عبادات Archives - Page 4 of 14 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

قرآن کریم کی مشکل ترین آیات کی سب سے آسان تفہیم اور تفسیر: از سیدعتیق الرحمن گیلانی

وماارسلنا من قبلک من رسولٍ ولا نبیٍ الا اذا تمنّٰی القی الشیطٰن فی اُمنیتہ فینسخ اللہ ما ےُلقی الشیطٰن ثم ےُحکم اللہ اٰیتہ واللہ علیم حکیم OلیجعلOو لیعلم (سورة الحج52،53،54)

اور ہم نے نہ بھیجاکسی رسول اور نہ کسی نبی کومگر جب اس نے تمنا کی تو شیطان نے القاء کیااس کی تمنا میں ،پس اللہ نے مٹادیا جو شیطان نے القاء کیاپھر آیات کو محکم کیااور اللہ علیم حکیم ہے

تاکہ بنادے جو شیطان نے القاء کیاان لوگوں کیلئے فتنہ جنکے دلوں میں مرض ہے اور جنکے دل کھوٹے ہیں اور بیشک ظالم بہت دور کی بدبختی میں ہیں۔اور تاکہ جان لے وہ لوگ جن کو علم

دیا گیا ہے کہ بیشک حق تیرے ربّ کی طرف سے ہے۔پس اس پر ایمان لائیںاور انکے دل اسکے آگے جھک جائیںاور بیشک اللہ ایمان والوں کو سیدھی راہ کی ہدایت کرتا ہے۔(الحج)
سورۂ حج آیت(52) پر ابولاعلیٰ مودودی نے” تفہیم القرآن” میں ”تمنا ” کے دو معانی اور تفسیر لکھی۔مولانا مودودی لکھتے ہیں کہ” رسول اللہۖ نے سورۂ النجم کی تلاوت میںجب افر ء یتم اللٰت والعزیٰ ومنوٰة الثالة الاخرٰی۔ پر پہنچے تو یکایک آپۖ کی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوئے : تلک الغرانقة العلیoوان شفاعتھن لترجی۔( یہ بلند پایہ دیویاں ہیں ،ان کی شفاعت ضرور متوقع ہے)۔ اس کے بعد آگے پھر آپۖ سورۂ نجم کی آیات پڑھتے چلے گئے ،یہاں تک کہ جب اختتام سورہ پر آپۖنے سجدہ کیا تومشرک اور مسلمان سب سجدے میں گرگئے۔ کفار قریش نے کہا کہ اب ہمارا محمدۖ سے کیا اختلاف باقی رہ گیا ؟۔ ہم بھی یہی کہتے تھے کہ خالق اور رزاق اللہ ہی ہے ،البتہ ہمارے یہ معبود اسکے حضور ہمارے شفیع ہیں۔ شام کو جبریل آئے اور انہوں نے کہا : یہ آپ نے کیا کیا؟۔ یہ دونوں فقرے تو میں نہیں لایا تھا۔ اس پر آپۖ سخت مغموم ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے وہ آیت نازل کی جو سورۂ بنی اسرائیل ، رکوع آٹھ (8) میں ہے کہ وان کادوا لفتنونک عن الذی اوحینا الیک لتفتری علینا غیرہ …….ثم لاتجد لک علینا نصیرًا۔یہ چیز برابر نبیۖ کو رنج وغم میں مبتلاء کئے رہی، یہاں تک کہ سورۂ حج کی یہ آیت نازل ہوئی اور اس میں نبیۖ کو تسلی دی گئی کہ آپۖ سے پہلے بھی انبیاء کے ساتھ ایسا ہوتا رہاہے۔ اُدھر یہ واقعہ کہ قرآن سُن کر آنحضرتۖ کے ساتھ قریشِ مکہ کے لوگوں نے بھی سجدہ کیا ، مہاجرین حبشہ تک اس رنگ میں پہنچا کہ آنحضرتۖ اور کفارِ مکہ میں صلح ہوگئی ہے۔چنانچہ بہت سے مہاجرین مکہ آگئے ۔مگر یہاں پہنچ کر انہیں معلوم ہوا کہ صلح کی خبر غلط ہے۔ اسلام اور کفر کی دشمنی جوں کی توں قائم ہے۔
یہ قصہ ابن جریراور بہت سے مفسرین نے اپنی تفسیروں میں، ابن سعد نے طبقات میں، موسیٰ بن عقبہ نے مغازی میں ، ابن اسحاق نے سیرت میں اور ابنِ ابی حاتم ، ابن المنذر، بزار، ابن مردویہ اور طبرانی نے اپنے احادیث کے مجموعوں میں نقل کیا ہے۔ جن سندوں سے یہ نقل ہوا ہے۔محمد بن قیس، محمد بن کعب قرطبی،عروہ بن زبیر،ابوصالح، ابولعالیہ، سعید بن جبیر،ضحاک، ابوبکر بن عبدالرحمن بن حارث ، قتادہ، مجاہد ، سُدی بن شہاب زہری ، حضرت ابن عباس۔ ابن عباس کے سوا ان میں کوئی صحابی نہیں۔ قصے میں چھوٹے چھوٹے اختلافات کو چھوڑ کر دو بڑے اختلافات ہیں۔ ایک یہ کہ بتوں کی تعریف میں جو کلمات نبیۖ کی طرف منسوب کئے گئے ہیںوہ قریب قریب ہر روایت میں دوسرے سے مختلف ہیں۔ ہم نے اس کا استقصا کرنے کی کوشش کی تو (15)عبارتیں الگ الگ الفاظ میں پائیں۔ دوسرا بڑا اختلاف یہ ہے کہ کسی روایت میں یہ الفاظ دورانِ وحی میں شیطان نے آپۖ پر القاء کردئیے اور آپۖ سمجھے کہ یہ بھی جبریل لائے ہیں۔کسی روایت میں ہے کہ یہ الفاظ اپنی خواہش کے زیر اثر سہواً آپۖکی زبان سے نکلے۔ کسی میں ہے کہ آپۖ کو اونگھ آگئی تھی اور اسی حالت میں یہ الفاظ نکلے۔ کسی کا بیان ہے کہ آپۖ نے قصداً استفہام ِ انکاری کے طور پر کہے۔ کسی کا قول ہے کہ شیطان نے آپۖ کی آواز میں آواز ملاکر یہ الفاظ کہہ دیے اور یہ سمجھا گیا کہ آپۖ نے کہے ہیں اور کسی کے نزدیک کہنے والا مشرکین میں سے کوئی تھا۔
ابن کثیر، قاضی عیاض ، ابن خزیمہ، قاضی ابوبکر ابن عربی ، امام رازی، قرطبی، بدرالدین عینی، شوکانی، آلوسی وغیرہ حضرات اس قصے کو بالکل غلط قرار دیتے ہیں۔ ابن کثیر نے کہا کہ جتنی روایتوں سے یہ نقل ہوا ہے ،سب مرسل اور منقطع ہیں۔ مجھے کسی صحیح متصل سند سے یہ نہیں ملا۔ بیہقی کہتے ہیں کہ ” ازروئے نقل یہ قصہ ثابت نہیں ہے”۔ ابن خزیمہ سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ”یہ زنادقہ کا گھڑا ہوا ہے”۔ قاضی عیاض کہتے ہیں کہ ” اس کی کمزوری اسی سے ظاہر ہے کہ صحاح ستہ کے مؤلفین میں سے کسی نے بھی اس کو اپنے ہاں نقل نہیں کیا اور نہ کسی صحیح، متصل، بے عیب سند کے ساتھ ثقہ راویوں سے یہ منقول ہوا ہے ”۔ امام رازی ، قاضی ابوبکر اور آلوسی نے اس پر مفصل بحث کرکے اسے بڑے پُرزور طریقے سے رد ّکیا ہے۔ لیکن دوسری طرف حافظ ابن حجر جیسے بلندپایہ فقیہ اور ابوبکر جصاص جیسے نامور فقیہ اور زمحشری جیسے عقلیت پسند مفسر اور ابن جریرجیسے امام تفسیروتاریخ وفقہ اس کو صحیح مانتے ہیں اور اسی آیتِ زیر بحث کی تفسیر قرار دیتے ہیں۔ ابن حجر کا محدثانہ استدلال یہ ہے کہ :
” سعید بن جبیر کے طریق کے سوا جن طریقوں سے یہ روایت آئی ہے وہ یا تو ضعیف ہیں یا منقطع، مگر طریقوں کی کثرت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس کی کوئی اصل ہے ضرور۔ علاوہ بریں یہ ایک طریقے سے متصلاً بسند صحیح بھی نقل ہوا ہے، جسے بزار نے نکالا ہے ( مراد ہے یوسف بن حماد عن اُمیہ بن خالد عن شعبہ عن ابی بِشر عن سعید بن جبیر عن ابن عباس)اور دو طریقوں سے اگرچہ مرسل ہے مگر اس کے روای صحیحین کی شرط کے مطابق ہیں۔ یہ دونوں روایتیں طبری نے نقل کی ہیں۔ ایک بطریق یونس بن یزید عن ابن شہاب ، دوسری بطریق معمر بن سلیمان وحماد بن سلمہ عن داؤد بن ابی ہند بن ابی العالیہ”۔
جہاں تک موافقین کا تعلق ہے وہ اسے صحیح مان ہی بیٹھے ہیں۔ لیکن مخالفین نے بھی اس پر تنقید کا حق ادا نہیں کیا ہے۔ ایک گروہ ا سے اسلئے ردّ کرتا ہے کہ اس کی سند اس کے نزدیک قوی نہیں ہے ۔ اس کے معنیٰ یہ ہوئے کہ اگر سند قوی ہوتی تو یہ حضرات اس قصے کو مان لیتے۔ دوسرا گروہ اسلئے رد کرتا ہے کہ اس سے تو سارا دین ہی مشتبہ ہوجاتا ہے اور دین کی ہر بات کے متعلق شک پیدا ہوجاتا ہے کہ نہ معلوم کہاں کہاں شیطانی اغوایا نفسانی آمیزشوں کا دخل ہوگیا ہو۔ حالانکہ اس نوعیت کا استدلال ان لوگوں کو تو مطمئن کرسکتا ہے جو ایمان لانے کے عزم پر قائم ہوں مگر جو لوگ پہلے سے شکوک میں مبتلاء ہیں یا جواَب تحقیق کرکے فیصلہ کرنا چاہتے ہیںکہ ایمان لائیں یا نہ لائیں؟۔ ان کے دل میں یہ جذبہ پیدا نہیں ہوسکتا کہ ایک نامور صحابی اور بکثرت تابعین وتبع تابعین اور متعدد راویانِ حدیث کی روایت سے ایک واقعہ ثابت ہورہاہے تو اسے صرف اس بنا پر کیوں رد کیا جائے کہ اس سے آپ کا دین مشتبہ ہواجاتاہے؟۔اس کے بجائے آپ کے دین کو مشتبہ کیوں نہ سمجھا جائے۔ جب یہ واقعہ اسے مشتبہ ثابت کررہاہے؟۔
(تفہیم القرآن جلد سوئم، صفحہ نمبر240۔ سید ابولاعلیٰ مودودی)

NAWISHTA E DIWAR March Ilmi Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

سنی شیعہ اتحاد کا مسئلہ بہت گھمبیر بھی ہے اور ناگزیر بھی

سنی شیعہ اتحاد کا مسئلہ بہت گھمبیر بھی ہے اور ناگزیر بھی۔معروضی حقائق کے نتیجے میں بہت دلگیر بھی اور اچھی اُمید کی زندہ تصویر بھی۔جب تک عدل واعتدال سے کام نہیں لیا جاتا تب تک صراط مستقیم پل صراط سے بھی زیادہ مشکل ہے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

شیخ الحدیث حضرت مولانامفتی محمدزرولی خان کا مولانا طارق جمیل صاحب پر اعتراض اور علامہ سید شہریار رضاعابدی کا علامہ سید جوادحسین نقوی پر اعتراض بڑا زبردست آئینہ ہے!

مفتی زرولی خان نے مولانا طارق جمیل کے مولیٰ کہنے پر اعتراض کیا اور علامہ شہریار عابدی نے علامہ سید جواد نقوی پر علامہ زاہدالراشدی سے ملنے اور پیچھے نماز پڑھنے پراعتراض کیا

سنی شیعہ مسئلہ شروع سے گھمبیر تھا لیکن اب انتہاء کی طرف پہنچ رہا ہے۔ برطانیہ اورامریکہ کی ایجنسیوں کی مشترکہ قینچی سے اُمت مسلمہ کے اتحاد کو کون نقصان پہنچارہاہے؟۔یہ لوگ ایک دوسرے پر اغیار کے ایجنٹ ہونے کا الزام لگانے پر اُتر آئے ہیں۔ علامہ شہریار رضاعابدی بھی ٹھیک کررہے ہونگے جنہوں نے علامہ سید جواد نقوی کو تنقید کا نشانہ بنایا اور مفتی زرولی خان نے بھی ٹھیک کیا کہ مولانا طارق جمیل کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ مفتی زرولی خان نے کہا کہ اکابر اہل سنت نے حضرت علی کیساتھ مولا کا لفظ نہیں لگایا ہے تو اہل تشیع کی معتبر کتابوں میں ائمہ اہل بیت نے بھی حضرت علی کیساتھ کبھی مولا کے لفظ کا اضافہ نہیں کیا۔ بہت سارے صحابہ کرام کیساتھ ان الفاظ کا کبھی اضافہ نہیں لکھا گیا جو نبیۖ نے ان کیلئے استعمال کئے تھے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص سے نبیۖ نے فرمایا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ جس کا ذکر مفتی زرولی خان نے نہیں کیا۔ لیکن بہت سے دوسرے صحابہ کرام کی صفات اور خصوصیات کا ذکر کیا۔
مفتی زرولی خان نے کہا کہ اہل تشیع کے فتنہ گروں نے حضرت علی کیلئے یہ تک کہا کہ کائنات کے خالق بھی حضرت علی ہیں اور قرآن میں اللہ تعالیٰ نے رب العالمین کو بھی مولا قرار دیا ہے۔ اہل تشیع جب اللہ اور علی میں فرق نہیں کرتے تو پھر علی کیلئے مولا کے لفظ کا استعمال ان کی خوشنودی کیلئے کسی امام باڑے کے ذاکر کا کام ہوسکتا ہے لیکن اہل سنت کا لبادہ پہن کر یہ کام بہت خطرناک ہے اور پھر اکابرین سلف کو اس وجہ سے مجرم کہنا شیعہ کی ترجمانی ہے۔ مفتی زرولی خان کے مدلل اور تفصیلی مؤقف کو یوٹیوب پر دیکھا جاسکتا ہے۔
علامہ شہریار رضاعابدی کی باتوں میںوزن ہ کہ زاہدالراشدی نے ہمیشہ سپاہ صحابہ کے مؤقف کی تائید کی جنہوں نے اہل تشیع کا خون بہایا ہے۔ زاہد الراشدی کے والد مولانا سرفراز صفدر نے اپنی کتاب میں امامیہ شیعہ کو کافر قرار دیا ہے اور جنہوں نے شیعوں کا قتلِ عام کیا ہے وہ دیوبندی مکتبۂ فکر سے تعلق رکھتے تھے تو پھر دیوبندیوں پر اہل تشیع کا اعتماد بحال کرنے میں غور کرنا چاہیے۔
علامہ شہریاررضاعابدی نے بریلوی مکتبہ فکر کی طرف سے مولانا اشرف علی تھانوی کے ایک حیدر آبادی ماموں کا بھی حوالہ دیا جس نے شریعت کے معارف بیان کرنے کیلئے یہ شرط لگائی تھی کہ وہ مجمع میں برسربازار ننگا چلے گا اورایک آدمی اسکے عضوتناسل کو پکڑ کر آگے اور دوسرا اسکے پیچھے دبر میں انگلی ڈال کر پیچھے چلے گا اور لڑکے یہ آواز لگائینگے کہ بھڑوا ہے بھڑوا،بھڑوا ہے بھڑوا، بھڑوا ہے بھڑوا۔ اس میں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب”الافاضات یومیہ ” کا حوالہ ہے۔ علامہ شہریار رضاعابدی کہتے ہیں کہ میں بریلوی کی زبان سے سنانے کے بعد اسکو دہراؤں گا نہیں لیکن اگر ہماری کسی کتاب میں یہ واقعہ ہوتا تو دیوبندی ہمارا کیا حشر کرتے؟ ۔ہم صرف ان کو ایک آئینہ دکھانا چاہتے ہیں۔
یہ ذہن نشین رہے کہ سپاہ صحابہ نے ایک کتابچہ نما پمفلٹ چھا پا تھا جس میں بریلوی مکتبۂ فکر کے مولانا احمد رضا خان بریلوی اور دیگر معتبر علماء کے فتوے ہیں کہ ”جو شیعہ کے کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے”۔ گوگل میں دیکھ سکتے ہیں۔
ہمارا تعلق علماء دیوبند سے ہے، دیوبندی اور اہلحدیث بہت بعد میںتوحید کی وجہ سے وہابی کہلائے ہیں جبکہ ہم اپنے جدامجد سید عبدالقادر جیلانی کے بعد تسلسل ہی کیساتھ توحیدی ہیں۔ جس ماحول سے انسان کا تعلق ہوتا ہے اسکے اثرات ہوتے ہیں۔ برصغیر پاک وہند میں دیوبندی مسلک پھیل گیا تو دوسری طرف بریلوی مکتبہ فکر پھیل گیا۔ مولانا احمد رضاخان بریلوی نے جس طرح سے مزاروں پر خرافات کی مخالفت کی تھی تو اس کی تصویر عملی طور پر علماء دیوبند تھے۔ دوسری طرف ان خرافات کے دفاع میں بریلوی علماء بلکہ جہلاء نے مولانا احمد رضا بریلوی کی ایماء پر آذان سے پہلے صلوٰة وسلام پڑھنا شروع کیا ۔ مذہبی جذبہ اور مشن کاروبار بن گیا۔ جب دیوبندی و بریلوی اپنااپنا نظریہ برصغیر میں پھیلارہے تھے تو ہمارا تعلق علماء دیوبند سے نہیں تھابلکہ دیوبند کے فاضل نے ہماری مسجد کی امامت شروع کی۔ مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ صاحب نے بہت بڑی ضخیم کتاب لکھ دی تھی جس میں نماز کی سنت کے بعد دعا کو بدعت قرار دیا تھا لیکن فاضل دیوبند مولانا اشرف خان صاحب نے جہاں ہمارے ہاں امامت کرائی وہاں علماء دیوبند کے مسلک کو مسلط نہیں کیا تھا۔ اگر مولانا احمد رضاخان بریلوی کا شاگرد ہوتا تو بھی صلوٰة وسلام کا آذان میں اضافہ نہ کرتا۔
مولوی بیچارا زیادہ تر ماحول کا غلام ہوتا تھا۔ اب تو دین ،ایمان اور اسلام سے ہٹ کر مولوی فرقہ پرست اور مفادات کا غلام بنتا جارہاہے ۔ مولوی کو جہاں سیاستدانوں اور فرقہ پرستوں نے بالکل بے وقعت بنادیا ہے وہاں منبر ومحراب ، مسجد ومدرسہ اور خانقاہ وامام باگارہ کی طاقت کا بہت غلط استعمال ہورہاہے۔ کچھ لوگ نیک نیتی سے سب کچھ کررہے ہیں اور کچھ ایک مفید کاروبار سمجھ کر چھپکلی بنے پھرتے ہیں۔ ظالموں کی طرف سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگِ نمرود میں پھینکا گیا تھا تو یہ پھونکیں مارہی تھی۔ جو لوگ چڑیا بن کر یہ آگ بجھا رہے ہیں تو ان کی روح یانار کونی بردًا وسلامًا علی ابراھیم کی خلافت کا حق ادا کرنے میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔ قادرمطلق ذات تو اللہ کی ہے۔
کانیگرم جنوبی وزیرستان میں پنچ پیر یکے شاگرد نے نماز میں سنت کے بعد دعا کو بدعت قرار دیا تو کانیگرم کے مولانا محمدزمان نے اس پر قادیانیت کا فتویٰ لگادیا ۔ ہماری مسجد کا امام مولانا اشرف خان شریف آدمی تھا اورمولانا محمدزمان بدمعاش تھا جس کی موت بہت عبرتناک ہوئی ہے۔کانیگرم کے مولاناشاداجان اب بھی بقید حیات ہیں جو بہت نیک اور اچھے آدمی ہیں۔ سنت کے بعد اجتماعی دعا کراچی کے معروف دیوبندی مدارس جامعہ بنوری ٹاؤن، دارلعلوم کراچی اور جامعہ فاروقیہ سمیت لاہور، ملتان، فیصل آباد، پشاور ، بنوں ڈیرہ اسماعیل خان اور پاکستان کے دوسرے بڑے شہروں میں بھی اب نہیں ہوتی ہے۔
دیوبندی پہلے ہی تقسیم تھے۔اب بریلوی لوگوں نے ایکدوسرے پر یلغار شروع کردی ہے اور مولانا سید مظفر حسین شاہ نے علامہ الیاس قادری کو چیرنے کی دھمکی دیکر معافی مانگ لی ہے جو صبح کا بھولا ہوا شام کو گھر واپس آجائے تو کوئی حرج نہیں لیکن دوسری طرف علامہ آصف جلالی اور علامہ عرفان شاہ قادری کے پیچھے بریلوی شخصیات نے بھول بھلیوں کا سفر شروع کردیا ہے۔ یہ آغا ز ہے انجام سفر کیا ہوگا یہ فتنوں کے اس دور کے آخر میں پتہ چلے گا اور جب بیرون ملک کی ایجنسیاں اور مذہبی جاہلوں کا سامنا ہوتو معاملہ خطرناک ہوسکتا ہے اور ہماری ریاست کے پاس اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ ان کو کنٹرول کرسکے۔
احسان اللہ احسان کے بارے میں سلیم صافی نے یہ خبر دی کہ فوج نے اس کو استعمال کرکے اپنا کام لے لیا لیکن اسکے ساتھ جو وعدہ کیا تھا وہ پورا نہیں کیا اسلئے وہ فرار کروایا نہیں گیا بلکہ فرار ہوا ہے اور غفلت برتنے والے اہلکاروں کے خلاف محکمانہ کاروائی ہوئی۔ بہت لوگوں کو یہ بہت عجیب لگتا ہوگا کہ احسان اللہ احسان سے آخر کیا کام لیا گیا اور اتنی بڑی غفلت کو کیسے آسانی سے برداشت کیا گیا؟۔ لیکن اس سے بڑے کام تو ان سرنڈر طالبان سے لئے جاتے ہیں جو آئے روز کبھی کبھافوج کو دھوکہ میں نشانہ بھی بناتے ہیں ۔ جس طرح پنجابی کے علاقے میں ایک پٹھان فوجی پنجابیوں کی پہچان نہیں کرسکتا ہے اسی طرح سے پنجابی فوجی بھی علاقہ غیر کے آزاد قبائل میں اچھے برے پٹھانوں کی پہچان نہیں کرسکتے ہیں اور مجبوری میں ایسے لوگوں سے کام لیا جاتا ہے جن کو گڈ طالبان کہا جاتا ہے مگر کوئی شریف آدمی اس کام کیلئے تیار نہیں ہوتا ہے اسلئے پلے پلائے پِلے اور جگریوں سے کام لیا جاتا ہے ۔فوجیوں کا قتل ہو یا عوام کا اس کو برداشت کرنا دل گردے کا کام ہے لیکن جس طرح مولانا کے حیدر آباد دکنی ماموں نے ملامتی صوفی بننے کیلئے عجیب کردار ادا کیا تھا اس سے زیادہ پاک فوج اپنے لئے سلیکشن کی قربانی دینے والوں کی شلواریں اترواکر ملامتی صوفی بنادیتے ہیں۔
بہت ہوچکا ہے ، عوام برداشت کی آخری حد کو پہنچ چکی ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے حضرت خضر علیہ السلام نے اپنے تصوف کے تین واقعات دکھائے۔ خوامخواہ میں کشتی خراب کرکے تخریب کاری کا بہت کھلا مظاہرہ کیا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام وعدے کے باوجود بھی اس پر خاموش نہیں رہ سکے۔ پھر بولنے پر یاد دلایا تو کہنے لگے کہ آئندہ سوال نہیں کروں گا۔ پھر جب بچے کو قتل کردیا تو حضرت موسیٰ نے سوال نہ کرنے کی خاموشی توڑ دی۔ جب یاد دلایا تو ایک موقع اور مانگ لیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کی بھوک بھی انتہاء تک پہنچائی تھی۔ تخریب کاری اور قتل پر سوال نہ اٹھانے کا وعدہ تو کرچکے تھے لیکن ایک دیوار کو اُٹھانے پر معاوضہ طلب نہ کرنا اتنی بڑی بات نہیں تھی لیکن جب دیوار سیدھی کردی تو پھر سوال اٹھاکر معاملہ انجام تک پہنچادیا تھا۔ ریاست ، حکومت اور مذہبی طبقات کی ساری منطق صحیح ہے اور یہ تخریب کاری اور معصوم کے قتل تک سب کچھ برداشت کرلیتے ہیںمگر پیٹ پر لات مارنا اچھا نہیں لگتا ہے۔
حضرت ابوبکر اور حضرت علی کے قد بہت اونچے اونچے تھے۔ مذہبی بونوں کیساتھ یہ بات جچتی نہیں ہے کہ اپنے سے بڑی شخصیات کے قدکاٹھ ناپ کر فیصلہ کریں کہ کس کی کیا اوقات تھی اور کس کی کیا اوقات نہیں تھی؟۔ فرشتوں سے بڑھ کر ہے انسان زیادہ مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ۔ اصحاب رسولۖ نے کس کس مرحلے میں کیا کیا قربانیاں دیں؟ ان سے اہل سنت کے ماحول میں پیدا ہونے والے بڑی محبت کریں تو یہ فطری بات ہے۔ علامہ شہنشاہ حسین نقوی کو بہت مبارک ہو کہ وہ چرس کے نشے میں موالیوں کے جھرمٹ میں پہنچ کر جب علی کا نام لیتا ہے جہاں علامہ خود نہیں پہنچ سکتے تو وہ ملنگ بڑا اچھا لگتا ہے اور اچھا لگنا بھی چاہیے ۔ ہمیں بخدا اچھا ہی لگتا ہے لیکن جس صحابی نے مکی دور، بدر اور احد اور خندق کے علاوہ تمام جنگوں اور صلح حدیبیہ میں رسول اللہۖ کا ساتھ دیا وہ سنی کو کیسے اچھا نہیں لگے گا؟۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی قرآن سے نبیۖ کے ہم سفروں کو نکالنے پر بھی اصرار کرے اور ملنگوں کو داخل کرے تو اس پر بھی خوشی کے شادیانے بجائے جائیں لیکن علماء حق کی یہ ذمہ داری ہے کہ چرس کے نشے میں نہیں دین کے نشے میں پھانسی کے پھندوں کو چومنے کی سنت کو زندہ رکھیں۔ جہاں ریڈ بتی جلے وہاں اسٹاپ نہ کرنا موت کا باعث بن سکتا ہے۔ سڑک کی موت سے بڑی عقیدے اور نظریے کی موت ہے۔
اگر ایک کہتا ہے کہ مجھے اللہ نے اپنی بندگی کیلئے پیدا کیا ہے اور دوسرا کہتا ہے کہ مجھے علی کی پرستش کیلئے پیدا کیا ہے تو دونوں کا راستہ ایک نہیں ہوسکتا ہے۔ علامہ شہنشاہ نقوی کی بات صحیح ہے کہ اہل تشیع کو مارو مت، انکے خلاف کتابیں لکھو، دلیل سے بات کرو۔ ہماری بھی اتنی گزارش ہے کہ اہل تشیع ایک تو اختلاف اور توہین کے درمیان تمیز کاپیمانہ بنائیں ۔ ہم نے مان لیا کہ قرآن میں حضرت موسیٰ کی طرف خوف اور ظلم کی نسبت ہے اور علی کے درجے کو اسلئے افضل مانتے ہونگے کہ علی کی طرف ظلم اور خوف کی نسبت نہیں ہے اور موسیٰ فرعون کے پاس اسلئے جانے سے ڈرے تھے کہ ایک قتل خطاء ہوا تھا اور حضرت علی نے کئی مشرکوں کو قتل کیا تھا تب بھی مشرکوں سے نہیں ڈرتے تھے۔ اگر اس کو افضلیت کی دلیل نہیں بناتے بلکہ جہاد اور تعصبات کی فضاء میںقتل خطاء کے اندر تفریق کرتے تو ذاکر نہیں علامہ کہلانے کے مستحق ہوتے۔ جب حضرت علی نے اپنے منصوص حق کیلئے تین خلفاء کے خلاف قیام نہیں کیا جو سب کو قتل کرکے منزل مراد تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتے تھے اور حضرت حسین نے بہتّر ساتھیوں کیساتھ یزید کے چھوٹے لشکر کے سامنے شہید ہونا قبول کیا اور یزید کے لشکر کے سپاہ سالار حر نے حسین کیساتھ شہید ہونا قبول کیا لیکن کوفہ کے ذاکر دُم گھسائے بیٹھے رہے تھے تو پھر آنے والے وقت میں حسین کے مقابلے میں علی پر بھی ملامت کا خطرہ ہوگا۔ جس طرح بوہری و آغا خانی حضرت حسن کو نہیں مانتے ہیں۔
علامہ شہریار عابدی دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث ، آغاخانی ،بوہری سب کو مسلمان مانتے ہیں جو ختم نبوت پر یقین رکھتے ہیں لیکن اکابر صحابہ کیلئے کلمہ خیر نہیں مانتے۔ اہل سنت ائمہ اہلبیت کو مانتے ہیں لیکن جاہل شیعوں کو نہیں مانتے تو وقت نے فیصلہ کرنا ہے کہ اصل شدت پسند اور مجرم کون ہے کون نہیں ہے؟۔

NAWISHTA E DIWAR March Special Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

جب حق آجائے تو شدت پسندوں کے باطل عقائد اور نظریات روئی کے گالوں کی طرح ہوا میں اُڑیں گے

شدت پسند مذہبی طبقے اسلام سے دور ہیں۔ ایمان، صالح عمل ، حق کی تلقین اور صبر کی تلقین میں شدت پسند سب سے پیچھے ہیں اور جب حق آجائے تو ان کے باطل عقائد اور نظریات روئی کے گالوں کی طرح ہوا میں اُڑیںگے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

مساجد ومدارس ، خانقاہیں وامام بارگاہیں شدت پسند طبقات کی آماجگاہیں ہیںمگر احادیث صحیحہ میں مذہبی طبقوںکی شدید الفاظ میں مذمت ہے۔ کیامذہبی طبقے حق کی طرف آئیں گے؟

شہید اسلام حضرت مولانامحمد یوسف لدھیانوی نے اپنی کتاب ”عصر حاضر حدیث نبویۖ کے آئینہ میں” مذہبی طبقے کے علاوہ حکام، تجاراور معاشرے کے ہرطبقے کو آئینہ دکھا دیا۔

جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی سے ماہنامہ ” البینات ” رسالہ نکلتا تھا اور اب بھی شاید شائع ہورہاہو۔ حضرت مولانا سیدمحمد یوسف بنوریاور مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کی گرانقدر تحریرات اس میں شائع ہوتی تھیں۔ جب مولانا یوسف بنوری نے اپنے مضمون کے عنوان ” عبر وبصائر ” پر آیت لکھنا شروع کردی تو مولانا یوسف لدھیانوی نے عرض کیا کہ اس سے ایک اشتباہ ہوتا ہے کہ آپ کی تحریر میں قرآن کی طرح لوگوں میں بصائر ہیں۔ مولانا سیدمحمد یوسف بنوری نے یہ نہیں سوچا کہ ایک چھوٹا عالم اور مدرسے کے رسالے کا ملازم مجھے یہ رائے اور رہنمائی دینے کا کیا حق رکھتا ہے بلکہ فوری طور پر بات قبول کرکے اپنے مضمون کا عنوان رہنے دیا اور اس آیت کو رسالے سے ہٹادیا ۔
جب مولانا سید محمدیوسف بنوری کی وفات ہوئی تو مولانا یوسف لدھیانوی نے لکھ دیا کہ اسلاف کی آخری نشانی ہمارے درمیان سے اُٹھ گئی ، اب کوئی عالمِ حق کا آئینہ نہیں بچا ہے۔ پھر وہ وقت بھی جلد آگیا کہ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمود ،موجودہ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی اور شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کے درمیان جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں بینکوں کی سودی رقم سے زکوٰة کی کٹوتی پر بحث ہوئی اور اسی بحث کے دوران مفتی محمود پر موت کا دورہ پڑگیا اور وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ اس ملاقات کا حال مفتی تقی عثمانی نے بھی ماہنامہ البلاغ دارالعلوم کراچی میں لکھا ہے اور مولانا محمد یوسف لدھیانوی نے بھی ماہنامہ البینات جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں لکھا ہے۔ پھر اقراء ڈائجسٹ میں یہ دونوں مضامین ”مولانا یوسف بنوری ومولانا مفتی محمودنمبر” میں شائع ہوئے ہیں۔ مفتی محمود نے وفات پائی تو میں لیہ پنجاب میں تھا اور جمعیت علماء اسلام کے کارکن فیض محمدشاہین نے عبدالخیل ڈیرہ اسماعیل خان میں مفتی محمود کے جنازے میں شرکت کے بعد آکربتایا کہ مفتی محمود کو زہر دے کر شہیدکیا گیا ہے۔ اس وقت مذہبی لوگوں کے دلوںمیں پیپلزپارٹی سے سخت نفرت تھی اور پاک فوج سے بڑی محبت تھی۔ جب بھٹو کوپھانسی دیدی گئی تو مساجد میں حلوئے بانٹے گئے تھے۔ میرے بڑے بھائی ایس ڈی او واپڈا اس وقت چیچہ وطنی میں تھے اور بھٹو کی موت پر شدید رنج اور غم وغصے کا اظہار کررہے تھے ۔ محلے میں مسجد کے امام نے ان سے قرضہ لیا تھا وہ بھی اسی غصے میں واپس مانگ لیا تھا۔
جب مفتی محمود کی وفات کے بعدعلامہ سیدعبدالمجید ندیم شاہ لیہ آئے تھے تولوگوں نے جمعیت علماء اسلام کی پیپلزپارٹی کیساتھ شمولیت کی باز گشت سنی تو جلسہ ختم ہونے کے بعد ندیم صاحب سے پوچھا کہ کیا جمعیت نے پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرلی ہے؟۔ ندیم صاحب نے بھاگ کر جان چھڑائی تھی کہ ابھی نہیں۔ جب مولانا فضل الرحمن جمن شاہ لیہ آگئے تو پیپلزپارٹی اور جمہوری قوتوں کیساتھ مارشل لاء کے خلاف بہت مدلل انداز میں بات کی اور پاک فوج کو احترام کیساتھ اقتدار سے الگ کرنے کیلئے زبردست دلائل دئیے اور یہ طلسم توڑ دیا کہ چوکیداری کرنے والے ہی اقتدار پر قبضہ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
جب میں کراچی گیا تو جمعیت علماء اسلام کراچی کے امیر مولانا شیرمحمدنے کہا کہ مفتی محمود کو زہر دیا گیا تھا۔ جب مجھے بنوری ٹاؤن کراچی میں داخلہ ملا تو وہاں پرانے رسالے طلبہ کو اٹھانے کیلئے دئیے گئے تھے۔ ان میں البلاغ کا وہ رسالہ بھی تھا جس میں مفتی محمود کی وفات کا مفتی محمد تقی عثمانی نے تذکرہ کیا تھا۔ تحریر دیکھ کر مجھے اس مذہبی طبقے پر بڑا غصہ آگیا جنہوں نے مفتی محمد تقی عثمانی پر مفتی محمود کو پان میں زہر کھلانے کا الزام لگایا تھا، اسلئے کہ اس مفتی تقی عثمانی نے لکھا تھا کہ ” ہمیں چائے کی پیشکش کی گئی تو ہم دونوں بھائیوں نے کہا کہ ہم دن میںصبح ایک بار چائے پیتے ہیں اور پھر دن بھر نہیں پیتے”۔ جب فرشتوں نے حضرت ابراہیم کے کھانے کی دعوت قبول نہیں کی تو دل میں خوف آیا تھا کہ مہمان دشمن تو نہیںہیں؟۔ مگر مفتی محمود نے دونوں بھائیوں کے ضمیر کو مطمئن کرنے کیلئے کہا کہ ” میں خود چائے زیادہ پیتا ہوں لیکن اگر کوئی چائے نہیں پیتا ہے تو اس کو پسند کرتا ہوں”۔ حالانکہ مفتی محمود معمول کی زندگی میں فرماتے تھے کہ چائے میں دودھ ہے اور دودھ کی دعوت قبول نہ کرنے سے نبیۖ نے منع فرمایا ہے۔ مذہبی لوگوں کا سیاست سے تعلق ہو تو وہ بات کو پلٹانے کی بھی مہارت رکھتے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی نے لکھا کہ ”میں نے عرض کیا کہ ہمارے ساتھ یہ علت لگی ہوئی ہے۔(پان کا بٹوہ دکھاکر) ”۔ مفتی محمود نے فرمایا کہ ”یہ تو چائے سے بھی بدتر ہے”۔ پھر مفتی تقی عثمانی نے مفتی محمود پر دورہ پڑنے کا ذکر کیا ہے اور ڈاکٹر کے آنے اور مفتی صاحب کی روح پرواز کرنے تک کا واقعہ لکھا ہے۔ اس تحریر کے بعد مفتی تقی عثمانی پر پان کھلانے کا شائبہ تک نہیں ہوسکتا تھا۔ پھر جب کافی سالوں کے بعد اقراء ڈائجسٹ میں بنوری ومحمود نمبر میں مولانا یوسف لدھیانوی کی تحریر دیکھ لی تو اس میں یہ اضافہ بھی تھا کہ پھر مفتی محمد تقی عثمانی نے اصرار کرکے مفتی محمود کو پان کھلادیا۔ جب تھوڑی دیر بعد مفتی محمود پر دورہ پڑگیا تو مفتی محمدرفیع عثمانی نے دل کے دورے کی خصوصی گولی مفتی صاحب کے حلق میں ڈال دی۔ اقراء ڈائجسٹ کی مجلس مشاورت میں حاجی محمدعثمان کا نام بھی لکھا تھا۔ بنوری ومحمود نمبر میںحاجی عثمان کے نام کی جگہ ستارے کے نشان لگادئیے ۔
جمعیت علماء اسلام کے قاری شیرافضل خان نے مفتی محمود کے جلسے میں مرزائی نواز جنرل ضیاء کے نعرے لگائے تو مفتی محمود نے کہا کہ مرزائی نواز نہیں مرزائی کہو۔ جنرل ضیاء کے بیٹے ڈاکٹرانوارالحق کی شادی مشہور قادیانی مبلغ جنرل رحیم الدین کی بیٹی سے ہوئی اور اس کا نکاح پڑھانے کیلئے مفتی تقی عثمانی اپنے مرشد ڈاکٹر عبدالحی خلیفہ مجاز مولانا اشرف علی تھانوی کو لے گئے۔ جنگ کے میر شکیل الرحمن نے قادیانی لڑکی کو مولانا یوسف لدھیانوی کے ہاتھ پرمسلمان کرنے کے بعد نکاح کیا تھا۔ مولانا یوسف لدھیانوی نے بتایا تھا کہ جو فتویٰ اور خط کا جواب اقراء ڈائجسٹ میں ان کی طرف منسوب کرکے حاجی عثمان کیخلاف شائع کیا گیا ہے یہ مفتی محمد جمیل خان نے لکھا ہے اور یہ ساری خباثت مفتی رشید لدھیانوی کی ہے۔ آج جامعة الرشید اسی مفتی رشید کی طرف منسوب ہے اور اسکے مہتمم مفتی عبدالرحیم کی چشم کشا تحریرات ہمارے پاس محفوظ ہیں۔ سارے حقائق کو عوام کے سامنے لایا جائے تو پھر مذہبی طبقات کے چہروں سے بہت سارے نقاب اُٹھ جائیںگے۔ جب ہم نے مولانا یوسف لدھیانوی کے حوالے سے مفتی تقی عثمانی کی مفتی محمود کی وفات کے حوالے سے کہانی لکھ دی تو مولانا یوسف لدھیانوی نے بتایا تھا کہ مفتی تقی عثمانی نے بہت ڈانٹا کہ آپ نے ماجرا لکھ کر مجھے پھنسادیا ۔مولانا یوسف لدھیانوی نے اپنی طرف منسوب غلط فتوے سے بھی معذوری ظاہر کی لیکن حاجی عثمان کی قبر پر داماد کیساتھ گئے تھے۔
جب حضرت حسین پر مشکل وقت آیا تو کوفہ کے شیعہ، مدینہ ومکہ کے صحابہ سمیت کسی نے بھی یزید کے خلاف کوئی موثر آواز نہیں اٹھائی تھی۔ جان کو خطرہ ہو تو اللہ تعالیٰ نے کلمہ ٔ کفر بھی معاف کردیا ہے لیکن عزیمت والے اور سازش میں شریک ہونے والے برابر نہیں ہوسکتے ہیں۔ جب حاجی عثمان پر فتوے لگے تو خانقاہ میں بڑی تعداد میں مرید ہونیوالوں کا تقویٰ پوٹی پیشاب کی طرح بہت بری طرح بہہ گیا۔ پھر حاجی عثمان کی وفات کے بعد بھی مذہبی طبقے کا مسجد الٰہیہ اور خانقاہ چشتیہ میں کردار بہت قریب سے دیکھ لیا تھا۔ جب حقائق کو منظر عام پر لایا جائیگا تو لوگ حیران ہونگے کہ یہ مذہبی طبقے کا حال تھا؟۔
مولانا محمد یوسف لدھیانوی کی مقبول کتاب ”عصر حاضر حدیث نبویۖ کے آئینہ میں” مارکیٹ سے غائب کردی گئی جسکے لاکھوں نسخے تیزی سے فروخت ہونے کا دعویٰ بھی کتاب پر لکھ دیا گیا لیکن شائع نہیں ہورہی ہے۔ مولانا سید محمد بنوری کی شہادت نے ثابت کردیا تھا کہ خود کشی کا جھوٹا الزام لگانیوالے قتل میں ملوث تھے اور مولانا یوسف لدھیانوی ، مفتی نظام الدین شامزئی، ڈاکٹر حبیب اللہ مختار،مفتی عبد السمیع، مفتی سعیدا حمد جلالپوری اور مفتی عتیق الرحمن اور مفتی جمیل خان کے قتل کے پیچھے بھی اسی گینگ کے ملوث ہونے کا اندیشہ ہے۔ ویسے شیعہ سنی نے بھی اپنے اپنے پالتو دہشتگرد رکھے تھے لیکن جب شرافت کے لبادوں میں چھپے ہوئے رستم میدان میں کھل کرسامنے آجائیںگے تو یوم تبلی سرائر ”اس دن بڑے بڑے رازوں سے پردہ اُٹھ جائیگا”۔ مولانا یوسف لدھیانوی کی کتاب عصر حاضر میں مساجد کے ائمہ کو آسمان کے نیچے بدترین مخلوق قرار دیا گیا ہے اور ان میں نماز پڑھنے والوں کو ہدایت سے بالکل عاری گمراہ قرار دیا گیا ہے۔ مدارس کے رئیس دارالافتاء کو علماء حق کے اُٹھ جانیکی وجہ سے جاہل قرار دیا ہے جن سے فتوے پوچھے جائیں گے تو بغیر علم کے فتوے دیںگے اور خود بھی گمراہ ہونگے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریںگے۔ یہ بھی روایت میں لکھ دیا ہے کہ علماء حق سے غلطی ہوسکتی ہے لیکن حق واضح ہونے کے بعد باطل پر ڈٹ جانے والا عالم نہیں بلکہ کھلم کھلا شیطان ہے۔ مذہبی لبادے اور مذہبی زبان میں لوگوں کو جہنم کی طرف بلانے والی روایت بھی لکھ دی ہے جس میں حکم ہے کہ مسلمانوں کی جماعت اور اسکے امام سے مل جاؤ لیکن اگر اس وقت نہ مسلمانوں کی جماعت اور نہ امام ہو تو ان سارے فرقوں سے الگ ہوجاؤ، چاہے درخت کی جڑ چوس کر گزارہ کرنا پڑجائے۔
قاری شیر افضل خان نے بتایا کہ میں نے خواب دیکھا کہ ”رسول اللہۖ قرآن کا درس دے رہے ہیں۔ مولانا یوسف بنوری اس درس قرآن میں موجود ہوتے ہیں اور کچھ اور لوگ بھی ہوتے ہیں لیکن مفتی محمود کو اس درس میں بیٹھنے کی اجازت نہیں ملتی ہے۔ میں نے مفتی محمود صاحب کو خواب بتایا تو مفتی صاحب نے کہا کہ مولانا بنوری کا بڑا مقام ہے اور مجھے اللہ نے اتنا اعزا ز نہیں بخشا ہے”۔ تبلیغی جماعت والے اپنے گناہوں کو اللہ سے بخشوانے کیلئے جماعت میں وقت لگاتے ہیں اور مفتی محمود صاحب سیاسی دغا بازی کی معافی مانگنے کیلئے حج پر جاتے تھے۔ جب مولانا احمد جان نے مفتی محمود سے کہا کہ میرے حلقے میں میرے لئے ووٹ مانگو۔ آپ نے کلثوم سیف اللہ سے ڈیرہ اسماعیل خان اور بنوں کی سیٹ پر اپنے لئے گٹھ جوڑ کررکھاہے۔ جمعیت کے ہر امیدوار کیلئے ووٹ مانگنا آپ کا فرض ہے تو مفتی محمود نے عوام سے کہا کہ مولانا احمد جان کہتا ہے کہ مفتی محمود ڈیرہ اسماعیل خان کا نام لیتا ہے بنوں کا نام نہیں لیتا ہے۔ جب میرا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے تو میں ہر جگہ ڈیرہ اسماعیل خان ہی کے حوالے سے اپنا تعارف کراؤں گا۔ سیاسی دغہ بازی کا کھیل بہت تاریخی اور پرانا ہے۔

NAWISHTA E DIWAR March Special Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

سنی شیعہ کے کچھ معرکة الآراء مسائل اورانکے حل کی ادنیٰ کوشش۔ عتیق گیلانی

سنی شیعہ کے کچھ معرکة الآراء مسائل اورانکے حل کی ادنیٰ کوشش۔ شیعہ مسائل اٹھارہے ہیں اور سنی کہتے ہیں کہ پہلے تم خود کو مؤمن ثابت کرکے دکھاؤ، پھر جواب دینگے۔ تم حضرت ابوبکر و عمرکو نہیں مانتے تو تم مسلمان کہاں ہو؟

یوٹیوب میدان جنگ بناہوا ہے ،شیعہ کہتے ہیں کہ جس بات پرتم ہمارے خلاف ایف آئی آر(FIR)کٹاتے ہو تو یہ تمہاری کتابوں میں لکھی ہیں،پہلے ان کا چھاپنا بند کرو، پھر ہم بھی حوالہ نہیں دیں گے

قرآن میں رسول اللہ ۖ کی طرف ” ذنب” کی نسبت گناہ نہیں بوجھ ہے اور اس سے کیا اولی الامر اور من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ مراد ہے؟ ، مولانا طارق جمیل مشکل میں پڑے۔

آج مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ عالمی اسلامی خلافت کیلئے ایک خلیفہ کا تقرر ہے۔ شیعہ سنی میں سب سے بڑا ، بنیادی اور اہم مسئلہ بھی یہی ہے۔ حضرت مولانا حق نواز جھنگوی نے ایک تقریر کی تھی جو ”سنی شیعہ اختلاف کا اصلی مسئلہ ” کے عنوان سے شائع ہوئی ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ” شیعہ سنی کا اصلی اختلاف قرآن پر نہیں ۔ صحابہ پر بھی نہیں ہے ، سنی شیعہ اختلاف کا اصلی اختلاف مسئلہ امامت پر ہے”۔

علامہ سید جواد نقوی نے کہا ہے کہ ” سنیوں کیلئے خلافت بہت آسان ہے۔ کسی بھی شخص کو خلیفہ مقرر کیا جائے تو اس کی مشروط اطاعت ہوتی ہے جبکہ شیعہ کے ہاں امامت کا مسئلہ ہے۔ شیعہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ کو اللہ نے حکم دیا کہ اپنے بعد ایک خلیفہ وامام مقرر کرو۔ حضرت علی کی امامت نص سے ثابت ہے۔ غدیر خم کے موقع پر نبیۖ نے اللہ کے حکم سے حضرت علی کو اس منصب پر فائز کردیا تھا۔ امام کی تقرری کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ حضرت علی نے حضرت حسن ، حضرت حسن نے حضرت حسین ، حضرت حسین نے حضرت زین العابدین ، اس طرح سے بارویں امام مہدی غائب علیہ السلام تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ امام پر وحی نازل نہیں ہوتی ہے بلکہ قرآن وہی ہے جو رسول اللہۖ پر نازل ہوا۔ رسول اللہ ۖ کی سنت وہی ہے جس کو سب مانتے ہیں۔ البتہ شیعہ کے نزدیک امامت کا سلسلہ مخلوقِ خدا کی طرف سے نہیں ہے ۔ پہلے امام حضرت علی شیعہ کے نزدیک نبیۖ کے مقرر کردہ ہیں اور پھر دوسرے، تیسرے اور بارویں امام تک کا سلسلہ اماموں نے ہی ایکدوسرے کو نامزد کیا ہے۔ بارہ امام کو ماننے والے امامیہ کہلاتے ہیں”۔

آغا خانیوں اور بوہریوں کا سلسلہ چھ اماموں کے بعد الگ ہوجاتا ہے ۔ انہوں نے فاطمیہ کے نام سے حکومت بھی کی ہے۔ ارتغرل غازی کی فلم میں کہتے ہیں کہ جو خلافتِ عثمانیہ قائم کی گئی تھی تو اس سے پہلے خلافت عباسیہ کا خاتمہ چنگیزکے پوتے ہلاکو خان نے کیا تھااور خلافت عثمانیہ والوں نے خلافت فاطمیہ کا بھی خاتمہ کردیا تھا۔

خلافتِ عثمانیہ کے ہوتے ہوئے جب پہلے مغل بادشاہت کا خاتمہ ہوا تو انگریز کی موجودگی میں راجہ رنجیت سنگھ کی حکومت بھی تھی۔ تختِ لاہور پنجاب کے سکھ رنجیت کی وجہ سے انگریز کی دسترس سے باہر تھا۔ کابل کے بادشاہ جس کے ایک بھائی نے پشاور، دوسرے نے کوئٹہ اور تیسرے نے کشمیر کا اقتدار سنبھالا تھا، راجہ رنجیت سنگھ کے ساتھ ان کامعاہدہ تھا۔ حضرت سید احمد بریلوی اور آپکے مرید شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے ہندوستان سے آکر مہدی خراسان کی خلافت کے آغاز کیلئے تحریک چلائی تھی۔ پشاور سے ہزارہ گئے اور بالاکوٹ کے مقام پر شہید ہوگئے۔

کابل کے بادشاہ امیر دوست محمد خان نے انگریز سے جنگیں لڑیں لیکن جب اس کے بھائی والئی کشمیر نے اسکے بچوں کو انگریز پر بیچ دیا تو اس نے ہتھیار ڈال دیئے۔ ژوب کے مولانا قطب الدین آزاد کی کچی پکی معلومات اور یاداشت اچھی ہیںجس کا تعلق جمعیت علماء اسلام سے ہے اور کراچی میں رہتے ہیں۔ ان کے بقول اسکے وقت کے طالبان سیداحمدبریلوی اور شاہ اسماعیل شہید کے ساتھی تھے۔

مطالعہ ٔپاکستان میں اس تحریکِ بالاکوٹ کو پاکستان کی بنیاد قرار دیا جاتا ہے اور شاہ ولی اللہ پر دیوبندی، بریلوی، جماعت اسلامی اور اہلحدیث متفق ہیں۔جبکہ شاہ اسماعیل شہید کی کتاب ”تقویة الایمان” کی وجہ سے دیوبندی بریلوی میں اختلاف کی شدت ہے۔ شاہ اسماعیل شہید کی ایک کتاب ”منصبِ امامت ” پر بریلوی مکتب کا بھی اتفاق ہے۔ جامعہ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے بانی حضرت مولانا محمد یوسف بنوری نے شاہ اسماعیل شہید کی کتاب کا اردو ترجمہ” بدعت کی حقیقت” کے مقدمہ میں شاہ اسماعیل شہید کی کتاب ”منصبِ امامت ” کی بہت تعریف کی ہے۔

جمعیت علماء اسلام کے مولانا محمد خان شیرانی نے علامہ سید جواد نقوی کے ہاں اپنی تقریر میں کہا کہ ” نصب امام اسلام میں بہت اہمیت رکھتا ہے اور شیعہ نے اس کو زندہ رکھا ہوا ہے جبکہ سنیوں نے اس کو بالکل نظر انداز کیا ہوا ہے”۔ اس پر بعض شیعہ فرقہ سے تعلق رکھنے والوں نے اپنی جیت کا جشن منایا اور بعض نے اس پر صفِ ماتم بچھایا ہے اور بہت سخت الفاظ میں اہل سنت کی امامت کا پوسٹ مارٹم کیا ہے۔

جنرل ضیاء الحق کے دور میں بریلوی مکتبۂ فکر کے بہت معتبر عالمِ دین نے امام کی تقرری کا مسئلہ اُٹھایا تھا لیکن دیوبندی مکتبۂ فکر کے مدارس نے جواب نہیں دیا تھا۔ یہ ساری روئیداد ہماری کتابوں میں تفصیل سے درج ہیں لیکن ساغر صدیقی کے بقول ”کچھ یادرہیں، کچھ بھول گئے”کے مصداق مگریہاں تفصیل لکھنے کی گنجائش نہیں ۔

ایک وقت تھا کہ جمعیت علماء اسلام کے مولانا فضل الرحمن نے شرعی اعتبار سے ان احادیث کو اپنی جماعت پر فٹ کیا تھا جو خلافت اور جماعت سے متعلق ہیں ۔ پھر میں نے اپنے سکول کا افتتاح مولانا فضل الرحمن سے کروایا، تاکہ میرے بھائی اور جمعیت کے قائد میں مراسم باقی رہیں۔ مولانا نے افتتاحی تقریب میں ہمارے خاندان کے بزرگوں کی دینی خدمات کے علاوہ یہ بھی کہا کہ ” اس خاندان میں عتیق جیسے اہل علم بھی موجود ہیں” ساتھ میں یہ بھی کہا کہ میں علماء کیساتھ ہوں۔ من شذ شذ فی النار ”جو جماعت سے ہٹ گیا وہ جہنم کی آگ میں پھسل گیا”۔ پھر میں نے اپنی کتاب ”اسلام اور اقتدار” میں احادیث کی وضاحت کی اور مولانا فضل الرحمن کا نام لیکر آخر میں لکھ دیا کہ ”عاقل کیلئے اشارہ کافی ہے”۔ میں نے سپاہِ صحابہ کے اس نعرے سے پہلے مولانا کو تحفظ دیا تھا کہ ”کافر کافر شیعہ کافر، جو نہ بولے وہ بھی کافر”۔ عروج ملتِ اسلامیہ کا فیصلہ کن مرحلہ نامی کتاب میں نے ڈیرہ اسماعیل خان جیل سے رہائی کے بعد شکارپور سندھ میں (1992ئ) کے ابتدائی مہینوں میںلکھی تھی۔

پھر جمعیت علماء اسلام کی شوریٰ نے انتخابی سیاست چھوڑ کر انقلابی سیاست کے آغاز کا اعلان کیا اور اسکے محرک مولانا خان محمد شیرانی تھے۔ مجلس شوریٰ نے فیصلہ کرلیا اور باقاعدہ اعلان لاہور کے جلسۂ عام میں کرنا تھا۔ اس وقت نوازشریف کی حکومت تھی اور جمعیت کے کارکن امید سے تھے کہ حکم ملے گا اور نوازشریف کے ماڈل ٹاؤن پر قبضہ کرکے اسلامی جمہوری اتحاد کو بازوکے زور سے ہٹادیا جائیگا لیکن فوج نے پھر مولانا فضل الرحمن کو دھمکی دی اور مولانا نے انقلاب کا اعلان کسی اور وقت پر ٹال دیا تھا۔ میرے بھائی نے اس وقت سمجھ لیا کہ اب جمعیت ایک دھوکہ ہے۔

پھرو قت آیا کہ جمعیت علماء اسلام ف ٹانک کے جنرل سیکرٹری ،امیر ، سرپرست اعلیٰ اورسب جماعتوں کے اکابر نے ہماری بھرپور حمایت کی لیکن مولانا فضل الرحمن نے بات دل پر لے لی۔ جب ٹانک کے اکابر نے جلسۂ عام میں حمایت کردی تھی تو ان کے بیانات شہہ سرخیوں کیساتھ ہمارے اخبار میں چھپ گئے۔ بس پھر مولانا بھی شاید تپ گئے۔ اگلی مرتبہ ڈیرہ اسماعیل خان میں ہمارے اخبار کے خلاف سازش تیار کی گئی اور سامنے سپاہ صحابہ والے آگئے لیکن پیچھے مولانا تھے۔ خلیفہ عبدالقیوم نے بتانا بھی چاہا لیکن میں نے بات بدل دی تھی اسلئے کہ مجھے اندیشہ تھا کہ بھائی کو پتہ چلے گا تو یہ لڑائی مذہب سے ہٹ کر خاندانی رُخ اختیار کرلے گی۔ ابوجہل کو خوف تھا کہ امیرحمزہ کو جواب دیا تو معاملہ مذہب سے خاندانی بن جائیگا اور نبیۖ نے بھی اس کودین کی حدتک رہنے دیا اور ابوجہل کا مقابلہ کرنے کے بجائے فرمایا کہ ” اگر آپ مسلمان بن جاؤ ، تو یہ میرے لئے زیادہ خوشی کی بات ہوگی”۔ سپاہ صحابہ کے خلیفہ عبدالقیوم کو ہم ان کے گھر سے ہسپتال کی مسجد میں اٹھاکر لائے۔ عبدالرؤف بلوچ وغیرہ بھی پہنچ گئے اور مجھ سے سوال کیا کہ شیعہ کافر ہیں یا مسلمان؟۔ میں نے جواب دیا کہ شیعہ کو کس بنیاد پر کافر کہوں؟۔ انہوں نے کہا کہ وہ قرآن کو نہیں مانتے۔ میں نے کہا کہ قرآن کو اگر سنی بھی نہیں مانیں تو وہ بھی کافر ہیں ، شیعہ بھی کافر ہیں لیکن پہلے ہم طے کرلیں کہ قرآن کو کون نہیں مانتا۔ ہمارے درسِ نظامی میں قرآن کی جو تعریف پڑھائی جاتی ہے وہ بھی قرآن کی تحریف ہے۔ پھر طے ہوا کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں علماء کا ایک پروگرام رکھ لیتے ہیں جس میں اس مسئلے پر بات چیت ہوگی۔ پہلے بھی ڈیرہ کے علماء کو ٹانک میں بلایا تھا مگر وہ نہیں آسکے تھے۔ پھر ٹانک سے مولانافتح خان اور مولانا عبدالرؤف کو بھی اس مجلس میں بلانے پر اتفاق ہوگیاتھا لیکن پھر انہوں نے ایسی فضاء بنائی کہ جیسے ہم نے بات کرنے کے بجائے مدرسہ پر حملہ کرنا ہو اور حکومت نے پابندی لگادی۔

چونکہ اصل مسئلہ شیعہ سنی مسائل کا حل پیش کرنا ہے لیکن جب تک میری تاریخ کا پتہ نہ ہو تو پھر میری بات کا بھی اعتبار نہیں ہوگا۔ قاضی عبدالکریم کلاچی فتوؤں کا ماسٹر تھا اور اس نے اپنے شاگرد پیرالطریقت مولاناشیخ محمد شفیع کو خط لکھ دیا کہ ” اس شخص پر مہدی کا دعویٰ کرنے والی بات اصل مسئلہ نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اس پر امت کا اجماع ہے کہ شیعہ کافر ہیں اور یہ شخص نہ صرف شیعہ کو مسلمان سمجھتا ہے بلکہ ان کے دفاع میں بھی بات کرتا ہے اسلئے یہ گمراہ ہے اور جہاں تک دوسرے علمائ( جمعیت ف گروپ) کا تعلق ہے تو یہ قادیانیوں کا بھی استقبال کریںگے۔ مجھے تمہارے اوپر افسوس ہے کہ آپ عتیق کی مجالس اور تحریرمیں تائید کیوں کرتے ہیں”۔ مولانا شیخ شفیع میری حمایت میں پھر بھی ڈٹ گئے لیکن مولانا فضل الرحمن کی وجہ سے جمعیت ف کے رہنماؤں نے اس خط پر الجواب صحیح لکھ کر فتوے کی تصدیق کردی۔ حالانکہ یہ فتویٰ جمعیت ف پر بھی لگایا گیا تھا کہ قادیانیوں کا بھی استقبال کرینگے۔جمعیت علماء اسلام ف ٹانک کے ضلعی امیر مولاناعبدالرؤف نے مولانا فضل الرحمن کو بھی خوب سنائیں اور قاضی عبدالکریم سے بھی کہا کہ ”اپنی بھونڈی حرکتیں چھوڑ دو”۔ ہم نے قاضی کو بڑا اچھا جواب دیا تھا کہ ملی یکجہتی کونسل کا صوبائی امیر تمہارا بھائی قاضی عبداللطیف ہے اور یہ فتویٰ اس پر بھی لگتا ہے اسلئے کہ شیعہ کیساتھ تحریری معاہدہ کیا ہے کہ ہم ایکدوسرے کی تکفیر نہیں کرینگے۔ اور یہ سعودی عرب اور اس سے پہلے والے حکمرانوں پر بھی لگتا ہے کہ حرم میں شیعہ کو داخل ہونے دیتے ہیں۔ پھر قاضی عبدالکریم نے مجھ سے معافی طلب کرنے کے بجائے مولانا عبدالرؤف سے معافی طلب کی تھی۔

ڈاکٹرا سرار احمد کے پروگرام عالمی خلافت کانفرنس میں قاضی عبداللطیف، طالبان کے نائب سفیر حبیب اللہ فوزی اور میں (عتیق گیلانی) ایک اسٹیج پر بیٹھے تھے اور اتفاق سے مجھے بالکل آخر ی خطاب کا موقع ملا لیکن وقت بہت کم دیا گیا تھا۔ پھر مولانافضل الرحمن بھی ہمارے گھر پر تشریف لائے تھے اور مقصد صلح صفائی تھی ۔ اس معاملے کی بہت زبردست اور دلچسپ تفصیلات ہیں لیکن جگہ اورضرورت نہیں ہے۔

اہل تشیع کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر جب اپنے بعد خلافت کی فکر رکھتے تھے تو نبیۖ کو ان سے زیادہ فکر تھی اور اس پر عمل بھی کیا۔ حضرت علی نے امام کیساتھ ساتھ مسندِ خلافت کو بھی سنبھالا ہوتا تو بہت قریب کے دور میں حضرت عثمان مسندِ خلافت پر اس طرح قتل نہیں کئے جاتے کہ ان کا پانی بھی بند کردیا گیا اور مسجد کی امامت کیلئے بھی نہیں آسکتے تھے۔ حضرت علی نے پانی پہنچایا لیکن قاتلوںسے نہیں بچاسکے اور جب اس ہنگامہ خیز دور میں حضرت علی نے منصب کے ساتھ مشاورت سے مسند کو بھی سنبھالا تو امیرشام امیر معاویہ نے بغاوت کردی۔ حضرت عائشہ نے بھی نکل کر لڑنے والوں کی قیادت کی۔ بخاری کی روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ کے مخالف لشکر میں موجود حضرت ابوبکرہ نے نبیۖ کی حدیث نقل کی کہ جس گروہ کی قیادت عورت کے ہاتھ میں ہو تووہ کبھی فلاح نہیں پاسکتا ہے۔ اہل سنت حضرت علی سے اتنا بغض رکھتے ہیں کہ مولانا طارق جمیل کو مولا علی کہنے پر اپنی صف سے نکال دیا گیا۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

NAWISHTA E DIWAR Feburary Newspaper 2021

شیعہ سنی مسئلہ حل نہیں کیا تو پاکستان فرقہ واریت کا شکار ہوجائیگا: عتیق گیلانی

شیعہ سنی مسئلہ حل نہیں کیا تو پاکستان فرقہ واریت کا شکار ہوجائیگا اور عقائد کے تضادات کے علاوہ یہاں پر بیرونی فنڈ آتا ہے ، چندہ بٹورنے کیلئے بھی یہ پیشہ بن چکا ہے۔ اب اس پر کاری ضرب لگانے کی بہت سخت ضرورت ہے: سید عتیق الرحمن گیلانی

میری تحریروں کو اہلسنت کی طرح اہل تشیع میں بھی پذیرائی ملتی ہے اور میں بنی اُمیہ کے مقابلے میں مظلوم ائمہ اہلبیت علیہم السلام کے دفاع والوں کو چاہتاہوںکیونکہ انسان پھر سید ہوں!

تاہم اہل تشیع کے انداز میں سوشل میڈیا پر جس قسم کی تلخیاں بڑھتی جارہی ہیں اسکا نتیجہ مجھے اتنا بڑا تصادم نظر آتا ہے کہ کیاشیعہ سنی ایکدوسرے کیخلاف صف بندی کرکے کٹ مرینگے ؟

اہل تشیع اوراہل سنت دونوںایک اللہ ، ایک رسولۖ اور ایک قرآن وسنت کو مانتے ہیں۔ صحابہ کرام اور اہلبیت عظام کے درمیان تلخیاں ، لڑائیاں اور مشکلات رہیں۔ قیامت تک وہ تاریخ چھوڑی کہ دونوں کے ماننے والوں میں ایکدوسرے کیخلاف بغض وعناد کے چولہے جلائے جاسکتے ہیں۔ تاہم اہل تشیع کاطرز گفتگو جس تلخی کی طرف بڑھ رہاہے اگر اس کا تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا تو پھر معاملات تصادم کی طرف جائیں گے اور کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی خونریزی کا تدارک نہیں کرسکے گی۔ اسلئے ضروری ہے کہ اہل تشیع کو تھوڑا سا احساس بھی دلایا جائے۔

بہت ہی محبت اور بہت ہی معذرت کیساتھ جب شیعہ جوشِ جذبات میں آکر کہتا ہے کہ فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ بڑا لیڈر کون تھا؟۔ نبیۖ کو ساتھیوں نے دن کے وقت جنگ میں تنہاء چھوڑ دیا اور بھاگ گئے۔ جبکہ حضرت حسین نے ساتھیوں سے کہا کہ جاؤ اور مشعلیں بھی بجھادیں مگر کوئی چھوڑ کر نہیں گیا ۔تو فیصلہ ہوگیا کہ بڑا لیڈر کون تھا اوراس پر مجمع سے واہ واہ ، واہ واہ ، واہ واہ کی آوازیں بلند ہوتی ہیں۔

اگر رسول اللہ ۖ سے بھی بڑا لیڈر حضرت حسین تھا اور اہل تشیع اس پر خوش بھی ہوتے ہیں تو یہ ان کی مرضی ہے ، دین میں زبردستی کا کوئی تصور نہیں ۔ رسولۖ کا تو ان کو احسا س نہیں اور بھلے نہ ہو۔ یہ اور ان کا مذہب جانے لیکن جب حضرت حسین کی تعریف کچھ اس انداز سے کرتے ہیں کہ جملہ بازیوں سے صحابہ کو تو چھوڑئیے، اس طنز وتشنیع کا نشانہ علی وحسن اور چوتھے امام حضرت زین العابدین سے حضرت مہدی تک سب اس کا شکار بنتے ہیں۔ پھریہ امامیہ نہیں رہتے بلکہ حسینیہ بنتے ہیں۔

ان کے حسینیہ بننے پر بہت خوشی ہوگی اسلئے کہ یزید کے مقابلے میں اگر حضرت امام حسین کی بات ہو تو پھر اس کا تہہ دل سے ہم بھی خیرمقدم کرتے ہیں۔ معاملہ اس سے بھی نہیں بگڑتا کہ حضرت علی سے ابوبکر، عمر اور عثمان کے مقابلے میں محبت کریں۔ حضرت علی کیلئے ترجیحات قائم کرنا بھی ان کا حق ہے۔انصار کے سردار سعد بن عبادہ نے حضرت ابوبکر وعمر کے پیچھے کبھی نماز بھی نہیں پڑھی اور اگر شیعہ حضرت علی کو خلیفہ بلا فصل مانیں تو یہ انکا حق ہے۔ بنی امیہ اور اہل بیت کی جنگوں کا معاملہ تاریخ کا حصہ ہے۔ اس کی تلخیاں بیان کرنا اور شدید الفاظ میں مذمت کرنا ان کا حق ہے۔

سورۂ محمد کی تفسیر پر اہل تشیع مجھے بڑی داد بھی دیں گے جو اس شمارے کا حصہ ہے۔ دوسری طرف سورۂ حجرات کاترجمہ اور تفسیر بھی لکھ دی ہے جس سے شیعہ حضرات میں کافی حد تک اعتدال بھی قائم ہوجائے گا۔ سورۂ محمد صفحہ نمبردو (2)اور سورۂ حجرات صفحہ تین (3)پر دیکھ لیجئے گا۔ امید ہے کہ شیعہ سنی میں اعتدال کی راہ ہموار ہو گی۔

ایک شیعہ جوان ذاکر نے کہا کہ ” علامہ ابن جوزی اپنے وقت کابہت مشہور عالم تھا اور اس نے حضرت علی کے قول کی نقل اتاری کہ سلونی سلونی قبل ان ….. مجھ سے سوال کرو، اس سے پہلے کہ میں آپ لوگوں کو پھر دستیاب نہ ہوں۔ ایک عورت نے اٹھ کر سوال کیا کہ حضرت علی اس وقت کسی دوسرے شہر میں بہت دور تھے جب حضر ت سلمان کی وفات ہوگئی لیکن جنازہ کیلئے وہاں پہنچ گئے۔ مگر عثمان کی میت تین دن تک پڑی رہی ، علی نے جنازہ کیوں نہیں پڑھا؟۔ کیا حضرت علی نے خود کو اس قابل نہیں سمجھا تھا کہ عثمان کا جنازہ پڑھاتے یا اس کو کافر سمجھتے تھے؟۔ ابن جوزی نے کہا کہ مجھ کو پہلے یہ بتاؤ کہ اپنے شوہر سے اجازت لیکر آئی ہو یا بغیر اجازت کے سوال کیا ہے؟ اس خاتون نے کہا جس کے دل میں اہلبیت کی محبت تھی کہ اگر میں نے اجازت لیکر سوال کیا ہے تو اس کا کیا جواب ہے اور اگر اجازت نہیں لی ہے تو کیا جواب ہے؟۔ ابن جوزی نے کہا کہ اگر تونے اجازت نہیں لی تو تجھ پر لعنت ہو اور اگر اجازت لی ہے تو تیرے شوہر پر لعنت ہو۔ اس عورت نے کہا کہ وہ جو حضرت عائشہ شام میں لڑنے گئی تو اس نے شوہر سے اجازت لی تھی ؟ اور اگر نہیں لی تھی تو اس پر لعنت ہو؟”۔

اہل تشیع کے ذاکرین شیعہ بھائیوں سے داد وتحسین وصول کرتے ہیں اور بھاری بھرکم معاوضہ بھی ۔ اور خوش ہوتے ہیں کہ اپنے مذہب کے اصول وفروغ کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔ دنیا وآخرت میں سرخرو ہونے کا یقین رکھتے ہیں۔

مجھے پتہ ہے کہ اہل تشیع بہت سخت ناراض ہوں گے کہ آج تک سپاہ صحابہ والے بھی ابن جوزی کی طرح جواب دیتے رہے ہیں جس سے شیعہ اپنے عقائد میں مزید پختہ ہوجاتے ہیں اور میرے طرزِ استدلال سے ان کی روٹی روزی بند ہونے کا خدشہ ہوگا۔ لیکن مجھے ان کی قیمتی جانیں بچانے کا کردار ادا کرنا ہے تاکہ گستاخانہ طرزعمل کو آئندہ قرآن وحدیث سمجھ کر بیان نہیں کریں اور قتل وغارتگری کا سلسلہ رک جائے۔

جب صلح حدیبیہ سے پہلے حضرت عثمان کی شہادت کا مسئلہ کھڑا ہوا تو نبیۖکی بیعت حضرت علی سمیت تمام صحابہ کرام نے کی۔ بیعت کا مقصد حضرت عثمان کے قتل کا بدلہ لینا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس بیعت پر خوش خبری سنائی : (ان الذین یبایعونک انما یبایعون اللہ یداللہ فوق ایدیھم فمن نکث فانما ینکث علی نفسہ ومن اوفٰی بما عٰھد علیہ اللہ فسیؤتیہ اجرًا عظیمًاO) ” اے نبیۖ! جو لوگ آپ سے بیعت کررہے ہیں تو بے شک اللہ سے بیعت کررہے ہیں۔ اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اُوپر ہے۔ پس جو اس عہد کو توڑے گا تو اس کی عہد شکنی کا اثر کسی اور پر نہیں بلکہ خود اس کے اپنے نفس پر ہی پڑے گا۔ اور جوپورا کرے گاجو اس نے عہد کیا ہے تو عنقریب اس کو بہت بڑا اجر ملے گا”۔ (سورۂ فتح آیت10)

ہمیں تو یہ علم نہیں کہ حضرت عثمان کی شہادت پر حضرت علی نے وہ کردار ادا کیا تھا جو شیعہ ذاکر اپنی زبان سے بہت فخر کیساتھ بیان کررہاہے تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ایک غیر جانبدار نومسلم جسکے جگر میں سنی شیعہ ماحول نہ ہو تووہ یہ سوچنے پر مجبور ہوگا کہ علی نے اس بیعت کو توڑ ا جس کا ذکر قرآن میں ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ علی نے مدینہ چھوڑ کر کوفہ کو دارالخلافہ بنایا اور وہاں اپنے پروردہ لوگوں کے ہاتھوں شہادت پائی اور حسن نے بھی مجبوری میں خلافت سے دستبرداری اختیار کرلی اور امام حسین کو بھی کوفیوں نے بلاکر شہید کردیا۔ مدینہ واپس جانے کی بات بھی تسلیم نہیں کی تھی۔ ہیکل نے حضرت محمدۖ اور حضرت عمرکے نام کو سو (100)شخصیات میں شامل کیا تھا۔

ام المؤمنین حضرت عائشہنے شام کا سفرکیا۔ اس بیعت کی عہد شکنی محسوس کی جسکا ذکر قرآن میں عثمان کی شہادت کا بدلہ لینے کیلئے ہے۔ اُم المؤمنین حضرت عائشہ نے قرآن وسنت کی پیروی میں کوئی غلطی نہیں کی۔ جس نے غلطی کی تھی تو اس نے خود بھگت بھی لیا ہے۔ یہ ایک غیرجانبدار فرد کا تجزیہ ہوگا۔

اللہ تعالیٰ نے سورۂ فتح میں فرمایا : (انا فتحنا لک فتحًا مبینًا Oلیغفرلک اللہ ماتقدم من ذنبک و ماتأخر ویتم نعمتہ علیک ویھدیک صراط مستقیمًا O)” بیشک ہم نے کھلی فتح دیدی۔ تاکہ آپ کے اگلے پچھلے ذنب معاف کردے۔ اور آپ پر اپنی نعمت کی تکمیل کردے اور صراط مستقیم پر لگادے”۔

پچھلے ذنب اور اگلے ذنب سے کیا مراد ہے؟۔ اللہ تعالیٰ نے نبیۖ کو حکم دیا تھا کہ وشاورھم فی الامر”اورکسی خاص بات میں مشورہ کرلیا کریں”۔ کیونکہ صحابہ کرام کی یہ خاصیت بیان فرمائی ہے کہ وامرھم شوریٰ بینھم ”اور ان کا امر باہمی مشاورت سے ہوتا ہے”۔ کیا رسول اللہۖ نے حضرت علی کیلئے من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ فرمایا تو یہ ذنب تھا اسلئے کہ مشاورت کے حکم پر عمل نہیں ہوا ؟۔ حدیث قرطاس میں حضرت عمر نے اسلئے کہا کہ ”ہمارے لئے کتاب اللہ کافی ہے”۔ نبیۖ اولی الامر تھے اور اولی الامر کی حیثیت سے جہاں اپنے جانشین کو مقرر کرنے کا حق تھا تو وہاں اختلاف کی گنجائش بھی اللہ نے رکھی تھی اور اولیٰ یہی تھا کہ مشاورت سے ہی آپۖ کام لیتے تو امت کو مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔

نبیۖ نے فرمایا کہ ” اگر خیر میرے ہاتھ میں ہوتی تو سب سمیٹ لیتا”۔ اپنے اوپر بات رکھ کر صحابہ امت کو یہ درس دیا کہ خواہشات کی پیروی نہ کرو۔ ان کی ترجیح سے ٹکراؤ پیدا ہوگا۔ ابوبکر اپنے بعد بیٹے کو مقرر کرتے تو ٹکراؤ پیدا ہوتا اور عمرنے اپنے بیٹے کو نااہل نہ قرار دیا ہوتا تو آپ کے بیٹے پر مشاورت سے اتفاق ہوسکتا تھا۔

( فاعلم انہ لاالہ الا اللہ واستغفر لذنبک وللمؤمنین والمؤمنات واللہ یعلم متقلّبکم ومثوٰاکم O)” پس جان لو !کہ بیشک کوئی الہ نہیں ہے مگر اللہ۔اور اپنے ذنب کیلئے مغفرت طلب کریں اور مؤمنین اور مؤمنات کیلئے بھی۔ اور اللہ جانتا ہے تمہارے پلٹنے اور تمہارے ٹھکانے کو”۔ (سورۂ محمدآیت19)

اللہ تعالیٰ کو پتہ تھا کہ نبی کریم ۖ کو مخاطب کرکے ذنب کیلئے استغفار کی بات ہو اور مؤمنین اور مؤمنات کی مغفرت کا مسئلہ ہو تو اہل تشیع منطقی نتائج نہیں نکالیں گے اور اگر نبیۖ کے کسی صحابی یا خلیفہ راشد پر گرفت کرنی ہو تو زمین وآسمان کی قلابیں ملائیں گے۔ اگر اس آیت میں حضرت علی مخاطب ہوتے تو بھی اہل تشیع اس کو علی کی عصمت کے خلاف قرار دیکر مسترد کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے نبیۖ کو مخاطب کیا۔ مؤمنین نے جس طرح سے حضرت عثمان کی شہادت کا بدلہ لینے سے پلٹ جانا تھا اور کوفہ ٹھکانا تھا اس کا اللہ کو بالکل علم تھا اور اس کو وضاحت کیساتھ بیان بھی کردیا ہے۔

رضی اللہ عنہ کا مطلب دعا دینا نہیں بلکہ یہ سند دینا ہے کہ اللہ ان سے راضی ہوا۔ یہ اس شیعہ کو جواب ہے جس کا درس یوٹیوب پر نظر آتا ہے۔ علیک السلام، علینا السلام اور علیہ السلام تو قبرستان کے مردوں سے لیکر مسلمانوں تک سب میں عام ہے۔ باغ فدک میں امہات المؤمنین کا حق تھا۔ حضرت فاطمہ کی پرورش کا ذمہ حضرت علی نے اٹھانا تھا۔ ازواج مطہرات نے نبیۖ کی میراث پر گزر بسر کرنا تھا۔ حضرت علی کی شخصیت زبردست تھی اسلئے فدک کا مسئلہ چھوڑ دیا ۔ شیعہ عالم نے کہا کہ امام حسن نے امیرمعاویہ سے معاہدہ میں یہ طے کرنے سے انکار کیا کہ معاویہ کی وفات کے بعد حسن خلیفہ ہوگا بلکہ یہ لکھوادیا کہ” جسے مسلمان منتخب کریں”۔حضرت آدم جنت میں ممنوعہ شجر کے پاس گئے لیکن نبوت پر اثر نہیں پڑا۔ حضرت موسیٰ نے بھائی ہارون کو سراور داڑھی کے بالوں سے پکڑلیا تو کیا اس پر جملے کسنے کی کہانیاں گھڑی جائیں؟۔ اگرنبیۖ جانشین نامزد کرتے تو یزید سے لیکر سعودی ولی عہد تک سب کا جواز ہوتا۔ سورۂ نجم میں کبائرگناہ اور فواحش میں اجتناب سے الاالمم کا استثنیٰ ہے جس کی تفسیر ماحول میں مختلف ہے اور اللہ نے فرمایا کہ” اپنی پاکی بیان نہ کرو، اللہ جانتا ہے کہ کون متقی ہے”۔ سورۂ النجم۔ اہل تشیع کے علماء اپنے جاہل ذاکرین کو لگام دے دیں۔

علی کی ہمشیرہ اُم ہانی اولین مسلمانوں میں تھیں مشرک شوہر سے محبت کی وجہ سے ہجرت نہیں کی۔ فتح مکہ کے بعد علی نے قتل کرنا چاہا تو ام ہانی نے نبیۖ سے اپنے شوہر کیلئے پناہ لی۔ شوہر چھوڑ کر گیا تو نبیۖ نے نکاح کا پیغام دیا مگر انہوںنے قبول نہ کیا۔ اللہ نے فرمایا: آپۖ کیلئے چچا کی وہ بیٹیاں حلال ہیں جو آپ کیساتھ ہجرت کرچکی ہیں۔اگر یہ ابوبکرو عمر کی بہن ہوتی تو شیعہ آیات سے توہین آمیز گفتگو کرتے کہ طیبون طیبات ،خبیثون خبیثات اور زانی و مشرک کاایکدوسرے سے نکاح ہے اور مؤمنوں پر اس کو حرام کردیاہے۔شیعہ سنی گمراہی میں نہ بھٹکیں۔ ہدایت کی طرف آجائیں!۔

NAWISHTA E DIWAR Feburary Newspaper 2021

انجینئر محمد علی مرزا کی قرآن کے بارے میں جہالت اور کم عقلی کا انوکھا مظاہرہ!

فرمایا : وینزل الغیث ویعلم ما فی الارحام ”اور وہ بارش نازل کرتا ہے اور جانتا ہے جو ارحام میں ہے” مگر مرزا نے کہا کہ” اللہ جانتا ہے کہ بارش کب ہوگی اور ماں کے پیٹ میں کیا ہے جبکہ سب فرقوں کا ترجمہ غلط ہے”!

مرزا نے تفسیر کی کہ ”قرآن میں ہے کہ بارش کب ہوگی” اور دنیا کو آج بھی پتہ نہیں کہ بارش کب ہوگی۔ الٹراساؤنڈ نے فرقوں کو غلط ثابت کیا ہے، اللہ جانتا ہے کہ کون کافر ہے یا مسلمان”

مرزا جاہل کتابی کو یہ بھی معلوم نہیں کہ قرآن کے الفاظ کیا ہیں؟۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ ” قرآن کی تفسیر زمانہ کرے گا” آج کے زمانے نے قرآن کے الفاظ کی تفسیر کی ہے!

انجینئر محمد علی مرزا نے قرآن کے حوالے سے عوام کی اصلاح نہیں کی بلکہ مزید جہالت کے اندھیروں میں دھکیلا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مرزا میں کتنا خلوص ہے؟۔ یا وہ جاہل اور کم عقل کے علاوہ انتہائی ہٹ دھرم بھی ہے؟۔

انجینئرمحمد علی مرزا نے اپنی ویڈیو میں کہا ہے کہ :

”قرآن کے الفاظ کی ذمہ داری اللہ نے لی ہے ،تمام فرقوں کے علماء کی غلطیوں کا اللہ ذمہ دار نہیں ہے۔ جب سائنس نے ترقی نہیں کی تھی تو علماء نے کاقرآن ترجمہ یہ کیا کہ ”اللہ جانتا ہے کہ ماں کے پیٹ میں بچہ ہے یابچی ”۔ اب سائنس نے ترقی کرلی ہے اور الٹرا ساونڈ میں بچے اور بچی کا پتہ چلتا ہے۔ اب لوگ سمجھ رہے ہیں کہ قرآن غلط ثابت ہوگیا ہے۔ نہیں جی علماء کا ترجمہ غلط ثابت ہوا ہے۔ قرآن میں یہ تو نہیں ہے کہ بچے اور بچی کا عوام کو پتہ نہیں چلتا ہے ، یہ تو علماء نے ترجمہ غلط کیا ہے۔ قرآن کے الفاظ میں ہے کہ ماں کے پیٹ میں جو ہے اس کا پتہ لوگوں کو نہیں ہے ،یہ غیب کا علم ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ ”تم میں مؤمن بھی ہیں اور کافر بھی ہیں” ۔ اب کوئی بتائے کہ ماں کے پیٹ میں کافر ہے یا مسلمان؟۔ قرآن غلط ثابت نہیں ہوتا ہے۔ جب سائنس نے ترقی نہیں کی تھی توعلماء نے قرآن کا ترجمہ غلط کیا تھا۔

اللہ نے فرمایا ہے کہ ”کوئی نہیں جانتا ہے کہ بارش کب ہوگی” ۔ آج بھی لوگوں کو پتہ نہیں ہے کہ بارش کب ہوگی۔ ایک سال بعد آج کی تاریخ کا پتہ چلتا ہے کہ بارش ہوگی ؟۔ جب مون سون کا علم ہو اور ہواکے رخ سے بادل کا پتہ چلے کہ بارش آرہی ہے تو یہ غیب کا علم نہیں ہے۔ غیب کا علم وہ ہے جو سائنس کے بغیر حاصل ہو۔ اللہ نے غیب کی نفی کی ہے اور یہ غیب نہیں ہے”۔

محترم انجینئرمحمد علی مرزا صاحب !

پہلی بات یہ ہے کہ ہمیں تمہارے خلوص اور علمی محنت پر کوئی شک نہیں ۔ آپ کی ویڈیو دیکھ کر دل میں یہ خواہش اُبھرتی ہے کہ پروفیسر احمد رفیق اختر کی طرح آپ کے درس کابھی حکومت کے اداروں میں سرکاری اہتما م ہونا چاہیے۔ کراچی میں رینجرز سے پروفیسر صاحب نے خطاب کیا تھا۔ قاسم علی شاہ اور پروفیسر احمد رفیق اختر سے زیادہ آپ کی تقریروں سے فرقہ واریت کا ناسور ختم کرنے کی اب ریاستِ پاکستان اور مسلمانوں کو سخت ضرورت ہے۔

فرقہ واریت سے بالاتر نہ سہی لیکن اہلسنت کی کتابوں سے فرقہ پرستی کی جہالتوں کو ختم کرنا مرزا صاحب کے خلوص کا آئینہ ہے۔ اسی طرح اہل تشیع کی کتابوں سے شیعہ میں فرقہ واریت کے جراثیم کم کرنا بھی اچھا ہے۔ انسان بہت کمزور ہے اور یہ کمزوری ہم میں بھی ہے اور مرزا صاحب کی شخصیت میں بھی۔ اہل علم پھلدار درخت کی طرح تواضع سے جھکے ہوتے ہیں۔

قرآن کے الفاظ میں ”بارش کب ہوگی”نہیں بلکہ فرمایا :ان اللہ عندہ علم الساعة وینزل الغیث ویعلم مافی الارحام وماتدری نفس ما ذا تکسب غدا و بای ارض تموت ”بیشک اللہ کے پاس وقت کا علم ہے اوروہ بارش برساتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ رحموں میں کیا ہے اور کسی کو پتہ نہیں کہ وہ کل کیا حاصل کرلے گا اور کس زمین پر مرے گا”۔

مجھے نہیں پتہ کہ کس فرقے کے کس عالم نے قرآن کے ان واضح الفاظ کا غلط ترجمہ کیا ہے لیکن مرزا صاحب نے اپنی ویڈیو میں بالکل غلط ترجمہ کیا۔

قرآن میں جن پانچ چیزوں کا ذکر ہے ۔ آخری دو چیزوں کی نفی ہے کہ ”کوئی نفس نہیں جانتاکہ وہ کل کیا حاصل کرلے گا اور کس زمین پر مرے گا”۔ یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے سے گہری مناسبت رکھتی ہیں۔ دنیا جس رفتار سے ترقی کررہی ہے تو اس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ آنے والے دورکی ترقی وعروج یا زوال وتنزل کا علم واقعی کسی بھی نفس کیلئے مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ اور اسی کیساتھ” کس زمین میں مرے گا” کا معاملہ بھی واضح ہے کیونکہ جس قدر جہاز، گاڑیوں اور ذرائع آمدو رفت کا نظام بڑھ گیا ہے اور ترقی کی نت نئی ایجادات ہورہی ہیں وہ قرآن کی ان دونوں باتوں کی مزید تفسیر کررہی ہیں۔

جہاں تک پہلی تین چیزیں ہیں تو اللہ نے کسی اور کی نفی نہیں کی ہے بلکہ فرمایا کہ” اللہ کے پاس وقت کا علم ہے، وہ بارش برساتا ہے اور وہ جانتا ہے جو رحموں میں ہے ”۔ ان تین چیزوں میں کسی اور کی نفی نہیں ہے۔ رسول اللہۖ نے فرمایا کہ ” پانچ چیزیں غیب کی چابیاں ہیں اور ان کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے”۔ نبیۖ نے ٹھیک فرمایا اسلئے کہ اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ ”جس دن ملائکہ اور روح چڑھتے ہیں تو اس کی مقدارپچاس (50) ہزار سال ہے”۔ سورۂ معارج کی اس آیت کا مشاہدہ نبیۖ نے معراج کی رات کو کیا تھا۔ البرٹ آئن سٹائن نے نظریۂ اضافیت دریافت کیا اور ریاضی کے حساب سے تصدیق کردی کہ جب چڑھنے کی رفتار تیز ہو تو زمین کے ایک لمحہ کے مقابلے میں تیزرفتاری سے چڑھنے کی مدت اسی (80)سال ہوتی ہے۔ موٹا دماغ رکھنے والے کیلئے یہ بھی ہے کہ دن رات اور ماہ وسال سے زمین کا اپنے محور کے گرد گھومنا اور سورج کے گرد گھومنا ثابت کرتا ہے کہ واقعی وقت غیب کی چابی ہے ۔ رسول اللہۖ نے سچ فرمایا کہ یہ غیب کی چابی ہے اور وقت نے ثابت بھی کردیا ہے۔ دوسری چیز بارش کا نازل ہونا۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ”دجال جہاں چاہے گا بارش برسائے گا”۔ اللہ تعالیٰ نے صرف یہ فرمایا ہے کہ ”وہ بارش برساتا ہے” ۔ کسی اورکی نفی نہیں کی ہے۔ نبیۖ نے اس کو بھی غیب کی چابی قرار دیا ہے۔ قرآن نے بادل اور ہر چیزکے مسخر ہونے کا ذکر کیاہے اور بارش سے آسمانی بجلی کا بھی مشاہدہ ہوتا ہے انسان نے بارش سے فائدہ اُٹھاکر مصنوعی بجلی پیدا کرلی ہے اور وقت نے بارش برسنے کو غیب ہی کی چابی ثابت کردیا ہے۔ آج دنیا میں بجلی سے جو دنیا آباد ہے یہ قرآن وحدیث کی زبردست تفسیر ہے۔ تیسری بات اللہ نے یہ فرمائی ہے کہ ” وہ جانتا ہے کہ رحموں میں کیا ہے” اس میں بھی کسی اور کی نفی نہیں ہے۔ آج فارمی جانور، پھل اور کھیت سے لیکر ایٹم کے ذرات تک ایٹمی ٹیکنالوجی اور الیکٹرانک کی دنیا یہ ثابت کررہی ہے کہ ارحام کا تصور وسیع ہے جو غیب کی چابی ہے اور جس طرح انسان اورجانور میں رحم ہے اسی طرح نباتات اور جمادات میں بھی ہے۔ ماں کے پیٹ، انڈے، پھل، گندم، ایٹمی ذرات پر رحم کا اطلاق ہوتا ہے ۔ اور اللہ نے ان نرومادہ کا فرمایا تھا کہ ”اور وہ جو تم نہیں جانتے ”۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

جاہل مفتی : عصر حاضر حدیث نبوی ۖ کے آئینے میں: عصر حاضر، مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ

جاہل مفتی : عصر حاضر حدیث نبوی ۖ کے آئینے میں
حضرت عبد اللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ آنحضرت ۖ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ لوگوں کے سینے سے نکال لے، بلکہ علماء کو ایک ایک کرکے اٹھاتا رہے گا۔ یہاں تک کہ جب کوئی عالم نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو پیشوا بنالیں گے ، ان سے مسائل پوچھیں گے وہ جانے بوجھے بغیر فتویٰ دیں گے وہ خود بھی گمراہ ہونگے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ متفقً علیہ ۔ (بخاری و مسلم)مشکوٰة شریف کتاب العلم صفحہ 33۔ مولانامحمد یوسف لدھیانوی

علامہ خادم حسین رضوی کے جنازے میں علامہ آصف جلالی اور کچھ افراد کے درمیان نعرے بازی ہوئی تھی ۔انجینئر مرزا محمد علی نے علامہ ابتسام الٰہی ظہیر کی طرف سے علامہ رضوی کی وفات پر دکھ اور رنج کے ساتھ تعریف کرنے پر اہلحدیث علماء کو چیلنج کیا تھا کہ وہ علامہ خادم رضوی کیلئے دعائے مغفرت کرکے دکھائیں۔ یہ ان کو مشرک سمجھتے ہیں اسلئے دعا کو جائز نہیں سمجھتے۔ جب حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی کو شہید کیا گیا تھا تو بعض لوگوں نے اپنے ہاں خوشیوں میں مٹھائیاں بانٹی تھیں۔ اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی کا مؤقف علماء دیوبند، اہل حدیث ، شیعہ اور قادیانیوں کیلئے ایک جیسا تھا۔ علماء دیوبندمولانا احمد رضا خان بریلوی اور بریلوی مکتبہ فکر کیلئے زیادہ سخت مؤقف نہیں رکھتے۔ مولانا محمد یوسف لدھیانوی کے داماد مفتی اعظم امریکہ مفتی منیر احمد اخون نے بہت زبردست جہالت کا مظاہرہ کرتے ہوئے علامہ خادم رضوی کے جنازے میں سوا کروڑ افراد کی شرکت پر ایک سوال کا جواب دیا ہے کہ ”حدیث میں آتا ہے کہ جس مسلمان کا جنازہ چالیس ایسے افراد پڑھیں جو اللہ کے ساتھ شرک نہ کرتے ہوں تو اللہ تعالیٰ اس کو بخش دے گا۔ علامہ خادم حسین رضوی کے جنازے میں 40افراد توحید پرست بھی ہوں گے اگر اپنے مسلک کے مطابق اکثر مشرک ہوں تو بھی کچھ توحید والے ہوں گے۔ ”
حضرت مولانامحمد یوسف لدھیانوی نے اپنی کتاب عصر حاضر میں ”جاہل مفتی” کے عنوان سے جو حدیث لکھی ہے وہ مفتی منیر احمد اخون پر صحیح صادق آتی ہے۔ اگر سوا کروڑ افراد کو بریلوی مکتبہ فکر سے وابستہ ہونے کی بنیاد پر مشرک قرار دیا جائے حالت یہ ہو کہ علامہ خادم حسین رضوی خود بھی کٹر قسم کے ہی بریلوی ہوں تو 40دیوبندی و اہل حدیث کی بنیاد پر کیسے فتویٰ دیا جاسکتا ہے کہ ان کی وجہ سے مغفرت ہوئی ہوگی۔ یہ جامعہ بنوری ٹاؤن کے قابل طالبعلم مفتی اعظم امریکہ کا حال ہے۔ پہلے کہا تھا کہ کوئی صحابی کو نہیں میرے اور آپ کو کافر کہے تو بھی وہ کافر ہے۔ اسلام نے مشرکین مکہ اور ان عیسائیوں کے درمیان بھی فرق رکھا تھا جو تین خداؤں کے ماننے والے تھے۔ علامہ اقبال نے محراب گل کیلئے کہا تھا
تیری بے علمی نے رکھ بے علموں کی لاج
عالم فاضل بیچ رہے ہیں اپنا دین ایمان

اے ایس آئی محمد بخش کی بہادری اور 13 سالہ آرزو راجہ کی شادی

پولیس والے کے گھروالوں نے مظلوم عورت اور اس کی یرغمال بچی کوبازیاب کرانے کیلئے جو کام کیا اس کا کریڈٹ سندھ پولیس ، کلچر اور دھرتی کو یقینا جاتا ہے لیکن اصل کردار محمد بخش کے گھر والوں کا ہے۔ اگرعورت مضبوط کردار ادا کرے، خواتین کو مضبوط کیا گیا اور معاشرے میں مواقع دئیے گئے تو ہماری پاک دھرتی پاکیزہ بن سکتی ہے۔ لودھراں سے آئی ہوئی مہمان دلہن کو قائداعظم کے مزار پر زیادتی کا نشانہ بنانے والے بھی سزا سے چھوٹ گئے۔ وزیرستان کا مقولہ ہے کہ ”میرے باپ مرجائیں اور میں اچھل کود کیلئے فارغ ہوجاؤں” انگریز کے جانے کے بعد یتیم انتظامیہ نے دھرتی کے اخلاقیات کا کباڑہ کردیا۔ قائداعظم نے اپنی دختر کو غیرمسلم کزن کیساتھ جانے دیا ، اسکے مزار کے اندر کا حصہ قائداعظم کے باغی نہیں چہیتے استعمال کرتے تھے۔ مجرم کا یہ کہنا زیادہ گھناونی بات ہے کہ اس نے عورت کو 11ہزار میں خریدا لیکن یہ روش تو چل رہی ہے۔ 13سالہ آرزو سے ناجائز تعلق بڑا جرم ہے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ”جس نے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے ،باطل ہے ،باطل ہے”۔ آرزو کو اسلام مبارک ہو لیکن حدیث پر عمل کرکے والدین کے پاس چلی جائے۔ مسلمان دوسرے مسلمان کی لڑکی کو ورغلائے تو جرم ہے، اگر اسلام کو ڈھال بناکر استعمال کیا جائے تو یہ مزید بڑا جرم ہے۔آرزو حدیث کی بنیاد پر شوہر کو چھوڑ کر والدین کے پاس جائے تو عیسائی دنیا اسلام کو سلام کرے گی۔

مسلمان تاریخ کے مشکل ترین دور کی آخری سرحد پر. تحریر: عتیق گیلانی

جب رحمة للعالمین محمد مصطفی احمد مجتبیٰ خاتم الانبیاء و المرسلین ۖ کی بعثت ہوئی تو دنیا جہالت سے گزر رہی تھی۔ ابراہیم علیہ السلام کی نسبت والے مشرکین مکہ، یہود اور نصاریٰ اصل دین سے ہٹ چکے تھے۔ مجوسی ، بدھ مت، ہندو اور دنیا بھر میں مختلف مذاہب اپنی اصل سے ہٹے تھے اور جاہلیت کی اندھیر نگری کا ڈیرہ لگا تھا۔
رسول اللہ ۖ کی 13سالہ مکی اور 10سالہ مدنی زندگی میں مسلم اُمہ بہت مشکلات سے گزر رہی تھی لیکن رسول اللہ ۖ مسلمانوں کیلئے اعلیٰ ترین رول ماڈل تھے۔ قرآن کریم وقتاً فوقتاً ہر مشکل و سہولت کی گھڑی میں نازل ہوتا۔ رسول اللہ ۖ نے اکیلے طائف میں تبلیغ کا مشکل فرض ادا فرمایا۔ کفار نے توہین آمیز رویہ اپنایہ اور پتھروں سے سرکارِ دو جہاں ۖ کو لہولہان کردیا۔ آپ ۖ نے ہتک آمیز رویہ اور پتھر مارنے والوں سے کوئی گلہ نہیں کیا۔ اللہ کی بارگاہ میں انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ ہاتھ اٹھائے اور عرض کیا کہ الٰہی تو مجھ سے ناراض تو نہیں کہ مجھے ان لوگوں کے حوالے کیا۔ اگر آپ مجھ سے ناراض نہیں تو مجھے اس سلوک کی کوئی پرواہ نہیں۔
آج امت کھڈے لائن لگائی جارہی ہے،ہماری آزادی چھین رہی ہے اور ہماری تباہی و بربادی پر دشمنوں کے دل ٹھنڈے نہیں ہوتے مگرہم لمحہ بھر کیلئے بھی سر جوڑ کر نہیں بیٹھتے کہ ہم سے بھول چوک تو نہیں ہوئی ؟۔ افغانستان ، لیبیا ، عراق اور شام تباہ ہوگئے لیکن ہم نے ہوش کے ناخن نہیں لئے۔ مسئلۂ فلسطین وکشمیر حل ہونے کے بجائے مزید الجھ گیا۔ اسرائیل کا پنجہ مضبوط تر ہوتا گیا۔ مٹھی بھر یہود نے امریکہ ، برطانیہ ، یورپ اور غیر مسلم و مسلم ممالک کو اپنے ہاتھ میں لیا ہے اور شکنجہ پاکستان پر بھی کسا جارہا ہے مگر ہم ہیں کہ اپنے مستقبل کا کوئی احساس تک بھی نہیں رکھتے ۔
بڑے دانشور طبقے کی رائے ہے کہ ”یہود و نصاریٰ اور ترقی یافتہ ممالک نے عروج اسلئے حاصل کیا کہ مذہب سے جان چھڑالی ”۔ لا مذہب روس سے دنیا کو غلبے کے خطرات لاحق ہوئے۔ عالمی طاقتوں نے جہاد سے اس کا بیڑہ غرق کیا۔ چین کی ترقی کے پیچھے ماؤزے تنگ کا ہاتھ تھا ۔ شمالی جنوبی کوریا، جاپان کی ترقی بدھ مت کی مرہون منت نہیں۔ گاؤ کے پجاری بھارت کی ترقی سیکولر ازم کی مرہون منت ہے۔ سعودیہ تیل سے دنیا کا امیر ترین ملک بن سکتا تھا لیکن پابندشرعی سلاسل آل سعود کو بھی مذہب سے ہجرت کرنا پڑ ی۔ شیخ الحدیث و القرآن مفتی زر ولی خان نے فرمایا کہ ” مفتی محمد تقی عثمانی پر قاتلانہ حملہ ہوا ، بال بال بچ گئے، شکر ہے۔ دار العلوم کراچی میں کوؤں کی بھرمار تھی۔ شیخ الاسلام کو دار العلوم سے کوؤں کو بھگانے کی توفیق نہیں۔ میں نے احسن العلوم میں باقاعدہ ایک آدمی کوؤں کو بھگانے کیلئے رکھا ہے۔ یہاں پر آپ کو کوئی کوا نظرنہیں آئیگا۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ پانچ چیزیں فاسق ناپاک ہیں جن کو حرم کی حدود میں بھی قتل کیا جائے۔ سانپ، بچھو، کوا، باؤلا کتا اور چیل”۔
مفتی تقی عثمانی ومفتی رفیع عثمانی کا فتویٰ ہے کہ ”کراچی و حیدر آباد کے کوے حلال ہیں”۔ پابندِشرع تھے تو شاید کوے مرغوب غذا ہو، جب شریعت چھوڑ کر سُود کو جواز فراہم کردیا تو ترقی کرلی۔ علماء نے تصویر کی حرمت کو چھوڑا توویڈیو کی ترقی کرلی۔ عمران خان لوٹوں کی مخالفت کرتا تھا تو سیٹ مشکل سے جیتتا تھا اور جب اس نے اپنا نظریہ چھوڑ دیا تو وزیر اعظم بن گیا۔ کیا ان تمام باتوں سے یہی نتیجہ نکالا جائے کہ ہم اپنے دین اور نظرئیے کو چھوڑ دیں گے تو پھر ترقی کی راہیں ہموار ہوجائیں گی؟۔
پہلے توہین رسالتۖ کی خبر پر سلمان رشدی مغرب میں چھپتا پھرتا۔ پھر ڈینمارک کے کارٹوں سے جذبات کا سمندر اُبل پڑا۔ اب فرانس نے حکومتی سطح پر گستاخانہ کارٹونوں کی نمائش کرکے اُمت مسلمہ کو چیلنج کردیا مگر دھیمے لہجے میںآواز اُٹھ رہی ہے۔ آہستہ آہستہ یہ جذبہ کشمیر کی آزادی کی طرح خواب بن کر رہ جائیگا ۔ ہم نے دوسروں کی غلطیوں پر نظر رکھی۔ مولانا حسین احمد مدنی سے مولانامحمد یوسف لدھیانوی تک مولانامودودی کو علماء دیوبند نے انبیاء ، اُمہات المؤمنین اور صحابہ کاگستاخ لکھ دیا۔ ایک مودودی سو یہودی کا نعرہ لگانے کے بعد اتحاد کی ضرورت پیش آئی تو مولانا مودودی اور اسکے پیروکار بھی شامل کئے۔ جسکی وجہ سے ضمیر ڈھیٹ بن گئے اور نظریات کے ٹیٹ نکل گئے۔ مولانا منظور نعمانی کے استفتاء اور علماء دیوبند کے فتوے میں اہل تشیع کو تین وجوہات کی بنیادپر قادیانیوں سے بدتر کافر قرار دیا۔ 1:قرآن کو نہیں مانتے،2: صحابہ کو کافر کہتے ہیں،3: عقیدۂ امامت پر ختم نبوت کے منکر ہیں۔ پھر اتحاد تنظیمات المدارس، ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل کا حصہ بنایا۔ مذہبی طبقہ پتہ نہیں کونسے حکیم کے لونڈے سے دوا لیتاہے کہ متضاد نظریات ، عقیدے اور فتوے کے لکڑ پتھر ہضم کرلیتاہے۔ بریلوی دیوبندی،جماعت اسلامی اہلحدیث اور شیعہ سنی ایکدوسرے پر کفر، گستاخی، گمراہی انواع و اقسام کے فتوؤں سے فارغ نہیں ہوتے تو پھر کسی اور کی طرف توپوں کا رُخ کیسے ہوگا؟۔ شعور کی دنیا میں اسلام سے محبت کرنیوالا مذہبی طبقہ سب سے زیادہ اندھیر نگری اور بے شعوری کا شکار ہے۔
مذہبی طبقات کے مقابلے میں وہ لوگ زیادہ گمراہی کا شکار ہیں جنہوں نے مذہب کیساتھ جدید دانش کی شراب بھی پی ہوئی ہے ۔ اس سے پہلے کہ داعش طالبان کے نام سے دہشت گردی کی فضاء گرم ہو، فرقہ واریت کی بدبو دار لہروں سے ماحول آلودہ ہو،لسانی تعصبات کی آگ بھڑک اُٹھے، سیاستدانوں اور ریاستی اداروں کے درمیان جنگ و جدل سے پاکستانی قوم بے یقینی کی موت مر ے اور ہماری لاشوں پر عالمی طاقتیں ڈھول بجائیں ہمیں سب کیلئے قابل قبول حقائق کی طرف آنا ہوگا۔
ملحد جس انداز میں پیغمبراسلام ۖکی توہین فیس بک پر کررہے ہیں ، فرانس کے کارٹون تو اسکے سامنے کچھ بھی نہیں۔ سیاستدان اور علماء کو عوام کے مذہبی جذبات سے کھیلنا آتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن ، مریم نوازاور عمران خان اعلان کریں کہ فرانس میں انکے لوگ اثاثے بیچ کر نیشنلیٹی چھوڑ دیں تو مذہب سے حقیقی محبت کا پتہ چلے گا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ہوئی تو کئی جیالوں نے خود سوزی کرلی۔ کیا نبیۖ کے ناموس سے علامہ خادم رضوی، شاہ محمود قریشی، مولانا فضل الرحمن، مریم نواز، علامہ الیاس قادری ، علامہ شہنشاہ حسین نقوی وغیرہ کو اتنی محبت بھی نہیں کہ جتنی جیالوں کو بھٹو سے تھی اور جس طرح خود کش حملوں کو جائز قرار دیا جاتا تھا تو احتجاجاً خود کو آگ لگانے سے احتجاج کا صحیح حق ادا ہوجائیگا۔ اپنی ماچس کی تیلیوں سے اپنی رقم سے بنائے ہوئے مجسموں کو جلانا اللہ اور اسکے رسولۖ کی بارگاہ میں قبول نہیں۔
عمران خان جب اپوزیشن میں تھا تو کم ڈرامے کئے تھے؟ کہ اب اقتدار میں بھی اس کی ڈرامہ بازی ختم نہیں ہوتی ہے۔ ملاضعیف کوامریکہ کے حوالے کیا تھا اور پنجاب پولیس کے گلوبٹوںکو طالبان کے حوالے کرنے کی دھمکیاں دیتا تھا تو فرانس کے سفیر کو طالبان کے حوالے کیا جائے۔ ورنہ فرانس کے سفیر کو فرانس بھیج دیا جائے اور اپنا سفیر بلالیا جائے۔ نہیں تو عوام کو بھڑکانے اوراس ڈرامہ بازی کی کیا ضرورت ہے کہ” سارے مسلمان حکمرانوںکو آخری حد تک لیجانے کی کوشش کروں گا”۔
ایک ایسی سنجیدہ کوشش کی ضرورت ہے کہ مغرب کے مسلمان بھی افغانستان، عراق ،لیبیا ، شام ، فلسطین،بھارت اور کشمیر کے مسلمانوں کی طرح مشکلات کا شکار نہ ہوں۔ایک ایک مسئلے کا مدبرانہ حل اسلامی تعلیمات کے عین مطابق موجود ہے مگر مسلمان حکمران اور علماء ومفتیان اسلام کی حقیقت سے بالکل بہرہ مند نہیں ہیں۔

پاکستان اور اسلامی حدود کے نفاذپر دنیا کے تحفظات!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

یورپ اور دنیا کا دباؤ ہے کہ اسلامی حدود کے نفاذ سے پاکستان پرہیز کرے کیونکہ یہ وحشیانہ ہیں۔ انسانیت کی توہین ہے اور اس سے دور نہیں رہا گیا تو امداد اور تعلقات بند کردیںگے۔ مولوی سمجھتا ہے کہ اللہ نے قرآن میں نبیۖ سے فرمایا : ولن ترضٰی عن الیہود ولن النصارٰی حتی تتبع ملتھم ”اور یہود ونصاریٰ آپ سے کبھی راضی نہیں ہوں گے یہاں تک کہ آپ ان کی ملت کے تابع نہ بن جائیں”۔ اسلئے یہودونصاریٰ اسلام کو پسند نہیں کرتے ہیں۔
دوسری طرف احادیث میں ہے کہ پوری دنیا میں اسلامی خلافت قائم ہوگی اور آسمان وزمین والے دونوں ان سے خوش ہونگے؟۔کیا قرآ ن وحدیث میں اتنا بڑا تضاد ہوسکتا ہے؟۔ اس کا جواب بالکل ٹھنڈے دل کے ساتھ سمجھنا ہوگا۔
قرآن میں مخاطب نبیۖ کی ذات ہے کہ آپۖ سے یہودونصاریٰ راضی نہیں ہونگے۔ یہاں تک کہ ان کی ملت کے تابع نہ بن جائیں۔ یہودونصاریٰ سے مراد ”ان کا مذہبی طبقہ ”اور ان کی ملت سے مراد” ان کا فسخ شدہ مذہب” ہے۔
آج یہودونصاریٰ نے مذہبی طبقے کو کھڈے لائن لگادیا ہے۔ نظامِ حکومت سے ان کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔ عیسائیوں کے ہاں عورت کو طلاق نہیں ہوسکتی تھی مگر پھر لند ن کے بادشاہ نے ایک مذہبی طبقہ پیدا کرکے اس مذہب سے جان چھڑا دی۔ آج مسلمانوں کی حالت یہود ونصاریٰ کے مذہبی طبقات کی طرح ہوچکی ہے۔ کوئی ان کا فرقہ اور فرقہ وارانہ ذہنیت جب تک قبول نہیں کرتا ،اکثریت ان کی حق باتوں کو بھی قبول نہیں کرتی ہے۔ فرقہ واریت کے علاوہ اسلام کا چہرہ بھی مسخ کیا گیا ہے۔
یہودونصاریٰ اور دنیا کو یہ خوف ہے کہ جب پاکستان سے اسلام کی نشاة ثانیہ کا آغاز ہوگا۔ تمام مسلم ممالک اس کے گرد اکٹھے ہوجائیںگے تو یہ ہم سے جزیہ بھی وصول کرینگے اور اگر جزیہ نہیں دیا تو جہاد کے ذریعے فتح کرکے ہمارے مردوں کو غلام اور عورتوں کو لونڈیاں بنادیںگے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جب اسلامی سزاؤں پر عمل شروع ہوگا تو امن آجائے گا اور مسلمان مضبوط ہوںگے تو ہماری خیر نہیں ہوگی اسلئے کہ جو اسلام کے نام پر اپنی بیگمات کے بھی حلالے کروانے سے گریز نہیں کرتے تو وہ لونڈیوں کے نام پر ہماری بیگمات کو بھی ضرور ریپ کرنے سے دریغ نہیں کریں گے۔ ہمارا فرض بنتا ہے کہ مسخ شدہ اسلام کا صحیح رُخ دنیا کے سامنے پیش کریں لیکن جب تک ہمارے مذہبی طبقات اور عوام اسلام کا درست چہرہ قبول نہیں کرینگے تو ہم ان مشکلات سے نکل نہیں سکتے ہیں۔ وہ لوگ ہمارے دشمن بلاوجہ نہیں ہیں۔ ہم سے بہت خوف کھارہے ہیں کہ اگر ان کو طاقت مل گئی تو ہماری خیر نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فانکحوا ما طاب لکم من النساء مثنٰی و ثلٰث ورُبٰع فان خفتم الا تعدلوا فواحدةً او ماملکت ایمانکم” پس تم نکاح کرو، عورتوں میں سے جن کو چاہو۔دودو،تین تین،چار چار،اگر انصاف نہ کرسکنے کا خوف ہو تو ایک یاجن کامالک تمہارامعاہد ہ (ایگریمنٹ) ہو۔(النسائ:آیت3)
اس کی تفسیر علماء کے نزدیک یہ ہے کہ منکوحہ عورتیں چار تک جائز ہیں لیکن اگر انصاف نہ کرسکنے کا خوف ہو تو پھر ایک یا جو لونڈیاں تمہاری ملکیت میں ہوں۔
معروف صحافی سعداللہ جان برق نے اپنی کتاب”دختر کائنات ” میں لکھا ہے کہ ”سلطنت عثمانیہ کے سلطان عبدالحمید کی ساڑھے چار ہزار لونڈیاں تھیں اور محمد شاہ رنگیلا نے محل کے بالاخانے تک جانے کیلئے سیڑھیوں میں ننگی لڑکیاں کھڑی کر رکھی ہوتی تھیںجن کے سینوں کو پکڑ پکڑ کر وہ سیڑھیاں چڑھتا تھا”۔ عمران خان نے وزیراعظم بننے سے پہلے ریحام خان سے کنٹینر کے زمانے میں خفیہ شادی کی تھی تو بہت بے شرمی سے کہا تھا کہ ” تبدیلی آگئی ہے ، میں شادی کروں گا”۔ میرے بھائی پیرنثار احمدشاہ عمران خان کو محمد شاہ رنگیلا قرار دینے کے باوجود زیادہ مستحق سمجھتا تھا کہ اس کواقتدار مل جائے تو دوسروں سے بہتر ہوگا۔ دوسرے بھائی پیرامیرالدین شاہ کے خیال میں بھی عمران خان اس قو م کا مسیحا تھا۔ ایک بھائی سیاست اور دوسرے بھائی سول سرونٹ کی حیثیت سے بڑی بصیرت اور تجربات کے مالک بھی ہیں تو ہم دوسروں پر الزام نہیں لگاسکتے کہ انہوں نے عمران خان کے بارے میں حسنِ ظن رکھا تھا؟۔ آج لوگ عمران خان کیساتھ ساتھ اس نظام سے بھی مایوس ہوچکے ہیں۔
اگر دنیا ہمارے بارے میں یہ سوچے گی کہ انہوں نے حلالوں کے ذریعے سے اپنی عزتدار خواتین کی عصمتوں کو لوٹاہے اور لونڈی کے ذریعے سے ہمیں کہاں بخشیںگے تو مسلمانوں کے بارے میں ان کے تحفظات بالکل معقول ہیں۔
جب ابھی نندن کے جہاز کو گراکر پاکستان نے پکڑ لیا تو کیا اس کو غلام بناکر کوئی گھر کی خدمت لے سکتا تھا؟۔ مولوی کہتا ہے کہ ماملکت ایمانکم میں جنگ کاہر قیدی شامل ہے۔اگر چہ قرآن میں ماملکت ایمانکم سے مراد غلام اور لونڈی بھی مراد لئے گئے ہیں لیکن جنگ میں گرفتار ہونے کیساتھ یہ الفاظ بالکل بھی جوڑ نہیں کھاتے ہیں۔ غزوہ بدر میں 70قیدیوں کیساتھ کیا سلوک کیا گیاتھا؟۔ ان کی شایانِ شان مہمان نوازی کی گئی۔ صحابہ کرام خود بھوکے ہوتے تھے لیکن زیادہ امیر قیدیوں کو اچھے کھانوں کے علاوہ دودھ بھی پینے کیلئے پیش کیا جاتا تھا۔
جب تک ہم اسلام کا روشن چہرہ دنیا کو نہیں دکھائیں گے ،ہم اسلامی نظام کو لانے میں بھی کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں۔ اسلام نے غلامی کا نظام قائم نہیں کیا ہے بلکہ اسلامی نظام نے غلامی کا نظام ختم کیا ۔ کیا یہ ممکن تھا کہ فتح مکہ کے بعد حضرت عمر حضرت ابوسفیان سے غلام اور اس کی بیگم حضرت ہندہ رضی اللہ عنہا سے ایک لونڈی کی خدمت لیتے؟۔گھر میں ابوسفیان نے حضرت عمر کے عبد(غلام) کی حیثیت سے خدمت کرنی ہوتی اور ہندہ نے اَمة (لونڈی) بن کر رہنا ہوتا؟۔
عوام اور مذہبی طبقات اپنا دماغ کھول دیں۔ قرآن میں اللہ نے آل فرعون کی یہ صفت بیان کی ہے کہ ” وہ بنی اسرائیل کے بیٹوں کو قتل اور عورتوں کو ریپ کرتے تھے”۔ اسلام کو اللہ تعالیٰ نے آل فرعون کی نیابت کو زندہ کرنے کیلئے نازل نہیں کیا۔
لونڈی وغلام کے نسل درنسل اپنے اپنے خاندان ہوتے تھے۔ حضرت زید بردہ فروشوں کی وجہ سے غلام بن گئے تھے ،نسلی غلام نہیں تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”جنکے والد کا پتہ ہو تو ان کو والد کے نام سے پکارا جائے۔ جن کے والد کا پتہ نہیں تو وہ تمہارے دینی بھائی اور موالات والے ہیں”۔ اسلام نے ان غلاموں اور لونڈیوں کو بہت اہمیت دی۔ آزاد مشرک سے مؤمن غلام ولونڈی کو نکاح کیلئے بہتر قرار دیا۔ اور طلاق شدہ وبیوہ کی طرح غلاموں اور لونڈیوں کا بھی نکاح کرانے کا حکم دیا۔عبد یعنی غلام کے لفظ کو اللہ تعالیٰ کیساتھ خاص کردیا۔ مملوک کا تصور بالکل درست کردیا۔ پہلے غلام ولونڈی کی جان، انکے جسمانی اعضاء اور حرمت سب کچھ آقا کی ملکیت ہوتی تھی اور مالک چاہتا تو ناک کاٹتا، کان کاٹتا، ہاتھ پیر توڑ دیتا۔ جہاں چاہتا فروخت کردیتا۔ لیکن اسلام نے ان کے اسٹیٹس کو بدل دیا۔ گروی کی حیثیت دے دی۔
جنگی قیدی کا حکم ہے کہ ” ان سے فدیہ لیکریا احسان کرکے آزاد کردو”۔ (سورۂ محمد) اسلام نے دنیا کو انسانیت سکھا دی ۔دنیا نے دہشتگرد پیدا کرکے یہ تصور دیا کہ اسلام وحشیوں کا مذہب ہے۔وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاویدباجوہ ایک عالمی کانفرنس منعقد کرکے حقائق کو سامنے لانے کا اقدام کریں۔