پوسٹ تلاش کریں

آرتھر پاؤل کی افغانستان پر کی گئی حیران کن ریسرچ

جاوید چوہدری نے زیرو پوائنٹ میں افغان جہاد کے حوالہ سے انکشاف کیاکہ

آرتھر پال امریکن تھا۔ اکاؤنٹس، بجٹ ، آفس مینجمنٹ کا ایکسپرٹ تھا۔ امریکی سیکریٹری آف اکنامکس کا اسسٹنٹ اور اکنامک وارفیئر کا چیف رہا۔ وہ 1960 ء میں ایشیا فاؤنڈیشن میں شامل ہوا اور افغانستان کے آخری بادشاہ ظاہر شاہ کا اکنامک ایڈوائزر بن گیا۔ظاہر شاہ نے 40 سال 1933ء سے 1973 تک حکومت کی ۔آنکھوں کے آپریشن کیلئے روم گیا تواس کی غیر موجودگی میں اسکے کزن سردار داؤد نے اس کا تختہ الٹ دیا۔ جسکے بعد افغانستان میں وہ خونی کھیل شروع ہوا جو آج 52 سال بعد بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ آرتھر پال نے ظاہر شاہ کو آزاد معیشت کا ماڈل بنا کر دیا۔ اسکے مشورے پر خواتین کو حقوق دیے، یونیورسٹیاں اور زنانہ کالج بنائے اور معاشرے کو مزید لبرل کیا۔ آرتھر پال کی وجہ سے افغانستان روس سے دور اور امریکہ کے قریب ہونے لگا۔ یہ دوستی روس کو پسند نہیں آئی۔ چنانچہ اس نے سردار دؤاد سے سازباز کرکے تختہ الٹ دیا۔ داؤد خان افغانستان کا پہلا صدر بن گیا۔

تبدیلی کے بعد کشمکش شروع ہوئی۔1978میں سوویت یونین نے افغانستان میں داخل ہو کر داؤد خان کو قتل کر دیا۔ یہ بعد کی باتیں ہیں۔ آرتھر پال ان حادثوں سے کہیں پہلے کابل آیا اور ظاہر شاہ کا مشیر بن گیا۔ بادشاہ کی قربت نے افغان آرکائیو تک رسائی دی۔ وہ تاریخی دستاویز کی تصویر یا فلم بناتا یا اہم معلومات اپنے پاس لکھ لیتا اور پھر خود یا کسی کے ذریعے اسے پاکستان بھجوا دیتا اور یہ کراچی کے راستے پی آئی اے کے ذریعے امریکہ پہنچ جاتی تھی۔ وہ روز ڈائری لکھتا جس میں افغانستان کے سفر، قبائل کی عادتوں، محل کی اندرونی صورتحال، روس کی مداخلت اور افغان معاشرے میں پلنے والی بے چینی کی روداد لکھتا تھا۔ اس نے محسوس کیا: افغان معاشرے میں استاد کی بہت عزت ہے۔ افغان سماجی طور پر کٹر مذہبی اور تاجر لوگ ہیں۔ یہ سرمائے اور مذہب دونوں کو ساتھ ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ چنانچہ اس کا خیال تھا کہ اگر کسی نے افغانستان کو قابو کرنا ہو تو اسکے پاس تین کارڈ ہونے چاہئیں: مذہب کا کارڈ، اساتذہ کا کارڈ اور دولت کا کارڈ۔ پورا افغانستان پکے ہوئے پھل کی طرح اس کی جھولی میں گر جائے گا۔

آرتھر پال 5 سال افغانستان میں رہا۔ افغانستان کا چپہ چپہ چھان مارا۔ پوری افغان آرکائیو بھی کاپی کر لی۔ وہ 1965 میں کابل سے امریکہ واپس آ گیا۔اس کے پاس 20,000 دستاویزات تھیں۔ یہ افغانوں سے متعلق دنیا کا سب سے بڑا ذخیرہ تھا۔ اس نے اس خزانے کی مدد سے 1965 میں سی آئی اے کو بتا دیا تھا کہ روسی ظاہر شاہ کا تختہ الٹ دیں گے جسکے بعد افغانستان میں خون کا کھیل شروع ہو جائے گا اور یہ پورے سنٹرل ایشیا کو نرغے میں لے لے گا۔ روس افغانستان کے بعد ایران اور پاکستان کو قابو کرنے کی کوشش کرے گا۔ ایران کے پاس تیل اور گیس کے ذخائر ہیں، جبکہ پاکستان کی آرمی اور لوکیشن آئیڈیل ہیں۔ اگر یہ دونوں ملک روس کے ہاتھ آ گئے تو پھر یہ عربوں کو نگل جائے گا اور یورپ کو تین سائیڈ سے گھیر لے گا، جس کے بعد یہ دنیا کی واحد سپر پاور ہوگا۔

اس کا کہنا تھا کہ ہمیں فورا افغانستان، ایران اور پاکستان پر توجہ دینی ہوگی۔ خوش قسمتی سے تینوں ملکوں کے درمیان شیعہ اور سنی اختلافات ہیں۔ اختلافات کی یہ لکیر گہری کرنی ہوگی تاکہ اگر ان ملکوں میں انقلاب آ جائے تو بھی یہ مخالف فرقوں کی وجہ سے ایک دوسرے کے دست و بازو نہ بن سکیں۔ افغانستان کے اساتذہ کو ہاتھ میں لینا چاہیے۔ یہ مستقبل میں ہمارا بہت بڑا سرمایہ ثابت ہوں گے۔ آرتھر پال 1976 ء میں فوت ہو گیا۔ لیکن وہ 1970 کے شروع میں 20,000 کلیکشنز پر مشتمل یہ سارا خزانہ یونیورسٹی آف نیبراسکا کے حوالے کر گیا۔

یونیورسٹی نے سی آئی اے کی مدد سے 1972 میں اپنے کیمپس میں سینٹر فار افغانستان اینڈ ریجنل اسٹڈیز کے نام سے افغانستان پر دنیا کا سب سے بڑا تحقیقی سینٹر بنا دیا۔ یہ سینٹر آج تک قائم ہے اور اس میں افغانستان کی تمام خفیہ ، ظاہری دستاویزات ہیں۔ ان میں کابل دربار 1842، لارڈ لیتن1879 کی افغان وار ، لارڈ کرزن کی 1883 افغان جنگ میں برطانوی سپاہیوں کی قربانیاں،1895 کابل دربار، پٹھان بارڈر لینڈ، 1921 میں چترال سے لے کر ڈیرہ اسماعیل خان تک کے حالات، ہرات سے لے کر خیوہ، خوارزم شاہ کا دربار، خیوہ پر روس کا قبضہ، غزنی سے کابل تک کی سیر، دوست محمد کا دربار، راجہ رنجیت سنگھ کے افغانستان سے متعلق نوٹس اور روس کی خیوہ پر 1840 کی مہم تک شامل ہے۔

آرتھر پال کی تحقیق اس حد تک سالڈ تھی کہ اس نے 1965 میں لکھاتھا کہ افغان 39 کے ہندسے کو پسند نہیں کرتے۔ ان کے خیال میں یہ ماضی میں طوائفوں کے جتھے کا نمبر تھا۔ چنانچہ اگر بد قسمتی سے آپ کی پراپرٹی یا گاڑی کے نمبر میں 39 آ گیا تو پھر یہ افغانستان میں نہیں بکے گی۔ آرتھر پال کی دستاویز پر مشتمل سینٹر نے افغانستان پر امریکی اثر و نفوذ میں اہم کردار ادا کیا۔ امریکہ کی ہدایت پر ذوالفقار علی بھٹو نے افغانستان کی مختلف یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کے 16 اساتذہ کا انتخاب کیا۔ پاکستان بلایا اور جہاد کی ٹریننگ شروع کر دی۔ افغان جہاد کا بانی جنرل ضیا الحق نہیں ذوالفقار علی بھٹو تھا۔ میجر جنرل نصیراللہ بابر ابتدائی مجاہدین کے ٹرینرز تھے۔ یہ 16 اساتذہ افغانستان میں امریکہ کے کمانڈر ثابت ہوئے اور انہوں نے وہاں ایسی آگ لگائی جو آج تک نہیں بجھ سکی۔ نصیراللہ بابر پکے امریکہ نواز تھے۔ یہ بھٹو صاحب کے دور میں بھی گورنرKP اور بینظیر بھٹو کی پہلی اور دوسری حکومت میں وفاقی وزیرِ داخلہ رہے۔ بینظیر بھٹو انکے بیک گرانڈ سے واقف تھیں، چنانچہ وہ انتہائی اہم معلومات ان سے خفیہ رکھتی تھیں۔

مجھے جنرل حمید گل نے ایک بار بتایا کہ میں وزیرِ اعظم کی گاڑی میں انکے ساتھ بیٹھا تھا۔ نصیراللہ بابر اگلی نشست پر ڈرائیور کے ساتھ تھے۔ میں محترمہ کو افغانستان سے متعلق کچھ بتانے لگا تو بی بی نے اگلی نشست کی طرف اشارہ کرکے مجھے روکا۔ میں سمجھ گیا محترمہ اپنے وزیرِ داخلہ کی وفاداری سے مطمئن نہیں ہیں۔ اس کی تصدیق میجر عامر نے بھی کی۔ یہ ماشااللہ حیات ہیں، آپ ان سے پوچھ سکتے ہیں۔ 1978 میں سوویت یونین افغانستان میں داخل ہوا۔ امریکی روس سے براہِ راست جنگ نہیں چاہتے تھے۔ جنرل ضیا الحق ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قابض ہو چکے تھے اور انہیں بھی دوسرے آمروں کی طرح بڑی جنگ چاہیے تھی۔ چنانچہ انہوں نے بھٹو صاحب کے ٹرینڈ کیے ہوئے 16 اساتذہ، گلبدین حکمت یار، برہان الدین ربانی، احمد شاہ مسعود، عبد الرشید دوستم اور عبد الرسول سیاف کی مدد سے افغان وار شروع کر دی۔ پھر سینیٹر چارلی ولسن کی وجہ سے امریکہ اور عرب بھی اس جنگ میں شامل ہو گئے۔

امریکہ آج بھی افغان جنگ کو چارلی ولسن وار کہتا ہے۔ وقت نے ثابت کیا کہ افغان جہاد کوئی اسلامی جہاد نہیں تھا۔ یہ روس اور امریکہ کے مفادات کی جنگ تھی، جس میں نیبراسکا یونیورسٹی کے سینٹر فار افغانستان اینڈ ریجنل اسٹڈیز اور آرتھر پال کی دستاویزات کے ذریعے اسلام کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ امریکی مفادات کی کاشت کاری میں مصر، سعودی عرب اور کینیا کے جذباتی مسلمان نوجوانوں کو بطور کھاد استعمال کیا گیا۔ یہ کھیل سوویت یونین کی واپسی تک جاری رہا۔ روس کی واپسی کے بعد افغانستان کے نام نہاد مجاہدین آپس میں لڑ پڑے اور امریکی اسلحہ سے اپنے ہی ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ افغانستان میں اتنا خون بہا کہ چھینٹے امریکہ تک پہنچنے لگے۔

بینظیر بھٹو اور نصیراللہ بابر کو دوسری بار اقتدار میں لایا گیا اور انکے ذریعے آرتھر پال کا دوسرا مذہبی کارڈ کھیلا گیا۔ پاکستانی مدارس میں پڑھنے والے طلبہ کو افغانستان میں دھکیل دیا گیا۔ انہیں یہ بتایا گیا تھا کہ امام مہدی کا ظہور قریب ہے۔ یہ خراسان میں تشریف لائیں گے، انکی آمد کیلئے فضا ہموار کرنی ہے۔ یہ اسے حکمِ ربانی سمجھ کر چل پڑے۔ افغان وار لارڈز اس وقت تک لڑ کر تھک چکے تھے۔ طالبان آئے تو یہ چپ چاپ پیچھے ہٹنے لگے۔ یوں 1996 تک افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہوا جسکے بعد امریکہ و پاکستان نے سکھ کا سانس لیا۔ لیکن یہ سکھ بعد ازاں عارضی ثابت ہوا۔ طالبان اپنے انقلاب کو واقعی حقیقت سمجھ بیٹھے تھے۔ یہ اس غلط فہمی کا شکار ہو گئے تھے کہ ہمیں قدرت نے پوری دنیا کی قیادت کیلئے منتخب کیا ۔ یہاں سے نیا تنازع شروع ہو گیا۔ وہ کیا تھا؟ یہ میں اگلے کالم میں عرض کروں گا۔
ــــــــــ

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ نومبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

یہ جنگ امریکہ چین ، اسٹیبلیشمٹ، پنجاب کس کی؟ لیکن یہ پختوں کی نسل کشی ہے۔ اخونزادہ چٹان

پیپلزپارٹی رہنما اخونزدہ چٹان نے کہا:2021 سے یہ جنگ ہم پہ کیوں مسلط کی گئی ؟۔ کچھ کہتے ہیں کہ یہ امریکہ اور چائنہ سی پیک کی لڑائی ہے، کچھ کہتے ہیں کہ یہ ڈالروں کی ہے، کچھ کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے، کچھ کہتے ہیں کہ پنجاب کا ہاتھ ہے ۔مقاصد جو بھی ہیں۔ ہمیں دو چیزوں کا پتہ ہے سب سے پہلا یہ کہ یہ جنگ اس ریاست کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے مسلط ہوئی ہے۔ دوسرا ہم یہ جانتے ہیں کہ یہ جنگ ہے نہ یہ دہشتگردی، اگر یہ دہشتگردی ہے تو صرف پختونخواہ میں کیوں ہے؟۔ پورے ملک میں کیوں نہیں ؟۔ کچھ کہتے ہیں کہ جنگ تو فریقین کے درمیان ہوتی ہے یوکرین میں لڑائی ہے اس میں یوکرین کے لوگ بھی مرتے ہیں رشیا کے لوگ بھی مرتے ہیں فلسطین میں لڑائی ہے وہاں پہ غزہ کے لوگ بھی شہید ہوتے ہیں لیکن کچھ نہ کچھ اسرائیل کے لوگ بھی مرتے ہیں۔ یہ جنگ نہیں اس کو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ نسل کشی ہے۔ اس جنگ میں جو لوگ مرتے ہیں چاہے وہ فوجی ، مَلک، صحافی اور سیاسی نام سے ۔ ایک چیز اس میں مشترک پختون ہے ۔ بیوہ ، یتیم بچے پختون ہیں۔

ہم ایک چیز اور سمجھ گئے کہ یہ پختون کی جو نسل کشی ہو رہی ہے اس میں مفادات تو کچھ اور لوگوں کے ہو سکتے ہیں کیونکہ ایک باجوڑی کے باجوڑی کے مارنے پر ایک نوشہرہ کے بندے کے نوشہرہ کے بندے کو مارنے پر اس کا کیا مفاد ہو سکتا ہے؟۔ مفاد چائنہ، امریکہ، اسٹیبلشمنٹ اور پنجاب کا جس کا ہمیں نہیں پتہ، شاید ان سب کے مفادات ہوں۔ شاید اس میں کسی کا بھی مفاد نہیں ہو شاید ایک فریق کا مفاد ہو لیکن جتنے لوگ ہمارے مر گئے وہ پختونوں نے مارے ہیں باہر سے کوئی بندہ نہیں آیا۔ اگر باجوڑ کا بندہ شہید ہوا تو اس کو باجوڑ کے بندے نے مارا ۔اگر مہمند کا کوئی بندشہید ہوا تو مہمندکے بندے نے مارا۔ باہر سے کوئی آیا نہیں۔

اب میں حل کی طرف آرہا ہوں ہم سمجھتے ہیں کہ یہ تین کام اگر ہو جائیں جس کیلئے ہم نے 2021سے کوشش کی۔ دھرنے دئیے ، امن پاسون کی، شہادتیں دیں۔ پہلا کام یہ ہے کہ یہ حکومت و ریاست اپنی اندرونی و بیرونی پالیسیوں کو درست کرے۔ جب تک ریاست اپنی اندرونی اور بیرونی پالیسیوں کو درست نہیں کرے گی ہماری خطے میں امن نہیں آ سکتا کیونکہ یہ بدامنی ان کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہے نمبر ایک۔ دوسرا ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ اس دہشتگردی کے خاتمے کیلئے پشاور میں ریاست پورے ملک ہماری تمام قوموں نے ایک پلان نیشنل ایکشن پلان بنایا تھا جس پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوا۔ جب تک نیشنل ایکشن پلان کی تمام شقوں پر مکمل طور پر عمل درآمد نہ ہوگا ہمارے خطے میں امن نہیں آسکتا۔ نمبر تین فاٹا جو مرجر میں سرتاج عزیز کمیٹی کے سفارشات پہ عمل درآمد نہیں ہوگا ہمارے فاٹامیں یہ بدامنی اور دہشتگردی ختم نہیں ہو سکتی ہے۔ جتنی جدوجہد ہم کر سکتے تھے ہم نے کرلی ہم ناکام ہو گئے۔

اب ہم نے ایک فیصلہ کیا ہے کہ ہم کامیاب کیسے ہو سکتے ہیں؟۔ جب تک ہم اپنے منتخب پختونخوا کی اور خصوصا قبائلی علاقوں کے منتخب نمائندوں پہ عوامی پریشر نہیں ڈالیں گے کہ وہ اس کو اپنا مقدمہ نمبر ون سمجھیں۔ابھی تک ہوا یہ کہ سیاسی اتحادی امن کمیٹیاں ہم لوگوں کو اکٹھا کرتی ہیں یہ لوگ آکر تقریر کر کے پھر واپس چلے جاتے ہیں۔ پھر پیچھے نہیں مڑتے ہیں۔ نمبر دو ہمارے گھر میں آگ لگی ہوئی ہے میں نے بتا دیا کہ یہ پورے ملک کی لڑائی نہیں ہے نہ دہشت گردی ہے یہ صرف پختونوں کی لڑائی ہے۔ جب تک ہماری پختون لیڈرشپ پہ ہم عوامی پریشر نہیں ڈالیں گے اس کو نہیں اٹھائیں گے وہ اس کو اپنا مقدمہ نمبرون نہیں سمجھے گاتو امن نہیں آسکتا اور یہ کام ہم نے شروع کیا ہے۔ ہم مطمئن ہیں۔ باچا خان مرکز میں جو جرگہ ہوا تھا اس میں ہماری تمام سیاسی پارٹیوں میں جس میں ہر پارٹی کا صوبائی صدر شامل ہے ان کی ایک کمیٹی بنی ہے۔

آج اجلاس ہے باچا خان مرکز میں، مطالبات کو منوانے کیلئے پختونخواہ کی لیڈرشپ کب جائے گی اسلام آباد میں اور وہاں پر احتجاج کرے گی ریاست کے سامنے پارلیمنٹ کے سامنے کہ ہمارے ان مطالبات کو تسلیم کریں۔ تو ہماری پہلی خواہش یہی ہے پہلا مطالبہ بھی یہی ہے میں یہ نہیں کہتاکہ ہماری پختون لیڈرشپ نے کچھ نہیں کیا۔ سیاسی پارٹیوں نے کچھ نہیں کیا اور پارلیمنٹیرین نے کچھ نہیں کیا لیکن ہر ایک نے علیحدہ علیحدہ کوشش کی اور یہ علیحدہ علیحدہ کوشش سے نہیں ہوگا۔ اگر یہ کرنا ہے تو پختونخواہ کے جتنے پارلیمنٹیرین ہیں کراس دی بورڈ اس کا تعلق جس پارٹی سے بھی ہے وہ MPA، MNA سینیٹر ہیں۔ ایک پیج پہ آنا پڑے گا۔ اگر یہ ہمارے لیے علیحدہ علیحدہ آواز اٹھائیں گے علیحدہ علیحدہ اعلانیہ جاری کریں گے تو مسئلے کا حل نہیں نکلے گا۔ آپ نے دیکھ لیا سینٹ کے الیکشن میں وہ لوگ جو کہہ رہے تھے کہ ہم ہاتھ نہیں ملائیں گے ہم مل کے نہیں بیٹھیں گے ہم مل کے نہیں چلیں گے اپنے مفاد کی خاطر آکربیٹھ گئے کہ نہیں بیٹھے؟۔ تو اگر اپنے مفاد کیلئے آپ لوگ بیٹھ سکتے ہیں تو ہمارے امن کیلئے کیوں نہیں بیٹھ سکتے؟۔ اگر خدانخواستہ آج باچا خان مرکزسے اعلان ہوگا کہ ہم امن مارچ کس تاریخ کو کر رہے ہیں لیکن اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر ہمیں سیاسی پارٹیوں کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم قبائل اپنی خود کمیٹی بنائیں گے اور خود اپنے لئے جدوجہد کریں گے۔ بہت بہت مہربانی۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اگست 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مولانا خانزیب شہید کا یہ انٹرویو الیکٹرانک چینلوں پر نشر ہونا چاہئے ،خان زمان کاکڑ کو بھی سن لیں

قیام امن باجوڑ سےPPPکےاہم رہنمااخونزادہ چٹان کا خطاب

تم ہمیں کافر سمجھ کر مارو مگرہم تمہیں مسلمان ، پختون اور اپنے بچے سمجھتے ہیں

ہم خوف زدہ ہوکر امن کا نعرہ نہیں چھوڑیں گے۔ ہم مولانا فضل الرحمن ، محمود اچکزئی اور تمام پختون لیڈر شپ کے سامنے جھولی پھیلائیںگے کہ ہمارے ساتھ اسلام آباد چلو۔اخونزادہ چٹان

باجوڑ پیپلزپارٹی کے رہنما اخونزادہ چٹان نے قیام امن خطاب کا آغاز پشتو اشعار سے کیاکہ جب تم حق کی راہ پر چلتے ہو،100دفعہ آگے گرپڑو اور اُٹھو تومیں نے ہزار پر تمہیں قربان کیا اور صدقہ کیا جب تم موت کے منڈیر پر پڑے ہو ہلتے ہو۔ میرے بھائیو! جب ہمارے دوستو ں نے اپنی شہادتیں پیش کیں تو ہمیں موت سامنے نظر آرہی تھی مگر اسکے باوجود ہم ان کیساتھ کھڑے تھے اور ہم ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ میرے بھائیو ! آج میں اپنے شہداء کو مبارک باد پیش کرتا ہوںکہ تم نے اپنے خون کی قربانی دی مگر باجوڑ کی قوم کو جگادیا۔ مبارک ہو۔یہ تمہاری قربانی کی بدولت ممکن ہوا۔ بھائیو! مولانا خان زیب کیوں شہید ہوا؟ مولانا خان زیب اسلئے شہیدہوا کہ ہمیں وہ یہ پیغام دے رہا تھا باجوڑقوم کوکہ اگر تم امن کی بات کروگے تو تمہارا انجام یہ ہوگا جو مولانا خان زیب کا ہوا بھائیو ! یہ پیغام تھا ہمیں کہ نہیں ؟۔تم اپنی عوام اور اپنے بچوں کے امن کی بات کرتے ہوتو پھرتمہارا انجام وہی ہوگا جو آج مولانا خان زیب کا ہوا ہے۔ ہمیں آج یہی پیغام تھا ناں!۔ بھائیو!آج ہم باجوڑ کی قوم ان لوگوں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ اگر آج تم یہاں پر نہیں تو اپنے کان کاٹ لو!کہ میرے منہ کا احساس ٹھنڈا نہیں ہوا۔ ( تالیاں ، نعرے) بھائیو! ہم ان لوگوں کو پیغام دیں کہ تم مجھے قتل کرسکتے ہو لیکن خاموش نہیں کرسکتے۔ تم نے میرے متعلق بہت غلط اندازہ لگایا ہے۔ تم ہمیں ایک ایک کرکے مار سکتے ہو، ہم سے سینکڑوں، ہزاروں کو مار سکتے ہولیکن جس شعور کا سفر، جس امن کاسفر ، جس امن کا کاروان ہم نے جاری رکھا ہوا ہے ،اس کو تم نہیں روک سکتے ہو۔ (نعرے) بھائیو! اس روڈ پر اور اس مارکیٹ میں ہم سے100افراد کو شہید کیا گیاتو کیا ہم خاموش ہوگئے۔ ریحان زیب شہید ہوا۔ امن کا کاروان رک گیا؟۔ ہم سے اس روڈ پر مولانا خان زیب شہید کردیا گیا۔جس کی زندگی میں اس کاروان کو روکنے کی کوشش کی تھی تو آج یہ کاروان ہم نے پھر اس جگہ سے روانہ کیا۔ جن لوگوں نے خان زیب کو شہید کرکے ہمیں یہ پیغام دیا کہ یہ کاروان خوف کھائے گا ،یہ لوگ خاموش ہوجائیں گے،میں ان لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ تم نے یہ ہمارے بارے میں،ہماری قوم ، ہماری عوام کے بارے میںغلط اندازہ لگایا، باجوڑی بے غیرت نہیں،باجوڑی بزدل نہیں۔تم میرے باجوڑی کو مار سکتے ہو لیکن ڈرا نہیں سکتے۔ہم بزدلی کی زندگی پر لعنت بھیجتے ہیں۔ ہم بزدلی کی زندگی پر ….(لعنت …..)۔

ہم آج یہ آواز اٹھاتے ہیں ، کل بھی۔یہ اپنی جان، اپنے بچے کیلئے ہی نہیں،یہ جو تم ہمیں قتل کررہے ہو تیرے لئے بھی امن کی آواز اٹھاتے ہیں۔تیرے بچوں کیلئے بھی۔ میں مرتا ہوں تو تم کہتے ہو کہ کافر مردار ہوگیا، مجھے مسلمان نہیں مانتے۔مگر تم مرتے ہو تو مجھے دکھ پہنچتا ہے کہ آج ایک پختون کی بیوی بیوہ بن گئی۔جیسے اپنے اوپر غمزدہ ہوتا ہوں، ویسے تم پر ہوتا ہوںاسلئے کہ تم مجھے مسلمان نہیں سمجھتے لیکن میں تمہیں پختون سمجھتا ہوں۔تم مجھے مسلمان نہیں سمجھتے لیکن میں تمہیں باجاوڑی سمجھتا ہوں۔ تم مرتے ہو تو میں تم پر غمزدہ ہوتا ہوں جتنا اپنے بچے پر غمزدہ ہوتا ہوں۔جتنا اپنی جان پر غمزدہ ہوتا ہوں اسلئے کہ میں اس جنگ کو جہاد نہیں کہتا۔ جہاد تو فلسطین میں ہے اسرائیل اور مسلمانوں کے درمیان ، جہاد تو کشمیر میں ہے کافروں اور مسلمانوں کے درمیان۔جب مسلمان اور کافروں کے درمیان جنگ ہو تو اس کو جہاد کہا جاتا ہے۔میں نے مسلمانوں کے خلاف جہاد نہیں دیکھا ۔اس کو تو میں جنگ بھی نہیں کہتا، جنگ میں دونوں فریق کا نقصان ہوتا ہے۔ یوکرین میں یوکرین والا بھی مرتا ہے اور روسی بھی مرتا ہے۔فلسطین میں جنگ ہے ،اسلئے کہ اگر چہ فلسطینی زیادہ مرتے ہیں لیکن اسرائیلی بھی مرتے ہیں۔اسی طرح بھائی ! کل ہماری انڈیا سے جنگ ہوئی تھی۔ہم بھی مرتے تھے اور انڈین بھی مرتے تھے۔میں اس کو نسل کشی کے رنگ سے دیکھتا ہوں، تم مرتے ہو تو پختون ہو اور میں مرتا ہوں تو پختون ہوں۔ یہ نہ جنگ نہ جہاد ہے یہ نسل کشی ہے۔ یہ قوم کا خاتمہ ہے اور پختون کی بیخ و بنیاد کو اکھاڑنا ہے۔ آخری پیغام اپنے شہداء کو کہ وقت آگیا کہ ہم اسلام آباد کی طرف رُخ کریں مگر یہ اکیلے نہیں کرسکتے۔ یہ پختون قوم کا مسئلہ ہے لیکن شروع باجوڑ سے کریں۔ ہم گورنر کا گریبان بھی پکڑلیں،وزیراعلیٰ کا گریبان بھی پکڑلیں کہ اگر تم ہمارے صوبے کے گورنراور وزیراعلیٰ ہوتو تم نے آگے ہونا ہوگا۔مولانا فضل الرحمن، اسفند یار خان، محمود اچکزئی، آفتاب شیرپاؤ کے سامنے جھولیاں پھیلائیں ۔ ان کو آگے کریں گے اور پیچھے ہوں گے انشاء اللہ۔ ان اشعار پر اجازت کہ اگر میرا سر گرگیا تو یہ کوئی عرش معلی تو نہیں ہے۔اگر حق میں نے چھوڑ دیا تو ماں کا دودھ حرام پیا ہوگا۔ اگر میرا سینہ چھلنی ہوگیا تو کوئی کعبہ تو نہیں ہے۔اگر خون کے قطرے گر رہے ہیں کوئی کنبہ تو نہیں ہے۔ موت تو وہی ہے کہ زندوں کیلئے کسی طرح کی یاد گار رہ جائے۔ غلامی کی موت دنیا میں کوئی رعب ودبدبہ نہیں ہے۔ حق کی آواز کبھی ہم نے چوری چھپے نہیں اٹھائی ہے۔اگر میرا سر گرگیا تو کوئی عرش معلی نہیں ہے۔ پرواہ اپنے سر کی نہیں کرتے،موت کاخطر نہیں کرتے ، نعرہ لر و بر نہیں کرتے۔ یہ قسمیں پاک اللہ کے نام پر کھائی ہیں،اگر حق چھوڑا تو ماں کا دودھ حرام پیا ہوگا۔

مولانا خانزیب شہید اور خان زمان کاکڑ کی ویڈیوز دیکھنے کیلئے معاذ خان کے چینل کا لنک درج ذیل ہے۔

https://www.youtube.com/@voicesnvisions

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جولائی 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

شہداء31مئی 2007ء کو18 برس ہوگئے۔ بفضل تعالیٰ بہت بڑابریک تھرو ہوگیا۔ عبدالواحد نے آخرکارایک بہت بڑا”راز ” بتایا جس سے سراغ مل سکتا ہے!

یکم جون 2007ء کو جٹہ قلعہ گومل ٹانک ڈیرہ اسماعیل خان ایک واقعہ قومی اخبارات میں شہ سرخیوں کیساتھ جنگ، ڈان ، مشرق اور تمام اخبارات میں رپوٹ ہوا کہ ”نامعلوم افراد نے 30اور 31مئی کی درمیانی شب خودکار اسلحہ بموں سے پولیٹیکل ایجنٹ خیبرایجنسی سیدامیر الدین شاہ کے گھرپر حملہ کرکے 14افراد کو ہلاک اور دوافراد کو زخمی کیا ،جن میں ایک بھائی پیراورنگزیب شاہ،بھتیجاارشد حسین ،ایک بہن، ایک بھانجی ، ماموں ازادحسام الدین شاہ،خالہ زاد پیررفیق شاہ ، امام مسجد حافظ عبدالقادر، خادم قاسم مروت، ایک محسود، ایک تبلیغی جٹ عالم دین اور خالد اوردو باپ بیٹے سمیت 3آفریدی شامل تھے”۔ افراد13تھے 14 رپوٹ ہوئے۔

حملہ آور 2 مارے گئے ۔ جب تک ممکنہ سہولت کاروں کا تذکرہ نہیں کیا تو چالبازی سے کچھ لوگ ہمیں گھمانے اور کچھ کے ملوث ہونے کی بات کرتے تھے ۔ میں نے پیر کریم کو اخبار میں اتنا پوچھا کہ وقوعہ سے پہلے معاملے کا ادراک تھا یا نہیں؟۔ کیونکہ اگر ادراک کے باوجود ہمیں نہیں بتایا تو ہم پر یہ حقیقت واضح ہونی چاہیے۔ پیرداؤد شاہ کا شک تھا کہ واقعہ سے پہلے گاڑیوں کی چیکنگ کررہے تھے۔اب عبدالواحد نئی بات سامنے لایا کہ ” کریم کے بیٹے نعمان کو واقعہ کی رات 11بجے مشکوک فون آیا تھا۔ جہاں مجھے رات گزارنے کیلئے عبدالرحیم نے لانا تھا”۔ لیکن پروگرام تو وڑ گیا تھا؟۔

جہانزیب نے کہا کہ مظہر کو میں جانتا ہوں اور وہ یہ کام نہیں کرسکتا ہے اور کریم کا بیٹا نعمان اس کا دوست ہے جس کا ان معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ واقعہ کی رات دونوں ساجد لوگوں کے پاس تھے ۔ جب ایک طرف سے یہ رپوٹ ہو کہ مشکوک ہیں اور دوسری طرف سے نہیں تو اسکے علاوہ کوئی بات نہیں تھی۔ مجھے شہریار نے بتایا تھا کہ ” واقعہ سے پہلے طالبان سے میٹنگ ہوئی اور ان کو ورغلایا گیا کہ ”یہ بڑے ظالم ہیں لوگوں کی بیویاں بچے چھین لئے ہیں”۔ یہ خیبر ہاؤس پشاور کی پہلی ملاقات میں بتایا اور مجھے وقوعہ کے روز بتایا گیاکہ ”یوسف شاہ کی بہن نے کہا کہ اگر عتیق الرحمن گھر میں ہے تو اس کو نکالو ،طالبان گھس رہے ہیںاور ہمارا نام خدا کیلئے مت لو ،ورنہ ہمیں اٹھا لے جائیںگے”۔

میں نے عورت کی عزت کیلئے مسئلہ الجھایا اوریہ کہ پتہ چلنا چاہیے کہ قاتل ، سہولت کار اور منصوبہ ساز کون ہے؟۔

مجھے اغواء برائے تاوان کا خدشہ تھااسلئے کہ اورنگزیب نے اظہار کیا تھا کہ ”مجھے قتل سے خوف نہیں ہے، اغواء سے ڈرتا ہوں اسلئے اغواء بہت بڑی بے عزتی ہے”۔

عبدالرحیم ،عبدالواحد نے بتایاکہ ”سبھی کے دماغ میں ہے کہ دوبئی میں ہماری جائیدادیں ہیں ۔ ماموں اور اپنے بھائیوں کے گھر والیاں کہتی ہیں”۔ کوئی اور ہوتا تو دماغ اس طرف جاتا کہ ”سارا مسئلہ گھر میں ہے اور سازش کا دائرہ ہو تو ماموں اور اپنے گھر کے گرد گھومتا ہے”۔یہ ایک زبردست ماحولیاتی آلودگی بنائی گئی تھی۔اتنی بات تو کنفرم تھی کہ ”اورنگزیب کا کراچی میں کاروبار تھا اور عبدالرؤف و نور علی کو کاروبار ختم کرنے کیلئے کہہ دیا تھا اور ناصر سے ڈن ہوا تھا۔ جس کا صرف عبدالرحیم اور بھائی امیرالدین کو ہی پتہ تھا”۔

پھر عبداللہ شاہ ایڈوکیٹ نے کہا تھا کہ ”میرے تینوں بھائی فراڈ کررہے ہیں ۔ عبدالرحیم اور نور علی کا خفیہ کاروبار نکلے گا۔عبدالرؤف کو بھی انہوں نے دھوکہ دیا ہے”۔ جب عبدالواحد نے کہا کہ ”منہاج زمین کے مسئلے پر سازش کررہا ہے۔ اکبرعلی کو بھی ساتھ کیا ہے۔ پہلے بھی ہمیں استعمال کیا اور پھر اپنے پیسے لوٹادئیے”۔تو میں نے نہیں کہا کہ ”تم کوئی گل چاہت ہو کہ تبلیغی جماعت پر الزام دھردیا کہ کسی نے نہ چھوڑا،جنسی خواہش پوری کی۔جس کا ازالہ نہیں ہوسکتا تو تم بھی منہاج کی طرح دلباری نانا کو پیسہ واپس لوٹاتے؟”۔

میری ایک تحریک ہے۔اگر اسلام اپنے آپ، اپنے گھر اور عزیزواقارب سے شروع کیا جائے تو سارے فتنے ایک دن میں ختم ہوسکتے ہیں۔ چوری کا علاج تبلیغی جماعت میں سہ روزہ، چلہ، چارماہ ، سال اور ڈیڑھ سال لگانا نہیں بلکہ وہ نظام ہے جس میں چور کیلئے ہاتھ کاٹنے کی سزا کا قانون ہو۔ بہنوں اور بٹیوں کی قیمت لگاکر بیچنا ایک ماحول ہو اور اسلام کا بھی جھنڈا اٹھالیا ہو تو یہ اسلام اپنے ساتھ دھوکہ ہے۔

مولانا طارق جمیل کو بتایا کہ ”اسلام اور اقتدار دو جڑواں بھائی ہیں۔ ایکدوسرے کے بغیر صحیح نہیں ہوسکتا”تو اس نے کہا تھا کہ ”یہ حدیث نہیں مانتا”۔ جماعت دو ٹکڑے ہوئی ۔ بنگلہ دیش میں قتل ،اب مولانا طارق جمیل کو منافق قرار دینا۔

اسلام کا اقتصادی اور معاشرتی نظام رائج کئے بغیر حکومتی نظام آئے بھی تو خاطر خواہ فائدہ نہیں ۔ جماعت اسلامی نے ریاستی قوت کیلئے ساکھ ختم کردی ۔ قابل لوگ نذر ہوگئے اور اسلام اور عوام کو فائدے کی جگہ نقصان پہنچا۔ لوگ مذہبی، مسلکی ، فرقہ وارانہ اور جماعت پرستانہ تعصبات کو ہوا دیتے ہیں میں اس کا کبھی قائل نہیں رہا ہوں۔ سیدایوب شاہ کی وجہ سے1970ء میں پہلا جھنڈا جماعت اسلامی کا تھاما تھا۔

مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا محمد الیاس ، مولانا انور شاہ کشمیری، مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ اور مولانا عبیداللہ سندھی سے میرے اپنے دادا سیدمحمد امیر شاہ بڑے عالم تھے اور مولانا قاسم نانوتوی ومولانا رشیداحمد گنگوہیاور انکے پیر حاجی امداداللہ مہاجر مکی اور ا نکے شاگرد شیخ الہند اور انکے استاذ مولانا مملوک علی سے میرے پردادا سید حسن شاہ بابو بڑے عالم دین اورزیادہ قدآور شخصیت تھے۔ شاہ اسماعیل شہید، شاہ عبدالعزیز،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور شیخ احمد سرہندی مجددالف ثانی سے زیادہ میرے اجدادسیدمحمود حسن دیداری سیدمحمدابوبکر ذاکر اور سید شاہ محمد کبیرالاولیائ کانیگرم جنوبی وزیرستان اپنے علم وعمل میں دیندار اور بڑے لوگ تھے۔

مولانا اشرف خان فاضل دارالعلوم دیوبند، مولانا شادا جان فاضل پنج پیراور مولانا محمد زمان کانیگرم کے علماء سے میرے والد پیرمقیم شاہ عام انسان صرف انسانیت کے حوالہ سے نہیں بلکہ قرآن وسنت اور اسلام کی سمجھ کے حوالہ سے اچھا فہم رکھتے تھے بلکہ چچاسید محمدانور شاہ بھی علم اور سیدمحمد صدیق شاہ ان سے زیادہ عمل کے بہت عمدہ نمونے تھے۔

مولانا محمد زمان وزیرستان کے500علماء کے امیرتھے اور مفتی عبدالغنی برکی محسودی پشتو میں قرآن کا ترجمہ کررہا ہے لیکن ان کے دین کی سمجھ ہماری پھوپھی ریاض شاہ کی والدہ سے بہت کم درجہ کی تھی۔ میں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ”شاہ ولی اللہ نے اپنی کتاب ”ازالة الخفاعن الخفاء ” میں لکھا ہے کہ اللہ اپنے رسول ۖ کے ساتھ پوری دنیامیں اسلام کے غلبے کا وعدہ کیا ہے لیظہرہ علی الدین کلہ ”تاکہ اس کو تمام ادیان پر غالب کردے”۔نبیۖ کے بعد قیصر وکسریٰ کی سپر طاقتوں کو شکست خلفاء راشدین کے ہاتھوں ہوئی اور آئندہ پوری دنیا میں اسلام کے غلبے کا وعدہ پورا ہونا ہے”۔(ازالة الخفا عن الخفاء ۔ شاہ ولی اللہ )

یہ کفر ہوتاتو فتویٰ مجھ پر نہیں شاہ ولی اللہ پر لگتا۔ میری پھوپھی پڑھی لکھی سمجھ دار تھیں۔ میں جیل میں تھا تو بتایا گیا کہ والدہ کو پتہ نہ تھا۔پھوپھی خالد کی شادی میں خوشیاں منانے پرافسردہ تھیں۔خوددار لوگ مفاد پرست نہیں ہوتے مگر دودھ پینے والے مجنون مفاد کی خاطر کٹورہ لئے پھرتے ہیں۔

مولانا اشرف خان نے اس عبارت کی وجہ سے بتایا کہ علماء نے کفر کا فتویٰ لگایا ۔ میں نے کہا کہ اگر آپ 5 منٹ میں نہ مانے کہ یہ اسلام ہے تو میں مرتد کی سزا میں خود کشی ہی کرلوں گا لیکن اگر آپ مان گئے کہ تو جس نے فتویٰ لگایا ہے اس پر توت کا ایک ڈنڈا مار مار کر توڑوں گا۔ اس نے کہا کہ دین تو اللہ نے مکمل کیا ہے تو پھر اس کا کیا مطلب ہے؟۔ میں نے بتایا کہ دین کے نزول کی تکمیل ہوگئی ہے اور اس کا غلبہ ابھی باقی ہے۔ جس پر اس نے کہا کہ اب بات سمجھ گیا۔ مفتی عبدالغنی برکی نے بات سمجھ لی تو کہا کہ ”میں نے کتاب لکھی تھی ۔یہ اللہ کاشکر ہے کہ وہ چھاپی نہیں ہے”۔

سیدابولاعلیٰ مودودی ایک داڑھی منڈے صحافی الطاف بھائی (قائدایم کیوایم) کی طرح تھے۔ نامی گرامی علماء کرام ان کی قیادت میں اکٹھے ہوگئے۔ جن میں مولانا ابوالحسن علی ندوی ، مولانا محمد منظور نعمانی اور مولانا مسعود عالم ندوی جیسے لوگ شامل تھے۔ مولانا موددی نے لکھا ہے کہ ”مجھے پتہ ہے کہ جس آون دستے میں میں نے اپنا سر دیا ہے کہ دور سے اس کی دھمک کی آواز سن کر یہ بکھشو بھاگ جائیں گے”۔

مولانا راحت گل نے پشاور یونیورسٹی کے نزد اپنے مرکز مدرسہ راحت آباد میں میری تحریک کی وجہ سے تمام جماعتوں کے قائدین مولانا فضل الرحمن، قاضی حسین احمد،مولانا سمیع الحق ، مولانا اکرم اعوان،صوفی محمداور ڈاکٹر اسرار احمدوغیرہ کواخبارات کے اشتہارات میں میرے نام کیساتھ بلایا تھا تو قائد خود نہیں آئے مگر ان کے نمائندوں نے شرکت کی تھی۔

ضلع ٹانک ، پختونخواہ اورپاکستان بھر کے تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء نے بڑی تائیدات کی تھیں۔

لیفٹنٹ جنرل ریٹائرڈ ظہیر الاسلام عباسی نے میرے پاس چند دن قیام کیا۔ ٹانک سفید مسجد مولانا فتح خان اورگل امام مولانا عبدالرؤف کے ہاں ان کی تقاریر بھی کرائی تھیں۔ واقعہ پر بیت اللہ محسود نے قصاص کا فیصلہ کیا اور محسود قوم کو ساتھ لیکر تگڑی معافی مانگ لی۔ مولانا فضل الرحمن نے حملہ آوروں کیخلاف ابن ماجہ کی حدیث خطاب جمعہ میں پیش کی کہ یہ خراسان کے دجال کا لشکر ہے۔ عبداللہ محسود اس واقعہ کے غم میں افغانستان سے آگیا۔ وزیر طالبان کے امیر مولوی نذیر نے اسی دن بیان دیا تھا کہ یہ کاروائی کرنے والے امریکہ کے ایجنٹ ہیں۔ قاری حسین نے بیت اللہ محسود سے اس بنیاد پر جان چھڑائی کہ تمہارے حکم پر ہم نے شریف انسان ملک خاندان کو گھر کی خواتین سمیت 7افراد کو شہید کیا تھا۔ ملک خاندان اور علی وزیر کے والد کو ایک ہی دن میں شہید کیا گیا۔ علی وزیر نے اسمبلی کے فلور پر کہا تھا کہ ”ہمارے خاندان نے ریاست پاکستان اور پاک فوج ہی کیلئے قربانیاں دی ہیں”۔ ان کے17افراد شہید ہوئے۔

دہشتگردی میں بہت لوگ مارے گئے تو ہمارا مسئلہ کسی شمار وقطارمیں بھی نہیں جبکہ ہماری بہت مرہم پٹی، عزت اور ساکھ کا بھی خیال رکھاگیا۔ پاک فوج نے بھی اس کے بعد بھرپور طریقے سے آپریشن کئے اور طالبان نے بھی معافی مانگ لی۔ ایسی عزت دہشت گردی کی پوری جنگ میں کسی کو بھی نہیں ملی ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ اصل مجرموں کے چہروں سے نقاب کھل جائیں اور اس میں پاک فوج اور طالبان دونوں کابہت ہی بڑا فائدہ ہے۔

محسن داوڑ جیسے لوگوں کا خیال ہے کہ پاک آرمی اور افغان طالبان حکومت اور TTPسمیت سارا گیم امریکہ کے ایماء پر چل رہاہے۔ مولانا فضل الرحمن افغان طالبان کے بارے میں اچھی سوچ رکھتے ہیں لیکن پاکستان میں وہ دہشتگردی کے فروغ اور افغان طالبان سے معاملات کو بگاڑنے میں امریکہ کے ایماء پرسخت غلطی قرار دیتے ہیں۔

میڈیا کے بیانات میں یہ چیزیں بالکل روز روشن کی طرح واضح ہیں۔حیات پریغال نے اپنے فیس بک کے اکاؤنٹ پر لکھا ہے کہ ” گڈ طالبان اور بیڈ طالبان ایک دوسرے کے رشتہ داروں کو اغواء کررہے ہیں جس سے عوام کو نقصان پہنچ رہاہے اور دہشت گرد ایک دوسرے کے رشتہ داروں کے بدلے میں قتل بھی کرتے ہیں اور چھوڑتے بھی ہیں ۔اس پالیسی سے دہشتگردی کو فروغ مل رہاہے۔

اگر ہمارا واقعہ اور دوسرے واقعات کے اصل مجرم کوئی اور نکل آئے توپھر پاک فوج اور طالبان دونوں بری الذمہ ہوں گے ان گناہوں سے جن میں ان کا کوئی عمل نہیں ہے اور عبدالواحد نے پتہ نہیں کس کا کہا کہ ”وہ لوگ کہتے ہیں کہ ISIسے مل کر عتیق الرحمن نے خود حملہ کروادیا ہے”۔

عبدالرحیم نے پیر زاہد کو طعنہ دیا کہ دل بند کو مروایا اور نوکری پر قبضہ کیا۔ اس سے خسیس ذہنیت کا اندازہ لگ سکتا ہے۔انگریز نے دل بند شاہ کو پٹھان کوٹ اور ان کو جٹہ قلعہ میں آباد کیا؟۔ خالد اور عبدالخالق کو ایک آنکھ کی وجہ سے نہیں عمل کی وجہ سے دجال کہا جاتا تھا۔ اکبر علی سے عبدالخالق کی مسجد میں لڑائی ہوئی عبدالرحیم نے میرا کہا” 10سال پہلے پہچاناتھا”۔اکبر علی کو نور علی کی بنیادپر جہانزیب سے لڑا دینا اور جہانزیب سے نثار کے قتل کی بات کا فلسفہ میں سمجھتا تھا۔

سبحان شاہ کے بیٹے سیداکبر کو سمجھنے کیلئے عبدالخالق شاہ کی علت کو سمجھنا ضروری ہے۔ ہم چھوٹے چھوٹے تھے اور ماموں کی اپنے شریف ترین پڑوسی سے لڑائی کو بڑھاوا دیا جارہاتھا تو پیر نور علی شاہ کہتا تھا کہ ”غیاث الدین دیگ ہے اور عبدالخالق اس کا چمچہ ہے”۔ عبدالخالق بڈھی بڈھی بکریاں مہمانوں کو کھلانے کیلئے سستے دام گاڑی بھر کر لاتا تھا جس سے خرچہ تو کم ہوتا تھا لیکن ناک کٹ رہی تھی۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ واذ زین لھم الشیطان أعمالھم و قال لا غالب لکم الیوم من الناس وانی جار لکم ”اور جب کہ شیطان نے انکے کاموں کو اچھادکھایا اور کہا کہ آج کے دن تم پر کوئی غالب نہیں آئے گا، میں تمہارا پڑوسی ہوں۔جب اس نے دیکھا کہ دونوں لشکر مقابل ہونے والے ہیں تو اپنی پچھاڑیوں کے بل اپنا رُخ تبدیل کردیااور کہا کہ میں جو دیکھتا ہوں وہ تم نہیں دیکھتے۔ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔اور اللہ بہت سخت عذاب والا ہے”۔ (سورہ انفال آیت48)

ایک روایت ہے کہ شیطان سراقہ ابن مالک کی شکل میں آیا پھر رفو چکر ہوا۔مگر یہ بات نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ قرآن نے انسانی شیطان کا ذکر کیا۔ ابولہب اور اس کی بیوی کیخلاف سورة نازل ہوئی لیکن وہ اور اسکے بچے غزوہ بدر میں نہیں گئے۔عباس اور ابوطالب کا بیٹا طالب گئے۔

جب ریاض شاہ کیساتھ جھگڑا تھا تو غیاث الدین نے کہا تھا کہ ”پہلے اس کے باپ کو مجھ سے خراب کروایا ،اب اس کو کھڑا کردیا”۔ نور علی پر منافقت کی تہمت لگائی گئی تھی تو اشرف علی نے کہا کہ ”بھائیوں میں سب سے اچھا عزیزوں کیلئے نور علی ہے لیکن پتہ نہیں کیوں شک کیا جاتا ہے؟”۔

ریاض کے والد کیساتھ نور علی نہیں چمچہ عبدالخالق لڑا سکتا تھا۔ ریاض عبدالخالق کے ہاں جوتے چھوڑ کر ترکش مرغی کی ٹانگ سے بھاگا ؟ ریاض نے کہاکہ غیاث الدین نے زمین کاشت کیلئے لی پھر بدمعاشی سے قابض ہوا۔ عبد الخالق نے ریاض اور ڈاکٹر آفتاب کو غیرت کی بنیاد پر خون ریزی کرنی تھی لیکن اللہ نے مجھے وسیلہ بنادیا۔مینک برکی کی زمین کے مسئلے میں بھی ممتاز بھائی کے گھر پر لشکر کی طرح چڑھائی میں عبدالخالق کے علاوہ کسی اور کا بنیادی کردار نہیں ہوسکتا۔

عبدالرؤف ، حاجی سریر اور ڈاکٹر عبدالحمید میں شیطانی چالوں کا کوئی تصور نہیں ہے البتہ بہت بڑا مغالطہ کھا سکتے ہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ ”مؤمن دھوکہ کھانے والا اور معاف کرنے والا ہوتاہے”۔ یعنی دھوکہ دیتا نہیں ہے۔

ریاض نے کہا کہ ”مینک کی زمین کے پیسے دو بار دئیے اور میری بہن عبدالخالق کی بیوی کا 2ہزار حق مہر بھی یاد کیا ” میں نے سوچا کہ سہیل کی والدہ کا حق مہر2ہزار تھا وہ تو پرانی بات تھی؟۔پھر ہماری بہن کا حق مہر الٹا ہمارے خلاف کیسے حساب کیا؟۔عبدالوہاب سے کہا کہ ریاض سے لکھواؤ۔ مگر اس نے لکھ کر دینے سے انکار کیا جو عبدالخالق کی کہانی تھی۔

مجھے لگتا ہے کہ غیاث الدین کو پیر ملنگ کے خلاف بھی سراقہ بن مالک کی طرح عبدالخالق نے ہی اکسایا ہوگا مگر جب معاملہ جانچ لیا تو کہا کہ ہم تمہارے ساتھ نہیں ہیں۔ ارشد حسین شہید کو ڈنڈوں کی بوچھاڑ میں اکیلا چھوڑنے میں بھی شرم محسوس نہیں کی بلکہ پولیس کی طاقت پر فخر تھا۔

عبدالرحیم مجھے مجھ پر فائرنگ کے بعد پشاور چھوڑ نے جارہاتھا تو کسی کی طرف سے پیچھا کرنے کا احساس ہوا اور عبدالرحیم نے کہا کہ ہنگو چلتے ہیں۔ میں نے کہا کہ سب کو پتہ ہے کہ بھائی DCOہے اور ہم گنڈیالی فضل کریم کے گھر گئے۔پہلے پنڈی کی طرف گئے تو آگے نکل گئے۔ واپسی پر ہم گنڈیالی کی طرف گئے تو پیچھا کرنے والی گاڑی پنڈی کی طرف نکل گئی۔ اسکے باوجود عبدالرحیم نے بھائی کو فون کرکے بلایا جو موت کے منہ میں دھکیلنے والی بات تھی۔

واقعہ سے پہلے بھائی اور عبدالرحیم کراچی آئے ۔ بھائی نے کہا کہ کوئی بااعتماد دوست ہو کاروبار کیلئے تو میں نے ناصر کے ساتھ بات ڈن کردی۔ عبدالرحیم نے کہا کہ حاجی اورنگزیب کو عبدالرؤف اور نور علی پر شک ہے کہ عمرے کس کے پیسے پر کئے ہیں؟۔ہوسکتا ہے کہ حاجی اورنگزیب کو اتنا منافع نہیں دیا ہو کہ وہ بھی عمرے کرتا۔ عبدالرحیم نے کہا کہ کاروبار نورعلی کو آتا ہے عبدالرؤف کو نہیں تھا۔ میں نے نہیں کہا کہ بی جمالو! یہ اس کا کام ہے کہ کس پر اعتماد کرے یا نہیں کرے۔ عبدالرحیم نے کہا کہ کاروبار بہت کامیاب جا رہاہے۔ ایک فلیٹ بک کرایا ہے ،لوگ16لاکھ میں ابھی ادھورا مانگ رہے ہیں۔مجھے اس سے کیا غرض تھی؟۔ میں سمجھتا تھا کہ جب اعتماد کا فقدان ہو تو پھر اصرار کرنا غیرت کے منافی ہے اور ناصر نے دھوکے کھائے، دئیے نہیں۔

جب واقعہ ہوگیا تو عبدالرحیم نے کہا کہ میرامشورہ ہے کہ اب کاروبار چالو رکھتے ہیں میں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ میرے لئے کاروبار میں 30لاکھ رکھے۔میں نے مانگے تو بہت تھکادیا۔ نور علی سے کہا کہ میں تو کتے کے گاؤں سے گزر چکا۔ اس نے کہا کہ میں گدھے کے گاؤں سے بھی گزر چکا۔ میں نے کہا کہ تم اپنی وجہ سے اور میں تمہاری وجہ خوار ہورہاہوں۔ پھر عبدالرحیم کو فلیٹ کا کہا ۔پہلے ادھر ادھر کی کررہاتھا۔ آخر میں کہا کہ اس ٹائم پر اس طرح ساتھی کو کہو کہ پہنچ جائے۔ میں نے کہا کہ جس کی بات کررہے ہو ! یہ کاغذات ہیں یا گیدڑ ہے جو بھاگ جائے گا۔ اس نے کہا کہ میں میراثی بن کر پیغام رسانی کرکے ذلیل ہوتا ہوں۔ میرا کیا کام اور مفاد ہے؟۔ میں نے کہا کہ بات ایسی ہوتو سوال اٹھے گا۔ اس نے کہا کہ میرا کام پیغام کو ویسے پہنچانا ہے۔ اور فون بند کردیا۔ پوچھا تو فلیٹ ڈیڑھ لاکھ کا تھا۔ میں نے بھی اچھے وقت کیلئے بطور نشانی ویسے ہی چھوڑ دیا۔

خالد نے بتایا کہ کرش پلانٹ پر اس کا35لاکھ قرضہ ہے۔ اعجاز نے بتایا کہ تین، ساڑھے تین اور بہت ہی زیادہ ہو تو5لاکھ ہوگا۔میں نے بھائی سے کہا کہ حساب ان کے ساتھ صاف رکھو۔ اس نے غصہ میں کہا کہ پھر تجھے بلالوں گا اور یاسر کو شکایت تھی۔عبدالرحیم نے کہا کہ کاروبار کے بعد ہم نے ایک ایک روپے کا صاف شفاف حساب رکھا ہے۔ فلاں فلاں موقع پر 10،10لاکھ بھائی جان کو ویسے بھی دیتے رہے ہیں اور اپنی ماں کو بھی کہا کہ تیرے بھائی کا ہاتھ تنگ ہے تو وہ بھی خوش ہوگئی۔ میں نے دل میں سوچا کہ میرے گارڈن ڈیکور کے5لاکھ کا سامان 3لاکھ میں خریدا اور پھر صرف ڈیڑھ لاکھ دئیے اور ساتھ میں شیڈ کے ڈیڑھ لاکھ کے پائپ بھی لیکر گئے تو کیا بات کروں؟۔

میری بھتیجی ایک دن رورہی تھی تو پوچھنے پر بتایا کہ بھابھی خالد کی بھانجی نے کہا کہ تمہاراوالد خالد پالتا ہے۔

پہلے مجھے اسلام آباد میں پلاٹ دیا گیا۔ پھر عبدالرحیم نے بتایا کہ وہ یاسر کو دے دیا ۔ آپ کو پشاور میں دیا۔ خالد کو جنریٹر کیلئے پیسہ چاہیے تھا۔ پشاور کا ایک پلاٹ بیچا اور بعد میں کہا کہ جنریٹر تو میں نے قسطوں پر لیا ہے۔ یعنی پلاٹ کو ہی غائب کردیا۔ عامر نے بتایا کہ کرش پلانٹ کیلئے پیسہ تو بہت پہلے لیا تھا مگر کام بہت دیر سے اس پر شروع کیا تھا۔

رات کو چاروں بھائی اور دوسرے لوگ بیٹھے ہوئے تھے ۔میں نے کہا کہ ڈائری لاؤ۔ خالد نے کہا کہ کرش پر 35 لاکھ ایک قرضہ ہے اور کچھ اور بھی ہے۔ میں نے کہا کہ ڈائری لاؤ۔ وہ ڈائری لانے کے بجائے بکتا جارہاتھا۔ اس نے کہا کہ میرے قرضے کی وجہ سے جو مجھے نقصان ہوا ہے وہ بھی حساب کروں گا اور جو فائدہ نہیں کماسکا تو وہ بھی لوں گا۔ میں نے کہا کہ ”اچھا مجھے یہ لکھوادو”۔ اس نے جب اپنا بیانیہ لکھوادیا اور میں نے پڑھ کر سنادیا اور اس نے OK کیا تو میں نے کہا کہ کاروباری لوگوں کو بلالیںگے۔ آپ حساب کتاب کلیئر کرکے بتاؤگے۔پھر ان سے پوچھ لیں کہ کیا حساب بنتا ہے۔ اس نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ میں نے کہا کہ یاسر کے پلاٹ پر کروڑوں روپے بینک سے لئے ہیں ،اس کا بھی فیصلہ کرنے والوں کے سامنے حساب رکھ لیںگے۔ تو مجھے کہا کہ کاغذ دکھاؤ اور ہاتھ میں لیکر پھاڑدیا۔

عبداللہ نے کہا کہ اس بھائی (خالد ) کیلئے لیٹرین بھی سر پررکھ کر اٹھالوں گا۔ میں نے کہا کہ میں نے اگر بھائی کاتھوڑا بھی غلط ساتھ دیا تو اس کے دل سے اتر جاؤں گا۔ آخر عبدالرحیم کے حکم پر ڈائری لائی تو نئی سیاہی اور قلم سے موٹی موٹی رقم لکھی تھی۔ خالد نے کہا تھا کہ کرش پلانٹ میں مفت شامل کیا تھا اور جب بیچ میں کام رک گیا تو کچھ پیسے دئیے اور کام شروع ہونے سے پہلے لوٹادئیے۔ میں نے کہا کہ ڈائری میں تاریخ کا پتہ نہیں چلتا تو کسی رجسٹرڈ پر لکھا ہو تو وہ لانا ۔ آخرمیں سب چلے گئے۔واحد، خالد اور میں رہ گئے۔ رجسٹرڈ پر ایک قلم سے لکھائی تھی۔ کئی دفعہ اپنی یاداشت سے مزید رقم مختلف جگہ پر بڑھائی اور پھر بھی پوری نہیں ہورہی تھی تو میں نے کہا کہ قلم بھی تیرا ہے اور زیرو ڈال رہے ہو تو بس چھوڑ دو ۔مجھے نہیں دیکھنا۔ کرش پلانٹ چلنے تک کی رقم غالباً 60لاکھ تھی اور جب میں فجر کی نماز کیلئے وضو کرنے گیا اور پھر اصرار کیا تو میں نے کہا کہ چھوڑ دو۔ پھر کہا کہ بس دیکھ لو تو رقم ایک کروڑ 20لاکھ تک پہنچادی تھی جو اس تاریخ کے بعد دی تھی وہ بھی اس تاریخ تک پوری کردی۔ میں نے کہا کہ بس چھوڑدو۔ واحد نے کہا کہ تیرا مقصد تو ہماری صفائی ہے؟۔ میں نے کہا کہ اگر یہ ڈائری اس طرح وہ مان جائیں تو بڑا احسان ہوگا۔

خالد نے کہا کہ جمرود کے ٹھیکے میں ایک روپیہ نہیں دیا تھا اور میں نے 14لاکھ کی گاڑی لیکر دی۔ میں نے کہا کہ یہ پیغام پہنچادوں گا۔ اس نے یونس آفریدی کیلئے بالکل ہی متضاد کہانیاں شروع کردیں۔ پھر جب عامر سے پوچھا تو اس نے کہا کہ 23لاکھ اس نے دئیے اور یونس آفریدی آیا تو اس نے کہا کہ 43لاکھ اس کے تھے اور خالد کا ایک بھی روپیہ نہیں تھا۔ دوسرے دن خالد کی ماں نے پشاور میں کہا کہ خالد نے بتایا کہ عتیق الرحمن کو ایسا کردیا کہ اسکے ہاتھ لکھے ہوئے اپنے کاغذ اس نے پھاڑ دئیے۔ جب اس کو بتایا تو شرمندہ تو شاید نہیں ہوئی ہوگی اسلئے کہ شوہر کی ایک گاڑی ٹھیکے میں کھو دی تھی اور قحط زدہ بچے لینڈ لارڈ بن گئے تو اور کیا چاہیے؟۔ منہاج کی ماں کا توجوان بیٹا شہید ہوا تھا اور یہ میرا کہتی تھی کہ حوالے کردیتے تو اچھا تھا۔ اورنگزیب کو بھی خدا بخشے ،اپنی عمر گزار چکا تھا اسلئے سب اچھا ہے۔

ابولہب کو ابوسفیان کی بہن ام جمیل نے بنادیا اور اس کو اپنے شوہر نے بنادیا۔بھائی نثار سے عبدالخالق نے کہا کہ ”تمہاری بھتیجی سے شادی کیلئے عبدالرحیم راضی نہیں ” تو نثار حیران ہوا ؟۔مگر عبدالخالق تو بھانجی کو آزاد کرنے کیلئے نثار کو ساتھ رکھنا چاہتا تھا اور غیرت کی اس میں بو تک نہیں تھی۔

جب عبدالرحیم میرے پاس آیا اور گالیاں دے رہاتھا کہ ان کو اعلانیہ کہتا ہوں۔ میں فساد اور بے عزتی سے بہتر سمجھا کہ میں بھی ساتھ دوں اور خفیہ لیکر آئیں۔ فساد ٹل جائے گا اور زیادہ سے زیادہ مجھے قتل کیا جائے گا تو فساد، بے عزتی اور ایک لڑکی کے حق کیلئے میری جان کا سودا سستا ہے۔ عبدالرحیم نے کہا کہ ایک منہاج کو نہیں کہنا۔ میں نے کہا کہ منہاج نہیں کسی کو بھی نہیں کہوں گا۔ اس کا مقصد تھا کہ باقی ڈھنڈورا پٹ جائے۔ میں نے منہاج سے کہا کہ اگر دلہن لانی پڑی تو اس نے کہا کہ پھر چلے جائیں گے۔ میں نے عبدالرحیم کو کہا کہ وہ جانے کیلئے تیار ہے مگر مجھے بولنا نہ تھا۔آپ کا ذہن صاف کرنا تھا۔ جب وہاں پہنچے تو خالد نور علی ، ضیاء الدین اور فیاض کو لایا تھا۔اور کہہ رہاتھا کہ ان کو بھی پھنسادیا۔ یہی سازشی ذہیت ہوتی ہے۔

میں نے سمجھا کہ قاری احمد حسن شہید نے فیصلہ کیا تھا تو جب پتہ چلے گا کہ رشتہ ہوگیا تو بہت خوش ہوگالیکن جب بتایا تو قاری صاحب سخت پریشان ہوگئے ۔کہا کہ عبدالخالق نے بہت غلط کیا ہے ، اس سے وعدہ لیا تو اس نے کہا کہ ہم دو بہنیں پہلے لے چکے ہیں اس پر بھی نادم ہیں،پھر اس نے چھوڑدیا ہے۔ یہ تو معاملہ خراب ہوگیا۔ عبدالرحیم کو بتایا تووہ قاری کو گالیاں دینے لگا۔ میں نے کہا کہ وہ اچھا آدمی ہے، اس نے جو فیصلہ کیا ہے تو وہی بولنا ہے۔عبدالرحیم اس پر بھی ناراض تھا کہ ”ہم بکرا کیوں لے گئے ،اسی طرح ہم ہی پر معاملہ پڑے گا”۔ یہ بے غیرتی کا انتہائی خمیر تھا مگر…

عبدالواحد نے کہا کہ ” عثمان فیک اکاؤنٹ میں نہیں ہے۔ میں نے اس کو کہا کہ مظہر لوگوں کے خلاف تیرے بھائی نے گواہی دی تھی ۔ نعمان کے پاس مشکو ک فون آیا تھا اور عمرشاہ گواہ ہے کہ اسفندیار نے والد سے کہا کہ تمہیں کتنے پیسے دئیے؟۔ اس نے کہا کہ ایک کروڑ90لاکھ۔ اور شہریار غصہ ہوا کہ کیوں یہ سوال تم نے پوچھا ہے”۔

واحد اس سے حاصل کیا کرنا چاہتا ہے؟۔ مظہر لوگوں کے ساتھ کرکٹ کے مسئلے پر بھی اور سرکاری سروے پر بھی جہانزیب کو واحد سعود شاہ کیخلاف کیوں استعمال کرنا چاہتا تھا؟۔ ساجد، ابراہیم اور جعفر نے سعود شاہ کے قتل پرنعمان کو آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ انکے شر سے بھتیجوں کوبچانا فرض سمجھتا ہوں۔ باقی واحد نے قاتل کا تو نہیں بتایا مگر یہ کہا کہ گالیاں بھی مزید دوں اور ماروں بھی تو خیر ہے۔ لیکن میرا پتہ لگانے کیلئے اس نے بیٹی کا رشتہ توڑنے کا ڈرامہ رچایا۔ اگر میں قتل ہوتا اور میرا فون دینے والوں کو ٹریس کرکے اسرار کو اٹھایا جاتا جس کے نمبر سے مجھے گالیاں دی گئی تھیں اور گل شیر اور واحد کی بیوی کو اٹھالیا جاتا تو واحد کا مقصد ہی پورا ہوجاتا کہ دوسری بیوی ہے تو اس جان چھوٹے۔ بے عزتی تو گل چاہت کو کچھ لگتی نہیں۔ عبدالرؤف کو یہی لوگ جان بوجھ کر ذلیل کررہے ہیں اور نام منہاج کا لیتے ہیں۔ میں نے یہ روائیداد اسلئے بتائی کہ عبدالرحیم کے علاوہ میرا کسی کو معلوم نہیں تھا تو کوڑ تک بات کس نے پہنچائی؟۔ یہ جھوٹ کیوں بولا کہ حاجی قریب برکی نے نثار کے سینے پر ہاتھ مار کر کہا کہ ”عبدالرزاق پیر کے بیٹے شامل ہیں؟”۔ حالانکہ نثار سے میں نے پوچھا تھا تو اس نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں کی ہے اس نے۔ پھر پہلے حاجی لطیف لوگوں کی طرف معاملہ موڑ دیا لیکن جب میں نے سختی سے انکار کیا تو دوسری طرف مظہر لوگوں پر کہانی ڈال دی۔ میں نے تو اب بھی ڈاکٹر ظفر علی کے گھر کی سخت پریشانی کو ختم کرنے کیلئے معاملہ اٹھایا جو عابد پیر لوگوں کے گھر کی طرف سے آئی تھی۔ عبدالواحد نے پہلے کہا تھا کہ” عبداللہ کی عثمان کیساتھ فیس بک پر تصویر دیکھ کر عبدالرحیم نے کہا تھا کہ پھاڑ دوں گا۔ تو اس نے کہاکہ کہیں اتفاقی ملاقات میں سلفی لی پاگل ہوں کہ اس سے تعلق رکھوں؟”۔ پھرعبداللہ پر عثمان نے گولی چلائی تو داؤد نے عثمان کو گالیاں دیں ۔ مگر عبدالواحد نے شاہجان سے کہاکہ ”داؤد بڑااچھا ہے عثمان کو ایسی گالیاں دیں”۔ داؤدواقعی اچھا لیکن تمہاری بہن جو ادھر ادھر ہنکاہتی ہے تو وہ اچھا نہیں کرتی ہے۔ میں لوگوں کی فطرت کو سمجھتا ہوں۔

عبد الرحیم نے یوسف شاہ کی ڈاکٹر بیٹی مانگی جس سے بچوں کی امید نہ تھی ۔پیٹ اور رزق کیلئے بھی معاملہ ہوسکتا ہے لیکن یوسف شاہ نے گاڑی بیچ دی۔ پیسہ کہاں گیا اور عبدالرحیم یوسف شاہ اور عبدالواحد سے پوچھ سکتا ہے کہ کہاں کہاں لنک مل سکتے ہیں؟۔ ویسے تو بڑی خوش آئند بات ہے کہ یوسف شاہ کی قیادت میں عورت پر غیرت کی جنگ لڑرہے تھے اور سعود شاہ اور عثمان شاہ کی قیادت میں بہادری کے جوہر دکھارہے تھے۔ اگر 13افراد کے بدلے 13لاکھ بھی قتل کرتا تو دل کو اتنی ٹھنڈک نہیں مل سکتی تھی جتنی اس وجہ سے ملی کہ جن کے آباء کو دھوکہ دیکر قتل کروایا۔ نوکری بھی دھوکے سے چھین لی۔ پھر اپنے مقتولین کو شریک بھی نہیں کیا۔زمین کی تقسیم میں بھی واضح دوپنجہ کی بنیاد پر دنیا کے سارے قوانین اور اخلاقیات کی دھجیاں بکھیر دیں اور پھر بھی دل ٹھنڈا نہیں ہوا اور زبردستی ذلیل کرکے ان کی زمین پر قبضہ کیا۔ آج ان کی قیادت پر میرا دل خوشی سے کھل گیا ہے۔ میں تو ایسا بدلہ نہیں دے سکتا تھا لیکن خدا نے تم سے خود ہی ان کا بدلہ لیکر سرور شاہ ، کرم حیدر شاہ ، مظفرشاہ اور فیروز شاہ کے ساتھ اور ان کی اولاد کے ساتھ جو ظلم کیا تھا تو اس طرح قدرت پرقربان جاؤں کہ کمال کا انتقام لیا۔

گل چاہت اور مہر ملک کے اوقات بدل گئے۔لیکن ان کا فن اور کمانے کا طرز بھی عبدالرحیم اور عبدالواحد سے بہت اچھا ہے۔ اسلئے عبدالواحد کو گل چاہت اور عبدالرحیم کو مہرملک قرار دینا ان کے ساتھ زیادتی ہے۔ خوب شرارت بھی کرلی اور اپنی فطرت بھی دکھادی لیکن جس کمال مہارت سے خدا عزوجل نے بے نقاب کردیا تو پتہ نہیں کہ کس کس شرات کا بدلہ خدا نے اتارا ہوگا؟۔ میں اتنا پاگل نہیں تھا کہ مظفرشاہ وغیرہ کی بے گناہ موت کے بعد ان کی اولادوں پر بھی ہاتھ ڈالتا۔ مجھے اصل مجرموں کو ان کا چہرہ دکھانا تھا۔

میری والد ہ نے میرے دادا سے پوچھا تھاتو لیلة القدر کی شب مجرموں کو الگ کرنے کی بشارت بتائی۔ پاکستان بھی اسی رات کو بنا تھا۔ حاجی عثمانکی خلافت کا تعلق بھی لیلة القدر سے تھا اور مولانا عبید اللہ سندھی نے بھی سورة القدر کی تفسیر میں اس خطے سے انقلاب کی خوشخبری دی تھی۔ زیرو سے لینڈلارڈ نے چچا عبدالرؤف کو بھی زیروکیا اور اب بھی اسلام آباد کا مکان خالی کرنے کیلئے جس طرح کی بے شرمی سے جترالن کو آگے کیاتھا۔الحفیظ و الامان۔

جہانزیب نے منہاج سے کہا کہ تم ہماری تذلیل کرنا چاہتے ہو لیکن اصل میں عبدالخالق سے لیکر عبدالواحد تک کا مسئلہ ہے ، یہ اپنے مفاد کیلئے جس انداز کی منافقت کرتے ہیں ان کی حقیقت واضح کرنے سے دنیا کی اصلاح ممکن بن سکتی ہے۔مجرموں کا چہرہ کھل کر سامنے آئیگا۔ انشاء اللہ

ان بھائیوں میں عزت، غیرت اور ضمیر نام کی چیز نہیں تو سبھی انکے مفاد پر قربان ہوں؟ ۔ جہانزیب کو کرکٹ کیلئے استعمال کیا۔ دو نوںطرف ایک ایک چوتڑ رکھنے کی کوشش کو میں نے سید حسن شاہ بابو کے جھنڈے پر چڑھادیا۔ہاہاہا…

عبدالرحیم نے بتایا کہ”واحد اکساتا تو مارتا اور پھر پیسہ دیتا کہ والد کو مت بتاؤ۔ پھر سمجھ گیا کہ یہ جان بوجھ کرتا ہے تو میں نے خوب مارا اور پھر یہ ہمت نہیںکی”۔ جون کا مہینہ قریب تھا، عبدالواحد گل شیر کے مقابلے میں ولید کیلئے چکر میں تھا۔ کرش پلانٹ کا خزانہ واحد کی بہن کاخواب کانیگرم کی زمین کیلئے میری بھتیجی کا خواب تھا ۔ واحد نے کہا تھا کہ یہ خواب گھڑدیتے ہیں۔ خالد ایک طرف طالبان کی مدد کرتا تھا اور دوسری طرف کہتا تھا کہ امریکن ڈرون سے مارے جاتے ہیں تو دل ٹھنڈا ہوتا ہے۔ یہ منافقوں کا ٹولہ ہے۔

نوٹ… اس آرٹیکل کے بعد مزید تفصیلات جاننے کیلئے درج ذیل عنوان کے تحت آرٹیکل پڑھیں۔

(1)…”خاندانی بے غیرتی…. سحر ہونے تک ……تحریر: ڈاکٹر عبدالقدیرخان
(2)…”غیرت اور حیاء کی کوئی حدود نہیں ، یہ دلیل اوراسکے شواہد ہیں۔دنیا پرست خاندانی بے غیرت ہے جس کاکوئی ضمیر ہے اور نہ اس پر روک ٹوک”۔سورہ بلدکا عملی مظاہرہ نبیۖ نے ہند ابوسفیان کوپناہ دی تویزید پلیدنکلا۔ حسن شاہ بابو نے صنوبر شاہ کے یتیموں کو تحفظ دیاتویہ بلیلا نکلا۔ نبیۖ نے عبداللہ بن ابی سرح مرتد کا فرمایا : ” غلافِ کعبہ سے لپٹے تو بھی قتل کردو”۔ عثمان کی سفارش پر معافی قتل عثمان بن گئی !۔

اگلا آرٹیکل: غیرت ، حیاء اور سورہ بلد

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

چین نے پاکستان و افغانستان کی صلح کرادی: پاکستان نے چین و بھارت کی صلح کرادی تو امام بن جائیگا

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے غیر ملکی چینل کو انٹرویو دیا کہ 30سال ہم نے مغرب کیلئے شدت پسند مذہبی اور جہادی تنظیموں کو پالا اور مفتی نظام الدین شامزئی شہید کے حوالہ سے حامد میر نے روزنامہ اوصاف اسلام آباد کے ادریہ میں لکھا تھا: ”واشنگٹن سے براستہ رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ جہادی تنظیم کو پیسہ آرہاہے ،اگر یہ باز نہ آئے تو ان کا بھانڈہ چوراہے کے بیچ پھوڑ دوں گا”۔

پاکستان نے نہ صرف بھارت کو شکست دی بلکہ سارا دفاعی نظام جام کرکے سب سے اچھا کام یہ کیا کہ بغیرکسی مفاد اور دباؤ کے جنگ بھی بند کردی۔ پاکستان چاہتاتوگڈ وبیڈ طالبان شریک ہوتے۔ TTPنے جنگ بندی کا اعلان کیا۔ سکھ، مسلمان، اقلیتی برادری اور مودی کی غلط پالسیوں سے تنگ کانگریس اور دوسری جماعتیں بھی خوش ہوتیں لیکن ایک پڑوسی ملک کو تباہ کرنے کا کوئی فائدہ پاکستان کو نہیں تھا۔ عالمی قوتیں بھارت میں گھس جاتیں۔ چین نے طالبان و پاکستان کی صلح کرائی تو پاکستان کو چاہیے کہ بغیر کسی دیر کے بھارت اور چین میں صلح کرائے۔ لڑتے ہم ہیں اور عرب پر اسلحہ امریکہ بیچتا ہے؟۔ چین، بھارت اور پاکستان یوکرین و روس کی بھی صلح کرادیں۔شرقی روایات کی پاسدار قومیں ہی دنیا کو امن وامان کا گہوارہ اور تیسری جنگ سے بچاسکتی ہیں۔ پاکستان دنیا کا پرامن مستقبل ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

قومی اسمبلی میں مولانا فضل الرحمن نے قرآنی آیت کی بہت کھل کرتحریف کردی ،مذہبی طبقے کی خاموشی جہالت ہے یا مفاد پرستی؟،فوری توبہ اور اصلاح کا اعلان کریں ورنہ پھر مجبوراً عدالتی کیس کرنا پڑے گا

مولانا فضل الرحمن کا اصل بیان آخر میں ہے جس پر تبصرہ کیا گیا ہے۔

تبصرہ : سید عتیق گیلانی

مولانا فضل الرحمن پریہ ضرب المثل فٹ ہے کہ ”چور چوری سے جائے ،ہیراپھیری سے نہ جائے”

اسلام کا بیڑہ غرق کردیا۔ مولانا فضل الرحمن کا نونہال ٹبر مالا مال اور نہال ہوا مگر ہیرا پھیری کی عادت نہیں جارہی ہے۔ اندھے پن کی انتہا ہے کہ شور مچانے کی بھی غلط تشریح کی اور قرآنی آیت کے ظاہری الفاظ تک میں تحریف کا ارتکاب کردیا ہے۔
سری نماز اور جہری نمازکا مسئلہ دنیا جانتی ہے مگر اس میں شور مچانے ، چیخنے اور چلانے کی بات کہاں سے آگئی؟۔ اللہ نے یہ فرمایا ہے کہ ” اللہ کسی کا بولنا برائی سے پسند نہیں کرتا مگر جس پر ظلم ہوا ہو”۔ ہدف جہر نہیں بلکہ ”برائی ” ہے۔ مثلاً مولانا فضل الرحمن نے قرآن پر ظلم کیا تو برائی سے تذکرہ کرنا جائز اس کو اللہ پسند کرتا ہے۔ جہر نہیں بلکہ برائی مقصد ہے۔ مولوی جمعہ کے دن کتنا چیختے ہیں ؟۔کس نے ان پر ظلم کیا؟۔ مولوی ڈھیٹ بن گئے یا مستقل مزاج؟۔ فیصلہ عوام اور خداکو اپنے کٹہرے میں کرنا ہے۔

ہوا کے خارج ہونے کیلئے بھی سری اور جہری کا اطلاق ہوسکتا ہے۔ بھلے بالکل ہلکی آواز ہو۔
جب جمعیت علماء اسلام اور متحدہ مجلس عمل کے ہاتھ میں پختونخواہ کا اقتدار تھا تو وزیرستان، ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان کے حالات آج سے بدتر تھے۔ مولانا اپوزیشن لیڈر ، کشمیر کمیٹی چیئر مین اور پختونخواہ میں پورا اور بلوچستان میں آدھااقتدار مل گیا تھا تو منہ سے لڈو پھوٹتے تھے۔2006میں ریاست کو بلیک میل کرنا تھا توبجٹ کی تقریر دیکھو۔2014میں ن لیگ کی حکومت میں شامل اور افغانستان کے دورے سے واپسی پر امتیازعالم نے انٹرویو لیا تو اس میں واضح کیا کہ حکومت بچاری مجبور ہے۔IMFقرضہ اور بجٹ بناکر دیتی ہے۔زرداری کیساتھ کیا چین کے مغربی روٹ کا افتتاح نہیں کیا؟۔پھر نواز کے سامنے ڈٹ کیوں نہیں گئے کہ بلوچوں کو ورغلایا کہ سوئی گیس تمہیں نہیں دی پنجاب کو دی؟، پھر وہی حرکت جو چین اور پاکستان کے مفاد میں نہیں؟۔

مگر مولانا کو حکومت کی چوسنی اور چاشنی ملتی ہے تو سویلین بالادستی کے ڈھول نہیں بجاتے ہیں۔ عمران خان کے دور میں میراISIکے کرنل نے فون نمبر مانگا تھا جو اجمل ملک نے نہیں دیا۔ جب کراچی آیا تو کرنل سے ملنے گیا۔ اس نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت چلے۔ مولانا فضل الرحمن سے اگر آپ کا تعلق ہے اور کہہ دیں کہ ابھی احتجاج نہیں کریں۔ میں نے کہا کہ مولانا کے پیچھے تو تم لوگ نہیں کھڑے ہو؟۔ اس نے کہا کہ ملک کی حالت ایسی ہے کہ حکومت کو چلنے دیا جائے۔ جب مولانا فضل الرحمن تیاری کررہے تھے تو شاید عمران خان کو ڈرایا گیا تھا کہ احتیاط کرو۔ چنانچہ عمران خان تقریر میں مولانا کے خلاف بات دبا گیا تو اس کا منہ بھی ٹیڑھا ہوگیا۔ ہم نے اس کی وہی تصویر چھاپی ۔ مولاناکے احتجاج کی بڑی خبر لگائی۔ جب مولانا اسلام آباد پہنچ گئے۔ پشاور موڑ سے شاہ فیصل مسجد تک جانے پر بھی تیار نہیں تھے۔ محمود خان اچکزئی سے ملاقات میں کہا کہ کچھ اسلامی نکات اٹھاؤ۔ بنی گالہ ایسے کنٹینر لگائے گئے تھے جیسے بڑا حملہ ہو رہا ہو۔DGISPRجنرل آصف غفور نے بیان دیا کہ ہم آئندہ الیکشن میں بھی نہیں آئیں گے۔ جیسے مولانا کے دباؤ سے کوئی آسمان پھٹ رہاہو۔ پھر پتہ چلاکہ نوازشریف کیلئے یہ سیاست کی گئی۔ نواز شریف کی آنیاں جانیاں بھی ایک سیاستدان کا کرشمہ ہے ۔ ظلم بھی عدلیہ نے کیا اور ازالہ بھی اس نے کیا۔ عدالت کا یہ رخ بھی دیکھ لیا۔ سیاستدان کا بھی رخ دیکھ لیا۔ عمران خان بھی کس کی مدد سے آئے، کس کے عدم تعاون سے گئے اور کس کیلئے ترس رہے ہیں؟۔ جب سبھی وردی کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہیں تو کتنے نکاح اور کتنے حلالے کرکے سیاستدان خود اس حصار سے باہر نکلیںگے؟۔

سیاستدان دن رات کی طرح بدلتے ہیں جس کی وجہ سے عوام نے ان کو پہچان لیا ہے۔ کار کنوں اور عوام کی مقبولیت میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ عمران خان جس دن اقتدار میں آیا تو فوج کے بوٹ کے نیچے اپنا کردار بہت خوشی سے ادا کرنے پر تیار ہوگا۔ رہنمااورکارکن تو پنجاب میں اپوزیشن نہیں کرسکتے۔

منظور پشتین نے ساری مذہبی سیاسی جماعتوں کو مشاورت میں بلاکر فوج اور طالبان سے نکلنے کا بڑا مطالبہ کیا۔ پولیس نے احتجاج کیا کہ فوج نکلے اور اب واویلا ہے کہ فوج نہیں ہے اور پولیس محصور ہے اور حکومت کو خبر نہیں ہے؟۔ سیاسی قائدین کا کمال یہ ہوتا ہے کہ اقتدار کے بغیر بھی امن وامان کو قائم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اقتدار ملتا ہے تو پھر مزید بہتری پیدا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں اور جب سیاستدان اقتدار کی بھوک کے مریض بن جائیں تو عوام کیساتھ ان کا رابطہ نہیں ہوسکتا ہے۔

مولانا فضل الرحمن جنرل ضیاء الحق کے دور میں بندوق اٹھانے کی بات کرتا تھا کہ نظام کیلئے بندوق ضروری ہے اور جب1990کے الیکشن میں اس کو ناکامی ملی تھی تب بھی عوام سے بندوق اٹھانے کی بات کرتا تھا۔1997میں الیکشن ہارا تو باقاعدہ انقلابی سیاست کا فیصلہ جمعیت علماء اسلام کی مرکزی مجلس شوریٰ نے بھاری اکثریت سے کیاتھا۔
اب یہ کہنا کہ اگر ہمیں قبائل میں جانے دیا جاتا تو لوگ بندوق نہ اٹھاتے؟۔ قبائل میں جمعیت ہی کےMNAتھے۔ جب جنرل فیض حمیدنے لانے کا فیصلہ کیا تو مولانا صالح شاہ نے ویلکم کیا تھا۔
جس طرح مولانا فضل الرحمن نے آیت کا غلط مطلب پیش کیا تو کل اس پر قانون سازی ہوگی کہ کس کو چلانے اور چیخنے کا حق ہے اور کس کو نہیں؟۔ اسی طرح فقہاء نے فقہ اور اصول فقہ کے نام پر بھی بڑا گند کیا ہے۔ جس دن یہ گند ہٹ گیا تو لوگ پھر اسلام کے گرویدہ بن جائیں گے۔

مولانا نے بلوچستان کے کچھ اضلاع کی بنیاد پر کمال کی بلیک میلنگ کی ہے۔ جو دل سے زیادہ یہ پیٹ کا درد لگتا ہے۔ اقوام متحدہ کو اگر مدد کرنی ہوتی تو کشمیر کی کرتا جو عالمی قوتوں کا ایجنڈا ہوسکتا ہے۔

رسول اللہ ۖ نے مدینہ میں بغیر کسی مستقل ریاست ، عدالت ، فوج ، پولیس، سول بیوروکریسی ، انتظامیہ اور باقاعدہ حکومت کے کس طرح مسلم قوم کو منظم کیا ، یہود کے ساتھ میثاق مدینہ اور مشرکین کے ساتھ صلح حدیبیہ کی بہترین داخلی و خارجی پالیسی سے دنیا کو روشناس کرایا؟۔ سیاسی قیادت کا کمال یہ ہونا چاہیے کہ اقتدار سے دور رہ کر بھی امن و امان کا قیام یقینی بنائیں۔ وزیرستان کی سینکڑوں سال کی تاریخ اعلیٰ ترین معاشرے کی ایک بڑی مثال ہے لیکن سیاستدان صرف اقتدار کا فیڈر مانگتے ہیں۔

اللہ چیخ چیخ کر بولنے کو پسند نہیں کرتالیکن مظلوم کی چیخ وپکار کو اللہ سننے کیلئے تیارہے ”لایحب اللہ الجھر”مولانا فضل الرحمن

میں پہلے یہ بات کہہ چکا اور دوبارہ جاننا چاہوں گا۔ ملک کی سا لمیت کے حوالے سے بند کمروں میں ماورائے حکومت، سیاست، پارلیمان پالیسیاں بنائی جا رہی ہیں ۔ ہمیں ایک لمحے کیلئے اجازت نہیں کہ ریاست کی بقا ء ، سالمیت پر بات یا تجویزدے سکیں خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں مسلح گروہوں کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ دو صوبوں میں حکومت کی رٹ نہیں۔ آج وزیراعظم یہاں ہوتے تو بصد احترام عرض کرتا کہ قبائل ، متصل اضلاع، بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے؟ تو شاید وہ کہتے کہ مجھے علم نہیں۔ اگر میرا حکمران اتنا بے خبر ہے اور مجھے یاد ہے ایک زمانہ میں ہم نے مل کر کام کیا۔ افغانستان ہمارے جرگے جاتے تھے اور میں نے پوچھا تو ان کو علم نہیں تھا۔ کون ، کہاں فیصلے کیے جاتے ہیں؟، ذمہ دار تو کل پاکستان ،اپوزیشن اور پارلیمان ہوگا عوام کی نظر میں ہم ذمہ دار ہیں۔ حقیقت میں کوئی سویلین اتھارٹی نہیں۔ نظریاتی سیاست نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے بند کمروں میں فیصلہ پرحکومت کو انگوٹھا لگانا پڑتا ہے۔ نکلنا ہوگا یا انہی دبیز پردوں کے پیچھے سیاست کرنی ہوگی؟۔ ہم نے ملک کو چلانا ہوگا ۔جناب اسپیکر! میرے علاقے میں ایسے ایریاز ہیں جو فوج ، پولیس خالی کر چکی تھی۔ ایوان کو بتانا چاہتا ہوں۔ جہاں پر جنگ ہو ،پولیس اور فوج نہ ہو تو کس کے قبضے میں اور کس کارٹ ہوگا؟۔ اور دل پہ ہاتھ رکھ کر انتہائی دردِ دل کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس وقت بلوچستان کے 5سے 7 اضلاع اس پوزیشن میں ہیں کہ اگر وہ آزادی کا اعلان کر دیں اگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کر لیا جائیگا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا ۔کہاں کھڑے ہیں ہم لوگ ؟، میری گفتگو کو جذباتی نہ سمجھا جائے ۔ حقائق تک پارلیمنٹ اور حکومت کو بھی پہنچنا ہوگا۔ اس وقت صوبہ خیبر پختونخواہ کے جنوبی اضلاع میں چوکیوں میں پولیس عملہ محصور ہے۔ سڑکیں، علاقے اور گلیاں مسلح قوتوں کے ہاتھ میں۔ آج کوئی بقاء کا سوال پیدا کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو برا منایا جاتا ہے۔ اللہ رب العزت بھی چیخ چیخ کر بولنے کو پسند نہیں کرتا لیکن مظلوم کی چیخ و پکار کو اللہ بھی سننے کیلئے تیار ہے۔لا یحِب اللہ الجہر بِالسوء ِ مِن القولِ اِلا من ظلِمکوئی شخص بھی اونچی آوازاور چیختی آواز کیساتھ بات کرے اللہ کو پسند نہیں ہے سوائے اس آدمی کے جس پر ظلم ہوا، جس کیساتھ زیادتی ہو رہی ہے جو مضطرب پریشان ہے ۔یہاں قانون سازیاں کی جا رہی ہیں۔ پہلے ریاست اور رٹ کو تو مضبوط کرو۔ قانون پاس ہوتے ہیں۔ پورا ملک آپ کے ہاتھ میںہوگا تو نافذ العمل ہوگا۔ قانون کس کیلئے ؟۔ صوبائی اسمبلیاں عوام کی نمائندہ نہیں ہیں۔ بغاوتیں پیدا ہوتی ہیں عوام نکلتے ہیں تو کوئی منتخب نمائندہ پبلک کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہیں خواہ کتنی اچھی پوزیشن کیوں نہ ہو ۔ سیاست میں جنگ نظریات کی نظریات کیساتھ ہوتی ہے۔40سال پروکسی جنگ لڑی فوج نے اپنی ریاست کو جنگوں میں دھکیلا۔ دنیا کہتی تھی کہ پاکستان دہشت گردی کا مرکز ہے۔ ہم سارا غصہ افغانستان پر نکالتے ہیں لیکن اپنی کمزور پالیسیوں سے لوگوں کی آنکھیں دوسری طرف پھیرتے ہیں تاکہ قوم ہماری غلطیوں پر بات نہ کر سکے اور پڑوسی کو ہی مجرم سمجھتے رہیں۔ نام نہاد عالمی دہشتگردی کے خلاف امریکہ اور ناٹو کے اتحادی بن گئے۔ ہمارے اڈوں سے ہوائی جہاز اڑتے، افغانستان میں بمباری کرتے۔ کیا کبھی افغان طالبان نے کہا کہ امریکہ کے جہاز آپ کی ایئرپورٹ سے کیوں اڑ رہے ہیں۔ ہم پہ بمباری کر رہے ہیں؟۔ ……..ہماری معیشت بین الاقوامی اداروں کے حوالے کر دی گئی۔ آج ہماری معیشت کو آئی ایم ایف اور اے ٹی ایف اور قرضے دینے والے ادارے کنٹرول کرتے ہیں ہمیں ایک طرف قرضوں میں جکڑا ۔ سارا بوجھ دو طبقوں پر آتا ہے ایک کاروباری اور دوسرا سیاستدان تاکہ ایک حکومتی پارٹی کو بدنام کیا جائے دوسرے کو اس کی جگہ دی جائے اس مقصد کیلئے بین الاقوامی ادارے مداخلت کر رہے ہیں نتیجہ کیا نکلتا ہے کہ میرا پاکستانی سرمایہ کار اپنا سرمایہ لیکر مغرب چلا جاتا ہے۔ میرے نظام سے تنگ یورپ کاروبار اور تجارت کر تا ہے۔ یہ وہی بات ہوئی کہ انڈیا کا پیسہ انگریز لے گیا اس نے گلستان کو آباد کیا اور ہمیں بھوکا چھوڑ دیا ۔دفاعی معاملات پہ جائیں حضرت ایٹم بم ، میزائل میرا ہے لیکن بین الاقوامی ادارے مجبور کر رہے ہیں اس پہ دستخط کرو اور مجھے بین الاقوامی معاہدات پر دستخط کرنے کے بعد یہاں پہنچایا جا رہا ہے کہ ایٹم بم، میزائل، طیارہ ، لڑاکا سامان میرا ہوگا لیکن استعمال کرنے کا اختیار بین الاقوامی معاہدات کے تحت ان کو ہوگا۔ دینی مدارس کی رجسٹریشن یا بینک اکانٹس کا ایک قانون بین الاقوامی اداروں کیلئے تحفظ کا باعث ہے۔ عالمی جنگ :روس آیا امریکہ نے قوت استعمال کی۔ دریائے آمو یہاں کی معدنیات پر قبضہ کرنے کیلئے افغانوں نے لڑ کر نکال دیا۔آج چائنا بھی رسائی چاہتا ہے۔ افغانستان اور ہمارے فاٹا اور پختونخوا کے علاقوں میں دو قسم کے معدنیات ہیں ایک وہ جس کیساتھ عام لوگوں کی معیشت کا تعلق ہے گیس کوئلہ تیل چاندی سونا کاپر وغیرہ۔ کچھ پتھر جو خلا میں جانے والے راکٹوں ، میزائلوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ جو ساڑھے 4 سو کی ہیٹ پر بھی تحلیل نہیں ہوتے اس سے الٹا جائیں تو اتنی ہی سخت سردی میں بھی وہ منجمد نہیں ہوتے۔ اگر ہمارا ایوان حکومت ، اپوزیشن سنجیدہ خود اعتمادی کیساتھ وطن عزیز کیلئے سوچ کر فیصلے کرے ویژن، دلیل، رائے اور تحقیق موجود ہے ہم اس ملک کو بہتربنا سکتے ہیں۔ ہم اس حد تک گر چکے کہ ایک قدم اٹھاتے ہیں تو بھی اشارے کے محتاج ہیں کیا کسی لمحے ہمارے ضمیر پر کچھ گزرتی ہے یا نہیں؟۔ سال میں باجوڑ جہاں ہم90لاش بیک وقت اور روزانہ دو دو تین تین جنازے اٹھ رہے ہیں۔ ہر ایجنسی سے لڑائیاں جاری ہیں۔ ایک ایجنسی ایسی نہیں رہی کہ جن کے لوگ میرے گھر نہ آئے ہوں۔ایک بھیک مانگ رہے ہیں کہ امن دو۔ میں کہاں سے امن دوں؟۔ پارلیمنٹ کی نہیں سن رہا۔ ایک فضل الرحمن کی کون سنے گا، ابھی پشاور میں تمام قبائل کا جرگہ ہوا ایک ہی بات کہ خدا کیلئے ہمیں امن دو، دربدر ہیں2010سے وہ مہاجرہیں بھیک مانگ رہے ہیں ۔ قبائل اپنی روایات رکھتے ہیںخواتین گھروں سے نہیں نکلتی آج وہ گلی کوچوںمیں بھیک پر مجبور ہیں ۔ پشتونوں کی روایات اور عزت کا لحاظ نہیں۔ بلوچوں کی عزت کا لحاظ نہیں ۔حوالے کرو صحیح لوگوں کے تاکہ معاملات بہتری کی طرف جائیں ہم ملک کیلئے سب کچھ قربان اور پوری طرح تعاون کیلئے تیار ہیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مارچ 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مہدی، بارہ امام اور شیعہ سنی مسائل کے حل کیلئے کچھ بنیادی تجاویز

گولڑہ پیر مہر علی شاہ نے ”تصفیہ ما بین شیعہ و سنی” میں لکھا: ”بارہ امام آئندہ آئیں گے”۔ علامہ سیوطی نے لکھا کہ ” حدیث میں جن بارہ امام پر امت اکٹھی ہوگی تو ان میں ایک بھی نہیں آیا”۔ ڈاکٹر طاہر القادری اور مفتی محمد رفیع عثمانی نے اپنی کتابوں میں سیوطی کی کتاب کا حوالہ دیا ” پھر مہدی آخری امیر نکلے گا،نیک سیرت ہوگا، اسی دور میں عیسیٰ نازل ہونگے۔ دجال خروج کرے گا”۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا: قحطانی مہدی کے بعد ہوگا ۔جو اسی جیسا ہوگا۔ ارطاة نے کہا: مجھ تک خبر پہنچی کہ مہدی40سال زندہ رہے گاپھر اپنے بستر پر مر ے گا پھر قحطان سے ایک شخص سوراخدار کانوں والا نکلے گا جو مہدی سے الگ نہیں ہوگا۔20سال رہے گا پھراسلحہ سے قتل ہو گا۔ پھر اہل بیت النبیۖ سے نیک سیرت مہدی نکلے گا۔مدینہ قیصر پر جہاد کرے گا اور امت محمدۖ کا آخری امیر ہوگا۔ اسی دور میں دجال نکلے گا اور عیسیٰ کا نزول ہوگا۔یہ سب آثار نعیم بن حماد کی کتاب الفتن سے نقل کئے جو بخاری کے شیوخ میں ایک ہے۔ ( الحاویٰ: ج2علامہ سیوطی)

ڈاکٹر طاہرالقادری کو نوازشریف نے غار حرا کاندھے پر چڑھایاتھا۔اگر اعلان کریں کہ روایت ادھوری نقل کی ہے یہ فرض ہے۔ شیعہ نے لکھا: ”یہ بارہ امام حکومت کرینگے”۔ اور لکھا کہ” حدیث میں درمیانہ زمانے کے مہدی سے مہدی عباسی مراد ہوسکتا ہے” ۔( الصراط السوی فی احوال المہدی)

 

نبیۖ نے فرمایا”وہ امت کیسے ہلاک ہوگی جس کا اول مَیں، درمیان میں مہدی اور آخر میں عیسیٰ ہوں گے”۔
قیام قائم سے پہلے ایک قائم حسن کی اولاد سے ہوگا۔ حسنی سید کا ذکرروایات میںبکثرت ملتا ہے جس سے گیلانی سید مراد ہوسکتاہے۔(ظہور مہدی:علامہ طالب جوہری)
رسول اللہ ۖ نے فرمایاکہ” دو عتیق کے ذریعے جنگیں شروع ہونگی، ایک عتیق العرب ، ایک عتیق الروم”۔ ( کتاب الفتن: نعیم بن حماد ) مولانا یوسف لدھیانوی نے: علیکم بالعلم وعلیکم بالعتیق۔(عصر حاضر حدیث نبویۖ)

 

ابن عربی نے امام مہدی کے نام میں دو حرف کے راز کا ذکر کیا ہے کہ ع سے عین الیقین ہے اور ق سے قیومیت ۔
اصل چیز مہدی اوراسکا چہرہ نہیں۔ قرآن و سنت کو زندہ ، اسلام کی نشاة ثانیہ مقصد ہو۔اگر سود کو جواز بخشا اور حلالہ سے عزتوں کو نہیں بچایاتو تم پر تف ہے۔ مہدی کو چھوڑدو۔

 

امام ابوحنیفہ کی زندگی علم الکلام کی گمراہی میں گزری اور توبہ کی تو قید کرکے زہر کھلایا گیا۔ انکے نام پر غلط اور حماقت پر مبنی مسائل گھڑے گئے۔ شیعہ کے بارہ امام260ہجری تک رہے ۔ قرآن پر اتفاق ہوا تو نہ سنی سنی رہے گا اورنہ شیعہ شیعہ بلکہ سبھی مسلم اور سیاحت کیلئے پاڑہ چنار اور کابل جائیں گے۔خطے کو تباہی سے بچانا بڑا فرض ہے۔ انشاء اللہ العزیز
اگر ابوبکر کے طرز پر خلافت نے فیصلہ کیا کہ مفتی اعظم مفتی شفیع نبیۖ کا جا نشین تھا ۔ دارالعلوم کراچی بیٹوں کی وراثت نہیں تو کہیں گے کہ حضرت فاطمہ پر ابوبکر نے ظلم کیا اور ہم شیعہ ہیں۔ اسلام نافذ ہو تو مساجد و مدارس پر وراثتی اجارہ داری نہیں ہوگی۔ پھر شیعہ سنی اور سنی شیعہ نہ بنیں؟۔ مذہب کی کمائی گندہ دھندہ تو علاج ڈنڈا ہے۔ ڈنڈے والی سرکار کی پیشگوئی ہے جو سیدھا کرے گی۔ انشاء اللہ العزیز

 

جاویداحمد غامدی اپنے داماد کو اپنا اہل بیت قرار دینے کی یہ توجیہ پیش کرے گا کہ موجودہ دور میں بیٹا یا داماد کو جانشین بنانا نظم ہے۔ اسلئے میراداماد میرا اہل بیت ہے۔ غامدی کسی قبیلہ کی بنیاد پر نہیں محض شوق کی نسبت ہے۔ داماد کی جانشینی بھی محض شوق کا مسئلہ بن سکتا ہے جو بعیداز قیاس بھی نہیں۔
غامدی نے کہا کہ” حضرت علی داماد اہل بیت نہیں تھے”۔ یزید کے بیٹے معاویہ نے خلافت کو ٹھکرادیا تو مروان کیسے بن گیا؟۔ غامدی کہے گا کہ ایک بنوامیہ تھے اسلئے نظم وراثت ٹھیک تھی لیکن کیا حضرت علی نبیۖ ایک بنوہاشم نہ تھے؟۔ غلط علمی دلائل سے تعصبات کو ہوا دینے اور اکثریت کا اعتماد حاصل کرنے کی گھناؤنی حرکت سے روشنی نہیں مل سکتی ہے۔ تعصبات کے اندھے پن میں مزید اضافہ ہوگا۔

 

اگر جاوید غامدی اور مفتی تقی عثمانی کے مفادات پر زد آئی تو خدشہ ہے کہ شیعیت کو قبول کرکے ماتم نہ شروع کردیں کہ

کرو کوبہ کو یا علی یا علی کہ ذکر اول وثانی گیا
مفتی شفیع گیا اور حمید فراہی آنجہانی گیا

 

فوج کے خلاف ملک میں دباؤ بڑھ جاتا ہے تو ان کا بھی لہجہ بدل جاتا ہے اور پھر حالات کے مطابق بدل جاتے ہیں اوراس رویہ سے مذہبی اور باشعور عوام کو نقصان پہنچتاہے۔
صحابہ کرام بڑے لوگ تھے۔شکرہے کہ اس دور میں ہم نہیں تھے ورنہ چڑھتے سورج کے پجاری اور کم حوصلہ لوگ ابوجہل وابولہب اور رئیس المنافقین کی صفوں میں بھی ہوسکتے تھے۔ صحابہ کرام بہت مخلص اور ہمت والے لوگ تھے۔ صحابہ اورمظلوم اہل بیت سے محبت رکھنے والوں کی خدمات کو سلامِ عقیدت ومحبت لیکن پیٹ کی خاطر تعصبات پر لعنت ہے۔
ابوطالب کے بارے میں کوئی ایک شکایت نہیں لیکن وہ کافر بن کر مرے یا بنائے گئے؟۔ بخاری میں اس کی سزا بھی منافقوں والی ہے اور حدیث سفارش والی ہے جس کا قرآن سے جوڑ اسلئے نہیں کہ ابوطالب منافق نہیں تھے اور جب ان کے حق میں سفارش قبول کی گئی تو مشرک کیسے تھے؟ اور غلط فہمیاں ہیں تو سنی شیعہ متفق ہوجائیں گے ۔ اس طرح صحابہ کے بارے میں شیعہ کی غلط فہمی ضرور دور ہوںگی۔ انشاء اللہ

 

نبیۖ نے عمرہ کا حرام باندھا لیکن صلح حدیبیہ پر معاہدہ کرکے واپس آگئے۔اللہ نے فرمایا یہ خواب سچ ثابت ہوگا۔ یہ نبی کی توہین نہیں۔ نبیۖ نے فاطمہ سے فرمایاکہ فدک تمہاراہے۔ حضرت فاطمہ نے پیغام حضرت ابوبکر کو پہنچایا۔ ابوبکر نے بصداحترام باغ فدک کو جوں کے توں رکھا اسلئے کہ نبیۖ کی ازواج کا نان نقفہ زندگی بھر جاری رہنا تھا۔58ہجری کو اماں عائشہ کی وفات ہوئی۔ دوسال بعد یزید کا اقتدار آیا اور عمر بن عبدالعزیز نے باغ فدک کو اہل بیت کے سپرد کردیا۔ صلح حدیبیہ بھی آزمائش، غزوہ بدر کے قیدیوں کا فدیہ بھی آزمائش،غزوہ اُحد کے دشمنوں کو معاف کرنے کا حکم بھی آزمائش تھی لیکن وہ سب کچھ خیر خیریت سے گزر گیا اور بعد والوں نے صد افسوس کہانیوں سے انصاف نہیں کیا ۔

 

قرآن میں تہجد کی نماز کیلئے ان ناشئة اللیل ھی اشد وطاً واقوم قیلًا” بے شک رات کا اٹھنا نفس کوکچلنے کیلئے سخت اور بات کیلئے زیادہ راست ہے”۔(سورہ مزمل:6)
مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ” امام ابوحنیفہ کے بارے میں کسی عورت نے کہا کہ یہ صبح کی نماز عشاء کے وضو سے پڑھتا ہے تو40سال فجر کی نماز عشاء کی وضو سے پڑھی۔ اگر اٹھنا مشکل ہو تو عشاء میں نیت کرلو، تہجد کا ثواب مل جائے گا”۔

 

مفتی عثمانی مصنوعی دانتوں کی طرح مصنوعی شرع، تقویٰ اور خشیت نماز سکھاتاہے۔ حاجی عثمان کی تقریروں کو سنو!۔
تہجد کا مقصد نفس کو کچلنا ہے۔ فقہاء نے حلالہ کی لعنت کو نیت کی وجہ سے کارثواب قرار دیا ۔یہود نے ہفتہ کے شکار کا حیلہ بنایا۔ مشرکین کا خواہش پر مہینہ بدلنا اور جہاں چلنے سے کفار کو غصہ آئے مواطت ہے۔ (سورہ توبہ37اور130)

 

فقہاء وطی کا یہ معنی سمجھتے ہیں کہ زنا، نکاح ،حلالہ کا جماع۔ ساس کی شرمگاہ کو باہر سے دیکھنے پر شہوت آگئی تو عذر ہے اور اگراندر نظر پڑگئی تو بیوی بیٹی کی طرح حرام ہو گی اور نیٹ پر جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کا حرمت مصاہرت پرحنفی مسلک دیکھو۔ نبیۖنے ان غلط مسائل کا بوجھ اور طوق ہٹایا تھا۔

وطأ کا معنی موافقت :

نبی ۖ نے فرمایا کہ یواطیء اسمہ اسمی ”اس کا نام میرے نام کے موافق ہوگا”۔ ایک عربی چینل پر لاہور کے قاسم بن عبدالکریم کو نام کی موافقت پر مہدی قرار دیا گیا ۔ مواطاة کا معنی نعم البدل اور جگہ لینے کے بھی ہیں ۔عربی میں ہمنام کیلئے یہ جملہ استعمال نہیں ہوتا۔ ولید نے کہا کہ” اسکا سازش ہونا بھی ممکن ہے”۔ سازش کی ہو تو مطلب نبیۖ کا نام ملیامیٹ کرنا ہوگا؟۔

 

عالمی خلافت قائم ہوگی تو زمین وآسمان والے خوش ہوں گے۔ نبی اکرم ۖ، اہل بیت، صحابہ کرام، انبیاء کرام اور نفع بخش خدمات انجام دینے والے سائنسدانوں کا احترام ہوگا اور ترقی و عروج کا دور ہوگا۔ ماحولیاتی آلودگیوںکا خاتمہ ، قدرتی ماحول، نئے علوم اور جنت نظیر دنیا ہو گی ۔ کرپشن پر تسلسل کیساتھ بڑے ہاتھ مارکر حرام خوروں و مجرموں کو انڈیسٹریل زون کے جہنم ”سعیر” میں کام کرنا ہوگا۔ اور اچھوں کے پاس باغات اوروسائل کی نعمت ہوگی۔ قرآن کی طرف رجوع تمام مسائل کا زبردست حل ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ فروری 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

خلافت یا امامت

خلافت یا امامت

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

سنی شیعہ شدید اختلاف کو کم کرنیکی ادنیٰ کوشش علامہ اقبال نے ان الفاظ میں کی۔ اے کہ نشناسی خفی را ازجلی ہشیار باش اے گرفتار ابوبکر وعلی ہوشیار!

مملکت خدادادپاکستان اگرواقعی اغیار کی سازش تھی تب بھی یہ اللہ کا منصوبہ ہی تھا۔ انہم یکیدون کیدًا واکید کیدًا”وہ اپنا جال بچھاتے ہیں اور میں اپناجال بچھاتا ہوں”۔فرقوں اور مفاد پرستی سے بالاتر ہوکر اسلام کی بنیاد پر انسانیت کی خدمت کرنا ہوگی!

فرقہ پرستی سے بالاتر اسلام کا آئینہ دکھائیں جس سے دنیا پرہمارا غلبہ تھا۔ سنی کے نزدیک خلیفہ کاا نتخاب عوام پر فرض ہے، شیعہ کے نزدیک امام کو اللہ منتخب کرتا ہے۔ سنی کے نزدیک ابوبکر، عمر، عثمان ، علی اور حسن کو عوام نے منتخب کیا۔30سال خلافت راشدہ رہی۔ شیعہ کے ہاں پہلا امام نبیۖ کا خلیفہ بلا فصل علی، دوسرا حسن، تیسرا حسین ، چوتھا زین العابدین اور…… بارواں مہدی ٔغائب محمد بن حسن عسکریموجودہ دور تک امامت کا سلسلہ جاری ہے۔ سنیوں کے ہاں خلافت راشدہ کے بعد بنوامیہ و بنوعباس کی امارت اور سلطنت عثمانیہ کی باشاہت تک خلافت کا سلسلہ جاری رہا۔1924میں سقوطِ.خلافت کے بعد مسلمانوں نے تحریک سے خلافت کا احیاء کرنا چاہا لیکن اس میں ناکام رہے۔ پاکستان تحریک.خلافت کا تسلسل ہے۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا :” آسانی پیدا کرو، تنگی نہ کرو، خوشخبریاں سناؤ، آپس میں نفرت پیدا مت کرو”۔ (صحیح بخاری) پاکستان کو مملکتِ خداداد کہنا ٹھیک ہے یا یہ کفر وگمراہی ہے؟۔ پاکستان کی نعمت پاکستان کے مسلمانوں کو مل گئی لیکن اس نعمت کا شکر ہم نے ادا کیاہے یا نہیں؟۔
75سالہ سرکاری تقریب میں قوم کی بچیوں کو بیہودہ ڈانس سے وزیراعظم اور حکومت کے وزیرومشیر محظوظ ہوئے تو کچھ نے خاصا اعتراض کیا اور صفِ ماتم بچھادیا۔ مریم نواز اور مولانا طارق جمیل جن شادیوں میں شرکت کرتے ہیں تو ان میں کیا یہ سب کچھ نہیں ہوتا؟۔ گزارش ہے کہ دوسرے کی بچیوں کو نچوانے کی جگہ اپنی بیگمات ، بہو اور بیٹیوں کیساتھ ہی شرکت کرتے۔ غم اور خوشی منانے کا جب ایک کلچر کسی معاشرے میں انسانی جبلت کا حصہ بن جاتا ہے تو پھر وہ اپنی عادت سے مجبور ہوجاتا ہے۔ تیسری جنس خواجہ سراؤں کو جب تالی بجانے کی عادت پڑتی ہے تو حج میں ٹھوکر لگنے پر بھی تالی بجادیتے ہیں۔
اگر مہدی غائب کی حکومت ہواور عاشورہ کے جلوس سے منع کریں تو خطرہ ہے کہ شیعہ امامت سے انکار کردیںگے۔اسلئے کہ امام کی بات ماننے سے زیادہ اب ان بیچاروں کو عاشورہ ماتم منانا دین کی پہلی حداور آخری سرحد لگتی ہے۔
جن صحافیوں اور علماء ومفتیان میں تقویٰ نہیں بلکہ تقوے کا حیض ہے وہ بھی سرکاری تقریب میں ناچ گانے پراسلئے ناپسندیگی کا اظہارنہیں کرتے کہ وہ متقی و پرہیزگارہیں، ورنہ خانہ کعبہ کے طواف میں حجر اسود پر جس طرح جنونی مرد اور غیر محرم عورتیںآپس میں رگڑ کھاتے ہیں وہ سرکاری تقریب میں ناچ گانے سے کئی درجے زیادہ بدتر ہے جس پر انہوں نے کبھی بھی آواز نہیں اٹھائی ہے اور سود کو اسلام کے نام پر جواز بخشنا زیادہ خطرناک اور تقویٰ کے انتہائی منافی ہے۔
جب پبلک سروس کمیشن کا امتحان ہوتا ہے تو پاکستان میں بہت سے غریب اور بے سہارا ملازمین کو قابلیت کی بنیاد پر منتخب کیا جاتا ہے۔ کوئی بچپن ، لڑکپن اور جوانی میں تعلیمی جدوجہد کا حق ادا کرتاہے تو پاکستان کی سطح پر منتخب ہوکر اعلیٰ سے اعلیٰ عہدوں تک پہنچتا ہے اور بعض لوگ اعلیٰ عہدوں پر منتخب ہونے کے بعد اپنی نااہلی اور خود غرضی کی وجہ سے معزول کردئیے جاتے ہیں۔ دنیا کے نظام سے یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں بھی انتخاب کیلئے جدوجہد کا حق ادا کرنا پڑتا ہے اور پھر نااہلی کے سبب لوگ اپنے منصب سے معزول ہوتے ہیں۔
اللہ نے فرمایا: وجاہدوا فی اللہ حق جہادہ ھو اجتبٰکم وما جعل علیکم فی الدین من حرج ملت ابیکم ابراہیم ھو سمٰکم المسلمین من قبل وفی ھٰذا لیکون الرسول شہیدًا علیکم وتکونوا شہداء علی الناس ” اور اللہ کے احکام میں جدوجہد کا حق ادا کرو، اس نے تمہیں منتخب کرلیا اور تمہارے لئے دین میں کوئی مشکل نہیں رکھی۔تم اپنے باپ ابراہیم کی ملت ہو، اس نے پہلے بھی تمہارا نام مسلمان رکھا اور اس میں بھی۔ تاکہ تمہارے اوپر رسول خدا گواہ ہوں اور تم لوگوں پر گواہ بن جاؤ”۔
صحابہ کرام نے رسول اللہ ۖ کی قیادت میں جدوجہد کا حق ادا کردیا۔ اپنے وطن سے ہجرت کی۔ کلمة الحق بلند کرنے میں قربانیاں دیں۔ مالی اور جانی قربانیوں کے علاوہ کوئی ایسی قربانی نہیں تھی جن کا ان کو سامنا نہ کرنا پڑا ہو اور انہوں نے اس قربانی سے دریغ کیا ہو۔ اسلئے کہ اللہ تعالیٰ ان کو مسلسل ہر چیز میں مکمل رہنمائی وحی کے ذریعے سے فراہم کررہا تھا۔
فرمایا: قل ان کان اٰبآء کم وابناء کم واخوانکم و ازواجکم وعشیرتکم واموالکم اقترفتموھا وتجارة تخشونہ کسادہا ومساکن ترضونھا احب الیکم من اللہ ورسولہ وجہاد فی سبیلہ فتربصوا حتی یأتی اللہ بامرہ ان اللہ لا یھدالقوم الفاسقین ”فرمادیجئے کہ اگر تمہارے باپ ، تمہارے بیٹے ، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں اور تمہارا خاندان ، تمہاراوہ مال جو تم نے اکٹھا کررکھا ہے، تمہاری وہ تجارت جس کے خسارے سے تم ڈرتے ہو اور وہ ٹھکانے جن میں رہنا تم پسند کرتے ہو۔ تمہارے لئے زیادہ پسندیدہ ہیں اللہ اور اسکے رسول اور اس کی راہ میں جدوجہد کرنے سے تو پھر تم انتظار کرو ،یہاں تک کہ اللہ اپنے حکم کے ساتھ آجائے اور بیشک اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا ہے”۔ (القرآن)۔
صحابہ معیار پر پورا اترے تو لوگوں کے دلوں میں کھٹک پیدا ہوئی کہ ساری دنیا کے لوگ ان کو عزت کے اعلیٰ درجے پر فائز کرینگے۔ اس خوف سے ان کے خلاف افواہیں پھیلا نے اور ہرطرح کی مزاحمت کا سلسلہ جاری رکھا تا کہ یہ لوگ زمین میں کمزور پڑجائیں لیکن اللہ نے ان کو منصب امامت کے عہدے پر فائز کیا اور دشمن کی خواہش اور مزاحمت کی تمام کوششیں بالکل رائیگاں گئیں۔
ونرید ان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض و نجلھم الائمہ ونجلعلھم الوارثین ”ہمارا ارادہ ہے کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنایاجارہا ہے کہ ان کو امام بنائیں اور انہیں زمین کا مالک بنائیں”۔ (القرآن) صحابہ کرام، تابعین ، تبع تابعیناور مسلمان پوری دنیا میں سپر طاقتوں کو شکست دیکرصدیوں منصبِ امامت اور زمین کی وراثت کے مالک رہے ہیں۔
حجاز کے باسی یہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ ایسے خطوں پر ہماری حکمرانی ہوگی کہ جہاں دنیا میں جنت کے وعدے پورے ہونگے۔عربی میں جنت باغ کی جمع جنات ہے اور ایسے باغات جنکے نیچے نہریں بہہ رہی تھیںاسکا وعدہ اللہ نے دنیا کی دوسپر طاقتوں کو شکست دیکر پورا کیا تھا۔
شاہ اسماعیل شہید نے اپنی کتاب”منصبِ امامت ” میں امام کیلئے اللہ کے انتخاب کی وضاحت کی۔ جب پاکستان بن رہا تھا تو باطن میں اولیاء کرام کے دو گروہوں میں کشمکش دیکھنے والے مولانا حسین احمدمدنی نے فرمایا کہ ” حامی گروپ غالب آگیا اسلئے پاکستان بنے گا لیکن میری بصیرت ہے کہ تقسیم ہند پر خون ریزی اور عزت دریوں کی مخالفت جاری رکھی جائے”۔ اگر پاکستان کا مخالف طبقہ پاکستان کو اولیاء کرام کی تائید قرار دیتا ہے تو یہ بہت بڑی بات ہے لیکن اگر ہم یہ سمجھ لیں کہ شیاطین الانس والجن نے یہ منصوبہ تیار کیا تھا تو بھی اس کو مملکتِ خداداد کہنے میں کوئی حرج اسلئے نہیں کہ اللہ نے فرمایا : انھم یکیدون کیدًا واکید کیدًا ”بیشک وہ اپنی چال چلتے ہیں اور میں اپنی چال چلتا ہوں”۔ (القرآن) شاہ اسماعیل شہید نے” منصب امامت” میں قرآنی آیت کے حوالے سے ملاء اعلیٰ کے فرشتوں میں جھگڑے کی بات لکھ دی کہ ”اللہ کبھی ایک گروہ کے حق میں فیصلہ کرتا ہے اور کبھی دوسرے گروہ کے حق میں”۔
رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ” وہ امت کیسے ہلاک ہوسکتی ہے جس کے اول میں مَیں ، درمیان میں مہدی اور آخر میں عیسیٰ ہیں”۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ میرا اہل بیت ظلم وجور سے بھری دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دے گا۔ حضرت محمد بن عبداللہ ۖکے بعددرمیانے زمانے کا مہدی پہلا شخص ہوگا جو نبیۖ کے بعد پہلی مرتبہ طرز نبوت کی خلافت قائم کریگا جس سے زمین وآسمان والے دونوں خوش ہوں گے۔ یواطئی اسمہ اسمی واسم ابیہ اسم ابی ”اس کا نام میرے نام کیساتھ اور اسکے باپ کا نام میرے باپ کے نام کیساتھ جڑے گا”۔ اور مطلب یہ نہیں کہ اس کا نام محمد بن عبداللہ ہوگا۔دنیا میں پہلے نمبر پر نبیۖ کا نام ہوگا اور جب وہ عدل وانصاف قائم کریگا تو دنیا میں دوسرانام اسکا نام ہوگا۔
اگر مرزاغلام احمد قادیانی دجال نبوت کا دعویٰ نہ کرتا تو علماء دیوبند اس کا پیچھا کرنے کی جگہ فقہی مسائل اور تصوف کی اصلاح کرتے۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے ماموں کا قصہ لکھا کہ وہ کہتا تھا کہ میں ننگا ہوکر مجمع عام میں ایک ہاتھ سے اپنا آلہ تناسل پکڑ لوں گا اور دوسرے ہاتھ کی انگلی اپنے مقعد میں ڈالوں گا اور تم لوگ مجھے بھڑوے بھڑوے کہہ پکارو۔ یہ نیٹ پر بھی مل جائے گا لیکن اس کی زیادہ ضرورت اسلئے نہیں ہے کہ حیلہ ناجزہ میں عورت کو جس طرح حرامکاری پر مجبور ہونے کا فتویٰ جاری کیا گیا وہ اس بھڑوے سے ہزار گنازیادہ بدتر ہے۔
مولانا احمد رضا خان بریلوی اگر علماء دیوبند کو اپنے فتوے ” حسام الحرمین” سے نہ ڈراتے تو اکابر دیوبند نے فقہ چھوڑ کر قرآن وسنت کی طرف متوجہ ہونا تھا۔ مولانا مودودی اسلئے فتنہ تھا کہ فقہی احکام کو سدھارنے کی جگہ قرآن وسنت کے گمراہانہ مفہوم سے پڑھے لکھے طبقے کو متاثر کردیا۔ ڈاڑھی منڈھے صحافی نے داڑھی رکھ کر مولویوں کو اپنے پیچھے لگایا اور غلط گمراہانہ اسلام کو سلیس انداز دیا۔یہ ایک حقیقت ہے کہ اس گمراہانہ اسلام سے متحدہ ہندوستان کا سیکولر نظام بہتر تھا تو جمعیت علماء ہند کے اکابر نے اس کو سپورٹ کیا اور قائداعظم کا اسلام بہتر تھا ،اس وجہ سے جمعیت علماء اسلام کے علامہ شبیراحمد عثمانی نے اس کو سپورٹ کیا۔ علامہ انور شاہ کشمیری نے کہاکہ” اپنی ساری زندگی فقہ کی وکالت سے ضائع کردی”۔ جب دارالعلوم کا شیخ الحدیث اور مفتی محمد شفیع ، مولانا سید یوسف بنوری ، مولانا عبدالحقا کوڑہ خٹک اور مفتی محمود کے استاذ مولانا انورشاہ کشمیری نے زندگی ضائع کرنے کی بات کردی تو پھر شاگردوں نے اسی تعلیم وتعلم سے طلبہ کی زندگی کیوں تباہ وبرباد کردی؟۔ ظاہر ہے کہ مدرسہ دین کی خدمت سے زیادہ روزگار کا مسئلہ تھا۔ اس میں شک نہیں کہ مولانا یوسف بنوری نے تقویٰ پر مدرسے کی بنیاد رکھی اور ختم نبوت کا مسئلہ جب ریاست پاکستان نے حل کرنا چاہا تو علامہ بنوری کی قیادت میں حل بھی ہوگیا لیکن جس سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے ختم نبوت پر اپنا سب کچھ قربان کیا وہ ان سے زیادہ اہلیت اور قربانی کا جذبہ رکھتاتھا۔جنگ کے مالک میر شکیل الرحمن کا یونیورسٹی میں ایک قادیانی لڑکی سے معاشقہ ہوا تو اس نے مفتی ولی حسن ٹونکی سے فتویٰ مانگا کہ قادیانی لڑکی سے مسلمان کا نکاح ہوسکتا ہے؟۔ مفتی ولی حسن نے کہا کہ قطعی طور پر نہیں۔ اگر مفتی محمدتقی عثمانی ہوتا تو جنرل ضیاء الحق کے بیٹے ڈاکٹر انوارالحق سے قادیانی مبلغ جنرل رحیم الدین کی بیٹی کا نکاح پڑھانے کی طرح میرشکیل الرحمن کا نکاح پڑھانے سے دریغ نہ کرتا۔
میر شکیل الرحمن کی عاشقہ ومعشوقہ قادیانی لڑکی مرزا غلام قادیانی کے خلیفہ حکیم نورالدین کی نسل سے تھی اور اس نے کہا کہ مجھے قائل کرو، میں قادیانیت چھوڑ نے کوتیار ہوں۔ مولانا یوسف بنوری، مفتی ولی حسن ٹونکی ، مولانا عبدالرشید نعمانی تینوں نے بہت زور لگایا لیکن ایک قادیانی لڑکی کو قائل نہ کرسکے اور پھر ملتان سے مناظر ختم نبوت مولانا لعل حسین اختر کو بلوایا اور اس نے منٹوں میں قائل کردیا۔پھر وہ قادیانیت چھوڑ کر مسلمان ہوگئی۔ قادیانی ایک تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت کے قائل ہیں اور دوسرے ان کے باپ کے بھی قائل ہیں۔ قادیانیوں کا سخت مخالف طبقہ غلام احمد پرویز اور اسکے پیروکار بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں۔ جنگ اخبار میں مولانا محمد یوسف لدھیانوی کا جواب چھپ گیا کہ ” عیسیٰ علیہ السلام کے چچا نہیں تھے لیکن دو پھوپھیاں تھیں”۔ جس پر بڑا شور مچ گیا تو مولانا یوسف لدھیانوی نے لکھاکہ ” یہ میں نے نہیں لکھاہے”۔
لوگ قادیانی اسلئے بن رہے ہیں کہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ مفتی محمد شفیع نے لکھا کہ ” حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا باپ نہ تھا، مزرا غلام احمد قادیانی کا باپ تھا۔ حضرت عیسیٰ کی ماں کا نام مریم اور قادیانی کی ماں فلانہ تھی” اور پھر قادیانی کہتے ہیں کہ ہم جب عیسیٰ علیہ السلام کی طبعی موت کے قائل ہیں تو کیسے عیسیٰ علیہ السلام کا خود دعویٰ کرسکتے ہیں؟۔ یہاں مسلمان متزلزل ہوتے ہیں۔ پھر جب بڑے معتبر ناموں کو دیکھتے کہ ابن خلدون اور جمال الدین افغانی ، مولانا ابوالکلام آزاد اور دیگر حیات عیسیٰ کے قائل نہ تھے ۔ احادیث کی کتابوں میں اسرائیلیات سے یہ روایات آئی ہیں تو ان کو بڑا جھٹکا لگتا ہے۔ پھر جب قادیانی کہتے ہیں کہ تم بھی عیسیٰ کی آمد کے قائل ہواور ہم بھی ہیں۔ لیکن ہم قرآنی آیات پر یقین رکھتے ہیں کہ جب عیسیٰ سے خدا پوچھے گا کہ کیا آپ نے اپنے پیروکاروں کو گمراہ کیا تھا کہ آپ کو اور آپ کی ماں کو دومعبود بنالیں؟۔ تو عیسیٰ جواب دیں گے کہ جب تک میں انکے درمیان رہا تو میں نے یہ نہیں کہا اور جب آپ نے مجھے وفات دی تو میں نگران نہیں تھا۔ قادیانی جب قرآن میں حضرت عیسیٰ کے اٹھالینے کو موت سے تعبیر کرتے ہیں تو بھی اس میں وہ اکیلے نہیں ۔ بڑے بڑے لوگوں نے یہ باتیں لکھ دی ہیں اور جب نظر آتا ہے کہ ختم نبوت کے مفہوم پر اتفاق رائے موجود ہے لیکن ایک عیسیٰ کی ذات سے دوبارہ آنے کی امید رکھتے ہیں اور دوسرے یہ عقیدہ بتاتے ہیں کہ جس طرح کہا جاتا ہے کہ ہر فرعون کیلئے موسی ہوتا ہے تو اس کا معنی یہ نہیں ہوتا کہ دوبارہ فرعون اور حضرت موسیٰ کی آمد متوقع ہے بلکہ یہ عام محاورے کی زبان ہے تو لوگ قائل ہوجاتے ہیں اور قادیانیوں کی طرف سے ان کو مراعات ملتی ہیں تو مولوی بھی اپنی مراعات کو دیکھ کرچلتا ہے۔
جس دن قرآن وسنت کے مقابلے میں فقہ کے گمراہانہ مسائل کا خاتمہ ہوا تو قادیانی بالکل ملیامیٹ ہوجائیںگے اسلئے کہ وہ حضرت عیسیٰ کے بارے میں دوسروں کی تحقیقات کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور یہودی اسی وجہ سے ان کو سپورٹ بھی کرتے ہیں۔ بنوری ٹاؤن سے چھپنے والی کتاب میں شیعہ کو قادیانیوں سے تین وجوہات کی بنیاد پر بدتر کا.فر قرار دیا گیا تھا۔ قرآن میں تحریف، صحابہ کی تکفیر اور عقیدۂ امامت۔ لیکن پھر شیعہ کیساتھ متحدہ مجلس عمل اور اتحاد تنظیمات المدارس کی سطح پر سیاسی اور مذہبی بنیادوں پر اکٹھے بیٹھ گئے۔
مولانا حق نواز جھنگوی نے کہا تھا کہ شیعوں سے ہمارا اختلاف قرآن اور صحابہ پر نہیں بلکہ عقیدۂ امامت پر ہے۔ ماموں کے جس تصوف کی مولانا اشرف علی تھانوی نے بات کی ہے اور جس طرح کے فقہی مسائل لکھ دئیے ہیں وہ قرآن وسنت اور صحابہ کے بالکل منافی ہیں۔ دیوبند کے مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ نے سنت نمازوں کے بعد اجتماعی دعا کو بدعت قرار دیا تھا لیکن افغانستان، پختونخواہ ، بلوچستان اور اندرون سندھ کے دیوبندی مراکز نے یہ فتویٰ قبول نہیں کیا تھا۔ علماء دیوبند، بریلوی، اہلحدیث اور اہل تشیع نہ صرف ایک دوسرے سے بلکہ آپس میں بھی بدترین فرقہ واریت کے شکار ہیں۔ سب اپنی اصلاح، اسلام کی حقیقت اور ہدایت کی طرف آجائیں۔ عورت کے حقوق ہونگے تو جمعیت علماء اسلام، جماعت اسلامی، تحریک لبیک، جمعیت علماء پاکستان مذہبی جماعتوں کو ووٹ ملیں گے لیکن جب اپنے چوتڑ پر پوٹی کی پپڑیاں جمی ہوں اور دوسروں کے ریح خارج ہونے پر اعتراض کریںتو امت کی اصلاح نہیں ہوسکے گی۔
عمران خان نے کہا کہ ”جب ایک سردار نے ایک غلام کو تھپڑ مارا تو نبیۖ نے بدلہ لینے کا حکم دیا”۔ مفتی سعید خان نے عمران خان کے نئے استاذ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ حضرت عمر کے دور کا واقعہ ہے۔ جب وہ سردار مرتد ہوگیا تو حضرت عمر نے افسوس کا اظہار کیا کہ اس کو بدلے میں تھپڑ نہ مارتے اور جب حسان بن ثابت نے کہا کہ اچھا ہوا کہ اس کو تھپڑ مارا ہے تو حضرت عمر نے حضرت حسان ہی کو درہ مارا ”۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھا کہ حضرت عمر کے دور میں امت طبقاتی تقسیم کا شکار کی گئی۔ نبیۖ سے صحابی نے کہا تھا کہ مجھے آپ سے انتقام لینا ہے اور پھر مہر نبوت کو چوم لیا تھا۔ نبیۖ کے بعد خلافت راشدہ میں بھی جبری ماحول مسلط ہوگیا تھا۔ اگر آزاد عدلیہ ہوتی تو حضرت عمر کو بھی حضرت حسان کے بدلے میں درہ مارا جاتا۔ صحابہ کرام کے مجموعی تقدس کے عقیدے کو معمولی معمولی واقعات کی وجہ سے پامال نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن ایک رسول ۖ کی ذات ایسی تھی کہ درہ مارنا تو بہت دور کی بات تھی جب عبداللہ ابن مکتوم کی آمد پر پیشانی پر ناگوار ی کے اثرات مرتب ہوئے تو اللہ نے سورہ عبس نازل فرمائی۔ حضرت ابوبکر وعمر اور حضرت عثمان وعلی پر وحی بھی نازل نہیں ہوسکتی تھی اور ان کی شخصیتوں کو نبیۖ سے بالاتر بھی نہیں قرار دیا جاسکتا ہے۔
شیخ الہند نے مالٹا سے رہائی کے بعد قرآن کی طرف توجہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن زندگی نے وفا نہیں کی۔ امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی نے اپنے استاذ کی بات مان کر قرآن کی طرف توجہ کی لیکن اپنے علماء نے ان کا ساتھ نہیں دیا تھا اور اب قرآن کی عام فہم آیات اور پڑھے لکھے دور سے انقلاب آسکتا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

QURAN, PAKISTAN, AND UNIVERSAL PREDICTIONS

Ulama, Muftiyan, and Religious classes are undergoing worst and merciful condition

Mufti Taqi Usmani and Mufti Muneeb-ur-Rehman called upon a large session in which all Muftiyans and Ulmaas were invited as representatives and for the sake of issuing a joint statement, they displayed an ugly behaviour before the Media journalists at Karachi Press Club. A written statement was brought before them by Mufti Taqi Usmani and among others, a demand was placed regarding removal/withdrawal of Lockdown ban from Masajids. Mufti Muneeb-ur-Rehman said that there is no Lockdown from today. A journalist raised a question on this dual attitude, Mufti Taqi Usmani moved mike towards Mufti Muneeb-ur-Rehman then Mufti Muneeb Rehman repeated again that Lockdown has ended. After that Mufti Taqi Usmani in response to a question replied and repeated his already presented written demand but when journalists forced them for removal of confusion exists, then Ulmaa avoided to talk further on this issue and slip-away from the spot to protect themselves. Then Shahzeb Khanzadah made full efforts to find out the facts and asked that now what is the status of the statement issued bu Mufti Muneeb-ur-Rehman? but Mufti Taqi Usman, at the last moment, hesitated to reply his proper questions, however, he clarified that our agreement with government had been broken, however for now onwards we are agreed/prepare to talk with them. Continue reading "QURAN, PAKISTAN, AND UNIVERSAL PREDICTIONS”

OUR BELOVED STATE, GOVERNMENT AND JUDICIARY

Rulers which are holding the seat of government passed orders that "shopkeepers will be charged and confined for illegal profits”. Magistrates are nominated to register the case against cabin keepers manual cart riders whereas this poor community is hardly pulling on their day-to-day expenses. I have personally observed that an MNA of South Waziristan, who was though defeated in the election had invested 20 million and it is assured that the successful candidate must have spent much more than that. When the government of Nawaz Sharif was dismissed on account of corruption and PPP government lodged a case against them regarding infamous London flats, then after Nawaz league was brought as a ruler party and after that case was registered against PPP. During the tenure of Pervaiz Musharraf same case of London, flats were registered, then after the deportation to Saudi Arabia, this case came to an end and further when Zardari took over the charge as a ruler then Shahbaz Sharif addressed in public emotionally that he would hang Zardari in crossing area and would give him a tough time. Again Nawaz league came in government and including the written statement in media he gave the same statement in parliament that in the year 2005 he sold out a vast piece of land in Saudi Arabia and later on purchase flat in the year 2006 which no doubt was seems to be nothing except fiction. Then after he produced a letter issued by Qatari ruler in which he expressed/shown his irrelevancy from that particular letter. In such circumstances, our nation as well state mutually decided to bring Imran Khan as the next ruler as being an eligible one and he was accepted by the judiciary as authentic and trustworthy whereas he was supposed to be the King of the Blind man. Today or beloved state again had exposed the favorable personnel of the revolutionary government that was fully involved in looting the public in the crises of sugar and flour. since the tenure/era of Pervaiz Musharraf up till this date all the same faces like Jahangir Tareen, Khusru Bakhtiar, and Munis Elahi are in power. Well done Mr. Niazi.