو یہ سمجھتے ہیں کہ پہلا بادشاہ اچھا بھی تھا اوربرا بھی تھا تو وہ اپنے ہاتھ اُٹھادیں۔ ایک شخص نے کہا کہ میں اس کا جواب دوں گا لیکن میں کان کا بھاری ہوں، سننے کی صلاحیت کم ہے۔ مجھے میرے کان میں بادشاہ سوال پوچھے۔ جب بادشاہ نے اس کو اپنے قریب کرلیا تو اس نے گلے سے پکڑ کر نیچے گرادیا اور کہا کہ اُلو کے پٹھے تم تو وہی بکری والے ظالم ہو۔ لوگوں نے اس کو انجام تک پہنچادیا اور اپنی جان اس ظالم سے چھڑالی۔ اب یہ طالبان دہشتگرد بھی اسی بکری والے ظالم بادشاہ کی طرح ہیں ۔ ان کو گلے سے پکڑنے کی دیر ہے”۔
ہم پر مسلط عمران خان اور اسکے کھلاڑی و دیگر سیاستدان، ریاستی عہدوں پر موجودمنصب دار اور مذہبی طبقے سب کے سب اس بکری والے ظالم بادشاہ کی طرح مسلط ہوگئے ہیں۔ جس دن عوام ان کی گردن پکڑیں تو ان کا حشر بنوامیہ و بنوعباس اور شاہ ایران اورانقلابِ فرانس سے بھی بدتر ہوگا۔
اہلبیت، بنوامیہ ،بنوعباس کی گروہ بندی سے مسلمان تقسیم اور تباہ ہوگئے ۔ اگروہ قرآنی آیت کو سامنے رکھ اپنی اپنی قیادتوں کے بھینٹ نہ چڑھتے تو قرآن چھوڑنے کی شکایت بھی نبی ۖنہ کرتے۔ اسلام نے انسانیت کی فلاح وبہبود کا فریضہ سونپ دیا اور مسلمان گروہی تعصبات میں پھنس کر رہ گئے ۔
(4:) ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ جس نبیۖ کیلئے اللہ نے فرمایا کہ ” آپ کو انسانیت کیلئے رحمت بناکر بھیجا ہے”۔ اور ” آپ کی سیرت و کرداردنیا کیلئے اعلیٰ نمونہ ہے” تو اس آیت میں کیا پیغام ہے؟۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جب بدری قیدیوں کو مدینہ لایا گیا تو کئی دن لگ گئے۔ نبیۖ نے اللہ کے حکم پر مشاورت سے فیصلہ فرمایا تھا، آپۖ یہ سوال بھی اٹھاسکتے تھے کہ اے اللہ! ہم نے تیری خاطر اپنوں سے لڑائی لڑی۔ بہت سوں کو خاک وخون میں نہلادیا۔ بہت سوں کو قیدی بنالیا۔ اگر میدان جنگ میں فرشتے اُترسکتے تھے تو پھر ایک وحی بھی نازل ہوسکتی تھی کہ پکڑنے اور قید کرنے کے بجائے ان لوگوں کو تہہ تیغ کرکے آخری فرد تک کو نہ چھوڑو۔ قرآن میں دیگر انبیاء کرام کی طرف سے بڑی فرمائشیں ہیں۔ عرضداشت ہیں ۔گزارشات ہیں مگر نبیۖ نے جائزعذربھی پیش نہ کیا اسلئے کہ اخلاق و کردار کے اعلیٰ ترین منصب پر فائزتھے۔
قرآن کی اس آیت میں تزکیہ نفس اور احسان و سلوک کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر کے غیر معقول معاملات پر صبر سے کام نہیں لیا لیکن نبیۖ نے ان غیبی آیات پر سرتسلیم خم کرکے بتادیا کہ غرور نفس کا بانکپن زندگی میں ہی ہم نے بھلادیا۔ فیض احمد فیض چھپکلی سے بھی ڈرتے مگر غارِ ثور میں سانپوں اور تعاقب کرنے والے دشمنوں کے خوف سے آزاد نبیۖ کی سیرت میں بڑاکمال تھا ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے نزول وحی کا ایک بہت اہم مقصد تزکیۂ نفس بھی بتایا ہے اور اس آیت کا بڑا بنیادی مقصد تزکیہ بھی تھا۔ نزولِ وحی کا دوسرا مقصد حکمت کی تعلیم بھی ہے۔ اس آیت میں نبیۖ اور صحابہ کے ذریعے حکمت کی تعلیم دنیا کو دی گئی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے یہ تنبیہ در اصل مشرکینِ مکہ کے ان قیدیوں ہی کو کرنی تھی جو فدیہ کے بدلے آزادی کے بعد جنگ کے میدان پھر اُترسکتے تھے۔ بعد کی آیات میں یہ تفصیل ہے کہ اگر انہوں نے اسکا غلط فائدہ اٹھالیا تو اللہ پھر موجود ہے اور اگراپنے دلوں میں خیر رکھی تو فدیہ سے زیادہ بہتربدلہ اللہ دے گا۔ یہ وہ حکمت کا کلام ہے جس میں ہرزبان کے اندر یہ کہا جاتا ہے کہ بیٹی آپ سے کچھ کہتا ہوں مگر بہو سنو آپ بھی۔ جس میں مقصد بہو ہی کو اس گھرکے اصول سمجھانا ہوتا ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز بھی نہیں ہے کہ ایک پہلو لیکر کثیرالجہت مقاصد کو سبوتاژ کردیا جائے۔ اگر اس وقت رسول ۖ کے چچا حضرت عباس کفر کی حالت میں ماردئیے جاتے تو پھر ان کی اولاد کو خلافت پر قبضہ کرکے مظالم یا اسلام کو مسخ کرنے کا موقع بھی نہیں مل سکتا تھا۔ کسی بات کے قریب ودور کے اپنے اپنے نتائج ہوتے ہیں ۔
یہ وقت بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطاء کی ہے صدیوں نے سزا پائی
(5:) اللہ تعالیٰ اس آیت میں وقتی سرزنش سے انسانیت کی فلاح کا راستہ ہمیشہ کیلئے کھولنا تھا۔ جس نے غلطی کا اعتراف کرنے کے بجائے اکھڑ بازی کو اپنا شیوہ بنالیا تو وہ ابلیس لعین کے راستے پر چلتے بنا۔ جب غزوہ اُحد میں صحابہ نے شکست کھالی اور امیر حمزہ سیدالشہداء کے کلیجے کو نکال کر چبا ڈالا گیا تو پھر مسلمانوں کو احساس ہواکہ بدری قیدیوں سے فدیہ لیکر ہم نے واقعی بڑا غلط کیا کہ معاف کیاتھا اور ایک کے بدلے ستر ستر کا ایسا حشر نشر کرنے کی قسمیں بھی کھالیں۔ لیکن اللہ نے اس کے برعکس فرمایا کہ
” کسی قوم کے انتقام کا جذبہ تمہیں اس حدتک نہ لے جائے کہ اعتدال اور انصاف کے دامن کو بھی چھوڑ دو”۔ (القرآن) نبیۖ اور صحابہ کرام کیلئے خوشی میں غم منانے اور غم منانے میں اعتدال کا سبق دیا اور دشمن سے بھی زیادتی کرنے کو ناروا قرار دیا۔ اللہ نے اس پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ یہ بھی واضح فرمادیا کہ ” جتنا انہوں نے تمہارے ساتھ کیا ،ا تنا ہی تم بھی کرسکتے ہو۔ اگر ان کو معاف کردو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے بلکہ ان کو معاف ہی کردواور یہ معاف کرنا بھی ہماری توفیق کے بغیر ممکن نہیں ”۔( القرآن)
اللہ نے صحابہ کے نفوس قدسیہ کیلئے جس تربیت کا اہتمام فرمایا تو یہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ یہ تعلیم وتربیت نہیں دی کہ جب دشمن میدان جنگ یا کسی ماحول میں مضبوط ہوں تو تم معافی پر اتر آؤ اور جب تمہارے ہاتھ مضبوط ہوں تو انتقام کی راہ چلو۔ ایک دفعہ ہمارے ایک عزیز سے محسودوں کے ایک گروہ نے اپنی غلطی پر معافی مانگ لی تو اس نے یہ مشورہ میرے والد صاحب سے کیا کہ اب میں کیا کروں؟۔ والد صاحب نے کہا کہ وہ معافی مانگ رہے ہیں تو معاف کردواور بات ختم کردولیکن اس نے بات نہیں مانی اور معاف کرنے سے انکار کردیا اور پھر ان مخالفین نے اپنی طاقت کا دھونس دکھادیا تو ہمارے عزیز نے میرے والد صاحب سے مشورہ کیا کہ اب کیا کروں؟۔ والد صاحب نے کہا کہ اب تو ان کو ہرگز معاف نہ کرو کیونکہ دھونس سے معافی کے مقاصد بدمعاشی ہوتے ہیں۔ اس عزیز نے کہا کہ آپ کیسے انسان ہو کہ جب مجھے جان کا کوئی خطرہ نہیں تھا تو مشورہ دے رہے تھے کہ معاف کردو اور اب جب جان کو خطرہ ہوگیا ہے تو مجھے معاف نہیں کرنے کا مشورہ دے رہے ہو؟۔
طاقتور کو معاف کرنا در اصل اپنی جان کی امان مانگنا ہے۔جب طالبان نے ہمارے گھر پر حملہ کیا تو محسود قوم کے مشران کو اپنے ساتھ لائے اور کانیگرم وزیرستان میں جس تاریخ کو طالبان نے فیصلہ کرنا تھا تو محسود قوم کو آنے نہیں دیا گیا اسلئے کہ انکویہ پتہ تھا کہ اگر یہ خاندان ظالموں کے سامنے ڈٹ گیا توپھر بکری والے ظالم بادشاہ کی طرح ہماری گردن بھی دبوچ لی جائیگی اور انکو شاید کسی نے اطلاع بھی دی ہوگی کہ وقت کے سفاک یزید کے سامنے ڈٹ جانے والے حسن و حسین کی اولاد میں کچھ افراد ابھی زندہ ہیں جن کا سرکٹ سکتا ہے مگر جھک نہیں سکتا۔
علامہ اقبال نے اپنے اشعار میں انہی فطرت کے مقاصد کی ترجمانی کرنے والے خانزادگان کبیر کا تذکرہ کیا ہے۔ جہاں سے طلوع اسلام کیلئے اس ہاشمی خاندان سے پھر برگ وبار پیدا ہوں گے۔ ہم یہ کہہ نہیں سکتے ہیں کہ ہمارے اندر کمی ،کوتاہی ، غلطی، گناہ اور ڈر وخوف کا کوئی تصور نہیں ہے اور لالچ بھی نہیں رکھتے ہیں۔ نہیں بھئی نہیں ہم بہت کمزور ہیں اور ہم اپنے سے زیادہ کسی کو کمزور نہیں سمجھتے ہیں لیکن کوئی غرور اور تکبر کرتا ہے تو ہم ضرور کہہ سکتے ہیں کہ اللہ کی ذات کو یہ زیب دیتا ہے۔ اگر کسی انسان میں اللہ نے کوئی خوبی رکھی ہے یا اس نے کسی اعزاز سے اس کو نوازا ہے تو یہ اللہ ہی کا اپنا کمال واحسان ہے۔
(6:) اس آیت میں ایک طرف اللہ نے قانون کا بھی واضح تصور دیا کہ فیصلہ اکثریت کی بنیاد پر ہوسکتا ہے اور یہ بتادیا کہ اقلیت کافیصلہ ٹھیک اور اکثریت کا غلط بھی ہوسکتا ہے۔ حکومت واپوزیشن کے وجود کا اس سے زیادہ بہتر تصور کسی کتاب میں نہیں ہے۔
رسول اللہ ۖ کے دور اورخلافتِ راشدہ میں جمہوریت کی زبردست روح موجود تھی لیکن ووٹ کا مغربی طرزِ عمل وجود میں نہیں آیا تھا۔ یہ دیکھنا پڑے گا کہ اسلام میں ووٹ کے ذریعے حکومت منتخب کرنے کی گنجائش ہے یا نہیںہے؟۔
عن سعد بن ابی وقاص قال قال رسول اللہۖ لایزال اہل الغرب ظاہرین علی الحق حتی تقوم الساعة نبیۖ نے فرمایا کہ ”اہل مغرب ہمیشہ حق پر قائم رہیں گے۔ یہاں تک کہ قیامت آجائے ” ۔ (صحیح مسلم)
اہل مغرب کیلئے حق پر قائم رہنے کی یہ پیش گوئی کس بنیاد پرہے؟۔ کیا ان کی خواتین کا عریاں لباس حق پر قائم رہنے کی نشانی ہے؟یا جدید سائنس میں ترقی اہل حق ہونے کی نشانی ہے؟یا چاہتے ہیں تو ملکوں اور قوموں کو تباہ کردیتے ہیں اسلئے وہ حق پر قائم ہیں؟یا ان کا تعلق بنی اسرائیل کیساتھ ہے؟۔ آخر کس وجہ سے اہل مغرب کو حق پر قائم رہنے کی خوشخبری دی گئی ہے؟۔حالانکہ مشرقی تہذیب وتمدن اور اقدار پر اہل مشرق فخر کرتے ہیں اور ہم ان کو فطرت کے قریب سمجھتے ہیں۔
اہل مغرب کی بڑی خوبی حکومت کو ووٹوں کے ذریعے بدلنا ہے۔ جہاں حکومت ووٹ کے ذریعے بدل سکتی ہو وہاں انسانوں پر ظالمانہ نظام قائم نہیں ہوسکتا ہے۔ اللہ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہیں کیا۔ اللہ نے دین اور نظام میں جبر کو مسلط نہیں کیا بلکہ ابلیس کو اطاعت کی بجائے نافرمافی کرنے کا اختیار دیا ۔
(7:) اس آیت سے یہ سبق ملتا ہے کہ قیدیوں کو قتل نہ کرنے کا قانون اسلام نے اولین اصولوں میں رکھ دیا تھا۔ آیت میں قافلے کا مال لینے سے فدیہ لینے تک مجموعی صورتحال ہے۔ قرابتداروں پر تلوار چلانا بہت مشکل کام ہے۔ میدانِ بدر میں بھی جو فضاء تھی وہ بہت خطرناک تھی۔ رسول اللہۖ کی صاحبزادی حضرت زینب کیلئے یہ بہت بڑا مسئلہ تھا کہ مسلمان لشکر میں آپ کے والدنبیۖ تھے جبکہ دشمنوں میں آپ کے شوہر تھے۔ ایک عورت شوہر کی موت پر بھی خوش نہیں ہوسکتی تھی۔ مسلمانوں کو اللہ نے اتنی بڑی آزمائشوں سے گزار کر دنیا کی امامت عطاء کردی۔ ہم خطابت کے جوہر سے لوگوں کو بھی ورغلانے کا فن جانتے ہیں اور اپنا تن من پالتے ہیں اور لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں کہ تن،من اور دھن سب کچھ اسلام اور وطن پر قربان کردیں گے۔
(8:) اس آیت سے یہ سبق ملتا ہے کہ فیصلہ ٹھیک ہو یا غلط مگر ایک دفعہ کرلیا جائے تو اس معاہدے کی پاسداری ضروری ہے۔ آیت میں قیدیوں کو قتل کے مشورے کی تصدیق نہیں بلکہ اس جذبے کی توثیق تھی جس کا لحاظ بدر کے میدان میں رکھا جاتا تو پھر قرابتداری کے ناجائزجذبات مستقبل میں بھی نہیں منڈلاسکتے تھے۔ انصاف یہ ہے کہ دیر نہ کی جائے۔ اگر ایک مرتبہ دیر کردی تو پھر معاملہ اُلٹ بھی سکتا ہے اور اس آیت سے یہ سبق ملتا ہے کہ بدر میں سب کو قتل کردیا جاتا تو بہتر تھا لیکن جب ایک دفعہ قیدی بنالیا گیا تو پھر ان کو قتل نہ کرنا ہی منشاء الٰہی کے عین مطابق تھا۔ ورنہ اللہ تعالیٰ اس سے پہلے ہی وحی بھی نازل کرسکتا تھا۔ میدانِ جنگ میں وحی کے سننے اور سمجھنے کا موقع بھی نہیں تھا۔ ہماری عدالتیں انصاف فراہم کرنے میں جتنی دیر لگادیتی ہیں تو اس میں بھی ظالم کو اپنے انجام تک پہنچانے سے زیادہ بہتر ان کو معاف کردینا ہے۔ مظلوموں کے اندر اس وقت تو انتقام کا وہ جذبہ بھی ماند پڑجاتا ہے۔
آج اسلام اور مسلمانوں کو عالمگیر خطرات کے سامنے اپنی اہلیت ثابت کرنی ہوگی۔ اسلام نے جو عقائدونظریات اور تربیت وایمانیات کا سبق چودہ سو سال پہلے پڑھایا تھا ،اس کو دیکھنے، سمجھنے ، اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
غلامی کا نظام امریکہ نے( 1864 عیسوی) میں ختم کیا جبکہ اسلام نے غلامی کا نظام بنانے والے ادارے جاگیرداری اورمزارعت کو چودہ سو سال پہلے ہی سود قرار دیکر ختم کردیا تھا۔ فقہ کے ائمہ اس پر متفق تھے مگر درباری ملاؤں نے بادشاہوں کے کرتوت کو ختم کرنے کے بجائے مذہب ومسلک کے نام پر جواز بخشنا شروع کردیا تھا اگر اسلام کے نام پر خاندانی اور موروثی بادشاہتوں کی جگہ قرآن وسنت کا نظام ہوتا تو دنیا سے جاگیردارنہ نظام کے خاتمے میں اسلام کا سب سے بڑا کردار ہوتا اور غلام ولونڈی کا نظام بھی بہت پہلے مٹ چکا ہوتا۔ حضرت سیدنا بلال حبشی اور دیگر غلامی کے نظام میں جکڑے ہوئے افراد نے اسلام کی آغوش میں پناہ لی تو وہ کسی جنگی قیدی سے غلام بن کر نہیں آئے تھے بلکہ جاگیردارانہ نظام نے ہی انکو غلام اور لونڈی بناکر مارکیٹ میں بیچا تھا۔
جب دور دراز سے کوئی غلام یا لونڈی مؤمنوں کی آغوش میں آتے تو انکو بڑی عزت اور بہت راحت بھی ملتی، حضرت زید بردہ فروشوں کے ہاتھوں غلام بن گئے تھے مگر نبیۖ کی آغوش سے وہ اپنے چچا اور خاندان میں جانے کیلئے تیار نہ تھے۔ محمود غزنوی کے غلام ایاز اپنے آقا کیلئے سب سے بڑا سرمایہ بن گئے۔ قرآن میں ان غلاموں کا بھی واضح ذکر ہے جو تیز دھوپ اور گرم ہواؤں سے خلاصی پاکر مسلمانوں کی خدمت میں حاضر ہوں تو وہ اپنی مشکل کی زندگی سے بہت آسانی کی زندگی پانے پر اپنے رب کاشکر ادا کرینگے۔ جو ایک دوسروں پر تحائف کی طرح پیش کئے جائینگے۔ مسلمانوں نے وہ دور دیکھ ہی لئے ہیں لیکن ان کا قرآن سے اتنا تعلق مضبوط نہیں ہے کہ وہ قرآن کی واضح آیات کے واضح پیغامات کو سمجھنے کی صلاحیت بھی رکھتے۔ جو بڑی غلطی ہے۔
جب مسلمان حکمرانوں میں خلیفہ عبدالحمید جیسے عثمانی خلفاء نے ساڑھے چار ہزار لونڈیا ں اپنی ملکیت میں رکھیں اور محمد شاہ رنگیلا نے عیاشیوں کے بازار گرم کئے تو امامت کا منصب ان سے چھن گیا۔ قرآن میں غلام کیلئے عبد اور لونڈی کیلئے اَمة کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اسلام نے عبدیت صرف اللہ ہی کیلئے جائز رکھی ہے اور انسانوں کو انسانوں کیلئے اللہ نے عبدیت کی جگہ حریت عطاء کردی ہے۔ ہماری بڑی مشکل یہ ہے کہ عربی اور اردو کو مکس کرلیتے ہیں اور پھر معانی بھی بدل لیتے ہیں۔ ہمارے جدامجد شیخ الطریقت سیدعبدالقادر جیلانی نے اپنے خطبات میں سامعین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ یا غلام جو عربی میں لڑکے کو کہتے ہیں ۔ اردو میں غلام عبد کو کہتے ہیں۔ پیرانِ طریقت نے غوث اعظم کے نام پر یہ خوئے طریقت ایجاد کرلی کہ مریدوں کو اپنا غلام سمجھ لیاحالانکہ اسلام میں غلامی جائزہی نہیں ہے۔
دورِ جاہلیت میں غلاموں اور لونڈیوں کو جانور کی طرح ملکیت کا درجہ حاصل تھا۔ اس کو قتل کرناہو یا آنکھ پھوڑ دینی ہو یا کان کاٹ دینے ہوں یا اسکے دانت توڑ دینے ہوں یا ہاتھ کاٹ دینے ہوں یا پھر مار کٹائی کرنی ہو ،سب کی اجازت تھی اسلئے کہ مملوک کیساتھ مالک کو سب کچھ کرنے کا حق تھا۔ اسلام کی تعلیمات نے غلام ولونڈی کا نکاح کرانے کا حکم دیا اور جب نکاح کے حقوق ملتے ہیں تو معاشرے میں تمام انسانی حقوق خود بخود مل جاتے ہیں۔
غلاموں اور لونڈیوںکو ذاتی ملکیت کے درجہ پر نہیں رکھا گیا بلکہ ان کو ایک معاہدے کا درجہ دیدیا۔ ملکت ایمانکم اور غلام ولونڈی میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ ایک معاہدہ کسی آزاد فرد سے بھی ایسا ہوسکتا ہے جیسے کسی لونڈی اور غلام سے ہوتا ہے۔ معاہدہ کیا ہے؟۔ ایک لونڈی یا غلام کو جتنے میں خریدا ہے اس کا وہ فرد مالک نہیں ہے بلکہ یہ انسان اسکے گروی ہیں۔ اسلام نے دنیا کو بدل دیا تھا مگر ہمارے مذہبی طبقے نے اسلام کی فطری تعلیم کو بھی بالکل غیر فطری بناکر رکھ دیا۔ الحمد للہ علماء و مفتیان کا ذہن کھل رہاہے اور کامریڈوں نے بھی اسلام کی افادیت کو اچھی طرح سمجھنا اب شروع کردیا ہے۔
سب اپنے بنائے ہوئے زنداں میں ہیں محبوس
خاور کے ثوابت ہوں کہ افرنگ کے سیار
پیرانِ کلیسا ہوں کہ شیخانِ حرم ہوں
نے جدت گفتار ہے نے جدت کردار
ہیں اہل سیاست کے وہی کہنہ خم و پیچ
شاعر اسی افلاس تخیل میں گرفتار
دنیا کو ہے اس مہدیٔ برحق کی ضرورت
ہو جس کی نگاہ زلزلۂ عالم افکار

قرآن کریم کا درست ترجمہ وتفسیر تمام مشکل مسائل کا بہترین حل ہے لیکن افسوس کہ غلطیوں پر غلطیاں ہیں!

Hamid Meer, Ghulam Ahmed Perwez, PDM, Molana Fazl ur Rehman, Surah Nissa

قرآن کریم کا درست ترجمہ وتفسیر تمام مشکل مسائل کا بہترین حل ہے لیکن افسوس کہ غلطیوں پر غلطیاں ہیں!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

سورۂ النساء کی آیت اُنیس (19)کا ترجمہ وتفسیر بہت واضح ہے لیکن علماء نے اس میں خیانت کی

پھر غلام احمد پرویز کی فکر سے متأثر ہونے والوں نے مزید موشگافی سے معاملہ خراب کیا!

اب انصار عباسی جیسے لوگوں نے اپنے مخصوص مقاصد کی خاطر قرآن و فطرت پر حملہ کردیا!

ےٰایھا الذین اٰمنوالا ترثوا النسآء کرھًا ولا تعضلوھن لتذھبوا ببعض مآ اتیتموھن الا ان یأتین بفاحشةٍ مبےّنةٍوعاشروھن بمعروفٍ فان کرھتموھن فعسٰی ان تکرھوا شیئًاویجعل اللہ فیہ خیرًا کثیرًاO
ترجمہ ” اے ایمان والو! عورتوں کے زبردستی سے مالک مت بن بیٹھو۔ اور نہ اسلئے ان کو جانے سے روکو کہ جو کچھ بھی تم نے ان کو دیا ہے اس میں سے بعض واپس لے لو مگر جب وہ کھلی فحاشی کے مرتکب ہوں۔ اور ان سے حسن سلوک کا برتاؤ کرو۔ اگر وہ آپ کو بری لگتی ہیں تو ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز بری لگے اور اس میں اللہ بہت سار ا خیر بنا دے”۔ (سورہ ٔ النساء آیت19)
سورۂ النساء (آیت19) میں عورتوں کے خلع کا حق اور آیات (20) اور (21) میںطلاق کے بعد عورتوں کے حقوق بیان کئے گئے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ سورۂ بقرہ کی آیت(229)میں طلاق کے بعد عورتوں کے حقوق بیان کئے گئے ہیں مگر وہاں ناممکن انتہائی غلط طور پر خلع مراد لیا گیا۔ اگر قرآن کا ترجمہ وتفسیر درست طور پر سامنے رکھا جائے تو پوری دنیا سمیت تمام فرقے اورمسلک اس کو قبول کرنے میں لمحہ بھر دیر نہیں لگائیں گے۔
سورۂ النساء کی آیت(19)میں مردوں پر عورتوں کے خلع کا حق واضح کرکے فرمایا گیا ہے کہ ” اے ایمان والو! تم عورتوں کے زبردستی سے مالک مت بن بیٹھو اور نہ اسلئے ان کو روکو کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے اس میں بعض ان سے واپس لے لو مگر یہ کہ وہ کھلی ہوئی فحاشی کی مرتکب ہوں”۔ شوہر زبردستی سے بیوی کا مالک نہ بنے اور وہ ان چیزوں کو بھی اپنے ساتھ لے جانے کا حق رکھے جو شوہر نے دی ہیں اور شوہر بعض چیزوں کو بھی واپس نہ لے سکے مگر یہ کہ جب عورت کھلی فحاشی کرے تو اس سے زیادہ عورت کو حق اور کیا چاہیے؟۔
جب کوئی عورت شوہر اور اپنے بچوں کا گھر اُجاڑ ے توپھر خدشہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسکے ساتھ بدسلوکی کا برتاؤ کیا جائے۔ لیکن اللہ نے واضح حکم دیا کہ ” ان کیساتھ حسنِ سلوک کا برتاؤ رکھو، اگر وہ تمہیں بری لگتی ہوں توہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں بری لگے اور اس میں اللہ بہت سارا خیر بنادے”۔ جب عورت کو زبردستی سے گھر میں روکا جائے تو وہ اپنی عزت اور شوہر کے ناموس کا ستیاناس کرسکتی ہے۔ خود کشی اور خود سوزی کرسکتی ہے۔ بچوں وگھر کے افراد کو زہر کھلا کر مار سکتی ہے ۔ کئی واقعات اخبارات کی زینت بنتے ہیں۔ عورت جانور نہیں ہے کہ اس کی مرضی کے بغیر شوہر خود کو اس کا مالک تصور کرنے لگ جائے اور اس کی وجہ سے معاشرے کو بہت سنگین واقعات اور لڑائی جھگڑوں اور قتل وغارتگری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اسلئے اللہ کے اس حکم میں بہت سارا خیر یقینی طور پر اللہ نے رکھا ہے۔ عورت خلع لے یا اس کو طلاق ہو ،بہرحال حسنِ سلوک کے ساتھ اس کی رخصتی کا عمل معاشرے کے بہترین مفاد میں ہے۔ قرآن کی اس آیت میں کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں ہے۔
آیت پر پہلا حملہ مفسرین نے کیا ہے کہ قرآن کے جملوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے مسل کر رکھ دیا ہے اور وہ اس طرح سے کہ ” عورتوں کے زبردستی سے مالک بن بیٹھو اور نہ ان کو اسلئے روکو کہ بعض چیزوں کو ان سے واپس لے لو”۔ میں دو الگ الگ طرح کی عورتیں مراد لیں۔ دوسرا حملہ پرویزیوں نے کیا کہ فحاشی کے باوجود بھی عورت کو حسنِ سلوک کیساتھ اپنے ساتھ رکھو ہوسکتا ہے کہ تمہارے لئے اس میں اللہ خیر بنادے۔علماء نے اپنی خود ساختہ شریعت میں قرآن وسنت کے بالکل برعکس عورتوں کے حقوق بالکل اتنے سلب کرلئے ہیں کہ کوئی انسانی اور فطری معاشرہ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا ہے اسلئے اللہ نے بعض انسانوں کو جانوروں سے بھی بدتر قرار دیا مگر جنہوں نے جہالت سے ایسا کیااوراس پر اصرار نہ کریں اور توبہ کریں تو پھر وہ اچھے لوگ ہیں۔

شیعہ عالمِ دین علامہ امین شہیدی کا اُم المؤمنین حضرت عائشہ کی ناموس کو سب سے زیادہ مقدس قرار دینا اور قرآن میں بہتان کے واقعہ پر اپنوں کیلئے دلیل پکڑنا!

Shia Sunni, Karbala, Hazrat Ayesha, Mufti Tariq Masood

شیعہ عالمِ دین علامہ امین شہیدی کا اُم المؤمنین حضرت عائشہ کی ناموس کو سب سے زیادہ مقدس قرار دینا اور قرآن میں بہتان کے واقعہ پر اپنوں کیلئے دلیل پکڑنا!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

امین شہیدی نے واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ” یہ سب قرآن میں ہے” حالانکہ قرآن میںواقعہ کا اجمالی تذکرہ ہے!

اگر واقعہ میں اللہ کی حکمت یہی تھی کہ بہتان لگانے والوں کو کافر نہیں کہا گیا تاکہ برا بھلا کہنے والوں کو کافر نہ کہا جائے تو

پھر یہ حکمت بھی ہوگی کہ حضرت علی کے بارے میں غلو کرنے والے اہل تشیع بھی اپنے عقائد میں کچھ اعتدال پیدا کریں!

اہل تشیع کے معروف و معتدل عالمِ دین علامہ امین شہیدی نے کہا ہے کہ ”حضرت عائشہ کے جوتوں پر لگنے والی گرد کو بھی ہم اپنی آنکھوں کیلئے بڑا اعزاز سمجھتے ہیںاسلئے کہ ام المؤمنین کا شرف آپ کو حاصل تھامگر آپ پر بہتان لگایا گیا تو ایک ماہ تک یہ ایک زبان سے دوسری زبان تک گردش کرتا رہا، نبیۖ نے قطع تعلق رکھا، حضرت عائشہ نے کہا کہ مجھ پر زمین تنگ تھی اور جن صحابہ نے یہ بہتان لگایا تو ان میں بدری شامل تھے۔ یہ سب واقعہ قرآن میں ہے۔اس سے ایک سبق یہ ملتا ہے کہ ام المؤمنین کو برا کہنے سے کوئی کافر نہیں بنتا، ورنہ ان سب صحابہ پر کفر کا فتویٰ لگتا۔ ہم یہ ہرگز نہیں کہتے کہ حضرت عائشہ کو برا بھلا کہنا جائز ہے۔ان کا احترام ہم پر ضروری ہے کیونکہ آپ مؤمنوں کی ماں ہیںلیکن قرآن کے اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اتنا بڑا بہتان لگانے والوں کو بھی کافر نہیں قرار دیا گیا، جس کی حکمت یہ تھی کہ آئندہ بھی کوئی برا بھلا کہے گا تو کافر نہیں ہوگا”۔
ہم علامہ امین شہیدی کے بیان پر تبصرہ ضروری سمجھتے ہیں۔ پہلی بات یہی ہے کہ قرآن میں وہ تمام تفصیلات نہیں ہیں جن کو علامہ نے قرآن کی طرف اپنی لاعلمی کی وجہ سے منسوب کیا ہے۔ غلام احمد پرویز نے یہ لکھا کہ ” اہل سنت کی احادیث کی کتابوں میں اہل تشیع نے سازش سے حضرت عائشہ کانام ڈال دیا ہے، قرآن میں حضرت عائشہ کے نام کی کوئی بات نہیں ہے”۔
تاہم جن قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ میں واقعہ کی تفصیلات ہیں وہ بھی اسلام کیلئے بہت بڑا اعزاز اور انسانیت کیلئے نجات کا ذریعہ ہیں۔ قرآن میں یہ بھی اللہ نے فرمایا ہے کہ ” اگر تم یہ بات سنتے ہی کہتے کہ یہ بہتان عظیم ہے تو یہی تمہارے لئے بہتر تھا”۔ (سورۂ نور) احادیث و تفسیر کی کتابوں میں بعض صحابہ کے نام موجود ہیں جنہوں نے اس کو بہتان ہی قرار دیا تھا۔یہ اعزاز ام المؤمنین حضرت زینبنے بھی حاصل کیا تھا جس کی حضرت عائشہ سے سوکن ہونے کی وجہ سے بنتی بھی نہیں تھی اور اس دشمنی کی وجہ سے آپ کی بہن حضرت حمنا نے بھی اس بہتان میں حصہ لیا تھا اور اس کی وجہ سے اسّی (80)کوڑوں کی سزا بھی کھانی پڑی تھی۔ اہل تشیع اپنی کتابوں میں دیکھیں کہ حضرت علی اس میں شامل تھے یا نہیں؟ اور اگر نہیں تھے تو دوسرے کئی صحابہ کی طرح ان کی شان پر کوئی زیادہ اثر نہیں پڑتا ہے ۔ البتہ جب ایک مہینے تک وحی نازل نہیں ہوئی تو علی مولائے کائنات نے اس مشکل میں رسول اللہۖ کی مدد کیوں نہیں کی؟۔ شاید اس کی وجہ یہی تھی کہ آنے والے مخلص شیعہ حضرت علی کی امامت کو نبیۖ سے بھی زیادہ اہمیت اور عقیدت سے دیکھیںگے۔ جب ام المؤمنین حضرت عائشہ کی برأت کیلئے بھی حضرت نبیۖ اور حضرت علی کی موجودگی سے کوئی فائدہ نہیں تھا تو پھر بارہ امام اور آخری امام کی امیدوں پر اُمت کو ورغلانے کی بجائے قرآن کی طرف متوجہ کرنے کی ضرورت پر زور دیناتھا مگر افسوس کہ سنی شیعہ کسی نے بھی یہ نہیں کیا۔
اہل تشیع کے امام خمینی نے انقلاب برپا کرکے کمال کردیا اور ملاعمر نے بھی حکومت قائم کرکے کمال کردیا لیکن اسلام کے درست خدو خال اجاگر کیے بغیر کام نہیں چلے گا۔ تعصبات کی فضاؤں سے نکلنے کی بہت سخت ضرورت ہے۔
خلفاء راشدین حضرت ابوبکر، حضرت عمر ، حضرت عثمان، حضرت علی کے قد کاٹھ بہت اونچے تھے اسلئے شیعہ سنی کے بونے یہ فیصلہ نہیں کرسکتے ہیں کہ کس کا مقام بلند ہے اور کس کا درجہ کم ہے۔ کسی کو بڑا یا چھوٹا درجہ دینا ہمارا کام بھی نہیں ہے۔ مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے درباری علماء ومفتیان کو کھلایا پلایا تو اس کو بھائیوں کے قتل اور باپ کو قید کرنے کی سزا بھی معاف کردی گئی۔ امام ابوحنیفہ کے شاگرد شیخ الاسلام ابویوسف قاضی القضاة چیف جسٹس تھے لیکن امام ابوحنیفہ کو جیل کے اندر تنہائی کی قید میں زہر دے کر شہید کردیا گیا تھا۔
مفتی محمود کو وفاق المدارس کے صدر اورمفتی اعظم پاکستان کا مقام ملا تھا۔ جنرل ضیاء الحق پر مفتی محمود کے علم وعمل کو قربان کیا گیا اور پھراسلام کے نام پر بھی ریفرینڈم میں جنرل ضیاء کو مجسمہ اسلام قرار دیا گیا۔ اکبر بادشاہ مغل اعظم کو بھی سجدہ تعظیمی کا مستحق قرار دیا گیا۔ ہردور کے یزیدکو اپنے وقت کے قاضی شریح بھی حسین کے قتل کیلئے میسر آگئے۔ ان کی بصیرت پر اعتماد کرکے خلفاء راشدین کے درجات بھی حکومت میں نمبروار کے حساب سے دئیے گئے۔ خلافت عباسیہ میں حضرت علی کی اولاد کو اقتدار سے محروم کرنے کیلئے حضرت علی کے باپ کو ہی دائرہ اسلام سے خارج کرنے کی روایتیں گھڑی گئیں۔ حالانکہ ابوبکر،عمر ، عثمان کے باپوں سے زیادہ حضرت علی کے باپ نے اسلام کی خدمت کی تھی۔ قرآن کا واضح پیغام ہے کہ جنہوں نے نبیۖ اور مؤمنوں کو ٹھکانہ دیا اور مدد کی تو وہی سچے مؤمن ہیں۔ الذین آؤواونصروااولئک مؤمنوں حقًا حنفی مسلک والوں کا یہ فرض ہے کہ ابوطالب کے بارے ان روایات کو رد کریں جو قرآن کے منافی ہیں۔ یہ کس قدر بیکار بات ہے کہ حضرت علی سے زیادہ حضرت عباس کی اولاد خلافت کی مستحق تھی اسلئے کہ علی کے والد نے اسلام قبول نہیں کیا تھا اور چچاکے مقابلے میں چچازاد کی اولاد خلافت کی مستحق نہیں ۔ پھر خلفاء راشدیناور بنوامیہ کے خلفاء کا کیا بنے گا ؟ جو نہ چچاکی اولاد تھے اور نہ چچازادکی اولاد تھے۔
امام بخاری نے اہل بیت کیساتھ علیہ السلام لکھ دیا مگر ان کی روایات کو نقل کرنے سے گریز کیا اور پھر حضرت عائشہ پر ایسا بہتان باندھ دیا کہ اپنی بہن کے ذریعے دودھ پلاکر بڑوں کو محرم بناتی تھی۔ حنفی مسلک نے کئی روایات کو قرآن کے منافی قرار دیکر ٹھکرانے کا درست فیصلہ کیا۔امام بخاری نے اپنے خلوص اور حالات کے مطابق نیک نیتی سے جو کچھ کیا وہ حرفِ آخر بالکل بھی نہیں ہے۔

شیعہ سنی، بریلوی دیوبندی، اہلحدیث حنفی اور مسلمان عیسائی میں غلط فہمیوں کا ازالہ بہت ضروری ہے

شیعہ سنی، بریلوی دیوبندی، اہلحدیث حنفی اور مسلمان عیسائی میں غلط فہمیوں کا ازالہ بہت ضروری ہے،جب ہم اپنے علم اور عمل کو درست کرلیںگے تو دنیا بھر کے عیسائی یہود کے مقابلے میں مسلمانوں کو سپورٹ کریںگے، انشاء اللہ!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

امریکہ میں بارک حسین اوبامہ نے بھی حکومت کی اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو جیل سے رہائی کے بعد سو فیصد ووٹوں کیساتھ پہلی خاتون امریکی صدر کا اعزاز بہت آسانی کیساتھ مل سکتا ہے!

اہلیان پاکستان سے نظام بدلنے کی درخواست ہے لیکن ہماری حکومت، ریاست اور سیاستدانوں کی اب مجبوری بن چکی ہے کہ اس فرسودہ نظام کو بدلنے میں دیر نہ لگائیں ورنہ خیر نہ ہوگی

یسئلک اھل الکتٰب ان تنزِّل علیھم کتٰبًا من السماء فقد سالوا موسیٰ اکبر من ذٰلک فقالوا ارنا اللہ جھرةً فاخذتھم الصّٰعقة بظلمھم ثم اتخذوا العجل من بعد ماجآء تھم البےّنٰت فعفونا عن ذٰلک واتینا موسٰی سلطٰنًا مبینًاOو رفعنا فوقھم الطّور بمیثاقھم وقلنا لھم ادخلوا الباب سجدًا وقلنا لھم لاتعدوا فی السّبت و اخذنا منھم میثاقًا غیلظًاOفبما نقضھم میثاقھم و کفرھم باٰےٰت اللہ وقتلھم الانبیآء بغیر حق وقلولھم غلف بل طبع اللہُ علیھا بکفرھم فلایؤمنون الاقلیلًاOوبکفرھم وقولھم علی مریم بھتانًا عظیمًاOوقولھم انا قتلنا المسیح عیسی ابن مریم رسول اللہ وماقتلوہ وماصلبوہ ولٰکن شبّہ لھم وانّ الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ مالھم بہ من علم الا اتباع الظنّ وماقتلوہ یقینًاOبل رفعہ اللہ الیہ و کان اللہ عزیزًا حکیمًاOوان من اہل الکتٰب الا لیؤمننّ بہ قبل موتہ ویوم القیٰمة یکون علیھم شھیدًاOفبظلمٍ من الذین ھادوا حرّمنا علیھم طےّبٰت اُحلت لھم وبصدّ ھم عن سبیل اللہ کثیرًاOواخذھم الربٰواوقد نھوا عنہ واکلھم اموال الناس بالباطل واعتدنا للکٰفرین منھم عذابًا الیمًاOلٰکن الرّٰ سخون فی العلم منھم والمؤمنون یؤمنون بماانزل الیک ومآانزل من قبلک و المقیمین الصلوٰة والمؤتون الزکٰوة والمؤمنون باللہ والیوم الآخر اُولئک سنؤتیھم اجرًا عظیمًاO(سورہ النساء آیات153سے162تک)
ترجمہ ” اہل کتاب آپ سے پوچھتے ہیں کہ آپ ان پر آسمان سے کوئی تحریر نازل کراؤ۔ پس یہ موسیٰ سے بڑا سوال کرچکے ہیں اس سے پہلے۔ تو انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں اللہ کو ظاہری طور پر دکھادو۔ پھر بجلی نے ان کو پکڑلیا انکے ظلم کی وجہ سے۔ پھر انہوں نے بچھڑے کو اپنا معبود بنالیا۔ پھر ہم نے ان سے درگزر کیا اور موسیٰ کو کھلا غلبہ دیا۔ اور ان پر کوہ طور اٹھایا ان کے عہد کی وجہ سے اور ان سے کہا کہ دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہوجاؤ۔ اور ان سے کہا کہ سبت میں داخل مت ہو۔ اور ان سے بہت پختہ عہد لے لیا۔ پس ان کی عہد شکنی کے سبب اور اللہ کی آیات سے انکار کے سبب اور انبیاء کو بغیر حق کے قتل کرنے کے سبب اور ان کے اس قول کے سبب کہ ہمارے دل غلاف میں محفوظ ہیں۔بلکہ اللہ نے ان کے دلوں پر ٹھپّا لگادیا ہے ان کے کفر کے سبب ۔پس وہ ایمان نہیں لائیں گے مگر ان میں کم لوگ۔ اور انکے کفر کے سبب اور انکے اس قول کے سبب جو مریم پر بڑا بہتان لگادیا ہے۔ اور انکے اس قول کے سبب کہ ہم نے مسیح ابن مریم اللہ کے رسول کو قتل کردیا ہے۔ اور انہوں نے نہ اس کو قتل کیا ہے اور نہ سولی دی ہے بلکہ ان پر معاملہ ان کیلئے مشتبہ کردیا ہے۔ اور جو لوگ اس میں اختلاف کررہے ہیں تو اس میں شک میں پڑے ہیں۔ ان کو اس حوالے سے علم نہیں ہے مگر اپنے گمان کا اتباع کرتے ہیں۔ اور انہوں نے یقینی طور پر اس کو قتل نہیں کیا ہے۔ بلکہ اللہ نے اس کو اپنی طرف اُوپر اُٹھالیا ہے۔اور اللہ تو تھا ہی زبردست حکمت والا۔ اور اہل کتاب میں سے بعض لوگ ان پر ان کی موت سے پہلے ایمان لائیں گے۔ اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوگا۔ پس ظلم کے سبب ان لوگوں میں سے جو یہود ہیں ہم نے ان پر حرام کردیاپاک چیزوں کو جو ان کیلئے حلال تھیں، اور بسبب اس کے کہ انہوں نے اللہ کی راہ میں بہت رکاوٹیں کھڑی کیں۔ اور بسبب انکے سود لینے کے اور تحقیق کہ ان کو اس سے منع کیا گیا تھا اور بسبب انکا لوگوں کے اموال باطل طریقے سے کھانے کے۔ اور کافروں کیلئے درد ناک عذاب تیار کررکھا ہے جو ان میں سے ہیں۔ لیکن جو علم میں راسخ ہیں ان میں سے اور جو مؤمنین ہیں ایمان لاتے ہیں اس پرجو تیری طرف نازل کیا گیااور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا اور جو نماز کو قائم کرتے ہیںاور زکوٰة دیتے ہیں اور ایمان رکھتے ہیں اللہ وآخرت کے دن پر ، یہ وہ ہیں جن کو عنقریب بہت بڑا اجر ملے گا”۔
سورۂ النساء کے اس رکوع کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے بہت کھلی کھلی باتیں کی ہیں۔ یہود کے جرائم کی فہرست گنوائی ہے اور اہل کتاب کے مطالبات اور حضرت مریم پر بہتان عظیم کے جرم کا ذکر کیا اور پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل اور اس پر شبہات کا ذکر ہے ۔ اللہ نے اس حوالے سے واضح کردیا کہ اس پر اختلاف کرنے والے ظن کا اتباع کرتے ہیں۔ یہود کے مقابلے میں نصاریٰ کا مؤقف قرآن نے درست قرار دیا ہے۔ قادیانی اوریہود ایک مؤقف رکھتے ہیں اور اس وجہ سے مل جل کر دنیا پر اپنے باطل غلبے کی توقع رکھتے ہیں۔ اللہ نے ہفتہ کے دن پاک مچھلیوں کے شکار کو یہود پر ان کی عہد شکنی ، ظلم اور کفر کی وجہ سے حرام کردیا تھا وہ اللہ کی راہ سے کثرت سے روکتے تھے۔ سودلینے سے منع کرنے کے باوجود بھی نہیں رُکتے تھے اور لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھاتے تھے۔ ان کے ذہن میں یہ تھا کہ انکے دل محفوظ ہیں لیکن اللہ نے ان پر ٹھپے لگادئیے تھے۔
آج مفتی محمد تقی عثمانی اور جامعة الرشید والے سودی کاروبار کی ٹریننگ دے رہے ہیں۔ لوگوں کے اموال کو باطل طریقے سے کھارہے ہیں لیکن اپنے دلوں کے محفوظ ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ یہی یہود کی اتباع نہیں تو کیا ہے؟۔
اللہ تعالیٰ نے سارے یہود نہیں بلکہ یہودی کافروں میں سے بعض کیلئے عذاب کی خبر دی ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے سود خوری اور باطل طریقے سے ساری دنیا کے اموال واسباب کو ہتھیانے اور فسادات کرانے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ لیکن ان میں کچھ لوگ علم میں راسخ ہیں۔ ان کو عذاب دینے کی اللہ نے بات نہیں کی ہے اور ان میں جو بڑے جرائم میں ملوث نہیں ہیں وہ بھی دردناک عذاب کے مستحق نہیں قرار پائے ہیں۔ قرآن کے الفاظ میں بہت زبردست طریقے سے اس کی وضاحت ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے بعد ان مؤمنوں کا ذکر کیا ہے جن کو دنیا اور قرآن کی زبان میں امت مسلمہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ لوگ بھی دردناک عذاب کے مستحق نہیں ہیں۔جن کی صفات بیان کی گئی ہیں کہ وہ نبیۖ پر نازل کردہ کتاب پر ایمان لاتے ہیں اور آپ سے پہلے کی نازل کردہ کتابوں پر بھی ایمان لاتے ہیں۔ اور زکوٰة دیتے ہیں اور اللہ و آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کو عنقریب بڑا اجر مل جائے گا۔
اسلام کی نشاة اول میں بھی دنیا نے خلافت راشدہ کی فتوحات سے قرآن میں موجود اللہ کے وعدوں کو پورا کرتے ہوئے دیکھا ہے اور اب بھی بعید نہیں کہ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ شاندار فتوحات سے نوازدے ۔ لیکن ہمیں اپنی غلطیوں کی اصلاح کیلئے قرآن کریم اور سنت رسول ۖ کی طرف توجہ دینی ہوگی۔ نبیۖ نے عورتوں کے حقوق کا خیال رکھنے کی خصوصی تعلیم فرمائی تھی اور قرآن میں انکے حقوق کی زبردست وضاحت ہے لیکن شیطانی القا نے معاملہ خراب کردیا ہے۔
جب یہود کی مذہبی کتابوں میں (12)سال سے پہلے لڑکی سے نکاح جائز نہیں ہو اور ہماری مذہبی کتابوں میں( 9)سال اور اس سے کم عمر بچیوں کا نکاح بھی جائز ہو۔ انگریزی نظام کی جمہوریت ، سیاست اور عدالت نے نابالغ بچیوں کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کی ہو لیکن ہماری فقہ میں بچی کی شادی اس کی مرضی کے بغیر زبردستی سے بھی جائز ہو۔ مغربی نظام نے اس میں قانونی رکاوٹ ڈالی ہو مگر پاکستان میں عملی طور پر ڈارک ویب کیلئے کام کرنے والے اور جنسی خواہشات کی تسکین کیلئے کم عمر بچیوں کو ریپ کرکے قتل بھی کیا جاتا ہو۔ اگر مذہبی لوگوں میں علم کی غلط فہمیاں دور ہوجائیں تو پھر سب سے زیادہ اچھے لوگ یہی نکلیں گے۔
صحیح مسلم شریف کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ” اہل غرب ہمیشہ حق پر رہیںگے ”۔ مغرب میں قبولیتِ حق کا جذبہ ہے ، وہ اپنی طاقت سے فائدہ اٹھاکر ہمیں اور ہمارے مذہبی مقامات کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں لیکن وہ ایسا کرنے کو خلافِ حق سمجھتے ہیںجبکہ ہمارے دہشتگردوں کا بس چلے تو حرمین شریفین اور اچھے لوگوں کی قبروں کو بھی معاف نہ کریں۔
جب فرشتے قوم لوط کو عذاب دینے کیلئے آگئے تو حضرت لوط علیہ السلام کو اپنے مہمانوں کی بے حرمتی کا خوف ہوا،کیونکہ فرشتے لڑکوں کی صورت میں آئے تھے۔حضرت لوط نے کہا کہ ” یہ میری بیٹیاں ہیں،اگر تم کرنا چاہتے ہو تو”۔ وہ کہنے لگے کہ ہمیں ان سے کوئی غرض نہیں ہے۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ قوم کی بیٹیاں اور ان لوگوں کی بیویاں بھی حضرت لوط کی بیٹیوں کی طرح تھیں اسلئے ان کو جائز طریقے سے اپنی خواہشات پوری کرنے کی تلقین فرمائی تھی۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس بات کی بہت سختی کیساتھ مخالفت کی ہے کہ کوئی اپنی طرف سے کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دے۔ اہل تشیع نے جماع فی الدبر پر احتیاط سے کام لیکر سخت ترین مکروہ قرار دیا ہے لیکن اہل سنت کے فقہ حنفی نے اس کو حرام قرار دیا ہے اور امام مالک نے حلال قرار دیا ہے۔ اہل سنت کے نزدیک اس پر صحابہ کے درمیان بھی حلال اور حرام کا اختلاف تھا۔ اگر عورت کے حقوق کا اصل مسئلہ ذہن نشین بلکہ دل نشین ہوجائے تو اختلاف کا مسئلہ بھی نہیں رہے گا۔ جب مسئلے کو بنیاد سے ہی خراب کردیا جائے تو پھر الجھنیں بڑھتی جاتی ہیں۔
جہاں اللہ تعالیٰ نے عورت کے تحفظ کیلئے آیات محکمات نازل کی ہیں لیکن آیات محکمات کا بھی فقہی مسالک کے ذریعے سے بیڑہ غرق کیا جائے تو پھر اور کیا ایسی چیز ہوسکتی ہے کہ عورتوں کا تحفظ کرنے کا باعث بن سکتی ہوں سوائے اس کے کہ عورت مارچ میں خواتین اپنے حقوق کا نعرہ لگائیں؟۔القائے شیطانی نے پہلے بھی مذاہب کو مسخ کردیا تھا ۔ دنیا بھر کے مذاہب سے خواتین نے اسلئے اپنی بغاوت کا اعلان کیا ہے کہ وہ انکے حقوق میں رکاوٹ بنے تھے۔ پچھلے سال بھی عورت مارچ کو روکنے کی ہرممکن کوشش ناکام ہوئی تھی اور اس دفعہ مشکلات کھڑی کرنے والوں نے اپنی ہمت بھی نہیں دکھائی ہے۔ یہ سلسلہ اس وقت رک سکتا ہے کہ جب مذہبی طبقات مساجد، مدارس، مذہبی اجتماعات اور سیاسی پلیٹ فارم سے گلی کوچوں اور میڈیا پر ان حقوق کی بات کریں جو قرآن نے ان کودئیے ہیں اور مذہبی طبقات اس پر متفق ہوکر ایک زبردست لائحۂ عمل بناکر پیش کریں۔
جب مذہب نے جھوٹ اور منکر قول سے عورت کو اس اذیت میں مبتلاء کیا تھا کہ” اگر شوہر اپنی بیوی سے کہے کہ آپ کی پیٹھ مجھ پر اپنی ماں کی پیٹھ کی طرح ہے۔ تو بیوی اپنے شوہر پر اپنی حقیقی ماں کی طرح حرام ہوجاتی ہے”۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم ۖ کی سیرت کو نہ صرف مسلمانوں کیلئے بلکہ عالم ِ انسانیت کیلئے اعلیٰ نمونہ بنایا ہے۔ ایک خاتون حضرت خولہ بنت ثعلبہ سے اسکے شوہر نے ظہار کیا تو رسول اللہ ۖ نے مذہبی ماحول کے مطابق سمجھ لیا کہ وہ اب اپنے شوہر پر حرام ہوچکی ہے۔ وہ عورت اپنے حق کیلئے بارگاہِ رسالت ۖ میں مجادلہ کرنے بیٹھ گئی۔ آج کا مولوی ہوتا تو سیرت رسول سمجھ کر عورت کی ہڈیاں طالب علموں سے تڑوادیتا کہ شریعت کے خلاف اپنے حق کی بات کیسے کررہی ہے؟۔ اسلام کو اسلئے اللہ نے لازوال دین بنادیا کہ سورۂ مجادلہ میں اس واقعہ کو محفوظ کردیا ہے۔
امریکن ایرانی نژاد خاتون نے واقعہ لکھ دیا کہ عورت کیساتھ جماع فی الدبر کا ارتکاب ہورہاتھا۔ حق مہر سے زیادہ قیمت دے کرخلع لینے پر مجبور ہوگئی لیکن کسی مولانا، مولوی ، مفتی، علامہ ، ڈاکٹر، ذاکر اور نائیک کے کان پر جوں تک بھی نہیں رینگی کہ کیا یہ ظلم ہے؟ اسلئے کہ اس سے زیادہ تباہ کن فقہی مسائل ہیں لیکن مذہبی طبقات خراب انڈوں پر کڑک مرغی کی طرح تشریف فرماہے۔
اگر جماع فی الدبر میں شیعہ سنی علماء متفق ہوکر حلال حرام اور مکروہ کی بحث سے نکل جائیں اور نکاح کے بعد شوہروں کو عورتوںکے نعرے کے عین مطابق ”میرا جسم میری مرضی ”کاپابند بنائیں تو دنیا بھر کی خواتین اسلام کو دل سے سلام پیش کریںگی۔ جس سے اسلام نے شوہر کو اپنی بیگمات کیساتھ جماع فی القبل پر بھی عورت کی مرضی کا پابند بنایا ہے ۔اگر فقہی مسائل میں یہاں تک ہو کہ عورت حرام ہوچکی ہے لیکن شرعی نکاح بحال ہے۔ عورت خلع لینا چاہتی ہو مگر شوہرنہیں دے تب بھی فقہاء کی وہ شریعت زندہ باد ہوگی؟ جو القائے شیطانی کا شاخسانہ ہے؟۔ بالکل بھی اچھا نہیں لگتا لیکن شریعت کے نام پر القائے شیطانی نے ڈیرہ ڈال رکھاہے اسلئے اپنی جان خطرات میں ڈال کر کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔

NAWISHTA E DIWAR March Ilmi Edition #2. 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

رسول اللہۖ کی تمنامیں شیطان کے القا کی مداخلت اور اللہ کی طرف سے آیات کی حفاظت

پچھلے شمارے میں قرآن میں سورۂ حج (کی آیت52) میں رسول اللہۖ کی تمنامیں شیطان کے القا کی مداخلت مگر اللہ کی طرف سے آیات کی حفاظت پر کچھ وضاحت کی جو ایک مقدمہ تھا ،اب مزیداور بنیادی وضاحت ملاحظہ فرمائیں

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

قرآن میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے حقوق کا تحفظ فرمایا اور نبیۖ نے عورتوں کے حقوق کیلئے اپنی آخری وصیت فرمائی لیکن شیطان نے اپنے القا سے امت مسلمہ کا کیسے بیڑہ غرق کیا؟

رسول اللہۖ اپنی خوشی سے رفیق اعلیٰ کی طرف گئے۔شیعہ حدیثِ قرطاس کا گلہ کریںمگر علی کے بعد امام حسن کی امامت کو بھی مانیں ،اپنا کلمہ وآذان بھی عراق وایران کیمطابق کریں!

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:” اور (اے نبی مکرمۖ) ہم نے آپ سے پہلے نہیں بھیجا کوئی رسول اور نہ نبی مگر جب اس نے تمنا کی تو شیطان نے اس کی تمنا میں القا کردیا۔ پس اللہ مٹاتا ہے جو شیطان القا کرتا ہے پھر اپنی آیات کو محکم کردیتا ہے۔ اوربہت جاننے والا حکمت والا ہے۔Oتاکہ شیطان کی ڈالی ہوئی بات کو فتنہ بنادے، ان لوگوں کیلئے جن کے دلوں میں مرض ہے اور جن کے دل سخت ہیں۔ اور بیشک ظالم بہت دور کی شقاوت(بدبختی) میں ہیںOاور تاکہ جان لیں وہ لوگ جن کو علم دیا گیا ہے کہ بیشک حق تیرے ربّ کی طرف سے ہے۔ پھر اس پر ایمان لائیں اور اس کیلئے ان کے دل جھک جائیں۔اور بیشک اللہ ہدایت دیتا ہے ان لوگوں کو جنہوں نے ایمان لایا ہے صراط مستقیم کی طرف”۔ سورہ ٔ حج
سورہ حج کی مندرجہ بالا آیات (52،53،54)میں پہلی آیت(52)ہے۔ جس میں رسول اور نبی کی تمنا میں شیطانی القا کی بات واضح ہے۔ اب یہ شیطانی القا کیا ہے؟۔ اس پر مفسرین نے آپس میں بہت اختلاف کیا ہے۔
مولانا سید ابولاعلی مودودی نے اسکے حاشیہ نمبر(97)اور(98)میں لکھا ہے کہ تمنٰیکا لفظ عربی زبان میں دو معنوں کیلئے استعمال ہوا ہے۔ ایک معنیٰ تو وہی ہے جو اردو میں لفظ تمنا کے ہیں ، یعنی کسی چیز کی خواہش اور آرزو کرنا۔ دوسر ے معنیٰ تلاوت کے ہیں، یعنی کسی چیز کو پڑھنا۔ ”تمنا کا لفظ اگر پہلے معنیٰ میں لیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ شیطان نے اس کی آرزو پوری ہونے میں رخنے ڈالے اور رکاوٹیں پیدا کیں۔ دوسرے معنیٰ میں لیا جائے تو مراد یہ ہوگی کہ جب اس کلام الٰہی کو لوگوں کو سنایا ،شیطان نے اس کے بارے میں شبہے اور اعتراضات پیدا کیے، عجیب عجیب معنیٰ اس کو پہنائے اور ایک صحیح مطلب کے سوا ہر طرح کے الٹے سیدھے مطالب لوگوں کو سمجھائے۔ (تفہیم القرآن جلدسوم)
مولانا مودودی نے اس (آیت 52)کی یہ تفسیر لکھ کرکوئی حوالہ نہیں دیا ہے مگر ایک لفظ کے دو معانی نکال کر دونوں کی الگ الگ تفسیریں لکھ دی ہیں، اس میں بدنیتی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا ہے لیکن اس تفسیر میں تضاد بھی ہے اور تضاد ہی اس بات کو واضح کرنے کیلئے کافی ہے کہ ایک صحیح مطلب کی نشاندہی نہیں ہے۔
مولانا مودودی نے تمنا اور تلاوت دونوں مفہوم اسلئے مراد لئے ہیں کہ جن تفاسیر کی انہوں نے تردید کی ہے تو ان میں دوچیزیں تھیں۔ جبکہ تمنا کے معنی تمنا ہی کے ہیں،تلاوت کے ہرگز نہیں ہیں۔ سورہ نجم کے حوالے سے جس تلاوت کا غلط بہتان مشرکینِ مکہ نے لگایا تھا وہ تو آیت کے ظاہری مفہوم سے بھی مراد نہیں ہوسکتا ہے اور سورۂ نجم کا اپنا مفہوم بھی اس بہتان کی تردید کیلئے کافی ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ پہلے انبیاء اور رسولوں کیلئے ایسی کونسی تمنائیں تھیں جن میں شیطان نے مداخلت کی تھی؟۔ حقیقت جاننے کیلئے ہمیں قرآن وسنت سے ایسی تمناؤں کا نمونہ پیش کرنا ہوگا جس میں شیطان نے مداخلت کی ہو۔ اسی طرح پہلے انبیاء کرام کے حوالے سے بھی ایسی تمنا کا واضح مفہوم پیش کرکے ثابت کرنا ہوگا کہ یہ ان کی تمنا تھی اور یہ اس میں شیطان کی مداخلت تھی۔
حضرت آدم کا شجرہ ممنوعہ کے قریب نہ جانے کی تمنا میں شیطان کا القا تھا۔ جب رسول اللہۖ سے حضرت خولہ نے ظہار کے حوالے سے عرض کیا تو ایک خود ساختہ شریعت کے گھمبیر ماحول میںرسول اللہۖ کی تمنا یہ تھی کہ خواتین کو اس مصیبت سے چھٹکارا ملے لیکن ساتھ ساتھ خود ساختہ شریعت میں شیطان کے سخت ترین القا کا بھی مسئلہ تھا۔ جب عورت نے اپنے حق کیلئے مجادلہ کیا تو انسانی فطرت اور شریعت مقدسہ کا تقاضہ یہی تھا کہ عورت کو اس مصیبت سے چھٹکارا مل جائے ، دوسری طرف خود ساختہ شریعت اور اس میں شیطانی القا کا تقاضہ یہ تھا کہ عورت اس مصیبت سے نجات نہ پائے۔
جب رسول اللہ ۖ کی تمنااور شیطانی القا کی کشمکش جاری تھی تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے سورۂ مجادلہ کی آیات نازل کرکے القائے شیطانی کا خاتمہ کیا اور اپنی آیات کو محکم کردیا۔ رسول ۖ کی تمنا اور شیطان کے القا کی اس مثال سے یہ ثابت ہوگیا کہ رسول اللہۖ کی تمنا میں شیطانی القا سے کیا مراد ہے اور اللہ نے اپنی آیات کو کس طرح سے محکم کردیا تھا۔ یہ آیت(52)کی تفسیر ہے اور پھر آیت (53)میں جن لوگوں کے دلوں میں مرض ہے یا جو منافق ہیں اور جو کافر ہیں انہوں نے اس حکم سے فتنے میں پڑکر کیا کردار ادا کیا۔ تو اس کی واضح مثال سورۂ احزاب میں ہے کہ اللہ نے نبیۖ سے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور کافروں اور منافقوں کی اتباع مت کرو۔ جو اللہ نے نازل کیا ہے اسی پر فیصلہ کرو۔کافی ہے اللہ کی وکالت ۔ اللہ نے کسی آدمی کے سینے میں دو دل نہیں رکھے ہیں کہ ایک دل سے ایک عورت کیلئے بیوی کا جذبہ رکھتا ہو اور دوسرے دل سے اسی عورت کیلئے ماں کا جذبہ رکھتا ہو۔ جن بیویوںسے تم نے ظہار کیا ہے ،اللہ نے ان کو تمہارے لئے ماں نہیں بنایا ہے اور نہ منہ بولے بیٹوں کو حقیقی بیٹے بنایا ہے۔
رسول اللہ ۖ کے دل میں تمنا تھی کہ اگر زید طلاق دینے سے نہیں رُک سکا تو اس کی دلجوئی کیلئے خود شادی کرلیں مگر ساتھ ساتھ یہ ماحول بھی تھا کہ اس وقت لے پالک یا منہ بولے بیٹے کو بھی حقیقی بیٹے کی طرح سمجھا جاتا تھا اور اس کی طلاق شدہ بیوی کو بھی حقیقی بہو کی طرح سمجھا جاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہۖ کے دل میں یہ تمنا خود ہی پیدا کی تھی لیکن شیطان نے اپنے القا کے ذریعے سے خوف پیدا کردیا تھا کہ لوگ کیا بولیں گے؟۔ اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں پر آسانی پیدا کرنے کی سبیل نکالی اور اس ماحول کو ختم کردیا اور جس تمنا کو نبیۖ چھپارہے تھے تو اللہ نے اس کو ظاہر کردیا۔ اس واقعہ کو اللہ نے اہل علم کیلئے دلیل بنایا کہ بیشک حق نبیۖ کے رب کی طرف سے ہے اور مؤمنوں کے دل اس حقیقت کیلئے جھک گئے اور اللہ ہدایت دینے والا ہے ایمان والوں کو صراط مستقیم کی طرف۔
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ صحابہ کرام نے طوعاً وکرھاً نبیۖ کی سیرت اور قرآن کو مان لیا ؟۔ حالانکہ کفار اور معاندین کا اعتراض آج تک ختم نہیں ہوا کہ حضرت زید کی بیوی سے طلاق کے بعد کیسے شادی کرلی؟۔
اس کا جواب بہت کرارا ہے کہ وہ لوگ جو اپنے حقیقی باپ کی بیگمات سے شادی کرنے کو جائز بلکہ اپنا حق سمجھتے تھے لیکن منہ بولے بیٹے کی طلاق شدہ بیوی سے نکاح کرنے کو حرام سمجھتے تھے۔ مؤمنوں کی تو دل وجان سے اصلاح ہوگئی۔ انہوں سورۂ حج کی آیت54کے عین مطابق حق بات کو دل سے قبول کرلیا اور صراط مستقیم کی ہدایت بھی مل گئی ۔ اگررسول اللہۖ چاہتے تو پھر حضرت زنیب کو حضرت زید کے نکاح میں دینے کے بجائے خود بھی نکاح میں لے سکتے تھے اور ایک طرف حضرت زینب نے یہ قربانی دیدی کہ جس پر غلامی کا دھبہ تھا تو اس کے نکاح میں جانا قبول کیا۔ جس کی وجہ سے اللہ نے ام المؤمنین کے شرف سے نواز دیا اور ان کی یہ قربانی بہت کام آئی۔ دوسری طرف مؤمنین کیلئے شریعت کا روشن راستہ واضح ہوگیا کہ باپ کی منکوحہ سے نکاح کرنا غلط اور منہ بولے بیٹے کی طلاق شدہ سے نکاح درست ہے۔ تیسری طرف رسول اللہۖ کی تمنا میں جس طرح شیطان نے اپنا القا کیا تھا کہ لوگ کیا کہیںگے؟ ۔اور اللہ نے فرمایا کہ وتخشی الناس واللہ احق ان تخشٰہ ” اور آپ لوگوں سے ڈر رہے تھے اور اللہ اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے ڈرا جائے”۔ (سورہ الاحزاب)
صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہۖ کیلئے سب سے زیادہ سخت یہ آیت تھی اگر آپ کسی آیت کو چھپانا چاہتے تو اسی کو چھپاتے”۔ حضرت عائشہنے اس تناظر میں کہا کہ اللہ نے قرآن میں رسول اللہ ۖ سے فرمایا کہ بلغ مانزل الیک ان لم تبلغ فما بلغت رسالتہ واللہ یعصمک من الناس ”تبلیغ کریں جو اللہ نے آپ پر نازل کیا ہے ،اگر آپ نے (اللہ کی نازل کردہ آیات کی) تبلیغ نہیں کی تو آپ نے اس کی رسالت کو نہیں پہنچایا اور اللہ آپ کی لوگوں سے حفاظت کر یگا”۔ اہل تشیع کا دعویٰ ہے کہ ”یہ آیت حضرت علی کی ولایت پرنازل ہوئی ، رسول ۖ کی یہ تمنا یہ تھی کہ علی ہی کو خلیفہ بنایا جائے مگر شیطان نے حدیث قرطاس میںمزاحمت کی۔ قریش میں اہل بیت کی خلافت مأمور من اللہ تھی”۔ رسول اللہ ۖ کے بیٹے کو اللہ نے بچپن میں اٹھالیا تھا اور آپۖ نے فرمایا کہ ہر نسب باپ کی جانب منسوب ہوتا ہے لیکن فاطمہ کی اولاد میری جانب منسوب ہوگی۔ حضرت علی اور حضرت ابوطالب کی دوسری اولاد سادات نہیں کہلاتے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب اللہ تعالیٰ نے منصب امامت سے سرفراز فرمایا تو آپ علیہ السلام نے بھی دعا فرمائی کہ ”اور میری اولاد میں سے بھی”۔ اللہ نے فرمایاکہ ” میرا وعدہ ظالموں کو نہیں پہنچے گا”۔ حضرت ابراہیم کیساتھ بڑا مشروط وعدہ کیا گیا اور پورا ہوا۔ حضرت نوح علیہ السلام نے کہا کہ اللہ آپ نے مجھ سے میرے بچوں کو بچانے کا وعدہ کیا تھا؟۔ اللہ نے فرمایا کہ وہ تیرے اہل میں سے نہیں ہے ،وہ عمل غیر صالح ہے۔ جس پر حضرت نوح نے معافی مانگ لی اور حضرت داؤد کے دل میں اوریا مجاہد کی بیگم سے شادی کی تمنا شیطان نے ڈال دی تھی اور اللہ نے (99) دنبیاں اور ایک دنبی سے تنبیہ فرمائی تو آپ نے اللہ سے معافی مانگی اور اللہ نے معاف کردیا۔ شیعہ سنی اپنے پرانے جھگڑوں کو اب چھوڑ دیں اور اپنے اپنے مکاتبِ فکر کی شریعت کو قرآن کی آیات اور سنت کے مطابق درست بنائیں تو جس کی بات فطری اور درست ہوگی وہ قبول کرنے میں عوام کو کوئی عذر نہیں ہوگا۔اگر حنفی علماء صحیح راہ پر آگئے توپھر بازی لے جائیںگے۔
عورت کے حقوق طلاق وخلع اور ماملکت ایمانکم کی تفسیر میں حنفی مسلک کی درست تعبیراسلام کو دنیا بھر میں مقبول بنادے گا۔ عراق میں یزیدی فرقہ اپنے منفردعقائد رکھتا ہے۔جوقرآن ،عیسائی اور ہندومذہب کاملغوبہ ہیں۔ دین میں زبردستی نہیں۔ ایک پرامن فضا کی ضرورت ہے۔قرآن میں اہلبیت یا قریش کے امام بننے کی وضاحت حضرت ابراہیم کی دعا تک ہے اور احادیث میں بھی اس کی وضاحت ہے ۔ابوجہل اورحضرت ابوبکر میں واضح فرق تھا، یزید و حسین میں فرق تھا اور خلافت عثمانیہ کے خلفاء قریش نہ تھے اور سعودیہ اور ایران کی حکوت میں بھی قریش واہلبیت کا خلیفہ ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگرخلافت کی اہلیت ہوگی تو دنیا میں اللہ موقع دیگااور اہلیت ہو لیکن اللہ نے موقع نہیں دیا تو اس کا گلہ عوام سے اس وقت بنتا ہے کہ جب معاملہ انسانوں کے ہاتھ میں ہو۔ اگرمعاملہ انسانوں کے ہاتھ میں ہو تو پھر اللہ کی طرف سے اہلیت کو انسانوں میںبھی ثابت کرنا ہوگا۔ اہل تشیع کا ائمہ اہلبیت کو چھوڑ کر علیولی اللہ کہنا عراق اورایران کے شیعہ سے بھی مختلف ہے۔امام حسن کو بھی تسلیم کرنا ہوگا۔

NAWISHTA E DIWAR March Ilmi Edition #2. 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

رسول اللہۖ نے آخری وصیت میں نماز اور عورت کے حقوق کی تلقین فرمائی تھی۔

مہاجرمکی کے نا نوتوی اور گنگوہی میں اختلاف تھا، شیخ الہند اورمولانا حسین علی اور انکے شاگردوں کے شاگرد مولانا غلام اللہ خان،سرفراز صفدراورمولاناطاہرپنج پیری میں اور مولانا طیب اور مفتی منیر شاکرمیں بھی اختلاف ہے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

مولانامحمد طیب طاہری کی طرف سے قرآن کے ترجمے میں گالیاں یوٹیوب پر دی گئی ہیں جو مفتی منیر شاکر اور انکے اختلاف کا شاخسانہ ہے۔ مذہبی طبقات میں نفرت بہت بڑھ رہی ہے

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے؟ قرآن کی تجلیوں سے رہنمائی ہو اب ایسی کہ پیوندِ خاک قوم بھی عروجِ ثریا پر جا پہنچے

رسول اللہۖ نے آخری وصیت میں نماز اور عورت کے حقوق کی تلقین فرما دی اور پھر کچھ فرمایا جس کی سمجھ کسی کو نہیں آئی لیکن حضرت ابوبکر نے بات سمجھ لی اور حضرت ابوبکر بہت پھوٹ پھوٹ کر روئے اسلئے کہ نبیۖ نے اپنی رخصتی کی خبر اس میں دی تھی کہ اللہ نے اختیار دیا اپنے بندے کو کہ بندوں کیساتھ رہے یا اپنے ربّ کے پاس جائے تو بندے نے اپنے رب کو ترجیح دی۔ رسولۖ کو جب طائف میں بہت اذیت پہنچائی گئی توفرشتوں نے عرض کیا کہا آپۖ جس قسم کے عذاب کا حکم فرمائیں،ہمیں اللہ نے ہرقسم کیلئے بھیج دیا ہے لیکن رسولۖ نے اہل طائف کے حق میں ہدایت کی دعا فرمائی اور فرمایا کہ اگر ان کی تقدیر میں ہدایت نہیں تو لکھ دینا اور اگر قطعی منظور نہیں تو ان کی اولاد کو ہدایت عطاء فرما۔
ہمارے ہاں مذہبی طبقات تہہ در تہہ گمراہی کا شکار ہیں۔ تبلیغی جماعت پہلے مسلمانوں کا مشترکہ اثاثہ تھی۔ پنجاب کے دیہاتوں میں ہم نے بریلوی مسلک کی مساجد میں خود بھی پڑاؤ ڈلا ہے۔ دیہات کے ائمہ مساجد تبلیغی جماعت کو غیر جانبدار اور مسلکوں سے بالاتر سمجھتے تھے۔ فضائل درود شریف بھی اس وقت تبلیغی نصاب میں شامل تھی جس سے متأثر ہوکر بہت سے بریلویوں کے ہاں اس غلط فہمی کا ازالہ ہوجاتا تھا کہ ”یہ وہابی ہیں اوریہ رسول ۖ سے بغض رکھتے ہیں”۔ پنجاب میںبریلوی دیوبندیوں کو وہابی کہتے ہیں۔ تبلیغی جماعت نے نصاب سے فضائل درود شریف کو نکال کر اس کا نام فضائل اعمال رکھ دیا۔ شیخ الحدیث مولانازکریا نے اپنی آپ بیتی میں لکھا کہ رسول اللہۖ نے خواب یا مشاہدے میں فرمایاکہ شیخ زکریا اپنے معاصرین میں فضائل درود کی وجہ سے سبقت لے گئے ہیں۔ یہ کتابچہ اتحاد امت کیلئے بڑا کردار ادا کرتا تھا۔ جسکے اندر ایک واقعہ ہے کہ ایک بزرگ غالباً عبدالوہاب شیرانی نے لکھا کہ میں حج کے سفر میں والدہ کیساتھ جارہاتھا راستے میں میری والدہ کا انتقال ہوگیا، اسکا پیٹ سوجھ گیا اور منہ کالا ہوا میں بہت سخت پریشان تھا کہ میں نے حجازسے ابر آتا ہوا دیکھا جس میں ایک شخص تھے اور آپ نے میری والدہ کے چہرے اور پیٹ پر ہاتھ پھیر ا۔ جس کی وجہ سے اس کا منہ چمکدار سفید نورانی بن گیا اور پیٹ بھی درست ہوگیا۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کون ہیں جس نے اس مصیبت میں میرا ساتھ دیا۔ فرمایا کہ میں تیرا نبی محمد(ۖ) ہوں۔(فضائل درود)
دیوبندی میں دو گروہ ہیں ایک توحیدی ہیں جو دوسروں کو مشرک سمجھتے ہیں۔ توحیدیوں کی بنیاد میانوالی کے مولانا حسین علی تھے جو شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان اور مولانا طاہر پنج پیری کے استاذ تھے۔ مولانا حسین علی اور شیخ الہند دونوں مولانا قاسم نانوتوی اور مولانا رشید احمد گنگوہی کے شاگرد تھے۔ مولانا شیخ الہند کے شاگرد مولانا عبیداللہ سندھی مولانا الیاس، مولانا حسین احمد مدنی ، مولانا شبیراحمد عثمانی،مفتی کفایت اللہ اور مولانا اشرف علی تھانوی وغیرہ تھے۔ مولانا نانوتوی اور مولانا گنگوہی دونوں کے شیخ حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی تھے۔ مولانا قاسم ناناتوی کہتے تھے کہ میں نے حاجی صاحب کے علم کی وجہ سے بیعت کی ہے اور مولانا گنگوہی کہتے تھے کہ میں ان سے زیادہ بڑا عالم ہوں ،ان کے علم کو نہیں مانتا ہوں۔ مولانا گنگوہی اور مولانا نانوتویکے درمیان جو فکری اختلاف تھا شیخ الہند اور مولانا حسین علی کے شاگردوں میں وہ اختلاف کہیں سے کہیں پہنچ گیا ہے۔مولانا طاہر پنج پیری مولانا سندھی کے بھی شاگرد تھے۔
شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان ہمارے مرشد حاجی عثمان کو عبدالرحمن بن عوف کہتے تھے۔ شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان کے آخری دور میں مولانا طاہر پنج پیری سے اختلافات بڑھ گئے تھے اور وہ شیخ الہند کے شاگردوں کے قریب تھے۔ حاجی عثمان سے مولانا فضل محمد استاذ حدیث جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی بیعت تھے اور خلیفہ تھے۔ میرے استاذ ہیں۔جب حاجی عثمان پر آزمائش آئی تو کہنے لگے کہ میں چندے کیلئے سعودیہ گیا ، چندہ نہیںملا،مقروض ہوگیا۔ میں نے حاجی عثمان کیخلاف بغاوت کی خبر سنی تو کئی دنوں تک کھانا نہیں کھایا اور الائنس موٹرز والوں کو حرمین میں بہت سخت جھاڑ دیا ۔ اب مقروض ہوں ، الائنس موٹرز یا آپ لوگ جو بھی میرا قرضہ ادا کرے ، اسکے ساتھ ہوں۔ میں نے بتادیا کہ جن علماء ومفتیان نے حاجی عثمان پر فتوے لگائے ۔وہ شاہ ولی اللہ ، مولانا محمد یوسف بنوری ، شیخ زکریا اور شیخ عبدالقادر جیلانی پر فتویٰ لگاکر پھنس گئے تو مولانا فضل محمد نے کہا کہ مفتی رشید احمد لدھیانوی نے مولانا یوسف بنوری کو بھی بڑا ستایا تھا ،جو اللہ کے ولی کو ستاتا ہے تو اللہ کا اسکے ساتھ اعلان جنگ کی حدیث ہے۔ پھر بتایا کہ میرے پاس الائنس والے آئے تھے(قرضہ دیدیا) اور میں تو پیری مریدی کو نہیں مانتاہوں، پہلے سے پنج پیری تھا۔ مولانا فضل محمد بنوری ٹاؤن کے شیخ الحدیث ہوتے مگر مرشد کی بیوفائی نے اس منصب تک پہنچنے نہ دیا۔ مفتی تقی عثمانی کے استاذ مولانا عبدالحق حاجی عثمان کے خلیفہ تھے۔ خواجہ ضیاء الدین جس کو چند لمحات کے بعد آرمی چیف کے عہدے سے ہٹادیا گیا اور جنرل نصیر اختر بھی حاجی عثمان کے مرید تھے۔
خطیب العصر مولانا عبدالمجید ندیم نے فتوؤں کے بعد حاجی عثمان سے کہا تھا کہ شہیدحضرت عثمان کے نام کی وجہ سے آپ بھی مظلوم بن گئے ۔ مولانا طیب پنج پیری کی آڈیو کسی نے یوٹیوب پر شیئر کی ہے جس میں وہ دیگر دیوبندی یا باغی پنج پیری مفتی منیر شاکر کے ساتھیوں سے متعلق کہتا ہے کہ” ان کو یہ شکایت ہے کہ ہمیں مسجد میں نہیں چھوڑتے ہیںجبکہ اللہ نے مشرکوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ ان کا مسلمانوں سے مقابلہ ہو تو لیولون الادبار ” یہ اپنی پشت پھیر دینگے”۔ اسکا مطلب ہے کہ مشرکوں سے مقابلہ ہو تو مساجد میں …مارنے کے عادی ہیں اور یہ اپنی …. دینے کیلئے آمادہ ہوجاتے ہیں کہ ہمیں نہ مارو”۔
آج علماء میں نظریاتی ہم آہنگی اور کردار سازی کی بہت ضرورت ہے۔اگر مذہبی طبقے ایکدوسرے کے خلاف اشتعال انگیزی کرتے رہے اور یہ سلسلہ بڑھ گیا تو پھر ریاست اور عوام کیلئے کنٹرول مشکل ہوگا۔ رسول اللہۖ نے اپنی چاچی حضرت فاطمہ بنت اسد کی میت کو لحد میں اُتارتے ہوئے فرمایا کہ یہ میری ماں ہیں۔ فقہاء نے جس طرح محرم کے مسائل بنائے ہیں ان پر غور کرنا ہوگا۔

NAWISHTA E DIWAR March Ilmi Edition #2. 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat