عبادات Archives - Page 5 of 14 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

قادیانیت ، شیعت اور قومیت کا مسئلہ اور اسکاحل کیا ؟

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
جاوید احمد غامدی نے اپنا عقیدۂ ختم نبوت کے حوالے سے واضح کیا ہے کہ وہ ”رسول اللہ ۖ کو آخری نبی مانتے ہیں ۔ رسول ۖ نے فرمایا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔اور نبوت میں سے کچھ بھی باقی نہیں مگر مبشرات ،جو رویائے صالحہ ہیں”۔
غامدی نے بتادیا کہ ” جو شخص خود کو مسلمان کہتا ہوتو اس کو وہ کافر نہیں کہتا ”۔ غامدی نے ابن عربی کا بتا دیا کہ ” وہ رسول اللہۖ پر تشریحی نبوت ختم ہونے کے قائل مگر نبوت کے جاری ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے”۔ ڈنڈے کے زور پر مفتی محمود نے ایوبی دور میں معافی مانگی لیکن سیدابوالاعلیٰ مودودی نے معافی سے انکار کیاتھا۔
اگر مبشرات سے اصطلاحی نبوت مراد لی جائے تو ختم نبوت کا عقیدہ نہیں رہتا اسلئے کہ لوگ شیطانی جھولوں میں بیٹھ کر نبوت کے دعوے کرینگے۔ نبوت غیب کی خبر بھی ہے۔ وحی میں شیطان مداخلت نہیں کرسکتا۔ رسول ۖ سے سچا خواب کس کا ہوگا۔ حضرت عائشہسے فرمایا کہ آپ کی تصویر مجھے خواب میں دکھائی گئی کہ اس سے شادی ہوگی۔ سوچا کہ خواب اللہ کی طرف سے ہوگا تو پورا ہوجائیگا۔ ( صحیح بخاری)
غیب کی درست خبر رویائے صالحہ ہے ۔ قرآن میں تندرست بچے کی پیدائش کیلئے بھی صالح آیا ہے۔ کشف، الہام، نجوم اور خواب میں غیب کی خبریں بتانے والے شیطان یا انسان کے آلۂ کار ہوسکتے ہیں۔ ڈاکٹر اسرار احمد کی کلپوں کو عام کیا جاتاہے۔ مہاجر، سرائیکی ،بروہی قومیت حقیقت ہے مگر اس کیلئے قرآن کے غلط حوالے دینا بڑی جہالت ہے۔ وقال الرسول یارب ان قومی اتخذا ہٰذالقراٰن مھجورًا ”اور رسول کہیںگے کہ اے میرے رب بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا”۔ مسلمانوں کیلئے قوم کا لفظ اس زیادہ کس دلیل کا محتاج ہے مگر علماء کرام پاکستان کے مخالف اور ہندوستانی قومیت کے ٹھیکہ دار بن گئے تھے۔
علماء کہتے ہیں کہ رسول ۖ کی امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح ہیں۔ امام غزالی کا خواب یا مشاہدے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مناظرے کی بات بھی کرتے ہیں ،صحابہ کا مقام علماء سے اونچا ہے مگر انبیاء سے اونچا نہیں ۔
مزراغلام احمد قادیانی مجذوبِ فرنگی تھا جس نے نبوت کا دعویٰ تو کیا لیکن دوسروں کو بھی اس کو نہ ماننے پر رنڈیوں کی اولاد قرار دیا۔ آج مرزائی سمجھتے ہیں کہ ان کو رنڈیوں کی اولاد کی طرح مسلمان مانا جائے توبھی بہت بڑی غنیمت ہے۔
جاوید غامدی اور انجینئرمرزا علی محمدالیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر چھائے ہیں۔ مرزا علی محمدنے قادیانیوں کی صف میں دیوبندی اور بریلوی کو بھی شامل کیا کہ اشرف رسول اللہ اور چشتی رسول اللہ کے خوابوں سے جب تک توبہ نہیں کی تو ان پر بھی بابی کا فتویٰ لگتا ہے۔ یہ کہنا باقی ہے کہ مرزائیوں نے کلمہ تو تبدیل نہیں کیاجبکہ جاوید احمد غامدی شیخ ابن عربی کی صف میں مرزا غلام احمد قادیانی کو کھڑا کررہے ہیں۔
علامہ سید جواد نقوی نے آصف علوی کوبرطانیہ کی MI6ایجنسی کا ایجنٹ قرار دیا۔ آصف نے کہا کہ رسول اللہۖ نے حضرت علی کواپنا نفس قراردیااوراماں عائشہ کو طلاق دیدی۔ اگر شیعہ منطقی نتائج اپنے فرقے کیلئے نہ نکالتے تو شیعانِ علی آصف کا جبڑہ توڑ دیتے کہ جب علی نبی کے نفس ہیں تو پھر نبی کی بیٹی حضرت فاطمہ سے نکاح کیسے ہوسکتا تھا؟۔ اہل تشیع کوان کی منطق کا جواب ان کی منطق سے دینا ہوگا۔ تب یہ اپنی مجالس سے داد حاصل کرنے اور اپنے ریٹ بڑھانے کے چکر سے باز آسکتے ہیں۔ایک شیعہ بچہ داد لینے کیلئے کہتا ہے کہ لیڈر دو تھے، ایک محمدۖ اور ایک حسین ۔ جب محمدۖ نے دن کے وقت لوگوں کو بلایا تو کوئی نہیں آیا اور حسین نے رات کی تاریکی میں جانے کا کہا تو کوئی نہیں گیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بڑا لیڈر کون تھا؟ ہمارا جواب توجو بھی ہوگا سو ہوگا لیکن شیعہ کی اکثریت حسین کوبڑاسمجھ رہی ہے توکلمہ وآذان میں علی کی جگہ حسین کا نام لینا شروع کردیںاورحسینی برہمن کی صف میں شامل ہوجائیں۔ محمدۖ تو حسین کے باپ سے بڑے لیڈر اسلئے تھے کہ رسول اللہۖ نے مدینہ میں رئیس المنافقین کو اپنے ہاتھوں سے دفن کیا اور علی کو کوفہ میں بھی اپنے ہاتھ کے پلے ہوئے خوارج نے شہید کردیا۔ دوسری طرف اپنی دکان چمکانے کیلئے کہہ سکتے ہیں کہ ابوسفیان جب رسول اللہۖ کے سسر تھے تو ان کی بے ادبی اور گستاخی پر ہم کفر کے فتوے لگائیںگے۔ حالانکہ اس سسر کے خلاف صحابہ نے بدر، احدکے معرکے لڑے ہیں جس میں نبیۖ بنفسِ نفیس شریک تھے ۔
علماء کرام و مفتیانِ عظام سے گزارش ہے کہ جب تک آپ کا اپنا مؤقف درست اور مضبوط نہ ہوگا،اس وقت تک اسلام اور مسلمان کو خطرہ لاحق رہے گا۔ شیخ محی الدین ابن عربی نے اپنی کتاب ” فتوحات مکیہ” میں تشریعی اور غیرتشریعی نبوت پر جو بحث کی ہے علماء واکابر کے درجات ،تصوف میں مشاہدے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ نزول کے معاملے میں دلائل دینے ہونگے لیکن جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائیںگے اور نبیۖ کی شریعت پر عمل کرینگے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ علماء کو اپنی شریعت ایجاد کرنے کی اجازت ہوسکتی ہے؟۔ قرآن میں سود کو اللہ اور اسکے رسول ۖ کیساتھ اعلانِ جنگ قرار دیا گیا اور نبیۖ نے 70سے زیادہ گناہوں میں سے کم ازکم گناہ سود کھانے والے کیلئے اپنی ماں سے زنا قرار دیا۔ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی و مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن نے سودی نظام کو جائز قرار دیا ۔ کیا یہ نئی شریعت کی ایجاد نہیں ؟۔ نبیۖ کو بھی یہ حق نہیں تھاکہ اپنی طرف سے کسی چیز کو حلال اور کسی چیز کو حرام قرار دیتے۔ اللہ ہی حرام و حلال قرار دیتا ہے۔ اللہ کے علاوہ اس مقامِ ربوبیت پر پہلے یہود ونصاریٰ کے علماء ومشائخ فائز تھے اور اب ہمارے علماء ومشائخ اور عوام انہی کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں۔
نکاح وطلاق اور نماز ودیگر معامالات کے حوالے سے حلال وحرام ، فرض اور نافرض اور شرعی حدود کے حوالے سے خود ساختہ تقسیم کیا نئی شریعتوں کی ایجاد نہیں؟۔ اجتہاد کا تعلق وقت کے حکمران، قاضی اور جج کا انصاف دلانے میں فیصلے کے حوالہ سے ہے۔ نت نئے مسائل گھڑنے کیلئے نہیں۔ غسل کے فرائض پر ائمہ کا اتفاق نہیں، بے نمازی کو سزا دینے پر اتفاق نہیں لیکن ایک ہی سزا ہے جس پر سب کا اتفاق بتایا جاتا ہے کہ عورت کو ایک ساتھ تین طلاق مرد دے تو حلالہ کی لعنت سے عورت کی عزت لوٹی جائے اور بس!۔ علماء اب بات سمجھ رہے ہیں لیکن کھلم کھلا تائید سے بڑے بڑے کترا رہے ہیں کیونکہ ان کو اپنا کاروبار ٹھپ ہونے کا اندیشہ ہے۔
اگر نبوت کا چالیسواں یا چھیالیسواں حصہ رہاہے اور اس سے مراد تشریعی علوم ہیں اور وہ فرائض اور شرعی حدود ہیں تو پھر تشریعی نبوت کے باقی ہونے کا عقیدہ ہونا چاہیے تھا۔ الہام کے اچھے برے ہونے کا تصور ہے لیکن شریعت مکمل ہوچکی ہے۔ الہامی بنیادوں پر شریعت کا اجراء نہیں ہوسکتا ہے ۔ خلفاء راشدین اور صحابہ کرام نے بے نمازی کیلئے کوئی سزا تجویز نہیں کی اور ائمہ نے قتل، قید، زدوکوب کی سزاؤںسے اپنی اپنی شریعت ایجاد کرلی۔ علماء نے اجتہاد کا دورازہ بند ہونے پر اتفاق کیا تھا لیکن جاویدغامدی اب مزید اپنی رائے سے نئی شریعت ایجاد کررہے ہیں۔ علامہ اقبال کی بات درست ہے کہ ” علماء ومشائخ کا بڑا احسان ہے کہ ان کے ذریعے ہم تک دین پہنچاہے لیکن دین کی شکل اتنی بگاڑ دی گئی کہ رسول اللہ ۖ، جبریل اور اللہ فرمائیں گے کہ یہ وہ دین تو نہیں ہے جس کو ہم پہچان نہیں رہے ہیں”۔

بندر کا مندر اسلام آباد میں! بندے تعصب کی کھاد میں

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

بندر کا مندر اسلام آباد میں! بندے تعصب کی کھاد میں

اداریہ نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جولائی 2020

رسول ۖ کا 10سال تک مشرکین سے صلح حدیبیہ کا معاہدہ 6ھ کو ہوا تھا۔ 10ھ کو نبیۖ کاوصال ہوا۔ابوبکر کا پورا، عمر کا آدھا دور خلافت اسی میں گزرجانا ۔ معاہدہ کی ایک شق یہ تھی کہ اگر مسلم مشرک بنے تو قریش واپس نہیں کرینگے ۔ مشرک مسلم بن جائے تو واپس کیا جائیگا۔ منافقین کا جہنم میں نچلا حصہ ہے۔ کوئی منافق بن کر رہنے کے بجائے مشرک بنتا تودنیاو آخرت کے اعتبار سے فائدہ تھا۔ مسلمان کو کفر پر مجبور کیا جائے تو قرآن میں معاف ہے۔ دوسری شق یہ تھی کہ قریش اور مسلم کے حلیف قبائل کی معاہدے میں پاسداری ہو گی ۔ معاہدہ ٹوٹا اس طرح کہ قریش نے اپنے حلیف قبیلے بنوبکر کی مسلمانوں کے حلیف قبیلے بنو خزاعة کے خلاف مدد کی۔ بنوخزاعة بھی مشرک قبیلہ تھا لیکن مسلمانوں سے اچھے مراسم تھے اور معاہدہ کررکھا تھا۔
خانہ کعبہ کو مشرکوں کے پاس چھوڑنا بڑی بات تھی یا اسلام آباد میں مندر بنانا بڑی بات ہے؟۔ تقسیم ہندکے وقت مولانا ابولکلام آزاد یہ تقریریں کرتاتھا کہ اتنی ساری مساجد ، مدارس، گھر ، شہر اور زمینیں چھوڑ رہے ہو ؟۔ تمہارا ضمیر یہ اجازت دیتا ہے کہ یہ ویران ہوجائیں؟۔ قرآن کے نسخے کس کے رحم و کرم پر چھوڑ رہے ہو؟۔ لیکن کئی مسلمانوں نے پاکستان بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ مساجداور مدارس کو قرآن کے نسخوں سمیت قربان کردیا اور اپنی جان بچاکر چلے آئے۔ ہجرت کا حکم تو خدا نے نہیں دیا تھا،ورنہ دارالعلوم دیوبنداور تبلیغی جماعت کے اکابرین اور مولانا احمد رضا خان بریلوی اپنے خاندانوں سمیت ہجرت کرتے ہوئے پاکستان پہنچ جاتے۔
تبلیغی جماعت کا مرکز رائیونڈ ویران مندر تھا جو حکومت سے الاٹ کروایا۔ کیا مندر کے بدلے بھارت نے تبلیغی جماعت کے بستی نظام الدین مرکز پر قبضہ کیا؟۔ آج بھی بہت ہندو بھارت میں مسلمان ہورہے ہیں۔ شاعرہ لتا حیا ، ہندوپنڈت اسلام و مسلمانوں کی تعریف اور ہندوریٹائرڈ چیف جسٹس ہندوانہ جہالت کی سرِ عام مذمت کرتا ہے۔جس طرح ہندوؤں نے اپنے اصلی مذہب حضرت نوح علیہ السلام کی تعلیمات سے روگردانی کی ہے بالکل اسی طرح سے ہمارا مسلمان طبقہ خاص طور پر شدت پسند مذہبی طبقہ اسلام کی اصلی ظاہری اورباطنی روح سے محروم ہوچکا ہے۔
مولانا نے تعارف کے بغیر ویڈیو وائرل کی کہ ” فوج ہم نے جہاد کیلئے پالی۔ عوام کو غزوۂ ہند کیلئے کہا جاتاہے۔لیکن ہم کیوں جائیں؟، کیا فوج کاروبارکیلئے پال رکھی ہے؟”۔ ویڈیو کو بہت پسند کیا گیا۔ تبلیغی جماعت کا نعیم بٹ کہتا ہے کہ ” نبی ۖ نے یہودی کو زمین دی ۔ حضرت عمر نے کہا کہ نبیۖ نے زمین دی۔ اس وقت ہم کمزور تھے۔ اب ہم طاقتور ہیں اسلئے واپس لے رہا ہوں۔ مجھے یہ معلوم نہیں کہ مسلمان حکومت نے اپنے پیسوں سے کبھی غیرمسلم کو عبادتگاہ بناکردی ہو اور اگر یہ جائز ہے تو مفتی تقی عثمانی سے پوچھ لیں۔ اگر وہ جائز کہیں گے تو ٹھیک ہے۔ حق بات بہرصورت بولنا ایمان کا تقاضہ ہے ۔باقی کوئی عمل کرے یا نہ کرے”۔
تبلیغی نے ویڈیو میں یہودکو نبیۖ کی طرف سے عبادت کیلئے جگہ دینا اور حضرت عمر کی طرف سے واپس لینے کا عنوان بھی فیس بک پر لکھ دیا۔ حالانکہ یہ جھوٹ ہے۔نبیۖ سے مسلمان نے زمین مانگی تھی جو آباد نہیں کررہا تھا۔ اسلامی نظام کا بنیادی مقصد جاگیرداروں کو نہیں کاشتکاروں کو زمینیں دینا ہے۔انگریز نواب ، خان، ایجنٹ جاگیرداروں کو زمین دیتا تھا ۔کانگریس کے منشور میں تھا کہ انگریز کی دی ہوئی جاگیریں بحق سرکار ضبط کی جائیں گی۔ نوابوں ، پیروںاور خانوں نے اپنی زمینوں کو بچانے کیلئے مسلم لیگ کا ساتھ دیا۔ سیاستدان نہیںتھا اسلئے فوج قابض ہوگئی۔
سورۂ مائدہ میں فمن لم یحکم بما انزل اللہ کے بعد فأولئک ھم الکٰفرون، فأولئک ھم الظٰلمون ، فأولئک ھم الفٰسقون کا حکم لگایاگیا ہے۔ علماء ومشائخ کو توراة کے تحفظ کی ذمہ داری سونپ دی گئی تھی ، تھوڑے سے مال کے بدلے دینی احکام میں تحریف سے روکاگیا اور اللہ نے حکم دیا کہ مخلوق سے مت ڈرو، اللہ سے ڈرو۔ جو اللہ کے نازل کردہ پر فیصلہ نہیں کرتا تو وہی لوگ کافر ہیں۔آج ہمارے علماء ومشائخ نے اللہ کی کتاب اور اس میں نازل کردہ احکام کا کیا حال بنارکھاہے؟۔ مفتی تقی عثمانی نے سود کو بھی معاوضہ لیکر جواز بخشاہے۔ کیا حکمران سے اس کا جرم ہلکا ہے؟۔ اگر مفتی تقی عثمانی مندر کو جواز بخشے تو جائز بن جائیگا؟۔ پہلی قوموں نے اپنے علماء ومشائخ کو اپنا رب بناکے رکھا تھا تو انکے حلال کردہ کو حلال ، حرام کردہ کو حرام سمجھتے تھے۔ یہی ان کو رب بنانا ہوا۔ اللہ کے احکام کوبدلنے کا سرغنہ ہردور میں کوئی ایک ایک شیخ الاسلام ہوتا ہے لیکن دوسرے چھوٹے بڑے مولوی اس کی مخالفت کا حق اسلئے ادا نہیں کرتے کہ ان کو اپنے رزق کی فکر لگ جاتی ہے۔ اللہ نے قرآن میں جگہ جگہ اپنے احکام پر فتویٰ نہ دینے والوں کو ہی کافر کہا ہے۔
اللہ نے سورۂ مائدہ میں پھر جان کے بدلے جان، کان کے بدلے کان، ناک کے بدلے ناک ، دانت اور ہاتھ کے بدلے دانت ،ہاتھ اور زخموں کے قصاص کا حکم دیا اور فرمایا کہ جو اللہ کے نازل کردہ پر فیصلہ نہیں کرتا تووہی لوگ ظالم ہیں۔ اس کا تعلق حکمران طبقے سے ہے اسلئے کہ مظلوموں کو انصاف دینا حکمرانوں ہی کا کام ہے ۔اور پھر اللہ نے اہل انجیل کا ذکر کیا کہ جو اللہ کے نازل کردہ پر فیصلہ نہیں کرتا تو وہی لوگ فاسق ہیں۔اس سے مراد عوام ہیں۔ مولوی جب شریعت کو بدلتا ہے تو اس سے دین بگڑ تا ہے اسلئے کافر کا حکم ہے، حکمران کاتعلق عدل سے ہے اسلئے اس پر ظالم کا حکم لگایا ہے۔ عوام نہ دین بدلتے ہیں اور نہ انصاف دے سکتے ہیں اسلئے فاسق کہا گیا۔
قرآن حکیم سے امت مسلمہ نے اجتماعی روگردانی اختیار کررکھی ہے۔ جب علما ومشائخ، حکمران اور عوام الناس حقائق کی طرف متوجہ ہوجائیںتو یہ امت کفر،ظلم اورفسق سے نکل آئے گی۔ ہمارا کام فوج کا دفاع نہیں اسلئے کہ ریاست میں طاقت کا سرچشمہ پاک فوج خود ہے۔ اچھائی اور برائی کا تعلق اسکے اپنے نامۂ اعمال کیساتھ ہے۔ وہ اپنے عمل سے قوم کیلئے محبت اور نفرت کے قابل بن سکتی ہے ۔ مولانا نے جو کشمیر کے حوالے سے پاک فوج کو کھری کھری سنائی ہے ،یہ ایمان کے زیادہ مضبوط ہونے کی علامت ہے ۔ واقعی ملک کا دفاع پاک فوج ہی کا فرض اور ذمہ داری ہے۔ عوام غلیلوں سے بھارت کے پائلٹ ا بھی نندن کو نہیں گراسکتے تھے۔ لیکن مولانا اس وقت انڈے سے نکلے تھے یا نہیں؟۔ جب طالبان دہشتگردوں نے عوام، بازاروں اور مساجد تک کو دھماکوں سے اُڑانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا۔ جب ٹانک ، بنوں اور میرانشاہ میں تبلیغی اجتماع ہوتا تھا تو طالبان جنگ بندی کا اعلان کرتے تھے؟۔ کیا اس وقت بھی مولانا ومفتی صاحبان نے ظالمانہ خود کشوں کیخلاف کوئی فتویٰ جاری کیا اورکوئی بیان دیا۔ مولاناطارق جمیل سے سلیم صافی نے پوچھا تو مولانا نے کہا تھا کہ ہماری منزل ایک ہے مگر راستے جدا جدا ہیں۔ اپنا کام مولانا نے کیا یا نہیں کیاتھا؟۔
جس طرح تبلیغی جماعت مساجد پر قبضہ کرتی ہے ،اسی طرح کا غیرا خلاقی اور انتہائی مفاد پرستانہ رویہ حضرت عمر کی طرف بھی منسوب کیا گیا ہے۔ حضرت عمر نے مولفة القلوب کی زکوٰة کو بھی منسوخ نہیں کیا تھا ، یہ قرآن وسنت اور حضرت عمر کے خلاف گھناؤنی سازش ہے۔ جب حضرت عمر کے دور میں جزیرة العرب میں مشرک اور یہودونصاریٰ کا کوئی وجود بھی نہیں تھا تو مولفة القلوب کی زکوٰة لینے والے کہاں سے آتے؟۔ قرآن وسنت کے واضح اورٹھوس احکام کے خلاف سازشوں کے جال بچھائے گئے۔ زکوٰة کے نام پر پلنے والوں نے انواع واقسام کی کہانیاںبنائی ہیں۔

کان چھدوانا ناجائز دانت تڑوانا جائز ہے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

بچی کے کان چھیدنے کو تخلیق میںمداخلت اور
ناجائز قرار دینے والے نے دانت تڑوا ڈالے

جنرل ضیاء نے سود سے زکوٰة کی کٹوتی شروع کی تو مفتی اعظم مفتی محمود نے انکار کیا۔ اگر 10لاکھ پر1 لاکھ سود ہو۔ 25ہزار زکوٰة کٹے، 75ہزار سود ملے ، اصل رقم محفوظ ہو تو زکوٰة ادا ہوگی؟۔ مفتی تقی عثمانی نے سودی زکوٰة کا فتویٰ دیا اور مدرسہ کیلئے جنرل ضیاء سے مالی مفاد لیا۔ مفتی محمود نے جامعہ بنوری ٹاؤن میں مفتی تقی و مفتی رفیع عثمانی کو چائے پر بلایا مگر دونوں نے انکار کرکیا کہ ہم صبح پیتے ہیں۔ مفتی محمود نے کہا کہ خود زیادہ پیتا ہوںمگر کوئی کم پیئے تو پسند کرتا ہوں۔ مفتی تقی نے کہا کہ حضرت ہمارے ساتھ یہ علت (پان) لگی ہے۔مفتی محمود نے کہا کہ ”یہ تو چائے سے بدتر ہے”۔ مفتی تقی عثمانی نے اصرار کرکے مفتی محمود کو پان کھلایا۔ مفتی محمود نے راکٹ سائنس کے دلائل نہیں دینے تھے مگر غش کھاکر گرے، مفتی رفیع عثمانی نے حلق میں دورۂ قلب کی گولی ڈالی، مفتی محمود جان سے گئے۔تبلیغی جماعت نے سودپر فتویٰ مانامگر رائیونڈ جوڑ پر فتویٰ نہ مانا۔ قرآن کی نہ مانیں تو گرگس کی آذان سے کام نہ چلے گا۔ سورۂ مدثر میں واضح معاملات کا پتہ اس وقت چلے گا جب اسلامی انقلاب برپا ہوگا۔

علماء ومفتیان اور مذہبی طبقے کے عجیب حیلے!!

مُلا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت نادان یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد

جب ہندوستان میں انگریز کا قبضہ تھا تو مولانا اشرف علی تھانوی کہتے تھے کہ مسلمان جب نماز اور عبادات کیلئے آزاد ہیں تو انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کی جہدوجد بیکار ہے۔ جس پر علامہ اقبال نے یہ شعر پڑھاتھا، یہی رویہ بریلوی واہلحدیث علماء کا بھی رہا تھا مگر مولانا تھانوی کے استاذ شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے تحریکِ ریشمی رومال میں بغاوت کردی تھی۔
ایک بڑی عمر کے کم عقل شخص نے جوانوں سے کہا تھا کہ ”میں روزہ توڑنا چاہتا ہوں مگر اس کا کفارہ ادا نہیں کرسکتا۔ تم لوگ مجھے زبردستی پکڑکر کچھ کھلادینا، اس طرح میرا روزہ بھی ٹوٹ جائیگا اور کفارہ ادا نہیں کرنا پڑیگا”۔ حالانکہ ہمارے یہاں کہاوت مشہور ہے کہ” اگر نہیں چلوگے تو اٹھاکر لیجاؤں گا لیکن اگر نہیں کھاؤگے تو پھر میں کیا کرسکتا ہوں”۔ بہرحال اس صاحب کے روزے کو شرارتی لڑکوں نے توڑ کر ایک مذاق کا تماشا بنالیاتھا۔ پہلے علماء ومفتیان نے فتویٰ دیا کہ ”مساجد میں باجماعت نماز پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی ہے”۔ پھر حکومت سے کہا کہ ” ہم تو نمازیوں کو نہیں روک سکتے، البتہ حکومت خود روک لے تو ہم مزاحمت نہیں بلکہ تعاون کرینگے”۔
اللہ واسطے اسلام کا ٹھیکہ چھوڑ دو۔ شوگر مافیا کی طرف سے اربوں کمانے کی جمہوریت میں اور تمہاری طرف سے اسلام کے نام پرتجارت کرنے میں کوئی فرق نہیں۔ تمہارا کام اسلام کی شیخی کرنا نہیں ہے بلکہ انبیاء کرام کے ذمے بھی صرف تبلیغ تھی۔ تم قرآن وسنت نہیں اپنی اجارہ داری کی تبلیغ کرتے ہو۔ مرضی ہو تو فتویٰ دیتے ہو کہ نماز باجماعت ترک نہیں کرسکتے اور مرضی ہو تو فتویٰ دیتے ہو کہ گھروں میں نماز پڑھو۔ یہ دھندہ چھوڑ دو، دنیا میں پیٹ پالنے کیلئے راستے اور بھی ہیں۔ پیٹ پالنے کیلئے دین کو ذریعہ معاش بنانے سے بہتر دنیاوی طریقے ہیں۔ دین کا کام گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والوں کے بس کی بات بالکل بھی نہیں ۔

مفتی تقی عثمانی اور تبلیغی جماعت کے معاملات

اسلام کو توبدل ڈالا۔ وائرس کیخلاف پروپیگنڈہ نہ کرکے عوام کو گمراہ نہیں کریں!

وائرس زائرین اور بیرونِ ملک آمد سے آیا۔ مفتی تقی عثمانی کا فتویٰ تھا کہ باجماعت نماز ، خطبۂ جمعہ کو مختصر کیا جائے مگر ترک نہیں کیا جاسکتا۔ قدیم فقہاء اور جامعہ ازہر ودیگر فتاویٰ ہیں، البتہ اجتماع پر پابندی میں حکومت کا حکم ماننا فرض ہے۔ تبلیغی جماعت رائیونڈ اجتماع سے منع نہ ہوئی۔ بارش نے بھگایا تو پھر بھی جماعتیں شکیل دیں۔ مفتی تقی عثمانی نے تبلیغی کا کورونا سے بچنے کا خواب بھی بتایا کہ رسول اللہۖ نے یہ وظیفہ بتایا تھا جو میڈیا پرخوب نشر کیا گیا تھا۔
نعمان مسجد لسبیلہ کراچی میں تبلیغی جماعت کابعدازمغرب گشت، عشاء کے بعد بیان تھا تو مفتی تقی عثمانی کو عصر کی نماز کے بعد درسِ قرآن سے روکا کہ تم اللہ کی راہ میںرکاوٹ بنے ہو۔ مفتی محمود، جمعیت علماء اسلام و دیگر مدارس کے برعکس مفتی تقی عثمانی نے سودی زکوٰة پر فتویٰ دیا، الائنس موٹرز سے تبلیغی جماعت کا اختلاف تھا تو مفتی تقی عثمانی و مفتی رشید لدھیانوی نے تبلیغی جماعت کیخلاف فتویٰ دیا۔ جب الائنس موٹرز اور حاجی عثمان میں اختلاف ہوا تو مفتی تقی عثمانی نے الائنس موٹرز کا ساتھ دیا۔ پھر مفتی تقی عثمانی نے سود کو اسلامی قرار دیا تو وفاق المدارس کے صدر مفتی تقی عثمانی کے استاذ مولانا سلیم اللہ خان نے مفتی زرولی خان اور دیگر علماء ومفتیان سے مل کر مفتی تقی عثمانی کو تنبیہ کی مگر مفتی تقی عثمانی نے کسی کی نہیں مانی۔ تبلیغی جماعت والے پہلے دو یا تین افراد میں بھی ایک کو امیر مقرر کرتے لیکن پھر امارت کے ہوس نے اکابر کو امیر مقرر کرنے کے شرعی حکم سے دستبردار کروادیا۔ پہلے عالمی امیر سے محروم تھے پھر پاکستانی امیر بھی نہیں رہا۔ اسلئے جب تک کرونا وائرس پھیلانے کے جرم میں گرفتار نہیں ہوئے، کسی کی بھی بات نہ مانی۔
انسان گناہ کی پیٹھ پر سوار ہو تو توبہ کوئی معنیٰ نہیں رکھتا ۔ قرآن کی طرف رجوع نہ کیا جائے تو اس سے بڑی اور کافری کیا ہے؟۔سودی نظام کے جواز سے توبہ کریں۔

مفتی تقی عثمانی کے بدلتے فتوؤں کی حالت!!

پہلے نبیۖ پر سودکھانے کی توقع کا حکم لگایا، نیوتہ کو سودکہا پھربینکنگ پراترآیا!

اللہ نے قرآن میں نبیۖ سے فرمایا: فلا تمنن تستکثر”احسان سے توقع نہ رکھو کہ قوم بھلائی کی تبلیغ کے بدلے زیادہ خیر کا مظاہرہ کریگی”۔ (سورہ ٔالمدثر) فطری بات ہے کہ جزاء الاحسان الا الاحسان” احسان کا بدلہ احسان ہے”۔جب جہالت کا معاشرہ ہوتا ہے تو بھلائی کی تبلیغ لوگوں کو بری لگتی ہے۔ نبیۖ کاتبلیغ کے بدلے خیرکثیر کی توقع فطرت تھی لیکن جاہلوں کی طرف سے غیر فطری ردِ عمل کا اندیشہ بھی تھا جس کو اللہ نے واضح کردیا تھا۔
مفتی تقی عثمانی نے بعض نادان مفسرین کی آراء سے یہ تفسیر کرڈالی کہ یہ سود تھا، نبیۖنے مال دینے کے بدلے نعوذباللہ زیادہ مال حاصل کرنے کی توقع رکھی تو اللہ نے روک دیا۔ مفتی تقی عثمانی نے کراچی میں شادی بیاہ کے موقع پر لفافوں کے لین دین کو بھی سود اور اسکے کم ازکم گناہ کو اپنی ماں کیساتھ زنا کرنے کے برابر قرار دیا۔ مفتی تقی عثمانی کے بہنوئی مفتی عبدالرؤف سکھروی کے وعظ چھپ کر بازار میں بک رہے ہیں۔نیوتہ کی رسم میں لفافے کے لین دین پر سود کا فتویٰ اور اپنی ماں سے زنا کے برابر گناہ قرار دینے والوں نے بینکنگ کے سودی نظام کو معاوضہ لیکر جائز قرار دیا۔ وفاق المدارس کے صدر اور اپنے استاذ مولانا سلیم اللہ خان سمیت کسی بھی دینی مدرسے کے فتوے اور مزاحمت کو خاطر میں نہیں لایا۔ حاجی عثمان پر فتوے لگائے گئے تو مفتی تقی عثمانی نے اپنے سے بڑے علماء ومفتیان اور اساتذہ کیلئے بھی خود کو سرپنچ بنالیا۔
پھراللہ نے عروج دیا: سنستدرجھم من حیث لایعلمون” ہم انکو ایسی ترقی دینگے کہ وہ سمجھیںگے بھی نہیں”۔ سارھقہ صعودا ”عنقریب میں اس کو چڑھا ؤں گا”۔ اس سے مفتی تقی عثمانی اسلام کی نشاة ثانیہ کے وقت مراد ہوسکتاہے۔ روزنامہ مشرق پشاور میں کسی نے کروناوائرس اور چین مراد لیاہے مگر شیخ الاسلام کوبھی اپنی ذات پر غور کرنا چاہیے۔

مفتی تقی عثمانی کے عروج وزوال کی داستان

ہم نے آسمان کو ستاروں سے مزین کیا:اور جب ستارے ٹوٹ جائیں گے

مولانا سید سلمان ندویاور مولانا ابوالکلام آزاد نے تصویر کے جواز کا فتویٰ دیا تومفتی شفیع کی جب کوئی حیثیت نہیں تھی تو دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ نے مضمون چھپوانے کی لالچ دی تو حق بات کو دبانے کی خدمت انجام دی۔ جوہری دھماکہ میں تفصیل سے حقائق موجود ہیں۔
مفتی تقی عثمانی ومفتی رفیع عثمانی کیلئے باپ مفتی شفیع نے دارالعلوم میں ذاتی مکان خریدے تو مفتی رشید احمد لدھیانوی نے اسلئے ناجائز قرار دیا کہ وقف مال خریدنے اور فروخت کرنے کی گنجائش نہیں۔ نیز ایک آدمی بیچنے اور خریدنے والا نہیں ہوسکتا۔ اس پر مفتی رشید لدھیانوی کی پٹائی لگادی، سودی زکوٰة کی کٹوتی پر مفاد حاصل کیا۔ حاجی عثمان کیخلاف الاستفتاء مرتب کرکے علماء ومفتیان کی غلط وکالت کی، دارالعلوم کراچی کی مسجد میں ہمارا چیلنج قبول نہیںکیا اور پھر سود ی بینکنگ کو اسلامی قرار دیا۔ مولانا یوسف لدھیانوی اور مولانا سلیم اللہ خاننے حاجی عثمان کی قبر اور مسجدالٰہیہ آکر درونِ خانہ معافی تلافی کرلی، مفتی تقی ورفیع عثمانی معافی مانگیں۔
ملا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور :کرگس کا جہاں اور شاہین کا جہاں اور

مفتی تقی عثمانی اور حاجی عثمان پر فتوے کامنظر!

منہاج الشریعت، سراج الطریقت ،عروج ملت حضرت حاجی محمد عثمان قدس سرہ

پندرھویں صدی کے مجددحضرت حاجی محمد عثمان ایک طرف تبلیغی جماعت کے بزرگ، علماء کے دلدادہ، اولیاء کے سرخیل تھے تو دوسری طرف خلافت علی منہاج النبوةکی تمنا رکھتے تھے۔ علماء ومفتیان آپ سے بیعت تھے۔ بڑے پیمانے پر فوجی وپولیس افسر اور مدینہ منورہ کے پولیس افسر تک بھی آپ کے حلقہ ارادت میں شامل تھے۔ اہلحدیث حضرات بھی آپ کے مرید تھے۔ جب آپ کے سرمایہ دار مریدوں نے علم بغاوت بلند کیا تو الاستفتاء کے نام سے دارالعلوم کراچی میں وہ الزام لگائے گئے جو عقل کے بھی بالکل منافی تھے۔پھر جب دوسرے علماء ومفتیان نے ہمارے جال میںپھنس کر اکابرین کے خلاف فتویٰ دیا تو دارالعلوم کراچی والے بچ گئے۔ وہ نہ تو فتویٰ کی حمایت اورنہ مخالفت کیلئے تیار تھے۔ ہفت روزہ تکبیر کراچی میں بھی وہ فتویٰ شائع ہوا،جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ سید عتیق الرحمن گیلانی نے یہ استفتاء لکھا ہے جو حاجی عثمان کے مرید خاص ہیں، اس قسم کے عقائد پر پابندی لگائی جائے۔ حالانکہ سب عقائد شیخ عبدالقادر جیلانی، شاہ ولی اللہ ، علامہ یوسف بنوری اور شیخ الحدیث مولانا زکریا کے تھے۔ پھر جب روزنامہ تکبیر کراچی کو اصل صورتحال سے ایک سال بعد آگاہ کیا گیا تو اس میں علماء ومفتیان کو دروغ گوئی سے کام لینے کے بجائے اپنی غلطی تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ ان حالات میں مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن کا کردار مجذوبانہ تھا، مفتی رشیدلدھیانوی کا کردار متشددانہ تھا اور مفتی تقی عثمانی ومفتی رفیع عثمانی کا منافقانہ تھا۔ نکاح کے معاملے پر بھی دوغلہ پن کا فتویٰ دیا تھا، جس کی تفصیلات دیکھ کر دانتوں کے بعد انکی ناک بھی کٹے گی،انشاء اللہ۔ ہمارا کوئی ذاتی عناد نہیں مگر طلاق کے مسئلے پر میرے استاذ مفتی محمد نعیم کے جرأتمند انہ بیان پر بھی مفتی تقی عثمانی اور اسکے حواریوں نے تنقید کا نشانہ بنایاتھا۔ اب جنگ ہوگی۔

علماء و مفتیان اپنی ہٹ دھرمی چھوڑیں

علماء ومفتیان اور مذہبی طبقات کی انتہائی بدترین اور بہت ہی قابلِ رحم حالت

مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمن نے علماء ومفتیان کا بڑا نمائندہ اجلاس طلب کیا اور ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے کیلئے کراچی پریس کلب میں میڈیا کے صحافیوں کے سامنے اپنے انتہائی بھونڈے پن کا مظاہرہ کیا۔ تحریری اعلامیہ مفتی تقی عثمانی نے پڑھ کر سنایا تو اس میں ایک مطالبہ رکھا گیا تھا کہ مساجد سے لاک ڈاؤن کی پابندی ختم کی جائے۔ مفتی منیب الرحمن نے کہا کہ آج سے لاک ڈاؤن ختم ہے۔ صحافی نے کھلے تضاد پر سوال اٹھادیا۔ مفتی تقی عثمانی نے مائک ہاتھ سے مفتی منیب الرحمن کی طرف کردیاتومفتی منیب الرحمن نے اپنی بات دہرادی کہ لاک ڈاؤن آج سے ختم ہے۔ پھر مفتی تقی عثمانی نے سوال کے جواب میں تحریری مطالبہ دہرایا لیکن جب صحافیوں نے ابہام ختم کرنے پر زور دیا تو علماء نے مزید گفتگو سے بھاگ کر جان کی امان پائی۔ پھر شاہ زیب خانزادہ نے کھینچ تان کر بہت اگلوانے کی کوشش کی کہ مفتی منیب کے بیان کی کیا حیثیت ہے؟ مگرمفتی تقی عثمانی نے آخری حد تک ٹال مٹول سے کام لیکر کہا کہ ہمارا حکومت سے معاہدہ ٹوٹ چکا تھا۔ البتہ آئندہ کیلئے ہم بات چیت کیلئے تیار ہیں۔

مفتی منیب الرحمن نے اپنے رویہ کو چھوڑ کر بہت ہی قابلِ تحسین اقدام اٹھایا ہے

جب مشترکہ اعلامیہ کے بعد مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمن ایکدوسرے سے کھلم کھلا تضاد رکھنے کے باوجودصحافیوں کو اطمینان بخش جواب دینے سے کنی کترا رہے تھے تو پھر کسی اور مؤقف پر ان سے واضح مؤقف رکھنے اور عوام کو رہنمائی فراہم کرنے کی کیا توقع رکھی جاسکتی ہے؟۔ افسوس کہ مذہبی طبقات پھر بھی سوشل میڈیا پر انکے دفاع کی خدمت کررہے ہیں۔
قرونِ اولیٰ اور قرون اُخریٰ کے ادوار کا تفصیل سے قرآنی آیات میں ذکر ہے لیکن فرقہ واریت کے رنگ بدلتے ہوئے گرگٹوں نے کبھی اس پر توجہ نہ دی اور آج بھی ان سے توقع نہیں کہ حقائق کو ایمان کے تقاضوں کے مطابق مان لیںگے۔قرآن میں صحابہ کرام کو واضح طورپر رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ کا تمغۂ امتیاز دیا گیا ہے مگر شیعہ سنی کا صحابہ پر اختلاف ہے۔ نبیۖ نے فرمایا: علیکم بسنتی وسنة الخلفاء راشدین المھدیین ” تم پر میری سنت کی اتباع لازم ہے اور خلفاء راشدین مہدیوں کی سنت کی اتباع لازم ہے”۔
جب حضرت ابوبکر ، حضرت عمر ، حضرت عثمان اور حضرت علی کے راشد ومہدی ہونے پرہی شیعہ سنی کا اتفاق نہیں تو آئندہ کے مہدیوں پر کیسے اتفاق ہوسکتا ہے؟۔بس اس بات پر اتفاق ہے کہ دنیا میں امام مہدی تشریف لائیںگے اور ایک عظیم انقلاب برپا ہوگا۔ کیا اس انقلاب کا ذکر بہت واضح انداز میں قرآن کریم میں نہیں ہوسکتا ہے؟۔ ہے اور بالکل واضح طور پر ہے!۔ نبیۖ نے امیر معاویہ کیلئے بھی دعا مانگی تھی کہ ” اے اللہ اس کو ہادی اور مہدی بنادے”۔ مگر اہل تشیع کا مؤقف یہی ہوسکتا ہے کہ یہ دعا قبول نہیں ہوئی تھی۔ جبکہ اہلسنت کے نزد ابوطالب کیلئے نبیۖ نے ہدایت کی دعا مانگی مگر اللہ نے فرمایاانک لاتھدی من احببت ۔ہمیں پہلوں کے بارے میں بحث چھوڑ کر اپنا مستقبل گمراہی سے بچانے کی فکر کرنا ہوگی۔

ڈاکٹر طاہرالقادری اور مفتی رفیع عثمانی بھی حدیث پراب غلطی کا ازالہ کریں

ہمارا ایمان ہے کہ جس طرح قرآن کریم قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی بڑی تعداد کیلئے بھی رشد وہدایت اور مقربین بارگاہ الٰہی کا ذریعہ بن گیا تھا،اس طرح قرون اُخریٰ میں کم تعداد ہی کیلئے سہی مگر مقربین بنانے کا ذریعہ بن جائیگا اور بڑی تعداد میں لوگوں کے رشدو ہدایت کا ذریعہ آخری دور میں بھی بنے گا۔ جسکا سلسلہ اس درمیانہ دور یانصف آخر سے لیکر بالکل آخری دور تک چلتا رہے گا۔ نبی ۖ نے بارہ خلفاء کا ذکر فرمایا جن پر امت نے متفق ہونا ہے۔ علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب ” الحاوی للفتاویٰ” میں اس حدیث کی یہ تشریح لکھ دی کہ ” ابھی تک یہ بارہ خلفاء آئے نہیں ہیں جن پر امت کا اتفاق ہوا ہو”۔ ڈاکٹر طاہر القادری و مفتی رفیع عثمانی نے علامہ جلال الدین سیوطی کی اس کتاب کے حوالہ جات نقل کرکے بہت بڑی خیانت کا مظاہرہ کیا ہے۔ علامہ سیوطی نے لکھا ہے کہ نبیۖ نے فرمایا کہ مہدی کے بعد پھر قحطانی امیر ہوگا۔ ایک روایت میں ہے کہ مہدی چالیس تک رہیں گے۔ پھر قحطانی امیر منصور ہوگا، جسکے دونوں کان میں چھید ہوگا۔ وہ مہدی کی سیرت پر ہوگا۔ پھر نبیۖ کے اہل بیت میں سے آخری امیر ہوگا جو نیک سیرت ہوگا”۔ڈاکٹر طاہرالقادری اورمفتی رفیع عثمانی نے ان روایات کے اندراصلی روایت مہدی اور قحطانی کو چھوڑ کر پھر تشریحی روایت سے صرف آخری امیر کا ذکر لے لیا۔ ہم نے اپنی کتابوں میں مسلسل احتجاج کیا کہ اس خیانت سے اعلانیہ توبہ کی جائے مگر یہ لوگ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ علامہ یوسف بنوری کے شاگرد نے اپنی کتاب میں مہدی کے حوالہ سے بہت تفصیل سے روایات کا ذکر کیاہے جہاں مہدی اور قحطانی امیر منصور کے درمیان بھی کافی واقعات ،انقلابات اور امیر مقرر کرنے کا ذکر ہے مگر پھر ملاعمر سے مہدی و منصوربھی مراد لیا ہے۔ علماء ومفتیان اور دانشور مل بیٹھ کر اچھے نتیجے پر پہنچ جائیں۔

علماء ومفتیان کابدترین تجاہل عارفانہ

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

مفتی منیب الرحمن کا جہالت پر مبنی بیان اور مفتی تقی عثمانی کی بڑی ہٹ دھرمی!

مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن چیئرمین ہلال کمیٹی نے صحافی عامر ضیاء کو”ہم نیوز” پرانٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ عین جنگ کی حالت میں بھی نمازباجماعت پڑھنے کا حکم ہے۔ اگر پاک فوج مفتی صاحب کو اپنے پاس رکھے اور کسی کاروائی میں میدانِ جنگ کے اندر آزمالے اور جب دونوں طرف لاشیں گررہی ہوں اور مفتی صاحب انفرادی نماز پڑھ کر دکھائے۔ عوام بہت غلط سمجھ رہی ہے کہ صحابہ کرام نے عین لڑائی کے وقت بھی باجماعت نماز میں رکوع وسجدہ نہیں چھوڑا۔ پاک فوج کے جوان سمجھتے ہونگے کہ ان کا ایمان مضبوط تھا، ہم ایسا نہیں کرسکتے ہیںلیکن عین لڑائی میں نماز باجماعت کی بات انتہائی لغو اور غلط ہے۔ جنگ خندق میں لڑائی تو شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ خندقیں کھودنے میں بھی کئی نمازیں قضاء ہوگئیں۔ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے خاتون پولیس کو معطل کرنے کا مطالبہ کیا اور لوگوں کے مجمع کو نہیں دیکھا۔ جب مفتی تقی عثمانی نے حکومت کے حکم پر عمل کا کہا اور گھر میں نماز ظہرباجماعت پڑھنے کا فتویٰ دیا توپھر مساجد کے ائمہ کو اپنی جھوٹی حمایت کے نام پر حکومت سے لڑانا بہت غلط ہے۔

 

مولانا فضل الرحمن نے اپنا مؤقف بہتر پیش کیااور اس پیغام کو سمجھنا ضروری ہے!

مولانا فضل الرحمن نے بہت اچھا کیا کہ ہوشیاری سے مؤقف واضح کیا۔ مذہب کیخلاف حکومت کی سازش کامرثیہ پڑھنے کے بجائے کورونا وائرس کو انسانی مسئلہ قرار دیا۔ یہ نہیں فرمایا کہ خاتون پولیس اہلکارنے کچھ غلط کیا بلکہ حکومت کے فیصلے پر نہ صرف بھرپورتعاون کو واضح کیا بلکہ یہاں تک کہا کہ جس طرح مساجد کے ائمہ تعاون کررہے ہیں، اسی طرح سے بازاروں و دیگر مقامات پر بھی لوگوں کو ہماری اقتداء کرنی چاہیے۔ جب ہم فرض باجماعت نمازوں میں عوام کو بھیڑ بنانے سے منع کررہے ہیں تو عوام کو بھی تمام معاملات میں عمل درآمد کرنا چاہیے۔
مولانا فضل الرحمن کو پتہ ہے کہ مساجد میں ان کی ایسی اوقات نہیں کہ وہ فتویٰ جاری کردیں اور مساجد کے ائمہ اور نمازی اس پر عمل کرنا شروع کردیں اسلئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ جب دیگر مقامات سے آپ عوام کی بھیڑ نہیں روک سکتے تو مساجد کے ائمہ پر بھی مقدمات قائم کرنا درست نہیں ہے۔ ہم نہیں کہتے کہ دوسری جگہوں پر بھیڑ ہے تو مساجد میں بھی اجازت ہو بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ جب ہم حکومت کی بات مان رہے ہیں تو عوام کو مان لینی چاہیے۔ البتہ جب ہم تعاون کررہے ہیں تو مساجد کے ائمہ پر مقدمات درج کرنے سے زیادتی کا تأثرہی ابھرے گا۔ خصوصاً سندھ میں ایسا بہت ہوا ۔ ہم اس کو فرقہ وارانہ رنگ نہیں دیتے بلکہ اس میں تمام مذاہب کیساتھ انسانی بنیادوں پر تعاون کررہے ہیں۔ہم اہل تشیع کے امام بارگاہوں اور عیسائی کے گرجوں،ہندوؤں کے مندروں میں اسپرے کرنے گئے۔ البتہ ہماری مساجد دیگر مذاہب کی عبادتگاہوں کی طرح نہیں بلکہ اس میں پنج وقتہ نمازیں ہوتی ہیں۔
مولانا فضل الرحمن مساجد کے ائمہ کا مزاج سمجھتے ہیں اسلئے مفتی تقی عثمانی کے فتوے کا حوالہ نہیں دیامگر حکومت جب تک زبردستی سے کام نہیں لے تو وہ کنٹرول نہیں کرسکتی ہے

 

مولانا فضل الرحمن کو اپنا مؤقف مزید بہتر انداز میں پیش کرنے کی ضرورت ہے

جس طرح حکومت دکان پر پابندی لگانے کے بعد بھیڑ لگانے پر دکاندار کو پکڑنے میں ہی آسانی محسوس کرتی ہے،اسی طرح مساجد میں بھیڑ لگنے پر ائمہ کیخلاف مقدمات بنانے سے ہی معاملات کنٹرول کرسکتی ہے۔ مساجد بھی عبادتگاہوں کے علاوہ دکانیں بھی بن چکی ہیں۔
مولانا فضل الرحمن علماء ومفتیان کے ایک نمائندہ اجلاس میں مجھے بھی شرکت کا موقع دیں تو قرآن وسنت کے بہت سے مسائل میڈیا پر آجائیںگے اور اللہ تعالیٰ عذاب ٹال دے گا۔ مفتی منیب الرحمن نے انتہائی جہالت کا مظاہرہ کیا جس پر دیگر علماء ومفتیان کو گرفت کرنی تھی مگر وہ خود بھی تو اسی طرح سے بے حال ہیں۔جاہلوں کا ایک ہجوم ہے جس نے علماء ومفتیان کا لباس اوڑھ رکھا ہے۔ مساجد کے ائمہ اور مدارس کے مفتیان کا حال حضرت مولانا یوسف لدھیانوی شہید کی کتاب ” عصر حاضر حدیث نبویۖ کے آئینہ میں” میں دیکھ سکتے ہیں جبکہ دوسرے طبقات علماء وحکام اور عوام کے بارے میں بھی انتہائی زبوں حالی بیان کی گئی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورۂ النساء کی آیت102میں حالتِ جنگ میں نماز باجماعت کے اہتمام کا اس طرح سے حکم بالکل بھی نہیں دیا جو مفتی منیب الرحمن نے اپنی جہالت کا مظاہرہ کیاہے بلکہ سفر میں جب خوف کا عالم اور پھر نبیۖ بنفس نفیس موجود ہوں تو خوف کی اس حالت میں نماز باجماعت کا اس طرح سے حکم دیا ہے کہ آدھے نماز پڑھیں اور آدھے اسلحہ لیکر پیچھے سے کھڑ ے ہوںاور سجدوں کے بعد نمازی پیچھے کھڑے ہوجائیں اور محافظ گروہ نبیۖ کیساتھ نماز پڑھے۔ اسلئے کہ کہیںتاک میں بیٹھے کفارحملہ نہ کردیں اور صحابہ رسولۖ کے پیچھے نماز پڑھنے اور حفاظت کا فریضہ انجام دینے میں کسی ایک بات سے بھی محروم نہ ہوجائیں۔ قرآن انسانی فطرت کا ترجمان ہے ۔علماء ومفتیان کو حقائق کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔

 

اللہ تعالیٰ نے سفرکی نماز اور نمازِ خوف کی زبردست وضاحت فرمائی ہے مگر…….

قرآن میں قتال فی سبیل اللہ کے بعد ہجرت فی سبیل اللہ کا ذکر ہے اور پھر زمین میں عام سفر کی حالت کے احکام ہیں۔ یہاں تفصیل کی زیادہ گنجائش نہیں ہے اسلئے مختصر لکھ دیتا ہوں۔
فرمایا:واذا ضربتم فی الارض فلیس علیکم جناح ان تقصروا من الصلوٰة، ان خفتم ان یفتنکم الذین کفروا،ان الکٰفرین کانوا لکم عدوا مبینًاOواذا کنت فیھم فاقمت لھم الصلوٰة فلتقم طائفة منھم معک ولیأخذوا اسلحتھم فاذا سجدوا فلیکونوا من ورائکم،ولتأت طائفة اُخرٰی لم یصلوا فیصلوا معک ولیأخذواحذرھم واسلحتھم ودّ الذین کفروالوتغفلون عن اسلحتکم وامتعتکم فیمیلون میلة واحدة ولاجناح علیکم ان کان بکم اذًی من مطرٍاو کنتم مرضٰی ان تضعوا اسلحتکم وخذوا حذرکم ان اللہ اعدّ للکٰفرین عذابًا مھینًاOفاذا قضیتم الصلوٰة فاذکروا اللہ قےٰمًا وقعودًا و علی جنوبکم فاذااطمأنتم فاقیموا الصلوٰة ،انّ الصلوٰة کانت علی المؤمنین کتٰبًا موقوتًاO ”جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے اوپر کوئی حرج نہیں کہ نماز کو مختصر کرو۔ (یہ سفر کی نمازکاحکم ہے) اگر تمہیں خوف ہو کہ کفار تمہیں آزمائش میں ڈالیںگے، بیشک کفار تمہارے کھلے دشمن ہیں اورجب آپ ان میں موجود ہوں ،تو آپ ان کو نماز پڑھائیں تو ان میں ایک گروہ آپ کے ساتھ ہو اورضرور اپنا ا سلحہ بھی پکڑ کر رکھیں۔ جب سجدہ کرلیں تو آپ کے پیچھے چلے جائیں اور دوسرا گروہ آجائے جس نے نماز نہیں پڑھی تو آپ کیساتھ نماز پڑھے اور بیداری میںچوکنا بنے اور اپنااسلحہ اٹھائے پکڑے رکھے۔ کافروں کی چاہت ہے کہ تمہیں اپنے اسلحے اور سامان سے غافل دیکھ کرایک دفعہ میں آپ لوگوں پر ٹوٹ پڑجائیں۔

 

علماء ومفتیان کو قرآن کی آیت کا متن دیکھ کر سفر اور خوف کی نماز کو سمجھاپڑے گا!

اور تم پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ اگر تمہیں کوئی اذیت ہو بارش سے یا تم مریض ہو کہ تم اپنااسلحہ رکھ لو۔مگر اپنی بیداری برقرار رکھو۔ بیشک اللہ نے کافروں کیلئے رسوا کن عذاب مقرر کررکھا ہے اور جب تم نماز پڑھ چکو تو اللہ کا ذکرکرو کھڑے ہوکراور بیٹھ کر اور اپنی کروٹیں لیتے وقت۔ پھر جب تم اطمینان کی حالت میں آجاؤ تو نماز قائم کرو، بیشک نماز وقت کی پابندی کیساتھ مؤمنوں پر فرض کی گئی ہے”۔ سورہ النساء آیت102،103۔ مفتی منیب الرحمن اچھی طرح دیکھ لے۔
سب سے پہلی بات آیت میں سفر کی نماز کا حکم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” جب زمین پر چل (سفرکر)رہے ہو توتمہارے لئے کوئی حرج نہیں کہ نماز کو مختصر کرو”۔ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ نبیۖ نے سفر میں قصر بھی کیا ہے اور پوری نماز بھی پڑھی ہے۔ قرآن میں بھی دونوں صورتوں کی اجازت ہے۔ جب امام مسافر اور مقتدی مقیم ہوں تو امام مقتدیوں کو پوری نماز پڑھاسکتا ہے لیکن امام مسلکی بنیاد پر اس کو ناجائز سمجھ کر گریز کررہے ہیں۔ حضرت عائشہ کی روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کبھی نبیۖ نے سفر میں اکیلی نماز بھی پڑھی ہے۔
آیت میں پھر خوف کی حالت کا ذکر ہے۔ فرمایا:” اگر تمہیں خوف ہو کہ کافر آزمائش میں ڈال دیںگے ۔ بیشک کافر تمہارے کھلے دشمن ہیں”۔ خطرناک خوف کی حالت میںقصر نماز پڑھنے کا بھی حکم نہیں ہے کیونکہ صحابہ کرام جاہل نہیں عالم باعمل تھے۔ اللہ نے خوف کی صورت میں پہلے ہی حکم واضح کیا تھا کہ ” نمازوں کی حفاظت کرو اور بیچ کی نماز کی اور اللہ کیلئے عاجزی سے کھڑے ہوجاؤ۔ اگر تمہیں خوف ہو تو چلتے چلتے یا سورای پر اللہ کو یاد کرو۔ جب امن میں آؤ توپھر اللہ کو یاد کرو(نماز پڑھو) جس طرح تمہیں سکھایا گیا جو تم پہلے نہیں جانتے تھے”۔البقرہ کی آیات238،239میں حالتِ جنگ نہیں خوف کی حالت میں یہ واضح حکم تھا۔

 

پاک فوج کے سپاہی اورمجاہد ہی حالت جنگ کی صورتحال میں نماز کو سمجھ سکتے ہیں

فرمایا:”اور جب آپ( ۖ) ان میں موجود ہوں تو ان کو نماز پڑھائیں تو ایک گروہ ان میں سے آپ کے ساتھ کھڑا رہے اورضروراپنا اسلحہ بھی اُٹھارکھیں۔ جب یہ سجدہ کرلیں تو آپ کے پیچھے ہوجائیں اور وہ گروہ آجائے جس نے نماز نہیں پڑھی ہے تووہ آپ کے ساتھ نماز پڑھیںاور بیدارو چوکنا رہیں اور اسلحہ پکڑکر رکھیں اور کافرچاہتے ہیں کہ اگر غافل دیکھ لیں تمہارے اسلحہ سے تمہیںاور تمہارے سامان سے تو ایک دم تم پر جھپٹ پڑیں”۔
یہاں اس بات کی بخوبی وضاحت ہے کہ قرآن میں زور اسلحہ پر ہے نماز پر نہیں ہے۔ اگر نبیۖ باجماعت نماز پڑھانا چاہیں تو ایک گروہ کو اسلحہ سمیت چوکنا ہوکر نماز پڑھنے کا حکم ہے اور جب وہ ایک رکعت (سجدوںتک) پڑھ لیں تو پیچھے چلے جائیں اور دوسرا گروہ جس نے نماز نہیں پڑھی ہے وہ لوگ آپۖ کیساتھ نماز پڑھیں لیکن نماز کی حالت میں بھی اسلحہ ساتھ ہی رکھیں اور بالکل چوکنابیدار رہیں۔ اسلئے کہ کافر تاک میں رہتے ہیں اور غفلت پاکر کسی وقت بھی حملہ آور ہوسکتے ہیں۔ آیت میں اسلحہ بہرحال رکھنے کی ترغیب ہی ہے۔چونکہ نماز پڑھنے کیلئے خوف کی حالت میں پیادہ اور سوار ہونے کی گنجائش واضح تھی اور جب سفر میں قصر نماز پڑھنے کی اجازت مل گئی اور پھر خوف کی حالت کا بیان ہوا۔ جس میں پیادہ وسوار ہوکر نماز پڑھنے کی واضح گنجائش ہے اور اس میں باجماعت نماز پڑھنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔
نبیۖ اگر ان میں موجود ہوں اور نماز پڑھانا چاہیں تو احتیاط کا تقاضہ پورا کرنے کیلئے یہ حکم دیا گیا کہ سب نماز میں شریک نہ ہوں اور جو نماز میں شریک ہوں وہ بھی چوکنا ہوں اسلحہ ساتھ رکھیں۔پاک فوج کے سپاہی اور مجاہدین فی سبیل اللہ اس آیت کی اہمیت اور مقاصد سمجھ سکتے ہیں،خیال ہے کہ فقہاء وعلماء اور ملاحضرات ان آیات کو سمجھنا بھی نہیں چاہتے ۔

 

علماء ومفتیان اور شاعروں کو حالت جنگ میں نماز کی کیفیت سمجھ نہیں آسکتی!

فرمایا” اور تم پر کوئی گناہ نہیں کہ اگر تمہیں کوئی تکلیف درپیش ہو ،بارش سے یا بیماری کی وجہ سے کہ آپ لوگ اپنا اسلحہ رکھ لیں اور بیدار وچوکنا رہیں۔ بیشک اللہ نے کافروں کیلئے رسواکن عذاب تیار کرکے رکھا ہے ”۔ چونکہ آیت میں نماز کی حالت میں بھی اسلحہ پکڑکر رکھنے کا حکم ہے تو تکلیف کی صورت میں جب بارش سے یا بیماری کی وجہ سے ہو تو اسلحہ رکھنے کی اجازت دی ۔ مگر پھر بھی بیداری پر زور دیا گیاہے۔ قرآنی آیات کا متن سمجھنے کی سخت ضرورت ہے۔ اسلام جاہلانہ جذبات کا دین نہیں ہے۔ علماء وفقہاء اپنی روٹی کیلئے بھی اللہ پر توکل نہیں کرسکتے ہیں۔ جب کبھی دشمن کے ساتھ عین لڑائی میں نماز کا وقت ہو تو سجدہ کرنا جہالت ہے۔ اسلام کو جنگ کی حالت میں جتنا مجاہد اور فوجی سمجھ سکتا ہے اتنا کوئی ملا اور شاعر نہیں سمجھ سکتا۔ یہ بکواس ہے کہ
آ گیا عین لڑائی میں اگر وقتِ نماز قبلہ روہوکے زمیں بوس ہوئی قوم حجاز
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود ویاز نہ کوئی بندہ رہا اورنہ کوئی بندہ نواز
لڑائی کے وقت صف میں کھڑا ہوکر نماز پڑھی جائے تو واقعی بندہ اور بندہ نواز نہ رہے گا۔ یہ المیہ ہے کہ مدارس کے فارغ التحصیل قابل ہونے کے باجود نالائق صاحبزادگان کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ جدید تعلیم یافتہ سید ابوالاعلیٰ مودودی عالم اورپروفیسر منیب الرحمن مفتی بن گئے تو قرآن وسنت کی تعلیمات کی رہی سہی ساکھ بھی انہوں نے بگاڑ کر رکھ دی۔ جن علماء وفقہاء کے غلط افسانوں کو عوام نہیں سمجھ رہی تھی ،ان لوگوں کی بدولت جدید تعلیم یافتہ طبقہ بھی گمراہ بن گیا۔ اسی طرح تبلیغی جماعت نے اپنی سرسری محنت سے ایمان واسلام کا غلط مفہوم ذہن میں بٹھالیا۔ جب تھوڑی سی مشکل آگئی تو اللہ سے سب کچھ ہونے کے ایمان کا پتہ چل گیا۔ قرآن وایمان کی درست تشریح نہ ہوتو ہمارا لکھا پڑھا ،مولوی اور شاعر طبقہ گمراہ رہے گا۔

 

قرآنی آیات کا درست مفہوم ”ہم نیوز” کی بھی خاص طور پر ذمہ داری بن گئی!

فرمایا:”اورجب تم نماز پڑھ چکو تواللہ کا ذکرکرو کھڑے ہوکراور بیٹھ کر اور اپنے پہلوؤں پر۔پھر جب تم اطمینان کی حالت میں آجاؤ، تو نماز قائم کرو۔ بیشک نماز مؤمنین کیلئے فرض کی گئی ہے وقتوں کے مطابق”۔( النساء آیت103) مفتی منیب الرحمن کا انٹرویو نشر کرنیوالے صحافی ”ہم نیوز” کے عامر ضیاء کا فرض بنتا ہے کہ قرآن کا اصل مؤقف لوگوں کو پہنچادے۔
آیت کا یہ آخری حصہ بھی بالکل واضح کرتا ہے کہ خوف یابارش کی صورت میں اسلحہ رکھنے کی گنجائش تکلیف کی وجہ سے ہے مگر پھر بھی گھمبیر صورتحال میں بہرحال چوکنا رہنے کا حکم ہے۔
ایسی صورت میں نمازِ خوف پیادہ اور سوارہوکر بھی پڑھی جاسکتی ہے اور اشارے کنایہ سے بھی۔ اسلئے اللہ نے فرمایا کہ جب تم نماز پڑھ چکو تو اللہ کا ذکر کرو، کھڑے کھڑے، بیٹھے بیٹھے اور کروٹیں بدلتے ہوئے۔ کیونکہ قیام، رکوع اور سجود کا یہ متبادل عمل ہے۔ پھر جب اطمینان مل جائے تو نماز قائم کرلو۔ اسلئے کہ اللہ نے مؤمنوں پر اوقات کے مطابق فرض کی ہوئی ہے۔
سیدابوالاعلی مودودی بہت ذہین تھے اسلئے آیت کے دوسرے الفاظ پر مختلف مفسرین سے مختلف مواد نکل کیا مگر اس آخری جملے پر بالکل بھی کچھ نہیں لکھا ہے۔ حالانکہ اس بات کی سخت ضرورت تھی کہ جب نماز پڑھ لی تو پھر قیام، قعود اور جنوب پر اللہ کا ذکر کرنے کا مقصد کیا ہے؟ اور اطمینان کے بعد پھر کس طرح نماز قائم کرنے کا حکم دیا جارہاہے۔ قرآن میں کسی تضاد کا تو بالکل سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے لیکن جب مسجد میں پنج وقتہ نماز عبادت کے علاوہ پیٹ پالنے کا بھی ایک واحدذریعہ بن جائے تو علماء ومفتیان اور تبلیغی جماعت ودعوت اسلامی کے کارکن بہت حیران ہونگے کہ نبیۖ و صحابہ کرام سے غزوہ خندق میں نمازیں کیسے قضاء ہوگئیں؟۔ اُمید ہے کہ مفتی منیب الرحمن جہالت سے اعلانیہ توبہ کرنے میں عار نہ سمجھیںگے۔

 

اگر اسلام کا درست مفہوم سمجھ میں آتا تو مذہبی طبقہ ہی کورونا کیلئے بڑا کام کرتا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ولاتقف مالیس لک بہ علم ان السمع والبصروالفواد کل اُلٰئک کان عنہ مسئولًاO”اور ایسی بات پر اپنا مؤقف پیش نہ کرو، جس کا آپ کو علم نہ ہو۔ بیشک کان ، آنکھ اور دل کے بارے میں پوچھا جائے گا”۔ بنی اسرائیل آیت:36
پوری دنیا میں کورونا سے لوگ مررہے ہیں لیکن مذہبی طبقات سمیت جاہل طبقات بکواس کا طبل بجارہے تھے کہ” سازش ہے اور کچھ نہیں”۔ میرے ساتھ ایک بھتیجاتھا توخیبرپختونخواہ کی پولیس کے اہلکار کو سمجھایا کہ لوگوں سے ہاتھ مت ملاؤ۔ اس سے بیماری پھیل سکتی ہے لیکن وہ کہہ رہاتھا کہ یہ کافروں کیلئے ہے جو گندی چیزیں کھا رہے ہیں۔ پھر دوسری مرتبہ دوسرا بھتیجا ساتھ میں تھا اور خیبر پختونخواہ پاک فوج کا سپاہی کہہ رہاتھا کہ ماسک کیوں نہیں پہنے ہیں؟۔ ہم پر احتیاط کرنے کیلئے زور ڈال رہاتھا۔ جب پاک فوج کی طرف سے لاک ڈاؤن پر زور دیا گیا ہے اور وزیراعظم ڈھیلے پن کا مظاہرہ کررہاہے تو پولیس اور فوجی اہلکاروں پر بھی اسکے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اگر تمہیں خوف ہو تو چلتے چلتے اور سواری پربیٹھ کر بھی نماز پڑھ سکتے ہو لیکن جاہل مولوی طبقہ نماز کو خوف کا تریاق بتارہاہو تو یہ علم کا فقدان اور بہت بڑی جاہلیت ہے۔ اگر مساجد کے ائمہ اور مذہبی طبقات میں اسلام وایمان کا درست تصور ہوتا تو کورونا وائرس سے آگاہی کیلئے سب سے زیادہ کام یہی طبقہ آتا لیکن یہ اپنے ساتھ جاہل تعلیم یافتہ عوام کو بھی لے ڈوبے ہیں۔ مفتی منیب الرحمن کہتا ہے کہ یہاں کورونا کی وجہ سے صرف خدشہ ہے مگر حقیقت میں اس کا کوئی وجود نہیںہے۔ جبکہ جنگ کی حالت میں نماز پر حملہ کرنے کا حقیقی اور سوفیصد خطرہ ہوتا ہے اور پھر بھی نماز معاف نہیں ہے۔ میڈیا پر حقائق کی تبلیغ ہوجائے تو بہت کم دنوں میں جلدہی اسلام کا حقیقی چہرہ علماء ومفتیان کو سمجھ بھی آجائے گا۔

علماء و مفتیان کی قرآن فہمی کی تصویر کا دوسرا رُخ اور حقیقت ۔ عتیق گیلانی

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

مُلاؤں نے ایک طرف فرض روزوں پر جس طرح کا حملہ کیا ہے اس کی جھلکیاں تصویر کے پہلے رُخ میں موجود ہیں۔اب ہم سفر کی نماز میں تصویر کا دوسرا رُخ دکھاتے ہیں تاکہ علماء حق اور حق کے طالب عوام الناس کی آنکھیں کھلیں اور قرآن کریم کی طرف اُمت مسلمہ بخوبی متوجہ ہوجائے۔
و اذا ضربتم فی الارض فلیس علیکم جناح ان تقصروامن الصلوٰة ان خفتم ان یفتنکم الذین کفروا ان الکافرین کانوا لکم عدوًا مبیناO و اذا کنت فیہم فاقمت لھم الصلوٰة فلتقم طآئفة منھم معک ولیأخذوا اسلحتھم فاذا سجدوا فلیکونوا من ورائکم ولتأت طآئفة اُخرٰی لم یصلوا فلیصلوا معک ولیاخذوا حذرھم و اسلحتھم ود الذین کفروا لو تغفلون عن اسلحتکم و امتعتکم فیمیلون علیکم میلة واحدة ولا جناح علیکم ان کان بکم اذًی من مطرٍ او کنتم مرضیٰ ان تضعوا اسلحتکم وخذوا حذرکم ان اللہ اعد للکٰفرین عذاب مھیناO فاذا قضیتم الصلوٰة فاذکروااللہ قیٰما و قعودًا و علیٰ جنوبکم فاذا اطماننتم فاقیموا الصلوٰة ان الصلوٰة کانت علی المؤمنین کتٰباً موقوتاًO (آیات ١٠١، ١٠٢، ١٠٣ ، سورة البقرہ)
اور جب تم سفر کرو زمین میں تو تم پر کوئی گناہ نہیں کہ نماز میں سے کچھ کم کرلو۔ اگر تمہیں ڈر ہو کہ فتنہ میں ڈالیں گے وہ لوگ جو کافر ہیں ۔ بیشک کافر تمہارے لئے کھلے دشمن ہیں۔ اور جب آپ ان میں موجود ہوں اور آپ ان کیلئے (باجماعت ) نماز قائم کریں تو ضرور ان میں سے ایک گروہ آپ کے ساتھ کھڑا رہے اور وہ اپنے ہتھیار بھی پاس رکھیں اور جب سجدہ کرلیں تو یہ لوگ آپ کے پیچھے ہوجائیں اور آئے دوسرا گروہ جنہوں نے نماز نہیں پڑھی تو وہ آپ کے ساتھ نماز پڑھیں اور حاضر دماغ رہیں اور اپنا اسلحہ اپنے ساتھ رکھ لیں۔ جو لوگ کافر ہیں وہ چاہتے ہیں کہ اگر تم اپنے اسلحہ اور اپنے سامان سے غافل ہوجاؤ تو ایک دم تم پر حملہ کردیں۔ اور تمہارے اوپر کوئی گناہ نہیں اگر تمہیں بارش کی وجہ سے تکلیف ہو یا تم بیمار ہو کہ اپنا اسلحہ رکھ لو۔ مگر حاضر دماغی سے کام لو۔ بیشک اللہ نے کافروں کیلئے ذلت آمیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔ اور جب تم نماز پوری کرچکو تو اللہ کو یاد کرو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے ہوئے۔ پس جب تمہیں اطمینان ہوجائے تو نماز قائم کرو۔ بیشک نماز مؤمنوں پر مقررہ وقتوں پرفرض ہے۔(النساء 103-102-101)
ان آیات میں سفر کی نماز کا حکم بیان کیا گیا ہے۔ جس میں واضح الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہارے اوپر کوئی حرج نہیں کہ اگر سفر میں نماز میں سے کچھ کم کرو۔ جس کا مطلب آسانی سے ہر کوئی سمجھ سکتا ہے کہ قصر کرنا اللہ نے فرض نہیں قرار دیا ہے بلکہ اس کی اجازت دی ہے۔ علماء کا حال یہ ہے کہ مقتدیوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہوتی ہے اور وہ سب کے سب مسافر نہیں مقیم ہوتے ہیں مگر کوئی امام مسافر ہوتا ہے تو وہ اپنی قصر پڑھ کر فارغ ہوجاتا ہے جسکے بعد مقتدیوں کو اپنی نماز خود پوری کرنی ہوتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ دوسرے مسالک کے نزدیک سفر میں قصر کرنا جائز ہے اور احناف کے نزدیک فرض ہے۔ حالانکہ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے سفر کی حالت میں پوری نماز بھی پڑھی ہے اور قصر بھی پڑھی ہے۔
پھر احناف کا یہ بھی مسئلہ ہے کہ مسافر امام اپنی قصر نماز کے بعد سلام پھیرے گا اور مقیم مقتدی اپنی نماز پوری کریں گے اور بقیہ نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنے کے بجائے خاموش ہی رہیں گے۔ عام طور پر نماز جنازہ اور نماز عید کا طریقہ کار بتایا جاتا ہے مگر مسافر امام کے پیچھے مقیم مقتدیوں کو کسی قسم کی تلقین بھی نہیں ہوتی ہے۔ شاید وہ اس سردردی کا احساس بھی رکھتے ہیں۔ فرض روزوں کو ایک ایک مسکین کا کھانا کھلانے کی بنیاد پر ساقط کرنے والے کیا ہی اچھا کرتے کہ مسافر امام صاحبان قرآنی آیات کو دیکھ کر قصر کے بجائے مقتدیوں کی خاطر پوری ہی نماز پڑھ لیتے۔ اگر ان پر دباؤ پڑ جائے تو دوسرے مسالک پر عمل بھی کرگزریں گے۔
سفر کی نماز کے حوالے سے قرآن میں جہاں قصر کا ذکر ہے وہاں نمازِ خوف کا بھی ذکر ہے۔ نمازِ خوف کیا ہے؟ تو اس کا حکم اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی بیان کردیا ہے۔فرمایا کہ
حٰفظوا علی الصلوٰت و الصلوٰة الوسطیٰ وقوموا للہ قانتینO فان خفتم فرجالاً اورُکباناً فاذا امنتم فاذکروا اللہ کما علمکم مالم تکونوا تعلمونO البقرہ 140-139
نمازوں کی محافظت کرو خاص طور پر بیچ کی نماز کی اور اللہ کے آگے تواضع سے کھڑے ہوجاؤ۔ پھر اگر تمہیں خوف ہو تو پیدل چلتے چلتے پڑھ لو یا سوار ہوکر پڑھ لو۔ پھر جب تم خوف سے امن پالو تو اللہ کو یاد کرو (نماز) جس طرح سے تمہیں سکھایا گیا جو تم نہیں جانتے تھے۔( البقرہ)
ان آیات کے سیاق و سباق میں کسی جنگ کا ماحول نہیں بلکہ جس قسم کا بھی خوف ہو اس میں باقاعدہ سجدہ اور رکوع وغیرہ کے بجائے پیدل یا سوار ہوکر چلتے چلتے نماز کا حکم دیا گیا ہے۔ عام طور پرسفر میں امن کی حالت ہو تو پھر نماز قصر کی گنجائش ہے اور جب خوف کا عالم ہو تو پھر اس کا بیان ہوچکا ہے جس میں قیام رکوع سجود کا تصور نہیں۔
سورہ نساء میں بھی سفر کی نماز میں قصر کے بعد خوف کی نماز کا ذکر ہے جس کا حکم سورہ بقرہ میں پہلے سے واضح تھا۔ پھر سفر کی حالت میں یہ تلقین ہے کہ جب نبی ۖ نماز کے قیام کا اہتمام فرمائیں تو صحابہ دو گروہوں میں تقسیم ہوں۔ ایک گروہ مستقل حفاظت کررہا ہو جس کیلئے اسلحہ اٹھانا ایک فطری بات ہے۔ مگر جو گروہ نبی ۖ کے ساتھ نماز میں شریک ہو تو اس کو بھی حاضر دماغی اور اسلحہ ساتھ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ پھر جب وہ ایک رکعت مکمل کرلیں تو پھر پیچھے ہٹ جائیں اور جنہوں نے نماز نہیں پڑھی ہے وہ نماز میں شریک ہوں۔ جس کیلئے نماز کے اندر بھی حاضر دماغی اور اسلحہ ساتھ رکھنے کی وضاحت ہے۔ کیونکہ کافر تاک میں رہتے تھے کہ موقع ملے اور ایک دم حملہ کردیں۔ ایک ہائی ویلیو سیکیورٹی کا تقاضہ یہی تھا کہ سفر میں بھی پہلے تو باجماعت نماز نہ پڑھی جائے۔ نبی ۖ نے انفرادی نمازیں پڑھی ہیں جبھی تو حضرت عائشہ نے قصر اور غیر قصر کا ذکر کیا ہے۔
اگر نبی ۖ نماز پڑھانے کا فیصلہ کریں تو ساری توجہ آپۖ کی حفاظت پر مرکوز کرنے کیلئے ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ پھر بارش کی وجہ سے اذیت یا مریض ہونے کی حالت میں اسلحہ رکھنے کی بھی اجازت دی گئی ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ جب تم نماز پوری کرچکو تو قیام ، بیٹھنے کی حالت اور لیٹنے کی حالت میں اللہ کا ذکر کرو۔ اسلئے کہ خلاف معمول خوف کی نماز میں قیام و رکوع و سجود کا اہتمام نہیں ہوسکتا ہے۔ پھر یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ جب تم اطمینان کی حالت میں آجاؤ تو معمول کے مطابق نماز کو قائم کرو۔ اسلئے کہ وقت کے مطابق نماز مؤمنوں پر فرض کی گئی ہے۔ یہ آیات لڑائی اور جنگ سے متعلق نہیں کیونکہ یہ خلاف فطرت ہے کہ دشمن قتل و غارت کررہا ہو اور آدمی پھر بھی اس کے سامنے قیام و رکوع اور سجود کا فرض ادا کرے۔
خوف کا کوئی تعین نہیں۔ لٹیروں کا خوف ہو ، بیماری کا خوف ہو، جنگلی جانوروں کا خوف ہو اور کسی قسم کا بھی خوف ہو ، جس میں قیام ، رکوع اور سجود کرتے وقت خدشات بڑھ جائیں ۔ یہ نماز فرض کرنیوالے کی طرف سے وضاحت ہے۔ رسول اللہ ۖ اور صحابہ کرام موجودہ مذہبی لوگوں کی طرح جاہل نہیں تھے کہ بدر و اُحد میں باقاعدگی سے نماز کا اہتمام کرتے اور دشمنوں کو موقع دیتے بلکہ خندق کھودتے وقت بھی نمازیں قضاء ہوئی تھیں جب باقاعدہ جنگ شروع نہیں ہوئی تھی۔ حضرت امام حسین کیلئے بھی جن لوگوں نے کہانیاں گھڑی ہیں وہ قرآنی آیات کو غور سے دیکھیں اور سمجھ کر اپنے مؤقف پر نظر ثانی کریں۔ علامہ اقبال مجاہد نہیں ایک شاعر تھے۔ اسلئے شاعرانہ کلام میں جذبات کی لڑیاں باندھنے کیلئے عین لڑائی میں وقت نماز اور سر بسجود ہونے کی بات کی ہے۔ مفتی منیب الرحمن نے کورونا کے حوالے سے میڈیا پر جو بیان دیا تھا کہ عین لڑائی میں بھی نماز فرض ہے تو یہ اس کی جہالت کی بہت بڑی دلیل ہے۔ خدارا ! علماء کرام اور مفتیان عظام قرآن دیکھ کر عوام کی رہنمائی کریں۔

علماء و مفتیان کی قرآن فہمی کی تصویر کا پہلا رُخ اور حقیقت۔ عتیق گیلانی

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

فرض روزوں کے بارے میں
یا ایھا الذین اٰمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون Oایاما معدودات فمن کان منکم مریضا او علی سفر فعدة من ایام اخر و علی الذین یطیقونہ فدیة طعام مسکین فمن تطوع خیرا فھوا خیر لہ و ان تصوموا خیر لکم ان کنتم تعلمونO١٨٣۔١٨٤
اے ایمان والو! تمہارے اوپر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے ۔ ہوسکتا ہے کہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔ یہ گنتی کے دن ہیں۔ پس جو تم میں کوئی مریض ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرے اور جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہیں تو ان پر فدیہ ہے مسکین کا کھانا اور جو کوئی بھلائی کرے تو یہ اس کیلئے بہتر ہے۔ اور اگر تم روزہ رکھو تو تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم سمجھ رکھتے ہو۔ (آیت 184-183 ، سورة البقرہ۔ )
ان آیات میں روزے فرض کرنے کی وضاحت ہے جس طرح پہلے لوگوں پر روزے فرض کئے گئے تھے۔ فرض کا کوئی متبادل نہیں ہوتا ہے پھر وضاحت ہے کہ تم میں سے کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو تو روزے چھوڑ کر دوسرے دنوں میں رکھ سکتا ہے۔ چونکہ مرض اور سفر کی حالت میں مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے اسلئے روزوں کا متبادل دوسرے دنوں میں قضاء روزے رکھنے کی وضاحت کی گئی ہے۔ حالت سفر یا مرض میں دو قسم کے لوگ ہوسکتے ہیں، غریب اورامیر۔ جو غریب ہیں ان میں فدیہ دینے کی طاقت نہیں ہوتی ہے اور جو امیر ہوتے ہیں ان میں فدیہ دینے کی طاقت ہوتی ہے۔ غریب کو فدیہ دیا جاتا ہے اور امیر فدیہ دیتا ہے۔ سفر یا مرض کی حالت میں اللہ تعالیٰ نے جو رعایت دی ہے تو پھر ضروری نہیں ہے کہ زندگی میں پھر کبھی روزہ رکھنے کا موقع بھی مل جائے اسلئے اللہ نے فدیہ کی طاقت رکھنے والوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ایک روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا بھی کھلائیں اور اگر اس سے زیادہ بھلائی کریں تو پھر یہ ان کیلئے زیادہ بہتر ہے۔ انسان عبادت اور مشقت سے راہ فرار اختیار کرنے میں بہت حیلے بہانے تراشتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ انسان کی نفسیات سے خوب آگاہ ہے۔ اسلئے اس کو جہاں سفر اور مرض کی حالت میں روزے کی رعایت دی ہے وہاں پر اس بات کا بھی اظہار فرمایا ہے کہ اگر تم روزے رکھو تو یہ تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے تاکہ جس سفر اور مرض کی حالت میں انسان کو زیادہ تکلیف نہ ہو تو وہ روزوں سے راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش اور حیلے بہانوں سے بھی باز رہے۔ اسلئے فرمایا کہ اگر تم روزہ رکھ لو یعنی آسان سفر اور معمولی مرض کی حالت میں تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔
علماء نے کمال کج فہمی سے کام لے کر لکھ دیا ہے کہ اس میں اللہ نے سفر اور مرض کی حالت میں روزوں کو مؤخر کردیا ہے لیکن جو لوگ روزہ رکھنے کی عام حالت میں طاقت بھی رکھتے ہیں تو ان کیلئے ایک مسکین کا کھانا کھلانا ہے۔ یہ ان کی کج فہمی ، کم عقلی اور مفاد پرستی میں اندھے پن کی انتہا ہے اور اس کی وجہ سے قرآن فہمی کا بیڑا غرق کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ مزدور اگر اپنی دیہاڑی آٹھ سو یا ہزار روپے لیتا ہو اور ایک سو روپے سے اس کیلئے روزہ معاف ہوسکتا ہو تو پھر وہ ایک سو روپے فدیہ دے کر پانچ سو کا اوور ٹائم کرلے گا۔
قرآن کے تراجم میں غلط بیانی کرکے بہت سے امیر لوگوں کیلئے مُلا کو سو روپے دینے کے بدلے روزہ معاف کیا گیا ہے۔ مُلاؤں کو ہر چیز میں جاگیرداروں و سرمایہ داروں کیلئے رعایت کا پہلو نظر آتا ہے۔ وہ ان پر فدیوں کی بارش کرتے ہیں اور یہ ان کو روزوں میں رعایت فراہم کرتے ہیں۔ قرآن کی ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ٹھوس احکام کو بیان کیا ہے۔ بعضوں نے ان کو منسوخ قرار دیا ۔
اللہ تعالیٰ نے روزوں کے بارے میں ان آیات کے اندر انسانی فطرت اور اسلامی احکام کی زبردست وضاحت اور رہنمائی فرمائی ہے تاکہ سفر اور مرض کی حالت میں آئندہ کے ایام تک روزے مؤخر کرنے کی رعایت بھی پیش نظر ہو اور اس رعایت کا فدیہ بھی ادا کیا جائے اور غلط فائدہ بھی نہ اٹھایا جائے۔ عوام اور مولوی اس کو باربار پڑھیں۔
اللہ تعالیٰ تمام معاملات میں اُمت مسلمہ کو اعتدال اور میانہ روی پر کاربند رکھتا ہے۔ بعض ایسے خبطی قسم کے لوگ بھی ہوتے ہیں جو الفاظ پڑھ کر اس کی غیر فطری منطق سے خود کو بہت مشقت میں ڈال دیتے ہیں۔ اگر یہی آیات ہی ہوتیں تو پھر بعض متشدد اور خبطی قسم کے لوگ بہر صورت روزہ رکھتے اور کہتے کہ بیماری اور سفر کی حالت میں خواہ کتنی زیادہ تکلیف کیوں نہ ہو لیکن جب اللہ نے کہا ہے کہ روزہ رکھنے میں تمہارے لئے زیادہ بہتری ہے تو پھر روزہ ہی رکھنا ہے اور اس قسم کے لوگوں کی جاہل دینداروں میں کمی نہیں۔
اسلئے اللہ تعالیٰ نے اُمت مسلمہ کو اعتدال پر ڈالنے کی روایت اور اپنی سنت پر قائم رہتے ہوئے آگے فرمایا کہ
شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ھدی للناس و بینات من ھدیٰ و الفرقان فمن شھد منکم اشھر فلیصمہ ومن کان مریضا او علیٰ سفر فعدة من ایام اخر یرید اللہ بکم الیسرولا یرید بکم العسر ولتکمل العدة ولتکبروا اللہ علیٰ ما ھداکم و لعلکم تشکرونO ١٨٥
رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن اُتارا گیا ہے۔ لوگوں کی ہدایت کیلئے اور ہدایت کے دلائل کیلئے اور تفریق کیلئے(حق و باطل کے درمیان) ۔ پس جو تم میں سے اس مہینے کو پالے تو وہ روزہ رکھے۔ اور جو کوئی مریض ہو یا سفر میں ہو تو وہ گنتی پوری کرے دوسرے دنوں میں۔ اللہ تعالیٰ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر مشکل نہیں چاہتا ہے اور تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو ۔ اور اللہ کی بڑائی بیان کرو جو اس نے تمہاری رہنمائی کی ہے۔ اور ہوسکتا ہے کہ تم اس پر شکر ادا کرو۔ (کھلی وضاحتوں پر ) آیت 185البقرہ۔
کاش! علماء کرام اور مفتیان عظام قرآن کے متن کی طرف خصوصی توجہ دیں ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اللہ نے جب نہ صرف روزوں کو فرض قرار دیا بلکہ پہلی اُمتوں کی طرح ہم پر فرض قرار دیا تو اس آیت میں فرض کا متبادل کیا فدیہ ہوسکتا ہے؟۔ یا آیت کو منسوخ قرار دیا جاسکتا ہے؟۔
ظاہر ہے کہ حالت سفر یا مرض میں جہاں روزوں کو دوسرے ایام تک مؤخر کرنے کا ذکر ہے وہاں طاقت رکھنے والوں کیلئے فدیہ دینے کا بھی حکم ہے۔ اور اگر ہوسکے تو پھر زیادہ بھلائی کرنے کی بھی ترغیب ہے۔ جس طرح بھلائی کی ترغیب ہے اسی طرح روزہ رکھنے کی بھی ترغیب ہے۔
پھر اگلی آیت میں ایک طرف تو روزہ رکھنے کی پوری ترغیب اور حکم ہے اور جن گدھوں سے خدشہ تھا کہ رعایت سے غلط مراد لیں گے تو ان کی باطل تاویلات کا راستہ روکا گیا ہے اور ساتھ میں اس بات کی بھی وضاحت کی گئی ہے کہ اللہ تمہارے لئے آسانیاں پیدا کرتا ہے مشکلات نہیں۔
پوری دنیا میں چاند ایک ہے اور مشرق و مغرب میں ایک ہی روزہ ہوتا ہے لیکن پاکستان کے علماء و مفتیان نے اپنی شریعت اپنی حکومت کے پلو میں باندھ دی ہے۔ جس کا کھاؤ اس کا گاؤ کی منطق پر عمل کے نتیجے میں دنیا روزہ رکھتی ہے اور ہم رمضان کیلئے ایک ایسے ہلال کمیٹی کے چیئر مین کے محتاج ہوتے ہیں جو کبھی چاہے تو رات 9بجے فیصلہ کر دے کہ چاند نظر نہیں آیا اور چاہے تو 11بجے فیصلہ کردے کہ چاند نظر آگیا ہے۔ ریاست کا تعلق نظام مملکت سے ہی ہوتا ہے۔ اور اسلام کا نظام مملکت پوری دنیا میں جب ایک ہی خلافت ہے تو ریاستوں کو اس دورِ جدید میں الگ الگ روزے رکھنے اور عید منانے کی گنجائش ہے یا نہیں؟۔ غور کرنا چاہیے۔”عصر حاضر” مولانا یوسف لدھیانوی شہید کی کتاب میں لکھا ہے کہ عن انس۔ رفعہ ۔ من اقتراب الساعة ان یریٰ الہلال قبلاً فیقال لیلتین و ان تتخذ المساجد طرقا و ان یظھر موت الفجاء ة…”
قرب قیامت کی ایک نشانی یہ ہے کہ چاند پہلے سے دیکھ لیا جائیگا اور کہا جائیگا کہ یہ دوسری تاریخ کا ہے۔ …
ایک طرف سائنس نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ پہلے سے چاند نظر آتا ہے اور دوسری طرف ہٹ دھرمی کا یہ حال ہے کہ ہر ایک سمجھتا ہے کہ چاند دو دن کا ہے ۔ حالانکہ ایسے چاند کیلئے ہلال کمیٹی اور اس پر خرچے کی ضرورت ہے؟۔

نماز ِخوف (کرونا) قرآن کریم میں

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
:حٰفظوا علی الصلوٰت والصلوة الوسطیٰ وقوموا للہ قٰنتینO فان خفتم فرجالًا او رکبانًا فاذا امنتم فاذکروا اللہ کما علّمکم ما لم تکونوا تعملون
اپنی نمازوں کی حفاظت کرو اور بیچ کی نماز کی اور اللہ کیلئے فرمانبردار بن کر کھڑے رہو۔ پس اگر تمہیں خوف ہو تو پیدل اور سواری پر نماز پڑھو۔ پھر جب امن میں آجاؤ تو نماز پڑھو ، جس طرح تمہیں سکھایا گیا، جو تم نہ جانتے تھے البقرہ :239
آج پوری دنیا پر خوف طاری ہے کہ متعدی مرض ” کرونا وائرس” پھیل سکتا ہے۔ مساجد کے علاوہ سفر اور گھروں میں جب یہ خدشہ ہو کہ رکوع و سجود سے کرونا کے وائرس کا شکار ہوسکتے ہیں تو اللہ نے جہاں نمازوں کی نگہداشت کا خاص طور پر حکم دیا ہے وہاں خوف کی حالت میں پیدل اور سواری پر بھی نماز پڑھنے کی بہت واضح الفاظ میں اجازت دی ہے۔ دنیا سوال اٹھارہی ہے کہ قرآن میں یہ فرمایاگیا کہ انزلنا الکتاب تبیانًا لکل شئی ”اورہم نے کتاب(قرآن) کونازل کیا ہے ہر چیز کو واضح کرنے کیلئے ۔ تو کیا ایسی وبائی مرض کی خوف کی حالت میں نماز کی کوئی کیفیت بیان کی گئی ہے یا نہیں؟۔ تو اللہ نے واضح کیا ہے کہ خوف کی حالت میں نماز پڑھنے کا یہ حکم ہے۔ اگر خوف کے باوجود اس حکم پر عمل نہیں کیا تو پھر یہ اللہ کی نہیں طاغوت کی بندگی ہے۔ یہ آیات حالتِ جنگ کے حوالے سے نہیں بلکہ اس سے آگے پیچھے معاشرتی احکام ہیں۔ نبیۖ فرمایا :وبائی مرض سے ایسے بھاگو، جیسے شیر سے بھاگتے ہو۔ اللہ ہدایت دے ۔

ایک انسان کو بچانا انسانیت کو بچانا ہے

بھارت کی معروف شاعرہ لتا حیا اور ریٹائرڈ چیف جسٹس مرکنڈے ہندوستان میں کروڑوں مسلمانوں کی خاطرگائے کے خلاف انسانیت کیلئے آواز بلند کررہے ہیں ، یہ جذبہ اور قربانی اس قابل ہے کہ پاکستان یہ اعلان کردے کہ ان دونوں کی حق گوئی کے جواب میں آئندہ یہاں کوئی گائے ذبح نہیں ہوگی۔ ایک مباح کام کی وجہ سے ہم ڈیڑھ ارب انسانوں کے دل جیت سکتے ہیں ۔ ایک انسان کو بچانا انسانیت کو بچانا ہے۔

انڈیا کے چیف جسٹس نے بھارتی عوام کے بخئے ادھیڑ دئیے۔ 

میں گائے کو ماتا نہیں مانتا ہوں۔ گائے کو گھوڑے اور کتے سے زیادہ نہیں مانتا،دنیا کھاتی ہے ابھی میں کیرالہ ہوکر آیا ہوں تو میں نے وہاں بیف کھایا۔
چلا رہے ہیں رام مندر ۔ میں آپ کو بتاؤں اصل رامائن جو سنسکرت میں ہے اس میں رام خدا نہیں بلکہ انسان ہے ۔دو ہزار سال کے بعد وہ خدا بن گیا
اندرا گاندھی نے کہا غریبی ہٹاؤ ، آپ پیچھے پیچھے، جیسے چوہے بانسری بجانیوالے کے پیچھے پیچھے۔صحافی کو چمچہ گیری کرنی پڑتی ہے ورنہ نوکری جائیگی۔
انڈیا کے سابق چیف جسٹس مرکنڈے نے کہا کہ سرکار کا دماغ خراب ہوگیا ہے ۔ کس طرح سے یہ چار سال سے Behaveکررہے ہیں حد کردی ہے دنیا میں ہماری ہندوستان کی ناک کٹادی۔ میں امریکہ میں ابھی چھ مہینے رہ کر آیا ہوں ، جون سے دسمبر تک تھا لوگ ہنستے ہیں ہندوستان پر کہ یہ کس طرح کے پاگل لوگ ہیں کہ کسی کو پکڑ کر مار ڈالا ،یہ کہ گائے کاٹ رہا تھا۔ کسی کو کچھ کررہے ہیں پاگل پن کئے جارہے ہیں کئے جارہے ہیں چار سال سے پاگل پن ہوا ہے اس ملک میں۔
ایک صحافی نے سوال کیا کہ گائے کو سب سے بڑا ہوا بنا کر پیش کیا گیا ہے اس وقت۔ جسکے جواب میں ہندوستان کے چیف جسٹس مرکنڈے نے کہا کہ میں نے تو صاف صاف کہہ دیا ہے میں سائنٹیفک آدمی ہوں میں گائے کو ماتا نہیں مانتا ہوں۔ گائے کو گھوڑے اور کتے سے زیادہ نہیں مانتا ہوں، جیسے گھوڑا یا کتا ہے، ویسے گائے ایک جانور ہے۔ اور دنیا کھاتی ہے گائے کا گوشت ، امریکہ کھاتا ہے یورپ کھاتا ہے ، افریقہ ، چائنا، آسٹریلیا ، یہاں تک کہ افغانستان ، پاکستان ، تھائی لینڈ میں بھی، ہندوستان میں بھی، ابھی میں کیرالہ ہوکر آیا ہوں تو میں نے وہاں بیف کھایا۔ کوئی بری چیز نہیں ہے دنیا کھاتی ہے۔ وہ سب برے لوگ ہیں آپ ہی سادھو سنت ہیں؟۔ حد کردی پاگل پن کی۔ آپ میں مگر پگلیٹی بھری ہوئی ہے ماتا ماتا پاگلوں کی طرح چلا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گائے ماتا ہے کیونکہ وہ دودھ دیتی ہے پینے کو۔ تو بھئی بکری بھی دیتی ہے دودھ پینے کو، بھینس بھی دیتی ہے، اونٹ کا بھی پیتے ہیں لوگ دودھ، تبت میں یاک کا پیتے ہیں، وہ سب دیوی دیوتا ہیں؟۔ پاگل پن کی باتیں ہیں۔ بے وقوفی کی باتیں ہیں۔ اب تم گدھے ہو تو بنے رہو گدھا۔ گدھے کا علاج نہیں ہے میرے پاس۔ گائے کو ماتا ماننا او رپوجا کرنا انتہائی بے وقوفی کی بات ہے۔ آپ گائے کو ماتا مانتے ہیں ذرا سوچئے کوئی جانور انسان کی ماتا ہوسکتی ہے؟ دماغ ہے آپکے پاس یا گوبر بھرا ہوا ہے۔ گائے جانور ہے جیسے گھوڑا اور کتا ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ میں نہیں مانتا ہوں۔
صحافی نے کہا کہ اسی طرح کی اظہار رائے کھل کر کرنے کے بعد نصیر الدین شاہ کو پاکستان بھیجنے کی بات کی گئی ہے۔ جسکے جواب میں چیف جسٹس نے کہا کہ اس کو تو بھیج دیا مجھے بھیج کر دکھاؤ اگر ہمت ہو تو، بے وقوفی کی باتیں۔ عقل استعمال کرو یا عقل بالکل کھو گئی تمہاری۔ گائے ماتا ہے گائے دیوی ہے، پاگل پن کی باتیں۔ دنیا کے سامنے اپنا مذاق اڑوارہے ہو لوگ سوچتے ہیں کہ گدھے ہیں ہندوستان میں اور کچھ نہیں۔
صحافی نے کہا کہ ایک پولیس افسر سے زیادہ اہمیت گائے کی نظر آتی ہے ، بلند شہر کا معاملہ جس طرح سے سامنے آیا۔ چیف جسٹس مرکنڈے نے کہا کہ جیسے میں نے کہا اکبر الہ آبادی کا شعر ہے
خبر دیتی ہے تحریک ہواتبدیل موسم
تو اب بد ل رہا ہے زمانہ،
بڑا اچھا جھٹکا پانا ان لوگوں کیلئے بہت ضروری تھا۔ جس پر صحافی نے کہا کہ ہم پورا شعر سننا چاہیں گے آپ سے۔ چیف جسٹس مرکنڈے نے پورا شعر سنایا۔
خبر دیتی ہے تحریک ہواتبدیل موسم
کھلیں گے اور ہی گل زمزمے بلبل کے اور ہوں گے
زیادہ تھے جو اپنے زعم میں وہ سب سے کم ہوں گے
زمزمے کا مطلب ہے گیت اور زعم کا مطلب گھمنڈ، تو چار سال سے یہ لوگ زعم میں تھے ان کا دماغ خراب ہوگیا تھا۔ پاگل پن کئے جارہے ہیں کئے جارہے ہیں کئے جارہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ رام مندر بننے سے کیا بیروز گاری ختم ہوجائے گی ؟ child malnutrition ختم ہوجائے گا؟، farmers distressختم ہوجائے گا؟ یہ سب الیکشن کیلئے ہے چونکہ چناؤ آرہا ہے۔ اسی لئے چلا رہے ہیں رام مندر رام مندر۔ میں آپ کو بتاؤں اصل رامائن جو سنسکرت میں ہے اس میں رام خدا نہیں ہے بلکہ انسان ہے۔۔۔ دو ہزار سال کے بعد وہ خدا بن گیا۔۔۔آپ کسی سنسکرت کے اسکالر سے پوچھ لیں۔ تو جب وہ انسان ہے تو اس کا عبادتخانہ کیوں بنارہے ہو؟۔
عبادتخانہ تو دیوی دیوتا کا بنایا جاتا ہے انسانوں کا تھوڑی بنایا جاتا ہے۔ لوگوں نے اصل رامائن پڑھا نہیں کیونکہ آپ لوگ پڑھے لکھے لوگ تو ہیں نہیں۔ ادھر اُدھر ہوا میں تیر ماردیا کہیں۔ جو بھگوان ہے ہی نہیں تو اس کا مندر کیا بنارہے ہو؟ ۔۔۔
آپ لوگ پروفیسر ہیں اس یونیورسٹی کے میں آپ کا ایک ٹیسٹ لے لیتا ہوں بہت بڑے پروفیسر بن کے آئے ہیں نا آپ ۔ ابھی ٹیسٹ لے لیتا ہوں۔ آپ کی بیٹی اگر کسی دلت (اچھوت) سے شادی کرنا چاہے گی آپ راضی ہوں گے؟۔ کبھی نہیں ہونگے۔ قتل کردیں گے اس کا۔ دلت (اچھوت) لڑکا اگر غیر اچھوت لڑکی سے شادی کرنا چاہے تو وہ اپنی موت کو دعوت دے رہا ہے۔ قتل ہوجائے گا آپ کی پروفیسری سب رہ جائے گی جب آپ کی لڑکی کہے گی کہ اچھوٹ لڑکے سے شادی کرنی ہے۔ آپ یہ نہ سمجھئے کہ بڑے پی ایچ ڈی لئے ہوئے ہیں کوٹ اور ٹائی پہنی ہے تو بڑے تعلیم یافتہ ہیں۔ میں آپ کو تعلیم یافتہ نہیں مانتا ہوں کیونکہ آپ میں بھی کوڑا بھرا ہوا ہے نسل پرستی بھری ہوئی ہے۔ سر میں گوبر بھرا ہے آپ کے بھی معاف کرئے گا۔ یہ آپ کا ٹیسٹ ہے کہ اگر آپ میں نسل پرستی بھری ہے کہ نہیں؟۔ ننانوے فیصد پروفیسرز کے سر میں یہ نسل پرستی بھری ہے۔ لڑکی گھر چھوڑ کر بھاگ جائے تو یہ الگ بات ہے مگر آپ اجازت کبھی نہیں دیں گے۔ کیونکہ آپ دلت (اچھوت) کو نیچ مانتے ہیں۔
آج بھی 71سال ہوگئے ہیں آزادی کے مگر ابھی تک دلت کو نیچ کا خطاب دیا جاتا ہے۔ تم بڑے پسماندہ ملک میں ہو۔ ۔۔۔ آپ کے میڈیا کے جو مالک ہیں یہ بزنس مین ہیں اور بزنس مین گورنمنٹ کو ناراض نہیں کرنا چاہتا ہے، کیونکہ ناراض کیا تو گورنمنٹ بیس طریقے سے ناراض کرسکتی ہے۔ انکم ٹیکس نوٹس اور پلیوشن نوٹس ، یہ نوٹس وہ نوٹس تو مالک نہیں چاہیں گے گورنمنٹ کو پریشان کرنا۔ تو چمچہ گیری کریں گے گورنمنٹ کی۔ تو لہٰذا آپ کو بھی چمچہ بننا پڑے گا۔ چمچہ نہیں بنو گے تو آپ کی نوکری گئی۔ بہت بڑے آپ سینہ تان کے آئے ہیں جرنلسٹ اور زیادہ آپ نے بک بک کیا تو مالک آپ کو نوکری سے نکال دے گا۔ آپ کے بھی بیوی بچے ہیں نا ان کو کھلانا ہے آپ کو۔ کیا کھلاؤ گے اگر نوکری چلی گئی؟۔
معاف کیجئے گا میں میڈیا کے صرف چند افراد کی عزت کرتا ہوں دو چار ہیں ۔ ان کے علاوہ میں میڈیا کی عزت نہیں کرتا کیونکہ سب بکے ہوئے ہیں۔ ٹی وی تو میں نے دیکھنا چھوڑ دیا ہے۔ کیا بکواس چل رہی ہے۔ ایک وہ لارڈ تھے بھاؤ بھاؤ ان کا نام رکھا ہے میں نے آپ سمجھ سکتے ہیں وہ کون ہیں۔ تو یہ میڈیا والے کیسے چمچہ گیری کرتے ہیں اب بی جے پی پاور میں آئی تو بی جے پی کی چمچہ گری ہورہی ہے اگر وہ الیکشن ہار گئی تو یہی جرنلسٹ جو پاور میں آئے گا اس کی چمچہ گیری شروع کردیں گے۔ تو بھیا بہت بہت شکریہ نمستے ! ایک دو کو چھوڑ کر میرے دل میں کسی کی عزت نہیں ہے۔تم سب بکے ہوئے ہو۔ میں میڈیا کے بارے میں بات ہی نہیں کرنا چاہتا ہوں۔ بہت دکھ ہوتا ہے جو میڈیا کو کرنا چاہیے ۔ ۔۔۔
آپ کسی ٹھگ کو چن لیں سب ٹھگ بیٹھے ہیں جو آپ کو بہت پیار اٹھگ لے اس کو ووٹ دے دو۔ میں تو نہیں دوں گا ووٹ کیونکہ مجھے سب ٹھگ لگتے ہیں۔ معذت میں اس بکواس کام کا حصہ نہیں بنتا چاہتا ۔ آپ بنئے ہم کیا آپ کو رائے دیں۔
آپ کو ٹھگ پیارے ہیں ۔ جیسے وہ اندرا گاندھی نے کہا غریبی ہٹاؤ اور آپ پیچھے پیچھے، جیسے چوہے بانسری بجانے والے کے پیچھے پیچھے، اندرا گاندھی کو دھڑادھڑ ووٹ مل گئے اور وہ جیت گئی۔ پھر مودی آئے انہوں نے کہا بگاڑ بگاڑ وکاس وکاس ، لو بھی تمہاری نوکریاں تو چلی گئی ہیں جو تھیں وہ بھی چلی گئی ہیں یہ وکاس ہوگیا ہے۔
انا ہزارے آئے ایمانداری ایماندداری کرکے چیف منسٹر ہوگئے لو بھیا ایمانداری۔ اب ہم کیا تم کو سمجھائیں ؟ تم کو عقل نہیں ہے یا گوبر بھرا ہے ۔ اس کا میرے پاس علاج نہیں ہے۔ مجھے پارلیمنٹری ڈیموکریسی پر بھروسہ ہی نہیں ہے تو نوٹا یا پوٹا ا س کے کوئی معنی نہیں۔

حاجی عبد الوہاب ؒ دو دفعہ مرکرزندہ ہوئے تیسری مرتبہ نہیں بچے گا:ڈاکٹر مفتی مولانا منظور مینگل

جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کے سابق معروف استاذ ڈاکٹر مولانا مفتی منظور مینگل علماء دیوبند کے مناظر اسلام ہیں۔ تبلیغی جماعت پاکستان کے امیر حاجی عبدالوہاب ؒ وفات پاگئے تو ان کا درد بھرا تعزیتی خطاب منظر عام پر آیا مگر اسکے ساتھ ایک سابقہ بیان بھی سوشل میڈیا پر توجہ کا مرکز ہے۔ مولانا منظور مینگل نے کہا کہ ’’ تبلیغی بھائی کہتے ہیں کہ حاجی عبدالوہاب صاحب دو مرتبہ فوت ہوگئے لیکن اللہ نے واپس اسے دنیا میں بھیجا۔ مولانا منظور مینگل نے ہنستے ہوئے کہا کہ اب وہ نہیں بچ سکے گا۔ ایک مجلس میں حاجی عبدالوہاب صاحب کی موجودگی میں ایک تبلیغی نے کہااور اس وقت میں خودبھی اس مجلس میں موجود تھا کہ حاجی عبدالوہاب فوت ہوگئے، فرشتوں نے پوچھا کہ من ربک ، ما دینک، من نبیک ( تیرارب کون ہے؟۔تیرا دین کیا ہے؟ ، تیرا نبی کون ہے؟) حاجی عبدالوہاب نے کہا کہ یہ کونسی جگہ ہے اور مجھے یہ کہاں لیکر آئے ہو؟۔ فرشتوں نے کہا کہ یہ جنت البقیع ہے۔ حاجی عبدالوہاب نے کہا کہ مولاناالیاس کاندہلوی، حضرت جی مولانا یوسف، حضرت جی مولانا انعام الحسن صاحب کہاں ہیں؟۔ فرشتوں نے کہا کہ وہ بستی نظام الدین میں ہیں۔ حاجی عبدالوہاب نے کہا کہ مجھے وہاں لے جاؤ یا ان حضرات کو میرے پاس لاؤ۔ فرشتے لاجواب ہوگئے اور اللہ نے کہا کہ حاجی عبدالوہاب کو واپس بھیج دو۔اسطرح دو مرتبہ اللہ نے مرنے کے بعد حاجی عبدالوہاب کو واپس دنیا میں بھیجا۔ وہ یہ بات کررہا تھا کہ بخاری شریف میں ایک صحابیؓ کے بارے میں بھی ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوگیا تھا۔ جب وہ کمرے سے باہر آیا تو میں نے کہاکہ وہ صحابی فوت نہیں ہوا تھا بلکہ بیہوش ہوا تھا۔ جسکا نام جبلؓ تھا اور جب وہ بیہوش ہوا تو اس کی بہنیں اور گھر کے افراد نے رونا مچایا کہ واہ جبلا، واہ جبلا، واہ ملجا، واہ مأویٰ ۔ جب ہوش میں آیا تو کہا کہ فرشتے مجھ پر ہنس رہے تھے کہ چار پانچ فٹ کا بھی کوئی پہاڑ ہوتا ہے میرا نام جبل کیوں رکھا؟، مجھے فرشتوں کے سامنے شرمندگی ہوئی۔ بخاری کا واقعہ موت کے بعد زندہ ہونے کا نہیں ۔ قرآن میں ہے کہ موت کے بعد کوئی زندہ نہیں ہوسکتا ‘‘۔ مولانا منظورمینگل کی پوری ویڈیو ضرور دیکھ لیجئے گا۔
ایک نیندہے جس میں انسان پر ایک چھوٹی سی موت طاری ہوجاتی ہے، سونے سے پہلے اور نیند سے اٹھ جانے کے بعد مسنون دعا میں اس کو موت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جس طرح نیند کی حالت میں آدمی خواب دیکھتا ہے تو اسی طرح بیہوشی کی حالت میں مشاہدہ بھی دیکھ لیتا ہے۔
یہ ممکن ہے کہ صحابیؓ نے مشاہدہ دیکھا ہو، حضرت حاجی عبدالوہاب ؒ نے بھی مشاہدہ دیکھا ہو۔خواب اور مشاہدہ اسلئے اللہ تعالیٰ دکھاتا ہے کہ اس سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ کیا کرنا چاہیے۔ نبیﷺ نے قیس کا نام عبدالرشیدؓ رکھا اور کافی صحابہؓ کے نام بدل دئیے۔ معاذ بن جبلؓ اور حضرت ابوبکرؓ بن ابی قحافہؓ کے والد زیادہ عمر والے تھے اسلئے نام نہ بدلا ہوگا۔ حاجی عبدالوہابؒ کا مشاہدہ بھی درست ہوگا کہ حدیث میں ہے کہ المرء مع من احب (آدمی جس سے محبت کرتاہے، اسی کیساتھ ہوگا) ۔جس دن تبلیغی جماعت کے سابق امیر مولاناانعام الحسنؒ کے بیٹے کا انتقال ہوا تھا تو مولانا طارق جمیل نے مولانا الیاس ؒ کے پڑپوتے کیلئے دعا کی کہ اب ذمہ داری کا بوجھ اکیلے مولانا سعد کے کاندھے پر پڑگیا، اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرمائے۔ مولانا انعام الحسنؒ کو مشورہ دیا گیا کہ حضرت ابوبکرؓ کی طرح اپنے بعد کسی کو امیر بنالیں۔ حاجی عبدالوہاب کی رائے تھی کہ مولانا سعد کو امیر بنایا جائے، مولانا سعید خان کا مشورہ تھا کہ مولانا زبیر کو امیر بناؤ۔ اتفاق نہ ہوا تو ایک فیصل کو اختیار دیا مگر مولانا سعد نے کہا کہ مجھے امیرنہ بناؤ ، مولانا زبیر کے ساتھی کٹ جائیں گے، مولانا زبیر نے کہا کہ مجھے امیر نہ بناؤ، مولانا سعد کے حامی کٹ جائیں گے۔ فیصل نے تین افراد کو ذمہ داری کا بوجھ سونپ دیا۔ ایک پہلے فوت ہوگئے، پھر مولانا زبیرنے وفات پائی تو مولانا سعد پر ذمہ داری کا بوجھ آیا۔
حاجی عبدالوہاب نے پریشر پر شوریٰ کا تقرر کیاجس کو مولانا سعد نے مسترد کیا۔ اب دونوں گروپوں میں بحث ہے کہ اسلامی نظام امارت ہے یا پھر شورائی ہے؟۔ شوریٰ والے کہتے ہیں کہ مولانا سعد پر کسی نے محبت یا بغض میں حملہ کردیا یہ فیصلہ نہیں ہوسکا۔ مارپیٹ کے بعد پولیس کوحوالہ کیا گیا اور مولانا سعد کی سیکورٹی مقرر کی گئی۔ پہلے دعوت چلتی تھی پھر ماحول بدل گیا اسلئے اکابرؒ نے اصلاح کی کوششوں کے بعد بستی نظام الدین کو چھوڑ کر الگ مرکز قائم کیا۔ مولانا سعد والے کہتے ہیں کہ مولانا سعد نے مرکز میں کھانے کے خاص دسترخوان اور جماعت کے پیسوں سے بیرون ملک سفر پر پابندی لگائی جو کا م کا بنیادی اصول تھا اور یہ برداشت نہ ہوا اسلئے الگ ہوگئے۔ مدرسہ کڑمہ جنوبی وزیرستان سے بھگانے کیلئے رائیونڈ کے فاضل مولانا شاہ حسین پر تبلیغی کارکن نے قاتلانہ حملہ کیا تھا۔
پھر مولانا شاہ حسین نے ٹانک کے قریب جنڈولہ روڈ پر مدرسہ بنایا ، جسکا نام مدرسہ حسنین رکھ دیا۔ تبلیغی جماعت نے اسکے خلاف پروپیگنڈہ کرکے نام بدلنے پر مجبور کیا کہ یہ شیعہ نام ہے، حالانکہ مولانا طارق جمیل کے مدرسے کا نام بھی حسنین ہے۔ مولانا شاہ حسین کی تشکیل فیصل آباد کی ایک مسجد میں ہوئی تھی، پڑوسی رائیونڈ سے پتہ کرکے آیا تھا اور ساتھ میں کلہاڑی کا لوہا واسکٹ کی جیب میں چھپایا تھا، اور اسکا دستہ ہاتھ میں تھا۔ کلہاڑی سے سرپر وارکردیا اور مولانا نور محمد شہید کے بھائی مولانا نیاز محمد نے بچایا ۔اس نے پہلے ہی مینٹل( پاگل) ہونے کا سرٹیفکیٹ بھی بنایا تھا۔
حاجی عبدالوہاب صاحب کو مشاہدہ میں بتایا گیاہوگا کہ تیرا قبلہ قرآن وسنت اور حرمین شریفین نہیں بستی نظام الدین ہے اور ان اکابرینؒ کو منہ دکھانا ہے جسکے مولاناسعد کیخلاف سازشوں کے بدترین جال بچھائے گئے ہیں۔
بانیانِ تبلیغی جماعت کا مقصد کسی نئے گروہ کا اضافہ نہیں بلکہ قرآن وسنت کا احیاء تھا، تبلیغی حاجی عثمانؒ کی قدر کرتے تو تفریق وانتشار اور اس طرح سازشوں کا شکار نہ ہوتے۔ کراچی کے اکابرعلماء دیوبند عام بسوں میں سفر کرتے تھے اور پھر حاجی عثمانؒ کے مریدوں کی الائنس موٹرز کے ایجنٹ اور گاڑیوں کے مالک بن گئے تو پیری مریدی کو منافع بخش کاروبار سمجھ کر اختیار کیا۔ طلبہ غریب ہوتے ہیں، مریدوں میں بڑے مرغے ہاتھ لگتے ہیں۔ اُمت کے دیانتدار علماء و مشائخ اور تبلیغی کارکن مل بیٹھ کر قرآن وسنت کے فطری احکام کو پروان چڑھائیں تو سب کا زبردست بھلا ہوگا۔
جامعہ بنوری ٹاؤن کے پرنسپل ڈاکٹر حبیب اللہ مختارنے مسلمان نوجوان کا اردو ترجمہ کیا، تو ان کو درس قرآن اور تبلیغی کارکنوں کے تنازعہ پر کرایہ کے غنڈوں سے شہید کروایا گیا۔ مولانا یوسف لدھیانویؒ نے عصر حاضر میں جو عالمگیر فتنے کی حدیث کا ذکر کیا تھا تو وہ بھی شہید کئے گئے۔ دونوں کتابیں مسلمان نوجوان اور عصر حاضر مارکیٹ سے غائب کردی گئیں ۔ ایک اعلیٰ تحقیقاتی کمیٹی بنائی جائے۔