پوسٹ تلاش کریں

انقلاب کیلئے پیش خیمہ حقائق

 

عشق ناپید و خرد میگردش صورت مار
عقل کو تابعِ فرمان نظر کر نہ سکا
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کرنہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلۂ نفع و ضرر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا

جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کا طالب علم تھا ،بوہری بازار صدر میں بونا اچانک بڑی مہارت سے سینے پر چڑھ گیا، میں دراز قد شرارت نہ سمجھ سکااور پٹخ دیا جوپڑاہوا شکایتی نظروں سے دیکھنے لگا ، شرمندہ تھا کہ اس کا اور میرا کیا مقابلہ؟۔ پھر پتہ چلا کہ بہروپیہ کئی لوگوں کا پیسہ اور چیخیں نکال چکا ہے۔ ہم نماز پڑھتے نہیں پٹختے ہیں اور کسی کے حلق سے ذوالخویصرہ کی طرح قرآن نہیں اُترتالیکن

نماز میری نماز ہے نہ وضو کوئی وضو آتی ہے انقلاب کی مسلسل کوئی خوشبو

آج گھر کے ماحول سے عالمی سطح پر دنیا جہاں کھڑی ہے اللہ خیر کرے یا تو پوری دنیا میں امن و امان کا قیام عمل میں آئے گا یا پھر گھریلو، معاشرتی، معاشی ، علاقائی، ملکی اور بین الاقوامی سطح پر عالم انسانیت کو بہت گھمبیر صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ آدھی سے زیادہ دنیا غزہ کے ساتھ کھڑی تھی لیکن ان کے دکھ درد کا کسی نے ساتھ نہیں دیا۔ افغانستان اور عراق پر جس قسم کے حالات گزرے، شام اور یمن کے لوگ جہاں سے گزرے اوریوکرین میں جو کچھ ہورہا ہے یہ حالات کسی پر بھی کسی وقت آسکتے ہیں۔ ہمیں اپنی حد تک درست کوشش کرنی ہوگی کہ عالم انسانیت کو مشکلات سے نکالنے میں کردار ادا کریں۔

سکول ،تبلیغی جماعت،مدارس ،خانقاہ ،سیاست ،جہاد اور تنظیم سازی کے عمل سے مختلف ادوار میں گزرا۔ ضرور ت پڑی تواپنی جدو جہد پر ایک کتاب بھی شائع کروں گا۔ انشاء اللہ

میری چاہت ہے کہ مدارس کے نصاب کو تشکیل دیا جائے اور مختلف مکاتب فکر کی کمیٹی تشکیل دیں جو قرآن و احادیث کے حوالے سے اسلام کی درست تصویر دنیا کے سامنے پیش کریں۔ مولانا مناظر احسن گیلانی نے تدوین القرآن، تدوین الحدیث اور تدوین الفقہ کتابیں لکھی ہیں، بہت اہم معاملات کی نشاندہی بھی کی ہے مگر ان میں مسائل سلجھنے سے زیادہ الجھ گئے ہیں۔

مکینِ گنبد خضریٰ ۖفقط مرکز رشد وہدایت، منبع انوارِحق ہی نہیں بلکہ قیامت تک آنے والے مسائل کا حل بھی ہے۔

مشکوٰة میں ایک حدیث ہے کہ ”ایک عورت دونوں ہاتھوں اور پیروں سے ناچ رہی تھی تو رسول اللہۖ اور صحابہ کبار نے نظارہ دیکھا، حضرت عمر کی آمد پر عورت بھاگی تو نبیۖ نے فرمایا کہ ”عمر سے شیطان بھاگتا ہے”۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے نبی ۖ کا ذاتی طرزِ عمل نہیں دیکھا بلکہ عمر سے شیطان کے بھاگنے پر توجہ دی۔ حالانکہ دونوں چیزوں میں اعتدال تھا۔

عن عائشہ دخل ابوبکر و عندی جاریتان من جواری الانصار تغنیان بما تقاولت الانصار یوم بعاث قالت ولیستا بمغیتین فقال ابوبکر امزامیر الشیطان فی بیت رسول اللہ ۖ، و ذلک فی یوم عیدٍ فقال رسول اللہۖ یا ابابکر ان لکل قوم عیدًا و ھذا عیدنا

ترجمہ ” حضرت عائشہ نے کہا کہ ابوبکر میرے گھر میں داخل ہوئے ۔ میرے پاس انصار کی دو لڑکیاں وہ اشعار گارہی تھیں جو انصار نے بعاث کے دن گائے۔یہ گانے والیاں نہ تھیں۔ حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ رسول اللہ ۖ کے گھر میں یہ شیطانی باجے ؟۔ اور وہ عید کا دن تھا۔(صحیح بخاری کتاب العیدین۔ 3: باب سنة العیدین لاھل اسلام : مسلمانوں کیلئے عید کی سنت کیا ہے؟۔ حدیث952اور کتابی لحاظ سے7563) ۔

جاویداحمد غامدی نے غلط ترجمہ کیا کہ وہ انصار کی لونڈیاں تھیں اور لونڈیاں ہی گانے گاتی تھیں۔ حدیث میں واضح ہے کہ یہ گانے والیاں نہیں تھیں۔ ہرقوم کے کلچرل میں خوشی کے موقع پر جس طرح تقریبات ہوتی ہیں تو حضرت عائشہ جب صاحب اولاد بھی نہیں تھیں اور انصار کی لڑکیوں نے خوشی کے موقع پر اپنے ذوق کا مظاہرہ کیا اور حضرت ابوبکر نے اسلئے برا سمجھا کہ نبیۖ کے گھر میں تھا تو رسول اللہۖ نے اجازت دی اور ایک اعتدال اور میانہ روی کا زبردست درس دیاتھا۔

علماء نے گانے ، تصویر اور شرعی پردے کے علاوہ کئی ساری چیزوں میں اعتدال سے ہٹ کر خود ساختہ تصو ر قائم کیا تھا۔ میرا ماحول ان سے عقیدت کا تھا تو اس پر عمل بھی کیا لیکن جوں جوں اپنی جہالت کا پتہ چلا تو پیچھے ہٹنے میں شرم نہیں کھائی۔ ہم اسلام کو عام کریں نہ کہ اپنی انانیت اور جھوٹ کے تصورات کو۔

فرقہ واریت نے بہت نفرتیں سکھائی ہیں۔ شیعہ تراویح کی نماز کو بدعت کہتے ہیں اور قمیص نکال کر اپنوں اور دوسروں کو کسی عذاب میں ڈال کر زنجیر زنی کو فرض سے بڑا درجہ دیتے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی نے سود کو جواز بخش کر کتنی بڑی بدعت ایجاد کرلی مگر میلادالنبیۖ کے جلوس کو بدعت کہتا ہے ؟۔ اسلام کے درست احکام واضح کرنے ہوں گے ۔علماء جائیں بھاڑ میں۔

میں اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا تو شرعی پردے کے غلط تصور نے گھر اور معاشرے میں ایک بدعت ڈال دی۔ بھائی نے والدہ سے کہا کہ ”دوسروں کے بڑے بیٹے پہلے الگ ہوجاتے ہیں اور تمہارا چھوٹا بیٹا الگ ہوا ہے”۔ میں نہ صرف خود الگ ہوا ہوں بلکہ دونوں بیگمات کے بچوں کو بھی الگ الگ گھروں میں رکھا ہے۔ میرے ساتھی منیر داؤد کا پروگرام تھا کہ ”گھر پر بالاخانہ بناکر ایک اور شادی کرکے اس کو رکھے لیکن میں نے منع کردیااسلئے کہ ماحول میں مزید بگاڑ آسکتا تھا”۔

اسلام میں دو شادیوں کی نہیں چار کی اجازت ہے۔ صحافی اقرار الحسن اور مفتی طارق مسعود نے زیادہ شادیاں کی ہیں لیکن ماحول کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ حضرت علی نے حضرت فاطمہ کی موجودگی میں ابوجہل کی بیٹی سے شادی کرنا چاہی اور حضرت فاطمہ نے شکایت کی تو نبیۖ نے فرمایا کہ میری بیٹی کو پھر طلاق دو، کیونکہ نبی اور اسکے دشمن کی بیٹی جمع مت کرو۔

اقوام متحدہ کے مشن میں یہ بھی ہے کہ دنیا میں خاندانی نظام کو پھر بحال کیا جائے۔ خاندانی نظام میں سب ایک دوسرے کا سہارا بنتے ہیں۔ جوں جوں بچوں کے بچے بڑے ہوتے ہیں تو وہ الگ ہوتے جاتے ہیں اور یہ ایک فطری طریقہ ہے۔ جب ماں سمجھ رہی ہوتی ہے کہ میرا بیٹا ہے اور بیوی سمجھ رہی ہوتی ہے کہ میرا شوہر ہے تو پھر شادی کی خوشیاں غم میں اور سکون بالکل بے سکونی میں بدل جاتا ہے۔ اس کشمکش میں گھر بھی تباہ ہوتے ہیں اور فطری مقاصد کی جگہ شیطانی سازشوں کا بسیرا بنتا ہے۔

کسی کی اچھی کمائی ہو یا نقصان لیکن گھرانہ خوشحال رہتا ہے اور مل بیٹھ کر غمی خوشی بانٹتے ہیں تو دنیا جہنم بننے کی جگہ جنت نظیر بن جاتی ہے لیکن جب عورت کے دماغ پر بھوت سوار ہوتا ہے کہ میرا شوہر اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کا نہیں تو سکون کی نعمت چھن جاتی ہے۔ مذہبی بے غیرت طبقہ نے حلالہ کی لعنت سے چھٹکارا نہیں دلایا لیکن عورت کو اسلامی حق دیا کہ شوہر اور گھر کی خدمت تم پر نہیں۔ اگر عورت ڈاکٹر ہو تب بھی اس نے اپنی فطرت کے تقاضے کے مطابق خدمت کرنی ہوتی ہے۔ کوئی فارغ بیٹھی ہو تو اس کے دماغ پر شیطان ہی راج کرے گا۔

رسول اللہۖ سے محبت کا تقاضا ہے کہ اصحاب و اہل بیت سے بھی محبت کی جائے۔ شوہر اور بیوی سے محبت کے تقاضے یہ ہیں کہ ایک دوسرے کے رشتہ داروں سے بھی محبت کی جائے۔ سلیم الفطرت انسانوں میں یہ تعلیم وتربیت کی ضرورت نہیں مگر کچھ کم عقل جاہل اور بدفطرت لوگوں کو رحجان ٹھیک کرنا ہوگا۔

حضرت عائشہ کے حجرے میں حضرت فاطمہکی میراث نہیں تھی۔ باپ بیٹوں کیلئے 120گزکا مکان چھوڑتا ہے جس میں 6بیٹے بال بچوں سمیت رہتے ہیں۔ داماد اور بیٹی کیس کرتے ہیں کہ ہماری وراثت دو۔ حالانکہ ان کمروں کے مالک بیٹے بھی نہیں بلکہ بہو ہوتی ہے۔ زندگی میں بیٹی کو جو دیا تو وہ اس کا ہے اور جو بیٹوں کو دیا تو وہ ان کا ہے۔ زندگی میں داماد بیٹے نہ چاہیں تو گھر میں داخل نہیں ہوسکتے اور باپ کی موت کے بعد وارث بن گئے؟۔ قرآن میں باپ، ماں، بھائی، بہن، چچا، پھوپھی، ماموں، خالہ ، دوست اور جن کی چابیاں تمہارے لئے کھلی ہوں تو ان کے گھر میں اکیلے اور مشترکہ کھانے کی اجازت ہے۔

جس سے ایک تو شرعی پردے کا درست تصور قائم ہوتا ہے جو علماء ومفتیان نے بگاڑ دیا ہے اور دوسرا وراثت کا بھی درست مفہوم سمجھ میں آتا ہے۔ جو گھر باپ کا الگ ہوگا تو اس کی وفات کے بعد وہ لاوارث نہیں ہوگابلکہ ورثا میں تقسیم ہوگا۔ مفتی محمد شفیع نے دارالعلوم کراچی کے وقف مال میں بیٹوں اور بیٹی کی جو بھی وراثت رکھی ہے تو وقف مال پر وراثت نہیں ہوسکتی ہے ،ان کو نکال باہر کرنا چاہیے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے وارث بیٹا سلیمان علیہ السلام بن گئے لیکن بیٹے نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا تھا۔ سعودی شہزادے نے ریاست کو موروثی سمجھ کر غلط کیا ہے۔ بنوامیہ، بنوعباس اور خلافت عثمانیہ کو بھی حق نہیں پہنچتا تھا۔

رسول اللہۖ اور خلفاء راشدین نے مسلمانوں کا اقتدار موروثی قرار نہیں دیا۔ جاویداحمد غامدی رسول اللہۖ کے چچا زاد بھائی اور داماد حضرت علی کے اہل بیت ہونے پر فضول بکتا ہے لیکن یزید کا اہلبیت مروان کو درست قرار دیتا ہے ۔ حالانکہ حضرت عبداللہ بن زبیر نے مروان کو بیعت کرنے سے انکار کیا تھا۔ قرآن نے اسلام کو زبردستی سے مسلط کرنے کا تصور نہیں دیا ہے بلکہ اہل کتاب کو دعوت دی ہے کہ” آؤاس بات کی طرف کہ جس میں ہم ایک ہیں۔ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور نہ کسی کو اس کا شریک ٹھہرائیں۔ اور نہ بعض بعض کو ہم اللہ کے علاوہ اپنے رب بنائیں”۔ (سورہ آل عمران :64)

یہود ونصاریٰ نے اپنے بڑوں کو حلال وحرام کا رب قرار دیا تھا اور مسلمانوں نے اپنے مذہبی طبقات کو اپنا رب بنالیا ہے۔
اور اللہ نے فرمایا:” اور ہم نے نازل کی (اے نبی مکرم!) تیری طرف کتاب حق کیساتھ۔ جو تصدیق کرتی ہے اس کتاب کی جو ان کے درمیان ہے اور اس پر نگہبان ہے۔ پس آپ ان کے درمیان اسی سے فیصلہ کریں جو اللہ نے نازل کیا اور ان کی خواہشات کے پیچھے مت چلیں حق سے ہٹ کر۔ہم نے تم میں سے ہرایک کیلئے شریعت اور راستہ بنایا ہے۔ اور اگر اللہ چاہے تو تمہیں ایک جماعت بناتا لیکن تاکہ تمہیں آزمائے کہ جو تمہیں اللہ نے دیا ہے۔ پس تم ایک دوسرے سے اچھائی میں پہل کرو جس میں تم اختلاف کررہے ہو”۔ (سورہ المائدہ :48)

توراة ،انجیل ،ویدوں کی تفسیر پر قرآن مھیمن نگران ہے مگرمسلمان معنوی تحریف کا شکار ہیں قرآن کا درست ترجمہ ہو تو دین فطرت پر عمل ہوگا، جو درست اعمال کریں تو دنیا میں وہی قوم ترقی کر سکتی ہے۔ اللہ نے بیوہ و طلاق شدہ اور غلام ولونڈیوں کے نکاح کا حکم دیا۔ غلام نکاح کیلئے لکھت کا معاہدہ کرسکتا ہے۔کنواریاں نکاح چاہتی ہوں تو بغاوت پر مجبور کرنا غلط ہے مگرقرآن کا مفہوم مسخ کردیا گیا ۔ مذہبی طبقات کا رویہ خوارج والا ہو کہ قرآن کا درست مفہوم حلق سے نہیں نہ اترے تو دنیا میں مسلمانوں پر اللہ نہ کرے بڑی آزمائشیں آسکتی ہیں۔

مفتی محمد تقی عثمانی نے کہا ہے کہ مجھے کوئی حج بدل پر بھیج رہا تھا لیکن میں والد صاحب کی بیماری کی وجہ سے نہیں گیا۔ اللہ نے اس کی بدولت مجھے اتنا نوازا کہ آج میرے پاس بہت کچھ ہے اور اس نے بیرون ملک کا سفرنامہ ”دنیا میرے آگے” لکھا۔

1981-80 میں مولانا فضل الرحمن، فیض محمد شاہین لائن مین (بعد میں سپرنڈنٹ واپڈا کیلئے ترقی کی) کی دعوت پر جمن شاہ لیہ آئے تھے اور پبلک ٹرانسپورٹ کا کرایہ بھی انہوں نے دیا 1982میں جب میں کراچی آیاتو دار العلوم کراچی میں مفتی تقی عثمانی و مفتی رفیع عثمانی وغیرہ کے حالات بنگالی پاڑہ سے مختلف نہیں تھے۔ یہی احوال جامعہ بنوری ٹاؤن اور جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کراچی اور دیگر علماء کے تھے۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی جب لالو کھیت سے مدرسہ میں آتے تھے تو ایک دن مہمان نے چائے پلانے کا مطالبہ کیا۔ جس پر انہوں نے کہا کہ میری والدہ روز کا ایک روپیہ دیتی ہیں اور ایک طرف کا کرایہ آٹھ آنے ہے مجھے آنے جانے میں ہی روپیہ لگتا ہے اور خود بھی مدرسہ سے جو چائے ملتی ہے وہ پیتا ہوں۔ مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید بھی پبلک ٹرانسپورٹ میں آتے تھے اور علماء کے پاس غربت کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔

1983میں جب سواد اعظم اہل سنت کے نام سے شیعہ کے خلاف تحریک شروع ہوئی تو مولانا سلیم اللہ خان نے مولانا اعظم طارق شہید کے سوتیلے والد مولانا زکریا لنگڑا جامعہ انوار العلوم فیڈرل بی ایریا نزد گلبرگ کراچی کی ڈنڈے سے پٹائی لگائی۔ پھر مولانا زکریا نے اخبارات میں بیان دیا کہ مولانا سلیم اللہ خان نے سواد اعظم کیلئے عراق کے پیسوں سے گھر میں فریج اور دیگر مراعات کی چیزیں خریدی ہیں۔ دار العلوم الاسلامیہ واٹر پمپ ایف بی ایریا سے میں مولانا یوسف لدھیانوی کے درس کو سننے جاتا تھا۔ مولانا نے کہا کہ مصحف اللہ کی کتاب نہیں اگر قرآن کے مصحف پر قسم کھائی جائے تو کفارہ نہیں اسلئے کہ تحریری شکل میں قرآن اللہ کی کتاب نہیں۔ مجھے حیرت ہوئی کہ عوام اللہ کی کتاب کے نام پر زبانی قسم کھاتے ہیں لیکن مصحف پر سچی قسم سے بھی گھبراتے ہیں۔ اور مسئلہ علماء کے نزدیک بالکل الٹ ہے۔ پھر پتہ چلا کہ یہ صرف عوام ہی نہیں علماء کو بھی اس علم کا پتہ نہیں۔ جامعہ بنوری ٹاؤن میں پہلے سال مفتی عبد السمیع شہید سے بحث ہوئی تو ان کو بھی پتہ نہیں تھا۔ پھر نور الانوار میں وہی پڑھا جو مولانا یوسف لدھیانوی صاحب نے بتایا تھا لیکن تعجب اسلئے نہیں ہوا کہ پہلے سے معلوم تھا ۔ جب مفتی تقی عثمانی کی کتاب میں دیکھا کہ سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز قرار دیا ہے اور اسکے خلاف پہلے بنوری ٹاؤن سے فتویٰ لیا اور پھر یہ مسئلہ شہہ سرخیوں کے ساتھ اخبار میں شائع کیا تو مفتی تقی عثمانی نے اپنی کتابوں سے اس کو نکالنے کا روزنامہ اسلام اور ضرب مؤمن میںاعلان کردیا۔ پھر دھیان اس سائڈ پر گیا کہ آخر اتنی بڑی غلطی فقہاء نے کیسے کی ہے؟۔ تو پتہ چلا کہ جب تحریری شکل میں قرآن کو اللہ کی کتاب نہیں مانتے تو اس کا یہی نتیجہ نکلے گا۔

پھر بہت ساری آیات میں یہ وضاحت دیکھی کہ لکھائی میں بھی قرآن اللہ کی کتاب ہے۔ علماء کے سامنے بالمشافہ معاملہ اٹھایا اور تحریروں میں بار بار اس کا ذکر کیا لیکن ڈھیٹ مخلوق اس پر گدھوں کی طرح کان دھرنے کو تیار نہیں ہے۔ پھر قرآن کی جو تعریف لکھی ہے وہ بھی انتہائی گمراہ کن اور خطرناک ہے۔ ایک طرف یہ کہنا کہ قرآن وہ ہے جو مصاحف میں لکھا ہوا ہے لیکن لکھے ہوئے سے پھر لکھا ہوا مراد نہیں۔ دوسری طرف یہ کہنا کہ جو متواتر نقل ہو بلاشبہ اور متواتر سے غیر متواتر آیات نکل گئیں جو بذات خود تحریف قرآن کے مترادف ہے۔ اور بلاشبہ سے بسم اللہ نکل گئی کیونکہ صحیح بات یہ ہے کہ بسم اللہ قرآن ہے لیکن اس میں شک ہے۔ اور شک اتنا مضبوط ہے کہ عام آیت کے انکار سے بندہ کافر بن جاتا ہے لیکن بسم اللہ کے انکار سے کافر نہیں بنتا۔ اس پر بھی بس کرتے لیکن اس تعریف کے باوجود یہ پڑھایا جاتا ہے کہ امام شافعی کے نزدیک قرآن سے باہر آیت کا عقیدہ کفر ہے کوئی غیر متواتر آیت نہیں۔ احناف کے نزدیک غیر متواتر آیت بھی آیت ہے۔ جس کو قرآن کی تعریف سے نکال دیا اس کو چور دروازے سے پھر داخل کردیا۔

ٹانک ڈیرہ اسماعیل خان کا لکھا پڑھا طبقہ اور علماء کرام بیٹھ جائیں اورحقائق پر غور کریں۔ پاکستان بلکہ مدینہ یونیورسٹی کے اساتذہ کے پاس بھی اس کا معقول جواب نہیں ہے۔ کہیں ہم پر عذاب کے فیصلے کی وجہ قرآن کی حفاظت کے نام پر قرآن کے خلاف یہ سازشیں تو نہیں ہیں۔ جب قرآن نازل ہوا تھا تو جو معاشرتی اور معاشی مسائل یہود و نصاریٰ اور مشرکین نے اپنی جہالت کی وجہ سے دین ابراہیمی میں تحریف کرکے کھڑے کئے تھے جن کی قرآن نے واضح الفاظ میں اصلاح کی تھی آج ہمارا مسلمان معاشرہ اسلام کو پھر اسی مذہبی جہالتوں کی طرف دھکیل چکا ہے۔ پہلے ائمہ اربعہ اور حدیث کے خلاف مزارعت کو جواز بخشا گیا اب عالمی سودی نظام کو بھی جواز بخشا گیا ہے۔ نماز اور غسل و وضو کے مسائل سے لیکر نکاح و طلاق اور خواتین کے حقوق تک ساری چیزیں غیر منطقی اور غلط رائج کی گئی ہیں۔

حضرت ابوبکر نے حکومت کی رٹ قائم کرنے کیلئے فرمایا تھا کہ جس نے رسول اللہ ۖ کو زکوٰة دی ہو تو اس سے ہم جبراً ہی لیں گے۔ ایک شخص نے رسول اللہ ۖ کو زکوٰة نہیں دی تھی تو حضرت ابوبکر نے اس کی زکوٰة لینے سے انکار کردیا۔ چاروں ائمہ کا متفقہ مسلک ہے کہ زکوٰة کیلئے قتال نہیں ہوسکتا۔ لیکن ان کی کم عقلی یہ ہے کہ دو امام بے نمازی کو واجب القتل قرار دیتے ہیں ایک کہتا ہے کہ بے نمازی مرتد ہے اور دوسرا نماز نہ پڑھنے کی سزا قتل سمجھتا ہے۔ تیسرے کے نزدیک کوڑے اور چوتھے کے نزدیک زدوکوب اور قید ہے۔ مفتی شفیع نے سیاق و سباق کا لحاظ رکھے بغیر معارف القرآن میں مشرکوں کو قتل کرنے کا شرعی حکم جاری کیا اور نماز و زکوٰة کیلئے حضرت ابوبکر کے فعل کو دلیل بنایا۔ علامہ غلام رسول سعیدی نے تبیان القرآن میں اس پر رد لکھا۔ شدت پسندی کی لہر میں مدارس کا کردار دیکھنا ہوگا۔
ــــــــــ

بے عمل کو دنیا میں راحتیں نہیں ملتیں
دوستو ! دعاؤں سے جنتیں نہیں ملتیں

اس نئے زمانے کے آدمی ادھورے ہیں
صورتیں تو ملتی ہیں سیرتیں نہیں ملتیں

اپنے بل پہ لڑتی ہے جنگ ہر پیڑھی
نام سے بزرگوں کے عظمتیں نہیں ملتیں

جو پرندے آندھی کا سامنا نہیں کرتے
ان کو آسمانوں کی رفعتیں نہیں ملتیں

اس چمن میں گل ہونے خون سے نہاتے ہیں
سب کو ہی گلابوں کی قسمتیں نہیں ملتیں

شہرتوں پہ اترا کر خود کو جو خدا سمجھیں
منظر ایسے لوگوں کو تربتیں نہیں ملتیں

بے مقصد لوگوں کو عداوتیں نہیں ملتیں
بلا قیمت لوگوں کو شوکتیں نہیں ملتیں

ناڑے پکڑتے ہیں ہمیشہ اوروں کے
چھپے واروں سے شجاعتیں نہیں ملتیں

پہلے کنویں میں ڈالا پھر چور بنا ڈالا
قصہ یوسف ہے وہی ظلمتیں نہیں ملتیں

حمزہ کا کلیجہ حضرت ہند نے چبا ڈالا
واہ فتح مکہ آہ کربلا رُتیں نہیں ملتیں

مل جاتی ہے شہرت دولت حکومت
باطل کو حق سے نسبتیں نہیں ملتیں

نہیں بدلی کسی زمانے میں اللہ کی سنت
شیوۂ حق پرستی میں بدعتیں نہیں ملتیں

زہر کا پیالہ پی لیا سقراط نے آخر
زمانے کو بدلو تو شربتیں نہیں ملتیں

کڑیاں ملتی ہیں نئی نئی سازشوں کی
زہے نصیب کہ شیطنتیں نہیں ملتیں

آدم حواء کے بیٹے تھے ہابیل قابیل
عتیق بدبخت کو خدا کی رحمتیں نہیں ملتیں
ــــــــــ

دل پر جو جبر کرنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے
شریر کرلیں جو شر کرنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے

متٰی نصراللہ اب کے بار تم پکاروگے
ضبط اس قدر کرنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے

حق باطل سے ہوچکا ہے جدا یہ ہوچکا ہے فیصلہ
بس تم کو خبر کرنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے

سمندر سے راستہ دینے والا رب راستہ دے گا
اللہ ہی کا امر کرنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے

تم سے جو رہ گیا اس کا دُکھ نہیں جو کرگئے تم
اس پر شکر کرنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے

اللہ تیرا ناصر ہو اللہ تیرا حامی ہو اے مجاہد
جہاد تو تا عمر کرنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے

ابھی تو عبد کو حقوق العباد ہے گھیرے ہوئے
دعا کو ابھی اثر کرنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے

خدا غضبناک ہوا پیچھے بیٹھ رہنے والوں پر
زندگی رب کی نذر کرنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے

ابھی تو فقط آغاز ہوا ہے ابھی سے تھکان کیسی
ابھی تو آگے سفر کرنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے

کوئی نقصان پہنچا نہ سکے اگر اللہ نہ چاہے
کرلے اے بشر جو کرنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے

اور ابھی تو تمہارا حساب وکتاب باقی ہے
تم نے این مفر کہنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے

جو تیرے دشمنوں پر ناگوار گزرتی ہے سو گزرے
تم نے حق کا ذکر کرنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے

رب کی نظر ہے سب پر کہ اب رب نے غم رات کی
بس اب سحر کرنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے

مشکل میں صبر و نماز سے کام لو فرمان الٰہی ہے
رب سے سمر کرنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے

سب رضائیں رب کی تو بندوں سے گلے کیسے
ہر گلہ رب کے در کرنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے
ــــــــــ

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ نومبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

شیعہ سنی، ایران سعودی، پاک افغان کشیدگی کا وہ حل جوبھارت، چین ، امریکہ، روس اوراسرائیل وفلسطین سب کیلئے بڑا آغاز ہوگا

 

اکائی کے بارے میں سادہ زبان میں کہہ سکتے ہیں کہ قطرہ، قطرہ سمندرہے یعنی پانی کی اکائی قطرہ ہے۔ پانی میں H2O دو ہائیدروجن اور ایک آکسیجن ایٹم ہیں۔ حضرت آدم وحواء سے ہابیل، قابیل اور شیث علیہ السلام تھے۔ نوح علیہ السلام کے بیٹے حام، سام، یافث تھے۔ مشرک، یہود و نصاریٰ کے دعویٰ کو قرآن نے جھوٹا کہا۔ ماکان ابراہیم یہودیًا ”نہیں تھا ابراہیم یہودی اور نہ نصرانی اور نہ وہ مشرکوں سے تھا”۔

ابراہم اکارڈ یہودی ، عیسائی اور عرب اسماعیل و اسحاق کی نسبت سے شروع کیا۔ بنی اسرائیل کے انبیاء اور محمد مصطفی خاتم الانبیائۖ ۔ یہ اکائی ہے۔ برصغیر پاک وہند اکائی تھی اور پھر پاکستان وبھارت میں تقسیم ہوا۔ علامہ اقبال کاترانہ آج بھارت پڑھتا ہے ”ساری دنیا سے اچھا ہندوستاں ہمارا”۔

1947کا پاکستان 1971 میں تقسیم ہوا۔اکھنڈ بھارت کا نظریہ ڈھاکہ سے کابل تک ہے۔ کشمیر متنازع تھا۔ ڈیورنڈلائن کو افغانی نہیں مانتے ۔ افغانستان ایران اور ڈیرہ اسماعیل خان ملتان کا حصہ تھا۔ دنیا میں زر، زمین اور زن کے نام پر لڑائیاں اور اکائیاں ہیں ۔دوسری جنگ عظیم 1945ء کے بعد جرمنی امریکہ، برطانیہ، فرانس اورسویت یونین میں تقسیم ہوا۔ دو بلاک مشرقی ومغربی 1949ء بن گئے۔تقریباً30لاکھ افراد سویت یونین سے بھاگ گئے توباہمی اشتراک سے 1961ء دیوار برلن بنی۔جو1989میں توڑ دی گئی ۔ہمارے پاکستان کا خطہ ہزاروں سال کسی اور بر اعظم سے چل کر یہاں پہنچا اور قرآن میں واضح ہے کہ پہاڑ بادلوں کی طرح چل رہے ہیں۔ کبھی بادلوں کا چلنا واضح لگتا ہے اور کبھی ٹھہرے ہوئے لگتے ہیں۔

جب پاکستان بن رہا تھا تو ہندوستان کے مہاجرین نے اپنا وطن اور اپنے خاندان اور نسلیں قربان کردیں۔ پنجابی، سندھی، پشتون، بلوچ اور سرائیکی اپنے وطن ، نسل اور زبان کی حساسیت کو سمجھتے ہیں۔ تقسیم ہند کے وقت سب سے زیادہ تکلیف پنجابی بولنے والوں کو اٹھانی پڑی۔ اس طرح دوسرے صوبوں سے ہجرت کرنے والوں کے خاندان ٹوٹ کر تہس نہس ہوگئے اور جس ریاست کیلئے قربانی دی تو اس میں اسلام اور فلاح وبہبود اور آزادی کا تصور تھا۔ محلاتی سازشوں نے پاکستان کو ایک بڑی مثالی ریاست بننے سے روک دیا۔ لیکن آج اسلام کی آزادانہ تشریح کا راستہ کسی نے نہیں روکا ۔ کیا مشرقی و مغربی پاکستان صلح کریں تو حلالہ کرنا پڑے گا؟۔ ہرگز ہر گز نہیں!

مشرقی اور مغربی جرمنی اسلئے ایک ہوگئے کہ وہاں حلالہ کی لعنت کا تصور نہیں تھا۔ مغربی اور مشرقی پاکستان میں حلالہ کا تصور ختم ہوگا تو دونوں پاکستان پھر ایک اور نیک ہوسکتے ہیں۔

وزیرستان واحد ایک ایسی سرزمین تھی جس پر کسی کی حکومت نہیں تھی۔ کرم ایجنسی پارہ چنار میں کابل افغانستان کا سرکاری پٹوار سسٹم تھا۔ جس کی باقاعدہ رجسٹریشن تھی۔ 1833ء میں افغان معزول بادشاہ شجاع درانی نے راجہ رنجت سنگھ کے ساتھ سرحدات کا معاہدہ کیا لیکن پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکا تھا۔ انگریز نے افغانستان کو بفر زون بنایا تھا۔ ڈیورنڈ لائن معاہدہ1893 میں ہوا تھا اورلاہور کے پٹوار سٹم کے تحت جتنا علاقہ کرم سے باجوڑ تک افغانستان سے لیا تو اتنا واخان کا ناپ کردیا تھا تاکہ تاجکستان روس اور برطانوی ہند میں بفرزون قائم ہوجائے۔

امیر عبدالرحمن خان افغان بادشاہ برطانیہ سے سالانہ 18 لاکھ روپے گرانٹ لیتا تھا۔ اسکے بیٹے امیر حبیب اللہ خان کے قتل کے بعد اس کا پوتا امیرامان اللہ خان تخت پر بیٹھا، 1919 کو انگریز سے آزادی کا اعلان کیا۔ 1920ء میں ہندوستان سے 50ہزار سے زیادہ لوگوں نے ان کے بلاوے پر ہجرت کی ۔ مولانا احمد علی لاہوری اور عبدالغفار خان شامل بھی تھے۔ لیکن پھر آنے والوں کو ڈنڈوں اور گولیوں سے روکا گیا تھا۔

جب1947ء میں تقسیم ہند کا فیصلہ ہوگیاتھا تو باچا خان اپنا مؤقف واضح کررہے تھے کہ اپنے گھر بار چھوڑ کر مت جاؤ ۔ ان کا پہلے بڑا تلخ تجربہ ہوچکا تھا۔ رسول اللہ ۖ نے یہود سے ہی میثاق مدینہ کیا تھا اورمشرکین مکہ سے صلح حدیبیہ کا معاہدہ کیا تھا لیکن جب مسلمانوں نے میاں بیوی کے درمیان صلح کیلئے بھی حلالہ کو خراج بنالیا تو دوسری قوموں سے نفرت کیوں نہ بڑھتی؟ اور قرآن طلاق کے مقدمہ میں کہتا ہے کہ ”اللہ کو ڈھال مت بناؤ ، اپنے عہدوپیمان کیلئے کہ تم نیکی ، تقویٰ اور لوگوں میں صلح نہ کراؤ”۔( آیت224البقرہ) فلسطین و اسرائیل کی صلح میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتے لیکن میاں بیوی کو ملنے نہیں دیا جاتا ہے اور یہ قرآن وسنت اور انسانی فطرت سے بالکل انحراف ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” اور کوئی بستی نہیں ہے مگر ہم قیامت سے پہلے اس کو ہلاک کریں گے یا عذاب دیں گے سخت ترین اور یہ اللہ کے پاس کتاب میں لکھا ہوا ہے”۔ (الاسراء :58)

قرآن کے بعد تاریخ کے ہر موڑ پر مدینہ کے واقعہ حرہ اور عبداللہ بن زبیر کے وقت مکہ مکرمہ سے لیکر کہاں کہاں کیا کیا نہ ہوا؟۔ بنوامیہ کا بنوعباس کے ہاتھ اور بنوعباس کا چنگیزیوں کے ہاتھ سکوت بغداد ، جاپان کے شہروں پر ایٹم بم، افغانستان اور عراق کی تباہی موٹی موٹی مثالیں ہیں۔ غزہ کا قتل عام ہو یا پھر ڈیرہ اسماعیل خان کا سیلاب سے بہہ جانا ، بونیر میں پتھروں کا سیلاب اور آنے والے وقت میں کیا ہوگا؟۔ پہلی ،دوسری جنگ عظیم میں کتنے لوگ مارے گئے؟۔ یوکرین میں لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ لبنان، شام اور یمن میں بڑی تباہیاں آئی ہیں۔ قرآن نے عورت کو خلع کا حق دیا اور مالی تحفظ بھی دیا لیکن مذہبی طبقات نے چھین لیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو قرآن کو مانتا ہے عملی طور پر وہ مسلمان ہے یا نہیں مانتا وہ ہے؟ اور قرآن نے باہمی صلح سے رجوع کی اجازت دی ہے تو کافر مانتا ہے اور مسلمان نہیں مانتا ہے پھر مسلمان کون ہوا؟۔

مولانا عتیق الرحمن سنبھلی نے پوچھا تھا کہ ”حق مہر” کی کیا حیثیت ہے؟۔ جو مفتی تقی عثمانی سے بڑے عالم تھے اورمفتی تقی عثمانی نے جواب دیا کہ ”یہ اعزازیہ ” ہے۔ حالانکہ حق مہر عورت کی سیکیورٹی اور انشورنس ہے ۔ وہ گھر سے کشتیاں جلاکر آتی ہے اور قرآن و حدیث میں اس کی کوئی معین مقدار نہیں ہے لیکن یہ واضح ہے کہ مرد کی استطاعت کے مطابق عورت کو حق مہر ملے۔ عورت جب کسی سے نکاح کیلئے راضی ہوتی ہے تو اس کے مال واسباب کو دیکھتی ہے۔ بھلے اس کی شکل و صورت اور عمر کیسے ہی کیوں نہ ہو۔ مولانا محمد خان شیرانی نے 92سال کی عمر میں اگر شادی کی ہے تو عورت کسی فقیر کیلئے راضی کیوں نہیں ہوتی؟۔ پیپلزپارٹی کے تاج حیدر نے بھی بڑی عمر میں شادی کی تھی اور اس میں اسلامی قانون کے مطابق ایک ویلیو نکال کر حق مہر ہونا چاہیے۔غریب پر بوجھ ڈالیں گے تو شادی میں مشکل ہوگی مگر عورت کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
ــــــــــ

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ نومبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

خدارا سنی اور جاوید غامدی حضرت عمر پر حلالہ کی لعنت جاری کرنے کی تہمت نہیں لگائیں

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: والمطلقات یتربصن بانفسھن ثلاثة قروئٍ ولا یحل لھن ان یکتمن ما خلق اللہ فی ارحامھن ان کن یؤمن باللہ والیوم الاٰخر وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحًا ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف وللرجال علیھن درجة واللہ عزیز حکیم (سورہ البقرة آیت228 )

” طلاق والی عورتیں خود کو انتظار میں رکھیں تین ادوار تک اور ان کیلئے حلال نہیں کہ چھپائیں جو اللہ نے انکے رحموں میں پیدا کیا اگر وہ اللہ اوریوم آخر پر ایمان رکھتی ہیں اور انکے شوہر اس میں اصلاح کی شرط پر ان کو لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں۔ اور ان کیلئے بھی معروف حق ہے جیسا کہ ان پر ہے اور مردوں کا ان پر ایک درجہ ہے اور اللہ زبردست حکمت والا ہے”۔

عورت کی عدت حیض آتا ہو تو تین ادواراور حمل ہو تو بچے کی پیدائش ہے۔ اور اگر نہ حمل ہو اور نہ حیض آتا ہو یا حیض میں گڑ بڑ ہو تو پھر تین ماہ کا اانتظار ہے۔ عدت میں عورت انتظار کی پابند ہے اور شوہر اصلاح کی شرط پر معروف طریقے سے باہمی رضا مندی کی بنیاد پر رجوع کرسکتا ہے۔ دورِ جاہلیت میں اکٹھی تین طلاق پر حلالہ کا غیر فطری مذہب تھا اور دوسری طرف عورت کی رضامندی کے بغیر رجوع کی جہالت تھی۔قرآن کی آیات نے ان دونوں جہالتوں کو ختم کردیا۔ حضرت عمر کے دور میں پہلی بار ایک عورت تین طلاق کے بعد رجوع کرنے پر راضی نہیں تھی تو حضرت عمر نے عورت کے حق میں فیصلہ دیا ۔ کچھ نے طلاق بدعت کہا اورکچھ نے طلاق سنت ۔لیکن فیصلے کی روح کی طرف نہیں دیکھا کہ جب عورت راضی نہ ہو تو رجوع نہیں ہوسکتا ۔

حضرت علی کے دور میں ایک شخص نے بیوی کو حرام کہا جب عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی تو حضرت علی نے فیصلہ دیا کہ رجوع نہیں ہوسکتا۔ رسول اللہ ۖ نے ازواج سے ایلاء کیا۔ آیت226البقرہ میں طلاق کے عزم کا اظہار نہیں کیاتو عدت تین ماہ کی جگہ چار ماہ ہے اور جب نبیۖ نے ایک ماہ بعد اپنی ازواج سے رجوع کیاتو اللہ نے ان کو علیحدگی کا اختیار دینے کا حکم فرمایا۔تاکہ عورت کا اختیار واضح ہو۔طلاق کا عزم ہو تو پھر اظہار نہ کرنا دل کا گناہ ہے اسلئے کہ عدت ایک ماہ بڑھتی ہے۔

وزیرستان کی آزاد منش عوام نے اگر قومی بنیاد پر فیصلہ کیا کہ البقرہ 222سے 237کے مطابق اور سورہ النساء 19اور 20و21کے مطابق عورتوں کو حقوق دینے ہیں جس میں ایک صحافی رضیہ محسود اور ایک ایازوزیر کی بیٹی کو علماء اور لکھے پڑھے طبقے کی کمیٹی میں شامل کیا جائے تو پاکستان وافغانستان، عرب و ہندوستان اور عالم انسانیت میں بہت بڑا انقلاب آجائے گا۔

روس اور اس سے آزاد ہونے والے ممالک میں طلاق کی قانونی عدت ایک سال ہے جس کے بارے میں امریکی جہاد کیلئے غلط پروپیگنڈہ کیا گیا کہ وہ وہاں نکاح نہیں بلکہ جانوروں کی طرح والدین اور بہن بھائیوں کی حرمت ختم کی گئی ہے۔

قرآن خود بعض آیات کی بعض سے تفسیر کرتا ہے اور اس کی آیات میں کوئی بھی تضادات اور اختلافات بالکل نہیں ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان ولا یحل لکم ان تأخذوا مما اٰتیموھن شیئًا الا ان یخافا الا یقیما حدوداللہ فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ تلک حدود اللہ فلا تعتدوھا و من یتعد حدوداللہ فاولٰئک الظالمون O سورہ البقرہ آیت:229)
ترجمہ :” طلاق دو مرتبہ ہے پھر معروف طریقے سے روکنا ہے یا احسان کیساتھ چھوڑ دینا ہے اور تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے کہ اس میں سے کچھ بھی واپس لے لو مگر یہ کہ جب دونوں کو خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیںگے۔ اور اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو دونوں پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں۔ یہ اللہ کی حدود ہیں تو ان سے تم تجاوز نہ کرواورجو حدوداللہ سے تجاوز کرے تووہی ظالم ہیں”۔

یہ آیت باہمی اصلاح یا صلح کی تفسیر ”معروف طریقے” سے کرتی ہے۔ جب معروف طریقے سے دونوں راضی ہوں گے تو پھر رجوع ہوسکتا ہے ورنہ رجوع نہیں ہوسکتا۔ مسلک حنفی یہ ہے کہ ”اگر رجوع کی نیت نہیں ہے اور عورت پر عدت میں نظر پڑگئی اور شہوت آگئی تو رجوع ثابت ہوگیا ”۔ مسلک شافعی یہ ہے کہ ”اگر رجوع کی نیت نہیں ہو تو مسلسل جماع جاری رکھیں تو بھی رجوع نہیں ہوگا”۔ یہ معروف کے مقابلہ میں منکر ہے۔

دلوں اور دلالوں سے بے غیرتوں اور منہ کالوں سے کون یہ توقع رکھے کہ قرآن، معروف اور فطرت پرتوجہ دیںگے ؟۔ یہ مذہب سے پیٹ اور نفس پالتے ہیں اور بس!۔ مفتی تقی عثمانی نے سود کو جواز بخش دیا اور علماء نے پہلے سخت مخالفت کی اور پھر مقدس گائے کی دم پکڑلی کہ یہ ہماری نجات کا ذریعہ ہے۔ یورپ کے دورے پر نکلا ہے کہ اور صرف وہ لوگ مجلس میں شرکت کرسکتے ہیں جن کو کارڈ جاری ہوگا اور عوام سے خوف تھا کہ کوئی سوال پوچھ لیں تو؟ اسلئے سب کو روک دیا گیا۔

سورہ النساء آیت 19میں خلع کا ذکر ہے اور 20،21میں طلاق کا ذکر ہے۔ پہلے عورت کو خلع کا حق دیا گیا ہے اور اس کو مالی اور اخلاقی تحفظ بھی دیا ہے اور پھر مردکو طلاق کا حق دیا گیا ہے اور عورت کو خلع کے مقابلے میں زیادہ مالی حقوق کا تحفظ دیا گیا ہے۔ مفتی سعید خان نکاح خواں عمران خان کو بالمشافہہ بھی آیات کا درست مفہوم سمجھادیا تھا اور وہ مان بھی گئے تھے۔

آیت 230سے پہلے آیت 229البقرہ میں اللہ نے تین شرعی حدود کا ذکر کیا ہے۔ نمبر 1: عدت کے تین مراحل میں ہی تین مرتبہ طلاق کی وضاحت ہے۔ پاکی کے ایام یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر پاکی کے ایام یہاں تک کہ حیض آجائے اور پھر پاکی کے ایام میں رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ یہی وہ عدت ہے جس میں اللہ نے اس طرح تین مرتبہ طلاق کا امر کیا ہے اور تسریح باحسان ہی تیسری طلاق ہے۔ آیت واضح ہے کہ جب رجوع کرنا ہے تو معروف طریقے نہ کہ منکر طریقے سے۔ ایک شخص نے بنوں میں مولوی کے ذریعے زبردستی حلالہ کروایا اور پھر مولوی جیل بھی گیا۔ اگر آیت کا درست مفہوم معلوم ہوتا تو یہ بے غیرتی نہیں ہوتی۔ عورت راضی تو بغیر حلالہ کا رجوع ہے اور راضی نہیں تھی تو پھر حلالہ کے باوجود رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔

نمبر2: دوسری حد یہ ہے کہ جب عدت کے تیسرے مرحلہ میں تیسری فیصلہ کن طلاق دیدی تو تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی عورت کو دیا ہے کہ اس میں سے کچھ بھی واپس لے لو۔ آیت229میں آیت230سے پہلے یہ بہت اہم حد ہے اور اسی کی وضاحت آیت20اور 21سورہ النساء میں بھی ہے۔

نمبر3: تیسری حد یہ ہے کہ تیسری فیصلہ کن طلاق کے بعد کوئی بھی دی ہوئی چیز واپس لینا حلال نہیں لیکن اگر دونوں اور فیصلہ کرنے والوں کو یہ خوف ہو کہ اگر وہ چیز واپس نہیں کی گئی تو دونوں اللہ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے۔جس کا مطلب ہے کہ جدائی کے بعد شوہر کی دی ہوئی چیز رابطہ کا ذریعہ ہو اور جنسی تعلقات سے اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں تو عورت کی طرف سے اس چیز کو فدیہ کرنے میں کوئی حرج نہیں جس سے اس کی عزت ہی محفوظ ہوگی لیکن اس سے خلع مراد لینا عورت کا بدترین استحصال ہے جو کسی صورت میں مراد لینا انتہائی غلط ہے۔

اس آیت229میں معروف کیساتھ رجوع کی بھی بھرپور وضاحت کردی گئی اور احسان کیساتھ رخصت کرنے کی بھرپور وضاحت کرتے ہوئے مزید یہ بھی واضح کردیا کہ شوہر کیلئے دی ہوئی چیز واپس لینا حلال نہیں مگر اس صورت میں جب دونوں کو اور فیصلہ کرنے والوں کو یہ خوف ہو کہ پھر اللہ کی حدود کو دونوں ڈھبر ڈوز کردیں گے۔ جیسے خود کش فدائی حملہ کرتا ہے اسی طرح سے عورت سے وہ چیز واپس لینا اگرچہ حلال نہیں تھا لیکن عزت بچانے کیلئے اس چیز کو فداء کرنے میں حرج نہیں ہے۔

ایک شخص سے کہا جائے کہ میری جیب میں ہاتھ ڈالو لیکن اس کیلئے تین شرائط یا تین حدود ہیں۔ پہلی یہ کہ میں اندھا ہوں دوسری یہ کہ میرے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور تیسری یہ بھی کہ جب میری دونوں ٹانگیں ٹوٹ جائیں تو میری جیب میں سے وہ پیسہ نکال سکتے ہو جو تم نے مجھے دیا تھا۔ جب تک تینوں شرائط نہیں پائی جائیں گی تومیری جیب سے دئیے ہوئے پیسے واپس نہیں لے سکتے۔ اندھے ہونے کی صورت میں بھی اور پھر ہاتھ ٹوٹنے کی صورت میں بھی جب تک کہ ٹانگیں بھی نہ ٹوٹیں۔

یہی وہ صورت ہے کہ جس میں باہمی اصلاح اور معروف طریقے سے رجوع کا کوئی امکان نہیں ہے لیکن شوہراس عورت کو اپنی مرضی سے شادی نہیں کرنے دیتا۔ اس کی ایک مثال انصار کے سردار حضرت سعد بن عبادہتھے اور دوسری مثال برطانوی خاندان کا شہزادہ چارلس کی طلاق کے بعد لیڈی ڈیانا کا قتل ہے اور تیسری مثال ریحام خان کو طلاق دی تو تحریک انصاف کے کارکنوں نے پاکستان آمد پر قتل کی دھمکی دی اور چوتھی مثال خاور مانیکا جیسے بے غیرت انسان کا بشریٰ پر عدت کے نکاح کا کیس ہے۔ حالانکہ عمران خان بشریٰ بی بی کیساتھ شادی کے بعد عمرہ کی ادائیگی کیلئے بھی ساتھ گیا تھا۔

فان طلقہا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ ( البقرہ :230 )” پس اگر اس نے طلاق دی تو اس کیلئے حلالہ نہیں یہاں تک کہ کسی اورشوہر سے نکاح کرلے”۔
امام ابوحنیفہ کا مسلک اصول فقہ میں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ فان طلقہا کا تعلق اس سے قبل متصل فدیہ سے ہے ۔ اسلئے کہ ف تعقیب بلامہلت کیلئے آتا ہے (نورالانوار :ملا جیون)۔

حنفی مسلک کی یہ کتاب اور اصول الشاشی ہم نے حضرت مولانا بدیع الزمان سے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں پڑھی تھی اور انہوں نے طلبہ کو تلقین کررکھی تھی کہ روزانہ قرآن کا ایک ایک رکوع ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ سمجھنے پر غور وتدبر کریں۔ مفتی محمد تقی عثمانی اور مولانا فضل الرحمن کے بھائی مولانا عطاء الرحمن کے بھی مولانا بدیع الزمان ہی استاذ تھے۔ بریلوی مکتب میں بھی اصول فقہ اور یہی حنفی مؤقف درس نظامی کا حصہ ہے۔

اگریہ حنفی مؤقف تسلیم کیا تو قرآن کی طلاق سے متعلق تمام آیات سیدھے سادے طلبہ کو بھی سمجھ میں آجائیںگی اسلئے کہ جب یہ فدیہ والی صورت نہیں ہو تو پھر آیت 228کے مطابق اکٹھی تین طلاق دی جائے یا مرحلہ وار عدت کے تین مراحل میں تین مرتبہ طلاق دی جائے تو پھرکسی صورت میں حلالہ کی ضرورت نہیں پڑے گی جب عورت رجوع کیلئے باہمی اصلاح سے راضی ہو۔ آیت229میں معروف طریقے سے رجوع کا یہی مطلب ہے کہ عورت راضی ہو۔ آیات 231 اور 232 البقرہ میں عدت کی تکمیل کے بعد معروف طریقے سے رجوع کی اجازت ہے اور یہی چیز سورہ طلاق کی پہلی دو آیات میں ہے ۔ افسوس کہ پیٹ کی خاطر منکر رجوع کی تشہیر ہورہی ہے مگر قرآنی آیات میں معروف رجوع کی جرأت نہیں کرتے ہیں۔

امام ابوحنیفہ ، امام مالک ، امام جعفر صادق ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل پر حکمرانوں کی سختیاں تھیں لیکن اب حق پر کوئی ناجائز پریشر نہیںہے پھریہ کم عقلی ہے یا مفاد پرستی ہے ؟ اسلئے حقائق سمجھنے کے باوجود بھی لوگ ماننے کو تیار نہیں ہیں!۔
حنفی اصول فقہ کا مؤقف یہ ہے کہ حتی تنکح زوجًا غیرہ سے مراد ”عورت کی خود مختاری اور آزادی” ہے۔ جس کا واضح مطلب یہی ہے کہ اس سے ”حلالہ ” مراد نہیں ہے کیونکہ اس سے پہلے کی آیات میںعدت کے اندر باہمی اصلاح اور عدت کی تکمیل کے بعد معروف طریقے سے حلالہ کے بغیر بھی رجوع کی کھلی وضاحت ہے اور سورہ الطلاق کی پہلی دو آیات میں عدت کے اندر ، عدت کی تکمیل کے بعد اور عدت کی تکمیل کے کافی عرصہ بعد بغیر حلالہ کے رجوع کی کھلی وضاحت ہے۔

جب میں نے مولانا بدیع الزمان سے درسگاہ میں عرض کیا کہ حتی تنکح زوجًا غیرہ سے مراد طلاق شدہ عورت ہے اور اس سے متصادم حدیث کو غلط پیش کیا گیا ہے کہ ایما امرأة نکحت بغیر اذن ولیھا فنکاح باطل باطل باطل ” جس عورت نے بھی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے باطل ہے باطل ہے”۔حالانکہ آیت میں طلاق شدہ عورت کو مرضی کا مالک قرار دیا ہے اور حدیث سے کنواری مراد ہوسکتی ہے تو استاذ کا روشن چہرہ خوشی سے دمک اٹھااور فرمایا کہ ”جب اگلی کتابیں پڑھ لوگے تو مسائل کا حل نکالوگے”۔

مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی کے پاس بھی سوال کا جواب نہیں ہوتا۔ قاری مفتاح اللہ صاحب مدظلہ العالی ملاجیون کی کم عقلی کے لطیفے سنانے لگے ۔میرے بارے میں فرمایا کہ ”امام ابوحنیفہ وامام مالک جیسے درجہ کا ذہن رکھتا ہے ۔ایک دن تم طلبہ اس پر فخر کروگے کہ ہم نے عتیق کیساتھ پڑھا ہے”۔

محسود قوم میں حق مہر پر بحث ہے تواس سے بڑا مسئلہ حلالہ کی لعنت ہے۔ کچھ محسود منٹوں میںمعاملہ سمجھے ،کچھ گھنٹوں بعد بھی آمادہ نہ تھے۔ مولانا طاہر مسجدشین مینارٹانک، مولانا عصام الدین، ہاشم خان جانشین خیر محمد کا کا ٹانک ڈیرہ اسماعیل خان کے محسود، برکی ،وزیر،بیٹنی، کنڈی ،گنڈاپور،مروت، مہاجرین، سرائیکی قائدین اور علماء کا جرگہ بلائیں تو انقلاب کا آغاز ہوگا۔
ــــــــــ

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ نومبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مسلمان سے عیسائی بننے کاسفر ؟ اور مسلمانوں کیلئے اس میں بڑی عبرت اور اصلاح کا عظیم سبق!

سوال :جمان قویسمی، آپ کبھی غزہ میں حماس کے ایک رکن سے شادی شدہ تھیں۔
جمان: جو کچھ اسکے بعد ہوا، وہ ایک ایسی کہانی ہے جس پر یقین کرنا سننے کے بغیر مشکل ہے۔

سوال: شروع کرنے سے پہلے، میری دوست، میں جاننا چاہتا ہوں کہ بچپن میں عیسائیوں اور یہودیوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے تھی؟۔
جواب:اچھا، میں قطر میں پیدا ہوئی اور وہیں پلی بڑھی۔ میرے والد حماس کے بانی ارکان میں سے ایک ہیں۔میرے والد اور والدہ نے ہمیں اسرائیل، یہودیوں، عیسائیوں بلکہ شیعہ مسلمانوں سے بھی نفرت کرنا سکھایا۔ہمیں بتایا جاتا تھا کہ جو بھی حماس سے تعلق نہیں رکھتا، وہ ہمارا دشمن ہے، اور ہمیں ان پر لعنت کرنی چاہیے!

مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم واقعی عیسائیوں اور یہودیوں پر لعنت کرتے تھے،ہمیں یقین دلایا گیا تھا کہ انہیں قتل کرنا ہمارا فرض ہے کیونکہ قرآن یہی کہتا ہے۔میں جانتی ہوں کہ یہ پاگل پن لگتا ہے، مگر ہم واقعی اسلام پر اس طرح ایمان رکھتے تھے کہ تمام یہودیوں کو قتل کرنا ضروری ہے۔ ہمیں بتایاگیا کہ حضرت عیسی واپس آئیں گے تو وہ ہمارے ساتھ لڑیں گے، وہ صلیب کو توڑ یں گے، سور کو قتل کریں گے اور درخت اور پتھر مسلمانوں کو پکاریں گے:”اے مسلمان، میرے پیچھے ایک یہودی چھپا ہوا ہے، آ ؤاور اسے مار دو۔”
اب سوچتی ہوں تو یہ سب کتنا جنون آمیز تھا۔

سوال:واہ تو آپ کے والد حماس کے بانی ارکان میں سے تھے۔آپ نے بعد میں غزہ میں ایک حماس کے رکن سے شادی کی۔آپ حضرت عیسی(یسوع )کو کیسے جاننے لگیں؟۔
جمان: اچھا، میں غزہ میں تقریباً تیرہ سال تک شادی شدہ رہی۔میری شادی2002میں ہوئی تھی اور میں اس وقت غزہ منتقل ہوئی۔2012 کے بعد میرے ذہن میں سوالات پیدا ہونے لگے کیونکہ میں نے دیکھاکہ حماس نے غزہ میں کیا کیا ۔ جب وہ اقتدار میں آئے تو انہوں نے کہا کہ وہ مساوات لائیں گے، لوگوں سے وعدے کیے، مگر کچھ بھی پورا نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ وہ فتح تنظیم سے نفرت کرتے ہیںجو حماس سے پہلے غزہ پر قابض تھی۔ انہوں نے عوام سے ووٹ مانگے، میں نے بھی حماس کو ووٹ دیا مجھے اس پر افسوس ہے، لیکن میں نے ایسا 2006-7 میں کیا تھا۔مگر انہوں نے غزہ کو پہلے سے بدتر بنا یا، اور فلسطینیوں کو ہی قتل کرنا شروع کر دیا۔انہوں نے ہمیں یہ احساس دلایا کہ اگر آپ حماس سے تعلق نہیں رکھتے، تو آپ کو خوفزدہ رہنا چاہیے۔ میں سوچتی رہی، اور اسی دوران داعش کا ظہور ہوا، جو مسلمانوں کو بھی بڑی تعداد میں قتل کر رہی تھی۔ مجھے لگا کہ اس مذہب میں کچھ نہ کچھ غلط ہے۔

میں اسلام میں پلی بڑھی تھی لیکن میں کبھی خدا سے مطمئن نہ تھی۔ مجھے ہمیشہ لگتا تھا کہ خدا مجھ سے ناراض ہے۔ مجھے کبھی یہ یقین نہ تھا کہ میں جنت میں جاؤں گی۔ ہمیشہ جہنم کا خوف رہتا اورقبر میں سانپوں کے عذاب کا تصور رہتا۔ اسلام ہمیں سکون نہیں دیتا، ہمیشہ یہ خوف رہتا کہ شاید میری عبادت قبول نہیں ہوئی، مجھے مزید کچھ کرنا ہے تاکہ خدا خوش ہو۔ اسی سوچ میں ایک شخص جو میرے قریب تھا میں اس کا نام حفاظتی وجوہ سے نہیں لینا چاہتی وہ لاادری ہے۔اس نے کہا کہ قرآن کو مذہبی عقیدت کے بغیر ایک عام کتاب کی طرح پڑھو۔ میں نے ایسا کیا تو دیکھا کہ قرآن میں زیادہ تر باتیں قتل و قتال کی ہیں، محمد کی کہانیاںہیں، مثلا جب اپنے منہ بولے بیٹے کی بیوی سے شادی کی۔ قرآن میں کہا گیا کہ اللہ نے آیت نازل کی کہ بیٹے کو کہو وہ اپنی بیوی کو طلاق دے تاکہ محمد اس سے نکاح کر سکیں۔

مجھے لگا کہ قرآن کی یہ باتیں سمجھ میں نہیں آتیں۔میں نے محسوس کیا کہ قرآن کا خدا حقیقی خدا نہیں ہو سکتا۔ یہ سب میرے لیے بے معنی تھا۔ مجھے اس کے بعد بھی یہ احساس ہوتا رہا کہ میں خدا کو نہیں جانتی۔ میں لاادری نہیں بنی تھی، مگر میں ہر روز دعا کرتی تھی کہ خدا، اگر توموجودہے تو میں تجھے جاننا چاہتی ہوں، تجھ سے ملنا چاہتی ہوں۔ میرے دل کے اندر یقین تھا کہ کوئی خدا ہے، میں یہ نہیں مان سکتی تھی کہ یہ کائنات بغیر کسی خالق کے ہے۔ میں دعا کرتی تھی اور جب میں نے خدا سے اپنے بچوں کی شفا کے لیے مانگا اور وہ بچ گئے ۔حالانکہ وہ موت کے قریب تھے تو مجھے یقین ہو گیا کہ خدا موجود ہے۔

میں نے2012 سے لے کر 2014 تک مسلسل دعا کی۔ 2014 میں جب حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ شروع ہوئی،تو میں نے ایک واقعہ دیکھا: اسرائیلی فوج (IDF) نے میرے سابق شوہر کو فون کیا اور کہا کہ اپنے پڑوسیوں کو اطلاع دو کیونکہ ہم ان کے گھر پر بمباری کرنے والے ہیں۔

میرے شوہر نے جواب دیا کہ گھر میں کوئی نہیں ہے۔مجھے حیرت ہوئی کہ اسرائیل عام شہریوں کو خبردار کر رہا ہے تاکہ وہ محفوظ رہیں۔ انہوں نے کبھی اندھا دھند بمباری نہیں کی۔

اسی رات میرے پڑوسیوں کا گھر تباہ ہو گیا۔ میں بہت خوف زدہ تھی، مجھے لگا کہ اب میری موت قریب ہے۔ میں نے روتے ہوئے دعا کی: خدا، اگر تو موجود ہے، میں تجھے جاننا چاہتی ہوں، میں تیرا نام پکارنا چاہتی ہوں، مجھے بچا لے۔

اسی رات میں نے ایک خواب دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ میں اپنی والدہ کیساتھ بیٹھی ہوں میری والدہ کا انتقال 2005 میں ہوا تھا۔ہم دونوں بالکونی میں بیٹھے تھے ۔ چاند بہت بڑا اور روشن تھا، پھر وہ قریب آتا گیا۔ میری والدہ نے کہا، چاند کو دیکھو۔جب میں نے دیکھا تو چاند سے یسوع کا چہرہ ظاہر ہوا۔انہوں نے عربی میں مجھ سے کہا: انا یسوع۔یعنی میں خدا یسوع ہوں۔انہوں نے مجھ سے بات کی، اور مجھے یاد ہے کہ انہوں نے کہا:تم میری بیٹی ہو، خوف نہ کرو۔

جب میری آنکھ کھلی تو مجھے لگاکہ شاید یہ لمحہ صرف چند سیکنڈ کا تھا، لیکن کمرے میں روشنی سی پھیلی ہوئی تھی۔ مجھے لگا یہ کوئی خواب نہیں یہ حقیقت تھی۔ میں نے پہلے کبھی یسوع (یوشع) کا نام نہیں سنا تھا، کیونکہ قرآن میں انہیں عیسی کہا جاتا ہے۔ میں نے کبھی عیسائیوں سے میل جول نہیں رکھا تھا۔ میری ساری زندگی قطر کے اسکول، اسلامی مراکز، قرآن حفظ کی کلاسیں سب کچھ صرف اسلام کے گرد گھومتا تھا۔ میں نے کبھی کسی عیسائی سے نہیں سنا کہ وہ یسوع کے بارے میں بات کرے۔ مگر جب میں نے پہلی بار یشوعا کا نام سنا، تو وہ نام مجھے خوبصورت لگا۔ مجھے لگا کہ وہ خوبصورت خدا ہیں۔

میرے دل میں عجیب سا سکون اتر آیا۔زندگی میں پہلی بار میں نے محسوس کیا کہ کوئی مجھ سے محبت کرتا ہے۔ کیونکہ میں نے اپنے خاندان سے بھی کبھی حقیقی محبت محسوس نہیں کی تھی، ان سے نفرت نہیں، محبت کرتی ہوں، لیکن مسلمان ہونے کا مطلب ہے ہمیشہ بے سکونی۔ ہمیشہ یہ احساس کہ خدا ناراض ہے۔ اس دن پہلی بار میں نے محسوس کیا کہ کوئی مجھ سے محبت کرتا ہے۔ میں نے انٹرنیٹ پر جا کر یشوعا کے بارے میں تلاش کیا۔ مجھے ایک مصری عیسائی کا صفحہ ملا۔ میں نے وہ صفحہ کھولا تو سب سے پہلا جملہ میرے سامنے آیا: اپنے دشمنوں سے محبت کرو۔ میں حیران رہ گئی کون کہتا ہے دشمنوں سے محبت کرو؟ قرآن تو کہتا ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کو قتل کرو یا انہیں جزیہ پر مجبور کرو۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی کہے اپنے دشمنوں سے محبت کرو؟

یہ تو بالکل نیا تصور تھا۔ میں نے اس صفحے پر پیغام بھیجا۔ منتظم مجھے آج تک نہیں معلوم وہ مرد تھا یا عورت ؟ مجھے بتایا کہ میں بائبل پڑھوںاور کہا کہ آج ہزاروں مسلمان خوابوں میں یسوع کو دیکھ رہے ہیں اور مسیحیت قبول کر رہے ہیں۔ اس نے کہا: تم پہلی نہیں ہو۔ مجھے اطمینان ہوا، کیونکہ مجھے لگا تھا شاید صرف میرے ساتھ ایسا ہوا ۔ سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ یسوع کو دیکھنے سے پہلے، جب بھی میں سنتی کہ کوئی مسلمان عیسائی بن گیا ہے، تو میں سوچتی تھی کہ وہ ضرور جہنم میں جائے گا۔ اور اب وہ میں خود تھی جس نے یسوع کو قبول کر لیا، اور اپنی نئی زندگی کا آغاز کیا۔ واہ، کیا حیرت انگیز گواہی ہے۔

سوال: واقعی قابلِ ذکر تجربہ۔ یسوع کی حمد ہو، زندہ باد بادشاہ یشوعا کی۔میں آپ کی بات سن کر جذباتی ہو گیا ہوں یہ گواہی بہت طاقتور ہے۔ ہمیں آپ کو دوبارہ پروگرام میں بلانا پڑے گا کیونکہ آپ کے پاس بانٹنے کیلئے بہت کچھ ہے۔ اب چند مزید سوالات کرنا چاہوں گا۔ آپ نے بتایا کہ آپ کے والد حماس کے بانی ارکان میں سے ہیں۔ان کا نام کیا ہے؟
جمان: ان کا نام ابو جعفر ہے۔ لوگ ابو جعفر کہتے ہیں۔ ان کا اصل نام محمد قواسمی ہے۔چونکہ میرے بڑے بھائی کا نام جعفر ہے، اسلئے لوگ میرے والد کو ابو جعفر قواسمی کہہ کر پکارتے ہیں۔

سوال: اچھا جب آپ نے نجات پائی،جب یشوعا آپ پر ظاہر ہوئے اور آپ کی زندگی بدل گئی، تو آپ نے اپنے سابق شوہر، جو حماس کا رکن تھا، اور اپنے والد، جو بانی رکن تھے، ان سب کو کس نگاہ سے دیکھا؟ آپ کا غزہ کے حالات کے بارے میں نظریہ کس طرح بدل گیا؟۔
جمان: دیکھیں، جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے اسکے پیچھے سب کچھ حماس ہی ہے۔ حماس ہمیشہ مسائل پیدا کرتاہے۔ جب وہ خاموش رہتے ہیں، امن رہتا ہے۔ لیکن جیسے ہی موقع ملتا ہے، وہ اشتعال پھیلاتے ہیں۔ میں خود فلسطینی ہوں، میرے پاس فلسطینی شناختی کارڈ ہے، لیکن اب میںسمجھتی ہوں کہ یہ زمین درحقیقت بنی اسرائیل کو وعدے کے طور پر دی گئی تھی۔ میں نے بائبل میں یہ پڑھا ہے۔ یہاں تک کہ قرآن میں کہیں فلسطین کا نام نہیں ۔اسے بنی اسرائیل کی سرزمین کہاگیا ۔لیکن ہمیں بچپن سے یہ سکھایا گیاکہ یہ ہماری زمین ہے اور ہمیں تمام یہودیوں کو یہاں سے نکال دینا ہے۔ لیکن میں نے اپنی دادی سے سنا کہ وہ اپنے یہودی پڑوسیوں کیساتھ امن اور محبت سے رہتی تھیں۔ یعنی کبھی ہم سب امن میں رہتے تھے۔ لیکن جب سے حماس نے فتنے شروع کیے، ہر بار جب امن قائم ہونے لگتا ہے، وہ اسرائیل پر راکٹ داغنا شروع کر دیتے ہیں۔ پھر اسرائیل جوابی کارروائی کرتا ہے۔ ورنہ اس سے پہلے ایسا کچھ نہیں تھا۔

مجھے یاد ہے 2008 کی جنگ کے بعد اسرائیل نے غزہ کی تعمیرِ نو کیلئے پیسہ بھیجا تھا اور وعدہ کیا تھا کہ اگر امن رہا تو غزہ کو سنگاپور جیسا خوشحال بنا دیا جائے گا مگر حماس نے امن نہیں چاہا، انہوں نے تباہی کو ترجیح دی۔ انہیں لوگوں کے دکھ درد سے کوئی غرض نہیں، بس اقتدار اور طاقت کی ہوس ہے۔ میرے سابق شوہر اکثر اپنے رشتہ داروں سے بات کرتے ہوئے کہتے تھے: اب ہم ایک شہر کے نیچے دوسرا شہر بنا رہے ہیں۔ یعنی تمام پیسے جو عوامی تعمیر کیلئے آتے تھے، وہ زمین کے نیچے سرنگیں بنانے پر لگا دیتے تھے۔ انہوں نے عوام یا بچوں کیلئے کبھی پناہ گاہیں نہیں بنائیں۔ غزہ میں ایک بھی عوامی پناہ گاہ نہیں ہے، سب کچھ حماس کیلئے ہے۔ اب وہ انہی سرنگوں میں چھپے بیٹھے ہیں اور عام شہریوں، عورتوں اور بچوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔انہیں ہماری جان کی پرواہ نہیں۔ان کیلئے صرف ان کی طاقت اور اقتدار ہی سب کچھ ہے۔

سوال: آپ کی بات میں سچائی ہے، کئی بار بلانا پڑے گا کیونکہ آپ کی کہانی میں بہت کچھ ہے جو سمجھنے اور سیکھنے کے قابل ہے۔ اگر کوئی شخص یہ ویڈیو دیکھے، جس کااسلامی پس منظر ہے، اور اپنے ایمان کے بارے میں سوال کرنے لگا، یا پھر کوئی ایسا شخص ہے جو حماس کے بارے میں غلط تصورات رکھتا ہے تو آپ اس سے کیا کہیں گی؟ اس کیلئے آپ کا پیغام کیا ہوگا؟۔
جمان: میرا پیغام یہ ہے: اپنا دماغ استعمال کرنے سے مت ڈریے۔ سوچیے، سوال کیجیے۔ جو کچھ آپ کو بتایا گیا ہے، اسے اندھا دھند سچ نہ مان لیجیے۔ ہم سب سے بڑی غلطی یہی کرتے ہیں کہ جو بات ہمیں بچپن سے بتائی جاتی ہے، ہم اسے حقیقت سمجھ لیتے ہیں۔ مگر ضروری ہے کہ انسان تحقیق کرے، تاریخ پڑھے، حقائق جانے، اور اپنے جذبات سے اوپر اٹھ کر سوچے۔ یہ مت سمجھئے کہ حماس غزہ کی محافظ ہے۔ نہیں حقیقت یہ ہے کہ غزہ کے سب سے بڑے دشمن خود حماس ہیں۔ حماس ظالم ہے۔ انہیں فلسطینیوں کی پرواہ نہیں۔ وہ صرف مارنے اور اقتدار میں رہنے پر یقین رکھتے ہیں۔ انکے ذہن میں یہ عقیدہ بٹھایا گیا کہ اگر ہم قتل ہو جائیں تو جنت میں جائیں گے، جہاں بہتر حوریں ہمارا انتظار کر رہی ہیں۔ وہ چار یا پانچ سال کے بچوں کو قرآن یاد کرنے کے بہانے نفرت سکھاتے ہیں ۔ ہتھیار چلانا سکھاتے ہیں، انہیں یہود اور اسرائیل سے نفرت کرنا سکھاتے ہیں۔یہ بہت کم عمری سے شروع ہو جاتا ہے۔ میں جانتی ہوں کہ یہ آسان نہیں، کیونکہ جب آپ ایک خاص عقیدے میں پلتے ہیں، اور آپ کے والدین، خاندان سب اسی پر یقین رکھتے ہیں، تو سوال اٹھانا بہت مشکل ہوتا ہے۔

لیکن میرا مشورہ ہے خوف نہ کریں۔ سوچنے ، سوال کرنے سے نہ رکیں۔ اسلام میں سوچنے اور سوال کرنے کی اجازت نہیں۔ صرف فرمانبرداری کی توقع کی جاتی ہے۔ مگر خدا نے ہمیں دماغ اورسوچنے کی صلاحیت دی۔ اپنے روحانی احساس کے ذریعے سچائی تک پہنچنے کی دعوت دی ۔ میں خود اسرائیل اور فلسطینی علاقوں میں کئی بار جا چکی۔ لوگ پوچھتے ہیں: اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ امن کیسے ممکن ہے؟، میرا جواب ہمیشہ ایک لفظ ہوتا ہے یشوعا (یسوع)۔ کیونکہ وہی حقیقی امن دینے والا ہے۔ یسوع واحد راستہ ہیں۔ جس نے زندگی قربان کی تاکہ انسان گناہوں اور خوف سے آزاد ہو سکے۔ یہ صرف میرا عقیدہ نہیں یہ سچ ہے۔ یسوع واقعی مصلوب ہوئے، انہوں نے واقعی جان دی اور تیسرے دن زندہ ہوئے۔انہوں نے ہمیں گناہ اور موت سے آزاد کیا۔ میں جانتی ہوں کہ وہ آج بھی مسلمانوں سے محبت کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم خوف سے آزاد ہوں، اور سچائی کو پہچانیں۔ ہمیں ڈرنے کی ضرورت نہیں۔

بس اپنی نظریں یسوع پر جمائیں کیونکہ وہی راستہ ہیں، وہی سچ ہیں، اور وہی زندگی ہیں۔ ان جیسا کوئی نہیں۔آمین۔
ــــــــــ

جمان قواسمی کی حقیقت کیا ہے؟

یہ نہیں پتہ کہ جمان قواسمی کا کیا ماجراء ہے؟۔ اسکا سچ جھوٹ خدا کو معلوم ہے لیکن جب ہندوستان میں ایک بی بی کا شوہر گم ہوگیا تھا تو حنفی مسلک کے مطابق اس کو 80سال انتظار کا حکم تھا اسلئے اس نے اسلام چھوڑ کر عیسائی مذہب اختیار کرلیا تھا۔

مولانا اشرف علی تھانوی نے پھر مالکی مسلک سے چار سال انتظار کا فتویٰ ”حیلہ ناجزہ ”کتاب لکھ کر جاری کیا۔ جس میں یہ مسئلہ بھی لکھ دیا کہ ”اگر شوہر تین طلاق دیکر مکر گیا اور عورت کے پاس گواہ نہیں تھے تو خلع لے اور اگر خلع نہیں ملے تو حرام کاری پر مجبور ہے مگر جب شوہر جماع کرے تو وہ لذت نہ اٹھائے”۔

شور ہے ہوگئے دنیا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

علامہ اقبال نے یہ زیادتی کی ہے۔ کیا ہندواور عیسائی حلالہ کی لعنت پر عورت کو اس طرح مجبور کرسکتے ہیں؟۔ پہلے یہود کی طرح حلالہ کی لعنت جاری کی اور اب 2%سود کے اضافے کو اسلامی بینکاری کا نام دے دیا؟۔ جس کی حیثیت ایسی ہے کہ جیسے بیٹوں سے ماؤں کا حلالہ کروایا جائے۔ علامہ اقبال یہ نہیں جانتا تھا کہ مولوی اس قدر حدود کو بھی کراس کریںگے اور ہمارا تاجر طبقہ پہلے حلالہ کرواتا تھا اور سودی حلالے پر خوش ہوگا۔

قرآن سورہ النساء میں اللہ نے عورت کو خلع کی اجازت دی ہے اور ساتھ میں مالی تحفظ بھی دیا ہے۔ جو ترقی یافتہ دنیا میں بھی اس پر کچھ نہ کچھ عمل ہے لیکن مسلمانوں نے خلع کے حق کا انکار کرکے معاملہ جبری جنسی زیادتی کو بھی شریعت کا نام دینے تک پہنچادیا ہے۔ حقائق آئیںگے تو ہٹ دھرم مولوی کے چوتڑ سے محض ہوا نہیں خارج ہوگی بلکہ شعلہ اوردھواں نکلے گا۔

اللہ نے خلع کی نسبت طلاق میں عورت کا زیادہ مالی حق رکھا ہے اسلئے اگر شوہر مذاق میں طلاق دے تو عورت کی رضامندی کے بغیر رجوع نہیں کرسکتا ہے۔ مولوی نے طلاق رجعی کا جھوٹا تصور رکھ کر ایک مرتبہ طلاق کے بعد بھی رجوع کی یکطرفہ جھوٹی شریعت جاری کی ہے اور دومرتبہ طلاق کے بعد بھی رجوع کے غلط تصور سے شریعت اور قرآن وسنت اور انسانی فطرت کا بیڑہ غرق کیا ہے۔ یہ تو شکر ہے کہ حضرت عمر نے اکٹھی تین طلاق پر حادثاتی طور سے فیصلہ دے دیا ورنہ تو عیسائیوں کی طرح طلاق کا تصور بھی ختم ہوجاتا۔ لیکن دوسری طرف یہود کی طرح حلالہ کی لعنت میں مبتلا ء ہوگئے۔ 3 سو سال قبل اپنے عیسائیت سے بغاوت کرکے پروٹیسٹن نے اسلام کی طرح طلاق کی اجازت دی جسکے بعد برطانیہ کی حکومت پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا اور فرانس میں مذہبی طبقہ کے خلاف بغاوت ہوئی اور اٹلی میں رومن چرچ عجائب گھر بن گیا۔یہ اسلام ہی کی تو برکت تھی۔

اگر قرآن کے معاشرتی اور معاشی احکام کو دنیا کے سامنے رکھا جائے اور مسلمان اس پر خود عمل پیرا ہوں تو جمان جیسی کئی خواتین کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام خواب میں فرمائینگے کہ اسلام کی طرف لوٹ جاؤ۔ نبیۖ نے طلاق شدہ وبیوہ سے نکاح کی راہ ہموار کرکے قیامت تک انسانیت پربڑا احسان کیاہے۔
ــــــــــ

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ نومبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مولانا سرفراز صفدر کاپوتامولاناعمار: وکیلاں دی کڑی ٹانگے والے نال نس گئی اے

شریف گھرانے کی لڑکی ہندوستان کی بڑی ادا کار ہ کیسے بنی؟بالو پاکستان فلم انڈسٹری کی خاتون اول ناصر بیگ کی وڈیو میں۔علامہ زاہد الرشدی کے بیٹے کا غامدی بنناوہی کردار لگتا ہے

فاروق اعظم نے مسئلہ طلاق پر کوئی اجتہاد کرکے حلالے کا راستہ نہیں کھولا بلکہ یزیدی ظالموں نے قرآن کو چھوڑکر ولایزید الظالمین الا خسارًا امت کو خسارے میں ڈال دیا

وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحًا ”اور انکے شوہر اس میں اصلاح کی شرط پر ان کو لوٹانے کے زیادہ حقدار ہیں”۔ ( البقرہ:228) یہ تمہارا اجتہادہے یا کھاد؟

پوتا رجل رشید کا دل باغ باغ یزید کا
دیا جلا سعید کا یا بجھا چراغ امید کا
چاند ہے یہ عید کا یا داغ وعید کا
کمال ہے کلید کا لگا ابھی سراغ دید کا

الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
مُلا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور

میرے تلخ لہجہ میں تیرے علاج کی آس ہے
حق کڑوا سہی مگر معالج کا بائی پاس ہے
قرآن کردیا بوٹی بوٹی پھر ہڈیوں کا چورن؟
غامدی کے روپ میں ٹیچی ٹیچی خناس ہے

المطلقٰت یتربصن بانفسھن ثلاثة قروئ…..وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحًا ”طلاق والی عورتیں تین ادوار تک خود کو انتظار میں رکھیں….اور ان کے شوہر اس میں اصلاح کی شرط پر ان کو لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں”۔ (سورہ البقرہ:228)

اس آیت کا ہدف1: تین طلاق پر حلالہ کی لعنت کا خاتمہ، ہدف2: عورت کی رضاکے بغیر شوہر کے حق رجوع کا خاتمہ اور ہدف3: عورت راضی تو شوہر رجوع کا سب سے زیادہ حقدار۔

ایک مجلس میں تین طلاق یا تین مراحل میں تین مرتبہ طلاق دی اور کوئی حلالہ نہیں ہے۔ عورت راضی نہیں تو مذاق، غصہ اور سنجیدگی جیسے بھی دی تو رجوع نہیںہوسکتا۔ اسلئے کہ خلع میں اس عورت کے حقوق کم ہیں اور طلاق میں زیادہ ہیں۔ سورہ النساء آیات19،20،21میں بھرپور طریقہ سے حقوق واضح ہیں۔

شوہر نے بیوی کو3 طلاق دی ، عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی تو عمر نے عورت کے حق میں فیصلہ دیا کہ رجوع نہیں ہوسکتا۔ علینے یہی فیصلہ حرام کے لفظ پر دے دیا تھا۔

رکانہ کے والد نے رکانہ کی والدہ کو مرحلہ وار سورہ طلاق کے مطابق تین طلاقیں دیں۔ عدت کی تکمیل پر دو عادل گواہ بنائے پھرکسی اور سے نکاح کیا، اس نے نامرد کہا تو نبیۖ نے طلاق کا حکم دیا اور فرمایا کہ ام رکانہ سے رجوع کیوں نہیں کرتا؟۔ انہوں نے عرض کیا کہ وہ تو تین طلاق دے چکا۔ فرمایا : مجھے معلوم ہے اور سورہ طلاق کی پہلی دو آیات کی تلاوت فرمائی۔

حضرت آدم وحواء کو بطور فتنہ چاشنی شجرہ سے روکا گیا اور اللہ نے فرمایا کہ ” اے بنی آدم شیطان تمہیں فتنہ میں نہ ڈالے جیسے تمہارے والدین کو جنت سے نکالااور انکے لباس کو ان سے اتاراتاکہ ان کی شرمگاہوں کو…….”۔ (اعراف:27)
تحریف کے مرتکب بنی اسرائیل داؤد کی زبوراور موسٰی کی توراة اور کافی انبیاء کے باوجود حلالہ کی چاشنی چاٹنے لگے ۔

لعن الذین کفروامن بنی اسرائیل علی لسان داؤد و عیسٰی ابن مریم ذٰلک بماعصوا وکانوا یعتدون O ” لعنت کی گئی جنہوں نے کفر کیا بنی اسرائیل میں سے داؤد اور عیسیٰ ابن مریم کی زبان پر بوجہ وہ نافر مانی کرتے تھے اور حد سے تجاوز کرتے تھے”۔ (سورہ المائدہ:78)
پھر نصاریٰ نے حلالہ چھوڑ کر طلاق کا مذہبی تصور ختم سمجھ لیا۔

زبان محمدۖپر حلالہ والوں کی لعنت ہوئی۔ نبی ۖ نے فرمایا: ”تم سابقہ اقوام کے نقش قدم پر چلو گے۔ عرض کیا کہ یہود ونصاری ؟۔ فرمایا: تواور کون ؟”۔ امام ابوحنیفہ نے خلیفہ کیلئے اسکے والد کی لونڈی کو جائز نہیں قرار دیا۔ ابویوسف نے معاوضہ لیکر جائز قرار دیا۔ امام کو جیل میں شہیدکیا اور شاگردکو کوقاضی القضاة (چیف جسٹس) بنادیا۔ سب کہو !سبحان اللہ۔

صحف ابراہیم سے سوتیلی ماں کو جائز سمجھا گیا ۔ کیونکہ”ان کی مائیں نہیں مگر وہی جنہوں نے انہیں جنا ”۔ (سورہ مجادلہ) جبکہ قرآن ”نکاح نہ کرو جن کیساتھ تمہارے آباء نے نکاح کیا” صحف ابراہیم میں تھامگر جاہل ناسمجھ تھے۔ ہندو کی فطرت اتنی نہیں بگڑی کہ سوتیلی ماں کو جوازبخشتے یا حلالہ کے مریض بنتے ۔ ہندو کوصحیح اسلام پہنچتا تو عرب کی طرح قبول کرچکے ہوتے۔ غامدی گدھ سدرة المنتہیٰ کی گمراہانہ تفسیر کرتا ہے اور بیر کے نام پربھی شجرہ ملعونہ حلالہ کے اجتہاد میں زقوم کا چورن بیچ رہاہے۔
”ہم نے نہیں بھیجا آپ سے پہلے کوئی رسول اور نہ نبی مگر جب اس نے تمنا کی تو شیطان نے اس کی امنیت میں القا کیا ۔ پس اللہ مٹاتا ہے شیطان کے القا کئے کوپھر اپنی آیات کو مستحکم کردیتا ہے اور اللہ علم والا اور حکیم ہے”( سورہ حج :52)۔

سورہ مجادلہ میں ظہار کا مسئلہ حل ہوا تو نبیۖ کی تمنا تھی کہ حلالہ ختم ہو۔ نبیۖ کی امنیت پر شیطان حملہ آور تھا۔ سورہ نور میں واضح ہے کہ بیوی کو رنگے ہاتھوں پکڑلیا تو قتل نہیں کرسکتے۔ مرد سچ بولے اور عورت جھوٹ پھر بھی عورت کو سزا نہ ہوگی۔ استحقاق خلافت کے علمبردار حضرت سعد بن عبادہ نے کہا کہ میں قتل کروں گا۔ نبیۖ نے انصار سے فرمایا: تمہارا صاحب کیا کہتا ہے؟۔ انہوں نے کہا کہ بڑا غیرتمند ہے، طلاق شدہ و بیوہ سے کبھی نکاح نہ کیا اورطلاق دی کی تو کسی اور سے نکاح نہ کرنے دیا۔نبیۖ نے فرمایا کہ میں اس سے زیادہ غیرتمند ہوں اور اللہ مجھ سے بھی زیادہ غیرتمند ہے ۔ (صحیح بخاری)

آیت میں شیطانی مداخلت امنیت میںیہی تھی کہ لعان کے حکم اور آیت230البقرہ میںطلاق کے بعد عورت کی آزادی میں رکاوٹ کی بنیادتھی۔ امنیت یہ بنیاد ہے۔ پھر آیت کو حلالہ کی لعنت پر چھوڑ کر دم لیں گے کا شیطانی منصوبہ کا میاب ہوگیا۔ لیجعل اللہ مایلقی الشیطان فتنة للذین فی قلوبھم مرض و القاسیة قلوبھم ….” تاکہ شیطانی القا کو ان لوگوں کیلئے فتنہ اللہ بنادے جن کے دلوں میں (حلالے کا) مرض ہے اور جنکے دل ڈھیٹ ہیںاور بیشک ظالم دُور (یزیدی دور) کی بدبختی میں ہیں۔ اور تاکہ جان لیںجن کو علم دیا گیا کہ حق تیرے رب کی طرف سے ہے تو اس پر ایمان لائیںپس اس کیلئے ان کے دل جھک جائیں۔اور بیشک اللہ ہدایت دینے والا ہے اہل ایمان کو صراط مستقیم کی طرف۔ (سورہ حج آیات : 53، 54)

مولانا عمار ناصر کے اَبا علامہ زاہدالراشدی حلالہ کے مرض میں مبتلا علمائء کا نمائندہ اور جاوید غامدی ڈھیٹ رفاہی کا نمائندہ ہے۔ حلالہ کے خلاف قرآن کو اہل علم بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث اور شیعہ مان گئے۔ مگر غامدی پر مرزا غلام احمد قادیانی کا شیطان چڑھ گیا۔ سلمان رشدی کی تفسیر شیطانی آیات کو بھی یہ پیچھے چھوڑ گیا۔ نبی اکرم ۖ کی ذات میںقرآنی آیات سے شیطانی القاکے ثبوت پیش کررہاہے؟۔العیاذ باللہ یہ خود ہی سراپا شیطان ہے۔ قرآن نے انسانی شیطانوں کو واضح کردیا ہے۔

اہل سنت کے چاروں امام کا مسلک 100فیصد درست تھا کہ” اکٹھی تین طلاق واقع ہوجاتی ہیں”۔ قرآن ایک طلاق کے بعدبھی عورت کی رضاکے بغیر رجوع کی گنجائش نہیں دیتا اور حدیث میں مذاق کی طلاق بھی معتبرہے۔کوئی امام بھی قرآن و حدیث سے سر مو انحراف کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔

احادیث کے ذخائر میں کوئی ایسا واقعہ نہیں کہ نبیۖ نے عدت میں قرآن کے منافی میاں بیوی کو باہمی صلح کے باوجود بھی حلالہ پر مجبور کیا ہو۔اگر کوئی حدیث ہوتی تب بھی کم ازکم وہ فقہ حنفی جو قرآن کے مدمقابل واضح احادیث کومحض وہم کی بنیاد پر رد کرتی ہے تو قرآن سے متضاد حدیث کو کیسے مان سکتی تھی؟۔

ائمہ مجتہدین سیدنا عمر کے فیصلے پر متفق تھے کہ اگر تین طلاق کے بعد عورت صلح سے مکر جائے تو رجوع نہیں ہوسکتا۔ زیر بحث اکٹھی تین طلاق کا فعل تھا۔ امام ابوحنیفہ و مالک کے نزدیک یہ گناہ، بدعت، ناجائز ہے ۔دلیل محمود بن لبید کی روایت ہے کہ ایک شخص نے خبر دی کہ فلاں نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی۔ نبیۖ اس پر غضناک ہوکر اٹھے اور فرمایا کہ میں تمہارے درمیان میں ہوں اور تم اللہ کی کتاب کیساتھ کھیل رہے ہو؟۔ ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اس کو قتل نہ کردوں؟۔ (نسائی) انکے شاگردامام شافعی کو پتہ چلاکہ یہ کردار حضرت عمر اور عبداللہ بن عمر تھے تو واضح کیا کہ یہ جائز، مباح اور سنت ہے ۔دلیل عویمرعجلانی کا واقعہ بنایا کہ لعان کے بعد تین طلاق دی۔اجتہاد کا مطلب انحراف نہیں۔ جاویدغامدی قرآن کی محکم آیات کو ضعیف روایت سے بلبلے کی طرح اُڑارہاہے لیکن علماء حق نے قرآن واحادیث کو پہنچانے میں کبھی کوتاہی کا ارتکاب نہیں کیا۔ وفا ق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خان محدث العصر نے لکھ دیا کہ ” مسلک حنفی میں احادیث سے قرآن میں حتی تنکح زوجًا غیرہ میں لفظ نکاح پر جماع کا اضافہ بھی نہیں ہوسکتا۔ (کشف الباری شرح صحیح البخاری)

یزید، مروان ،عبدالملک بن مروان نے سیاسی مفادات ، جنسی خواہشات اور عوامی جذبات کیلئے حلالہ کو ہتھیار بنادیا تھا۔ سعید بن المسیب نے کہا :”قرآنی حکم نکاح ہے جماع نہیں” ۔ عبدالملک نے عبدالعزیز سے عہد شکنی کرکے بیٹے کیلئے بیعت لینا چاہی تو سعید نے بچنے کیلئے حیلہ کیاکہ خلیفہ کی موجودگی میں دوسرے کی بیعت جائز نہیں۔ بڑا تشدد کیا، پھانسی گارڈ تک لے گئے۔عبدالرحمن بن ابوبکر نے بھی سمجھایا مگر رپورٹ دی کہ تشدد کے بعد مزید سخت ہوگئے ۔امام ابوحنیفہ کی شہادت ہوئی۔ امام مالک پرکوڑے برسا کر سوفٹ وئیر اپڈیٹ کیا مگر موطا کو سرکاری سطح پر نافذ کرنے سے منع کیا۔ امام شافعی پر رافضیت کا فتویٰ اور امام احمد بن حنبل کی پیٹھ پر کوڑے برسائے گئے۔ ائمہ اہل بیت اطہارنے کوئی کتاب نہیں لکھی اسلئے کہ حکمرانوں کی دسترس سے ملاوٹ کا شکار ہوسکتی تھی۔ قرآن کی حفاظت اللہ نے اپنے ذمہ لی اور احادیث پر محقق علماء نے تحقیقی نظررکھی تھی۔
امام عثمان نے حج وعمرہ کے اکٹھے ایک احرام پر پابندی لگائی تو امام علی نے اعلانیہ مخالفت کرکے احرام باندھا۔ (بخاری)

ضحاک گورنر دمشق نے کہا : حج وعمرہ کا احرام اکٹھے باند ھنے والا جاہل ہے۔ سعد بن ابی وقاص نے فرمایا:” یہ نہ کہو میں نے نبی ۖ کو باندھتے دیکھا ہے”۔عبداللہ بن عمر متوفی 74ھ سے کہا کہ تم اپنے والدکی نہیں مانتے؟، جواب دیا: والد نہیں نبیۖ کو نبیۖ مانا ہے۔ عبداللہ بن عباسمتوفی68ھ نے کہا تعجب ہے کہ پتھر تم پرکیوں نہیں برستے ؟۔ نبیۖ کے مد مقابل ابوبکر وعمر کو لاتے ہو؟۔ (شرح صحیح مسلم :علامہ غلام رسول سعیدی)

عمران بن حصین متوفی 52ھ نے کہا کہ ” اللہ نے قرآن میں حج و عمرہ کا حکم نازل کیا، نبیۖ کو اکٹھا احرام باندھتے دیکھا اور جس نے بھی اس کی مخالفت کی تو اپنی رائے سے کی اور اس رائے کا اس کو حق نہیں تھا۔ جب ہم سنت پر عمل کرتے تھے تو فرشتے ہاتھ ملاتے تھے اور اب جب تک میں زندہ ہوں مجھ سے میری بات نقل مت کرو۔ (صحیح مسلم میں مزید تفصیل )
قرآن نے مشرک اہل کتاب عورت سے نکاح کی اجازت دی۔ عبداللہ ابن عمر نے کہا کہ ان سے بھی نکاح نہیں ہوسکتا۔
عبداللہ بن عمر متوفی 74ھ کا اتفاق نہ تھا کہ اکٹھی 3 طلاقیں واقع ہوسکتی ہیں کہاکہ ” اگر میں دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسری بار طلاق دیتا تو نبیۖ مجھے رجو ع کا حکم نہ دیتے”۔ (بخاری)

محمود بن لبید متوفی 97ھ نے کہا کہ” ایک شخص نے خبر دی کہ فلاں نے بیوی کو تین طلاق دی تو نبیۖ غضبناک ہوکر اٹھے ….( سنن نسائی ) مذکورہ حضرت عمر اور عبداللہ تھے۔ حسن بصری متوفی110ھ نے کہا: مجھے مستندشخص نے کہا کہ عبداللہ بن عمرنے تین طلاق دی۔ پھر20سال تک کوئی دوسرا مستند شخص نہیں ملا جو اس کی تردید کرتا۔ 20سال بعد ایک زیادہ مستند شخص ملا جس نے کہا کہ ایک طلاق دی تھی۔ (صحیح مسلم)

حسن بصری نے کہا بیوی کو حرام کہا تو جو نیت کی، بعض علماء کا اجتہاد تھاکہ یہ تیسری طلاق ہے جو کھانے پینے کی طرح نہیں کہ کفارہ سے حلال ہوجائے(حلالہ کرنا ہوگا)۔ (صحیح بخاری)۔ عبداللہ بن عباس نے کہا کہ حرام کہنے سے طلاق، حلف، کفارہ کچھ نہیں ۔یہی سیرت طیبہۖ کا تقاضہ ہے۔ (صحیح بخاری)

حسن بصری کی پیدائش 21ھ مدینہ منورہ میں ہوئی۔ جب عبدالملک بن مروان نے خلیفہ صحابی عبداللہ بن زبیر کو 73ھ میں مکہ مکرمہ میں شہید کیا ۔یہ سانحہ عثمان بن عفان کی شہادت سے بہت حدتک مماثلت رکھتا تھا لیکن حجاج بن یوسف کے ظلم سے لوگوں کی ہمت جواب دے گئی تھی۔ عبداللہ بن عمر کی وفات کے بعد ان پر جھوٹ باندھا گیا کہ ”اگر میں اکٹھی تین طلاق دیتا تو نبیۖ رجوع کا حکم نہیں دیتے”۔ حسن بصری صوفی بالصفاتھے۔ انہیں کہا گیا کہ علی نے حرام کو تیسری طلاق قرار دیا۔ یوں ان کے ذہن کو بتدریج خدشات کا شکار کیا گیا تھا۔

بخاری نے رفاعہ القرظی کے واقعہ پر غلط عنوان بنایا ،مرحلہ وارتین بارطلاق دی۔ عبدالرحمن بن زبیر القرظی کی عورت نے نبیۖ کو دوپٹے کا پلو دکھایا کہ اسکے پاس یہ ہے۔کسی کو غصہ آیا کہ نبیۖ کے پاس یہ حرکت؟۔ اماں عائشہ نے فرمایاکہ بے چاری کو مار پڑی، کپڑا اٹھاکر زخم کے نشان دکھائے۔ نبیۖ نے صلح واصلاح کرانی تھی ۔ شوہر نے کہا کہ یہ جھوٹ بولتی ہے مردانہ قوت سے اس کی چمڑی تک ادھیڑ دی۔(صحیح بخاری)

اس سے حلالہ مراد نہیں ۔ مولانا پیر کرم شاہ الازہری نے نقل کیا کہ حسن کو بیوی نے حضرت علی کی شہادت کی خبر سنائی اور خلافت کی مبارکباد دی۔ جس پر حسن نے تین طلاق دی اور پھر کہا کہ اگر میں نے اپنے جد سے نہیں سنا ہوتا کہ تین طلاق کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا تو میں رجوع کرلیتا”۔ راوی کے بارے میں مولانا ازہری نے لکھا : انہ جرو کلب رافضی”بیشک وہ کتے کا بچہ رافض تھا”۔(دعوت فکر: پیر کرم شاہ الازہری)
رافضی شیطان نے کسی کو حلالہ سے شکار کرنا ہوگاناں؟ ۔

حنفی مسلک ہے کہ حتی تنکح زوجًا غیرہ قرآن میںعورت کو اپنے نکاح کیلئے اختیار ہے۔ احادیث میں ہے کہ ” ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہے”۔ (بخاری) ” جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے ، باطل ہے ، باطل ہے”۔خبر واحد قرآن سے متصادم ہو تو عمل نہیں ہوسکتا۔ جاویداحمد غامدی ضعیف روایت سے قرآنی احکام کی واضح آیات کو بلبلے کی طرح اُڑا رہاہے؟۔

میں نے عرض کیا کہ مسلک حنفی کا اصول تطبیق ہے۔ حدیث سے کنواری مراد لے سکتے ہیں،مولانا بدیع الزمان کا چہرہ دمک اٹھا ، فرمایا کہ کتابوں کی تکمیل کے بعد آپ راستہ نکال لوگے۔

دل بیدار فاروقی دل بیدار کراری
مس آدم کے حق میں کیمیا ہے دل کی بیداری
دل بیدار پیدا کر کہ دل خوابیدہ ہے جب تک
نہ تیری ضرب ہے کاری نہ میری ضرب ہے کاری
مشام تیز سے ملتا ہے صحرا میں نشاں اس کا
ظن و تخمیں سے ہاتھ آتا نہیں آہوئے تاتاری
اس اندیشے سے ضبط آہ میں کرتا رہوں کب تک
کہ مغز زادے نہ لے جائیں تیری قسمت کی چنگاری
خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری
مجھے تہذیب حاضر نے عطا کی ہے وہ آزادی
کہ ظاہر میں تو آزادی ہے باطن میں گرفتاری
تو اے مولائے یثرب ! آپ میری چارہ سازی کر
مری دانش ہے افرنگی مرا ایماں ہے زناری

غامدی قادیانی سے زیادہ خطرناک ہے مگر سید عطاء اللہ شاہ بخاری، سید مودودی ، سیدابوالحسنات احمد قادری، سید محمد یوسف بنوری ، مفتی محمود اور مولاناشاہ احمد نورانی علماء حق نہیں۔مفتی منیب الرحمن اور مفتی تقی عثمانی نے سودی بینکاری کا حیلہ کیاہے تو جاوید غامدی کی تجدید اور دین کی تعبیر نوپر کیا اعتراض ہوگا؟۔

مولانا سرفراز خان صفدر اللہ والے تھے اور مجھے اپنے مدرسہ نصرت العلوم کو مرکز بنانے کی دعوت دی تھی مگر میں نے عرض کیا فرقہ وارانہ شناخت نہیں چاہتا تو اور خوش ہوکر دعائیں دیں۔ ان کا پوتا ڈاکٹر عمارخان ناصر غامدی کے پاس پھنس گیاہے۔

حضرت عمر نے جب نبیۖ کو خبر دی کہ بہو نے رونا دھونا مچایا ہوا ہے تو نبیۖ نے ڈانٹ کر قرآن کے مطابق رجوع کا حکم دیا تاکہ مصالحت ہوسکے۔ یہ مسئلہ تھا اور نہ مقدمہ بلکہ ایسے حادثے کو نبیۖ کے سامنے پیش کرنا معمول تھا۔ اگر عبداللہ بن عمر کی بیوی رجوع نہ کرنے کی بات کرتی تو عبداللہ رجوع نہ کرتا اور رجوع کرتا کہ میں نے طلاق غصہ یامذاق سے دی تو بھی نبیۖ رجوع کا فیصلہ نہیں فرماتے۔ عورت کے حق کو تحفظ قرآن نے دیا تو صحابی یا پھر رسول اللہۖ کیسے چھین لیتے؟۔

کوئی3 کی نیت سے 3 طلاق دے تو قرآن معطل ہوگا؟۔

حسین کو تلاش ہے آج پھر یزید کی
شہہ رگ کٹ گئی اسلام کے حبل الورید کی
قیامت میں دکھیں چہرے سفید اور سیاہ
میں نے فاروقی کراری تھپڑ رسید کی
عبد یزید کے نام سے غامدی وجد میں آیا
یزیدیت سے اسلام کی قطع و برید کی
بڑے پدو مارے ڈھینچو ڈھینچو کر بیٹھا
اپنی مٹی پلید کی میڈیا پر ایسی لید کی
دین لاوارث ہے کوئی جو مرضی بکے؟
قد آوروں نے خواہ مخواہ تقلید کی؟
آنٹیوں کو ساتھ بٹھاؤ خانقاہی چلن چلاؤ
بیٹی بنے جانشیں جب لنگر چلے ثرید کی
عتیق فتویٰ نہیں لگاتا دلیل دیتا ہے
مرضی سب کی اپنی اپنی صواب دید کی

علامہ اقبال نے پہلے سے نشاندہی کی تھی کہ

دنیا کو ہے پھر معرکہ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا
اللہ کو پامردی مومن پہ بھروسہ
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
تقدیر امم کیا کوئی کہہ نہیں سکتا
مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارہ
اخلاص عمل مانگ نیا گان کہن سے
شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را

عورت کے حقوق کی نظر انداز ی ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر کی طرح فتنہ تھا۔ حضرت عمر اور حضرت علیباب العلم نمایاں ہیں۔

ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا
ہم نے تو ایک بات کی اس نے کمال کردیا

پروین شاکر نے اپنی لازوال شاعری میں فطرت کو اُجاگر کیا۔

اک نہ اک روز تو رخصت کرتا
مجھ سے کتنی ہی محبت کرتا
سب رُتیں آکے چلی جاتی ہیں
موسم غم بھی تو ہجرت کرتا
بھیڑیے مجھ کو کہاں پاسکتے ہیں
وہ اگر میری حفاظت کرتا
میرے لہجے میں غرور آیا تھا
اس کو حق تھا کہ شکایت کرتا
کچھ تو تھی میری خطا ورنہ وہ کیوں
اس طرح ترک رفاقت کرتا
اور اس سے نہ رہی کوئی طلب
بس میرے پیار کی عزت کرتا

پروین شاکر کے رجوع میں اسلام رکاوٹ بنتا تو ملحد بنتی۔

جو عالم ایجاد میں ہے صاحب ایجاد
ہر دور میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ
تقلید سے ناکارہ نہ کر اپنی خودی کو
کر اس کی حفاظت کہ یہ گوہر ہے یگانہ
اس قوم کو تجدید کا پیغام مبارک
ہے جس کے تصور میں فقط بزم شبانہ
لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازہ تجدید
مشرق میں ہے تقلید فرنگی کا بہانہ

علامہ اقبال نے اسلام کی نشاة ثانیہ کا خواب شاعرانہ تخیل یا تصوف سے دیکھا لیکن قرآن نے وحی سے نبیۖ کو دکھایا۔

وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہے بے داغ ضرب ہے کاری
اگر ہو جنگ تو شیرانِ غاب سے بڑھ کر
اگر ہو صلح تو رعنا غزال تاتاری
عجب نہیں ہے کہ اگر اس کا سوز ہے ہمہ سوز
کہ نیستاں کے لئے بس ہے ایک چنگاری
خدا نے اس کو دیا ہے شکوہ سلطانی
کہ اس کے فقر میں ہے حیدری و کراری
نگاہ کم سے نہ دیکھ اس کی بے کلاہی کو
یہ بے کلاہ ہے سرمایہ کہ داری

اللہ نے معراج میں نبیۖ کو انبیاء کرام کی امامت کرائی اور اسلام کے غلبے اور حلالہ ملعونہ کے خاتمہ کاخواب دکھایا تھا۔ واذقلنا لک ان ربک احاط بالناس و ما جعلنا الرویا التی اریناک الا فتنة للناس والشجرة الملعونة فی القراٰن و نخوّ فھم فما یزیدالا ظغیانًا کبیرًا ( الاسراء :60) اور جب ہم نے تم سے کہا بیشک تیرے رب نے لوگوں گھیر رکھاہے اور تیرے خواب کو نہیں بنایا ہم نے جوآپ کو دکھایا مگر لوگوں کیلئے آزمائش اور قرآن میں ملعونہ شجرہ اور ہم ان کو ڈارتے ہیں تو نہیں بڑھتے مگر سرکشی میں”۔

رسول اللہ ۖ کو جو خواب نصب العین کی شکل میں دکھایا تھا تو وہ قرآن میں بھی احادیث صحیحہ سے کم نہیں ہے لیکن یہ غلبہ بھی امت کے زوال اور بنی اسرائیل کے عروج پر ہے جس میں اگر بنیادی کردار ہے تو وہ قرآن سے حلالہ کے دھبے کا خاتمہ ہے۔

غامدی کے اجتہادسے طلاق دینے والا، اسکے خاندان اور فتویٰ دینے والا ذہنی مریض بن جائیگا کہ حرامکاری ہے یا جائز ہے؟ ۔قرآن نے معاملہ ادھورا نہیں چھوڑا بلکہ مکمل حل کردیا۔
و ننزل من القراٰن ما ھو شفاء ورحمة للمؤمنین ولایزید الظالمین الا خسارًا ( سورہ بنی اسرائیل :82)
” اور ہم قرآن میں وہ نازل کرتے ہیںجو مؤمنوں کیلئے شفا اور رحمت ہے اور ظالم نہیں بڑھتے مگر خسارہ میں”۔

مرزا غلام احمد قادیانی نے کہا کہ اس کو حیض آتا ہے مگر عیسیٰ کیلئے والد بنایا۔ وہ مجذوب فرنگی تھا ۔ جاویدغامدی دانش افرنگی ہے۔ایک دجال نے نبوت کا دعویٰ کیااور دوسرا دجال تجدیدکرتا ہے۔ علامہ اقبال نے ”پنجابی مسلمان” کے عنوان سے لکھا:

مذہب میں بہت تازہ پسند اس کی طبیعت
کرلے کہیں منزل تو گزرتا ہے بہت جلد
تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا
ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد
تاویل کا پھندہ کوئی صیاد لگا دے
یہ شاخ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد

جاویدغامدی سارا دین بلڈوز کررہاہے۔
عربی لڑکی کا نکاح غیر عرب سے نا جائز قرار دیا تو امام زید بن زین العابدین نے جائز قرار دیا۔ سوالات اٹھائے کہ ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق میں نصف اور ہاتھ لگانے کے بعد پورا مہر ہوگا یا نہیں؟۔3 طلاق پر کسی اور سے نکاح لازم ہوگا یا نہیں؟۔ (المجموع : مصنف :امام زید ، یا شاگردنے لکھی)

حکمران حلالہ مہم سے بچانے کیلئے اہل بیت کی دلیل یہ تھی : الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف او تسریح باحسان ”طلاق دو مرتبہ ہے پھر معروف طریقے سے روکنا یا احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے”۔ (البقرہ :229)یہ خبر ہے۔
الطلاق مرتان طلاق دو مرتبہ ہے۔دومرتبہ حلوہ کھایا مگر دوروپیہ کو دومرتبہ روپیہ نہیں کہتے۔ مرتبہ فعل سے خاص ہے۔
حکم کی خلاف ورزی ممکن لیکن خبر کی نہیں۔ زنا نہ کرو مگر کیا تو ہوگیا اور طلاق تین مرتبہ میں ہے تو ایک مرتبہ میں نہیں ہوگی ۔ محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم” محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو ان کیساتھ ہیں تو وہ کافروں پر سخت اور آپس میں رحم والے ہیں”یہ بھی خبرہے۔

امام ابن تیمیہ وفات 1328ء ، 728ھ۔ اورانکے شاگرد علامہ ابن قیم وفات 1350ء نے حلالہ سے بچنے کی ترکیب لڑائی ۔پھر شیخ الاسلام سراج الدین ابوحفص عمر علی بن احمد الشافعی مصری المعروف ابن الملقن جنہیں ابن المالکین بھی کہا جاتا ہے ۔ ( وفات 1401ء ، 804ھ ) نے حلالہ سے بچنے کیلئے ایک اور ترکیب نکالی کہ ”حیض میں طلاق واقع نہیں ہوتی ہے اسلئے جیسے نماز ، رمضان کے روزے اور حج وقت سے پہلے نہیں ہوتا ہے تو طلاق بھی واقع نہیں ہوتی ”۔ علامہ عبدالحی حنفی لکھنوی ولادت 1848ء ، وفات 1886ء نے ابن تیمیہ کی طرح فتویٰ تین طلاق کو ایک قرار دیا۔ مولانا رشید احمد گنگوہی ولادت 1829ء ، وفات 1905ء نے فتاویٰ رشدیہ میں ان کا فتویٰ بھی نقل کیا اور حلالہ والا بھی نقل کیا۔ شیخ الہندمحمودالحسن مالٹا سے 1920ء میں رہاہوئے تو قرآن سے دوری اور فرقہ پرستی کو امت کے زوال کا سبب قرار دیا۔ مدارس سے زیاہ کالج سے امید لگائی۔ مولانا انورشاہ کشمیری وفات1933 نے کہا: ”قرآن حدیث کی خدمت نہیں کی فقہ میں عمرضائع کردی”۔ الحمدللہ میرے اجداد نے وزیرستان میں قرآن کی خدمت کی ۔

ہند میں حکمت دیں کوئی کہاں سے سیکھے
نہ کہیں لذت کردار نہ افکار عمیق
حلقہ شوق میں وہ جرأت اندیشہ کہاں
آہ محکومی و تقلید و زوال تحقیق
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق
ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب
کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق

ائمہ مجتہدینکو چھوڑ کر غامدی اپنی نحوست سے محکم قرآنی آیات پر خط تنسیخ پھیر رہا ہے۔ گھوڑے کے لگی نعل، مینڈکی بولی میرے بھی جڑدو۔ پھر تو ہوا کیساتھ پوٹی نکلی اور سانس بھی اُکھڑ گئی۔ محکم آیات، احادیث صحیحہ اور اجتہادات کا پتہ نہیںاور ہفوات کی نئی مذہبی دکان کھول کر بیٹھا ؟۔سب کہو سبحان اللہ!

 

قرآن میں طلاق کے اہداف!

1: مذہبی خرافات کا خاتمہ۔ 2: حقوق نسواں کی پاسداری۔ 3: انسانی معاشرتی عروج کیلئے انتہائی اقدامات۔
شیعہ سنی بلکہ مسلمان قوم ایک تو قرآن کو چھوڑ چکی ہے۔ ”اور رسول کہیں گے کہ اے میر ے رب ! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا ہے”۔ (سورہ فرقان آیت:30)

قوم قرآن کی معنوی تحریف میں مبتلاء ہے۔ ائمہ مجتہدین اور فقہی مسالک کے نام پر قرآن کو تقسیم کرکے بوٹی بوٹی بنادیا۔ ”کہہ دو کہ بیشک میں کھلا ڈرا نے والا ہوں۔ جیسا کہ میں نے نازل کیا بٹوارہ کرنے والوں پر، جنہوں نے قرآن کو بوٹی بوٹی کر دیا ۔ پس تیرے رب کی قسم کہ ہم ان سے ضرور پوچھیں گے جو وہ یہ(بوٹی بوٹی) کرتے تھے ”۔( سورہ الحجر89تا93 )

پڑھتا جا شرماتا جاتا۔ قومی صلح کرتا جا

سورہ البقرہ 222 تا 237 کے واضح احکام:
222۔ حیض میں دو چیزیںہیں ۔ایک اذیت ،دوسرا گند۔ اللہ توبہ کرنے والوںکو اور پاکیزگی والوں کوپسند کرتاہے۔

223: اس آیت میں اذیت بھلادی گئی اور بحث یہ شروع کردی کہ پیچھے کی راہ سے استعمال جائز ہے یا نہیں؟۔ عورت کا حق نظرانداز کرکے بہت شرمناک فقہی اور عملی حقائق ہیں۔

224: طلاق کے احکام کیلئے مقدمہ ہے کہ نیکی، تقویٰ اور لوگوں کے درمیان صلح میں اللہ اور مذہب کو رکاوٹ مت بناؤ۔ جب عوام میں تفریق جائزنہیں تو میاں بیوی میں کیاحکم ہوگا ؟۔

225: اللہ تمہیں زبان کے لغو عہدوپیمان سے نہیں پکڑتامگر جو تمہارے دلوں نے کمایا ہے اس پر پکڑتا ہے۔ یہ طلاق ہی کی بات ہے جس میں مغلظہ، بائن، رجعی ، صریح اور کنایہ کی اقسام گھڑے گئے ہیں۔ سورہ مائدہ آیت 89میں واضح ہے کہ حلف مراد ہو تو پھر اس کا کفارہ ہے ۔وہاں حلف (قسم) واضح ہے۔

226: ایلاء میں عورت کی عدت چارماہ ہے۔ باہمی رضا مندی سے صلح ہوسکتی ہے۔ رسول اللہۖ کی مہینہ بعد رجوع پر اللہ نے ازواج مطہرات کو علیحدگی کے اختیار کا حکم فرمایا۔ تاکہ عورت کا حق بھی واضح ہو۔ عورت کی اذیت کو نظر انداز کیا تو قرآن کوتقسیم کردیا۔ حنفی مسلک میں شوہر 4 ماہ نہیں گیا تو طلاق ہے اسلئے کہ اپنا حق استعمال کیا مگر جمہورکے ہاں جب تک طلاق نہیں دے تو عورت بیٹھی رہے گی۔ بڑا تضاد ہے۔

227: اگر ان کا طلاق کا عزم تھا تو اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ یہی دل کے گناہ اور اس پر اللہ کا پکڑنا واضح ہے اسلئے کہ عزم کا اظہار کرتا تو عورت ایک ماہ اضافی مدت نہ گزارتی۔

228:جاہلیت میں اکٹھی تین طلاق کے بعد رجوع نہیں تھا۔ عورت کی مرضی کے بغیر طلاق رجعی کا تصور تھا اورجب وہ دونوں راضی ہوتے تھے تب بھی کوئی رکاوٹ بن سکتا تھا۔ اس آیت میں تینوں کا قلع قمع کردیا لیکن یزیدیت نے پھر جاہلیت کو زندہ کرکے اسلام کو اجنبیت کی طرف دھکیل دیا اسلئے جاوید احمد غامدی اسی جاہلانہ اسلام کے تصور کو زندہ کررہاہے۔

اس آیت میں عدت کی دو اقسام ہیں۔ طہروحیض کے تین ادوار اور عورت جب حمل ہو ۔ عدت میں اکٹھی تین طلاق دو یا پھر مرحلہ وار تین طلاق ،ایک دو یا ہزار طلاق دو مگر باہمی اصلاح کی بنیاد پر اللہ نے نہ صرف رجوع کا دروازہ کھول دیا ہے بلکہ باؤنڈ کردیا ہے کہ عورت دوسری جگہ نکاح نہیں کرسکتی اور حمل کی صورت میں تین ادوار اور تین مرتبہ طلاق کا بھی تصور نہیں ہے۔

عیسائی مذہبی ٹھیکداروں کو مسترد کرچکے ۔ یہود ہمارے مذہبی طبقے کو حلالہ میں ڈال گئے ۔ جس دن ہمارا علماء طبقہ حلالہ اور سود کے جواز سے توبہ کرے تو یہود بھی حلالے کے مرض اور سود سے توبہ کریں گے اور ابراہم اکارڈ میں ان کو شکست ہوگی۔

مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمن جن فتاویٰ سے عوام میں من گھڑت شریعت کی بدبو پھیلاتے ہیں وہ یہ ہے کہ اگر عورت کی فرج سے آدھے سے زیادہ بچہ نکل گیا تو رجوع نہیں ہوسکتا اور اگر آدھے سے کم نکلا تو رجوع ہوسکتا ہے۔ لیکن 50\50 تھا تو پھر اس بچے کو مفتی اعظم بنالو اپنا مسئلہ خود حل کرے گا؟۔

229: ”طلاق دو مرتبہ ہے پھر معروف طریقے سے روکنا ہے یا احسان کیساتھ چھوڑ دیناہے”۔ یہ حمل سے متعلق نہیں بلکہ حیض والی کیساتھ تین روزے کی طرح تین ادوار میں تین مرتبہ طلاق ہے۔ جس کا تعلق الفاظ نہیں عمل کیساتھ ہے۔ حیض میں جماع نہیں اور طہر کے تین ادوار میں تین مرتبہ طلاق کا عمل ہے جو نبیۖ نے سمجھا یاہے جس کا ذکر بخاری کی کتاب الاحکام اور کتاب التفسیر، کتاب الطلاق اور کتاب العدت میں ہے۔

رسول اللہ ۖ سے عدی بن حاتم نے پوچھا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے؟۔ فرمایا آیت229میں تیسری مرتبہ چھوڑنا ہی تیسری طلاق ہے۔رجوع کیلئے معروف، باہمی صلح، باہمی اصلاح اور باہمی رضامندی اور معروف طریقہ کو واضح کیا لیکن حنفی وشافعی فقہاء نے قرآن کی بوٹیاں کرتے ہوئے حنفی نے قرار دیا کہ ”شہوت کی نظر پڑگئی ، رجوع کی نیت نہیں تب بھی رجوع ہے۔ اس غلطی سے بچنا پڑے گا”۔شافعی نے قرار دیا کہ ”عدت کے دوران رجوع کی نیت نہ ہو توجماع سے بھی رجوع نہیں”۔قرآن کے معروف کو منکرات سے بوٹی بوٹی کردیا۔ پھر اللہ نے فرمایا کہ ” تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے کہ اس میں سے کچھ بھی واپس لو”۔ اب اس بے غیرتی کی انتہا کو دیکھو کہ اللہ نے عورت کو تین فیصلہ کن طلاق کے بعد مالی تحفظ دیا جو سورہ النساء آیات 20 اور 21 میں بھی واضح ہے کہ طلاق کے بعد خزانے دئیے ہوں تو واپس نہیں لے سکتے مگر جاویداحمد غامدی نے عورت کے مالی تحفظ کی جگہ عورت کے استحصال کا ذریعہ بنایا ہے کہ ”خلع” مراد ہے۔ اگرجاوید غامدی کہے کہ میں نے تقلید کی تو پھر اجتہاد کی بنیاد پر سارا دین کیوں تلپٹ کیا؟۔ قرآن کا واضح مفہوم بھی تقلید سے 180ڈگری کے درجہ پر مسخ کردیا؟۔ اللہ نے حلالہ سے تحفظ دینے کی خاطر وہ صورتحال بیان کی ہے کہ جب میاں بیوی اور فیصلہ کرنے والوں کو خدشہ ہو کہ اگر کوئی خاص چیز مثلاً موبائل کی سم واپس نہیں کی گئی تو یہ دونوں جنسی سکینڈل کا شکار ہوکر اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو وہ فدیہ کرنے میں حرج نہیں۔ فدیہ سے معاوضہ مراد نہیں بلکہ فدائی کی طرح قربانی مراد ہے۔ عورت کی عزت بچانے کیلئے یہ فدیہ خلع نہیں ، شوہر کے مال میں سے وہ خطرناک چیز واپس کرنی ہے جو رابطہ بن سکتی ہو۔

230:”پس اگر اس نے طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی اور سے نکاح کرلے”۔229 میں تیسری طلاق ہے تو آیت 230البقرہ کی طلاق کونسی ہے؟۔یہ تین مرتبہ طلاق کے علاوہ ہے۔ یہ وہ طلاق ہے جس سے پہلے صورتحال واضح ہے کہ صلح کا کوئی پرواگرام نہیں۔ اس کا مقصد حلالہ نہیں بلکہ عورت کو اس کی مرضی کے مطابق کسی اور شوہر سے نکاح کا واضح الفاظ میں جواز ہے اسلئے کہ عورت سے رجوع نہیں کرنا ہو تو بھی اس کو اپنی مرضی سے نکاح کرنے سے روکا جاتا ہے۔ لیڈی ڈیانا قتل کی گئی اور ریحام خان کو طلاق کے بعد پاکستان آنے سے روکا گیا کہ کہیں مخالف سیاسی لیڈر سے نکاح نہیں کرلے لیکن ریحام خان جان پر کھیل کر آگئی تھی۔

احناف اپنی اصول فقہ کی کتابوں میں پڑھاتے ہیں کہ اس طلاق کا تعلق خلع سے ہے ۔ (نورالانوار : ملاجیون) چلو یہ مانا مگر پھر کیوں ایک مجلس کی تین طلاق پر حلالہ کا فتویٰ دیتے ہو؟، ایک بڑے حنفی عالم علامہ تمنا عمادی نے ”الطلاق مرتان” کتاب میں یہی حنفی مؤقف لکھ دیا۔ علامہ بن قیم نے عبداللہ بن عباس کی طرف سے زاد المعاد میں یہی مؤقف لکھ دیا ہے۔

جہاں تک خلع کا تعلق ہے تو سورہ النساء آیت19 میں پہلے اللہ نے عورت کو خلع کا حق دیااور اس میں شوہر کی طرف سے دی گئی منقولہ بعض چیزوں کو واپس لینے سے روکا گیا ہے۔ اچھے انداز میں رخصت کرنے کا حکم دیا اگر وہ خلع لیتے ہوئے بری لگ رہی ہوں تو اللہ نے فرمایا کہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تمہارے لئے اس میں خیر کثیر پیدا کرے۔کچھ غلام احمد پرویز زدہ دلوں نے لکھا ہے کہ ”اگر وہ بدکردار ہوں تو رکھنے میں خیر کثیر ہے”۔

231: عورت اکثر شوہر کو چھوڑنا نہیں چاہتی ہے اسلئے اللہ نے فرمایا کہ عدت کی تکمیل کے بعد بھی معروف یعنی صلح کی شرط پر رجوع کرسکتے ہیں لیکن اگر ان کو خوشحال نہیں رکھ سکتے تو ضرر پہنچانے کیلئے رجوع مت کرو۔ یہ تمہار اپنا نقصان ہے۔ حلالہ کی تو بیخ کنی اللہ نے کردی ہے لیکن مولوی پیچھا نہیں چھوڑتا۔ تین نعمتوں کاخیال رکھنے کی طرف متوجہ کیا ہے۔ ایک بیوی جو حلالہ کیلئے نہیں۔ دوسری قرآنی آیات جو اللہ نے رجوع کیلئے نازل کی ہیں اور تیسری حکمت ودانائی ،جو اللہ کی عطاہے ۔ اس کا استعمال نہیں کیا تو آیات عزت کے تحفظ کی جگہ استحصال کا باعث بن سکتی ہیں۔ ایک ایک آیت پر خوب تدبر بھی کرو۔

232: میاں بیوی باہمی معروف طریقے سے راضی ہوں تو کوئی مذہبی ، معاشرتی ، قانونی اور اخلاقی رکاوٹ نہیں ڈالیں۔ معاشرہ کا اسی میں زیادہ تزکیہ اور زیادہ طہارت ہے جو اللہ جانتا ہے اور انسان نہیں جانتا کہ اس سے کیسے گند پھیل جاتا ہے؟۔

233: میاں بیوی کی جدائی ہو تو بچوں کا خرچہ باپ پر ہے اور والدین میں کسی کو بھی بچے کی وجہ سے تکلیف نہیں دے سکتے ہیں۔بچے بڑے ہوں گے تو دونوں کا خیال رکھیں گے۔

234: بیوہ کی عدت 4ماہ 10دن ہے۔ اس کے بعد وہ اپنا فیصلہ کرنے میں آزاد ہے۔ پہلے شوہر کے نکاح میں رہے تو بھی ٹھیک اورنیا انتخاب کرے تو بھی ٹھیک۔ یہ غلط بات ہے کہ دونوں میں سے ایک کی روح نکلتے ہی دوسرا اجنبی بن جائے۔ حضرت ابوبکر کو ان کی زوجہ نے غسل دیا اور حضرت فاطمہ کے غسل کا فرض حضرت علی نے ادا کیا۔ نبیۖ نے اماں عائشہ سے فرمایا کہ آپ پہلے فوت ہوگئی تو میں غسل دونگا۔مولوی بیوی کے مرنے پر زوجہ فلاں کی تختی لگاتا ہے اور والد کے 20سال بعد بھی والدہ فوت ہوتی ہے تو تختی زوجہ فلاں مولانا لگاتا ہے۔

235: عورت پسند ہو تو اللہ نے کہا کہ تم عدت میں بھی اس کا اظہار ضرور کروگے مگر پکانکاح مت کرو یہاں تک کہ عدت پوری ہوجائے۔ تمہارے اندر کو اللہ جانتا ہے اس سے بچ کے رہو۔ اور جان لو کہ اللہ مغفرت والا اور حلم والا ہے۔

236: ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق میں کوئی حرج نہیں۔ یا اس کا حق مہر مقر کیا ہو۔ مالدار پر اسکی وسعت کے مطابق اور غریب پراسکی وسعت کے مطابق خرچہ دینا فرض ہے۔ اس سے عورت کو کتنا تحفظ دیا گیا ہے؟۔ عورت مالداری کی بنیاد پر زیادہ تر شوہر کو ترجیح دیتی ہے لیکن کوئی اس کو بیچتا ہے اور کوئی پھر جہیز بھی مانگتا ہے اور ارب پتی یا کروڑ پتی یا لکھ پتی کا حق مہر اس کی وسعت کے مطابق نہیں دیتا بلکہ گائے بکری سمجھ رکھا ہے۔

237: اگر تم نے عورتوں کو ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی جو تم نے مقرر کیا ہے اسکا نصف تم پر فرض ہے مگر یہ کہ عورت کچھ معاف کردے یا وہ پورا دے جسکے ہاتھ میں نکاح کا گرہ ہے ۔ تم معاف کرو تو یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔ آپس میںایک دوسرے پر احسان کرنا نہ بھولو۔ جو تم کرتے ہو اللہ دیکھتا ہے ۔

طلاق شوہر دے رہاہے اسلئے اسکے ہاتھ میں نکاح کے گرہ اور اس کی طرف سے رعایت دینے کو واضح کیا۔ فقہاء نے اس سے عورت سے علیحدگی کا اختیار ختم کردیا۔ کتنی بڑی حماقت ہے اور عورت خلع لے بھی تو زیادہ واپس ہی آئے گی۔ سورہ النساء آیت19میں نہ صرف خلع کے حکم اور عورت کے مالی تحفظ کو واضح کیا بلکہ آیت 21میں واخذن منکم میثاقًا غلیظًا ”انہوں نے تم سے پکا عہد لیا تھا”۔طلاق کے حکم میں بھی اس نکاح کی نسبت عورت کی طرف ہے تاکہ گدھوں کو سمجھ میں آئے

سورہ طلاق کی دو آیات میں حقائق کاخلاصہ ہے۔ فرمایا ” اے نبی ! جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو عدت کیلئے دو۔اور عدت کو پورا کرواور اللہ سے ڈرو، ان کو انکے گھر سے مت نکالو اور نہ وہ خود نکلیںمگر یہ کہ وہ کھلی فحاشی کا ارتکاب کریں اور یہ اللہ کی حدود ہیں جو اللہ کی حدود سے بڑھا تو اس نے اپنے نفس پر ظلم کیا ۔ تم نہیں جانتے ،شاید اللہ نئی راہ نکال دے ”۔

حسن الیاس غامدی کے داماد نے طہر میں پہلی طلاق دی۔ دوسرے طہر میں دوسری طلاق دی۔ پھرتیسرے طہر میں تیسری طلاق دی تو کیا پھر رجوع کا دروازہ بند ہوگا؟۔ نہیں !۔ اسلئے کہ اللہ کوئی راہ نکال سکتا ہے اسلئے تو عدت میں گھر کے اندر اس کو بیٹھنے کا حکم نہیں دیا کہ ناجائز جنسی تعلقات کے آخری لمحات سے فائدہ اٹھائیں؟۔ پھر اللہ کہتا ہے کہ ”جب عدت پوری ہو تو معروف طریقے سے روک لو یا معروف طریقے سے الگ کرو ! اور الگ کرنے کی صورت میں دو عادل گواہ بنالو۔ جو اللہ کیلئے گواہی قائم کریں۔تاکہ لوگوں کو بتائیں کہ تین مرتبہ طلاق کے بعد تمام مالی حقوق بھی دئیے۔ رجوع کا راستہ بند نہیںکیا ۔من یتق اللہ یجعل لہ مخرجًا ”جو اللہ سے ڈرا تو اس کیلئے اللہ مخرج EXITراستہ بنادے گا۔(سورہ الطلاق آیت:2)

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اکتوبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

بہادربلوچ نوربی بی شیتل بانوک نے بہت بڑاانقلاب کردیا

مشکل ہیں اگر حالات وہاں دل بیچ آئیں جاں دے آئیں
دل والو کوچۂ جاناں میں کیا ایسے بھی حالات نہیں
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی توکوئی بات نہیں

ایک طرف تہمینہ شیخ نے اس بات کو مسترد کیا ہے کہ بلوچ عورت کسی غیر مرد کیساتھ بھاگ گئی تھی اور پھر شوہر نے اس کو معاف کردیا۔ وہ کہتی ہیں کہ میں کوئٹہ کی رہائشی تھی۔ میرا بچپن کوئٹہ میں گزرا۔ میرا والد 72 سال کا ہے۔ جب ہم چھوٹے تھے تو گھر چھوڑنے کی دھمکی پر لاہور منتقل ہوگئے۔ میرے والد نے بتایا کہ کوئٹہ کے 70سال پہلے بھی حالات یہی بدامنی کے تھے۔ ہم پنجابی ہیں اور ہم سب پاکستانی ہیں۔ پنجاب میں پھر بھی عورت کو آزادی ہے اور میں بلوچ قوم کی تعریف کرتی ہوں اور ان کے پردے کا نظام اچھا لگتا ہے اور بلوچ دوسروں کی بہ نسبت زیادہ پابند اور عزت دار ہیں جو کہانی بعد میں بنائی گئی ہے میں نہیں مان سکتی ہوں۔

جبکہ وقت اپڈیٹ پر احمد کاشف کے تأثرات بالکل مختلف ہیں اور سندھ اور بلوچ قوم کے بارے میں کہتے ہیں کہ میں نے کہیں پڑھا کہ مسجد کو ہاتھ لگانے سے نکاح ہوجاتا ہے اور ان کے بڑے بڑے بچے ہوتے ہیں اور نکاح نہیں ہوتا۔ شیتل بانو نے پہلا شوہر چھوڑ دیا اور اس کے نکاح میں تھی۔ پھر دوسرے سے نکاح کیا یا نہیں؟۔ پہلے نے خلع دی یا نہیں؟۔ دوسرے کے ساتھ بغیر نکاح کے رہی۔ پھر جب پہلے کے پاس آئی تو ایک بچے سے اس کا حلالہ کروادیا۔ تم لوگ شکر کرو کہ پنجاب میں ہو بلوچ اور سندھی قوم کی جہالت فرعون اور دورِ جاہلیت کی طرح ہے اور احمدکاشف عربی زبان پر بھی عبور رکھتا ہے جس کاایک دوسرے ولاگ سے پتہ چلتا ہے کہ ایک عورت نے عربی کی عدالت میں اپنا مقدمہ درج کیا کہ میں اس کے نکاح میں تھی اور اب یہ مجھے اپنا حق نہیں دیتے۔ جب شوہر اور سب لوگوں نے گواہی دی کہ یہ اس کی بیوی نہیں ہے تو قاضی نے کہا کہ ”میں گاؤں میں فیصلہ سناؤں گا”۔ پھر وہاں پوچھا کہ گھر کہاں ہے؟۔ بتایا کہ قریب ہے۔ پوچھا کتے ہیں؟۔ بتایا کہ ہاں کتے ہیں۔ قاضی نے کہا کہ عورت گھر جائے گی ،اگر کتوں نے بھونکا تو عورت جھوٹی ہے لیکن اگر کتے مانوس تھے تو پھر تم سب جھوٹے ہو۔ ان سب کی حالت خراب ہوگئی اور کتے نہیں بھونکے تو قاضی نے عورت کو اس کا حق دلوایا اور گاؤں والوں سے کہا کہ تم سب سے کتا اچھا ہے۔

سوال یہ ہے کہ عورت کا نام نور بی بی، شیتل ،بانو اصل میں کیا ہے ؟ تو نور بی بی کے شہور کا نام بھی نور تھا اسلئے شیتل کہتے ہوں گے اور بانوک بلوچ عزت سے کہتے ہیں جیسے بانوک کریمہ ۔اسلئے بانو سمجھ لیا ہوگا۔

اب اصل کہانی کیا ہے؟۔ جس کے تانے بانے آپس میں ملانے سے بھی نہیں ملتے ہیں؟۔ نور محمد سے خلع لیا اور احسان اللہ سے نکاح ہوا۔ پھر احسان اللہ سے جدائی ہوئی اور پھر حلالہ کرنے کے بعد نور محمد نے وہ بچوں کی خاطر پھر قبول کرلی۔ اب سوال یہ بنتا ہے کہ حلالہ کا توسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پھر کیسے حلالہ کردیا؟۔ ہوسکتا ہے کہ خلع کے بعد کسی نے کہا ہو کہ احسان اللہ سے بھی طلاق ہوگئی ہے تو اب آپ شادی کرلو۔ اور نور محمد نے کہا ہو کہ اب یہ مجھ پر تین طلاق ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ خلع اور دوسری جگہ نکاح اور طلاق کے بعد تین طلاق دینے سے تین طلاقیں واقع ہوتی ہیں یا نہیں؟۔ علماء کے نزدیک تو دس جگہ نکاح کے باوجود بھی سابقہ شوہر طلاقوں کا مالک رہتا ہے۔اسلئے طلاق بھی ہوسکتی ہے اور حلالہ بھی اور پھر رجوع بھی ہوسکتا ہے۔

اگر معاملہ جوں کا توں رہتا تو مسئلہ نہیں تھا لیکن ایک طرف عورت کو اپنے بچوں کے روشن مستقبل کیلئے اور طعن و تشنیع سے بچانے کیلئے نور محمد نے کوئٹہ منتقل کردیا ہو اور دوسری طرف احسان اللہ سے یہ معاہدہ ہوا ہو کہ نکاح کے بعد اس نے دوبارہ اس علاقہ میں نہیں آنا ہے اسلئے کہ اس کا بچوں اور عورت کے خاندان والوں پر برا اثر پڑتا ہے۔ احسان اللہ کی سمجھ میں یہی بات آئی ہو کہ جب اس نے طلاق دیکر چھوڑ دیا اور عورت اپنے شوہر کے پاس دوبارہ چلی گئی تو مجھ پر پابندی نہیں بنتی ہے۔

آپس میں دھمکی اور طعنوں تک بات پہنچی ہو۔ احسان اللہ سے اس کے خاندان نے لاتعلقی کا اعلان پہلے کیا ہو۔ شیتل کے بھائی نے قتل کی دھمکی دی ہو تواحسان اللہ نے کہا ہو کہ پہلے اپنی بہن کو قتل کرو لیکن معاملہ عزت پر ہاتھ ڈالنے کا نہیں محض طعن وتشنیع کا ہو۔ احسان اللہ کے قبیلے نے کہا ہو کہ اگر تم احسان اللہ کو قتل کروگے تو ہم تجھے بھی قتل کریں گے۔

نوربی بی بانوک شیتل نے کہا ہو کہ میرا بھائی احسان اللہ کو قتل کرے اور بدلے میں بھائی قتل ہو تو میں خود کشی کرتی ہوں یا خود کو قتل کیلئے پیش کرتی ہوں۔ دونوں قبائل نے طعن وتشنیع اور آئندہ قتل وغارت گری اور دشمنی کا راستہ روکنے کیلئے ان دونوں کے قتل پر اتفاق کیا ہو اور سردار نے بھی اس کی توثیق کردی ہو۔ خالی طعن وتشنیع سے بچنے کیلئے دوافراد کے قتل کو چھپانے کیلئے کہانی کو مختلف رنگ دینے کی کوشش کی گئی ہو۔

ایک عورت خلع لے اور پھر دوسرے سے نکاح کے بدلے دونوں کو علاقہ بدر ہونا پڑے تو یہ ممکن ہے۔ عمران خان نے ریحام خان سے جو نکاح کیا تھا وہ بھی دو مرتبہ تھا۔ ایک مرتبہ محرم کے عاشورے میں جس کو اپنے اہل تشیع ورکروں ،ہمدردوں اور محبت کرنے والوں سے چھپا دیا۔ وہ پہلے سے بھی بچوں کی ماں اور میڈیا میں کام کرنے والی عورت تھی مگر جب اس کو طلاق دیدی تو ریحام خان کو دھمکیاں ملیں کہ پاکستان واپس آئی تو قتل کردیںگے اور یہ اس وقت کی خبروں کا حصہ ہے۔ ریحام نے کہا تھا کہ پختون ہوں اور گولی سے نہیں ڈرتی۔ اگر وہ عمران خان کے کسی مخالف سیاستدان مولانا فضل الرحمن، زرداری یا شہباز شریف سے شادی کرتی تو پاکستان ڈیگاری بلوچستان بن سکتا تھا۔

سندھ، خیبرپختونخواہ اور بلوچستان کے مقابلے میں پنجاب کا مزاج تھوڑا بہت مختلف ہے لیکن جب پرویزمشرف کی جلاوطنی کے بعد شہباز شریف اور غلام مصطفی کھر اور نوازشریف ایک ساتھ بیرون ملک سے آئے تھے تو پنجاب کے ایک جیالے صحافی اطہر عباس نے شہباز شریف اور غلام مصطفی کھر کے درمیان ایک رشتے کا بہت سخت طعنہ دیا تھااسلئے کہ تہمینہ کھر کو بہت پہلے طلاق دی گئی تھی اور شہباز شریف نے اس کے ساتھ نکاح کیا تھا۔ عمران خان میں پھر میانوالی پنجابی پٹھان کا امتزاج تھا اور اس کی ماں بھی پنجاب کی برکی مگر نسلی اعتبار سے وزیرستانی قبائل سے تعلق رکھتی تھی۔ معاشرے کی اصلاح کیلئے بہت کچھ کرنا ہوگا۔

ایک کہانی ”گاؤں کا چوہدری مجھے رکھیل بناکر رکھتا ہے ”۔ثمینہ کی مجاہد نایاب نے MN Point پر بیان کی ہے جو ہزار گنا شیتل بانونک کی کہانی سے زیادہ مظلوم ہے اور 7بار نکاح اور رکھیل اور کسی کے نکاح میں ہونے کا الزام لگاتی ہے جس کا ایک 4سالہ بچہ بھی ایک شوہر کے پاس رہ گیا ہے۔ کیا کسی کو انصاف ملنے کیلئے ویڈیو بناکر موت کے گھاٹ اتارنا ضروری ہے تب اس کو انصاف ملے گا؟۔ جبکہ دوسری طرف وقت Waqt Update پر احمد کاشف نے ”بانو آخری وقت میں کس کی بیوی تھی؟” کے عنوان سے ولاگ میں سندھی اور بلوچ سماج پر جو شرمناک الزامات لگائے ہیں وہ بھی دیکھنے کے قابل ہیں۔ ثمینہ اور شیتل کی کہانی کا موازانہ کرکے بڑا فیصلہ دینا بھی ضروری ہے۔

پورے ملک میں جس طرح کے حالات ہیں۔ پنجاب اور پشاور میں باپ کا بیٹیوں سے زیادتی پر ولاگ موجود ہیں اور اسکے علاوہ دن میں کئی چینلوں پر مختلف کہانیاں شائع ہوتی ہیںاگر ہم نے اصلاح احوال کی طرف توجہ دینے کے بجائے تعصبات کو بھڑکایا تو پھر اللہ کی عدالت میںہماری حیثیت جانوروں سے بھی بدتر ہوگی۔ اوکاڑہ میں سرعام بدکاری کو فروغ دینے والے میاں بیوی جنہوں نے بچیوں کا بھی خیال نہیں رکھا۔

فوجی کالونی راولپنڈی میں یتیم سدرہ کا دوسری جگہ نکاح پر گلا دباکر قتل کرنا اور چھپاکر دفن کرنا ایک ایک ولاگ بہت بڑا المیہ ہے۔ پشاور میں تین بھائیوں کا بیرون ملک سے آنے کے بعد قتل اور تیرہ خیبر ایجنسی میں مظاہرین کی شہادت اور فوج کی طرف دنبوں کی نیناواتی سے لیکر ایکسیڈنٹ میں مرنے والوں تک ایک ایک چیز المیہ ہے لیکن شیتل بانو کی بہادری نے جو شہرت حاصل کی یہ اس کے نصیب کی بات ہے۔ اس حوالہ سے کچھ اہم ترین اقدامات کی بہت ضرورت ہے۔ سیاسی ، ریاستی اور معاشرتی معاملات جس بے چینی سے بڑھ رہے ہیں اور ایک ایک واقعہ جس طرح کا دلخراش ہے تو کون کس کو کیا ذمہ دار ٹھہرائے؟۔ کون ہے جو ان معاملات سے خود کو بری الذمہ کہہ سکتا ہے؟۔

کنزہ فاطمہ ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی۔ کزن سے رشتہ طے ہوگیا۔ جب اس کے ماں باپ ان کے گھر پر گئے تو انہوں نے انکار کردیا۔ پھر بھی اس کا کزن اصرار کررہاتھا اور گھنٹوں مسلسل تشدد کے بعد اس کو شہید کرکے اس کی لاش سڑک پر پھینک دی۔ دن میں کتنے چینلوں پر کیا کیا خطرناک واقعات رپورٹ ہوتے ہیں لیکن ہمارے کان پر جوں نہیں رینگتی ہے اور ڈھیٹ بن گئے ہیں۔ جس اسلام نے عورت کو تحفظ دیا تھا تو اس کا سارا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے۔ جب عورتوں پر معاشرے میں رحم نہیں ہوگا تو کیا اس ملک کی عوام اور حکمرانوں پر اللہ رحم کرے گا؟۔

میں نے کئی کتابیں لکھ دیں۔ اخبار میں بہت مضامین لکھ دئیے ہیں اور بہت سارے مسائل کا قرآنی آیات میں واضح حل بتایا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف مسلمانوں کی معاشی، معاشرتی، مذہبی اور سیاسی حالت ٹھیک ہوجائے گی بلکہ مغرب کی خواتین سمیت دنیا کی بڑی طاقتیں بھی اسلام کے نفاذ پر متفق ہوجائیں گی۔ قرآن کی ایک ایک آیت اور اللہ کا ایک ایک حکم ہدایت کی روشنی پھیلانے کیلئے زبردست ہے لیکن جب علماء ومفتیان کا نصاب تعلیم ہی درست نہیں ہوگا تو پھر کس کو کیا ہدایت مل سکتی ہے؟۔ لوگ سوشل میڈیا پر کمائی اور عوام میں اپنا مقبول بیانیہ پیش کرنے کیلئے بہت کچھ کرتے ہیں لیکن قرآن کی طرف توجہ نہیںہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اگست 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

ضربِ حق کی تدبیر

یزید تا مفتی تقی عثمانی باطل حلالہ کی تصویر

مرگیا ہے لیکن ویراں ہے قبر یزید کی
ہر ظالم ہے روحانی اولاد پلید کی
فرعون ہو نمرود ہو یا آج کا مردود
اندھے کو اندھیرے میں سوجھی بعید کی
ظالم کے کسی فوج کی بڑی ہو پریڈ
اہل حق کو نہیں ضرورت تائید کی
حسین کا قافلہ ہے اہل حق کا راستہ
قبولیت ہے قسمت نبی کے حفید کی
صحابہ و اہل بیت ہیں راتوں کے ستارے
قرآن میں نبی کی مثال ہے خورشید کی
یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے
اقبال کی شاعری جھلک ہے نوید کی
فتوے ڈھینچو ڈھینچو پدو مار پٹاخے
حلالہ بدبو ہے گدھے کے لید کی
لعنت سے براستہ ماں کی زنا سودی نظام
مجال ہے کوئی کہ جرأت کریں تردید کی
کیوں گند میں پھنسی کھڑی ہے کھوتی؟
مفتی تقی کی جدہ سزا کھا گئی تقلید کی!
سورہ قلم میں ذکر ہے بد نسل زنیم کا
اللہ نے خبر لی مغیرہ کے بیٹے ولید کی
جو کبھی سہہ نہ سکے گا کوئی باطل
حق کی ضرب نے وہ تھپڑ رسید کی
سہم مفتی فرید دُم ہے دُبر عنید پر
مٹی پلید ہوئی آج ہر زر خرید کی
فتویٰ فروش کریں اب ماتم کو بہ کو
ہمیں تلاش کب ہے رجل رشید کی؟
عتیق خوشیاں مناؤ اپنی ہر کربلا پر تم
دنیا بھی ہے تمہاری عقبیٰ بھی شہید کی

 

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جولائی 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اخبار کی وجہ سے قرآ ن وسنت کے مطابق طلاق کا مسئلہ حل کیا ثواب آپ کو ملے گا ۔مولانا عنایت الرحمن

(شاہ وزیر) حضرت مولانا عنایت الرحمن خطیب اور امام اکبر پورہ گاؤں چار غلئی تحصیل و ضلع مردان نے کہا کہ مجھے اس اخبار کا نہیں معلوم لیکن طلاق کا مسئلہ قرآن وسنت کے مطابق حل کیا اور میں اپنی مسجد میں لوگوں کواس سے آگاہ کرتا ہوں ۔ حلالہ کی لعنت سے لوگوں کو بچایا اور آپ اخبار لائے اور اس کا ثواب اور اجر آپ کو بھی ملے گا۔ امام صاحب نے گلے لگایا اور مجھے پیٹھ پر تھپکی دی۔کراچی سے کوئٹہ، سوات،لاہورتک اور پوری دنیا سے عوام حلالہ کیخلاف قرآن وسنت کو سمجھ رہے ہیں۔

حجاز یا وزیرستان کا معاشرہ قرآن سمجھنے کیلئے بنیاد ہے۔ بانی اسلام360 زاہد حسین چھیپا بالمشافہہ نہیںسمجھا۔ مولانا طاہر محسود شین مینار مسجد ٹانک نے سمجھ لیاتھااور 2018ء نقیب محسود شہید کے دھرنے میں شاباتی ملک نے کہا کہ لوگ اخبار سے سمجھ گئے کہ طلاق کا مسئلہ ویسا نہیں ۔ پڑوسی سیداللہ جان کے عزیز کو جنجال گوٹھ میںمنٹوں میں قرآن سمجھ آیا۔

البتہ قائداعظم یونیوروسٹی کے ماسٹر کے تبلیغی زدہ بھائی کو حلالہ سے بچانے کی دارالعلوم الاسلامیہ واٹر پمپ میں میری گھنٹوں کوشش بھی ناکام ہوگئی ۔

مولانا بدیع الزمان ( مفتی تقی عثمانی وسینیٹر مولانا عطاء الرحمن کے استاذ )سے 40 سال پہلے عرض کیا حتی نکح زوجًا غیرہ کی ٹکرحدیث سے نہیںتو استاذ مان گئے۔اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا شیرانی اور قبلہ ایاز مان گئے مگر ہمت نہ کی اگر اسلامی نظریاتی کونسل میں لے جاتے تو عزت ملتی۔

اللہ نے فرمایا کہ ” طلاق شدہ عورت کی عدت ہے اور عدت میں باہمی اصلاح کی شرط پر انکا شوہر لوٹانے کا زیادہ حق رکھتاہے”۔ عمر و علی میں طلاق کے مسئلے پر کوئی اختلاف نہیں تھا۔عورت صلح پر راضی نہیں تو عمر نے تین طلاق پر رجوع کا حق نہیں دیا۔ شوہر نے حرام کہا عورت صلح پر راضی نہ تھی تو علی نے رجوع کا حق نہیں دیا۔ انسان پر شہوت غالب ہوتو شیخ الحدیث مفتی عزیز الرحمن باریش صابر شاہ کو شکار کرتا ہے۔آدم سے اللہ نے کہا کہ ”قریب نہ جاؤ” مگر عصی اٰدم ربہ فغوی” آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی تو بہک گیا”۔ (سورہ طہ:121)

فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندہ صحرائی(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) یا مردِ کوہستانی

اکٹھی3 طلاق پر بخاری نے بے بنیاد حدیث درج کی اور قرآن کا غلط حوالہ دیا۔ بنوری ٹاؤن کراچی کی ویب پر حرمت مصاہرت کے مسائل دیکھ لو کہ ”بہو یا ساس کو ہاتھ لگ گیا اور شہوت آگئی تو اگر انزال کرکے نہیں چھوڑا تو بیوی حرام ہوگی۔ انزال ہوا تو بیوی حرام نہیں ہوگی”۔ قرآن و حدیث میں حلالہ کی لعنت ختم کی گئی لیکن علماء نے اپنے مفاد میں زندہ رکھا ہوا ہے، اسکے علاوہ حرمت مصاہرت پر جو بے غیرتی کا درس دیا جارہا ہے تو حکومت کو ان پر ہاتھ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ جیسے چور بدمعاش سزا کے بغیر سیدھے نہیں ہوتے ویسے یہ نہ ہونگے۔

9جون کو SPلبنیٰ ٹوانہ نے کہا کہ بہو سسر کی جنسی زیادتی سے خودکشی کررہی تھی جو سپرہائی وے سے لائی گئی تھی سچل تھانہ میں ،ریڑھی گوٹھ کی تھی۔ نچلے طبقے میں سسر یہ غلاظت قابل فخر بھی سمجھتا ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

پاکستان کی سر زمین سے اسلام کی نشاة ثانیہ کا آغاز، طلاق کے مسائل کا حتمی حل اور دنیا میں بہت بڑی تبدیلی کیلئے سنجیدہ اقدامات کا آئینہ

طلوع اسلام کے حوالہ سے اقبال نے کہا تھا:
دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
اُفق سے آفتاب ابھرا، گیا دورِ گراں خوابی
کتاب ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا کام تجھ سے دنیا کی امامت کا
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے

اُمت مسلمہ اس فضول بکواس میں لگی ہوئی ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق ایک طلاق ہوتی ہے یا تین طلاقیں ہوتی ہیں؟۔ قرآن وسنت اور صحابہ کے بعد اس مسئلے نے امت کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔

گمراہی کی اس بنیاد نے قرآن اور عربی دونوں سے علمائ، مجتہدین، فقہاء اور محدثین کی نظریں بالکل ہٹادی ہیں۔ اگر کسی کا چہرہ خوشی سے کھل جائے تو عرب کہتے ہیں طلّق وجہہ اس کا چہرہ کھل گیا۔ میں عربی کھل کر بول سکتا ہوں۔ اتکلم العربیة بالطلاقة میں عربی کھل کر بولتا ہوں۔ نبی اکرمۖ نے فتح مکہ کے دن فرمایا: انتم طلقاء تم آزاد ہو۔ یہ کوئی تذلیل نہیں عزت مراد تھی۔ لاثریب علیکم الیوم آج کے دن تم پر کوئی ملامت نہیں ہے۔

جب فتح مکہ کے بعد مسلمان ہونے والوں کی اولادوں نے اسلامی اقتدار مسند خلافت پر موروثی قبضہ کیا توپھر یزید ، مروان اور عبدالملک بن مروان وغیرہ نے یہ سمجھ لیا کہ ہمارے دادوں اور دادیوں کو نبیۖ کی طرف سے ”طلاق” دیدی گئی تھی۔

آج بھی مفتی فضل ہمدرد اور علامہ جواد نقوی اور کچھ دیگر شیعہ ، بریلوی اور دیوبندی فتح مکہ کے بعد مسلمان ہونے والوں کو توہین کے طور پر ”طلقائ” یعنی ”طلاق شدہ ” کہتے ہیں۔ حالانکہ یہ توہین نہیں عربی ادب وتہذیب کے اعلیٰ ترین الفاظ ہیں ۔

اذا قال لھم النبی رحمة للعالمین ۖ یا اہل مکہ الیوم انتم طلقاء فطلّقوا وجوھھم جب نبی رحمت للعالمینۖ نے ان سے فرمایاکہ اے مکہ والو آج تم آزاد ہو تو انکے چہرے کھل گئے۔

زمانہ جاہلیت میں عورت کے چھوڑنے کیلئے لفظ طلاق کا مذہبی حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسلئے فرمایا کہ ”میری آیات کو مذاق نہ بناؤ” ۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ”اسلام اجنبیت میں شروع ہوا تھا اور یہ عنقریب پھر اجنبی بن جائیگا”۔

بنی امیہ کے دور میں یزیدی استبداد کے بعد ہی خلافت کی مسند کو بھی لونڈی بنادیا گیا اور عورت کی طلاق کا مسئلہ بھی جاہلیت کا دوبارہ پیش خیمہ بنادیا گیا۔ حضرت عمر نے بدبو دار ماحول سے حج کا عظیم اجتماع بچانے کیلئے حج وعمرہ کے اکٹھے احرام پر سختی کیساتھ پابندی لگائی ۔ حضرت عمران بن حصین نے اس کو بدعت سمجھ لیا اور کہا کہ اللہ نے قرآن میں اجازت نازل کی اور نبیۖ نے اس پر عمل کیا اور اس کے بعد کوئی ممانعت نہیں ہوئی اور جس نے اس پر پابندی لگائی تو اپنی رائے سے لگائی۔ پہلے ہم پر فرشتے نازل ہوتے تھے اور سنت پر عمل کی وجہ سے ہم سے راستوں میں مصافحہ کرتے تھے اور اب اس بدعت کے سبب برکات اٹھ گئے۔(صحیح مسلم)

جب بدمعاش اور ظالم گورنر ضحاک نے حضرت سعد بن ابی وقاص کے سامنے کہا کہ ” حج وعمرہ کے احرام کو ایک ساتھ جاہل باندھتے ہیں”۔ تو حضرت سعد بن ابی وقاص نے فرمایا کہ ” یہ بات مت کرو! میں نے خود رسول اللہ ۖ کو حج وعمرہ کا احرام ایک ساتھ باندھتے ہوئے دیکھا ہے”۔ (صحیح مسلم)

جب حضرت عثمان نے اعلان کیا کہ حج وعمرے کا احرام کوئی بھی ایک ساتھ نہیں باندھے گا تو اس پر حضرت علی نے اعلانیہ حج وعمرے کا احرام باندھااور کہا کہ اب میں دیکھتا ہوں کہ کون اس سنت سے مجھے روک سکتا ہے”۔(صحیح بخاری)

حضرت عمر نے تین طلاق کا فیصلہ قرآن کے حکم پر کیا تھا اسلئے کہ بیوی راضی نہیں ہو تو شوہر کو رجوع کا حق حاصل نہیں ہے لیکن بنی امیہ کے ظالم طبقات نے بعد میں حقائق کا بالکل حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا تھا۔

سفر میں یاد نہ آئے کوئی ٹھکانہ ہمیں
غم زمانہ لگا ایسا تازیانہ ہمیں
امیر شہر نے کاغذ کی کشتیاں دے کر
سمندروں کے سفر پر کیا روانہ ہمیں
جہاں سے ساتھ زمانے کو لے کے چلنا تھا
وہیں پہ چھوڑ گئی گردشِ زمانہ ہمیں
ملوک ہم نفساں دیکھ کر یہ دھیان آیا
کہ کاش پھر ملے دشمن وہی پرانا ہمیں
ہوائے صبح دل آزار اتنی تیز نہ چل
چراغ شام غریباں ہیں ہم بجھا نہ ہمیں
نگاہ پڑتی ہے پھر کیوں پرائی شمعوں پر
اگر عزیز ہے محسن چراغ خانہ ہمیں

قرآن کی آیت 227البقرہ میں پہلی بار طلاق کا ذکر ہے۔ ” اگر انہوں نے طلاق کا عزم کیا تو اللہ سننے والا جاننے والاہے”۔ عزم کو اللہ سنتا اور جانتا ہے تو یہ بہت بڑی دھمکی ہے کہ عزم تھا تو پھراظہار کیوں نہیں کیا؟۔ اسلئے کہ طلاق کا اظہار نہ کرنا دل کا گناہ ہے اور وہ کیوں؟۔ یہ سمجھنا ضروری ہے۔

اگر طلاق کا اظہار کی کیا توعورت کی عدت پھر تین ادوار یا تین ماہ ہے۔ (آیت:228البقرہ)

اگر طلاق کا اظہار نہیں کیا تو عورت کی عدت پھر چار ماہ ہے ۔ (آیت:226البقرہ)اظہار نہیں کیا تو عورت کی عدت ایک ماہ بڑھ گئی اور یہ دل کا گناہ ہے جس پر اللہ کی پکڑہے۔(آیت:225البقرہ)

اللہ کے نام پرصلح نہ کرنے کا فتویٰ دینے کی اللہ نے گنجائش نہیںچھوڑی ۔( آیت224البقرہ)

جاہلیت کے اندر جتنے غلط مذہبی رسوم تھے تو ان سب کا خاتمہ کردیا۔ جس کا تفصیل سے خاتمہ کیا۔

1: میاں بیوی کی صلح میں مذہب رکاوٹ بنتا تھا تو اللہ نے صلح میں رکاوٹ سے روک دیا۔

2:طلاق کا اظہار نہ کرنے پر لامحدود عدت کی جگہ چار مہینے مقرر کردی۔ اور اس میں بھی عورت کی رضامندی کے بغیر رجوع کا راستہ روک دیا۔

3: اکٹھی تین طلاق پر حلالے کا خاتمہ اور ایک طلاق سے غیرمشروط رجوع کا رستہ روک دیا ہے۔

4: طلاق کا طریقہ بتایا کہ عدت کے تین ادوار میں تین مرتبہ طلاق ہوسکتی ہیں۔

5: جب رجوع کا پروگرام نہیں ہو تو عورت کیلئے دوسرے شوہر کی راہ میں رکاوٹ کا خاتمہ کردیا۔

6: عدت کی تکمیل کے بعد بھی معروف طریقے سے رجوع یا چھوڑنے کی وضاحت کردی۔

7: جب عورت ناراض ہوکرخلع لے چکی ہو اور بہت عرصہ گزر گیا ہو تو بھی رجوع کی گنجائش رکھی۔

ایک عربی سمجھنے والا یا قرآن کا اپنی زبان میں ترجمہ سمجھنے والا آیت 224البقرہ سے 232البقرہ تک دیکھ لے تو یہ ساری رہنمائی مل جائے گی ۔اور سورہ طلاق کی پہلی دو آیات میں خلاصہ بھی ہے۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ علماء کے اختلافات کو کیا رنگ دے سکتے ہیں؟۔ تو اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اسلام کو اجنبیت کا شکار بنایا گیا ہے اور کوئی ایک آیت بھی عوام کیلئے مصیبت نہیں بلکہ نعمت ہے اور احادیث میں ان کے خلاف کوئی تضاد نہیں ۔

پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس اختلاف کا اصل پس منظر کیا ہے؟۔کس وجہ سے یہ پیدا ہوا؟۔

اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عمر نے جب ایک ساتھ تین طلاق پر فیصلہ دیا تو بہت بعد میں حضرت عمر کے اس فیصلے کو خلاف مصلحت قرار دیا گیا اسلئے کہ اگر میاں بیوی کا اکٹھی تین طلاق پر تنازع تھا تو قرآن کے مطابق رجوع تنازع کی وجہ سے نہیں ہوسکتا تھا لیکن عدت تک انتظار کی گنجائش تھی اور اس میں صلح کا راستہ بھی نکل سکتا تھا۔ اسلئے ایک طبقہ نے اس کو طلاقِ بدعت کا نام دیا اور دوسرے طبقے نے اس کو طلاق سنت کا نام دیا۔ طلاق بدعت کی دلیل نبیۖ کی اکٹھی تین طلاق پر ناراضگی کا اظہار تھا۔ اور طلاق سنت کی دلیل لعان کے بعد تین طلاق پر نبیۖ کی طرف سے نکیر نہ کرنے کی دلیل تھی۔

مگر بعد والوں نے اس نزاع کو یہاں تک پہنچا دیا کہ قرآنی آیات کو دیکھنے کی بھی زحمت نہیں کی۔ پھر ایک طبقہ نے کہا کہ اس طرح طلاق ہوتی نہیں اور دوسرے طبقے نے کہا کہ ہوجاتی ہے۔ اگر نہیں ہوتی تو پھر عورت کی عدت بھی شروع نہیں ہوگی اور اس کا دوسرے سے نکاح بھی درست نہیں ہوگا ؟۔ یہ بہت زیادہ خطرناک تھا اسلئے ٹھیک بات یہی ہے کہ طلاق ہوجاتی ہے ۔ البتہ اس کا یہ نتیجہ نکالنا بھی انتہائی غلط ہے کہ رجوع نہیں ہوسکتا ۔جس کا نتیجہ پھر حلالہ کی شکل میں نکلتا ہے ۔ اسلئے قرآن نے اس کی مکمل پیش بندی کررکھی ہے لیکن قرآن کی طرف وہ توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے معاشرہ بچ جاتا۔

علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ
بدل کے بھیس پھرآتے ہیں ہر زمانے میں
اگرچہ پیر ہے آدم جواں ہیں لات ومنات
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات

قرآن نے حلالہ کی لعنت اور عورت کی حق تلفی کا مکمل خاتمہ کردیا تھا۔ شوہر اکٹھی 3 طلاق کے بعد باہمی اصلاح سے بھی رجوع نہیں کرسکتا تھا تو حلالہ کی لعنت سے عورت کی عزت تارتار کردی جاتی تھی لیکن رسول اللہ ۖ کے دل ودماغ میں بے انتہا غیرت تھی اسلئے حلالہ کے عمل کو لعنت، کرنے والے اور کرانے والے پر اللہ کی لعنت بھیج دی اور حلالہ کی لعنت میں ملوث دلے کو کرایہ کا سانڈ قرار دے دیا۔

رسول اللہ ۖ شریعت کے پابند تھے اسلئے اپنی طرف سے کوئی فتویٰ جاری نہیں کیا لیکن جاہلیت کا یہ عمل لعنت کے قابل قرار دیا اور عورت کیلئے اپنے شوہر اور بچوں تک پہنچنے کا یہی ایک راستہ تھا تو مجبوراً کئی خواتین کو پہاڑی کی یہ مشکل ترین چوٹی سر کرنی پڑتی تھی اورکئی ساری زندگی بھر بیٹھی رہتی تھیں۔ دورِ جاہلیت کاعورت سے یہ سلوک ہندو معاشرے میں گائے کا پیشاب پینے سے بھی بہت بدسے بدترین تھا لیکن مذہب کے روپ میں جاری رکھا گیا تھا۔

رسول اللہ ۖ نے ظہار کے مسئلے پر سورہ مجادلہ نازل ہونے کے بعد اپنا مذہبی مؤقف تبدیل کیا تھا لیکن حلالہ کی لعنت کے حوالے سے نبی پاک ۖ کے قلب اقدس میں یہ تمنا تھی کہ اللہ تعالیٰ اس قوم کو اس لعنت سے نجات عطا فرمائے۔ پھر اللہ نے اس حوالہ سے ایسی آیات نازل فرمائی کہ باہمی اصلاح اور معروف طریقے سے عدت کے اندر، عدت کی تکمیل پر اور عدت کی تکمیل کے عرصہ بعد حلالہ کے بغیر رجوع کا دروازہ کھول دیا۔ اتنی زیادہ آیات ہیں کہ آدمی یہ تصور بھی نہیں کرسکتا ہے کہ امت مسلمہ کو دوبارہ شیطان ورغلانے میں کامیاب ہوسکتا تھا؟۔

لیکن اللہ نے خبر دی تھی کہ یہ قوم بھی قرآن چھوڑ دے گی۔ کیونکہ پہلے ایسا کوئی رسول و نبی نہیں گزرا جس کی تمنا میں شیطان نے اپنی تمنا ڈال کر معاملہ نہیں بگاڑا ہو۔ یہود کیلئے تورات میں یہی احکام تھے اورتمام انبیاء کی کتابوں میں بگاڑ کی اصلاح کے بعد شیطان کی ملاوٹ کا سامنا کرناپڑا تھا۔

مشرکین مکہ اور یہود نہ صرف اسلام کے دشمن تھے بلکہ ان کی پوری کوشش تھی کہ اللہ کے احکام دنیا میں مغلوب ہوجائیں اور آج کچھ علماء سو کی طرف سے اس کا بھرپورمظاہرہ دیکھنے کو مل رہاہے۔

اللہ نے فرمایا:” اور جنہوں نے ہماری آیات کو شکست دینے کی کوشش کی تو وہی جہنم والے ہیں۔ اور ہم نے آپ سے پہلے نہیں بھیجا کسی رسول کو اور نہ کسی نبی کو مگر جب اس نے تمنا کی تو شیطان نے اس کی تمنا میں اپنی تمنا ملادی۔ پس اللہ مٹادیتا ہے جو شیطان کا ڈالا ہوا ہوتاہے اور پھر اپنی آیات کو مستحکم کر دیتا ہے اور جاننے والا حکمت والاہے۔ تاکہ بنادے شیطان کے ڈالے ہوئے کو آزمائش ان لوگوں کیلئے جن کے دلوں میں مرض ہے اور ان کے دل سخت ہیں اور بیشک ظالم بہت دور کی بدبختی میں پڑے ہوئے ہیں۔ اور تاکہ جان لیں جن کو علم دیا گیا کہ حق تیرے رب کی طرف سے ہے تو اس پر ایمان لائیں اور اس کیلئے ان کا دل جھک جائے اور اللہ ایمان والوں کو صراط مستقیم کی ہدایت دیتا ہے”۔

(سورہ حج آیات51،52،53،54)

آج شیطان نے رسول اللہ ۖ کی تمنا میں اپنی تمنا داخل کرکے حلالہ کو شریعت کا لبادہ پہنادیا ہے۔ ایک طرف حلالہ کے مریض اور سخت دل لوگوں کیلئے یہ ایک آزمائش ہے جس میں کئی گرفتار ہیں تو دوسری طرف اللہ نے اہل علم اور اہل ایمان کو صراط مستقیم پر ڈالنے کا پروگرام بنادیا ہے۔ جس دن حلالہ کی لعنت کے مرتکب مریض اور سخت دلوں کو شکست ہوگی اور اہل علم اور اہل ایمان حق کیلئے جھک جائیں گے تو یہ انقلاب کا دن ہوگا۔ اللہ نے فرمایا:” اور منکر قرآن کی طرف سے ہمیشہ شک میں رہیں گے یہاں تک کہ ان پر اچانک انقلاب آجائے یا ان پر بانجھ پن کا عذاب آجائے۔ اس دن بادشاہی اللہ کی ہوگی جو انکے درمیان فیصلہ کرے گا۔پس ایمان اورصالح والے نعمت والے باغات میں ہونگے اور جنہوں نے کفر کیا اور میری آیات کو جھٹلایا تو وہ لوگ ذلت والے عذاب میں ہونگے ”۔ ( الحج 55تا57)

اسلام کی نشاة ثانیہ کیلئے ضروری ہے کہ قرآن و احادیث صحیحہ کی درست تطبیق کی طرف علماء ومشائخ اور مذہبی طبقے کا رخ موڑ دیا جائے۔ ایک انسان کا بے گناہ قتل گویا تمام انسانیت کا قتل ہے اور ایک عورت کا حلالہ کے نام پر عزت کا لٹنا تمام عورتوں کی عزت لٹ جانے کے برابر ہے۔ قرآن وسنت میں طلاق سے بغیر حلالہ کے رجوع کا مسئلہ جس اچھے انداز میں سمجھایا گیا تو اس کی مثال نہیں ملتی ہے۔

حضرت ابن عباس نے متشابہ آیات کی تأویل کو سمجھنے کی کوشش کی ۔پھر فرمایا کہ ”قرآن کی تفسیر زمانہ کرے گا”۔ سورہ حج میں ہرسابقہ رسول اور نبی کی نیت میںشیطانی مداخلت مشکل مسئلہ تھا اسلئے کہ مثال نہیں تھی کہ شیطان نے رسول ۖ کی نیت میں مداخلت کی ہو۔ ابن عباس کی پرورش کفار مکہ کے آغوش میں ہوئی۔جہاں جھوٹ تھا کہ نبیۖ نے سورہ نجم میںلات و منات اور عزیٰ کی تعریف کی تھی اسلئے کہ کفار نے بے ساختہ آیت سجدہ پر سجدہ کیا تو اپنی خفت مٹانے کیلئے کہا کہ ہم نے نبیۖ سے یہ سنا تو سجدہ کرلیا۔ اس جھوٹ سے حبشہ کے مہاجرین بھی واپس آگئے تھے جن میں سے کچھ پھر واپس گئے اور کچھ مکہ میں رُک گئے۔ ابن عباس نے سورہ حج کی آیت کو غلط فہمی کی بنیاد پر سورہ نجم سے ہی جوڑ دیا تھا جس سے مفسرین نے ٹھوکر کھائی ہے۔

سید مودودی نے تفہیم القرآن میں اس پر طویل بحث اور تفاسیر کا ذکر کیا مگر مسئلے کا حل نہ نکال سکے۔ حلالہ کی شیطانی مداخلت نے آیت کی تفسیر کردی ۔ قرآنی نور کے سامنے جہالت اور جاہلانہ شعلے کے ابا ”ابو جہل و ابولہب” کے بیٹے بھی سرنڈر ہوگئے۔ قرآن کا درست پیغام دنیا کے سامنے آئے تو نہ صرف فرقہ وارانہ تعصبات بلکہ عالم انسانیت کا پرچم بھی اسلامی خلافت کے آگے سرنگوں ہوگا۔ ہم اپنے نام سے کسی کو چندوں کی دکانیں کھولنے کی اجازت نہیں دیتے ورنہ تو آج مذہبی بہروپیوں کی ہمارے ہاں بہت بھیڑ ہوتی۔وہ وقت دور نہیں کہ لوگ اب قرآن وسنت اور فطرت کی طرف آئیں۔ انشاء اللہ

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

عورتوں کیلئے قرآن میں اللہ ایسا فتویٰ دیتا ہے جس میں خطا کی کوئی گنجائش نہیں ہے

خلع وطلاق اور عورت کے مالی حقوق کامسئلہ

عورت کو خلع کا حق :

اللہ تعالی نے فرمایا : ” اے ایمان والو!تمہارے لئے حلال نہیں کہ تم زبردستی سے عورتوں کے مالک بن بیٹھو۔ اور نہ ان کو اسلئے روکو کہ ان سے اپنا دیا ہوا بعض مال واپس لے لو۔ مگر یہ کہ وہ کھلی فحاشی کریں اور ان سے اچھا سلوک کرو ،اگر تم انہیں برا سمجھ رہے ہو تو ہوسکتا ہے کہ کسی چیز کو تم برا سمجھو اور اس میں اللہ بہت سارا خیر رکھ دے” ۔ (النساء 19)

اس آیت میں نہ صرف عورت کو خلع کا حق دیا گیا ہے بلکہ اس کو مالی حقوق کا قانونی تحفظ بھی دیا گیا ہے۔ بنوامیہ ، بنوعباس اور خلافت عثمانیہ ، مغلیہ سلطنت ، خاندان غلاماں یا ممالیک نے حکومتوں کو بھی اپنی ذاتی وراثت اور لونڈی بنارکھا تھا تو عورت کو قرآن کے مطابق پھر کیا حقوق دینے تھے؟ اور زیادہ تر علماء سوء اور فقہاء رنگ وبو ان کاچربہ تھے۔

عورت کو اگر نہ صرف خلع کا حق قرآن کے عین مطابق مل جائے بلکہ شوہر کا دیا ہوا وہ مال بھی اس کی ملکیت رہے جس کو وہ اپنے ساتھ لے جاسکتی ہے تو ساری دنیا کے آدھے نہیں پورے مسائل حل ہوں گے۔ دکان، مکان اور جائیداد عورت کودئیے ہوں تو ان سے عورت کو دستبردار ہونا پڑے گا جو قرآن کی اس آیت سے بھی واضح ہے اور نبیۖ نے بھی یہ وضاحت فرمائی ہے کہ دیا ہوا باغ واپس کروادیا۔ اگر مفتی تقی عثمانی کی فتویٰ عثمانی میں نابالغ بچیوں پر نکاح کے مظالم دیکھ لئے تو فلسطین بھول جاؤ گے۔

طلاق میں عورت کے حقوق

اللہ نے فرمایاکہ ” اگر تم ایک عورت کے بدلے دوسری سے نکاح چاہتے ہو تو اور ان میں کسی ایک کو بہت سارا مال دیا ہو تو اس میں سے کچھ بھی واپس نہیں لے سکتے۔ کیاتم وہ مال بہتان کے ذریعے اور کھلے گناہ سے واپس لوگے”۔ (النساء آیت20)

اس میں طلاق کے اندر تمام منقولہ و غیر منقولہ جائیداد میں سے کچھ بھی واپس نہ لینے کا حکم ہے۔ بہتان کو ذریعہ بنانے سے روکا گیا ہے۔ خلع میں عورت جدائی چاہتی ہے اسلئے حقوق کم ہیں۔ طلاق مرد ہی دیتا ہے اسلئے پورے حقوق دئیے گئے ہیں۔

یہ بات اچھی ذہن نشیں بلکہ دل نشیں کرلیں کہ

عورت کا حق مہر اللہ نے مرد کی استطاعت کے مطابق رکھا ہے۔ البتہ مرد اپنی استطاعت کو چھپاتا ہے تو عورت کے اولیاء کو اپنے حق کی پاسداری کیلئے وکالت کرنے کا مکمل اختیار ہے۔ یہ سب فضول اور بے بنیاد بکواس ہے کہ شرعی حق کی مقدار کیا ہے؟۔

اللہ نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ہاتھ لگائے بغیر عورت کو طلاق دیدی تو بھی مقرر کردہ حق مہر کا آدھا اور متعین نہیں کیا ہو تو امیر اور غریب پر استطاعت کے مطابق متقی لوگوں پر فرض کیا گیا ہے۔

پھر سہولت دیتے ہوئے اللہ نے آدھے سے کمی و بیشی کی بھی گنجائش رکھی ہے۔ عورت بھی کچھ چھوڑ سکتی ہے اور مرد بھی زیادہ سے زیادہ دے سکتا ہے۔ البتہ چونکہ مسئلہ خلع کا نہیں طلاق کا ہے ۔مردچھوڑنا چاہتا ہے اسلئے اللہ نے فرمایا کہ ”جس کے ہاتھ میں نکاح کا عقدہ ہے تو اس کو چاہیے کہ زیادہ دیدے اور ایک دوسرے پرآپس میں فضل کومت بھولو”۔

احمق فقہاء نے اس آیت کی بنیاد پرعورت سے خلع کاحق چھین لیا ہے کہ عقد نکاح کی نسبت عورت کی طرف ہے حالانکہ سورہ النسائ21 میں نسبت عورت کی طرف ہے وقد اخذن منکم میثاقًا غلیظًا ”اور انہوں نے تم سے پکا عہدوپیمان لیا”۔

سورہ بقرہ آیت229البقرہ میں خلع مراد نہیں ہوسکتا ہے ۔ صدر وفاق المدارس شیخ الاسلام مفتی اعظم پاکستان مفتی تقی عثمانی نے اپنی تحریر میں اس کو بہت مشکل اور ناقابل فہم قرار دیا ہے مگر سیدمودوی اور جاوید غامدی جیسے جاہلوں نے سلیس انداز میں اس کا ترجمہ خلع کرکے نہ صرف جاہلیت کا بہت بڑا ثبوت دیا بلکہ قرآن کے ذریعے امت کو گمراہ کیا۔

ہم نے بفضل تعالیٰ اصول فقہ کی تعلیم حضرت مولانا بدیع الزمان جیسے اساتذہ سے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں نہ صرف رسمی طور پر حاصل کی ہے بلکہ نصاب کی غلطیوں کو آشکارا کرکے تائیدوحمایت اور زبردست حوصلہ افزائی کی ترغیب وتربیت اچھے انداز میں حاصل کی ہے۔ اگر علماء کرام نے حقائق کو قبول نہیں کیا تو جدید دانشور اسلام کی تفہیم پر ڈاکہ ڈالیںگے۔ جیسے مولوی جعلی پیر بن رہے ہیں ویسے دانشور جعلی علماء بن کر اسلام کا تختہ الٹ رہے ہیں۔
٭

ایک مجلس کی 3 طلاق 1یا 3؟، فیصلہ کن حل!

ایک مجلس کی تین طلاق ایک طلاق ہے یا پھر تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ حقیقت کیا ہے؟۔

جو اہل حدیث وغیرہ کہتے ہیں کہ ایک مجلس کی3 طلاقیں ایک طلاق رجعی ہے تو ان کا مقصد درست لیکن علم کا لیول غلط ہے۔ قرآن وسنت میں طلاق کامسئلہ واضح ہے۔ ایک طلاق کے بعد بھی باہمی صلح کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا۔ تین طلاق کے بعد بھی صلح کی شرط پر رجوع ہوسکتا ہے۔ اگر کہا جائے کہ ایک طلاق رجعی ہے اور صلح کے بغیر رجوع ہے تو یہ قرآن وسنت اور فطرت کے بالکل منافی ہے لیکن اگر یہ کہا جائے کہ اکٹھی تین طلاق کے بعدصلح کے باوجود بھی رجوع نہیں ہوسکتا ہے تو یہ بھی قرآن کے خلاف ہے اور حدیث میں اس کی کوئی دلیل نہیں۔

ایک طلاق کے بعد عورت عدت سے نکلے اور دوسرے شوہر سے نکاح کرے ،تب بھی پہلے شوہر کے پاس دو طلاقوں کی ملکیت باقی رہتی ہے۔ جب دوسرا شوہر طلاق دے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پہلا شوہر دوبارہ نکاح جدید سے تین طلاق کا مالک ہوگا یا پھر پہلے سے موجود انہی دو طلاق کا مالک ہوگا؟۔

امام ابوحنیفہ اور باقی ائمہ میں اس پراختلاف اور امام ابوحنیفہ اور امام محمد میں اس پر اختلاف ہے۔ اکابر و اصاغر صحابہ نے یہ اختلاف کیا کہ پہلا شوہر نکاح جدید سے3 طلاق کا مالک ہوگا یا2 طلاق کا؟ لیکن یہ اختلاف نہیںاسلام کی اجنبیت کا آئینہ تھا۔

قرآن وسنت اور فطرت کامسئلہ ہوتا تو اختلاف کیسے ہوسکتا تھا؟۔ قرآن میں طلاق شدہ عورتوں کو ایک عدت میں3 ادواریا 3 ماہ کا پابند بنایا گیا مگر طلاقِ رجعی سے عورت کئی عدتیں گزارنے کی پابند ہوجاتی ہے۔ مثلاً ایک شخص نے بیوی کو ایک طلاق دی اور پھر عدت کے آخر میں رجوع کرلیا، پھر طلاق دی اور عدت کے آخر میں رجوع کرلیا تو دو عدتیں گزارنے کے بعد شوہر تیسری طلاق دے گا تو عورت تیسری عدت گزارنے پر مجبور ہوگی۔ اور اگر اس سے زیادہ تکلیف دینے کا پروگرام ہو تو طلاق رجعی سے وہ مزید بہت کھیل سکتا ہے اسلئے کہ رجوع کے بعد پھر عدت میں طلاق دینے کے بجائے مدتوں تک عورت کو رلا سکتا ہے۔ اگر عورت کو 10 افراد نے ایک ایک کرکے ایک ایک طلاق دی تو عورت پر 10شوہر کے 20 طلاق کی ملکیت کے بوجھ تلے بے چاری ٹیٹیں ہی مارتی رہے گی۔

ایک طلاق کے بعد عورت راضی نہیں تو بھی اس کے شوہر کو رجوع کا حق نہیں۔ بلکہ اگر طلاق کا اظہار نہیں کیا بلکہ ایلاء یا ناراضگی اختیار کی ہے تو بھی اس کے بعد چار ماہ کی عدت میں باہمی رضامندی سے ہی رجوع کرسکتا ہے۔ جب نبیۖ نے ایلاء کے ایک مہینے بعد رجوع کیا تب بھی اللہ نے حکم دیا کہ رجوع نہیںہوسکتا ہے ، پہلے ان کو طلاق کا اختیار دو اور پھر وہ راضی ہوں تو رجوع ہوسکتا ہے۔ دو بار طلاق کے بعد بھی معروف طریقے سے رجوع کا یہ مقصد ہے کہ باہمی اصلاح سے رجوع ہوسکتاہے۔

اکٹھی تین طلاق کے بعد بھی اللہ نے رجوع کا تعلق طلاق کے عدد کیساتھ نہیں رکھا بلکہ

اللہ نے فرمایا کہ ” عدت کے تین ادوار ہیں اور عدت کے تین مراحل میں تین مرتبہ کی طلاق ہے” جو آیت228،229البقرہ اور سورہ طلاق کی پہلی آیت سے واضح ہے اوررجوع کی گنجائش اصلاح اور معروف طریقے سے ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ ”تم ان کو انکے گھروں مت نکالو اور نہ وہ خود نکلیں ،ہوسکتا ہے کہ اللہ صلح کی کوئی نئی صورت پیدا کردے ”۔

حلالہ کی بھوک کا مارا ہوا مفتی اکٹھی تین طلاق سے ساری آیات پر حکم تنسیخ پھیر دیتا ہے اور لعنت کے عمل سے پورا مسلم معاشرہ تباہ کردیتا ہے۔

جب قرآن نے رہنمائی فرمائی ہے کہ عورتوں کے حساس معاملات میں اللہ تعالیٰ بذات خود فتویٰ دیتا ہے جس کی کتاب سے عوام پر تلاوت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ جہاں شک وشبہ اور غلطی کا احتمال نہیں ہوتا ہے۔ جب معاملہ اس بات پر آجائے کہ فلاں کے نزدیک طلاق ہے اور فلاں کے نزدیک نہیں ہے اور فلاں کے نزدیک حلالہ ہے اور فلاں کے نزدیک حلالہ نہیں ہے۔ فلاں کے نزدیک پہلی طلاق واقع ہوگی اور فلاں کے نزدیک تیسری تو پھر یہ طلاق کی واضح آیات اور اللہ کے احکام کے ساتھ کھلا مذاق ہے اور یہ اتنا غیراہم مسئلہ نہیں تھا کہ اللہ آنے والی مخلوق کے ذمہ چھوڑتا اور نبیۖ سے کہتا کہ طلاق کا فتویٰ آپ نے نہیں اللہ نے دینا ہے۔ اگر اصول فقہ کو سمجھا جائے تو بھی معاملہ حل ہوگا۔
٭

قرآن ، سنت اور صحابہ کرامایک پیج پر ہی تھے

صحاح ستہ احادیث کی کتابیں 200سال بعد مرتب کی گئی ہیںجبکہ قرآن صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کی تین نسلوں میں صبح شام، دن رات اور سفر وحضر میں تلاوت کیا جارہاتھا۔ صحیح بخاری نہیں صحیح مسلم میں یہ روایت ہے کہ حضرت ابن عباس نے کہا کہ رسول اللہ ۖ ، ابوبکر کے دور اورعمر کے ابتدائی سالوں تک اکٹھی تین طلاق کو ایک سمجھا جاتا تھا، پھر حضرت عمر نے تین طلاق جاری کردئیے۔

حضرت عمر کے مخالفین نے اس فیصلے کو عمر کے خلاف چارٹ شیٹ میں شامل کردیا کہ اس کی وجہ سے قرآن وسنت اور اہل بیت کا مذہب ملیامیٹ کردیا گیا اور طلاقِ بدعت سے امت میں حلالہ کی لعنت کا دروازہ کھول دیا۔ اہل سنت نے حضرت عمر کے دفاع میں کہا کہ اکٹھی تین طلاق منعقد ہوجاتی ہیں۔ حنفی اور مالکی مسالک نے اکٹھی تین طلاق کو بدعت، ناجائز اور گناہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ واقع ہوجاتی ہیں۔ شافعی مسلک نے کہا کہ یہ سنت، جائز اور مباح ہیں۔ امام احمد بن حنبل والے متذبذب تھے اسلئے ایک قول سے اکٹھی تین طلاق کو بدعت، گناہ اور ناجائز قرار دیا اور دوسرے قول سے جائز، سنت اور مباح قرار دے دیا۔ لیک ٹینکی سے علامہ ابن تیمیہ، علامہ ابن قیم، داؤد ظاہری ، اہل حدیث ، حنفی علماء علامہ عبدالحی لکھنوی،علامہ تمنا عمادی اور ڈاکٹر ذاکر نائیک جیسے لوگ نکل کر آگئے اور پھدک پھدک کر کچھ نہ کچھ چھلانگیں لگانی شروع کردیں۔

اگر ایک طرف قرآن ، احادیث، صحابہ کرام اور ائمہ مجتہدین و محدثین کا اجماع ہو اور دوسری طرف حضرت ابن عباس کی اس ایک روایت کا سہارا ہو تو اہل حدیث کے حافظ زبیر علی زئی ، انجینئر محمد علی مرزا اور سعودی حکومت بھی ایک روایت کے سہارے پر چلنے کے بجائے اپنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ اکٹھی تین طلاق کے بعد رجوع نہیں۔

یہ حدیث نہیں ابن عباس کی طرف منسوب ایک تاریخی فیصلے کی بات ہے۔ اہل حدیث رفع الیدین کی روایات پر جتنا زور دیتے ہیں ،اتنا تین طلاق کی احادیث سے دوڑ لگاتے ہیں۔ مسلم میںابن عباس سے متعہ کے جاری رہنے کی بھی حضرت عمر تک اسی طرح کی روایت ہے مگر وہ اہلحدیث نہیں مانتے۔

سوال یہ ہے کہ حضرت عمر نے ٹھیک یا غلط فیصلہ کیا تھا؟۔ حضرت عمر سے فتویٰ نہیں پوچھا بلکہ عدالتی فیصلہ لیا گیا۔ ایک شخص نے بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں اور تنازعہ عمرفاروق اعظم کی عدالت میں پہنچ گیا تو پتہ یہ چلا کہ بیوی رجوع پر آمادہ نہیں ہے اور شوہر چھوڑنا نہیں چاہتا ہے۔ اگر حضرت عمر یہ فیصلہ شوہر کے حق میں دیتے تو قرآن وسنت اور انسانیت سبھی غرق ہوجاتے ۔نبی ۖ نے اس کا راستہ روکنے کیلئے فرمایا کہ مذاق میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے تو تین نہیں ایک طلاق پر بھی تنازعہ کے بعد یہی فیصلہ درست تھا۔ پاکستان کے شیعہ ایران اور دنیا بھر کے شیعہ کو توبہ کروائیں تو بڑااچھا ہوگا۔ لیکن اگر عورت بھی رجوع کیلئے راضی ہو اور مرد بھی رجوع کرنا چاہتا ہو اور پھر بھی سود خور مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمن اپنی بے گناہ خواتین کو قرآن وسنت کے خلاف مجبور کریں کہ حلالہ کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا تو ہمارے ریاستی ادارے جو مجرم کو سزائیں دیتے ہیں وہ ان کو پکڑیں اور قرار واقعی سزا دیں۔

حضرت علی کے پاس بھی ایک کیس آیا تھا جب شوہر نے بیوی کو حرام قرار دیا تھا اور عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی تو علی نے رجوع نہ کرنے کاہی فیصلہ دیا تھا۔ جاہلوں نے اس کو نام دیا کہ حضرت علی کے نزدیک حرام کا لفظ تین یا تیسری طلاق ہے اور حضرت عمر کے نزدیک حرام کا لفظ ایک طلاق ہے۔ حالانکہ حضرت عمر نے دیکھا کہ عورت رجوع کیلئے راضی ہوگئی تو رجوع کا فیصلہ دے دیا۔ بے غیرتوں نے حرام کے لفظ پر مسالک کے انبار لگادئیے لیکن قرآن کی سورہ تحریم کو دیکھنے کی زحمت نہیں کی تھی۔

اسلئے رسول اللہ ۖ قیامت کے دن اُمت کی شکایت کریں گے۔ وقال الرسول یا رب ان قومی اتخذوا ھٰذاالقراٰن مھجورا ”اور رسول کہیں گے کہ اے میرے رب ! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا”۔(الفرقان) افلا یتدبرون القراٰن ولو کان من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافًا کثیرًا(النسائ:82

” کیا وہ قرآن پر غور نہیں کرتے۔اگر اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سارا اختلاف (تضادات) وہ پاتے”۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv