پوسٹ تلاش کریں

امام مہدی کا زمانہ:شیخ تامر ابراہیم

السلام علیکم بڑی ریاستوں کی خفیہ ایجنسیاں امام مہدی کی تلاش میں ہیں۔ وہ خوابوں پر ایمان رکھتے ہیں ۔ صدر جمال عبدالناصر نے خواب سناکہ مشرقِ وسطی سے جوان اٹھے گا تو تعبیر والوں سے پوچھا کہ میں ہوں؟ جواب ملا: نہیں، وہ ابھی پیدا نہیں ہوا۔ یہ بات 50 کی دہائی 1960ء سے پہلے کی ہے۔ہولناک خواب کو حالات کی سنگینی کے پیشِ نظر دہراتا ہوں۔1979ء میں شامی صدر حافظ الاسد نے خواب دیکھا کہ ننھا بچہ پیدا ہوگا ، یہ خواب فرعون کے خواب جیسا تھا جب اس نے دیکھا ایک بچہ اس کی سلطنت کو ختم کرے گا۔وہ معبروں کے پاس گیا،جیسے یوسف کے دور میں سات موٹی گائے کو سات دبلی گائے کے کھا جانے کی تعبیر پریشان خواب کی گئی، مطلب نہیں۔ مگر اس نے خواب کو سنجیدگی سے لیا اور بچوں کو قتل کرنا شروع کیا۔1979 کے بعد وہ نومولود بچوں کو قتل کراتا رہا ، حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کیے۔ یہ شام کی عوام اچھی طرح جانتی ہے۔ لوگ پوچھتے کہ آخر کیوں نومولود بچوں کو قتل کرتے ہو؟ تو وہ جواب دیتا: یہ مخالفین اور دہشتگردوں کے بچے ہیں لیکن وہ جانتا تھا کہ اس کی حکومت کا خاتمہ اسی بچے کے ہاتھوں ہوگا۔ یہ عرب بادشاہت کا خاتمہ کرے گا۔

رسول اللہ ۖ نے خبر دی کہ عربوں کی بادشاہت کا اختتام مہدی کے ظہور پر ہوگا۔ حیران ہوں کہ حکمران ،بادشاہ حقیقت سے کیوں گھبراتے ہیں؟ ہم نہ برا بھلااور گالی دے رہے ہیں، نہ زبردستی کرسیوں سے اتارنے جا رہے ہیں،اگر اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور نبی ۖ کی احادیث پر یقین رکھتے ہیں تو جان لیجیے کہ مہدی حق ہیں۔ حرمین کے حکمران لاکھوں کروڑوں خرچ کر رہے ہیں تاکہ ڈرامہ بنا کر یہ ثابت کریں کہ امام مہدی کا تصور دھوکہ ہے، یا یہ کہ جو مہدی کے دعوے دار سب فتنہ پرور ہیں۔ وہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ مہدی کا تصور پاگل لوگوں کا دھوکہ ہے یا مجرموں کا بہانہ۔ صحیح احادیث ہیں کہ آخری زمانے میں امام مہدی آئیں گے۔یہ کہنا کہ آخر الزمان نہیں آیا اور مزید ہزاروں سال باقی ہیں، بالکل بے بنیاد بات ہے۔ چودہ سو سال بعد بھی اگر آپ نہیں مانتے تو کب مانیں گے؟ کیا یہود کی طرح مزید دو تین ہزار سال زندہ رہنے کی امید لگائے بیٹھے ہیں؟ یہ بالکل غیر منطقی ہے۔اللہ آپ سب کو برکت دے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اکتوبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مہدی کے قریبی افراد ہی اس پر سب سے زیادہ ظلم و ستم والے ہوں گے

فتی الشرق 2027
المہدی و أخوتہ و أقاربہ و المجتمع والظلم الواقع علیہ

25اگست 2025: بسم اللہ الرحمن الرحیم،
مہدی کے قریبی افراد ہی اس پر سب سے زیادہ ظلم و ستم والے ہوں گے۔ اللہ کے نیک اولیا ء نے مہدی کے بارے میں بہت کچھ بیان کیا، حتی کہ ان کی زندگی کی نہایت باریک تفصیلات بھی بتائی ہیں۔ امام مہدی کا ذکر قرآن، انجیل اور تورات میں بھی آیا ہے۔ کہا گیا کہ امام مہدی پر جو سب سے زیادہ ظلم ان کے قریبی لوگوں کی طرف سے ہوگا، باالخصوص ابتدائی زندگی اور جو ”شبِ اصلاح”سے پہلے کا زمانہ ہوگا۔ جیسا کہ پہلے بتایا، مہدی عام اور سادہ انسان ہوں گے۔ جو عوام، کمزور اور معاشرے کے نظرانداز طبقے کیساتھ زندگی گزار یں گے۔ انکے پاس دولت، حیثیت، طاقت یا حکومت نہیں ہوگی۔

یہ اللہ کی طرف سے ان کیلئے مقرر کردہ حکمت ہے، تاکہ وہ عام انسانوں کے مسائل اور مصائب کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں، درد محسوس کریں اور ان کیلئے مناسب حل تلاش کر سکیں۔ بالخصوص اسی زمانے میں ان پر سب سے زیادہ ظلم ہوگا، تو وہ ان تمام دردوں اور غموں کا ذاتی تجربہ حاصل کریں گے جو مسلمان، کمزور اور نظرانداز شدہ افراد پر بیتتے ہیں۔ ان پر اتنی سخت آزمائشیں آئیں گی کہ کچھ لوگ سمجھیں گے کہ یہ اللہ کی طرف سے ان پر سزا ہے اور ان پر ظلم ان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے۔ یہاں تک کہ کچھ لوگ یہ بھی کہیں گے ”اگر وہ نیک ہوتے تو ان پر اتنی سخت آزمائشیں کیوں آتیں؟”یہ وہ حقیقت ہے جو مہدی کو جھیلنی پڑے گی۔ لوگوں کی زبانوں سے آنے والا ظلم، باوجود اسکے کہ وہ اکثر اپنے وقت کو تنہائی میں گزارتے ہیں۔ مگر لوگ ان کی برائیاں کرنے سے باز نہیں آئیں گے۔ یہ ہمیں نبی اللہ ایوب کی یاد دلاتا ہے، جنہیں شدید آزمائشوں سے گزرنا پڑا، یہاں تک کہ لوگوں نے ان کے تقوی پر شک کرنا شروع کر دیا۔

مہدی ”شبِ اصلاح ” سے پہلے طویل عرصہ تنہائی میں گزاریں گے، جو ان کی زندگی کا مشکل ترین مرحلہ ہوگا۔ کیونکہ ظلم ان پر صرف اجنبیوں کی طرف سے نہیں بلکہ ان کے قریبی افراد کی طرف سے ہوگا۔ قریبی افراد کا ظلم زیادہ تکلیف دہ اور اذیت ناک ہوتا ہے۔ وہ ان کے اچھے کردار کو جھٹلائیں گے، ان کی نیکیوں کو چھوٹا دکھائیں گے، ان پر باتیں کہیں گے جو ان میں نہیں ہوں گی۔ یہاں تک کہ مہدی کو شک ہونے لگے گا، سوچنے لگیں گے کہ شاید واقعی ان سے ہی کوئی غلطی ہوئی۔ یہ سب کچھ نبی یوسف کیساتھ بھی ہوا، جب انکے بھائیوں نے انکے خلاف سازش کی۔ اسی طرح، امام مہدی بھی ایسے معاشرے میں زندگی گزاریں گے جو ظلم، زیادتی اور بدعنوانی سے بھرا ہوا ہوگا یہاں تک کہ انکے قریبی بھی ان سے غداری کرینگے۔

مہدی کی برداشت اور صبر کسی ذاتی مفاد کیلئے نہیں بلکہ تمام مظلوموں کی خاطر ہوگا جن پر ظلم ہوا ۔ بہت سی کوششوں کے بعد وہ اپنی صفائی میں ناکام ہو نگے تو خاموش ہو جائیں گے اور سب کچھ اللہ کے حوالے کر ینگے۔ جیسا اشعیاء نے فرمایا: وہ بکری کی طرح ہوگاجو اپنے پاؤں سے ذبح ہونے کیلئے لے جائے گی”۔ مطلب یہ ہے کہ مہدی کا دور ہوگاتو انسانوں کی صورت میں درندے ہونگے۔ شیخ ابن عربی نے بھی فرمایا:”اللہ نے مہدی کی پرورش ایک ٹولہ بدکار لوگوں میں کی”۔مطلب ہے کہ وہ معاشرہ یہاں تک کہ مہدی کے قریبی انکے خلاف ہونگے ،انکے دل بغض، حسد، نفرت سے بھرے ہونگے۔ مہدی ظالم و فاسد معاشرے میں زبردست مظالم کا سامنا کرے گا۔

سب سے زیادہ ظلم قریبی لوگوں کی زبانوں سے ہوگا الزام، بہتان اور جھوٹ۔ اشعیا ء کی مثال درست ہے:”وہ بکری کی طرح ذبح کیلئے جائے گا، اپنے پاں سے ”۔ ظالموں کے دلوں میں شر ہوگا، خیر نہیں۔ بالآخر لوگوں کی باتوں کا جواب دینا چھوڑ دیں گے۔ ابن عربی نے نبی نوح کی قوم سے تشبیہ دی۔ مہدی نے اپنی نظم میں انکے شر سے خبردار کیا جس کا نام ہے:”دعا کی نوح نے اپنی قوم کیلئے تاکہ اللہ ان کے گناہ معاف کرے”۔یعنی یہ بدکار لوگ اس وقت تک ٹھیک نہیں ہوں گے، جب تک وہ امام مہدی کو زمین پر اللہ کا خلیفہ نہ دیکھ لیں۔ اور شاید ان کی اصلاح بھی مہدی کے خوف سے ہی ہو، نہ کہ واقعی توبہ سے۔ واللہ تعالی اعلم۔

 


آج کل کی مناپلی :پیر عابد

سوال گندم جواب چنا جواب شکوہ میں گناہوں کی معافی اور ابراہیم علیہ سلام کی بات ہوئی دادی بختاور کو جس الفاظ سے یاد کیا، جٹہ میں انجام کو پہنچ جاتے سو اونٹوں کا صدقہ کرتا تمہاری گندی ذہنیت گندی سوچ و گندہ نطفہ دجال کا ہے ۔تم دنیا کی خاطر اپنی ماں پر تہمت لگانے والے ہو۔ اللہ کی پکڑ سے ڈرو مردہ کا معاملہ اللہ کے دربار میں ہے۔ تم کس باغ کی مولی ہو۔ بچپن میں ملا کو انتی دی کہ کیڑا پیدا ہوا ۔ خارش کا میں ابھی بتاتاہوں کس نے کیا تو تمہاری گیلی شلوار بیٹوں سمیت گیلی ہوجائے گی، عزت راس نہیں آتی۔کا لا جادوگر کی طرح من کے کالے ہو۔ ابلیس لعین کے پیرو کار شہید جٹہ کو گالیاںدیتے ہو۔

اگر غیرت تھی تو نقاب پہن کر برقعہ میںجنازہ چھوڑ کے روپوش نہ ہوتے۔ جبکہ مارنے والے نے ہی جنازہ پڑھایا وہ بھی دیوبندی مسلک کا اور مارنے والے بھی ایک شیعہ کو کافر کہتے ہیں اور دوسرے ماتم میں ساتھ دینے تک نرم ہیں۔ شیعہ کا ماتم نہیں بلکہ حسین کا ہے کبھی بھائی پر خیرات کی ۔ عرس کا پروگرام بناؤ علاقہ گومل میں اور اتنی جرأت کرو کہ اعلانیہ اسلحہ اورتمہارے ہینڈلرز کیساتھ تو قاتل تمہاری خیرات کی دیگ پر کھڑا ہوگا شرط لگاتا ہوں ہمت ہے تو اسی جگہ پر شوٹ کرو ورنہ چلو بھر پانی میں ڈوب مرو بے گناہ کو مروانے اور کس کس کے ہاتھ پیسہ تقسیم ہوا کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ،اب تک قاتل کا تعین نہ کرسکے ،دعوی ہے۔

واقعہ میں جتنے شامل افراد تھے جسکی لسٹ ادارے نے آپ کو دی ویڈو تک دی پھر سارے کو ٹھکانہ لگانے کا دعوی بھی ہے۔ اب ملوک بی بی فتح خاتوں بختاورہ دادی قاری حسین کی ماں اور بیٹی سے زیادہ عزتدار ہے اور چھودو قاری حسین کی بیوی و بیٹی کو سبخان ویل نے جب ڈالنا شروع کیا تو وہ کیڑا جو کراچی مدرسہ میں گانڈ دیتے ہوئے پیدا ہوا مر جائے گا۔منہاج کا لن بہت بڑا ہے عمر کے اس حصہ میں ہے کہ اللہ کی ذات کی طرف مکمل رجوع میںہے واری وٹہ پر عادی تھے اب اس آدمی کا پتا بتاؤتو ہم حاضر کر سکتے ہیں۔ نہیں تو اسرار تیار ہے۔ لیکن تمہاری پھکی گانڈ کو میر محمد کی اولاد سے چھودنا چاہتا ہوں تاکہ جس انجکشن سے پیداہوا اسی حکیم سے دوا کرو۔ آجکل خوبصوت لڑکوں میں جسکا لن بڑاہوتاہے اس کی مناپلی ہوتی ہے۔عثمان تو گانڈ میں تیس بور پستول سے سوراخ کرے گا، ویسے آپکا پرانا استاد وہ کتا اب بھی آپ پر عاشق ہے ۔

علی امین کا گھوڑا بھی آپکو ٹھنڈا نہیں کر پائے گا ورنہ ڈگری کالج کے ہاسٹل میں روز مجلس لگتی ہے۔ اکبر علی داؤد اورشپو میں کون تمہارا پرانا عاشق تھا وہ بھی ایکسپائر ہے مصر سے فرعون کے غلام جان کو کاٹ کر تمہارے منہ میں دیدیں تو گالی کی تاثیر ختم ہو جائے گی۔ سبحان تیری قدرت کانیگرم میں دو قدم زمین نہیں اور دعوی حسین کا پاک طینت امام کا نام زبان پر نہ لاؤتمہارا کھیل ختم، ڈالروں کا حساب باقی ہے ۔ تمہارے ہاتھ خود خنجر آلودہ ہے اسامہ کی ماں کو گالیاں دو گے تو رد عمل میں پھول نہیں گولیاں ملیں گی۔ دادا گالیاں دیتا تھا اور اسکی گالیوں پر قوم ہنستی تھی وہ محفل کو کشت و زعفران بنا دیتا تھا۔

حقانیہ دارلعلوم پر کوئی تعزیتی الفاظ ادا نہیں ہوتے، خیر کے کلمات آپکی گندی زبان سے آج تک کسی نے نہیں سنے، دادا کی تربیت میں کمی نہیںبلکہ آپکے منحوس چہرے سے شقاوت و بدبختی عیاں ہے۔ آپکے ہاتھ آزاد ہے تلوار تیز کرو میدان میں آو تاکہ قصہ کو مختصر کر دیں عورتوں کی طرح دماغی باتوں میں نہ اُلجھویا تو رواج میں دعوی ثابت کرو یا پھر میدان میں آجاؤ تاکہ حق و باطل عیاں ہو۔سبحان ویل قوم اس وقت رد عمل نہ دے، گالی کا جواب گالی سے نہ دے بلکہ اکھٹا ہو کر اپنا فیصلہ سنا دے۔ سردار اعلیٰ فیصلہ کر لے سر لے آنا پھر اولاد سبحان شاہ کاکام ہے۔ ڈاکٹر نجیب کے کان و ناک میں گولڈ لیف کی سگریٹ تھی اور چوراہے پر لٹکا۔ اب بھی موقع ہے رجوع کرو اور معافی مانگو ! شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات ۔پیران پیر

 


گالی اور تحریر پر شرمندہ ہوں:پیر عابد

گزشتہ سے پیوستہ۔۔پیر منہاج سردار اعلی اللہ کی ذات کی طرف متوجہ ہے۔آپ جیسے شہرت و دولت کے حریص انسان کو کیا پتہ۔بیماری کا ذکر تمہاری طرف منسوب ہے نہ کہ سردار اعلی کی طرف۔قرآن پر صفائی دے دو کہ ضیا الحق شہید کے قتل میں تم لوگ مالی اور ادارے کے ذریعے ملوث نہیںہو اور نہ مخبری میں ملوث ہو۔الیاس شہید کا واقعہ جٹہ واقعہ سے مختلف خاندا نی مسئلہ ہے جسکا چچا پیر یعقوب شاہ نے وصیت کی ہے اگر خاندان ایک ہوتاہے تو معاف کر دو۔ ڈاکٹر ظفر علی میرے محسن و مربی ہے اگر میں نے کچھ ایسے الفاظ ادا کئے تو میرا اسکے ساتھ اب بھی محبت کا تعلق ہے تمہارے اچھالنے سے رشتہ ختم نہیںہو گا۔ بلکہ مزید مضبوط ہوگا۔تمہارا ایف آئی ار اولاد پر ہے۔

اگر کوئی جٹہ واقعہ میں سبحان ویل ملوث ہے سازش میں تو یقینا وہ تمہارے پلان وراز میں شامل تھا۔کراچی کی الائنس موٹر کی رقم جن کے توسط اور قبضہ میں ہے جٹہ واقعہ کے تانے بانے وہیں سے ملتے ہیں۔تمہاری فاش غلطیاں اس واقعہ کی بنیاد بن چکی۔ٹی ٹی پی قیادت کی خواہش اور طالبان کے اندر اداروں کی کش مکش رجیم چینج کی خواہش و اقتدار کا حصول بھی بنیادی وجوہات ہے۔ پیر دمساز شاہ کی نگاہ، دور اندیشی ،ملنگ فطرت انسان کی رحلت بنیادی نقصان کا سبب بنا۔دشمن طاقتور ہے اور شاطر بھی۔ عبداللہ شہید کی وجہ شہادت جٹہ واقعہ بنی۔ واقعہ کی ویڈیو ،رقم آپ لوگوں کو ملی، جسکے ہاتھ سے ملی وہ ثبوت ہے۔ کانیگرم میں آپ نے زمین کا کرنا کیا ہے۔ قبرستان کی زمین بابو ویل کی مشترکہ ہے صرف آپکی ذاتی ملکیت نہیں۔

اورنگزیب شہیدکی اولاد کو جو سبق و پٹی آپ پڑھا رہے ہو وہ تو نادان اور جاہل ہیں اپنے فائدے وہ نقصان سے لا علم اپنے ہاتوں سے اپنے وجود کو زخمی کر رہے ہیں۔قاری حسین سیاست میں بیت اللہ امیر صاحب سے زیادہ تیز و طرار تھا۔رجیم چینج ہوا جسکا رزلٹ آپس میں کشت و خون تک پہنچا اور آپکی دونوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں تھا۔بقول ڈاکٹر ظفر علی صاحب کہ عتیق الرحمن بیمار ہے اسکے ساتھ صلہ رحمی کرو ۔اگر وہ اپنے مغلظات سے رجوع کرے اور معافی مانگے جرگہ میں تو میں نے یہ الفاظ کہے پھر وہ ہمارا مہدی اور رہنما ہے۔ کانیگرم میں جس جگہ وہ محل چاہتا ہے اسکو ملے گا۔ آپ اپنے گلہ میں سچے ہو ۔ آپکی گالیاں اور الفاظ کی بھی گنجائش ہو سکتی ہے کیونکہ جیسا المناک واقعہ ہوا ہے اس طرح واقعہ میں آپ کا ہر عمل قابل درگزرہے مگر واقعات کو بنیاد بنا کر اپنی تربیت ظاہر کی ہے وہ منصب مہدی کی شان نہیں۔میں اپنی گالی اور تحریر پر بالکل بھی شرمندہ ہوں۔

آپکے اخبار میں اسامہ کی بیٹی سے لیکر اور قاری حسین کی ماں و بیٹی کو گالیاں ۔شکرہے جھوٹ ہے۔اگر آپ واقعی اتنے پاک و شفاف کردار رکھتے ہیں واللہ پھرہم آپکے مجرم ہیں لیکن آپکے خاندان کے لوگوں کی جذباتی گفتگو اور انائیت سے نقصانات ہوئے ہیں تو ازالہ یہ ہے کہ نقصان والے کام نہ کئے جائیں۔ آپ نے امت کی رہنمائی کرنی ہے تو قاعدہ و قانون کے مطابق اپنی جہدو جہد کرو ۔اللہ تعالی نے کامیابی لکھی ہے کوئی روک نہیں سکتا۔جو مہدی اپنے خاندان کو بے وقوفی اور بڑے اور برے بول کی وجہ سے بد نام و ٹارگٹ کر سکتا ہے وہ امت کی رہنمائی کیسے کرے گا۔ اختلاف کی ہر نشست کا خاتمہ گفت و شنید ہے۔آپ رہبر بن کرنئے سرے سے احیاء خلافت کے خدوخال واضح کریں۔صلح کی طرف اور بہتری کی طرف قدم بڑھاؤ میں آپ کا ادنیٰ سپاہی بنوں گا۔آپ کامشن بھی یہ ہے کہ نیکی کے کام میں تعاون وہ برائی اور عداوت کے کام میں اختلاف آؤ مل کر گالیوں سے اجتناب اور نیکی میں بھائی بن جائے۔و سلام عاجز عابد

 


شرمندہ نہ ہو علاج کرو: عتیق گیلانی

سیداکبر وصنوبر شاہ پسرانِ سبحان شاہ نے انگریز سے رقم اوراسلحہ لیکر وزیرانقلابیوں کوقتل کروادیا پھر خانِ کانیگر م سید دل بند شاہ اوراپنے بھائی منور شاہ ،مظفرشاہ کو شہید کروادیا۔ مظفر شاہ انگریز مخالف خلیفہ غلام محمد دین پوری کے مرید اور مولانا عبداللہ درخواستی کے پیر بھائی تھے۔ صنوبرشاہ قتل ہوا۔ سبحان شاہ کے ایک مجرم اوردو مظلوم بیٹوں کی مشترکہ زمین کانیگرم میں خریدی گئی ۔ دل بند کی خانی پر قبضہ کیا گیا۔منور شاہ کااکلوتا بیٹا نعیم شاہ نے اپنی تہائی زمین لے لی۔ صنوبر شاہ کے 3بیٹوں کی وفات کے بعد مظفر شاہ کے 4 بیٹوں کو بیٹیوں کا درجہ دیکر زمین کی تقسیم ہوئی۔پھر بدمعاشی سے ان کی زمین پر قبضہ کیا۔ اب کچھ مقبوضہ کشمیر وفلسطین بنادی ۔ ہمارے واقعہ پر بھی وہی بے شرمی، بے غیرتی اوربے حیائی کی نسل در نسل کہانی دہرائی گئی تو تاریخی شواہد اور معروضی حقائق واضح لکھ دئیے ۔عابدشاہ منہاج کی گود میں پھسکڑیاں ماررہاہے تو اس کا قرآنی علاج ہے۔ حضرت علی کاعلم واضح ہوگا اور عابد شاہ کوخاندانی نسخہ مل جائے گا ۔ مظفر شاہ شہید کے پوتے اقبال شاہ نے بیٹے طارق شاہ کو سگریٹ چھڑانے کیلئے اس کا منہ جلادیا تھا۔ اگرجلیل شاہ کو عابد شاہ کی بیماری کا پتہ ہوتا تو وہ بھی اپنے بیٹے کی پچھاڑی کو ماچس کی تیلیاں جلاکر کرتا۔اور ڈگری کالج کے ہاسٹل کے قریب میں اپنا گھر بیچ کر کہیں اور لیتا جہاں بیماری لگی ہے۔

قرآن کا واضح حکم ہے کہ ”اور تم میں سے دو اشخاص بدکاری کریں تو ان دونوں کو اذیت دو ۔ پس اگردونوں توبہ کریں اور اصلاح کریں تو انہیں چھوڑدو، بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والااور نہایت رحم والا ہے۔ (النساء : 16)

مرد وں کی بد فعلی کرانے کی بیماری پڑجائے تو لاعلاج بیماری ہے اسلئے کہ اس کی پچھاڑی میں لگی آگ ٹھندی نہیں ہوسکتی ہے۔ حضرت علی نے ملوثی اور چند خوارج کی بیماری کا علاج ان کی پچھاڑی آگ سے داغ کر کیا تھا۔

حضرت لوط کی قوم نے ملائک کو خوبصورت لڑکے سمجھ لیا تو پچھاڑیاں سلگنے لگیں۔ حضرت لوط نے ان ملوثیوں سے کہا کہ میری بیٹیوں سے شادی کرلو۔ تو کہنے لگے کہ آپ کو پتہ ہے کہ ہمیں ان سے غرض نہیں۔ یعنی خوبصورت لڑکوں کے بڑے لن چاہتے ہیں۔ عابد شاہ نے جس مناپلی کا ذکر کیا ہے تو حضرت لوط کے قوم اور قرآن کی آیت کی درست تفسیر بھی سامنے آگئی کہ حضرت لوط نے ملویثی طبقہ سے کہا کہ تمہاری پچھاڑیاں ٹھنڈی ہونے والی نہیں ہیں، یہ میری بیٹیاں ہیں ۔مردوں کا کام چدھوانا نہیں ہے۔ ایک مشکل آیت کی بہترین تفسیر کا موقع دینے پر عابدشاہ کا شکریہ ادا کرتا ہوںاور سورہ النساء کی آیت16میں توبہ واصلاح کی تفسیر کیلئے لاعلاج بیماری کیلئے حضرت علی کا عمل پیش کردیا۔

علاج اسلئے ضروری ہے کہ اس سے ایڈز پھیلتا ہے اور ایڈز قوت مدافعت کو ختم کردیتا ہے۔ مجھے دکھ ہے کہ مظفرشاہ مظلوم شہید ہوگئے۔ سرور شاہ اور جلیل شاہ سے زمینیں چھین لیں۔ اب ڈگری کالج کے ہاسٹل میں عابد شاہ کی عادت اتنی بگاڑدی گئی کہ منہاج کو سرداراعلیٰ کہتا ہے۔

جب خلافت قائم ہوگی تو یہ آئینہ قرآن دکھاتا ہے :

”اسی دن ملک حق کا ہوگا رحمن کیلئے اور کافروں پر وہ دن مشکل ہوگا۔ اور ظالم اپنے ہاتھ پر دانت لگائے گا کہ کاش میں رسول (ۖ) کی راہ کو اپناتا۔ ہائے میری شامت کہ میں فلاں کو اپنا دوست نہیں بناتا۔ بیشک اس نے مجھے میرے پاس نصیحت آنے کے بعدمجھے گمراہ کردیا۔ اور شیطان انسان کو رسوا کرتا ہے۔ اور رسول فرمائیں گے کہ بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا اور اسی طرح ہر نبی کیلئے مجرموں میں سے دشمن بنائے ہیںاور کافی ہے تیرا رب ہدایت اور مدد کیلئے”۔ (الفرقان 26تا31)

عابد شاہ بے غیرت پھر افسوس کرے گا کہ سردار اعلیٰ منہاج کو اپنا دوست نہیں بناتا ۔قرآن اور نبیۖکی سنت کے مجرم دشمنوں کو اپنا چہرہ واضح دکھائی دے گا کہ قاتل طبقہ ان پر ایسا منڈلاتا تھا جیسے گرم کتیا پر کتے ٹھکانہ بناتے ہیں۔ اجرتی قاتل ٹارگٹ کلر کی خدمات حق کی آواز بلند کرنے پر تشکیل دیا جاتا تھا لیکن لگڑ بگڑ وں کا بے شرم لشکر رسواوذلیل ہوگا اور اللہ تعالیٰ اہل حق کو فتح و کامرانی نصیب فرمائے گا۔

لن یضروکم الا اذًی وان یقاتلوکم یولوکم الادبار ثم لاینصرون (آل عمران :111) ” یہ لوگ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتے مگر تکلیف اور اگرتم سے لڑیں تو اپنی پیٹھ دکھائیں گے اور پھر ان کی مدد نہیں ہوگی”۔

مولانا طاہر پنج پیری نے دیوبندی مخالفوں کیلئے پشتو ترجمہ کیا: ”یہ کہیں گے کہ ہمیں نہیں مارو ہماری گانڈ مارو”۔
انگریز نے محسود قوم کو بھیڑیا ،وزیرقوم کو چیتا قرار دیا۔ شیر ببروںکے لشکر سے لگڑبگڑ کا غول دُم اٹھائے اور چوتڑ پھیلائے بھاگتاہے لیکن کبھی اکیلے شیر ببرکو گھیر لیتے ہیں۔ دیگ پر الیاس کا قاتل نہیں تو کون ہوگا؟۔ لگڑبگڑ کی مناپلی میں وہ سبق سکھادوں گا کہ دنیا بھی یادر رکھے گی۔ انشاء اللہ

صنادید مکہ نے رسول اللہ ۖ کے قتل کیلئے خفیہ جرگہ میں مختلف مشاورت کی۔ ابوجہل نے کہا کہ”ہر قبیلہ میں سے ایک ایک فردچن لیں۔ سب پر بات آئے گی تو بنوہاشم نہیں لڑ سکیںگے۔ اس مشاورت کا ذکر اللہ نے یوں کیا:
” جب کافر تیرے متعلق تدبیریں سوچ رہے تھے کہ تمہیں قید کردیں یا قتل کریں یا دیس بدر کردیں وہ اپنے مکر کررہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کررہاتھااور اللہ ہی بہترین تدبیر کرنے ولا ہے ”۔ (سورہ الانعام : آیت30)

رسول اللہ ۖ پھر چھپ کر راتوں رات نکل گئے اور غارِ ثور میں تین دن چھپے رہے۔ اس وقت مناپلی نہیں تھی جو چوتڑ دکھاکربزدلی کا طعنہ دیتی۔عبداللہ شاہ اسلام آباد سے پہنچا تھا اور عبدالواحد اور عبدالرؤف کی دورنگی کہکشاں کی طرح واضح ہوگئی۔ اس مناپلی میں کون کون تھا؟۔ ہاہاہا.

شہداء کے عرس پر دیگ کے پیچھے مناپلی کا کھیل ہے مگر مجھے طیش میں آکر اس بدچلنی کا شکار بالکل نہیں ہوناہے۔
اللہ نے فرمایا: ” اور مت کھاؤ جس پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا ہو۔بیشک یہ فسق ہے اور بیشک شیاطین اپنے دوستوں کی طرف وحی کرتے ہیں تاکہ تم سے لڑیں۔ اور اگر تم نے ان کی بات مان لی تو بیشک تم لوگ ضرورمشرک ہو۔ بھلا وہ شخص جو مردہ تھا پس ہم نے اس کو زندہ کردیا اور اس کیلئے ہم نے نور بنایا جسے وہ لیکر چلتا ہے لوگوں میں، اس کی طرح ہوسکتا ہے جو اندھیروں میں ہے اور اسے نکل نہیں سکتا؟۔ اسی طرح ہم نے کافروں کیلئے مزین کیا جو وہ کرتے تھے اور اسی طرح ہم نے ہربستی میں مجرموں کے سردار بنادئیے تاکہ اس میں مکر کریں۔اور وہ مکر نہیں کرتے مگر اپنی جانوں کیساتھ مگر وہ سمجھتے نہیں ہیں” (الانعام :121تا123)

لاش جیسا انسان زندہ کرنے سے اسلام کی نشاة ثانیہ سے مراد ہے۔ قرآن قیامت تک ہر چیز کی رہنمائی فراہم کرتاہے ۔ہرماحول کے افراد اس آئینہ میں خود کو دیکھیں۔

عابد شاہ تم نے کتنے پینترے بدلے؟۔قاری حسین کی ماں بہن کو عزت دینے کا تم نے گلہ کیا اور اب گالی کا الزام لگادیا؟۔ قاری حسین میں کتنی صلاحیت تھی؟۔یہ تم جانو لیکن منہاج نے بتایا کہ عینک والا نرم ونازک سا تھا۔ کوڑ میں کئی ملاقاتیں ہوئی تھیں ،اکیلے دیکھ کر بہت بلایا مگر نہیں آیا ۔ کیا آپ نے قاری کو بتایا تھا کہ منہاج کا بہت بڑا لن ہے؟۔ اسامہ کی 22مائیں تھیں اور ایک بھتیجی وفابن لادن کی بڑی شہرت تھی کہ گرم ہے۔ میں نے متوجہ کیا کہ عوام کے کم بچے ہوتے ہیں جو خود کش میں مارے جاتے ہیںتو اپنے گھر کو دیکھو۔ حامد میر نے مولانا فضل الرحمن کو اسامہ کی دھمکی دی تھی ،اگر پیسہ تقسیم ہوا ہے تو القاعدہ سے کس کا تعلق تھا؟۔ کہیں تمہارے چچازاد القاعدہ والے اور منہاج نے جھاڑ تو نہیں پلادی کہ ہماری شلواراتاری اور ہم پر گواہی دی؟۔

الرٰ کتاب احکمت آیاتہ ثم فصلت من لدن حکیم خبیر( سورہ ھود آیت:1)پروفیسر احمد رفیق اختر نے سورہ ہود کی پہلی آیت پر اپنی تقریرمیں ٹھیک کہا ہے کہ ”قرآن میں قیامت تک آنے والے تمام اقوام اور حالات میں ایک ایک چیز کی بھرپور نشاندہی کی گئی ہے”۔

صنوبر شاہ اور مظفرشاہ کے بیٹوں اورپوتوں کے حوالے سے میں نے جرم نہیں کیا تاریخ بیان کی ۔ اللہ نے فرمایاکہ
” اور قریب نہ جاؤ ،مال یتیم کے مگرجو احسن ہو،حتی کہ وہ اپنی پختگی تک پہنچ جائے اور ناپ و تول کو برابر رکھو۔ ہم کسی جان پرذمہ دار ی نہیں ڈالتے مگر اس کی وسعت کے مطابق اور جب تم بات کرو تو عدل کرو اگرچہ تمہارے قرابتدار ہوںاور اللہ کیساتھ کیا ہوا عہد پورا کرو ،یہی ہے جس کی تمہیں تاکید کی جاتی ہے۔ (الانعام:152)

سید حسن شاہ بابو کے دو بیٹے سیداحمد شاہ اور سیدامیر شاہ تھے اور سبحان شاہ کے تین مقتول بیٹوں کی یتیم اولاد کو سہارا دیا تھا۔ منور شاہ کے اکلوتے بیٹے نعیم شاہ کو الگ گھر دیا اور صنوبر شاہ ومظفر شاہ کے بیٹوں کو اپنے بیٹوں سے بڑا گھر دیا اور پھر سیداحمد شاہ اور سیدامیر شاہ نے صنوبر شاہ کے بیٹوں کو بڑے گھر کا علیحدہ مالک بنادیا اور مظفرشاہ کے بیٹوں کو الگ بناکر دیا۔ قومی جائداد میں بھی 8اور 5کے تناسب سے کافی بڑے حصے کا مالک بنادیا۔ میرے والد پیرمقیم شاہ اور چچوں نے ایک حصہ مزید عزت افزائی کیلئے سپرد کردیا۔ہماری تو وزیرستان میں اس سے بڑی زمین اور جائیداد منظور پشتین کے علاقہ میں غریب غربا ء کیلئے یونہی چھوڑ رکھی ہوئی ہے۔

ہم نے سبحان شاہ کی اولاد کوکبھی عار نہیں دلائی کہ انگریز کے پٹھو اور کرائے کی ٹٹو کی اولاد ہو۔ جتنا ممکن تھاتو عزت وتکریم اور محرومی کے احساسات کو دور کرنے کا خیال رکھا۔ جھڑکانہیں ،دھتکارا نہیں، احساس کمتری کا شکار نہیں بنایا۔ طعنہ نہیں دیا۔ تاریخی حقائق نہیں بتائے۔ قرآن میں ناپ تول میں برابری کا حکم یتیموں کے احساسات ہی کا ہے۔ رسول اللہۖ، صحابہ اور علماء حق قرآن کریم کو زندگی میں عملی جامہ پہناتے تھے۔ رسول اللہۖ نے فرمایا تھا کہ ”یتیم بچے کے سامنے اپنے بچے کو مت بلاؤ، کہیں اس کے دل میں اپنے والد کی تمنا سے تکلیف پیدا نہ ہوجائے”۔

میرے والد نے اپنے 9سالہ پہلے بیٹے عبدالعزیز کی ان کی خاطر سخت پٹائی لگائی تھی توبخار چڑھا اور فوت ہوگیا۔ لیکن اللہ نے خبردارکیا کہ ” ہم کسی جان پر اس کی وسعت سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالتے”۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے غلط ترجمہ کیا کہ ” ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے”۔
{We do not a suol beyund its capacity.}NET

فقہاء نے یتیموں کو دادا کی میراث سے محروم کردیا۔ اللہ کو ظالم کیساتھ کھڑا کردیا کہ بلال حبشی پر بڑے پتھر رکھ کر ریت کی تپش میں جلایا جاتا تھا تو یہ تکلیف اس کی برداشت سے باہر نہیں تھی اور لوگوں کی بیٹیوں کو داشتائیں اور بیٹوں کو جبراً لونڈا بنایا جائے تو یہ ان کی برداشت سے باہر نہیں۔

پیرعبدالغفار ایڈوکیٹ اپنے نانا کے گھر کا اپنا حصہ بیچتے تو کتنے برے لگتے؟۔ یہی کام دادا سلطان اکبر نے کیامگر یہ اچھا تھا کہ جٹہ قلعہ کرائے کے قاتلوںکو نہیں دیا۔ باپ اور بیٹے میں یہ انقلابی تبدیلی ہمارے اجداد کی برکت سے تھی۔ انگریز سے بھیک مانگی تو دئرہ دین پناہ کی زمین دیدی گئی ۔جب میرے والد کے دوست نے احسان کے بدلہ میں بڑی زمین سرکاری ریٹ پر لینے سے انکار کیا تو غیاث الدین اور علاء الدین نے کہا کہ ہمیں دیدو۔ میں اور ارشد حسین شہید جب لیہ پنجاب میں پڑھتے تھے تو جہانزیب بہت چھوٹا بچہ تھا ،پلیٹ میں گوشت دیکھتا تو چلاتا تھا کہ گھاگھہ (گوشت)۔ تربیت اچھی نہ ہو تو پھر بھیک ،چوری سینہ زوری، فراڈ اور حربوںسے حریص کاپیٹ نہیں بھرتا۔ اورنگزیب شہید نے بچپن میں کسی کے کھیت سے بھٹے کاٹے والدہ نے خوب سرنش کرکے واپس کروادئیے تو زندگی بھر چوری نہیں کی۔ عبدالرحیم چھوٹا تھا اورنگزیب شہید کچھ کھا رہے تھے تو بہن نے کہا کہ ‘ طمع سے دیکھ رہاہے کچھ دیدو” ۔ بھائی نے کہا کہ نہیں! اس سے عادت خراب ہوجاتی ہے۔ عبدالرحیم کھانا اٹکنے کی بد دعا دیتا ہوا بھاگا تھا۔ میری چھوٹی پوتی کو سکول میں انعام مل رہاتھا تو وہ نہیں لے رہی تھی۔ یہ منظر اتنا صحافی کو اچھا لگا کہ ایک سندھی چینل پر چلادیا۔ تربیت نسل کے DNA میں بھی ہوتی ہے۔ داؤد شاہ نے بتایا کہ اس نے جعفر سے کہا کہ ”اگر اپنی زمین میں بری نیت سے دیکھ لوں تو گانڈ میں 80 گولیاں اتار دوں گا”۔ جعفر شاہ نے کہا کہ ہم لے سکتے ہیں۔ یہ کوئی زندگی ہے؟۔

عابد شاہ نے قرآن پر صفائی مانگی کہ ضیاء الحق کو تم نے قتل نہیں کروایا؟۔ مجھے خطرہ تھا کہ ڈاکٹر ظفر علی کو ضیاء الحق کا بدلہ لینے کیلئے کوئی نشانہ نہیں بنائے۔ عابد شاہ کے بھائی نے پہلے اس پر الزام لگایاتھا۔ ڈاکٹر ظفر علی شاہ کی غیرت بھی ان بے غیرتوں سے برداشت نہیں ہورہی تھی۔

منہاج کو کہا تھا کہ” میرے بیٹے نقاب نہیں سہولت کار کو پکڑیںگے”۔ضیاء الحق القاعدہ والا نہیں تھا پہلے پیر غفار پر اور پھر ضیاء الحق پر الزام لگایا اور مروانے کی کوشش کی تھی ۔ تم آپس میں ایک دوسرے کو اپنا حق دو۔ عزت بڑی دولت ہے۔لالچ، بھوک، قبضہ اور بس چلے تو کمزور پر کھلی اور چھپی بدمعاشی سے اپنی دنیا وعاقبت کی خرابی مت کرو۔ مجھے اپنی مرضی کا محل نہیں چاہیے ۔میں باپ داداور پردادا کی سنت جاری رکھتے ہوئے زمین دوں گا۔ 5کنال صنوبر شاہ کی اولاد کی طرف سے مظفرشاہ کی اولاد کواور سوا 6 ، سوا 6 ، عبدالواحدشاہ ، داؤد شاہ، گلبہارشاہ اورسوا6 جنید گیلانی اور عارف شاہ میں آدھی آدھی پھوپیوں میں تقسیم ہوگی۔ میں چاہوں گا کہ 30کنال صنوبر شاہ کی اولاد میں ساڑھے 7 کے حساب سے برابر برابر چار حصے میں تقسیم ہوںیہ نہیں کہ طاقتور زیادہ قبضہ اور یتیم کو محروم رکھا جائے۔بھوکے کا پیٹ مٹی بھرسکتی ہے تو کچھ مستحق افراد کو پہنچادو ں گا۔ انشاء اللہ

سبحان شاہ کی اولاد سے پھڈے کی برکت نے قرآن کی تفسیر کردی۔ میرے لئے تو پھر صنوبر شاہ کی اولاد زیادہ قرابدار ہے لیکن اللہ نے الانعام کی آیت 152میں حکم دیا ہے کہ ” جب تم بات کرو تو عدل کرو اگر چہ قرابدار ہوں”۔

کتیا کے پیچھے ریلا لگے تو آخر کتے اور کتیا ہیں لیکن لڑکے کے پیچھے ریلہ لگے تو؟۔ اور جن کی ایسی رگڑ دی گئی کہ عادتیں خراب ہوگئی ہیں۔ اللہ نے بالکل سچ فرمایاکہ
” اور ہم نے جہنم کیلئے بہت سارے جن اور آدمی پیدا کئے ہیں ،ان کے دل ہیں مگر ان سے سمجھتے نہیں ہیں۔ان کی آنکھیں ہیں مگر ان سے دیکھتے نہیں ہیں۔ ان کے کان ہیں مگر ان سے سنتے نہیں ہیں۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسے چوپائے بلکہ ان سے زیادہ گمراہی میں ہیں۔ یہی لوگ ہی واقعی بڑے غافل ہیں ۔ (سورة الاعراف :آیت:179)

عابد شاہ تمہارے بھائی عارف شاہ اچھے ہیں۔ مناپلی کا علاج بڑا زبردست ہوگا، پنجاب میں نامرد کیا گیا ۔ کرائم والے کہیں مناپلی کو گانڈ میں گولیاں مارنا شروع کردیں؟۔
پھرعابدشاہ تم بھاگو کہ مظفر کے 4 بیٹوں کا صنوبر کے 3 بیٹوں کی نسبت زیادہ حصہ بقدر جثہ بنتاہے؟اور پیچھے پھینکنا پڑے۔لطیفہ: اونٹ ناراض ہوا کہ سرداراعلیٰ گدھے کو بڑا دیااور مجھے چھوٹااسلئے اسکے پیچھے قدرت کو پھینکنا پڑا۔ہاہا ہا

(پوسٹ کی تصویر میں تین ویڈیوز کی تصویریں لگائی گئی ہیں جن میں نہ صرف لڑکے لڑکے کی بدفعلی کے گند کا تذکرہ ہے بلکہ فری میسن اور پیسے کمانے کا دھندہ قرار دیا گیا ہے۔ پیر عابد شاہ کے فیس بک میں جس مناپلی کی خبر ہے تو شاید پوری دنیا میںیہ سب سے زیادہ گراؤٹ کی انتہا ہے۔ ہم پر فائرنگ اور قاتلانہ حملوں میں شہادتوں کے بعد معافیاں بھی مانگی گئی ہیں مگر ہمارا مقصد قرآن اور خلیفہ راشدامام علی کے عمل کی درست تشریح سے اصلاح معاشرہ ہے۔)

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ ستمبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مہدی العبقری (عبقری مہدی) جو اپنے زمانے سے آگے ہے اور لوگوں کو حیران کر دیتا ہے۔

اللہ آپ کے اوقات کو خیر اور محبت سے معمور کرے۔ عنقاء مغرب چینل میں آپ کا خیرمقدم ہے۔ آج کی ہماری قسط کا عنوان ہے

مہدی العبقری (عبقری مہدی) جو اپنے زمانے سے آگے ہے اور لوگوں کو حیران کر دیتا ہے۔

فطرتاً لوگ اُس چیز سے ڈرتے ہیں جسے وہ نہیں سمجھتے۔ جب وہ پہلی بار مہدی سے ملتے ہیں تو اُس کی موجودگی سے ایک عجیب سا احساس اُن پر طاری ہوتا ہے، ایک ایسا احساس جسے وہ الفاظ میں بیان نہیں کر پاتے۔ اُس میں راحت بھی ہے اور بےچینی بھی، اُس میں ہیبت بھی ہے اور سادگی بھی، اُس میں قوت بھی ہے اور خاموشی بھی۔ وہ ہرگز پاگل نہیں ہے، مگر وہ اُنہیں اس قدر حیران کر دیتا ہے کہ وہ اپنی حیرت کو پاگل پن کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں تاکہ اپنے دل کو تسلی دے سکیں۔ انسان جب کسی چیز کی عقلی توجیہہ نہ پائے تو اُسے پاگل پن کا نام دے دیتا ہے تاکہ خود اپنے حواس پر قابو رکھ سکے۔

لوگ دیکھتے ہیں کہ وہ غیر معمولی انداز میں زندگی گزارتا ہے۔ وہ اپنے وقت سے آگے بڑھا ہوا لگتا ہے۔ وہ ان چیزوں پر بات کرتا ہے جو ابھی آنے والی ہیں، گویا وہ آنے والے کل میں جی رہا ہے جبکہ باقی سب لوگ آج میں اَٹکے ہوئے ہیں۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ اس زمانے کا آخری سانس ہے، سورج غروب ہونے سے پہلے کی آخری روشنی۔ کبھی کبھی وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ اِس دنیا کو اُس کی انتہا کی طرف بڑھتا دیکھنے والا واحد شخص ہے۔

اس سب کے باوجود وہ معاملات کو سمجھنے میں عبقری (ذہین) ہے۔ وہ حالات کو فوراً پڑھ لیتا ہے، اور بغیر پوچھے لوگوں کی حقیقت پہچان لیتا ہے۔ وہ باتوں کے درمیان چھپے اشاروں کو سمجھ لیتا ہے، اور چہروں کے پیچھے کی حقیقت پڑھ لیتا ہے۔ اللہ اُس پر ایسے راز کھول دیتا ہے جو باقی لوگ نہیں سمجھ سکتے۔

یہ عبقری شخص دوسروں کے ساتھ ایک متوازن تعلق میں نہیں رہ پاتا۔ اگر وہ محبت کرے تو دل کی گہرائی سے کرتا ہے، حتیٰ کہ اپنی جان جلا دینے تک دے دیتا ہے، مگر دوسرا فریق اُس شدید محبت سے گھبرا جاتا ہے، کیونکہ وہ ایسی سچی محبت کا عادی نہیں ہوتا۔ اور اگر وہ کسی سے خلوص دکھائے تو اپنی روح تک نچھاور کر دیتا ہے، مگر لوگ اس قربانی کو سمجھ نہیں پاتے اور اُس سے دور ہو جاتے ہیں۔

جب وہ کسی مجلس میں بیٹھتا ہے تو دوسروں کے ساتھ گھل نہیں پاتا۔ وہ دیکھتا ہے کہ اُن کے خواب بہت چھوٹے ہیں، حالانکہ وہ اُن سے محبت کرتا ہے، مگر یہ سوچ کر تڑپتا ہے کہ وہ اُن کے دلوں کو بدل نہیں سکتا۔ اسی لیے مہدی کو اکثر لگتا ہے کہ وہ معاشرے میں نظرانداز کیا جا رہا ہے، حالانکہ وہ معاشرے کا سب سے بڑا عبقری ہے۔ وہ خود کو ایک اجنبی محسوس کرتا ہے، چاہے ہزاروں لوگ اُس کے گرد کیوں نہ ہوں۔ وہ اُن کے دلوں میں رہتا ہے مگر اُن جیسا نہیں ہے، اور یقین کے ساتھ جانتا ہے کہ وہ اکیلا ہے، چاہے اُس کے ہزار دوست اور ہزار رشتے دار ہی کیوں نہ ہوں۔

وہ ایک ایسا مرد ہے جو اپنے زمانے سے آگے ہے، لیکن اُسے لگتا ہے کہ وہ بہت دیر سے آیا ہے تاکہ اُس ٹوٹی ہوئی چیز کو درست کرے جو صدیوں پہلے ٹوٹ گئی تھی۔ اور اُسے یہ بھی معلوم ہے کہ اُسے دوسروں کی طرح پیدا نہیں کیا گیا بلکہ وہ وہ کچھ دیکھتا ہے جو باقی لوگ نہیں دیکھ سکتے، اور وہ بوجھ اُٹھاتا ہے جو باقی لوگ نہیں اُٹھا سکتے۔

یہ گہرا تضاد — کہ وہ سب سے آگے بھی ہے اور سب سے آخر بھی — اُس کے اندر ایک خاموش جنگ پیدا کرتا ہے۔ یہ جنگ کبھی کبھی اُس کی لمبی خاموشی اور دور اُفق کی طرف اُس کی گہری نظریں ٹکائے رکھنے میں نظر آتی ہے۔ وہ عام زندگی نہیں گزار سکتا کیونکہ اُس کا دل غیرمعمولی حقیقتوں سے جڑا ہے، وہ اللہ کے راز سے جڑا ہے، اور ایک ایسے زمانے سے جڑا ہے جو ابھی آیا نہیں۔ اگر آپ اُس کے قریب جائیں تو یہ حقیقت آپ پر عیاں ہو جائے گی۔

لوگ اُس کو نہیں سمجھتے اور کہتے ہیں کہ وہ پاگل ہے، مگر اگر وہ اُسے سچ میں سمجھ لیں تو اپنی عقل کھو بیٹھیں۔ یہی مہدی کی شخصیت کا سب سے بڑا راز ہے:

وہ ایک ایسا مرد ہے جو عبقریت کو درد کی طرح جیتا ہے، نبوت کو ذمہ داری کی طرح جیتا ہے، صبر کو امتحان کی طرح جیتا ہے، اور تنہائی کو مقدر کی طرح۔

وہ ایک ایسا شخص ہے جسے یہ دنیا سمیٹ نہیں سکتی اور نہ ہی لوگ اُسے سمجھ سکتے ہیں۔

وہ ہمیشہ لوگوں کے درمیان ہوتا ہے مگر اُن میں سے نہیں۔ وہ اُن کے ساتھ ہوتا ہے مگر اُن کے لیے نہیں۔ وہ اُن سے محبت کرتا ہے، حالانکہ وہ اُسے نہیں سمجھتے۔ وہ اُن کا بوجھ اُٹھاتا ہے، حالانکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اُنہیں محسوس نہیں کرتا۔

جو شخص مہدی سے قریب ہوتا ہے وہ کبھی بھی ویسا نہیں رہتا جیسا پہلے تھا، کیونکہ یہ شخصیت بڑی خاموشی سے روحوں کا راستہ بدل دیتی ہے اور یادداشت میں ایک ایسا نقش چھوڑ دیتی ہے جو کبھی مٹ نہیں سکتا۔ اور یہی مہدی کی شخصیت کا سب سے بڑا راز ہے: وہ ایک مرد ہے جو عبقریت کو درد کی طرح، نبوت کو ذمہ داری کی طرح، صبر کو امتحان کی طرح، اور تنہائی کو مقدر کی طرح جیتا ہے۔ وہ ایسا شخص ہے جسے دنیا اپنی حدود میں قید نہیں کر سکتی، اور نہ ہی لوگ اُس کی اصل حقیقت سمجھ سکتے ہیں۔

اسی لیے تم ہمیشہ اُسے دیکھو گے کہ وہ لوگوں کے درمیان رہتا ہے مگر اُن میں سے نہیں ہوتا، اُن کے ساتھ ہوتا ہے مگر اُن کے لیے نہیں۔ وہ اُن سے محبت کرتا ہے مگر وہ اُسے سمجھ نہیں پاتے، وہ اُن کا بوجھ اُٹھاتا ہے مگر وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اُنہیں محسوس نہیں کرتا۔

گہری کھائی میں چلنے والا انسان:

جب تم مہدی کو دیکھتے ہو تو تمہیں لگتا ہے کہ اُس نے سب کچھ جھیل لیا ہے — سخت آزمائشیں، بار بار کی ناکامیاں، دل کو چیر دینے والی جدائیاں، بھاری تنہائی، ایسے صدمات جو کسی انسان کے لیے ناقابلِ برداشت ہوں، اور قریبی لوگوں کی غداریاں۔ تم سوچتے ہو کہ وہ سب کچھ سہہ کر اور مضبوط ہو کر باہر نکلا ہے، زیادہ باشعور ہو گیا ہے، زیادہ پاکیزہ ہو گیا ہے۔

مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ کسی بھی چیز سے باہر نہیں نکلا۔ وہ آج بھی ان سب چیزوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ لوگوں کی نظر میں وہ ایک پہاڑ کی طرح مضبوط لگتا ہے، لیکن اپنی نظر میں وہ کھائی کے سب سے نچلے حصے میں کھڑا ایک شخص ہے جو آسمان کو دیکھ رہا ہے، اور جانتا ہے کہ وہاں نہیں پہنچ سکتا جب تک اللہ نہ چاہے۔

ہر تجربہ جو اُس نے گزارا، اُس کے شعور کو بڑھاتا رہا، مگر اُس کے اندر یہ احساس بھی بڑھتا گیا کہ وہ سب سے زیادہ دور ہے، سب سے زیادہ اکیلا ہے۔ وہ انسانوں میں رہتا ہے مگر اُن کا نہیں لگتا، گویا یہ زندگی بس گزر رہا ہے مگر پکڑ نہیں رہا۔

وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ مسلسل اس کھائی کی طرف بڑھ رہا ہے، بلکہ یوں کہو کہ وہ پہلے ہی کھائی میں رہ رہا ہے۔ وہ اندھیروں کو بار بار دیکھتا ہے، چاہے کتنی بھی اصلاح کی کوشش کرے۔ وہ دلوں کو بند دیکھتا ہے، چاہے کتنی ہی نرمی اور سچائی سے اُنہیں کھولنے کی کوشش کرے۔ وہ رات کو حد سے زیادہ طویل محسوس کرتا ہے، چاہے اُمید کے کتنے ہی چراغ جلائے۔

مہدی کی اندرونی کیفیت:

وہ محسوس کرتا ہے کہ اپنی تمام کوششوں کے باوجود آخر میں وہ وہیں آ کر رک جاتا ہے —
ایک گہری تنہائی، ایک خاموش غم، ایک جلتا ہوا دل جسے کوئی نہیں دیکھ پاتا۔
وہ کسی سے شکوہ نہیں کرتا، مگر وہ اس بوجھ کو ہمیشہ محسوس کرتا ہے۔
یہ بوجھ اُس کی خاموشی میں، اُس کی آنکھوں میں، اور اُس کی لمبی دعاؤں میں چھپا رہتا ہے جب وہ رات کے آخری پہر اپنے رب سے ہمکلام ہوتا ہے۔

وہ جانتا ہے کہ چاہے وہ کچھ بھی کرے، وہ ہمیشہ اس درد کا قیدی رہے گا، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اُس کا مشن اُس کی طاقت سے بڑا ہے اور اُس کے پاس اپنی ذات پر کوئی اختیار نہیں۔ اُس کے پاس اگر کچھ ہے تو وہ اُس کا صبر اور اللہ سے تعلق ہے۔

مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ جب لوگ اُسے دیکھتے ہیں تو اُنہیں ایک عجیب سا احساس ہوتا ہے۔ حالانکہ وہ خود کھائی (گہری اندھیروں) میں رہتا ہے، مگر دوسروں کو امید دیتا ہے۔ جیسے کہہ رہا ہو:

کھائی میں بھی اللہ موجود ہے۔

لوگ حیران ہوتے ہیں کہ یہ شخص اندر سے ٹوٹا ہوا ہے، پھر بھی اس کے پاس اتنی طاقت کہاں سے آتی ہے؟ یہ اتنا مجروح ہے، پھر بھی اس میں اتنی رحمت کیسے ہے؟ یہ خود اندھیروں میں ڈوبا ہے، پھر بھی دوسروں کو امید کی روشنی کیسے دیتا ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ مہدی اس تضاد کو مسلسل جیتا ہے —
وہ درد جھیلتا ہے تاکہ دوسروں کو رحمت دے سکے،
وہ تنہائی جھیلتا ہے تاکہ دوسروں کو رفاقت دے سکے،
وہ خاموش رہتا ہے تاکہ دوسروں کو کلمۂ حق دے سکے،
وہ کھائی میں رہتا ہے تاکہ دوسروں کو اوپر اٹھنے کی امید دے سکے۔

اور جب لوگ اُس سے ملتے ہیں تو اُنہیں اُس کی نظروں میں یہ جنگ نظر آتی ہے، اُس کی ہلکی سی مسکراہٹ میں وہ چھپے آتش فشاں دیکھتے ہیں، اور اُس کی مختصر باتوں میں وہ سالوں کے دکھ محسوس کرتے ہیں جو اُس نے کسی سے بیان نہیں کیے۔

مہدی کی اصل طاقت:

وہ ایسا شخص ہے جو کھائی میں رہتے ہوئے بھی نہیں گرتا، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اللہ اُس کے ساتھ ہے، چاہے وہ کھائی کے سب سے نچلے مقام پر کیوں نہ ہو۔
جو بھی اُس کے قریب آتا ہے، سمجھ لیتا ہے کہ مہدی کوئی عام شخص نہیں ہے، وہ عام زندگی نہیں گزارتا۔
وہ ایک ایسے کنارے پر چل رہا ہے جہاں ہر دن فنا کی طرف ایک قدم ہے، لیکن وہ پھر بھی مسکراتا ہے کیونکہ اُس کا دل صرف اللہ سے جڑا ہے۔
وہ جانتا ہے کہ یہی کھائی اُس کا واحد راستہ ہے جو اُسے اللہ کے وعدے تک لے جائے گی جو اُسے آخرکار نصیب ہونا ہے۔

مہدی کی باطنی کیفیات اور تضاد:

مہدی کی شخصیت ایک مسلسل تغیر (تبدیلی) میں رہتی ہے۔
وہ عام لوگوں کی طرح ایک ہی فطرت یا رویے پر جم نہیں جاتا۔
کبھی تم اُسے دیکھو گے تو وہ نرم دل اور معاف کرنے والا ہوگا، کسی سے ٹکراؤ نہیں چاہے گا، سب کو رحمت کی نظر سے دیکھے گا۔
اور کبھی تم اُسے دیکھو گے تو وہ تلوار کی طرح سخت ہوگا، غلطی برداشت نہیں کرے گا، حق قائم کرے گا اور کسی کی پرواہ نہیں کرے گا۔

یہ تبدیلیاں کسی نفسیاتی کمزوری کی وجہ سے نہیں ہوتیں، بلکہ یہ اُس کی روح کے آئینے کی عکاسی ہیں۔
وہ ہر لمحے حق کی عکاسی کرتا ہے۔
جب خیر دیکھتا ہے تو اُس کے ساتھ مہربان ہو جاتا ہے،
اور جب ظلم دیکھتا ہے تو اُس کا دل شعلہ بن جاتا ہے۔
وہ ہر لمحے کو صدقِ دل سے جیتا ہے، کوئی مصنوعی کردار ادا نہیں کرتا بلکہ دل میں جو ہے اُسے سچائی سے ظاہر کرتا ہے۔

اسی لیے لوگ اُس کے بارے میں حیران رہ جاتے ہیں:
کیا وہ رحم دل انسان ہے یا سخت؟
کیا وہ سادہ ہے یا گہرا اور پیچیدہ؟

مہدی کی شخصیت میں یہ دونوں کیفیتیں — نرمی اور سختی — ساتھ ساتھ موجود ہیں، اور یہی بات لوگوں کو الجھا دیتی ہے۔
کبھی وہ انتہائی سادہ اور عاجز لگتا ہے، جیسے ایک عام آدمی، اور کبھی وہ اتنا پیچیدہ نظر آتا ہے کہ لوگ اُس کی گہرائی کو سمجھ نہیں پاتے۔
یہ سب اُس کی روح کی حقیقت کا عکس ہے۔ وہ انسان نہیں بلکہ ایک آئینہ ہے جو ہر وقت حق اور باطل کی حقیقت کو ظاہر کرتا ہے۔

مہدی کا درد اور مشن:

مہدی جانتا ہے کہ اس دنیا میں اُس کے لیے سکون ممکن نہیں، کیونکہ اُس کا دل اللہ کے راز سے جڑا ہے اور اُس کی جان ایک ایسے بوجھ سے بندھی ہوئی ہے جو عام لوگ اٹھا نہیں سکتے۔
وہ صبر کو اپنی ڈھال بنائے رکھتا ہے، کیونکہ اُس کے پاس اپنی ذات پر اختیار نہیں۔
لوگ جب اُسے دیکھتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں کہ وہ کس طرح مسکرا سکتا ہے، حالانکہ اُس کا دل دکھ سے بھرا ہوتا ہے۔
وہ دوسروں کے لیے امید کا چراغ بنتا ہے، حالانکہ وہ خود اندھیروں میں جل رہا ہوتا ہے۔

مہدی کا اثر:

جو بھی مہدی کے قریب آتا ہے، اُس کی زندگی بدل جاتی ہے۔
وہ انسانوں کے دلوں کی سمت بدل دیتا ہے، چاہے وہ خود اس بات سے واقف نہ ہوں۔
وہ روحوں کے راستے پر ایک ایسا نشان چھوڑتا ہے جو کبھی مٹتا نہیں۔
لوگ اُس کے الفاظ بھول سکتے ہیں، لیکن اُس کی آنکھوں اور سکوت کا اثر نہیں بھولتے۔

آخری حقیقت:

مہدی کی زندگی درد اور قربانی کی ایک طویل کہانی ہے۔
وہ اپنے زمانے سے آگے بھی ہے اور پیچھے بھی،
وہ آخری لمحے کی آواز بھی ہے اور آنے والے زمانے کا پیامبر بھی۔
دنیا کے لوگ اُسے پوری طرح کبھی نہیں سمجھ سکیں گے۔
وہ اُن کے ساتھ ہوگا، مگر اُن میں سے نہیں۔
وہ اُن کے لیے دعا کرے گا، حالانکہ وہ اُس کے دل کو نہ پہچانیں گے۔
وہ اُن سے محبت کرے گا، حالانکہ وہ سمجھیں گے کہ وہ اُنہیں نہیں دیکھتا۔

گزشتہ سال امام مہدی کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا خلاصہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم، والصلاۃ والسلام علی رسولہ الأمین سیدنا محمد و علی آلہ و صحبہ أجمعین۔

خلاصہ اس بات کا کہ امام مہدی کے ساتھ اس سال کیا واقعہ پیش آیا— یہ ہم نے خوابوں، رؤیاؤں اور زمینی حقائق کی پیش رفت سے اخذ کیا ہے۔ ہمیں امام مہدی کی ذاتی حیثیت سے کوئی معرفت حاصل نہیں، نہ ہی کسی اور کو ہے۔ وہ ایک عام انسان کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ لیکن یہ وہی مہدی ہیں جن کے بارے میں کوئی یقینی طور پر اس وقت تک نہیں جانتا۔

سال 2024 میں جو کچھ ہوا، اس کی جھلک کچھ یوں ہے:

جو کچھ بھی امام مہدی کے ساتھ اس سال میں پیش آیا، وہ زیادہ تر رؤیاؤں اور زمینی حقائق کو ایک مخصوص منظرنامے کے ساتھ جوڑ کر اخذ کیا گیا۔ یہ سب ان کی بیعت اور اصلاح کی طرف قدم بہ قدم پیش رفت کا حصہ ہے۔

ابتدائی آزمائشیں:

امام مہدی کو شدید آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا، جن میں سے ایک ایسی بھی تھی جس نے بظاہر انہیں اللہ تعالیٰ کے راستے سے دور کر دیا۔ تاہم ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی خاص نگہداشت میں ہیں۔ ان کی ہر ایک قدم اللہ کے حکم سے طے شدہ ہے۔

اللہ تعالیٰ کے اولیاء کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے— اگر وہ دور کیے جائیں، تو کسی حکمت کے تحت، اور اگر قریب کیے جائیں، تو محض محبت اور شفقت کے تحت۔ اللہ انہیں اپنی نگرانی میں پرورش دیتا ہے، کبھی قریب کرتا ہے، کبھی دور، حتیٰ کہ ان کے لیے ایک خاص وقت آ جائے— اور وہ وقت ہے اصلاح کا۔

اصلاح کی ابتدا:

جس وقت امام مہدی کی اصلاح ہوگی، ان کا ظہور ہوگا، اور بیعت قریب آ جائے گی۔ جو آزمائش ان پر آئی، اس نے انہیں بظاہر اللہ سے دور کر دیا، اور ان کے اور رب کے درمیان ایک قسم کی دوری پیدا ہوئی۔ شاید وہ کسی خاص عنایت کے منتظر تھے، یا اس آزمائش کے ہونے کی توقع نہیں رکھتے تھے۔

لیکن وقت گزرنے کے ساتھ، انہیں سمجھ آیا کہ اللہ کا جو بھی فیصلہ ہوتا ہے، وہی خیر پر مبنی ہوتا ہے۔ انہوں نے صبر کیا، دل سے اعتراض نہیں کیا، اور نہ ہی گناہ گاروں کی طرح رب سے دور ہوئے، بلکہ محبوب کی ناراضگی کی طرح، ایک شکوے اور عتاب کی کیفیت میں رہے۔

اللہ سے تعلق کی گہرائی:

اللہ کے خاص بندوں کے اور بھی طریقے ہوتے ہیں، جو نہ دل سمجھ سکتا ہے، نہ عقل۔ یہ ایک ذوقی، روحانی راہ ہے۔ وہ اللہ سے ایسے تعلق میں ہوتے ہیں جیسے محبوب سے، ایک ایسا تعلق جس میں وہ ہر نظر میں، ہر مخلوق میں، ہر چیز میں اللہ کی جلوہ گری دیکھتے ہیں۔

ایسا یقین کہ گویا وہ اللہ کو دیکھ رہے ہوں۔ اگر وہ دنیا سے رخصت ہو کر آخرت میں پہنچ بھی جائیں، تو اللہ پر ان کا یقین ویسا ہی رہے گا جیسے دنیا میں تھا، کیونکہ یہ تعلق محض عقلی نہیں، بلکہ دید کی کیفیت میں ہوتا ہے۔

آزمائش کے بعد تقرب:

اس آزمائش نے انہیں بظاہر رب سے دور کیا، لیکن دل کے اعتبار سے وہ پختہ یقین اور استقامت پر قائم رہے۔ وہ رب سے صرف محبت کی بنیاد پر ناراض تھے، نہ کہ گناہ کی بنیاد پر۔

کچھ لوگ اس پر اعتراض کریں گے، لیکن اللہ کے اولیاء کا رب سے تعلق غلام اور آقا کا نہیں ہوتا، بلکہ ایک شفیق باپ، دوست، رفیق اور محبوب کا ہوتا ہے۔ وہ رب سے انس رکھتے ہیں، دنیا سے وحشت کرتے ہیں۔

اگر ان میں سے کسی کو خلوت سے نکال کر باہر لایا جائے، تو گویا جنت سے نکال کر دوزخ میں لے آئے ہوں۔ جب عام لوگ تنہا ہوں تو وہ پریشان ہو جاتے ہیں، لیکن یہ اولیاء خلوت کو نعمت جانتے ہیں۔

ذکر میں لذت:

یہ خلوت اللہ سے انس کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ وہ تنہائی میں اللہ کے ذکر، تسبیح اور نماز سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اگر کوئی شخص صرف ایک گھنٹے کے لیے کسی انتظارگاہ میں بیٹھے تو بیزار ہو جاتا ہے، لیکن اولیاء کو اس ذکر میں ایسی لذت ملتی ہے جس کا کوئی بدل نہیں۔

جس نے یہ لذت چکھی ہے، وہی اس کی حقیقت جانتا ہے۔ اسی لیے بعض صالحین کہتے تھے: "ہم ایک ایسی لذت میں ہیں، اگر بادشاہوں کو اس کا علم ہو جائے تو وہ تلواروں سے ہم پر حملہ کر دیں۔”

مزید تقرب اور پختگی:

2024 کی آزمائش کے بعد امام مہدی کا اللہ سے قرب مزید بڑھا، ان کی معرفت وسیع ہوئی۔ پہلے وہ اللہ کو صرف ایک پہلو—رحمت، محبت، شفقت، باپ جیسی مہربانی—سے جانتے تھے، مگر اب ان کا فہم بڑھا۔

اگر کوئی اس پر اعتراض کرے تو اللہ تعالیٰ نے خود کو "الحنان”، "المنان”، "الودود” کہا ہے۔ اگر یہ صفات ہمارے ساتھ اس کے سلوک میں ظاہر نہ ہوتیں، تو وہ ان سے متصف کیوں ہوتا؟

تجربات اور عملیت:

امتحانات نے ان کی شخصیت کو نکھارا، تجربات نے ان کا وزن بڑھایا۔ اب وہ ایک مجرب، عملی انسان بن چکے ہیں۔ اصلاح کے قریب آ چکے ہیں، حالانکہ مکمل اصلاح ابھی نہیں ہوئی۔

ان کی مالی حالت میں بہتری آئی ہے، گو کہ ابھی مکمل مالی تحفظ حاصل نہیں۔ اللہ کے اولیاء کے نزدیک مال محض ایک ذریعہ ہے۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو دنیا کی تمام دولت رکھتے ہیں مگر اللہ کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔

مال اور اللہ کے تعلق کی نوعیت:

اللہ جانتا ہے کہ اس کے بعض اولیاء کی اصلاح صرف مال کے ساتھ ہی ممکن ہے، کیونکہ وہ جب مال کی حالت میں ہوتے ہیں تبھی اللہ کے ساتھ ان کا تعلق مکمل ہوتا ہے۔ یہ سب اللہ کی حکمت کے تحت ہوتا ہے۔

دنیا میں عام لوگوں کا رزق ان کی محنت سے ہوتا ہے، چاہے وہ چوری، فریب یا محنت سے حاصل ہو، مگر اولیاء کی دنیا الگ ہوتی ہے۔

خاتم الاولیاء اور خلیفہ:

امام مہدی نہ صرف مہدی ہیں بلکہ خاتم الاولیاء اور خلیفہ بھی ہیں۔ خلیفہ دنیا اور دین دونوں کے معاملات سنبھالتا ہے۔ دینی امور میں، ہم سمجھتے ہیں، کہ وہ فارغ ہو چکے ہیں، اب صرف دنیاوی پہلو کی اصلاح باقی ہے۔

یہ اصلاح انہوں نے اپنی خواہش اور اللہ کے حکم سے مؤخر کی تھی، لیکن اب ان کے پاس وہ تمام صلاحیتیں موجود ہیں جو کسی بھی اعلیٰ درجے کے عالم، تاجر یا کاروباری شخص کے پاس ہو سکتی ہیں۔

حکمت اور قیادت کی صلاحیت:

اب وہ خود پر اعتماد رکھتے ہیں، مسائل کو سنبھالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ان کے اندر جذباتی استقامت آ چکی ہے، وہ زیادہ سمجھدار، بردبار اور عاقل ہو چکے ہیں۔

جوانی کی بے احتیاطی پیچھے رہ گئی، اور اب وہ عمرِ حکمت—چالیس سال—کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اب وہ نہ ماضی کی آزمائشوں سے پریشان ہوتے ہیں، نہ مستقبل کے خدشات سے۔

وہ جان چکے ہیں کہ سب کچھ اللہ کے حکم سے ہوتا ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ سستی اختیار کرتے ہیں، وہ اپنی تمام ذمہ داریاں پوری کرتے ہیں، اسباب اختیار کرتے ہیں، پھر نتیجے کو اللہ پر چھوڑتے ہیں۔

مالی استحکام:

مالی اعتبار سے ان کی حالت بہتر ہو گئی ہے، اب ان کے پاس آمدنی ہے۔ شاید وہ آمدنی کافی نہ ہو، مگر پہلے سے بہتر ہے۔ اگرچہ یہ درمیانے طبقے کی آمدنی نہیں، مگر ان کے سابقہ حالات کے مقابلے میں یہ ایک نعمت ہے۔

اصلاح کے قریب:

اب وہ اصلاح کے بہت قریب ہیں۔ ان کی دنیاوی شخصیت مکمل ہو چکی ہے، وہ اب خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے قابل ہو چکے ہیں۔ روحانی طور پر وہ خاتم الاولیاء بن چکے ہیں، اب صرف اصلاح باقی ہے۔

یہ اصلاح دونوں پہلوؤں—مادی اور روحانی—سے ہوگی، تاکہ ان پر الٰہی فتح اور کشفِ شہودی نازل ہو، اور ساتھ ہی وہ ایک خلیفہ کے طور پر دنیا کے امور، فوج، معیشت، جنگ، حکمتِ عملی، حکمرانی اور بین الاقوامی تعلقات کو اللہ کے احکام کے مطابق سنبھال سکیں۔

اختتامیہ:

یہی وہ فرق ہے جو امام مہدی اور کسی عام حاکم کے درمیان ہوتا ہے۔
واللہ المستعان، اور اسی پر ہمارا بھروسہ ہے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاته۔

مہدی کیسے دوستوں ،ارد گرد والوں میں کیسے ظاہر ہوگا؟ اور اس پر تہمت کی وجہ کیا ہوگی؟۔ پہلی بار راز افشاء۔ عنقاء مغرب :30جولائی

ہمار ی آج کی قسط کا عنوان :” امام مہدی اپنی الجھن میں ڈالنے والی شخصیت کیساتھ اپنے دوستوں اور ارد گرد کے سامنے کیسے ظاہر ہوتے ہیں؟۔اور وہ ان پر غفلت کا الزام کیوں لگاتے ہیں؟”۔

ابن عربی امام مہدی کی وضاحت کرتے ہیں کہ لوگ اس کی مخالفت کیوں کرتے ہیں۔وہ اجنبی جو ان جیسا ہے بھی اور ان جیسا نہیں بھی ہے۔ جب لوگ امام مہدی کے قریب آتے ہیں تو وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ ایک سادہ سا آدمی ہے۔ نہ وہ اپنی آواز بلند کرتا ہے ، نہ فخرکرتا ہے، نہ اپنی انفرادیت ظاہر کرتا ہے۔ اگر وہ مسکراتے ہیں تو وہ بھی مسکراتا ہے اور وہ غم گین ہوتے ہیں تو وہ بھی غمگین ہوتا ہے مگر جب وہ طویل وقت تک اس کی مجلس میں بیٹھتے ہیں تو اس کی اجنبیت ظاہر ہونے لگتی ہے۔ جیسے اس کی باتیں وقت سے آگے ہوں۔ جیسے اس کی نگاہیں وہ کچھ دیکھ رہی ہوں جو لوگ نہیں دیکھ سکتے۔ اور جیسے اس کی خاموشی ایسے راز بیان کررہی ہوں جنہیں وہ برداشت نہیں کرسکتے۔ وہ اسے اپنا جیسا سمجھتے ہیں لیکن جلد ہی دریافت کرلیتے ہیں کہ وہ ان جیسا نہیں ہے۔ وہ کم بولتا ہے لیکن اسکے الفاظ ذہنوں میںتکلیف دہ سوالات کھول دیتے ہیں۔ اور وہ ایسے سوال کو پسند نہیں کرتے جو ان کے دوہرے چہرے کو ظاہر کرکے ان کو ہلا ڈالے۔ اس کیلئے ممکن نہیں کہ اس تقدیر سے فرار حاصل کرلے۔ کیونکہ یہ اس پر لکھ دیا گیا ہے کہ وہی ہوگا۔ اس وجہ سے وہ دو خوفناک داخلی نفسیاتی کشمکش کے درمیان زندگی گزاررہا ہے۔

پہلی کشمکش اس انسان کی ہے جو چاہتا ہے کہ وہ ایک عام آدمی کی زندگی گزارے۔اور دوسری کشمکش وہ عجیب چیز ہے جو بچپن سے اس کے ساتھ ہے۔اور جو اس پر غالب آنا چاہتی ہے اور اس کے ذریعے ظاہر ہونا چاہتی ہے۔ لیکن جتنی بھی وہ کوشش کرے یہ چیز ظاہر نہیں ہونا چاہتی جب تک کہ اس کا مقررہ وقت نہ آجائے۔ بس مہدی ایک عام شخص نہیں بلکہ وہ ایک غیرمعمولی انسان ہے جو اپنی سادی زندگی گزاررہاہے اور جانتا بھی نہیں ہے کہ وہ کون ہے؟۔

مہدی دو چہروں کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے۔

1:رحمت کا چہرہ۔اس کی موجودگی میں لوگ سکون محسوس کرتے ہیں۔ بچہ اس کے چہرے میں باپ کو دیکھتا ہے۔مظلوم اس کی خاموشی میں وعدہ دیکھتا ہے۔ فقیر اس کی سادگی میں تسلی پاتا ہے۔

2: سختی کا چہرہ۔جب ظلم دیکھتا ہے تو اس کا چہرہ بدل جاتا ہے۔ اسکے الفاظ تلوار کی طرح واضح ہوتے ہیں۔ ایسے لہجے میں بولتا ہے جس میں کوئی سودے بازی نہیں ہوتی ۔

لوگ اس تضاد کو سمجھ نہیں پاتے۔ ایک شخص نرم ہوا کی طرح رحیم ہو، اور طوفان کی طرح سخت بھی ہوتووہ سختی سے ڈرجاتے ہیںاور رحمت سے بھاگتے ہیں۔کیونکہ وہ ان کی سنگدلی کو بے نقاب کرتی ہے۔ لوگ مہدی کو خاموش دیکھتے ہیں ،وہ مجلس میں کسی کی بات نہیں کاٹتا،اس کی آنکھیں سب کچھ نوٹ کررہی ہوتی ہیں جیسے وہ لمحے کی تاریخ اپنی یاد میں لکھ رہاہو۔جب وہ دیر تک خاموش رہتا ہے تو لوگ پریشان ہونے لگتے ہیں : کیا وہ ان میں کچھ دیکھ رہاہے جو وہ خود نہیں دیکھ سکتے؟۔ کیا وہ دل میں ان پر کوئی فیصلہ کررہا ہے؟۔کیا وہ ایسا سوچ رہاہے جو وہ نہیں جان سکتے؟۔ وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ انکے سامنے کھل گئے ہیںاور لوگ نہیں چاہتے کہ وہ کسی کے سامنے بے بس محسوس کریں۔

لوگ مہدی جیسا نہیں سوچتے لوگ ان سے محبت کرتے ہیںجو ان جیسا سوچیں کیونکہ ایسے لوگ انہیں تسلی دیتے ہیں مگر مہدی مختلف انداز سے سوچتا ہے۔ وہ انکے مسائل کا ایسا حل دیکھتا ہے جو انکے ذہن میں نہیں آتا۔ ان کی باتوں اور عملوں کے پیچھے نیتوں کو سمجھتا ہے بغیر کہ وہ کچھ کہیں۔ وہ ایک ہلکی سی نصیحت دیتا ہے اگر وہ مان جائیںتو زندگی بدل دیتی ہے۔ ایک مسکراہت دیتا ہے جس کا مطلب مہینوں بعد سمجھ میں آتا ہے۔ یہ عبقریت انہیں پریشان کرتی ہے۔ کیونکہ یہ انہیں ان کی حقیقت کے سامنے لاکھڑا کرتی ہے۔ اور لوگ اپنی حقیقت سے فرار چاہتے ہیں۔ لہٰذاوہ مہدی پرالزام لگاتے ہیں تاکہ حقیقت سے بچ سکیں۔ کہتے ہیں کہ وہ پاگل ہے تاکہ اپنی عقل کو جھٹکا نہ لگے۔ وہ متکبر ہے تاکہ ان کا احساس کمتری چھپ جائے۔ وہ پر اسرار ہے تاکہ وہ اپنی ناکامی کو جواز دے سکیں کہ سمجھ نہ سکے۔

تعلقات میں الجھن:

لوگ سادہ تعلقات چاہتے ہیں : باتیں، ہنسی، مفاد، چاپلوسیاں۔ مگر مہدی ان کو ایک ایسی سچائی دیتا ہے جو وہ برداشت نہیں کرسکتے۔ دوستی میں کوئی منافقت نہیں کرتا۔ سچائی سے نصیحت کرتا ہے۔ غلطی کا دفاع نہیں کرتاتو لوگ اسے چھوڑ دیتے ہیںاور کہتے ہیں کہ یہ تو پیچیدہ انسان ہے۔ نکاح میں ظاہری زندگی نہیں چاہتا بلکہ اسی روحانی گہرائی مانگتا ہے جو عام دلوں کے بس کی بات نہیں۔معاشرے میں دکھاوے سے دور رہتاہے۔ شہرت اور طاقت سے گریز کرتا ہے تو لوگ اس کیلئے جگہ نہیں پاتے اور اس کو اجنبی سمجھتے ہیں۔ لوگ مہدی کیساتھ نہیں چل سکتے نہ اسلئے کہ مہدی ناکام ہے بلکہ اسلئے کہ وہ سچائی کا ساتھ نہیں دے سکتے۔

مہدی کا احساس:

مہدی محسوس کرتا ہے کہ وہ زمانے کا آخری انسان ہے وہ اپنے کندھوں پر ایک امت کی ذمہ داری اٹھائے ہوئے ہے۔ وہ دنیا میں پھیلے ظلم کو دیکھتا ہے لیکن وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اپنے وقت سے آگے ہے۔اس کی نگاہیں ان سچائیوں کو دیکھتی ہیںجو لوگوں سے اوجھل ہیں۔ وہ ایک ایسے وقت میں زندہ ہے جو ابھی آیا نہیں۔ یہ دوہرا احساس اس کو جلا دیتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو ایک گہری کھائی میں دیکھتا ہے۔وہ اپنے آپ کو عظیم نہیں سمجھا جیسا کہ لوگ سمجھتے ہیں بلکہ وہ خود کو ایک عاجز بندہ سمجھتا ہے جو درد ، تنہائی اور اجنبیت میں گرا ہوا ہے۔مگر اللہ اسے ایک ایسا نور عطا کرتا ہے جو کبھی بجھتا نہیں۔ وہ لوگوں کو ہنستا دیکھتا ہے خود انجام کو دیکھتا ہے۔لوگ ظلم کرتے ہیں وہ حساب کو دیکھتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں تو پہلے ہی کھائی میں ہوں، میرا ہرقدم اللہ کی طرف ہے۔ لوگ نہیں سمجھتے کہ مہدی کے صبر اور طاقت کا راز کیا ہے؟۔وہ اس کا رب سے تعلق ہے۔

لوگ حق کو نہیں پہچانتے جب وہ ان کی عادت کے خلاف ہو

اگر وہ عاجز ہے تو کہتے ہیں کہ قیادت کے لائق نہیں۔ اگر سخت ہو تو کہتے ہیں کہ اس میں رحم نہیں۔ اگرزاہد ہو تو کہتے ہیں کہ دنیا کے قابل نہیں۔ اگر خاموش ہو تو کہتے کہ علم نہیں۔ لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ حق کو عادت سے نہیں ناپا جاسکتااور مہدی اسلئے آتا ہے کہ لوگوں کی مردہ روحوں میں حق کو زندہ کرے۔ اور جو اس کو حق نہیں سمجھتے تو دراصل وہ اپنے اندر کے حق کو جھٹلاتے ہیں۔ لوگ مہدی کو متضاد شخصیت والا سمجھتے ہیں کیونکہ سچ برداشت نہیں کرسکتے اور عدل سہہ نہیںسکتے۔اور اپنی حقیقت کا سامنا نہیں کرنا چاہتے ۔تو اس پر الزام لگاتے ہیں ،اس سے بھاگتے ہیں، اسے دایونہ کہتے ہیں۔ جبکہ وہ اللہ کی خاموشی میں جیتا ہے۔ اللہ کے فیصلے پر چلتا ہے ۔ تنہائی کی کھائی میں مسکراتاہے اور جانتا ہے کہ فتح کا دن قریب ہے۔ اور اللہ اسکے ساتھ ہے چاہے سب چھوڑ جائیں۔ مہدی کی تنہائی کوئی انتخاب نہیں بلکہ الٰہی مجبوری ہے۔یہ کوئی روحانی شوق یا صوفیانہ فرار نہیں بلکہ ایک الٰہی منصوبہ ہے۔ ایک حکم ہے ایک سخت شرط ہے جس کو توڑا نہیں جاسکتا ۔ یہ تنہائی ویسے ہی ہے جیسے سونے کو پگھلا کر خالص کیا جائے۔ یہ ایک آپریشن تھیڑ ہے جہاں آخری زمانے کے خلیفہ کی تیاری ہورہی ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اگست 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

یہود امام مہدی کی تلاش میں کیوں ہیں؟

پہلے ہمیں امریکہ اور یورپ میں یہ خطرناک نفسیاتی تصورکو سمجھنا ہوگا کہ ” جب کوئی جماعت کسی پیشین گوئی پر یقین رکھتی ہے اور اسکے پورا ہونے کا شدت سے انتظار کرتی ہے تو کائنات میں ایک توانائی حرکت میں آتی ہے جو اس پیشگوئی کو حقیقت میں بدل دیتی ہے”۔ چاہے یہ پیشین گوئی سچ ہو یاجھوٹ ؟ انکے خیال میں یہ توانائی اتنی طا قتور ہوتی ہے کہ وہ حقیقت کو جنم دے سکتی ہے۔ ….. عنقاء مغرب

چینل قناة ”عنقاء مغرب”میں خوش آمدید ۔ آج ہماری قسط کا عنوان ہے : ” یہودی امام مہدی کو تلاش کررہے ہیں”۔

سوال یہ ہے کہ کیوں امام مہدی کا نام عالمی خفیہ ایجنسیوں کی میز پر موضوع بنا ہوا ہے؟۔ کیا خطرناک معلومات ان کے بارے میں حاصل کی جاچکی ہیں؟۔ امام مہدی کیوں دنیا کی خفیہ ایجنسیوں کے ریڈار پر ہیں ؟۔ اے اللہ کے پیارو! آئیے ہم صدق دل اور سکون کیساتھ اس نازک اور حساس باب میں داخل ہوتے ہیں۔ کیوں امام مہدی کا نام خفیہ ایجنسیوں کے دفاتر میںزیر بحث ہے ؟، کیوں وہ ہر اس سراغ یا اشارے کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کی شناخت کی طرف جائے؟۔ پہلے ہمیں امریکہ اور یورپ میں موجود ایک بہت خطرناک اور نفسیاتی تصور کی حقیقت جاننا ہوگی۔ یہ نظریہ کہتا ہے :”جب کوئی جماعت کسی پیشین گوئی پر مکمل یقین رکھتی ہے اور اس کو پورا ہونے کا شدت سے انتظار کرتی ہے تو پھر اس کی وجہ سے اس کائنات میں وہ خودکار توانائی حرکت میں آتی ہے جو اس پیشین گوئی کو حقیقت میں بدل دیتی ہے”۔ چاہے یہ پیشین گوئی سچ ہو یا جھوٹ ۔ان کے خیال میں یہ توانائی اتنی طاقتور ہوتی ہے کہ وہ حقیقت کو جنم دے سکتی ہے۔

( مولانا عبیداللہ سندھی نے شاہ ولی اللہ کے حوالہ سے یہی نظریہ نقل کیا کہ اہل حق کا عزم مضبوط ہو یا اہل باطل کا تو اس کا اثر خطیرة القدس پر پڑتا ہے۔اور پھر دنیامیں غلبے کی بنیاد عزم کی مضبوطی پر ہوتی ہے)۔

مغرب مہدی کی صرف کہانی سے نہیں ڈرتا بلکہ اس کو خطرہ محسوس ہوتا ہے۔کیونکہ انکے نزدیک اجتماعی پر جوش سوچ چیزوں کو حقیقت میں بدل دیتا ہے۔ یہ ”قانون کشش” (Law of Attraction) کہلاتا ہے جس پر آپ توجہ دیتے ہیں وہی آپ کو حاصل ہوتا ہے۔

مغرب امام مہدی کو عدل کا منتظر نہیں نجات دہندہ سمجھ کر نہیں بلکہ اپنے نظام کیلئے ایک خطرہ سمجھ کر تلاش کررہا ہے۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ مہدی محض ایک خرافہ ہے تو پھراگر ایسا ہے تو مغرب یہ معاملہ اتنا سنجیدہ کیوں لیاہے؟، کیوں اس پر بجٹ بنتے ہیں؟،خفیہ فائلیں اور رپورٹ اس پر مبنی ہیں؟۔ جواب بالکل واضح ہے کہ

مغرب جانتا ہے کہ دنیا کو اصل میں خیالات ہی چلاتے ہیں۔ ایک ”خیال” ہی زمین کی کایا پلٹ سکتا ہے۔ اسلئے وہ عوام کو سطحی چیزوں میں مصروف رکھتے ہیں۔ وہ انہیں ہر چیز سکھاتے ہیںمگر سوچنا نہیں سکھاتے۔ وہ انہیں آزادی کا دھوکہ دیتے ہیں مگر اصل میں انہیں صرف خواہشات اور لذتوں میں بند رکھتے ہیں ۔ گہری سوچ انکے منصوبوں کی سب سے بڑی دشمن ہے۔عالمی خفیہ ایجنسیاں جانتی ہیں کہ اگر کسی خاص شخص کا چرچا عام ہوجائے اگر ایک ارب سے زائد مسلمان اس پر یقین رکھتے ہوں تو یہ صرف خیال نہیں رہتا بلکہ ایک ایسی تونائی بن جاتی ہے جو حقیقت بن سکتی ہے۔ اسلئے جب کوئی انٹیلی جنس آفیسر اس حقیقت کو جان لیتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ مہدی ایک نام نہیں بلکہ نظریہ ہے جو ان کے نظام کو ہلا دینے کی طاقت رکھتا ہے۔مغرب سویا ہوا نہیں بلکہ بیدار ہے ۔انہیں معلوم ہے کہ مسلمان ایک دن یا سال نہیں بلکہ صدیوں سے مہدی کا انتظار کررہے ہیںاور جتنایہ انتظار بڑھتا ہے اتنا ہی اس کو پورا ہونے کی طاقت بڑھتی ہے اسلئے جب وہ مہدی کا نام سنتے ہیں تو انہیں خطرہ محسوس ہوتا ہے ۔

مغرب میں ”تاریخ کے خاتمے کا نظریہ ” رائج ہے۔ جو بالواسطہ یہ اعتراف ہے کہ جب ان کی تہذیب ترقی کی آخری حد کو چھولے گی تو وہی ان کے زوال کی ابتداء ہوگی۔ یہی ابن عربی کا فتیٰ ساحل ہے۔ وہ مشرقی نوجوان جس کا انتظار اہل مشرق کررہے ہیں۔یہ پیشین گوئیاں صرف مسلمانوں نے کیں بلکہ مغربی نجومیوں نے بھی کیں۔

جین ڈکسن مشہور امریکی نجومی نے مشرق سے عظیم نوجوان کی آمد کی پیشین گوئی کی ہے

1:جو دنیا کا نقشہ بدل دے گا۔
2:مسلمانوں کو غیر معمولی فتوحات دے گا۔
3:مشرق وسطیٰ اور دنیا پر حکومت کرے گا۔
4:اس کی آنکھیں گہری بھوری ، رنگ سانولا، چہرہ لمبوترا،مضبوط جسم اورگھنگھریالے بال ہونگے۔
5:اس کا نام ”میم” سے وابستہ ہوگا۔
6:وہ پردے کے پیچھے کام کرے گا۔
7:اور اللہ کی طرف سے محفوظ ہوگا۔

یہ خواب 1962ء سے چھپائے رکھا کیونکہ دھمکیاں دی گئیں۔ ہم نجومیوں کی تصدیق یا تکذیب نہیں کرتے مگر جب20 ویں اور 21ویں صدی میں یہ پیشین گوئیاں بار بار سامنے آئیں۔ جب مسلمان ایک ارب امام مہدی کے منتظر ہوںتو یہ محض اتفاق نہیں ہوسکتا ہے۔

نوسٹرڈیمیس نے بھی 1556میں ایک مسلم نوجوان کی آمد کی پیشین گوئی کی تھی۔ جو مشرق سے ابھرے گا ، بادشاہتوں کو گرائے گا اور تاریخ کا دھارا بدل دے گا۔ تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مغرب ان پیشین گوئیوں کو نظر انداز کرسکتا ہے؟۔ ہرگزنہیں بلکہ وہ ان پر تحقیق کرتا ہے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ یہ پیشین گوئیاں ذہنوں اور جذبات پر نظر انداز ہوتی ہیں۔

مغرب اسلام سے خوفزدہ ہے نہ کہ عیسائیت یہودیت سے کیونکہ اسلام صرف عبادت نہیں ایک مکمل نظام حیات ہے۔ اسلئے : صلیبی جنگیں ہوئیں۔ خلافت عثمانیہ گرائی گئی۔عراق پر حملہ ہوا۔ مشرق وسطیٰ میں فتنہ بھڑکایا گیا۔یورپ میں مسلمانوں کے خلاف پالیسیاں بنائی گئیں۔اسلامی شعار کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ سب اس خوف کا اظہار ہے۔کہ امام مہدی کا ظہور کہیں ان کے نظام کو نہ گرادے۔ اے اللہ کے پیارو! جب آپ سچے دل سے دنیا کا جائزہ لیتے ہیںتو آپ کو ایک ایسا عالم نظر آتا ہے۔جو انتشار میں ڈوبا ہوا ہے۔ ایک ایسا نظام جو بظاہر ترقی یافتہ ہے مگر پس پردہ ایک خفیہ ہاتھ اسے کنٹرول کر رہاہے۔ یہ قوتیں ہمارے سامنے اسکرینوں پر نظر آتی ہیں مگر عوام کو موبائل اسکرینز اور روزمرہ کے شور میں مصروف رکھ کر غافل کردیاگیا ہے۔ ان کے درمیان فکری انتشار پھیلادیا گیا ہے تاکہ وہ نہ جان سکیں کہ ان کے ساتھ کیا ہورہا ہے؟۔ خفیہ ایجنسیوں کے سائے دار کمروں میں جہاں اندھیرے اور اسرار چھائے رہتے ہیںوہاں مہدی کا نام بار بارگونجتا ہے ، وہ خاموشی سے اس کا مطالعہ کرتے ہیں۔ خوابوں، اشاروں اور علامتوں کی تعبیرات پر اس کی تحقیق کرتے ہیں۔حتیٰ کہ ایماندار دلوں کی کیفیات کو بھی دیکھتے ہیں۔کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ جب کوئی سچی اور زوردار ”فکر” جنم لیتی ہے تو کوئی رکاوٹ اور دیوار اس کا راستہ نہیں روک سکتی ہے۔

تو پھر مغرب کو امام مہدی کے تصور کا اتنا خوف کیو ں ہے؟۔ کیونکہ انہیں علم ہے کہ ایک ارب سے زائد مسلمان اس ایک شخص کے منتظر ہیںاور ہر گزرے دن یہ انتظار شدید تر ہوتا جارہاہے۔انہیں معلوم ہے کہ یہ مہدی کا تصور دماغی وہم نہیں، بلکہ یہ عقیدہ ہے جو انسان کے ایمان کی گہرائیوں میں پیوست ہے۔یہ تصور بچے کو ماں کے دودھ کے ساتھ پلایا جاتا ہے ، یہی تصور اسے ظلم سے آزادی دیتا ہے۔ اس عقیدے نے مغرب کو ہمہ وقت چوکنا کررکھا ہے اسلئے کہ وہ جانتے ہیں عظیم خیالات کبھی نہیں مرتے۔ اور وہ امت جو ایک زبردست خیال کی وارث ہو ،وہ کبھی ختم نہیں ہوسکتی ۔ چاہے وہ کمزور کیوں نہ نظر آئے۔

ان کا خوف صرف امام مہدی کی ذات سے نہیں بلکہ اس فکر سے ہے جو وہ مجسم کرتا ہے ۔کیونکہ امام ان کیلئے صرف ایک شخص نہیں بلکہ ایک عالمی نظام ظلم کے زوال کی علامت ہے۔

نظام پر مغرب کا تسلط ہے

1:ظلم پر قائم ہے۔
2:عوام کی محنت کو لوٹتا ہے۔
3:انسان کو شہوت پرست صارف (cosumrer) میں بدل دیتا ہے ۔
4:روحانی اقدار کو مٹاتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ جب امام مہدی آئیگا تو یہ سب کچھ زمین بوس ہوجائے گا۔یہ وہ کونیاتی قانون (UnivrsalLaw) ہے جس سے وہ ڈرتے ہیں۔”قانون کشش” یعنی جس خیال پر ایک گروہ خلوص نیت اور یقین کے ساتھ توجہ دے تو وہ خیال بالآخر طاقتور حقیقت میں تبدیل ہوجاتا ہے۔

سوچنے کی بات ہے کہ جب وہ خود ہمیں میڈیا میں باور کراتے ہیں کہ امام مہدی ایک افسانہ ہے تو پھر وہ خود کیوں اربوں ڈالر اس پر خرچ کررہے ہیں؟۔ کیوں وہ مشرق ومغرب میں جاسوس بھرتی کرکے ہر حرکت ، ہرخواب اور ہر اشارے کی نگرانی کرتے ہیں؟۔ جواب واضح ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ افسانہ نہیں بلکہ ایک ایسی ”زندہ فکر”ہے ان کے نظام کیلئے زہر قاتل ہے۔ ان کو معلوم ہے کہ یہ امت اگر کمزور بھی ہو تب بھی اس کے دل میں ایک بیج ہے ۔ مہدی کا بیج۔ جو کبھی نہیں مرتا۔ یہ وہ شخص عدل کا توازن واپس لائے گا۔جو ظلم کے ستونوں کو گرائے گاجو حق کو اس کے مقام پر رکھے گا۔ وہ جانتے ہیں کہ تاریخ اس لمحے کا انتظار کررہی ہے۔ اے اللہ کے پیارو!

نجومیوں کی رویائیں محض کھیل تماشا نہیں، جین ڈکسن جس نے فتیٰ مشرقی کی رؤیا دیکھی نہ صرف اس کا چہرہ دیکھا بلکہ :رنگ، آنکھیں،بالوں کی ساخت اور یہاں تک کہ اس کا نام ”میم” سے متعلق یہ بھی بتایا۔اور کہا کہ وہ پردے کے پیچھے کام کرے گا۔اللہ کے محفوظ منصوبے کا حصہ ہوگا۔ مشرق اور مغرب کو بدل ڈالے گا۔ یہی بات نوسٹر ڈیمس نے بھی کہی تھی کہ وہ مشرق سے آئے گا۔فتح کرے گا ، بادشاہتیں گرائے گا اور تاریخ کا دھارا بدل دے گا۔

تو کیا مغرب جو دنیا کی ہر چھوٹی بڑی بات پر نظر رکھتا ہے ، ان پیشین گوئیوں کو معمولی سمجھ کر چھوڑ دیتا ہے؟۔ نہیں ! بلکہ وہ تحقیق کرتاہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ باتیں اگرچہ مذہبی عقائد میں لکھی ہوں مگر پھر بھی قوموں کے شعور پر گہرے اثرات ڈالتی ہیں۔کیونکہ وہ امام مہدی کے تصور سے خوفزدہ ہیں اسلئے کہ وہ جانتے ہیں کہ اسلام صرف عبادت کا دین نہیں بلکہ ایک مکمل نظام زندگی ہے۔ اگر کوئی شخص آیا جس نے دلوں کو بیدار کردیا۔دین کو زندہ کردیا۔عدل کا نظام قائم کردیا تو ان کی ظالمانہ تہذیب جو ظلم ، حرص اور شہوت پر قائم ہے زمین بوس ہوجائے گی۔ اسلئے وہ حجاب کو روکتے ہیں۔اسلامی شعار پر حملہ کرتے ہیں ۔امت کو تقسیم کرتے ہیں۔خانہ جنگیاں کرواتے ہیں۔ گروہ بندیوں کو بھڑکاتے ہیں۔ تاکہ امت بیدار نہ ہو۔

وہ مہدی کے منتظر ہیں تاکہ اس سے لڑسکیں اور ہم منتظر ہیں تاکہ نجات پا سکیں۔ آج کا عالمی منظر عجیب تضاد سے بھرا ہوا ہے ۔ سائنسی ترقی عروج پر ہے مگر اخلاقی پستی انتہا پر۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا : فلسطین پر دنیا خاموش رہی ظالم کو بچایا گیا اور مظلوم کو مجرم ٹھہرایا گیا۔ یہ انحطاط، یہ زوال محض اتفاق نہیں ،یہ سب اس بات کا اشارہ ہے کہ

حق کی آمد قر یب ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقًا(حق آگیا اور باطل مٹ گیا ،بیشک باطل مٹنے والاہی تھا)اسلئے مغرب کا خوف امام مہدی کے حوالے سے محض ایک سیاسی معاملہ نہیں بلکہ یہ ان کی پالیسی کا بنیادی ستون ہے۔اس خوف میں صلیبی جنگیں ہوئیں۔خلافت گری۔ عراق پر حملے۔مشرق وسطیٰ کی آگ۔ اسلامی علامات پر پابندیاں۔ یہ سب ایک فکر کے خلاف ہے ۔ مہدی کی فکر کیوں؟۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ امت اگر بیدار ہوجائے تو زمین کا چہرہ بدل سکتی ہے۔ یہ عام دور میں نہیں جی رہے بلکہ نقابوں کے گرنے اور حقیقتوں کے ظاہر ہونے کا دور ہے۔ یہ عالمی توجہ امام مہدی پر محض اتفاقی نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے ہمیں بیدار کرنے کا اشارہ ہے۔ جب دنیا ظلم سے بھر جائے تو اللہ کی یہ سنت ہے کہ ایک نجات دہندہ بھیج کر حق کو غالب کرتا ہے۔ امام مہدی وہی شخص ہے جس کو اللہ نے چن لیا ہے۔جو عدل کو زمین میں واپس لائے گا جو ظالموں کا تخت گرائے گا۔ خفیہ ایجنسیاں کیوں نہیں سوتیں؟۔ کیونکہ انکے بند کمروں میںاور خفیہ فائلوں میں مہدی کا نام موجود ہے۔ وہ میڈیا میں اسے جھٹلاتے ہیں مگر اندرون خانہ مہدی کی حقیقت کو مانتے ہیں۔ وہ اسے مشرق میں، مغرب میں، شہروں ، دیہاتوں میں اور خوابوںاور مختلف زبانوں میں تلاش کرتے ہیں۔ کیونکہ ایک سچی فکر جب یقین بن جائے تو حقیقت بن جاتی ہے۔ اب مہدی ایک خیال نہیں بلکہ ایک ارب مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن ہے۔ یہ انتظار وقت ضائع نہیں کرتا بلکہ ایک زور دار توانائی پیدا کرتا ہے جو کائنات کو ہلا سکتی ہے۔

کیوں اتنا شدید خوف؟۔ اسلئے کہ وہ جانتے ہیں کہ رؤیا محض خواب نہیں بلکہ ”اللہ کے نظام کی علامتیں” ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ مہدی محض ایک واقعہ نہیں بلکہ عالمی زلزلہ ہوگا جو ظالم نظام کو گرادے گااور انسانیت کو آزادی دے گا۔ اور اگر امت ایک دل کی طرح بیدار ہوجائے تو کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی ۔ امام مہدی ایک فوجی نہیں بلکہ فکر نجات ہے۔ اسے مارا ،اسے روکا نہیں جاسکتا۔کیونکہ وہ ایک وعدہ ہے اور ”وعدہ الٰہی” کبھی جھوٹا نہیں ہوتا ۔ وکان وعداللہ مفعولًا ” اللہ کا وعدہ تو گویا پورا ہوچکا”

فلسطین کے بچے، مائیں، مظلوم یہ سب قربانیاں اس دن کی تیاری ہے۔ جب مہدی آئے گا اور امت کو عزت واپس دے گا۔انسانیت میں معنویت کو لوٹائے گا۔ اور عدل کو زمین پر غالب کردے گا۔ تو اے بھائی ! ہمیں صرف انتظار نہیں کرنا بلکہ اپنے دل کو پاک کرنے میں اس وقت کیلئے تیار ہونا ہے کہ جب مہدی وہ شخص ہوگا جس پر مظلوموں کے دل متفق ہوجائیںگے۔ یہ محض ایک قیاس نہیں بلکہ ایک یقینی وعدہ ہے جس کی گھڑی صرف اللہ جانتا ہے۔ اور جب وہ گھڑی آئے گی تو انسانیت کی ایک نئی کہانی کا آغاز ہوگا جہاں ظلم ہارے گا اور حق جیتے گا۔ آخری پیغام یہ ہے کہ اے اللہ کے بندو!

آپ نے آج کے اس مبارک قسط میں وہ حقائق سنے جو عام لوگوں سے چھپائے گئے۔آپ کومعلوم ہوا کہ وہ امام مہدی سے کیوں خوف کھاتے ہیں؟،کیوں دن رات اس کی نگرانی کرتے ہیں ؟اور کیوں نیند ان کی آنکھوں سے غائب ہے؟۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہرظالم نے کہا کہ ہم ناقابل شکست ہیں مگر جب اللہ کا وعدہ آیا، وہ سب گر پڑے اور صرف حق باقی رہ گیا۔ جس نے یہ گمان کیا کہ یہ امت ابھی کبھی نہیں اٹھے گی ۔ وہ دیکھے کہ یہ امت ابھی جاگ رہی ہے۔ یہ وعدہ الٰہی ہے اور اللہ اپنا وعدہ کبھی نہیں توڑتا۔ وکان وعد اللہ مفعولًا

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اگست 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

ظہور مہدی اور امریکہ کی تباہی

اردو ترجمہ:

اہم خواب کی تمہید
میرے اللہ کے محبوبو!
آج ہمارے ساتھ ایک نہایت اہم خواب ہے،
جو ایک ایسے اہم معاملے پر روشنی ڈالتا ہے جو امام مہدی کے ظہور سے پہلے پیش آئے گا۔
یہ خواب بعنوان ہے:

امریکہ کا زوال یا خاتمہ، اور امام مہدی کا ظہور

خواب کی تفصیل
خواب دیکھنے والا بیان کرتا ہے:
میں نے دیکھا کہ میں ایک پردے دار (چھپا ہوا) گھر میں داخل ہوا۔
اس میں دو مرد موجود تھے اور ان میں سے ایک کا ایک لڑکا بھی تھا۔
ان میں سے ایک شخص نے چہرہ ڈھانپ رکھا تھا (نقاب پہنا ہوا تھا)۔
اتنے میں رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کے ہمراہ اس گھر میں داخل ہوئے۔
نبی کریم ﷺ نے ان کے ساتھ دو رکعت نماز ادا کی،
پھر ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا:
"کس نے تمہیں بتایا؟ کس نے تمہیں خبر دی کہ میں آ رہا ہوں؟”
تو وہ لڑکا بولا: "یہ بوڑھا۔”
اور اس نے اس شخص کی طرف اشارہ کیا جس نے چہرہ چھپا رکھا تھا۔
تو نبی ﷺ نے فرمایا:
"یہ بوڑھا؟ یہی امام مہدی منتظر ہیں!”
پھر نبی ﷺ نے فرمایا:
"اب صرف ایک ورق (صفحہ) باقی ہے، اور وہ ہے امریکہ کا صفحہ۔”

خواب کی تعبیر

میرے عزیزو!
یہ خواب جیسا ہے ویسا ہی ہے، یعنی اس کی تعبیر بھی ظاہر پر ہے۔
اگر یہ خواب سچا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ امام مہدی کے ظہور سے پہلے صرف امریکہ کی تباہی باقی ہے۔
ایک اضافی اشارہ بھی ہے:
وہ نقاب پوش شخص جو خواب میں ذکر ہوا وہ امام مہدی ہیں۔
وہ نقاب میں اس لیے نظر آئے کیونکہ ابھی وہ لوگوں کے لیے ظاہر نہیں ہوئے،
اور وہ اب بھی پردۂ خفا میں ہیں۔
انہیں "بوڑھا” بھی اس لیے کہا گیا کیونکہ ان کی بیعت درمیانی عمر میں کی جائے گی، اور اللہ بہتر جانتا ہے۔

امریکہ کی تباہی کی ممکنہ شکل
امریکہ کی تباہی ممکن ہے "خسف” یعنی زمین میں دھنسنے کے ذریعے ہو۔
یہ میری ذاتی رائے ہے۔
اللہ تعالیٰ کفر کے دو بڑے گروہوں کو زمین میں دھنسنے سے ہلاک کرے گا:
ایک مغرب میں،
دوسرا مشرق میں،
اور تیسرا جزیرۂ عرب میں، جو سفیانی کے لشکر کے لیے ہوگا۔
اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

امام مہدی کی عمر پر سوال اور وضاحت

کوئی شخص یہ سوال کر سکتا ہے کہ امام مہدی کی بیعت چالیس سال کی عمر میں کیوں ہوگی؟
یہ بات بظاہر غیر منطقی لگ سکتی ہے۔
لیکن یہاں "کہولا” یعنی درمیانی عمر مراد ہے، اور اس پر واضح اثر (حدیث) موجود ہے۔
جب نص موجود ہو، اور وہ بھی واضح مفہوم کے ساتھ، تو اس میں اجتہاد کی گنجائش نہیں رہتی۔

حدیثِ نبوی ﷺ سے امام مہدی کی شناخت

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمران بن حصین خزاعی نے عرض کیا:
"اے اللہ کے رسول! ہم امام مہدی کو کیسے پہچانیں گے؟”
آپ ﷺ نے فرمایا:
"وہ میرے بیٹوں میں سے ایک ہوں گے۔
وہ بنی اسرائیل کے مردوں کی طرح ہوں گے۔
ان پر دو چادریں ہوں گی۔
ان کا چہرہ ستارے کی مانند چمکدار ہوگا۔
اور ان کے دائیں گال پر ایک سیاہ تل ہوگا۔
ان کی عمر چالیس سال ہوگی۔”
(یہ روایت امام ابو عمر عثمانی ابن سعید نے اپنی سنن میں نقل کی ہے۔)

اسی طرح حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"تمہارے اور رومیوں کے درمیان چار امن معاہدے ہوں گے،
چوتھا معاہدہ ایک ہرقل خاندان کے شخص کے ذریعے ہوگا،
جو سات سال تک قائم رہے گا۔”

عبدِ قیس قبیلے کے ایک شخص، مستورد بن جیلان، نے پوچھا:
"اے اللہ کے رسول! اس وقت لوگوں کا امام کون ہوگا؟”
آپ ﷺ نے فرمایا:
"میرے بیٹوں میں سے مہدی،
چالیس سالہ ہوں گے،
ان کا چہرہ چمکتا ستارہ ہوگا،
اور ان کے دائیں رخسار پر ایک سیاہ تل ہوگا۔
ان پر دو سوتی چادریں ہوں گی،
وہ بنی اسرائیل کے مردوں کی طرح ہوں گے۔
وہ خزانے نکالیں گے،
شرک کے شہر فتح کریں گے،
اور ان کی بیعت چالیس سال کی عمر میں کی جائے گی۔
اگرچہ ان کی شکل نوجوانوں جیسی ہوگی۔”

جوانی کی شکل، درمیانی عمر کی پختگی

یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص عطا ہے کہ ان میں عمر کی پختگی اور نوجوانی کی طراوت دونوں صفات ہوں گی۔
"کہولت” کا مطلب یہاں پختگی، ثابت قدمی، اور تحمل ہے۔
نبی ﷺ کو بھی چالیس سال کی عمر میں نبوت ملی تھی،
اور آپ ﷺ نے رسالت کا بار اسی عمر میں اٹھایا۔
یہ وہ عمر ہے جو جوانی سے آگے اور بڑھاپے سے پہلے کی ہے۔
یہ ضعیفی یا کمزوری کی علامت نہیں۔

میں نے پہلے سنا تھا، اگرچہ اس کی صحت یقینی نہیں،
کہ "کہولت” کی عمر 35 سے 50 سال کے درمیان ہوتی ہے۔
یہ وہ وقت ہوتا ہے جب انسان نہ جذباتی نوجوان ہوتا ہے، نہ ہی کمزور بوڑھا،
بلکہ وہ اپنی عقل و جسمانی طاقت میں مکمل ہوتا ہے۔
ایسی عمر کا انسان زندگی کی سختیوں کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہوتا ہے،
اور اس کے پاس زندگی کا تجربہ بھی ہوتا ہے۔
جو شخص چالیس سال تک پہنچتا ہے، اس نے یقیناً بہت کچھ سیکھا ہوتا ہے۔

اختتامیہ

یہاں ہم اس ویڈیو کے اختتام پر پہنچتے ہیں۔
اگلی ویڈیو میں ہمارا ساتھ دیجئے،
جو امام مہدی اور خلافت کے نور کے بارے میں ہوگی۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاته۔

مہدی اس صفت اور اس شکل کے ساتھ نہیں آئے گا۔

مہدی کی شخصیت اچانک غیر متوقع
مہدی اس صفت اور اس شکل کے ساتھ نہیں آئے گا۔
عربی چینل ”حقائق خفیہ” کے چشم کشا انکشافات

رحمت اور وحی کے امین اللہ کے رسول محمدپر صلوة والسلام اور آپ کے آل اور اصحاب تمام کے تمام پر بھی۔

لوگوں میں کثرت سے یہ رواج پایا جاتا ہے کہ ہر کوئی مہدی کے معاملہ کو اپنے اوپر منطبق کرنا شروع کردیتا ہے۔ اور ہر گروہ یہ گمان رکھتا ہے کہ مہدی ان کے نظریات وخیالات کی تائید کیلئے آئے گا۔ یہاں پر ہم اس معاملے میں ہرچیز کی وضاحت کرنا مناسب سمجھتے ہیں۔

 

مہدی کے معاملے میں کچھ عمومی اصول یہ ہیں :

اگر تم یہ گمان کرتے ہو کہ مہدی لمبی داڑھی والا، محلاتی لباس، صدری اور رومال پوش شخصیت ہوگی تو پھر اس کا انتظار مت کرو۔ اگر تم ایسے مہدی کے منتظر ہو کہ مسلمانوں کو چھوٹی بڑی بات پر کافر قرار دے گا تو پھر اس کا نتظار ہرگز مت کرو۔ ایسا کوئی مہدی نہیں اور نہ ہی کوئی نکلے گا اور کوئی ہوگاتو پھر وہ گمراہ اور گمراہ کرنے والاہی ہوگا۔ اگر تم ایسے مہدی کے منتظر ہو جو نرم خو،مصلحت پسند،کمزور شخصیت کا حامل ہو،جو لڑنے میں سخت اقدام اٹھانے سے وہ بالکل گریز کرے گا توانتظار نہ کرو۔

اس طرح اگر تم ایسے مہدی کے منتظر ہو جو اسلامی ثقافت تک محدود ہو ۔جو کسی اور چیز کو نہ پڑھا ہو اور عالم سے بے خبر ہو ۔ ایسا شخص جس کی سوچ محدود ہو،جس کی تمام فکر یہاں فقہی شریعت تک محدود ہو ، یا صرف یہ کہ مسلمانوں کیلئے کیا مناسب اور کیا نہیںتو یہ جان لو کہ ایسا شخص مہدی نہیں ہوگا۔نہ اسکا انتظار کرو، نہ خود کو تھکاؤ اور نہ خود کو پریشانی میں رکھو۔

مہدی ایک عالمی شخصیت ہوں گے جو ساری دنیا پر حکومت کیلئے آئیں گے۔وہ دنیا کی ثقافتوں کے مطابق ہوں گے۔ یعنی انہوں نے داستانیں، ادب، شاعری پڑھی ہوگی ، فلمیں دیکھی ہوں گی،ڈرامے سنے ہوں گے، قوموں کی ثقافتوں کو سمجھا ہوگا۔ ریاضی کو سمجھا ہوگا۔بدھ مت کو بھی جانتے ہوں گے اور اعلیٰ درجہ کے مہذب ہوں گے۔ ایسا شخص ہوگا جس کا اخلاقی معیار بلند ہوگا، باوقار ہوگا اور عظیم اخلاقیات کا مالک ہوگا۔ ساتھ ساتھ اسی وقت وہ سخت گیر، جباراور اعلیٰ درجہ کی حکمت رکھنے والا ہوگا۔ ایسا سخت جان، دلیر اور جنگجو ہوگا جو اللہ کے سوا کسی سے بھی نہ ڈرے گا اور نہ خوف کھائے گا۔ وہ ماہر سیاستدان ہوگا،جو کسی کام کے نتائج کو اس کے شروع ہونے سے پہلے ہی دیکھ لے گا۔وہ چالیں چلنے والا، جنگوںمیں فریب دینے والا ، دشمن کو حیرت میں ڈالنے والااور ایسی جگہ سے وار کرنے والا ہوگا کہ دشمن کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔

 

وہ نرم دل ہوگا جیسا معصوم بچہ اور سخت دل ہوگا اپنے وقت پر

اور اس کے ساتھ جو اس کا حقدار ہوگا۔ وہ سخت دل،جبار، طاقتور،مضبوط اور شدید ہوگا ،اس کے ساتھ جو اس کا مستحق ہوگااور اس وقت جب اس کی ضرورت ہوگی۔ لہٰذا اگر تم اس قسم کے مہدی کے منتظر ہو جس کی ہم نے صفات بیان کیں ، جو لمبی داڑھی رکھتا ہواور جبہ پہنتا ہو تو ایسا شخص ہرگز بھی نہیں آئے گا۔ ایسا مہدی ان صفات کیساتھ نہیں ہوگا۔

اور عام طور اسلام مقاصد کا دین ہے، اخلاقیات کا دین ہے، نتائج کا دین ہے،نہ کہ ظاہری شکل وصورت کا۔کچھ لوگ اس پر ناراض ہوں گے تو ہوں۔ ہر وہ شخص جو اسلام کی ظاہری شکل وصورت پر زور دیتا ہے ، جو لوگوں کو دیواروں کے چھونے پر کافر کہتا ہے ،جو تسبیح نہ کرنے پر کافر کہتا ہے ، جو داڑھی نہ بڑھانے پر کافر کہتا ہے، وہ اس وقت یہودیوں کیساتھ کھڑا ہے۔ اور ان یہودیوں کے ساتھ صف بصف کھڑا ہے جو مبارک زمین پر بچوں اور عورتوں کو قتل کررہے ہیں۔ یعنی ایسا شخص جس نے مسلمانوں کو معمولی باتوں اور فروعی چیزوں پر پکڑااور نتیجے میں وہ اسلام کی بنیادی چیزوں کو چھوڑ بیٹھا۔ ایسا شخص مجموعی طورپر اسلام سے نکل گیا،نکلنے کے سب سے بڑے وسیع دروازے سے باہر نکلا۔

ہوسکتا ہے کہ کوئی ایسا شخص جو منشیات بیچتا ہو لیکن اس کے دل میں اسلام کی غیرت ہواور وہ اپنی جان ، مال ، گھر والوں اور اولاد کیساتھ اسلام کے دفاع کیلئے نکلے تو ایسا شخص سعودی عرب کے مفتی اور شیخ الازہر سے بہتر ہوگا۔ ہم نے مصر کے عالموں کو بھی دیکھا ہے، اسلام مؤقف کا دین ہے نہ کہ ظاہرکادین۔ہمارے پاس ایسے اداکار بھی ہیں جو نکلتے ہیں اور ظاہر کرتے ہیں کہ گویا انہوں نے حقیقت پالی ہے۔ گویا انہوں نے اللہ کی طرف سے کوئی سر ٹیفکیٹ لے لیا ہے کہ جسے چاہیں اسلام سے نکالیں۔اور جسے چاہیں داخل کر یں۔یہ سب فضول عقلی تفسیریں ہیں۔ تم ہرگز ایسے مہدی کو نہیں پاؤگے جو فضول عقلی تاویلیں کرتا ہو اور نہ ہی وہ اسلام کی فروعی چیزوں کی پرواہ کرے گا۔ یہ بھی ان اصولوں میں سے ہے جنہیں جاننا ہمارے لئے ضروری ہے۔ یہ آدمی (مہدی) ہرگز ایسا نہ ہوگا جو اسلام کے فروعی چیزوں کی فکر کرے اور نہ وہ یہ پرواہ کرے گا کہ تم کیا پہنتے ہو؟۔اور کس چیز کو تم اختیار کرتے ہو؟اور نہ وہ تم سے پوچھے گا کہ آج تم نے کتنی مرتبہ تسبیح کی یا کتنی نماز یں پڑھیں، وہ اسلام کے نتائج کی فکر کرے گا۔ اسلام کے ان مقاصد کے نفاذ کی جو انبیاء کی بعثت کا سبب تھیں۔ یعنی عدل وانصاف کا قیام ۔

وہ تم سے واقعی زکوٰة کی مقدار کے بارے میں سوال کرے گا ۔ زکوٰة کونکالنے اور اس کو فقراء ومساکین تک پہنچانے کیلئے قتال کرے گا۔ وہ کمزروں کے حقوق کیلئے بھی قتال کرے گا۔ وہ یہ بھی یقینی بنائے گا کہ سب برابر کے درجے پر زندگی گزاریں۔مسلمان ہوں یا غیر مسلم۔ مسلمان کمزور ہوں یا طاقتور۔ وہ (مہدی) زکوٰة نکالنے اور فقیروں کو دینے پر جنگ کرے گا۔ اور زمین میں عدل کو واپس لانے کیلئے لڑے گا۔ اور ظلم ، کفر اور نفاق کو دبانے کیلئے جہاد کرے گا۔ اور مظلوم کو آزاد کرانے اور جس کا حق چھینا گیا ہو اسے واپس دلانے کیلئے لڑے گا۔ وہ آئے گا تاکہ تم سے کہے کہ زکوٰة نکالو۔ وہ زکوٰة اس طرح وصول کرے گا جیسے رسول اللہ ۖ نے وصول کی تھی۔ وہ زکوٰة مالداروں سے وصول کرے گا ،غریبوں کو دے گا۔ وہ ہر گز برداشت نہیں کرے گا کہ کوئی زیادہ مالدار ہو۔ جبکہ کوئی غریب مسلمان ملکوں میں بھوک سے نہ مرے گا۔ یہ مکمل اور ہمہ گیر عدل ہوگا۔ پس مہدی ایسا آدمی نہیں ہوگا جو صرف ظاہری دین کی بات کرے اور نہ وہ فروعی مسائل، شکل وصورت یا وضع قطع والا شخص ہوگا۔ بلکہ وہ مقاصد کا ، حقیقتوں کا اور نتائج کا شخص ہوگا۔وہ اس بات کی پرواہ نہ کرے گا کہ تم کیا پہنتے ہو، کیا کھاتے ہو، یا کیسے چلتے ہو۔ یہ چیزیں اس کی عقل میں معمولی اور حقیر ہوں گی۔اسے اس بات کی فکر ہوگی کہ تم کیسا برتاؤ کرتے ہو، کیسے بولتے ہو،اور لوگوں کے ساتھ کیسے زندگی گزارتے ہو۔ اور کیسے حق کیساتھ کھڑے ہواور باطل سے لڑتے ہو۔اور کیسے مظلوم کی مدد کرتے ہو۔اور کمزور کا حق چھین کر لاتے ہو۔ وہ ان سب باتوں کی پرواہ کرے گا مگر تمہاری ظاہری شکل اور صورت کی پرواہ ہر گز نہیں کرے گا۔ اور نہ تمہاری داڑھی کی لمبائی کی اور نہ تمہارے رنگ کی۔ اور نہ اس بات کی کہ آج تم نے کتنی تسبیحات کیں۔ اور نہ یہ کہ تم نے کتنی بار قرآن پڑھا۔ یہ سب تمہارے اور تمہارے رب کے درمیان کے معاملات ہیں۔لیکن اس بات کی پرواہ ہوگی کہ تمہار ا زمین پر برتاؤ کیا ہے اور تم کیسے حق کے مدد گار اورباطل کے دشمن بنتے ہو۔

 

مہدی اپنی صف میں کسی منافق کو قبول نہیں کرے گا

اور نہ کسی بزدل کو جو زندگی چاہتا ہو۔اور اللہ کی راہ میں لڑنے سے ڈرتا ہو۔ اور نہ کسی لالچی کو جو دنیا اور خواہشات کا پیچھا کرتا ہو۔ اور نہ دھوکے باز کو جو لوگوں کو فریب دے اور ان سے جھوٹ بولے۔مہدی حق کی حکومت ان لوگوں کے ذریعے قائم کرے گا جو اس جیسے ہوں گے۔ایسے لوگ جو سچے، بہادر، زاہد ، عبادت گزار اور مجاہد ہوں گے۔ جو صرف اللہ سے ڈریں گے اور کسی سے نہیں۔ جو نہ شہرت چاہیںگے ، حکومت اور نہ مال۔ بلکہ صرف اللہ کی رضا، اس کے دین کا قیام اور اس کے بندوں کی مدد چاہتے ہوں گے ،ان کی تعداد کم ہوگی مگر مقام بڑا ہوگا۔

 

مہدی کی حکومت کثرت اور زیادہ تعداد سے نہ ہوگی

بلکہ وہ سچائی،تقویٰ ، ایمان اور نیک عمل سے ہوگی۔ وہ ان صفات سے اسے قائم کرے گا ،پس جو اس کے ساتھ ہونا چاہے وہ اپنی اصلاح کرے۔اور اپنے رب کی طرف توبہ کرے۔اللہ کے ساتھ سچ بولے اور اس کی راہ میں جہاد کرے۔ورنہ اپنے گھر میں بیٹھا رہے کیونکہ مہدی کمزور عزم اور کمزور ارادوں والوں کو نہیں چاہتا۔وہ ایسے شخص کو نہیں چاہتا جو اپنے سائے سے ڈرے اور بادل کے گرج سے بھاگے۔ وہ ایسے شخص کو نہیں چاہتا جو اپنے دین کو دنیا کے بدلے بیچ دے اور اپنے مفادا ت کو اسلام کے مفادات پر مقدم رکھے۔وہ ایسے شخص کو نہیں چاہتا جو لوگوں کو دکھانے کیلئے پرہیزگاری اور ایمان کا مظاہرہ کرے حالانکہ وہ ان دونوں سے خالی ہو۔ بیشک وہ پاکیزہ دل ،صاف نفس اور باشعور عقلیں چاہتا ہے۔ تاکہ ان کے ذریعے ایک نئی امت بنائے جو ہدایت کا نور اٹھائے اور زمین میں اسلام کا عدل پھیلائے۔اور جو یہ گمان کرے کہ مہدی حق کو کاہلی، سستی اور محض آرزوؤں سے قائم کرے گا تو وہ یقینا بہت دور کی گمراہی میں پڑگیا ہے۔ کیونکہ راستہ قربانی، جہاد، صبر اور ثابت قدمی سے بھراہوا ہے ۔اور اس تک صرف وہی پہنچے گا جو اللہ کیساتھ سچا ہو اور اللہ اسے سچا ثابت کرے۔

 

پس تیار ہوجاؤ،اے ایمان والو! بیشک وعدہ قریب ہے

گھڑی آنے والی ہے اور مہدی ظاہر ہونے والا ہے۔ اور خوش نصیب وہ ہوگا جو شروع سے ہی اسکے ساتھ ہوگا اور بدبخت وہ ہے جو اس سے پیچھے رہ گیا ،یا اس کے بارے میں شک میں پڑگیا ، یااس سے دشمنی کی۔ کیونکہ اللہ کے حکم سے بھاگنے کی کوئی جگہ نہیں اور نہ ہی کوئی پناہ مگر اس کی طرف۔

اور جس کے دل میں بیماری ہے تو اس کی بیماری بڑھ جائے گی۔اور جس کا دل ایمان کے نور سے روشن ہے وہ حق کو واضح دیکھے گا۔اور نجات کے راستے کی پیروی کرے گا۔اور اسے کوئی نقصان نہیں دے گا جو اس کی مخالفت کرے یا دشمنی رکھے۔ پس مہدی کے خاص لوگ اللہ کے مخلص اولیاء ہوں گے جنہوں نے اپنی جانیں اللہ کے ہاتھ بیچ دی ہیں، اور دنیا کے بدلے آخرت خرید لی ہے اور اللہ کی رضا کو ہر چیز پر ترجیح دی ہے۔ یہی لوگ مہدی کے لشکر، اس کے مددگار اور اس کے خاص ساتھی ہوں گے۔ جن کے ذریعے اللہ دین کو قائم کرے گا۔ ان کے ذریعے عدل پھیلائے گا۔اور ان کے ذریعے حق کو ظاہر کرے گا۔ اور اللہ ان کے ذریعے دشمنوں کو ذلیل کرے گااور کافروں اور منافقوں کو پست کرے گا۔ اللہ ان کے ذریعے دین کو تازہ اور زندہ کرے گا جیسا کہ اس نے اس کی ابتداء سیدنا محمدۖ کے ہاتھوں کی تھی، تو وہ زمین کو انصاف وعدل سے بھر دے گاجیسا کہ وہ پہلے ظلم و جور سے بھری ہوئی تھی۔ اور اللہ ان کے ذریعے محمدی پرچم کو بلند کرے گااور نبوت کے طرز پر خلافت راشدہ دوبارہ قائم کرے گا۔اور ان کے ذریعے دین کو تمام ادیان پر غالب کردے گا۔ خواہ کافر اس کو ناپسند کریں۔پس یہی مہدی اور اسکے انصار کی وہ صورت ہے جس کی خبر رسول اللہۖ نے دید ی ہے۔

تو جو اس فہم کے موافق ہے وہ اللہ کی طرف سے بصیرت اور نور پر ہے۔ اور جو اس کا انکار کرے یا تکبر کرے تو وہ خیر سے محروم ہوا اور دور کی گمراہی میں جاپڑا ۔ اور جو یہ گمان کرے کہ مہدی آئے گا تاکہ اس کے مذہب کو قائم کرے یا اسکے فرقے کی نصرت کرے یا اس کے شیخ کو مقدس بنائے تو وہ وہم میں پڑا اور خطا کی اور دور کی گمراہی میں جاپڑا ۔

پس مہدی کا کوئی محدود مذہب ہوگا ، نہ کوئی مخصوص مسلک ، نہ مخصوص مشرب، نہ مخصوص طریقہ اور نہ مخصوص جماعت۔ بلکہ وہ کتاب وسنت پر ہوگا۔اور اس طریقے پر ہوگا جس طریقے پر سلف صالحین تھے۔ بغیر کسی فرقہ پرستی ، مقلدانہ تعصب اور کسی خواہش کی پیروی کے۔ وہ حق کو جہاں پائے گا لے لے گااور باطل کو جہاں دیکھے گا رد کردے گا اور دین خدا کے معاملے میں کسی کی رعایت نہ کرے گا۔خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ پس وہ بصیرت، عدل اور حق پر ہوگا ، نبوی طریقہ سیرت محمدی پر ہوگا۔

اور جو شخص ایسا مہدی چاہتا ہے جو اس کی خواہشات کے مطابق ہو ، اس کی امیدوں کی تصدیق کرے اور اس کے دیکھے ہوئے کو درست سمجھے تو اس کو چاہیے کہ اپنی ذات کا جائزہ لے، اس سے پہلے کہ حقیقت اس کو صدمہ دے کیونکہ مہدی ان تمام تصورات کے خلاف آئے گا جو لوگ اپنے ذہنوں میں بنائے بیٹھے ہیںاور وہ ان سب وہموں ، ظاہر پرستیوں اور رسم ورواج کو ڈھا دے گا جو لوگوں نے تعمیر کررکھا ہے۔ وہ اللہ کے دین کو اس طرح قائم کرے گا جیسے وہ نازل ہوا تھا۔پاک وصاف ، بغیر کسی زیبائش کے ، بغیر کسی تحریف اور بغیر کسی تبدیلی کے۔

اور اسی وجہ سے اسکے سب سے بڑے دشمن وہ لوگ ہوں گے جوآج اس کی نصرت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اور اس کے ظہور کے وقت وہی لوگ سب سے زیادہ دشمن ہوں گے۔ کیونکہ وہ ان کے مفادات کو مسمار کرے گا۔ان کے باطل مذاہب کو بگاڑ دے گا اور لوگوں کو ان کی خواہشات کے اندھیروں سے نکال کر حق کے نور کی طرف لے جائے گا۔

 

اور وہ لوگوں کو قرآن کے میزان کی طرف واپس بلائے گا

نہ کہ فقہائ، ائمہ ، مذاہب،رسم ورواج اور عادتوں کے میزان کی طرف۔ اس کے نزدیک میزان صرف اللہ کی کتاب اور اسکے نبی ۖ کی سنت ہوگی۔ نہ کہ وہ جو لوگوں نے بعد میں بنایا ۔اور وہ حق کو قائم کرے گا اور باطل کو گرادے گا۔ فاسد فکر کو مسمار کرے گا اور اس مقدس جھوٹ کو باطل کرے گا جس کی لوگ عبادت کررہے تھے اور ان کو اس کا شعور تک نہیں تھا۔

کیونکہ مہدی حق کے معاملے میں کسی کی خوشامد نہیں کرے گا۔اللہ کے معاملہ میں کسی کا لحاظ نہیں کرے گا۔اور دین کے بدلے میں کسی کو خوش نہیں کرے گا۔اور مہدی ایسا شخص ہوگا جو اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرے گا۔ کسی بڑے بوڑھے کی پرواہ کرے گا اور نہ کسی جلیل القدر عالم کی رعایت کرے گا۔نہ کسی طاقتور امیر کی پرواہ کرے گا ۔ جب باطل اسکے راستے میں آئے گا تو وہ اسے کچل ڈالے گا۔جڑسے ختم کردے گا ،اس کی پرواہ نہیں کرے گا کہ کون ناراض ہوتا ہے اور کون راضی۔

اور بہت کچھ بدلے گا جس کے لوگ عادی ہوچکے ہیں اور جو انہوں نے نسل درنسل وراثت میں لیا ہے۔اور وہ وہی چیز برپا کرے گا جو اللہ کو پسند ہے۔اور وہی چیز قائم کرے گا جو اللہ نے چاہی۔نہ کہ جو لوگوں نے چاہی جو انہیں آبا واجداد سے وراثت میں ملی ۔ پس وہ جھوٹے فکری ڈھانچے کو گرا دے گا، باطل بنیادوں کو مٹادے گا۔ اور ہر اس چیز کو باطل قرار دے گا جو قرآن وسنت اور اس دین عظیم کے خلاف ہو۔لہٰذا کوئی یہ گمان نہ کرے کہ کسی خاص مکتب فکر کو قائم کرنے آئے گایا کسی مدرسے کی تائید کرے گا۔یا کسی گروہ کو دوسرے گروہ پر ترجیح دے گا۔ یہ سب اس کے ہاتھوں ختم ہوجائے گا۔یہ ساری انسانی بنیادیں اس کے دور میں گر پڑیں گی اور وہ ایسا دین تعمیر کرے گا جو خالص اور پاک ہوگا جیسا کہ محمدۖ کے دل پر نازل ہوا تھااور وہ قرآن کو ہی حکم ، حاکم اورلوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے والا بنائے گا۔ فقہ کی کتابیں لپیٹ دی جائیں گی اور علماء اور ائمہ کی باتیں نظر انداز کردی جائیں گی۔سوائے اس کے جو قرآن وسنت کے موافق ہو۔تو دین نیا اور خالص ہوجائے گا۔ اس میں نہ کوئی انسانی واہمہ ہوگا ، نہ کمزوروں کی تفسیریں،نہ عاجز لوگوں کی اجتہادی کوششیں۔ اور مہدی کو قلب کی فتوحات ، روح کے اسرار ، معانی کی معرفتیں حاصل ہوں گی۔اس کے پاس لدنی علم ہوگا جو اس نے کسی سے وراثت میں نہیں لیا ہوگا ، نہ کسی شیخ سے سیکھا ہوگا،نہ کسی کتاب سے پڑھا ہوگا۔بلکہ اللہ کے دوازے سے اس پر براہِ رست کھلا ہوگا۔

 

پس وہ اللہ کے نور سے دیکھے گا، اللہ کے نور سے سنے گا

اللہ کے نور سے سمجھے گااور حق کیساتھ ایسے کلام کرے گا جیسے کہ وہ اللہ کے نزدیک ہے ۔ نہ کہ جیسے لوگ اپنے گمانوں اور خیالوں میں رکھتے ہیں۔ پس وہ لوگوں کو دین کی حقیقتوں کی بشارت دے گا، سنت کی نشانیاں ظاہر کرے گا ، ہر بدعت کو باطل کرے گا۔اور قرآن کے چہرے سے غلط تفسیر اور فاسد تاویل کے پردے ہٹادے گا۔ اور وہ مجدد دین میں سب سے عظیم اور مجدّدین کا خاتمہ ہوگااور جو اس کے بعد آئیں گے وہ اسکے راستے اور نور پر ہوں گے۔ نہ کہ کسی مستقل اجتہاد پر ، پس وہ اصل ہوگا اور باقی سب اس کی شاخیں ہوں گی۔اور وہ قرآن کی تاویل پر قتال کرے گا جیسے رسول اللہ ۖ نے اس کی تنزیل پر قتال کیا تھا۔ اور وہ مردہ سنتوں کو زندہ کرے گا اور زندہ بدعتوں کو مٹادے گا۔ اسکے سب سے بڑے دشمن علماء سوئ، ریا کار فقہائ، جاہل صوفیاء اور ظالم امراء ہونگے ، یہی تو وہ لوگ ہوں گے جو اس سے لڑیں گے۔اس کو جھٹلائیں گے اور اس پر جھوٹ باندھیں گے۔جیسے پچھلی امتوں نے اپنے انبیاء کے ساتھ کیا تھا۔

اورنہ اس کے پاس سند ہوگی ، نہ کسی شیخ کی اجازت
نہ کسی مدرسے کی تصدیق، نہ کسی سلطان کا منصب بلکہ وہ صرف اللہ کا بندہ ہوگا ، قرآن کا مدد گار، سنت کا حامل اور دین کا مجدداور وہ حکومت اور طاقت سے دُور ہوگا ،دنیا اور اسکی زینت سے کنارہ کش، اسکے مال اور مرتبے سے زاہد، اسے کسی تعریف کرنے والے کی تعریف کی پرواہ ہوگی ،نہ مذمت کرنے والے کی مذمت کا غم ہوگا، نہ شہرت کی طلب ، نہ اتباع جمع کرنے کی خواہش بلکہ وہ اپنے ملک میں اجنبی کی طرح ہوگا، اپنی قوم میں غیر کی طرح،ابتداء میں اسے کوئی نہ پہچانے گا مگر اولیاء اورعارفین۔

پھر اللہ اسے مخلوق پر ظاہر کرے گا، اس کاراز عالمین پر آشکار کرے گا
اللہ اس کی زبردست نصرت فرمائے گا،اس کیلئے زمین میں کلمہ علیا بنائے گا،اسکے ذریعے جابروں کی گردنیں جھکائے گا،کافروں منافقوں کو ذلیل کرے گا،اسلام کی عظمت اور دین کی عزت کو واپس لوٹائے گا۔ اور زمین میں اس کا سب سے بڑا مقام ہو گا جیسا انبیاء کا ہوا کرتا تھا۔اور وہ اولیاء کا امیر ہوگا ، اقطاب کا قطب ،نبوت کے اسرار کا وارث،مجددین کا خاتم،اسکے بعد کوئی بھی اس طرح کی تجدد نہ کرے گا بلکہ لوگ اسکے اثر اور طریقے پر ہوں گے،اس کی اقتداء کریں گے اور اسکے نور پر چلیں گے اور اس کی روحانی فتح بادشاہوںاور سلطانوں سے عظیم ہوگی۔……الخ

 


قناة السرالاعظم (ترجمہ) مہدی منتظر : پوشیدگی کا مرحلہ

 

لیکن دیکھو اے مہدی!

تم یہاں ہو، ابھی بھی سانس لے رہے ہو! ابھی بھی لڑ رہے ہو!۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ کے پاس تمہارے لیے کچھ محفوظ ہے!۔وہ لوگ جن کا کوئی مقصد نہیں ہوتا، ایسی شدید جنگوں سے نہیں گزرتے۔تمہارے ایمان کو آزمایا گیا، تمہاری شخصیت نکھری، تمہاری مزاحمت تیار ہوئی، ہر وہ دھوکہ جو تم نے سہا۔اس نے تمہارے اندر ایک جذباتی قوت پیدا کی جو عام لوگوں کے پاس نہیں ہوتی۔لوگوں کی ہر سختی سے کی گئی نفی نے تمہارے اندر اللہ پر بھروسا اور یقین کو مضبوط کیا۔

اے امام!

جب اللہ نے تمہیں عظیم مشن سے قبل خاموشی میں شک میں ڈالااور عام ظہور کے مرحلے سے پہلے، تجلی سے پہلے پوشیدگی کی ایک مدت ہوتی ہے۔شاید تم اس وقت بالکل اسی مرحلے میں ہو، یہ اللہ کی طرف سے تمہارا امتحان ہے۔اللہ کی طرف سے تمہاری آزمائش سزا نہیں ہے اور نہ ہی بھول جانے کی علامت، بلکہ یہ ایک تربیتی میدان ہے۔یہ ایک خفیہ مقام ہے، جہاں وہ تمہاری روح کی جڑوں میں کام کرتا ہے، داد و تحسین سے دوراور جھوٹی تعریفوں اور مادی و دنیوی موازنوں سے ہٹ کر۔

اے امام!

تم اپنی زندگی کو دیکھتے ہو، سوچتے ہو اور کہتے ہو: ”میرا وقت ابھی تک کیوں نہیں آیا؟۔کیا میں یونہی نظر انداز رہوں گا! کوئی مجھے کیوں نہیں دیکھتا یا میری قدر کیوں نہیں پہچانتا!”لیکن آسمان تمہیں دیکھ رہا ہے اور کہتا ہے: ”میں ایک ایسی چیز تخلیق کر رہا ہوں، جسے دیکھنے کیلئے دنیا ابھی تیار نہیں”۔اللہ پردے میں کام کرتا ہے، آسمان کو اپنی عظیم ترین معجزات کے اظہار کے لیے مجمع کی ضرورت نہیں ہوتی۔جب تم یہ سمجھ رہے ہوتے ہو کہ تم رکے ہوئے ہو، تب آسمان پردے کے پیچھے سب کچھ حرکت دے رہا ہوتا ہے۔تمہاری شخصیت تمہارے اندر صلاحیتوں اور مہارتوں کو تیار کر رہی ہوتی ہے۔آسمان تمہیں مناسب وقت کیلئے تیار کر رہا ہے، پردہ داری اور ظہور کے درمیان فرق کو نہ ملاؤ۔اللہ کی خاموشی غیر موجودگی نہیں ہوتی، بلکہ یہ تعمیر کا عمل ہے، یہ حفاظت کا مطلب رکھتی ہے۔

اے مہدی! تمہاری پردہ داری میں ایک ربانی مقصد پوشیدہ ہے۔

اللہ تمہیں ان معرکوں سے محفوظ رکھتا ہے جن کیلئے تم ابھی تیار نہیں ہو!
اللہ تمہارے جلد ظاہر ہونے کو روکتا ہے کیونکہ وہ تمہیں جذباتی اور روحانی طور پر تباہ کر سکتا ہے!۔پردہ داری کا وقت سیکھنے، عبادات میں گہرائی پیدا کرنے اور قرآن کی معرفت حاصل کرنے کا وقت ہے۔اور روحانی نظم و ضبط، کیونکہ جب ظہور کا وقت آئے گا تو تمہارے پاس سیکھنے کا وقت نہیں ہوگا۔تمہارا سارا وقت صرف کام کیلئے مخصوص ہوگا۔

سنو! اگر تم اس لمحے میں سانس لے رہے ہو تو اس کا مطلب ہے کہ آسمان ابھی تک، آسمان کے پاس تمہارے لیے ابھی بھی منصوبے ہیں اور یہ پردہ ختم ہو جائے گا، مگر جب تک پردہ قائم ہے۔ہر لمحے کو اپنی نشوونما اور تیاری کیلئے استعمال کرو، کیونکہ بہت جلداللہ تمہیں اندھیرے کنویں سے باہر نکلنے کیلئے بلائے گااور دنیا دیکھے گی کہ آسمان کیا چھپا رہا تھا۔جو کچھ آسمان نے پوشیدگی میں تیار کیا، وہ آزمائشیں تمہارے لیے تربیتی میدان تھیں۔

اے امام، تم قریب ماضی کی طرف دیکھ سکتے ہو اور ان راتوں کو یاد کر سکتے ہو۔جن میں تم روئے یہاں تک کہ سو گئے، وہ لمحات جن میں لگا کہ کوئی راستہ نہیں، اور یہ کہ ہرچیز بکھر رہی ہے۔کچھ لوگ جن سے تم نے سچے دل سے محبت کی، انہوں نے تمہیں ٹھکرا دیا۔ وہ دروازے جنہیں تم نے سمجھا تھا کہ وہ کھلیں گے۔وہ زور سے بند ہو گئے، دوستیوں کا خاتمہ ہو گیا، خواب مرنے لگے اس سے پہلے کہ وہ پیدا ہوں۔اور ان سب کے بیچ تم نے خود سے پوچھا: یہ سب کچھ میرے ساتھ ہی کیوں ہو رہا ہے؟۔سن لو، ہر آنسو جو تم سے بہا، ہر ذلت، ہر درد، ہر نقصان یہ سب تمہاری روحانی تشکیل کا ایک باب تھا، جو تمہیں شکستوں کا سلسلہ لگ رہا تھاوہ دراصل تمہارے لیے اللہ کی طرف سے تربیت کا میدان تھا، اللہ نے کچھ خاص معرکوں کی اجازت دی۔اسلئے نہیں کہ تمہیں تباہ کرے بلکہ تاکہ تمہیں تیار کرے۔تمہارے ایمان کو آزمایا گیا، تمہاری شخصیت کو نکھارا گیا، تمہاری مزاحمت کو مضبوط کیا گیا، ہر وہ خیانت جسے تم نے سہا۔اس نے تمہیں ایک جذباتی قوت بخشی جو عام لوگوں کے پاس نہیں ہوتی۔ہر سخت انکار نے تمہارے اندر اللہ پر اعتماد اور توکل کو مضبوط کیا۔ہر نقصان جو تم نے اُٹھایا، اُس نے تمہیں یہ سکھایا کہ اصل میں کیا چیز اہم ہے۔تم زندگی کے ہاتھوں شکست خوردہ نہیں ہو! تم کامیاب ہو، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر، تم تربیت میں مصروف ایک جنگجو ہو۔کتنی بار تم نے سوچا کہ اب برداشت نہیں ہوگا، کتنی بار تم نے ہار ماننے کا سوچا؟لیکن دیکھو اے مہدی! تم ابھی تک یہاں ہو، تم اب بھی سانس لے رہے ہو! تم اب بھی لڑ رہے ہو!۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کے پاس تمہارے لیے کچھ محفوظ ہے۔جن لوگوں کا کوئی مقصد نہیں ہوتا، وہ ایسی سخت جنگوں سے نہیں گزرتے۔وہ لڑائیاں جن کا تم نے سامنا کیا، اس بات کا ثبوت ہیں کہ آسمان تمہیں خفیہ طور پر کسی عظیم چیز کیلئے تیار کر رہا ہے۔لہٰذا آج کا دن ہے کہ تم اپنے نقطۂ نظر کو بدلو، اپنے زخموں کو ناکامی کی علامت سمجھنا بند کرو۔ان پر روحانی بقا کے آلات کے طور پر نظر ڈالو، ہر وہ درد جس پر تم نے قابو پایا، وہ اللہ کی طرف سے اس بات کی گواہی ہے کہ اللہ تمہارے ساتھ تھا اور رہے گا۔

میں ہمیشہ یہی چاہتا ہوں کہ میں آپ کے حسنِ ظن پر پورا اتروں۔اگر آپ نے میرے بارے میں اچھا گمان رکھا ہے، تو میری ویڈیوز کو پسند کر کے اسے ثابت کریں۔اللہ کے رحم میں رہیں، اور آپ پر سلامتی، اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جولائی 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مہدی منتظر: ایک نوجوان سے جو نہ اپنا کوئی ماضی جانتا ہے ، نہ اس کے پاس کوئی ظاہری دلیل ہے نہ کوئی شیخ ہے نہ اُستاذ، ایک ایسے مرد تک جو دنیا کو بدل دیتا ہے (عنوان کا ترجمہ)

یوٹیوب چینل :عنقاء مغرب

ضروری نوٹ:عربی میں بہت سارے چینل امام مہدی کی حقیقت کتابوں کی روشنی میں اور خوابوں سے بتاتے ہیں۔اب چیٹ GPT وغیرہ سے عربی کا ترجمہ بھی آسان ہے۔شیعہ سمجھ رہا ہے کہ مہدی غائب کا ظہور ہوگا اور سنی سمجھتا ہے کہ گھوڑا سوار نکلے گا۔ اس شخص کی یہ گیارویں ویڈیو ہے۔ اس سے پہلے کی ویڈیوز میں بھی بہت سارے حقائق ہیں۔ اس ویڈیو سے 4دن پہلے کا عنوان ہے ” مہدی منتظر کے وہ کیا گنا ہ ہیں جس کی وجہ سے اصلاح کی رات یعنی انقلاب میں تأخیر ہورہی ہے؟۔ اور اس پر تہمت کیوں لگائی جاتی ہے؟۔اور مہدی نے شیاطین کو کس طرح سے دھوکہ دیا”۔ اس کے کچھ اقتباسات ملاحظہ فرمائیں۔

شیخ محی الدین ابن عربی فرماتے ہیں: اس کے کئی نام ہیں۔ معروف بھی اور غیر معروف بھی۔ محققین کے درمیان وہ خود محقق ہے لیکن اس کو چوروں کے درمیان تلاش کیا جاتا ہے۔ اس سے نجباء بیعت کرتے ہیں ابدال اس کی نصرت کرتے ہیںاور ایک جماعت اس کی مددگار ہے…

اس کا معاملہ روشن سورج سے بھی زیادہ واضح ہوتاہے۔وہ اپنے مقام شمشیری سے ظاہر ہوتا ہے مگر روحانی مقام سے مخفی رہتا ہے۔کبھی تم پسند کروگے اور کبھی نفرت کروگے۔کبھی تم اس کی تعظیم کروگے اور کبھی اس سے لاتعلقی ظاہر کروگے۔کبھی تم اس کا اشتیاق کروگے اور کبھی چاہوگے کہ پاس نہ ہو۔ اسلئے اس کی سیرت اور احوال نے اصلاح سے پہلے اولیاء اور علماء کو حیران کررکھا ہے۔ پس اے عزیزو! امام مہدی کی احوال میں عجیب کیفیت ہے۔ وہ خواہش،گناہ اور جذب کی حالتوں میں الٹ پھیرسے گزرتا ہے۔تو مہدی کے گہرے ابتلاء کا راز کیا ہے؟۔

لوگ ایسا مہدی چاہتے ہیں جو ابتداء سے پاک ہو، انبیاء کی طرح معصوم ، خواہش، گناہ، شک اور کمزوری سے خالی ہو لیکن اللہ کی سنت ایسی نہیں ، مہدی ابتلاء کے مقام سے بالاتر نہیں بلکہ ابتلاء کا مرکزہے۔

جس نے یہ نہیں جانا کہ مہدی گمراہی ، ضیاع اور خواہش سے گزرتا ہے اس نے اللہ کے چناؤ کی پہلی شرط کا انکار کیا۔اور شرط یہ ہے کہ انسان کو ٹکڑے ٹکڑے کیا جاتا ہے۔یہاں تک اس میں کوئی چیز بھی اصلاح کے قابل نہیں رہتی۔ پھر اس کو اللہ کی نگاہ میں نئے سرے سے پیدا کیا جاتا ہے۔مہدی ہر انسان کی طرح پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے دل میں ایک اضطراب ہوتا ہے۔جو کسی اور سے مشابہت نہیں رکھتا۔ اس پر ایک ایسی قوت مسلط کی جاتی ہے جو اس میں شہوت کو بیدار کرتی ہے، نہ صرف جسمانی بلکہ وجودی معنی میں بھی۔تجربے کی محبت،احساسات کی خواہش،زندگی میں موجود ہر خطرناک ذائقے کا شدید ذوق۔

وہ خواہش میں مبتلا ہوجاتا ہے یہاں تک کہ وہ اس میں داخل ہوتا ہے ، چکھتا ہے۔ گرتا ہے اور بار بار گرتا ہے۔پھر وہ دوبارہ گرتا ہے اور محسوس کرتا ہے کہ وہ بائیں جانب والوں اور خواہش پرستوں میں سے ہے اور سمجھتا ہے کہ اس میں کچھ بھی اللہ کو راضی کرنے والا نہیں ہے۔اس کی زبان اس کو دھوکہ دیتی ہے ، نظریں فاش ہوجاتی ہیںاور مٹی (دنیا) کی طرف اس کا میلان بالکل واضح ہوتا ہے ، تأویل کی ضرورت نہیں۔

لیکن ان سب کے باوجود اسکے اندر کچھ بجھتا نہیں ۔اسکے دل میں ایک روشن نقطہ ہوتا ہے جو کبھی نہیں مرتا، خواہ خواہش غالب آجائے۔گویا خواہش اس کو جلاتی نہیں پاک کرتی ہے۔گویا جو آگ اسے کھاتی ہے وہ اسے فنا نہیں کرتی بلکہ دوبارہ ڈھالتی ہے۔وہ جذب کی حالت میں ہوتا ہے بغیر جانے کیونکہ خواہش انجام نہیں بلکہ ابتداء ہوتی ہے امتحان کی۔

اس کی کچھ خاص نشانیاں ہیں جو بصیرت والے سے پوشیدہ نہیں ۔ جن میں یہ ہے کہ وہ مکہ مکرمہ سے نکلے گا اور مدینہ منورہ جائے گا ، جہاں اہل مدینہ اس کی بیعت کریں گے۔ اسکے پاس ہر دور دراز سے مخلص اور امین لوگ ہوں گے جو دین کی حمایت اور عدل کو قائم کرنے کیلئے اس کے ساتھ چلیں گے۔ وہ ظالموں اور فساد پھیلانے والوں سے لڑے گا۔ ظالموں کی بالادستی ختم کرے گا۔ زمین پر عدل اور امن قائم کرے گا۔ غربت اور جہالت کا خاتمہ اور مسلمانوں میں اتحاد کا پرچم بلند کرے گا۔ اسکے دور میں علم وثقافت میں ترقی ہوگی ۔ہر حقدار کو ا سکا حق دیا جائیگا۔ انسانی حقوق اور عزت کا احترام ۔ دین محبت، اخوت، برداشت،رحمت اور عدل پر قائم ہوگا۔ جس میں تعصب اور نفرت کی کوئی جگہ نہیں ہوگی۔

اللہ اس کو وسیع موقع عطا کرے گا کہ وہ حکمت اور اچھی نصیحت سے لوگوں کو دین کی دعوت دے، اسکا اثر لوگوں کے دلوں پر گہرا ہوگا۔ وہ صالح علمائ، اولیاء اور مخلص لوگوں کی حمایت حاصل کرے گا جو اس کی عظیم ذمہ داری میں مدد کریں گے۔ لوگوں کے دلوں میں جگہ ہوگی اور دنیا میں اس کی بڑی اہمیت ہوگی۔ وہ ہر آزمائش اور رکاوٹ کے باوجود اپنی راہ پر گامزن رہے گا۔اللہ پر توکل کرے گا صبر و شکر کیساتھ۔نماز و ذکر سے مدد لے گا۔ وہ لوگوں کو ایمان کا اصل معنی سکھائے گا۔سنت نبوی کو زندہ کرے گا۔اللہ کے بندوں کیساتھ عہد کو تازہ کرے گا۔ اللہ کے نزدیک اس کا اجر عظیم ہوگا اور اس کا ذکر زمین وآسمان میں بلند ہوگا۔ وہ لوگوں کو اللہ کی یکتائی پر بلائے گا اور شرک وبدعت سے دور رہنے کی دعوت دے گا۔تاکہ دین صرف اللہ کیلئے خالص ہو۔ وہ غلو اور انتہا پسندی کے نقصانات سے آگاہ کرے گا۔اور دین و دنیا میں اعتدال اور وسطیت کی تلقین کرے گا۔ وہ بکھرے ہوئے دلوں کو جوڑے گا مختلف گروہوں کے درمیان صلح کرائے گا۔ نزاعات کو ختم کرے گا جو امت کی کمزوری کا باعث بنے۔ اس کی دنیا کے بادشاہوں کے سامنے بڑی عزت ہوگی۔ کوئی بھی اس کی مخالفت یا کام کو روکنے کی جرأت نہیں کرے گا۔ اس کی بات نافذ العمل ہوگی کہ اس کا حکم لازمی ہوگا۔ لوگ اس کی سچائی اور اثر کی وجہ سے خوش دلی سے پیروی کریں گے۔وہ عدل اور انصاف کی حکومت قائم کرے گا۔ جہاں الٰہی قانون اور رحمت حکرانی کرینگے۔اللہ تعالیٰ اس کیلئے رزق و خیر کے دورازے کھولے گا جس سے ملکوں میں امن و خوشحالی ہوگی۔زراعت، صنعت اور تجارت ترقی کریں گی۔ …

وہ لوگوں کے درمیان دیواریں ختم کرے گا تاکہ سب امن و آشتی کیساتھ رہیں۔ کمزوروں، مظلوموں کو عزت دے گا۔انکے چھینے ہوئے حقوق واپس دلائے گا۔ وہ سخاوت وایثار کو فروغ دے گا۔ تاکہ لوگ مضبوط بندھن کی طرح بندھ جائیں۔ وہ دشمنوں کے درمیان صلح کرائے گا، دلوں کو محبت کی طرف لوٹائے گا۔لوگوں کو نفسیاتی اور روحانی قیدوں سے آزاد کرے گا۔جو ان کی ترقی میں رکاوٹ ہیں۔ وہ خیر اور رزق کے دروازے کھولے گا جس سے خوشحالی اور برکت عام ہوجائے گی۔ وہ لوگوں کے دلوں میں امید جگائے گا اور زندگی کو سب کیلئے بہتر بنائے گا۔ وہ روحانی ، علمی اور سماجی ترقی کا نیا دور شروع کرے گا۔ وہ خدا کی حکمت کو کائنات کے انتظام اور انسانیت میں واضح کرے گا۔ …..

وہ اعلیٰ اقدار کو زندہ کرے گا اور معاشرہ اخلاقی نمونہ بن جائے گا۔ محبت ، برداشت اور تعاون کی روح کو مضبوط کرے گا ۔ وہ حق کو باطل پر فتح دے گا اور ہرجگہ امن پھیل جائے گا ۔ وہ صبر اور ثابت قدمی سکھائے گا تاکہ مشکلات اور آزمائشوں کا سامنا کرتے ہوئے ان کی طاقت اور حوصلہ بڑھ جائے۔ وہ امت مسلمہ کی وحدت کو ممکن بنائے گا جس سے مسلمان ایک دوسرے کیساتھ صلح اور ہاتھوں ہاتھ کام کریںگے۔ وہ اسلامی عظمت کو دوبارہ زندہ اور امت کو بلندیوں کی طرف لے جائے گا وہ ہرریاست اور معاشرے میں عدل اور رحم کے اصول قائم کرے گا۔وہ ماحول اور قدرتی وسائل کا تحفظ کرے گا تاکہ پوری انسانیت کی خدمت ہو ،وہ مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں کے درمیان مکالمے کی حوصلہ افزائی ہو وہ خاندان اور معاشرے میں اخلاقی اقدار کو مضبوط کرے گا۔

(ایک اور عربی چینل ”غراب الغرابة ”کا عنوان( 3جون) ہے کہ ”یہ کیسے ممکن ہے کہ مہدی ایک عمر لوگوں میں گزارے اور اس کو خبر نہیں ہو کہ وہ مہدی حقیقی ہے؟۔ ابن عربی اس پر مہدی کی آنکھ کھولتا ہے”۔ کہ کس طرح تقدیر الٰہی نے ایک عرصہ تک مہدی پر یہ راز نہیں کھولا تاکہ اس میں اور لوگوں میںظرف پیدا ہو ۔قرآن میں اللہ نے فرمایاکہ ” کسی بشر کیلئے یہ ممکن نہیں کہ اس سے اللہ بات کرے مگروحی سے یا پردے کے پیچھے….(الشوریٰ:51)اس حجاب کے الفاظ کے پیچھے مہدی کا راز ہے اور اللہ احادیث کی پیش گوئی کو ایک شخص کے ذریعے پورا کرے گا۔ کچھ اقوال میں واضح ہے کہ بڑی عمر میں جوان نظر آئے گا۔ اختلافی نقطہ نظر ہے ۔ابن عربی صوفی مہدی کی حقیقت کو کشف سے واضح کرتا ہے ۔

عنقا مغرب چینل

آج کی ہماری قسط کا عنوان ہے: مہدی منتظر، ایسا نوجوان جس کانہ ماضی معلوم ۔نہ تاریخی پس منظر ، نہ نشانیاں، نہ استاد، نہ رہنما، پھر بھی وہ شخص جو دنیا کو بدل دے گاحالانکہ وہ خود نہیں جانتا کہ وہ کون ہے کیونکہ وہ اس سے کہیں بڑا ہے جتنا انسانی زبان میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ انسان کو کیسے پیدا کیا جا سکتاہے کہ وہ دنیا کا میزان ہواور پھر بھی نہ جانتا ہو کہ وہ کون ہے؟وہ دائرے کا مرکز ہو، مگر خود کو کسی لکیر میں نہ پاتا ہو۔ اسکے وجود میں ساری کتابوں کا راز ہو، لیکن اپنی زندگی کا سب سے سادہ صفحہ بھی سمجھ نہ پاتا ہو۔ عارفین نے اس راز کی طرف اشارہ کیا الفاظ سے نہیں، بلکہ خاموشی سے۔کچھ نے کہا: مہدی وہ ہے جو بظاہر جاہل ہے، مگر دراصل عالم ہے۔ وہ جانتا ہے اسے علم نہیں کہ وہ جانتا ہے۔ وہ اسلئے جاہل ہے کیونکہ وہ خود کو اتنا محدود نہیں کر سکتا جو اس کی حقیقت سے کم ہو! یہ کیسے ممکن ہے؟ وہ ایسا نہیں کہ پہلے سیکھے پھر جانے اور نہ ایسا کہ پہلے جاہل پھر تلاش کرے۔ وہ تو وہ ہے جس میں علم لمحے میں انڈیلا گیا اور پھر بھلا دیا گیاکیونکہ وقت ابھی نہیں آیا تھا۔ مہدی جاہل نہ تھا اسلئے کہ وہ غافل تھا، بلکہ اسلئے کہ خود کو دیکھنے کی سکت نہیں رکھتا تھا۔

جب وہ غور کرتا کہ وہ کون ہے، عجیب خاموشی میں ڈوب جاتا۔ وہ اپنے اندر کی بات کو بیان کرنا چاہتا زبان ساتھ چھوڑ دیتی۔ وہ کچھ سمجھنے کی کوشش کرتا، اسے یہ معلوم ہو جاتا کہ وہ سمجھ نہیں سکتا۔ وہ خود اپنی ذات سے چھپا ہوا تھا، یہاں تک کہ جب اس نے خود کو پہچاننا چاہاتو اس پر وہ انکشاف ہوا جو عام طور پر نہیں ہوتا۔ وہ اپنی ذات پر اسی طرح حیران رہ گیا جیسے مخلوق اس پر حیران رہ جاتی ہے۔ یہ نوجوان،جس نے گمان کیا کہ وہ گم ہو چکا ، درحقیقت گم نہیں تھا ۔وہ تو ایسے سمندر میں غرق تھا جسے وہ جانتا نہیں تھا۔ وہ اپنے اندر ایسی چیز محسوس کرتا تھاجو زمینی حقائق سے بڑی تھی اور وہ اس سے بھاگتا تھا کیونکہ اس کا کوئی نام نہ تھا۔ وہ یہ کہنے کی ہمت نہیں کرتا تھا کہ میں ہوں۔وہ خودکو ہر چیز سے بھرا ہوا محسوس کرتا تھا، لیکن بیک وقت ہر چیز سے خالی بھی۔

انسان کیسے تضاد کو برداشت کرے؟ وہ اکیلا بیٹھا رہتا خاموش لیکن اس کا دل آوازوں، نظاروں اور عجیب چمک سے بھرا ہوا ہوتا تھا۔وہ تجربات سے اسلئے گزرتا تھا کہ اسے مہم جوئی کا شوق تھابلکہ اسلئے کہ وہ ایک ایسا آئینہ تلاش کر رہا تھا جس میں وہ خود کو دیکھے لیکن اسے وہ آئینہ نہ کتابوں میں ملا، نہ عشاق میں، نہ فلسفیوں میں، نہ عارفوں میں، نہ راستوں میں، نہ شادی میں، نہ اولاد میں، نہ کسی انسان یا زندگی میں۔ مہدی کیلئے کوئی مثالی شخصیت نہیں، اس دنیا میں کوئی ایسا نہیں جس جیسا وہ بننا چاہے۔یہ اس کا غرور نہیںبلکہ وہ سچ ہے جسے وہ محسوس کرتا ہے۔ اپنا جیسا نظر نہیں آتا، نہ کوئی مثال۔

اس کی تنہائی اور اجنبیت گہری ہے، اس کا ظاہری سبب نہیں۔ جو کچھ اس نے پایا، وہ اپنی ذات تھی لیکن اس کی ذات سب کچھ دیکھنے کے باوجود، خود کو نہیں دیکھ پاتی۔ یہ سارا عذاب اسلئے کہ وہ خود علم ہے، بلکہ اس کی روح تو تمام علوم کا سرچشمہ ہے، مگر وہ خود کو پہچانتا نہیں۔ جو ذات سرچشمہ ہو، وہ خود سے سیراب نہیں ہو سکتی۔جو ذات آئینہ اعظم ہو، اسے آئینے کچھ دکھا نہیں سکتے۔ جو مہدی بننے کیلئے پیدا کیا گیا ، وہ وقت سے پہلے خود کو پہچان نہیں سکتا۔اگر وہ وقت سے پہلے خود کو پہچان لیتا تو دنیا اس پر تنگ ہو جاتی، کیونکہ جو کچھ اسکے اندر ہے وہ صرف اللہ کی حکمت سے ہی برداشت ہو سکتا ہے۔یہی راز ہے اصلاحِ الٰہی کا راز۔ یہ کسی تعلیم کا لمحہ نہیں بلکہ انکشاف کا لمحہ ہے، وہ لمحہ جب معلوم و نامعلوم کے درمیان دیوار گر جاتی ہے اور مہدی خود کو دیکھتا مکمل طور پر، دیکھتا ہے کہ ہر راستے سے گزر چکاہر تجربہ چکھ چکا ہے۔

وہ دیکھتا ہے کہ تنہا بالغ ہو چکا بغیر استاد کے، استاد تو اسکے اندر ہی تھا اور حکمت سکھائی نہیں گئی بلکہ وہ اسکے ساتھ ساتھ پروان چڑھی تھی۔جیسے ہڈی گوشت کے نیچے بڑھتی ہے۔ تبھی وہ جانتا ہے کہ وہ بھٹکا ہوا نہ تھا، بلکہ تیار ہو رہا تھا۔وہ جاہل نہ تھا بلکہ اس کا دل نور سے لبریز تھا جو جلوہ گر ہونے کا منتظر تھا۔ وہ بیتاریخ نہ تھا، بلکہ اس کا ماضی غیب کے خزانوں میں محفوظ راز تھا، جب وہ جان لیتا ہے تو بولتا نہیں کیونکہ جو جانتا، وہ وضاحت نہیں کرتا۔ جو دیکھتا ہے، وہ تشریح نہیں کرتا۔ جو پہنچتا ہے، وہ داد کا طلبگار نہیں ہوتا۔یہی مہدی ہے، اپنی آدھی زندگی جانے بغیر گزاری کہ وہ کون ہے۔پھر معلوم ہوا کہ وہی ہے جسے لوگ ہمیشہ تلاش کرتے آئے۔

وہ کسی کا شاگرد نہیں تھا، کیونکہ وہ معلم بننے کیلئے پیدا ہوا۔وہ شناخت کا طالب نہیں، جب اس نے خود کو پہچانا تو اسے لوگوں کی شناخت کی ضرورت نہ رہی۔یوں اصلاح مکمل ہوئی، اور وہ باہر آیا بغیر اعلان، بغیر شور و غوغا کے۔وہ اس طرح ظاہر ہوا کہ کوئی پہچان نہ سکا، نہ کسی کی پیروی کرتا، نہ کسی پیمانے پر پورا اترتا، نہ کسی لفظ میں سمایا جا سکتا ، نہ کسی وصف میں۔یہ بچہ جسے کسی نے راستہ نہیں دکھایا، مہدی کا سب سے عجیب پہلو یہ ہے کہ کسی نے رہنمائی نہ دی، وہ بغیر رہبر کے تھا۔نہ کوئی شیخ تھا جو کہتا ”یہ ہے حقیقت”، نہ کوئی معلم تھا جو کہتا ”ایسے چلو”۔وہ ایسے گھر میں پیدا ہوا جہاں اعلی جہانوں کی کوئی بازگشت نہ تھی نہ کتابیں، نہ آسمانی نقشے، نہ اشارے، نہ نام، نہ روحانی سلسلے ایک مٹیالی خاموشی کی فضا میں، جو بیابان اور شہر کے درمیان پھیلی ہوئی تھی، ایسی جگہ جو نہ نبی تیار کرتی ہے نہ عارف، مگر یہی مقام سب سے بڑے راز کے حامل کی جائے پیدائش بنے گا۔ وہ بچہ تھا جو دیکھتا تھا مگر بولتا نہیں تھا، سنتا مگر اسے سمجھ نہ پاتا تھا۔ ایسے احساسات رکھتا تھا جو کسی بچے کے دل سے برداشت نہیں ہو سکتے تھے۔

کوئی اسے سمجھ نہ پاتا تھا، وہ خود بھی نہیں جانتا تھا کہ اپنے اندر کی باتوں کو کیسے بیان کرے۔ اس کا اندر سب سے زیادہ زندہ تھا۔اس کی سانسوں میں آنے والی ہوا کا ذائقہ تھا، اس کی آنکھوں کی روشنی میں گونج تھی، وہ دوسروں کا درد محسوس کرتا تھا۔اور یہی ہے عذاب محسوس کرنا جو برداشت نہ ہو، اور کوئی محسوس نہ کرے۔تمام بچے کہانیوں، جھگڑوں، دوڑنے اور ہنسنے میں مشغول تھے، مگر وہ کچھ اور تھا۔ اسے سمجھ نہیں آتا تھا کہ ان جیسا کیسے بنے۔وہ متکبر نہیں تھا، لیکن ان جیسا نہیں تھا۔ اسکے اندر دور کا اجنبی تھا۔ روشنی تھی جو کسی اور جیسی نہیں تھی۔ اس کی تنہائی وہاں شروع ہوتی جہاں کوئی نہ سمجھتااور ختم وہاں ہوتی جہاں وہ خود کو بیان نہ کر پاتا۔اسکے اندر ایک سوال تھا جس کا نام نہ تھا میں کون ہوں؟ کیوں ایسا ہوں؟ اور کیوں اتنا گہرائی سے محسوس کرتا ہوں جبکہ اسی سادہ زمین کا بیٹا ہوں؟میں ایسی باتیں کیسے جانتا ہوں جو میں نے سیکھیں نہیں؟ میرے دل میں یہ نور کس نے رکھا جو مجھے جلا دیتا ہے جب میں نظر انداز کرنے کی کوشش کرتا ہوں؟یوں غمگین، عظمت بھرا، مگر درد سے لبریز بچہ پروان چڑھا۔وہ بچہ جسے وہ حقائق معلوم تھے جو اس نے نہیں سیکھے…جس کے دل میں وہ روشنی رکھی گئی جو جب بھی وہ اسے نظر انداز کرنے کی کوشش کرتا تو وہ جلنے لگتی۔ جو غموں کا پیکر تھا، جو وہ خواب دیکھتا تھا جو کسی نے نہیں دیکھے، اور نیند میں ایسی آوازیں سنتا تھا جن کا کوئی ماخذ معلوم نہ ہوتا۔وہ انسانوں میں چہرے بدلتے دیکھتا، محسوس کرتا کہ اس دنیا کے پیچھے کچھ ہے، مگر اس تک پہنچ نہیں پاتا۔دنیا کا سب کچھ معمولی لگتا، سوائے اسکے دل کے اور کوئی اسے نہیں سکھاتا تھا، نہ اسلئے کہ لوگ علم میں بخیل تھے بلکہ اسلئے کہ کسی کے پاس وہ علم نہ تھا جو وہ تلاش کرتا تھا۔اگر وہ ان سے حکمت پوچھتا، تو وہ اسے مردہ احکام دیدیتے۔ اگر روح کے بارے میں پوچھتا تو خرافات سناتے۔ اگر کہتا کہ وہ وہ کچھ دیکھتا ہے جو دوسروں کو نظر نہیں آتا، تو وہ ہنستے یا ڈرتے یا اس پر الزام لگاتے۔اسلئے اس کا کوئی شیخ نہ تھا۔

ابن عربی نے کہا: ”اسے ایک ایسا علم دیا گیا جسے وہ نہ جانتا ہے اور اسی سے وہ پہچانا نہیں جاتا”۔عارفوں نے کہا: مہدی کا شیخ نہیںکیونکہ وہ خود سب سے بڑا شیخ ہے لیکن وہ خود اس سے بے خبر ہے اور یہی ہے وہ زلزلہ خیز راز کہ انسان روشنی کا منبع ہو اور خود نہ جانے کہ روشنی اسی کے اندر ہے۔وہ چراغ ہو اور روشنی ڈھونڈتا پھرے۔ اگر شیخ مل جاتا تو وہ اسی سے وابستہ ہو جاتا۔ اگر کوئی رہبر ملتا تو وہ اس کی پیروی کرتا۔مگر کوئی بھی اسے راہ دکھانے والا نہ تھا، کیونکہ اس کی راہ کسی نے طے نہیں کی تھی۔ وہ کسی طریقے کا وارث نہ تھا وہ خود راستہ تھا۔وہ ایک ایسا لفظ تھا جو ابھی تک ادا نہیں ہوا تھا۔اسلئے جو کچھ اسے لوگوں سے ملتا، وہ ہمیشہ اس کے احساسات سے کم ہوتا۔جو علم اسے پیش کیا جاتا وہ اس کے دل کی وسعت سے کم تر ہوتا۔ یہی بات اسے بچپن میں سب سے زیادہ ستاتی تھی کہ اتنا جانتا تھا پھر بھی ”جاہل” تھا۔ اس میں تضادات جمع تھے ،وہ بنا کسی ذریعے کے جانتا، بغیر کسی وضاحت کے تکلیف میں ہوتا، اور اللہ کی طرف تڑپتا، بغیر اس کے کہ یہ کیسے کہا جائے۔اسی لیے وہ اکثر خاموش رہتا، دیکھتا رہتا اور اسکے دل میں ہمیشہ یہ سوال ہوتا:میں پاگل ہوں یا سب لوگ سوئے ہیں؟اسے یہ معلوم نہ تھا کہ ماضی و مستقبل کا سارا علم اسکے دل سے پھوٹے گا۔

اسے یہ معلوم نہ تھا کہ آج کی اس کی حیرانی ہی کل اس کی حکمت کا راز ہوگی۔وہ بس اتنا جانتا تھا کہ وہ محسوس کرتا ہے اور یہ کہ اسکے احساس کو کوئی اور نہیں سمجھتا۔ اسلئے وہ تنہا چلتا تھا، تنہا غلطیاں کرتا، تنہا روتا اور تنہا سنبھلتا۔ابن عربی نے کہا: ”اس کی تربیت الٰہی تائید سے ہوتی ہے، نہ کہ کسی شیخ کی اطاعت سے”۔یہی عجیب بات تھی جبکہ لوگ تقلید سے سیکھتے ہیں، وہ تنہائی سے سیکھتا تھا۔ دوسروں کی تربیت مشائخ کرتے ہیں، وہ دکھ اور آزمائش سے تربیت پاتا ہے۔اس کا مدرسہ آزمائش، اس کا شیخ رات، اس کا استاد صبر، اس کی کتاب خلوت تھی۔وہ بڑا ہوگا تو سمجھے گا کہ گمراہ ہے، حالانکہ درحقیقت وہ سب سے زیادہ ہدایت یافتہ ہوگا اسے لگے گا کہ وہ سب سے آخر میں سمجھا، حالانکہ وہی سب سے پہلے گواہ تھا۔اسے لگے گا کہ وہ کچھ نہیں جانتا، حالانکہ وہی تمام علم کا منبع ہوگا۔

اسی طرح اللہ مہدی کی تیاری کرتا ہے ظاہر میں نہیں بلکہ پوشیدہ تنہائی میں اور حلقہ درس میں نہیں بلکہ چھپے ہوئے آنسوں میں۔وہ آسمان کی طرف فریاد کرتا ہے مگر جانتا نہیں کہ کیا تکلیف ہے۔اسے خود پر حیرت ہے اتنی آزمائش کیوں؟ اتنے تضادات کیوں؟ یہی راز ہے کہ اس کا شیخ نہیںخود شیخ ہے، وہ مکمل ہوتا ہے ، وہ بہت زیادہ محسوس کرتا ہے جتنا کہ جانتا ہے ،یہی اذیت اس کا معلم تھی۔وہ سچائیاں محسوس کرتا ہے جنہیں الفاظ میں نہیں کہا جا سکتا ۔ یہی حالت باوجود تکلیف کے، اس کا راستہ تھا۔بچپن کے اندھیرے میں، جہاں کوئی آواز نہیں تھی جو کچھ سمجھائے، نہ کوئی ہاتھ جو رہنمائی کرے، وہ ایک اور مدار میں جی رہا تھا۔ایسا مدار جہاں وہ زبان کو نہ سمجھتا تھا، مگر مفہوم کو محسوس کرتا تھا۔ وہ لفظ نہ سمجھتا تھا، مگر معنی کو جان لیتا تھا۔ہر بچہ کچھ نہ کچھ دیکھتا ہے، مگر یہ بچہ دیکھتا اور کانپ جاتا تھا، دیکھتا اور جلتا تھا۔نہ اسلئے کہ مناظر خوفناک تھے بلکہ اسلئے کہ اس کی عمر اور انسانوں کی سمجھ سے بڑے تھے۔ فطرتا، اس کا دل وہ کچھ جذب کر لیتا تھا جو الفاظ میں کہا نہیں جاتا۔ جب کوئی آدمی سڑک پر گزرتا، وہ اسکے باطن کا بوجھ محسوس کرتا۔وہ ایک نظر میں جان لیتا کہ وہ زخمی ہے، گناہ گار ہے، یا سچا ہے۔وہ لوگوں کی باتیں سنتا، مگر وہ انکے الفاظ نہیں سنتا تھا بلکہ الفاظ کے پیچھے کی کیفیت سنتا تھا۔ادراک کی ایسی سطح جو اس میں کھل گئی بغیر اجازت، بغیر مشق، بغیر استاد کے۔

جب وہ مدرسہ یا کتاب میں داخل ہوا تو اسے کچھ نیا سیکھنے کو نہ ملا ،نہ اسلئے کہ وہ ناکام تھا، بلکہ اسلئے کہ جو کچھ پڑھایا گیاوہ اس کیلئے بہت معمولی، تنگ اور معمول کا تھا اوراسکے اندر کچھ چیخ رہا تھا ”یہ وہ نہیں جو میں ڈھونڈ رہا ہوں”’ حالانکہ وہ یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ کس چیز کی تلاش میں ہے۔ اسی لئے مہدی جیسا کہ لوگ تصور کرتے ہیں کوئی ذہین بچہ نہیں تھا وہ جسمانی طور پر حاضر مگر باطنی طور پر غائب تھا۔اسکے پاس کوئی دلیل نہ تھی لیکن احساس تھا اور یہی تکلیف دیتا تھا۔ مہدی کا دل، اللہ کی حضوری کی جگہ تھا اور انجانے میں اس کی طرف کھنچتا تھا۔اللہ کے اسما و صفات اس میں اسی طرح کام کرتے جیسے کائنات میں کرتے ہیں وہ وقت سے آگے بڑھا ہوا تھا۔

عارفین نے کہا:مہدی وہ نہیں جو اللہ کو لوگوں کی باتوں سے پہچانتاہے، بلکہ ان میں سے ہے جنہوں نے اللہ کو اس سے پہلے پہچانا کہ اس کا نام سنا ہو۔وہ ان میں سے نہیں جو معرفت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں بلکہ معرفت اسکے دروازے پر بیٹھی منتظر ہوتی ہے کہ وہ اسے اندر سے کھولے۔کیونکہ راز، مہدی کے دل میں ہے ۔ جو چیز اسے سب سے زیادہ تکلیف دیتی ہے، وہ یہ ہے کہ کوئی یہ نہیں سمجھتا کہ وہ کیسا محسوس کرتا ہے۔کوئی اس کی نگاہ کی گہرائی کو نہیں سمجھتا ،کوئی نہیں جانتا کہ جب وہ بچہ کہتا ہے ”میں تھک گیا ہوں” تو اس کا مطلب اسکول یا بھوک یا تنہائی نہیں، بلکہ ہر چیز ہے۔وہ اس بھاری احساس کی بات کر تا ہے جو اسے معلوم نہیں کہاں سے آیا ہے۔اور اس سے بڑی کوئی اذیت اور آزمائش نہیں کہ نہ وہ خود جان سکے کہ اس کے اندر کیا ہے، نہ دنیا اسے سمجھ سکے، اور نہ کوئی اسے جان سکے۔

ابن عربی نے جب مہدی کو بیان کیا، تو وہ بات کہی جو کسی بشر کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی کہ اسے فہم بغیر تعلیم کے عطا ہوتا ہے، علم بغیر طلب کے اور دنیا میں کوئی اس کا مثل نہیں۔اور یہ کہ اس کا مقام خود اس سے بھی چھپا ہوا ہے وہ خود نہیں جانتا کہ وہ کون ہے، اور یہ راز کسی اور کے دل میں نہیں ڈالا گیا۔یہی پراسرار حساسیت، یہ حد سے زیادہ احساس، یہ صلاحیت کہ وہ دنیا کو بغیر کسی واسطے کے سمجھ لے یہی سبب ہے کہ اسے کسی استاد کی ضرورت نہیں۔ مگر اسی وقت یہ بھی اس کا درد ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ وہ جاہل ہے۔اور یہ سب سے حیران کن بات ہے کہ انسان باطنی طور پر سمندر ہو اور پیاسا محسوس کرے، اسرار کا خزینہ ہو اور خود کو خالی جانے۔ایسا لگتا ہے جیسے اللہ نے اس میں نور رکھا، پھر اس پر دروازہ بند کر دیا اور اسے ایک ایسی کنجی دی جو کسی اور چابی سے میل نہیں کھاتی اور اسے ایک ایسا قفل تلاش کرنے پر لگا دیا جو اسے نظر نہیں آتا۔

مہدی بچپن میں نہیں جانتا کہ وہ کون ہے، مگر وہ یہ جانتا ہے کہ وہ یہاں کا نہیں نہ کبھی یہاں سے تھا، نہ کسی اور جگہ سے۔وہ اپنے مقام کو نہیں پہچانتا، مگر وہ محسوس کرتا ہے کہ یہ دنیا اس کا اصل مقام نہیں، نہ آغاز، نہ انجام۔اس کے اندر کچھ ہے جو تڑپتا ہے، مگر نہیں جانتا کہ کس چیز کیلئے تڑپ رہا ہے۔ اسی لیے وہ زندگی میں چلتا ہے ایک حقیقی اجنبیت کیساتھ۔ اور اسی لیے عارفین نے اسے ”اجنبی”کہا۔لوگ اس کے اردگرد باتیں کرتے ہیں، سیکھتے ہیں، ہنستے ہیں مگر اسکے اندر ایک طویل خاموشی ہے، جیسے وہ کسی دور کی پکار کو سن رہا ہو، کسی ایسی چیز کو جو صرف اسی سے متعلق ہو۔کچھ ایسا جسے وہ نہ بیان کر سکتا ہے، نہ خود کیلئے الفاظ دے سکتا ہے۔اسی لیے وہ عجیب لگتا ہے۔ اسی لیے اس کے بارے میں کہا جاتا ہے:یہ بچہ پر اسرار ہے، تنہائی پسند ہے، غیر سماجی ہے۔

مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کا دل بہت زیادہ بھرا ہوا ہے کچھ ایسے سے، جس کا کوئی نام نہیں۔ کیونکہ وہ زیادہ محسوس کرتا ہے، کم جانتا ہے۔ اس کا درد یہ ہے کہ وہ ترجمہ نہیں کر سکتا۔اس کی آنکھوں میں آغاز کی وہ حیرانی ہے، جو کوئی نہیں سمجھ سکتا کیونکہ کوئی اس سے پہلے وہاں نہیں گیا۔یہی بنیادی وجہ ہے کہ اس کا کوئی شیخ نہیں کیونکہ اردگرد کے تمام لوگ ان دروازوں کی کنجیاں رکھتے ہیں، جو اس کیلئے بنے ہی نہیں۔ اس کا دروازہ بند ہے اور اس کی کنجی اسکے صبر، اس کی خلوت اور وقت میں ہے۔

وہ اشتیا ق سے سیکھتا ہے، تلقین سے نہیں۔ وہ یاد سے پروان چڑھتا ہے، ہدایت سے نہیں۔ وہ درد سے بالغ ہوتا ہے، وضاحت سے نہیں۔اور وہ اللہ کے ہاتھوں بڑا ہوتا ہے کسی بندے کے ہاتھوں نہیں۔اور ان راتوں میں جب تھکن غالب آتی ہے اس کے اندر سے کوئی سرگوشی کرتا ہے: ”صبر کر، بعد میں سمجھ آئے گا”۔اور جب وہ غلطی کرتا ہے، تو اسے باہر سے کوئی نہیں ڈانٹتا بلکہ وہ اندر سے ٹوٹ جاتا ہے۔کیونکہ بچپن سے اسکے دل میں میزان ہے جو وزن میں خطا نہیں کرتا چاہے اسے ترازو کے نام بھلے معلوم نہ ہوں۔اسی لیے جب عارفین کہتے ہیں کہ وہ بیک وقت جاہل اور عالم ہے تو ان کا مطلب ظاہری جہالت نہیں بلکہ وہ پردہ مراد ہوتا ہے۔یعنی اپنی ذات کی معرفت سے محجوب ہے، اللہ کی معرفت سے نہیں۔ اور اسے مکمل احساس عطا ہوتا ہے مگر بغیر کسی تعریف کے۔چنانچہ وہ تلاش میں رہتا ہے اور یہی اس کا راستہ ہے۔یہ اس کا احساس ہے نہ کہ اسکے شیوخ۔ اس کا دل ہے، نہ کہ اسکے اساتذہ ۔ اس کی تنہائی ہے، نہ کہ اس کی محفلیں۔یہی چیز ہے جو مہدی کے اندر تعمیر ہوتی ہے کیونکہ جس کے مقدر میں شعلہ ہونا لکھا ہو، اسے چراغ کی ضرورت نہیں ہوتی۔اور جو خود ایک چشمہ ہو، وہ کسی ندی سے نہیں پیتااور جسے رہنما ہونا ہو، وہ خود قیادت نہیں لیتا۔اس کا کوئی شیخ نہیں کیونکہ وہی معنی کی نئی تعریف کرتا ہے۔

یہ شخص ناممکن لگتا ہے ایسوں میں پلا بڑھا جو پڑھنا نہیں جانتے، لیکن اس نے سب کچھ پڑھا۔وہ محدود، حقیر، غیر معروف جگہ پر پروان چڑھا، لیکن وہ اتنا وسیع ہوا کہ پوری دنیا کو سمو لیا۔یہ وہی شخص ہے جس نے چھوٹے گھر سے دنیا کو نگل لیا ۔نہ اس کا باپ تھا، نہ اس کا دادا جیسے ابن عربی نے کہا۔کیا یہ ممکن ہے کہ ایک بچہ، جو غریب گاؤں میں پیدا ہوا ،دنیا کو بدل دے؟کیا یہ قابلِ یقین ہے کہ کوئی ایسا شخص جو کسی شیخ کا شاگرد نہ ہو، کسی ایسی سرزمین پر پیدا ہو جہاں کوئی کتاب موجود نہ ہو ،بڑا ہو کر ہر کتاب کا ماہر بن جائے؟یہ سب کہاں سے آیا؟ اسے کس نے رہنمائی دی؟ کیا اس نے جنات سے سیکھا؟ یا آسمان سے کوئی پوشیدہ آواز راتوں میں راز سکھاتا تھا؟

ابن عربی کہتاہے:”وہ ہر چھوٹی بڑی چیز کا پیچھا کرتا ہے۔ اے لوگو!یہ عام انسان نہیں! وہ اپنے نبی جد ۖ کی مانند دنیا کیلئے رحمت ہے۔ عام مسلمان خاص لوگوں سے پہلے اس پر خوش ہوں گے، جیسا کہ عارفین نے فرمایا۔کیا تم جانتے ہو کہ پہاڑی چٹانوں میں درخت کیسے اُگتے ہیں؟ وہ چٹانوں کو چیرتے ہیں جیسے کوئی دیوانگی ہو۔ ایسی زمین میں پیدا ہوا جو پھل کے قابل نہ تھی مگر ہر پھل اگا دیا۔ ایسے محلے میں جو دنیا سے ناواقف تھا وہ کیسے سب کچھ جاننے والا بن گیا، جبکہ وہ دیر سے ہی گاؤں سے باہر نکلا؟”۔

جیسا کہ ابن عربی نے کہا مہدی اپنادیار چھوڑ دیتاہے، دور کا سفر کرتا ہے۔مختلف زبانیں اورتہذیبوں کا ذائقہ چکھتا ہے، نظریات کا تجزیہ کرتا ہے۔ابن عربی واہمہ میں مبتلا نہیں تھے جب انہوں نے کہا:اس نے ہر راستہ اختیار کیا ،ہر راہی کے برخلاف۔ اور جب انہوں نے کہا: اس کی دیوار انتظار کی کمزور ترین اینٹ تھی۔مہدی کا انتظار عجیب و غریب ہے نہ خلافت کا منتظر ہے اور نہ لقب کا۔ یہ شخصیت خود اپنے بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتا ۔یہاں تک کہ اگر وہ شک میں پڑ جائے، تو یہ نہیں مانتا کہ وہ مہدی ہے۔اگرچہ بہت سی نشانیاں اور علامتیں اس کی طرف اشارہ کرتی ہیں وہ انکار کرتا رہتا ہے، اپنے دل میں۔ لیکن اس کا انتظار گہرا ہے وہ واحد شخص ہے جو صدقِ دل سے منتظر رہا۔وہ ایک طویل سانس لینے والا انسان ہے ۔اس کا صبر عجیب و غریب ہے۔

یہ معمولی نہیں بلکہ کسی اور نوعیت کا صبر ہے اور یہی ابن عربی کا مطلب ہے: اس کی آزمائش شدید ہے اور صبر یقینی۔مہدی نے ہر راستے پر قدم رکھا، ہر مسلک کو اپنایا، ہر مفہوم میں غوطہ لگایا۔یہاں تک کہ ہر طریقے والے یہ سمجھنے لگے کہ وہ انہی میں سے ہے حالانکہ وہ ان میں سے نہیں۔مہدی ہر چھوٹی بات پر بھی نظر رکھتا ہے فعل مضارع میں کہا گیا: وہ رکھتا ہے، نہ کہ رکھا یا رکھے گا اس میں عجیب راز پوشیدہ ہیں۔سب یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ انکے مسلک سے ہے کیونکہ اس نے ان کا تجربہ کیا، ان میں گہرائی سے اترا، ان کیساتھ زندگی گزاری۔ وہ یہ سب کیسے کرتا ؟ یہ سب وقت، یہ سب زندگی کہاں سے ملی؟ کیا اسکے پاس عمر سے بڑھ کر عمریں تھیں؟کیا وہ نیند میں پڑھتا، خاموشی میں سیکھتا، اور تخیل میں تجربات کرتا ،پھر ان سے ایسے واپس آتا گویا جیتا جاگتا ہو؟کیا اسے اپنے ماحول تک محدود ہونا چاہیے تھا؟ ایک غریب بچہ، سادہ گھر سے، جہاں باپ بمشکل رزق مہیا کرتا تھا۔ نہ لائبریری، نہ سفر، نہ جامعات تو پھر وہ دنیا کو کیسے سمجھ گیا؟ یہ عقل کہاں لے گیا؟ دل کہاں سے ملا؟ یہ سوچا گیا کہ وہ اپنے خاندان کی ایک عام سی نقل ہوگا لیکن اس نے انکار کر دیا۔گویا اسکے پاس ایک نقشہ تھا جسے ہم جانتے ہی نہیں، گویا وہ غیر مرئی راستوں پر چلتا تھا، ایسی کتابیں پڑھتا تھا جو چھپی نہیں۔ وہ ایسی روحوں کا دوست تھا جو نظر نہیں آتیں۔

بعض عارفین نے کہا: مہدی کو اس کے عمل سے نہیں پہچانا جاتا، بلکہ اسکے تضاد سے۔ اس نے ابتدا ہی میں وہ تمام انجام پا لیے تھے۔ ابن عربی کہتے ہیں: اس کا آغاز ”ع” عین الیقین اور اس کا اختتام ”ق” قیومی اقتدار سے۔کیا تم یقین کروگے کہ اس نے صوفی، فلسفی، عاشق، عالم، انقلابی، شاعر، خائف، سردار، غلام، حاکم، محکوم، مومن اور موقن سب کی زندگی گزاری؟ایک ہی دل میں یہ سب تجربے جن کی تکمیل میں صدیاں لگتی ہیں اس نے چند سالوں میں سمیٹ لیے۔

گویا خدا نے اس کیلئے وقت کو سمیٹ دیا ۔اسے وہ تجربات دیے جو کوئی بشر برداشت نہیں کر سکتا اذیت دینے کیلئے نہیں بلکہ تیار کرنے کیلئے۔ مہدی عالم نہیں کیونکہ اس نے کتابیں پڑھی ہیں بلکہ اسلئے کہ کتابیں اس کے اندر بستی ہیں۔کہا گیا:وہ پرانے دنوں کاہے حکیم نہیں کیونکہ اس نے حکما ء کی صحبت پائی، بلکہ اسلئے کہ وہ حکمت سے ڈھالا گیا۔وہ منطقی نہیں کیونکہ اس نے منطق پڑھی بلکہ اسلئے کہ اسکے دل میں وہ راستے ہیں جو کبھی لکھے ہی نہیں گئے۔ وہ ہر چیز کا آئینہ ہے مگر کسی چیز سے وابستہ نہیں۔ ہر دیکھنے والا اسے اپنا سمجھتا ہے۔یہ ایک صوفی ہے؟ نہیں یہ انقلابی ہے؟ یا شاید ایک وجودی فلسفی؟ نہیں، بلکہ ایک خواب دیکھنے والا شاعر؟ نہیں، بھائی یہ ایک زبردست عالم ہے۔ بلکہ اجنبی، ایک نیا انسان یہ کون ہے؟ شاید پاگل؟ مقروض؟یہ ایک غریب ہے؟ یا امیر؟ مشہور یا گمنام؟ نہیں یہ عجمی ہے؟ نہیں بلکہ عربی؟ نہیں یہ صرف ”مہدی”ہے۔

کیا تمہیں حیرت نہیں کہ وہ ہر کردار میں ڈھل گیا وہ بچہ جس نے کچھ سیکھا نہیں، مگر سب کچھ ایجاد کر دیا؟اس کے پاس وہ عقل کہاں سے آئی جو اس نے ہر چیز کا تجزیہ کیا، لوگوں کو، کتابوں کو، مکاتب فکر کو؟یہ عقلِ کل اسے کہاں سے ملی اور وہ دل جو ہر ایک کو سمو لیتا ہے بغیر خود کھوئے؟کیا تم نے کبھی ایسا دل دیکھا جو صوفیوں اور سیاستدانوں دونوں کو سمو لے؟کیا تم نے ایسا ذہن دیکھا جو دیوانگی اور ذہانت کو یکجا کر دے؟۔

بس وہی شخص یہ سب کر سکا کیونکہ جیسا ابن عربی نے کہا: اس نے ہر راستہ الٹ چل کر طے کیا، ہلاکتوں میں گرا تاکہ نہ پہچانا جا سکے، نہ گھیر لیا جائے، نہ کسی کی ملاقات ہو ،جب تک ہر تعریف کھو نہ دی جائے۔نہ کسی شیخ کے ذریعے، نہ کسی کتاب ، نہ کسی صحبت سے بلکہ تجربے کے ذریعے۔ہر چیز کو مکمل طور پر آزما کر، وہ سب کچھ بن گیا تاکہ کچھ بھی نہ بنے۔اس نے ہر مکتب فکر کو جانا، پھر ان سے الگ ہو ا،ہر وابستگی کو چکھا، پھر آزاد ہو ا۔یہی وہ واحد راستہ تھا جس سے وہ اس قابل بن سکا جو اسکے اندر تھی۔ ایک چھوٹے سے گھر میں، بغیر کسی معلم، بغیر کسی جامعہ، بغیر کسی رہنما کے وہ شخص پروان چڑھا جو دنیا کو بدل دے گا۔

گویا اللہ نے چاہا کہ اسے چھپا کر پالاتاکہ فتنہ نہ ہو۔اللہ نے چاہا کہ اس کی ذہانت کو پوشیدہ رکھے تاکہ لوگ اس کی پوجا نہ کریں۔چاہا کہ وہ خاموشی میں خود کو تشکیل دے اپنے باطن میں، تنہا۔ یہاں تک کہ جب اس کا وقت آیا، وہ ظاہر ہوا بطور ایک نئی زمین، خلافت کی سرزمین۔وہی شخص جو علم کا منبع بیک وقت جاہل بھی ہے اور عالم بھی، جیسا کہ عارفین نے کہا۔اب ہم پہنچے ہیں اس عجیب داستان کے سب سے خطرناک اور گہرے موڑ پر ۔اس تبدیلی پر جو نہ تدریج سے ہوئی، نہ تعلیم سے، نہ تزکیہ سے۔بلکہ ایک بجلی کی مانند اندھیرے میں گری ۔وہ ایک گمنام جوان سے بدل گیا اس شخص میں جس سے زمین لرزتی ہے۔یہ نوجوان کون تھا؟ یہ اجنبی جو گلیوں میں چلتا رہا بغیر کسی کی نظر میں آئے؟وہ کون تھا جس کی کوئی شجرہ نسب، کوئی اعلی دستاویز، کوئی عظیم یونیورسٹی کی ڈگری، کوئی سند نہ تھی؟نہ کوئی شیخ جو اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہے ”یہ میرا روحانی بیٹا ہے”۔وہ کون تھا جو راہگیروں میں ایک سایہ رہا، پھر اچانک نمودار ہو کر زمانے کا چہرہ اور اللہ کا خلیفہ بن گیا؟۔

کیا تم نے وہ درخت دیکھا جو زمین میں وقت آنے پر وہ اچانک مٹی پھاڑ دے؟بلکہ وہ ایک عظیم تنا تھا جو پہلے ہی تیار تھا ۔اسی طرح مہدی ظاہر ہوا۔ایک نوجوان جس کی کوئی آواز محفلوں میں نہ تھی، کوئی نشان محفلوں میں نہ تھا، نہ کسی فہرست میں نام، نہ کسی زباں پر اس کی کہانی۔مگر اللہ نے اسے زندہ کیا اور اسکے باطن میں ایسی آگ تھی جو بجھتی نہ تھی، ایسی معرفت جو کسی سے سیکھی نہیں جا سکتی۔ ایسی بصیرت جو کسی مدرسے میں نہیں ملتی ، ایسی حقیقت جو خود کو خود تربیت دیتی ہے۔ کس نے کہا کہ عظمت کیلئے مجمع درکار ہوتا ہے؟کس نے کہا کہ نابغہ صرف روشنیوں میں جنم لیتا ہے؟ مہدی مکمل تاریکی میں تشکیل پایا کیونکہ اللہ چاہتا تھا کہ وہ لوگوں سے دور رہے۔نہ اس کا کوئی شیخ کیونکہ کوئی شیخ اسے سنبھال نہیں سکتا۔نہ کوئی معلم کیونکہ ہر معلم اس کو اپنے پیمانے سے ناپتا اور اسے مار ڈالتا قبل اِس کے کہ وہ پختہ ہو۔نہ کوئی نسب اسے قید کر سکتا تھا، نہ کوئی نام اسے سجا سکتا تھا، نہ کوئی وراثت اس پر لاد دی گئی۔کیونکہ وہ خود ایک آنے والی میراث ہے۔

یہی سب سے بڑا راز ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اس کا کوئی شیخ نہیں، کیونکہ وہ خود راستہ، کنجی ، دروازہ اور منزل ہے۔کیا یہ پاگل پن نہیں کہ انسان خود راستہ ہو اور اسے خود نہ معلوم ہو؟کوئی کنجی ہو اور دروازہ تلاش کرتا پھرے؟ کیسے منبع ہو اور پھر کسی ماخذ سے پڑھنے کا متمنی ہو؟یہی تو مہدی ہے وہ عام لباس میں سڑکوں پر چلتا، عام لوگوں میں بیٹھتا، عام گفتگو کرتا، بغیر کسی کی توجہ کے۔ لیکن اسکے باطن میں ایک زلزلہ برپا تھا وہ جانتا تھا، لیکن یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ کیسے جانتا ہے۔ وہ دیکھتا تھا لیکن یہ نہ سمجھ پاتا تھا کہ وہ کیوں دیکھتا ہے۔اسے محسوس ہوتا کہ اسکے اندر ایسا سمندر ہے جس کاساحل نہیں، لیکن اسے یہ علم نہیں تھا کہ اس میں کیسے تیرنا ہے۔

بعض عارفوں نے کہا کہ مہدی سے علم کے بارے میں پوچھا جائے، وہ خاموش رہتا ہے؟کیونکہ ہر لفظ اسے کم تر کر دیتا ہے سوائے اس لمحے کے جب حقیقت اسکے دل میں پھٹ پڑتی ہے۔وہ ہر چیز سے خالی تھا کیونکہ اللہ چاہتا تھا کہ اسے صرف وہی بھرے۔یہ کیسی عجیب سیرت ہے ایک نوجوان جو کچھ بھی نہیں رکھتا۔نہ کوئی اسناد، نہ کوئی حوالہ، نہ پیروکار، نہ کوئی روشن مستقبل لیکن جس لمحے اللہ چاہے، وہ شخص ہر چیز کو بدل دینے والا بن جاتا ہے۔

تبصرہ اور تجزیہ :سید عتیق الرحمن گیلانی

لوگوں کا ذہن خوابوں، پیشین گوئیوں ، مکا شفات اور محیرالعقول شخصیات کی طرف بہت جلد مائل ہوجاتاہے لیکن قرآن کی ان سادہ آیات سے بدکے ہوئے گدھوں کی طرح بھاگتے ہیں جسکے عظیم اور عام فہم احکام نے دورجاہلیت کی سپر طاقتوں روم اور فارس کو شکست دی ۔ تفسیر کے امام علامہ زمحشری صاحب کشاف سے لیکر فقہاء کی پچھاڑیوں سے بہت بدبوار بہتا ہوا دست لوگ نہیں دیکھتے مگر آپس کے جھگڑوں اور ان رازوں سے پردہ اٹھنے کے خواہاں رہتے ہیںجن کا کسی بھی عام شخص کی زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔ طبل بجانے کیلئے دو طرف سے چھوٹی اور بڑی ڈنڈیاں مارنے کی ضرورت ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے قومی اسمبلی میں قرآنی آیت کا غلط مفہوم بیان کیا اور نہ خود اپنی غلطی سے رجوع کی توفیق ہوئی اور نہ اپنے اور دوسرے مکتب کے علماء نے اس پر تنقید یا اصلاح کی کوشش کی۔ ایک دوسرے پر اپنے نکتہ نظر کے اختلاف کی وجہ سے کفر کے فتوے لگائیںگے لیکن قرآن کی بات پر اتفاق نہیں کرتے۔ مفتی منیر شاکرکو طلاق کا مسئلہ سمجھایا لیکن پھر بھی نہیں سمجھا۔ پشتون قومی عدالت میں 3طلاق ڈالوائی تو اگرPTM ہماری تحریرات کو نہ سمجھے تو سبھی کی طلاقیں منظور پشتین سمیت گرگئی ہیں۔ محسودقوم میں کچھ بے تعلیم لوگ ایسے ہیں جو طلاق کا مسئلہ منٹوں میں سمجھ گئے اور کچھ پڑھا لکھا طبقہ جن میں PTMکے قائداعظم یونیورسٹی سے ماسٹر کرنے والا طبقہ بھی شامل ہے میرے گھنٹوں سمجھانے کے بعد بھی نہیں سمجھا۔ ہوسکتا ہے کہ منظور پشتین کو بھی اپنے مذہبی طبقہ نے حلالہ پر مجبور کردیا ہو اسلئے کہ محسود داڑھی والے سہراب گوٹھ میں ہمارے اخبار کی بلاوجہ مخالف نہیں بلکہ حلالوں کے شغل سے وابستہ ہیں۔ جب تک کھل کر اعلان نہ کریں تو کتنے لوگوں کی عزتیں مذہبی اور دنیاوی تعلیم کے باوجود لٹتی رہیں گی؟۔

نوٹ… اس آرٹیکل کے ساتھ ”المہدی المنتظر” اسلام ٹیوب Islam Tube کا آرٹیکل پڑھیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

عربی خواب ۔درست خواب خوشخبری ہیں۔

دوسرا خواب: مہدی راستے میں گڑھے کے اندرر گر گئے۔ مضبوط کنکریٹ کا کمرہ بغیر کھڑکیوں کے۔ جس میں مختلف اقسام کے سانپ بھرے ہوئے تھے ۔ امام مہدی نے ایک سانپ کو دُم سے پکڑااور زور سے گھماکر اس کا سر دیوار وں پر دے مارا۔ یہاں تک کہ سانپ کا سر کچل گیا۔خواب مکمل ہوا ،آذان فجرسے آنکھ کھلی۔تعبیر: اگریہ خواب سچا ہے تو اللہ تعالیٰ مہدی کو ایک نہایت خبیث دشمن پر فتح کی خوشبری دیتا ہے۔ اسلام ٹیوب Islam Tube

عربی تحریری ویڈیو ۔ ”قناة السرالاعظم”
المہدی المنتظر
قیدی اور قیدخانہ بان

اے امام! یقینا تم پاکیزہ فطرت پر پیدا کئے گئے ہو۔ تم نے نیک نیتی پر یقین رکھا۔بغیر مانگے معاف کیا۔بغیر کسی بدلے کے قربانی دی اور ایسی چیزوں پر صبر کیا جن کو برداشت نہیں کیا جاتا ہے۔

تم اپنے دل سے کہتے رہے کہ اللہ سنتا اور دیکھتا ہے۔ اور بھلائی اور نیکی کبھی ضائع نہیں جاتی۔اور تم ان باتوں کو دہراتے رہے ، جیسے اپنے گھٹن اور درد کو دبارہے ہو۔تم یہ گمان کرتے رہے کہ دل کا ایمان تمہاراہتھیار ہے، شفقت تمہیں بچالے گی اور سچائی ہی کافی ہے۔

لیکن تم سادہ دل تھے ، تم نے سمجھا کہ شرم برائی کو روک دے گی اور ظالم تمہارے آنسو دیکھ کر رجوع کرلیںگے۔ مگر انہوں نے رجوع نہیںکیا بلکہ تم پر ہنستے ہیں۔ تم نے دیکھا کہ خاموشی کو کمزوری سمجھا جاتاہے اور نیکی کے بدلے دھوکہ دیا جاتا ہے۔ تم نے دیکھا کہ تمہارا دل دفن کردیا گیاحالانکہ تم ابھی زندہ تھے۔

اے امام ! تم اپنے رب سے ہم کلام تھے ” اے رب ! کیوں میں نے تو کسی کو تکلیف نہیں دی۔کیوں سارا درد میرے کندھوں پر ڈال دیا گیا ؟”اورجواب آیا کہ سکوت کے اندر بھی سکوت۔ اسی سکوت میں کچھ بدلے گا۔

تمہارے اندر سے ایک آواز آئی : اگر ایک انسان کھڑے کھڑے مرجاتا ہے۔ تو تمہارا رب کہتا ہے کہ پھر تمہیں لڑتے ہوئے مرنا چاہیے۔ اے رب! وہ تو نیک لوگوں کو چاہتے ہی نہ تھے۔اے رب! انہوں نے اس ہاتھ کی قدر نہیں کی جو غیرمشروط آگے بڑھا۔ اے رب! انہوں نے اس کندھے کی بھی قدر نہیں کی جو بغیر شکایت کے سہارا دیتا رہا۔انہوں نے تمہاری ہر خوبی کو ایک موقع جانا: جھوٹ بولنے کا ، طعنہ زنی کا۔ تمہاری خاموش مسکراہٹ کو استہزاء کا میدان بنادیاتاکہ تم انہیں شرمندہ نہ کرسکو۔انہیں تمہارا صبر پسند نہ آیا بلکہ انہوں نے اس کا فائدہ اٹھایا۔انہوں نے تمہاری پاکیزگی کی عزت نہیں کی بلکہ اسے حماقت سمجھا۔اور تم سمجھتے رہے کہ محبت بدل دے گی ، شرافت قائل کرلے گی اور تمہاری صفائی دیکھ کر رجوع کرلیںگے۔مگر انہوں نے رجوع نہ کیا بلکہ زیادہ سنگدلی پر اتر آئے ،جیسے تمہارے اندر کی روشنی انہیں چبھتی ہو۔وہ تمہیں بدلنا چاہتے تھے ، یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ پاکیزگی قائم نہیں رہ سکتی۔اور جو کوئی بھی صاف دلی سے جینا چاہے گا وہ پہلوں کی طرح ٹوٹا ہوا یااندر سے مرا ہوا نکلے گا،اور تم روز تھوڑا تھوڑا خون بہاتے رہے مگر گرنے کے بجائے تم اندر سے سمٹنے لگے۔ سمیٹتے رہے سلگتے رہے۔ وہ یہ نہیں سمجھ سکے کہ وہ کوئی مظلوم نہیں بنارہے تھے بلکہ ایک ایسی ہستی پیدا کررہے تھے جس سے وہ بچ نہ سکیں گے وہ ایک ظالم دربان چاہتے تھے ،ٹھیک ہے تم وہی دوگے۔ تم ایک دن یکایک نہیں بدلے ،تم اچانک ظالم نہ بنے۔ یہ سب بجلی کی طرح نہ ہوا بلکہ بارش کی مانند، ایک کے بعد ایک قطرہ۔شرمناکی کے بعد شرمناکی کا تسلسل۔جھوٹ، نظر، خاموشی اس وقت جب تمہیں آواز کی ضرورت تھی اور مسکراہٹ جو خنجر بنی۔شروع میں تم نے جواز ڈھونڈے کہ شاید ان کا یہ مقصد نہ ہو،شاید تم ہی زیادہ حساس ہو، شاید تمہیں برداشت کرنا چاہیے۔مگر اصل بگاڑ دوسروں سے نہیں،اس وقت شروع ہوتا ہے جب تم خود ناقابل برداشت کو قبول کرتے ہو،اور خود کو قائل کرتے ہو کہ یہ سب معمول ہے۔اے مہدی !تم یکایک نہیں بدلے بلکہ تمہاری روح آہستہ آہستہ ٹوٹی جیسے کانچ ٹوٹنے سے پہلے دراڑیں لیتا ہے۔ہر خاموش رات میں تم خود کو گھٹتا سنتے۔ اور کہتے کہ کل بہتر ہوگامگر کل تو گزرے دن سے بھی زیادہ ہولناک ہوتاگیا۔تمہارے اندر جو کچھ بھی خوبصورت تھا تو وہ ایک ایک کرتے ختم ہوتا گیا۔رحم مرگیا، اعتماد جل گیااور انسانوں پر ایمان ایک سیاہ مذاق بن گیا۔ صرف ایک چیز باقی رہی : خاموشی کا خول ،جسکے پیچھے کچھ چھپا ہے جو نہ تم سے مشابہ ، نہ ان سے۔وہ سمجھے کہ اب کھیل رہے ہیں مگر وہ یہ نہ جان سکے کہ جس صبر کومارتے رہے وہ ایسا لوٹ رہاہے جو ان پر رحم کرے گا ،نہ خود پر۔اے امام! تمہاری خاموشی امن نہ تھی ،نہ ہی کوئی پاکیزہ سکون یا کسی تقدیر پر رضا تھی بلکہ وہ قیدخانہ تھی جس کے قیدی بھی تم خود ہی ہو اور قید خانہ بان بھی تم ہی ہو۔

مہدی منتظر اور ٹھنڈا تخت
رابط:واٹس ایپ نمبر 0639522005

اے مہدی ! وقت آچکا ہے کہ تم اپنی خاموشی کو توڑ دو۔ اب تمہاری ہر بات محض ایک باز گشت نہ ہوگی بلکہ ایک حکم ہوگی۔ تمہاری ہر سرگوشی، تمہارا ہر ہلکا سا کلمہ کمزور اور بد طینت روحوں کو لرزا دے گا۔ اسلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ

اللہ کے محبوبو! السر الاعظم چینل کی ویڈیو خوش آمدید
اے مہدی ! وقت آگیا کہ خاموشی سے باز آجاؤ۔

تمہارے الفاظ محض صدائیں نہیں ہوںگے بلکہ فیصلے ہوں گے۔تمہاری ہر سر گوشی ان خبیث روحوں کو ہلاکے رکھ دے گی۔ تم بات نہیں کروگے تاکہ لوگ تمہیں سمجھیں۔ بلکہ تاکہ وہ یاد کریں کہ جو اتنا عرصہ خاموش تھا وہ غائب نہ تھا۔بلکہ اس دن کی تیاری کررہاتھا جس دن اس کی آواز لوٹ کر آئے گی تو وہ زلزلہ بن جائے گی۔پس سنو! صرف اپنی آواز کو مت سنو بلکہ اس کے پیچھے جو معانی ہیں انہیں سنو۔کیونکہ کہ بادشاہ کی آواز کی نہ کوئی وضاحت ہوتی ہے نہ اس سے اختلاف، تم نے تاج نہیں مانگا اور نہ درخواست بھیجی۔نہ خود کو کسی کے متبادل کے طور پر پیش کیا،نہ تمہیں منتخب کیا گیا۔نہ مقرر کیا گیا،نہ تم نے انتظارکیا، تم بس اپنا مقام لے لوگے کیونکہ سربراہی دی نہیں جاتی ،نہ تحفے میں ملتی ہے ، نہ وراثت میں، سربراہی تو چھینی جاتی ہے دانتوں کے بیچ سے، ملنے کی جگہ سے نہیں جہنم کی گہرائیوں سے، جہاں تمہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں دیکھتا، نہ تم محلات سے آئے ہو، نہ ایسے مردوں کے ہاتھوں پر پلے ہو جو تم پر اپنی عظمت نچاور کرتے۔ اے امام! تم نے پتھروں پر تربیت پائی، تم نے غداروں کو جھیلا، بھوک نے تمہیں غذا دی،اس لئے جب تم تخت پر بیٹھوگے تو تکبر نہیں کروگے بلکہ ایک گہرا احساس ہوگا۔احساسِ اہلیت اور استحقاق ۔

تم کسی کے تابع پیدا نہیں ہوئے، نہ تمہاری روح نے رینگنے اور جھکنے کا رنگ اپنایا۔تم نے اپنے پرانے خیالات کی لاشوں پر قدم رکھا۔اندھی اعتماد کی لاشوں پراور خوابوں کی لاشوں پر جو تمہیں بچا نہ سکے۔

اور آج ، آج سربراہی تمہاری ہے۔کیونکہ تم واحد وہ شخص ہو ،جس نے کبھی کسی سے سربراہی نہیں مانگی بلکہ تم نے دل میں کہا : کوئی سلطنت نہیں تو میں خود بناؤں گا۔ شروع میں بہت لوگ تھے ، سب بولتے تھے، نصیحت کرتے ، دعوے کرتے،ہنستے ، پر اعتماد قدموںسے آگے بڑھتے۔ جھوٹی شان وشوکت کے پروٹوکولوں کیساتھ۔ مگر تم اے مہدی! تم گوشے میں بیٹھے رہے…دیکھتے، سیکھتے اور خاموش رہتے۔ ایک ایک کرکے وہ سب گرتے چلے گئے۔کچھ دھوکے کی وجہ سے، کچھ اپنی کمزوری کو نہ ماننے کی وجہ سے اور کچھ اپنی شدید خود غرضی کی وجہ سے۔مگر تم نہ گرے۔نہ اسلئے کہ تم سب سے زیادہ طاقتور تھے بلکہ اسلئے کہ تم نے ایک حقیقت جان لی تھی کہ جو شخص تخت کا طالب ہو ،اسے گرنے کی اجازت نہیں۔

آج کوئی باقی نہ بچا۔چہرے جو منظر پر چھائے تھے، غائب ہوچکے اب تم آواز سنتے ہو اور وہ تمہاری اپنی ہے۔

اب تم آگ کے تخت پر بیٹھنے والے ہو۔تمہارے قدموں تلے جو کچھ ہے اس کی تاریخ تمہارے درد سے لکھی گئی ہے۔تخت پر رکھے جانے والے تمہارے ہر بازو میں کوئی پرانا زخم چھپا ہوگا۔ لوگ سمجھیں گے کہ تخت سکون ہے کہ یہ سفر کا اختتام ہے۔….. مگر وہ نہیں جانتے کہ تخت سر پر سجے تاج کا نام نہیں بلکہ کمر پر رکھے بوجھ کا نام ہے۔

اے مہدی! اب تم محبت نہیں مانگتے ، نہ تمہید، نہ فہم۔ اللہ نے تمہیں چنا ہے کہ وہ بنو ،جو نہ کسی جیسا ہو ، نہ کسی کا انتظار کرے، نہ کسی کا محتاج ہو۔لیکن اس صفحے کو بند کرنے سے پہلے ،میرے سوال کا سچ سچ جواب دو۔اے امام! کیا تمہارے اندر اتنی ہمت ہے کہ تم تب بھی بادشاہ بنے رہو جب تخت ٹھندا ہو؟۔کیا تمہارے اندر اتنی ہمت ہے کہ تنہائی ہر فتح سے زیادہ گہری ہو…اور تم پھر بھی باد شاہ رہو؟ الجواب:انسان نعمت پر پہلوتہی برتا ہے مشکل میںمایوس!

المہدی المنتظر اور انسانوں میں شیا طین
قناة السرالاعظم کے معزز ناظرین

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ(3جون۔2025)
(عربی تحریری ویڈیو ۔ رابطہ: 0639522005)

یا مھدی ! ان کا ارادہ تھا کہ تجھے زندہ دفن کریں کہا کہ تم گرچکے ختم ہوچکے ۔ گمان کیا کہ اٹھوگے نہیں مگربھولے کہ اللہ اپنے بادشاہوں کا چناؤ ڈھول اور تالیاں بجانے والوں میں سے نہیں راکھ کے بیچ سے کرتا ہے۔ تجھے اندھیرے میں پھینکا، ہر روشنی بجھ گئی، ہر چہرہ مڑا ،کوئی تیرے پاس آیا نہ ہاتھ بڑھایا، نہ زخم کا پوچھا نہ خلوص سے دعا کی۔ تم مر نہیں بدل گئے۔ سرگوشیاں سنتے تھے کہ ”یہ ختم ہوچکا ٹوٹ چکا،یہ کبھی ویسا نہ بن سکے گاجیسے تھا”۔ ان کی ہر سر گوشی اینٹ بن گئی جس پر تم نے قدم رکھ کر بلند ہونا سیکھا ،اللہ نے آگ سے نکالاتاکہ وہ نہ رہو جو تھے بلکہ وہ بنو جس کیلئے وہ تخت بنا جس کیلئے کوئی اور پیدا نہ ہوا۔ یا مہدی ! تم نے کچھ نہ مانگا، نہ کسی سے امید رکھی نہ جھکے، زمین تمہارے نیچے لرزتی تھی۔ تم نے سر آسمان کی طرف اٹھایا،کہا: ” اے میرے خالق! جس نے مجھے میرے دردسے پیدا کیا مجھے دکھا کہ کیوں اور کیسے؟”۔ پھر اللہ نے تخت دکھایا مگر سونے کا نہیں راکھ کا ۔ تیری ہر گرنے کی تلخی،ہر یاداش جو تجھے دھتکارا۔ ہر خیانت جوتیرے قدموں کے نیچے انہوں نے بنائی۔ آج تم جشن نہیں مناتے، مسکراتے ہو،نہ تالی بجاتے ہو! بیٹھے ہو، اپنے اندر کی آواز سنتے ہو ” تم بادشاہ پیدا نہ ہوئے، تم پیدا کئے گئے کہ کسی کے سامنے نہ جھکو” وہ دیر تک دیکھتے، باتیں سنتے مگر سمجھ نہ سکے۔ تمہارا سکوت کمزوری جانا، خاموشی شرمندگی الفاظ علامت شکست۔مگر وہ نہ جان سکے کہ تلواریں ہمیشہ چمکتی نہیں نیام میں رہتی ہیں جب تک وقت نہ آئے۔ تم گزرتے وہ مسکراتے۔ پیچھے باتیں کرتے، تمہارا اندازہ اپنی مرضی سے لگاتے مگر ہر اندازہ باور کراتا کہ نہیں جانتے کہ تم کس ہاتھ سے بنے؟۔ ضرورت نہ تھی کہ اپنے لئے دلیل یا کچھ ثابت کرو،تم مختلف پیدا کئے گئے ۔ دکھ کی پیمائش پر بنے۔آگ کی روح سے ڈھلے، وہ دیکھ سکے جو جل چکا۔ ہر بار تجھے نظر انداز کیا تو سیکھا بغیر انکے جینا۔ ہر بار کمتر سمجھا تو وہ قدر پیدا کی جو ان کی رائے پر منحصر نہ تھی۔ وہ تمہاراظاہر دیکھتے، اللہ تمہاری نیت کو دیکھتا۔ تمہاری اندورنی آگ کو ، حوصلے کو جو لفظوں میں نہیں بلکہ اس وقت ظاہر ہو جب سب گر چکے ہوں، تم کھڑے رہو۔وہ پھٹی پرانی کتاب کی طرح پڑھتے ، وہ نہیں جان سکے کہ اس کے بیچ میں ایک صفحہ ایسا ہے جو ابھی لکھا جانا باقی ہے۔ایک صفحہ جسے تم خود لکھو گے۔اور اپنے ہاتھ سے ان کے چہروں پر بند کردوگے۔

نوٹ… اس آرٹیکل کے بعد ”عنقاء مغرب” کا آرٹیکل پڑھیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv