معاشیات Archives - Page 6 of 8 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

مجھے بھیک مانگنے پر شرم آتی ہے، وزیر اعظم عمران خان: واہ بھئی واہ سچ مچ؟ اشرف میمن

imran-khan-amir-liaquat-jemima-bushra-bibi-khawar-manika-shaukat-khanum-bheek-mangna-abdul-sattar-edhi-dr-tahir-ul-qadri-ptv-attack-case

کراچی (نمائندہ خصوصی )نوشتۂ دیوار کے پبلیشرتحریک انصاف سندھ کے سابق سینئر نائب صدر وامیدواربرائے قومی اسمبلی محمداشرف میمن نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کو یہ کہتے ہوئے غیرت، شرم اور حیاء نہیں آئی کہ ’’ مجھے بھیک مانگتے ہوئے شرم آتی ہے‘‘۔ واہ بھئی واہ سچ مچ ایسا ہے تواس خوشگوار تبدیلی کو خوش آئند کہا جائے یا نہیں؟ اپنی ماں شوکت خانم کے نام پر بھیک مانگتے ہوئے شرم نہ آئی، تو ریاست بڑی ماں ہوتی ہے ،اس کیلئے بھیک مانگتے ہوئے کیوں شرم آئے گی؟۔ عمران خان نے تو میڈیا پر کہا تھا کہ میں وزیراعظم بنوں گا تو قرضہ اُتارنے کیلئے فنڈز اکٹھے کرکے دکھاؤں گا۔ قوم نے سوچا کہ دوسرے کرپٹ ہیں، ان کو بھیک نہیں قرضہ بھی نہیں ملے گا، عمران خان کنگال ہے، شوکت خانم کے نام پر بھیک مانگ کر دکھائی ، پارٹی کیلئے بھیک مانگ کر دکھائی، دھرنوں کیلئے بھیک مانگ کر دکھائی، الیکشن مہم کیلئے بھیک مانگ کردکھائی تو قرضہ اتارنے کیلئے بھی بھیک مانگ کر دکھائے گا، اپنے بچے بھی اپنے یہودی ننھیال کی بھیک سے پرورش پارہے ہیں۔ اگر عمران خان کو اپنی اماں سے عقیدت تھی تو اس کی نافرمانی کرکے جمائماسے شادی اسلئے کی کہ مالدار تھی، پھر بھیک مانگ کر ہسپتال اسلئے تو نہ بنایا کہ اس کی بھیک سے خود بھی پلتا رہے؟۔ پھر پارٹی میں کرپٹ اور سرمایہ دارکو شامل کیا تاکہ ان کی بھیک سے پلتا رہے، اب اسلئے تو وزیراعظم نہیں بنا کہ کرپٹ ساتھیوں کے ذریعے اس ملک کو لوٹنے کی باری لے؟۔
ہماری قوم بڑی سیدھی سادی ہے۔ عمران خان کی اس بات پر بھی خوش ہوئی کہ بھیک مانگنے پر شرم آنے کی بات کردی، حالانکہ یہ تو سب جانتے ہیں کہ کرکٹ سے زیادہ یہ شخص بھیک مانگنے میں عالمی شہرت یافتہ ہے، اگر بھیک پر ایوارڈ ملتا تو ستار ایدھی اسکے مقابلے میں ہار جاتا،اتنی مہارت اس کو بھیک مانگنے میں حاصل ہے۔ یہی ادا تو ریاست اور قوم کو پسند آئی تھی اسلئے کہ قوم کو بھیک مانگنے کی ضرورت پہنچ گئی تھی۔ عمران خان کے پاس اور کیا عقل، دانشمندی، فلسفہ ، نظریہ اور منطق ہے؟۔ اپنے مفاد کی خاطر خاور مانیکا سے بیگم بشریٰ پنکی چھین لی۔ اسکے بچوں کی عزتِ نفس کا بھی خیال نہیں رکھا، وہ چیختے اور چلاتے رہے کہ ہماری ماں نے کوئی شادی نہیں کی ، ہماری بے عزتی نہ کی جائے۔ عامر لیاقت نے کہا کہ قرآن کے خلاف عدت میں شادی کی ہے تو اس کو پارٹی میں شامل کیا اور ٹکٹ بھی دیدیا۔ جو بیویوں کو بھی جوتوں کی طرح بدلے اس پر کارکنوں ، رہنماؤں اور قوم کا کیا اعتماد ہوسکتاہے؟۔ یہ جمہوریت ، قوم اور اس نظام کے خاتمے کی نشانی ہے کہ ایک ایسا شخص وزیراعظم بن گیا جس کو اقدار، روایات اور مذہب کا کوئی خیال نہیں۔ اُمت کا کوئی فرقہ تو بہت دور کی بات ہے،کوئی غیرمسلم بھی ایسا نہیں کہ کسی مزار کی راہداری کو چاٹے۔ دہشتگردی کا عروج تھا تو اس نے دہشتگردوں کی حمایت سے اسلام و مسلمانوں کوبدنام کیا، دہشتگردی کازور ٹوٹا تو مزار کی دہلیز چاٹنے سے اسلام اور مسلمانوں کا مسخ چہرہ دنیا کو دکھایا جا رہاہے۔ دنیا کو دکھایا گیا کہ پاکستانی مسلمانوں کے اقدار ہیں کہ سبھی کوبے غیرتی کا طعنے دینے والے کا اپنا چہرہ کیا۔ بیگمات ہتھیالینے ، دہشتگردوں کی حمایت ، مزار پر سجدے، پردے و بے پردگی، قول وفعل میں بدترین تضادات کے شکار شخص کو حکمران بنایا جائے تو چڑھتے سورج کے پجاری اسکی قیادت کو تسلیم کرنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتے، اگر خدانخواستہ عالمی قوت نے افغانستان میں رہائش پذیر دہشتگردوں یا بھارت کے ہندؤوں کو پاکستان پر مسلط کیا تو قوم قبول کریگی۔ عمران خان اس کی سرپرستی حاصل ہے جو اللہ کے اقتداراعلیٰ کے مقابلے میں مہرہ مسلط کرتی ہے، وہ قوت مخالف ہوئی تو قندیل بلوچ کے قتل پر عمران خان کو پکڑا جائیگا کہ اس نے بشریٰ پنکی سے تعلق کا انکشاف کیا ۔
طاہر القادری جہاز سے نہیں اتر رہاتھا کہ ماراجاؤنگا مگر پھر پارلیمنٹ کا دروازہ توڑا،PTV پر قبضہ کیا، قبرکھودی اور کفن لہراکرڈرامہ کیا۔ عمران نے یہ کہہ کر ذلت افزائی کی کہ’’ میں نے طاہرالقادری سے رشتہ تو نہیں مانگا تھا‘‘۔ یہ سازشیں ہیں جن سے قرآن کیمطابق پہاڑ ہل جائیں۔

اگر حکومت پاکستان ایمانداری کا مظاہرہ کرے تو عوام سے چندے مندے کی بھی کوئی ضرورت نہ ہوگی

sewerage-system-in-pakistan-shahra-e-faisal-defence-of-pakistan-economic-hub

ادارہ اعلاء کلۃ الحق رنچھوڑ لائن کراچی کے امیرابوبکر جاوید نے کہا کہ پاک فوج کے سپاہیوں کی طرف سے ایک دن، افسر طبقہ کی دو دن ، آرمی چیف کی طرف سے ایک ماہ کی تنخواہ کا پانی کے ذخائر کیلئے چندہ دینا خوش آئند ہے۔ ریاستی اداروں اور پرائیوٹ لوگ اپنی آمدن کی کچھ مخصوص رقم پانی کے ذخائز اور سیورج کے مسائل کیلئے وقف کردیں تو انسانی جسم کی مانند پاکستان کو زندہ ،توانا، تندرست اور خوشحال رکھ سکتے ہیں۔ دوبئی میں کھربوں روپے گئے ہیں اگر سندھ میں پانی بجلی اور سیورج کے نظام کو درست کیا جائے تو یہاں سے باہر گیا ہوا جائز وناجائز پیسہ واپس آسکتا ہے لیکن سب سے پہلے حکمران طبقے کو جاگنے کی ضرورت ہے۔ شارع فیصل کراچی کو وسیع کیا جائے تو عوام کی سہولت کے علاوہ نیوی وفضایہ کے علاقے معاشی حب بنیں گے۔ دفاع کیلئے خود انحصاری کا بہترین ذریعہ ہوگا۔ چندے مسائل کا حل نہیں۔

ملک ریاض نے 50 لاکھ چندہ دیا چیف جسٹس کو چندوں پر لگادیا بتی کے پیچھے لگانے کا یہ داؤ ہے

malik-riaz-50-lakhs-donation-chief-justice-saqib-nisar-chanda-lena-bahria-town-justice-asif-khosa-abdul-sattar-edhi-ramzan-chhipa

ادارہ اعلاء کلمۃ الحق سوشل میڈیا کے ایکٹیوسٹ یوسف صدیقی نے کہا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض ایک دیومالائی شخصیت ہے۔ حکومت سندھ کے اداروں سے زمین کے مالکان کو نوٹس جاری کرواتا ہے کہ تمہارے کاغذات درست نہیں، پھر مالکان مجبوری میں بحریہ ٹاؤن کو بیچ دیتے ہیں اور کاغذات درست ہوجاتے ہیں۔ چیف جسٹس ثاقب کے بارے میں خبریں آرہی تھیں کہ ملک ریاض کو بھی دائرہ کار میں لے لیاپھر 5 لاکھ کا چندہ مانگنے پر ملک ریاض نے50لاکھ روپے دئیے تو اس کی تعریف بھی چیف جسٹس ثاقب نثار نے کردی۔ بلکہ ڈیموں کے چندے کرنے کے دھندے پر لگادیا۔ چیف جسٹس کو اپنا کام چھوڑ کر چندہ کرنا ہے تو آصف کھوسہ کیلئے سیٹ خالی کرکے عبدالستار ایدھی یا رمضان چھیپا کی طرح نام کمائیں۔ اس کی تنخواہ کا بوجھ بھی خزانہ پر نہیں پڑیگا بلکہ چندے کی رقم سے اپنا گھر بھی چلالے گا۔

گومل ڈیم بن گیا مگر ٹانک کو بجلی اور پانی میسر نہیں. اس پر جے آئی ٹی بنانے کی ضرورت ہے

khawaja-asif-defence-minister-gomal-dam-district-tank-joint-investigation-team-jit-pervez-musharraf-american-aid-wapda-electricity-shortfall

نمائندہ خصوصی نوشتہ دیوار پختونخواہ شاہ وزیر سرحدی نے کہا کہ ٹانک شہر میں لوگ پانی کی بوند بوند کوترس رہے تھے۔ علاقہ گومل کے لوگ کہہ رہے تھے کہ جب گومل ڈیم نہ بناتھا تو علاقے میں وپڈا کی بجلی تھی، گومل ڈیم بن گیا تو بجلی کی تاریں ہیں لیکن ان میں کرنٹ نہیں ہے۔ وہ لوگ جو پی ٹی ایم سے کوئی تعلق نہیں رکھتے بلکہ جب پشتون تحفظ موومنٹ کا دور دور تک وجود نہیں تھا اور نہ اسکے کوئی آثار تھے توبھی کہا جاتا تھا کہ جنرل پرویزمشرف کراچی کا مہاجر تھا اسلئے یو ایس ایڈ امریکی امداد کی رقم سے گومل ڈیم بنایا۔ اگر پنجابی حکمران ہوتا تو یہ رقم پنجاب میں ہی خرچ کردیتا۔
گومل ڈیم بننے کے بعد بڑے پیمانے پر بجلی کی پیداوار ہوسکتی تھی لیکن چینی،فوجی اور واپڈا حکام نے مل جل کر رقم کھائی ہے یا رقم کھانے میں کسی ایک کا کردار ہے؟۔ اس پر بھی تیزرفتار جے آئی ٹی جسٹس کو بنانی چاہیے۔ بنے بنائے گومل ڈیم بہت وافر مقدار میں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وزیر پانی وبجلی خواجہ آصف اس وقت وزیردفاع بھی تھا۔ عمران خان نے بونیر میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے مقامی سطح پر سستی بجلی پیدا کرکے علاقہ کے لوگوں کو خوشحال بناناہے۔ وہ جو جھوٹ کی بنیاد پر اشتہارات چلارہاہے کہ پختونخواہ میں تبدیلی آگئی، اس کو چاہیے تھا کہ لالی لپے دینے کے بجائے بونیر میں بجلی پیداوار کے چالو منصوبے پر تقریر کرتا کہ ہم نے یہ روشنی دی ہے۔ یہ سستی بجلی ہے۔ پاکستان میں پہلے پنجاب اور دیگر صوبوں میں ایک حکومت اور اپوزیشن کا توازن رہتا تھا اب تو حکومت اور اپوزیشن دونوں پنجاب ہی سے ہیں۔ فوج میں بھرتی ہونے کیلئے کوئی اچھی ذہنی صلاحیت رکھنے والا جاتا نہیں اور نوازشریف نے درست کہاہے کہ مٹھی بھر لوگوں نے پورے پاکستانی عوام کا اختیار چھین رکھا ہے۔ منظور پشتین نے حق نواز پارک ڈیرہ اسماعیل خان کے جلسے میں کہا کہ یہ بندوق کے زور پرلڑسکتے ہیں مگر ہم عدم تشدد کے نظریہ سے خالی ہاتھ بھی جنگ کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایک لمحہ بندوق کے بغیر لڑنے کی صلاحیت نہ رکھنے والے ہار جاتے ہیں۔ پاکستان کی ریاست نے اگر عوام کی فلاح وبہبود کیلئے کام کرنا ہے تو ٹانک شہر کیلئے گومل ڈیم سے بندوبست کر دیں، یہ ایم این اے اورایم پی اے کے بس کی بات نہیں۔ ٹانک شہر تمام سرکاری دفاتر اور عوام کا مرکزہے۔ گومل کو کہیں اور سے نہیں گومل ڈیم سے بجلی مہیا کی جائے۔ زیادتی کے نتائج سے بغاوت کے جذبات پھیلتے ہیں اور فوج کا یہ کام نہیں کہ لڑکوں سے ان کی مرضی کی لال ٹوپی چھین لیں۔ عوام کو سہولت میسر ہوگی اور احساس ہوگا کہ ہمارا حکمران طبقہ ہم پر مہربان ہے تو پاک فوج اور سیاستدانوں سے دل کھول کر محبت کی جائے گی۔ بھٹو، نوازشریف کے بعد ایک دور میں عمران خان بھی فوج سے باغی بن جائیگا۔ حقیقی لیڈر شپ کو آنے دیا جائے۔

سیاست ناکام، ریاست نامراد ، علماء کرام شادآبادنہیں

maulana-maududi-communism-akbar-badshah-sajda-e-tazeemi-mufti-taqi-article-62-and-63-garib-kisan-zina-haiz-and-iddat

مولانا محمد علی جوہر، شوکت علی، مولانا حسرت موہانی، مولانا ظفرعلی خان لیگی کامریڈتھے اور علامہ اقبال نے بھی ’’فرشتوں کے گیت‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا :
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
کانگریس کے منشور میںیہ تھا کہ’’ انگریز نے خانوں، نوابوں ،سرداروں اور دلّالوں کو جو جاگیریں دی ہیں ان کو آزادی کے بعد بحقِ سرکار ضبط کردیا جائیگا‘‘۔ قائد اعظم محمد علی جناح کانگریس کے اس منشور سے متفق تھے۔ پاکستان کیلئے محرک ہندوؤں کا تعصب تھا۔ مسلمان قادیانیوں کو اس وقت بھی ہندو سے زیادہ اسلام کا دشمن سمجھتے تھے ،قائداعظم میں مذہبی تعصب نہ تھا۔ انگریز کی باقیات سول وملٹری بیوروکریسی اور پاکستان کی آڑ میں نوابوں اور جاگیرداروں نے اپنی دلالی سے حاصل کرنے والی جاگیروں کو تحفظ دینا شروع کیااور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے اسلام کی آڑ میں کمیونزم کی مخالفت کے نام پر اس ناجائز ملکیت کو اسلام کے نام پر جواز بخشا تھا تو یہ پاکستان کے اندر طبقاتی نظام کی بقا کے سب سے بڑے محرکات ہیں۔ اب تو سودی بینکاری کا بھی نام اسلامی بینکاری میں بدلا گیاتو مندروں کو مساجد اور سومنات کو کعبہ کہنے میں ان مولوی نما لوگوں کیلئے کیا مشکل ہے؟۔
اکبر بادشاہ نے اپنے لئے سجدۂ تعظیمی کا جواز اسلئے پیش کیا کہ بنی اسرائیل کے حضرت یوسف علیہ السلام سے مغل اعظم کی حیثیت کو کم نہیں قرار دیا، علماء کرام نے درباری بن کر اکبر بادشاہ کا ساتھ دیا۔ حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی نے جرأت کرکے کہا کہ ’’ سجدہ تعظیمی اسلام میں حرام ہے‘‘۔ جنہوں نے آوازِحق بلند نہیں کی ،وہ ریاست کے وفادار ٹھہرے۔ کیونکہ وہ بادشاہ کو ظلِ الٰہی قرار دیتے تھے اور بادشاہ کو سجدہ درحقیقت خدا کو سجدہ قرار دیا جاتا۔ جمعہ کے خطبے میں اس حدیث کی تحقیق ضروری ہے السلطان ظل اللہ فی الارض من اہان سلطان اللہ فقد اہان اللہ ’’ بادشاہ زمین پر اللہ کا سایہ ہوتا ہے، جس نے اللہ کے بادشاہ کی توہین کی تو اس نے اللہ کی توہین کی‘‘۔ جب اللہ زمین و آسمان کا نور ہے تو نور کا سایہ نہیں ہوتا ہے۔ جب نبیﷺ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپؑ کا سایہ نہیں تھا تو اللہ تعالیٰ کا سایہ کہاں سے آئے گا؟۔ اور وہ بھی مغل بادشاہوں اور انگریز حکمرانوں کی صورت میں؟۔ تحقیق اور شعور کی بہت ضرورت ہے۔
تنکے والے سرکار ننگے تڑنگے بابا سے نوازشریف اور بینظیر بھٹو ڈنڈیاں کھاکر اقتدار کا عقیدہ رکھتے تھے اور اب اقتدار کی دہلیز پر پہنچنے سے قبل تحریک انصاف کی تیسری اماں جی بابافریدؒ کے مزار کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوگئی، خود کو خوب رگڑا کہ اقتدارملے اور عمران خان نے بھی اس کی اقتداء میں سجدہ کرلیا۔ آرے چومنا تھاتوقبرکو چومتے،کعبہ کی چوکھٹ نہیں حجراسود کو چوما جاتا ہے۔سرکاردوعالمﷺ کی گنبد پر حاضری میں یہ عقیدت کیوں بھول گئے؟۔ طالبان عمران خان کواسلئے بہتر سمجھتے تھے کہ ایاک نعبد وایاک نستعین کے وردسے مغالطہ کھایا تھا اور ریحام خان سے محرم کے عاشورے میں نکاح کیا تھا،ریحام خان سے نکاح کے چھپانے کے بعدبشریٰ بے بی سے نکاح چھپانے کی کوئی گنجائش نہیں تھی مگر چونکہ عدت میں نکاح کا مسئلہ آگیا اسلئے پھر چھپانے کا المیہ پیش آیا۔ حدیث میں ہے کہ خلع کی عدت ایک حیض ہے اسلئے اس نکاح کو حرامکاری قرار دینا عامر لیاقت کی جہالت تھی البتہ حنفی اس حدیث کو قرآن کیخلاف سمجھتے ہیں، تحقیق وشعور کی بہت ضرورت ہے ۔ آئین پاکستان میں پارلیمانی ممبر کیلئے دفعات واضح ہیں۔
احادیث صحیحہ میں مزارعت کو ناجائز اور سود قرار دیا گیا ہے۔امام بوحنیفہؒ اور باقی تمام ائمہ کرامؒ اس پر متفق تھے کہ ’’مزارعت جائز نہیں ‘‘۔ بعد میں آنے والے علماء وفقہاء نے یہ حیلہ نکالا تھا کہ ’’ مزارعت کی وجہ سے غلامی جیسا ماحول پیدا ہوتا تھا اسلئے اس کو ناجائز اور سودقرار دیا گیا‘‘۔ حالانکہ آج بھی مزارعت سے غلامی کا ماحول پیدا ہورہاہے۔ پشتو میں بیع وال کا لفظ مزارع اپنے جاگیردار اور جاگیردار اپنے مزارع کیلئے استعمال کرتا ہے، جیسے عربی میں مولیٰ کا لفظ غلام اور آقا دونوں کیلئے آتا ہے۔ اُردو ، سندھی اور پنجابی میں مزارع کا لفظ مزارع سے خاص ہے۔ کسی بھی پلیٹ فارم سے مزارع کو غلامی کے قائم مقام قرار دیا جاتاہے۔ سیاسی جماعت کا باغی کہتا ہے کہ’’ میں اپنے قائد کا مزارع نہیں ہوں‘‘۔ سیشن کورٹ جج کی توہین پر چیف جسٹس ثاقب نثار سے کراچی بار نے کہا کہ ’’ ماتحت عدلیہ سے مزارع والا سلوک نہ کیا جائے‘‘۔ کیا مزارع انسانیت سے بالکل خارج ہیں؟۔
سندھ، پنجاب اور پورے پاکستان میں مزارعین کے حالات بد سے بدتر اور غلامی سے کم نہیں ہیں۔ جب علاقہ گومل میں یہ افواہ پھیل گئی کہ روس چڑھ دوڑرہا ہے تو ہمارے ایک مزارع کے چھوٹے بیٹے گل زرین نے اپنے باپ کا نام لیاکہ ’’اس کے کونسے(زمین کے) مربعے ہیں، روس آئے تو بھی ہم نے پرائی زمین میں مزارعت کرنی ہے اور نہ آئے تو بھی ہم نے یہی مزارعت ہی کرنی ہے‘‘۔ بھٹو نے روٹی، کپڑا، مکان اور اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگایا مگر خاطرخواہ اسلامی تعلیمات سے اچھے خاصے دارالافتاء کے مفتی اور بڑے مدارس کے مدرسین بھی بہرہ مند نہ تھے۔ مولانا مودودی صاحب کو اگر جماعتِ اسلامی کے علماء زبردستی داڑھی نہیں رکھواتے تو نہ انکے ساتھ مولانا لکھا جاتا اور نہ وہ عالمِ دین ہونے کا دعویٰ کرتے۔
جاگیردار سیاستدانوں پر اسمبلی کا دروازہ بند کیا جائے تو وہ مزارعین کی مجبوری سے پھر بھی فائدہ اٹھائیں گے۔ آئین کے مطابق اسمبلی ممبر کیلئے خاطر خواہ اسلام کی تعلیمات ضروری ہیں، وہ فرائض کا پابندہو اور گناہ کبیرہ کا مرتکب نہ ہو۔ سودی نظام سے بڑھ کر گناہِ کبیرہ کیا ہے؟۔ حدیث میں اسکے 70سے زیادہ گناہ، وبال اورنحوستوں کا ذکر ہے جس میں سے کم ازکم گناہ اپنی ماں سے زنا کے برابر ہے۔ دارالعلوم کراچی کے شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی اور مفتی عبدالرؤف سکھروی نے لکھا ہے کہ ’’ شادی بیاہ میں نیوتہ کی رسم بھی سود ہے اور اسکے70سے زیادہ گناہ میں کم ازکم گناہ اپنی ماں کیساتھ زنا کے برابر ہے‘‘۔ مفتی تقی سراپا تقویٰ ہے اسلئے اس نے سودی بینکاری کو معاوضہ لیکراسلامی بینکاری قرار دیا ہے یا جہالت ولالچ کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ مولانا فضل الرحمن پہلے ایم آر ڈی کیساتھ تھے تووہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی حنفی کا مؤقف اپنا مشن قرار دیتے تھے کہ اقتدار مل جائے گا تو مزارعت کو ناجائز قرار دیکر ختم کردینگے مگر اب تو لگتا ہے کہ موصوف خود بھی نواز شریف کے مزارع بن گئے ہیں۔ سیاستدانوں اور سول وملٹری بیوروکریسی سے عوام کا اعتماد اُٹھ چکاہے۔ علماء ومفتیان اجنبی اسلام کا ازسرِ نو جائزہ لیں اور عوام کو اعتماد میں لیکر اسلام کے معاشرتی نظام کا آغازکریں۔بغاوتوں کا سلسلہ جاری ہے اور عدالتوں کیلئے ممکن نہیں کہ مزارعین کو جاگیرداروں اور عوام کو ریاستی غنڈہ گردوں سے انصاف دلاسکیں۔ یہ عدالتیں نوازشریف نے پہلے بھی تاراج کیں، جنرل پرویزمشرف نے ججوں کو قید کردیا اور اب بھی سابقہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے دانیال عزیز سے زیادہ سخت لہجے میں عدالت کے جج کی توہین کا بیڑہ اُٹھایا۔ آئین کی دفعہ62اور63پر کوئی بھی نہیں اتر رہاہے، منافقت چھوڑ دو۔

پاکستان میں پانی کے بحران کا ہنگامی بنیاد پر آسان حل

kalabagh-dam-tharparkar-karachi-rivers-of-pakistan-bhains-colony-karachi-Jam-Kando-Karachi

مدیر مسؤل نوشتۂ دیوار نادرشاہ نے کہا چیف جسٹس ثاقب نثارنے پانی کا مسئلہ تو اٹھادیا، اسکے حل کیلئے معروضی حقائق سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سندھ کویہ خوف ہے کہ پنجاب کالاباغ ڈیم سے صحراؤں کو آباد کرکے سندھ کو پانی سے محروم کریگا اسلئے اسے زندگی موت کا مسئلہ قرار دیتے ہیں۔ غیراسلامی جاگیرداری نظام ختم کیا جائے، صوبہ سندھ میں دریا کے مختلف مقامات پر رکاوٹیں کھڑی کی جائیں، جس سے پانی دریامیں رُکے۔گھوٹکی سے ٹھٹھہ تک مختلف مقامات پر چھوٹے بڑے ڈیم بنائیں اور کراچی وتھرپارکر کیلئے خصوصًا اور سندھ کی باقی آبادی کیلئے بالعموم نہری نظام بنائیں ، یہ آسان اور سستا ہے۔ پہاڑی ومیدانی علاقے کے بچے ندی نالوں میں رکاوٹیں کھڑی کرکے پانی کی سطح بلندکرتے ہیں، جب پانی نہ ہو تو یہ پانی پینے اور مویشی کے کام آتاہے۔ ندی یا پہاڑیوں سے پتھر اٹھا کر لوہے کے جال سے سہارا دیا جائے۔ دریا میں ہمہ وقت وافر پانی کی گنجائش ہے اوراسکا فائدہ اُٹھایاجائے تو زمین کے اندر بھی پانی کی سطح بلند اور کھاری کی جگہ میٹھا پانی آجائیگا اور چھوٹے ڈیموں پر بجلی کے منصوبے بھی لگ سکتے ہیں۔ بحریہ ٹاؤن کی زمینوں پر سرکاری محکموں سے مل کر قبضہ کیا جارہاہے ۔کراچی کا پانی بھی چھین لیا۔اگر حیدر آباد کراچی کی راہ میں ڈیم بنا تو ملیراور لیاری ندیاں پانی سے مالامال ہوں گی۔
کراچی میں جہاں بارش کے پانی سے ذخیرہ بناکر زیرِ زمین پانی کا بندوبست کیا جاتا تھا اسکا راستہ بند کردیا گیا۔ جس کی ایک مثال بھینس کالونی موڑ سے آگے جام کنڈو راستہ میں سورتی کمپنی کے پاس خشک ندی ہے۔ جب سندھ وکراچی کو بڑی مقدار میں پانی ملے تو کالاباغ ڈیم، دریائے سندھ اور باقی دریاؤں سے پانی کے ذخائر کا موقع ملے گا۔ پانی وبجلی کا محکمہ وفاقی ہے ،وفاق سندھ سے ابتداء کرے تو مسائل کے حل میں مشکل کا سامنا نہ ہوگا۔ بلوچستان تربت بلیدی میں MPA نے سرکاری فنڈز سے بارش کے پانی سے کئی ڈیم بنائے، علاقہ سرسبزوشاداب کردیا جو قابلِ تقلیدتھا مگر ہماری سیاست، صحافت ریاست ، عدالت کے دھندے اور لگن جدا ہیں ۔ سندھ کبھی کربلا،کبھی طوفان نوح کا منظر پیش کرتاہے مگر وفاق کو صرف پنجاب کی فکر اسلئے ہے کہ مریم نواز اور ن لیگیوں نے صحرائیں خرید لی ہیں۔ کراچی میں پانی کے مسئلہ پر بلاول بھٹو پر لیاری میں پتھراؤ ہوا، سیاستدان یہ اڑا رہے ہیں کہ رینجرز نے پانی کا مسئلہ بنایا ہے، زرعی زمین کے کنوؤں سے بھی میٹھا پانی ٹینکروں کو نہیں اٹھانے دیا جارہا ہے ۔ ایسا تو یزید ، چنگیز ، فرعون اور نمرود نے بھی نہ کیا ۔ درندوں کا پیٹ بھرتا ہے مگر حکمران کا پیسے سے نہیں ۔

Nadir-Shah-Map-River

پاکستان میں سب سے اہم مسئلہ پانی کا ہے مگر ارباب اختیار کی توجہ نہیں۔ پبلشر نوشتۂ دیوار اشرف میمن

pervez-musharraf-kala-bagh-dam-pakistan-kishanganga-dam-inauguration-by-India-violation-jam-kando-bhains-colony-karachi-establishment-of-pakistan
پنجاب میں فیکٹریوں کی آلودہ پانی سے موذی امراض پھیل رہے ہیں۔ پشاور میں کارخانو مارکیٹ کا متعفن پانی حیات آباد جیسے علاقے میں بدترین آلودگی پھیلارہا ہے۔ بلوچستان ، سندھ اور کراچی میں پانی کا بحران ہے ۔ جنوبی افریقہ کے ترقی یافتہ علاقہ کیپ ٹاؤن میں پانی کی قلت سے ایک بڑا بحران پیدا ہوا۔ پاکستان کے پاس ایک ماہ کا ذخیرہ کرنے سے زیادہ پانی نہیں ۔ سیاست اور حکومت پر قبضہ کرنے کے خواہشمند تاجر اور کھلاڑی قیادت کو احساس نہیں ہے کہ آنیوالے وقت میں پاکستان کھنڈر بن جائیگا۔
عبوری حکومت اپنی کابینہ میں ٹیکنوکریٹ شامل کرکے پانی کا مسئلہ ترجیحی بنیادوں پر حل کرے۔ پرویز مشرف کی ڈکٹیٹر شپ نے خواتین کی اضافی نشستیں رکھی ہیں تو آج مذہبی اور سیاسی جماعتیں خواتین کو ٹکٹیں دینے کی بات کر رہی ہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں کالا باغ ڈیم بن جاتا تو آج پانی کا مسئلہ پیش نہ ہوتا۔ بھارت بار بار شرارت کی داستان رقم کررہا ہے مگر ہم اتنی ہمت نہیں کرسکتے کہ اسکے پانی کے ڈیم کو ایک میزائل ماردیں۔ پورا پنجاب بھارت نے بنجر کردیا ہے اور کشمیر پر مظالم و غاصبانہ قبضے کے باوجود امریکہ کے ساتھ ملکر پاکستان کیخلاف سازش کررہا ہے۔
ہماری ریاست اتنی کمزور ہے کہ اپنے ہاں بھی ہم ڈیم نہیں بناسکتے۔ کالاباغ ڈیم تمام چھوٹے بڑے ڈیموں کی ماں ہے۔ کالاباغ ڈیم کے بغیر سندھ کو آباد کرنا ممکن نہیں ہے۔ اگر اصحاب اقتدار کے پاس دل و دماغ ہوتا اور اس میں قوم و ملک کیلئے مثبت سوچ کی گنجائش ہوتی تو نہ صرف کالاباغ ڈیم بنتا بلکہ اٹک سے ٹھٹھہ تک پورے دریائے سندھ میں ڈیم کی شکل میں پانی جمع کیا جاسکتا تھا۔ سازشی عناصر بلیک میلنگ اور قومی خزانہ لوٹنے کے چکر میں رہتے ہیں۔ ملک و قوم اور عوام کیلئے کوئی کام نہیں کرتے۔
گاؤں دیہاتوں میں جہاں پانی ذخیرہ کرنے کی عوام کو ضرورت ہوتی ہے تو چھوٹے چھوٹے نالوں میں بھی پانی کو ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ تحصیل ، ضلع اور ڈویژن کی سطح پر بھی دریائے سندھ کے پانی کو ذخیرہ کرنے کا اہتمام ہوتا تو طوفانوں کا پانی ضائع ہونے کے بجائے غریب عوام کو کام آتا۔ بڑی حقیقت کو ایک چھوٹی سی مثال سے سمجھنے کی کوشش کی جائے تو بھی ایک لائحہ عمل تیار کیا جاسکتا ہے۔
کراچی بھینس کالونی موڑ سے آگے نیشنل ہائی وے پر رینجرز کی چوکی سے جام کنڈو کی طرف ایک روڈ جاتا ہے ، جس پر صورتی کمپنی کے قریب ایک پل بنا ہوا ہے ، جسکے نیچے پانی کے بہاؤ کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس پل کا مقصد بارش کے پانی کو روکنا تھا۔ اس ذخیرے سے آس پاس کے کنوؤں میں پانی بھر جاتا تھا۔ اب تو سندھ سرکار نے پتہ نہیں کس سے کیا کھایا اور کیا پیا کہ بارش کا پانی بند ہوا ۔
ڈیرہ اسماعیل خان سے دریا خان تک میلوں کچا علاقہ ہے جس میں خشکی کے دور میں پانی کا بہت بڑا ذخیرہ بنایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح پنجاب اور سندھ کے تمام اضلاع میں پانی کے ذخائر بنائے جائیں تو بھی فی الفور اور بڑے پیمانے پرپانی کے بحران سے پاکستان کی بچت ہوسکتی ہے لیکن سیاستدان غل غپاڑے والے کام کرتے ہیں ۔ خود تو منرل واٹر پر گزارہ کرتے ہیں اور غریبوں کی کوئی فکر نہیں رکھتے۔ بال بچے ، گھر بار ، جائیداد اور بینک بیلنس سب ہی دیارِ غیر میں رکھے ہیں یہاں صرف لیڈری چمکانے ہی کی خواہش ہے۔ دھڑلے سے جھوٹ بول کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں۔ آئین کے دفعہ 62، 63میں صادق و امین اوراچھے کردار کی شرط ہے۔ مریم نواز کو اپنے باپ نواز شریف کے سر کی قسم ہو کہ وہ عوام سے مخاطب ہو اور کہے کہ ’’پارلیمنٹ میں نواز شریف سے جھوٹ فرشتوں نے اگلوایا تھا ، نواز شریف کی روح پر خلائی مخلوق کا قبضہ تھا ورنہ اتنی بیوقوف اور پاگل تو میں بھی نہیں تھی کہ سرِ عام اس طرح اپنی جائیدادوں کا اعترافِ جرم کرتی‘‘ ۔
عمران خان کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ عدالتوں سے اس نے نواز شریف کو نا اہل کروادیا۔ ساتھ ساتھ جہانگیر ترین بھی نا اہل ہوا ہے اور اگر کسی نے سیتا وائٹ کا کیس لاکر عمران خان کو چیلنج کردیا تو عمران خان بھی نا اہل ہوگا۔ یہ نا اہلی کی تلوار نواز شریف ، جہانگیر ترین کے بعد عمران خان اور پتہ نہیں کس کس کے اوپر چل سکتی ہے اور چلنی چاہیے۔ آنیوالے وقت میں عدلیہ نے سب کے ساتھ برابری کی بنیاد پر یکساں سلوک کرنا ہے۔ عمران خان نے پختونخواہ میں چیف منسٹر کیلئے منظور آفریدی کی منظوری اسلئے دی تھی کہ وہ ایوب آفریدی کے بھائی ہیں جس نے حال ہی میں سینٹ کے الیکشن میں تحریک انصاف کو خرید لیا تھا۔ جب عمران خان کو پتہ چلا کہ منظور آفریدی کی تصویر مولانا فضل الرحمن کے ساتھ بھی ہے تو اسکو مسترد کردیا۔ یہ کونسا اخلاقی پیمانہ ہے کہ وزیر اعلیٰ بننے سے پہلے عمران خان سے منظور آفریدی کی ملاقات کرانے میں شرم محسوس نہیں کی گئی؟۔
غیر جانبدار الیکشن کیلئے ایسے افراد کا انتخاب ضروری ہوتا ہے کہ ان کو پتہ بھی نہ ہو اور فریقین اس پر اعتماد کرلیں لیکن پاکستان میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں ۔ جب آئین میں یہ لکھا ہے کہ اپوزیشن لیڈر اور وزیراعلیٰ دونوں کا اتفاق ضروری ہے تو پھر پارٹی قیادت کا اس میں کردار بالکل آئین کے منافی ہے۔ انصاف کا تقاضہ یہ تھا کہ جس طرح الطاف حسین کی قیادت کو متحدہ قومی موومنٹ سے الگ کردیا گیا اسی طرح دیگر قیادتیں بھی پارٹیوں پر اختیار کھودیتیں ۔ جمہوریت کا بنیادی تقاضہ یہ ہوتا ہے کہ قائد کوئی ڈکٹیٹر نہ ہو ، جبکہ یہاں قیادتوں کی ڈکٹیٹر شپ ہی کو جمہوریت کا نام دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے چیئر مین سینٹ صادق سنجرانی کی مذمت اسلئے کی کہ جس طرح شاہد خاقان عباسی نواز شریف کے حکم کا ایک ادنیٰ غلام ہے اسی طرح صادق سنجرانی کو بھی ہونا چاہیے۔
جمہوریت کا بنیادی تقاضہ یہ ہے کہ پارٹی پر قیادت کا راج نہ ہو بلکہ کارکنوں اور رہنماؤں کا راج چلے۔ مغرب کی جمہوریت میں عوام اور پارٹی کے کارکنوں و رہنماؤں کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ یہاں ذو الفقار علی بھٹو کے لے پالک، جنرل ضیاء الحق کے گودی بچے اور ایمپائر کی تلاش میں اپنی دُم سر پر باندھ کر یہ دکھانے والے کہ خفیہ ہاتھ ہمارے ساتھ ہے اپنی کٹھ پتلی قیادت کا ایک تماشہ ہیں۔
پاکستان کی ریاست سول و ملٹری بیوروکریسی کا فرض بنتا ہے کہ پانی کے معاملے کو سنجیدہ لیں ۔ کشمیر کی آزادی کا تمغہ سیاسی بیانات سے حاصل نہ ہوگا۔ جب مذہبی بنیاد پر ہم اپنے ہاں ایک معاشرتی تبدیلی لائیں گے تو بھارت کو نہ صرف کشمیر سے دستبردار ہونا ہوگا بلکہ بھارت کے تمام مسلمانوں میں بھی بیداری کی لہر دوڑے گی اور ہندو اپنے مذہب کی صداقت کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوگا۔
اسلام جبر و اکراہ کا مذہب نہیں بلکہ ایک فطری دین ہے۔ ذات پات ، قوم و نسل ، رنگ زبان اور ہرطرح کے تعصبات سے ماورا ہے۔ پاکستان کی بقاء اسلام میں ہے اور بھارت کی بقاء سیکولر ازم میں ہے ۔ ہمارا مثبت رویہ ہی ہماری بقاء کی ضمانت ہے۔ امریکہ ، بھارت اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ پاکستان کیلئے تباہی کا منصوبہ ہے لیکن اللہ تعالیٰ ہم پر اپنا فضل فرمائیگا۔ اسلام کے خدو خال خاندانی وموروثی سیاسی و مذہبی قیادتوں نے تباہ کئے ہیں۔ جہاں کہیں سے بھی روشنی کی کرنیں میسر ہوں ان کو جلد سے جلد عوام تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ پنجاب، بلوچستان پختونخواہ، سندھ ، کراچی ، کشمیر ، گلگت و بلتستان اور افغانستان کے عوام میں ایمان کی شمع روشن کرنے کی دیر ہے اور اس کیلئے سب سے بڑا ذریعہ قرآن و سنت ہے۔ علم کے ذریعے سے اپنا دین زندہ ہوگا اور دین زندہ ہونے سے ہمارے ایمان کی بھی آبیاری ہوگی۔ جنرل راحیل شریف کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاک فوج کے ذریعے ملک میں امن قائم کیا اور فوج نے پہلے سب سے بڑی غلطی یہ کی تھی کہ نواز شریف کو جنم دیا تھا۔ اب اس کا ازالہ بھی فوج کا کام ہے۔

پاکستان میں ترقی کا خواب طبقاتی تقسیم کے بغیر ہی پورا ہوسکتا ہے: فاروق شیخ

ghq-islamabad-pindi-lahore-queta-jnral-hamid-gul-khalid-bin-waleed-gulbadeen-hikmat-yar-masood-azhar-hafiz-saeed-maleer-kund-keti-bandar-bait-ul-muqaddas-hazrat-ibrahim

نوشتۂ دیوار کے مدیر مسؤل فاروق شیخ نے کہا ہے کہ جب غباروں میں ہوا ہوتی ہے تو ان کو ایک جگہ اکھٹا کرنا مشکل ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ آپس میں لڑو مت ورنہ تمہاری ہوا اُکھڑ جائے گی۔ پاکستان کی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ طبقاتی کشمکش سے نکل کر اتحاد و اتفاق اور وحدت و یکجہتی کے ساتھ سب ملکر کام کریں۔ ہمارے اخبار میں بعض اوقات بلکہ اکثر و بیشتر سخت جملوں کا استعمال ہوتا ہے۔ منتشر قوم کی منتشر ذہنیت کا علاج اسی میں ہے کہ اس کے مختلف طبقات میں غباروں کی طرح بھری ہوئی ہوا کو نکال دیا جائے۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بتوں کو توڑا ، اور ان کیلئے آگ تیار کی گئی پھر جھولے سے آگ کے اندر پھینکنے کی تیاری کررہے تھے تو فرشتوں نے اللہ سے کہا کہ کیا ہم مدد کرسکتے ہیں؟ ۔ اللہ نے فرمایا کہ بالکل ! ۔ فرشتوں نے مدد کرنا چاہی تو حضرت ابراہیم ؑ نے ان کی مدد لینے سے انکار کیا۔ پھر جب آگ میں جھونکے گئے تو اللہ نے خود ہی آگ کو کہا کہ ’’اے آگ ابراہیم پر سلامتی والی ٹھنڈی ہوجا‘‘۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اس آگ کی آزمائش سے بچنے کیلئے اللہ کی بارگاہ میں بھی ہاتھ نہیں اٹھائے۔ پھر جب ایک بادشاہ کی طرف سے حضرت سارہؓ کی عزت کا معاملہ پیش آیا تو خوب اللہ کی بارگاہ میں گڑگڑائے ۔
اس دعا کی برکت سے حضرت سارہؓ کی عزت بھی محفوظ رہی اور حضرت ہاجرہؓ بھی مل گئیں جن سے حضرت اسماعیل ؑ اور پھر پیغمبر کائنات رحمۃ للعالمین ﷺ پیدا ہوئے اور حضرت ابراہیم ؑ واسماعیل ؑ نے بیت اللہ کی تعمیر کے وقت نبی کائنات آخری پیغمبر ﷺ کیلئے دعا کی تھی۔ مشرکین مکہ کی جہالتوں سے نبی ﷺ کو مکہ سے ہجرت کرنی پڑی۔ معراج میں نبی ﷺ نے مکہ سے مسجد اقصیٰ اور عرش کا سفر براق پر کیا تھا مگر مدینہ ہجرت پر آپ ﷺ نے غار ثور اور بڑی مشکلوں سے سفر طے کیا۔ دین میں عقیدت ہے منطق نہیں ورنہ اُمت اس بات سے متذبذب ہوجاتی کہ ہجرت کے وقت اللہ نے براق کیوں نہیں بھیجا؟۔
علماء کرام اور مشائخ عظام نے اپنی قدامت پسندی سے دین اسلام کی خوب حفاظت کی ۔ سائنسی آیات پہلے متشابہات تھے اور اب قرآن سائنسی بنیاد پر بھی ثابت ہورہا ہے ۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسلام کے احکام اجنبی بنتے چلے گئے ہیں۔ جس کیلئے قرآن و سنت کی طرف رجوع کی ضرورت ہے۔ اداریہ اور صفحہ 3پر جو علمی مضمون لکھا گیا ہے اس کو تمام مکاتب فکر کے جید علماء کرام اور مفتیان عظام اچھی طرح سے پرکھ لیں۔ انشاء اللہ ان کی طرف سے خوب داد ملے گی ۔ باقی مضامین میں بھی یہ کوشش کی گئی ہے کہ پاکستان سے ایک ایسے انقلاب کا آغازہو جس میں طبقاتی تقسیم کے بجائے ترقی و عروج کی سمت سفر کیا جائے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے گمراہ کن پروپیگنڈے سے عوام کے اندر تعصبات کی ایسی فضاء بن سکتی ہے جو نسلوں کیلئے تباہ کن ہوگی۔ ہماری کوشش ہے کہ میانہ روی ، اعتدال اور صراط مستقیم کی نشاندہی کردی جائے۔ ہم ہر نماز کی ہر رکعت کی سورہ فاتحہ میں کہتے ہیں کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کیلئے ہیں لیکن پھر تعصبات کا شکار ہوکر کسی ایک طبقے کی تعریف کرنے لگ جاتے ہیں۔ پھر اس کو رحمن اور رحیم قرار دیتے ہیں لیکن خود کو بے رحم اور غضبناک ہی ثابت کرتے ہیں۔ اللہ کو قیامت کے دن کا مالک کہتے ہیں مگر دنیا ہی پر مرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اللہ تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں تو ہمیں صراط مستقیم کی ہدایت عطا فرما ۔ لیکن صراط مستقیم کی بجائے افراط و تفریط اور کسی مخصوص طبقے کی وکالت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس سے بڑی گمراہی کیا ہے کہ قرآن کو مانیں مگر قرآن کی نہ مانیں؟۔
قرآن کہتا ہے کہ ان الذین اٰمنوا و الذین ھادوا و النصاریٰ و الصابئین من اٰمن باللہ و الیوم اٰخر و عمل صالحاً فلھم اجرھم عند ربھم ولا خوف علیھم ولاھم یحزنون (البقرہ:62)’’بے شک جو لوگ مسلمان ہیں ، یہود ہیں ، عیسائی ہیں اور صابئین (حضرت نوح علیہ السلام کے اُمتی ہندو) ہیں جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے تو ان کیلئے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے ۔ اور ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ حزن والے ہوں گے ‘‘۔ ہمارا یہ مسئلہ ہے کہ دوسرے مذاہب سے قرآن کے مطابق تعصبات نہ رکھنے کی تلقین پر یقین بھی نہیں ہے اور اپنے ہاں بھی سابقہ اُمتوں کے نقش قدم پر چل کر تفرقوں کا شکار ہیں۔ حالانکہ ان کی مذمت اسی متعصبانہ ذہنیت کی وجہ سے ہوئی تھی کہ وہ کہتے تھے کہ لن یدخل الجنۃ الا من کان ھوداً او نصاریٰ تلک امانیھم ۔۔۔ومن اظلم ممن منع مساجد اللہ ان یذکر فیھا اسمہ وسعیٰ کی خرابھا اولئک ماکان لھم ان یدکلوھا الا خائفین لھم فی الدنیا خزی ولھم فی الاٰخرۃ عذاب عظیم
آج مسلمان درج بالا آیات کے مصداق بن گئے ہیں ۔ مساجد میں بھی دہشتگردی کی وجہ سے خوفزدہ ہوکر داخل ہوتے ہیں ۔ مختلف موضوعات پر ہمارے اخبار نوشتۂ دیوار اور سید عتیق الرحمن گیلانی کی ویڈیوزzarbehaq.comاور zarbehaq.tvپر دیکھئے ۔ اخبار کے اس خصوصی شمارے میں بھی جو مضامین ہیں وہ دیکھنے کے قابل ہیں۔

بھٹو، مفتی محمود، مودودی، نورانی، ولی خان، غوث بزنجو اگر مزارعین کو مفت زمین دیتے تو انقلاب آچکا ہوتا

zulfiqar-bhuto-mufti-mehmood-moulana-moudodi-molana-noorani-wali-khan-ghous-baksh-baznjo-muzaareen-ko-muft-zameen-dete-to-inqalab-aa-chuka-hota

سیاسی قائدین اور رہنما بکتے نہیں تھکتے مگر ان کو پتہ نہیں کہ نظریہ کیا ہے؟۔ کارل مارکس کی کتاب ’’کیپٹل داس‘‘ نے بڑا انقلاب برپا کردیا ۔ اس میں ’’قدر زاید‘‘ کی بات ہے۔ ایک مزدور جتنی محنت کرے اور کسی باصلاحیت ڈاکٹر، کمپیوٹر اسپشلسٹ اورکاریگر وغیرہ میں صلاحیت ہوتی ہے ، ان میں یہ شعور اجاگر کرنا کہ تمہاری محنت و صلاحیت کا فائدہ سرمایہ دار اٹھالیتاہے اور تمہارے ساتھ یہ بڑا ظلم ہے۔ مثلاًٹھیکدار بلڈنگ ٹھیکہ پر لیکر 10کروڑ لگا کر ایک کروڑ کمائے ۔ مزدور اور کاریگروں کو سمجھایا جائے کہ اس نے پیسوں سے تمہاراحق چھین لیاتو اس سے بچنے کا علاج مُلا نہیں بتاتا ہے۔وہ پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری دینے کی بات کرے لیکن سرمایہ دار نے جو رقم وصول کرلی، اس کو جائز کہتا ہے۔ سود صرف قرض میں نہیں بلکہ نقد میں بھی ہے۔ محنت کش و باصلاحیت عوام کو دنیا میں سرمایہ داروں نے غلام بنایا۔ آزادی کیلئے کمیونسٹ اور سوشلسٹ نظام کو سمجھنا پڑیگا۔ جب سب کچھ سرکاری ہوگا تو محنت کش کو درست صلہ ملے گا، دنیا میں امن وسکون قائم ہوگا اور انسانیت کی بھلائی کے سب کام ہونگے۔ بڑے مخلص لوگ اس نظریہ کیلئے خود کو وقف کردیتے تھے۔
پیپلزپارٹی کے رہنما اور ملک کی سیاست کا بڑا اثاثہ قمرزمان کائرہ نے کہا کہ ’’ ہمارے ہاں جب تک بڑی بڑی گاڑیوں میں نہیں جاؤگے تو سائیکل ، موٹر سائیکل اور بیل پر سوار ہوکر جاؤگے توپھر کوئی بھی ووٹ نہ دیگا‘‘۔پہلی مرتبہ بینظیر بھٹو خود ساختہ جلاوطنی کے بعد آئی تھی تو لینڈ کروزر متعارف کرایا تھا، اسلئے عوام نے 1988ء کے الیکشن میں جتوا دیا تھا۔ حبیب جالب نے بھی گایا : ’’ ڈرتے ہیں بندوق والے اِک نہتی لڑکی سے ‘‘۔ پھر ISIنے نوازشریف و دیگر میں رقوم بانٹ کر1990ء میں اسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت قائم کی۔ نوازشریف اور شہبازشریف نے ڈٹ کر پیسہ کمایا۔ کرپشن پر برطرفی ہوئی۔1993ء میں پھر پیپلزپارٹی آئی۔ لندن فلیٹ و منی لاندرنگ کی کہانی اسوقت سے چل رہی ہے۔ رحمن ملک فرشتہ کو پتہ تھا کہ مریم نواز کے نام پر سعودیہ اور دوبئی کی پراپرٹی بھیج کر فلیٹ خرید لیں گے۔ نوازشریف پارلیمنٹ کی تقریر میں کہے گا کہ 2006ءکو فلیٹ خریدے گئے اور 2011ءمیں مریم نواز جیو نیوز ثناء بچہ کے پروگرام میں کہے گی کہ’’ میری کوئی جائیداد نہیں ، اپنے والد کے پاس رہتی ہوں ، پتہ نہیں میری اور میرے بھائیوں کی کہاں سے یہ لوگ جائیداد نکال کر لائے ‘‘۔ جبکہ حسین نواز کہے گا کہ الحمدللہ لندن کے فلیٹ میرے ہیں ، اپنا کاروبار کرتاہوں، میری والدہ کے نام پر بھی بیرون ملک جائیداد ہے اور اس کا حساب میں میڈیا پر نہیں عدالت کو جاکر بتادوں گا۔ (میڈیا ریکارڈ)
لاہور میں 10لاکھ کی جگہ پر تحریک انصاف کے علیم خان اور سپیکر ایاز صادق کے درمیان الیکشن ہوا تو 50،50کروڑکی رقم لگائی گئی اور جہانگیر ترین نے ایک ارب روپیہ لگادیا۔ اب یہ سوچ پیدا ہوگئی کہ تحریکِ انصاف کے عمران خان ہیلی کاپٹر کے ذریعے جلسوں میں جائیگا اسلئے الیکشن میں اسی کو مزہ آئیگا۔اس کو جلدی بھی اسی لئے ہے۔ جسکے پاس پیسہ خرچ کرنے والوں کی اکثریت ہوتی ہے وہی الیکشن جیت جاتی ہے۔ پیسہ خرچ کرنے والا غریب اور نظریاتی نہیں بلکہ استحصالی طبقہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں سیاست کو تجارت بنالیاگیا۔ اسٹیبلشمنٹ بھی پیسوں کیلئے چھوٹے بڑے پیمانے پر بک جاتی ہے۔ جہاں سے پیسہ ملتاہے انہی کو سپورٹ کیا جاتاہے۔ کاروبارِ مملکت کے بڑے حصے کو سول وملٹری اسٹیبلشمنٹ بھی کھاتی ہے اسلئے مہروں کی تلاش جاری رہتی ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا مگر جس طرح طالبان کے نام سے عالمی قوتوں نے حکومت کا لالی پاپ دیکر علماء کرام کو ورغلایا تھا ،اسی طرح پاکستان کو بھی صرف استعمال کیا گیا مگر حقیقی نظرئیے کا یہاں کوئی نام ونشان نہیں تھا۔
قائداعظم محمد علی جناح بھی پہلے کانگریس میں تھے مگر ہندو تعصب نے مسلم لیگ کی طرف دھکیل دیا۔ کانگریس کے منشور میں یہ بات شامل تھی کہ انگریزوں کی دی ہوئی جاگیروں کو ضبط کرلیا جائیگا۔ نوابوں، خانوں اور سول بیروکریسی نے پاکستان کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا تو فوج نے اس پر قبضہ کرلیا۔ بھٹو کی عوامی قیادت بھی اسکے ڈیڈی ایوب خان کی مرہون منت تھی اور نوازشریف بھی جنرل ضیاء کی پیداوار ہیں۔ تحریک انصاف کا ناطہ بھی امپائر کی انگلی سے گھومتا ہے۔ اگر منظرنامہ بدل جائے تو شیخ رشید کہے گا کہ ’’عمران خان جیسا بیکار انسان میں نے نہیں دیکھا، خیبر پختونخواہ کی عوام کو پنجاب میں داخلے پر خوب پٹھوادیا مگر بڑی دہائیاں دینے کے بعد بھی عمران خان خود بنی گالہ کے پہاڑی سے نیچے نہیں اُترا۔ پاک فوج ضرب عضب کے سب سے مشکل آپریشن میں مشغول تھی اور عمران خان بے شرم ، بے غیرت اور ذلیل آدمی ایک طرف امپائر کی انگلی اٹھنی کی بات کر رہا تھا تو دوسری طرف پنجاب پولیس کو طالبان کے حوالہ کرنے کی بات سے بھی نہیں شرماتا تھا۔ عائشہ گلالئی ایک عورت ذات ہے اور اس نے عمران خان پر سنگین الزامات لگادئیے لیکن پھر بھی اسکے خلاف الیکشن کمیشن میں جارہاہے کہ اس نے شیخ رشید کو وزیراعظم کے الیکشن میں ووٹ نہیں دیا مگر خود نامزد کردیا اور پھر بھی عمران خان اور جہانگیرترین نے ووٹ دینے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ عمران خان کا لیڈر بننا قیامت کی نشانی ہے‘‘۔
پاکستان کو اسلامی نظریہ دینے کی ضرورت ہے۔ زمین کی جائز ملکیت سے کمیونسٹ منع کرتے ہیں مگر اسلام منع نہیں کرتا۔ البتہ اسلام زمین کو مزارعت، بٹائی، کرایہ اور ٹھیکے پر دینے کو منع کرتاہے۔ نبیﷺ نے فرمایا: ’’ زمین کو خود کاشت کرو، یا جس کو کاشت کیلئے دو ، پوری محنت کاصلہ بھی اسی کا ہے‘‘۔ ابوحنیفہؒ ، مالکؒ اورشافعیؒ سب متفق تھے کہ نبیﷺ نے اس کو سود قرار دیا ہے اسلئے مزارعت جائز نہیں ۔ آج نوازشریف، شہبازشریف، آصف علی زرداری، شاہ محمود قرشی، مولانا فضل الرحمن، شیخ رشید، پرویزمشرف، جنرل اشفاق کیانی، افتخارمحمد چوہدری، مفتی محمد تقی عثمانی، مفتی منیب الرحمن ، عمران خان، جہانگیر ترین اور دیگر تمام مذہبی وسیاسی رہنماؤں کو اپنے بال بچوں سمیت مفت میں زمین دی جائے کہ خود ہی کاشت کرو، سب محنت تمہاری ہے، پھر بھی وہ اپنے لئے جیل جانا پسند کرینگے مگر کاشتکاری کی محنت نہ کرینگے اور اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی ہوگا ۔ انشاء اللہ
اگر مزارعین کو کاشت کیلئے مفت میں زمینیں دی جائیں تو وہ اس سے زیادہ اور بڑی بادشاہی نہیں مانگیں گے۔ غلامی سے ان کو نجات مل جائے گی۔ اپنی محنت سے آزاد زندگی گزارینگے تو اپنی روٹی، کپڑا اور مکان کا بھی خود بندوبست کرلیں گے۔ اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کے قابل بن جائیں گے تو وہاں سے بہت صلاحیت والی قیادت بھی ہر میدان میں قوم کے پاس آئے گی۔ قابل ڈاکٹر، قابل عالمِ دین، قابل سیاسی قائدین اپنے ملک کا نام روشن کرسکیں گے۔ بلاول بھٹوزرداری ، حسین وحسن نواز اور بڑے لوگوں کی نالائق اولاد اپنے قوم کے سر نہیں لگے گی۔ جنکے اندر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھنے کے باوجود کوئی صلاحیت آئی ہے اور نہ آسکتی ہے۔ ان موٹے تازے لوگوں سے زمینوں کی کاشت کاری کا کام لیا جائے تو ان کی صحت بھی بنے گی اور کچھ نہ کچھ دماغ بھی کام کرنے کے قابل بنے گا۔
جب زمین کاشت کرنے کا اچھا معاوضہ ملے گا تو مزدور کی دھاڑی بھی مارکیٹ میں خود بخود بڑھ جائے گی۔ شہروں کا باصلاحیت طبقہ بیروزگاری کے سبب لوٹ ماراور ورادتوں میں ملوث ہونے کے بجائے دیہاتی بچوں کو پڑھانے جائیگا۔ جاہل طبقہ زمین کاشت کرنے کا رخ کریگا۔ تعلیمی اداروں کا خواب پورا کرنے کیلئے چندوں کی ضرورت نہ پڑیگی۔ لوگ خود تعلیم پر خرچہ کرینگے۔ تعلیم سب سے زیادہ باعزت اور باوقار پیشہ بن جائیگا تو ایک بہترین نصاب تعلیم اور اچھے تعلیمی اداروں کا قیام بھی عمل میں آئیگا۔ دنیا روزگار کی تلاش میں یہاں آئیگی تو امن وامان کے گہوارے پاکستان میں دنیا بھر سے لوگ یہاں سرمایہ کاری بھی کرینگے۔ پاکستان انقلاب کا تقاضہ کررہاہے۔
اتنی موٹی سی بات سمجھنے میں دشواری نہیں کہ جوجاگیردار و سرمایہ دار ، سول وملٹری اسٹیبلشمنٹ کے افسران اور سیاستدان یہ نہیں چاہتے کہ وہ مفت میں زمین لیکر خود اور اپنے بچوں کو اس کام پر لگادیں۔ خدارا، دوسرے لوگوں کیلئے اتنا ضرور کریں کہ وہ اپنے بچوں سمیت اس کو بادشاہی پرسمجھ کر خوش ہوجائیں۔ یہ کتنی شرم کی بات ہے کہ جو کمائی اپنے لئے سخت سزا لگتی ہو اور یہ سزا دوسرے کیلئے نعمت ہو،تب بھی اسکا رائج کرنا منظور نہ ہو؟۔ 2018ء کے انتخابات کیلئے حدیث اور ائمہ کے متفقہ مسلک کو بنیاد پر مزارعت کا نظام ختم کیا جائے توبڑا انقلاب آجائیگا۔ نظریاتی سیاست کی بڑی بنیاد یہی ہوسکتی ہے۔
جب پاکستان کی فضاؤں سے غلامانہ غیر اسلامی نظام کی بنیادیں ہل جائیں گی تو غیرمسلم بھی پکار اُٹھیں گے کہ دنیا بھر کی زمین میں تمام انسانیت کو ایسا نظامِ حکومت چاہیے۔ اسلام نے مسلمانوں پر زکوٰۃ اور غیرمسلموں پر ٹیکس کا نظام رائج کردیا تھا۔ نفع ونقصان کی بنیاد پر سود کے بغیر زبردست تجارت ہوسکتی ہے اور اب دنیا اسکی طرف آرہی ہے تو ہم نے زیادہ سے زیادہ سود کو اسلامی بینکاری کا نام دیدیا ہے۔ اگر ائمہ اجل کے مؤقف سے انحراف نہ کیا جاتا تو روس اور امریکہ دونوں اسلامی حکومت کے دروازے پر ڈھیر رہتے۔ اسلامی نظام میں تحریف کے سبب ایک طرف روس نے کمیونزم اور دوسری طرف امریکہ نے کیپٹل ازم کے اندر دنیا کو جکڑ لیا اور ہم دوسروں کے ہاتھوں میں بری طرح استعمال ہوگئے ۔ ہم نے لیفٹ رائٹ کے چکر سے نکل کر عدل واعتدال کی راہ صراط مستقیم پر چلنے کی قسم کھانی ہے۔
سیاسی نظریہ دینا فوج کا کام نہیں، اس نے اپنی ڈیوٹی کے وقت اپنی نوکری کرنی ہے۔ نظریاتی آدمی پہلے فوج میں جانہیں سکتا اور اگر جائے بھی تو فوج کیلئے شرمندگی کا باعث بنتاہے۔ البتہ قحط الرجال میں جنرل ایوب، جنرل ضیاء اور پرویز مشرف بھی نظریاتی گئے۔ اگر فوج کسی جماعت، تنظیم ، پارٹی اورتحریک کی ماسٹر مائنڈ ہو تو پھر بہتر ہے کہ وہ کسی کٹھ پتلی اور جعلی قیادت کے بجائے خود ہی اقتدار پر قبضہ کرکے بیٹھ جائے۔ المیہ یہ ہے کہ کوئی نظریاتی انسان پیدا نہیں ہوا، ورنہ وہ کسی کیلئے کام کرنے کے بجائے سب کو اپنے نظریہ پر لگانے کی صلاحیت رکھتاہے۔ ہماری عوام کو یہ پتہ بھی نہیں کہ قائداعظم نے کوئی بھی نظریہ ایجاد نہیں کیا تھا بلکہ جب انگریز یہاں سے جارہاتھا تو اس سوچ کی مخلصانہ قیادت کی تھی کہ دوقومی نظرئیے کی بنیاد پر ملک کو تقسیم کرنا چاہیے۔ مشرقی پاکستان کی آبادی ہم سے زیادہ تھی اور اردو زبان ہندوستان سے آنیوالے مسلمانوں کی زبان تھی جس کو آج الیکٹرانک میڈیا کی بدولت پاکستان کی اکثریت سمجھ رہی ہے۔ قائداعظم کو خود بھی اردو نہیں آتی تھی۔ بنگلہ دیش نے ہم سے آزادی حاصل کرلی اور اپنے پڑوسی ممالک ایران و افغانستان سے ہمارے تعلقات کبھی شاندار نہیں رہے تو دوقومی نظریہ بھی عملی طور سے دفن ہوگیاہے۔ اسلام قوم نہیں بلکہ نظریہ ہے اور نظریہ بھی ایسا ہے جو انسانیت کیلئے بھی قبول ہوسکتاہے۔
ایک ہوں مسلم ہوں حرم کی پاسبانی کیلئے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر
اسلام پاکستانی قومیت کی بنیاد پر سرمایہ دارانہ نظام کو تحفظ دینے کی لعنت کا نام نہیں اور نہ دوسروں کیلئے آلۂ کار کے طور پر استعمال ہونے کا نام اسلام ہے۔ ہاں ہم مختصر اسٹیبلشمنٹ سے آزاد نہ ہوسکے تو متحدہ ہندوستان میں رہ کر کونسا تیر مارتے؟۔
پاکستان کی سرزمین، پاکستان کی عوام، پاکستان کی فوج، پاکستان کی سول بیوروکریسی، پاکستان کے علماء ومفتیان بہت اچھے اور شاندار لوگ ہیں۔ یہ ان کی اچھائی کی مضبوط دلیل ہے کہ یہاں نظریات اور عقائد پر کوئی پابندی نہیں۔ جب کسی نے اچھا نظریہ پیش نہیں کیا۔ اسلام کو طلاق اور حلالہ کا پیش خیمہ بنادیا تو کون پاگل مزید اس کی تلاش اور تگ ودو میں اپنا وقت ضائع کرتا؟۔ ایوب خان نے عائلی قوانین بنائے تھے تو اس کو اسلام کے خلاف سازش کانام دیا گیا تھا۔قرآن وسنت پر کسی فرقے ، مسلک اور جماعت کا اتحاد ہی نہیں ، بس پیٹ کے جہنم کو بھرتے بھرتے مذہبی طبقے کی زندگی ایکدوسرے کی دشمنی میں گزر جاتی ہے اور عوام کہتے ہیں کہ یہ دینداری، یہ تعصب اور یہ جاہلانہ طرزِ عمل تمہی کو مبارک ہو۔ مولوی خود بھی زمینداروں اور سرمایہ داروں کے ہاں چندوں کے وصول کیلئے کمیوں کی طرح رہتے ہیں۔ مجلس عمل کی حکومت آئی تھی اور علماء سے اسمبلی بھری ہوئی تھی مگرمذہبی جماعتوں نے وزیراعلیٰ اکرم درانی بنادیا تھا۔
اسلام کا ہتھیار کے طور پرذاتی مقاصد کیلئے استعمال بہت بُرا ہے۔ مولوی نے سمجھ رکھاہے کہ دنیا میں ویسے بھی اسلام نہیں آسکتا تو مسلکی تعصب کے نام پر اپنی قسمت بنالو۔ جس طرح پاکستان اسلام کے نام پر بنا مگر اسلام نہ آیا۔ طالبان کی حکومت نے اسلام کیا انسانیت کا بھی بیڑہ غرق کیا اور ایران کے اسلامی انقلاب نے کوئی تاثیر نہیں دکھائی ،دوسرے ممالک میں زیادہ پیسہ خرچ کرکے دہشت گردی کی بنیاد رکھ دی اور سعودیہ نے دوسروں کو اپنے حق حلال کمائی سے بھی جب چاہا، محروم کردیا اور کوئی بھی ایسا اسلامی ملک نہیں جہاں اسلامی نظام قائم ہو۔
اسلام کے نام پر اسلام آباد اور اقتدار چاہیے تو اسلام کے نام کو استعمال کرنے کی ضرورت نہیں۔ اقتدار یزید کے پاس ہو لیکن اسلام کے مضبوط اقتصادی اور معاشرتی نظام سے دنیا بھر میں زبردست پذیرائی مل سکتی ہے۔ وقت کی سپر طاقتوں روم وفارس کو اسلامی افواج نے شکست اسلئے نہیں دی تھی کہ عرب اور مسلمان بڑے بہادر تھے بلکہ اسلامی نظام کی حیثیت ایسی تھی جس کو دنیا کی عوام میں پذیرائی مل رہی تھی۔
آج دنیا سے مزارعت اور سودی نظام کا خاتمہ کرنے کیلئے پاکستان سے ابتداء ہوجاتی ہے تو روس، چین ، یورپ، امریکہ، چاپان، آسٹریلیا اور دنیا بھر کے مسلم وغیرمسلم ممالک ہمارا نظام اپنے ہاں بھی رائج کردینگے۔ کارل مارکس نے یہ نظریہ پیش کیا کہ’’ قومی حکومت ہو اور محنت و صلاحیت کی بنیاد پر سب اپنا اپنا کمائیں اور کھائیں۔ دوسرا یہ کہ لوگ کمائیں اپنی محنت اور صلاحیت کے مطابق لیکن پیسے اپنی ضرورت کے مطابق لیں‘‘۔ اسلام نے مذہبی روح کے مطابق ایمان، انسانیت اور آخرت کا جذبہ اجاگر کرکے اعلیٰ ترین حکومت کی مثال قائم کردی۔ ابوبکرؓ نے خلافت کا منصب سنبھالا تو تجارت کیلئے نکلے، ساتھیوں نے کہا کہ معقول معاوضہ مقرر کردیتے ہیں اسلئے کہ حکومت پر مکمل توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جب کافی عرصہ ہوا، اور گزارے کے قابل وظیفہ پر عمل ہورہاتھا تو بیگم صاحبہؓ نے ایک دن کچھ میٹھا سامنے رکھ دیا اور کہا کہ روزانہ تھوڑی تھوڑی بچت سے اس کی گنجائش نکلی ہے۔ حضرت ابوبکرؓ وہ مٹھائی لیکر گئے اور اتنا وظیفہ بھی کم کیا جتنی بچت کرکے میٹھا بنایا تھا۔ عمرؓکا دور آیا تو حضرت عمرؓ نے اپنے لئے درمیانہ درجے کا وظیفہ مقرر فرمایا۔
جدید ریاستی نظام اور اقوام متحدہ کی سربراہی نے اقوام عالم اور انسانیت کے مسائل کا کوئی خاطر خواہ حل نہیں نکالا ہے۔ قرآن نے ایک قائدہ بتایا ہے کہ ’’ جوچیزانسانیت کیلئے نفع بخش ہوتو وہ زمین میں ٹھکانہ بنالیتی ہے اور باقی جھاگ کی طرح خشک ہوجاتی ہے‘‘۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا :’’ بہترین لوگ وہ ہیں جو لوگوں کو نفع پہنچائیں‘‘۔ جدید علوم قرآن وسنت ہی کا تقاضہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں پر انسان کو علم کی وجہ سے بلند درجہ دیا اور اس کو زمین میں خلیفہ بنایا۔ اللہ نے فرمایا:’’ اللہ کے پاس ساعۃ کا علم ہے، وہ بارش برساتاہے، اور جانتا ہے جو کچھ ارحام میں ہے، کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا حاصل کریگا اور کس زمین پر وہ مریگا‘‘۔ حدیث میں ہے کہ ’’یہ پانچ غیب کی چابیاں ہیں‘‘۔
ان پانچ چیزوں میں پہلی 3چیزوں کی اللہ نے دوسروں کی نفی نہیں کی ۔ پہلی چیز ساعۃ کا علم ہے۔ عربی میں وقت اور اس کی اکائی کو بھی ساعۃ کہتے ہیں اور قیامت کے دن کو بھی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر اس سے قیامت مراد لی جائے تو پھر اس کا تعلق قرآن میں بیان کردہ چوتھی چیز سے ہوگا۔ کل کے علم کی اللہ نے نفی کردی ۔ عربی میں گھنٹہ،لمحہ کو بھی ساعۃ کہتے ہیں مگراس کا اطلاق کل پر نہیں ہوتا ۔ گویا دونوں باتیں بھی الگ الگ ہیں اور نبیﷺ نے ساعہ کو غیب کی چابی کیوں قرار دیا؟۔معراج کا سفر جس ساعہ(لمحہ) میں طے ہوا، اور اللہ نے سورۂ معارج میں فرشتوں اور جبریل کے چڑھنے کے سفر کی مقدارایک دن کے مقابلے میں 50ہزار سال قرار دی ہے تو غیب کی چابی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتاہے۔ ایک عرصہ تک علماء کے اندر بھی اختلاف رہا کہ سفر روحانی تھا یا جسمانی؟۔ اب بھی پڑھے لکھے جاہل سفر معراج کو خواب قرار دیتے ہیں۔
سرسید احمد خان، غلام پرویز اور جاوید غامدی جیسے لوگوں کو چاہیے تھا کہ معروف سائنسدان البرٹ آئن سٹائن کا دریافت کردہ نظریۂ اضافیت ہی دیکھ لیتے، جس میں تیزرفتاری کے بعد وقت کی پیمائش کا پیمانہ ریاضی کے طے شدہ اصول کے تحت بدل جاتاہے۔ قرآن وسنت کی تفسیر زمانہ نے بقول ابن عباسؓ کردی ہے۔ نظریۂ اضافیت کی سمجھ تک رسائی مشکل ہے تو دن رات کی مثال دیکھ لو جس سے زمین کا محور کے گرد گھومنے کا علم حاصل ہوا اور ماہ وسال کی مثال سمجھ لو، جس سے موسموں، سردی گرمی اور زمین کا سورج کے گرد گھومنے کا علم حاصل ہوا۔ ساعہ کا علم غیب کی چابی وقت نے ثابت کردی ۔ قرآن وسنت واضح تھے۔
قرآن میں دوسری چیز بارش کا برسنا ہے۔ اللہ نے بادلوں کو بھی مسخرات کہا ۔ کائنات کی ہر چیز سورج اور چاند انسان کیلئے مسخر ہیں۔ بارش سے آسمانی بجلی اور برفانی اولے کا تصور تھا تو انسان نے بجلی کو مسخر کرکے اس غیب کی چابی سے نئی دنیا آباد کرلی۔ قرآن میں تیسری چیز ارحام کا علم غیب کی تیسری چابی ہے، اسکی بھی قرآن میں نفی نہیں۔ ارحام کاتصور صرف انسان ، حیوان اور نباتات تک محدود نہیں بلکہ جمادات کے ایٹم بھی اس میں داخل ہیں۔ غیب کی اس چابی نے فارمی حیوان اور نباتات میں بڑا کمال کے علاوہ ایٹمی توانائی اور الیکٹرانک کی دنیاکو بھی آباد کردیاہے۔ اسلام دیگر مذاہب کی طرح سائنسدانوں کیلئے رکاوٹ پیدا نہیں کرتا بلکہ اس کابہترین معاون ہے۔
آنیوالاکل ترقی وعروج کی نئی خبرلیکر آئے تویہ حقیقت ہے کہ علم وتبدیلی کے کمالات کی کوئی انتہاء نہیں اور آدمی فانی ہے۔
زمین پر محنت کرنیوالے کاشتکار کو محنت کا پورا پورا صلہ ملے تومزدور کی کم زکم دھاڑی بھی دگنی ہوجائیگی۔ پانی کی موٹر کے بارے میں ہارس پاور کا جوتصور ہوتا ہے اگر مزدوری کی ایک ویلو بنائی جائے۔ ترقیاتی دور میں حکومت مزدور کی بنیادی ویلو زیادہ سے زیادہ بڑھاسکتی ہے۔پھر محنت، تجربے و صلاحیت سے کئی گنا زیادہ دھاڑی حاصل کرنے کی مسابقت ہوتی ،جس کی بنیاد پر محنت و صلاحیت میں نکھار پیدا ہوتااور دنیا میں ایکدوسرے سے آگے بڑھنے، انسانیت کی خدمت اور نفع بخش چیزیں بنانے میں ایک مثبت کرداربھی ہوتا ۔ دنیا کی ترقی کیساتھ ساتھ انسانیت بھی ترقی کرتی۔ ایک طرف اشتراکیت کا غیرفطر ی نظام چاروں شانوں چت ہواتو دوسری طرف سرمایہ دارانہ نظام اپنے انجام کو پہنچ رہاہے،اللہ کا نور اسلام فطری ہے۔
اسلام کو اشتراکیت کے خلاف دنیا نے ہتھیار کے طور پر استعمال کرلیا اور اب جب سرمایہ دارانہ نظام کو شدید خطرات کا سامنا ہے تو سودی نظام کو مشرف بہ اسلام کردیا ہے۔ کچھ لوگ نظریاتی بنیاد اور کچھ اپنا ذریعہ معاش سمجھ کر کسی نہ کسی کی پراکسی لڑ رہے ہیں۔جس طرح پاکستان بنانے میں اسلام کا جذبہ کارفرما تھا اور طالبان اسلامی جذبے سے بنے اور ایرانی انقلاب بھی اسلامی جذبے سے بن گیا مگر خود اسلام اجنبیت کا شکار تھا توان لوگوں کے جذبوں کا قصور نہیں تھا بلکہ مولوی، مذہبی طبقے اور عوام کا قصور تھا کہ قرآن کا ترجمہ دیکھ کر اسلامی معاشرت قائم نہ کی۔
پاکستان میں پانی کے بہاؤ سے فائدہ اٹھایا جاتا تو پینے اور زرعی مقاصد کے علاوہ سستی بجلی اور صحت کی حالت بہتر ہوتی ۔ اسٹیبلشمنٹ نے لوہے کے بٹے سے شریف فیملی کو اٹھاکر اقتدار سپرد کردیا جو ساہیوال جیسی زرخیز زمین میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے کارخانے لگارہے ہیں ۔محمود خان اچکزئی ایک الیکٹریکل انجنئیر ہیں۔وہ بتاتے کہ آلودگی کے بغیر سستی بجلی پیدا کرنے کا طریقہ کیاہے۔ وزیرصنعت و پیداوار، وزیر پانی وبجلی اور وزیرماحولیات خود اپنے شعبے میں ماہر ہوتے، ایکدوسرے سے ان کا کنکشن ہوتا اور ایک چھوٹی سی سرزمین پاکستان کو ایک گھر کی طرح سمجھا جاتا تو پاکستان اور قوم کی حالت بہتر ہوتی۔
صنعتوں کیلئے کراچی سے گوادر اور بلوچستان کے غیر آباد بنجر علاقوں کو آباد کرنے کی ضرورت تھی اور تیز رفتار ٹرینوں سے آبادیوں کو صنعتی علاقوں سے ملانے میں دشواری نہ تھی۔ پنجاب وسندھ اور پختونخواہ و بلوچستان کے زرخیز علاقوں کو وسیع ڈیموں اور نہری نظام سے آباد کیا جاسکتاہے۔ علماء ومفتیان نے اسلام اور مسلمان کیساتھ بہت برا سلوک روا رکھا اور حکمرانوں اور سیاستدانوں نے نظام اور پاکستان کا برا حال کردیا۔دونوں کو درست راستے پر لایا جائے تو بات بنے گی۔ نام نہاد شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری و نام نہاد مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی نے اپنی اپنی کتابوں میں رسول ﷺ کی احادیث اور آنیوالے بارہ اماموں کے بارے موجود وضاحتوں میں بدترین خیانت کا ارتکاب کیا۔ حالانکہ اس نقشہ کی وجہ سے اُمت کاعظیم اتحاد عمل میں آسکتاہے۔ جس سے شیعہ گزشتہ لوگوں پر طعن تشنیع بالکل بند کردینگے۔ جب بارہ امام کی احادیث کا کوئی درست جواب نہیں ملتا تو انکے لہجے کی شدت بڑھ جاتی ہے۔ یہ نقشہ ، قرآن وسنت کے احکام اور مدارس کے نصاب کی درستگی کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ ایک زبردست اسلامی انقلاب برپا ہوگا۔ مزارعت کے جوازاور سود ی نظام کا فتویٰ ہی واپس لینا ہوگا۔علماء ومفتیان کی طرف سے قرآنی و سنت کے مطابق رہنمائی سے مدارس اور مساجد کی قدرومنزلت بڑھ جائے گی اور معاشرے میں اسلامی انقلاب سے پوری دنیا بھی خلافت کا نظام قبول کریگی۔ گیلانی

وکالت کے نظام کی خرابیاں اور مضمرات: سید عتیق الرحمن گیلانی

wikalat-k-nizam-ki-kharabian-aur-muzmirat

وکالت کے نظام کی خرابیاں اور مضمرات

وکالت کا نظام تمام خرابیوں کی اصل جڑ ہے۔ چوہدری اعتزاز احسن نوازشریف کا وکیل ہو تو معصومیت کا سرٹیفکیٹ دلانے کی قسم کھالیتا ہے ، یہ اپنی نالائقی سمجھتا ہے کہ 100 فیصد مجرم کو 100فیصد بری کرنے میں کامیاب نہ ہو،یہ روزی حلال کرنے کا طریقہ ہے۔ بدکارعورتیں کسی کو دلال بنائیں تو اس کو بھڑوا کہتے ہیں۔ بھڑواگیری بری ہے لیکن اس سے زیادہ ظالم ، جابر، بدمعاش ، قاتل اور کرپشن کے سیاسی قائدین کا وکیل بننا ہے۔ اس نظام نے انسانیت کو غیرت، ضمیر، ایمان، اقدار اور شرم وحیاء سب سے محروم کردیا ہے۔ جمعیت علماء اسلام کا ترجمان جان اچکزئی، جماعت اسلامی کا حنیف عباسی اور پرویز مشرف کا دانیال عزیز وامیر مقام وغیرہ ن لیگ کی ترجمانی کرکے شرم وحیاء غارت کررہے ہیں۔ زرداری کے تقدس کی قسم کھانے والا بابر اعوان عمران خان کیساتھ بیٹھ کر غیرت اور قدروں کو دفن کررہاہے۔ شاہ محمود قریشی جاوید ہاشمی نے تحریک انصاف میں شانہ بشانہ کام کرکے بتادیا کہ سیاسی رہنما بیلوں کی طرح کہیں بھی جت سکتے ہیں۔
صحافت کیلئے دلالی و جانبداری شعبے کے بنیادی اور قانونی تقاضے کے منافی ہے لیکن صحافت کے تاجدار بے شرمی کے دریا میں ڈوب مرے ۔ جیو کو اپنی صحافت مثالی لگتی ہوگی ۔ مولاناحامد کاظمی پر جنگ کی شہ سرخی خبر لگی کہ وزیر مذہبی امور نے کرپشن کا اعتراف کرلیا۔ حالانکہ اسی دن شام کو مولانا کاظمی حلفیہ کہہ رہے تھے کہ ’’ میں نے کوئی کرپشن نہیں کی ‘‘۔ مولاناحامد کاظمی کے بارے میں نہیں کہا جا سکتا تھا کہ ’’جن ذرائع سے خبر لیک کی تھی ، بعض اوقات خبر درست ثابت نہیں ہوتی‘‘۔ وہ آزاد تھے اور فون کرکے اعتراف کنفرم ہوسکتا تھا۔ یہ اسحاق ڈار کا عدالت میں اعترافی بیان نہ تھا۔ مولاناحامد سعید کاظمی کو کئی سال جیل کے بعد عدالت سے رہائی ملی مگر جنگ اور جیو کے ذمہ دار اور مالک کو کیا سزا دی گئی؟۔ یہ خبر نہیں مہم جوئی تھی اور یہ مہم جوئی اب جیو اور جنگ نوازشریف کے حق میں اور عدالت و فوج کیخلاف کر رہے ہیں۔ ٹریکٹرکے بڑے ٹائر ٹیوب میں پھونک سے ہوا بھرنے جیسی کوشش نواز شریف کا سیاسی مورال بچانے میں ہورہی ہے۔ پہلے مہم جوئی اسلئے تھی کہ ثابت کیا جاسکے کہ نواز شریف پارلیمنٹ ، قطری خط ، متضاد خاندانی بیانات اور تمام معاملے میں 100% بے گناہ ہے بس فوج نے عدلیہ کو پیچھے لگادیا ہے اور اب یہ کوشش ہے کہ کسی طرح فوج پر دباؤ پڑے کہ عدلیہ کو انصاف پر مبنی کاروائی سے روک کر نواز شریف کوکسی طرح سے ریلیف دلائی جائے۔جبکہ اس اقدام سے عدلیہ کے ساتھ ساتھ فوج کا چہرہ بھی کالا ہوجائے گا۔