پوسٹ تلاش کریں

پاکستان میں پانی کے بحران کا ہنگامی بنیاد پر آسان حل

kalabagh-dam-tharparkar-karachi-rivers-of-pakistan-bhains-colony-karachi-Jam-Kando-Karachi

مدیر مسؤل نوشتۂ دیوار نادرشاہ نے کہا چیف جسٹس ثاقب نثارنے پانی کا مسئلہ تو اٹھادیا، اسکے حل کیلئے معروضی حقائق سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سندھ کویہ خوف ہے کہ پنجاب کالاباغ ڈیم سے صحراؤں کو آباد کرکے سندھ کو پانی سے محروم کریگا اسلئے اسے زندگی موت کا مسئلہ قرار دیتے ہیں۔ غیراسلامی جاگیرداری نظام ختم کیا جائے، صوبہ سندھ میں دریا کے مختلف مقامات پر رکاوٹیں کھڑی کی جائیں، جس سے پانی دریامیں رُکے۔گھوٹکی سے ٹھٹھہ تک مختلف مقامات پر چھوٹے بڑے ڈیم بنائیں اور کراچی وتھرپارکر کیلئے خصوصًا اور سندھ کی باقی آبادی کیلئے بالعموم نہری نظام بنائیں ، یہ آسان اور سستا ہے۔ پہاڑی ومیدانی علاقے کے بچے ندی نالوں میں رکاوٹیں کھڑی کرکے پانی کی سطح بلندکرتے ہیں، جب پانی نہ ہو تو یہ پانی پینے اور مویشی کے کام آتاہے۔ ندی یا پہاڑیوں سے پتھر اٹھا کر لوہے کے جال سے سہارا دیا جائے۔ دریا میں ہمہ وقت وافر پانی کی گنجائش ہے اوراسکا فائدہ اُٹھایاجائے تو زمین کے اندر بھی پانی کی سطح بلند اور کھاری کی جگہ میٹھا پانی آجائیگا اور چھوٹے ڈیموں پر بجلی کے منصوبے بھی لگ سکتے ہیں۔ بحریہ ٹاؤن کی زمینوں پر سرکاری محکموں سے مل کر قبضہ کیا جارہاہے ۔کراچی کا پانی بھی چھین لیا۔اگر حیدر آباد کراچی کی راہ میں ڈیم بنا تو ملیراور لیاری ندیاں پانی سے مالامال ہوں گی۔
کراچی میں جہاں بارش کے پانی سے ذخیرہ بناکر زیرِ زمین پانی کا بندوبست کیا جاتا تھا اسکا راستہ بند کردیا گیا۔ جس کی ایک مثال بھینس کالونی موڑ سے آگے جام کنڈو راستہ میں سورتی کمپنی کے پاس خشک ندی ہے۔ جب سندھ وکراچی کو بڑی مقدار میں پانی ملے تو کالاباغ ڈیم، دریائے سندھ اور باقی دریاؤں سے پانی کے ذخائر کا موقع ملے گا۔ پانی وبجلی کا محکمہ وفاقی ہے ،وفاق سندھ سے ابتداء کرے تو مسائل کے حل میں مشکل کا سامنا نہ ہوگا۔ بلوچستان تربت بلیدی میں MPA نے سرکاری فنڈز سے بارش کے پانی سے کئی ڈیم بنائے، علاقہ سرسبزوشاداب کردیا جو قابلِ تقلیدتھا مگر ہماری سیاست، صحافت ریاست ، عدالت کے دھندے اور لگن جدا ہیں ۔ سندھ کبھی کربلا،کبھی طوفان نوح کا منظر پیش کرتاہے مگر وفاق کو صرف پنجاب کی فکر اسلئے ہے کہ مریم نواز اور ن لیگیوں نے صحرائیں خرید لی ہیں۔ کراچی میں پانی کے مسئلہ پر بلاول بھٹو پر لیاری میں پتھراؤ ہوا، سیاستدان یہ اڑا رہے ہیں کہ رینجرز نے پانی کا مسئلہ بنایا ہے، زرعی زمین کے کنوؤں سے بھی میٹھا پانی ٹینکروں کو نہیں اٹھانے دیا جارہا ہے ۔ ایسا تو یزید ، چنگیز ، فرعون اور نمرود نے بھی نہ کیا ۔ درندوں کا پیٹ بھرتا ہے مگر حکمران کا پیسے سے نہیں ۔

Nadir-Shah-Map-River

پاکستان میں سب سے اہم مسئلہ پانی کا ہے مگر ارباب اختیار کی توجہ نہیں۔ پبلشر نوشتۂ دیوار اشرف میمن

pervez-musharraf-kala-bagh-dam-pakistan-kishanganga-dam-inauguration-by-India-violation-jam-kando-bhains-colony-karachi-establishment-of-pakistan
پنجاب میں فیکٹریوں کی آلودہ پانی سے موذی امراض پھیل رہے ہیں۔ پشاور میں کارخانو مارکیٹ کا متعفن پانی حیات آباد جیسے علاقے میں بدترین آلودگی پھیلارہا ہے۔ بلوچستان ، سندھ اور کراچی میں پانی کا بحران ہے ۔ جنوبی افریقہ کے ترقی یافتہ علاقہ کیپ ٹاؤن میں پانی کی قلت سے ایک بڑا بحران پیدا ہوا۔ پاکستان کے پاس ایک ماہ کا ذخیرہ کرنے سے زیادہ پانی نہیں ۔ سیاست اور حکومت پر قبضہ کرنے کے خواہشمند تاجر اور کھلاڑی قیادت کو احساس نہیں ہے کہ آنیوالے وقت میں پاکستان کھنڈر بن جائیگا۔
عبوری حکومت اپنی کابینہ میں ٹیکنوکریٹ شامل کرکے پانی کا مسئلہ ترجیحی بنیادوں پر حل کرے۔ پرویز مشرف کی ڈکٹیٹر شپ نے خواتین کی اضافی نشستیں رکھی ہیں تو آج مذہبی اور سیاسی جماعتیں خواتین کو ٹکٹیں دینے کی بات کر رہی ہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں کالا باغ ڈیم بن جاتا تو آج پانی کا مسئلہ پیش نہ ہوتا۔ بھارت بار بار شرارت کی داستان رقم کررہا ہے مگر ہم اتنی ہمت نہیں کرسکتے کہ اسکے پانی کے ڈیم کو ایک میزائل ماردیں۔ پورا پنجاب بھارت نے بنجر کردیا ہے اور کشمیر پر مظالم و غاصبانہ قبضے کے باوجود امریکہ کے ساتھ ملکر پاکستان کیخلاف سازش کررہا ہے۔
ہماری ریاست اتنی کمزور ہے کہ اپنے ہاں بھی ہم ڈیم نہیں بناسکتے۔ کالاباغ ڈیم تمام چھوٹے بڑے ڈیموں کی ماں ہے۔ کالاباغ ڈیم کے بغیر سندھ کو آباد کرنا ممکن نہیں ہے۔ اگر اصحاب اقتدار کے پاس دل و دماغ ہوتا اور اس میں قوم و ملک کیلئے مثبت سوچ کی گنجائش ہوتی تو نہ صرف کالاباغ ڈیم بنتا بلکہ اٹک سے ٹھٹھہ تک پورے دریائے سندھ میں ڈیم کی شکل میں پانی جمع کیا جاسکتا تھا۔ سازشی عناصر بلیک میلنگ اور قومی خزانہ لوٹنے کے چکر میں رہتے ہیں۔ ملک و قوم اور عوام کیلئے کوئی کام نہیں کرتے۔
گاؤں دیہاتوں میں جہاں پانی ذخیرہ کرنے کی عوام کو ضرورت ہوتی ہے تو چھوٹے چھوٹے نالوں میں بھی پانی کو ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ تحصیل ، ضلع اور ڈویژن کی سطح پر بھی دریائے سندھ کے پانی کو ذخیرہ کرنے کا اہتمام ہوتا تو طوفانوں کا پانی ضائع ہونے کے بجائے غریب عوام کو کام آتا۔ بڑی حقیقت کو ایک چھوٹی سی مثال سے سمجھنے کی کوشش کی جائے تو بھی ایک لائحہ عمل تیار کیا جاسکتا ہے۔
کراچی بھینس کالونی موڑ سے آگے نیشنل ہائی وے پر رینجرز کی چوکی سے جام کنڈو کی طرف ایک روڈ جاتا ہے ، جس پر صورتی کمپنی کے قریب ایک پل بنا ہوا ہے ، جسکے نیچے پانی کے بہاؤ کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس پل کا مقصد بارش کے پانی کو روکنا تھا۔ اس ذخیرے سے آس پاس کے کنوؤں میں پانی بھر جاتا تھا۔ اب تو سندھ سرکار نے پتہ نہیں کس سے کیا کھایا اور کیا پیا کہ بارش کا پانی بند ہوا ۔
ڈیرہ اسماعیل خان سے دریا خان تک میلوں کچا علاقہ ہے جس میں خشکی کے دور میں پانی کا بہت بڑا ذخیرہ بنایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح پنجاب اور سندھ کے تمام اضلاع میں پانی کے ذخائر بنائے جائیں تو بھی فی الفور اور بڑے پیمانے پرپانی کے بحران سے پاکستان کی بچت ہوسکتی ہے لیکن سیاستدان غل غپاڑے والے کام کرتے ہیں ۔ خود تو منرل واٹر پر گزارہ کرتے ہیں اور غریبوں کی کوئی فکر نہیں رکھتے۔ بال بچے ، گھر بار ، جائیداد اور بینک بیلنس سب ہی دیارِ غیر میں رکھے ہیں یہاں صرف لیڈری چمکانے ہی کی خواہش ہے۔ دھڑلے سے جھوٹ بول کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں۔ آئین کے دفعہ 62، 63میں صادق و امین اوراچھے کردار کی شرط ہے۔ مریم نواز کو اپنے باپ نواز شریف کے سر کی قسم ہو کہ وہ عوام سے مخاطب ہو اور کہے کہ ’’پارلیمنٹ میں نواز شریف سے جھوٹ فرشتوں نے اگلوایا تھا ، نواز شریف کی روح پر خلائی مخلوق کا قبضہ تھا ورنہ اتنی بیوقوف اور پاگل تو میں بھی نہیں تھی کہ سرِ عام اس طرح اپنی جائیدادوں کا اعترافِ جرم کرتی‘‘ ۔
عمران خان کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ عدالتوں سے اس نے نواز شریف کو نا اہل کروادیا۔ ساتھ ساتھ جہانگیر ترین بھی نا اہل ہوا ہے اور اگر کسی نے سیتا وائٹ کا کیس لاکر عمران خان کو چیلنج کردیا تو عمران خان بھی نا اہل ہوگا۔ یہ نا اہلی کی تلوار نواز شریف ، جہانگیر ترین کے بعد عمران خان اور پتہ نہیں کس کس کے اوپر چل سکتی ہے اور چلنی چاہیے۔ آنیوالے وقت میں عدلیہ نے سب کے ساتھ برابری کی بنیاد پر یکساں سلوک کرنا ہے۔ عمران خان نے پختونخواہ میں چیف منسٹر کیلئے منظور آفریدی کی منظوری اسلئے دی تھی کہ وہ ایوب آفریدی کے بھائی ہیں جس نے حال ہی میں سینٹ کے الیکشن میں تحریک انصاف کو خرید لیا تھا۔ جب عمران خان کو پتہ چلا کہ منظور آفریدی کی تصویر مولانا فضل الرحمن کے ساتھ بھی ہے تو اسکو مسترد کردیا۔ یہ کونسا اخلاقی پیمانہ ہے کہ وزیر اعلیٰ بننے سے پہلے عمران خان سے منظور آفریدی کی ملاقات کرانے میں شرم محسوس نہیں کی گئی؟۔
غیر جانبدار الیکشن کیلئے ایسے افراد کا انتخاب ضروری ہوتا ہے کہ ان کو پتہ بھی نہ ہو اور فریقین اس پر اعتماد کرلیں لیکن پاکستان میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں ۔ جب آئین میں یہ لکھا ہے کہ اپوزیشن لیڈر اور وزیراعلیٰ دونوں کا اتفاق ضروری ہے تو پھر پارٹی قیادت کا اس میں کردار بالکل آئین کے منافی ہے۔ انصاف کا تقاضہ یہ تھا کہ جس طرح الطاف حسین کی قیادت کو متحدہ قومی موومنٹ سے الگ کردیا گیا اسی طرح دیگر قیادتیں بھی پارٹیوں پر اختیار کھودیتیں ۔ جمہوریت کا بنیادی تقاضہ یہ ہوتا ہے کہ قائد کوئی ڈکٹیٹر نہ ہو ، جبکہ یہاں قیادتوں کی ڈکٹیٹر شپ ہی کو جمہوریت کا نام دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے چیئر مین سینٹ صادق سنجرانی کی مذمت اسلئے کی کہ جس طرح شاہد خاقان عباسی نواز شریف کے حکم کا ایک ادنیٰ غلام ہے اسی طرح صادق سنجرانی کو بھی ہونا چاہیے۔
جمہوریت کا بنیادی تقاضہ یہ ہے کہ پارٹی پر قیادت کا راج نہ ہو بلکہ کارکنوں اور رہنماؤں کا راج چلے۔ مغرب کی جمہوریت میں عوام اور پارٹی کے کارکنوں و رہنماؤں کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ یہاں ذو الفقار علی بھٹو کے لے پالک، جنرل ضیاء الحق کے گودی بچے اور ایمپائر کی تلاش میں اپنی دُم سر پر باندھ کر یہ دکھانے والے کہ خفیہ ہاتھ ہمارے ساتھ ہے اپنی کٹھ پتلی قیادت کا ایک تماشہ ہیں۔
پاکستان کی ریاست سول و ملٹری بیوروکریسی کا فرض بنتا ہے کہ پانی کے معاملے کو سنجیدہ لیں ۔ کشمیر کی آزادی کا تمغہ سیاسی بیانات سے حاصل نہ ہوگا۔ جب مذہبی بنیاد پر ہم اپنے ہاں ایک معاشرتی تبدیلی لائیں گے تو بھارت کو نہ صرف کشمیر سے دستبردار ہونا ہوگا بلکہ بھارت کے تمام مسلمانوں میں بھی بیداری کی لہر دوڑے گی اور ہندو اپنے مذہب کی صداقت کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوگا۔
اسلام جبر و اکراہ کا مذہب نہیں بلکہ ایک فطری دین ہے۔ ذات پات ، قوم و نسل ، رنگ زبان اور ہرطرح کے تعصبات سے ماورا ہے۔ پاکستان کی بقاء اسلام میں ہے اور بھارت کی بقاء سیکولر ازم میں ہے ۔ ہمارا مثبت رویہ ہی ہماری بقاء کی ضمانت ہے۔ امریکہ ، بھارت اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ پاکستان کیلئے تباہی کا منصوبہ ہے لیکن اللہ تعالیٰ ہم پر اپنا فضل فرمائیگا۔ اسلام کے خدو خال خاندانی وموروثی سیاسی و مذہبی قیادتوں نے تباہ کئے ہیں۔ جہاں کہیں سے بھی روشنی کی کرنیں میسر ہوں ان کو جلد سے جلد عوام تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ پنجاب، بلوچستان پختونخواہ، سندھ ، کراچی ، کشمیر ، گلگت و بلتستان اور افغانستان کے عوام میں ایمان کی شمع روشن کرنے کی دیر ہے اور اس کیلئے سب سے بڑا ذریعہ قرآن و سنت ہے۔ علم کے ذریعے سے اپنا دین زندہ ہوگا اور دین زندہ ہونے سے ہمارے ایمان کی بھی آبیاری ہوگی۔ جنرل راحیل شریف کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاک فوج کے ذریعے ملک میں امن قائم کیا اور فوج نے پہلے سب سے بڑی غلطی یہ کی تھی کہ نواز شریف کو جنم دیا تھا۔ اب اس کا ازالہ بھی فوج کا کام ہے۔

پاکستان میں ترقی کا خواب طبقاتی تقسیم کے بغیر ہی پورا ہوسکتا ہے: فاروق شیخ

ghq-islamabad-pindi-lahore-queta-jnral-hamid-gul-khalid-bin-waleed-gulbadeen-hikmat-yar-masood-azhar-hafiz-saeed-maleer-kund-keti-bandar-bait-ul-muqaddas-hazrat-ibrahim

نوشتۂ دیوار کے مدیر مسؤل فاروق شیخ نے کہا ہے کہ جب غباروں میں ہوا ہوتی ہے تو ان کو ایک جگہ اکھٹا کرنا مشکل ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ آپس میں لڑو مت ورنہ تمہاری ہوا اُکھڑ جائے گی۔ پاکستان کی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ طبقاتی کشمکش سے نکل کر اتحاد و اتفاق اور وحدت و یکجہتی کے ساتھ سب ملکر کام کریں۔ ہمارے اخبار میں بعض اوقات بلکہ اکثر و بیشتر سخت جملوں کا استعمال ہوتا ہے۔ منتشر قوم کی منتشر ذہنیت کا علاج اسی میں ہے کہ اس کے مختلف طبقات میں غباروں کی طرح بھری ہوئی ہوا کو نکال دیا جائے۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بتوں کو توڑا ، اور ان کیلئے آگ تیار کی گئی پھر جھولے سے آگ کے اندر پھینکنے کی تیاری کررہے تھے تو فرشتوں نے اللہ سے کہا کہ کیا ہم مدد کرسکتے ہیں؟ ۔ اللہ نے فرمایا کہ بالکل ! ۔ فرشتوں نے مدد کرنا چاہی تو حضرت ابراہیم ؑ نے ان کی مدد لینے سے انکار کیا۔ پھر جب آگ میں جھونکے گئے تو اللہ نے خود ہی آگ کو کہا کہ ’’اے آگ ابراہیم پر سلامتی والی ٹھنڈی ہوجا‘‘۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اس آگ کی آزمائش سے بچنے کیلئے اللہ کی بارگاہ میں بھی ہاتھ نہیں اٹھائے۔ پھر جب ایک بادشاہ کی طرف سے حضرت سارہؓ کی عزت کا معاملہ پیش آیا تو خوب اللہ کی بارگاہ میں گڑگڑائے ۔
اس دعا کی برکت سے حضرت سارہؓ کی عزت بھی محفوظ رہی اور حضرت ہاجرہؓ بھی مل گئیں جن سے حضرت اسماعیل ؑ اور پھر پیغمبر کائنات رحمۃ للعالمین ﷺ پیدا ہوئے اور حضرت ابراہیم ؑ واسماعیل ؑ نے بیت اللہ کی تعمیر کے وقت نبی کائنات آخری پیغمبر ﷺ کیلئے دعا کی تھی۔ مشرکین مکہ کی جہالتوں سے نبی ﷺ کو مکہ سے ہجرت کرنی پڑی۔ معراج میں نبی ﷺ نے مکہ سے مسجد اقصیٰ اور عرش کا سفر براق پر کیا تھا مگر مدینہ ہجرت پر آپ ﷺ نے غار ثور اور بڑی مشکلوں سے سفر طے کیا۔ دین میں عقیدت ہے منطق نہیں ورنہ اُمت اس بات سے متذبذب ہوجاتی کہ ہجرت کے وقت اللہ نے براق کیوں نہیں بھیجا؟۔
علماء کرام اور مشائخ عظام نے اپنی قدامت پسندی سے دین اسلام کی خوب حفاظت کی ۔ سائنسی آیات پہلے متشابہات تھے اور اب قرآن سائنسی بنیاد پر بھی ثابت ہورہا ہے ۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسلام کے احکام اجنبی بنتے چلے گئے ہیں۔ جس کیلئے قرآن و سنت کی طرف رجوع کی ضرورت ہے۔ اداریہ اور صفحہ 3پر جو علمی مضمون لکھا گیا ہے اس کو تمام مکاتب فکر کے جید علماء کرام اور مفتیان عظام اچھی طرح سے پرکھ لیں۔ انشاء اللہ ان کی طرف سے خوب داد ملے گی ۔ باقی مضامین میں بھی یہ کوشش کی گئی ہے کہ پاکستان سے ایک ایسے انقلاب کا آغازہو جس میں طبقاتی تقسیم کے بجائے ترقی و عروج کی سمت سفر کیا جائے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے گمراہ کن پروپیگنڈے سے عوام کے اندر تعصبات کی ایسی فضاء بن سکتی ہے جو نسلوں کیلئے تباہ کن ہوگی۔ ہماری کوشش ہے کہ میانہ روی ، اعتدال اور صراط مستقیم کی نشاندہی کردی جائے۔ ہم ہر نماز کی ہر رکعت کی سورہ فاتحہ میں کہتے ہیں کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کیلئے ہیں لیکن پھر تعصبات کا شکار ہوکر کسی ایک طبقے کی تعریف کرنے لگ جاتے ہیں۔ پھر اس کو رحمن اور رحیم قرار دیتے ہیں لیکن خود کو بے رحم اور غضبناک ہی ثابت کرتے ہیں۔ اللہ کو قیامت کے دن کا مالک کہتے ہیں مگر دنیا ہی پر مرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اللہ تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں تو ہمیں صراط مستقیم کی ہدایت عطا فرما ۔ لیکن صراط مستقیم کی بجائے افراط و تفریط اور کسی مخصوص طبقے کی وکالت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس سے بڑی گمراہی کیا ہے کہ قرآن کو مانیں مگر قرآن کی نہ مانیں؟۔
قرآن کہتا ہے کہ ان الذین اٰمنوا و الذین ھادوا و النصاریٰ و الصابئین من اٰمن باللہ و الیوم اٰخر و عمل صالحاً فلھم اجرھم عند ربھم ولا خوف علیھم ولاھم یحزنون (البقرہ:62)’’بے شک جو لوگ مسلمان ہیں ، یہود ہیں ، عیسائی ہیں اور صابئین (حضرت نوح علیہ السلام کے اُمتی ہندو) ہیں جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے تو ان کیلئے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے ۔ اور ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ حزن والے ہوں گے ‘‘۔ ہمارا یہ مسئلہ ہے کہ دوسرے مذاہب سے قرآن کے مطابق تعصبات نہ رکھنے کی تلقین پر یقین بھی نہیں ہے اور اپنے ہاں بھی سابقہ اُمتوں کے نقش قدم پر چل کر تفرقوں کا شکار ہیں۔ حالانکہ ان کی مذمت اسی متعصبانہ ذہنیت کی وجہ سے ہوئی تھی کہ وہ کہتے تھے کہ لن یدخل الجنۃ الا من کان ھوداً او نصاریٰ تلک امانیھم ۔۔۔ومن اظلم ممن منع مساجد اللہ ان یذکر فیھا اسمہ وسعیٰ کی خرابھا اولئک ماکان لھم ان یدکلوھا الا خائفین لھم فی الدنیا خزی ولھم فی الاٰخرۃ عذاب عظیم
آج مسلمان درج بالا آیات کے مصداق بن گئے ہیں ۔ مساجد میں بھی دہشتگردی کی وجہ سے خوفزدہ ہوکر داخل ہوتے ہیں ۔ مختلف موضوعات پر ہمارے اخبار نوشتۂ دیوار اور سید عتیق الرحمن گیلانی کی ویڈیوزzarbehaq.comاور zarbehaq.tvپر دیکھئے ۔ اخبار کے اس خصوصی شمارے میں بھی جو مضامین ہیں وہ دیکھنے کے قابل ہیں۔

بھٹو، مفتی محمود، مودودی، نورانی، ولی خان، غوث بزنجو اگر مزارعین کو مفت زمین دیتے تو انقلاب آچکا ہوتا

zulfiqar-bhuto-mufti-mehmood-moulana-moudodi-molana-noorani-wali-khan-ghous-baksh-baznjo-muzaareen-ko-muft-zameen-dete-to-inqalab-aa-chuka-hota

سیاسی قائدین اور رہنما بکتے نہیں تھکتے مگر ان کو پتہ نہیں کہ نظریہ کیا ہے؟۔ کارل مارکس کی کتاب ’’کیپٹل داس‘‘ نے بڑا انقلاب برپا کردیا ۔ اس میں ’’قدر زاید‘‘ کی بات ہے۔ ایک مزدور جتنی محنت کرے اور کسی باصلاحیت ڈاکٹر، کمپیوٹر اسپشلسٹ اورکاریگر وغیرہ میں صلاحیت ہوتی ہے ، ان میں یہ شعور اجاگر کرنا کہ تمہاری محنت و صلاحیت کا فائدہ سرمایہ دار اٹھالیتاہے اور تمہارے ساتھ یہ بڑا ظلم ہے۔ مثلاًٹھیکدار بلڈنگ ٹھیکہ پر لیکر 10کروڑ لگا کر ایک کروڑ کمائے ۔ مزدور اور کاریگروں کو سمجھایا جائے کہ اس نے پیسوں سے تمہاراحق چھین لیاتو اس سے بچنے کا علاج مُلا نہیں بتاتا ہے۔وہ پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری دینے کی بات کرے لیکن سرمایہ دار نے جو رقم وصول کرلی، اس کو جائز کہتا ہے۔ سود صرف قرض میں نہیں بلکہ نقد میں بھی ہے۔ محنت کش و باصلاحیت عوام کو دنیا میں سرمایہ داروں نے غلام بنایا۔ آزادی کیلئے کمیونسٹ اور سوشلسٹ نظام کو سمجھنا پڑیگا۔ جب سب کچھ سرکاری ہوگا تو محنت کش کو درست صلہ ملے گا، دنیا میں امن وسکون قائم ہوگا اور انسانیت کی بھلائی کے سب کام ہونگے۔ بڑے مخلص لوگ اس نظریہ کیلئے خود کو وقف کردیتے تھے۔
پیپلزپارٹی کے رہنما اور ملک کی سیاست کا بڑا اثاثہ قمرزمان کائرہ نے کہا کہ ’’ ہمارے ہاں جب تک بڑی بڑی گاڑیوں میں نہیں جاؤگے تو سائیکل ، موٹر سائیکل اور بیل پر سوار ہوکر جاؤگے توپھر کوئی بھی ووٹ نہ دیگا‘‘۔پہلی مرتبہ بینظیر بھٹو خود ساختہ جلاوطنی کے بعد آئی تھی تو لینڈ کروزر متعارف کرایا تھا، اسلئے عوام نے 1988ء کے الیکشن میں جتوا دیا تھا۔ حبیب جالب نے بھی گایا : ’’ ڈرتے ہیں بندوق والے اِک نہتی لڑکی سے ‘‘۔ پھر ISIنے نوازشریف و دیگر میں رقوم بانٹ کر1990ء میں اسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت قائم کی۔ نوازشریف اور شہبازشریف نے ڈٹ کر پیسہ کمایا۔ کرپشن پر برطرفی ہوئی۔1993ء میں پھر پیپلزپارٹی آئی۔ لندن فلیٹ و منی لاندرنگ کی کہانی اسوقت سے چل رہی ہے۔ رحمن ملک فرشتہ کو پتہ تھا کہ مریم نواز کے نام پر سعودیہ اور دوبئی کی پراپرٹی بھیج کر فلیٹ خرید لیں گے۔ نوازشریف پارلیمنٹ کی تقریر میں کہے گا کہ 2006ءکو فلیٹ خریدے گئے اور 2011ءمیں مریم نواز جیو نیوز ثناء بچہ کے پروگرام میں کہے گی کہ’’ میری کوئی جائیداد نہیں ، اپنے والد کے پاس رہتی ہوں ، پتہ نہیں میری اور میرے بھائیوں کی کہاں سے یہ لوگ جائیداد نکال کر لائے ‘‘۔ جبکہ حسین نواز کہے گا کہ الحمدللہ لندن کے فلیٹ میرے ہیں ، اپنا کاروبار کرتاہوں، میری والدہ کے نام پر بھی بیرون ملک جائیداد ہے اور اس کا حساب میں میڈیا پر نہیں عدالت کو جاکر بتادوں گا۔ (میڈیا ریکارڈ)
لاہور میں 10لاکھ کی جگہ پر تحریک انصاف کے علیم خان اور سپیکر ایاز صادق کے درمیان الیکشن ہوا تو 50،50کروڑکی رقم لگائی گئی اور جہانگیر ترین نے ایک ارب روپیہ لگادیا۔ اب یہ سوچ پیدا ہوگئی کہ تحریکِ انصاف کے عمران خان ہیلی کاپٹر کے ذریعے جلسوں میں جائیگا اسلئے الیکشن میں اسی کو مزہ آئیگا۔اس کو جلدی بھی اسی لئے ہے۔ جسکے پاس پیسہ خرچ کرنے والوں کی اکثریت ہوتی ہے وہی الیکشن جیت جاتی ہے۔ پیسہ خرچ کرنے والا غریب اور نظریاتی نہیں بلکہ استحصالی طبقہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں سیاست کو تجارت بنالیاگیا۔ اسٹیبلشمنٹ بھی پیسوں کیلئے چھوٹے بڑے پیمانے پر بک جاتی ہے۔ جہاں سے پیسہ ملتاہے انہی کو سپورٹ کیا جاتاہے۔ کاروبارِ مملکت کے بڑے حصے کو سول وملٹری اسٹیبلشمنٹ بھی کھاتی ہے اسلئے مہروں کی تلاش جاری رہتی ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا مگر جس طرح طالبان کے نام سے عالمی قوتوں نے حکومت کا لالی پاپ دیکر علماء کرام کو ورغلایا تھا ،اسی طرح پاکستان کو بھی صرف استعمال کیا گیا مگر حقیقی نظرئیے کا یہاں کوئی نام ونشان نہیں تھا۔
قائداعظم محمد علی جناح بھی پہلے کانگریس میں تھے مگر ہندو تعصب نے مسلم لیگ کی طرف دھکیل دیا۔ کانگریس کے منشور میں یہ بات شامل تھی کہ انگریزوں کی دی ہوئی جاگیروں کو ضبط کرلیا جائیگا۔ نوابوں، خانوں اور سول بیروکریسی نے پاکستان کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا تو فوج نے اس پر قبضہ کرلیا۔ بھٹو کی عوامی قیادت بھی اسکے ڈیڈی ایوب خان کی مرہون منت تھی اور نوازشریف بھی جنرل ضیاء کی پیداوار ہیں۔ تحریک انصاف کا ناطہ بھی امپائر کی انگلی سے گھومتا ہے۔ اگر منظرنامہ بدل جائے تو شیخ رشید کہے گا کہ ’’عمران خان جیسا بیکار انسان میں نے نہیں دیکھا، خیبر پختونخواہ کی عوام کو پنجاب میں داخلے پر خوب پٹھوادیا مگر بڑی دہائیاں دینے کے بعد بھی عمران خان خود بنی گالہ کے پہاڑی سے نیچے نہیں اُترا۔ پاک فوج ضرب عضب کے سب سے مشکل آپریشن میں مشغول تھی اور عمران خان بے شرم ، بے غیرت اور ذلیل آدمی ایک طرف امپائر کی انگلی اٹھنی کی بات کر رہا تھا تو دوسری طرف پنجاب پولیس کو طالبان کے حوالہ کرنے کی بات سے بھی نہیں شرماتا تھا۔ عائشہ گلالئی ایک عورت ذات ہے اور اس نے عمران خان پر سنگین الزامات لگادئیے لیکن پھر بھی اسکے خلاف الیکشن کمیشن میں جارہاہے کہ اس نے شیخ رشید کو وزیراعظم کے الیکشن میں ووٹ نہیں دیا مگر خود نامزد کردیا اور پھر بھی عمران خان اور جہانگیرترین نے ووٹ دینے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ عمران خان کا لیڈر بننا قیامت کی نشانی ہے‘‘۔
پاکستان کو اسلامی نظریہ دینے کی ضرورت ہے۔ زمین کی جائز ملکیت سے کمیونسٹ منع کرتے ہیں مگر اسلام منع نہیں کرتا۔ البتہ اسلام زمین کو مزارعت، بٹائی، کرایہ اور ٹھیکے پر دینے کو منع کرتاہے۔ نبیﷺ نے فرمایا: ’’ زمین کو خود کاشت کرو، یا جس کو کاشت کیلئے دو ، پوری محنت کاصلہ بھی اسی کا ہے‘‘۔ ابوحنیفہؒ ، مالکؒ اورشافعیؒ سب متفق تھے کہ نبیﷺ نے اس کو سود قرار دیا ہے اسلئے مزارعت جائز نہیں ۔ آج نوازشریف، شہبازشریف، آصف علی زرداری، شاہ محمود قرشی، مولانا فضل الرحمن، شیخ رشید، پرویزمشرف، جنرل اشفاق کیانی، افتخارمحمد چوہدری، مفتی محمد تقی عثمانی، مفتی منیب الرحمن ، عمران خان، جہانگیر ترین اور دیگر تمام مذہبی وسیاسی رہنماؤں کو اپنے بال بچوں سمیت مفت میں زمین دی جائے کہ خود ہی کاشت کرو، سب محنت تمہاری ہے، پھر بھی وہ اپنے لئے جیل جانا پسند کرینگے مگر کاشتکاری کی محنت نہ کرینگے اور اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی ہوگا ۔ انشاء اللہ
اگر مزارعین کو کاشت کیلئے مفت میں زمینیں دی جائیں تو وہ اس سے زیادہ اور بڑی بادشاہی نہیں مانگیں گے۔ غلامی سے ان کو نجات مل جائے گی۔ اپنی محنت سے آزاد زندگی گزارینگے تو اپنی روٹی، کپڑا اور مکان کا بھی خود بندوبست کرلیں گے۔ اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کے قابل بن جائیں گے تو وہاں سے بہت صلاحیت والی قیادت بھی ہر میدان میں قوم کے پاس آئے گی۔ قابل ڈاکٹر، قابل عالمِ دین، قابل سیاسی قائدین اپنے ملک کا نام روشن کرسکیں گے۔ بلاول بھٹوزرداری ، حسین وحسن نواز اور بڑے لوگوں کی نالائق اولاد اپنے قوم کے سر نہیں لگے گی۔ جنکے اندر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھنے کے باوجود کوئی صلاحیت آئی ہے اور نہ آسکتی ہے۔ ان موٹے تازے لوگوں سے زمینوں کی کاشت کاری کا کام لیا جائے تو ان کی صحت بھی بنے گی اور کچھ نہ کچھ دماغ بھی کام کرنے کے قابل بنے گا۔
جب زمین کاشت کرنے کا اچھا معاوضہ ملے گا تو مزدور کی دھاڑی بھی مارکیٹ میں خود بخود بڑھ جائے گی۔ شہروں کا باصلاحیت طبقہ بیروزگاری کے سبب لوٹ ماراور ورادتوں میں ملوث ہونے کے بجائے دیہاتی بچوں کو پڑھانے جائیگا۔ جاہل طبقہ زمین کاشت کرنے کا رخ کریگا۔ تعلیمی اداروں کا خواب پورا کرنے کیلئے چندوں کی ضرورت نہ پڑیگی۔ لوگ خود تعلیم پر خرچہ کرینگے۔ تعلیم سب سے زیادہ باعزت اور باوقار پیشہ بن جائیگا تو ایک بہترین نصاب تعلیم اور اچھے تعلیمی اداروں کا قیام بھی عمل میں آئیگا۔ دنیا روزگار کی تلاش میں یہاں آئیگی تو امن وامان کے گہوارے پاکستان میں دنیا بھر سے لوگ یہاں سرمایہ کاری بھی کرینگے۔ پاکستان انقلاب کا تقاضہ کررہاہے۔
اتنی موٹی سی بات سمجھنے میں دشواری نہیں کہ جوجاگیردار و سرمایہ دار ، سول وملٹری اسٹیبلشمنٹ کے افسران اور سیاستدان یہ نہیں چاہتے کہ وہ مفت میں زمین لیکر خود اور اپنے بچوں کو اس کام پر لگادیں۔ خدارا، دوسرے لوگوں کیلئے اتنا ضرور کریں کہ وہ اپنے بچوں سمیت اس کو بادشاہی پرسمجھ کر خوش ہوجائیں۔ یہ کتنی شرم کی بات ہے کہ جو کمائی اپنے لئے سخت سزا لگتی ہو اور یہ سزا دوسرے کیلئے نعمت ہو،تب بھی اسکا رائج کرنا منظور نہ ہو؟۔ 2018ء کے انتخابات کیلئے حدیث اور ائمہ کے متفقہ مسلک کو بنیاد پر مزارعت کا نظام ختم کیا جائے توبڑا انقلاب آجائیگا۔ نظریاتی سیاست کی بڑی بنیاد یہی ہوسکتی ہے۔
جب پاکستان کی فضاؤں سے غلامانہ غیر اسلامی نظام کی بنیادیں ہل جائیں گی تو غیرمسلم بھی پکار اُٹھیں گے کہ دنیا بھر کی زمین میں تمام انسانیت کو ایسا نظامِ حکومت چاہیے۔ اسلام نے مسلمانوں پر زکوٰۃ اور غیرمسلموں پر ٹیکس کا نظام رائج کردیا تھا۔ نفع ونقصان کی بنیاد پر سود کے بغیر زبردست تجارت ہوسکتی ہے اور اب دنیا اسکی طرف آرہی ہے تو ہم نے زیادہ سے زیادہ سود کو اسلامی بینکاری کا نام دیدیا ہے۔ اگر ائمہ اجل کے مؤقف سے انحراف نہ کیا جاتا تو روس اور امریکہ دونوں اسلامی حکومت کے دروازے پر ڈھیر رہتے۔ اسلامی نظام میں تحریف کے سبب ایک طرف روس نے کمیونزم اور دوسری طرف امریکہ نے کیپٹل ازم کے اندر دنیا کو جکڑ لیا اور ہم دوسروں کے ہاتھوں میں بری طرح استعمال ہوگئے ۔ ہم نے لیفٹ رائٹ کے چکر سے نکل کر عدل واعتدال کی راہ صراط مستقیم پر چلنے کی قسم کھانی ہے۔
سیاسی نظریہ دینا فوج کا کام نہیں، اس نے اپنی ڈیوٹی کے وقت اپنی نوکری کرنی ہے۔ نظریاتی آدمی پہلے فوج میں جانہیں سکتا اور اگر جائے بھی تو فوج کیلئے شرمندگی کا باعث بنتاہے۔ البتہ قحط الرجال میں جنرل ایوب، جنرل ضیاء اور پرویز مشرف بھی نظریاتی گئے۔ اگر فوج کسی جماعت، تنظیم ، پارٹی اورتحریک کی ماسٹر مائنڈ ہو تو پھر بہتر ہے کہ وہ کسی کٹھ پتلی اور جعلی قیادت کے بجائے خود ہی اقتدار پر قبضہ کرکے بیٹھ جائے۔ المیہ یہ ہے کہ کوئی نظریاتی انسان پیدا نہیں ہوا، ورنہ وہ کسی کیلئے کام کرنے کے بجائے سب کو اپنے نظریہ پر لگانے کی صلاحیت رکھتاہے۔ ہماری عوام کو یہ پتہ بھی نہیں کہ قائداعظم نے کوئی بھی نظریہ ایجاد نہیں کیا تھا بلکہ جب انگریز یہاں سے جارہاتھا تو اس سوچ کی مخلصانہ قیادت کی تھی کہ دوقومی نظرئیے کی بنیاد پر ملک کو تقسیم کرنا چاہیے۔ مشرقی پاکستان کی آبادی ہم سے زیادہ تھی اور اردو زبان ہندوستان سے آنیوالے مسلمانوں کی زبان تھی جس کو آج الیکٹرانک میڈیا کی بدولت پاکستان کی اکثریت سمجھ رہی ہے۔ قائداعظم کو خود بھی اردو نہیں آتی تھی۔ بنگلہ دیش نے ہم سے آزادی حاصل کرلی اور اپنے پڑوسی ممالک ایران و افغانستان سے ہمارے تعلقات کبھی شاندار نہیں رہے تو دوقومی نظریہ بھی عملی طور سے دفن ہوگیاہے۔ اسلام قوم نہیں بلکہ نظریہ ہے اور نظریہ بھی ایسا ہے جو انسانیت کیلئے بھی قبول ہوسکتاہے۔
ایک ہوں مسلم ہوں حرم کی پاسبانی کیلئے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر
اسلام پاکستانی قومیت کی بنیاد پر سرمایہ دارانہ نظام کو تحفظ دینے کی لعنت کا نام نہیں اور نہ دوسروں کیلئے آلۂ کار کے طور پر استعمال ہونے کا نام اسلام ہے۔ ہاں ہم مختصر اسٹیبلشمنٹ سے آزاد نہ ہوسکے تو متحدہ ہندوستان میں رہ کر کونسا تیر مارتے؟۔
پاکستان کی سرزمین، پاکستان کی عوام، پاکستان کی فوج، پاکستان کی سول بیوروکریسی، پاکستان کے علماء ومفتیان بہت اچھے اور شاندار لوگ ہیں۔ یہ ان کی اچھائی کی مضبوط دلیل ہے کہ یہاں نظریات اور عقائد پر کوئی پابندی نہیں۔ جب کسی نے اچھا نظریہ پیش نہیں کیا۔ اسلام کو طلاق اور حلالہ کا پیش خیمہ بنادیا تو کون پاگل مزید اس کی تلاش اور تگ ودو میں اپنا وقت ضائع کرتا؟۔ ایوب خان نے عائلی قوانین بنائے تھے تو اس کو اسلام کے خلاف سازش کانام دیا گیا تھا۔قرآن وسنت پر کسی فرقے ، مسلک اور جماعت کا اتحاد ہی نہیں ، بس پیٹ کے جہنم کو بھرتے بھرتے مذہبی طبقے کی زندگی ایکدوسرے کی دشمنی میں گزر جاتی ہے اور عوام کہتے ہیں کہ یہ دینداری، یہ تعصب اور یہ جاہلانہ طرزِ عمل تمہی کو مبارک ہو۔ مولوی خود بھی زمینداروں اور سرمایہ داروں کے ہاں چندوں کے وصول کیلئے کمیوں کی طرح رہتے ہیں۔ مجلس عمل کی حکومت آئی تھی اور علماء سے اسمبلی بھری ہوئی تھی مگرمذہبی جماعتوں نے وزیراعلیٰ اکرم درانی بنادیا تھا۔
اسلام کا ہتھیار کے طور پرذاتی مقاصد کیلئے استعمال بہت بُرا ہے۔ مولوی نے سمجھ رکھاہے کہ دنیا میں ویسے بھی اسلام نہیں آسکتا تو مسلکی تعصب کے نام پر اپنی قسمت بنالو۔ جس طرح پاکستان اسلام کے نام پر بنا مگر اسلام نہ آیا۔ طالبان کی حکومت نے اسلام کیا انسانیت کا بھی بیڑہ غرق کیا اور ایران کے اسلامی انقلاب نے کوئی تاثیر نہیں دکھائی ،دوسرے ممالک میں زیادہ پیسہ خرچ کرکے دہشت گردی کی بنیاد رکھ دی اور سعودیہ نے دوسروں کو اپنے حق حلال کمائی سے بھی جب چاہا، محروم کردیا اور کوئی بھی ایسا اسلامی ملک نہیں جہاں اسلامی نظام قائم ہو۔
اسلام کے نام پر اسلام آباد اور اقتدار چاہیے تو اسلام کے نام کو استعمال کرنے کی ضرورت نہیں۔ اقتدار یزید کے پاس ہو لیکن اسلام کے مضبوط اقتصادی اور معاشرتی نظام سے دنیا بھر میں زبردست پذیرائی مل سکتی ہے۔ وقت کی سپر طاقتوں روم وفارس کو اسلامی افواج نے شکست اسلئے نہیں دی تھی کہ عرب اور مسلمان بڑے بہادر تھے بلکہ اسلامی نظام کی حیثیت ایسی تھی جس کو دنیا کی عوام میں پذیرائی مل رہی تھی۔
آج دنیا سے مزارعت اور سودی نظام کا خاتمہ کرنے کیلئے پاکستان سے ابتداء ہوجاتی ہے تو روس، چین ، یورپ، امریکہ، چاپان، آسٹریلیا اور دنیا بھر کے مسلم وغیرمسلم ممالک ہمارا نظام اپنے ہاں بھی رائج کردینگے۔ کارل مارکس نے یہ نظریہ پیش کیا کہ’’ قومی حکومت ہو اور محنت و صلاحیت کی بنیاد پر سب اپنا اپنا کمائیں اور کھائیں۔ دوسرا یہ کہ لوگ کمائیں اپنی محنت اور صلاحیت کے مطابق لیکن پیسے اپنی ضرورت کے مطابق لیں‘‘۔ اسلام نے مذہبی روح کے مطابق ایمان، انسانیت اور آخرت کا جذبہ اجاگر کرکے اعلیٰ ترین حکومت کی مثال قائم کردی۔ ابوبکرؓ نے خلافت کا منصب سنبھالا تو تجارت کیلئے نکلے، ساتھیوں نے کہا کہ معقول معاوضہ مقرر کردیتے ہیں اسلئے کہ حکومت پر مکمل توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جب کافی عرصہ ہوا، اور گزارے کے قابل وظیفہ پر عمل ہورہاتھا تو بیگم صاحبہؓ نے ایک دن کچھ میٹھا سامنے رکھ دیا اور کہا کہ روزانہ تھوڑی تھوڑی بچت سے اس کی گنجائش نکلی ہے۔ حضرت ابوبکرؓ وہ مٹھائی لیکر گئے اور اتنا وظیفہ بھی کم کیا جتنی بچت کرکے میٹھا بنایا تھا۔ عمرؓکا دور آیا تو حضرت عمرؓ نے اپنے لئے درمیانہ درجے کا وظیفہ مقرر فرمایا۔
جدید ریاستی نظام اور اقوام متحدہ کی سربراہی نے اقوام عالم اور انسانیت کے مسائل کا کوئی خاطر خواہ حل نہیں نکالا ہے۔ قرآن نے ایک قائدہ بتایا ہے کہ ’’ جوچیزانسانیت کیلئے نفع بخش ہوتو وہ زمین میں ٹھکانہ بنالیتی ہے اور باقی جھاگ کی طرح خشک ہوجاتی ہے‘‘۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا :’’ بہترین لوگ وہ ہیں جو لوگوں کو نفع پہنچائیں‘‘۔ جدید علوم قرآن وسنت ہی کا تقاضہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں پر انسان کو علم کی وجہ سے بلند درجہ دیا اور اس کو زمین میں خلیفہ بنایا۔ اللہ نے فرمایا:’’ اللہ کے پاس ساعۃ کا علم ہے، وہ بارش برساتاہے، اور جانتا ہے جو کچھ ارحام میں ہے، کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا حاصل کریگا اور کس زمین پر وہ مریگا‘‘۔ حدیث میں ہے کہ ’’یہ پانچ غیب کی چابیاں ہیں‘‘۔
ان پانچ چیزوں میں پہلی 3چیزوں کی اللہ نے دوسروں کی نفی نہیں کی ۔ پہلی چیز ساعۃ کا علم ہے۔ عربی میں وقت اور اس کی اکائی کو بھی ساعۃ کہتے ہیں اور قیامت کے دن کو بھی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر اس سے قیامت مراد لی جائے تو پھر اس کا تعلق قرآن میں بیان کردہ چوتھی چیز سے ہوگا۔ کل کے علم کی اللہ نے نفی کردی ۔ عربی میں گھنٹہ،لمحہ کو بھی ساعۃ کہتے ہیں مگراس کا اطلاق کل پر نہیں ہوتا ۔ گویا دونوں باتیں بھی الگ الگ ہیں اور نبیﷺ نے ساعہ کو غیب کی چابی کیوں قرار دیا؟۔معراج کا سفر جس ساعہ(لمحہ) میں طے ہوا، اور اللہ نے سورۂ معارج میں فرشتوں اور جبریل کے چڑھنے کے سفر کی مقدارایک دن کے مقابلے میں 50ہزار سال قرار دی ہے تو غیب کی چابی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتاہے۔ ایک عرصہ تک علماء کے اندر بھی اختلاف رہا کہ سفر روحانی تھا یا جسمانی؟۔ اب بھی پڑھے لکھے جاہل سفر معراج کو خواب قرار دیتے ہیں۔
سرسید احمد خان، غلام پرویز اور جاوید غامدی جیسے لوگوں کو چاہیے تھا کہ معروف سائنسدان البرٹ آئن سٹائن کا دریافت کردہ نظریۂ اضافیت ہی دیکھ لیتے، جس میں تیزرفتاری کے بعد وقت کی پیمائش کا پیمانہ ریاضی کے طے شدہ اصول کے تحت بدل جاتاہے۔ قرآن وسنت کی تفسیر زمانہ نے بقول ابن عباسؓ کردی ہے۔ نظریۂ اضافیت کی سمجھ تک رسائی مشکل ہے تو دن رات کی مثال دیکھ لو جس سے زمین کا محور کے گرد گھومنے کا علم حاصل ہوا اور ماہ وسال کی مثال سمجھ لو، جس سے موسموں، سردی گرمی اور زمین کا سورج کے گرد گھومنے کا علم حاصل ہوا۔ ساعہ کا علم غیب کی چابی وقت نے ثابت کردی ۔ قرآن وسنت واضح تھے۔
قرآن میں دوسری چیز بارش کا برسنا ہے۔ اللہ نے بادلوں کو بھی مسخرات کہا ۔ کائنات کی ہر چیز سورج اور چاند انسان کیلئے مسخر ہیں۔ بارش سے آسمانی بجلی اور برفانی اولے کا تصور تھا تو انسان نے بجلی کو مسخر کرکے اس غیب کی چابی سے نئی دنیا آباد کرلی۔ قرآن میں تیسری چیز ارحام کا علم غیب کی تیسری چابی ہے، اسکی بھی قرآن میں نفی نہیں۔ ارحام کاتصور صرف انسان ، حیوان اور نباتات تک محدود نہیں بلکہ جمادات کے ایٹم بھی اس میں داخل ہیں۔ غیب کی اس چابی نے فارمی حیوان اور نباتات میں بڑا کمال کے علاوہ ایٹمی توانائی اور الیکٹرانک کی دنیاکو بھی آباد کردیاہے۔ اسلام دیگر مذاہب کی طرح سائنسدانوں کیلئے رکاوٹ پیدا نہیں کرتا بلکہ اس کابہترین معاون ہے۔
آنیوالاکل ترقی وعروج کی نئی خبرلیکر آئے تویہ حقیقت ہے کہ علم وتبدیلی کے کمالات کی کوئی انتہاء نہیں اور آدمی فانی ہے۔
زمین پر محنت کرنیوالے کاشتکار کو محنت کا پورا پورا صلہ ملے تومزدور کی کم زکم دھاڑی بھی دگنی ہوجائیگی۔ پانی کی موٹر کے بارے میں ہارس پاور کا جوتصور ہوتا ہے اگر مزدوری کی ایک ویلو بنائی جائے۔ ترقیاتی دور میں حکومت مزدور کی بنیادی ویلو زیادہ سے زیادہ بڑھاسکتی ہے۔پھر محنت، تجربے و صلاحیت سے کئی گنا زیادہ دھاڑی حاصل کرنے کی مسابقت ہوتی ،جس کی بنیاد پر محنت و صلاحیت میں نکھار پیدا ہوتااور دنیا میں ایکدوسرے سے آگے بڑھنے، انسانیت کی خدمت اور نفع بخش چیزیں بنانے میں ایک مثبت کرداربھی ہوتا ۔ دنیا کی ترقی کیساتھ ساتھ انسانیت بھی ترقی کرتی۔ ایک طرف اشتراکیت کا غیرفطر ی نظام چاروں شانوں چت ہواتو دوسری طرف سرمایہ دارانہ نظام اپنے انجام کو پہنچ رہاہے،اللہ کا نور اسلام فطری ہے۔
اسلام کو اشتراکیت کے خلاف دنیا نے ہتھیار کے طور پر استعمال کرلیا اور اب جب سرمایہ دارانہ نظام کو شدید خطرات کا سامنا ہے تو سودی نظام کو مشرف بہ اسلام کردیا ہے۔ کچھ لوگ نظریاتی بنیاد اور کچھ اپنا ذریعہ معاش سمجھ کر کسی نہ کسی کی پراکسی لڑ رہے ہیں۔جس طرح پاکستان بنانے میں اسلام کا جذبہ کارفرما تھا اور طالبان اسلامی جذبے سے بنے اور ایرانی انقلاب بھی اسلامی جذبے سے بن گیا مگر خود اسلام اجنبیت کا شکار تھا توان لوگوں کے جذبوں کا قصور نہیں تھا بلکہ مولوی، مذہبی طبقے اور عوام کا قصور تھا کہ قرآن کا ترجمہ دیکھ کر اسلامی معاشرت قائم نہ کی۔
پاکستان میں پانی کے بہاؤ سے فائدہ اٹھایا جاتا تو پینے اور زرعی مقاصد کے علاوہ سستی بجلی اور صحت کی حالت بہتر ہوتی ۔ اسٹیبلشمنٹ نے لوہے کے بٹے سے شریف فیملی کو اٹھاکر اقتدار سپرد کردیا جو ساہیوال جیسی زرخیز زمین میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے کارخانے لگارہے ہیں ۔محمود خان اچکزئی ایک الیکٹریکل انجنئیر ہیں۔وہ بتاتے کہ آلودگی کے بغیر سستی بجلی پیدا کرنے کا طریقہ کیاہے۔ وزیرصنعت و پیداوار، وزیر پانی وبجلی اور وزیرماحولیات خود اپنے شعبے میں ماہر ہوتے، ایکدوسرے سے ان کا کنکشن ہوتا اور ایک چھوٹی سی سرزمین پاکستان کو ایک گھر کی طرح سمجھا جاتا تو پاکستان اور قوم کی حالت بہتر ہوتی۔
صنعتوں کیلئے کراچی سے گوادر اور بلوچستان کے غیر آباد بنجر علاقوں کو آباد کرنے کی ضرورت تھی اور تیز رفتار ٹرینوں سے آبادیوں کو صنعتی علاقوں سے ملانے میں دشواری نہ تھی۔ پنجاب وسندھ اور پختونخواہ و بلوچستان کے زرخیز علاقوں کو وسیع ڈیموں اور نہری نظام سے آباد کیا جاسکتاہے۔ علماء ومفتیان نے اسلام اور مسلمان کیساتھ بہت برا سلوک روا رکھا اور حکمرانوں اور سیاستدانوں نے نظام اور پاکستان کا برا حال کردیا۔دونوں کو درست راستے پر لایا جائے تو بات بنے گی۔ نام نہاد شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری و نام نہاد مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی نے اپنی اپنی کتابوں میں رسول ﷺ کی احادیث اور آنیوالے بارہ اماموں کے بارے موجود وضاحتوں میں بدترین خیانت کا ارتکاب کیا۔ حالانکہ اس نقشہ کی وجہ سے اُمت کاعظیم اتحاد عمل میں آسکتاہے۔ جس سے شیعہ گزشتہ لوگوں پر طعن تشنیع بالکل بند کردینگے۔ جب بارہ امام کی احادیث کا کوئی درست جواب نہیں ملتا تو انکے لہجے کی شدت بڑھ جاتی ہے۔ یہ نقشہ ، قرآن وسنت کے احکام اور مدارس کے نصاب کی درستگی کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ ایک زبردست اسلامی انقلاب برپا ہوگا۔ مزارعت کے جوازاور سود ی نظام کا فتویٰ ہی واپس لینا ہوگا۔علماء ومفتیان کی طرف سے قرآنی و سنت کے مطابق رہنمائی سے مدارس اور مساجد کی قدرومنزلت بڑھ جائے گی اور معاشرے میں اسلامی انقلاب سے پوری دنیا بھی خلافت کا نظام قبول کریگی۔ گیلانی

وکالت کے نظام کی خرابیاں اور مضمرات: سید عتیق الرحمن گیلانی

wikalat-k-nizam-ki-kharabian-aur-muzmirat

وکالت کے نظام کی خرابیاں اور مضمرات

وکالت کا نظام تمام خرابیوں کی اصل جڑ ہے۔ چوہدری اعتزاز احسن نوازشریف کا وکیل ہو تو معصومیت کا سرٹیفکیٹ دلانے کی قسم کھالیتا ہے ، یہ اپنی نالائقی سمجھتا ہے کہ 100 فیصد مجرم کو 100فیصد بری کرنے میں کامیاب نہ ہو،یہ روزی حلال کرنے کا طریقہ ہے۔ بدکارعورتیں کسی کو دلال بنائیں تو اس کو بھڑوا کہتے ہیں۔ بھڑواگیری بری ہے لیکن اس سے زیادہ ظالم ، جابر، بدمعاش ، قاتل اور کرپشن کے سیاسی قائدین کا وکیل بننا ہے۔ اس نظام نے انسانیت کو غیرت، ضمیر، ایمان، اقدار اور شرم وحیاء سب سے محروم کردیا ہے۔ جمعیت علماء اسلام کا ترجمان جان اچکزئی، جماعت اسلامی کا حنیف عباسی اور پرویز مشرف کا دانیال عزیز وامیر مقام وغیرہ ن لیگ کی ترجمانی کرکے شرم وحیاء غارت کررہے ہیں۔ زرداری کے تقدس کی قسم کھانے والا بابر اعوان عمران خان کیساتھ بیٹھ کر غیرت اور قدروں کو دفن کررہاہے۔ شاہ محمود قریشی جاوید ہاشمی نے تحریک انصاف میں شانہ بشانہ کام کرکے بتادیا کہ سیاسی رہنما بیلوں کی طرح کہیں بھی جت سکتے ہیں۔
صحافت کیلئے دلالی و جانبداری شعبے کے بنیادی اور قانونی تقاضے کے منافی ہے لیکن صحافت کے تاجدار بے شرمی کے دریا میں ڈوب مرے ۔ جیو کو اپنی صحافت مثالی لگتی ہوگی ۔ مولاناحامد کاظمی پر جنگ کی شہ سرخی خبر لگی کہ وزیر مذہبی امور نے کرپشن کا اعتراف کرلیا۔ حالانکہ اسی دن شام کو مولانا کاظمی حلفیہ کہہ رہے تھے کہ ’’ میں نے کوئی کرپشن نہیں کی ‘‘۔ مولاناحامد کاظمی کے بارے میں نہیں کہا جا سکتا تھا کہ ’’جن ذرائع سے خبر لیک کی تھی ، بعض اوقات خبر درست ثابت نہیں ہوتی‘‘۔ وہ آزاد تھے اور فون کرکے اعتراف کنفرم ہوسکتا تھا۔ یہ اسحاق ڈار کا عدالت میں اعترافی بیان نہ تھا۔ مولاناحامد سعید کاظمی کو کئی سال جیل کے بعد عدالت سے رہائی ملی مگر جنگ اور جیو کے ذمہ دار اور مالک کو کیا سزا دی گئی؟۔ یہ خبر نہیں مہم جوئی تھی اور یہ مہم جوئی اب جیو اور جنگ نوازشریف کے حق میں اور عدالت و فوج کیخلاف کر رہے ہیں۔ ٹریکٹرکے بڑے ٹائر ٹیوب میں پھونک سے ہوا بھرنے جیسی کوشش نواز شریف کا سیاسی مورال بچانے میں ہورہی ہے۔ پہلے مہم جوئی اسلئے تھی کہ ثابت کیا جاسکے کہ نواز شریف پارلیمنٹ ، قطری خط ، متضاد خاندانی بیانات اور تمام معاملے میں 100% بے گناہ ہے بس فوج نے عدلیہ کو پیچھے لگادیا ہے اور اب یہ کوشش ہے کہ کسی طرح فوج پر دباؤ پڑے کہ عدلیہ کو انصاف پر مبنی کاروائی سے روک کر نواز شریف کوکسی طرح سے ریلیف دلائی جائے۔جبکہ اس اقدام سے عدلیہ کے ساتھ ساتھ فوج کا چہرہ بھی کالا ہوجائے گا۔

مذہبی سیاسی جماعت کے منشور کا یہ عارضی خاکہ دیکھ لیں! مشاورت سے ترتیب وتدوین ہوگی۔

zina-bil-jabr-in-islam-gustakh-e-rasool-ki-saza-hatake-izzat-sangsar-karna-maulana-muhammad-khan-sherani
1: آزاد منش کہتے ہیں کہ مذہبی طبقہ خواتین کو گھروں میں محصور کرنے کے درپے ہے حالانکہ اسلام کے بنیادی مرکز خانہ کعبہ اور مدینہ منورہ میں دنیا بھر کی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ حج اور عمرے کا فریضہ انجام دیتی ہیں۔ دنیا کے کسی دوسرے مذہب کی خواتین ہی نہیں خود آزاد منش خواتین میں یہ ہمت نہیں کہ حجر اسود کو چومنے کیلئے ایسی بھیڑ میں نامحرم مردوں کیساتھ ہڈی پسلی ایک کرنے کی ہمت کریں جہاں کمزور اعصاب کے مرد جانے کی ہمت نہیں رکھتے وہاں یہ اعزاز حاصل کرلیں، جو فرض ہے نہ واجب بلکہ جان لیوا بھیڑ ہو توسنت بھی نہیں اور غیرمحرموں کے دبوچنے کے اس ماحول میں مستحب و مستحسن بھی کجا بلکہ شریعت وفطرت اور انسانیت کے بھی منافی ہے لیکن مجال ہے کہ مذہبی طبقہ اپنی خواتین کو اس شوق سے روکیں یا مذہبی قیادت کچھ منہ کھولے۔ اگر مخلص نمازی ہوں تو بیت اللہ کی طرح ہر مسجد کا ماحول مشترکہ فیملی مرکز بن سکتاہے، جس میں پانچوں اوقات میں محلہ کے مرد، لڑکے، بچے ،خواتین، لڑکیاں اور بچیاں شرکت کا اہتمام کرکے ایک نئی دنیا میں ایسے داخل ہوسکتے ہیں کہ نماز اجتماعی ماحول کو فحاشی و منکرات سے بچانے کا ذریعہ بھی بنے گا۔ فقہ کی کتابوں میں صف بندی کے لحاظ سے امام کے پیچھے مردوں، لڑکوں، بچوں ، بچیوں، لڑکیوں اور آخر میں خواتین کی ترتیب کا ذکر ہے۔ 1400 سال پہلے ام المؤمنین حضرت عائشہؓ نے لشکر کی قیادت کی تھی اور حضرت زینبؓ نے کربلاء کے واقعہ پر شہداء کی تحریک کو زندہ رکھا تھا۔ غزوات میں صحابیاتؓ نے زخمیوں کی مرہم پٹی کی خدمت اور پانی لانے کا فریضہ انجام دیا تھا۔ اسلام نے روشن خیالی میں دنیا کو بہت پہلے بہت پیچھے چھوڑ دیا مگر امیرالمؤمنین یزید سے لیکر امیرالمؤمنین نواز شریف تک جب حکمرانوں نے اسلام کو اقتدار کیلئے استعمال کیا تو ہر آنے والا دن پہلے سے زیادہ تاریک تر بنتا چلا گیا۔ اس میں اسلام کا قصور نہیں بلکہ اسلام کو غلط استعمال کرنے والے حکمرانوں اور ان کے حواریوں کے سیاہ کرتوت کا کرشمہ ہے۔ اب طالبان شریف اور طالبان خان کے علاوہ پاکستان میں اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگانے والوں اور انکے چیلے چپاٹوں کا کرداربھی سامنے ہے۔
2: پنچایت نے ریپ کے بدلے ریپ اور ریپ کے بدلے شادی کے فیصلوں سے ہیجان پیدا کردیا ۔ طالبان نے تشدد کا راستہ اختیار کیاتو قوم کی حمایت سے وہ محروم ہوگئے۔ جرگہ و پنچایت کا نظام اسلئے رائج ہورہاہے کہ تھانہ و پولیس ، سیاست وقیادت، پاکستان کی شرعی اور عام عدالتوں کا انصاف وہ بازو ہیں جو سب نے آزمائے ہوئے ہیں۔ ملزم طاقتور ہو اور مظلوم کے پاس کوئی ثبوت نہ ہو تو وہ عدالت کی فیس، لوئر کورٹ ، سیشن کورٹ، ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ جانے تک اچھا خاصہ پیسہ اور وقت ضائع کرکے بھی کچھ انصاف نہیں پاتا بلکہ ہرجانہ اور ہتک عزت کے دعوے پر جرمانہ بھرنا پڑتا ہے، یا معافی مانگنی پڑتی ہے۔ شرعی عدالتوں میں زنابالجبر پر بھی چار گواہ پیش نہ کرنے پر قید اور کوڑوں کی سزا دی جاتی ہے۔ تو پنچایت کے ذریعے غریب معاشرے نے اپنا راستہ نکال لیا ہے۔
اسلام کی تلاش میں ملک خداداد بنایا گیا لیکن کیا پاکستان خواتین ، غریب و بے بس، مظلوم ولاچار اور مجبور ومعذور معاشرے کو انصاف دینے کی صلاحیت بھی رکھتاہے یا نہیں؟، بس اس کا کام یہ ہے مذہبی سیاسی جماعتوں کو ووٹ دو اوروہ ایوانوں میں پہنچ کر اپنا اُلو سید ھا کریں؟۔ خالص مذہبی جماعتوں میں جان، مال اور وقت لگاکر اپنے کام سے کام رکھو اور مدارس ومساجد کو چندے دو، جب طلاق کا مسئلہ آئے تو قرآن وسنت کو بھی توڑ مروڑ کر پیش کریں اور تفریق و حلالے کا فتویٰ دے کر جان عذاب میں ڈالیں۔ پنچایت پر تو کوئی آواز اٹھانے کی جرأت کرلیتاہے، معاشرہ قہر الٰہی سے ڈرتا ہے ، چیف جسٹس نوٹس لیتاہے ، تھانہ بھی حرکت میں آتاہے ،وزیراعلیٰ شہبازشریف بھی سرپر ہاتھ پھیرنے کی برکات سے نوازتا ہے اور میڈیا بھی زبردست کوریج دیتا ہے لیکن حلالہ پر عزت بھی لٹ جاتی ہے، ملامت اور لعنت کی برسات بھی ہوتی ہے اور زندگی بھر اس گناہِ بے لذت کی لذت کا سرٹیفکیٹ مل جاتاہے۔ یہ طبقہ اقتدار میں آیا تو پھر معاشرے کا کیا حشر نشر ہوگا؟۔ عوامی شکایات درست ہیں اور ایک ایک طاقتور کو لگام دینے میں مشکل نہیں ہوگی۔ بنی امیہ کے یزید نے خاندانی قبضہ کرکے اسلام کا حق ادا نہیں بلکہ بنی امیہ، بنی عباس اور خلافت عثمانیہ کے خاندانوں نے سلطنت مغلیہ اور حکمرانوں کے حواری نواب، خان ، ملا اور پیروں کے خانوادوں نے بھی اسلام کو اپنے اپنے مفادات کیلئے استعمال کیا جیسے موجودہ دور کی پارٹیاں کررہی ہیں۔ مسجد، مدرسہ، خانقاہ، درگاہ اور مذہبی وسیاسی جماعتوں کو عوام کے چندوں اور طاقت سے بنایا جاتاہے اور پھر اس پر مافیاز قبضہ کرلیتی ہیں۔ مسجد کی کمیٹیاں بھی حق کی آواز کیلئے نہیں حق دبانے کیلئے استعمال کی جاتی ہیں جو خردبرد میں بھی ملوث ہوتی ہیں۔ موجودہ دور میں یہ ممکن ہوگیا ہے کہ کسی بھی ٹرسٹ پر خاندانی قبضہ ختم کیا جائے۔ مالیاتی نظام کی تفصیل انٹرنیٹ کے ذریعے کھلے عام رکھی جائے جس کی تفتیش اور چیک اینڈ بیلنس کیلئے ایک نظام بھی تشکیل دیا جائے۔ غریبوں کے نام پر غریبوں کا حق صدقات، خیرات، زکوٰۃ، فطرہ اور عطیات سے لوگ امیر سے امیر بنتے جارہے ہیں۔باکردار لوگوں کے اٹھنے سے تمام فلاحی اور مذہبی اداروں کو عوام کی فلاح وبہبود کیلئے متحرک اور باوقاربنایا جاسکتاہے۔
حضرت عمرؓ نے حلالہ پر حد جاری کرنے کی بات فرمائی۔ رسول ﷺنے محرم عورت ماں، بہن، بیٹی وغیرہ سے نکاح کرنے پر قتل کا حکم دیا۔ علماء نے محرم سے نکاح پر شبہ سے حد کو رفع کرنے کا راستہ رکھا اور دوسری طرف قتل کی بات رکھی تاکہ کسی غریب کو محرم کے نکاح کے جھوٹے الزام میں قتل کیا جائے تو بھی اس پر باز پرس نہ ہو اور طاقتور کیلئے محرم سے نکاح پر سزا سے بچنے کا راستہ ہو۔ مولانا فضل الرحمن کو پوچھا جائے ، فتاویٰ عالمگیریہ پانچ سو معتبر علماء نے مرتب کیا جن میں حضرت شاہ ولی اللہؒ کے والد بھی تھے، جس میں بادشاہ کیلئے قتل، چوری، زنا، ڈاکہ پر کوئی سزا نہیں ہوسکتی ہے
3 : اللہ تعالیٰ نے خواتین کو جنسی ہراساں کرنے کے حوالہ سے مؤمنات خواتین کو حکم دیا کہ ایسا لباس وپوشاک زیبِ تن کریں تاکہ پہچانی جائیں کہ وہ فالتو نہیں اور ضرر سے بچ جائیں۔ یہ لوگ مدینہ میں نہ رہیں گے مگر کم عرصہ۔ پہلے بھی اللہ کی سنت رہی ہے کہ حق کا غلبہ ہونے کے بعد اینما ثقفوا فقتلوا تقتیلاً ’’جہاں پائے گئے ان کا تعاقب کرکے قتل کیا گیا‘‘۔ زنا بالجبر اور جنسی ہراساں کرنے کو اللہ نے فسادفی الارض قرار دیا ۔ جماعت اسلامی اور علماء کے بے غیرت رہنما اس آیت کی کھلی وضاحت کے باوجود خواتین سے جبری زنا کو بھی فساد فی الارض میں شامل کرنے کے بجائے رسالت مآب ﷺ کو اذیت دینے پر اس آیت کو فٹ کرتے ہیں۔ حالانکہ رسول ﷺ کو اذیت دینے کا اس سے پہلے والے رکوع میں ذکر ہے اور اس آیت کااس اذیت سے تعلق نہیں ۔ طاقتور طبقے ہی خواتین کو اذیت دینے اور زنابالجبر میں ملوث ہوتے ہیں اور مذہبی طبقے طاقتور وں کے زرخرید غلام ہوتے ہیں۔ غریب کی بجائے طاقتوروں کے ذریعہ اقتدار تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ جماعت اسلامی بھی غریب کارکنوں کو اپنے لئے بوجھ اور مالداروں کواپنا اثاثہ سمجھتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک خاتون شکایت لیکر آئی کہ اسکے ساتھ جبری زنا ہوا ہے۔ نبیﷺ نے فوراً مجرم کو پکڑنے اور سنگسار کرنے کا حکم دیا۔ وہ پکڑا گیا اور سنگساری کے حکم پر عمل بھی ہوا۔ مولوی کہتے ہیں کہ نبیﷺ کوئی قانون دان نہیں تھے، عورت کیساتھ جبری زنا ہو تب بھی چارمرد عادل گواہ لازم ہیں۔ آج کل ڈی این اے سے سو فیصد مجرم کے جرم کا یقین بھی ہوجاتا ہے مگر اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین مولانامحمد خان شیرانی نے کونسل کی سفارش میڈیا کو بتائی کہ’’ ڈی این اے کو بطورِ شہادت استعمال نہیں کیا جاسکتامگر معاون قرار دیا جاسکتا ہے‘‘۔ حالانکہ قرآن وسنت کی زنا بالجبر میں بغیر گواہی قتل کی سزا ہے اور ڈی این اے اس کی توثیق ہے۔
جب غیرت، انسانیت، فطرت اورقرآن وسنت کیمطابق زنا بالجبر کیلئے قتل اور جنسی ہراساں کرنے کی سخت سے سخت سزا دی جائے گی تو دنیا میں خواتین اسلام کی چھتری کے نیچے آجائیں گی اور غیرتمند مرد بھی اسی کی حمایت کریں گے۔ ابلیس کی مجلس شوریٰ کے عنوان سے علامہ اقبال ؒ نے کہا تھا کہ دنیا میں شیطانی نظام کو خطرہ مزدوکیت، جمہوریت اور بادشاہت سے نہیں بلکہ اسلام سے ہے جس کا آئین آشکار ہوجائے کہ حافظِ ناموسِ زن ہے اور مرد آزما مرد آفریں ہے تو پھر مکڑی کے جالے سے انسانیت کی آنکھوں کو دھوکہ نہیں دیا جا سکے گا۔ علماء اور جماعتِ اسلامی اپنی صلاحیتوں کو ضائع کرنے کے بجائے بروئے کار لائیں اور اسلام کے ٹھیکدار بن کر نہیں خادم بن کر نبیﷺ کے دین کو عوم تک پہنچانے کا بھرپور حق ادا کریں توچند دنوں میں انقلاب آسکتاہے۔
4: عدالتوں میں ہتک عزت کا دعویٰ ہوتاہے تو پہلے ہزاروں، لاکھوں اور کروڑوں کی قیمت میں ہوتا تھا۔ اب اربوں میں بھی ہورہاہے۔اسلام میں مال ودولت، رتبہ ومقام اور بڑی وچھوٹی حیثیت کی بنیاد پر ہتک عزت کی قیمت نہیں لگتی، بلکہ سب کی عزت برابرہے اور عورت پر بہتان کی سزا80کوڑے ہیں۔ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ پر بہتان لگایا گیا تو بہتان لگانے والوں کو80،80کوڑے لگائے گئے۔ ایک غریب عورت پر بھی کوئی بہتان لگائے تو اس کی سزا 80 کوڑے ہیں۔ انسانی عزتوں میں رتبہ ومقام کے لحاظ سے بہت فرق ہوتاہے لیکن جرم کے لحاظ سے غریب کی عزت کو بالکل بھی کم تصور نہیں کیا گیا اور اللہ کو انسانی رحجانات اور مفادات کا پتہ تھا کہ غریب اور لاچارکو دنیا میں انصاف نہیں مل سکے گا ،اسلئے بہتان و زنا کی سزا میں برابری کا قانون جاری کیا۔ مگرآج بھی مرد وں کیلئے الگ معیار ہے اور خواتین کیلئے الگ معیار ہے۔ غریبوں کیلئے الگ معیار ہے اور امیروں کیلئے الگ معیار ہے۔ عورت شادی شدہ ، غیرشادی شدہ ہو، ماں ہو، بہن ہو، بیٹی ہو یا بیوی ہو اس کو غیرت کے نام پر قتل کیا جاتاہے۔ مرد شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ، بھائی ہو، باپ ہو، بیٹا ہو یا شوہر مگر کوئی قتل نہیں کرتا۔ یہ ددہرا معیار اللہ اور رسولﷺ کیلئے قبول نہیں اور نہ انسانیت اور دنیا کیلئے۔ بیوی کو رنگے ہاتھوں کسی غیر کیساتھ دیکھنے کے بعد بھی اس کو قتل کرنے کی اجازت نہیں ۔ سیکولر اور ملحد بھی اس غیرت پر سمجھوتہ نہیں کرتالیکن اسلام نے 1400 سال پہلے جو لعان کا قانون نافذ کیا تھا ، اس کی نظیر دینے سے آج بھی دنیا قاصر ہے۔قرآن نے عورت کو کھلی فحاشی پر گھر سے نکلنے اور نکالنے کی اجازت دی مگر تشدد اور قتل کی نہیں۔ سورۂ طلاق میں بھی اس کی وضاحت ہے۔امام ابوحنیفہؒ نے زنا کی سزا کیلئے مرد و عورت کا چارمرتبہ اقرارِجرم برابر قرار دیا ، باقی تین امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ نے مرد کیلئے چار مرتبہ اقرارِ جرم لازم مگر عورت کیلئے ایک مرتبہ اقرار جرم کافی قرار دیا۔ صحابہؓ اپنے اوپر اقرارِ جرم سے حد نافذ کرکے دنیا کو ایمان کی صداقت کا یقین دلاتے تھے اور اب خود کش کے ذریعے دوسروں کو نقصان پہنچاکر اسلام کو دہشت گرد ی کا منبع قرار دیا جاتا ہے۔ تبلیغی جماعت، دعوتِ اسلامی ، جماعتِ اسلامی، جمعیت علماء اسلام ، مدارس کے علماء اور خانقاہی نظام والوں نے اسلام کے نام پر قربانیوں سے زیادہ مفادات حاصل کئے اگر پاکستان شریعت کورٹ میں کچھ لوگوں کو خود پر شرعی سزاؤں کیلئے پیش کردیا جائے تو دنیا میں مذہبی طبقے کا نام روشن ہوجائیگااور بدکردار لوگ لبادے کاتحفظ اوڑھ کر بھی درونِ خانہ ذلت کا احسا س رکھیں گے۔ مذہب کو کاروبار کی بجائے فرض کا درجہ حاصل ہونا چاہیے۔
5: زنابالجبر، خواتین کوہراساں کرنے اور بچوں کیساتھ زیادتی کرنے پر مذہبی طبقے کا رویہ اور فقہ کی کتابوں میں لکھے ہوئے مسائل اس قابل نہیں کہ ان پر قانون سازی کیلئے کام کیا جائے۔ جو قرآن وسنت کے واضح احکام کے بالکل منافی ہیں ۔ مرد اور عورت کیلئے قرآن میں زنا کی سزا 100 کوڑے ہیں۔ جبکہ دو مرد کیلئے برائی پر اذیت دینے کا حکم ہے اور توبہ کرنے پر معافی ہے۔ اذیت کیلئے اس پردیوار گرانے،اس کو پہاڑ سے گرانے اور جلانے کے حوالہ سے بہت باتیں ہیں۔ اذیت کی سزا کا مقصد قرآن میں قتل کرنا نہیں بلکہ جرم روکنا ہے۔ جو قومِ لوط ؑ کے عمل کے رسیا ہوں ، درست علاج بھی ان کو اذیت دینے کے برابر ہے۔ طالبان رہنما نیٹو کی آمد کے بعد دنیا بھر سے میڈیا پر ظاہر ہوئے ،اگر اپنے چندا فراد کو علاج کیلئے بھی مغربی ممالک بھیج دیتے تو دنیا پر زبردست اثرات مرتب ہوتے، شوکت خانم کی طرح ایک اعلیٰ معیار کا ہسپتال ان لوگوں کے علاج کیلئے بنتا۔ زناکی سزا 100 کوڑوں کیلئے اقرارِ جرم یا چار گواہوں کی گواہی ضروری ہے۔ قرآن میں سنگسار کرنے کا حکم نہیں۔ ایک طرف محفوظ قرآن ہے اور دوسری طرف تحریف شدہ توراۃ ہے۔ قرآن کی آیت میں شادی شدہ اور غیرشادی شدہ کی سزا میں کوئی فرق نہیں ۔ توراۃ میں بھی صرف اور صرف بوڑھے مرد اور بوڑھی عورت کے بارے میں ہے جس میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کی کوئی تفریق نہیں ۔ الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فرجموھما ۔۔۔ ’’ بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت جب زنا کریں تو دونوں کو رجم کرو‘‘۔جب تک سورۂ نور کی آیات نازل نہیں ہوئی تو پہلے اہل کتاب کے احکام کے مطابق عمل کیا جاتاتھا اور سورۂ نور کی آیات نازل ہوئیں تو کسی کو سنگسار نہیں کیاگیا۔ حضرت عمرؓ اللہ کے احکام میں سب سے زیادہ سخت تھے۔ اپنے بیٹے کو شرعی گواہ نہ ہونے کے باوجود زنا کا پتہ چلنے پر کوڑوں سے اتنا سخت مارا کہ وہ قتل ہوا۔ حضرت مغیرہ ابن شعبہؓ پر چار گواہوں نے گواہی دی تو اس کو سنگساری سے بچانے کیلئے پوری کوشش کی، ایک کی گواہی ناکافی قرار دیکر باقی تین افراد کو80،80کوڑے لگانا گوارا کیا مگر سنگساری کی غیر فطری سزا سے بچانے میں کردار ادا کیا ۔ یوں حضرت عمرؓ کے ہاتھوں سے سنگساری کی وہ سزا دفن ہوئی جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہ تھا۔ حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ ’’اگر میرے پاس دنیا کااقتدارہو تو سارے مذاہب والوں کو ان ہی کی کتابوں کے مطابق سزا دوں گا۔ اگر مسلمان پر گواہی کا معاملہ آتا تو حضرت علیؓ نے سنگسار کرنے کے بجائے گواہی اور اقرار پر قرآن کے مطابق 100کوڑوں کی سزا نافذ کرنی تھی۔ اگر یہودی رعایا پر زنا کی حد جاری کرنے کی ضرورت پڑتی تو بوڑھے بوڑھی پر سنگساری کا حکم جاری ہوتا اور دنیا میں یہ سمجھا جاتا کہ مسلمان سب سے زیادہ عادل حکمران ہیں۔ خلفاء راشدینؓ کی نیک نیتی پر کوئی بھی شبہ نہ کرتا لیکن وحی کی رہنمائی سے وہ محروم تھے اسلئے حضرت علیؓ اپنے تئیں عدل قائم بھی کرلیتے تو سنگساری کی سزا انسانیت پر کسی نہ کسی شکل میں باقی رہتی ۔ حضرت علیؓ کو مستحکم اقتدار کا موقع نہیں مل سکا اور اللہ تعالیٰ نے حکمتِ بالغہ سے انسانیت کی حفاظت فرمائی۔
اگر حضرت عمرؓ کے دل ودماغ میں حضرت مغیرہ ابن شعبہؓ کیلئے قرآن کے مطابق 100 کوڑوں کی سزا ہوتی تو ان کو بچانے کیلئے باقی تین افراد کو 80،80کوڑے نہ لگائے جاتے۔ اس کاروائی نے حدود کے نفاذ کا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دروازہ بند کردیا۔جس طرح شیطان کیلئے رجیم کا لفظ لعنت کے معنیٰ میں استعمال ہواہے۔ اسی طرح بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت کوڑوں کی سزا سے قتل بھی ہوسکتے تھے تو ان پر خالی لعنت ملامت کے الفاظ کافی قرار دئیے گئے ہیں، جس طرح لعان میں بھی قرآن کے الفاظ میں لعنت ہی ہوتی ہے۔ سزا سے بچاؤ کی قائم مقام لعن طعن ہوسکتی ہے۔ حضرت عمرؓ کے بیٹے کو شدید ضربوں سے قتل کرنے کے بعد شرعی حدود کی یقیناًمعاشرے میں نفاذ کی حوصلہ افزائی نہیں حوصلہ شکنی ہوئی ہوگی۔ پرویزمشرف نے زنابالجبر کو شرعی حد سے نکال کرتعزیر میں شامل کرنے کی کوشش اسلئے کی کہ مجرموں کو تحفظ ملتا تھا، جس پر مفتی تقی عثمانی نے انتہائی غلط قلم اٹھایا۔
قرآن میں شادی شدہ لونڈی کی سزا عام خواتین کے مقابلہ میں آدھی ہے اور اس میں بھی یہ فرمایا گیاہے کہ مشکل میں پڑنے سے ڈرنے کا خوف نہ ہو تو معاف کرنا بہتر ہے۔ لونڈی کمزور ہوتی ہے تو اس کی سزا میں آدھی تخفیف کے بعد مزید عفوودرگزر سے کام لینے کا حکم دیا گیاہے اور اسلام کا کمزور کو انصاف فراہم کرنے کے علاوہ یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ شادی شدہ کیلئے سنگساری کی سزا نہیں ہے، کیونکہ وہ آدھی نہیں ہوسکتی ہے۔ کنواری لونڈی کی بات نہیں شادی شدہ کی وضاحت ہے۔ 100 کوڑے کے مقابلہ میں 50کوڑے آدھی سزا ہے۔ قرآن میں امہات المؤمنینؓ سے زیادہ محترم کون ہوسکتی ہیں؟۔ اللہ نے فرمایا کہ اگر وہ کسی کھلی فحاشی کا ارتکاب کریں تو دوھری سزا کا حکم ہے۔ 100 کے مقابلہ میں200 دوھری سزا ہے لیکن سنگساری میں دوھری سزانہیں ہوسکتی۔
6:جب جرم کی سزا فطرت کے مطابق ہوگی تو بہت سے لوگ اپنے جرائم کو چھپانے کی غلطی پر اصرار کرنے کے بجائے اقرار کرکے آخرت میں سرخرو ہونا چاہیں گے۔زنا پر گواہی قائم ہوجائے تو اللہ نے فرمایا کہ ’’اس پر دل میں رحم مت کھاؤ، مؤمنوں کے ایک گروہ کی موجودگی میں اس پر100 کوڑے کی حد جاری کردو‘‘۔ یہ سزا مردوں اور خواتین کیلئے یکساں ہے۔ یہ سزا معاشرے میں جرم کو ختم کردے گی۔ اللہ تعالیٰ نے لونڈی کی سزا کے حوالے سے فرمایاہے کہ گزشتہ قوموں میں بھی یہی تھی۔ پھر اللہ نے یہ بھی وضاحت فرمائی کہ ان کو اپنی جانوں کے قتل اور جلاوطنی کی سزا بھی اللہ نے نہیں دی تھی، یہ ان کے خود ساختہ قوانین تھے۔ شادی شدہ کو قتل سے روکنے کیلئے لعان کا قانون کتنا عظیم ہے؟۔ جو بے غیرت قرآن کی آیت پر عمل کرنے میں لعان کی لعن طعن کو بے غیرتی سمجھتے تھے ان کو حلالہ کی بدترین لعنت میں بے غیرتی پر عمل کرنے میں کوئی مسئلہ نظر نہیں آتا۔ نبیﷺ خواتین سے بیعت لیتے وقت بدکاری نہ کرنے اور بہتان نہ لگانے وغیرہ کا عہد لیتے تھے۔ عورت بہتان لگاتی ہے تو مرد سے زیادہ خود اس کو نقصان پہنچتاہے۔ہتک عزت کی سزا خاتون پر بہتان لگانے کی ہے۔ مرد پر بھی بہتان لگانا بہت براہے لیکن قرآن میں پاکدامن خواتین پربہتان کی سزاواضح ہے اور اس پر عمل درآمد ہو، غریب و امیر، رتبہ ومقام والی اور نچلے درجہ سے تعلق رکھنے والی سب کیلئے یہ ایک ہی سزا80 کوڑے ہوں تو معاشرے میں عدل ومساوات کی زبردست فضاء قائم ہوگی۔
7: بہت سی شرعی اصطلاحات جس میں خلع، طلاق، عورت پر گھریلو تشدد، حلالہ ، عورت کیلئے معاشی میدان میں شانہ بشانہ چلنے کی اجازت وغیرہ کی قرآن وسنت کے واضح ہدایات سے ہمارے چودہ طبق کی تاریکیاں دور ہوسکتی ہیں۔ سورۂ النساء آیت19 میں پہلے عورت کو خلع کا حق دیا گیاہے اورآیت20میں مرد کو طلاق کا حق دیا گیاہے۔ مالی حقوق میں خواتین کی رعایت بالکل واضح ہے۔ شوہر پر حق مہر اورگھر کے خرچہ کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے اور اسی وجہ سے فضیلت بھی حاصل ہے لیکن یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ عورت کے کمانے پر کوئی پابندی ہے۔ حضرت خدیجہؓ کی معاشی اور تجارتی سرگرمی سے شروع ہونے والی اسلامی تحریک میں خواتین کی کمائی پر کیسے پابندی لگ سکتی ہے؟۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے صحابہؓ کے دور میں حضرت ابوبکرؓ نے خلیفہ بننے کے بعد بھی تجارت کرنا چاہی تو مسلمانوں نے ایک معقول وظیفہ مقرر کردیا۔ زوجہ محترمہؓ نے تھوڑا تھوڑا بچاکر میٹھابنانے کا اہتمام کیا تو حضرت ابوبکرؓ نے وہ لیکر غرباء میں تقسیم کردیا اور بیت المال سے اتنا وظیفہ کم کردیا۔ اگر حضرت ابوبکرؓ کی زوجہؓ خود سلائی وغیرہ کرکے یہ کام کرتیں تو حضرت ابوبکرؓ بھی پیش کرنے پر خوشی سے کھاتے، حضرت فاطمہؓ نے ہاتھ سے کمایا تو حضرت علیؓ نے ان کی اجازت سے وہ کھانا بھکاری کو دیا تھا۔

میزان کے بارے میں مفتی زر ولی ، مولانا سلیم اللہ خان اور جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے علاوہ ملک بھر سے …..

کراچی (عبد العلیم) مفتی علی زمان کشمیری نائب صدر جمعیت اتحاد العلماء کراچی و خطیب جامع مسجد توحیدیہ مصطفی آباد نارتھ ناظم آباد کراچی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ الحمد للہ حضرت شاہ صاحب نے حق کا جو قلم اٹھایا ہوا ہے اللہ تعالیٰ اس کو قبول کرے اور حضرت شاہ صاحب کی زندگی میں برکت عطا فرمائے۔ جس طرح حضرت شاہ صاحب نے طلاق کے مسئلے کوحل کیا ہے اور اس انداز میں بیان کیا ہے آج تک کوئی بیان نہیں کرسکا اور اب عوام کو بھی پتہ چل گیا ہے کہ طلاق کا مسئلہ کیا ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے۔ اس طرح آج کل بینک والوں نے دعویٰ کیا ہوا ہے کہ ہمارا کاروبار سُود سے پاک ہے۔ خاص کر میزان بینک کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ سُود سے پاک ہے جبکہ مضاربت اس کے اندر بھی نہیں ہے۔ نفع موجود ہے اور نقصان نہیں ہے۔ یعنی مضاربت نہیں ہے اور ساتھ ساتھ فتویٰ کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔ میری گزارش شاہ صاحب سے ہے کہ آپ ضرور اپنی تحریر میں وضاحت فرمائیں کہ واقعی پاکستان کے اندر کوئی بینک ایسا موجود ہے کہ جس کے اندر مضاربت کا معاملہ ہو اور سُود سے پاک ہو۔ یہ بڑا اہم مسئلہ ہے آپ عوام کو آگاہ کریں کیونکہ میزان بینک عوام کو دھوکہ دے رہا ہے۔

محترم مفتی علی زمان کشمیری ! نائب صدر اتحاد العلماء کراچی

السلام علیکم و رحمۃ اللہ : انتہائی مؤدبانہ گزارش ہے کہ میزان و دیگر نام نہاد اسلامی بینکوں کے بارے میں مفتی زر ولی ، مولانا سلیم اللہ خان اور جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے علاوہ ملک بھر سے بہت سے علماء و مفتیان اور ارباب مدارس نے کھل کر اس کے غیر اسلامی ہونے کی وضاحت فرمائی ہے۔ بینک سے زکوٰۃ کے مسئلے پر حضرت مولانا مفتی محمودؒ نے بھی مفتی تقی عثمانی سے کھل کر اختلاف کیا تھا مگر جو بڑی بڑی ریش والے اور اسلامی لبادے والے پہلے چھوٹے کاروباری مراکز میں حیلے کرتے تھے اب ان کو بڑا فتویٰ اور حیلہ مل گیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے بیانات اور قرآن کی تفاسیر تک میں لکھ دیا ہے کہ شادی بیاہ میں لفافوں کی لین دین سُود اور ستر گناہوں میں سے کم از کم ماں سے حرامکاری کے برابر گناہ کے مترادف ہے۔ جو لوگ سُودی بنیاد پر بینک چلاتے ہیں اور بعض لوگ انکا فتویٰ دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں تو وہی لوگ پھر شادی بیاہ کے مسئلے میں ان علماء و مفتیان کا فتویٰ نہیں مانتے۔ ایک طرف تصویر کو سیاسی علماء بھی ناجائز قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف جواز کا فائدہ اٹھانے کی بات بھی کرتے ہیں۔ اب تو یہ ہے کہ آوے کا آوا بگڑ چکا ہے۔ عوام اسلئے اپنے دین سے دور نہیں کہ وہ جہالت کی وجہ سے مار کھا رہے ہیں بلکہ سب کچھ جانتے بوجھتے عمل نہیں کرنا چاہتے۔ ہم نے طلاق کے مسئلے کو اسی لئے خاص طور پربار بار علماء و مفتیان کے سامنے پیش کیا کہ اس گناہ بے لذت کیخلاف آگاہی سے لوگ اسلام کے قریب آئیں گے۔ سب جانتے ہیں کہ رشوت اور چوری گناہ ہیں لیکن کتنے لوگ اس سے بچتے ہیں؟۔ یقین جانئے کہ اگر صرف طلاق کے مسئلے کو علماء کرام اور مفتیان عظام اپنی مساجد میں عوام کے سامنے کھل کر بیان کریں تو پوری اُمت قرآنی تعلیمات کی طرف متوجہ ہوگی اور اس کے بہترین نتائج سامنے آئیں گے۔
رسول اللہ ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع میں ہی سُود کو باقاعدہ نظام کی حیثیت سے ختم کرنے کا اعلان فرمایا تھا، جب تک معاملات پر دسترس نہ ہو تو اسلامی و غیر اسلامی بینک سب ایک ہیں۔ ہر وہ قرض جس پر نفع لیا جائے وہ سُود ہے۔ اب عام بینکوں نے بھی نام نہاد اسلامی طریقے سے سُود کا کام شروع کردیا ہے، بعض مذہبی جماعتیں نام نہاد اسلامی بینکوں سے پیسے لیکر سُود کیخلاف مہم چلا رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ جیسے لوگوں کی برکت سے اسلامی نظام لائے۔ عتیق گیلانی

فقرا و مساکین کے حق زکوٰۃ کو ہتھیانے کیلئے بھی ہتھکنڈے استعمال ہورہے ہیں، فیروز چھیپا

نوشتۂ دیوار کے منتظم اعلیٰ فیروز چھیپا نے اپنے بیان میں کہاکہ نماز کی طرح زکوٰۃ اللہ کا حکم ہے ۔ زیادہ تر لوگ رمضان میں زکوٰۃ دینا پسند کرتے ہیں، قرآن میں فقراء ومساکین کا اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے ذکر کیا اور باقی مستحقین مسافروں، حادثات کا شکار ہونیوالے، گردنوں کی آزادی، مؤلفۃ القلوب اور زکوٰۃ کے عاملین کی وضاحت ہے۔ یہ بہت بڑا المیہ بن گیا کہ فقراء ، مسکین کا حق چھیننے کے ہتھکنڈے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ مسلم امہ کی عزتوں پر وار کیلئے طلاق کی غلط تعبیر اور حلالے کے حیلے سے بڑی مصیبت کوئی نہیں تھی جس پر ہم نے عوام کو زبردست طریقے سے آگاہی دی اور جنکے ہاتھ میں زکوٰۃ کاروبار بن کر رہ گیاہے وہ زکوٰۃ کا بھی حلالہ کرتے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے زکوٰۃ نہ دینے والوں کے خلاف جہاد کیا تھا اور اگر موجودہ دور میں اس پر عمل ہوجائے تو بڑے نامی گرامی علماء ومفتیان زد میں آ جائیں گے۔ بڑے بڑوں نے زکوٰۃ کے مال کو ہتھیانے کیلئے اپنی منڈیاں بنارکھی تھیں۔ اب دوسرے چالاک وعیارلوگ بھی یہی کام کررہے ہیں۔ اگر امیر علماء کی زکوٰۃ غریب علماء کو مل جائے تو بھی زبردست خدمت ہوگی۔ سوشل میڈیا پر میں نے یہ پیغام دیا تھا۔جس کو عام کرنے بہت زیادہ ضرورت ہے۔ السلام علیکم۔۔۔رمضان کا مہینہ شروع ہونے کو ہے۔ صاحب ثروت اس مہینہ میں ایک خطیر رقم زکوٰۃ کی مد میں نکالتے ہیں، مگر افسوس کہ اللہ کے واضح حکم کے باوجود یہ رقم مستحق افراد تک نہیں پہنچ پاتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ مخیر حضرات اس انتہائی اہم فریضے کو خود اپنے ہاتھوں سے مستحق لوگوں تک نہیں پہنچاتے ہیں بلکہ مختلف قسم کی این جی او ، فرقہ وارانہ مدارس، لسانی و عصبی تنظیموں وغیرہ کو یہ رقم دیکر فرض کا قرض سمجھتے ہیں کہ فرض ادا ہوگیا۔ نتیجے میں زکوٰۃ کی رقم مستحقین تک فوری پہنچنے کے بجائے مختلف بینک اکاؤنٹس میں فکس ہوتی ہے۔ اب تو یہ بہت بڑا کاروبار بن چکا ہے، نوبت یہانتک پہنچ گئی کہ زیادہ سے زیادہ زکوٰۃ کی کے چکر میں زکوٰۃ ہی کی رقم سے لاکھوں کروڑوں کے اشتہارات پرنٹ میڈیا ، الیکٹرانک میڈیا اور شاہراہوں پر بل بورڈز لگائے جارہے ہیں۔
آپ حضرات دل پر ہاتھ رکھ کر ضمیر سے سوال کریں کہ جب سے بے شمار این جی او، فرقہ وارانہ مدارس اور تنظیموں نے لوگوں کی فلاح و بہبود ، مفت کھانا کھلانے، علاج معالجے اور طرح طرح کے پیکیجز شروع کئے، غربت میں کمی آئی ہے یافقیروں میں اضافہ ہوا؟۔ لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہوا ہے یا ا نکے مراکز پر منگتوں کی بھیڑ ہے۔ صحتوں میں استحکام آیا ہے یا ۔۔۔؟ زکوٰۃ لینے والوں کی تعداد کم ہوئی یا ۔۔۔؟ یقیناًحالات بد سے بدتر ہوئے ہیں۔ یاد رہے کہ جب کسی غریب کی عزت نفس بھی جاتی رہے اور وہ اداروں کے دروازوں پر بھکاریوں کی طرح سر عام لائنوں میں کھڑے ہونے پر مجبور ہو جائیں تو بالآخر وہ چوری، ڈاکا، صاحب حیثیت و مالکان کے گریبان میں ہاتھ ڈالنے پر مجبور ہوسکتے ہیں۔ کیا آج کل کے حالات ایسے ہی نہیں؟۔
میں نہیں کہتا کہ سارے ادارے، مدارس اور تنظیمیں غلط ہیں، ایک سے بڑھ کر ایک اللہ کے ولی ہیں مگر اکثریت ذاتی مفادات اٹھانے والوں کی ہے۔ ورنہ یہ اتنا بڑا کاروبار نہ بنتا۔ آخر میں عرض ہے کہ اگر اسی رمضان المبارک سے مخیر حضرات خود اپنے ہاتھوں سے قریب و دور کے مستحق افراد دوست، رشتہ دار ، ملازمین ، ہمسائے اور قرآن کے مطابق وہ افراد جو’’ ہاتھ نہیں پھیلاتے مگر تم ان کے چہروں سے ان کی کسمپرسی کا اندازہ لگاسکتے ہو‘‘۔ کو دینا شروع کردیا تو مجھے بارگاہ رب سے پوری امید ہے کہ اسکی رحمت جوش ماریگی۔ یقیناًاللہ کریم برکتوں کے دروازے بھی کھول دیگا۔ ایسا ہوا تو وہ ایماندار اور انتہائی مخلص لوگ جو صرف اللہ کی رضامندی کیلئے این جی اوز، مدارس اور مختلف ادارے چلا رہے ہیں وہ بھی خوش ہوجائیں گے کہ اب کسی کیلئے دست دراز نہیں کرنا پڑے گا۔ اور ذاتی مفادات اور باطل طریقے سے لوگوں کا مال کھانے والوں کا راستہ بھی رکے گا۔فقط ایک مخلص مسلمان

رمضان شریف میں زکوٰۃ کا اہم ترین مسئلہ

زکوٰۃ وصول کرنے کے نام پر بڑے بڑے اشتہارات لگانے والوں کی حیثیت ملٹی نیشن کمپنیوں سے بھی زیادہ ہے۔غریب ومستحق افراد کا اللہ نے ایک وسیلہ بنایا تھا ان ظالموں نے وہ بھی ان سے چھین لیاہے۔ معاشرے میں بہت سے عزتدار لوگ ہوتے ہیں جو زکوٰۃ کے مستحق ہوتے ہیں لیکن وہ کسی کے آگے اپنی ضرورت نہیں رکھ سکتے۔ امام غزالیؒ نے لکھ دیا تھا کہ ’’ امام ابوحنیفہؒ کے شاگردشیخ الاسلام امام ابویوسفؒ نے یہ حیلہ کررکھا تھا کہ سال ختم ہونے سے پہلے اپنا سارا مال اپنی بیوی کو ہبہ کردیتے اور پھر سال ختم ہونے سے پہلے بیوی اس کو ہبہ کردیتی تھی تاکہ زکوٰۃ سے بچا جاسکے۔ جب امام ابوحنیفہؒ سے کسی نے کہہ دیا کہ آپ کا شاگرد اس طرح سے کررہاہے تو فرمایا کہ یہ دین کا فقہ حاصل کرنے کا انعام ہے جس کا وہ فائدہ اٹھا رہاہے‘‘۔ امام ابوحنیفہؒ نے یقیناًطنز یہ یہ جملہ کہا ہوگا، مولانا ابوالکلام آزادؒ نے لکھا:’’ دارالعلوم دیوبند کا ایک بزرگ بھی یہ حیلہ کرتا ہے مگر یہ اسلام نہیں یہود نے جس طرح سے توراۃ کے حکم کو بگاڑ دیا تھایہ حدیث کے مطابق یہود کے نقش قدم پر چلنے کا نتیجہ ہے‘‘۔ (تذکرہ، آزادؒ )
حضرت ابوبکرؓ نے امیروں سے زکوٰۃ چھین کر غریبوں کو ان کا حق دلایا تھا، علماء کرام میں جو بہت امیر کبیر ہیں ان سے زکوٰۃ چھین کر غریب علماء میں بانٹی جائے تو کوئی مولوی غریب نہیں رہے گا لیکن فقہ وتفسیر کی کتابوں میں یہ لکھ دیا گیاہے کہ تمام فقہی مسالک اس پر متفق ہیں کہ زکوٰۃ میں زبردستی نہیں ہے۔ اگر حکمران زبردستی ان سے زکوٰۃ لیتے تو بیویوں کو ہبہ کرنے کے حیلے بہانے بھی نہ چلتے۔ خلافت راشدہ کا دور وہ تھا جسکے آخر میں بڑا شر برپا ہوا،آپس میں لڑ مرے،حالانکہ نبیﷺ نے فرمایا تھا کہ میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ صفات بیان کیں کہ رحماء بینھم اشداء علی الکفار ’’وہ آپس میں رحیم اور کافروں پر سخت ہیں‘‘ لیکن اسلام کے چہرے پر وہ غبار نہیں آیا جس کی وجہ سے اسلام کا سورج چھپ گیا ہو۔ پھر حضرت امام حسنؓ کے کردار کی وجہ سے صلح ہوگی لیکن اس خیر میں دھواں شامل ہوا، جس کے اثرات آج اپنے انتہاء کو پہنچ گئے ہیں۔
نبی کریمﷺ کی چاہت تھی کہ لوگ اپنی زکوٰۃ اپنے ہاتھوں سے مستحقین کے اندر تقسیم کردیں، صحابہؓ چاہتے تھے کہ آپﷺ کے ہاتھوں سے ان کی زکوٰۃ مستحقین کو مل جائے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کوحکم دیا کہ’’ ان سے صدقات ( وصول) کرو، یہ ان کیلئے تسکین کا ذریعہ ہے‘‘۔ نبیﷺ نے اللہ کے حکم سے صحابہؓ کی خواہش پر زکوٰۃ کو قبول کیا لیکن اپنے اہلبیت پر اس کو حرام کردیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے سمجھا کہ جو حکم اللہ کے نبیﷺ کو تھا،ایک خلیفہ کی حیثیت سے وہ حکم مسلمان حکمران کو بھی ہے، لہٰذا جن لوگوں نے بیت المال کو زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا تو انکے خلاف قتال کیا، حضرت خالد بن ولیدؓ نے ایک شخص کو قتل کرکے اس کی خوبصورت بیوی سے شادی بھی رچالی جس پر حضرت عمرؓ نے ان کو سنگسار کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ حضرت داؤد علیہ السلام کی 99بیویاں تھیں تب بھی اپنے مجاہد اوریا کی عورت پر دل آیا تو اللہ نے دنبیوں کی تعبیر سے آپؑ کو منع کردیا۔ فتح مکہ کے بعد رسول اللہﷺ حضرت علیؓ کی بہن ام ہانیؓ سے شادی کرنا چاہتے تھے تو اللہ نے فرمایا کہ جن رشتہ دارعورتوں نے ہجرت نہیں کی ان سے نکاح نہ کریں اور یہ بھی فرمایا کہ ’’اسکے بعد کوئی عورت بھلی لگے تو اس سے شادی نہ کریں‘‘۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ اللہ نے نبیﷺ کے وصال کے بعد بھی آپﷺ کی ازواج مطہراتؓ سے شادی کا منع فرمایا تھا، یوں ایک طرف کسی عورت کو بہت ہی بڑا شرف مل جاتا کہ ام المؤمنین بن جاتی تو دوسری طرف بیوہ بن جانے کے بعد بھی وہ شادی کی مجاز نہ ہوتی۔ ابنت الجونؓ سے نبیﷺ نے خلوت صحیحہ فرمائی تھی مگر انکے ساتھ ازدواجی تعلق قائم کرنے سے پہلے ان کو چھوڑدیا تھا۔ حضرت عمرؓ نے انکی شادی پر پابندی لگانا چاہی لیکن اس نے کہا کہ مجھے نبیﷺ نے ہاتھ نہیں لگایا۔
حضرت خالد بن ولیدؓ کو نبیﷺ نے سیف اللہ قرار دیا ،حضرت آدم ؑ اس شجرہ کے قریب گئے جسکا فرمایاگیا : ان لاتجوع ولاتعری کہ بھوکے ننگے نہ ہوجاؤ۔وہ کونساشجرہ ہے جسکے پھل کھانے سے انسان کا پیٹ نہ بھرے بلکہ بھوکا ننگا ہوجائے؟، شیطان نے آدمؑ کو بتایا ھل ادلکم علی شجرۃ الخلد وملک لایبلیٰ کیا تمہارے لئے اس شجرے کی نشاندہی کروں جو ہمیشہ والی ہو اور نہ ختم ہونے دولت ہو۔ مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے لکھا کہ شیطان نے اپنی مادی کیساتھ مباشرت کرکے بتادیا، بخاری میں ہے’’ اگر حواؑ نہ ہوتی تو کوئی عورت شوہرسے خیانت نہ کرتی‘‘۔
حضرت آدمؑ کا بڑا بیٹا اسی نافرمانی کے نتیجے میں پیدا ہواتھا، جس نے اپنی ناجائز خواہش کیلئے اپنے بھائی ہابیل کو شہید کردیا ،پھر کوئے نے دفن کرنے کا طریقہ بتایا۔ انسان اچھی سے اچھی چیز کھاکر بھی بدبودار بول وبراز خارج کرتاہے، اسکی پیدائش کا طریقہ کار بھی ماں باپ کے ملاپ اور نطفہ امشاج سے ہوتاہے۔ ضعیف انسان کو تکبر کسی طرح بھی زیب نہیں دیتا اور اللہ اس کو برداشت بھی نہیں کرتاہے۔ زکوٰۃ مستحق کیلئے گند نہیں بلکہ اس کیلئے حق حلال ہے اور غیرمستحق کیلئے گندو حرام ہے۔ یہ فقراء ومساکین کا حق ہے ، غریب بیواؤں اور یتیموں کا حق کھانے اور کھلانے سے اس امت پر عذاب کی کیفیت طاری ہوگئی ہے۔ مال اوراولاد کو اللہ نے فتنہ قراردیا۔ نبیﷺ زکوٰۃ لینے سے انکار کررہے تھے تو اللہ نے حکم دیا کہ انکی تسکین کا ذریعہ ہے اور جب نبیﷺ نے قبول کرلیا تو حضرت ابوبکرؓ نے مغالطہ کھایا جس کی وجہ سے وہ خالد بن ولیدؓ کا ناگوار واقعہ بھی پیش آیا، اس واقعہ کی وجہ سے حضرت خالد بن ولیدؓ کی تمام خدمات کو فراموش کرنا ایسا ہے جیسے حضرت آدم ؑ کی ساری شرافت و اعزازات میں بس درخت کی غلطی کو پکڑ کر تنقید وتنقیص کا نشانہ بنایا جائے۔ رسول ﷺ کا یہ بہت بڑا کارنامہ تھا کہ بیواؤں و طلاق شدہ خواتین کو زوجیت کی عزت کا شرف بخشا، حضرت ابوبکرؓ نے اپنی ضرورت سے تھوڑا زیادہ لینا بھی برداشت نہیں کیا، ان کے خلوص پر حسنِ ظن نہ کرنا اپنا نقصان ہے مگر جس مغالطے کی وجہ سے ایک عظیم فوج کے عظیم سپہ سالار سے اتنی بڑی لغزش ہوئی، حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ کاش نبیﷺ سے پوچھ لیتے کہ زکوٰۃ نہ دینے کے خلاف قتال کیا جائے یا نہیں؟۔ پھر زکوٰۃ کیلئے قتال کا مسئلہ ختم ہوا تو اس کی وجہ سے اچھی فضاء بن گئی اور یزید کے لشکر کے سپاہ سالار نے حضرت حر ؒ نے امام حسینؓ کا ساتھ دیا۔ ایک شخصیت کی وجہ سے مجموعی فضاء پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔ وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی کے گھر سے سیلاب زدگان کیلئے تحفہ میں دیا جانے والا ہار برآمد ہوا، یہ زرداری کی صحبت کے دور رس اثرات تھے۔
حضرت علامہ سیدمحمد یوسف بنوریؒ تاجدارِ مدینہ کے فرزند تھے، مدرسہ کیلئے ایک قانون بنادیا کہ ’’ایک سال سے زیادہ کیلئے زکوٰۃ نہیں لے جائے گی۔ طالب علم کو ہاتھ میں زکوٰۃ دیکر مالک بنایا جائیگا، اسکی طرف سے مدرسہ وکالت کا کام نہیں کریگا اور سالانہ ماہرین کے ذریعہ سے آرڈٹ کرایا جائیگا‘‘۔ علامہ یوسف بنوریؒ نے خود پر ہدیہ کو بھی حرام قرار دیا تھا۔ ایک سرمایہ دار نے کہا کہ مولانا آپ کو ضرورت نہ ہو تو مستحق لوگوں میں بانٹ دیں۔ مولانا نے فرمایا کہ ’’ ثواب آپکوملے جواب مجھے دینا پڑے، اس خسارے کا سودا میں نہیں کرتا‘‘۔ تاریخ کے ہر دور میں اہل حق موجود رہے ہیں، ہم نے ان اہل حق کی وراثت کا حق ادا کرنا ہے۔ حاجی عثمانؒ کے خلفاء کا یہ کارنامہ تھا کہ بسوں میں چلنے والے علماء کرام کو گاڑیاں دی تھیں، حاجی محمدعثمان ؒ نے سائیکل بھی نہ لی اور بہت خستہ حال بلڈنگ کے خستہ حال فلیٹ میں رہے۔ سیدعتیق

بیوقوف اور کرپٹ سول وملٹری پنجاب کو تباہ نہ کردیں

پنجاب کے بیوقوف سیاستدان اور کرپٹ ملٹری وسول اسٹیبلیشمنٹ کہیں پاکستان کے مرکزی حصہ کو آباد کرنے کے نام پر برباد نہ کردیں۔ پنجاب آلودہ ہوجائے اور دلدل بن جائے تو پورے پاکستان کو تباہ کرنے کیلئے دشمن کی ضرورت بھی نہیں ہے۔پنجاب کی عوام غربت، جہالت، انواع و اقسام کے امراض، علاج وتعلیم کی سہولت سے محروم اور عزتوں کی حفاظت نہ ہونے سے دوچار ہے لیکن ان کوشعور دینے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ واحد پہاڑی علاقہ ملکہ کوہسار مری سیروتفریح کے دن سفر کے قابل بھی نہیں ہوتا۔ حالانکہ ملکہ کوہسار مری سے شاہِ کوہسار وزیرستان اور بلوچستان کے وہ پہاڑی سلسلے جہاں زیارت اور قلات تک موسم گرما میں بہترین سیاحت ہوسکتی ہے ویران ہوتے ہیں۔ ریاست ایسے حالات پیدا کرسکتی ہے کہ گرمیوں میں پورے پاکستان اور دنیا بھر سے سیاحوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہے۔ ذوالفقار مرزا کہتاتھا کہ آئی ایس آئی میری ساتھی ہے، عذیر بلوچ اپنا بچہ ہے۔ عذیر بلوچ کی گرفتاری کی خبر احسان اللہ احسان کی حیثیت کو شکوک میں بدل رہی ہے۔