پوسٹ تلاش کریں

جامعہ دار العلوم نعمانیہ صالحیہ ڈیرہ اسماعیل خان

 

ناصر محسود نے بیٹنی کیلئے بغیر حلالہ رجوع کا فتویٰ منگوایا۔ مولانا علاء الدین مدرسہ ڈیرہ اسماعیل خان کے مفتی نے کہا کہ یہ فتویٰ صحیح ہے۔  بیٹنی نے کہا کہ آپ فتویٰ دیں۔ مدرسہ کو25ہزار چندہ دیا۔ مفتی محمود نے عائلی قوانین ”عورت کو خلع کا حق اور حلالہ کی لعنت کے خاتمہ” کو ووٹ دیا۔۔۔ توجنرل ایوب نے ایک لاکھ روپیہ دیاتھا۔ اوریا مقبول جان نے کہاکہ مفتی محمود نے ووٹ بیچا۔ جماعت اسلامی ودیگر نے الزام لگایا۔ عورت کو خلع کا حق و حلالہ کا خاتمہ کمال تھا۔ مفتی محمود کو مزارعت کے ٹھیک فتوے پر کافر قرار دیا گیا ۔ علماء قرآن وسنت ، اصول فقہ اور فقہ کے مسائل کی تطبیق تو دور کی بات نرے جاہل ہوتے ہیں۔

جامعہ بنوری ٹاؤن میں ہمیں شرح جامی پڑھانے والے مفتی عبدالسمیع”نوارالانوار” میں قرآن کی تعریف کو کفر سمجھتے تھے۔  یہی حال مفتی تقی عثمانی کا تھا اور اسلئے سورہ فاتحہ کو علاج کیلئے پیشاب سے لکھنا جائز قرار دیا۔۔۔ اور پھر رجوع کرلیا۔ حاجی عثمان جہاز میں تھے تو مفتی اعظم پاکستان مفتی شفیع نے کہا کہ نماز پڑھ لو۔۔۔ مگر دہرانی پڑے گی۔ جس پر مولانا یوسف بنوری نے کہا کہ پھر ڈبل مشقت کیوں اٹھائیں۔۔۔۔ اور یہی حال حلالہ میں اندھے اعتماد کا تھا۔ مولانا بنوری نے اپنا مدرسہ طلبہ کیلئے نہیں ۔۔۔۔ جاہل علماء کو ہی علم سکھانے کیلئے کھولاتھا۔

اللہ نے پہلے عورت کو خلع اور پھر مرد کو طلاق کا حق دیاہے:

یا ایھا الذین امنوا لا یحل لکم ان ترثوا النساء کرھًا
ولاتعضلوھن لتذھبوا ببعض ما اتیتموھن الا ان یأتین ففاحشة مبینة
و عاشروھن بالمعروف فان کرھتموھن
فعسٰی ان تکرھوا شیئًا ویجعل اللہ فیہ خیرًا کثیرًا( سورہ النساء آیت19)

”اے ایمان والو! تمہارے لئے حلال نہیں کہ تم زبردستی سے عورتوں کے مالک بن بیٹھو

اور نہ اسلئے ان کو روکو کہ اپنی دی ہوئی چیزوں میں سے بعض واپس لو ۔۔۔۔۔ مگر یہ کہ وہ کھلی فحاشی کا ارتکاب کریں۔

اور ان سے معروف برتاؤ کرو اور اگر وہ تمہیں بری لگیں تو

ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں بری لگے ۔۔۔ اور اللہ اس میں تمہارے لئے بہت سارا خیر بنادے ”۔

ابھی تو مسلمانوں کی اکثریت اور دنیا کو پتہ نہیں کہ ۔۔۔ اسلام وہ دین ہے جس کے نصوص قطعی میں عورت کو نہ صرف خلع کا حق تھا ۔۔۔ بلکہ خلع کی صورت میں بھی عورت کو مالی تحفظ بھی دیا گیا ہے۔

کوئی عورت آزاد اور لونڈی، ایمان والے اسے اپنی ملکیت نہیں بناسکتے ۔۔۔ اور نہ اسلئے روک سکتے ہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے ۔۔۔ کہ اس میں سے کچھ واپس لیں ۔۔۔ اور یہ حق مہر نہیں بلکہ شوہر کی دی ہوئی منقولہ اشیاء ہیں ۔۔۔ جن میں غیر منقولہ اشیاء زمین، گھر اور باغ وغیرہ شامل نہیں ۔۔۔ وہ پھر طلاق میں شامل ہیں ۔۔۔ جو آیت20اور21سورہ النساء میں بالکل واضح ہیں۔

قد علمنا ما فرضنا علیھم فی ازواجھم وماملکت ایمانھم ” تحقیق ہم جانتے کہ جو ہم نے مقرر کیا ہے ازواج اور عہد وپیمان والیوں کا ریٹ”۔(الاحزاب50)

قرآن میں آزاد عورت اور لونڈی دونوں کا حق مہر ہے اور نبی ۖ نے لونڈی کا حق مہر آزادی کے بدلے دیالیکن لونڈی اگر آزادی کے بدلے نکاح کیلئے تیار نہیں تو مجبور نہیں کیا جاسکتا اور لونڈی سے بغیر نکاح یا ایگریمنٹ ازدواجی تعلق جائز نہیں۔ البتہ غلام کے پاس رقم نہیں تو محض لکھت ہے جس کو مکاتبت کا نام دیا گیا لیکن مکاتبت کے ترجمہ میں مغالطہ دیا گیا ہے۔

وانکحوا الایامی منکم والصالحین من عبادکم وامائکم ان یکونوا فقراء یغنہم اللہ من فضلہ واللہ واسع علیمOولیستعفف اللہ الذین لایجدون نکاحًا حتی یغنیھم اللہ من فضلہ والذین یبتغون الکتاب مماملکت ایمانکم فکاتبوھم ان علمتم فیھم خیرًا واٰتوھم من مال اللہ الذی اٰتاکم و لاتکرھوا فتیاتکم علی البغاء ان اردن تحصنا لتبتغوا عرض الحیاة الدنیا ومن یکرھن فان اللہ من بعد اکراھھن غفور رحیم( سورہ النور آیت32،33)

یہاں بیوہ و طلاق شدہ اور غلام و لونڈی کے نکاح کا حکم ہے اور کنواری لڑکیوں کی ضد کا حل ہے لیکن تفسیر کو بھی بگاڑ دیا ہے۔ غلام کے پاس حق مہر کی رقم نہیں اسلئے حق مہر کی جگہ لکھا ہوا معاہدہ ہے ۔ علماء نے غلام کو آزاد کرنے میں خیر نظر آنے کا لکھ دیا حالانکہ اللہ نے مال لینے کا نہیں دینے کا حکم دیا جو اسکے نکاح میں مدد گار ہوسکتا ہے۔

پھر اللہ نے کنواری لڑکیوں کا حکم دیا کہ اگر وہ نکاح چاہیں تو ان کو بغاوت پر مجبورنہ کرو مگر انتہائی نالائقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لونڈیاں چلانا مراد لیا گیاہے۔ حالانکہ آیت بالکل واضح ہے کہ تمہاری کنواری لڑکیاں کسی سے نکاح کی فرمائش کریں تو اپنی دنیاوی وجاہت کو مت دیکھو بلکہ اس کی فرمائش پوری کردو۔لیکن اگر تم نے ان کو بغاوت یا زبردستی سے نکاح پر مجبور کیا تو پھر اللہ ان عورتوں کیلئے غفور رحیم ہے۔

اگر لڑکی بھاگ کر نکاح کرے تو یہ بغاوت ہے مگر بدکاری نہیں اور اگر لڑکی کو زبردستی کیساتھ نکاح پر مجبور کیا جائے تو یہ حرام ہے لیکن حرامکاری نہیں اسلئے کہ اس کی مجبوری ہے۔ بغاء کے دونوں معانی ہیں۔ رسول اللہ ۖ نے مشہور حبشی غلام کو ایک قبیلہ کے سردار کی بیٹی کا رشتہ طلب کرنے بھیج دیا۔ سردار نبیۖ کے قاصدپر بڑا خوش ہوا مگر رشتے کی بات سن کر سن ہوگیا لیکن سردار کی بیٹی نے کہا کہ مجھے قبول ہے جس پر سردار نے بیٹنی کی راہ میں اپنی وجاہت کی وجہ سے انکار نہیں کیا۔

وان خفتم الا تقسطوا فی الیتامٰی فانکحوا ماطاب لکم من النساء مثنٰی وثلاث ورباع فان خفتم الا تعدلوا فواحدةً او ماملکت ایمانکم ذٰلک ادنٰی الا تعولوا(سورہ النساء:آیت3)

”اور اگر تمہیں خوف ہو کہ یتیم عورتوں سے انصاف نہ کرسکو تو نکاح کرو جو عورتیںتمہیں پسند آئیں دودو، تین تین ، چار چار اور اگر تمہیں خوف ہو کہ عدل نہیں کرسکو تو پھر ایک یا جو تمہاری معاہدہ والی ہوں۔یہ کم تر ہے تاکہ تم خاندان کے بغیر نہ ہو”۔

جویتیم یا متعددبیویوںمیں عدل نہیں رکھتے توقرآن ان کی ترجیح نہیں۔ بہاولپور کے11نوابوں کے بعد12ویں نے بیوی کے کچھ حقوق بحال کئے لیکن چولستان کے حافظ احمد مشہور ولاگر نے ابھی اپنے خاندان کے مقابلہ میں بڑا جہاد کیا ہے۔

اس آیت میں پہلے یتیم عورت کی جان چھڑائی گئی ہے جس کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتاکہ دو، تین اور چار عورتوں سے بھی نکاح کرسکتے ہو۔ پھر اگر عدل نہیں کرسکتے تو ایک یا جن کیساتھ معاہدہ ہو۔ عبداللہ بن مسعود نے ایک سے بھی نکاح کی پیشکش ٹھکرادی اسلئے کہ وہ ایک کیساتھ بھی انصاف نہ کرسکنے کا خوف رکھتے تھے اور متعہ پر گزارا کرتے تھے۔متعہ میں نکاح کی طرح حقوق نہیں ہوتے لیکن ضرورت مند عورتوں کیساتھ جائز تعلق ہوتا ہے۔ بخاری کی حدیث اور عبداللہ بن مسعود کے مصحف کی تفسیر میں اس کی بھرپور وضاحت ہے۔محرمات کے آخر میں وہ محترمات ہیں جن کی تفسیر متشابہات میں سے تھی مگر واضح ہوگئی۔

والمحصنات من النساء الا ما ملکت ایمانکم کتاب اللہ علیکم واحل لکم ماوراء ذٰلکم ان تبتغوا باموالکم محصنین غیر مسافحین فما استمتعتم بہ منھن فاٰتو ھن اجورھن فریضة ًولا جناح علیکم فیما تراضیتم بہ بعد الفریضة ان اللہ کان علیمًا حکیمًا( سورہ النسائ:آیت24)

مولانا سلیم اللہ خان نے صحابی اور جمہور میں اختلاف نقل کیا ہے کہ محصنات سے کونسی عورتیں مراد ہیں؟۔ متشابہ آیات کا معنی مشتبہ نہیں بلکہ جس کی نظیر ہو لیکن اس کا تعلق مستقبل سے ہو اور موجودہ دور میں سرکاری پینشن والی عورتیں اس آیت کی نظیر ہیں ۔ اگر ان سے باقاعدہ نکاح کیا جائے تو یہ پینشن کھو دیں گی اسلئے ان کی جنسی ضرورت کیلئے ایگریمنٹ کا معاملہ ہے۔ المیہ ہے کہ قرآن وحدیث کو سمجھا نہیں گیا اور فقہ کا کباڑہ کیا۔ میری زمانہ طالب علمی سے نصاب کے خلاف اساتذہ نے تائید کی۔

امریکہ میں سیتاوائٹ سے عمران خان نے متعہ کیا۔ اور اپنی بچی ٹیرن وائٹ سے انکار کیا تو عدالت اورDNA تک بات پہنچ گئی۔ بچی آج بھی اپنے باپ کے انکار کی سزا کھارہی ہے۔ حضرت عمر کے دور میں ایسا واقعہ ہوا تو حضرت عمر نے متعہ پر ہی پابندی لگادی۔ آج سعودی عرب نے اس کو مسیار کا نام دیاہے اور جب حضرت عمر نے نہ صرف پابندی لگائی تھی بلکہ سنگساری کی سزا دینے کا بھی اعلان کیا پھر بصرہ کے گورنر مغیرہ بن شعبہ کے خلاف جس کی قسم گواہی آئی اور جس طرح اس پر مسلکی اختلافات ہیں ان پر پارلیمنٹ میں بحث کرنا ضروری ہے۔
ــــــــــ

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ دسمبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

عتیق گیلانی برصغیر کے عقل بند مذہبی پیشواؤں میں یقینا قابل تحسین لیکن عربی میں اس پر بڑاکام ہوا ہے

ڈاکٹر جہاں آراء لطفی،اسسٹنٹ پروفیسر شیخ زید اسلامک سینٹر ،
یونیورسٹی آف کراچی۔
فتح یونیورسٹی طرابلس لیبیا ،کراچی یونیورسٹی کی عربی میں ماسٹر کا عبد العزیز کو جواب
عبد العزیز عبد العزیز

قرآن طلاق کے بعد رجوع پر پابندی عائد نہیں کرتا بغیر حلالہ اس موضوع پر جتنا مواد سید عتیق الرحمن گیلانی چیف ایڈیٹر نوشتہ دیوار نے شائع کیا ہے اس کی مثال چودہ سو سالہ اسلامی تاریخ میں پیش نہیں کی جا سکتی۔
ــــــــــ

محترمہ ڈاکٹر جہاں آراء

عتیق الرحمان گیلانی کا برصغیر پاک و ہند میں عقل بند مذہبی پیشواؤں میں یقینا یہ ایک قابل تحسین و تعریف و مفاد عامہ میں مفید ترین کام ہے ۔ جس کی اس سے قبل برصغیر پاک و ہند میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔نہ ہی اہل فارس و ترکیہ میں ۔

اس میں بنگلہ دیش و دنیا بھر کے اردو بولنے والوں کو بھی شامل کرلیں ۔لیکن یہ کام عربی زبان میں عرب علما و ائمہ و فقہاء کرام و قدیم و جدید عہد میں موجود ہے ۔۔جس پر اموی و عباسی و عثمانی و فاطمی خلفاء نے اپنے اپنے مقاصد و اہداف کے حصول کیلئے پردہ پوشی کی، ان کو اذیتیں بھی دی گئیں اور انکے بر خلاف اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے جھوٹی روایتیں گھڑنے والوں کو نوازا ۔یہی حال مغلیہ دور میں دین اسلام کا بنادیا گیا۔

کیوں کہ میرا کچھ مطالعہ عربی قدیم مواد کا ہے جس کی بنیاد پر میں یہ رائے دے سکتی ہوں۔ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ قرآن کریم جس میں نکاح و طلاق و اس سے متعلقہ جملہ مسائل کی ایک ایک لفظ کے ذریعے بلکہ میں کہوں گی حروف کے ذریعے و اعراب کے ذریعے اتنی گہرائی میں جاکر وضاحت ہوتی ہے کہ کوئی پیچیدگی باقی نہیں رہتی ۔شرط یہ ہے کہ عربی زبان کے ذریعے سے اسے سمجھنا آسان ہے۔

و لقد یسرنا القراٰن للذکر فہل مِن مدکرٍ(القمر:17)
اِنا انزلنٰہ قرانًا عربِیًا لعلم تعقِلون(یوسف:2)
وکذٰلک انزلنٰہ قرانًا عربِیًا و صرفنا فِیہِ مِن الوعِیدِ لعلہم یتقون او یحدِث لہم ذِکرًا(طہ:113)
ــــــــــ

 

تبصرہ : عتیق الرحمن گیلانی

محترمہ کی تحریر سے بڑی خوشی ملی۔ طلاق کے موضوع پر بڑا کام ہوا لیکن قرآن کی وضاحتوں پر پردہ ڈالا گیا۔ اصطلاحات و لغات میںخطرناک تحریف کی گئی ہے۔خواتین کے وہ حقوق نظر انداز کئے ہیں جن کی آیات ان کی وجہ سے نازل ہوئی ہیں!

اگر یمین کے لفظ کو قرآن کی آیات اور عربی لغت کی روشنی میں دیکھا جائے تو حلف، قسم، نکاح، طلاق، معاہدہ ، حرام اور کئی معانی مراد لئے جاسکتے ہیں۔ اگر سیاق وسباق سے ہٹایا جائے توپھر درست مفہوم نہیں نکلتا۔ مثلاً البقرہ224،225،226اور227کا واضح ربط ختم کیا گیا اور بہت مثالیں موجود ہیں۔
ــــــــــ

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ دسمبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv