معاشیات Archives - Page 5 of 8 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

تیل کی قیمت کم کردی تو بحران قابو میں آئیگا

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

بین الاقوامی منڈی میں 20ڈالر فی بیرل تیل کی قیمت آگئی، یہ سنہرا موقع ہے کہ پاکستان میں کسی بھی چیز پر سبسڈی دینے کے بجائے تیل کو ٹیکس فری کردیا جائے۔ جس سے بجلی ،گیس کے علاوہ آمدورفت اور تمام اشیاء کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی آئے گی۔ پاکستان کا مزدور طبقہ اور فیکٹری ومل مالکان سستے تیل سے قوم وملت ،حکومت وریاست میں نئی روح پھونک دینگے۔
سبسڈی کے نام پرمخصوص سیاسی مقاصد کی خاطر سرمایہ داروںاور جاگیرداروں کو فائدے پہنچائے جاتے ہیں۔ ایک گاڑی میں دو سے تین افراد کیلئے سفر کی گنجائش ہے لیکن مہنگے تیل کی وجہ سے لوگ اس پر عمل نہیں کرسکتے ہیںاسلئے ٹرکوں میں چھپ کر سفر کررہے ہیں، جب تیل کو سستا کیا جائیگا تو قانون کی پاسداری کرتے ہوئے عوام سفر کی سہولت سے فائدہ اٹھا سکیںگے اور کرونا وائرس پھیلنے کے خدشات بھی کم سے کم ہونگے۔ جب تیل سستا ہوگا تو فیکٹری وملوں میں معاوضہ بھی زیادہ دیا جاسکے گا اور جب مزدور طبقہ اپنے پیٹ پالنے سے زیادہ کماسکے گا تو پھر اس میں شعور بھی آئیگا، جب شعور آئیگا تو اپنی جانوں کو بچانے کا سلیقہ بھی آئے گا۔
وزیراعظم عمران خان عقلمند شخص نہیں لیکن جراثیم سے بچنے کیلئے پہلے بھی کسی سے ہاتھ نہیں ملاتا تھا اور جب کسی سے ہاتھ ملانا پڑجاتا تو فوراًہاتھ دھولیتا تھا۔گدھا گاڑی چلانے اور مزدور طبقے کی اکثریت میں عمران خان نیازی سے زیادہ عقل ہے مگر غربت نے ان میں اپنی زندگی بچانے کا احساس کم کردیا ہے۔ جب ملک میں روزگار سے کچھ ملے گا تو ریاست کے سپاہیوں کا بوجھ بھی ریاست کو نہیں اٹھانا پڑیگا۔لوگ محنت مزدوری کرکے اپنے مقدر کوجگانے کی کوشش میں کامیاب ہونگے۔ لندن کاپاکستانی مسلمان مئیر ٹیکسی ڈرائیور کا بیٹا تھا،جس نے گولڈسمتھ کے امیرترین خاندان کو شکست دیدی، حالانکہ عمران خان نے بھی سسرال کا ساتھ دیا تھا۔

گائے ہندوؤں کا کاروبار،ہندوستان میں گئو ماتا کی حقیقت اور پس پردہ حقائق

گائے ہندوؤں کا کاروبار

یہ جو لنگ چنگ کی باتیں تھیں تو ہمیشہ میرے من میں آتا تھا کہ یہ کہاں سے وہ راکشس پیدا ہوجاتا ہے کہ آپ کسی کو مارڈالتے ہو۔ تو میں گجرات میں قریب تین ساڑھے تین مہینے سے رفیق قریشی نام سے رہ رہا تھا اور پہلے احمد آباد میں جو کیٹل ٹریڈنگ کرتے تھے جو قصائی تھے ان کے ساتھ دوستی کی۔ پھر انہوں نے ہی مجھے یہ نام دیا رفیق قریشی، ، راجھستان میں الگ الگ گاؤں میں اور گجرات کے بھی بیسا میں ان غیر قانونی مویشی منڈیاں چلتی ہیں۔۔۔ میں نے خود32 ٹرکوں میں بیٹھ کر الگ الگ دنوں میں سفر کیا اور بیچ راستے میں کس طرح سے بجرنگ دل اسٹارچیکنگ کرتا ہے، گائے کا ٹرک اگر آپ کو لانا ہے تو ساڑھے 14یا 15ہزار روپے، بھینس کے ٹرک کے ساڑھے 6ہزار روپے ،بھیڑ کا ٹرک اگر لارہے ہو تو 5ہزار دینے پڑتے ہیں۔ اور وہ پالن پور میں چوہدری نام کے ہیں بجرنگ دل کے وہ یہ پورا نیٹ ورک چلاتے ہیں۔ میں تیس بتیس ٹرک لایا تھا اور اس دوران میں ایک بار انکے پاس بھی گیا ان کو ملنے کیلئے کہ مجھے دھندہ بڑھانا ہے تھوڑے پیسے کم کرو۔ اور میں باقاعدہ اسکل کیپ پہن کر گیا۔ پٹھانی ڈریسزوغیرہ پہن کر ہی میں گھومتا اور رہتا تھا۔ تو میں انکے پاس چلاگیا کہ آپ تھوڑا سا فیس کم کرو مجھے دھندا بڑھانا ہے۔ وہ بولے کتنا کریگا؟۔ میں نے کہا میں روز 40 ٹرک لے کر آؤں گا۔ اور مجھے بمبئی تک لیکر جانا ہے۔ تو انہوں نے کہا نہیں نہیں میری ذمہ داری گجرات تک کی ہے آپ کو اگر بمبئی لے جانا ہے تو بلساڑ میں بابو بھائی ڈیسائی نام کا دوسرا شخص ہے ہمارا،اس کو مہاراشٹرا بارڈر کراس کرنے کیلئے الگ سے پیسہ دینا پڑیگا۔ اسکا ریٹ الگ ہے میرا بلساڑ تک کی ذمہ داری ہے۔ تو وہ آپ کو کرنا پڑیگا۔ اور انکا ایک رول ہے کہ چمڑا ان کو دینا پڑتا ہے۔ مطلب جانور کاٹنے کے بعد مفت میں چمڑا ان کو دینا ہے وہ ایکسپورٹ کرتے ہیں۔ میں نے ان کو یہ پوچھا کہ آپکے دھرم میں تو یہ الاؤ ہی نہیں تو انہوں نے کہا کہ تو ابھی آیا نا بیٹھ کر چائے پی تو میں اسکے سامنے بیٹھ گیا۔ تو انہوں نے کہا کہ ہاں ہمارے دھرم میں الاؤ نہیں تو میں نے کہا کہ آپ پھر یہ گائے کے چمڑے کا بیوپار کیوں کرتے ہو؟۔ وہاں دیوار پر لکشمی کی مورتی تھی، تو اس نے پوچھا یہ کیا ؟۔ میں نے کہا کہ کوئی بھگوان ہے۔ تو اس نے کہا کہ میں اس کی پوجا کروں یا چمڑے کی پوجا کروں؟۔ تو میں نے کہا کہ صاحب ہم بھی تو وہی چاہتے ہیں ہم کو بھی دو پیسہ مل جائیگا۔ تو اس نے کہا کہ تمہارا پیٹ بھرنے کیلئے اتنا کافی ہے جتنا مل رہا ہے نا!۔ اس سے زیادہ جو ہے وہ ہمارا ہے۔ پھر کافی باتیں اس نے بتائیں کہ روز ڈیڑھ کروڑ روپیہ پالن پور کے وہ جو امیر گڑھ کا چیک پوسٹ ہے وہاں پر روز ایک دن میں ڈیڑھ کروڑ روپیہ اکھٹا ہوتا ہے، عید کے بعد آنا تب شاید کچھ تھوڑا بہت کم کرینگے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ بیچ بیچ میں ہم کو لوگوں کو مارتے رہنا پڑتا ہے کیونکہ جب کسی کو مارتے ہیں تو دس پندرہ ہزار بیس ہزار لوگ ڈر جاتے ہیں اور وہ ڈر برقرار رکھنا ہے تو بیچ بیچ میں مارتے رہنا پڑتا ہے۔ تو تو اچانک الگ نمبر کے ٹرک میں ٹریول مت کر کہیں پھنس جائیگا ایک آدھ دن۔ میں نے کہا کیا کرینگے ،سر پیٹ بھرنے کیلئے تو کرنا ہی پڑیگا۔ جب تک زندہ ہیں تب تک یہ کرنا ہے، آپ نے اگر مار ڈالا تو کہاں پیٹ بھرنے کی نوبت آئیگی۔ تو یہ ساری باتیں ہوئی تھی، ہم سوچتے ہیں کہ گاؤ رکشا وغیرہ یہ دھرم کی باتیں وہ کرتے ہیں لیکن وہ بزنس ماڈل ہے اور اس بزنس ماڈل کی انوسٹمنٹ ڈر ہے۔ اور ڈر یہ انوسٹمنٹ بنیادی طور پر فاشزم کی انوسٹمنٹ ہے۔ چاہے آپ کسی بھی فیلڈ میں دیکھو۔ جو ڈی مونیٹرائزیشن کے بعد انہوں نے کہا تھا کی معاشی طور پر ہر آدمی کو گھٹنوں کے بل لاکر رکھ دیا اور آرچک آدھار پر کوئی بھی انسان گھٹنوں کے بل ٹک جاتا ہے تو وہ کسی بھی فاسی وادی حکم کو ماننے کیلئے تیار ہوجاتا ہے۔ اور وہی ہم نے دیکھا کہ اسکے بعد کیا کیا ہوا، کچھ نہیں۔ اربن مڈل کلاس میں inferiority complex (احساس کمتری) ہوتا ہے، اربن مڈل کلاس کو ہمیشہ ایسا لگتا ہے کہ ہم دیش کیلئے کچھ نہیں کررہے۔ تو ان میں یہ وہم پیدا کردیا کہ آپ لائن میں کھڑا ہوکر بہت کچھ دیش کیلئے کررہے ہو اور وہ کھڑے ہوگئے اور وہ کھڑے رہنے کی وجہ سے جب ہم جیسے لوگ criticise (تنقید) کرنے لگے تو وہ ہم کو گالیاں دینے لگے کہ بارڈر پر دیکھو کہ جوان کیسے مررہے ہیں؟ ہم چار گھنٹے لائن میں کھڑے نہیں رہ سکتے کیا؟۔ اور یہ اسلئے ہوتا ہے کہ انکا جو احساس کمتری ہے انہوں نے اس کو ٹریٹ کرنے کی کوشش کی اس کوسمجھانے کی کوشش کی۔ اور اسلئے یہ پورا اربن مڈل کلاس انکے پیچھے دوڑ رہا تھا۔ یہ جاکر کوئی دیکھتا نہیں کہ واقعی میں یہ کیا ہورہا ہے یہ کس طرح سے ہورہا ہے۔

شاہین ایئر لائن کے ادارے کو بھی سیمی گورنمنٹ بنایا جائے: اجمل ملک

پاکستان کا بہترین ادارہ پی آئی اے سیاستدانوں نے تباہ کردیا۔ اسٹیل مل کو بھی تباہ کیا گیا۔جنرل صبیح الزمان نے چارج سنبھالا تھا تو 16ارب تک بچت کی تھی اور پھر اس کا بیڑہ غرق کیا گیا اور پرویزمشرف نے کرنل افضل کو چارج دیا، وہ نااہل مگر ایماندار تھا، اسٹیل مل کو منافع بخش بنادیا۔
پی آئی اے میں فوجی تعینات کرنے کا پروگرام ٹھیک ہے۔ شاہین ائرلائن کو بھی سیمی گورنمنٹ بنایا جائے اور اس میں آن ڈیوٹی دیانتدار فوجی افسران تعینات کئے جائیں۔ دونوں ائرلائنوں کو ایک دوسرے سے سبقت لیجانے کا ٹاسک دیا جائے اور پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جائے۔ سول ایوی ایشن نے ایروایشا کا بھی بٹہ بٹھادیاتھا، کراچی ائرپورٹ شاہین کو حوالہ کیا جائے۔ اچھے اقدامات ضروری ہیں۔ شاہین کو کھڑا کرنے سے تبدیلی آئے گی۔

کروڑ نوکریاں اور 50لاکھ گھر کا کہا مگر رانگ وے پر یوٹرن سے لوگوں کچلا. قدوس بلوچ

امیرادارہ اعلاء کلمۃ الحق عبدالقدوس بلوچ نے کہا کہ لوگ قانون کی پاسداری کرکے یوٹرن لیکر اپنی سمت پر چلتے ہیں مگر وزیراعظم عمران خان یوٹرن رانگ وے پر لیتاہے۔ کروڑ نوکریاں اور50 لاکھ گھر کا کہا مگر رانگ وے پر یوٹرن سے لوگوں کو بیروز گار و بے گھر کرکے کچلا گیا ہے۔ برطانیہ کی خواہش پر ایمپریس مارکیٹ کی لیز شدہ مارکیٹوں کو گرایا ؟۔ پاکستان بھرکی غیرقانونی بلڈنگوں کو مسمار کرو اور آغاز بنی گالہ عمران خان کی رہائشگاہ ہو۔ عوام کو پہلے روز گارو متبادل جگہ دی جائے۔کسی کے بچے یہودی پالتے ہیں اور نہ خرچہ بیگم اٹھاتی ہے ،کرپٹ دوست وسیاستدان اور نہ چندہ سے خاندان پالتا ہے۔ملا کہتا کہ کعبہ کی طرف پیشاب پر بیوی طلاق ہے، ملا نے خود کیا تو کہاکہ میں نے رُخ موڑا۔ علیمہ خان کی دوبئی رقم پر جرمانہ کافی نہیں، حکومتی رقم سے زیادہ چندہ کھانے پر سزادی جائے۔ حسن نثار کے حسن فروش خاندان پر کتاب لکھی گئی، ذوالفقارعلی بھٹو کی داشتہ اسکی پھوپھی تھی۔ پرویز خٹک کی کہانی ہے مگر دوسروں کو گالی دینے والا اپنا گریبان نہیں دیکھتا۔ ان سیاستدانوں صحافیوں اور جرنیلوں کو سزا دو، جولاقانونیت کے حامی تھے، صرف مہروں کا قصور نہیں ۔ بدامنی، قتل وغارتگری، فتنہ و فساد،تفریق وانتشار میں ملوث مجرم عناصر کو بے نقاب کرو لیکن مسلمانوں کی غلطی پر اسلام ، جرنیل کی غلطی پر پاک فوج ، سرکاری اداروں کی غلطی پر پاکستان کو گالی مت دو۔ پاکستان کو اسلام کا حقیقی قلعہ بنانے سے ہی انقلاب آئیگا۔

احادیث میں زمین کو بٹائی اور کرائے پر دینے کی ممانعت ہے مفت دینے کا حکم ہے

مولانا مودودیؒ نے قرآن وسنت کی نہیں سرمایہ دارانہ نظام کی خدمت کی

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں نبی کریم ﷺ کو حکم دیا تھاکہ اقم الصلوٰۃ لدلوک الشمس الی غسق الیل وقرآن الفجر ان القرآن الفجر کان مشہودا O ومن الیل فتہجد بہ نافلۃ لک O عسیٰ ان یبعثک مقاما محموداO’’نماز قائم کرو، سورج کے غروب سے رات کا اندھیرا چھا جانے تک اور فجر کا قرآن بیشک فجر کا قرآن مشہود ہے اور تہجد کی نماز تیرے لئے نفل ہے۔ہوسکتا ہے کہ اللہ تجھے مقام محمود عطاء کرے‘‘۔
یہ آیات اُمت مسلمہ کیلئے دعوتِ فکر ہیں۔ سارا دن کام کاج کرکے مغرب سے عشاء تک تھکاوٹ ہوتی ہے۔ ٹی وی کے ٹاک شوز ، مقررین کی تقریریں اور مذہبی وعظ کا دور اس وقت شروع ہوتا ہے جب انسان کے دل ودماغ کوتازگی میسر نہیں ہوتی ۔ اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ کو حکم دیا کہ مغرب سے رات گئے تک نماز قائم کرو۔ نبیﷺ نے اس پر عمل بھی کیا ہے لیکن افسوس کہ کسی نے بھی قرآن کے اس حکم اور نبیﷺ کے اس عمل کو سنت نہیں قرار دیا ہے اسلئے کہ اگر یہ سنت بن جائے تو واعظین اور مقررین پھر اس وقت میں کیسے لوگوں کواپنی خرافات سنا سکیں گے؟۔ فرمایا کہ انا ارسلنٰک شاہدا ومبشرا ونذیرا ’’بیشک ہم نے آپ کو شاہد، بشارت دینے اور ڈرانے والا بناکر بھیجا ہے‘‘۔ نبیﷺ شاہد تو قرآن مشہود ہے جس کی گواہی دی گئی ۔ صبح کے وقت انسان کا دل ودماغ تازہ، صاف اورسمجھنے سمجھانے کے قابل ہوتا ہے ، اسلئے صبح کے وقت کے قرآن کا خصوصی طور پر اہمیت کا ذکر فرمایا ہے۔
پھر ان آیات میں تہجد کی نماز کو نبیﷺ کیلئے نفل قرار دیا، جس کا پڑھنا ضروری نہیں اسلئے کہ یہ ایک انفرادی عمل ہے جبکہ قرآن اجتماعی اور اہم فریضہ ہے۔مغرب اور رات گئے تک تسلسل سے نماز قائم کرنے کی سنت کا حکم بھی نبیﷺ کی ذات مبارکہ کو مخاطب کرکے دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مقام محمود کی توقع بھی دلائی ہے اور اس کیلئے اگلی آیات میں مکہ سے نکلنے اور مدینہ میں داخل ہونے اور اقتدار کو مددگار بنانیکی دعا کا حکم ہے اور حق کے آنے اور باطل کے مٹ جانے اور قرآن کو مومنین کے شفاء اور رحمت کا ذکر ہے اور یہ کہ ظالم نہیں بڑھیں گے مگر خسارہ میں کی بھرپور وضاحت ہے۔ مولانا مودودیؒ سرمایہ دارانہ نظام کوتحفظ نہ دیتے تو بندۂ مزدور کے اوقات آج بہت تلخ نہ ہوتے۔ یہ بدترین المیہ آج بھی قرآن وسنت سے حل ہوسکتا ہے۔
یہ آیات اسلئے پیش کی ہیں تاکہ لوگ قرآن کے اہم معاشرتی مسائل کو سمجھنے کیلئے خاص طور پر فجر کے وقت کا انتخاب کریں۔ جب امت مسلمہ کی طرف سے قرآنی احکام کو سمجھنے کا سلسلہ شروع ہوگا تو دنیا پر اسلام کی حکمرانی قائم ہو گی۔ یہ نبیﷺ کامقام محمود ہوگا۔ دنیا میں دوبارہ طرزِ نبوت کی خلافت قائم ہونے کی پیش گوئی صرف احادیث میں نہیں بلکہ قرآن میں بھی ہے لیکن جب تک قرآن کے مسخ شدہ احکام دنیا کے سامنے ہونگے ،اسلامی خلافت کا قائم ہونے کا تصور تو بہت دور کی بات ہے، دنیا ہمارااور اسلام کا مذاق اُڑائے گی اور ہم توہینِ رسالت کے مرتکب افراد کا محض تماشہ دیکھتے رہیں گے۔ آسیہ بی بی کیس ہمارے سامنے ہے۔ سلمان تاثیر، شہباز بھٹی، ممتاز قادری، احتجاج میں تبلیغی جماعت کے کارکن اور مولانا سمیع الحق کی جان گئی مگر معمہ حل ابھی تک نہیں ہوسکا ہے۔
جب خواتین کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دئیے ہوئے حقوق سے محروم کیا جائیگا۔ حلالے کے نام پر گھروں کو تباہ، عصمتوں کو لوٹنے اور بچوں کو والدین کے سایائے عاطفت سے محروم کیا جائیگا تو اس معاشرے کے کمزور طبقات نے حکمرانوں اور بڑے علماء ومفتیان کو بد دعائیں دینی ہیں ۔ ایک ایک کا انجام عبرتناک ہوگا۔ جو لوگ ریاست کیلئے وفا رکھتے ہیں اور پاکستان کی افواج کا تحفظ کرتے ہیں ان کو پشتون تحفظ موومنٹ والے ’’ گل خانوں‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ مولانا سمیع الحق کی ساری زندگی ریاست ہی کا تحفظ کرتے کرتے گزری ہے۔ شریعت بل، مارشل لاء کا دفاع، مجاہدین کی سرپرستی،اسلامی جمہوری اتحاد میں کردار اور طالبان کا تحفظ کرنے کیساتھ ساتھ وہ پاکستان، افواج پاکستان کا ہر موقع پردفاع کرتے ۔اُن کی موت بھی بڑے پیمانے پر ریاست کو نقصان پہنچانے کا سدِ باب بن گئی۔ ریاست کے خلاف طوفان برپا ہورہاتھا، دیوبندی بریلوی فسادات کا خدشہ بھی تھا اور ایک بڑی افراتفری کی فضاء قائم ہونے کاخطرہ بھی تھا۔ نیک لوگ تماشۂ حیات کی طرف دیکھتے نہیں، بدی کی قیادت بدعنوانی سے ہورہی ہے مگر ایک طرف شعور بیدار ہورہاہے اور دوسری طرف باطل کے منہ سے نقاب اُٹھ رہاہے، ہنگامۂ خیز اور ہیجانی صورت پیدا کرنے کی خواہش بہت سے لوگوں کے دِ لوں میں موجزن ہے۔تبلیغی جماعت اور دعوتِ اسلامی کا طرزِ عمل مروجہ احتجاج کا نہیں ورنہ طوفان برپا ہوسکتا تھا۔

ہماری عدلیہ آزادہوتی تو کم ازکم ڈاکٹر عافیہ کی طرح آسیہ کوقید کی سزا دیتی
اگرسورۂ نورمیں بہتانِ عظیم کا معاملہ واضح کیا جاتا توعظیم نتائج نکل جاتے

علماء کرام کا سب سے بڑا کمال ہے کہ قرآن وسنت کاتحفظ کررہے ہیں۔ غلام احمدپرویز اور اسکے کارندوں کی فکر نے بیوروکریسی، جدید تعلیم یافتہ اور پڑھے لکھے لوگوں میں جاہلیت کی روح پھونک دی ،سورۂ نور میں بہتان عظیم کا واقعہ ہے۔ حضرت عائشہؓ کے حوالے سے بہتان سیرت رسول اور اسوۂ حسنہ کا سب سے بڑا ، بہت ہی اذیت ناک واقعہ تھا۔ غلام احمد پرویز نے احادیث صحیحہ کا انکار کرکے یہ لکھ دیا ہے کہ ’’ یہ کسی عام عورت کا واقعہ تھا، اگر نبیﷺ کی زوجہ مطہرہؓ پر یہ بہتان لگتا تو مسلمان اس کو قتل کردیتے، یہ اہل تشیع نے حضرت عائشہ صدیقہؓ کی عصمت وعزت کو داغدار کرنے کیلئے ایرانی عجم کی سازش سے ہماری کتب احادیث میں گھڑ دیا ہے‘‘۔ غلام احمد پرویز کی اس فکر نے ایک طرف فرقہ واریت کا بیج بویا ہے تو دوسری طرف جس مذہبی انتہاء پسندی کو مذہبی لبادے میں نہیں بلکہ جدید تعلیم یافتہ لوگوں کی شکل میں پروان چڑھایا ہے،اسکے نتائج بھی میڈیا پر عوام کے سامنے مرتب ہورہے ہیں۔حامدمیر نے ایک کلپ میں انصار عباسی سے مذہبی و لامذہبی انتہاپسندی کی تعریف پوچھی ہے تو انصار عباسی نے سلمان تاثیر کا قتل درست اسلئے قرار دیا ہے کہ ’’ مملکتِ پاکستان میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں ، عدالتوں سے انصاف کی توقع نہیں اور اسکے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ عوام قانون کو ہاتھ میں لیں‘‘۔


انصار عباسی کے ذاتی گھر کیلئے ایک لمبی سڑک سرکار کے خرچے پر ن لیگ نے بنائی تھی جس کا انکشاف اسوقت لوگوں پر ہوا، جب ان کی والدہ محترمہ کا انتقال ہوا تھا، عوام تعزیت کیلئے وہاں پہنچی تھی۔ معروف صحافی رؤف کلاسرا کی کتاب ’’ ایک قتل جو نہ ہوسکا‘‘ میں یہ انکشاف ہے کہ ایک سازش کے تحت انصار عباسی نے اپنے کالم میں انکشاف یہ کیا کہ پنجاب کے چیف جسٹس خواجہ شریف کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے ، جس میں صدر زرداری، سلمان تاثیر کا مرکزی کردار ہے۔ لیکن پنجاب پولیس کے ایک اہم سپاہی نے اس سارے کھیل کو ناکام بنادیا تھا۔ ورنہ تو انصارعباسی نے اس گھٹیا خدمت کیلئے اپنی خدمات انجام دیں۔ کسی موقع پر جنگ کے معروف صحافی نذیر ناجی نے کہا کہ’’ مجھے معلوم ہے ،یہ کتے کے بچے انصار عباسی نے کیا ہے ‘‘۔
ہماری خواہش تھی کہ طلاق کے مسئلے کو میڈیا تک پہنچا دیا جائے، تاکہ مذہب کے نام پر خواتین کی عصمت دری کا سلسلہ رک جائے۔ عمر چیمہ نے ایک بچے سے زیادتی کا کیس اٹھایا تھا، اوکاڑہ کے مضافات میں حجرہ شاہ مقیم سے ایک گاؤں میں جس بچے کیساتھ یہ واقع ہوا تھا، اسکے والد سے ہم نے ملاقات بھی کی۔ جس کرب سے گزررہاہے یہ ناقابلِ بیان ہے۔ ایک امیر، بلدیہ ذمہ دار، ن لیگ سے تعلق رکھنے والے بااثر سیاسی رہنماکے بیٹے نے جسطرح کی زیادتی کی ہے۔ پنجاب ،مرکزی حکومت اور عدلیہ نے اگر زینب کیس کی طرح اس کو اہمیت دی اور غریب کی داد رسی ہوئی اور ظالم انجام تک پہنچا تو آگ بجھانے کی کوشش میں ریاست کا یہ کردار بھی ایک چڑیا کی طرح ہی ہوگا۔
ہم عمر چیمہ سے ملنے گئے ۔ طلاق وحلالہ کوسمجھنے و میڈیا پراٹھانے کی استدعا کی۔ عمر چیمہ نے بات سننے کے بعد کہا کہ آپ لوگ انصار عباسی سے ملیں وہ قرآن وسنت کی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ ہم انصار عباسی سے ملنے گئے تو معاملہ ان کو سمجھ آیا یا نہیں آیا لیکن ان کا مشورہ تھا کہ ایسے موضوعات کو اہل علم کی مجالس تک محدود رہنا چاہیے اور یہ میری ذاتی رائے ہے، تاکہ کوئی مسئلہ انتشار کا باعث نہ بنے۔ ہم نے انصار عباسی سے مزارعت کا مسئلہ بھی ذکر کیا کہ ’’ احادیث میں زمین کو بٹائی اور کرایہ پر دینے کی ممانعت ہے، مفت دینے کا حکم ہے۔ امام ابوحنیفہؒ ، امام مالکؒ ، امام شافعیؒ ، امام داؤد ظاہری سب اسکی حرمت پر متفق ہیں‘‘۔مگر انصار عباسی نے کہا کہ میں نے بخاری میں ایک حدیث پڑھی ،جسمیں رسول اللہ ﷺ نے زمین کو بٹائی پر دینے کا حکم فرمایاہے‘‘۔
علامہ طاسین صاحبؒ نے ’’ مروجہ نظام زمینداری‘‘ پر بڑا تحقیقی کام کیا اور ان خفیہ گوشوں سے پردہ اٹھایاہے کہ جن کی وجہ سے علامہ اقبال ؒ نے کہاتھا کہ ’’ وہی سرمایہ داری ہے بندۂ مؤمن کا دین‘‘۔بخاری میں ایسی حدیث نہیں کہ رسول اللہﷺ نے اپنے اقوال کے منافی زمین کو بٹائی پر دینے کا حکم دیا ہو۔ البتہ آل عمر، آل عثمان،آل علی کیلئے روایت ہے مگر ان سے بھی صحابہؓ مراد نہیں بلکہ کوئی اورہے۔
9ھ میں سود کی حرمت کا قرآن میں حکم نازل ہوا،پھر رسول اللہﷺ نے زمین کو بٹائی، کرایہ پر دینے کو بھی حرام اور سود قرار دیا۔ امام ابوحنیفہؒ ، امام مالک ؒ اورامام شافعی ؒ تک مزارعت کو سود قرار دیتے رہے جو حکمرانوں کے زیرِعتاب رہے۔ امام ابوحنیفہؒ نے جیل میں وفات پائی۔ شاگردامام ابویوسف قاضی القضاۃ( چیف جسٹس) شیخ الاسلام تھے۔ جس نے مزارعت کو جائز قرار دیا۔ آج مفتی تقی عثمانی شیخ الاسلام اور مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن بینکاری کو اسلامی قرار دے رہے ہیں حالانکہ یہی اپنے اساتذہ کرام کی مخالفت ، قرآن سے انحراف ،دین کی بدترین تحریف ہے اور علامہ اقبالؒ نے اسلئے بندہ مؤمن کے دین کوسرمایہ داری قرار دیا ہے۔ سودی نظام کو قرآن میں اللہ اور اسکے رسولﷺ سے اعلانِ جنگ قرار دیا گیا ہے اور پاکستان کا آئین قرآن وسنت کا پابند ہے۔ جب علماء ومفتیان نے سودی نظام کو بھی اسلامی قرار دیا ہے تو بھارت، اسرائیل یا امریکہ کا نام بھی اسلام کیوں نہیں رکھا جاتا ہے تاکہ اسلامی اور غیر اسلامی کی دردِ سری کا معمہ حل ہوجائے اور ابلیس کی اپنے مشیروں سے خطاب کی ضرورت بھی نہ رہے؟۔
سورۂ نور میں ام المؤمنین حضرت عائشہؓ پر بہتان کی بات احادیث میں غلط ہے تو علماء ومشائخ پرویزی مذہب اختیار کرلیں اور درست ہے تو اللہ نے فرمایا: ’’ اسے اپنے لئے شر نہ سمجھو بلکہ اس میں تمہارے لئے خیر ہے ‘‘۔ آج یہ آیات دنیا کے سامنے پیش کرکے نام نہاد عاشقانِ رسولؐ، سیاسی مفادات، مذہبی جنونیت کی آڑ میں توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کرنے والوں کا ہی راستہ نہیں روکا جاسکتاہے بلکہ اسلام کے ذریعے دنیا بھر کے اسٹیٹس کو بھی توڑا جاسکتاہے۔ ایک طرف ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کا مقام اور دوسری طرف آپ پر بہتان کی وہی سزا جو ایک عام غریب، بے بس اور نادار پر بہتان لگانے کی ہے،دونوں میں برابری مساوات اور یکساں سلوک انصاف کے تقاضوں کو نہ صرف پورا کرتا ہے بلکہ نام نہاد اسلامی اور غیر اسلامی ریاستوں کے اندر موجود باطل نظام کے مگر مچھوں سے انسانی حیات کو تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔ علامہ طاسین صاحبؒ نے انقلابی تحقیق کی تھی۔ مولانا بنوریؒ کے بڑے داماد ہونے کے بھی باوجود ’’ ماہنامہ البینات، جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی‘‘ میں انکا ایک مضمون پورا شائع نہ ہوسکا تھا۔مولانا فضل الرحمن بھی مولانا طاسینؒ ہی کو آئیڈیل شخصیت مانتے ہیں لیکن…

مزارعت کے بجائے زمین کو مفت دینے کے چند فوائد


1: اللہ تعالیٰ نے سودی نظام کو قرآن میں اللہ اور اسکے رسول ﷺ سے اعلان جنگ قرار دیا اور احادیث صحیحہ میں نبیﷺ نے زمین کو کرایہ، مزارعت، ٹھیکہ اور بٹائی پر دینے کی تمام صورتوں کو حرام وناجائز اور سود قرار دیا ہے۔ کوئی جاگیر دار بھی خود کاشتکاری کرتا ہے اور نہ ہی اپنے بچوں سے کاشتکاری کراتاہے۔ جب شاہ محمود قریشی، عمران خان، نوازشریف، زرداری ، مریم نواز، بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمن ومولانا اسد محمود وغیرہ تمام سیاستدانوں ، فوجی جرنیلوں اور بڑے بیوروکریٹوں اور انکے بچوں کو کاشتکاری پر لگایا جائے تو انکی صحت بھی ٹھیک ہوجائے گی اور اگر یہ لوگ خود نہ کرسکتے ہوں تو کسان کے بچوں کو نہ صرف اپنی روزی ملے گی بلکہ ان کی قابل اولاد میں بہترین تعلیم کے ذریعے فوجی جرنیل اور بیوروکریٹ،ڈاکٹر وسائنسدان ، انجنئیر اور سیاستدان بھی پیدا ہوں گے۔
بلاول، بختاور ، حسن وحسین اور مریم جیسے لوگوں کی اچھے تعلیمی اداروں میں پڑھنے کے باوجود اپنے اندر صلاحیت پیدا کرنے کے بجائے کام کے نہ کاج کے دشمن اناج کے سے زیادہ حیثیت پیدا نہیں کی ۔ فارمی و برائلر ٹائپ کے مرغے اور مرغیاں اقتدار میں اور بااثر عہدوں پر براجمان ہوتے جارہے ہیں مگر دیسی اور اصلی مرغے اور مرغیاں غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارتے ہوں ،پھر اس ملک کا انجام کیا ہوگا؟۔ ایک ناگوار انقلا ب سے بچت کیسے ہوسکے گی؟۔
2: زیادہ سے زیادہ یہ خدشہ ہوگا کہ تیار خور طبقہ بھوک کی موت مرے گالیکن اس کیلئے فکر کی ضرورت نہیں ، مولوی حضرات کے بعد بڑے بڑے ادارے بھی جب بھیک اور زکوٰۃ پر چل رہے ہیں تو چند جاگیرداروں کوبھی زکوٰۃ سے پالا جاسکتا ہے۔ زمین کو مفت کاشت پر دینے سے مزدور طبقے کی دہاڑی بھی بہت بڑھے گی اور غریب وامیر طبقات کے درمیان فاصلہ بہت کم ہوجائیگا۔ جس کو بھی اپنی محنت سے زمین کے ذریعے مالدار بننے کا موقع ملے گا تو وہ زمین کی کاشت کو چھوڑ کر کسی سہل کام میں اپنا سرمایہ لگائے گا۔ یوں باہر سے سرمایہ کار لانے کیلئے ہمیں ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔ روس اور چین بھی اس نظام کو قبول کرنے میں بہت خوشی محسوس کرینگے۔ سرمایہ دارانہ نظام اور کمیونزم کے درمیان اعتدال سے صراطِ مستقیم کی نشاندہی ہوگی تو ابلیس فساد فی الارض کی سازش میں ناکام ہوگا۔
3: برصغیر پاک وہند کی زر خیز زمینوں میں کاشتکاری کے ذریعے غربت کے خاتمہ میں مدد ملے گی تو بھارت پاکستان کیلئے رام ہوجائیگا۔ میدانی علاقوں میں بڑے پیمانے پرکاشتکاری سے چین وروس کے پہاڑی علاقوں میں سپلائی کا کام ہوگا تو نسلی اور طبقاتی تقسیم کا بھی خاتمہ ہوگا۔ رسول اللہﷺ نے کالے گورے، عرب وعجم اور تمام نسلی امتیازات کا خاتمہ کردیا تھا۔ ابوجہل وابولہب اور ابوسفیان کا غرور توڑ کر بلالِ حبشیؓ، صہیب رومیؓ اور سلمان فارسیؓ کی عزت افزائی ہوئی تھی۔ ہمارے ہاں کرپشن سے جاگیردار اور سرمایہ دار پیدا کرکے طبقاتی تقسیم کا بیج بویا گیا ہے۔ کاشتکار شودر اور جاگیردار برہمن بن گئے ہیں۔اسلامی اقتصادی نظام کے ذریعے پاکستان میں کرپشن کے سردار پھر اپنی جگہ اور اوقات پر آسکتے ہیں۔

اسلامی اقتصاد کے چند پوشیدہ گوشے: علامہ محمد طاسین ؒ


مندرجہ بالاکتاب کی طباعت سن 2002ء میں ہوئی ہے۔ ناشر : فضلی سنز (پرائیویٹ) لمیٹیڈ کراچی۔ ترتیب وپیشکش :ڈاکٹرمحمدعامرطاسین وفاقی مدرسہ بورڈ کے چیئرمین رہے۔ پتہ: گوشہ علم و تحقیق : 20.A، کتیانہ سینٹر ، بنوری ٹاؤن، ای میل: gosha elmo tahqeeq hotmail. com
آج امریکہ نے افغانستان، عراق اور لیبیا کو تباہ کرنے کے بعد شام کی خانہ جنگی سے ابھی تشفی نہیں پائی ہے کہ پاکستان، سعودی عرب اور ایران کے خلاف سازش کو عملی جامہ پہنانے کی ترکیب کررہا ہے۔ ایران کی تیل پر پابندی کو روس، چین اور بھارت نے مسترد کیا ہے جس کو امریکہ نے قبول بھی کرلیا ہے۔ اگر ہم امریکہ کے بجائے روس اور چین کیساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش میں لگے ہیں تو اسلامی نظام کی طرف ہی آنا ہوگا۔ آئی ایم ایف کی شرائط غریب کو آخری حد تک غربت کی لکیر سے ماردیگی جس کا حکمران اور بڑے طبقے پر اثر نہ ہوگالیکن جب غریب اُٹھ کھڑا ہوگا تو پاکستان کی ریاست بھی بچ نہیں سکے گی۔ فوجی سپاہی کا تعلق غریب گھرانے سے ہوتا ہے، پولیس اور تمام اداروں کے غریب ملازمین کی ہمدردیاں اپنے بڑوں کے بجائے اپنے گھرانوں سے ہوں گی۔ یہ وقتی طور پر مذہبی اشتعال انگیزی کا مسئلہ نہیں ہوگا کہ مولانا سمیع الحق کو قتل کرکے علامہ خادم حسین رضوی کو رام کیا جائے بلکہ بھوکی عوام وحشی درندوں کی طرح انقلاب برپا کردینگے۔ جانیں، عزتیں، محلات، بازار، قلعے، چھاونیاں، عدالتیں اور مدرسے کچھ بھی محفوظ نہ رہ سکیں گی۔ سابق صدر زرداری نے حامد میر کو جیو ٹی چینل پر بتایا ہے کہ ’’ عمران خان کے اپنے تعلقات سعودیہ سے اتنے اچھے نہیں کہ اتنا بڑا پیکج مل سکتا تھا، چین بھی بڑی مدد کریگا، اسکے علاوہ ابوظہبی بھی مدد کریگا‘‘۔
زرداری کا واضح اشارہ اسرائیل کی طرف تھا اسلئے کہ اسرائیلی خاتون وزیر نے ابوظہبی کی بڑی مسجد کا دورہ کیا تھا جس کی میڈیا میں تشہیر بھی ہوئی ۔ ممکن ہے کہ اسرائیل سے مسقط اور اسلام آباد آنے والے طیارے میں بھی صداقت ہو اور کسی نے فیصل مسجد اسلام آباد کے بجائے اصحاب اقتدار سے اہم ملاقاتیں بھی کی ہوں۔ پاکستان میں امریکہ کو دئیے جانے والے ائرپورٹوں کو بھی خفیہ رکھا گیا تھا۔ ریاست اور عوام کے اندر اعتماد کا فقدان اپنی جگہ ہے۔ طالبان کی دہشت کا راج ابھی عوام کے دِلوں سے ختم نہیں ہوا ہے کہ کوئی دوسرا فتنہ کھڑا نہ ہوجائے۔
لگتاہے کہ عالمی قوتیں پاکستان کو قدرت کا بڑا ڈھیٹ شاہکار سمجھ کر صفحۂ ہستی سے مٹانے کے درپے ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین جناب قبلہ ایاز صاحب کو چاہیے کہ علامہ طاسینؒ کی مندرجہ بالا کتاب کو اقتدار کے ایوانِ بالا تک پہنچائیں تاکہ بڑے پیمانے پر زمین کی کاشت ممکن ہوسکے ۔ علامہ اقبالؒ نے فرشتوں کے گیت کے عنوان سے کیا خوب کہاتھا کہ جو مخلص مسلمان تھے۔
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو
اشتراکیت نے بھی پنجے گاڑ رکھے تھے جسکے اثرات سے علماء محفوظ نہیں رہ سکے تھے ۔ دوسری طرف سودی نظام کو بھی جواز بخشنے تک بات پہنچی، اسلام اعتدال ہے

امریکہ کی سعودیہ عربیہ کو دھمکی اور پاکستان کی صورتحال

امریکی صدر ٹرمپ نے سعودی عرب کے شاہ سلیمان کو ہتک آمیزلہجے میں دھمکی دی ہے کہ ’’ ہمارے بغیر تمہاری حکومت دوہفتے بھی نہیں چل سکتی ہے۔ فوجی اخراجات ہمیں دو، ورنہ ہم تمہاری مدد نہیں کرینگے‘‘۔ یورپی یونین امریکہ کا ساتھ ایران کے معاملے میں نہیں دے رہا ہے۔پہلے جرمنی، ترکی اور جاپان آپس میں متحد تھے۔ برطانیہ، امریکہ، فرانس نے اس اتحاد کو پارہ پارہ کرکے تہس نہس کردیا اور برصغیر کی تقسیم میں بھی انگریز کو اسلئے دلچسپی تھی کہ روس، چین، ایران، برصغیر پاک وہند، ترکی ، جرمنی، جاپان وغیرہ ایک پیج پر جمع ہوکر مغرب کی امامت کوکبھی کسی طرح سے چیلنج نہ کرسکیں۔ مشرقی ممالک کے اتحاد میں پاکستان و مسئلہ کشمیر مخل رہے اور عرب ممالک کیخلاف اسرائیل کا خودکاشتہ پودا کام جاری رکھے۔
عراق اور لیبیا کی تباہی کے بعد ترکی ، ایران ، سعودیہ اور پاکستان کو شکنجے کی نذر کرنے میں باری کا انتظار کیا جارہاہے کہ پہلے کس کو نشانہ بنایا جائے۔ بھارت بھی محفوظ نہیں رہے گا اور چین وروس کو بھی نہیں چھوڑا جائے گا۔ مغل بادشاہ ٹیپو سلطان کی بات ٹھیک ہے کہ ’’ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘۔ غزوہ بدر و اُحد کے بعد صلح حدیبیہ کرنے میں بھی حرج نہیں ہے مگر ہم اپنی تقدیر بدلنے کی صلاحیت خود رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جھوٹ نہیں بولا ہے کہ ’’ اللہ اس قوم کی حالت نہیں بدلتا ہے جو اپنی حالت خود نہ بدلے‘‘۔
سعودیہ کو امریکی دھمکی سے آزاد کرنے کیلئے پاکستان ایران اور بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے۔ دشمنی نہیں دوستی میں بھی کشمیر ہمیں مل جائیگا۔ جب بھارت اور پاکستان کو بڑے پیمانے پر ایران سے تیل وگیس کی سپلائی شروع ہو تو پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل بن جائیگا۔ بیرون ملک قرضوں سے نجات مل جائے گی تو یہ قوم سودی قرضوں کی ادائیگی کیلئے بھاری بھرکم ٹیکسوں کے نیچے نہیں مرے گی۔ امداد لینے کے بجائے امداد دینے والا ملک ہم بن جائیں گے اور بھارت ہمیں گیس وتیل کی رائلٹی دیگا۔ بھارت سے گائے کا گوشت روس اور نوآزاد مسلم ممالک وافغانستان سپلائی کرینگے تو بھی ہمارا بہت سا قرضہ اُترجائیگا۔ بھارت کو ایران اور افغانستان کی راہداری مل جائے گی تو کشمیر اور پانی کا مسئلہ حل کرنے میں بخل سے کام نہیں لے گا۔ دشمنی کی فضاء نہیں رہے گی تو دفاعی بجٹ دونوں ممالک اپنے غریب باسیوں پر خرچ کرینگے۔ برصغیر پاک وہند کا وسیع تر میدانی اور افغانستان سے روس تک پہاڑی علاقہ ایکدوسرے کی ضروریات پورا کرنے کیلئے کافی ہیں۔ ایران ،ترکی کے راستے یورپ تک تیز رفتار ٹرین کے ذریعے بھارت،بنگلہ دیش اور مشرقی ممالک تک سفر وتجارت کا سلسلہ شروع ہوگا تو دنیا کی تقدیر بدل جائے گی۔ پاکستان اس کیلئے شہہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔
پاکستان خطے کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کرے گا تو اسرائیل خود مسلم ممالک کو دعوت دیگا کہ قبلہ اول پر تمہارا حق ہے لیکن مسلم فتح کے جھنڈے گاڑھ لینے کے بعد بیت المقدس کو قتل گاہ نہیں بنائیں گے بلکہ یہود، نصاریٰ اور مسلمانوں کو پوری آزادی حاصل ہوگی کہ اس میں اپنے اپنے دن مکمل عبادت کریں۔ جمعہ، ہفتہ اور اتوار کو ایک ہی عبادتگاہ باری باری سب کے حوالے ہوگی تو مذہبی شدت پسندی کا ناسور دنیا سے خود بخود ختم ہوجائیگا جسکے پیچھے اسلحہ بیچنے اور ہیروئن کا کاروبار کرنے والا مافیا ہے۔ پاکستانی قوم کو شعور کون دیتا ؟۔ جبکہ قائداعظم کی زبان اور علامہ سر محمد اقبال کے اشعار ونظریات سمجھنے سے بھی یہ قوم قاصر تھی۔
قرآن وسنت آئین کا حصہ ہے اور اسلام کے نام پر یہ مملکتِ خداد اد وجود میں لائی گئی ہے لیکن اسلام کا نام لینے والے مذہبی طبقات ، مدارس ومساجد نے ہی قرآن وسنت کی تعلیمات کو سب سے زیادہ زیروزبر کرکے رکھ دیا ہے۔ دنیا کو سمجھ آگئی ہے کہ سودی نظام نے عالم انسانیت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے مگر ہمارا شیوخ الاسلام طبقہ سودی نظام کو بھی اسلامی قرار دینے کی جسارت کررہاہے جسکے نتیجے میں عام بینکوں میں بھی قرآنی آیت احل اللہ البیع وحرّم الربوٰ ’’اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کردیا ہے‘‘ جلی حروف سے لکھنے کی زحمت کی گئی ہے۔ معیشت، سیاست، معاشرت اور ہرچیز میں اسلام کے نام پر دھوکہ کیا جارہاہے۔ بقول اقبال : ؂ تم مسلمان ہو جسے دیکھ کر شرمائے یہود؟۔
ایرانی تیل کی سملنگ میں سیاستدان، سول وملٹری بیوروکریٹ اور سمگلرسب ملوث ہیں۔ اگر اس کی جگہ پر قانونی ٹیکس وصول کرکے حکومت کا بوجھ کم کیا جائے تو نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کی عوام میں بڑے پیمانے پر تبدیلی آئے گی۔ لوگوں کو کم قیمت میں تیل وگیس کی فراہمی اور حکومت کو ضرورت سے زیادہ ٹیکس ملے گا اور پاکستان میں زندگی کی طاقت دوڑ جائے گی۔ پاکستان کے ائرپورٹوں پر سستا تیل بین الاقوامی جہازوں کو فراہم کیا جائیگا تو مسافروں اور سیاحوں کی ریل پیل شروع ہوگی۔ ائرپورٹ دنیا بھر کے جہازوں سے آباد ہوجائیں گے۔ پاکستان کو دنیا بھر میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جائیگا۔ پاکستان کی کرنسی ڈالر سے کئی گنا بڑھ جائے گی۔ پاکستان میں تجارت اور کاروبارِ زندگی سے اعلیٰ اخلاقی معیار اور اقدار دنیا کے سامنے آجائیں گے۔ پھر عرب اور یورپی ممالک کے لوگ روزگار کیلئے پاکستان آئیں گے، پاکستانیوں کو روزگار کیلئے کہیں جانا نہیں پڑے گا۔ جھوٹے و بے بنیاد افواہوں اور پروپیگنڈوں کی ایکدوسرے کیخلاف ضرورت نہ پڑیگی۔
سعودی عرب کو امریکہ دھمکی نہیں دے سکے گا۔ ایران اور سعودیہ شیعہ سنی کی منافرت بھی نہیں رہے گی۔ خانہ کعبہ کو مسلم ممالک جدید سے جدید تر انداز میں وہ مرکز بنائیں گے کہ تیز رفتار روشنی کی مدد سے خانہ کعبہ رات کے وقت آسمان کو چھو رہا ہوگا۔ جدید ترین نظام سے فاصلے پر بھی قریبی مسافت کی طرح طواف کیا جاسکے گا۔ خانہ کعبہ ،مدینہ منورہ اور بیت المقدس کی عبادتگاہوں میں سہولت اور آسانی سے رسائی ممکن بنائی جائے گی۔ تمام انسان قرآن کے مخاطب ہیں اور ہر زبان میں قرآن کا سلیس ترجمہ کرکے مذہبی طبقات کی خرافات کو عقلی ونقلی دلائل سے ملیامیٹ کردیا جائیگا تاکہ قیامت کے دن رسولﷺ نے امت کے خلاف جس شکایت کا اظہار کرنا ہے کہ یارب ان قومی اتخذوا ہذالقراٰن مھجورًا ’’اے میرے ربّ! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا‘‘۔ اسلام کی نشاۃ ثانیہ سے اسکا ازالہ پاکستان سے شروع کردیا جائے۔
پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا، سود اسلامی تعلیمات کے برعکس ہے ، سودی نظام سے جتنی رقم دوسروں کے حوالے کردی جاتی ہے اس سے زیادہ کرپشن بھی نہیں ہوتی ہے۔ پہلے ایک احمق نوازشریف نے بے تحاشا قرضے لیکر ملک کو ڈبویا اور اب دوسرے احمق نے مزید بے تحاشا رقم حاصل کرنے کیلئے ٹیکسوں کی بھرمار سے پوری قوم کی غریب وامیر عوام کا جینا دوبھر کرنے کیلئے اقدامات شروع کئے ہیں۔ پاکستان کو ایٹم نہیں بچاسکتا ہے لیکن غربت اس کو مارے بغیر بھی موت کی نیند سلادے گا۔ دنیا بھر کی سازشیں پاکستان اور پاکستانی عوام کے خلاف نبرد آزما ہیں اور ہمارے اقتدار والا طبقہ جھوٹی تسلیاں دے رہاہے۔ سید عتیق گیلانی

کے الیکٹرک پرعوام کی اشیاء کوکم یا زیادہ وولٹیج کی وجہ سے نقصان پہنچنے پر جرمانہ ہونا چاہیے تھا۔

shaheen-air-k-electric-meter-complaint-low-and-high-voltage-steel-mill-pakistan-army-chief-qamar-javed-bajwa-civil-aviation-authority-fbr-khalid-sehbai-air-force-pakistan-captain

کراچی (نمائندہ خصوصی)پبلشرنوشتۂ دیوار اشرف میمن سابق سینئر نائب صدر سندھ پی ٹی آئی نے اپنے بیان میں کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے وعدہ کیاتھا کہ ایک کروڑ نوکریاں دینگے لیکن شاہین ایئر لائن کا حکومت کے ہاتھوں دیوالیہ ہوجانا سوالیہ نشان ہے۔ پاکستان اسٹیل مل کے ملازمین کو عرصہ سے تنخواہیں نہیں مل رہی ہیں۔ باقی پرائیویٹ اداروں کے الیکٹرک وغیرہ کو اربوں روپے کی مدد فراہم کی جاتی ہے۔ حالانکہ تیز ترین میٹرز ، حد سے زیادہ بل اور درست فریضہ انجام نہ دینے کے باوجود حکومت کافرض تھا کہ لوڈ شیڈنگ ، غلط ریڈنگ اور عوام کی اشیاء کو کم وولٹیج یا زیادہ وولٹیج کی وجہ سے نقصان پہنچنے سے ان پر خاطر خواہ جرمانہ ہونا چاہیے تھا۔ حکومت کا کام تھا کہ ان اداروں سے غریب عوام کو تحفظ دیتے، میٹر چیک کئے جاتے ، غلط بلنگ پر کے الیکٹرک کو جرمانہ کیا جاتا اور لوڈ شیڈنگ وغیرہ پر کے الیکٹرک کو سزا بھگتنی پڑتی اور عوام کو ریلیف دینے پر مجبور کیا جاتا۔
شاہین ایئر لائن کے ہزاروں ملازمین اور متعلقہ افراد کی بیروزگاری کا کریڈٹ بھی موجودہ حکومت کو جائیگا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کسی ایک کو ملازمت دیدی تو بڑی پذیرائی ملی لیکن یہاں کافی تعداد میں لوگ بیروزگار ہوجائیں گے تو ریاست کو اسکا احساس ہونا چاہیے ۔ سول ایوی ایشن ، کسٹم اور ایف بی آر کے اپنے فائدے میں بھی یہی ہے کہ وہ اتنی بڑی آرگنائزیشن کو چلنے دیں۔ جرمنی وغیرہ میں جب کوئی ادارہ اس طرح ناکام ہوتا ہے تو حکومت اس کو سہارا دیتی ہے۔ اپنا نمائندہ مقرر کرکے اس کو چلنے دیتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ حکومت کے بقایا جات بھی وصول کئے جاتے ہیں۔
شاہین ایئر لائن کے خالد صہبائی ایئر فورس کے کیپٹن تھے ، جب شاہین دیوالیہ ہونے لگی تو انہوں نے کینیڈا سے آکر اس میں اپنا سرمایہ لگایا۔ وہ صرف ملازمین کو بیروزگار دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ جب یہ ادارہ دن دوگنی اور رات چگنی ترقی کرنے لگا تو ان کا اچانک انتقال ہوگیا۔ انکے دونوں بیٹے یہاں کے ماحول سے واقف نہیں تھے اور رفتہ رفتہ ادارے نے بحران کی شکل اختیار کرلی۔ اب وقت آگیا ہے کہ یہ ادارہ کسی اہل انتظامیہ کے سپرد کرکے اس کو بحران سے نکالنے میں مدد دی جائے۔ اسکے اندر صلاحیت ہے کہ چند مہینوں میں نہ صرف اپنے پاؤں پر کھڑا ہو بلکہ ایک بہت منافع بخش ادارے کی حیثیت سے یہ اپنی ساکھ منوالے گا، ارباب اختیار اس پر رحم کھائیں

قرآن میں‌قدرتی اور پاکستان میں مصنوعی پانی کے ذخائر کا بہترین طریقہ کار موجود ہے.

bore-well-recharge-under-water-recharge-dam-alternatives-underground-water-leve-recharge-flood-water-storage-supreme-court-dam-fund-malik-riaz-bahria-town-pakistan-and-quran-rain-water-storage

بھارت، آسٹریلیا و دیگر ممالک میں جدید طریقے سے بارش کے پانی کو کنویں کے ذریعے زیر زمین ذخائر 1980ء سے بنائے جارہے ہیں۔ انٹرنیٹ پر سرچ کرکے معلومات بھی دستیاب ہیں۔ وسعت اللہ خان نے اپنے کالم میں بھی دنیا میں اس جدید طریقے کو سب زیادہ اہم ، سستا اور بہترین قرار دیا ہے۔ کراچی میں ملیر ندی سے ملحق اور گڈاپ میں برساتی نالوں کے ذریعے زیرِ زمین پانی کے ذخائر پر کچھ محدود طریقے سے عمل بھی ہورہاہے۔ خشک سالی میں سندھ کے پانی کو پنجاب چوری کرتاہے ، سیلاب کے وقت سندھ ڈوب رہا ہوتاہے، یہ مخاصمت کا ماحول بہت آسانی سے ختم ہوسکتا ہے۔ جدید کنوؤں کے ذریعے پاکستان نے زیرِ زمین پانی کوذخیرہ کرنا شروع کیا تو بھارت کی طرف سے سیلابی پانی چھوڑنے پر تباہی اور بربادی پھیلانے کا خطرہ نہیں رہے گا اور طوفانی بارشوں سے بڑے بڑے شہر اور کھیت وباغات متاثر نہ ہونگے، کراچی کے چھتوں پر برسنے والاپانی قریبی کنوؤں میں ڈالاگیا توکھارا پانی میٹھا ہونے کیساتھ شہر بھی تباہ نہ ہوگا۔ ڈیفنس کراچی میں پانی نہیں ہے لیکن ملک ریاض کا بحریہ ٹاؤن چوری کے پانی سے مالامال ہے، اگر ملک ریاض بااثر اور ذمہ دار افرادکی مٹھی گرم کرتا تو نمونہ کے طور پر بارش کے پانی کیلئے کنویں بھی کھودیتا۔
ملک ریاض کی طرف سے بارش کے پانی کو مصنوعی کنوؤں کے ذریعے زمین کے اندر پانی کے طریقۂ کار سے ہمارے ارباب اقتدار کی آنکھیں بھی کھل جاتیں اور ملک بھر میں سیلابی ریلوں کے پانی کو زیرِ زمین ذخائر تک پہنچادیا جاتا ۔ جسکے بعد شمسی توانائی کے ذریعے پورے ملک میں پانی کی بہتات ہوجاتی۔ اللہ بار بار قرآن میں پانی کے ذریعے مردہ زمین کو زندہ کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ جس طرح آسمانی بجلی سے آئیڈیا لیکر ساری زمین مصنوعی بجلی سے آباد کی گئی اورعروج کی طرف عالمِ انسانیت نے زبردست پیشقدمی کی ہے۔اسی طرح پاکستان میں زیرِ زمین پانی کے محفوظ ذخائز اور نہری نظام کے ذریعے پاکستان کے مُردہ بدن میں زندگی کی روح پھونکی جاسکتی ہے۔ کشمیر، سوات،خیبر،کرم ،وزیرستان اور بلوچستان کے پہاڑوں سے پنجاب وسندھ کے میدانوں اور صحراؤں تک قدرتی اور مصنوعی طریقے سے پانی کے وسیع ذخائز کے مواقع مملکتِ خداداد پاکستان کی سرزمین پر موجود ہیں۔ قرآن نے عبرت کیلئے بتایا کہ قابیل نے ہابیل کو شہید کیا اور پھر کوا دیکھ کر دفن کا طریقہ سیکھا۔ ہم بچوں کو اپنے اردو اور انگریزی کے نصاب میں ’’پیاسا کوا‘‘ کی کہانی پڑھاتے ہیں،جس کا منہ پانی تک نہیں پہنچ رہا تھا تو اس نے کنکریاں پھینک پھینک کر پانی کی سطح کو بلند کردیا مگر خود اپنی عقل سے کام لیکر سیلابی پانی کے ذریعے زیرِ زمین ذخائر کو میٹھا اور اس کی سطح بلند کرنے کا کوئی کام نہیں انجام دیتے ہیں، تمام ٹی وی چینل اور اخبارات انٹر نیٹ سے پانی کے جدید طریقوں پر پروگرام کریں تو گوادر سے تھرپارکر تک پانی کی محرومیاں ختم کرنے کا حکمران اہتمام کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے اور اپنی مدد آپ کے تحت بھی بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ جس سے ’’پاک سرزمین شاد باد ہوگی اور کشورِ حسین شاد باد‘‘ کا عملی مظاہرہ دیکھنے کو ملے گا۔ پاکستان کے وسیع علاقے میں صحراؤں کے ذریعے پانی کو فلٹرکرکے صاف کرنے کا اہتمام بھی کیا جاسکتا ہے ، جس سے ریت میں مٹی مکس ہوگی تو صحرائیں بھی سرسبز وشاداب ہوجائیں گی۔ قدرت نے جن نعمتوں سے پاکستان کو نواز دیا ہے ، اگر ہم اپنی مرضی سے اپنے لئے اپنے ملک کو ڈیزائن کرنا چاہتے تب بھی ہم ایسا ملک نہیں بناسکتے تھے۔ پانی کا بہاؤ، ہوا، سورج اور سارے موسموں کے ذریعے لطف اندوز ہونے کے علاوہ ہر طرح کے کھیت، پھل اور بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے، ہرطرح کے جانور پالے جاسکتے ہیں۔