پوسٹ تلاش کریں

دومختلف، متضاد، متفرق کردار، ملا فضل اللہ اور ملالہ یوسفزئی: تحریر سید عتیق الرحمن گیلانی

talibanization-asma-jahangir-jmaat-e-islami-abdul-sattar-khan-niazi-mulla-fazal-ullah-malala-yousafzai

سوات پختونخواہ کے دو متضاد کردار ملافضل اللہ ، ملالہ یوسفزئی ہیں۔ ملافضل اللہ کی شریعت کے سامنے ہماری ریاست اور سیاست دونوں سجدہ ریز تھیں۔ مینگورہ میں مسلکی اختلاف کے سبب ایک مذہبی شخصیت کو قتل کیا گیا اور پھر قبر سے نکال کر کئی روز تک اس کی لاش کو چوک پر لٹکادیا گیا، یہ ایک واقعہ نہ تھا بلکہ اس واقعہ سے صورتحال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ عاصمہ جہانگیر جیسے لوگ اس ذہنیت اور ریاست کو اسکے آگے لیٹ جانے کی مخالفت کرتے تھے تو ان کو امریکی ایجنٹ کہا جاتا تھا۔ اے این پی کی حکومت آئی تو میاں افتخار حسین جیسے بہادروں نے بھی طالبانِ سوات سے شریعت کے نفاذ پر معاہدہ کیا تھا اور جب سوات کے طالبان کے بارے میں مولانا فضل الرحمان نے حکومت کی توجہ دلائی کہ طالبان اسلام آباد کے قریب پہنچ چکے ہیں تو ن لیگ کے مقبول ترین رہنما سید ظفر علی شاہ نے کہا کہ ’’ مولانا فضل الرحمن امریکہ کا ایجنٹ ہے اور طالبان کیخلاف بول رہاہے‘‘۔ آپریشن کا آغاز ہوا تو کلثوم نواز واحد مسلم لیگی رہنما تھی جس نے کھل کر کہا کہ ’’ یہ وہ طالبان نہیں جس کی ہم نے حمایت کی تھی‘‘، آپریشن کے بعد حالات بہتر ہوئے تو ملالہ کے سر میں سکول جاتے ہوئے گولی ماری گئی۔ فوج نے اس کو ہیلی کاپٹر سے پشاور پہنچادیا اور اس کو زندگی مل گئی پھر فوج نے معذوری سے بچانے کیلئے بیرون ملک بھیجا۔
کسی اور کی بات نہیں کرتا، میرا اپنا ایک بیٹا شاہین ائر میں کام کرتا ہے، وہ پہلے میرے دوست کے آفس میں تھا۔ ایک دن مجھے کہا کہ اورنگی ٹاؤن میں مہاجر پٹھانوں کے ناک کاٹ رہے ہیں، لانڈھی میں پٹھان مہاجروں کے ناک کان کاٹ رہے ہیں۔ میں نے بہت ڈانٹا کہ ’’اس طرح کی افواہوں پر موبائل فون اور تیز رفتار میڈیا کے دور میں بہت بری بات ہے، آئندہ کسی ایسی سرگرمی کا حصہ نہیں بننا‘‘۔ پھر جب ملالہ یوسف زئی کا واقعہ ہوا تو میرے بیٹے نے کہا کہ ’’ اس کو گولی نہیں لگی ،یہ بہت بڑی سازش ہے‘‘۔ میں نے کہا کہ ’’پہلے تجھے ڈانٹا تھا۔ اب پھر وہی بکواس کررہے ہو؟‘‘۔ اس نے کہا کہ میڈیا پر بات چل رہی ہے۔ میں نے غصہ میں کہا کہ میڈیا بھی بکواس کرتا ہے۔ پھر جب ملالہ یوسف زئی کا زخمی چہرہ میڈیا پر نظر آتا تھا تو میں اس سے کہتا تھا کہ اب یقین آیا ہے کہ گولی لگی ہے؟‘‘، جب واقعہ ہوا تھا تو میرے بھائی نے بھی کہا کہ ’’سازش سے ایک چھوٹی سی گولی ماری گئی ہے تاکہ اس کو آئندہ استعمال کیا جاسکے‘‘۔ میں نے اس سے بھی عرض کیا کہ یہاں بدگمانی کی ایک فضاء ہے جو ماحول میں پروان چڑھ گئی ہے۔ ایک وقت تھا کہ ختم نبوت زندہ باد کا نعرہ جرم تھا۔ مولانا عبدالستار خان نیازیؒ نے داڑھی اس تحریک میں شمولیت کی وجہ سے ہی مونڈھ ڈالی تھی۔ بریلوی مکتبۂ فکر کا جو رہنما حصہ لیتا تھا اس کو اپنے مکتب کی طرف سے بھی ملامت کا نشانہ ہی بنایا جاتا تھا کہ دیوبندی گستاخان رسول قادیانیوں سے بدتر ہیں انکے ساتھ مل کر تم گمراہوں کے خلاف تحریک کیوں چلارہے ہو؟۔ جب فوج نے طالبان سوات پر تشدد کیا، ان کو ہیلی کاپٹروں سے گرانے کی خبریں آئیں تو عاصمہ جہانگیر نے طالبان کیساتھ غیر انسانی سلوک کی شدید مذمت کی۔ جب عاصمہ جہانگیر سے سوال کیا گیا کہ آپ اتنی بہادری سے حق کہتی ہیں تو ملالہ کو آپ کیوں مشورہ نہیں دیتیں کہ وہ خدمت کیلئے آئے؟ جس پر عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ’’ میں اپنی عمر گزار چکی ، مجھے گولی لگے بھی تو مسئلہ نہیں لیکن ملالہ کو نہیں آناچاہیے اس کو زندگی گزارنی ہے اور یہاں اس کو مخصوص ذہنیت کی طرف سے خطرہ ہے‘‘۔ ایک طرف وسعت اللہ خان، مبشر زیدی، ضرار کھوڑو، ماریہ میمن جیسے دیانتدار صحافی تو دوسری طرف طارق پیرزادہ جیسے لوگ میڈیا کے ٹاکشوز میں اپناخیال پیش کرتے ہیں بلکہ مسلط ہوجاتے ہیں۔
وہ لوگ بھی ہیں جو نوازشریف کی طرح زندگی بھر خود اسٹیبلیشمنٹ کے گھٹنوں نے نیچے سر کے تمام بال گراتے ہیں اور انڈے جیسے سر سے یہ بات نکلتی ہے کہ ریاست نے 70سال سے سازش کی ہے۔ پاکستان بن رہا تھا تو کچھ لوگ ہندوستان کی محبت میں تقسیم ہند کے مخالف تھے۔ ہندو بھی وطن کو ماتا سمجھ کر پوجتے ہیں، وہ بھی ہندو سے متأثر تھے بلکہ وطن سے محبت کا جذبہ فطری ہوتاہے لیکن ان پر ہندوؤں کے ایجنٹ کا الزام لگایا گیا۔ علامہ اقبال نے جمعیت علماء ہند ، دارالعلوم دیوبند کے مولانا حسین احمد مدنی کی سوچ کو ابولہب کا دین قرار دیا۔ آج یہ خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ وطن دشمنی کا سہرا بانیان پاکستان کے سر نہ باندھا جائے۔ فوج اپنا کوئی دماغ نہیں رکھتی۔ 1940میں پاکستان کے قرار داد مقاصد پیش نہ ہوتے تو پاکستان نہ بنتا۔ ایک ٹھوس لائحہ عمل کے ذریعے سے نہ صرف پاکستان بلکہ مسلم اُمہ کو ایک کرنیکی ضرورت ہے

مولانا طارق جمیل اور سوشل میڈیا کی یہ تصویر: حنیف عباسی

tablighi-jamaat-haji-muhammad-usman-molana-tariq-jameel-hajre-aswad-muslim-khwateen-ragra-jannat-ki-hoor

صحابہ کرامؓ کے دور میں خواتین مساجد میں نماز پڑھتی تھیں۔ بیت اللہ میں آج بھی پنج وقتہ نماز میں خواتین کی بڑی تعداد شریک ہوتی ہے۔ حجر اسود کو چومنے کیلئے جم گھٹا لگتا ہے تو خواتین و حضرات مذہبی جذبات میں اجنبیت کے حدود کا بھی لحاظ نہیں رکھتے۔ صحابہؓ کے دور میں لونڈی کا پردہ نہیں ہوتا تھا اور لباس بھی بہت مختصر ہوتا تھا۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ اسلام کو بھی اپنے ماحول کے نرغے میں ہی ڈھالنا چاہتے ہیں۔ میڈیا ٹاک شوز میں خواتین کا نمایاں کردار ہے اور علماء و مفتیان بھی خواتین اینکر پرسن کیساتھ گفتگو کرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن اسکے عادی ہوچکے ہیں اور سوشل میڈیا یا کسی اخبار میں کوئی تصویر چھپ جاتی ہے تو مذہبی جذبات کا تلاطم خیز طوفان اٹھتا نظر آتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ تبلیغی جماعت کے بانی حضرت مولانا الیاس قدس سرہ العزیز ایک بڑی شخصیت تھی جس نے اس عظیم کام کے ذریعے سے لاکھوں کروڑوں عوام کے دلوں میں کسی معاوضہ کے بغیر دینی اور روحانی جذبہ بیدار کیا۔ آج مساجد و مدارس اور خانقاہیں اسی کام کے دم سے آباد ہیں۔ تبلیغی جماعت کے بانی مولانا الیاسؒ کے انتقال کے بعد صاحبزادہ مولانا یوسفؒ کو امیر بنا دیا گیا۔ جس کا تبلیغی جماعت سے کوئی واسطہ نہیں تھا لیکن بڑے اچھے عالم دین ہونے کیوجہ سے کام کو چار چاند لگادئیے۔ پھر ایک بزرگ شخصیت مولانا انعام الحسن ؒ کو امیر بنایاگیا کیونکہ مولانا یوسفؒ کے بیٹے مولانا ہارون کی عمر بہت کم تھی۔ مولانا احتشام الحسن کاندھلویؒ مولانا الیاسؒ کے ہی قریبی ساتھی تھے جس نے ’’موجودہ پستی کا واحد علاج‘‘ کتابچہ لکھا تھا جو تبلیغی نصاب میں شامل تھا۔ مولانا احتشام الحسنؒ آخر میں اس کام کے سخت مخالف ہوگئے تھے کہ اب یہ فتنہ بن چکا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ تبلیغی جماعت میں جو غلط لوگ شامل ہوئے ہیں انکی وجہ سے جماعت بدنام ہے لیکن اس ماحول کی یہ خامی ہے کہ اگر مولانا فضل الرحمن کی ایسی تصویر دیکھتے تو استغفار کرتے اور اپنے بزرگ کو دیکھا تو اس کو اللہ کی طرف سے حکمت قرار دیا یہ روش غلط ہے۔

ڈان لیکس پر ملعون نواز شریف یا جنرل راحیل شریف: قوم کو حقائق سے جلد از جلد آگاہ کیا جائے: اشرف میمن

dawn-leaks-supreme-court-ispr-GHQ-pml-panama-leaks-raheel-sharif-maloon-nawaz-sharif

نوشتہ دیوار کے پبلشر اشرف میمن نے کہا ہے کہ جنرل راحیل شریف کے آخری وقت میں ڈان لیکس کا معاملہ خبروں کی زینت بنا ۔ نواز شریف نے ایک بہت نازک وقت میں یہ الزام لگایا کہ فوج نے ہمارے خلاف ڈان لیکس کی سازش کی ہے۔ اب تک یہ معلوم نہ ہوسکا کہ سازش کرنیوالے نواز شریف تھے یا جنرل راحیل شریف؟ ۔ جو بھی اس سازش کی لعنت میں ملوث تھا اس کو منظر عام پر لاکر قوم کے سامنے ننگا کیا جائے۔ تاکہ پھر کسی کو اس طرح سازش کرنے کی جرأت نہ ہو۔ لوگوں میں بھوک ، افلاس ، عزتوں کے تار تار ہونے ، جان و مال کے خطرات ، ظلم و جبر اور ستم کا سارا ریکارڈ ٹوٹ رہا ہے لیکن وہ یہ تماشہ دیکھ رہے ہیں کہ بڑوں میں کون ملعون ہے اور کون نہیں ؟ اور کسی نتیجے پر نہیں پہنچ رہے ہیں۔ عوام کو بیوقوف بنانا بند کیا جائے اور جلد سے جلد ان تمام رازوں سے پردہ چاک کیا جائے جن کو سازشوں کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر نواز شریف نے پاک فوج کیخلاف کوئی گھناؤنی سازش کی ہے تو عوام کے سامنے اس کو بے نقاب کیا جائے اور اگر فوج نے نواز شریف کے خلاف کوئی سازش کی ہے تو اس کو بھی بے نقاب کیا جائے ۔ الیکٹرانک میڈیا کے چینل تقسیم ہیں اور اپنے اپنے ایجنڈوں پر لوگوں کو چلاتے ہیں۔نواز شریف اور سیاسی قیادتوں کا جمہوری نظام صرف اور صرف اپنے اپنے مفادات کی خاطر ہے جس سے عوام الناس کو فائدہ نہیں۔

اسٹیفن ہاکنگ کی آخری وصیت جنات اور قرآن کی تصدیق ہے: عبد القدوس بلوچ

stephen-hawking-jinnat-and-quran-sir-syed-ahmad-khan-ghulam-ahmad-pervez-science-roohaniyat-black-hole

عظیم سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ کی آخری وصیت’’ زمین پر ہم اکیلے نہیں کوئی اور مخلوق بھی ہے جس سے رابطہ خطرناک ہوسکتاہے‘‘ نے قرآن کی آیات میں جنات کی موجودگی کا سائنسی بنیاد پر اعتراف کرلیا ہے۔ سرسید احمد خان سے غلام احمد پرویزتک نے سائنس کی وجہ سے جنات کی غلط اور گمراہ کن تعبیرات کی تھیں،علماء کرام نے قرآن وسنت کا تحفظ کیا ۔ ہوا یہ ہے کہ سائنس کی دنیا میں جنات کا واضح ثبوت نہیں تھا مگر سائنس نے جنات کا انکار بھی نہیں کیا تھا۔ میڈیکل سائنس نے بیماری کے علاج کیلئے جدید طریقے دریافت کئے ہیں مگر روحانی طور سے علاج کو بھی نفسیاتی علاج قرار دیا ۔ بہت سے ناعاقبت اندیش ،کم عقل ، بیوقوف اور پرلے درجے کے متعصب لوگوں نے جنات کا انکار شروع کیا، حالانکہ اگر سائنسی بنیادوں پر کوئی چیز ثابت نہیں ہوتی تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سائنس اس کی منکر ہے۔ اب بھی شاید بہت عرصہ لگے کہ جنات مادی لحاظ سے بھی ثابت ہوں مگر اسٹیفن ہاکنگ نے ایک بند دریچہ کھول دیا ہے۔ بلیک ہول پر جنکے نظریات کو دنیا مانتی ہے تو جنات کا تصور بلیک ہول کے تصور سے بہت قریب تر ہے ۔ عظیم انقلاب آئے گا۔

خادم حسین رضوی نے اربوں کے املاک کو تباہ کیا تو اسکا ذریعہ معاش کیا ہے: جسٹس فائز عیسیٰ

justice-faiz-essa-allama-khadim-hussain-rizvi-shaftaloolyari-gang-war-lashkar-e-jhangvi-imamia-asghar-khan-case-muh-kala-karna

نوشتہ دیوار کے خصوصی ایڈیٹر سید ارشاد علی نقوی نے کہا ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ نے بڑا اچھا کیا ہے کہ ایک قومی مسئلے پر خصوصی توجہ دی ہے۔ ختم نبوت کے مسئلے پر حکمرانوں نے اپنا اعتراف جرم نہ کیا ہوتا تو ملک میں کسی قسم کا کوئی جلاؤ گھیراؤ نہیں ہوسکتا تھا۔ بدقسمتی سے اس جرم میں صرف حکومت ہی نہیں بلکہ پوری قومی قیادت بھی شریک تھی ۔ حکومت کی طرف سے راجہ ظفر الحق کو تحقیقاتی کمیٹی کا چیئر مین بھی بنایا گیا تھا اور راجہ ظفر الحق نے میڈیا پر بتایا کہ بہت ہوشیاری کے ساتھ ختم نبوت کیخلاف یہ سازش کی گئی تھی جس کو دھر لیا۔ جسٹس شوکت صدیقی نے بھی عدالت میں رپورٹ طلب کی تھی لیکن عدالت کوئی خاطر خواہ نتیجہ نکالنے کی پوزیشن میں نہیں لگتی۔ اب یہ خبر کہ علامہ خادم حسین رضوی کو گرفتار کرنیکا عدالت نے حکم دیا ہے۔ واضح کیا جائے کہ عدالتیں یہی شف شف کی رٹ لگائیں گی یا کبھی شفتالو بھی بولیں گی؟۔ پہلے ڈاکٹر فاروق ستار ، عمران خان اور جانے کون کون اشتہاری رہا لیکن عدالتوں نے ان کو گرفتار نہیں کیا۔ عوام کو اب یہ مذاق لگتا ہے کہ اشتہاری چھوٹو گینگ ، لیاری گینگ ، لشکر جھنگوی ،امامیہ والے ہیں یا کھلم کھلا جلسے جلوس کے سیاسی قائدین بھی اسی طرح کے اشتہاری ہوتے ہیں؟۔ جج ٹریفک پولیس کی طرح توہین عدالت کا پرچہ درج دیتی ہیں لیکن کیا سیاسی جماعتوں کے قائدین کو اشتہاری قرار دینا ان کی توہین نہیں ؟۔ وضاحت کی جائے کہ اشتہاری کے الگ الگ اقسام ہیں یا یہ کوئی مذاق؟۔کیا سیاسی جماعتوں کیلئے امیر ترین ہونا بہت ضروری ہے تاکہ عدالتوں کے وکیلوں اور ججوں کے کام آئیں؟ ۔ اس پر تو قانون موجود ہے کہ مخصوص مقدار سے زیادہ الیکشن مہم میں پیسہ خرچ نہیں کیا جاسکتا۔سیاسی قائدین خلاف ورزی کرتے ہیں اور ججوں نے کبھی بھولے سے ان کا نوٹس بھی نہ لیا ۔ اسپیکر ایاز صادق اور علیم خان کے مقابلے میں پچاس پچاس کروڑ سے زیادہ کا خرچہ کیا گیا اور جہانگیر ترین نے ایک ارب تک کا خرچہ کیا، مگرعدالتوں نے کوئی نوٹس نہ لیاغریب سیاست نہیں کرسکتا تو براہ مہربانی آئین کے آرٹیکل کا بھی ضرور حوالہ دیا جائے تاکہ غریب غرباء سیاست میں حصہ لیکر شرمندہ نہ ہوں۔
عمران خان اور طاہر القادری نے کونسے ذرائع سے پیسہ کمایا ہے اور کیا کاروبار کیا ہے جو علامہ خادم حسین رضوی پر تنقید ہورہی ہے؟۔ ایک نواز شریف کے پاس سیاست کی سند ہے تو اس کو ISIنے رقم دی تھی جس کا فیصلہ اصغر خان کیس میں بمشکل 16سال بعد ہماری تیز رفتار عدالتوں نے کیا۔ ماشاء اللہ چشم بددور۔ اس کا بھی تاحال شرمناک عدالتوں نے کوئی نوٹس نہیں لیا ہے۔ افتخار چوہدری عدالت کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بلٹ پروف گاڑی واپس کرنے سے بھی انکاری ہے۔ کیا مسجدوں کے امام اور خطیبوں پر انگشت نمائی اچھی روایت ہے؟۔ مسجد اور خطابت سے تو پھر بھی پیسہ مل جاتا ہے لیکن عوام کے ٹیکس پر جج عوام کو انصاف نہیں دیتے ہیں انکے منہ پر کسی دن ضرور کالک ملی جائے گی۔قرآن میں جھوٹی گواہی پر کہا گیا کہ ’’ اسکا دل گناہگار ہے‘‘۔ عدالت میں جان بوجھ کر غلط فیصلے کرنیوالوں کے چوتڑوں کو داغنے کا قانون بناناہوگا۔ عدلیہ وہ واحد ادارہ ہے جہاں ججوں کا اختلاف بھی ہوتا ہے اور غریب کو بھی داد رسی کیلئے دروازے کھلے ہوتے ہیں مگر بہت بدلنا ہوگا۔

ن لیگ پنجتن پاک ٹبر ہے: نواز شریف، مریم نواز، کلثوم نواز، شہباز شریف اور حمزہ شہباز

hazrat-umar-and-Hadith-Qirtas-panjtan-pak-tabbar-nawaz-sharif-maryam-nawaz-kulsoom-nawaz-shahbaz-sharif-hamza-shahbaz-

چیف جسٹس ثاقب نثار نے یہ کہا ہوگا کہ ’’حضرت عمرؓ جیسے لوگوں کی تلاش ہے‘‘۔ اس تاریخی حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ، جب حضرت نبی کریم ﷺ حدیث قرطاس لکھوانا چاہ رہے تھے تو حضرت عمرؓ نے کہا کہ ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے۔ پھر حضرت عمرؓ کی شہادت کا وقت قریب آیا تو خلافت کیلئے ایک شوریٰ تشکیل دی اور اپنے بیٹے پر پابندی لگائی کہ وہ خلیفہ نہیں بن سکتا۔ شیعہ سمجھتے ہیں کہ اس وصیت میں نبی ﷺ حضرت علیؓ کو نامزد کرنا چاہ رہے تھے۔ ن لیگ کے نزدیک حفظ مراتب کیساتھ پانچ افراد ہیں ۔ اگر سینٹ میں انکی اکثریت ہو تو ان 52افراد کی فہرست بھی اب لوگوں کو بتادیں ۔ سینٹ الیکشن میں کامیاب نہیں ہونا تھا مگر حصہ لیا اور ناکام ہوئے تو پھر ووٹ کو عزت دینے کے بجائے تذلیل کردی

فیصل آباد کی طالبہ عابدہ کا 4 روز اجتماعی زیادتی کے بعد قتل پاکستان کے منہ پر کالک ہے: عتیق گیلانی

Rapists-murderers-of-Faisalabad-university-student-still-at-large-justice-for-abida-ptm-manzoor-pashteen-ispr-general-asif-ghafoor

چیف ایڈیٹر نوشتۂ دیوار عتیق گیلانی نے کہا پنجاب کے دل جڑانوالہ فیصل آباد میں ایک طالبہ عابدہ کو اغوا کرکے 4روز اجتماعی زیادتی کے بعد قتل کرنے کی خبر تمام پاکستانی اداروں عدلیہ ، سول و ملٹری بیروکریسی ، پولیس ، سیاسی حکومتوں کے ذمہ دار افراد کے منہ پر کالک ہے۔ 4روز تک تھانے میں رپورٹ بھی درج نہیں ہوئی۔ طالبات کے احتجاجی کمیپ کو بھی پولیس نے سپوتاژ کرنے کا اقدام اٹھایا ہے۔ منظور پشتین اپنے نوجوان طالبعلم ساتھیوں کے ساتھ پختونوں کا رونا دھونا چھوڑ کر پنجاب کی غریب عوام کی داد رسی کیلئے پہنچ جائیں۔ یہ محض ایک حادثاتی واقعہ نہیں بلکہ پنجاب کے بچے اور بچیاں بدمعاش سیاسی مافیا کی وجہ سے روز روز جنسی تشدد ،بے دردی سے قتل کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اسکاتدارک کرنے کیلئے محمد بن قاسمؒ ، صلاح الدین ایوبیؒ اور محمود غزنویؒ کو قبروں سے اٹھ کر نہیں آنا ہے۔ سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ نے فرمایا کہ ’’جان پر آئے تو مال قربان کردینا ، عزت پر آئے تو پھر جان قربان کردینا اور ایمان پر آئے تو جان مال عزت سب قربان کردینا‘‘۔ پنجاب کے فرقہ وارانہ عناصر اور پختونخواہ کے جن شدت پسند طالبان نے اپنے خون سے اس چمن کو رنگین کردیا تو انکے گمان میں دین ، اسلام اور ایمان کیلئے قربانیاں دی گئیں۔ سینکڑوں سال سے حلالہ کے نام پر لوگ اپنی عزتوں کو ایمان پر قربان کررہے ہیں۔ منظور پشتون تحفظ موومنٹ کے سرگرم اور متحرک کارکن و رہنما خان زمان کاکڑ کا ایک بیان سوشل میڈیا پر دیکھا جس میں وہ پنجابی اور پختون کی جنگ اور تعصبات کیلئے بات کررہے ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کا سب سے گھناؤنا کردار نواز شریف جیسے لوگوں کی پیداوار ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے ٹاؤٹوں نے ہمیشہ عوامی قیادت ابھرنے کے راستے روکے ہیں۔ پنجاب سے چھوٹے صوبوں اور سرائیکی کی نفرت بلاوجہ نہیں ہے۔ فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور ISPRنے حالیہ بیان میں کہا کہ ’’امریکہ کو سپر طاقت بنانے میں ہمارا مثبت کردار ہے‘‘۔ فوجیوں کو سیاست نہیں آتی۔ جن کو فوج کا ٹاؤٹ سمجھا جاتا ہے وہ دوسروں پر امریکہ نواز ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ جب تک ایسے فالتو یا پالتو ٹاؤٹوں کو لگام نہ دی جائے پاک فوج کے اجتماعی ضمیر کو درست سوچنے کا موقع بھی نہیں ملے گا ۔ کراچی میں موبائل فون چھیننے والوں کا قلع قمع ہو یا بلوچستان میں بغاوت کی سرکوبی ہو یا پختونخواہ میں طالبان کی وجہ سے عوام کا جینا دوبھر ہو، ان میں ریاست کو عوام سے بھی شکایت ہوسکتی ہے اور عوام کو ریاست سے بھی شکایت ہوگی لیکن پنجاب کے اندر جو کچھ ہورہا ہے ایسی زیادتی دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ منظر عام پر آرہی ہے۔ ایک سال میں 41بچے اپنے والدین نے بھوک و افلاس اور ٹینشن کی وجہ سے قتل کئے ہیں۔ دورِ جاہلیت سے بھی بدترین حالات دوہرائے جارہے ہیں۔ جب میرے گھر کے مرد و خواتین ، رشتہ دار ، امام مسجد ، گھر کے خادم اور مختلف اقوام سے تعلق رکھنے والے آفریدی ، مروت ، جٹ اور محسود مہمانوں کو بھی شہید کیا گیا تو ریاست و حکومت بھی تماشہ دیکھ رہی تھی اور محسود قوم کے قبائلی عمائدین بھی طالبان کی معافی کیلئے دہشتگردوں کیساتھ آئے تھے۔ مجھے میرے بھائی نے دلاسہ دینے کیلئے کہا کہ ’’اگر ہمارے اس واقعہ کی وجہ سے قوم کو دہشتگردی سے نجات ملتی ہے تو یہ ہمارے لئے سستا سودا ہے‘‘۔ میں نے جواب میں کہا کہ ’’پنجاب میں خواتین کیساتھ جس طرح سے جنسی زیادتیاں ہورہی ہیں ، اصل ظلم وہ ہے اور جب تک ان کو تحفظ نہ ملے ہماری حالت کبھی ٹھیک نہ ہوگی‘‘ ۔ یہ حقیقت ہے کہ جن لوگوں کیساتھ زیادتی ہوتی ہے ان کا جذبہ کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے۔ دنیا بھر میں دہشتگردی کا واحد واقعہ ہمارا تھا جس پر طالبان نے باقاعدہ نہ صرف معافی مانگی بلکہ مجرموں کو شریعت کے مطابق سزا دینے کا اعلان بھی کیا۔ اگرچہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ طالبان نے مجھے نظریاتی طور پرمخالف سمجھ کر نشانہ بنایا اور باقی قتل و غارت انہوں نے نظریات کیلئے نہ کئے، حکیم اللہ محسود اور قاری حسین کی اپنی گاؤں میں کوئی حیثیت نہیں تھی۔ ملک خاندان بہت شریف النفس اور گاؤں کے معتبر شخص تھے۔ جب انکو شہید کیا گیا تو انکے بیٹے نے کہا کہ میں قاتلوں کو پہچان گیا ہوں ، ان کو پکڑ کر باندھ لوں گا اور پوچھوں گا کہ تم نے یہ کیوں کیا؟۔ ملک خاندان کے بیٹے نے گاڑی اسلئے لی کہ کوئی اپنی گاڑی میں لفٹ دینے سے ڈرتا تھا۔ پھر ان کو بھی گھر کے افراد کیساتھ شہید کیا گیا جن میں ایک حافظہ بچی بھی تھی۔ محسود قوم کے اندر غیرت نہیں رہی تھی جبکہ کانیگرم کی برکی قوم اٹھ گئی اور اپنے اغوا کردہ فرد گلشا عالم خان کا طالبان کے مرکزوں میں جاکر پوچھا۔ جب طالبان پورے ملک میں تباہی مچارہے تھے تو ایک مرتبہ میرے من میں بھی بات آئی کہ اپنے گھر کے افراد کے ذریعے ان پر خود کش حملے شروع کروں اور ایک ایسی تحریک اٹھاؤں کہ محسود قوم کے تمام افراد کو جہاں کہیں بھی ملے نشانہ بنا ڈالوں کیونکہ جب وہاں لاشیں جائیں گی تو یہ لوگ خود ہی انکے ٹھکانے ختم کرنے پر مجبور ہو نگے۔ جب دوسروں پر ان کو فرق نہیں پڑتا تو قوت مدافعت کا یہ فطری طریقہ قرآن میں بھی ہے مگر ایک بھائی نے کہا کہ بے گناہ لوگ بھی مارے جائینگے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟۔ میں نے کہا کہ فتنہ ختم کرنے کیلئے لازم ہے کہ ان کو احساس ہوجائے ، گناہگار جہنم میں اور بیگناہ جنت میں چلے جائیں گے۔ دوسرے بھائی نے کہا کہ ’’ایک بے گناہ بھی مارا جائے تو میں اپنی آخرت خراب نہیں کرسکتا‘‘۔ پھر میں نے سوچا کہ نقاب پوشوں کو کون ،کہاں اور کیسے تلاش کیا جاسکتا ہے؟۔ ایک موقع پر جب طالبان نے کہا کہ تمام مجرم افراد کو ہم ماردینگے تو بھائی نے کہا کہ ہم معاف کردینگے اسلئے کہ اتنی خون ریزی ہماری وجہ سے ہو تو لوگ ہم سے بھی نفرت کرینگے۔ ایک موقع ایسا بھی آیا کہ ایک بھائی نے کہا کہ اب طالبان کیخلاف جہاد بنتا ہے تو میں نے عرض کیا کہ جب ذاتی دشمنی شامل ہو تو یہ جہاد نہیں بنتا۔ جس طرح حضرت علیؓ نے کافر کو چھوڑ دیا تھا۔
یہ سب باتیں عرض کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ پختون تحفظ موومنٹ کے جوان بھڑکیاں مارنے کے بجائے اصل کام کی طرف توجہ دیں۔ مسجد کا امام اس وقت مضبوط ہوتا ہے جب اسکے پاس ایمان کی دلیل ہوتی ہے۔ حلالہ کے حوالے سے ہم نے علمی بنیادوں پر تصفیہ کردیا کہ ’’اب بے غیرتی کی ضرورت نہیں‘‘۔پختون ، پنجابی ، سندھی، بلوچ اور مہاجر علماء کرام کے ساتھ ملکر شعور کی تحریک چلائیں۔ جبری جنسی زیادتی کے خلاف اور مروجہ ریاستی و حکومتی ڈھانچہ بدلنے کی تحریک چلائیں۔ جب قوم کے سامنے خواتین اور عوام کے حقوق کی بات آئے تو سب سے پہلے مدارس ، جامعات ،اسکول کالج اور یونیورسٹیوں کے طلبہ ملکر اپنا کردار ادا کریں۔ گورنمنٹ کے ملازم کی ریٹائرمنٹ 60سال پر ہوجاتی ہے ۔ قومی اسمبلی ، سینٹ ، وزیر اعظم، صدر، صوبائی اسمبلی وزیر اعلیٰ ، گورنر اور یونین کونسل و ضلع کونسل و میئر وغیرہ کیلئے بھی زیادہ سے زیادہ 60سال کی عمر مقرر کی جائے۔ زیادہ سے زیادہ 63سال کی عمر تک سرپرستی کرنیوالے عہدوں پر فائز ہونے کی گنجائش ہو۔ قرآن میں بھی ایک حد سے زیادہ عمر بڑھنے کے بعد انسان کی سمجھ بوجھ ختم ہونے کی نشاندہی ہے لیکن ہمارے ہاں حکمرانوں میں اقتدار کی ہوس کبھی پوری نہیں ہوتی۔ پاکستان میں عزتوں اور جانوں کے تحفظ کیساتھ ساتھ جو لوگ بھی ملک کو لوٹ کر لے گئے ہیں اور قرضوں کو عوام اپنے ٹیکسوں سے چکا رہے ہیں ان کی لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانا بھی ضروری ہے۔ میڈیا پر جرائم کی تشہیر ہوتی ہے اور سزاؤں کا کوئی رواج نہیں ہے جس کی وجہ سے روز بروز جرائم بڑھ رہے ہیں۔ فرسودہ عدالتی نظام اور بے ضمیر ججوں کو حقیقت نظر نہیں آتی.

وزیر اعظم اور چیف جسٹس ناجائز دو گھنٹے خلوت صحیحہ پر مستعفی ہوجائیں: فیروز چھیپا

supreme-court-nawaz-sharif-panama-leaks-imran-khan-dawn-leaks-saqib-nisar-memo-gate-hussain-haqqani-khalwat-e-sahiha-haq-mehr-

ڈائریکٹر فائنانس نوشتۂ دیوار محمد فیروز چھیپا نے کہا ہے کہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے میمو گیٹ پر حسین حقانی کو امریکہ سے طلب کرلیا اور کہا کہ ’’سپریم کورٹ کی عزت کا مسئلہ ہے ‘‘ جبکہ نواز شریف نے کہا کہ ’’میمو گیٹ میں پیش ہونا میری غلطی تھی‘‘۔ نواز شریف کا کھلے عام میمو گیٹ میں پیش ہونا اتنی بڑی غلطی نہیں تھی جتنی وزیر اعظم عباسی کا چیف جسٹس سے ملنا ہے۔ اس ملاقات کی حیثیت خلوت صحیحہ کی تھی جس کا فقہی مطلب یہ ہے کہ نکاح کے بعد اگر شوہر سے بیوی ایسی خلوت میں ملے کہ سب کچھ یہ آپس میں کرسکیں اس پر خلوت صحیحہ کا اطلاق ہوتا ہے۔ نکاح کے بعد طلاق دی جائے اور خلوت صحیحہ نہ ہوئی ہو تو قرآن میں آدھا حق مہر اور عورت پر عدت فرض نہیں ہوتی۔ خلوت صحیحہ کے بعد عورت پر عدت شوہر پر پورا حق مہر فرض ہوتا ہے۔ یہ فقہ حنفی کا مسئلہ ہے جس پر زیادہ ترلوگ پاکستان میں عمل پیرا ہیں، اس خلوت صحیحہ سے اختلاف بھی ہوسکتا ہے لیکن چیف جسٹس اور وزیر اعظم کی خفیہ ملاقات کا کسی صورت میں کوئی جواز نہیں تھا۔ وزیر اعظم کھلے عام میڈیا پر نواز شریف کے کیسوں کے حوالے سے چیف جسٹس اور عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بناتا رہا اور کسی چیف جسٹس ، جج ، مجسٹریٹ تو دور کی بات ہے گاؤں کے پنچایت کے کسی رکن و سربراہ کو بھی اس طرح سے متاثرہ فریق سے خلوت صحیحہ میں ملنے کے بعد اس کی ثالثی پر اعتماد نہیں رہ سکتا۔ چیف جسٹس نا اہل نواز شریف کے وکیل رہ چکے ہیں۔ عمران خان کو گھسیٹنے کے بعد ریلیف دینا اور جہانگیر ترین کو سزا دینا ایک منصوبہ بندی لگتی تھی۔ پھر اپنے کیس چھوڑ کر سندھ حکومت کے معاملات میں مداخلت اور پھر پنجاب کے ہسپتالوں کا رُخ کرنا عدالت نہیں سیاست لگتی ہے جو اپنے سابقہ کلائنٹ نواز شریف کو بچانے اور حقائق سے توجہ ہٹانے کی بظاہر منصوبہ بندی لگتی ہے۔ حدیبیہ پیپر ملز میں ریلیف کے بعد چیف جسٹس کے ان ریمارکس کا نتیجہ بھی یہی نکلتا ہے کہ جو آپ نے نواز شریف کے حوالے سے میڈیا پر کھلے عام ذکر کئے کہ ہم تمہاری وجہ سے جن مشکلات کا سامنا کررہے ہیں وہ ہمیں پتہ لیکن یہ مشکلات وہی لگتے ہیں جو چیف جسٹس ثاقب نثار بابا رحمت بن کر اپنے سابقہ کلائنٹ کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر برداشت کررہے ہیں، وزیر اعظم سے اس خفیہ ملاقات کے بعد چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں تو یہ ملک و قوم کیلئے اچھی مثال قائم ہوگی۔ وزیر اعظم کیلئے بھی استعفیٰ دینا زیادہ مناسب اسلئے ہے کہ جسکے کہنے پر ملنے گیا تھا وہ میمو گیٹ پر بھی اپنی غلطی کا اظہار کررہا ہے۔ عمران خان کی طرف سے جب چوہدری افتخار سے معافی مانگی گئی تھی پھر انکار کیا تھا تو اسکے وکیل حامد خان نے غیرت کا مظاہرہ کرکے کہا تھا کہ آئندہ عمران خان کا کیس نہیں لڑوں گا۔ اگروکیل سے زیادہ وزیر اعظم میں عزت نہ ہو تو یہ تاریخ کا سب سے بڑا الیمہ ہے۔ عمران خان کو تو بابر اعوان مل گیا جو آصف زرداری کے تقدس کی قسمیں کھاتا تھا۔ اب وہ عمران خان کی صفائی پیش کریگا۔

ہم بھی فرشتے نہیں انسانوں جیسے انسان ہیں مگر

manzai-behlol-zai-mehsud-shaman-khail-neuton-einstein-stephen-hawking-shakir-shuja-abadi-president-of-pakistan-

ایک دن میں اپنی کار میں اکیلا ٹانک جارہا تھا۔ راستے میں ایک بوڑھا محسود پیدل جارہا تھا تو کسی واقف کار غالباً قاری نور اللہ محسود نے اس کو بھی اٹھانے کا کہہ دیا۔ میں نے پوچھا کہ پیدل کیوں جارہے تھے؟ ، بزرگ شخص نے جواب دیا کہ کرایہ نہیں تھا۔ مجھے دکھ ہوا اور جیب میں پڑے ایک دو ہزار روپے انکو دئیے تو وہ رونے لگا ،طالبان اور فوجیوں کو بد دعائیں دینے لگا کہ ہم غریبوں کو گھروں سے بھگادیا گیا ہے ۔ اس نے بتایا کہ ٹانک سے وہ پہلے کسٹم گیٹ تک جو کئی کلومیٹر کا فاصلہ ہے پیدل گیا تاکہ وہاں اپنے واقف کاروں سے راشن لے لیکن وہاں وہ نہیں مل سکے تھے ۔ یہ چشم دید واقعہ ہے اور بچوں ، خواتین اور بزرگوں کی ان گنت کہانیاں ہوں گی جن کے تصور سے بھی دل لرز جاتا ہے۔ میرے اخبار کا تمام ریکارڈ دیکھا جائے جس میں ایک ہی بات کی تلقین ہوتی تھی کہ طالبان اور فوج ایسا ماحول نہ بنائیں جس سے آپس کا نقصان ہو اور لوگ بھی دربدر ہوں۔
پچھلے شمارے میں میرا مقصد یہ ہرگز نہیں تھا کہ منزئی اور بہلول زئی قبیلے ہی طالبان تھے اور شمن خیل صرف سیاسی ہیں۔ میرا مقصد منظور پشتون کیخلاف اس سازش کو ناکام بنانا تھا کہ منظور پشتون کو شمن خیل ہونے کی وجہ سے مسترد کیا جائے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ طالبان میں میرے دو دوست مولانا محمد امیر شمن خیل اور مولانا عبد اللہ نظر خیل تھے۔ مولانا محمد امیر افغانستان میں باغیوں کے ساتھ ہے اور مولانا عبد اللہ آج کل کوٹکئی میں سرنڈر طالبان رہنما بلکہ قائد ہے۔ دونوں پر مجھے یہ شبہ نہیں کہ وہ امریکہ ، بھارت اور پاکستان کے ہاتھوں بک سکتے ہیں بلکہ اپنے ضمیر کے مطابق جو درست سمجھتے ہیں وہی کررہے ہیں۔ دونوں طرح کی عوام کو درست ماحول فراہم کیا جائے تو اسلام اور ملک و قوم کیلئے بہترین کردار بھی ادا کرسکتے ہیں۔ پاک فوج کے سپاہیوں اور افسروں کو جو حکم ملتا ہے انہوں نے اس پر عمل کرنا ہوتا ہے، بعض اوقات بدلتی ہوئی پالیسیوں کے نتیجے میں اپنے بھی بدظن ہوجاتے ہیں۔ جب شروع میں تعلیم یافتہ بیوروکریٹ ، سیاستدان اور صحافی کھل کر طالبان کی حمایت کرتے تھے تو فوج کے اندر بھی بڑے پیمانے پر ایسے عناصر کا ہونا بعید از قیاس نہیں تھا جو طالبان کے مشن کو درست سمجھ کر تائید کرتے ہوں۔
جب ہمارے ساتھ واقعہ ہوا ، طالبان نے 13افراد شہید کردئیے تو مجھے اس کی خبر ہوئی، میرا پہلا رد عمل یہ تھا کہ اب مجھے زندہ رہنے کا حق نہیں لیکن اطلاع دینے والے نے منت کی کہ نہیں آپ نے نہیں نکلنا۔ پھر دوسرے نے آکر مزید حوصلہ دیا کہ جو باقی بچے ہیں وہ بھی آپ پر قربان ہوجائیں تو کوئی مسئلہ نہیں۔ یہ صورتحال ملاحظہ کرنے کے بعد جب میں نے کسی کو پہلی مرتبہ انہی لمحات میں خبر سنائی اور ساتھ میں یہ بھی کہہ دیا کہ اب خلافت قائم ہوکر رہے گی تو مجھے کہا گیا کہ اب اس خلافت کا کیا فائدہ ہے؟۔ ماحول سے بہت کچھ بنتا اور بگڑتا ہے ۔ معاملہ کو مختلف پہلوؤں سے دیکھا جائے تو تضادات دور ہوجاتے ہیں۔ نیوٹن اور آئن اسٹائن کے نظریات میں تضادات تھے لیکن 14مارچ کو انتقال کرجانے والے سب سے بڑے سائنسی دماغ اسٹیفن ہاکنگ نے ان تضادات کو دور کرنے کا نیا نظریہ پیش کیا۔ مفلوج اسٹیفن ہاکنگ کیلئے کمپیوٹر کے ذریعے سے ایسے آلات لگائے گئے تھے جس سے وہ اپنا پیغام دنیا تک پہنچاتے تھے۔ اسٹیفن نے فلسطین کے مسلمانوں اور عراق کے مسلمانوں پر مظالم کے خلاف بھی احتجاج جاری رکھا۔
پاکستان میں ریاست کے فوائد غریب عوام تک پہنچانے کیلئے منظور پشتون کو وزیر اعظم اور ملک کے معروف شاعر شاکر شجا ع آبادی کو صدر مملکت کے عہدے پر بٹھایا جائے۔ شاکر شجاع آبادی کے خیالات کو عوام تک پہنچانے کیلئے اسٹیفن کے آلات کا اہتمام کیا جائے تو اس قوم کی تقدیر بھی بدلے گی۔ صدر مملکت کے مفلوج عہدے کو ایک مفلوج شاعر کے ذریعے سے بہت فعال بنایا جاسکتا ہے۔ محسود قبائل کے سب سے بڑے گھرانے کا سیاسی جانشین ہاشم خان عبدالائی محسود ہیں ، اگر منظور پشتون کو قومی اسمبلی کا ممبر اور ہاشم خان کو سینیٹر بنایا جائے تو محسود قوم بڑی خوشی سے اس جمہوری انقلاب کیلئے اٹھ کھڑی ہوگی۔ اس طرح سے وزیر اور داوڑ قبائل کے علاوہ بیٹنی اور سلمان خیل کے مستحق افراد کو زبردست نمائندگی دی جائے اور تمام پختونوں میں قیادت کے جھگڑوں کے بغیر ہم آہنگی پیدا کی جائے تو خون خرابے کے بغیر ایک پرامن انقلاب لایا جاسکتا ہے۔ جن لوگوں کو سیاست ٹھیکے پر دیدی گئی تھی انہوں نے قوم کیلئے کچھ نہیں کیا۔ اسطرح سے پنجابی ، بلوچ ، سندھی ،مہاجر ، کشمیری اور سرائیکی علاقوں اور عوام میں ایک نیا انقلاب آسکتا ہے جو ریاستی اداروں میں میرٹ کی بنیاد اور عوام تک ریاست کے فوائد پہنچانے کا اچھاذریعہ بن جائے۔ طبقاتی تعصب قوم کیلئے ہرسطح پر تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔
منظور پشتون اور اسکے ساتھی اپنے لب و لہجے میں درشتی لانے کے بجائے اپنا مشن جاری رکھیں۔ اسلام آباد دھرنے کے بعد منظور پشتون نے فوج کی طرف سے مطالبات پر عمل کرنے کا ایک ویڈیو کلپ میں ذکر کیا ہے۔ جب بڑے جلسے ہوں تو بھی ان فوائد کو عوام کے سامنے رکھیں جس سے اعتماد کی فضا بڑھے گی۔ اس قوم نے جنت کے ٹکٹوں کے عوض بھی فوج کے آگے کھڑے ہونے کے بجائے اپنی دُم گھسیڑ رکھی تھی اور اگر پھر اس ڈگر پر ان کو لایا گیا تو یہ اپنے باشعور نوجوان طبقے کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ بلوچوں نے قومی حیثیت سے جس طرح کی قربانی دی اس کا پٹھان تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں لیکن نتیجہ میں اپنی قوم کو تباہ کیا۔ ہاں یہ بات اپنی جگہ پر ہے کہ فوج سے کوئی شکایات ہوں تو برملا اس کا اظہار کیا جائے۔ ایک فائدہ اس کا یہ ہوگا کہ فوج کو پتہ چلے گا کہ کسی کو مرغا بنا کر اس میں انگلیاں ڈالنے سے اس کو راحت نہیں ملتی۔ اگر اظہار نہیں کرے گا تو کیسے پتہ چلے گا کہ اس کو تکلیف ہوئی ہے۔ پھر یہ ظلم و ستم اور جبر وبے عزتی کا سلسلہ جاری رہے گا۔ فوج کا سپہ سالار حکم کرے گا تو فوج کے سپاہی دوسروں کو مرغا بنانے کے بجائے خود بھی دوسروں کو عزت دینے کیلئے مرغے بننے سے نہیں کترائیں گے۔ شعور کی لڑائی کو بے شعوری سے لڑنے کے بعد دنیا و آخرت میں کبھی سرخروئی نہیں ملتی۔
اسلام کے درست تصورات سے ایک ایسا پر امن انقلاب آسکتا ہے جس سے زمین و آسمان والے دونوں کے دونوں خوش ہونگے۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کی تعلیمات کے تقاضے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کیلئے بڑی بنیاد بن سکتے ہیں۔ میرے وہ اساتذہ جنہوں نے مجھے عربی ، قرآن و سنت ، فقہ و حدیث اور اُصول فقہ کی تعلیم دی ہے وہ مجھے کان سے پکڑ کر سیدھی راہ پر لانے کے مجاز ہیں لیکن اگر میری بات درست ہو تو یہ حضرت مولانا یوسف بنوریؒ کے تقوے کا کمال ہے۔ عتیق گیلانی

منظور پشتون ،خوگرِ حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لو!

allama-iqbal-budh-mat-waziristan-communist-arif-khan-mehsud-tank-di-khan-kidnapping-gulsha-alam-barki-in-waziristan-pti-chaudhry-afzal-haq-book-husn-e-lazawal-

علامہ اقبال ؒ نے شکوہ میں بندے کی طرف سے شکوہ لکھتے ہوئے یہ جملہ لکھ دیا تھا اور پھر جوابِ شکوہ بھی لکھا تھامگر عام طور سے لوگ اس کو شکوہ، جوابِ شکوہ کے بجائے پہلے تعریف اور پھر خوب تنقید کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ میرا مقصد تنقید کرنا بھی نہیں ہے۔ البتہ جب انسان اللہ کے سامنے سجدہ کرتا ہے تو اپنی چوتڑوں کو آسمان کی طرف اٹھالیتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ دوسری قوموں کے نزدیک یہ بڑی بدتمیزی بھی ہو لیکن عبادات کا منہاج سب کا اپنا اپنا ہے۔ میں جرمنی میں کسی گرجا میں گیا تاکہ ان کے طریقۂ تعلیم وتربیت اور عبادت کو دیکھ لوں۔ وہاں مجھے ٹوپی کو اتارنے کا کہا گیا اور یہ شاید ان کے بے ادبی ہو۔ ہمارے ہاں ننگے سر کو باز لوگ ادب کے خلاف تصور کرتے ہیں۔ حج وعمرے میں احرام کی حالت میں بھی سر ننگا ہوتا ہے ۔ چین میں گیا توثناخوانِ تقدیس مشرق کے حامل بدھ مت مذہب کے افراد کو قبر یا قبر نما علامت پر سجدہ ریز ہوتے دیکھا۔ ہزار سال قبل ایک عربی عالم ابوالعلاء معریٰ گزرے ہیں جس نے اعلیٰ درجے کی صلاحیت پانے کے بعد ایک مایوسی کی زندگی کا آغاز کیا ۔ تمام مذاہب کو بشمول اسلام کے تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کے نام پر علامہ اقبال نے جو اشعار لکھے ہیں اس میں ’’ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات‘‘ کا ترانہ ہے۔ ابولعلاء معریٰ نے لکھا ہے کہ ’’ تمام قومیں ایک طرح کی ہیں ۔ یہود کہتے ہیں کہ خون بہانے سے ہماری مغفرت ہوگی۔ نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہمارا خدا مظلوم ہے اور مسلمان دور دور سے سفر کرکے پتھر مارنے اور چومنے کیلئے آتے ہیں‘‘۔ الحاد کی بنیاد بھی اسی شخص نے ہزار سال قبل رکھی تھی۔وہ کہتا تھا کہ ’’ انسان حضرت ابن عباسؓ کی ایک روایت کے مطابق نسیان سے ہے جس کا معنیٰ بھولنا ہے۔ حضرت آدمؑ کو جس درخت سے منع کیا تھا ، وہ اس حکم کو بھول گئے اور پھر جب زمین پر اتارے گئے تو جنت کی زبان عربی بھی بھول گئے۔ پھر ایک دور کے بعد زمین میں پھر سے یہ زبان وجود میں آگئی ہے‘‘۔
وزیرستان کے لوگ بہت آزاد منش تھے۔ زام پبلک سکول کے معروف ٹیچر عارف خان محسود نے وزیرستان پر باقاعدہ کتابیں لکھی ہیں۔ ایک زمانہ میں آپ پکے کیمونسٹ تھے۔ وزیرستان کے مرکز میں جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ میں ہاتھ اٹھا رہا ہوں اگر اللہ ہے تو میرے ہاتھ کو نیچے کرکے دکھادے، جب اللہ کا چہرہ ، اس کی ناک ، کان ، ہاتھ پیر اور کچھ بھی نہیں تو یہ ایک بوتل ہے‘‘۔ اس گستاخانہ تقریر پر لوگوں کے ہاتھ اپنے کانوں تک گئے مگر عارف خان محسود کو کسی نے گریبان سے پکڑنے کی جرأت نہیں کی، یورپ وامریکہ میں بھی آزادی کا یہ تصور نہیں تھا جو وزیرستان میں تھا، پھر عارف خان کو بعد میں فالج کا اٹیک ہوا جسکے بعد خودہی سچی توبہ کرکے سچے اور پکے مسلمان بن گئے۔ میرے خلاف کئی انواع واقسام کے غلط اور بے بنیاد پروپیگنڈے کئے گئے لیکن کسی نے میرا راستہ نہیں روکا۔ پاکستان بھر کے علماء اور ٹانک کے سارے اکابر علماء میرے حامی تھے لیکن جب طالبان نے زور پکڑا تو ایک سے ایک شریف انسان کوشہید کردیا۔
مجھے میرے ایک بھائی نے کہا کہ’’ آپ جرأت کرلو اور ان دہشتگردوں کے خلاف کھڑے ہوجاؤ‘‘ میں نے کہا کہ مجھے پہلے اپنے بھائیوں کیخلاف جہاد کرنا ہوگا جو طالبان کے سب سے بڑے حامی ہیں۔ جب میرے تعلیم یافتہ بھائی بھی طالبان کی حمایت کررہے ہیں تو زانگڑہ کے وہ محسود جنہوں نے سڑک تک نہ دیکھی ہو اس بین الاقوامی سازش کو کیا سمجھ سکتے ہیں؟۔ انہوں نے میری بات کو درست قرار دیدیا۔ ہمارے گھر میں 13 افراد کی شہادت سے پہلے مجھ پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔ میرے بھائی اور عزیز وپڑوسی جان پر کھیل کر مجھ تک پہنچ گئے اورمجھے بحفاظت گھر تک پہنچادیا۔ اسکے بعد سے جب تک واقعہ نہیں ہوا تو ہم لوگوں نے خود ہی طالبان کو اپنے ہاں رکھا ہوا تھا۔ ٹانک شہر میں راکٹ لانچروں و میزائلوں کے حملے ہورہے تھے تو طالبان ہمارے ہاں پراٹھے کھاتے تھے۔ حادثہ میری وجہ سے ہوا یا یہ عوام کی بددعاؤں کا نتیجہ تھا ؟۔ اس کا جواب کسی موقع پر ملے گا۔
تحریک انصاف کے سرگرم کارکن اور آئی ایس آئی کے ایک موجودہ بریگیڈئر کے بھائی گلشا عالم خان برکی کو راستے میں دن دہاڑے طالبان نے اغوا کیا جس کا آج تک کوئی اتا پتہ نہیں چل سکا۔ کانیگرم کی برکی قوم نے جلوس کی شکل میں جاکر بیت اللہ محسود و غیرہ سے پوچھا لیکن انہوں نے اپنی لا علمی اور لا تعلقی کا اظہار کیا۔ کوٹکئی جنوبی وزیرستان کے ملک خاندان محسود اور وانہ کے مرزا عالم وزیر کو شہید کردیا گیا تو بہادر محسودوں نے دُم گھسیڑی ہوئی تھی۔ شکئی کے قاری حسن وزیر کو شہید کیا گیا تو ان کی مسجد کی بیٹھک میں ایک شہید صحافی غالباً میر نواب کے چچا کا کہنا تھا کہ وزیر تو شروع سے بے غیرت ہیں مگر محسود جو گالی پر قتل کردیتے تھے وہ بھی سب کچھ دیکھتے ہوئے اپنی آنکھوں کو بند کررہے ہیں۔ انسان غلطی کا پتلا ہے اور پاک ذات صرف رب کی ہے جونہ کھاتا ہے اور نہ پیشاب اور پوٹی کرتا ہے۔ اس کو سجدہ کرنے کا فائدہ اس وقت ہے جب انسان صدق دل سے صرف اسی ہی کو سبحان ربی الاعلیٰ اور سبحان ربی العظیم پکارے اور خود کو نہ سمجھے۔
انسان کے پاس دکھانے کیلئے چہرہ ہے جس سے وہ دیکھ اور بول سکتا ہے۔ اور اس کے پاس چوتڑ بھی ہے جس کو جائے ضرورت میں چھپا کر کھولتا ہے ۔ فوج ہو یا پختون قوم سب نے اپنی اپنی جگہ بڑی بڑی غلطیاں کی ہیں اور اگر صرف اور صرف دوسرے کے عیوب کو آشکارا کیا گیا تو یہ سلسلہ کبھی ختم نہ ہوگا۔ وہ لوگ بھی ہیں جو اس بات سے ڈر رہے ہیں کہ نقیب اللہ محسود اور راؤ انوار کا قصہ کوئی ڈرامہ نہ ہو جس کو بڑے پیمانے پر اچھالا گیا ۔ ڈان نیوز کے وسعت اللہ خان نے اپنے پروگرام میں ڈان اخبار کی رپورٹ بتائی کہ جہاں نقیب دکان خریدنا چاہتا تھا اس کی مالیت 3 کروڑ تھی ۔ نقیب 90لاکھ دے چکا تھا اور بقیہ رقم کیلئے اس پر اتنا تشدد کیا گیا کہ ورثا کو دکھانے کے لائق نہیں رہا تھا تو اس کو پولیس مقابلے کے نام پر قتل کیا گیا۔ یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ طالبان لڑکوں کو بھی بد فعلی کیلئے اپنے پاس رکھتے تھے۔ جن غریبوں کے پاس صبح شام کا کھانا نہ ہوتا تھا ان کے پاس جو اتنی بڑی دولت آئی تھی جس کا خمیازہ پاکستان بھر کے لوگوں کے علاوہ خود پختون قوم کو بھی خود کش ، بھتہ خوری، چوری اور سینہ زوری کی صورت میں بھگتنا پڑتا تھا۔
سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے ساتھی چوہدری افضل حق ؒ نے ’’حسن لا زوال‘‘ کے عنوان سے ایک قصہ لکھا ہے جس میں ایک کردار کو بھیانک پیش کیا جاتا ہے تو لوگوں کو اس کی شکل بھی منحوس لگتی ہے اور پھر منظر بدلتا ہے اور اس کو معصوم بنا کر پیش کیا گیا تو لوگوں کو وہ خاتون فرشتہ صفت دکھائی دینے لگی۔ اللہ خیر کرے۔